Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

2024 نومبر‬

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ جمادی الاوّل ١٤٤٦ھ / نومبر ٢٠٢٤ء شمارہ : ١١
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر




جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل نمبر : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +923214790560




مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ١٢
سیرت ِ مبارکہ ......... .تحویلِ قبلہ انقلاب عظیم حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٨
مقالاتِ حامدیہ ... انسانی عادات اور اللہ کا عذاب حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٣٣
تربیت ِ اولاد قسط : ٢٠ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٩
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب قسط : ٤ حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی ٤٣
کرپٹو کرنسی کی ماہیت و حقیقت قسط : ١ ڈاکٹر مبشر حسین صاحب رحمانی ٥٦
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا انعام اللہ صاحب ٦١
وفیات ٦٣




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +923214790560




حرفِ آغاز
٢١ ربیع الثانی ١٤٤٦ھ/٢٥ اکتوبر ٢٠٢٤ء بروز جمعة المبارک قائدِجمعیة علماء اسلام پاکستان حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم نے ٤٣ ویں سالانہ ختم نبوت کانفرنس بمقام چناب نگر خطاب فرمایا جسے بطورِ اداریہ نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے
(ادارہ)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَ سَلَام عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی لَاسِیَمَا عَلٰی سَیِّدِ الرُّسُلِ
وَ خَاتَم الاَنْبِیَائِ وَعَلٰی آلِہ وَصَحْبِہ وَمَنْ بِھَدْیِھِمِ اھْتَدٰی ، اَمَّا بَعْدُ !
فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
( یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ )
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْم
جناب صدر محترم ، اکابر علماء کرام ، مشائخ عظام ، بزرگانِ ملت، میرے جوانو، میرے دوستو، میرے بھائیو ! حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب نے تو سارے راز فاش کر دیے اب میں کیا کہوں گا ؟ من آنم کہ من دانم مجھے اپنی حیثیت معلوم ہے میں اپنی کم مائیگی سے واقف ہوں ، میں آپ کا ایک ادنیٰ کارکن ہوں اور جو کچھ بھی کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے کیا ہے، ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں خدمت کی توفیق بھی دی اور اگر کچھ کامیابیاں ملیں تو اس کی نسبت بھی ہمیں عطا کر دی یہ اسی کی مہربانی ہے اور اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا !
ہم حکومت میں تھے، ہمارے پاس اکثریت تھی جمعیة کی چار وزارتیں تھیں ، یہی شہباز شریف صاحب وزیراعظم تھے، مدارس کے بارے میں یہی ڈرافٹ جو آج پاس ہوا ہے یہ اسی وقت تیار ہوا تھا اس وقت بھی اس پر اتفاق تھا اس وقت پاس نہیں ہو سکا ! آج ہم حزبِ اختلاف میں ہیں سولہ کی بجائے ہمارے پاس آٹھ ممبر ہیں قومی اسمبلی میں اور اس کے باوجود کامیاب ہو گیا اور وہ بل پاس ہو گیا ! !
تو ظاہر ہے آپ خود اندازہ لگائیں اس میں ہمارا کیا کمال ہے ! ؟ جب ہم حکومت میں بھی تھے ہماری تعداد بھی زیادہ تھی ہمارے پاس وزارتیں بھی تھیں نہیں ہو سکا اور آج جب یہ سب کچھ نہیں تھا تو ہوگیا ! تو اللہ کی طاقت کے بغیر کون کر سکتا ہے ؟ ہاں ہمارا ایمان بڑھ گیا ہے، ہمارے عقیدے میں پختگی آئی ہے کہ مدارس کا محافظ اللہ ہے اور دنیا کی کوئی طاقت دینی مدراس کے خاتمے کا خواب دیکھے گی تو ہمیشہ تشنہ تعبیر رہے گی ! !
میرے محترم دوستو ! آپ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایک فیصلہ آیا مبارک ثانی کیس کے نام سے، کیس مختصر تھا کہ ملزم کی ضمانت ہونی چاہیے یا نہیں ہونی چاہیے ؟
لیکن اس کے فیصلے میں غیر ضروری طور پر اضافہ کیا گیا اور وہ فیصلہ متنازع ہو گیا اسے قوم نے قبول نہیں کیا ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہوا اور سپریم کورٹ کو اس کا ادراک ہوا ! !
اس کے بعد ایک نظر ثانی اپیل میں اس نے پھر فیصلہ دیا اس سے بھی قوم مطمئن نہیں ہو سکی پھر اپنے فیصلے کی اصلاح کے لیے عدالت نے دوبارہ سماعت رکھی تمام مکاتب فکر کے علما ء کو بلایا گیا مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو بلایا گیا اور میں بھی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی عدالت میں پیش ہوا اور وہ بھی ختم نبوت کے لیے ، اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں کامیابی بخشی ! ایک مختصر فیصلہ آیا جس پر تمام مکاتب فکر نے اتفاق رائے کیا اور پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ! اب اس کا تفصیلی فیصلہ آنا تھا اس میں جوں جوں تاخیر ہوتی گئی ہر طرف تشویش بڑھتی گئی لیکن بالآخر وہ تفصیلی فیصلہ بھی آگیا، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے کچھ تھوڑا سا اس میں اضافہ کرنا بھی تجویز کیا، حضرت مفتی منیب الرحمن صاحب نے بھی اس کا مطالعہ کیا، میرے پاس بھی وہ تفصیلی فیصلہ آیا کچھ الفاظ کے اضافے کچھ ردّ و بدل کچھ حوالوں کا اضافہ جو ہم سے ہو سکا اور اسی وقت جب ہم اس پر بحث کر رہے تھے تو مجھے ایک تجویز یاد آئی کہ مولانا اللہ وسایا صاحب نے کسی وقت مجھے یہ تجویز دی تھی اب مجھے بھول گئی تھی اسی وقت ان سے رابطہ کیا کہ بھئی ہم اب آخری تفصیلی فیصلے کو دیکھ رہے ہیں آپ نے ایک تجویز دی تھی ذرا دوبارہ دُہرا دیجیے انہوں نے دوبارہ دہرائی اس تجویز کو بھی فیصلے میں سمویا گیا اور الحمدللہ وہ تفصیلی فیصلہ بھی آگیا اور قادیانیت ایک بار پھر بری طرح شکست کھا گئی ! !
اور میں یہ بھی بتا دوں کہ لاہور کانفرنس جو ٧ ستمبر ١٩٧٤ء کی گولڈن جوبلی کے طور پر منائی جارہی تھی یوم الفتح کے طور پر منائی جارہی تھی اس نے لاہور کی تاریخ کے تمام بڑے بڑے جلسوں کے ریکارڈ توڑ دیے تھے، تو دعوت میں تو الحمدللہ کوئی کمی نہیں رہی تھی لوگوں نے بھرپور دعوت قبول کی ، لوگ پہنچے اور یہ آپ کی طاقت تھی کہ عدالت عظمیٰ کو بھی اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا، تو یہ حفاظت کا فریضہ آئندہ بھی ادا کرتے رہو گے یا سو جائو گے ؟ اور عہد کرو کھڑے ہو کر عہد کرو اس بات کا کہ ہم اس عقیدے کی حفاظت آخری سانس تک کریں گے، خون کے آخری قطرے تک کریں گے اور کسی کو بھی ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے کی اجازت پاکستان کی سرزمین پر نہیں دی جا سکے گی ! !
میرے محترم دوستو ! ہم ساری زندگی اس بات کی جنگ لڑتے رہے ہیں کہ پاکستان میں سود سے پاک نظام معیشت آئے لیکن ستتر سال ہو گئے آج تک ہماری وہ خواہش پوری نہیں ہو سکی قائد اعظم محمد علی جناح بانی ٔ پاکستان جب انہوں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا تو اس کے افتتاحی جلسے میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ مغرب کے نظام معیشت نے دنیا میں فساد برپا کیا ہے، مغربی نظام معیشت دو عالمی جنگوں کا سبب بنا ہے، انسانیت کو تباہ کیا ہے، ہم نے اس ملک کو قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق نظام معیشت دینا ہے ! میں حیران ہوں قائد اعظم کے ان پیروکاروں پر جو ہمیں تو ان کا مخالف قرار دیتے ہیں خود ان کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں ستتر سال سے انہوں نے بانی پاکستان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا، آج حالات بن گئے، چھبیسویں ترمیمی بل کی تجویز آئی، میں نے قومی اسمبلی میں ایک تقریر کی، مسئلہ یہ تھا کہ ججوں کی مدتِ ملازمت میں اضافہ کیا جائے یا سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ؟
ہمارا مؤقف یہ تھا کہ اس کے لیے آئینی ترمیم کرنی ہوگی اور ایک سرکاری ملازم کی مدتِ ملازمت میں اضافہ یا ان کی تعداد میں اضافہ یہ آئینی ترمیم کو زیب نہیں دیتا، ہم شخصیات کے ہاتھوں آئین کو یرغمال نہیں دیکھنا چاہتے، اگر آپ نے ترمیم کرنی ہے تو عدلیہ کی اصلاحات پر مبنی ایک بل لائو، سپریم کورٹ سے الگ ایک آئینی کورٹ بنائو جو آئینی مسائل سن سکے یہ ہم اس لیے کہہ رہے تھے کہ آج بھی سپریم کورٹ میں عام لوگوں کے ساٹھ ہزار مقدمات زیر سماعت ہیں اور فیصلہ نہیں ہو رہا ان کا ! پورے ملک میں چھوٹی عدالتوں سے لے کر بڑی عدالتوں تک چوبیس لاکھ مقدمات پینڈنگ پڑے ہیں آج تک اس کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا ! مدعی مدعٰی علیہ فوت ہو جاتے ہیں اس کے اگلی نسل بھی بوڑھی ہو کر فوت ہو جاتی ہے پھر اس کی اگلی نسل میں مقدمات منتقل ہوتے ہیں اور عدالتیں اپنے سر سے بوجھ نہیں اتارتیں ! !
جب میں نے یہ بات کہی تو بڑی معصومیت کے ساتھ مجھے کہا گیا کہ جی عدالتوں کے ججوں کی مدتِ ملازمت میں اضافہ بھی ہم نے چھوڑ دیا ، ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہم نے چھوڑ دیا ، آپ کے عدالتی اصلاحات کی تجویز بھی ہم نے قبول کر لی، آئینی عدالت کی بات بھی ہم نے قبول کر لی، اب تو آپ کی ساری باتیں ہم نے مان لیں اب تو آپ آمادہ ہوں گے ہمیں ووٹ دینے پر،تو ہمیں کہا گیا کہ اب تو آپ ہمیں ووٹ دیں گے ؟ ؟
میں نے کہا کہ ووٹ تب دوں گا جب میں آپ کے مسودے کا مطالعہ کروں گا، یہ تو عنوان ہے جو میں نے کہے تھے، معنون کیا ہے ؟ اس کی تفصیلات اور جزئیات کیا ہیں ؟ اب وہ ہمیں مسودہ نہیں دکھا رہے ! ! ہم نے کہا جب تک ہم مسودہ نہیں دیکھیں گے ہم کس طرح تائید کریں گے بہرحال تیسری رات دن سے لے کر رات کے ساڑھے تین بجے تک ہمیں جگائے رکھا، کوئی آرہا ہے تو کوئی جارہا ہے، بالآخر ہمیں مسودہ ہاتھ آگیا جب ہم نے اس کا مطالعہ کیا تو وہ کسی سطح پر بھی ہمارے لیے قابل قبول نہیں تھا ! ! !
میں ایک چیز کا ذکر کروں گا آپ کے سامنے کہ آئین ملک کے تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اس ترمیم میں بنیادی انسانی حقوق کا دائرہ تنگ کر دیا گیا تھا، کچھ استثنائیات ہوتی ہیں ان استثنائیات کا دائرہ وسیع کر دیا گیا تھا، ہم نے کہا یہ تو آئین تباہ ہو جائے گا، کہاں گئی جمہوریت ؟ کہاں گئے لوگوں کے انسانی حقوق ؟ اور مزید کئی آئینی دفعات پر ہم نے اعتراضات کیے ! ہم نے کیا حاصل کیا ،تفصیل میں جائوں گا تو پھر تو بڑا وقت چاہیے !
چھپن نکات پر مشتمل حکومتی مسودہ اس کو ہم بائیس نکات پر لے آئے ! اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ہمیں کتنی بڑی صفائی کرنی پڑی اس مسودے کی ! آپ دیکھیں گے کہ مسودے کے نکات تو ستائیس ہیں میں تو بائیس کہہ رہا ہوں یہ پانچ پھر ہم نے خود اپنی طرف سے اس میں ترمیم کروا کے داخل کرا دیے تو پھر ستائیس ہو گئے ! !
سود کا خاتمہ کر دیا اب لوگ کہتے ہیں کہ جی آپ نے یکم جنوری ٢٠٢٨ء تک بڑا لمبا وقت دے دیا ہے، او بھئی میں نے نہیں دیا ہے شریعت کورٹ نے دیا تھا، شریعت کورٹ کا فیصلہ ہے اب یہ آئین کی رو سے ایک بنیادی پالیسی وجود میں آگئی
اب دوسری چیز ساتھ پڑھتے جا ئواسی چیز کے ساتھ کہ یکم جنوری٢٠٢٨ء سے سود رِبا ممنوع ہوگا ختم کر دیا جائے گا !
اس کے ساتھ کہا گیا ہے کہ شریعت کورٹ جب فیصلہ دیتی تھی جب اس کے خلاف کوئی ایک عام سی درخواست چلی جاتی تھی تو فیصلہ اڑ جاتا تھا اور پھر پتہ نہیں قیامت تک کب سپریم کورٹ کا فیصلہ جو ہے اس کے حق میں آتا ہے یا اپیل سنی جاتی ہے یا نہیں سنی جاتی کوئی بندش آئین میں نہیں تھی ! !
ہم نے اس میں یہ ڈال دیا کہ اب سپریم کورٹ کے پاس صرف ایک سال ہوگا ایک سال تک اس کے خلاف اپیل پر فیصلہ آئے گا اگر فیصلہ ایک سال میں نہ آیا تو شریعت کورٹ کا فیصلہ خود بخود مؤثر قرار پائے گا !
اب ان چیزوں کو آپ دیکھیں کہ سپریم کورٹ کو اس بات کا پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ اپیل سنے گا باقاعدہ اپیل سنے گا صرف ایک عام درخواست نہیں اور باقاعدہ اپیل پر شریعت کورٹ کا ہر فیصلہ یہ ہو یا کوئی اور اگر ایک سال تک اس کی اپیل پر فیصلہ نہ آیا تو شریعت کورٹ کا اپنا فیصلہ مؤثر ہو جائے گا ! اب جب یہ پالیسی آگئی تو جس وقت سماعت ہوگی تو کیس میں مدعی آئے گا بمقابلہ وفاقی حکومت کے، وفاقی حکومت کا اٹارنی جنرل پیش ہو یا وفاقی حکومت کا وزیر قانون پیش ہو وہ اب پابند ہو گیا ہے کہ وہ اپنے آئین کی روشنی میں رائے دے گا اور اس فیصلے کی مخالفت نہیں کر سکے گا ! ! ان ساری چیزوں کو ملا کر پڑھا کرو پھر بات سمجھ میں آئے گی ! مجھے نہیں معلوم کہ میں ساری بات سمجھا بھی سکا ہوں یا نہیں ؟
ہماری اسلامی نظریاتی کونسل ١٩٧٣ء میں بنی جب آئین بنا اور یہاں ہم بار بار اس کا ذکر بھی کر چکے ہیں کہ ١٩٧٣ء کے آئین کے بعد اس کونسل کی آج تک ایک سفارش پر ایک قانون سازی بھی نہیں ہوئی، وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہ ہے کہ اسمبلی میں پیش ہو جاتی ہے آگے جاتی ہے کمیٹیوں کے پاس ڈمپ ہو جاتی ہے پڑی رہتی ہے الماریاں بھری ہوئی ہیں دوبارہ اسمبلی میں لانے کی کوئی پابندی آئین میں نہیں تھی ! ١
١ آئین ِ پاکستان اور اسلامی دفعات : پاکستان کو وجود میں آئے تقریباً بیس برس گزر چکے تھے مگر اب تک باقاعدہ کوئی آئین ملک کا نہیں تھا ١٩٧٠ئ۔١٩٧١ء میں آئین سازی کا مرحلہ آیا تو پاکستان کی تاریخ کے اس اہم ترین کام میں اسلامی دفعات کو ترتیب دینے کے لیے قطب الاقطاب حضرت اقدس والد گرامی اور حضرت اقدس مولانا مفتی محمود صاحب اور حضرت اقدس مولانا شمس الحق صاحب افغانی رحمہم اللّٰہ تعالٰی جامعہ مدنیہ لاہور میں کئی روز کے لیے یکسو ہوکر آئین کے مسودہ کی ترتیب میں منہمک رہے !
ہمارا ذاتی گھر(بیت الحمد) ان ہی دنوں میں نیا نیا تعمیر ہوا تھا ہم اس میں ابھی تک منتقل نہ ہوئے تھے اس لیے شمالی حصہ کے ایک کمرے میں حضرت مفتی صاحب اور جنوبی حصہ کے ایک کمرے میں حضرت مولانا شمس الحق صاحب افغانی مقیم رہے، ملکی تاریخ کے اہم ترین بنیادی کام کا اہم حصہ ان تین بزرگوں کی دن رات کی مساعی کا نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ! ! ( ٢٣جنوری ١٩٧١ئ/ ٢٥ذیقعدہ ١٣٩٠ھ شنبہ (بروز ہفتہ) نقل روزنامچہ حضرت والد ماجد محمود میاں غفرلہ )
( بحوالہ ''ماضی کی جھلک'' ماہنامہ انوار مدینہ ج ٢٨ شمارہ ٢ فروری ٢٠٢٠ء و مقالاتِ حامدیة '' قرآنیات'' ص ٤٤ )
اب اس دفعہ اس ترمیم کے ذریعے وہ رپورٹ صرف پیش نہیں ہوگی( بلکہ) بحث کے لیے لائی جائے گی جب بحث ہوگی تو یہ ظاہر ہے ایوان دو فریقوں میں تقسیم ہوگا کچھ کہیں گے کہ اس کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے اور بات جائے گی قانون کے مطابق کوئی فیصلہ لانے پر، پارلیمنٹ مجبور ہوگی کہ وہ قانون کے مطابق اور سفارشات کے مطابق قانون سازی کرے، وہاں تک پہنچانا بھی تو تھا نا تو وہاں تک پہنچانے کا راستہ ہم نے بنا دیا ہے !
اب یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ میں اب بھی اس کو پیشرفت سمجھتا ہوں ایک کامیاب پیشرفت سے اس کو تعبیر کرتا ہوں ، ہم نے اب اس کو کامیاب بنانا ہے اور اس کو رُو بہ عمل لانے کے لیے آپ کو جاگے رہنا ہے، جمعیة کی تنظیموں کو جاگے رہنا ہے پبلک میں جانا ہے خاموش نہیں بیٹھنا، ختم نبوت کے مبلغین کا فرض ہوگا کہ وہ جگہ جگہ اپنا موقف لے کر پبلک کو زندہ رکھے اور جو پاکستان کے عوام اس حوالے سے زندہ رہیں گے کسی مائی کا لعل ان قوانین کا اور شریعت کا راستہ نہیں روک سکے گا ان شاء اللّٰہ، لیکن اگر آپ گھروں میں چلے گئے، مدرسوں کے حجروں میں چلے گئے، محراب کے اندر پھنس گئے، اس کے بعد پھر ذمہ دار آپ ہوں گے ہم نہیں ہوں گے ! ! میرے محترم دوستو ! ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں اب ہم نے اس سے آگے جانا ہے ! ان شاء اللّٰہ کچھ میں ذرا تھوڑا سا چوں چوں سن رہا ہوں کہ کوئی اور ستائیسویں ترمیم آرہی ہے جو اس میں نہیں ہوسکا وہ کیا جائے گا، تمہارا باپ بھی نہیں کرسکے گا،کر کے دکھا ئو ذرا، اور پھر اپنا حشر دیکھ لو کہ تمہارا کیا حشر کیا جاتا ہے ! اتنابھی آسان نہیں ہے کہ آپ آرام سے کوئی ترمیم لائیں گے اور ہم چوڑیاں پہن کر گھروں میں عورتوں کی طرح بیٹھے رہیں گے یہ بھی نہیں ہوگا ! ! ان شاء اللّٰہ کوئی نہ سوچے کہ جن چیزوں کو ہم نے مسترد کیا اور چھبیسویں ترمیم سے نکالا اسے دوبارہ کسی ترمیم کے ذریعے سے اسمبلی میں لایا جائے گا اور لوٹوں کے ووٹوں سے پاس کرو گے اور پھر وہ چلنے دیں گے ہم ! ؟ لوٹوں کے ووٹوں سے پاس ہونے والی ترمیم قوم کو قابل قبول نہیں ہوتی ! ہم نے سپریم کورٹ کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کیا، قومی اسمبلی میں تو ہم خود بیٹھے ہوئے ہیں اور اگر کل کلاں ہم اسمبلی میں نہ بھی ہوں تب بھی الحمد للّٰہ باہر آپ لوگ تو ہیں نا، تو پھر مل کر نکلیں گے نا ! ان شاء اللّٰہ تو بے فکر رہیں اور یہ بات بالکل صحیح کہی مولانا اللہ وسایا صاحب نے کہ پارلیمانی ان کامیابیوں کے بعد ایک پہلے جلسے سے میں خطاب کر رہا ہوں اور وہ بھی ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے تو ایک رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی ذات باصفات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو دل میں حاضر سمجھتے ہوئے عہد کیجیے کہ ہم نے اس ملک کو اسلام کی حقیقی منزل تک پہنچانا ہے ان شاء اللّٰہ العزیز اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
٭
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم العالی اور جمعیة علماء اسلام کے دیگر تمام اکابرین ِعظام کو جزائے خیر عطا فرمائے جو ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے دن رات سرگرم عمل ہیں
خدا کرے کہ وہ یومِ سعید بھی ہم دیکھ سکیں جب امارتِ اسلامی افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی علماء حق کی قیادت میں مکمل اسلامی نظامِ حکومت قائم ہوجائے اور عالم کفر ان کے زیرِ نگیں آجائے ، آمین !




