Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

2023 نومبر‬

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدینہ
جلد : ٣١ ربیع الثانی ١٤٤٥ھ / نومبر ٢٠٢٣ء شمارہ : ١١
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923354249302+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+
دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560
مولانا سیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ '' انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ١٣
حضراتِ صحابہ کرام کو ہجرت ِمدینہ کی اجازت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ٢٠
میرے حضرت مدنی قسط : ٣ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٣٣
تربیت ِ اولاد قسط : ٧ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٨
رحمن کے خاص بندے قسط : ١٨ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٤٣
آب ِزم زم ..... فضائل اور برکات قسط : ٢ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب ٤٩
سبق آموز تاریخی حقائق قسط : ٢ حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ٥٤
امیر پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٥٩
اخبار الجامعہ ڈاکٹر محمد امجد صاحب ٦١
وفیات ٦٤
حرفِ آغاز
کیا مسلمانوں پر جہاد فرضِ عین ہوچکا ہے ، نفیرِ عام کا مطلب ؟
مؤرخہ ٦ ربیع الثانی ١٤٤٥ھ /٢٢ اکتوبر ٢٠٢٣ ء کو خانقاہِ حامدیہ میں پیر کی شب ہفتہ وار مجلس ِ ذکر کے موقع پر شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم کا بیان ہوا اختصار کی خاطر زوائد کو حذف کر کے بطورِ اداریہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے(ادارہ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث نقل ہوتی ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ کہ اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تمہیں اَمر بالمعروف کرنا ہی ہوگا اور منکر سے روکنا ہی ہوگا ،ہر حال میں روکنا ہی ہوگا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتے ! تاکید کا صیغہ استعمال کیا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ، ورنہ اللہ کی جانب سے تم پر تیزی سے عذاب آئے گا اَوْ لَیُوْشِکَنَّ اللّٰہُ اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ عِنْدِہ
جب عذاب آتا ہے تکلیف ہوتی ہے پریشانی ہوتی ہے تو پھر آدمی اللہ کو یاد کرنے لگ جاتا ہے غافل کو بھی ہوش آجاتی ہے آہ وزاری کرتاہے معافی مانگتا ہے توبہ استغفار شروع کر دیتا ہے میری توبہ مجھ سے غلطی ہوئی یہ ہوا وہ ہوا فرمایا ثُمَّ لَتَدْعُنَّہُ جب عذاب آئے گا تو تم اُس کو پکارنا شروع کرو گے ارشاد فرمایا وَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ ١ تمہاری کوئی دعا قبول نہیں کی جائے گی یعنی اللہ تعالیٰ دعا کی قبولیت کا دروازہ بند کر دیتے ہیں ! یہ اتنا بڑا گناہ ہے !
تو یہ جو دور چل رہا ہے اس میں برائیاں بہت ہوگئیں اور اَمر بالمعروف کرنے والے کم ہوگئے ہلکی ہلکی چیز کا تو اَمر بالمعروف کر دیتے ہیں کہ نماز پڑھو ،روزہ رکھو ،حج کرو ،زکوٰة ادا کرو لیکن ذرا بھاری چیز ہو تو اَمر بالمعروف نہیں کرتے ، دوکاندار تاجر سے یہ نہیں کہیں گے کہ تجارت صحیح کرو ! وہاں مصلحتیں آجاتی ہیں آڑے ! سیاستدانوں سے نہیں کہیں گے کہ سیاست صحیح کرو، ججوں اور قاضیوں سے نہیں کہیں گے کہ فیصلے صحیح کرو ، عدل کرو عدل سے کام لو ، مجھے آپ کو کہہ دیں گے اگر ہم مان لیں گے تو ٹھیک ہے اور اگر نہیں مانیں گے تو کوئی نقصان تو نہیں کر سکتے اِن کا ! تو ہمیں اَمر بالمعروف کر دیں گے لیکن انہیں کرنے میں ڈریں گے کہ پتہ نہیں اسے بری نہ لگ جائے یہ چندہ ہی بند نہ کر دے، یہ جج جو ہیں یہ بگڑ نہ جائیں ، یہ سیاستدان نہ بگڑ جائیں ، یہ خیالات آتے ہیں ! !
