Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

اکتوبر 2023

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدینہ
جلد : ٣١ ربیع الاوّل ١٤٤٥ھ / اکتوبر ٢٠٢٣ء شمارہ : ١٠
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ....................... سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیلِ زر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
جازکیش نمبر : 923044587751+
جامعہ مدنيہ جديد : 924235399051+
خانقاہِ حامديہ : 924235399052+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923354249302+
موبائل : 923234250027+
دارُالافتاء : 923214790560+
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
حضراتِ نقباء کا تعارف اور مختصر حالات حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ١١
میرے حضرت مدنی قسط : ٣ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٢٠
تربیت ِ اولاد قسط : ٧ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٢٨
رحمن کے خاص بندے قسط : ١٨ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣٢
سبق آموز تاریخی حقائق قسط : ٢ حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ٣٧
امیر پنجاب کا ختم نبوة کانفرنس میں خطاب حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ٤٣
آب ِزم زم ..... فضائل اور برکات قسط : ٢ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب ٤٦
حضرت مولانا ملا محمود دیوبندی مولانا محمد معاذ صاحب لاہوری ٥٤
امیر پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦١
وفیات ٦٣
حرف آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
قرآنِ کریم کی ان آیات کی تلاوت فرمائیں :
( وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکًا وَّنحْشُرُُہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اَعْمٰی قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا۔ قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَھَا وَ کَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی ۔ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ وَ لَمْ یُؤْمِنْ بِاٰیٰتِ رَبِّہ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰی ۔ اَفَلَمْ یَھْدِ لَھُمْ کَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰکِنِھِمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّھٰی ) ( سُورہ طٰہٰ : ١٢٤ تا ١٢٨ )
ان کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں :
''اور جس نے منہ پھیرا میری یاد سے اُس کو سامنا ہوگا تنگ (دستی و) معیشت کا اور قیامت کے روز اُس کو اَندھا اُٹھائیں گے وہ کہے گا اے رب تو نے مجھے کیوں اُٹھایا اَندھا اور میں (اچھا بھلا) دیکھنے والا تھا ! !
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اسی طرح میری آیتیں تجھ کو پہنچی تھیں تو نے اُن کو بھلا دیا (آنکھیں کان ہونے کے باوجود تو نے ان سے آنکھیں اور کان بند کر لیے) اسی طرح آج تو بھلا دیا گیا (دنیا میں تو اَندھا بنا رہا آج ہم نے تجھے اَندھا بنادیا) اور اسی طرح ہم بدلہ دیں گے اُس کو جو حد سے نکلا اور یقین نہ لایا اپنے رب کی باتوں پر اور آخرت کا عذاب سخت اور باقی رہنے والا ہے ! !
تو کیا اِن (مکہ کے نافرمانوں ) کو سمجھ نہ آئی کہ کتنی تباہ کر ڈالیں ہم نے اِن سے پہلے قومیں (جو اِن کے ارد گرد کے شہروں میں بس رہی تھیں ) یہ (اہلِ مکہ) پھرتے ہیں ان مقامات پر سے (آتے جاتے) ان میں خوب نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کو''
یہ آیتیں اس دور میں اگرچہ کفار ومشرکین کے لیے نازل ہوئی تھیں مگر فی زمانہ مسلمانوں کی بڑی تعداد اپنے دین ومذہب سے غافل ہی نہیں بلکہ بیزار ہوتی چلی جارہی ہے ! عوام الناس میں غربت اور جہالت جبکہ اَشرافیہ میں دولت کی مستی اور جہالت اس کی بڑی وجوہات ہیں ! جب ان اُمراء اور غرباء کی ذاتی خواہشات اور مذہبی تعلیمات ایک دوسرے کے مد مقابل آتی ہیں تو دینی تعلیمات کو اِس طرح نظرانداز کردیتے ہیں جیسے بد دین وکفار کرتے ہیں والعیاذ باللّٰہ !
اپنے دین و مذہب کے لیے ''نابینا'' اور خواہشات کے لیے مکمل ''بینا'' ہوتے ہیں اس اعتبار سے مذکورہ بالا آیت جس طرح آخرت میں کفار کے برے انجام کی منظر کشی کر رہی ہیں یہی صورت ِ حال بدعمل مسلمانوں اور اُن کے اندر عملی منافقین کو بھی پیش آسکتی ہے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو خواہشات ِ نفس وشیطان کی پیروی سے بچاکر حسنِ خاتمہ نصیب فرمائے، آمین !
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
استغفار کا تعلق دل سے ہے ! ہر کوئی اللہ کا محتاج ہے !
انبیائِ کرام علیہم الصلٰوة و السلام بھی استغفار کرتے تھے !
( درسِ حدیث نمبر٥٨/١٦٢ ١٢ شعبان المعظم١٤٠٥ھ/٣ مئی ١٩٨٥ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ہمیں نیکیوں کے راستے بتلائے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے طریقے بتلائے ! گناہوں کی معافی کن الفاظ سے ہو اور کون سے کلمات کہے جائیں گناہ کی معافی کے لیے وہ کلمات بھی تلقین فرمائے ! یہ جو شعبان کی ١٤، ١٥ کی درمیانی شب ہے اوراسی طرح اوراوقات ہیں وہ اوقات بتلائے کہ یہ وقت ہے ! ایسے ہی مقامات بتلائے کہ فلاں فلاں مقامات ایسے ہیں جہاں دُعا قبول ہوتی ہے ! !
سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے استغفار کی فضیلت میں ارشاد فرمایا کہ وَاللّٰہِ انِّیْ لَاَسْتَغْفِرُاللّٰہَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً ١ خدا کی قسم میں اللہ تعالیٰ سے استغفار اورتوبہ دن میں ستر سے بھی زیادہ مرتبہ کرتا ہوں ! خود اپنا عمل ارشاد فرمایا ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٢٣
استغفار کا مطلب :
اس میں مجھے ایک بات کا خیال آتا ہے کہ استغفار کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بندہ یہ چاہے کہ وہ ڈھانپ لے ! تو اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ کا مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے میں چاہتا ہوں کہ وہ ڈھانپ لے ، اب گناہگار آدمی ہے تو اُس کی طلب یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف فرمادے ! گناہوں کا پردہ بھی رکھے دُنیا میں بھی اورآخرت میں بھی ! اورمغفرت کے معنی بھی یہی ہیں کہ ڈھانپ لینا یا بخشش فرمادینا ! کہا جاتا ہے ''خدا اُن کی مغفرت فرمائے '' مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ اُن کومعاف کرے اور اُن کو رحمت میں ڈھانپے ! !
نبی علیہ السلام کی اِستغفار کا مطلب :
توآقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم تو معصوم تھے، آپ سے تو کوئی گناہ نہیں ہوا ! گناہوں سے اللہ نے بچائے رکھا تھا ! توآپ کے استغفار فرمانے کا مطلب کیا ہے ؟ آپ کے استغفار فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ تلقین کرنی ہوئی، اُمت کو سکھانا ہوا کہ تم خدا کی طرف رجوع کرتے رہو، خدا سے اُس کی رحمت طلب کرتے رہو، معافی طلب کرتے رہو، یہ چاہتے رہو کہ وہ تمہیں اپنی رحمت میں ڈھانپے رکھے اوردُنیا میں بھی اس سے فائدہ ہے اور آخرت میں تو ہے ہی ! !
رحمت کے اَثرات :
تو جب اللہ تعالیٰ رحمت کی نظر کسی پر فرمالیتے ہیں تو پھر اُس کو آگے کو نیکی ہی کی توفیق ہوتی ہے ! برائی سے وہ بچا رہتا ہے ! یہ اللہ کی طرف سے ایسا انتظام ہوجاتا ہے اُس کے لیے کہ نیکی کی قوت بڑھا دی جاتی ہے ، برائی کی قوت مغلوب کردی جاتی ہے ! تو سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام جو استغفار فرماتے تھے تو اُس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ آپ گویا یہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں ڈھانپے رکھے ! اوریہ طلب سارے انبیاء کرام علیہم الصلٰوة والسلام کرتے تھے ! اللہ سے مستغنی ہونے کا کسی نے بھی اظہار نہیں کیا ! !
ایک نبی کا قصہ :
حضرت ایوب علیہ الصلوٰة والسلام جب بیماری سے شفایاب ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی تمام چیزیں ٹھیک کردیں ! اُن کی زمین کی پیداوار بھی ٹھیک ہو گئی ! آمدنی بھی ٹھیک ہو گئی ! صحت بھی ٹھیک ہو گئی ! اورجب وہ ایک دفعہ غسل فرمارہے تھے تو ٹڈیاں آکر گریں سونے کی ! وہ اکٹھی کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَلَمْ اَکُنْ اَغْنَیْتُکَ عَمَّا تَرٰی یہ جو کچھ دیکھ رہے ہو ، یہ ٹڈیاں گررہی ہیں سونے کی ! میں نے تمہیں اتنا دے رکھا ہے کہ اِن ٹڈیوں کا کوئی تمہیں خیال ہی نہیں ہونا چاہیے ! انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ لَا غِنٰی بِیْ عَنْ بَرَکَتِکَ ١ تیری برکت سے میں کبھی بھی مستغنی نہیں ہوسکتا یعنی تیری طرف سے جو رحمت اوربرکت نازل ہو اُس کا تو میں ہمیشہ ہی محتاج رہوں گا ! ! سرورِ کائنات علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی گرفت سے، سوال سے ، حساب سے ، عذاب سے کوئی بھی نہیں بچے گا سوائے اُس کے کہ جسے خدا اپنی رحمت میں ڈھانپ لے ! تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم سے صحابہ کرام نے عرض کیا وَلَا اَنْتَ جناب بھی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہ ٢ تواصل میں خدا کا بندہ ہونے میں خدا کی مخلوق ہونے میں سب برابر ہوجاتے ہیں ! !
اورخدا خالق ہونے کے اعتبار سے ،غنی ہونے کے اعتبارسے، قادر ہونے کے اعتبارسے اور تمام اپنی صفات کے اعتبار سے سب کے لیے ڈر اورعظمت والی ذات ہے ! اوراب ہی نہیں بلکہ قیامت میں بھی ڈریں گے جب دیکھ لیں گے کہ ہمیں نجات ہوچکی پھر بھی ڈریں گے ! !
شفاعتِ کبریٰ :
اور وہ حدیث آتی ہے شفاعت ِکبرٰی کی، حضرت آدم علیہ السلام کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا اِس وقت ظہور ہو رہا ہے میں نہیں بات کرسکتا ، نوح کے پاس جائو ! نوح علیہ السلام آگے
بھیج دیں گے ابراہیم علیہ السلام کے پاس وہ خلیل اللہ ہیں ! حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی یہی جواب
١ مشکٰوة المصابیح کتاب احوال القیامة و بدء الخلق رقم الحدیث ٥٧٠٧
٢ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب سعة رحمة اللّٰہ رقم الحدیث ٢٣٧١
دیں گے ! اور ہر آدمی'' نفسی نفسی'' کہے گا ! ہر نبی یہ کہے گا کہ مجھے اپنی ذات کی فکر ہے ! تو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک تو غَنِیّ عَنِ الْعَالَمِیْن ہے ، سب سے بے نیاز، لہٰذا سب ڈرتے ہیں ! تو سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام بھی فرماتے ہیں کہ اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہ اب یہ حال دُنیا ہی میں نہیں بلکہ قیامت کا بھی بتایا گیا کہ اُس میدان میں بھی یہ ہوگا حال ! تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے تو سب ہی ڈرتے ہیں ! تو مغفرت کی طلب جو ہے وہ بھی اسی لیے ہے کہ تو اپنی رحمت میں ڈھانپے رکھ ! غضب کا سامنا ہی نہ ہو، نظر بھی نہ پڑے ! تو آپ نے ایک اپنا عمل بتلایا کہ میں ستر سے بھی زیادہ دفعہ استغفار کرتا ہوں !
استغفار کی ایک اوروجہ :
اورایک وجہ اس کی اوربھی آتی ہے حدیث شریف میں ، وہ یہ کہ لوگوں سے اختلاط یعنی ملنا جلنا جو اِس کا اثر صاف دل پر پڑتا ہے تو سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے ایک اور روایت میں ارشاد فرمایا کہ اَنَّہُ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ وَاِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِی الْیَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ ١ میرے دل پر'' غَیْن'' جیسے آتا ہے دُھن جیسی آجاتی ہے تو میں پھر سو دفعہ استغفار کرتا ہوں اوراستغفار کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کا اعتراف کرے کہ میں نے گناہ کیے ہیں ! اگر کوئی کہے کہ میں نے کیے ہی نہیں گناہ تو غلط کہتا ہے !
کوئی گناہوں سے بچا ہوا نہیں :
کوئی گناہوں سے بچا ہوا نہیں ہے بلکہ یہ علامت ہے اِس بات کی کہ اُس کی آنکھیں کمزور ہیں اُسے نظر ہی نہیں آ رہا بالکل ،حالانکہ گناہ تو لازماً ہوتا ہے ! لہٰذا وہ نظر ڈالے اورغور کرے ! ! ؟
استغفار کا طریقہ :
تو پھر انسان کو چاہیے کہ پہلے تو گناہ کوگناہ کا کام سمجھے ! پھر اُس سے معافی چاہے آئندہ نہ کرنے کا ارادہ کرکے ! تویہ استغفار ہوا ! اوراستغفار کے کلمات کا ادا کرتے رہنا بے خیالی میں کہ
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٢٤
آدمی کو خیال بھی نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں بس تسبیح پڑھے جارہا ہے اَسْتَغْفِرُاللّٰہْ ، اَسْتَغْفِرُاللّٰہْ اتنا جملہ فرض کریں پڑھے جا رہا ہے تو پھر یہ ہے کہ اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہوگا ! فائدہ یہ ہوگا جیسے کہ زبان اس کی ذکر ہی میں لگی ہوئی ہے ، اللہ کا نام لینے میں لگی ہوئی ہے ! لیکن جو حقیقی فائدہ ہے وہ نہیں ہوگا ! !
استغفار کا تعلق دل سے ہے :
اوراس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ انسان زبان سے کہے بلکہ اصل میں تو استغفار ہے ہی دل کاکام ! زبان کا نہیں ہے ! زبان سے تو اُس کی تائید کی جاتی ہے اُس کا اظہار کیا جاتا ہے ! حقیقتاً جو توبہ ہے یا استغفار ہے اُس کاتعلق قلب سے ہے ! اور اپنے گناہ انسان کو پیش ِنظر رکھنے چاہیں ! اورخدا سے استغفار کرتے رہنا چاہیے ! اوراستغفار سنت عمل ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے کرکے دکھلایا ہے ! اور استغفار اگر بے خیالی میں بھی ہو تو وہ فائدہ تو نہیں ہوگا جو گناہوں سے توبہ کا ہوتا ہے، اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ زبان خدا کے ذکر میں لگی ہوئی ہے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا اوررحمتوں سے نوازے اورہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ،آمین، اختتامی دُعا
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون ٢٠٠٥ )
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org
حضراتِ نقباء کا تعارف اور مختصر حالات
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
(١) حضرت اسعد بن زرارہ :
کنیت ابو اُمامہ، یہ سب سے کم عمر تھے مگر اسلام میں سب سے مقدم ! جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے سب سے پہلے یثرب میں اسلام کا تعارف انہیں کے ذریعہ ہوا ! پھر ہر بیعت کے موقع پر حاضر اور ہر بیعت میں شریک رہے ! حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مبلغ اور معلم بن کر آئے تو انہیں کے یہاں قیام رہا، دعوت و تبلیغ میں ان کے شریک رہے۔ نماز جمعہ کا سلسلہ بھی آپ نے ہی شروع کیا مگر عمر نے وفا نہیں کی ابھی مسجد نبوی کی تعمیر ہورہی تھی وفات ہوگئی ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم بار بار مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے علاج میں شریک ِمشورہ رہے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے تشریف لے آنے کے بعد مدینہ میں سب سے پہلے ان ہی کی وفات ہوئی، خود آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے نماز ِجنازہ پڑھائی !
یہ سب سے پہلی نمازِ جنازہ تھی جو پڑھائی گئی (الاستیعاب و الاصابة) یہودیوں نے طعنہ دیا کہ محمد اپنے ساتھی کو نہ بچا سکے تو اور کیا کرسکیں گے ؟ ( مُسند احمد )
(٢) حضرت سعد بن ربیع :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مہاجر سے مواخاة (برادرانہ رشتہ) قائم فرمایا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے مہاجر بھائی سے کہاکہ میں انصار میں سب سے زیادہ خوش حال اور صاحب ِجائیداد ہوں ، آدھی جائیداد آپ کی ہے اور میری دوبیویاں ہیں ان میں سے جس کو آپ مناسب سمجھیں مجھے بتادیں میں طلاق دے دُوں گا آپ نکاح کر لینا ! حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اللہ تعالیٰ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے مجھے تو (زیادہ چلنے والا) بازار بتادیجیے ! ! !
میدانِ اُحد میں معرکہ ٹھنڈا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن ربیع کو تلاش کرو یہ میدان میں پڑے ہوئے تھے، بارہ زخم جسم مبارک پر تھے حضرت اُبی بن کعب جو تلاش کرنے گئے تھے ان سے کہا کہ آقائے دوجہان سے میرا سلام عرض کردینا اور مسلمانوں کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہ گیا اور سرتاجِ دو عالم صلی اللہ عليہ وسلم شہید ہوگئے تو اللہ کی بارگاہ میں ان کی کوئی معذرت قابلِ قبول نہیں ہوگی ! !