درسِ حدیث
٭٭٭
قطب الاقطاب شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ
کا مجلس ِذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' شارع رائیونڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
(ادارہ)
٭٭٭
ہر انسان کے لیے استغفار ضروری ہے، جنت کااستحقاق کسی کو حاصل نہیں ہے !
''تبلیغ'' پر اجر ہے'' تکبُّر '' پر نہیں ، مُبلّغ کے دماغ میں تکبر آجائے تو تبلیغ نہیں رہتی !
( درسِ حدیث نمبر٧١/١٢٥ ٨ رمضان المبارک ١٤٠٤ھ/٨ جون١٩٨٤ئ)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں استغفارکی فضیلت آئی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا رہے اوریہ بھی چاہتا رہے کہ خدا وند ِکریم تو میرے گناہوں کو چھپائے بھی رکھ بلکہ حدیث شریف میں یہ آیاہے کہ یہ ا نسان پر خداتعالیٰ کا ایک انعام ہوتا ہے کہ ا للہ تعالیٰ اس کے عیب کو چھپائے رکھے !
ناشکری اور بے پروائی :
اور یہ بڑی بے پروائی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ توکسی بندے کے عیب کو چھپا لے اور وہ خود اپنے عیب کا چرچا کرتا پھرے کہ میں نے یہ غلطی کی ہے میں نے یہ گناہ کیا ہے میں نے یہ کام کیا ہے یہ غلط ہے اللہ کو پسند نہیں ہے ! اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک احسان بتلایا ہے کہ کسی طرح گنہگار کا کوئی گناہ چھپابھی رہے اس پر پردہ پڑا رہے یہ خدا کا احسان ہے ! تو اس احسان کا شکرکرے ،
اگر وہ دوسروں پر اپنے عیوب جو خدا نے چھپائے رکھے ہیں ظاہرکرتا پھرتا ہے تو گویا خدا کی ناشکری کررہا ہے ! خدا نے تو اس کے ساتھ احسان فرمایا ہے کہ اس کا پردہ چاک نہیں کیا اوروہ خود اپنے بارے میں کہتا پھرتا ہے کہ میں نے یہ جوا کھیلا ، میں نے یہ کام کیا ، میں نے فلاں کام کیا ، یہ غلط ہے اگر خدا نے پردہ رکھاہے تو اس سے بس استغفار کرتا رہے یہی بتایا ہے اور اسی کو پسند فرمایا ہے !
نیک و بد کا قصہ :
دوسری چیز بعض دفعہ یہ ہوجاتی ہے کہ جو آدمی مسئلہ جانتاہے جب وہ دوسرے کوبتلاتا ہے تو اس میں کبھی کبھی یہ غلطی ہو جاتی ہے کہ اپنے آپ کو اچھا سمجھنے لگتا ہے ! اور یہ بات کہ میں اچھا ہوں اگر دماغ میں آجائے تو وہیں اس کا درجہ خدا کے ہاں گھٹ جائے گا ! !
تو جو مسئلہ جانتا ہے جب دیکھے کہ اس پر عمل نہیں ہو رہا اس کے خلاف ہو رہا ہے تو و ہ کیاکرے ؟ بتائے یا نہ بتائے ؟ بتائے ضرور ،نہیں بتائے گا تو گناہ ہوگا ! تو مطلب یہ ہوا کہ مسئلہ بھی بتلائے اور اپنے آپ کو یہ سمجھے کہ یہ خدا کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں کہ میں اسے بتلا رہا ہوں ! !
یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اس سے اچھا ہوگیا کیونکہ اچھے اور نہ اچھے ہونے کا مدارتو خدا کے قرب پر ہے، خدا کی پسند پر ہے جو ہم سے غائب ہے جس کا پتہ نہیں چل سکتا ! ! !
سبق آموز قصہ :
ایک واقعہ اسی طرح سے آتا ہے کہ دو آدمی تھے بنی اسرائیل میں ، ا ن میں آپس میں بڑی محبت تھی مُتَحَابَّیْن لیکن رنگ ہر ایک کا الگ تھا،ایک مُجْتَھِد فِی الْعِبَادَةِ خوب زیادہ عبادت کرتا
دوسرا جو تھا اس کی زندگی پاکیزہ نہیں تھی گناہ کے کام کرتارہتا تھا ! !
یہ آدمی جو نیک تھا اس کا دوست تھا اسے سمجھاتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ جو تو یہ برے کام کرتا ہے یہ کم کر ان میں کمی لا ، برے کاموں سے باز آجا اَقْصِرْعَمَّا اَنْتَ فِیْہِ ! یہ (جواب میں )کہتا تھا کہ بات تو ٹھیک کہتے ہو مگر گناہگار ہوں وَالْآخَرُ یَقُوْلُ مُذْنِب ! یہ تنگ آجاتاتھا تو کہہ دیتا تھا کہ بس میں جانوں میرا خدا جانے خَلِّنِیْ وَرَبِّیْ ! ایسے بھی کہہ دیتے ہیں لوگ اب بھی کہہ دیتے ہیں جو زیادہ تنگ آجائیں کوئی زیادہ تنگ کرے تو پھر یہی کہہ دیتے ہیں وہی وہ کہہ دیتا تھا کہ خَلِّنِیْ وَرَبِّی مجھے اور میرے پرور دگار کو بس تم چھوڑ دو ، میں جانوں خدا جانے ، میرا اور خدا کا معاملہ ہے ! !
بس ایک دن اس نے دیکھا کہ یہ کسی ایسے برے کام میں لگا ہوا ہے جس کو اس نے بہت برا سمجھااور کہنے لگا کہ باز آجا اَقْصِرْ ! اس نے پھر وہی کہا اور یہ بھی کہا اَبُعِثْتَ عَلَیَّ رَقِیْبًا کیا تجھے خدانے میرے اوپرنگران مقرر کیا ہے کہ تومیری نگرانی کرتا رہے ، میری سپروائزری کرتا رہے ! ! ؟
(تو یہ نیکی کرنے والا)کہنے لگا وَاللّٰہِ لَا یَغْفِرُ اللّٰہَ لَکَ اَبَدًا وَلَا یُدْخِلُکَ الْجَنَّةَ اس (نیک ) آدمی نے کافی سخت جملے کہے ،کہنے لگا خدا کی قسم اللہ تجھے کبھی بھی معاف نہیں کرے گا اور کبھی تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا ! !
یہ اس آدمی کی زبان سے جو اسے واعظ کہہ رہا تھا جملے نکلے ،یہ بہت بڑا دعویٰ ہے ! زندگی اور موت کا تو پتہ کوئی نہیں ہوتا ،بہت قصے ایسے ہوتے رہتے ہیں کہ ذرا سی دیر میں دو آدمی مر گئے دوست مر گئے میاں بیوی مر گئے،بہت سارے واقعات ایسے ہوتے رہتے ہیں ! تو اس میں بھی اسی طرح ہوا فَبَعَثَ اللّٰہُ اِلَیْھِمَا مَلَکًا تو ان دونوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بھیجا اس نے ان کی روح قبض کر لی ! یہ دونوں جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس سے جو گنہگارتھا اُدْخُلِ الْجَنَّةَ کہ تو جنت میں چلا جا اور فرمایا بِرَحْمَتِیْ میری رحمت کی وجہ سے ! !
جنت کا استحقاق کسی کو حاصل نہیں ہے :
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ہمیں بتادیا کہ استحقاق تو کبھی بنتا ہی نہیں کہ کوئی آدمی یہ سمجھ لے کہ میرا حق ہے کہ میں جنت میں جائوں یہ تو بنتا ہی نہیں ہے ! بس یہی ہے کہ خدا کی رحمت ہی سے جانا ہے ! یہ مسئلہ تو ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے بتلادیا ہے سمجھا دیا ہے کہ یہ کبھی سمجھنا ہی نہیں کہ فلاں عمل کی وجہ سے میں جنت میں چلا جائوں گا ! میں نے اتنی نیکیاں کی ہیں کہ ساری زندگی نیکی میں گزاری ہے تو میں ضرور بخشا ہی جائوں گا یہ نہیں ہے ! بس یہی ہے کہ خداوندِکریم چاہے تو بخش دے گا اور اس کی رحمت ہو گی تو بخشا جائے گا ! تو اس آدمی نے یہ کہا تھا کہ تیری کبھی بخشش نہیں ہوگی ،خدا تجھے جنت میں نہیں لے جائے گا ! اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بلا لیا جو گنہگار تھا اس سے فرمایا کہ جائو میری رحمت سے !
اور دوسرے سے کہا اَتَسْتَطِیْعُ اَنْ تَحْظُرَ عَلَی عَبْدِیْ رَحْمَتِیْ ١ کیا تو یہ کر سکتاہے کہ میری رحمت کو روک دے کہ وہ کسی بندے تک نہ پہنچ سکے ؟ فلاں تک پہنچے اورفلاں تک نہ پہنچے یہ تو کر سکتا ہے ؟ توکہنے گا کہ نہیں ،صحیح بات یہ ہے کہ میں یہ نہیں کرسکتا ، کوئی یہ نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ کو مجبورکردے کہ تو اس بندے پر رحم نہ کھانا اس پر اپنی رحمت نہ کرنا ، کوئی مجبور نہیں کرسکتا !
تو فرمایا (فرشتوں کو اللہ نے )کہ اس کو تم اسی گناہ کی وجہ سے جو اس نے زبان سے کیا جہنم میں لے جائو ! ! اس کو اللہ تعالیٰ نے بخش دیا اور اس کو سزا دے دی ! ! !
مُبَلِّغْ حضرات کے لیے تنبیہ :
اس میں میں اتنی بات عرض کرنی چاہتا ہوں سمجھانے کے لیے کہ ایک آدمی گناہ کرتا ہے اور اپنے آپ کو عاجز اور بڑا ہی قصور وار سمجھتا رہتا ہے(مگر) رک نہیں سکتا گناہ سے ! اس سے گناہ ہو جاتا ہے جب گناہ ہو جاتاہے توپھر پچھتاتا ہے ! پھر ہو جاتا ہے پھر پچھتاتا ہے ! تو اس آدمی کی قسم یہی معلوم ہوتی ہے (جو حدیث شریف میں آئی ہے )
اور بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ ایک آدمی نصیحت کرتاہے کسی کو اور اس کے دماغ میں اور اس کے دل میں بڑائی آتی ہی چلی جاتی ہے ! وہ جو بڑائی آتی چلی جاتی ہے تو وہ '' کِبْر '' ہوگیا ! وہ تبلیغ نہیں رہی ! اس تبلیغ کے اندر تکبر کا پہلو بڑھ گیا ! تو تبلیغ پر تو اجر ہے ! تکبر پر تو اجر نہیں ہے(بلکہ گناہ ہے ) !
تو اس طرح کی چیز اگر مبلغ کے دماغ میں پیدا ہو رہی ہے کہ میں بہت اچھا ہوں میں بہت برتر اور بالا ہوں توپھر اسے ڈرناچاہیے ! اسے استغفار کرنا چاہیے اس کیفیت سے جو اس کے دل میں یہ خرابی پیدا ہو گئی ہے !
اور اسے خود نظر آنی چاہیے کیونکہ شریعت نے تو بہت باریک باریک چیزیں بتلارکھی ہیں تو اسے ڈرنا چاہیے کہیں اس بات پرمیری گرفت نہ ہوجائے ! تو اللہ تعالیٰ کو جو چیز پسند آجائے اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور جو چیز ناپسند ہو اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الصوم رقم الحدیث ٢٣٤٧
تبلیغ کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بات سمجھاکرکہہ دی جائے اس کے بعد ماننا یا نہ ماننا یہ اس آدمی کا کام ہے اس کا پیچھاکرتے رہنا یہ مبلغ کا کام نہیں ہے ، مبلغ کا کام یہی ہے بس اور اتنے ہی سے فائدہ ہو جاتا ہے وہ خود ہی پھر ٹھیک چلتا ہے نیکی کی طرف بڑھتا چلا جاتاہے ! اور اگر وقت نہ آیا ہو ابھی اس کی ہدایت کا تو پھر اس سے فائدہ نہیں ہوتا ،اس کی ہدایت ہونی ہے پندرہ سو دفعہ کہنے کے بعد تو ہلکے ہلکے ، ہلکے ہلکے کہتے رہیں جب پندرہ سو دفعہ کہیں گے توپھر جاکر اس کے دماغ میں بات آئے گی کہ ہاں اب کچھ سوچوں گا تویہ ضروری نہیں کہ جب آپ نے کہی فوراًاثر ہوجائے،نہیں ہوتا ایسے، ہوتا ہی نہیں اثر ، بلکہ مرتے وقت مرنے سے پہلے پہلے ہو جاتا ہے ! !
انسان اپنے عمل کا وزن متعین نہیں کر سکتا :
انسان خود اپنے عمل کی اور اپنے درجہ کی قیمت ڈال لے اپنی حد مقرر کرلے اپنا وزن مقرر کرلے اس کا اختیار نہیں دیا گیا اور اگر کوئی ایسے کرتا ہے تو جو اس نے نیکیاں کی ہیں وہ سب بے وزن ہو جائیں گی ! کیونکہ اس نے اپنی نیکیوں کی قیمت خود ڈالنی شروع کردی اور خود ان نیکیوں پر ناز شروع کردیا یہ غلط ہے یہ نہیں کرسکتا ! ! !
صحیح مقام ....... نیکیاں بھی ، استغفاربھی :
بس مقام صحیح یہی ہے کہ نیکیاں کرتا رہے استغفار بھی کرتا رہے اور خدا سے اس کی رحمت کا طالب ہو اس کی رضا کوطلب کرتا رہے ! استغفار کرنے کی بات یہ ہے کہ آپ نماز پڑھتے ہیں جب سلام پھیرتے ہیں تو حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے مختلف طریقے کرکے دکھائے ہیں نماز کے بعد ! ایک طریقہ یہ ہے کہ تین دفعہ اَسْتَغْفِرُاللّٰہْ کہے اورپھر اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ ..... ١
تو ابھی تو نماز کا سلام پھیرا ہے ! نماز تو خالص خدا کی عبادت ہے بلا شرکت غیر ! اور پھر استغفار کرتا ہے ! ؟
عبادت کے بعد استغفار اور اس کی حکمت :
قرآنِ پاک میں آتا ہے کہ ( کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ ) ٢ ان (صحابہ)کا
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الصلوة رقم الحدیث ٩٦١ ٢ سُورة الذاریات : ١٨
دنیا میں یہ حال تھا کہ یہ رات کو کم وقت آرام کرتے تھے رات کو کم سوئے اور عبادت میں رات گزاری اورصبح کو استغفار کرتے تھے ! تو استغفار کا جوڑ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ رات گناہ میں گزاری اور صبح استغفار کرتے ہیں ! (مگر )یہاں ایسا نہیں ہے بلکہ رات عبادت میں گزاری اور صبح استغفار کرتے ہیں
( وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) ١ تو معلوم ہوا کہ انسان کا اصل مقام یہ ہے کہ وہ استغفار ہی کرتا رہے چاہے اس نے عبادت ہی کی ہو ! کیونکہ عبادت بھی کما حقہ نہیں ہو سکتی اس کا پورا حق ادا نہیں کیا جا سکتا !
مثال سے وضاحت :
اگر کسی بڑے کے پاس آپ جائیں اور اس کے ادب و آداب پورے نہ کر سکیں تو یہ بھی ایک طرح کی کوتاہی ہو گی ! او ر بادشاہوں کے ہاں پہلے زمانے میں یہ تھاکہ جو آدمی آتاتھا انہیں بادشاہ کی طرف دیکھنے کی اجازت ہوتی تھی اور دوسری طرف دیکھنا معیوب تھا آدابِ شاہی کے خلاف تھا ! اس حرکت پر اس کو دربار سے اٹھایا بھی جا سکتا تھا ! تو انسان جب خدا کے سامنے پیش ہوتا ہے نماز پڑھتا ہے تو اس کا دل کبھی اِدھر جا رہا ہوتا ہے کبھی اُدھر جا رہا ہوتا ہے سب طرح کی باتیں ذہن میں آتی رہتی ہیں جو چیز بھولا ہو ا ہوتاہے وہ بھی یاد آتی رہتی ہے تویہ حق تو نہیں ادا کر رہا ! اور اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ جیسے ظاہر کو جانتا ہے ویسے باطن کو بھی جانتا ہے چاہے ظاہر کرو چاہے دل کے اند ر بات ہو وہ ہر طرح سے جانتا ہے ! لہٰذا اس کا حق ادا نہیں ہوتا ! !
تو اس واسطے انسان کو جنابِ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامْ نے اس کا مقام سمجھا دیا بتلادیا کہ بس تیرا مقام جو ہے وہ یہی ہے کہ تو عبادت بھی کرتا رہے نیکی بھی کرتا رہے اور استغفار بھی کرتا رہے ! ! اور نیکی پر بھروسہ مت کر صرف خداوندکریم کی رحمت پرنگاہ رکھ یہ انسان کو بتلایا گیا ! چاہے انسان گنہگار ہو چاہے انسان نیکو کار ہو ،چاہے جاہل ہو اور چاہے و ہ ہو جو سبق پڑھا ہواہے ،سب کے لیے ایک ہی جیسی تعلیم ہے ! اور خدا کے لیے سب ایک جیسے ہیں جو عمل کرنا چاہیے وہ سب کو بتایا گیا ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین ! ( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ اگست ٢٠٠٢ئ)
١ سُورة الذاریات : ١٨