اسی طرح برائی سے روکنا یہ اَمر بالمعروف سے بھی زیادہ مشکل کام ہے ! سود کھا رہے ہو ، بھائی سود مت کھاؤ گناہ ہے ! بری لگے گی اُسے خدا کا خوف ہوا اُسے حق کی طلب ہے سن لے گا، مانے گا ، سوچے گا ،ورنہ نہیں ،ملنا چھوڑد ے گا ،بات کرنی چھوڑ دے گا ، آپ کا فون بھی نہیں سنے گا اور اگر اُسے نقصان پہنچانے پر قدرت ہوگی تو آپ کے مفادات پر چوٹ بھی ماردے گا ! !
تو جہاد کرو یہ اَمر بھی جرم بن گیا ! کشمیر میں جہاد کرو، ہندوستان کے خلاف جہاد کرو ، فلسطین میں کرو، بیت المقدس کے لیے کرو، شام میں کرو، تو یہاں اگر ہم شام میں جہاد کرنے کا کہہ دیں گے تو اتنا شور نہیں ہوگا لیکن شام میں اگر یہ کہہ دیں گے تو بس شامت آگئی، فلسطین میں کہیں گے جہاد کرو تو قوتیں فوراً دبوچ لیں گی !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الاداب باب الامر بالمعروف رقم الحدیث ٥١٤٠
لیکن جہاد بعض جگہ تو فرضِ کفایہ ہے کم درجہ کا ہوتا ہے بعض جگہ فرضِ عین ہوجاتا ہے جب فرضِ عین ہے تو پھر تو ضروری ہے کوئی قوت اُٹھے اور جہاد میں شریک ہو اُن مظلوموں کی مدد کرے ظالموں کا مقابلہ کرے اور نہی عن المنکر بھی کرے کہ یہ مت کرو ،تم اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہو رُک جاؤ !
او حکمرانوں منافقت سے باز آجاؤ ! تو اِن کو روکنا فرض ہے ضروری ہے ! !
سچے جذبات :
اب لوگ پوچھتے ہیں پریشان ہیں نوجوان ہیں اُن کی سنتے ہیں میڈیاپر بڑے بڑے ایمانی جذبات قابلِ رشک ہیں جیسے وہ تڑپ رہے ہیں کہ ہمیں پر لگ جائیں ہم پہنچ جائیں قربان ہوجائیں وہاں ، ہم جانا ہی مرنے کے لیے چاہتے ہیں ،ایسے لوگ دنیا میں ہر جگہ ہیں یہاں پاکستان میں بھی ہیں ہندوستان میں بھی ہیں بنگلہ دیش میں بھی ہیں عرب ملکوں میں بھی ہیں !
منافق حکومتیں :
مگر اُن کی منافق حکومتوں نے انہیں کسا ہوا ہے ! بس یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اِس وقت جتنے حکمران ہیں عالمِ اسلام کے سب کے سب پکے منافق ہیں اور ایسے منافق ہیں کہ کفر کا ساتھ دے رہے ہیں ! کفر کے خلاف اُٹھنے والوں کو روک رہے ہیں ! انہیں ہلنے نہیں دیتے زیادہ حرکت کریں گے تو اُن کو جیل میں ڈال دیں گے یا مار ہی دیں گے ! !
مجھ سے کسی نے سوال کیا کل پرسوں جذباتی باتیں ہیں اور صحیح ہیں ہمارے بھی ایسے ہی جذبات ہیں
جہاد فرض ہوچکا ہے ؟ جواب !
مجھ سے پوچھا کہ موجودہ حالات میں جہاد فرض ہوا کہ نہیں ؟
میں نے عرض کیاکہ جہاد فرض ہو چکا ہے فرضِ عین ہوگیا ہے ! جو جس سے بن سکتا ہو وہ کرے لیکن جو سب سے قریب اُس جگہ کے ملک ہیں اُن پر پہلے درجہ میں فرض تو ہو ہی گیا اُن کی تو سرحد مل رہی ہے ،اُن کی سرحد کے ساتھ اُن ہی کے ہم زبان مسلمان اور اُن کی آپس کی رشتے داریاں ہیں اور کفار اُن کو قتل کر رہے ہیں !
تو اُردن والوں پر فرض جس کی سرحد فلسطین کے ساتھ لگ رہی ہے مصر ہے، لبنان ہے، شام ہے، ذرا سے فاصلے پر سعودی عرب ہے اور تھوڑے زائد فاصلے پر ترکی ہے ! یہ وہ ممالک ہیں جن کی بالکل سرحد ملی ہوئی ہے اس کے قریب تر ہیں ان پر فرض ہے یہ اُٹھیں ! لیکن وہ اُٹھنے نہیں دے رہے !