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کی صاحبزادی آئیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر بچھادی اس پر ان کو بٹھایا ! اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ اِن کی صاحبزادی ہیں جو مجھ سے بھی بہترتھے اور تم سے بھی ! وہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے راہِ خدا میں قربان ہوگئے اور میں بھی زندہ ہوں اور تم بھی زندہ ہو ! ! (الاصابة)
(٣) حضرت عبداللّٰہ بن رواحہ :
شاعر تھے ان کے ترانے بڑے شوق سے سنے جاتے تھے اور پڑھے جاتے تھے خود آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو بھی دلچسپی ہوتی تھی ! صلح حدیبیہ کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم حسب ِمعاہدہ عمرہ کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو مکہ میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے آگے آگے یہ ترانہ پڑھتے جارہے تھے :
خَلُّوْا بَنِی الْکُفَّارِ عَنْ سَبِیْلِہ
اَلْیَوْمَ نَضْرِبُکُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہ
ضَرْبًا یُزِیْلُ الْھَامَ عَنْ مَقِیْلِہ
وَ یُذْھِلُ الْخَلِیْلَ عَنْ خَلِیْلِہ ١
ترانہ کا مفہوم یہ ہے کہ کافر بچو راستہ سے ہٹ جاؤ ! آج ہم بزورِ شمشیر اپنے آقا کو یہاں اُتاریں گے ہماری شمشیر زنی ایسی ہوگی جو کھوپڑیوں کو گردنوں سے اُڑادے گی اور دوست کو دوست سے جدا کردے گی
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے رشتہ ٔ اُخوت قائم کیا تھا وہ بھی ایسے ہی جوشیلے تھے ! جاں باز عبداللہ بن رواحہ نے غزوہ ٔموتہ میں جام شہادت نوش کیا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ
١ سُنن نسائی کتاب مناسک الحج رقم الحدیث ٢٨٧٣
(٤ ) حضرت رافع بن مالک :
سب سے پہلے مسلمان ہونے والے ہیں ، پہلی بیعت میں بھی شریک تھے جس میں چھ یا آٹھ آدمیوں نے بیعت کی تھی پھر بارہ اور ستر میں بھی شریک تھے ! جتنا قرآن اُس وقت تک نازل ہوا تھا سب حفظ کر لیا تھا ! غزوۂ اُحد میں درجۂ شہادت حاصل کیا ! ( الاستیعاب و الاصابة) (٥) حضرت براء بن معرور :
جب یہ قافلہ مکہ جارہا تھا تو راستہ میں اور ساتھیوں نے بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی مگر انہوں نے کعبہ کی طرف نماز پڑھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے کعبہ کی طرف نماز پڑھی ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ابھی ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تھے کہ اِن کی وفات ہوگئی مگر وفات کے وقت وصیت کردی کہ ترکہ کا ایک ثلث آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا جائے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے صاحب ِخیر ہیں جنہوں نے تہائی ترکہ کی وصیت کی ! !
(٦) حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن حرام :
غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوسکے، بہت صدمہ ہوا، غزوۂ اُحد ہوا تو تمنا پوری ہوئی، بیٹے کو بٹھا کر رات ہی کو سمجھا دیا مجھے اُمید ہے کہ میں کل کو سب سے پہلے جان فدا کروں گا !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے بعد مجھے سب سے زیادہ تم محبوب ہو، تم سب سے پہلے میرا قرض ادا کرنا اور اپنی بہنوں کا خیال رکھنا، بہنیں سات تھیں جابر اِن کے سعادت مند صاحبزادے تھے، یہودی کا قرض تھا خیال تھا کہ باغ کے پھل سے قرض ادا نہیں ہوسکے گا لہٰذا کچھ اب وصول کر لے کچھ بعد میں مگر یہودی راضی نہیں ہوا ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے سفارش کی تب بھی راضی نہیں ہوا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم باغ میں تشریف لے گئے، ٹوٹے ہوئے کھجوروں کے ڈھیر پڑے تھے اُن سب کے پاس پہنچ کر ملاحظہ فرمایا پھر حکم دیا کہ تمام قرض ادا کردو ! یہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی برکت تھی کہ تمام قرض ادا کردیا اور کھجوروں کے ڈھیر جوں کے توں باقی رہ گئے ! ! !
(٧) حضرت عُبادة بن صامت :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت اَبُومَرْثَدْ غنوی سے برادرانہ رشتہ قائم فرمایا، تمام معرکوں میں شریک رہے، ٤٥ھ میں وفات ہوئی !
(٨) حضرت سعد بن عُبادہ :
قبیلۂ خزرج کے سردار، رئیس گھرانے کے چشم و چراغ، بہت بڑے حوصلہ مند، سخی، باپ دادا بھی ایسے ہی رئیس اور سخی تھے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کے گھر کو '' بَیْتُ جُوْدٍ '' فرمایا ١
حضرت ابوبکر کو خلیفہ بنایا گیا تو اِنہوں نے بیعت نہیں کی مگر کوئی مخالفت بھی نہیں کی بلکہ وطن چھوڑ کر شام چلے گئے ! حوران میں قیام کیا، وفات دفعتاً ہوگئی، غسل خانہ میں مردہ پائے گئے ! یہ ١١ھ کا واقعہ ہے یا ١٤ھ یا ١٥ھ کا (علی اختلاف الاقوال، الاستیعاب)
(٩) حضرت منذِر بن عمرو بن خُنَیْس :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے برادرانہ رشتہ قائم فرمایا ! بِئْرِ مَعُوْنَةَ کے حادثہ میں شہید ہوئے ! یہ ستر حضرات جو اِس موقع پر شہید ہوگئے وہ ان ہی کی قیادت میں سفر کررہے تھے یہ سب حضرات خزرجی تھے ! ! ٢ قبیلۂ اوس کے یہ مندرجہ ذیل تین حضرات تھے
(١٠) حضرت اُسید بن حضیر :
قبیلۂ اوس کے سردار، بہت بڑے سخی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور ِ خلافت میں ٢٠ھ یا ٢١ھ میں وفات ہوئی ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اِن کے وصی تھے ٣ چار ہزار دینار قرض چھوڑا جس کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے باغ کی آمدنی سے ادا کیا ٤ غزوۂ بدر میں مشیر خاص تھے !
١ سخاوت کا گھر ٢ الاستیعاب وبخاری وغیرہ
٣ وہ شخص جس کو وصیت کی گئی ہو ، وصیت پر عمل کرنے والا ٤ الاستیعاب
(١١) حضرت سعد بن خَیْثَمَة :
جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا قباء میں قیام تھا تو عام نشست ان کے یہاں ہوتی تھی جو حضرات مہاجرین تن ِتنہا آتے تھے وہ بھی ان ہی کے یہاں ٹھہرتے تھے ! جب غزوۂ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم روانہ ہونے لگے تو باپ خیثمہ اور بیٹے سعد نے طے کیا کہ ہم میں سے ایک مکان پر رہے ایک ساتھ جائے، پھر باپ بیٹے میں بحث ہوئی کہ کون ساتھ جائے ؟ بحث ختم کرنے کے لیے قرعہ ڈالا تو قرعہ میں بیٹے (حضرت سعد) کا نام نکلا ! باپ نے بیٹے سے اپیل کی کہ اپنا حق مجھے دے دیں اور مجھے جانے دیں تو بیٹے نے کہا کوئی اور معاملہ ہوتا تو میں آپ کے لیے اپنا حق بخوشی چھوڑ دیتا مگر یہ راہِ خدا میں قربان ہونے اور رضائِ مولیٰ حاصل کرنے کا معاملہ ہے اس میں تو میں اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا ! چنانچہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے ساتھ گئے اور جامِ شہادت نوش کیا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن
(١٢) حضرت رِفاعة بن عبدالمنذر :
ابو لبابہ کنیت، یہ کنیت ہی سے مشہور ہیں ، غزوۂ بدر اور غزوۂ سویق کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تشریف لے گئے تو ان ہی کو مدینہ کا ناظم اُمور (والی ) بناگئے ! غزوۂ خندق کے بعد بنو قریظہ کا مسئلہ پیش ہوا جنہوں نے غزوۂ خندق کے وقت غداری کی تھی، بنو قریظہ منتظر تھے کہ اِن کے متعلق کیا فیصلہ کیا جائے گا ؟ (بنو قریظہ نے)ابو لبابہ سے دریافت کیا تو انہوں نے گردن کی طرف اشارہ کیا کہ سب غداروں کو قتل کیا جائے گا ! پھر احساس ہوا کہ میں نے راز فاش کردیا تو مسجد شریف میں آکر اپنے آپ کو( اُسْطُوَانَة ) کھمبے سے باندھ دیا ١ اور کھانا پینا سب بند ! نماز کے وقت اِن کی صاحبزادی آکر اِن کو کھول دیتی تھیں تو نماز میں شریک ہوجاتے تھے، چھ روز تک اور بعض روایتوں کے بموجب چودہ پندرہ دنوں تک اسی طرح بندھے رہے ! پھر سورۂ توبہ نازل ہوئی، آپ کو بشارت دی گئی اور کھولنے کا اِرادہ کیا گیا ، آپ نے منع کردیا کہ میں قسم کھاچکا ہوں کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم خود نہ کھولیں گے میں نہیں کھلوں گا ! ! چنانچہ خود سرورِکائنات صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے دست ِمبارک سے ان کو کھولا !
١ اس اُسْطُوَانَة کو ریاض الجنة میں ان ہی سے منسوب کر دیا گیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کی وفات ہوئی ! بغیر کھائے پیئے بندھے رہنے کا اثر ظاہری جسم پر یہ پڑا کہ قوت ِسماعت ختم ہوگئی تھی ! ! (الاستیعاب)
قریش کی طرف سے تعاقب :
یہ اجلاس جو پہاڑ کی گھاٹی میں ریت کے فرش پر چاند کی چاندنی میں کیا گیا تھا بہت ہی خفیہ تھا جانے والے بھی ایک ایک کر کے گئے تھے ! اسی طرح نہایت خاموشی سے واپس ہوئے ! لیکن پچھتر آدمیوں کی نقل و حرکت چھپنے والی نہیں تھی ١ لوگوں نے بھانپا، کچھ بھنک قریش کے کانوں میں بھی پڑی فورًا دوڑے اور جیسے ہی صبح ہوئی تحقیقات شروع کردی ! اہلِ مدینہ کے خیموں میں پہنچے اور کہا :
''ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ اس لیے آئے ہیں اور کوئی معاہدہ کر چکے ہیں کہ اس صابی (آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ) کو اپنے ساتھ لے جائیں گے اور ہمارے مقابلہ پر محاذ قائم کریں گے ! ہم آگاہ کیے دیتے ہیں محمد کو لے جانا ہمارے لیے چیلنج ہوگا ! طاقت آزمانی ہو تو ایسا کر لو''
رؤسا مدینہ عبداللہ بن اُبی ابن ِسلول وغیرہ سے قریش کے تعلقات تھے، انہیں سے تعارف تھا، انہیں سے تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا گیا اور انہیں سے یہ باتیں کہی گئیں ان میں سے کوئی بھی اس بیعت میں شریک نہیں ہوا تھا نہ اِن کو خبر تھی ! انہوں نے قسمیں کھا کھاکر اِنکار کیا ! عبداللہ بن اُبی سلول نے کہا میری قوم اگر ایسا کرتی تو وہ یقینا مجھ سے مشورہ کرتی ورنہ کم اَز کم خبر ضرور دیتی ، یہ ممکن نہیں میری اطلاع کے بغیر کوئی ایسا عمل ہوجائے ! !
یہ انکار کرنے والے سچے تھے لیکن بیعت کرنے والوں کو فکر تھی کہ ان سے دریافت کیا گیا تو کیا جواب دیں گے ؟ وہ خاموش تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ! ؟ دفعتاً حضرت کعب بن مالک کی نظر
١ بشمول آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم و حضرت عباس رضی اللہ عنہ
ایک قریش رئیس زادے حارث بن ہشام مخزومیکی نئی جوتیوں پرپڑگئی جو قیمتی اور خوبصورت تھیں انہیں مذاق کرنے اور لوگوں کی توجہ ہٹانے کا موقع مل گیا ! ! !
انہوں نے عبداللہ بن اُبی ابن ِسلول کو مخاطب کر کے کہا دیکھیے جو تیاں ایسی ہونی چاہئیں ، آپ رئیس ِمدینہ اور قوم کے سردار ہیں ، آپ بھی ایسی ہی جو تیاں پہنا کیجیے ! اس مزاحیہ فقرہ کو حارث نے طنز سمجھا، اس نے دونوں جو تیاں نکال کر کعب کی طرف پھینک دیں ! لو تم پہنو، ضرور پہنو، خدا کی قسم ضرور پہنو ! حضرت کعب فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن اُبی نے دیکھا کہ حارث کو ناگواری ہوئی ہے تو اُس نے مجھے ڈانٹا، تم نے خواہ مخواہ ان کو ناراض کردیا، ان کی جوتیاں واپس کردو، میں نے کہا یہ دے چکے ہیں اب میں واپس نہیں کروں گا اور دل میں سوچا یہ فال نیک ہے عنقریب وہ وقت آئے گا کہ میں اِن تکلّفات کو اِن لوگوں سے ختم کردوں گا ! بہرحال اس طنز اور مذاق میں اصل بات رُل گئی، ہماری جان بچ گئی ہم سے کسی نے نہیں پوچھا جب یہ لوگ ہمارے خیموں سے باہر نکل گئے تو طے شدہ پروگرام کے بموجب بیعت کرنے والے حضرات نے کھسکنا شروع کیا ! قریش کو پھر احساس ہوا وہ پھر دوڑے مگر ہم سب نکل چکے تھے دو آدمی کسی طرح باقی رہ گئے تھے اُن کو راستہ میں پکڑ لیا یہ قبیلۂ خزرج کے رئیس سعد بن عبادہ تھے اور اسی قبیلہ کے دوسرے صاحب منذر بن عَمرو ، یہ دونوں نقیب بھی منتخب ہوئے تھے حضرت منذر پھر بھی کسی طرح بچ کر نکل آئے ! لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نہ نکل سکے ! اُونٹ کے کجاوہ میں سے چمڑہ کا تسمہ نکال کر ان کی مشکیں کس دیں ، ان کے سر پر بڑے بال تھے، مارتے پیٹتے اور ان کے بڑے بال کھینچتے ہوئے مکہ میں لے گئے، وہاں لوگوں نے بہت ذلیل کیا، مارا پیٹا کسی نے منہ پر بھی تھوک دیا !
ان ہی حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص آیا، بظاہر نہایت سنجیدہ، نیک خصلت، شریف صورت تھا، مجھے خیال آیا کہ یہ مجھ پر رحم کرے گا اور میری جان چھڑادے گا مگر ع
بھولی بھالی شکل والے ہوتے ہیں جلاد بھی
میرے پاس پہنچا تو اس نے رحم کے بجائے بڑے زور سے کھینچ کر طمانچہ مارا ! تب میں نے سوچا کہ ان انسان نما وحشیوں میں کم اَز کم مسلمانوں کے حق میں شرافت کا نام و نشان نہیں رہا ! !
ایک اور شخص جو غالباً یہ حرکتیں دیکھتے دیکھتے تھک گیا تھا اُس نے کہا کیا مکہ میں تمہارا کوی حلیف نہیں ہے ؟ تب مجھے خیال آیا میں نے کہا میرے بہت سے حلیف ہیں ! جُبیربن مُطعم بن عدی سے میرے تجارتی تعلقات ہیں ! حارث بن حرب بن اُمیة سے بھی میرے تعلقات گہرے ہیں ! آپ کی عنایت ہوگی ان میں سے کسی کو خبرکردو ! یہ شخص گیا حرمِ کعبہ کے قریب ہی ان سے ملاقات ہوگئی ان کو میرا نام بتایا یہ دونوں آئے اور ان ظالموں سے مجھے نجات دلائی ! ١
تیرہ سال مکہ معظمہ میں گزرے اس طویل مدت میں پروگرام یہ تھا
(١) کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ : ''ہاتھ روکو'' (ہاتھ نہیں اُٹھاسکتے ) ٢
(٢) اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ : ''نماز قائم کرو'' (اللہ سے تعلق مضبوط کرو)
(٣) اٰتُو الزَّکٰوةَ : ''زکوة ادا کرو'' ٣
(٤) وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا : ''اللہ تعالیٰ کو قرض ِحسنہ دیتے رہو'' ٤
مگر اِس موقع پر جب بیعت اس پر بھی لی گئی کہ حضراتِ انصار جس طرح اپنی جانوں اور اپنی اولاد کی حفاظت کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی بھی حفاظت کریں گے تو امام المغازی ابن اسحاق کی رائے
١ طبقات ابن سعد ج ١ ص٥٠ یہ تفصیل امام المغازی بن اسحاق کی روایت سے ماخوذ ہے( سیرة ابن ہشام ج ١ ص ٢٧٠) ٢ سورۂ نساء : ٧٧ ٣ یہ پہلے گزر چکا ہے کہ مکہ معظمہ میں زکوة کا حکم تو ہوا مگر اُس کا نصاب نہیں مقرر کیاگیا، نصاب مدینہ طیبہ میں ٢ھ میں مقرر کیے گئے پس مکہ معظمہ میں زکوة اور قرض ِحسنہ کا فرق محض مصرف کے لحاظ سے تھا یعنی غریبوں اور مسکینوں کو جو کچھ دیا جاتا وہ زکوة اور غلاموں کو خرید کررہا کرنا یا دوسرے ملّی اور اجتماعی کاموں میں خرچ کو قرآنِ حکیم میں قرض سے تعبیر فرمایا گیا ! حاصل یہ کہ جو کچھ ہو خرچ کرڈالو اور جو کچھ خرچ کروگے اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سے بہتر ملے گا۔ ( واللّٰہ اعلم بالصواب) ٤ سُورۂ مزمل : ٢٠
یہ ہے کہ یہ اِس طرف اشارہ تھا کہ ہاتھ روکنے کا پروگرام آئندہ نہیں رہے گا بلکہ ہاتھ اُٹھانے کی بھی اجازت ہوگی ١ چنانچہ جب بیعت ہوچکی تو ایک منچلے بہادر حضرت عباس بن عبادہ بن فضلة نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر اجازت ہو تو ہم صبح ہی کو اِن لوگوں کو تلوار کے ہاتھ دکھادیں ! ؟ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ابھی مجھے اِس کا حکم نہیں ملا ہے ! ٢ (جاری ہے)
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٣٢٣ تا ٣٣١ )
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
١ سورۂ حج اگرچہ مدنی ہے مگر ماہرین ِقرآن کی ایک جماعت کی تحقیق یہ ہے کہ اِذنِ قتال کی آیت ( اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ تاآخر)(سُورة الحج : ٣٩ ) مکہ معظمہ ہی میں نازل ہوچکی تھی یعنی الفاظ بیعت میں جس کی طرف اشارہ تھا اس کے متعلق صریح حکم بھی مکہ معظمہ ہی میں نازل ہوچکا تھا البتہ ابھی عمل کا حکم نہیں ہوا تھا، عمل کا حکم جب ہوا جب مدینہ منورہ میں طاقت مجتمع ہوگئی اور محاذ قائم ہوگیا ( واللّٰہ اعلم بالصواب) (ماخو ذاَز سیرة ابن ہشام ج١ ص ٢٨٠ )
٢ یہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی انتہائی احتیاط اور اطاعت شعاری تھی کہ صرف اجازت سے آپ نے فائدہ اُٹھانا مناسب نہیں سمجھا بلکہ حکمِ صریح کے منتظر رہے جو مدینہ میں مرکز قائم ہونے کے بعد ملا۔ ( واللّٰہ اعلم بالصواب )
قسط : ٣
میرے حضرت مدنی
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
امیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
تم اپنے اصول کے خلاف کیوں کہتے ہو ؟
ایک مرتبہ لکھنؤ سے آرہے تھے حضرت کا ہمیشہ معمول یہ رہا کہ اگر وقت میں ایک گھنٹہ کی بھی یا زائد کی گنجائش ہوتی تب تو خود مکان پر تشریف لاتے ورنہ تار لکھنؤ یا مراد آباد سے ضرور دیتے اور اگر وقت پر تار پہنچ جاتا تو یہ ناکارہ اسٹیشن پر ضرور جاتا، فسادات کے زمانہ میں اسٹیشن پر سکھوں کی کار میں پندرہ پندرہ روپے پر اسٹیشن گیا ہوں البتہ جب تار ہی بعد میں پہنچے تو معذور ی ہوتی !