سیرتِ مبارکہ
تحویلِ قبلہ ..... انقلاب ِ عظیم
سب سے افضل امت ! سب سے افضل قبلہ
٭٭٭
سید الملت و مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ ''محمد رسول اللہ'' صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اوراق
٭٭٭
جھنڈا قوم بناتی ہے ! کسی قوم کی قومیت جھنڈے سے نہیں بنتی ! البتہ جھنڈا نشانِ قومیت بن جاتا ہے ! جھنڈے کے رنگ یا وضع قطع کا کوئی فطری تعلق قوم کی فطرت سے نہیں ہوتا البتہ کچھ روایات کا لحاظ وضع اور رنگ کے انتخاب کے وقت رکھا جاتا ہے پھر وہ جھنڈا خود پیکر روایات اور نشانِ عظمت بن جاتا ہے اس کی سربلندی یا سرنگونی قسمت قوم کا فیصلہ سمجھی جانے لگتی ہے !
تقریباً یہی شان عبادت اور عبادت کرنے کے رخ'' قبلہ'' کی ہے عبادت یعنی بندگی، نیازمندی، عاجزی اور فروتنی کا تعلق اندرونی احساس اور قلب و ضمیر سے ہے ! نہ پورب سے ہے نہ پچھم سے ١
نیکی اور بھلائی ، شرافت ، حسن اخلاق اور خوبی کردار کا نام ہے ٢ نیکی یہ نہیں ہے کہ مشرق کی طرف منہ کر لے یا مغرب کی طرف مگر ہر ایک عبادت گزار( حتی کہ وہ بھی جو مانتا ہے کہ جس کی
١ ارشاد خداوندی ہے ( لِلّٰہِ الْمِشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَینَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ) اللہ ہی کا ہے پورب اور اللہ ہی کا پچھم
جس طرف بھی رخ کر لو وہاں اللہ ہے ( سُورة البقرة : ١١٥ )
٢ ( لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰئِکَةِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّکٰوةَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) ( سُورة البقرة : ١٧٧ )
(باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
وہ عبادت کر رہا ہے وہ کسی ایک رخ یا کسی ایک جگہ میں نہیں ہے وہ لَا مَکَانَ وَلَا زَمَانْ ہے ، ہر جگہ ہے اور ہر طرف ہے) عبادت کے لیے ایک رخ مقرر کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ جس طرح عمل کی پابندی کے لیے وقت کا مقرر کرنا ضروری ہے ایسے ہی دل کے جما ئواور توجہ کے ٹھہرائو کے لیے بھی رخ کا مقرر کرنا ضروری ہے ! اور افراد قوم میں یکجہتی بھی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب سب کی عبادت ایک ہی طرح ایک ہی رخ پر ہو ! ! ١
مکہ کے مشرک اگرچہ سرِ نیاز بتوں کے سامنے خم کرتے تھے مگر ان کے تحت الشعور یہ تھا کہ ان کا قبلہ '' کعبہ ''ہے جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی تھی جس کی تصدیق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزندِ رشید حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کی جو ہمارے مذہبی پیشوا بھی ہیں اور خاندانی مورثِ اعلیٰ بھی ! !
اہلِ شرک اور بت پرستوں کے بالمقابل اہلِ کتاب( یہودی اور نصرانی) تھے جن کا قبلہ بیتُ المقدس یا بیتُ اللحم تھا سیدنا حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم عبادت کے لیے اٹھے تو اگرچہ کعبہ کو آپ نے نظر انداز نہیں فرمایا مگر آپ نے قبلہ اس کو بنایا جو تقریباً ڈھائی ہزار سال سے انبیا ء علیہم السلام کا قبلہ چلا آ رہا تھا ! حرم کعبہ میں آپ نماز پڑھتے تو کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر رخ شمال کی طرف کرتے تھے