مجھ سے انہوں نے پوچھا وہاں کیا کیا جائے ؟
میں نے کہا اگر اِن ملکوں میں کوئی ایسی طاقتور جماعت ہے جو اِن فاسق اور فاجر منافق حکمرانوں کا تختہ اُلٹ سکتی ہے تو تختہ اُلٹ دے اور خود اُس پر قابض ہوجائے اور اعلانِ جہاد کرے یہ ہے فرض ! !
ہم پاکستانیوں اور افغانوں کے لیے سب سے پہلے ایران رُکاوٹ ہے ، وہ نہیں جانے دیں گے، بیچ میں کویت ہے، دُبئی ، امارات ہیں ،سعودی عرب ہے یہ ساری منافق ریاستیں ہیں کفار کا ساتھ دے رہی ہیں !
اگر لبنان میں ایسی کوئی جماعت ہے جو وہاں کی منافق حکومت کا تختہ اُلٹ سکتی ہے تو اُلٹ کر قبضہ کرے اور کام شروع کرے، مصر میں ہے تو کرے، شام میں ہے تو کرے !
تختہ کون اُلٹے ؟
لیکن ایسی تنظیم یہ کام کرے جس میں یہ طاقت ہو کہ تختہ اُلٹنے کے بعد حالات کو قابو رکھ سکتی ہے اگر ایسی تنظیم نہیں ہے تو محض تختہ اُلٹ دیا تھوڑی دیر کے لیے تو پھر کیا ہوگا ؟ آپس کی جنگ ہوگی ان کی، ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی تو پہلے تو تباہی ہے ہی اب اس سے بڑی تباہی آجائے گی ! ! جیسے لوگ بڑے جذبے اور شوق سے لیبیا کے صدر کے خلاف اُٹھ گئے ، قذافی کو کیا کچھ کہا، قذافی کو یہ کیا وہ کیا حتی کہ اُسے مار دیا ختم ہوگیا ! لیکن بعد میں لیبیا کا کیا حشر ہوا ؟ وہ آپ کے ہمارے سب کے سامنے ہے قذافی کو مارنے میں عیسائی ملک شریک تھے اٹلی اسپین شریک تھا فرانس شریک تھا ایران بھی شریک تھا ! ! اُسے مروا دیا پھر آپس کی جنگ شروع ہوگئی وہاں ! ! !
شام میں ہم مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر دیا گیا کیونکہ امریکہ نے بھی مداخلت کی، روس نے بھی بمباری کی اور کی صرف آپ اہلِ سنت پر، امریکہ نے بھی بم گیس کے مارے اہلِ سنت پر ، روس نے بھی مارے اہلِ سنت پر، ایران ساتھ ملا ہوا تھا ان کے، اب وہاں پچیس تیس لاکھ مسلمان عورتیں بچے بچارے تتر بتر ہوگئے یورپ چلے گئے اِدھر گئے اُدھرگئے ترکی گئے اب تک کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں بے یارو مددگار، پہلے اپنے گھروں میں تو بیٹھے ہوئے تھے کم سے کم ! تووہ طاقت جو تھی وہ بھی ختم ہوگئی ! یہی حال عراق اور یمن میں ہوا ! اتنا گہرا جال آپ کے گرد لگا ہوا ہے تو ایسی صورت میں ایسی تنظیم جو تختہ اُلٹ کر پھر حالات پر قابو پاکر آگے بڑھ سکتی ہو وہ تو کرے یہ کام، اگر نہیں بڑھ سکتی تو پھر جو حالات اب ہیں اس سے بھی زیادہ خراب ہوجائیں گے ! !
فرضِ عین کا مطلب ؟
اچھا فرضِ عین کا مطلب کیا ہے ؟ نماز فرضِ عین ہے ، روزہ فرضِ عین ہے ، حج فرضِ عین ہے ، زکوة بھی فرض ہے جب شرائط پوری ہوجائیں ، لیکن اگر نماز کی شرائط نہ ہوں تو وہ بھی فرض نہیں رہتی ! بے ہوش ہوگیا نماز معاف ہوگئی ! ہوش میں آگیا فرض ہونا شروع ہوگئی ! کتنی فرض ہے ؟ وضو ہی نہیں کر سکتا ڈاکٹروں نے کہا کہ پانی نہیں لگانا تو اللہ نے کہا تیمم کر کے پڑھ لو ! بیٹھ نہیں سکتا فرمایا لیٹ کر پڑھ لو ! قوت کے کتنا قریب ہے ؟ جتنا قوت کے قریب ہے اُس قدر فرضیت آرہی ہے اب اگر کم قوت ہے تو کم درجے کی فرضیت آرہی ہے کہ اس طرح پڑھ لو تو وہ بڑا فرض ادا ہوجائے گا اس طرح کرنے سے !