ایک مرتبہ حضرت قدس سرہ لکھنؤ سے تشریف لارہے تھے گیارہ بجے رات کو تار ملا، میں اُسی وقت ریل پر حاضر ہوا، بارہ بجے گاڑی آئی، میں نے مصافحہ کے ساتھ پوچھا حضرت نظام ؟ یوں فرمایا اسی وقت ڈیڑھ بجے کی گاڑی سے دیوبند جانے کا ارادہ ہے ! میں نے عرض کیا وہاں کوئی اطلاع ہے ؟ فرمایا وہاں کوئی اطلاع نہیں دی ہے کہ تار دیر میں پہنچتا ہے ! میں نے پوچھا اس وقت دیوبند کے اسٹیشن پر سواری ملے گی ؟ ارشاد فرمایا نہیں ! میں نے کہا تو پھر مدرسہ تشریف لے چلیے، ارشاد فرمایا کہ تم اپنے اصول کے خلاف کیوں کہتے ہو ؟ میں نے عرض کیا حضرت ! میرا اُصول اکابر ومہمانوں کی راحت کے واسطے ہے کوئی مصیبت کے واسطے نہیں ! حضرت نے خوب تبسم فرمایا اور مدرسہ تشریف لے آئے ! اللہ میرے سارے ہی بزرگوں کو بہت ہی عالی مراتب نصیب فرمائے، جتنی جتنی میں نے بے ادبیاں ، گستاخیاں اپنے اکابر کی شان میں کیں اُتنی ہی ان کی شفقتیں ، محبتیں کرم فرمائیاں بڑھیں ! ١
تم میرے مہمان کو چھینتے ہو ؟
ان ہی بری عادتوں میں سے ایک بری عادت جس میں مجھے اپنے آقا، ماوا وملجا سیّدی وسندی حضرت شیخ الاسلام مدنی نور اللہ مرقدہ قدس سرہ اعلیٰ اللہ مراتبہ کی طبع مبارک کے خلاف یہ بری عادت ہمیشہ رہی کہ میرے حضرت مدنی قدس سرہ کے مہمان کی کوئی دعوت کرتا تو حضرت کو اَزراہِ محبت و شفقت داعی ومدعو دونوں پر غصہ آجاتا ! حضرت قدس سرہ داعی سے ڈانٹ کر فرماتے تم میرے مہمان کو چھینتے ہو ! اور مہمان سے فرماتے آپ سے دال روٹی نہیں کھائی جاتی، مال کھانے کو جی چاہتا ہے !
اس کے بالمقابل اس سیاہ کار کا ہمیشہ معمول یہ رہا کہ اگر میرے مہمان کی کوئی دعوت کرے اور مجھے اس کا بخوشی پسند کرلینا معلوم ہوجائے تو میں کبھی اس میں مانع نہیں ہوتا بلکہ بڑی خندہ پیشانی سے قبول کر لیتا ہوں بشرطیکہ مہمان اس کو خوشی سے پسند کرے ! بلکہ اگرمجھے یہ معلوم ہوجائے کہ میرا مہمان داعی کی دعوت کو زیادہ پسند کرتا ہے اور محض میرے لحاظ سے میرے یہاں کھانا چاہتا ہے تو میں اَز خود داعی کی سفارش کردیتا ہوں تین واقعے اپنے تین اکابر کے نمونہ کے طور پر لکھواؤں گا۔ ٢
کھانا تو زکریا ہی کے یہاں کھانا ہے :
میرے حضرت اقدس مدنی قدس سرہ کی آمد پر جب کوئی دعوت کرتا تو حضرت شدت سے فرما دیتے کہ کھانا زکریا کے یہاں کھانا ہے، بارہا اس کی نوبت آئی ! ایک مرتبہ جمعیة علماء ضلع کانفرنس حضرت کی طرف سے بلائی گئی، خواجہ اطہر صاحب ضلع کے صدر تھے، دو بجے سے عصر تک جمعیة کانفرنس ہوتی رہی، عصر کے بعد حضرت مدرسہ تشریف لانے لگے، خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ کیا ؟
١ آپ بیتی ص ٢٠٣، ٢٠٤ ٢ ایضاً ص ٢٠٨
فرمایا کہ کھانا زکریا کے یہاں کھانا ہے ! انہوں نے بہت اصرار کیا کہ جمعیة آپ کی طرف سے طلب کی گئی ہے ! حضرت نے فرمایا جس کام کے واسطے طلب کی تھی وہ کام ہوگیا، میں نے کھانے کی دعوت نہیں کی تھی آپ کھلائیے ،خواجہ صاحب نے بہت ہی اصرار فرمایا مگر حضرت نے قبول نہ فرمایا ! مجھے خود بھی اس کا واہمہ نہ تھا کہ حضرت جمعیة کو چھوڑ کر تشریف لے آویں گے !
اسی طرح سے مولانا منظور النبی مرحوم نے ایک دفعہ ایک کانفرنس حضرت کی طرف سے بلائی مغرب تک کانفرنس رہی اور مغرب کے بعد حضرت اس سیہ کار کے گھر تشریف لے آئے، مولوی صاحب مرحوم کو بہت ہی ناگوار بھی ہوا، میں نے چپکے سے خوشامدکی کہ اَکابر کے منشاء پر عمل حقیقی تعلق اور محبت کی علامت ہے ! میں نے تو کوئی درخواست نہیں کی، اگر میں درخواست کرتا تو آپ کا مجھ پر غصہ بجا تھا کہ آپ کے مہمان کو کیوں چھینا، لیکن یہ تو حضرت کا خود منشاء ہے اس پر آپ کو بھی ہتھیار ڈال دینا چاہیے ! بیسیوں واقعات میرے حضرت مدنی قدس سرہ کے اس قسم کے پیش آئے ! ١
دن رات اسفار اور سبق کی پابندی :
میری بری عادتوں میں جو ہمیشہ سے ہے، سفر سے وحشت ہے یہ ابتداء ہی سے میری عادت اور طبیعت ِثانیہ بن گئی ! اس کی ابتداء تو جیسا کہ میں اپنے رسالوں میں اور غالباً ''اعتدال '' میں لکھ چکا ہوں اپنے والد صاحب کی ابتدائی زمانہ میں کہیں نہ جانے پر جبرو پابندی تھی اور وہ میرے لیے ایسی عادت بن گئی کہ اب نہیں بلکہ ساری عمر سے سفر میرے لیے ایک مصیبت بنا رہا، جہاں کہیں سفر ہوتا تو سفر سے تین دن پہلے سے اس کی وحشت اور بلا مبالغہ اِس کی فکر سے بخار اور واپسی کے بعد کئی دن تک اس کا تکان اور خمیازہ بخار، سر میں درد ! یہ چیزیں ہمیشہ بڑھتی ہی رہیں اور اپنے دو اَکابر مرشدی حضرت سہارنپوری قدس سرہ اور ان سے بھی بڑھ کر حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس سرہ ان دونوں کو دیکھتا تھا اور بڑا رشک کرتا تھا۔ حضرت شیخ الاسلام کو دیکھنے والے ابھی تک کثرت سے موجود ہیں کہ ان کے یہاں جمعرات کی شام کو دیوبند سے دہلی جانا اور عشاء کے بعد دہلی کے ایک اجتماع کی صدارت کرنا
١ آپ بیتی ص ٢١٠
اور پھر ایک جلسۂ شوریٰ میں شرکت کرنا اور اس کے بعد راتوں رات نانوتہ آنا صبح کی نماز کے بعد وہاں جلسہ میں تقریر کرنا اور اس کے بعد سنسارپور گیارہ بجے کے قریب ایک جلسہ میں تقریر کرنا اور جمعہ کی نمازکے بعد بہٹ میں تقریرکرنا اور اس کے بعد ساڑھے چار بجے کے ایکسپریس سے دیوبند جانا اور عشاء کے بعد سبق پڑھانا ! یہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے، اس قسم کے بیسیوں واقعات ہمیشہ کا معمول تھا ! ١
حضرت مدنی کا حضرت شیخ کے ساتھ شدت تعلق :
تقریباً پچاس سال ہوئے، بعض دوستوں کے شدید اصرار پر مظفر نگر کا وعدہ کیا اور واقعی پختہ ارادہ تھا اور پختہ وعدہ تھا، لیکن اپنے اس سفر کی وحشت کی وجہ سے ٹلتا ہی رہا۔ اب تو وہ حضرات بھی ختم ہوگئے جن سے وعدہ تھا اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے آمین !
حضرت اقدس مدنی سرہ ایک مرتبہ ١٥ ربیع الاوّل ٧٠ھ میں مظفرنگر گھٹنوں کا علاج کرانے کے لیے ایک عشرہ کے واسطے تشریف لے گئے، جن احباب سے وعدہ تھا اور وہ حیات تھے اُنہوں نے اس ناکارہ کو بہت ہی زور سے لکھا کہ تمہارا اتنے دنوں سے وعدہ ہے اور اس وقت حضرت مدنی یہاں مقیم ہیں بہت اچھا موقع ہے، عیادت بھی ہوجاوے گی، ہمارا وعدہ بھی پورا ہوجائے گا اور انہوں نے اس حسن ِظن پرکہ حضرت قدس سرہ بھی پسند فرمادیں گے حضرت سے ذکر کردیا حضرت کا گرامی نامہ اسی ڈاک سے فورًا آیا کہ میری طبیعت بحمد للہ بہت اچھی ہے تم مظفرنگر کا ہرگز ارادہ نہ کرنا میں یہاں سے فارغ ہونے کے بعد دو تین دن میں پہلے سہارنپور آؤں گا پھر دیوبند جاؤں گا چنانچہ حضرت قدس سرہ مظفرنگر سے مع سامانِ حشم وخدم ریل میں سوار ہوکر ان سب کو تو دیوبند اُتار دیا اور تنہا سہارنپور تشریف لاکر اگلی گاڑی سے واپس ہوئے ! ٢
سفارش کے سلسلے میں حضرت مدنی کا معمول :
میری بری عادتوں میں سے ایک نہایت شدید اور بدترین عادت یہ ہے کہ مجھے سفارش سے ہمیشہ وحشت رہی ! میں نے سنا کہ میرے دادا صاحب نور اللہ مرقدہ جب نواب چھتاری کے یہاں
١ آپ بیتی ص ٢١٩ ٢ ایضاً ص٢٢٠
جاتے تو اپنے ساتھ اتنی درخواستیں لَاتُعَدُّ وَ لَا تُحْصٰی لے جاتے کہ حد نہیں اور حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کو تو ہمیشہ خود بھی دکھا کہ حضرت قدس سرہ سے جو شخص جہاں بھی سفارش چاہتا ، چاہے مہتمم مدرسہ ہو، چاہے وزیرِ اعلیٰ صوبہ ہو یا وزیرِ اعلیٰ مرکز فورًا اس کے نام سفارش کردیتے، میں تو بعض دفعہ عرض کردیتا تھا کہ آپ سے اگر کوئی یہ سفارش کراوے کہ پنتھ صاحب وزیرِ اعلیٰ یوپی استعفا دے کر مجھے اپنی جگہ وزیرِ اعلیٰ کردیں تو آپ اس کی بھی سفارش فرمادیں ! حضرت ہنس دیتے مجھے سفارش میں ہمیشہ اسی واسطے گرانی رہی کہ اب سفارش سفارش کے درجہ میں نہیں رہی، جس کے متعلق اِشْفَعُوْا تُوْجَرُوْا، وَلْیَقْضِ اللّٰہُ عَلٰی لِسَانِ رَسُوْلِہ مَاشَائَ ارشاد فرمایا گیا ہے اسی بنا پر مجھے سفارش سے ہمیشہ گھبراہٹ رہی کہ وہ اب سفارش کے درجہ میں نہیں بلکہ وہ اب بار اور حکم کے درجہ میں ہوگئی۔ حضور اقدس صلی اللہ عليہ وسلم کے متعدد اِرشادات ہدیہ کے قبول کرنے کی ترغیب میں وارِدہوئے ہیں ، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد بخاری شریف میں وارد ہوا ہے کہ ہدیہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کے زمانہ میں تو ہدیہ تھا، اب تو رشوت ہے اور سچ فرمایا ایک دفعہ میرے عزیز مولوی ظہیر الحسن مرحوم نے یہ کہا کہ اگر کوئی شخص میری سفارش قبول نہ کرے تو میری ہمیشہ کے لیے اس سے لڑائی ہوجاتی ہے اس سے تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں جانا آنا بھی بند کردیتا ہوں ۔
میں نے مرحوم سے کہا کہ جو میری سفارش رد کردے مجھے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے بہ نسبت اس سے کہ جو اِس کو قبول کر لے ! اس لیے کہ سفارش قبول کرنے والے کے متعلق مجھے یہ فکر ہوجاتی ہے کہ کہیں اس پر بوجھ نہ پڑا ہو ! اسی بناپر تقسیم سے پہلے مسلمان حاکم جو بکثرت آتے تھے اور جو مسلمان حاکم آتا تھا وہ کہیں سے آنے سے پہلے اس سیہ کار کا نام سن لیتا تھا اور آنے کے بعد بہت جلد ملاقات کے لیے آیا کرتا تھا اور میرا ہمیشہ یہ دستور رہا کہ جب کوئی مسلمان حاکم آتا تو ابتدائی ملاقات میں اس کا بہت اعزاز کر کے اس کو بہت اکرام سے درخواست کرتا کہ آئندہ کرم نہ فرماویں اور جب وہ بہت تعجب سے پوچھتے کہ کیوں ہماری تو خواہش یہ ہے کہ بہت کثرت سے حاضر ہوں ، تو میں ان سے کہتا کہ آپ تو حاکم ہیں آپ تک تو لوگوں کی رسائی مشکل اور جاتے ہوئے ڈریں گے اور اِس غریب پر ہر شخص مسلط رہے گا کہ جج صاحب ،ڈپٹی صاحب، منصف صاحب تیرے یہاں آتے ہیں ہماری سفارش لکھ دے یہ ناکارہ مصیبت میں پھنس جاوے گا۔
ایک آدھ صاحب نے تو میری درخواست قبول کی اور دو ڈپٹیوں کے متعلق جن کے نام کے اندر تردّد ہے اور ان سے بے تکلفی بہت ہوگئی تھی انہوں نے کہا آنا کبھی نہ چھوڑیں گے آپ جتنا چاہے منع کریں اس کا اطمینان دلاتے ہیں کہ ناحق میں آپ کی سفارش قبول نہ کریں گے میں نے ان سے بہت ہی کہا کہ قبول کرنا آپ کا کام ہے اور بعد کا کام ہے میں تو مصیبت میں پھنس جاؤں گا ! ١
حضرت مدنی اور حضرت شیخ کا ایک دلچسپ مکالمہ :
اور میرے حضرت مدنی کے یہاں سفارش کا تو صلائے عام تھا، روز مرہ کا یہی قصہ رہتا تھا جہاں تک مدرسہ کی حدود میں گنجائش ہوتی تعمیل ارشاد میرے لیے فخر تھا لیکن جہاں میرے خیال میں مدرسہ کے قوانین کے خلاف ہوتا وہاں کسی موقع پر معذرت کردیتا۔
ایک صاحب ایک مرتبہ بڑی زوردار سفارش حضرت مدنی کی لائے، خط میرے نام تھا میں نے خط کو پڑھ کر بے ادبی کے ساتھ ایسے رکھ دیا کہ جیسے کوئی چیز تھی ہی نہیں ، وہ صاحب کہنے لگے آپ اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ یہ خط حضرت کا میرے نام ہے اس میں یہ نہیں لکھا کہ آپ مجھ سے جواب طلب کریں ، میں حضرت کے خط کا اپنے آپ جواب لکھ دوں گا، آپ کو جواب لینے کے لیے نہیں لکھا، کہنے لگے کہ آپ اس پر لکھ دیجیے کہ میں قبول نہیں کرتا ۔ میں نے کہا کہ آپ کو تو جواب دینے کو اِس میں لکھا نہیں ، کہنے لگے پھر میری سفارش واپس کردیجیے، میں نے کہا یہ حضرت کا والا نامہ میرے نام ہے آپ قاصد ہیں آپ نے خط پہنچادیا، آپ دوبارہ حضرت سے لکھواکر لائیے کہ میں نے جو خط بھیجا تھا وہ ان ہی کے ہاتھ واپس کردیا جائے، بہت دیر تک انہوں نے مجھے دق کیا، میں نے کہا کہ آپ کا اس خط سے کوئی واسطہ ہی نہیں ، آپ کے ہاتھ حضرت نے ایک خط بھیجا ہے جیسا کہ ڈاکیہ کے ہاتھ بھیجتے ہیں ، کہنے لگے میرے متعلق ہے ،میں نے کہا آپ کو کیا حق تھا اس خط کے
١ آپ بیتی ص ٢٢٢ تا ٢٢٤
پڑھنے کا جو میرے نام تھا، کہنے لگے میں نے ہی لکھوایا تھا میں نے کہا کہ آپ نے حضرت سے اس کی اجازت لے لی تھی کہ آپ اس خط کو پڑھیں گے۔ بہرحال میں نے یہ خط واپس نہیں کیا اور تعمیل بھی نہیں کی اور جب کئی روز بعد حضرت قدس سرہ تشریف لائے تو میں نے زبانی معذرت کردی۔ حضرت نے فرمایا میں نے کوئی حکم نہیں دیا ، سفارش ہی تو کی تھی میں نے عرض کیا کہ بعضوں کی سفارش حکم کا درجہ رکھتی ہے ! حضرت مدنی کے ساتھ تو اس نوع کے بہت سے واقعات پیش آئے، مدرسہ کے طلبہ اور ملازمین کے سلسلہ میں بھی اور سیاسی مسائل میں بھی ! ١
تقریبات میں شرکت اور اَکابر کا معمول :
میری ان ہی بری عادات میں سے ایک بری عادت ساری عمر بچپن سے شادیوں میں شرکت سے نفرت، لیکن اس کے بالمقابل جنازوں میں شرکت کی رغبت، اہمیت ! دونوں کے چند واقعات آپ بیتی کے لکھواؤں گا، شادیوں میں جانے سے مجھے ہمیشہ پچپن سے وحشت سوار رہی حالانکہ بچپن میں ان کا بہت ہی شوق ہوتا ہے اور بعض دفعہ تو ( فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْم) ٢ پر مجھے عمل کرنا پڑتا تھا اور اس میں کچھ کذب یا توریہ نہیں تھا کہ امراضِ ظاہرہ سے زیادہ امراضِ باطنہ کاشکار رہا اور جوں جوں امراضِ باطنہ میں کمی ہوتی رہی امراضِ ظاہرہ اس کا بدل ہوتے رہے اس لیے ( اِنِّیْ سَقِیْم) سے کوئی دور بھی خالی نہیں تھا اور کبھی کبھی حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے اُسوہ پر بھی عمل کرنا پڑا اگرچہ یہ سیہ کار اپنے کابر کا اتباع کسی جگہ بھی نہ کر سکا ! میرے اکابر کے اس میں ہمیشہ دو نظریے رہے ایک حضرت سہارنپوری اور حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہما کا کہ اگر سفر سے کوئی عذر مانع ہوا تو صفائی سے کہہ دیا کہ وقت نہیں ہے اور فرصت نہیں ہے اس کے بالمقابل حضرت شیخ الہند اور حضرت مدنی اور ہر دو حضرت رائے پوری نور اللہ مراقدہم کا یہ معمول رہا کہ یہ لوگ اصرا کرنے والوں کے سامنے بالکل عاجز ہوجاتے تھے اور ہتھیار ڈال دیتے تھے، خواہ کتنی ہی مشقت اُٹھانی پڑے !