(بقیہ حاشیہ ص ١٨)
٭٭٭
'' یعنی نیکی (اور بھلائی) یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیر لوپورب کی طرف یا پچھم کی طرف، ہاں نیکی اور بھلائی اور حسن کردار اس کا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور قیامت کے دن پر فرشتوں پر کتاب (وحی الٰہی) پر اور نبیوں پر (پھر اس ایمان کے تقاضے کو پورا کیا کہ جبکہ مال کی ضرورت تھی کہ وہ تندرست تھا دنیاوی زندگی کا میدان اس کے سامنے تھا اس نے اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر) دیا مال رشتہ داروں کو یتیموں کو مسکینوں کو اور مسافر کو اور سائلین کو اور گردنوں کے چھڑانے میں اور برپا کیا نماز کو( پوری شان کے ساتھ نماز باجماعت ادا کی) زکوة ادا کی اور وہ جو پورا کریں عہد جب عہد کر لیں اور جو صبر کرنے والے ہیں سختی اور شدت میں اور خوف و ہراس کے وقت ''
١ تفسیر کبیر ( تفسیر فخر الدین رازی )
یعنی وہ قبلہ بھی آپ کے سامنے رہتا تھا جو آلِ اسماعیل کا قبلہ تھا اور وہ قبلہ بھی سامنے ہوتا جو بنی اسرائیل کا قبلہ تھا ! لیکن جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو یہاں یہ اجتماعِ قبلتین ممکن نہیں تھا کیونکہ مکہ یہاں سے جنوب میں تھا اور بیت المقدس شمال میں ! لامحا لہ آپ نے انبیاء علیہم السلام کے ڈھائی ہزار سالہ قبلہ ہی کو اختیار فرمایا ! چنانچہ مسجد کی تعمیر کی تو اسی دیوار کو دیوارِ قبلہ قرار دیا جو بیت المقدس کی جانب ( شمالی دیوار)تھی !
لیکن سوال یہ تھا کہ اس دین کے لیے جو حق و باطل کے لیے فرقان عظیم ہے، خالص اور نکھری ہوئی توحید جس کی بنیاد ہے جس کی تعلیم میں یہ قوت ہے کہ کبھی اس کے منسوخ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آ سکتی جو اَ بَدُ الآبَادْ تک باقی رہنے والا کامل و مکمل دین ہے اس کا قبلہ بھی بیت المقدس رہے جو اہلِ شرک کا قبلہ تو بے شک نہیں ہے مگر جو اس سے وابستہ ہے وہ خود اتحاد اور یکجہتی سے محروم (یہودی اور عیسائی )دو ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں ! ہر ایک ٹکڑی دوسرے کی تردید کر رہی ہے ! اور جہاں تک اخلاق اور کردار کا تعلق ہے تو اخلاق و کردار میں اہلِ شرک کے ہم دوش ہیں بلکہ کچھ آگے بڑھے ہوئے ہیں کہ قتل ِانبیاء کے دھبے بھی ان کے دامن پر نمایاں ہیں ! !
اور اگر قبلہ بدلا جاتا تو قبلہ کا مسئلہ صرف ایک رخ کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک مرکز کا مسئلہ بھی ہے حضرت یعقوب (اسرائیل) علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک حق پرستی ، توحید ، دعوت اِلی اللہ ، ہدایت و ارشاد یعنی مذہبی اور روحانی رہنمائی کا فریضہ بنو اسرائیل کے سپرد رہا ہے ! اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات ان پر ہوتے رہے ! بنو اسرائیل کا دینی مرکز بیت المقدس تھا !
اہم سوال :
اب سوال یہ بھی تھا کہ دعوت و ارشاد کی مرکزیت جس کو اصطلاحاً امامت ،خلافت ِالٰہیہ کہا جاتا ہے کیا اسی قوم کے سپرد رہے گی یا اس میں تبدیلی ہوگی ، اگر تبدیل ہو گی تو کیوں ؟ اور تبدیلی کے بعد جس قوم کو یہ امامت سپرد ہوگی تو کیا اس کا قبلہ بھی یہی رہے گا یا اس کو بھی بدلا جائے گا ؟
اور اگر بدلہ جائے گا تو کیوں ؟ ؟ ؟
ان سوالات کے جوابات عقل وقیاس یا جذبات کی منطق سے نہیں دیے جا سکتے تھے کیونکہ کسی فرد یا قوم کو امامت ِنوع انسان کا درجہ خدا ہی کی طرف سے سپرد ہوتا ہے اور یہ کہ خدا پرست پرستش کے وقت اپنا رخ کس طرف کریں یہ بھی وہی بتا سکتا ہے جس کی خوشنودی کے لیے پرستش کی جاتی ہے لیکن ایک سربراہ کو انقلاب کے موقع پر (جب مختلف سوالات اور خصوصاً جب ایسے سوالات درپیش ہوں جن کا تعلق خود انقلاب اور مقصد انقلاب سے ہو )جو تردّد اور تشویش ہو سکتی ہے اس سے کہیں زیادہ تردّد اس ہادیٔ اعظم کو درپیش تھا جو اس لیے دنیا میں آیا تھا کہ طالبانِ حق کو ہدایت وارشاد کی آخری منزل طے کرائے اور ان کے لیے ایسا راستہ معین کر دے کہ زمانہ کی کوئی بھی گردش اس میں کجی یا نا ہمواری پیدا نہ کر سکے ! اس لیے وہ بار بار اس سمت کی طرف نظر اٹھاتا جس سمت سے عُقدہ کشائی کی توقع تھی ١ ہادیٔ برحق کے تردّد کا عکس ان پر بھی پڑھ رہا تھا جو اس کے ساتھ اس لیے وابستہ ہوئے تھے کہ ذہنی تشویش و تردّد کو اطمینان سے بدلیں اور وہ نور حاصل کریں جو نہ صرف دنیا کی تاریکیوں میں بلکہ ظلمات محشر میں بھی ان کے لیے شمع راہ ہو ٢ ! ! !
اشارے :
چند سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو وہ شرف اعظم حاصل ہو چکا تھا جو نہ صرف نوع انسان بلکہ حق یہ ہے کہ پوری کائنات میں نہ آج تک کسی کو میسر آیا تھا نہ آئندہ آنے والا تھا
یعنی آپ شب معراج میں اس بلند ترین مقام تک پہنچ چکے تھے جہاں تک نہ کسی نبی مرسَل کی رسائی ہوئی تھی نہ کسی مَلَکِ مقرب کی ! جبرائیل امین علیہ السلام اس سے بہت نیچے درماندہ ١ رہ کر یہ معذرت کر چکے تھے !
١ اُلجھن ختم ہوجانا ٢ صحابہ کرام کے تردّد اور انتظار و اشتیاق کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ تبدیلی ٔ قبلہ کی خبر جس کو پہنچی اور جس حالت میں پہنچی فوراً عمل شروع کردیا جو صحابہ نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز میں خبر سنی تو فوراً نماز میں ہی میں اپنا رخ بلکہ امام سمیت پوری جماعت کا رخ شمال سے جنوب کو یعنی بیت المقدس کی جانب سے قبلہ کی سمت کو کرلیا ۔ (بخاری شریف وغیرہ )
اگر یک سر موئے بالا پَرم فروغِ تجلی بسوزد پَرم ١
اس عروج و سیر میں آپ نے بیت معمور ملاحظہ فرمایا تھا جس کے گرد ہر روز ستر ہزار فرشتے مصروف طواف ہوتے ہیں ! ٢ وہیں بانی ملت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی کہ آپ بیتِ معمور سے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں ٣ اسی سیاحت ِقُد سی میں پانچ نمازیں فرض ہوئیں پھر عرش معلی کی اسی سیاحت سے واپسی میں یہ ہوا تھا کہ جب بیت المقدس میں نزول اِجلال ہوا تو تمام انبیاء اور مرسلین صف آراستہ ہوئے اور امامت کے لیے اسی سیّد الثقلین علیہ الصلٰوة والسلام کو آگے بڑھایا گیا ٤
پنج وقتہ نمازوں کا قبلہ یہ بیت المقدس ہو جہاں مسجد اقصی ہے جو ایک گزرگاہ ہے عرش بریں پر جانے والے کا ؟ یا وہ کعبہ ہو جو نقطہ محاذات ہے اُس بیت معمور کا جس کا طواف ملائک کے جھمگٹ ہر وقت کرتے رہتے ہیں جو تکیہ گاہ ہے ابراہیم خلیل اللہ کا ؟ ؟ (علیہ وعلٰی نبینا الصلٰوة والسلام ) ٥
اس طرح کے مشاہدات اشارہ کر رہے تھے کہ امام الانبیا اور اس کی امت خیر الامم کا قبلہ خانہ کعبہ ہونا چاہیے ! مگر جہاں نصِ صریح اور قطعی فیصلہ کی ضرورت ہو وہاں اشاروں کو کافی نہیں سمجھا جا سکتا البتہ یہ اشارے قطعی فیصلہ اور امرِ واضح کی توقع ضرور دلاسکتے تھے اور یہ توقع اشتیاق اور یہ اشتیاق اضطراب بن سکتا تھا اگر انتظار طویل ہوتا ! ! !
یہی اشتیاق و انتظار تھا جس کی وجہ سے آپ بار بار اس سمت کو نظر اٹھاتے تھے جہاں سے مراد پوری ہونے کی توقع تھی ! بالآخر انتظار ختم ہوا جب ہجرت سے سوا سال بعد فرمانِ خداوندی نازل ہوا !
( قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہ ) ٦
١ اگر میں بال برابر بھی اوپر اُڑوں گا تو تجلی( اللہ کے نور کی بہتات ) میرے پر جلا دے گی
٢ جن کا دوبارہ کبھی نمبر نہیں آتا (بخاری و مسلم حدیث معراج) ٣ صحیح مسلم ٤ البدایة والنہایة ج ٣ ص ١١٣
٥ طبری و مُسند اسحاق ، فتح الباری ج ٦ ص ٢٣٥ ٦ سُورة البقرة : ١٤٤
''ہم دیکھ رہے ہیں کہ( حکمِ الٰہی کے شوق و طلب میں )تمہارا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ رہا ہے تو یقین کرو ہم عنقریب تمہارا رخ ایک ایسے قبلے کی طرف پھیر دینے والے ہیں جو تم چاہتے ہو اور اب( کہ اس معاملے کے ظہور کا وقت آگیا ہے )تو چاہیے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام (خانہ کعبہ )کی طرف پھیر لو اور جہاں کہیں بھی تم ہو نماز کے وقت اس طرف رخ پھیر لو ''
وجوہات :
رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَ الْمَغْرِبَیْنِ ، خَالِقُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ ، رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم کے کسی حکم کے متعلق وجہ دریافت کرنا بے ادبی ہے ! ( لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ ) ١ وہ جو کچھ کرتا ہے اس پر اس سے باز پرس نہیں کی جا سکتی ! ! اور جبکہ مشرق اور مغرب اسی کا ہے اور ہر جگہ اور ہر سمت میں اس کا جلوہ یکساں ہے تو بلا شبہ اس کو اختیار ہے کہ قبلہ کے لیے جو سمت چاہے مقرر کر دے ، چون و چرا کی گنجائش کہاں ہو سکتی ہے ! ؟ لیکن یہ حکم جس کے پانچ کلمے ہیں ( فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) ٢ ایک انقلاب انگیز فیصلہ بھی ہے جو ( وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ) ٣ کی پوری شان اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ امامت ِعظمیٰ اور خلافت ِالٰہیہ کا منصب جس پر تقریباً ڈھائی ہزار سال سے بنو اسرائیل فائز تھے اب وہ ان سے چھن کر بنو اسماعیل کے سپرد کیا جا رہا ہے ! !
وہی احکم الحاکمین جس کی بارگاہ ِعظمت تک کسی باز پرس کی رسائی نہیں ہو سکتی اپنی شان یہ بیان فرماتا ہے کہ
( اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ) ٤ ''ذرّہ برابر بھی ظلم اس سے صادر نہیں ہوتا''
ناممکن اور محال ہے کہ جو رب ہے پالنے پوسنے والا ہے وہ اپنے ہی پیدا کیے ہوئے بندوں پر کوئی ظلم کرے ٥ بلاشبہ اس کی شان یہ ہے کہ( وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ) جس کو تو چاہے عزت دے اور جس کو
تو چاہے ذلت دے مگر اس مطلق العنان قدرت کے باوجود اس نے قوموں اور امتوں کی ذلت اور عظمت کے لیے یہ ضابطے مقرر کر دیے ہیں ! !
١ سُورة الانبیاء : ٢٣ ٢ سُورة البقرة : ١٤٤ ٣ سُورة آل عمران : ٢٦ ٤ سُورة النساء : ٤٠
٥ سُورة حٰم السجدة : ٤٦ ( وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ )
ذلت کا ضابطہ یہ ہے کہ جس قوم کو جو نعمت وہ عطا فرما دیتا ہے وہ اس میں انقلاب اور تبدیلی نہیں کرتا جب تک وہ قوم خود اپنے اندر تبدیلی نہ کرے ١ (اور اپنی عظمت آفرین خصوصیات کو ختم نہ کر دے ) عروج کے بعد زوال اس ضابطے کے بموجب ہوتا ہے ! !
اور ترقی کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ جو حالت کسی قوم کی ہوتی ہے وہ قادر ذوالجلال اس میں تبدیلی نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے اندر(اصلاحی) تبدیلی نہ کرے ٢
بہرحال رب ذوالجلال نے اپنی شان اور اپنے ہی منظور فرمودہ ضابطہ کا یہ احترام فرمایا ہے کہ اس انقلاب آفریں حکم کی وجوہات بیان فرمائیں اور اس تفصیل سے بیان فرمائیں کہ شاید کسی اور حکم کی وجوہات اس تفصیل سے بیان نہیں فرمائیں ! ! آپ قرآن مجید کی تلاوت شروع کیجئے سب سے پہلے آپ سورہ فاتحہ پڑھیں گے جو نرالے رنگ کی حمد و ثنا ہے جس میں بندوں کو نہایت جامع دعا کی تلقین بھی ہے اور عبرت آموز سبق بھی ! !
پھر وہ سورت شروع ہوتی ہے جو قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے اس میں مقصودقرآن حکیم کی وضاحت کے بعد ان تین جماعتوں کا ذکر اور ان کے کردار کا بیان ہے جو کسی بھی تحریک کے برپا ہونے پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں یعنی
(١) ماننے والے (٢) کھلے ہوئے مخالف اور منکر (٣) وہ اغراض پرست بزدل جن کے دلوں میں انکار بھرا ہوتا ہے اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ موافق اور فرمانبردار ہیں !
اس کے بعد عبادتِ رب کی ہدایت ہے اور اس رسول کا ذکر ہے جو طریقہ عبادت کی تعلیم دے رہا ہے جس کی تصدیق کے لیے وہ معجزہ پیش کیا گیا ہے جس کا نام '' قرآن'' ہے !
پھر نوع انسان کی حیثیت بیان فرمائی گئی ہے کہ اس کو زمین پر اللہ تعالیٰ کی خلافت عطا ہوئی اس کی شان ملائک سے بھی بلند ہے اب خلافت اور امامت کا ذکر شروع ہوا تو بنو اسرائیل کو یاد دلایا گیا ہے کہ یہ نعمت عظمیٰ ان کو عطا ہوئی تھی ! ! !
١ ( ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ) ( سُورة الانفال : ٥٣ )
٢ ( اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ) ( سُورة رعد : ١١ )
یہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٤٠ ہے یہاں سے سورہ بقرہ کا پانچواں رکوع شروع ہوتا ہے اس آیت سے لے کر آیت نمبر ١٢٣ تک جو پندرھویں رکوع کے شروع میں بنو اسرائیل ہی کا تذکرہ ہے ١
ان آیات میں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے انعامات شمار کرائے گئے ہیں جو بنو اسرائیل کو وقتاً فوقتاً عطا ہوتے رہے ! !
دوسری جانب اس کا تذکرہ ہے کہ باری تعالیٰ کے انعامات کو بنو اسرائیل نے کس طرح پامال کیا اور کس طرح ان کی دھجیاں بکھیریں (معاذ اللّٰہ ) ان تمام جرائم کی تفصیل تو بہت طویل ہے یہاں صرف ان جرائم کے عنوان پیش کیے جا رہے ہیں جو اپنے اندر خاص اہمیت رکھتے ہیں جو ان تراسی آیتوں میں شمار کرائے گئے ہیں
(١) اللہ سے جو عہد کیا تھا اس کو توڑ ڈالا اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا ٢ ( آیت : ١٠٠ ، ١٠١)
(٢) حیلہ بازی اور ٹال مٹول (آیت ٦٥ ، ٦٦)
(٣) قبولِ حق سے گریز اور اس پر فخر (آیت ٨٧ تا ٩٣)
(٤) سنگ دلی (آیت ٧٤ تا ٨٨)
(٥) کج بحثی (آیت ٦٨ تا ٦٩)
(٦) نسلی حسد (آیت ٨٩ ، ٩٠ ، ١٠٩)
(٧) پوری ڈھٹائی سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پامال کرنا (آیت ٨٤ ، ٨٥ )
(٨) داعیانِ حق سے عناد (آیت ٨٧) ان کا مذاق بنانا ( آیت ١٠٤)
(٩) احکامِ خداوندی کو فروخت کرنا ( آیت ٤١ ، ٧٩)
١ یعنی ٨٣ آیتوں میں جو دس رکوع ہیں پھیلی ہوئی ہیں
٢ طاعت ِالٰہی اور ایمان با نبیا ء کا عہد، توریت میں بھی اس عہد کا ذکر جا بجا ہے مثلاً تو نے آج کے دن اقرار کیا ہے کہ خداوند امیرا خدا ہے اور میں اس کی راہوں پر چلوں گا اور اس کے شرعوں اور اس کے حقوق اور اس کے حکموں کی محافظت کروں گا اور اس کی آواز کا شنوا ہوں گا ! ( فقرہ ١٨ باب ٢ استثناء )
(١٠) عقائد میں تحریف ١ (آیت ٨٠ ، ١١١ )
(١١) احکام خداوندی میں تحریف ٢ (آیت ٧٥)
(١٢) موت سے گریز ، دنیاوی زندگی کی شدت ِحرص (آیت ٩٦)
(١٣) گوسالہ پرستی(گائے کا بچھڑا ) (آیت ٩٢)
(١٤) خدا کے بیٹا ماننا ٣ (آیت ١١٦)
(١٥) انبیاء علیہم السلام کو قتل کر ڈالنا (آیت ٦١ ، ٩١)
(١٦) جادو اور کہانت (آیت ١٠٢ ، ١٠٣)
(١٧) گروہ بندی اور گروہ بندی کے ساتھ جنت کی ٹھیکہ داری کی، یہود کہتے تھے کہ جب تک انسان یہودی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں پا سکتا اور عیسائی کہتے تھے کہ جب تک عیسائی گروہ بندی میں داخل نہ ہو جنت میں نہیں جا سکتا (آیت ١١١)
قرآن پاک کی مُحَوَّلَہْ بالا آیتوں میں ان جرائم کو شمار کرایا گیا ہے پھر ان کی مثالیں اور شواہد پیش کیے گئے ہیں
اب ایک قدرتی سوال ہے کہ جس قوم کا یہ کردار ہو چکا ہے کیا وہ اس کی اہل ہے کہ منصب ِامامت کی حامل رہے اور اس کے قبلہ کو نوع انسان اور دین کامل کا قبلہ قرار دیا جائے اور اس میں تبدیلی نہ کی جائے ! ! ؟
کلام اللہ کی نظر میں تبدیلی صرف مناسب ہی نہیں ہے بلکہ اتنی ضروری ہے کہ اس پر اعتراض وہی کر سکتے ہیں جو فہم و بصیرت سے محروم اور مضحکہ انگیز نادانی (سفاہت ) میں مبتلا ہوں !
چنانچہ تبدیلی قبلہ کے حکم کی تمہید اسی طرح فرمائی گئی ہے
( سَیَقُوْلُ السُّفَھَآئُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰھُمْ عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا ) ٤
١ تم نے زندہ خدا ربُ الافواج کی باتوں کو بگاڑ ڈالا ہے (یر میاہ باب ٢٣ فقرہ ٣٧)
٢ جو اپنی زبان استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ فرماتا ہے ( یر میاہ باب ٢٣ فقرہ ٣١ ، ٣٢)
٣ یہود اور نصاریٰ دونوں ہی نے خدا کا بیٹا مان لیا تھا ، یہود نے حضرت عزیر کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو ! علیہما السلام
٤ سُورة البقرة : ١٤٢
''جو لوگ عقل و بصیرت سے محروم ہیں وہ کہیں گے کس بات نے ان (مسلمانوں ) کو ہٹا دیا اس قبلہ سے جس پر وہ اب تک تھے''
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے رب ِابراہیم کا وعدہ اور بنو اسرائیل کی محرومی کا سبب :
سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت اور اس کی عظمت بنو اسرائیل میں بھی مسلَّم تھی اور بنواسماعیل میں بھی دونوں ان کو اپنا مورث اعلیٰ مانتے تھے ١ قران حکیم یہود کے جرائم شمار کرانے کے بعد خاتمہ کلام پر پھر یاد دلاتا ہے کہ
''اے بنی اسرائیل یاد کرو میری وہ نعمتیں جو میں نے تم کو بخشیں اور میں نے تم کو دنیا جہان والوں پر فضیلت دی '' ٢
اس یاد دہانی کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اسم گرامی لے کر وہ بشارت یاد دلاتا ہے جو حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی ! !
( اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ) ٣ ''میں تمہیں انسانوں کے لیے امام بنانے والا ہوں ''
پھر یاد دلاتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دریافت کیا کہ کیا یہ شرف میری اولاد کو بھی میسر آئے گا تو بتا دیا گیا تھا ( لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ ) ٤ ''نہیں پہنچتا میرا اقرار نافرمانوں کو''
یعنی جو ظلم و معصیت کی راہ اختیار کریں ان کا میرے اس عہد میں کوئی حصہ نہیں ہے
اس صغریٰ اور کبریٰ کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنو اسرائیل خود اس بشارت کے بموجب جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی اس کے مستحق ہیں کہ ان کو منصب ِامامت سے معزول کر دیا جائے کیونکہ وہ ظالم ہیں اور ظالم بھی ایسے کہ ان جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں جن کو گزشتہ ٨٣ آیتوں میں بیان کیا گیا ہے ! !
١ برہمن جس برہما کی تعظیم کرتے ہیں کیا عجب ہے وہ ابراہیم یا ابراہام ہی ہوں عربوں نے اگر ابراہام کا ابراہیم کر لیا ہے تو اتنی تبدیلی کا حق تو بھارت کے آریوں کو بھی ہونا چاہیے کہ وہ ابراہیم کا برہم اور برہما کر لیں جیسے ''آرین'' کو '' آریہ'' کر لیا واللّٰہ اعلم بحقیقة الحال
٢ سُورة البقرة : ١٢٢ ٣ سُورة البقرة : ١٢٤ ٤ ایضًا
مستحق شرف کون ؟
قرآن حکیم یاد دلاتا ہے کہ ایک'' بَیتْ'' (یعنی)خانہ وہ ہے جس کو شروع ہی سے
( مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا ) ١ '' بنایا گیا ہے تمام انسانوں کا مرجع اور مرکز ، امن و حریت کا مقام''
اس بَیتْ سے متعلق ہدایت کر دی گئی تھی
( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھمَ مُصَلًّی ) ٢ ''ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ بنا لو''
اس بَیتْ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا تھا اور حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند ارجمند اسماعیل کو حکم دیا تھا علیہما السلام
( طَھِّرَا بَیْتِیَ لِطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰکِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ) ٣
'' تم دونوں میرے گھر کو پاک صاف رکھو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے''
پھر فرقانِ حمید یاد دلاتا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام جب اس بَیتْ کی بنیادیں جو حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ کی تھیں بلند کر رہے تھے تو ان کے دلوں کی گہرائیوں سے ان کی زبانوں پر یہ دعا بھی جاری تھی
( رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّکَ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم ) ٤
'' اے پروردگار ! ہمارا یہ عمل تیرے حضور قبول ہو بلاشبہ تو ہی ہے جو دعائوں کا سننے والا اور( مصالح عالم) کا جاننے والا ہے
اے پروردگار ! (اپنے فضل و کرم سے) ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہم سچے مسلم (تیرے احکام کے فرمانبردار )بن جائیں اور ہماری نسل سے بھی ایسی امت پیدا کر جو تیرے حکموں کی فرمانبردار ہو ! خداوند ہمیں ہماری عبادت کے
١ سُورة البقرة : ١٢٥ ٢ سُورة البقرة : ١٢٥ ٣ سُورة البقرة : ١٢٥ ٤ سُورة البقرة : ١٢٧ ، ١٢٨
طور طریق بتا دے اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما اور اپنی عنایت سے نواز
بلا شبہ تیری ذات ہے جس کے درگزر کرنے کی کوئی انتہا نہیں جو رحم کرنے والی ہے ''
اس سلسلہ میں ان کی ایک دعا یہ بھی تھی
( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) ١
'' اے ہمارے رب( اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیئو کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو ان ہی میں سے ہو، وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے ، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور اپنی پیغمبر انہ تربیت سے ان کے دلوں کو مانج دے''
اس کے بعد کلامِ الٰہی تنبیہ کرتا ہے ابراہیم علیہ السلام کا مسلک تھا
(١) توحید خالص ،خدائے واحد کی پرستش جس میں کسی طرح کے شرک کا شائبہ بھی نہیں تھا
(٢) سپردگی اور فرمانبرداری یعنی اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دینا اور اس کے احکام کی
پوری طرح تعمیل کرنا
یہی توحید خالص اور تسلیم و رضا تھی جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو'' امام الناس ''بنایا اور یہی نعمت بنو اسرائیل کو عطا ہوئی تھی جس کی وجہ سے عالمِین (دنیا جہان) پر فضیلت بخشی گئی تھی
ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اسی مسلک کی وصیت اپنی اولاد کو کی تھی، ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد میں جس قدر نبی آئے سب نے اسی مسلک کو مضبوطی سے اختیار کیا ! یہ تمہاری دھڑے بندی جس کا نام یہودیت اور نصرانیت ہے ان سب انبیاء کا دامن اس سے پاک رہا علیہم السلام (آیت ١٤)
تمہاری اسی دھڑے بندی کا نتیجہ ہے کہ کسی نبی کو مانتے ہو ،کسی کو نہیں مانا یہاں تک کہ قتل بھی کر دیا ، اسی دھڑے بندی نے تم کو منصب ِامامت سے محروم کیا درجہ افضلیت سے نیچے گرا کر ذلت و مسکنت کے گڑھے میں ڈالا ! غضب ِالٰہی کو تمہاری گردنوں کا طوق بنا دیا ! !
١ سُورة البقرة : ١٢٩
آج سب سے افضل وہ ہے جو اس دھڑے بندی سے بالا و برتر ہو کر مسلک ابراہیمی کو مضبوطی سے سنبھالے خدائے واحد کا پرستارِ حقیقی بن کر اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے ! !
آج یہ شرف محمد صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ کی امت کو حاصل ہے لہٰذا وہی اَفْضَلُ النَّاسِ اور اُمَّتِ وَسْطْ ہے ! !
اور اسی افضلیت کی بنا پر یہ فیصلہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس کا قبلہ وہ ہوگا جس کی حرمت و عظمت عہد قدیم سے چلی آرہی ہے جس کے معمار ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام تھے !
پس منظر پر آپ نظر ڈال چکے ! اب ان آیتوں کا مضمون مطالعہ فرمائیے جن میں تحویلِ قبلہ کا حکم ہے جس کا یہ پس منظر تھا
''جو لوگ عقل و بصیرت سے محروم ہیں وہ کہیں گے مسلمان جس قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے کیا بات ہوئی کہ ان کا رخ اس سے پھر گیا ! ؟
(اے نبی) تم کہو کہ پورب ہو یا پچھم سب اللہ ہی کے لیے ہے (وہ کسی خاص مقام یا جہت میں محدود نہیں ) وہ جس کسی کو چاہتا ہے سیدھی راہ چلا دیتا ہے !
اور (اے مسلمانو ! جس طرح یہ بات ہوئی کہ بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ قبلہ قرار پایا) اسی طرح یہ بات بھی ہوئی کہ ہم نے تمہیں امت وسط( نیک ترین، عادل اور معتدل ) بنا دیا تاکہ تم گواہ رہو لوگوں پر( یعنی ایک بہتر نمونہ اور معیار کہ نوعِ انسان کی ہر امت کو اسی سانچہ میں ڈھلنا اور اسی معیار پر اترنا چاہیے) اور رسول گواہ رہیں تم پر (وہ تمہارے لیے نمونہ اور معیار ہیں کہ امت اسلامیہ کو اس معیار پر پورا ہونا اور اسی سانچہ میں ڈھلنا چاہیے) اور ہم نے تمہیں اس قبلہ پر جس کی طرف تم رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اس لیے رکھا تھا کہ (وقت پر) معلوم ہو جائے کہ کون لوگ واقعی (اللہ کے) رسول کی پیروی کرتے ہیں اور کون الٹے پائوں پھر جاتے ہیں ١ یہ حکم بہت گراں ( اور سخت آزمائش کا حکم) ہے
١ یعنی سپردگی اور حکم خدا کی تعمیل کے لیے سر تا سراطاعت بن جانا جو ملت ابراہیم کی خصوصیت ہے کس میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کس میں نہیں پائی جاتی واللّٰہ اعلم
مگر ان لوگوں کو نہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے راہ دکھا دی ہے( اور وہ اطاعت رسول کے ذوق سلیم سے بہرہ ور ہے) اللہ ایسا نہیں کہ ضائع ہو جانے دے تمہارے ایمان کو (کہ جو نمازیں بتقاضاء ایمان باللہ و ایمان بالرسول ، بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھیں ان کو بیکار قرار دے)
بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بڑا شفیق ہے خصوصاً ان پر جنہوں نے اللہ اور رسول کے حکم کی تعمیل میں کوئی کام کیا ، اور تبدیلی قبلہ کے متعلق اس کا یہ حکم بھی سراسر شفقت ہی ہے
(اے پیغمبر )ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکم الٰہی کے شوق و طلب میں تمہارا چہرہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ اٹھ جاتا ہے تو یقین کرو ہم آپ کا رخ اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس کو آپ چاہتے ہیں ،(اچھا )اب کر لیجئے اپنا چہرہ مسجدِ حرام کی طرف اور تم لوگ (آپ اور آپ کے ساتھی) جہاں بھی ہو اپنے چہرے پھیر لیا کرو اسی طرف اور جن لوگوں (یہود اور نصاریٰ)کو کتاب مل چکی ہے وہ یقینا جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ان کے پروردگار کی طرف سے ایک امرِ حق ہے کیونکہ ان کے مقدس نوشتوں میں اس کی پیشین گوئی موجود ہے اور اللہ بے خبر نہیں ہے ان کی کارروائیوں سے ! !
اور اگر تم اہل کتاب کے سامنے (دنیا جہان کی) ساری دلیلیں بھی پیش کر دو جب بھی وہ تمہارے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں ، نہ یہ ہو سکتا ہے کہ (علم و بصیرت کی پوری روشنی حاصل ہونے کے بعد )تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے لگو اور نہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلہ کو ماننے والے ہیں !
یہود کا قبلہ ہیکل بیت المقدس ہے اور نصاریٰ کسی عمارت یا مکان کو نہیں بلکہ ''سمت ِمشرق'' کو قبلہ بنائے ہوئے ہیں ( ابن جریر وغیرہ)
(اور دیکھو )اگر تم نے ان لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی باوجودیکہ تمہیں اس بارے میں علم حاصل ہو چکا ہے( قبلہ کے متعلق وحی نازل ہو چکی ہے) تو تم بھی ان میں ا جا ئوگے جو( نافرمانی کر کے) اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اور جن لوگوں کو ہم کتاب دے چکے ہیں وہ آپ ( آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو ) کو ایسا ہی پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو جانتے پہچانتے ہیں لیکن اس پر ایک گروہ ان میں ایسا ہے جو جان بوجھ کر سچائی کو چھپاتا ہے ! (تحویل قبلہ کا یہ معاملہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک امرِ حق ہے پس ہرگز ہرگز ایسا نہ ہو کہ تم شک کرنے والوں میں سے ہو جائو''

( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللہ'' صلی اللہ عليہ وسلم ص ٥١١ تا ٥٤٢ ناشر کتابستان دہلی )




قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے وہ مضامین جو پندرہ بیس برس قبل ماہنامہ انوار مدینہ میں شائع ہوچکے ہیں قارئین کرام کے مطالبہ اور خواہش پر ان کو پھر سے ہر ماہ سلسلہ وار ''خانقاہ حامدیہ '' کے زیر اہتمام اس مؤقر جریدہ میں بطور قند ِمکرر شائع کیا جارہا ہے !
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے (ادارہ)
٭٭٭
انسانی عادات اور اللہ کا عذاب
( قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب )
نظر ثانی و عنوانات : شیخ الحدیث حضرت مولانا سےّد محمود میاں صاحب
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سورۂ اعراف کے بارہویں رکوع میں توجہ دلائی گئی ہے کہ جن قوموں اور امتوں کی تباہی کا حال بیان کیا جاچکا ہے ان کے حالات پر نظر ڈالیں ان کی خامیوں پر غور کریں اور ان سے سبق حاصل کرکے عبرت پکڑیں مثلاً قومِ نوح ، قومِ عاد ، قومِ ثمود اور اہل مَدْیَنْ یہ مبارک رکوع چھ آیات پر مشتمل ہے
اقوامِ عالم جن کے پاس انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے باری تعالیٰ کا ان کے ساتھ کیا معاملہ رہا ہے اور ان قوموں کی کیا حالت رہی ہے اس کو ان آیات میں واضح فرمایا گیا ہے چنانچہ پہلی آیت میں ارشاد ہوا
( وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بِالْبَأْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ ) ١
''اور ہم نے جس کسی بستی میں بھی کوئی نبی بھیجا اس کے باشندوں کو ہم نے سختی اور بیماری میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں ''
اس کی تشریح یوں سمجھئے کہ اکثر انسانوں کی یہ فطرت ہے کہ جب صحت اور فارغ البالی میسر آتی ہے تو انہیں خدا کی یاد سے غفلت ہوجاتی ہے اور ان کی خدا کی نافرمانیوں کی جرأت اور بڑھ جاتی ہے !
١ سُورة الاعراف : ٩٤
اسی کا نام تکبر اور بڑائی ہے جو خدا کو ناپسند ہے اور یہی چیز حق بات سننے اور اس کے ماننے میں رکاوٹ کا سبب ہوتی ہے ، بلکہ ایسی حالت میں انسان اپنی حدود سے آگے بڑھ کر دوسروں پر دست ِظلم بھی دراز کرنے لگتا ہے جس کی اصل وجہ غفلت ، لاپرواہی اور بدمستی ہی ہوتی ہے ! !
رحمت کا انداز :
یہ بھی پروردگار ِعالم کی رحمت ہی کا ایک طریقہ ہے کہ ان کی ایسی نعمتوں پر جو اس غفلت کا باعث بن رہی ہوں کنٹرول کردے تاکہ سرکشی میں کمی ہو اور خدا کے نبی کی زبانی خدا کا پیغام توجہ سے سننے کا موقع ملے ! !
بعض اوقات اس ضعیف الحقیقت انسان کا رعونت کی وجہ سے یہ حال ہوتا ہے کہ وہ کسی سے بات (کرنا یا سننا) گوارا نہیں کرتا ! لیکن جب اس پر سختی کا وقت آتا ہے تو عزیزوں ، دوستوں اور ساتھیوں سے مشورے کرتا پھرتا ہے ! ! اسی طرح بیماری اور نقصان دہ حالت پیش آنے پر اس کا دل کسی کام میں نہیں لگتا ! بھوک غائب ہوجاتی ہے ! بلکہ بیماری میں تو وہ نعمتیں بھی بے ذائقہ ہوجاتی ہیں جن پر مدارِ حیات ہوتا ہے ! نہ کھانے کو جی چاہتا ہے نہ پینے کو اور کھابھی لے تو ذائقہ اچھا نہیں لگتا ! ! ایسی حالت میں سرکشی کم ہوکر ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں ! اور خدا کا پیغام جو رسول کی زبانی پہنچایا جاتا ہے وہ بندہ دل سے سنتا اور تسلیم کرتا ہے ! ! اسی روّیہ کو اس آیت ِمقدسہ میں ذکر فرمایا گیا ہے ! ! !
اس رکوع کی دوسری آیت میں انسان کی دوسری عادت ذکر فرمائی گئی ہے
( ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰی عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآئَ نَا الضَّرَّآئُ وَ السَّرَّآئُ فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَةً وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) ( سُورة الاعراف : ٩٥ )
''اس کے بعد ہم نے بدحالی کی جگہ خوشحالی عطا کردی، حتی کہ انہیں (خوب خوب) ترقی ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادوں کو بھی تنگی اور راحت پیش آئی تھی اس پر ہم نے ان کو اچانک گرفت میں لے لیا اور وہ اس کا گمان بھی نہ رکھتے تھے''
تشریح :
اس کی تشریح یہ ہے کہ اس پریشانی اور بدحالی کے بعد ہم نے ان کے لیے ترقی کی راہیں کھول دیں وہ خوب پھولے اور بڑھے ! یہ حالت اس لیے کی گئی کہ بعض لوگ تنگدستی میں اور بھی پریشان ہوجاتے ہیں اور پوری توجہ صرف اپنی معاشی بدحالی دور کرنے کی طرف لگادیتے ہیں ایسے وقت وہ نہ کچھ سن سکتے ہیں اور نہ ان کی سمجھ صحیح کام کرتی ہے ! اس لیے یہ حالت بدل کر پھر نعمتوں سے نوازدیا جاتا رہا ہے کہ بدحالی دور ہونے پر خدا کے شکر کی طرف متوجہ ہوں اور انبیائے کرام کی زبانی دیے ہوئے احکام پر چلنے لگیں ، لیکن ان کے لیے یہ تبدیلی بھی اصلاح کا فائدہ نہیں رکھتی وہ یہ تاویلیں کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے بڑوں پر سختی نرمی کے سب ہی دور گزرتے رہے ہیں اس کا تعلق نہ خدا کی اطاعت سے ہے نہ نافرمانی سے ! !
اس تاویل کو دل میں بٹھاکر پھر پوری طرح دریائے غفلت میں غرق ہوجاتے رہے ہیں حق تعالیٰ ایسی حالت میں ان کو ایسی ہی سزائیں دیتے رہے ہیں جو ان کے گمان میں بھی نہ ہوتی تھیں اور اچانک آگھیرتی تھیں ! ! !
اہم نکتہ :
اس آیت کی تفسیر کے ساتھ علمائِ محققین نے یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جس نعمت کے بعد شکر کی توفیق ہو اور جس مصیبت کے بعد خداوند کریم کی ذاتِ پاک کی طرف رجوع کرنے کی دولت مل جائے وہ ہی قوم یا اشخاص ایسے ہوتے ہیں جو عند اللہ مقبول ہوتے ہیں اور نجات پاجاتے ہیں ! !
جن لوگوں کی حالت یہ ہو کہ نعمت کے حاصل ہونے پر غرور و غفلت بڑھ جائے ! اور مصیبت کے وقت شکایت ِباری تعالیٰ لب پر آئے ! تو وہ لوگ بڑے خسارہ میں رہتے ہیں ! (خدا پناہ میں رکھے)
کیونکہ ایک تو مصیبت کی تکلیف پہنچی پھر وہ بھی اجر اور خدا کی خوشنودی سے خالی ! !
ربُ العالمین جو انسانوں کا خالق ہے جس نے فطرت ِانسانی پیدا فرمائی ہے اس نے قرآنِ عزیز میں دو طرح کی فطرتیں بیان فرمائی ہیں ! !
(١) ( وَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَئُوْس قَنُوْط ) یعنی انسان ایسا ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے
تو مایوس اور بالکل نا امید ہوجاتا ہے ! !
(٢) اور دوسری فطرت اس طرح کی ہوتی ہے کہ ( اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوْ دُعَآئٍ عَرِیْضٍ )
یعنی جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں مانگنے لگتا ہے ! !
اس کے بعد تیسری آیت میں حق تعالیٰ نے اپنا معاملہ جو مخلوق کے ساتھ ہوا کرتا ہے بیان فرمایا ہے ارشاد ہوا
( وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ القُرٰی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ( سُورة الاعراف : ٩٦ )
''او ر اگر بستیوں والے ایمان لے آئے ہوتے اور پرہیزگاری اختیار کی ہوتی تو ہم ان پرآسمان و زمین کی برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے تو جھٹلایا، تو ہم نے ان کی کرتوتوں کی پاداش میں ان کی گرفت فرمائی''
آسمانی برکات سے مراد یہ ہے کہ ہر طرح کی برکتیں نازل کرتے ! اور آفتوں سے محفوظ رکھتے ! زمین کی برکتوں سے جو آسمانی برکتوں سے ملی ہوئی ہوں یہ مراد ہوگی کہ ہر قسم کی آسانیاں پیدا فرمادی جاتی ہیں !
خدا کے لیے دونوں کام آسان ہیں وہ چاہے تو اسی زمان و مکان کو جنت کا نمونہ بنادے ! اور وہ چاہے تو جہنم کا نمونہ بنادے ! آسمان سے بارش برسائے، بارش مناسب ہو، صحیح وقت پر ہو، ہرجگہ ہوجائے تو بارانی فصلیں بھی درست ہوجاتی ہیں ! اور اگر بارش بے وقت اور بہت زیادہ ہوجائے تو پیدا شدہ فصلیں بھی تباہ ہوجاتی ہیں ! ! یہ نمونہ تو ہم ہر سال ہی دیکھتے رہتے ہیں اور اس کا مقابلہ تو کیا اس سے بچائو بھی ممکن نہیں رہتا ! ! !
وہ اگر چاہے تو بے کار و بے باراں زمین سے چشمے نکال دے ! چاہے پانی کے چشمے نکال دے ! چاہے آج کی دُنیاوی ضروریات کے مطابق تیل کے چشمے نکال دے ! وہ چاہے تو زمین سے
معدنیات، ہیرے جواہرات کی کانیں اور مفید گیسیں برآمد فرمادے ! ! اور نہ چاہے تو جتنی کوشش کرلی جائے سب اکارت جائے اور کچھ بھی برآمد نہ ہو بلکہ چشمے بھی خشک ہوکر رہ جائیں ! ! !
اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ سب کچھ اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے، وہ جو ارادہ فرماتا ہے وہ سب کچھ ہوجاتا ہے اس لیے اس کی ذاتِ پاک کو مُسبِّبُ الاَسْبَابْ کہا جاتا ہے یعنی وہ ہر چیز کا سبب اور اس کی وجہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے ! پھر بندہ اپنا وقت ِعزیز کیوں اس کی ذات کے سوا کسی اور طرف لگ کر اطاعت کے بجائے نافرمانی پر صرف کرتا ہے اور کیوں اپنی قلبی توجہ، اپنی قوت و صلاحیت اس کی اطاعت پر نہیں لگاتا کہ جس سے اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں ! !
اس آیت کے آخری جملہ کا ترجمہ عرض کیا گیا ہے کہ ''ہم نے ان کی کرتوتوں کی پاداش میں ان کی گرفت فرمائی'' اس مبارک جملہ میں بتلایا گیا ہے کہ آفتیں در اصل انسان کی اپنی کرتوت، معصیت و نافرمانی کی وجہ سے آتی ہیں ! ربِّ ذُوالجلال کی ذات بہت غنی ہے ! جیسا کوئی کرتا ہے وہ بھی اس کے ساتھ اسی قسم کا معاملہ فرماتا ہے ! اس لیے اس کی ذاتِ پاک سے تعلق جوڑو تاکہ اس کا معاملہ تمہارے ساتھ مہربانی کا ہوجائے ! !
اس مبارک رکوع کی چوتھی، پانچویں اور چھٹی آیت میں بھی باری تعالیٰ نے بندوں کو معصیت سے منع فرمایا ہے، اپنی جلالت ِ شان اور بے نہایت قدرت کا ذکر فرمایا ہے ! انسانوں کی غفلت کی حالت بتلائی ہے کہ وہ دن کو بھی نشہ ٔ غفلت میں سرشار رہتے ہیں اور رات کو بھی، حالانکہ خدا کی گرفت اس پر ہروقت ہوسکتی ہے جب بندہ غافل اور مبتلائے معصیت ہو اور جس وقت بھی خدا کا غضب جوش میں آجائے معاذ اللّٰہ !
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے
''تو کیا بستیوں والے اس سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ ان پر رات کو سوتے سوتے ہمارا عذاب آجائے ! اور کیا بستیوں والے اس سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ ہمارا عذاب دن چڑھے آجائے ! جبکہ وہ کھلاریوں میں لگے ہوں !
کیا وہ اللہ تعالیٰ کی نہ نظر آنے والی تدبیر سے مطمئن ہوگئے ہیں ! اللہ کی نہ نظر آنے والی تدبیر سے وہی بے خوف ہوتے ہیں جو خسارہ اور گھاٹے میں مبتلا ہوں '' ١
١ سُورة الاعراف : ٩٧ تا ٩٩
آخر کی ان تینوں آیتوں میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے زمانہ کے کفار اور ان کی بستیاں مراد ہیں ! انہیں نافرمانیوں پر سخت وعید فرمائی گئی ہے اور ایسے عجیب اور ہیبت ناک انداز سے سرزنش فرماکر ڈرایا گیا ہے جو کلامِ الٰہی کا ہی اعجاز ہے ! !
اہم مسئلہ :
ان آیتوں میں یہ بے خوفی کافروں کی ذکر فرمائی گئی ہے اس سے علمائے کرام نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ عذابِ خداوندی سے بالکل بے خوف ہوجانا یہ بھی کفر ہے ! !
شریعت میں بتلایا گیا ہے کہ ایمان کی اصلی حالت یہ ہے کہ خوفِ خدا بھی ہو اور امید ِرحمت بھی ، جیسے قطعاً بے خوف ہونا کفر ہے ! اسی طرح قطعاً مایوس ہونا بھی کفر ہے ! کیونکہ اس سے گویا خداوند کریم کی صفت ِرحمت کا انکار لازم آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کاانکار بھی یقینا کفر ہوتا ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے احکام پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور دنیا و آخرت میں اپنے فضل ِخاص سے نوازے، آمین۔
سیّد حامد میاں غفرلہ'
١٢ ذیقعدہ١٣٩٦ھ / ٥ نومبر ١٩٧٦ئ




مؤرخِ ملت مجاہد فی سبیل اللہ حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ
کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat2.php




تربیت ِ اولاد قسط : ٢٠
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
اولاد کے حقوق میں کوتاہی اور اس کا نتیجہ :
اولاد کے بہت سے حقوق والدین کے ذمہ ہیں چنانچہ اولاد کا ایک حق والدین کے ذمہ یہ بھی ہے کہ ان کے اخلاق کی اصلاح کریں ان کو دین کی تعلیم دیں ! بعض لوگ اولاد کو(دینی) تعلیم نہیں دیتے بعض لوگ بچوں سے اپنی داڑھی کھنچواتے ہیں اپنے کو گالیاں دلواتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے بلکہ نازو نعمت میں پالتے ہیں !
اس کا انجام یہ ہوتا ہے جو میں نے کانپور میں دیکھا کہ ایک نواب صاحب جا مع مسجد کا پانی بھرا کرتے تھے(یعنی مزدوری کرتے تھے ) سب لوگ ان کو نواب کہتے تھے، میں نے شروع میں یہ سمجھا کہ نام ہی نواب ہوگا پھر معلوم ہوا کہ یہ واقعی نواب تھے ان کے پاس بڑی ریاست (جاگیر تھی) مگر عیاشی میں سب برباد کردی اور اس وقت ان کی زندگی بہت تلخ (بدمزہ ) تھی ! جب بچپن میں اولاد کے اخلاق کی اصلاح نہ ہو اور(دینی) تعلیم نہ دی جائے توبڑے ہو کر جب اس کے ہاتھ میں ریاست آئے گی تو اس کا یہی انجام ہوگا جو ان نواب صاحب کا ہوا ! ! (الحدود القیود ۔ التبلیغ)
اولاد خبیث اور بدمعاش کیسے ہوجاتی ہے ؟
اولاد کے زیادہ تر خبیث (بدمعاش) ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اولاد کو لاڈ پیار دُلار بہت کیا جاتا ہے، بچپن میں ان کے اخلاق خراب کر دیے جاتے ہیں کہ چاہے وہ کسی کو گالی دے یا کسی کو مارے پیٹے ، دُلار کی وجہ سے کوئی اسے کچھ نہیں کہتا اور کہناسننا کیسا ! بعض عورتیں تو اس کی تمنا کرتی ہیں کہ ہمارے بچے گالی دینے کے قابل ہوجائیں چنانچہ ایک عورت نے منت مانی تھی کہ اگر میرے لڑکا ہو اور وہ ماں کی گالی دے کر گھر میں آئے تومیں اللہ واسطے پانچ روپے کی مٹھائی تقسیم کروں گی ! تو بھلا ایسی عورتیں اولادکو گالی دینے سے کیا خاک روکیں گی ! !
(اسی طرح) بعض لوگ بچوں سے اپنی داڑھی کھنچواتے ہیں اپنے کو گالیاں دلواتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے ! ایسی اولاد بڑی ہوکران (ماں باپ) کو بھی گالیوں سے یادکرتی ہے اور بعض لڑکے تو ایسے جلاد ہوتے ہیں کہ بیوی کے مقابلے میں ماں کو لاٹھیوں سے مارتے ہیں (اس وقت یہ ساری تمنائیں خاک ہوجاتی ہیں ) ! ! (اسباب الغفلة ملحقہ دین ودنیا)
بچوں کے اخلاق اورعادتیں کیسے خراب ہوجاتی ہیں ؟
ہمارے یہاں ایک استاد ہیں ان کے متعلق سنا گیا ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کو دوسرے استاد کے یہاں بھیجتے ہیں کہ جا کر اس کے مکتب کی چٹائیاں توڑ ڈالیں ! بتلائیے جب بچپن ہی سے یہ حالت ہوگی تو بڑے ہوکر ان کی کیا اصلاح ہوگی ؟ اکثرکہتے ہیں بچہ وہی ہے جو شوخ مزاج ہو حالانکہ شوخی دوسری چیزہے اور شرارت دوسری چیزہے !
انسان اپنے ابنائے نوع (یعنی اپنے جیسے لوگوں )سے سبق لیتا ہے جو حالت دوسرے کی دیکھتا ہے وہی خود اختیار کرتا ہے،لوگ سمجھتے ہیں کہ بچہ اپنی عمر کو پہنچ کر (یعنی بڑا ہوکر )خود ہی سنبھل جائے گا، یہ غلط ہے بلکہ بچہ جب بولنے پر بھی قادر نہیں ہوتا اسی وقت سے اس کے دماغ میں دوسروں کی تمام حرکتیں ہوتی ہیں اور وہ ان سے متاثر ہوتا ہے ! ! (ضرورة الاعتناء با لدین ملحقہ دین ودُنیا)
چوری کی عادت رفتہ رفتہ ہوتی ہے :
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا'' اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے کہ وہ ایک انڈا چراتا ہے اور اس پر اس کا ہاتھ کاٹ دیا جا تا ہے'' اس حدیث میں اشکال ہو تا ہے کہ ایک انڈا چرانے یا رسی چرانے سے ہاتھ کہاں کاٹا جاتا ہے، ہاتھ کاٹنے کا نصاب تو اس سے زیادہ (دس درہم )ہے ! ! میرے استاد فرماتے تھے کہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس (معمولی)سے معصیت کی عادت ہو جاتی ہے اور بڑی مصیبتوں کا دروازہ کھلتاہے ! جو چور بدمعاش ہوتے ہیں وہ پہلے پیسہ پیسہ کی چوری شروع کرتے ہیں پھرجب وہ کھپ گیا(یعنی اس کی عادت ہوگئی)توآگے جرأت ہوئی پھر اور آگے چلے یہاں تک کہ ایک روز اس کی نوبت پہنچی تو ہاتھ کاٹ دیا گیا یعنی کسی زمانہ میں انڈا یا رسی چرائی تھی آج نوبت یہاں تک پہنچی کہ اتنا مال چرایا جس پر ہاتھ کاٹنے کا حکم آیا ! یہ مطلب ہے اس حدیث کا ! ! (التبلیغ ۔احکامُ المال)
آج کل کی تعلیم وتربیت کے برے نتائج :
آج کل لوگ اپنی اولاد کی تربیت ایسی کرتے ہیں جیسا کہ قصائی گائے کی تربیت کیا کرتا ہے کہ اس کو خوب کھلاتا پلاتا ہے حتی کے وہ خوب موٹی تازی ہو جاتی ہے لیکن اس کا مقصد اور انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کے گلے پر چھری پھیری جاتی ہے ! !
اسی طرح یہ لوگ اپنی اولاد کو خود زیب وزینت اور عیش میں پرورش کرتے ہیں اور انجام اس کا یہ ہوتا ہے کہ وہ جہنم کا لقمہ ہو تے ہیں اور ان کی بدولت مربی (تربیت کرنے والوں ) کی بھی گردن ناپی جاتی ہے کیونکہ اس عیش پرستی کی بدولت اولاد کو نہ نماز کی خبر ہوتی ہے اور نہ روزہ کی ! کمبخت دن رات مارے مارے پھرتے ہیں نہ نمازکے نہ روزہ کے ! !
ماں باپ خوش ہیں کہ ہم نماز کے بہت پابند ہیں حالانکہ ان کو یہ خبر نہیں کہ قیامت میں وہ اولاد کی وجہ سے ان کے ساتھ جہنم میں جائیں گے حدیث شریف میں ہے کُلَّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْل عَنْ رَعِیَّتِہ ١ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحتو ں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ! ! ٢
بدحالی کا تدارک اور اصلاح کا طریقہ :
بچوں کو شروع ہی سے اس کا پابند کیجیے کہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھا کریں اسی طرح بچوں میں بچپن ہی سے یہ بات پیداکیجیے کہ ان کومسلمانوں سے اجنبیت (دوری)نہ ہو،ان کو غریبوں سے میل جول رکھنے کی تعلیم دیجیے ان سے ملنے میں دنیاوی عزت بھی ہے ان سے ملوگے تو وہ قدر کریں گے ! اور امیروں کے ساتھ اختلاط میں کچھ عزت نہیں ہوتی کیونکہ اُمرء تو خود ہی اینٹھ مروڑ (یعنی تکبر) میں رہتے ہیں ان کی نظر میں کسی کی وقعت نہیں ہوتی ! پس یہ مادّہ بچپن ہی سے پیدا کرو کہ غریبوں سے نفرت نہ ہو (ان کی حقارت دل میں نہ ہو) یہ باتیں بچپن سے پیدا ہوں گی بڑے ہو نے کے بعدپھر ذر ادشوار ہے !
اسی طرح بچوں کو اس کی تاکید بھی کیجیے کہ خلاف ِ شرع لباس نہ پہنیں ، دوسری قوموں کی وضع نہ اختیار کریں بعض لوگ کہتے ہیں کہ غیر قوموں کے ساتھ تشبہ (یعنی ان کی مشابہت کرنے اور نقل اتار نے ) میں کیا حرج ہے، کیا کافروں کے ساتھ مشابہ ہونے سے کافر ہوجائیں گے ؟ میں ان سے پوچھتا ہوں اگر کوئی مرد زنانا لباس پہنے تو اس کو کیا کہو گے ؟ اگر تشبہ میں خرابی نہیں تو عور توں کے ساتھتشبہ کیوں نہیں کرتے ؟ کچھ نہیں ، بس دین کو اپنا تابع بنا رکھا ہے۔ (وعظ الحیات ملحقہ حقیقت ِمال) (جاری ہے)
١ مشکوة المصابیح کتاب الامارة و القضاء رقم الحدیث ٣٦٨٥ ٢ طریق النجاة ص٧٠٠ ملحقہ دین ودنیا