پھر ذرا اور طاقت آئی کہ بیٹھ کر پڑھ سکتا ہو لیکن رکوع سجدہ نہیں کر سکتا فرمایا بیٹھ کر پڑھ لے رکوع سجدہ اشارے سے کر لے ! توانائی طاقت آئی فرمایا اب لیٹ کر نہیں پڑھ سکتا اب بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتا اب کھڑے ہوکر ہی پڑھنی ہے ! تو ایسی ہی حیثیت فلسطین کے قریب والوں کی ہے پھر بعد والوں میں پھر اِن کے بعد والوں میں فرضیت کی ہے !
مثال سے وضاحت :
فرض کر یں حالات خراب ہوگئے، لڑائی ہوگئی ہندوستان سے ہندؤوں سے سکھوں سے
اور ہمارے بڑے بڑے شہر خطرے میں پڑ گئے فوج بھی پریشان ، خدانخواستہ پسپا ہونے کا خطرہ ہو رہا ہے تو حکومت اعلان کرے گی کہ سب جہاد کے لیے نکلیں ! ریڈیو ٹی وی سے اعلان ہوگا آؤ فرضِ عین ہوگیا اب ہندوستان کے خلاف نکلنا عورت پر بھی فرض جیسے نماز عورت پر بھی فرض تھی مرد پر بھی فرض تھی، روزہ عورت پر بھی فرض مرد پر بھی فرضِ عین تو یہ جہاد بھی فرضِ عین ہوگیا عورت پر بھی اور مرد پر بھی ! !
اچھا اعلان ہوگیا جہاد فرضِ عین ہے آپ نے گھر سے چار پائی توڑی ایک ڈنڈا اِس نے پکڑا دوسرا ڈنڈا چارپائی کا اُس نے پکڑا اور پایا اس نے پکڑا اُس نے پکڑا ،جس کو بندوق ملی اُس نے بندوق اُٹھائی جس کو غلیل ملی اُس نے غلیل اُٹھائی واہگہ باڈر کی طرف بھاگتے ہوئے چلے گئے میں بھی آپ بھی ، عورتیں بھی بچے بھی آدھے زخمی ہو کے گر گئے راستہ میں ،آدھے پہنچ رہے ہیں دوسرے چیخ رہے ہیں اب جب وہاں پہنچ گئے ! وہاں جو فوجی لڑ رہے ہیں وہ کہیں گے یا اللہ یہ کیا مصیبت آگئی ہم اِن کو سنبھالیں یا دشمن سے لڑیں ؟ کیا کریں ؟ نفیر عام کا یہ مطلب نہیں کہ بس اب نکل کھڑے ہوں کہ جس طرف منہ اُٹھے وہ واہگہ باڈر کی طرف جائے یا قصور کی طرف باڈر پر چلا جائے یا اِدھر چلا جائے ایسے نہیں ، ایسے جائیں گے تو دشمن خوش ہوگا وہ کہے گا یہ تو معاملہ ہمارا آسان ہوگیا سارے بدھو جمع ہوگئے !
نفیرِ عام کی عملی شکل :
فرضِ عین پر عمل کا طریقہ یہ ہوگا کہ ریڈیو ٹی وی سے حکومت اعلان کرے گی کہ سب پر فرضِ عین ہوچکا ہے حکومت اپنی ضرورت کے مطابق وقتاً فوقتاً اعلان کرے گی تو اُس اُس قسم کے لوگ فلاں فلاں دفتر میں پہنچ کر اپنی توانائیاں اور خدمات فوراً پیش کریں گے مثلاً حکومت سب سے پہلا اعلان کر دے گی کہ جتنے ریٹائیر فوجی افسر ہیں یا پولیس افسران ہیں وہ اپنی خدمات دیں اور دفتروں میں رابطہ کر کے پہنچ جائیں !