١ آپ بیتی ص ٢٢٦، ٢٢٧ ٢ سُورة الصَّفات : ٨٨ ،٨٩
میں نے حضرت اقدس مدنی اور حضرت رائے پوری سے علیحدہ علیحدہ دو موقعوں پر ایک ہی سوال کیا کہ جب مجبوری ہو اور معذوری ظاہر ہو تو شدت سے آپ کیوں نہیں انکار کرتے ؟ دونوں اکابر نے اللہ بلند درجات عطا فرمائے بڑا قابلِ اتباع وعبرت جواب دیا، اگرچہ دونوں نے مختلف عبارتوں سے جواب ارشاد فرمایا، یہ فرمایا کہ اِس کا ڈر لگنے لگتا ہے کہ اگریہ مطالبہ ہو کہ ہم نے اپنے ایک بندے کو تیرے پاس بھیجا تیری کیا حقیقت تھی ؟ ہم نے ہی تو اس کو بھیجا تھا تو نے اس کو ٹھکرا دیا تیری کیا حقیقت تھی اس کاکیا جواب دوں گا ؟ حضرت شیخ الہند کے جس معمول کا اوپر ذکر کیا گیا وہ یہ تھا کہ جب کوئی مجبور کرتا اور جانے میں کوئی معذوری ہوتی تو کوئی مسہل دوانوش فرما لیا کرتے تھے اسہال کا عذر ایسا ہے کہ ہر ایک کو محسوس ہوتا ہے صاف انکار کرنے سے اپنے کو مشقت میں ڈالنا ان اکابر کو آسان تھا ١
البتہ اس سلسلہ میں ایک نہایت بری عادت یہ بھی رہی کہ تعزیت میں آنے والے کبھی اچھے نہیں لگے، اگرچہ یہ ناکارہ ہمیشہ دوسروں کی تعزیت میں اطلاع پاتے ہی پہنچا اس لیے کہ لوگوں کو بہت شدت سے میرے جانے کا اہتمام ہوتا بہت شدت سے منتظر رہتے لیکن مجھے میری تعزیت کے واسطے آنے والے کبھی اچھے نہیں لگے، اِلا ماشاء اللہ ! حضرت مدنی، حضرت رائے پوری نور اللہ مرقدہما جیسے تومستثنیٰ تھے کہ اِن کی آمد سے واقعی تعزیت ہوتی تھی، لیکن عام آنے والوں کو نہایت شدت سے منع کردیتا تھا ! ٢ (جاری ہے )
١ آپ بیتی ص ٢٣٥،٢٣٦ ٢ آپ بیتی ص ٢٣٧
تربیت ِ اولاد قسط : ٧
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیرِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ !
اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
پیدائش اور اُس کی متعلقات
حالت ِ حمل میں والدین کے لیے ضروری ہدایات :
ایک تجربہ کی بات بتلاتا ہوں کہ اگر بچہ پیدا ہونے سے پہلے والدین اپنی حالت کو دُرست کرلیں تو بچہ نیک ہی پیدا ہوگا ! بچہ کی پیدا ئش سے پہلے بھی جو اَفعال اَحوال والدین پر گزر تے ہیں اُس کا بھی اَثر بچہ میں آتا ہے ! چنانچہ ایک بزرگ کا بچہ بڑا شریر تھا کسی نے اُن سے کہا کہ یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آپ تو ایسے بزرگ اور آپ کا بچہ ایسا شریر ؟ فرمایا ایک دن میں نے ایک امیر (غیرمحتاط مالدار ) کے گھر کا کھانا کھا لیا تھا اِس سے نفس میں ہیجان پیدا ہوا، اُس وقت میں اس کی ماں کے پاس گیا اور حمل قرار پا گیا تو یہ بچہ اُس مشتبہ غذا کا ثمرہ ہے ! اس سے معلوم ہوا کہ حمل قرار پانے کے وقت والدین کی جو حالت ہوتی ہے اچھی یا بری اُس کا بھی اَثر بچہ میں آتاہے۔ (حقوق البیت)
حالت ِ حمل میں بھی بچہ پر اُس کے ماں باپ کا اَثر پڑتا ہے :
بعض کتابوں میں ایک حکایت لکھی ہے کہ میاں بیوی نے آپس میں یہ صلاح کی آو ہم دونوں سب گناہوں سے توبہ کرلیں اور آئندہ کوئی گناہ نہ کریں تاکہ بچہ نیک پیدا ہو چنانچہ اس کا اہتمام کیا گیا اسی حالت میں حمل قرار پایا اور بچہ پیدا ہوا تو وہ بہت صالح اور نیک پیدا ہوا !
ایک روز اُس بچہ نے کسی دُکان سے ایک بیر چرایا (اور کھالیا) مرد نے بیوی سے کہا کہ سچ بتلا یہ اَثر کہاں سے آیا ؟ اُس نے بیان کیا کہ پڑوسی کے گھر میں جو بیری کا درخت کھڑا ہے اُس کی ایک شاخ ہمارے گھر میں ہے اُس میں ایک بیر لگا تھا میں نے وہ توڑ کر کھا لیا ! مرد نے کہا بس اُس کا اَثر آج ظاہر ہوا ! پس اَولاد نیک ہونے کے لیے پہلا درجہ تو یہ ہے کہ والدین خود نیک بنیں ۔ (حقوق البیت)
پہلا لڑکا باپ کے گھر میں ہونے کو ضروری سمجھنا :
یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ جہاں تک ہو سکے پہلا بچہ باپ ہی کے گھر میں ہونا چاہیے جس سے بعض وقت بچہ ہونے کے قریب زمانہ میں بھیجنے کی پابندی میں یہ بھی تمیز نہیں رہتی کہ سفر کے قابل ہے یا نہیں ؟ جس سے بعض اوقات کوئی بیماری ہوجاتی ہے حمل کو نقصان ہوجاتا ہے مزاج میں ایسا تغیر اور تکان ہوجا تا ہے کہ اُس کو اور بچہ کو ایک مدت تک بُھگتنا پڑتا ہے بلکہ تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ اکثر بیماریاں بچوں کو زمانۂ حمل کی بے احتیاطی سے ہوتی ہیں !
غرض یہ کہ دو جانوں کا نقصان اس میں پیش آتا ہے پھر یہ کہ ایک غیر ضروری بات کی اس قدر پابندی کہ کسی طرح ٹلنے ہی نہ پائے اپنی طرف سے ایک نئی شریعت بنانا ہے خصوصاً جبکہ اُس کے ساتھ یہ بھی عقیدہ ہو کہ اِس کے خلاف کرنے سے کوئی نحوست ہوگی یا ہماری بدنامی ہوگی ! نحوست کا اعتقادتو شرک کا شعبہ ہے اور بدنامی کا اندیشہ تکبر کا شعبہ ہے جس کا حرام ہونا قرآن و حدیث دونوں میں منصوص ہے اور اکثر خرابیاں اور پریشانیاں اسی ننگ و ناموس کی بدولت گلے کا طوق بن گئی ہیں (اصلاح الرسوم، بہشتی زیور)
بچہ پیدا ہوتے وقت ستر اور پردہ پوشی کے ضروری احکام :
دائی جنائی (یعنی بچہ پیدا ہوتے وقت) دائی کے سامنے بدن کھولنے کا حکم یہ ہے کہ ضرورت کے وقت اُس کے سامنے بدن کھولنا دُرست ہے لیکن جتنی ضرورت ہے اس سے زیادہ کھولنا درست نہیں بچہ پیدا ہونے کے وقت یا کوئی دواء لیتے وقت فقط اُتنا ہی بدن کھولنا چاہیے با لکل ننگی ہوجانا جائز نہیں ! اس کی آسان صورت یہ ہے کہ کوئی چادر وغیرہ بندھوادی جائے اور ضرورت کے موافق دائی کے سامنے بدن کھول دیا جائے، رانیں وغیرہ نہ کھلنے پائیں اور دائی کے علاوہ کسی اور کو بدن دیکھنا دُرست نہیں ! بالکل ننگی کر دینا اور ساری عورتوں کے سامنے بیٹھ کر دیکھنا حرام ہے۔ حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ستر دیکھنے والی اور دِکھلانے والی دونوں پر خدا کی لعنت ہو ! اس قسم کے مسئلوں کا خوب خیال رکھنا چاہیے !
اگر دائی سے پیٹ ملوانا ہو تو ناف سے نیچے بدن کا کھولنا دُرست نہیں ! دو پٹہ و غیرہ ڈال لینا چاہیے ! بلا ضروت دائی کو دِکھانا بھی جائز نہیں اور یہ جو دستور ہے کہ پیٹ ملتے وقت دائی دیکھتی ہے اور دُوسرے گھر والی ماں بہن وغیرہ بھی دیکھتی ہیں یہ جائز نہیں !
کا فر عورتیں جیسے بھنگن چمارن وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ جتنا پردہ نا محرم مرد سے اُتنا ہی اِن عورتوں سے بھی واجب ہے سوائے منہ اور گٹے تک ہاتھ اور ٹخنے تک پیر کے اور کسی ایک بال کا کھولنا بھی دُرست نہیں ! سر ، پورا ہاتھ اور پنڈلی اُن کے سامنے مت کھولو ! اور اِس سے یہ بھی سمجھ لو کہ اگر دائی جنائی نرس ہندو یامیم ہو تو بچہ پیدا ہونے کا مقام تو اُس کو دکھانا درست ہے، اور سر وغیرہ اور اعضاء اُس کے سامنے کھولنا دُرست نہیں ۔ (بہشتی زیور)
مسنون طریقہ :
بچہ ہونے کے وقت یہ باتیں مسنون ہیں :
بچہ کو نہلادُھلا کر اُس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی جائے ! اور کسی دیندار بزرگ سے تھوڑا چھوارہ چبوا کر اُس کے تالو میں لگادیا جائے ! اِس کے سوا باقی رسمیں اور اَذان دینے کی مٹھائی وغیرہ پابندی کے ساتھ یہ سب فضول اور عقل کے خلاف اور مکروہ ہیں ۔ (اصلاح الرسوم ،بہشتی زیور)
تَحنِیک :
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ سے کسی نے دریافت کیا کہ تَحنِیک یعنی جب بچہ پیدا ہو تو بچہ کے منہ میں کوئی چیز چبا کر ڈالنے کا حکم کیا ہے ؟ فرمایا کوئی دیندار عالم متبع سنت ہو تو مسنون ہے ورنہ بدعتی کا تھوک چٹانے کا کیا فائدہ !
بچہ کے کان میں اَذان و تکبیر کہنے کی حکمت :
بعض اہلِ لطائف نے لکھا ہے کہ مولود (پیدا ہونے والے بچے ) کے کان میں جو اَذان کہی جاتی ہے اس میں ایک نکتہ ہے اُس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کو سنا رہے ہیں کہ اذان و تکبیر ہوگئی ہے اب جنازہ کی نماز کے منتظر رہو ! ! اور یہ بھی حکمت ہے کہ اذان و تکبیر میں اللہ کا نام ہے تو شروع ہی سے اُس کے کان میں اللہ کا نام اس لیے لیا جاتا ہے کہ اِیمان کی استعداد قوی ہوجائے اور شیطان اِس سے دُور ہوجائے ! اور دونوں حکمتوں میں گویا اشارہ ہے اس طرف کہ دُنیا میں غافل ہو کر نہ رہنا۔ (جاری ہے)
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)
رحمن کے خاص بندے قسط : ١٨
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
دینداری میں میانہ روی کی تاکید :
اسلام میں ہر چیز میں اعتدال مطلوب اور پسندیدہ ہے حتی کہ دین پر عمل کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کی تاکید کی گئی ہے کہ آدمی نہ تو ایسا بے پروا ہوکہ فرائض وواجبات سے غفلت برتنے لگے اور نہ ہی عبادات میں ایسا منہمک ہوکہ واجبی حقوق کی ادائیگی میں بھی کوتاہی کرنے لگے بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پیش ِنظر رکھ کر زندگی گزارنی چاہیے اور اِفراط وتفریط سے بچنا چاہیے چنانچہ صحیح روایات میں وارد ہے کہ صحابی رسول سیّدناعبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوی پوری رات عبادت میں گزار دیتے تھے اور مسلسل روزہ رکھتے تھے، جب ان کی یہ حالت نبی اکرم علیہ الصلٰوة والسلام کو معلوم ہوئی تو آپ نے انہیں بلایا اورفرمایا کہ ''مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور پوری رات قرآنِ پاک پڑھتے ہو ؟ '' تو انہوں نے عرض کیا کہ ''اے اللہ کے رسول بات ایسی ہی ہے لیکن اس سے میرا مقصد توصرف خیر کاحصول ہی ہے '' تو پیغمبرعلیہ الصلٰوة والسلام نے فرمایا کہ
''تمہارے لیے ہر مہینہ میں بس تین روزے کافی ہیں '' تو حضرت عبداللہ نے عرض کیا کہ'' میں اس سے زیادہ روزے رکھنے پر قادر ہوں '' تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ '' تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے مہمانوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے بدن کا بھی تم پرحق ہے اس لیے تمہیں اگر روزہ رکھنا ہی ہے تو تم اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلامکے طریقے پر روزہ رکھو جو لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے'' تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ'' اے اللہ کے رسول ! حضرت داؤد علیہ السلام والا روزہ کیا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ''وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بے روزہ رہتے تھے''
پھر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''ہر مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو'' تو انہوں نے عرض کیا کہ ''میں اور زیادہ پڑھ سکتا ہوں '' تو آپ نے فرمایا کہ ''ہر بیس دن میں ایک قرآن ختم کیا کرو'' تو انہوں نے عرض کیا کہ ''میں اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہوں '' تو آپ نے فرمایا کہ ''پھر دس دن میں ختم کیا کرو'' پھر انہوں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ پڑھ سکتا ہوں ''تو آپ نے فرمایا کہ ''اچھا سات دن میں ختم کیا کرو اور اس سے زیادہ مت کرو ! اس لیے کہ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملنے جلنے والوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے''
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود ہی اپنے اوپر سختی کی جس کی وجہ سے مجھے سخت مشقت برداشت کرنی پڑی اور حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے مجھ سے یہ بھی فرمایا تھا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ ہوسکتا ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہو (اور تمہیں اپنا معمول پر برقرار رکھنا مشکل ہو) چنانچہ جب میں بڑی عمر کو پہنچا تو اب مجھے یہ خواہش ہونے لگی کاش میں حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی رخصت قبول کرلیتا !
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ''اگر میں حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی ہر مہینے میں تین روزے رکھنے والی والی بات قبول کر لیتا تو یہ میرے لیے سب گھر بار سے زیادہ پسندیدہ بات ہوتی'' ١
اس واقعہ سے صاف معلوم ہوا کہ تحمل سے زیادہ معمولات بنانا بہتر نہیں ہے !