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
٭٭٭
http://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat




قسط : ٤
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب
( حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رحمة اللہ علیہ )
٭٭٭
مبحث پنجم
٭٭٭
نماز ، روزہ وغیرہ بدنی عبادات کے ذریعے ایصالِ ثواب :
بدنی عبادات کے بارے میں خود ائمہ اہلِ سنت میں مشہور اختلاف ہے امام مالک اور امام شافعی کو (بنا بر قولِ مشہور) اس سے انکار ہے کہ نماز روزہ وغیرہ بدنی عبادات کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچ سکے لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام احمد کا مسلک یہی ہے کہ صدقہ و خیرات اور حج و قربانی کی طرح نماز، روزہ اور تلاوتِ قرآن مجید وغیرہ جملہ بدنی عبادات کا ثواب بھی مُردوں کو پہنچ سکتا ہے اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے'' کتابُ الروح'' میں اس مسلک کو جمہور سلف کی طرف منسوب کیا ہے ١
اگرچہ اس بارے میں مالی عبادات کی طرح دلائل بالکل یکطرفہ اور فیصلہ کن نہیں ہیں (اور اسی وجہ سے اس میں ائمہ سلف کی دو رائے ہو گئی ہیں ) تاہم جو حضرات اس کے قائل ہوئے ہیں وہ دلائل ہی سے قائل ہوئے ہیں اور یہ دلائل اتنے قوی ہیں کہ امام بیہقی جو امام شافعی کے غالباً سب سے بڑے وکیل اور حامی ہیں انہوں نے بھی اس بارے میں ان دلائل کی ہی بنا پر امام شافعی کی تحقیق سے اختلاف کرتے ہوئے یہی رائے ظاہر کی ہے کہ اموات کی طرف سے مالی عبادات کی طرح ہی بدنی عبادات کا بھی کرنا اور اموات کو ان سے بھی نفع اور ثواب پہنچنا احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے اور اس لیے یہی حق ہے ۔حافظ ابن حجر فتح الباری میں امام بیہقی سے ناقل ہیں
١ کتاب الروح ص ١٨٨
قَالَ الْبَیْھَقِیُّ فِی الْخِلَافِیَّاتِ ھٰذِہِ الْمَسْئَلَةُ ثَابِتَة لَا اَعْلَمُ خِلَافًا بَیْنَ اَھْلِ الْحَدِیْثِ فِی صِحَّتِھَا فَوَجَبَ الْعَمَلُ بِھَا ثُمَّ سَاقَ بِسَنَدِہ اِلَی الشَّافِعِیِّ قَالَ کُلُّ مَا قُلْتُ وَصَحَّ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم خِلَافُہ فَخُذُوْا بِالْحَدِیْثِ وَلَا تُقَلِّدُوْنِیْ ۔ ١
'' یہ مسئلہ یعنی اموات مسلمین کی طرف سے نماز روزہ کرنا صراحتاً حدیث سے ثابت ہے اور اس کے ثبوت کی صحت کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ،محدثین میں کوئی اختلاف ہو لہٰذا اسی کے مطابق عمل واجب ہے( اور کیوں نہ ہم اس کو اختیار کریں جبکہ) خود امام شافعی کا ارشاد ہے کہ میں جو کچھ کہوں اگر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے کوئی حدیث اس کے خلاف ثابت ہو جائے تو اس حدیث پر عمل کیا جائے اور ہرگز ہرگز پھر میرے فتوے کی تقلید نہ کی جائے ''
امام شافعی نے بعض ان احادیث پر مفصل کلام بھی کیا تھا جن سے اموات کی طرف سے روزے رکھنے کا ثواب ہوتا ہے امام بیہقی نے اپنی مشہور کتاب'' معرفة السنن و الآثار'' میں (جس کا موضوع ہی گویا حنفیت کے مقابلہ میں شافعیت کی حمایت ہے) اپنے امام کے اس کلام کا مفصل اور مدلل جواب دیا ہے امام شافعی کے اس کلام اور امام بیہقی کے جواب کو حافظ ابن قیم نے کتاب الروح صفحہ ٢٢٢میں بھی نقل کیا ہے ! !
بہرحال اگرچہ یہ واقعہ ہے کہ '' بدنی عبادات ''کے ذریعہ ایصالِ ثواب کے بارہ میں مالی عبادات کی طرح نہ تو ائمہ کا اتفاق ہے اور نہ دلائل ہی ویسے یکطرفہ اور فیصلہ کن ہیں ، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کے بارہ میں نصوص بالکل نہ ہوں اور صرف مالی عبادات پر قیاس کرلیا گیا ہو جیسا کہ بہت سوں کا خیال ہے بلکہ اس بارہ میں مستقل احادیث موجود ہیں اور وہ ایسی صریح اور قوی ہیں کہ ان کی بنیاد پر امام شافعی کے امام بیہقی جیسے زبردست حامی اور وکیل نے بھی اس مسئلہ میں ان کا ساتھ چھوڑ دینا ضروری سمجھا اور متاخرین ِشافعیہ کا تو عام رجحان ہی اس طرف ہے جیسا کہ ان کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے یہ احادیث صحیحین میں بھی ہیں چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے
١ فتح الباری جز ٧ ص ٢٨٥
مَنْ مَّاتَ وَعَلَیْہِ صِیَام صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہ ١
''جو شخص ایسی حالت میں مر جائے کہ اس کے ذمے کچھ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھتا ہے''
اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کے اسی باب میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے
جَآئَ تِ امْرَأَة اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اُمِّیْ مَاتَتْ وَ عَلَیْھَا صَوْمُ نَذْرٍ اَفَاَصُوْمُوْ عَنْھَا قَالَ اَرَأَ یْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی اُمِّکِ دَیْن فَقَضَیْتِہ اَکَانَ یُؤَدَّی ذٰلِکَ عَنْھَا قَالَتْ نَعَمْ قَالَ فَصُوْمِیْ عَنْ اُمِّکِ ٢
''ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے ذمہ نذر کے کچھ روزے تھے تو کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھ سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا بتلا ئواگر تمہاری ماں پر کچھ قرضہ ہوتا اور تم اس کو ادا کر دیتیں تو کیا ان کی طرف سے وہ ادا ہو جاتا ؟ سائلہ نے عرض کیا ہاں قرضہ تو ادا ہو جاتا ! آپ نے فرمایا تو (اسی طرح) اپنی ماں کی طرف سے روزے بھی رکھ سکتی ہو''
اور صحیح مسلم کے مذکورہ بالا باب ہی میں حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے
بَیْنَا اَنَا جَالِس عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم اِذْ اَتَتْہُ اِمْرَأَ ة فَقَالَتْ اِنِّیْ تَصَدَّقْتُ عَلٰی اُمِّیْ بِجَارِیَةٍ وَ اَنَّھَا مَاتَتْ قَالَ فَقَالَ وَجَبَ اَجْرُکِ وَرَدَّھَا عَلَیْکِ الْمِیْرَاثَ قَالَتْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہُ کَانَ عَلَیْھَا صَوْمُ شَھْرٍ فَاَصُوْمُ عَنْھَا قَالَ صُوْمِیْ عَنْھَا قَالَتْ اِنَّھَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ اَفَاَحَجُّ عَنْھَا قَالَ حُجِّیْ عَنْھَا ۔ ٣
١ صحیح البخاری کتاب الصوم ج ١ ص٢٦٢ و صحیح مسلم باب قضاء الصوم عن المیت ج ١ ص٣٦٢
٢ صحیح البخاری ج ١ ص٢٦٢ و صحیح مسلم ج ١ ص ٣٦٢ والفظ لہ
٣ صحیح مسلم باب قضاء الصوم عن المیت ج ١ ص ٣٦٢
'' میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک عورت حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا کہ میں نے اپنی ایک کنیز اپنی والدہ پر صدقہ کر دی تھی( یعنی بہ نیت ثواب ہبہ کر دی تھی) اور اب میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا تمہیں ہبہ کا ثواب مل گیا اور قانونِ وراثت کے ذریعے اب وہ باندھی پھر تمہاری ملکیت میں آگئی !
پھر اس عورت نے ذکر کیا کہ میری ماں کے ذمہ ایک مہینہ کے روزے بھی تھے تو کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھ سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ان کی طرف سے روزے رکھ لو !
پھر اس عورت نے عرض کیا کہ میری والدہ نے کبھی حج بھی نہیں کیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج بھی کر سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں حج بھی ان کی طرف سے کرلو''
روزے کے بارے میں یہ تینوں روایتیں بالکل صاف اور صریح ہیں البتہ ان کے بارے میں چند چیزیں توضیح طلب ہیں :
(١ ) اوّل یہ کہ درمیان کی حدیث جو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس کی مختلف روایات میں چند اختلافات ہیں جن کی بنیاد پر قاضی عیاض وغیرہ نے اس کو مضطرب قرار دیا ہے لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں باوجود اپنی سخت شافعیت کے ان اختلافات کو حل کر کے اضطراب کو اٹھایا ہے اور حدیث سے استدلال کو صحیح قرار دیا ہے ١
لیکن اگر حافظ ابن حجر کا حل کسی کو مطمئن نہ کر سکے تو یہ تو ظاہر ہی ہے کہ روایتوں کا وہ اختلاف صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث میں ہے باقی حضرت عائشہ اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہما کی دونوں حدیثیں صاف ہیں وَکَفٰی بِھِمَا حُجَّةً
١ فتح الباری جز ٧ ص ٢٥٥
(٢) دوسری بات قابلِ ذکر یہاں یہ ہے کہ ان احادیث کے مقابلہ میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس کے بعض اقوال پیش کیے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک موتیٰ کی طرف سے روزے تو نہیں رکھے جا سکتے اور نہ نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں ہاں صدقہ دیا جا سکتا ہے ( جیسا کہ امام شافعی اور امام مالک کی رائے ہے) ان آثار کو عبدالرزاق ، نسائی اور بیہقی نے روایت کیا ہے ١
اس کے متعلق ایک گزارش تو یہ ہے کہ امام بیہقی نے'' کتاب المرفة'' میں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ابن عباس کے ان فتوئوں کے ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے
وَفِیْ مَا رُوِیَ عَنْھُمَا فِی النَّھْیِ عَنِ الصَّوْمِ عَنِ الْمَیِّتِ نَظْر
''صوم عن المیت سے نھٰی نے بارے میں حضرت عائشہ و حضرت ابن عباس کے فتوؤں کی روایت محل ِنظر ہیں اور حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں
اِنَّ الآثَارَ الْمَذْکُوْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْھَا مَقَال وَ لَیْسَ فِیْھَا مَا یَمْنَعُ الصِّیَامَ اِلَّاالاَثَرَ الَّذِیْ عَنْ عَائَشَةَ وَھُوَ ضَعِیْف جِدًّا
''حضرت عائشہ و ابن عباس کے ان آثار میں کلام ہے نیز ان میں میت کی جانب سے روزوں کی صریح ممانعت بھی نہیں نکلتی ہاں حضرت عائشہ والے اثرمیں بے شک صریح ممانعت ہے لیکن وہ اسنادی حیثیت سے بالکل ہی ضعیف ہے''
خیر یہ جواب تو اسناد و علل کے مباحث سے متعلق ہے دوسرا آسان اور صاف جواب (بنا برتسلیم یہ ہے کہ صحیحین کی جو مرفوع حدیثیں اوپر پیش کی گئیں ( جن سے موتیٰ کے لیے روزے رکھنا سراحتاً ثابت ہے) اور حضرت عائشہ اور ابن عباس کے وہ اقوال جن میں اموات کی جانب سے روزے نماز کی نفی کی گئی ہے ہمارے نزدیک ان میں توفیق و تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ اس بات کی احادیث کو ''ایصالِ ثواب'' پر محمول کیا جائے اور نفی والے آثار کو'' نیابت'' پر ! ! !
گویا ہماری پیش کردہ صحیحین کی احادیث کا منشا یہ ہو کہ روزے نماز کے ذریعے اموات کو ثواب پہنچایا
١ فتح الباری جز ٧ ص ٢٨٥
جاسکتا ہے اور حضرت عائشہ و ابن عباس کے فتوئوں کا مطلب یہ لیا جائے کہ نماز روزے میں زندے مُردوں کی نیابت نہیں کر سکتے یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ جن لوگوں کے ذمے روزے یا نمازیں فرض ہوں اور وہ ادا کیے بغیر مر جائیں تو ان کے زندے پسماندگان ان کی طرف سے وہ فرض روزے رکھ دیں اور نمازیں پڑھ دیں تو ان مرنے والوں کا فرض اتر جائے جیسا کہ نیابت کا مقتضیٰ ہے۔ اس توجیح سے تعارض و تناقض سرے سے اٹھ جاتا ہے اور ''ایصالِ ثواب ''و نیابت کا یہ فرق ہے بھی بالکل واقعی !
فقہ حنفی میں تو یہ چیز صراحت کے ساتھ اسی طرح مذکور ہے صاحب ِدُر مختار کے قول'' وان صام او صلی عنہ لا'' کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین نے لکھا ہے
مَعْنَاہُ لَا یَجُوْزُ قَضَائُ عَمَّا عَلَی الْمَیِّتِ وَ اِلَّا فَلَوْ جَعَلَ لَہ ثَوَابَ الصَّوْمِ وَ الصَّلٰوةِ یَجُوْزُ ١
''اس کا مطلب ہے کہ میت کے ذمے جو نماز یں یا روزے فرض تھے ان کی ادائیگی کے خیال سے زندوں کا اس کی جانب سے روزے رکھنا یا نمازیں پڑھنا صحیح نہیں ہے لیکن اگر روزے رکھ کے یا نمازیں پڑھ کے ان کو ثواب پہنچا دے تو یہ جائز ہے''
بہرحال مذکورہ بالا احادیث و آثار میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ تطبیق کسی کے دل کو نہ لگے تو پھر ترجیح ہی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ دو تین صحابیوں کے ان اقوال کے مقابلے میں جن کے ثبوت میں بھی محدثین کو کلام ہے صحیحین کی مندرجہ بالا مرفوع حدیثوں پر ہی اعتماد کیا جائے گا !
ناظرین کو یہاں اس چیز سے ذہول نہ ہو کہ حضرت عائشہ و ابن عباس کے جن آثار کے متعلق یہ بحث ہے ان میں اگرچہ موتی ٰکی طرف سے نماز پڑھنے اور روزے رکھنے کی نفی کی گئی ہے لیکن اسی کے ساتھ ان کی طرف سے صدقہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے تو اصل بحث (یعنی مسئلہ ایصالِ ثواب) میں یہ آثار بھی ہمارے خلاف نہیں بلکہ موافق ہی ہیں ! ! ہم عرض کر چکے ہیں کہ اس مقالہ میں ہمارے اصل مخاطب وہی حضرات ہیں جن کو مطلق ایصالِ ثواب سے انکار ہے عباداتِ بدنیہ کے متعلق تو ہم خود ہی عرض کر چکے ہیں کہ ان کے ذریعے ایصالِ ثواب خود ائمہ سلف میں مختلف فیہ ہے ! ! !
١ فتح الباری جز ٧ ص ٢٨٥
اموات کے لیے نماز اور اس کے ذریعہ ایصالِ ثواب :
امواتِ مسلمین کے لیے نماز پڑھنے اور ان کے ذریعے ان کو نفع اور ثواب پہنچانے کے بارے میں بھی متعدد صحابہ کرام کے آثار کتب ِاحادیث میں مروی ہیں مثلاً امام بخاری صحیح بخاری ہی میں حضرت ابن عمر و ابن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی ہیں
وَاَمَرَ ابْنُ عُمَرَ امْرَأَةً جَعَلَتْ اُمُّھَا عَلٰی نَفْسِھَا صَلوٰةً بِقُبَائَ فَقَالَ صَلِّیْ عَنْھَا ۔ ١
''ایک عورت جس کی ماں نے مسجد قبا میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی (اور اس کی ادائیگی سے پہلے وہ مر گئی) تو عبداللہ بن عمر نے اس کی اس بیٹی کے دریافت کرنے پر اس کو حکم دیا کہ ماں کی طرف سے وہ خود نماز پڑھے '' ٢
آگے امام بخاری فرماتے ہیں وَقَالَ اِبْنِ عَبَّاس نَحْوَہُ (اور عبداللہ ابن عباس نے بھی اسی طرح فرمایا ہے) اور سنن ابی داؤد میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک سلسلہ کلام میں فرمایا