پھر اور ضرورت پڑ گئی وہ کہے گی ڈاکٹر آجائیں فلاں فلاں جگہ دفاتر ہیں وہاں اپنے نام آکر لکھوائیں ، حکومت ان کو لے لے گی اب ڈاکٹروں کو کہاں لگائے گی ؟ ڈاکٹری کے کام میں کیونکہ زخمی ہورہے ہیں جوان فوجی ، وہ بمباری کر رہے ہیں اس میں عورتیں بچے زخمی شہید تو علاج معالجہ کا نظام کون چلائے گا ؟ وہ میں اور آپ نہیں چلا سکتے وہ ڈاکٹروں نے کرنا ہے ٹیکہ ڈرپ نرسوں نے لگانی ہے نرس مرد بھی ہوتے ہیں نرس عورتیں بھی ہوتی ہیں انہوں نے لگانا ہے !
پھر حکومت کہے گی کہ ہمیں عورتوں کی خدمات کی ضرورت ہے فلاں علاقہ میں عورتیں زخمی ہوگئی ہیں ان کے لیے عورتیں چاہئیں جو میڈیکل سٹاف ہے عورتوں کا وہ آئے توعورتیں جائیں گی۔
پھرحکومت کہے گی ہمیں راشن کو سنبھالنے کے لیے کھانا پکانے کے لیے پچھلے کیمپوں میں پکانے والے ماہر چاہیں عورتیں ہوں یا مرد جو بھی ملے ! اب عورت گھر سے نکل جائے گی شوہر روکے گا نہیں رُکے گی جو دفتر بتایا وہاں اطلاع کرے گی کہ میں آگئی ہوں میں کھانا پکانا جانتی ہوں روٹی پیڑے آٹا گوندھنا ، مرد بھی جائے گا اپنی خدمات پیش کرے گا حکومت انہیں لے لے کر ان کو ذمہ داری دے کر کام چلائے گی ! اب بتلائیے کام خوش اسلوبی سے چل رہا ہے یا نہیں چل رہا ؟
پھر حکومت کہے گی ہمیں ایسے سول انجینئر چاہئیں جو فوری سڑکیں اور پل بنا سکیں فلاں محاذ پر تاکہ فوج آر پار جاسکے، سول انجینئر جائیں گے وہاں کام ہی سول انجینئر کا ہے وہاں آپ کا کیا کام ، میرا کیا کام ہے ؟
پھر حکومت کہے گی ہمیں ایسے علماء چاہئیں جو جہادی مسائل(Islamic Martial Rules) بتائیں
ہمیں احکامات کی ضرورت ہے علماء پہنچیں فلاں دفتر میں ! فلاں جگہ بٹھائیں گے وہاں قوم سے بھی خطاب کریں گے وہ عوام کو بتائیں گے تاکہ جہاد کا جذبہ بڑھے ، جذبہ شہادت جاگے ! !
پھر اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح اور نصرت دیتے ہیں ! !
یہ قانون کی کتابوں میں ہمارے ہاں ساری تفصیل لکھی ہے فوجیوں کو نہیں پتا اُتنا جتنا ہمیں پتا ہے الحمدللہ جنہیں تم نِکما سمجھتے ہو مولویوں کو یہ اُن کو پتا ہے وہ جانتے ہیں یہ کام اور سمجھتے ہیں چونکہ ہمارے پاس نہ اِقتدار ہے نہ کرسی اس لیے ہمارے علماء کی جو صلاحیتیں ہیں وہ ان کے سامنے نہیں آتیں ! ! !
افغانستان میں ان کی صلاحیتیں سامنے آئیں اب انہوں نے چند دنوں میں پاکستان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، ہندوستان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، بنگلہ دیش کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ان کی کرنسی ہم سب کی کرنسیوں سے بہتر ہے اور ترقی کی رفتار ہم سب سے اچھی ہے ! تو ہمارے عام مسلمانوں کے جذبات ہیں مگر قیادتیں منافق ہیں بس ! اگر اِن میں ایمان کا جذبہ آجائے تو ساری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت عزت سے بدل جائے گی ان شاء اللہ !