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ تین حضرات (جن کے نام درج ذیل ہیں : حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم) ازواجِ مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام کی عبادات کے معمول کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب انہیں آپ کے معمولات کا پتہ چلا تو اسے انہوں نے اپنی دانست میں بہت کم سمجھا اور یہ کہنے لگے کہ ہمارا پیغمبر سے کیا مقابلہ ؟ آپ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے گئے ہیں ! پھر ان تینوں میں سے ایک نے یہ کہا کہ : ''میں تو اب زندگی بھر ہر رات نماز ہی میں گزاروں گا''
١ صحیح مسلم ج١ ص ٣٦٥ رقم الحدیث ١١٨ ، ١٨٣، ١١٥٩
اور دوسرے صاحب نے یہ کہا کہ : ''میں اب ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی بھی بے روزہ نہ رہوں گا''
اور تیسرے صاحب نے یہ کہا کہ : میں تازندگی عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا'' نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کو جب ان لوگوں کی یہ باتیں معلوم ہوئیں تو آپ نے ان سے ارشاد فرمایا :
اَمَا وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہ لٰکِنِّیْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَ اُصَلِّیْ وَ أَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ۔ ١
سنو اللہ کی قسم، میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تقویٰ والی زندگی گزارنے والا ہوں ، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور بے روزہ بھی رہتا ہوں ! اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں ! اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ! پس جو شخص میرے طریقہ سے اعراض کرے اُس کا مجھ سے تعلق نہیں ''
اور مجمع الزوائد میں ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ مالدار صحابی تھے انہوں نے یہ طے کر لیا کہ ہمیشہ دن میں روزے رکھیں گے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہیں گے، اسی درمیان ان کی اہلیہ (جو کافی حسین وجمیل تھیں ) بعض ازواجِ مطہرات کے پاس گئیں تو انہوں نے ان کی بری حالت (سادہ کپڑے وغیرہ) دیکھ کر اس کی وجہ دریافت کی ! اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے جواب دیا کہ ''ہمارا عثمان سے اب کیا واسطہ ؟ وہ دن بھر روزے سے رہتے ہیں اور رات بھرعبادت کرتے ہیں '' یہ بات ازواجِ مطہرات نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے نقل کردی چنانچہ جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا
''اے عثمان ! کیا میری زندگی تمہارے لیے کوئی اُسوہ اور نمونہ نہیں ہے ؟ ''
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا '' میرے ماں باپ آپ پر قربان ! اے اللہ کے رسول وہ کیا اُسوہ ہے ؟ ''تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور دن میں روزے رکھتے ہو حالانکہ تمہاری اہلیہ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہار ے بدن کا بھی تم پر حق ہے لہٰذا نماز بھی پڑھو
١ صحیح البخاری کتاب النکاح باب الترغیب فی النکاح ج ٢/ ص٧٥٧
اور سوؤ بھی اور روزہ رکھو اور بے روزہ بھی ر ہو'' چنانچہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نصیحت پر عمل کیا بعد میں جب ازواجِ مطہرات نے ان کی بیوی کو دیکھا تو خوب خوشبو لگائے ہوئے تھیں اور خوش تھیں ! ١
اور بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے دینداری کے شوق میں عورتوں سے الگ تھلک رہنے کی اجازت چاہی تھی جس کو پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے نامنظور فرمادیا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر نبی اکرم علیہ الصلٰوة والسلام حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اس کی اجازت دے دیتے تو ہم سب اپنے کو خصی کرالیتے (تاکہ خواہش نفس باقی ہی نہ رہتی) ٢
اس سے یہ پتہ چلا کہ یہ کوئی دینداری نہیں ہے کہ آدمی سب سے الگ تھلگ ہوکر سنیاسی اور راہب بن جائے یہ فطرت کے خلاف ہے ! اور دنیوی مصالح کے بھی معارض ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر سب لوگ اسی راستہ پر چل پڑیں تو جلد ہی دنیا ویران ہوجائے گی اور سارا نظام عالم خربطہ میں پڑجائے گا اس لیے اسلام جیسا دین فطرت اس بے اعتدالی کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جن فرقوں نے بھی اس راستہ کو اپنایا ہے وہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں پوری طرح ناکام رہے ہیں اور بالآخر فطرت کے آگے سپر ڈالنے پر انہیں مجبور ہونا پڑا ہے جیسا کہ عیسائیوں کے بارے میں قرآنِ پاک میں فرمایا گیا :
( وَرَھْبَانِیَّةَ نِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ اِلَّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا ) ( سُورة الحدید : ٢٧ )
''اور جس رہبانیت (ترکِ لذات) کو انہوں نے دین میں ایجاد کیا تھا اُس کو ہم نے ان پر لازم نہیں کیا تھا بلکہ ان پر صرف اللہ کی رضا جوئی لازم تھی پس انہوں نے اُس (اپنے مزعومہ طریقے) کی کما حقہ رعایت نہیں رکھی''
١ مجمع الزوائد ٤/ ٣٠٢ ٢ صحیح البخاری کتاب النکاح باب ما یکرہ من التبتل والخصاء ٢/ ٧٥٩
اسی بنا پر اسلام میں رہبانیت کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور جائز حدود میں رہ کر دنیوی نعمتوں سے فائدہ اُٹھانے کی کھلی اجازت دی گئی ہے چنانچہ ارشاد ِ خدواندی ہے :
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ) ( سُورة المائدة : ٨٧ )
'' اے ایمان والو ! اللہ نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو اپنے اُوپر حرام مت کرو اور حد سے تجاوز مت کرو، یقینا اللہ تعالیٰ کو حد سے آگے بڑھنے والے لوگ پسند نہیں ہیں ''
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أَحَبُّ الْاَدْیَانِ اِلَی اللّٰہِ الْحَنِیْفَةُ السَّمْحَةُ ۔ ١
''اللہ کو سب سے پسندیدہ دین وہ ہے جو بالکل راہ راست پر ہو اور آسان ہو''
یعنی سب سے کامل دینداری یہ ہے کہ آدمی باطل افکار و نظریات سے دُور ہو اور سادگی اور سہولت کے ساتھ اس طرح دین پر عمل کرنے والا ہو کہ اُس پر قائم رہنے میں اُسے کوئی دُشواری پیش نہ آئے ! یہی مذہب ِ اسلام کی امتیازی خوبی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری اُمت کو اعتدال واِستقامت کی دولت سے مالا مال فرمائیں اور بے اعتدالی سے محفوظ رکھیں ، آمین۔ (جاری ہے)
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
١ الجامع الصغیر للسیوطی مع التیسر للمناوی ١ / ٣٩ المکتبة الشاملة
سبق آموز تاریخی حقائق قسط : ٢
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے زُہد و قناعت،
فضل و کمال اور خدا ترسی کے بعض گوشے
انتخاب : حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی (مرتب فتاویٰ دارُالعلوم دیوبند)
عنوانات : حضرت مولانا تنویر احمد صاحب شریفی، مجلس یادگار شیخ الاسلام پاکستان کراچی
٭٭٭
عالمانہ ذمہ داری کا احساس :
جیسا کہ آپ جانتے ہیں حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ ایک خدا ترس بزرگ تھے اور اپنی لغزش کو کبھی نہیں چھپاتے تھے۔ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ عموماً مسئلہ پوچھنے والوں کو کسی دوسرے بزرگ کا نام بتادیا کرتے، ایک دفعہ کا واقعہ لکھا ہے :
''مولانا محمد قاسم صاحب میرٹھ میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے عشاء کے وقت ایک مسئلہ پوچھا آپ نے اس سوال کا جواب دیا۔ سائل جب چلا گیا تو آپ کے ایک شاگرد نے عرض کیا کہ مجھے یہ مسئلہ یوں یاد ہے۔ آپ نے فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو اب مستفتی کو تلاش کرنا شروع کیا، رات کافی گزر چکی تھی تلاش پر اصرار جب زیادہ بڑھا تو لوگوں نے عرض کیا رات زیادہ ہوگئی ہے اب آرام فرمائیے۔ ہم صبح ہونے پر اس کو بتادیں گے لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا، خود بنفس ِنفیس سیدنا الامام الکبیر اُٹھے اور رات کی اسی تاریکی میں اس مسئلہ پوچھنے والے کے مکان پر تشریف لے گئے، گھر میں سے اس کو بلایا اور فرمایا : ہم نے اُس وقت مسئلہ غلط بتلادیا تھا تمہارے آنے کے بعد ایک شخص نے صحیح مسئلہ ہم کو بتلایا اور وہ اس طرح ہے'' ١
١ سوانح قاسمی ج١ ص ٨٨، ٣٦٧
اللہ اکبر ! بے نفسی اور للہیت کا یہ عالم اور اس سے بڑھ کر دین کے باب میں یہ بلیغ اہتمام اور اپنی عالمانہ ذمہ داری کا اتنا زبردست احساس ! اللہ تعالیٰ قیامت تک آپ کی قبر پُر نور پر رحمت کے پھول برسائے، اپنے بعد والوں کے لیے ایک عمدہ نمونہ قائم فرماگئے رات کی تاریکی میں بنفس ِنفیس چل کر مستفتی کے گھر آنااور پھر اپنی غلطی بتا کر یہ کہنا کہ ''ایک شخص نے ہم کو صحیح مسئلہ بتایا'' خدا ترسی کا کتنا زبردست ثبوت ہے ! ! !
اے کاش ! ہمارے نوجوان علمائِ کرام ان واقعات کو عبرت و بصیرت کی نظر سے پڑھتے اور اسی نقش ِ قدم پراپنی سیرت کی تعمیر کرتے ! آج کاروشن خیال طبقہ اِس واقعہ کو پڑھ کر شاید قہقہ لگائے کہ آخر مولوی تھے، بے وقوفی کی انتہا کردی ! آخر اتنی رات گئے سائل کے گھر پہنچنا اور مسئلے کی صحیح نوعیت بتانا کیا ضروری تھا ؟ اور پھر اس کے اظہار کی کیا ضرورت تھی ؟ ایک دوسرے شخص نے صحیح مسئلہ بتایا جس سے اپنی سبکی ہوئی ؟ مگر کیسے یقین دلاؤں کہ یہی سب سے بڑاکمال تھا ! آج واعظ دوسروں کے لیے بتاتے ہیں اور خود کورے ہیں ! !
شاہ جہان پور کا میلہ ''خدا شناسی''عہد ِ قاسمی کا بہت مشہور واقعہ ہے۔ اس میلے میں ہزاروں ہندو عیسائی اور دوسرے اَدیان ومذاہب کے ماننے والوں کااجتماع ہوا تھا جس میں ہرمذہب ودین کے مبلغ اور اہلِ علم بھی شریک تھے۔ حضرت نانوتوی رحمةاللہ علیہ نے بھی رحمت ِ عام صلی اللہ عليہ وسلم کے ''خلق عظیم'' پر ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی تھی، آپ نے اپنی تقریر میں جب مجمع کو خطاب کرکے فرمایا :
انصاف سے کوئی صاحب بتلائیں تو سہی، اس قسم کے اخلاق کا کوئی شخص ہوا ہے ؟ تو دیکھا کہ سننے والوں پر ایک کیفیت تھی، ہرکوئی ہمہ تن گوش تھا اور مولوی (محمد قاسم) صاحب کی جانب تک رہا تھا ! کسی آنکھوں میں سنتے ہیں آنسو، کسی کی آنکھوں میں حیرت، اور یہ حال عوام ہی کا نہ تھا بلکہ پادریوں کی یہ حالت تھی کہ ششدروبے حس و حرکت بنے ہوئے تھے ! انہیں پادریوں میں سے ایک پادری شاہ جہان پور سے بریلی پہنچ کر ایک صاحب کے آگے حضرت نانوتوی کی تقریر کی دل دوزیوں کا ذکر ان الفاظ میں کرنے لگا : اگر تقریر پر ایمان لایا کرتے تو اس (قاسم نامی) شخص کی تقریر پر ایمان لے آتے ایک نیک دل ہندو نے اپنے احساس کا اظہار اِن الفاظ میں کیا تھا کہ ایسی تقریریں بیان کیں کہ پادریوں کو جواب نہ آیا، کوئی اوتار ہوں تو ہوں '' (سوانح قاسمی ج١ ص ٣٩٩)
یہ اُس کی تقریر کا اثر ہے جو اپنے کو زیادہ سے زیادہ بے حیا واعظ کہا کرتا تھا ۔ یہ سب کیا تھا ؟ عمل اور خدا ترسی کا نتیجہ تھا کہ رب العزت نے وعظ و تقریر میں یہ اَثر دیا تھا، نام و نمود اور شہرت سے چڑ تھی ! تصنع اور تعلِّی سے کوسوں دُور تھے ! جو کہتے اخلاص و للہیت کی بنیاد پر کہتے ! آج کل کے پیشہ ور واعظوں کو اِس سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو صرف دوسروں ہی کے لیے بتاتے ہیں اور خود خالی دامن رہ جاتے ہیں ۔
جس مقرر کی تقریر کی اثر انگیزی کا یہ عالم تھا جانتے ہیں یہ ''میلہ ٔ خدا شناسی'' تک کس طرح پہنچا تھا ؟ کیا کاریا پالکی پر ؟ ہزاروں انسانوں کے جلوس کے آگے ؟ نعرہ ٔ تحسین اور زندہ باد کے شور کے ساتھ گیا تھا ؟ آہ ! کیونکر یقین دلایا جائے کہ یہ مقرر ٹیپ ٹاپ سے کوسوں دُور تھا حضرت مولانا احمد حسن اَمروہوی جیسے عالمِ بے بدل کا بیان ہے اور بیان کیا چشم دید گواہی ہے فرماتے تھے :
''شاہ جہان پور سے خدا شناسی میلے تک جانے کے لیے راستے میں ایک ندی پڑتی تھی، مولانا (محمد قاسم) صاحب پیدل جا رہے تھے ندی میں پانی تھا پاجامہ پہنے ہوئے دریا میں اُتر پڑے جس سے پاجامہ بھیگ گیا پار اُتر کر لنگی باندھی اور پاجامہ اُتار کر نچوڑ کر اور پیچھے لاٹھی پر ڈال کر جیسے گاؤں کے رہنے والے ڈال لیا کرتے ہیں تشریف لے چلے'' (سوانح قاسمی ج ١ ص ٤٥٣)
''خدا شناسی میلے'' کے سب سے بڑے مقرر کو دیکھاکہ کیسی بے تکلفی سے ایک دیہاتی کی صورت میں جارہا ہے ؟ ( اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ)کی عملی تفسیر اس سے بہتر اور کیا ہوسکتی ہے ؟
ہندو پاک کے ایک ایک مشہور مقرر اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آج کوئی بھی اس نرالی شان سے کسی تبلیغی جلسے میں شرکت کے لیے اپنے آپ کو تیار پاتا ہے ؟ خدا گواہ ہے اگر شاندار استقبال نہ ہو، آمد و خرچ کے علاوہ منہ مانگی فیس یا نذرانہ نہ ملے تو خط کا جواب تک نہ آئے، آنا تو در کنار اور پھر بے بلائے آئے ناممکن !
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے ابو داؤد کا ایک حصہ حضرت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارنپوری سے پڑھا تھا، مگر اُستاذ کی نظر میں آپ کی کیا حیثیت تھی ؟ مولانا منصور علی خاں فرماتے ہیں :
''ایسے نکات ِحدیث وقت ِ درس کے مولانا قاسم صاحب نے بیان کیے کہ مولانا احمد علی صاحب مرحوم مجمع عام طلباء فارغ التحصیل کے رُوبہ رو ان توجیہاتِ مولانا مرحوم کو بیان فرماکر مولانا محمد قاسم صاحب کی بڑی تعریف کیا کرتے''
(سوانح قاسمی ج١ ص ٤٢٦)
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں آپ کا علم و فہم کتنا قابلِ رشک تھا، مگربایں ہمہ جانتے ہیں حضرت نانوتوی اپنے اُستاذ مولانا احمد علی صاحب کی کتنی تعظیم فرماتے ؟ اپنے کو ''کفش بردار ِاوشاں '' لکھتے !
آج تو اُستاذ کے مقابلے میں شاگرد کو آتا ہی کیا ہے، مگر بعض شاگردوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اُستاذ کے سامنے گاؤ تکیے کے سہارے پاؤں پھیلا کر بیٹھتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم چنیں ما دیگرے نیست
بریں عقل و دانش بہ بایدگریست ( ایسی عقل و دانش پر رونا چاہیے)
گھرکی کیفیت :
بانی ٔ دارُالعلوم دیوبند حضرت نانوتوی جن کے صدقے میں ہزاروں عالمانِ دین پیدا ہوئے اور جن کے عقیدت مندوں کی اس زمانے میں بھی کمی نہ تھی، مگر دیکھیے اس بوریہ نشین اور صحابۂ کرام کی زندگی کے عاشق کی رہائش کیسی تھی ؟ آپ کے شاگرد ِ رشید شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب ایک دفعہ فرمانے لگے :
''اس منقطع عن الخلق اور زاہد فی الدنیا ذات (حضرت قاسم العلوم والخیرات) کے حجرے میں کچھ بھی تو نظر نہ آتا تھا، چٹائی بھی اگر ایک تھی تو وہ بھی ٹوٹی ہوئی، گویا عمر بھر کے لیے اسی چٹائی کو منتخب فرمالیا تھا، نہ کوئی صندوق تھا،نہ کبھی کپڑوں کی گٹھری بندھی تھی''
آگے سفر کا حال بیان فرماتے ہیں :
''سفر میں بھی کوئی اہتمام نہ تھا، اگر کبھی ایک آدھ کپڑا ہو ا تو کسی کے پاس رکھوا دیا ورنہ اسی ایک جوڑے میں سفر پورا ہوتا جو حضر میں پہنے ہوتے ! البتہ ایک نیلی لنگی ساتھ رہتی تھی، جب کپڑے زیادہ میلے ہوگئے تو لنگی باندھ کر کپڑے اُتار لیے اور خود ہی دھولیے'' ( سوانح قاسمی ج١ ص ٤٥٢)
اسی کو کہتے ہیں صحابہ کرام کی سی زندگی ! نہ گھر میں سازو سامان، نہ رزق برق سجا سجایا کمرہ، نہ شیشہ اور آبنوس کی الماری، نہ بجلی کے حسین و جمیل قمقمے اور نہ اوپر اور بغل میں بجلی کا پنکھا، نہ بچھی ہوئی چاندنی وقالین اور نہ گدا اور گاؤ تکیہ ! حد ہے نہ ، ایک بکس ہی ہے کہ جس میں دُھلے دھلائے کپڑے یا کوئی سامان وقت ِضرورت رکھا جاسکے اور اس سے بڑھ کر کپڑوں کی گٹھری بھی شاگرد کو نظر نہ آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہلکے پھلکے اور ضرورت سے زیادہ کوئی چیز نہیں ۔ حدیث نبوی کُنْ فِی الدُّ نْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْب اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ کی عملی تفسیر ! لوگوں نے وعظ میں کہا اور سنا تو ہوگا اس کی عملی تفسیر شاید دیکھنے میں کبھی نہ آئی ہو ! اے جنت الفردوس کے رہنے والے ! تو نے اپنی زندگی کو اپنی روحانی اور عملی اولاد کے لیے سراپا نمونہ بناکر پیش کیا ! زمین وآسمان اور ہند کے درو دیوار گواہ ہیں کہ اس ہندوستان کی سرزمین کو ایک صحابی تو نہیں مگر صحابی کی سی زندگی کا شیدائی اور ایک عاشقِ رسول نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازا ہے !