مَنْ یَّضْمَنْ لِّیْ مِنْکُمْ اَنْ یُّصَلِّیَ لِیْ فِی مَسْجِدِ الْعَشَارِ رَکَعَتَیْنِ اَوْ اَرْبَعًا وَ یَقُوْلَ ھٰذِہِ لِاَبِیْ ھُرَیْرَةَ ۔ ٣
''کون ہے جو میرے لیے اس کا ذمہ لے لے کہ وہ مسجد ِعشار میں میرے واسطے دو یا چار رکعت نماز پڑھے اور کہے یہ ابو ہریرہ کے لیے ہے '' ٤
١ صحیح البخاری باب من مات و علیہ نذر ج ٢ ص ٩٩١
٢ حضرت ابن عباس اور ابن عمر سے اموات کی طرف سے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے کی ممانعت بھی روایت کی گئی ہے (جس کا ذکر ابھی گزر چکا ہے )ہمارے نزدیک ان اقوال کے اس ظاہری تعارض کا حل یہی ہے کہ نِیَابَتًا ادا کرنے سے تو ممانعت کی گئی ہے اور نماز روزے کے ذریعے ایصالِ ثواب کی ہمت افزائی فرمائی گئی ہے واللّٰہ اعلم
٣ سُنن ابوداود باب فی ذکر البصرہ کتاب الملاحم ج ٢ ص ٢٣٦
٤ یہاں یہ ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ اس روایت کے دو راویوں ( ابراہیم بن صالح اور ان کے والد صالح بن درہم) میں اکثر محدثین نے کلام کیا ہے لیکن ابن حبان نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے ( بذل المجہود ج ٥ ص ١٠٩ )
ان آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کے ذریعہ اموات کی نفع رسانی اور ایصالِ ثواب کے مسئلہ سے بھی صحابہ کرام پوری طرح آشنا تھے اور اس کو صحیح سمجھتے تھے !
اور اصل تو یہ ہے کہ جب عبادات کے متعلق اصولی طور پر یہ ثابت ہو چکا کہ زندے اگر چاہیں تو اپنی عبادتوں کا ثواب اموات کو ہدیہ کر سکتے ہیں تو پھر فقہی نظر میں ہر نو کی عبادت کے لیے مستقل اور الگ الگ دلیل کی ضرورت نہیں !
مبحث ششم
٭٭٭
اموات کی طرف سے حج :
خالص مالی اور خالص بدنی کے علاوہ عبادت کی جو ایک تیسری قسم ہے جس میں روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوتا ہے اور محنت مشقت بھی اٹھانی پڑتی ہے (جیسے کہ حج )تو اس کے ذریعے اموات کی نفع رسانی اور ایصالِ ثواب کے متعلق بھی متعدد صریح احادیث کتب ِصحاح ہی میں مروی ہیں ازاں جملہ ایک تو حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی وہی حدیث ہے جو صحیح مسلم کے حوالے سے ابھی ابھی بیان ہو چکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک عورت نے چند مسئلے پوچھے جن میں آخری مسئلہ یہ تھا کہ میری والدہ بغیر حج کیے فوت ہو گئی ہیں کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں تم ان کی طرف سے حج ادا کرو ١
دوسری حدیث حج کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ہے جو صحیح بخاری میں بایں الفاظ مروی ہے
اَنَّ امْرَائَ ةً مِّنْ جُھَیْنَةَ جَائَ تْ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم فَقَالَتْ اِنَّ اُمِّیَ نَذَرَتْ اَنْ تَحُجَّ فَلَمْ تَحُجَّ حَتّٰی مَاتَتْ اَفَاَحُجُّ عَنْہَا ؟ قَالَ نَعَمْ حُجِّیْ عَنْھَا ، اَرَائَ یْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی اُمِّکِ دَیْن اَکُنْتِ قَاضِیَةً اقْضُوا اللّٰہَ فَاللّٰہُ اَحَقُّ بِالْوَفَائِ ٢
١ صحیح مسلم باب قضاء الصوم عن المیت ج١ ص ٣٠٢
٢ صحیح البخاری ج ١ ص ٢٥٠
'' قبیلہ جُھَیْنَة کی ایک عورت آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ میری والدہ نے حج کی نذر کی تھی اور وہ اس کو پورا کرنے سے پہلے ہی وفات پا گئیں تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں ؟ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ہاں بے شک تم ان کی طرف سے حج ادا کرو ! پھر آپ نے فرمایا بتا ئواگر تمہاری ماں پر کچھ قرض ہوتا تو تم اس کو ادا کر تیں یا نہیں ؟ پس ایسے ہی اللہ کا جو حق ان پر تھا یعنی حج اس کو بھی ادا کرو ! اللہ پاک تو ادائیگی حقوق کا اور زیادہ مستحق ہے '' ١
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اموات کی طرف سے حج بھی کیا جا سکتا ہے اور آخری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے اس ارشاد نے کہ ''جس طرح اموات کی طرف سے قرضے ادا کیے جا سکتے ہیں اور وہ ادا ہو جاتے ہیں اسی طرح اللہ کا قرض بھی عطا کیا جا سکتا ہے ''اس مسئلے کو ایک اصولی حیثیت دے دی ہے
یہاں اس چیز کا واضح کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نماز اور روزہ وغیرہ خالص بدنی عبادات کے اموات کے لیے کرنے نہ کرنے اور ان کے نافع ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تو اگرچہ ائمہ سلف میں اختلاف ہوا ہے (جیسا کہ مذکور ہو چکا )لیکن حج کے بارے میں صدقہ و خیرات ہی کی طرح ان میں اس امر پر بالکل اتفاق ہے کہ اموات کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے اور اس سے اموات کو نفع اور ثواب پہنچتا ہے اگرچہ پھر بعض نے اس کو مطلقاً تسلیم کیا ہے اور بعض کے نزدیک یہ حکم کچھ قیود اور شرائط کے ساتھ مشروط ہے جس کی تفصیلات ''فتح الباری'' وغیرہ شروح حدیث اور مبسوطاتِ فقہ میں دیکھی جا سکتی ہیں !
واضح رہے کہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی ان دونوں حدیثوں (حدیث بریدہ اور حدیث ابن عباس ) کے علاوہ چند اور حدیثیں صحیحین اور سنن میں اس مضمون کی بھی موجود ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے ایسے معذور اور بے دست وپا بوڑھوں کے متعلق سوال کیا گیا جو سفر اور نقل و حرکت کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے خود حج نہیں کر سکتے کہ کیا ان کی طرف سے کوئی دوسرا ان کا آدمی حج ادا کر سکتا ہے ؟
تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کی اجازت دی !
١ اس حدیث کی مختلف روایات میں کچھ معمولی سے اختلافات ہیں جن کی وجہ سے اس کے اضطراب کا شبہ ہو سکتا ہے
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے مفصل کلام کر کے اس اختلاف کو حل کیا ہے ( فتح الباری جز ٧ ص ٢٢١ )
اس قسم کے متعدد واقعات احادیث ِصحیحہ میں مروی ہیں نیز احادیث سے اس کا بھی بین ثبوت ملتا ہے کہ عہد نبوی میں اس طرح دوسروں کی طرف سے حج کیا گیا حدیث کی متداول ہی کتابوں میں اس موضوع پر مستقل ابواب ہیں لیکن چونکہ اس مقالہ میں ہماری اصل بحث اموات کی طرف سے اعمالِ خیر کرنے اور ان کے لیے ان کے نافع ہونے ہی سے متعلق ہے اس لیے ان احادیث کو ہم نے یہاں درج نہیں کیا ہے اگرچہ اتنی اصولی بات ان احادیث سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ایک مسلمان اپنے عملِ خیر سے دوسرے مسلمان کو نفع اور ثواب پہنچا سکتا ہے اور اسی اصل پر مسئلہ ''ایصالِ ثواب ''کی بنیاد ہے ! !
اسی مسئلہ کے متعلق ایک اور علمی بحث بھی یہاں قابلِ ذکر ہے جس سے اس مسئلہ کے سلجھائو میں ناظرین کرام کو مدد مل سکتی ہے اور وہ یہ ہے
نیابت کی صحت کے لحاظ سے عبادات کی تقسیم :
دوسروں کی طرف سے اعمالِ خیر کرنے کے بارے میں جو مختلف احادیث وارد ہوئی ہیں ان میں غور کر کے اکثر مجتہدین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ عبادات دو قسم کی ہیں :
ایک وہ جن میں نیابت کی گنجائش ہے یعنی جن کا حال یہ ہے کہ اگر ان کو مکلف کی طرف سے کوئی دوسرا نیابتہً ادا کر دے تو وہ ادا ہو جاتے ہیں جیسا کہ بندوں کے آپس کے مالی حقوق، قرضہ جات وغیرہ کا حال ہے مثلاً زید کو عمرو کے ہزار روپے دینے ہیں تو اب اگر زید کی طرف سے مثلاً اس کا بھائی بکر یہ ایک ہزار روپے عمرو کو ادا کر دے تو زید کے اوپر سے اتر جاتے ہیں پھر خواہ بکر کی طرف سے یہ ادائیگی زید کی زندگی میں ہوئی یا زید کے مرنے کے بعد، بہرحال قرضہ زید کی طرف سے ادا ہو جاتا ہے ! تو یہی حال اللہ پاک کے بعض حقوقِ بندگی (یعنی بعضی عبادات) کا ہے کہ بطورِ نیابت اگر ان کو مکلف کی طرف سے کوئی دوسرا شخص (بالخصوص معذوری کی حالت میں ) ادا کر دے تو مکلف ہی کی طرف سے اس کی ادائیگی ہو جاتی ہے یعنی پھر مکلف کے ذمے سے وہ حق اتر جاتا ہے !
اور دوسری قسم کی عبادات وہ ہیں جن میں اس طرح کی نیابت نہیں چل سکتی !
پھر جن مجتہدین نے کل عبادات کی یہ دو قسمیں سمجھی ہیں (اور ان ہی میں سے فقہائِ حنفیہ بھی ہیں ) قریباً وہ سب اس پر متفق ہیں کہ خالص بدنی عبادات مثلاً روزہ نماز وغیرہ میں نیابت نہیں چل سکتی !
لیکن خالص مالی عبادات مثلاً صدقہ و خیرات اور قربانی وغیرہ میں نیز ان عبادات میں بھی جو مالی اور بدنی دونوں قسم کی قربانیوں پر مشتمل ہوں جیسے کہ حج تو ان سب میں اپنے شرائط کے ساتھ نیابت صحیح ہے یعنی خاص حالات میں دوسروں کے ادا کر دینے سے بھی مکلف کے سر سے اس کا بوجھ اتر جائے گا اور فرض ادا ہو جائے گا جیسا کہ قرضہ وغیرہ آپس کے مالی حقوق کا حال ہے پھر یہ تفریق صرف'' نیابت '' میں ہے ایصالِ ثواب اس کے علاوہ چیز ہے ! !
''ایصالِ ثواب'' میں خود اس مُردے کے فرض کی ادائیگی اور اس کی طرف سے نیابتہً اس عمل کا کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اپنے کیے ہوئے عمل کا صرف اس کو ثواب پہنچانا پیش ِنظر ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دوسری چیز ہے اور یہ تو دعائے خیر اور دعائے رحمت کی طرح کا صرف ایک حسنِ سلوک اور میت کے ساتھ احسان ہے ! یہی وجہ ہے کہ بہت سے وہ فقہاء جو بدنی عبادات نماز روزہ وغیرہ میں نیابت کے قائل نہیں ہیں ( مثلاً فقہائِ حنفیہ )وہ ان ہی عبادات کے ذریعے ''ایصالِ ثواب'' کے قائل ہیں ! !
نتیجہ بحث :
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو صرف مسئلہ کو سلجھانے کے لیے یہاں ذکر کر دیا گیا اب اصل مسئلہ کے متعلق مذکورة الصدر دلائل کو سامنے رکھنے کے بعد بطور ِحاصل مدعا کے دو باتیں عرض کرنی ہیں :
(الف ) اتنی بات تو دعا و استغفار کے متعلق وارد شدہ قرآن پاک کی واضح آیات سے ثابت ہے کہ اموات کو زندوں کے دعا و استغفار سے فائدہ پہنچتا ہے حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ دعا اور یہ استغفار ان مُردوں کا اپنا عمل نہیں ہے بلکہ ان کی نفع رسانی کے لیے زندوں ہی کا عمل ہے اس سے منکرین کی یہ بنیاد تو بالکل ڈھے جاتی ہے کہ کسی آدمی کو کسی دوسرے آدمی کی کسی سعی اور کسی عمل سے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا غرض اس سالبہ کلیہ کو تو( جس کو یہ منکرین اپنی خوش فہمی سے قرآن کی طرف منسوب کرتے ہیں ) خود قرآن مجید کی آیاتِ بینات نے توڑ دیا ! !
( ب) ''مبحث دوم'' سے لے کر یہاں تک عباداتِ مالیہ ،عباداتِ بدنیہ اور مرکبہ کے متعلق جتنی احادیث پیش کی گئی ہیں وہ سب اگرچہ بجائے خود بہ اصلاحِ محدثین اخبار احاد ہیں اور اگرچہ ان کے مضامین اور متضمنات الگ الگ ہیں لیکن بطور ''قدر مشترک'' کے اتنی بات ان سب سے معلوم ہوتی ہے کہ ''زندہ مسلمان اپنے اعمالِ خیر کے ذریعے مردہ مسلمانوں کو نفع اور ثواب پہنچا سکتے ہیں اور یہ نفع اور ثواب مُردوں کو پہنچنا برحق ہے'' تو اس مسئلہ کی بنیاد صرف ''خبر واحد'' کے درجہ کی ظنی حدیثوں پر نہیں رہی بلکہ ''قدر مشترک والے تواتر'' سے اس کا ثبوت ہوا اور اہلِ علم جانتے ہیں کہ ''تواترقدر مشترک'' بھی ''تواتر اسنادی'' ہی کی طرح موجب ِعلم یقین ہوتا ہے ١
نیز اس مسئلہ کو تواتر عملی بھی حاصل ہے یعنی ہر زمانہ میں مسلمانوں کا اس پر عمل رہا ہے یہی وجہ ہے کہ تفصیلات اور جزئیات میں اختلاف کے باوجود نفس اصولی مسئلہ میں گویا جمہور اہلِ اسلام اور تمام ائمہ سلف کا اجماع اور اتفاق ہے جیسا کہ مختلف مکاتب ِخیال کے علمائِ مقتدمین اور متاخرین کی کتابیں شاہد ہیں اور سب سے بڑی شہادت دوسری صدی ہجری کے جلیل القدر امام حضرت عبداللہ بن مبارک کی ہے جو'' صحیح مسلم'' کے حوالے سے مقالہ ہذا میں درج ہو چکی ہے
١ ''تواتر قدرِ مشترک '' تواتر کی چار قسموں میں سے ایک ہے اور اس کی حقیقت جو علمائِ اصول نے بیان کی ہے
وہ یہ ہے کہ مختلف واقعات کو مختلف اشخاص مثلاً نقل کریں لیکن ان واقعات اور ان مختلف خبروں میں کوئی امر کلی مشترک ہو یعنی وہ بات ان تمام مختلف واقعوں اور خبروں سے یکساں طور پر مفہوم ہوتی ہو تو اگرچہ ان واقعات اور ان خبروں کی تفصیلات پر ہمیں یقین نہ ہو لیکن ''اس امر کلی مشترک'' کا ہم کو بالکل یقین ہو جاتا ہے اس کی مثال ہماری روایتی معلومات میں یہ ہے کہ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی فقر پسندی اور سادہ زندگی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی درویشانہ زندگی اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی جنگی مہارت یہ سب چیزیں جن مختلف منقولہ واقعات سے سمجھی جاتی ہیں وہ سب بجائے خود ''اخبارِ احاد'' ہی ہیں اور اس لیے ان میں سے ہر واقعہ بجائے خود صرف ظنی ہی ہے لیکن ان واقعات سے بطور قدرِ مشترک جو یہ نتیجے نکلتے ہیں یہ اہلِ علم کے نزدیک بلا شبہ یقینی ہیں یہ یقین جس چیز نے پیدا کیا بس اسی کا نام ''تواتر قدرِ مشترک'' ہے ! !
( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مقدمة فتح المُلہم ص ٦ )
پس کتاب و سنت کے ان واضح دلائل، صحابہ کے آثار ، ائمہ سلف کے اجماع و اتفاق اور پوری اسلامی تاریخ کے عملی تواتر کے ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کرنا کہ'' زندوں کے کسی سعی و عمل سے مُردوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا '' ایک حیرت انگیز جسارت ہے
واضح رہے کہ ہمارا زور اور ہمارا اصرار بھی صرف اتنے ہی اصول پر ہے جس کو تواتر اور اجماع کی قوت حاصل ہے باقی جن تفصیلات و جزئیات میں اوپر بھی اختلاف ہوا ہے ان کے کسی پہلو پر خود ہم کو بھی اصرار نہیں ہے یہاں تک ہمارا کلام نفسِ مسئلہ کے ثبوت پر تھا
(جاری ہے)




جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی امور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے




کرپٹو کرنسی کی ماہیت و حقیقت
( ڈاکٹر مبشر حسین صاحب رحمانی )
٭٭٭
یہ سائنسی طور پر ثابت ہے کہ بِٹ کوائن(BITCOIN) نہ تو حسی طور پر موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی ڈیجیٹل طور پر ان کا کوئی وجود ہے ! یہ بات غیرماہرین کے لیے تو حیران کن ہوسکتی ہے مگر سائنسدانوں اور محققین کے سامنے بٹ کوائن کی باریکیاں بالکل واضح ہیں ۔ذیل میں ہم بٹ کوائن کے موجد ساتوشی ناکاموٹو سمیت معروف محققین اور سائنسدانوں کے بٹ کوائن کی تکنیکی ماہیت و حقیقت سے متعلق ٹھوس سائنسی اقتباسات پیش کرتے ہیں ۔یہ سائنسی شواہد اتنے واضح ہیں کہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ! !
درحقیقت کوائن موجود نہیں ہوتے، صرف ٹرانزیکشن ہوتی ہیں جو کہ ملکیت کے حقوق تفویض کرتی ہیں لہٰذا ایک کوائن کا حقیقی مساوی جو ہم سوچ سکتے ہیں وہ دراصل ٹرانزیکشن کی ایک چین ہے ! ١
بٹ کوائن یونٹ آف اکائونٹ ہیں جوکہ انفرادی نمبرز اور لیٹرز سے کرنسی کی اکائی بناتا ہے، اس کی قیمت صرف اس لیے ہے کیونکہ صارفین اس کے لیے ادائیگی کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں ! ٢
سچائی یہ ہے کہ بٹ کوائن یا والٹ جیسی کوئی چیز نہیں ہے، بس ایک کوائن کی ملکیت کے بارے میں نیٹ ورک کے درمیان معاہدہ ہے، لین دین کرتے وقت نیٹ ورک پر فنڈز کی ملکیت ثابت کرنے کے لیے ایک '' پرائیویٹ کی(Private Key) '' کا استعمال کیا جاتا ہے ! ٣
1 : F. Tschorsch and B. Scheuermann, "Bitcoin and Beyond: A Technical Survey on Decentralized Digital Currencies," in IEEE Communications Surveys & Tutorials, vol. 18, no. 3, pp. 2084-2123, thirdquarter 2016.
2: FATF REPORT, Virtual Currencies Key Definitions and Potential AML/CFT Risks , June 2014.
3 : https://www.newscientist.com/definition/bitcoin/
بٹ کوائن ہر کوائن کو محفوظ نہیں کرتا اور نہ یہ محفوظ کرتا ہے کہ کون اس کوائن کا مالک ہے اس کے بجائے یہ ایک ڈسٹری بیوٹڈ لیجر بک سسٹم کا استعمال کرتا ہے جسے ''بلاک چین ''کہا جاتا ہے !
اس منطق کی بنیاد پر کہ اگر آپ کو ہر ٹرانزیکشن کے بارے میں معلوم ہے جو کہ کسی ایڈریس نے کی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کیا اس کے پاس خرچ کرنے کے لیے رقم ہے کہ نہیں ! ١
ہم الیکٹرانک کوائن کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ڈیجیٹل دستخطوں کی زنجیر ہے ، ہر مالک پچھلے لین دین کے ہیش اور اگلے مالک کی '' پبلک کی '' پر ڈیجیٹل طور پر دستخط کرکے اور کوائن کے آخر میں ان کو شامل کرکے کوائن کو اگلے کو منتقل کرتا ہے۔ ایک وصول کنندہ ملکیت کی چین کی تصدیق کے لیے دستخطوں کی تصدیق کر سکتا ہے ! ٢
بٹ کوائن ایک الیکٹرانک ورچوئل کرنسی ہے جس کی سکوں یا بینک نوٹوں کی طرح کوئی حسی نمائندگی نہیں ہوتی ہے ۔ ٣
ایک سکہ یا اس کا حصہ، بٹ کوائن لیجر میں صرف ایک ٹرانزیکشن ہے ! بٹ کوائن کی ملکیت ایک پبلک کی(PK)کے ذریعے ثابت کی جاتی ہے جس کی خفیہ '' پرائیویٹ کی '' صرف درست مالک کے پاس ہوتی ہے ! ٤
بٹ کوائن کے معاملے میں ، ہر ٹرانزیکشن ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر میں کرنسی کی منتقلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ تمام کمپیوٹر ہر ایڈریس پر موجودہ بیلنس سے آگاہ ہوتے ہیں اور موجودہ بلاک چین کی ایک
1 : Dominic Hobson, What is bitcoin? XRDS crossroads. ACM Magazine for Students, vol. 20, Issue 1, 2013.
2 : Satoshi Nakamoto, Bitcoin: A Peer-to-Peer Electronic Cash System. Accessed: Apr 2023. [Online]. Available: https://bitcoin.org/bitcoin.pdf
3 : Harald Vranken, Sustainability of bitcoin and blockchains, Current Opinion in Environmental Sustainability, Volume 28, 2017.
4 : D. Drusinsky, "On the High-Energy Consumption of Bitcoin Mining," in Computer, vol. 55, no. 1, pp. 88-93, Jan. 2022.
کاپی کو برقرار رکھتے ہیں جو کہ پچھلے لین دین کی تاریخ پر مشتمل ریکارڈ ہے ! ہر ٹرانزیکشن کے بعد بلاک چین کی حالت بدل جاتی ہے ١
حقیقت میں ، بٹ کوائن ڈیجیٹل دستخطوں کا ایک سلسلہ ہے ٢ اپنے نام کے باوجود، بٹ کوائن میں کوئی سکے نہیں ہیں سوائے نمبروں اور حروف کے جو کرنسی کی اکائیوں کو تشکیل دیتے ہیں ٣
تکنیکی نقطہ نظر سے بٹ کوائن جیسی کرپٹو کرنسی کے لیجر کو '' حالت کی منتقلی '' کے نظام کے طور پر سوچا جاسکتا ہے جہاں پر ایک '' حالت '' ہوتی ہے جو کہ تمام موجودہ بٹ کوائنز کی ملکیت کو ظاہر کرتی ہے ! اور ایک ''حالت کی منتقلی کا فنکشن '' ہوتا ہے جو ایک حالت اور ایک ٹرانزیکشن لیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر ایک نئی حالت پیدا کرتا ہے ۔ ٤
بٹ کوائن ایک ڈیجیٹل کرنسی کا نظام ہے جس کی بنیاد پیئر ٹو پیئر ورچوئل ڈیٹا پر ہے ۔ بٹ کوائنز کو استعمال کرنے کے لیے لوگوں کو کمپیوٹر پر بٹ کوائن '' والٹ '' انسٹال کرنا ضروری ہے ۔ اس والٹ میں ایک باقاعدہ اپ ڈیٹ فائل کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس میں اب تک کی گئی تمام بٹ کوائن ٹرانزیکشن کی فہرست ہے ۔ بٹ کوائن کو '' پبلک اور پرائیویٹ کی کرپٹولوجی '' کے امتزاج کا استعمال کرتے ہوئے
1 : D. Puthal, N. Malik, S. P. Mohanty, E. Kougianos and G. Das, "Everything You Wanted to Know About the Blockchain: Its Promise, Components, Processes, and Problems," in IEEE Consumer Electronics Magazine, vol. 7, no. 4, pp. 6-14, July 2018.
2 : M. C. Kus Khalilov and A. Levi, "A Survey on Anonymity and Privacy in Bitcoin-Like Digital Cash Systems," in IEEE Communications Surveys & Tutorials, vol. 20, no. 3, pp. 2543-2585, thirdquarter 2018.
3 : Madise, Sunduzwayo, Back to the Future? Evolving Forms of Money (June 9, 2015). Available at SSRN: https://ssrn.com/abstract=2622080 or http://dx.doi.org/10.2139/ssrn.2622080
4 : V. Buterin, A next generation smart contract and decentralized application platform, 2014. [Online]. Available: https://github.com/ethereum/wiki/wiki/White-Paper
دوسرے صارف کے والٹ میں منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ ٹرانزیکشن میں بٹ کوائنز کی تعداد شامل ہے ، بشمول فریکشنز ، اور ایک ٹرانزیکشن ، منفرد ڈیجیٹل دستخط ، جو '' پرائیویٹ کی '' کے ذریعے محفوظ ہے ١
مختصراً ، ایک بٹ کوائن کو ایک مالک سے دوسرے مالک کے درمیان ٹرانزیکشن کے ایک سلسلے (چین) کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے جہاں مالکان کی شناخت پبلک کی کے ذریعے سے ہوتی ہے جو تخلص کے طور پر کام کرتی ہے ٢
مندرجہ بالا ٹھوس سائنسی حوالہ جات کے اقتباسات سے یہ امور واضح ہوتے ہیں کہ
٭ بٹ کوائن حسی طور موجود نہیں ہوتے
٭ بٹ کوائن کی سکوں یا بینک نوٹوں کی طرح کوئی حسی نمائندگی نہیں ہوتی
٭ بٹ کوائن ڈیجیٹل طور پر موجود نہیں ہوتے
٭ بٹ کوائن میں ڈیجیٹل کوائن موجود نہیں ہوتے
٭ بٹ کوائن ہر کوائن کو محفوظ نہیں کرتا اور نہ یہ محفوظ کرتا ہے کہ کون اس کوائن کا مالک ہے
٭ بٹ کوائن ڈیجیٹل دستخطوں (Signatures)کی زنجیر ہے ٣
٭ بٹ کوائن میں صرف ٹرانزیکشن ہوتی ہیں جو کہ ملکیت کے حقوق تفویض کرتی ہیں
1 : G. F. Hurlburt and I. Bojanova, "Bitcoin: Benefit or Curse?," in IT Professional, vol. 16, no. 3, pp. 10-15, May-June 2014.
2 : S. Meiklejohn et al., A Fistful of Bitcoins: Characterizing Payments among Men with No Names and was published in the Proceedings of the Internet Measurement Conference, 2013, ACM.
3 : A digital signature is an electronic analogue of a written signature; the digital signature can be used to provide assurance that the claimed signatory signed the information. NIST Digital Signature Standard, U.S. Department of Commerce, 03rd February 2023. Link: https://csrc.nist.gov/projects/digital-signatures
٭ بٹ کوائن کو قبضے میں نہیں لیا جاسکتا
٭ بٹ کوائنز کو استعمال کرنے کے لیے لوگوں کو کمپیوٹر پر بٹ کوائن '' والٹ '' انسٹال کرنا ضروری ہے اس والٹ میں ایک باقاعدہ اپ ڈیٹ فائل کے علاوہ کچھ نہیں ہے جس میں اب تک کی گئی تمام بٹ کوائن ٹرانزیکشن کی فہرست ہے
٭ صارفین کے درمیان صرف ٹرانزیکشن کا تبادلہ ہوتا ہے، نہ کہ بٹ کوائن کا
٭ یہ لیجر کی حالت ہوتی ہے جو کہ اپ ڈیٹ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر بٹ کوائن کا بیلنس معلوم کیا جاتا ہے
٭ بٹ کوائن کا بیلنس معلوم کرنے کی منطق یہ ہے کہ اگر آپ کو ہر ٹرانزیکشن کے بارے میں معلوم ہے جو کہ کسی ایڈریس نے کی ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کیا اس کے پاس خرچ کرنے کے لیے رقم ہے کہ نہیں
٭ بٹ کوائن کو '' پبلک اور پرائیویٹ کی کرپٹولوجی '' کے امتزاج کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے صارف کے والٹ میں منتقل کیا جا سکتا ہے ، پبلک اور پرائیویٹ کی روایتی بینک کے اکائونٹ میں یوزرنیم (User Name)اور پاس ورڈ(Password) کے مساوی ہیں
سوال یہ ہے کہ کیوں بٹ کوائن کی ماہیت کے بارے میں لوگ غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ؟
کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے ایک کرپٹو کرنسی والٹ انسٹال کیا ہے جو ان کے بٹ کوائن کا بیلنس دکھاتا ہے اور وہ بٹ کوائن کو ایک ایڈریس سے دوسرے ایڈریس پر کامیابی سے منتقل کر سکتے ہیں لہٰذا اس لیے وہ یہ یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ بٹ کوائن ڈیجیٹل طور پر موجود ہوتے ہیں !
یہ بٹ کوائن کے ڈیجیٹل وجود کے بارے میں ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ یہ یقین کرنا کہ بٹ کوائن ڈیجیٹل طور پر موجود ہوتے ہیں ، تکنیکی اور سائنسی طور پر غلط ہے اس غلط فہمی کی تردید کے لیے اور بٹ کوائن کے ڈیجیٹل وجود سے متعلق اس افسانے کی حقیقت کو ہم حتمی طور پر آشکار کرتے ہیں ! (جاری ہے)




امیرجمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا نعام اللہ صاحب ، ناظم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
یکم اکتوبر بروز منگل امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب سے امیر جے یو آئی ضلع ملتان و نائب مہتمم جامعہ قاسم العلوم مولانا مفتی عامر محمود صاحب جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے، آپ نے حضرت صاحب کو جے یو آئی پنجاب کا امیر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کی، ملاقات میں جے یو آئی ڈی جی خان کے سابق ناظم عمومی مولانا انعام اللہ صاحب وٹو اور مولانا صابر محمود صاحب بھی موجود تھے
٢ اکتوبر بعد نمازِ عشاء حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی دعوت پر سالانہ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے مانگا منڈی تشریف لے گئے جہاں آپ نے عقیدہ توحید اور ختم نبوت کے موضوع پر مدلل بیان فرمایا
٢ اکتوبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولاناارسلان صاحب اپنے رفقاء کے ہمراہ انگلینڈ (مانچسٹر ) سے حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے ان کی رہائشگاہ پر تشریف لائے، حضرت کو نئی ذمہ داری (امارت) پر مبارکباد دی بعد ازاں حضرت صاحب کے ساتھ خانقاہ ِ حامدیہ میں رات کا کھانا تناول فرماکر واپس تشریف لے گئے
٣ اکتوبر کو بعد نماز عشاء حضرت صاحب ،فاضل جامعہ مدنیہ جدید مولاناحسان صاحب کی جانب سے خصوصی دعوتِ عشائیہ پران کے گھر رائیونڈ تشریف لے گئے
٦ اکتوبر کو جامعہ کے فاضل مولانا محمد سلیم صاحب کے ہمراہ مولانا عبدالعزیز صاحب فاروقی مہتمم جامعہ مظاہر العلوم پھولنگر، مفتی عبدالرحمن صاحب نقشبندی جمبر کلاں اور مفتی سیف الرحمن صاحب شجاع آبادی اور ڈاکٹر عثمان صاحب پھولنگر پتوکی سے خانقانہ حامدیہ تشریف لائے بعد نمازِ مغرب حضرت صاحب کے درسِ حدیث اور مجلس ذکر میں شرکت فرمائی بعد ازاں حضرت کے ساتھ خانقاہ حامدیہ میں رات کا کھانا تناول فرمایا
١٠ اکتوبر بعد نمازِ عشاء امیر جے یو آئی پنجاب حضرت سیّد صاحب مدظلہم، قاری محمد اصغر صاحب کی دعوت پر عظمت ِقرآن و سیرت ِ مصطفی کانفرنس کی تقریب میں شرکت کی غرض سے جامع مسجد عثمانیہ اڈے والی روسہ بھیل مانگا روڈ تشریف لے گئے جہاں آپ نے قرآن کی روشنی میں مسجد کی اہمیت اور فضیلت پر بیان فرمایا
١١ اکتوبر بروز جمعہ بعد نمازِ عصر امیر جے یو آئی پنجاب حضرت صاحب ، بھائی جمشید صاحب کی بیٹی کا نکاح پڑھانے کے لیے رائیونڈ تشریف لے گئے
١٢ اکتوبر کو بعد نمازِ عشاء حضرت صاحب ، جامعہ مدنیہ جدید کے طالب علم حافظ محمد زعیم کی دعوت پر ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لیے جامعہ مسجد امید خان بھچوکی، تحصیل رائیونڈ تشریف لے گئے جہاں آپ نے ختم نبوت کے موضوع پر بیان فرمایا
١٩ اکتوبر کو بعد نمازِ ظہر جمعیة علماء اسلام صوبہ پنجاب کی مجلس عاملہ کا اجلاس حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم کی زیر صدارت جامعہ مدنیہ جدید میں منعقد ہوا ! اجلاس میں صوبہ پنجاب کی مجلس عاملہ کے تمام اراکین نے بھرپور شرکت فرمائی اس اجلاس کے مہمانِ خصوصی جمعیة علماء اسلام کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد صاحب مدظلہم تھے ۔ تلاوتِ قرآنِ پاک کے بعد حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد صاحب نے مختصر بیان فرمایا اراکین مجلس عاملہ نے صوبہ پنجاب کے کام کو منظم کرنے کے لیے بہترین حکمت ِ عملی اور آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے مختلف تجاویز پیش کیں
اجلاس امیر پنجاب کی رہائشگاہ پر تقریباً پانچ گھنٹہ جاری رہا اجلاس کا اختتام دعاء خیر پر ہوا
٢٢ اکتوبر بعد نمازِ عشاء جامعہ کے فاضل مولانا آصف صاحب گوجرانوالہ سے اپنے بہنوئی ڈاکٹر سجاول صاحب کے ہمراہ جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور حضرت سے ملاقات کی حالات ِ حاضرہ پر کافی دیر تک گفتگو ہوئی
٢٣ اکتوبر بعد نمازِ مغرب حضرت صاحب مدظلہم جناب محمد شاہد صاحب کی خصوصی دعوت پر ان کے گھر پرانا کاہنہ تشریف لے گئے آپ نے مستورات سے مختصر بیان فرمایا بعد ازاں ان کے گھر رات کا کھانا تناول فرمایا اور جامعہ واپس تشریف لے آئے
٢٧ اکتوبر بروز اتوار بعد نماز ظہرحضرت صاحب جمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کی خصوصی دعوت پر تربیتی ورکرز کنونشن میں شرکت کے لیے دارالعلوم مدنیہ رسول پارک تشریف لے گئے جہاں آپ نے سامعین سے رجوع اِلی اللہ کے موضوع پر بیان فرمایا




وفیات
٭٭٭
٭ ١٩ ستمبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولانا احمد اللہ صاحب کے والد انتقال فرماگئے
٭ ٢٨ اکتوبر کو ضلع لورالائی کے رہائشی فاضل جامعہ مدنیہ جدید مولانا محمد صادق جان صاحب
ڈکیتی کی وارداتمیں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے رائیونڈ میں شہید کر دئیے گئے
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین




مقالاتِ حامدیة
قرآنیات
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر
حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ
خلیفہ و مجاز شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
بانی جامعہ مدنیہ جدید و جامعہ مدنیہ قدیم و خانقاہِ حامدیہ
و سابق امیرِ مرکزیہ جمعیة علماء اسلام
٭٭٭
تخریج ، نظرثانی و عنوانات
حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم
رئیس و شیخ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید و سجادہ نشین خانقاہِ حامدیہ
٭
( قیمت : 500 )
مکتبہ الحامد
'' خانقاہِ حامدیہ '' متصل جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد ١٩کلومیٹر شارع رائیونڈ لاہور پاکستان
رابطہ نمبر : 923334249302+ _ 923234250027+
آن لائن رقم بھیجنے کے لیے : JazzCash Number : 923044587751+





جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079142) MCB کریم پارک برانچ لاہور

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.