رجوع اِلی اللہ اور سرمایہ کی فرہمی :
تو اللہ سے رجوع کریں ہم آپ اس وقت اللہ سے رجوع کر سکتے ہیں ! جیب پر بوجھ ڈالو کنجوسی کو ختم کرو چندہ نکال کر اُن کو دو، ہم بیٹھے ہیں یہاں خانقاہ میں ،ہم دے رہے ہیں ، یہاں سے جا رہے ہیں ، کل ہی چھ لاکھ ساڑھے چھ لاکھ بلکہ سات آٹھ لاکھ ہوئے ہیں یہاں ، وہ بھیجوا رہے ہیں الحمد للہ اور پورے ملک سے پچیس کروڑ کم سے کم بھیجنا ہے جمعیت علماء اسلام نے لیکن پچیس کروڑ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچیس کروڑ سے ایک پائی بھی زیادہ نہ کرو بلکہ ایک ارب کرو ! اپنا کھانا راشن آدھا کرو، دو کی بجائے ایک روٹی کھاؤ ،تین کے بجائے دو جوڑے بناؤ ،عورتوں کو بھی بتاؤ اور حصہ ڈالو پھر یہ بھی جہاد میں شرکت ہو جائے گی کسی درجہ میں !
یہ نہیں کہ صرف نعرے جذباتی لگاؤ خرچ کا معاملہ آئے تو ادھر اُدھر جھانکو، نہیں خرچ کرو اللہ کے راستہ میں ہمارے گھر میں الحمدللہ بچوں نے بھی حصہ لیا ہے چھوٹے بچوں نے نابالغ بچوں نے بھی چندے میں حصہ لیا ہے میں نے گھر میں تحریک چلائی رشتے داروں میں بھی چلائی میں نے کہا جوان سے بھی لو نابالغ سے بھی لو بچی سے بھی لو بچے سے بھی لو، تاکہ اِن میں جہاد کا شعور اور جذبہ پیدا ہو کہ ہمیں اس کے لیے کیا کرنا چاہیے تو دیے ہیں پیسے ! میری بہنوں نے دیے، ان کی اولادوں نے دیے، ان کی اولادوں کی اولادوں نے دیے ،جو بچہ گود میں ہے اُس کا ہاتھ لگوا کر پچاس روپے سو روپے آٹھ سو روپے ہزار روپے دیے ! گود کے بچے کو کیا پتا ؟ لیکن بڑوں نے اس کا ہاتھ لگوا کر کہ یہ حصہ تیری طرف سے وہاں بھیج رہے ہیں ! اس طرح کرو تو پھر دیکھو مدد آئے گی اللہ کی، اتنا تو کر سکتے ہیں نا !
اب تم قوی نہیں ہو اُس بڑے درجہ کے جہاد پر تو جتنی طاقت ہلکی پھلکی سی ہے اُتنا تو کرو، وہ فرضِ عین ہے ! یہ بھی نہ کیا، پیسے بھی نہیں دیے تو پیپلزپارٹی والا بھی جواب دہ ہوگا، مولوی بھی جواب دہ ہوگا، مسلم لیگی بھی جواب دہ ہوگا ،پی ٹی آئی کا بھی مجرم ہوگا اللہ کے ہاں ، ایم کیو ایم کا بھی مجرم ہوگا، مذہبی جماعت کا بھی مجرم ہوگا اگر اِتنا حصہ بھی نہیں لیا اُس نے جہاد میں !
میں نے کوشش کی ہے کہ آپ حضرات کو آسان کر کے اس بات کو سمجھایا جائے ! تو اللہ سے مدد مانگو رُجوع اِلیٰ اللہ رکھو غریب سے غریب طالب علم بھی ایک روپیہ تو دے سکتا ہے ، ایسا طالب علم کوئی نہیں ہوگا جو ایک روپیہ نہ دے سکے دس دے دو ،جتنا دے سکتے ہو دو، تمہارے اساتذہ موجود ہیں ان کے پاس جمع کرواؤ جا کر کہو یہ ہماری طرف سے ہے، اپنے گھروں میں فون کرو، وہ وہاں کے علاقے میں علماء کے پاس جمع کروائیں اور اس مہم کو چلائیں !
اللہ عمل کی توفیق دے اور ہمیں افراط اور تفریط سے بچائے ، ہدایت پر اِستقامت کے راستے پر رکھے اور ہر حال میں ہماری مدد اور نصرت فرما تا رہے کوتاہیوں کو درگزر فرمائے ! آمین
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php
درسِ حدیث
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
سچی توبہ سے اللہ اور بندے کے درمیان تعلق ٹھیک ہوجاتا ہے !
صرف انبیائِ کرام معصوم ہوتے ہیں اور کوئی معصوم نہیں ہوتا !
اپنے اُوپر تنقیدی نظر ڈالتے رہنا چاہیے
(درسِ حدیث نمبر٥٩/٢٠٦ ٨ شعبان المعظم١٤٠٦ھ/١٨اپریل ١٩٨٦ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
استغفار اور توبہ یہ ایسی فضیلت کی چیز ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق ٹھیک ہوجاتا ہے ! !