اللہ اللہ ! سفر پر جا رہے ہیں مگر نہ کوئی خاص اہتمام ہے اور نہ کسی چیز کی کوئی فکر ! اور تو اور کپڑے بہت میلے ہوگئے تو اُتار کر خود اپنے دست ِ مبارک سے دھولیے ! ہمارے وہ پیر اور پیر زادے کہاں ہیں جو تزکیۂ قلب کے فرائض انجام دینے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر دنیا کی زیبائش وآرائش اور ٹیپ ٹاپ سے ان کو فرصت نہیں ! کوٹھی ،گدے دار کرسیوں اور قالین وگاؤ تکیے سے آراستہ ہے ! خدام اور دربانوں کا پہرہ لگا ہے ! سفر میں جارہے ہیں تو اتنا سامان ہے جتنا ایک اوسط درجے کے پورے گھر میں بھی نہیں ہوتا ! اور کہاں ہیں ہمارے وہ علمائِ کرام جو دنیا کی چند روزہ زندگی پر لوگوں کو وعظ کہہ کر سنایا کرتے ہیں اور خود سینکڑوں برس جینے کے سامان کے نیچے دبے پڑے ہیں !
یہ دیکھیے رحمت ِعالم صلی اللہ عليہ وسلم کے ایک سچے جانشین اور نائب کو ایک خدا ترس عالم باعمل اور اُولو العزم مبلغ اسلام کو ! اور ایک واقعی پیر اور عملی واعظ کو !
سفر و حضر میں کپڑوں کی فہرست :
یہیں یہ قصہ ختم نہیں ہوتا، حضرت مولانا نانوتوی رحمةاللہ علیہ کے جسم مبارک پر سفر و حضر میں جو لباس ہوتا اُس کی فہرست بھی ملاحظہ فرمالیجیے حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''بغیر کُرتے کے بندوں دار، اچکن (یا اَنگر کھا) اور پاجامہ، سردی ہوئی تو مختصر سا عمامہ، ورنہ عموماً کنٹوپ تمام سردی میں سر پر رہتا'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٤٥٢)
وہ مسلمان جو علمائے دین کو برا بھلا کہتے ہیں انصاف کریں اس سے بڑھ کر بھی سادگی ممکن ہے ؟ ؟ اور کیا اس میں صحابۂ کرام کی سی زندگی کی جھلک نہیں ہے ؟ ؟ اور یہ نہ سوچیے کہ یہ عارضی لباس تھا نہیں ! اسی طرز پر پوری زندگی گزار دی گئی ! مرض الوفات میں جو لباس جسم پر نظر آئے اس کی فہرست بھی ملاحظہ فرمائیے امیر شاہ خاں راوی ہیں :
''سر پر میلا اور پھٹا ہوا عمامہ جس میں لہرے پڑے ہوئے تھے اور چونکہ سردی کا زمانہ تھا اس لیے دھوترکی نیلی رنگی ہوئی مرزئی پہنے ہوئے تھے جس میں بند لگے ہوئے تھے اور نیچے نہ کرتہ تھا اور نہ انگر کھا تھا اور ایک رضائی اوڑھے ہوئے تھے جو نیلی رنگی ہوئی اور جس میں مومی گوٹ لگی ہوئی تھی جو پھٹی ہوئی تھی اور کہنہ تھی اور کہیں سے بالکل اُڑی ہوئی تھی '' (سوانح قاسمی ج١ ص ٤٥٣)
( باقی صفحہ ٦٤)
امیر پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم
کا ختم نبوة کانفرنس میں خطاب
٭٭٭
٢٦ اگست کو امیر پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم جمعیة علماء اسلام اقبال ٹائون کے زیر اہتمام ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کی غرض سے تشریف لے گئے اورمختصر بیان فرمایا قارئین ِ کرام ملاحظہ فرمائیں ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
( وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَانًا ) ( سُورة الِ عمران : ١٠٣ )
اس آیت ِکریمہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دے رہے ہیں کہ اللہ کی رسی کو مضبوط تھام لو اور اِس ارشاد کے فوراً بعد فرمایا ( وَلَا تَفَرَّقُوْا ) ا ور دیکھو تفرقے میں نہ پڑنا !
تفرقہ ایسی چیز ہے یہ بہت بڑی قوتوں کو بھی تباہ وبرباد کر دیتی ہے اور اگر آپس کا اتفاق ہو جائے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے تو یہی جماعت اپنے مدمقابل جو مخالف جماعت ہوگی اُس کو تباہ وبرباد کردے گی اتحاد و اتفاق کی برکت سے !
اس وقت پوری دنیا کے جو عالمی حالات چل رہے ہیں وہ عالم ِاسلام کے لیے بہت پُر پیچ ہیں صرف پاکستان میں نہیں عربستان میں افریقہ میں اور وسطی ایشیاء میں بھی مسلمانوں کے حالات بہت خراب چل رہے ہیں اور مسلمانوں کے دشمن یہود اور نصاریٰ اور ہنود وہ اپنی سازشوں کو کامیاب ہوتا دیکھ رہے ہیں ! لیکن اگر ہم نے اللہ کی رسی کو مضبوط تھاما آپس کا اتفاق اور اتحاد پیدا کیا اور انتشار سے بچے رہے اور اپنی ذاتی خواہشات کو پس پشت ڈال کر اجتماعی مقاصد اور مفاد کوپیش نظر رکھا تو پھراِن شاء اللہ ہماری کامیابی میں کوئی چیز رُکاوٹ نہیں بن سکتی !
آج ختم ِنبوت کے نام پر جو اِجتماع ہوا اِس میں آپ اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کریں کہ ہم آپس میں کسی بھی قسم کا ذاتی اختلاف اگر ہے بھی تو اجتماع کے کام میں اس کو نہیں آنے دیں گے، یہ آپ اللہ سے عہد کیجئے اللہ میاں سے معاملہ درست کیجئے جب اللہ سے معاملہ درست ہوگا تو ایسی مدد آئے گی جو گمان میں بھی نہیں ہوگی ! لیکن اگر ہمارا معاملہ اللہ سے درست نہیں ہے خدانخواستہ تو چاہے ہمارے پاس بہت سے ذرائع اور وسائل کیوں نہ ہوں سب کے سب ناکام ہوجائیں گے کیونکہ جب تک اللہ کی تائید اور نصرت نہیں ہوگی کامیابی نہیں ہوگی ! اس وقت ہم لوگوں میں یہ کمی ہے بہت بڑی کمی ہے اور ہمیں اپنے کو جانچنا ہے دوسرے کی طرف نہیں دیکھنا کہ دوسرے میں کیا خامی ہے یہ دیکھیں کہ ہم میں کیا خامی ہے ! جب یہ دیکھنے کی عادت پڑے گی ہمیں ،خود احتسابی کا عمل اپنے اُوپر جاری کریں گے ہم تو پھر کامیابی میں کوئی چیز رُکاوٹ نہیں ہو گی !
خود اِحتسابی کیسے کریں ؟
خوداِحتسابی کا مطلب یہ ہے کہ روزانہ پانچ سات منٹ کے لیے ہر آدمی اپنا محاسبہ کرے ! اور اپنے آپ سے یہ کہے کہ تو سب سے بڑا مجرم ہے ! آپ اپنے گریبان میں جھانکیں صرف اپنی خامیوں کو یاد کریں اُن پر روئیں رونا نہیں آتا تو رونے والی شکل بنائیں اور پھر عہد کریں اور اللہ سے مدد مانگیں کہ اے اللہ جو دن بھر میں میرے اندر یہ عیوب رہے اور خامیاں رہیں یہ جودل کے اندر چیزیں ہیں میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں تو مجھے معاف کر دے تو میری مدد فرما تو میری اصلاح کر اور اِن خامیوں سے مجھے پاک کر ! اور جتنے بھی میرے ساتھی ہیں ان میں بھی جو ظاہری اور باطنی کوتاہی ہے اُس کو بھی ختم فرما اور ہمیں آپس میں شیرو شکر کر دے ! اس عمل کو اگر آپ کریں گے تو اِس کے اثرات بہت زبردست آپ خود محسوس کریں گے اور پوری دنیا میں اس کا اثر ظاہر ہوگا اِن شاء اللہ !
بڑی قوت ؟
باہمی قوت اور اللہ سے تعلق بس یہ سب سے بڑی قوت ہے ہماری کہ تعلق مع اللہ قائم ہوجائے اور جو کام ہو اللہ کے لیے ہو، آگے بڑھیں تو اللہ کے لیے اور پیچھے ہٹیں تو بھی اللہ کے لیے ! جب یہ چیز ہوگی آگے بڑھنا بھی اللہ کے لیے ہوگا اور پیچھے ہٹنا اور دستبردار ہونا بھی اللہ کے لیے ہوگا کسی کو آگے بڑھانا بھی اللہ کے لیے ہوگا اور کسی کو پیچھے ہٹانا بھی اللہ ہی کے لیے ہوگا اپنی ذاتی خواہش اور ہوس کو دخل نہیں ہوگا تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی اور کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکے گی ان شاء اللہ العزیز
عہد :
لہٰذا آج آپ عہد کیجیے میں بھی عہد کروں گا آپ بھی عہد کیجیے اللہ تعالیٰ سے کہ اللہ جو ہماری کوتاہیاں اور خامیاں ہیں اُنہیں معاف کر دے اور ہمارا جو باطن ہے وہ دھو دے اسے صاف ستھرا کردے اور ہمارا ظاہر بھی اس کی برکت سے صاف ستھرا ہوجائے تو اِن شاء اللہ العزیز ہم منزل کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا شرمندگی اور رُسوائی سے بچائے گا !
یہی بس آپ سے بھی درخواست ہے یہی نصیحت اپنے لیے بھی ہے اور آپ کے لیے بھی ہے اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہم میں اتفاق اور اتحاد پیدا فرمائے اور شر اور فتنوں سے حفاظت فرمائے اور جو باطل قوتیں ہیں اللہ اُن کو تباہ وبرباد فرمائے ناکام اور نامراد فرمائے !
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
قسط : ٢
آب ِزم زم
فضائل ، خصوصیات اور برکات
( حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب، فاضل و مدرس جامعہ مدنیہ لاہور)
٭٭٭
فضائلِ آب زمزم :
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما ان زنجیا وقع فی زمزم فمات قال فانزل الیہ رجلا فاخرجہ ثم قال انزفوا ما فیھا من ماء ثم قالذی فی البئر ضع دلوک من قبل العین اللتی تلی البیت او الرکن فانھا من عیون الجنة۔ ١
''حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک حبشی زمزم کے کنویں میں گر کر مرگیا ! حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو کنویں میں اُتارا گیا جس نے اس مردہ شخص کو کنویں سے نکالا، بعد اَزاں حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دو پھر آپ نے کنویں میں موجود شخص سے کہا اپنا ڈول اس چشمہ کے قریب ڈالو جو بیت اللہ سے متصل ہے کیونکہ یہ چشمہ جنت کے چشموں میں سے ہے''
اس حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مائِ زمزم کی اصل جنت سے بتلائی ہے اور یہ اثر (حدیث) اگرچہ حضرت ابن عباس کا کلام ہونے کی وجہ سے موقوف ہے، مگر مرفوع کے درجہ میں ہے اس لیے اس میں رائے اور اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے !
علامہ فاکہی نے عبدہ بنت خالد بن معدان سے اور انہوں نے اپنے والد بن معدان سے روایت کیا کہ کہا جاتا ہے کہ آب ِزمزم اور سلوان کا وہ چشمہ جو بیت المقدس میں ہے دونوں جنت کے چشمے ہیں ! ٢
١ مصنف ابن ابی شیبة ج١ ص ١٦٢ ٢ اخبار مکہ للفاکہی ج٢ ص ٣٥
صاحب ِتفسیر قطبی نے حضرت عبداللہ بن عمرو سے نقل کیا ہے ان فی زمزم عینا فی الجنة من قبل الرکن۔ ١ ''زمزم کے کنویں میں جنت کا چشمہ ہے جو بیت اللہ کے کونے سے پھوٹتا ہے''
حکیم ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب نوادرُ الاصول میں زمزم کے بارے میں یہی تحریر فرمایا ہے ! ٢
آبِ زمزم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے خلیل کے لیے پہلا ہدیہ اور تحفہ ہے :
سیّدنا ابراہیم علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوة والسلام جب اپنی زوجہ مکرمہ حضرت ہاجرہ اور اپنے نومولود لخت ِجگر حضرت اسماعیل علیہ الصلٰوة والسلام کو بیت اللہ کے پاس چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت ہاجرہ سلام اللّٰہ علیہانے اپنے شوہر نامدار حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا اٰللّٰہُ اَمَرک بِھٰذَا ؟ کیا ہمیں یہاں بے یارو مددگار چھوڑ کر جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے ؟ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اثبات میں جواب دیا ! تب حضرت ہاجرہ نے فرمایا اِذًا لَا یُضِیْعُنَا تو پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ہرگز ضائع نہیں فرمائیں گے ! حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے چل کر جب اتنی دُور پہنچے جہاں ماں اور بیٹا دونوں نظروں سے اوجھل ہوگئے تو آپ نے قبلہ رُو ہوکر اور ہاتھ اُٹھا یہ دعاء فرمائی :
( رَبَّنَآ اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ ذَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ) ( سُورۂ ابراھیم : ٣٧ )
''اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو آپ کے محترم گھرکے قریب ایک میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں آباد کرتا ہوں ! اے ہمارے رب تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں تو آپ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کردیجیے اور اُن کو پھل کھانے کو دیجیے تاکہ یہ شکر کریں ''
لہٰذا آبِ زمزم پہلا ہدیہ اور پہلا ثمرہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو اُن کی دعا ( وَارْزُقْھُمْ مِنَ الثَّمَرٰتِ) پرعطا فرمایا !
١ تفسیر قرطبی ج ٩ ص٠ ٣٧ ٢ نوادر الاصول ص ٣٤١
آب ِ زمزم اللہ تعالیٰ کی واضح نشانیوں میں سے ہے :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
( اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبَارَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ فِیْہِ اٰیٰت بَّیِّنٰت مَّقَامُ اِبْرَاھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہ کَانَ اٰمِنًا) ( سُورۂ الِ عمران : ٩٦ ، ٩٧)
''بے شک سب سے پہلا گھر جو مقرر ہوا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت ہے جہاں بھر کے لوگوں کے لیے، اس میں کھلی نشانیاں ہیں جیسے مقام ابراہیم اور جو اِس میں داخل ہوگیا وہ مامون ہوگیا''
امام ابن الرابع الشیبانی فرماتے ہیں اس آیت میں کھلی نشانیوں سے مراد حجر ِاسود، حطیم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ایڑی سے پھوٹنے والا چشمہ آب ِزمزم مراد ہے، بلا شبہ اس کا پینا بیماریوں کے لیے شفا ہے اور اجسام کے لیے غذا ہے کیونکہ یہ پانی کھانے کا بھی کام دیتا ہے اور دیگر کھانوں سے بے نیاز کردیتا ہے ! ١
آب ِ زمزم عظیم ترین نعمت ِ خداوندی ہے :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّأْ تِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍٍّ عَمِیْقٍ ۔ لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ ) ( سُورة الحج : ٢٧ ، ٢٨ )
''لوگوں میں حج کا اعلان کردو تو وہ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور اُونٹنیوں پر بھی جوکہ دُور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی تاکہ اپنے (دینی اور دُنیاوی) فوائد کے لیے حاضر ہوجائیں ''
اُن بڑے منافع میں سے جنہیں حاجی اور عمرہ کرنے والے اللہ کے حرمِ محترم میں حاصل کرتے ہیں سب سے بڑا نفع آب ِ زمزم ہے کیونکہ لوگ اسے پیتے اور خوب سیر ہوکر پیتے ہیں اس کی خیرات و برکات
١ حدائق الانوار ومطالع الاسرار ج ١ ص ٨٣ و قرطبی ج٤ ص ١٤٩
حاصل کرتے ہیں اور اس کے پیتے وقت مقبول دعائیں بھی کرتے ہیں ، کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ دنیا اور آخرت کی جس بھی ضرورت کے لیے اسے پیا جائے تو وہ ضرورت اللہ تعالیٰ پوری فرمادیتے ہیں !
آب ِزمزم رُوئے زمین پر سب سے اعلیٰ اور بہتر پانی ہے :
عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم خیر ماء علی وجہ الارض ماء زمزم فیہ طعام الطعم وشفاء السقم ورواتہ ثقات۔ ١
''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا رُوئے زمین کا سب سے بہتر پانی جو بھوکوں کے لیے کھانا ہے اور بیماروں کے لیے شفاء کا باعث ہے''
دنیا بھر میں پانی کے چشمے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھوٹتے ہیں اور پھوٹ رہے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آب ِزمزم کے چشمے کو دنیا میں ظاہر فرمانا چاہا تو فطرت کے اس اصول کو یہاں توڑ دیا اور اس پانی کی عظمت کے پیش ِ نظر اللہ تعالیٰ نے سیّد الملائکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ جاؤ اپنا پر مارو کہ جس سے آب ِزمزم کا چشمہ پھوٹ جائے تو گویا مبارک جگہ پر، مبارک شخصیت کے لیے، مبارک شخصیت کے واسطے سے یہ پانی دنیا میں ظاہر ہوا جس سے اس کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ! ! !
آبِ زمزم کو یہ بھی شرف حاصل ہے جو دنیا کے کسی پانی کو حاصل نہیں کہ سیّد الکونین رحمت ِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم کے قلب اطہر کو کئی بار اِس میں دھویا گیا ! ! !
شقِ صدر کا واقعہ آپ کی حیاتِ طیبہ میں چار دفعہ پیش آیا ہے۔ پہلی مرتبہ جب آپ کی عمر مبارک چار برس تھی اور آپ سیّدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں پرورش پارہے تھے (اس کی تفصیل صحیح مسلم میں ہے) دوسری مرتبہ جب آپ کی عمر شریف دس برس تھی ! تیسری مرتبہ جب آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر آئے تھے اور چوتھی مرتبہ جب آپ معراج پر تشریف لے جارہے تھے ! اس کی تفصیل بخاری شریف میں ہے !