استغفار اور توبہ کا مطلب :
''استغفار'' کے معنٰی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بندہ یہ طلب کرے کہ وہ اُس کے گناہ کو اپنی رحمت سے ڈھانپے رکھے ! تو یہ طلب کرنا اللہ تعالیٰ سے کہ خداوند ِکریم تو میرے گناہوں کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اس کا مطلب ہے کہ معاف فرمادے ! تو یہ مفہوم کن الفاظ سے ادا کیا جائے اس میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے رہبری فرمائی ہے اور جو کلمات آپ نے استعمال فرمائے ہیں وہ بھی منقول ہیں اُن کی فضیلت بھی منقول ہے ! !
ایک تو ہے استغفار اور ایک ہے توبہ ! ''توبہ'' کے معنٰی ہیں رُجوع کرنا یعنی بندہ اپنی غلطی سے اپنے گناہ کے کام سے باز آجائے خدا کی طرف رُجوع کرلے گناہ سے ہٹ جائے یہ توبہ ہوئی ! اور حدیث شریف میں یہ کلمات آتے ہیں اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ ١ گو یا دو چیزیں الگ الگ ہیں ایک جگہ اَسْتَغْفِرُ آیا اور ایک جگہ اَتُوْبُ آیا تو دونوں کے معنٰی جدا جدا ہیں آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں حق تعالیٰ سے استغفار کا جملہ دن بھر میں ستر دفعہ سے بھی زیادہ ادا کرتا ہوں !
دوسری حدیث شریف میں آتا ہے کہ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ میرے دل پر بادل جیسا آجاتا ہے وَاِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِی الْیَوْمِ مِأَةَ مَرَّةٍ ٢ میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں کہیں ستر دفعہ سے زیادہ آیا اور کہیں سو دفعہ آیا ! یہ جملہ میں متفرق اوقات میں کہتا رہتا ہوں !
'' غَیْنْ '' کی وضاحت :
وہ جو قلب ِ اَطہر پر بادل جیسی کیفیت غبار جیسی کیفیت آتی تھی اُس کی وجہ یہ ہے کہ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کا ملنا جُلنا مختلف قسم کے لوگوں سے تھا ، کافروں سے بھی تھا منافقین سے بھی تھا، تو اُس کا اثر قلب ِ مبارک محسوس کرتا ،بلکہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا جو مقام تھا اللہ کی طرف توجہ قائم رکھنے کا وہ آپ کے ساتھ خاص تھا انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ خاص تھا اور وہ اتنا بڑا ہے کہ اُس سے وہ کبھی سیر نہ ہوتے تھے ! لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کو دوسرا کام سپرد کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کی اصلاح فرمائیں اور اصلاح اعمال کی بھی عقائد کی بھی قرآنِ پاک میں آئی (یُزَکِّیْھِمْ ) نبی کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم مبعوث ہوئے تزکیہ فرمانے کے لیے کہ صاف کریں پاکیزہ بنائیں تو وہ پاکیزگی اعمال کے اعتبار سے بھی ہے عقائد کے اعتبار سے بھی ہے ظاہر بھی باطن بھی ! ظاہر میں کپڑے تک شامل ہیں اُس میں بدن بھی شامل ہے اُس میں تمام چیزوں کی طہارت اور پاکیزگی جنابِ رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے ہمیں سکھائی اور آپ سے پہلے اور انبیائے کرام نے بھی سکھائی !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٢٣ ٢ ایضًا رقم الحدیث ٢٣٢٤
یہاں پر یہ آتا ہے کہ میرے دل پر وہ پردہ سا غَیْنْ سا آجاتا ہے جیسے بادل ہو غبار ہو یہ کیفیت ہوتی تھی تو اِس کیفیت کی وجہ یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے قلب ِ مبارک پر جو آنے والے اور ملنے والے ہوتے تھے اُن کا اثر جب پڑتا تھا تو اُس کا علاج آپ نے استغفار فرمایا ! استغفار میں خدا کی یاد بھی ہے ،استغفار میں خدا سے دعا بھی ہے، استغفار میں خدا سے رحمت کی طلب بھی ہے ! تو یہ کلمات جامع ہوئے ! رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے خود عمل کرکے دکھلایا ہے ! !