١ الترغیب والترہیب ج٢ ص ٢٠٩ ، المجع الزوائد ج٣ ص ٢٨٦ ، طبرانی کبیر ج ١١ ص ٩٨
حضور صلی اللہ عليہ وسلم کے لعاب ِ دہن کی وجہ سے آبِ زمزم کی برکات کا دوچند ہونا :
عن ابن عباس قال جاء النبی صلی اللہ عليہ وسلم الی زمزم فنزعنا لہ دلوا، فشرب ثم مج فیھا ثم افزعنا ھا فی زم زم، ثم قال لولا ان تغلبو علیھا لنزعت بیدی ۔ ١
''حضرت ابن عباس نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم زمزم کے کنویں کے پاس تشریف لائے تو ہم نے (کنویں سے) ایک ڈول نکالا جس سے آپ نے پانی نوش فرمایا پھر آپ نے اس ڈول میں کلی کی ہم نے وہ ڈول دوبارہ کنویں میں اُنڈیل دیا ! نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کنویں سے پانی نکالنے میں لوگ تم پر غالب آجائیں گے تو میں (بنفس ِ نفیس) اپنے ہاتھ سے پانی نکالتا''
دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے حکم سے یہ ڈول زمزم کے کنویں میں اُنڈیلا گیا ٢ ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے ڈول میں کلی کی تو ڈول سے مشک کی خوشبو آنے لگی ٣
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ کے لعاب ِ دہن کی برکت سے آبِ زمزم میں برکت، لذت اور شفاء کی صفت میں مزید اضافہ ہوگیا اور آب ِ زمزم نور علی نور ہوگیا ! اس موقع پر محدث ِہند علامہ ظفر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ نے کیا خوب بات ارشاد فرمائی ہے، آپ فرماتے ہیں :
''حضور نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم اپنی اُمت پر کتنے شفیق ومہربان تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے قیامت تک آنے والے اُمتیوں کو اپنے جھوٹھے کے فضل اور شرف محروم نہیں فرمایا فدیناہ بآبائنا و اُمھاتنا صلوٰة اللّٰہ وسلامہ علیہ ٤
اور جس پانی میں حضور صلی اللہ عليہ وسلم کا لعاب ِ دہن مل جائے اس پانی کی شرافت اور عظمت اس کی قدروقیمت کا اندازہ کون لگا سکتا ہے ؟ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی حیات ِ طیبہ میں آپ کے لعاب ِ دہن سے کئی معجزات ظاہر ہوئے مثلاً فتح خیبر کے موقع پر سیّدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں تکلیف تھی آپ نے حضرت علی کو بلایا
١ مُسند الامام احمد ١/ ٣٧٢ وقال ابن کثیر فی البدایة والنہایة ٥/ ١٩٣ اسنادہ علی شرط مسلم
٢ اخبار مکہ للازرقی ٢/ ٥٤ ٣ مُسند احمد ٤/ ٣١٨ ٤ اعلاء السنن ١٠/ ٢١١
اور ان کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے دعا بھی فرمائی تو وہ ایسے صحت یاب ہوئے گویا ان کی آنکھوں میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں (بخاری شریف)
دوسرا معجزہ غزوۂ حدیبیہ کے موقع پرجس میں چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل تھے ظاہر ہوا ! حدیبیہ میں جو کنواں تھا صحابہ کرام نے اس کا تمام پانی نکال لیا حتی کہ ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا تو نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کنویں کی منڈیر پر تشریف فرماہوئے اور آپ نے پانی منگوایا اور منہ میں پانی لے کر اِس کنویں میں کلی کی ، تھوڑی دیر کے بعد اس میں پانی جوش مارنے لگا جس سے چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خوب سیر ہوکر پیا اور اپنے اُونٹوں کو بھی پلایا حتی کہ وہ بھی سیر ہوگئے ! ! !
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ہم لوگ ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی ہمیں کافی ہوتا، یہ سب نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے لعاب ِ دہن کی برکت کا نتیجہ تھا ! ! !
مائُ زمزَم ۔۔۔۔۔ طَعَامُ طُعْمٍ :
اللہ تعالیٰ نے آب ِزمزم میں یہ خاصیت رکھی ہے جو دوسرے کسی پانی کو حاصل نہیں کہ یہ کھانے کے قائم مقام ہوجاتا ہے ! یہ جسم کو اُسی طرح تقویت دیتا ہے جس طرح کھانا جسم کو تقویت پہنچاتا ہے گویا یہ جہاں پیاس بجھاتاہے وہیں غذا کے بھی کام آتا ہے اور شفاء ِ امراض کی خاصیت تو بدرجہ ٔاَتم اس میں موجود ہے !
(١) چنانچہ امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں آیت ( رَبَّنَا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ ) کے ذیل میں فرماتے ہیں :
'' ارسل اللّٰہ الملک فبحث عن الماء واقامہ مقام الغذاء '' ١
''اللہ تعالیٰ نے فرشہ بھیجا جس نے پانی نکالا اور اسے غذا کے قائم مقام بنادیا''
(٢) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''وفیہ اشعار بانھا کانت تغتذی بماء زمزم فیکفیھا عن الطعام والشراب'' ٢
١ تفسیر قرطبی ج٩ ص ٣٧٠ ٢ فتح الباری ج٦ ص ٤٠٣
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہاجرہ (سلام اللّٰہ علیہا) آبِ زمزم کو بطورِ غذا استعمال کرتی تھیں جو اُن کی بھوک اور پیاس دونوں کے لیے کافی ہوتا تھا ! ! !
(٣) حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
ما رأیت النبی صلی اللہ عليہ وسلم شَکیٰ صغیرًا ولا کبیرًا جوعا ولا عطشا کان یغدوا فیشربُ من زمزم ، فَاَعْرِضُ علیہ الغذائَ فیقول لا اریدہ انا شبعان ۔ ١
''میں نے کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو بھوک یا پیاس کی شکایت کرتے ہوئے نہیں دیکھا نہ تو بچپن میں اور نہ ہی جوانی میں ، آپ صبح کو زمزم کے کنویں پر تشریف لے جاتے زمزم نوش فرماتے، میں جب کھانا پیش کرتی تو فرماتے، مجھے نہیں چاہیے میں تو سیر ہوں ''
(٤) حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ جن کا نام جندب بن جنادہ ہے ان کے اسلام لانے کا واقعہ صحیح مسلم میں تفصیل سے موجودہے اس کے آخر میں ہے کہ جب میں نے حضور صلی اللہ عليہ وسلم کو سلام کیا اور آپ نے سلام کا جواب دے دیا پھر آپ نے سوال فرمایا مَنْ اَنْتَ تم کون ہو ؟ میں نے جواب میں عرض کیا مِنْ غَفَّارِ میرا تعلق قبیلۂ غفار سے ہے ! پھر آپ نے سوال دہرایا مَتٰی کُنْتَ ھٰھُنَا ؟ تم یہاں کب سے ہو ؟ میں نے عرض کیا قَدْ کُنْتُ ھٰھُنَا مُنْذُ ثَلَاثِیْنَ بَیْنَ لَیْلَةٍ وَّیَوْمٍ میں یہاں تقریباً ایک ماہ سے ہوں ، پھر آپ نے ارشاد فرمایا فَمَنْ کَان یُطْعِمُکَ تمہاری مہمان نوازی کون کرتا تھا ؟ میں نے عرض کیا مَاکَانَ لِیْ طَعَامُ الْمَائِ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتّٰی تَکَسَّرَتْ عُکُنُ بَطَنِیْ وَمَا اَجِدُ عَلٰی کَبِدِیْ سَخْفَةَ جُوْعٍ میرے پاس آب ِزمزم کے سوا کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، میں زمزم ہی پیتا رہا جس سے میں اتنا موٹا ہوگیا ہوں کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں بھی ٹوٹ گئی ہیں اور میں کمزوری بھی محسوس نہیں کرتا ہوں ! اس پر نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اِنَّھَا مُبَارَکَة اِنَّھَا طَعَامُ طَعْمٍ ٢
یہ بابرکت پانی ہے اور اس میں کھانے کی طرح غذائیت بھی ہے ! ! !
اور آب ِزمزم کی یہ اہم خصوصیت اُس وقت تک باقی رہے گی جب تک آب ِزمزم باقی رہے گا اس لیے کہ
١ طبقات ابن سعد ج١ ص ١٦٨ عمدة القاری ج٩ ص ٢٧٧ ٢ صحیح مسلم باب من فضائل ابی ذر
اس کی خبر اور اطلاع تو جناب نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی دی ہوئی ہے اور آپ کا فرمان کبھی غلط نہیں ہوسکتا آپ نے ارشاد فرمایا اِنَّھَا مُبَارَکَة اِنَّھَا طَعَامُ طَعْمٍ اور اس میں کھانے کی طرح غذائیت بھی ہے !
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں اُسے نعمت سے مالا مال فرماتے ہیں اور آج تک لوگ اس سے بھر پور استفادہ کرتے رہے ہیں صدر اوّل کے چند واقعات ذکر کیے جاچکے ہیں بعد کے چند ایک واقعات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں امام ابن القیم (م : ٧٥١ھ) فرماتے ہیں :
(٥) شاھدت من یتغذی بہ ماء زمزم الایام ذوات العدد قریبا من نصف الشھر واکثر، ولایجد جوعًا، ویطوف مع الناس کاحدھم واخبرنی انہ انھا بما بقی علیہ اربعین یوما ۔ ( زادُالمعاد ج ٤ ص ٣٩٣ )
''میں ان لوگوں سے ملا ہوں جو نصف ماہ سے زائد مدت تک آب ِ زمزم کو بطورِ غذا استعمال کرتے رہے اور انہیں اس مدت میں بھوک کا احساس بھی نہیں ہوا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی کرتے رہے اور ان لوگوں نے مجھے یہ بھی خبر دی کہ بعض اوقات ہم نے چالیس روز تک اِسی پرگزارہ کیا ہے''
(٦) شیخ عبدالرشید ابراہیم التتاری (م : ١٩٤٤ئ) اپنے سفر نامہ العالم الاسلامی میں تحریر فرماتے ہیں : امضیت الاسابیع مکتفیا بزمزم لسد جوعی وکانت تجربة فعلیہ قطعیة لاشک فیھا ولا شبھة ''میں نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے کئی ہفتے محض آب ِزمزم پر گزارے ہیں اور میرا یہ تجربہ عملی اور یقینی ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے '' ! !
(٧) مصنف نے آخر میں اپنے ایک دوست جو مکہ یونیورسٹی یعنی جامعہ اُم القریٰ میں اُن کے ساتھ پڑھتے تھے ان کا واقعہ نقل کیا ہے وہ ستر یوم اس طرح بیمار رہے کہ وہ کھاپی نہیں سکتے تھے یعنی منہ کھلتا ہی نہیں تھا صرف اتنا کھلتا تھا کہ اِس میں پانی کے قطرے ہی ٹپکائے جاسکتے تھے تو اُن سترہ دنوں میں صرف زمزم اُن کے منہ میں ٹپکایا جاتا تھا یہی ان کا علاج تھا یہی ان کا کھانا تھا یہی پینا تھا ! تو سترہ دنوں کے بعد اللہ نے شفاء دی لیکن سترہ دنوں تک آب ِزمزم کی برکت سے انہیں بھوک محسوس نہیں ہوئی۔ (جاری ہے)
حضرت مولانا ملا محمود دیوبندی
( مولانا محمد معاذ صاحب ، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
حضرت مولانا ملا محمد محمود صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ کی ولادت ضلع سہارنپور کے مشہور مردم خیز قصبہ دیوبند میں ہوئی، آپ کا خاندانی تعلق دیوبند کے مشہور عثمانی خاندان سے ہے۔
مولانا ملا محمود دیوبندی کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں معلومات نہیں ملتیں البتہ کتب ِحدیث آپ نے حضرت شاہ عبدالغنی مجددی دہلوی رحمة اللہ علیہ سے پڑھی تھیں ، آپ شاہ عبدالغنی مجددی رحمہ اللہ کے قابل ترین شاگرد تھے، فقہ اور حدیث میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے، آپ کے اُستاذ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی مجددی نے جب سنن ابن ماجہ شریف پر انجاحُ الحاجة کے نام سے حاشیہ لکھا تو اس کا معتدبہ حصہ ملا محمود دیوبندی سے لکھوایا تھا، تکلف سے پاک عاجزی کے اس پیکر کو دیکھ کر یہ لگتا نہ تھا کہ یہ بھی کوئی علمی شخصیت ہوگی، '' انجاحُ الحاجة ''کی تحریر و تسوید کا عقدہ جب آپ کے تلامذہ کے سامنے کھلا تو سب حیران رہ گئے، اس واقعہ کی منظر کشی آپ کے شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد یٰسین دیوبندی بہت محبت سے کرتے تھے چنانچہ آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی رقم طراز ہیں :
'' والد صاحب کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ملا محمود صاحب نے فرمایا کہ ابن ماجہ پر جو حاشیہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب کے نام سے چھپا ہوا ہے اس کا ایک بڑا حصہ حضرت شاہ صاحب نے مجھ سے لکھوایا ہے، ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ طلبہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا، وجہ یہ تھی کہ علم کے دعوے اور نام و نمود کی خواہش سے اللہ تعالیٰ نے اس فرشتہ خصلت بزرگ کو ایسا پاک رکھا تھا کہ عام آدمی کو یہ پہچاننا بھی مشکل تھا کہ یہ بھی کوئی بڑے عالم ہیں '' ١
١ میرے والد ماجد اور اُن کے مجرب عملیات ص ٦٤ ،٦٥
ملا محمود دیوبندی رحمہ اللہ دارُالعلوم دیوبند کے پہلے اُستاذ تھے، ١٥محرم الحرام ١٢٨٣ھ/ ٣١ مئی ١٨٦٦ء میں جب دارُالعلوم دیوبند کی ابتدا ''مدرسہ عربیہ دیوبند''کے نام سے ہوئی تو مدرسہ کی ترقی کے لیے حضرت نانوتوی کی نظر انتخاب آپ ہی کی طرف اُٹھی، اُس زمانے میں حضرت ملا محمود، حضرت نانوتوی کے ساتھ میرٹھ کے مطبع ہاشمی میں کتابوں کی تصحیح کے کام پر مامور تھے، حضرت نانوتوی نے آپ کو پندرہ روپے تنخواہ پر دیوبند میں مدرس مقرر کیا، رُوداد مدرسہ عربیہ دیوبند ١٢٨٣ ھ میں منقول ہے :
''ایک مدرسہ عربی پندرہ تاریخ محرم الحرام ١٢٨٣ہجری سے جاری ہوا اور مولوی محمد محمود صاحب بالفعل بمشاہرہ پندرہ روپے ماہوار مقرر ہوئے، چونکہ لیاقت مولوی صاحب کی بہت کچھ ہے اور تنخواہ بسبب ِقلت چندہ کے کم، ارادہ مہتممان مدرسہ ہے کہ بشرطِ وصولِ زر چندہ قابلِ اطمینان جس کی اُمید کر رکھی ہے تنخواہ مولوی صاحب موصوف کی زیادہ کی جاوے'' ١
اس وقت مدرسہ ایک طالب علم سے شروع ہوا تھا، قدرت کا حسین امتزاج تھا کہ اُستاذ و تلمیذ دونوں ہی کا نام ''محمود ''تھا، دیوبند کی قدیم مسجد چھتہ میں انار کے درخت کے نیچے اس مدرسہ کی ابتدا ہوئی، اسی موقع کی ترجمانی شاعر نے اس انداز میں کی :
مسجد چھتہ ہے وہ درسگاہِ علم و دیں
جس جگہ محمود نے محمود پایا تھا مقام
ابتدائی سال قریباً سارا آپ ہی نے تعلیمی نظم سنبھالا، طلبہ کی تعداد میں اضافے پر حضرت مولانا یعقوب نانوتوی کا بطورِ صدر مدرس تقرر ہوا تو آپ کا عہدہ مدرس دوم مقرر ہوا،١٢٨٦ھ میں مولانا سید احمد دہلوی کی آمد پر آپ مدرس ِسوم مقرر ہوئے، اس عہدہ پر آپ مولانا محمد یعقوب نانوتوی کی وفات ١٣٠٢ھ تک رہے، مولانا یعقوب نانوتوی کی وفات کے بعد آپ دوبارہ مدرسِ دوم بنے اور تا وفات اسی عہدہ پر رہے۔
دارُالعلوم دیوبند کی ابتدا ہی سے آپ ہر فن کی کتب پڑھایا کرتے تھے، ایک دن میں دس دس سبق بھی پڑھائے،
١ رُوداد مدرسہ عربیہ دیوبند١٢٨٣ھ ص ٣
مولانا محمد یعقوب نانوتوی کے ساتھ ساتھ چند کتب ِحدیث آپ سے بھی متعلق رہتیں ، تفصیل تو نہیں ملی البتہ ایک گمان ہے کہ حضرت شیخ الہند کے مدرس ہونے سے پہلے کتب ِحدیث میں سے بخاری، مسلم اور ترمذی مولانا محمد یعقوب نانوتوی کے پاس جبکہ ابوداود، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک اور موطا امام محمد آپ کے یہاں ہوتی تھیں ، رُودادوں میں جو تفصیلات ملتی ہیں اُن سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے۔
دارُالعلوم کی ابتدائی رُودادوں میں ١٢٩٣ھ،١٢٩٤ھ اور ١٢٩٥ ھ کی تین رُودادوں میں آپ کے زیر درس اسباق کی تفصیلات ملتی ہیں جو بالترتیب تعلیمی سال ١٢٩٤ھ، ١٢٩٥ھ اور ١٢٩٦ ھ کی تدریسی تفصیلات ہیں جو رُوداد کے حوالے سے پیش کی جاتی ہیں :
١٢٩٣۔١٢٩٤ ہجری : مولوی محمد محمود صاحب، مدرسِ سوم : نسائی شریف، ہدایہ جلد اوّل، توضیح تلویح، نورُالانوار، حسامی، شرح ملا ١
١٢٩٤۔١٢٩٥ ہجری : مولوی محمد محمود صاحب ،مدرسِ سوم : ہدایہ، مشکوة شریف، ترمذی شریف، مسلم شریف، بخاری شریف، مختصر المعانی، نورُ الانوار، جلالین ٢
١٢٩٥۔١٢٩٦ ہجری : مولوی محمد محمود صاحب ،مدرسِ سوم : شرح وقایہ، کنز الدقائق، ابوداود، ہدایہ جلد اوّل، ہدایہ جلد ثانی، موطا، نورُ الانوار ٣
١٢٩٨۔١٢٩٩ ہجری : مولوی محمد محمود صاحب ،مدرسِ سوم : ابوداود، موطا امام مالک، موطا امام محمد ٤
یہ صرف اُن سالوں کی تفصیلات ہیں جو رُوداد سے مہیا ہوئے ورنہ آپ کا درس حدیث پوری آب و تاب کے ساتھ تادمِ زیست جاری و ساری رہا۔ دن و رات کا کوئی وقت آپ کا درس و تدریس سے خالی نہیں تھا، طلبہ خارج وقت میں بھی آپ سے پڑھتے تھے حتی کہ جو وقت گھر کی سبزی ترکاری لانے کے لیے تھا اُس میں بھی درس کا سلسلہ چلتا رہتا تھا، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں :
١ سالانہ رُوداد مدرسہ عربیہ دیوبند ١٢٩٣ھ ص ١٣ ٢ سالانہ رُوداد مدرسہ عربیہ دیوبند ١٢٩٤ ھ ص ٢٢
٣ سالانہ رُوداد مدرسہ عربیہ دیوبند ١٢٩٥ ھ ص ٢ ٤ سبع سیارة ، رُوداد مدرسہ عربیہ دیوبند ١٢٩٩ھ
''اپنا گھریلو سودا سلف اور گوشت ترکاری خود بازار سے خرید کر لاتے اور گھر میں عام آدمیوں کی طرح زندگی گزارتے تھے، مگر علوم کے استحضار اور حفظ کا یہ عالم تھا کہ والد صاحب کی ایک بڑی کتاب (منطق یا اصول فقہ کی تھی جس کا نام اب یاد نہیں ) وہ اتفاقاً درس سے رہ گئی تھی، اس کی فکر تھی کہ دورہ حدیث شروع ہونے سے پہلے یہ کتاب پوری ہوجائے، والد صاحب نے ملا محمود صاحب سے درخواست کی، ملا صاحب نے فرمایا : اوقاتِ مدرسہ کے علاوہ بھی میرے تمام اوقات اسباق سے بھرے ہوئے ہیں ، صرف ایک وقت ہے کہ جب میں گھر کا گوشت ترکاری لینے کے لیے بازار جاتا ہوں یہ وقت خالی گزرتا ہے، تم ساتھ ہوجا ئوتو اِس وقفے میں سبق پڑھا دُوں گا، والد صاحب فرماتے تھے کہ کتاب بڑی اور مشکل تھی جس کو دوسرے علماء غور و مطالعہ کے بعد بھی مشکل سے پڑھا سکتے تھے، مگر ملا محمود صاحب نے اسی طرح کچھ راستے میں کچھ قصاب کی دکان پر یہ تمام کتاب ہمیں اس طرح پڑھا دی کہ کوئی مشکل نظر ہی نہ آئی '' ١
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے آپ کے تفقہ اور مہارت ِحدیث کو نظم میں اس طرح پیش کیا ہے :
سوئمی آں متقی نام ور مولوی محمود صاحب خوش سِیَر
در حدیث و فقہ و تفسیر و اصول شہرتے کامل بدارد در فحول
زَیلَعی و لوذعی دریائے علم منبع خلق و تواضع کانِ علم
بر زبانش ہست مضمونِ کتاب ہست تقریرش چو بارندہ سحاب ٢
حضرت مولانا ملا محمود دیوبندی کا دارُالعلوم دیوبند میں تدریسی دور قریباً بائیس سال رہا، یہ دور دارُالعلوم کے لیے خیر القرون تھا، اس زمانے کے طلبہ بعد میں تاریخ ِہند و دارُالعلوم میں نمایاں حیثیت کے مالک بنے آپ سے فیض یافتہ چند طلبہ کرام کے نام تبرکاً درج کیے جاتے ہیں :
١ میرے والد ماجد اور اُن کے مجربات ص ٦٥ ٢ دارُالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ ص٥٢١
٭ حضرت مولانا امیرباز خان تھانوی، اُستاذ الحدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور
٭ حضرت مولانا فتح محمد تھانوی
٭ حضرت مولانا عبدالحق پور قاضوی، صدر مدرس جامعہ شاہی مراد آباد
٭ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭ حضرت مولانا فخر الحسن گنگوہی، اُستاذ الحدیث مدرسہ عبدالرب دہلی، محشی سنن ابی دا و د و سنن ابن ماجہ
٭ حضرت مولانا پیر جی صدیق احمد انبیٹھوی
٭ حضرت مولانا منفعت علی دیوبندی، اُستاذ دارُالعلوم دیوبند
٭ حضرت مولانا مشیت علی بجنوری، اُستاذ دارُالعلوم دیوبند
٭ حضرت مولانا عبدالحق بریلوی
٭ حضرت مولانا سراج الحق دیوبندی
٭ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندی،اُستاذ الحدیث و صدر مفتی دارُالعلوم دیوبند
٭ حضرت مولانا عبدالرحمن چرتھاولی ، مصنف علم الصرف، علم النحو
٭ حضرت مولانا عبدالرحمن امروہوی، صدر مدرس جامعہ عربیہ امروہہ
٭ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون
٭ حضرت مولانا عبدالمومن دیوبندی، صدر مدرس مدرسہ اِمداد الاسلام میرٹھ
٭ حضرت مولانا حافظ محمد احمد نانوتوی، اُستاذ الحدیث و مہتمم دارُالعلوم دیوبند
٭ حضرت مولانا حبیب الرحمن دیوبندی، نائب مہتمم و اُستاذ دارُالعلوم دیوبند
٭ حضرت مولانا محمد یٰسین دیوبندی، صدر مدرس شعبہ فارسی دارُالعلوم دیوبند
٭ حضرت مولانا غلام رسول بفوی، اُستاذ الحدیث دارُالعلوم دیوبند
٭ حضرت مولانا نورالحسن دیوبندی، اُستاذ الحدیث مدرسہ حسین بخش دہلی
٭ حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چاندپوری، اُستاذ الحدیث و مبلغ دارُالعلوم دیوبند
علمی فیضان :
حضرت مولانا ملا محمود دیوبندی کا علمی فیضان حدیث میں موطا امام مالک، موطا امام محمد، سنن ابی داود اور صحیح بخاری کے ذریعہ جاری ہوا جس کی مختصر تفصیل درج ہے :
موطا امام مالک و موطا امام محمد :
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندی نے ١٢٩٧ھ۔١٢٩٨ھ والے تعلیمی سال میں ملا محمود دیوبندی سے یہ کتب پڑھیں ، مفتی صاحب کے تدریس ِحدیث کے دورانیہ میں اکثر موطا امام مالک اور موطا امام محمد آپ کے زیر درس رہیں ، دارُالعلوم دیوبند اور دیوبندی اَسناد میں دنیا بھر میں عموماً اب بھی ان دونوں کتابوں کی سند مفتی عزیز الرحمن دیوبندی ہی کے ذریعے ملا محمود دیوبندی سے متصل ہوتی ہے !
سنن ابی داود :
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندی نے سنن ابی داود ملا محمود صاحب سے تعلیمی سال ١٢٩٥ھ ۔ ١٢٩٦ھ میں سال پڑھی تھی، پھر آپ نے تدریس حدیث کے دورانیے میں زندگی میں ایک مرتبہ ١٣٢٧ ہجری میں سنن ابی داود پڑھائی، اس سال کے فضلاء میں علامہ محمد ابراہیم بلیاوی بھی شامل ہیں ، علامہ بلیاوی نے بھی زندگی میں صرف ایک مرتبہ ١٣٤٧ھ میں سنن ابی داود پڑھائی، اس سال ابوداؤد پڑھنے والوں میں مولانا فخر الحسن مراد آبادی صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند بھی شامل تھے، آپ کے زیر درس کتابوں میں سنن ابی داود ایک عرصہ تک شامل رہی۔
حیات ِفخر العلماء میں شیخ الہند کو مدرسہ دیوبند کی طرف سے جو سند عطا کی گئی تھی درج ہے، اس میں آپ کا دیوبند میں صحیح مسلم، سنن ابی داود،جامع ترمذی، سنن نسائی پڑھنا لکھا ہے ۔ ١
اگر اس مفروضہ کو درست مان لیں کہ حضرت شیخ الہند کے مدرسِ حدیث بننے سے قبل سنن ابی داود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، موطا امام مالک اور موطا امام محمد ملا محمود دیوبندی کے پاس ہوتی تھیں
١ حیات ِفخر العلما ء ص ١٥٣
توسنن ابی داود میں شیخ الہند بھی ملا محمود دیوبندی کے شاگرد ہوئے، حضرت شیخ الہند نے کم و بیش بیس سال دارُالعلوم دیوبند میں سنن ابی داود پڑھائی، حضرت شیخ الہند کے تلامذہ میں علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا سید میاں اصغر حسین دیوبندی اور مولانا اعزاز علی امروہوی وہ ہستیاں ہیں جو قریباً نصف صدی دارُالعلوم میں سنن ابی داود پڑھاتے رہے !
صحیح بخاری :
ملا محمود صاحب کے فیضانِ علمی میں ایک فیضان آپ کی سند بخاری کا بھی ہے،١٢٩٤۔١٢٩٥ ہجری والے سال جب مولانا محمد یعقوب نانوتوی وغیرہ سفر حج پر تھے تو صحیح بخاری کا درس ملا محمود صاحب سے متعلق تھا، اس سال بخاری پڑھنے والوں میں مفتی عزیز الرحمن دیوبندی بھی شامل تھے، مفتی صاحب نے اپنی حیات کے ایک سال١٣٤٦ہجری میں علامہ انور شاہ کشمیری کی نیابت میں جامعہ تعلیم الدین ڈھابیل میں صحیح بخاری کے ایک معتد بہ حصے (باب حب الانصار سے قریباًچودہ سیپاروں )کا درس دیا، اس سال بخاری پڑھنے والوں میں محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری شامل تھے۔حضرت بنوری نے اپنی حیات کے اکثر حصے بخاری کا درس دیا، اس طرح ملا محمود دیوبندی کی سند بخاری بھی عالم میں عام ہوئی !
حضرت ملا محمود دیوبندی نے بھرپور تدریسی و علمی زندگی گزار کر ١٣٠٤ھ/١٨٨٦ء کو دیوبند میں انتقال فرمایا، قبرستان قاسمی کے شمالی جانب کہنی مسجد سے متصل عثمانی خاندان کے احاطے میں تدفین ہوئی، یہ قبرستان اب بھی موجود ہے مگر قبروں کے نشان ندارد، ناچیز نے بعض کرم فرماؤں کی نوازش سے اس احاطے کی تصاویر کی مدد سے زیارت کی ہے، ان حضرات نے محلہ کے بزرگ حضرات کی مدد سے آپ کی قبر کی نشاندہی بھی کی ہے، اَرباب ِحل و عقد اگر اس نشاندہی کو محفوظ بنا کر کتبہ نصب کردیں تو دیوبند کے خوشہ چیں اس محسن ِدیوبند کو اِس کی تربت پرسلام پیش کرسکیں ! رحمہ اللّٰہ رحمة واسعة
امیر پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٧ ستمبر کوجمعیة علماء اسلام پنجاب کے زیر اہتمام وکلاء برادری کی قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے ملاقات ہوئی، ملاقات میں امیر پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب، مرکزی ترجمان جے یو آئی اسلم غوری صاحب، جنرل سیکرٹری جے یو آئی پنجاب حافظ نصیر احمد صاحب احرار ، ترجمان جمعیة پنجاب حافظ غضنفر عزیز صاحب بھی موجود تھے ! وکلاء برادری کے راہنمائوں نے قائد جمعیة کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا، اس موقع پر ترجمان وکلا برادری شیخ زکریا ایڈووکیٹ سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مولانا فضل الرحمن صاحب کے اعزاز میں شاندار عشائیے کااہتمام کیا !
١٥ ستمبر ٢٠٢٣ء کو جمعیة علما ء اسلام صوبہ پنجاب کے ناظم عمومی حافظ نصیر احمد صاحب احرار جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور امیرِپنجاب حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب سے ملاقات کی جس میں پنجاب کے تنظیمی دوروں ، تقریبات، اضلاع کے اجلاسات کا جائزہ اور مشاورت و فیصلے ہوئے
٢٣ ستمبر کو اَمیر پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب جماعتی تقریبات کے سلسلہ میں سرگودھا ، جوہر آباد اور میانوالی کے دورہ پر روانہ ہوئے اس دورہ میں ناظم اعلیٰ پنجاب مولانا حافظ نصیر احمد صاحب احرار آپ کے ہمراہ تھے۔ پہلے مرحلہ میں نائب امیر پنجاب رائو عبدالقیوم صاحب کی دعوت پر سرگودھا میں ان کی رہائشگاہ پر مختصر قیام کیا ،دوپہر کے کھانے کے بعد جمعیة کے مقامی اجلاس میں شرکت فرما کر مختصر اختتامی بیان فرمایا ۔ بعدنمازِ عصر جوہر آباد کے لیے روانہ ہوئے محترم رائو صاحب بھی اس سفر میں ہم رکاب رہے، جوہر آباد میں حضرت کے خلیفہ فاضل ِ جامعہ مولانا محمد آصف صاحب کی مسجد میں خانقاہی تقریب میں شرکت کی اور مختصر بیان فرمایا ۔بعد ازاں حضرت کے مرید حاجی ساجد منظور صاحب کے اصرار پر اُن کی قیام گاہ تشریف لے گئے ، حضرت کے خلیفہ مولانا قاری سعید احمد صاحب وہاں ہی تشریف لے آئے اور حضرت سے ملاقات کی ۔امیر ضلع خوشاب مولانا عبداللہ احمد صاحب اخونزادہ کی دعوت پر جوہر آباد کے'' مفتی محمود مرکز''تشریف لے گئے جہاں آپ نے اختتامی بیان فرمایا بعد اَزاں حاجی ساجد منظور صاحب کی رہائشگاہ پر رات کا کھانا تناول فرمایا اور قیام بھی فرمایا۔ رات کے اس کھانے پر مولانا سید کفیل شاہ صاحب بخاری بھی شریک تھے۔
اگلے روز ناشتہ کے بعد حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ،خواجہ ٔ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب کے فرزند صاحبزادہ خواجہ سعید احمد صاحب کی تعزیت کے لیے خانقاہ سراجیہ کندیاں میانوالی تشریف لے گئے جہاں آپ نے حضرت کے بھائی خواجہ خلیل احمد صاحب اور خواجہ نجیب احمد صاحب سے تعزیت کی۔اس سفر میں حضرت کے ہمراہ ،حاجی ساجد منظور صاحب، مولانا جنید صاحب اور بھائی محمد رضوان صاحب بھی ہمراہ تھے۔
کندیاں سے واپسی پر قائد آباد میں محترم حافظ عبدالصمد صاحب اعوان کے اصرار پر اُن کے مدرسہ دارُالحبیب قائد آباد میں تھوڑی دیر کے لیے قیام فرمایا اور دعائِ خیر کی ۔عصر کی نماز جوہر آباد میں حاجی ساجد منظور صاحب کی رہائش پر ادا کی بعد اَزاں لاہور کے لیے روانہ ہوئے اور رات نو بجے بخیر و عافیت جامعہ مدنیہ جدید پہنچ گئے والحمد للہ !
جامعہ مدنیہ جدید کی ڈاکومنٹری
DOCUMENTARY OF JAMIA MADNIA JADEED
جامعہ مدنیہ جدید کی صرف آٹھ منٹ پر مشتمل مختصر مگر جامع ڈاکومنٹری تیار کی جاچکی ہے جس میں جامعہ کا مختصر تعارف اور ترقیاتی و تعمیراتی منصوبہ جات دکھائے گئے ہیں قارئین کرام درجِ ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں
https://youtu.be/QZTrwQbSYE4
وفیات
٭ ١٠ صفر المظفر١٤٤٥ھ /٢٨ اگست ٢٠٢٣ء کوجمعیة علماء اسلام صوبہ سندھ کے امیر و سجادہ نشین حضرت مولانا سائیں عبدالصمد صاحب ہالیجوی انتقال فرما گئے ! پاکستان خاص کر صوبہ سندھ کی دینی اور سیاسی تحریکات میں آپ نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا آپ کی وفات جماعت اور دینی حلقوں کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے اللہ تعالیٰ اس خلاء کو پُر فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اہلِ ادارہ ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔
٭ ١٥ صفر المظفر١٤٤٥ھ /٢ ستمبر ٢٠٢٣ء کو خواجہ ٔ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمہ اللہ کے فرزند صاحبزادہ سعید احمد صاحب اچانک حرکت ِ قلب بند ہونے کے باعث انتقال فرماگئے آپ جمعیة علماء اسلام پنجاب کے سرپرست تھے اللہ تعالیٰ حضرت کی کامل مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے اہلِ ادارہ ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔
٭ ٣١ اگست کو جامعہ مدنیہ جدید کے ناظم ڈاکٹر محمد امجد صاحب کے خالہ زاد بھائی حافظ محمد اسماعیل صاحب طویل علالت کے بعد دہلی ہندوستان میں وفات پاگئے۔
٭ ٢ ستمبر کو جناب بھائی لیاقت علی صاحب کے بیٹے ، حافظ فرید احمد صاحب شریفی کے برادرِ نسبتی افتخار الحسن صاحب طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے ۔
٭ ٥ ستمبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے باورچی محمد اکرام کے دادا شیر افضل صاحب مختصر علالت کے بعد ایبٹ آباد میں وفات پاگئے۔
٭ ١٥ ستمبر کو جامعہ مدنیہ تعلیم الفرقان شور کوٹ چھائونی کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طاہر صاحب طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے ۔
٭ ٢١ستمبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے سابق ناظم مولانا محمد یعقوب صاحب کی اہلیہ صاحبہ اور جامعہ کے معاون ناظم مولانا محمد عامر اخلاق صاحب کی خوشدامن صاحبہ طویل علالت کے بعد مظفر آباد میں وفات پاگئیں ۔
٭ ٢٦ ستمر کو جامعہ خالد بن ولید وہاڑی کے بانی و شیخ الحدیث حضرت مولانا ظفر احمد صاحب قاسم کی اہلیہ محترمہ، حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب ظفر کی والدہ صاحبہ طویل علالت کے بعد وہاڑی میں انتقال فرماگئیں ۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
نرخ نامہ
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500
بقیہ : سبق آموز تاریخی حقائق
اللہ اکبر ! یہ لباس ہے حضرت قاسم العلوم والخیرات حجةالاسلام مولانا محمد قاسم صاحب رحمة اللہ علیہ کا ، جو ہندوستان، پاکستان اور اَفغانستان واَفریقہ کے تمام نامی گرامی اور مشہور اہلِ علم کے اُستاذ کے اُستاذ تھے، جو اپنے زمانے میں بہت سے نوابوں اور اُمرا کے مرجع تھے اور جن کے ایک اشارۂ اَبرو پرلاکھوں روپے بارش کی طرح برس سکتے تھے کاش علماء ِ کرام حضرت نانوتوی کی زندگی سے سبق حاصل کرتے اور آپ کے نقش ِ قدم پر چلنے کی سعی کرتے۔ (جاری ہے)
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ 923454036960+

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.