انبیائے کرام کا استغفار بطورِ عاجزی کے ہوتا ہے :
انبیائے کرام علیہم الصلٰوة والسلام کو تو گناہوں سے خدا نے معصوم رکھا ہے ! اُن سے تو گناہ کا صدور نہیں ہے ! اُن کا استغفار کرنا یہ اُن کے درجات کی بلندی کے لیے ہے ! کیونکہ جب گناہ نہیں ہے اور پھر بھی وہ عاجزی کررہے ہیں اور اپنے آپ کو ایسا سمجھ رہے ہیں کہ استغفار کی ضرورت ہو تو یہ عاجزی جو ہے یہ برتری کی دلیل ہے ! اور اُن کے مقام کی بلندی کے لیے ہے تو اِس سے انبیائے کرام علیہم الصلٰوة والسلام کے درجات بلند ہوتے تھے ! ! !
انبیائِ کرام کے سوا کوئی معصوم نہیں :
انسانوں میں عام اُمتیوں میں سب کے لیے یہ ہے کہ اُن کے گناہ بھی ہیں گناہ سے بچا ہوا سوائے انبیائے کرام کے اور کوئی نہیں ہے ! غلطی ہوتی ہی رہی ہے چھوٹی غلطیاں یہ تو عام ہیں بڑی غلطیاں عام بندوں سے ہوتی ہیں خاص لوگوں سے چھوٹی غلطیاں اور بڑی بھی ہوسکتی ہیں ! آخر صحابۂ کرام سے جن کا مقام بعد کے آنے والے ولیوں سے بڑا ہے کبیرہ گناہ ہوئے ہیں اور قرآنِ پاک میں آیا ہے ( وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ) ١
جاننے کے بعد پھر اُس گناہ پر جمے نہیں رہتے تو جب کوئی غلط کام گناہ کا کام یا بُرا کام ہوجاتا ہے تو خدا یاد آجاتا ہے ذہن اللہ کی طرف جاتا ہے اُس کے سامنے پیش ہونے کی طرف جاتا ہے قیامت کی طرف جاتا ہے تو پھر ( فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ) اور گناہوں کو بخشنا یہ حقیقتاً اللہ ہی کا کام ہے !
١ سُورہ آلِ عمران : ١٣٥
معافی دلانا بھی اللہ کا کام ہے :
حتی کہ اگر انسان دوسرے انسان کی غلطی کچھ کرلیتا ہے (یعنی اُس کو کوئی تکلیف دیتا ہے اور بعد اَزاں ) اُس سے معافی چاہتا ہے تو اُس سے معافی دلانا یہ بھی اللہ ہی کا کام ہے کہ اُس کے دل میں یہ بات آئے کہ وہ معاف کرے ( وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ) خدا کے سوا اور کون ہے جو گناہوں کو معاف فرمائے ؟ تو گناہوں کا صدور غیر اَنبیائے کرام سے ہوتا رہتا ہے، چھوٹے بھی ہوجاتے ہیں اور بڑے گناہ بھی ہوسکتے ہیں ! قسم غلط کھالی قسم کھالی ایسی چیز پر کہ جو نہ کھانی چاہیے تھی اور کوتاہیاں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں اللہ کے حقوق کے بارے میں اُس کی عبادت کے بارے میں بندے سے صادر ہوجائیں وہ کوئی بھی نہیں جان سکتا اللہ کے سوا اور کسی کو نظر بھی وہ نہیں آسکتے !
گناہوں سے بچنے کی ترکیب :
اللہ نے یہ بتایا ہے کہ کوئی بھی گناہوں سے بچا ہوا نہیں ہے اور اللہ زیادہ جانتے ہیں سب سے زیادہ خدا ہی جانتا ہے تو اِس واسطے انبیائے کرام کے علاوہ باقی کسی کو گناہوں سے معصوم نہیں مانا گیا کہ بالکل بچا ہوا ہے ! اور یہ کہتے ہیں کہ صغائر اور کبائر تمام سے بچ کر ایسے گناہوں سے بچے کہ صغائر بھی نہ ہوں کبائر بھی نہ ہوں تو یہ انبیائے کرام علیہم الصلٰوة والسلام کے علاوہ باقی کسی اور سے نہیں ہوسکتا ممکن ہی نہیں ہے تو پھر علاج کیا ہے ؟ علاج یہی ہے ''استغفار'' ! انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے اُس کا علاج یہی بتایا ارشاد فرمایا ایک دن کہ یَاَیُّھَا النَّاسُ تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ فَاِنِّیْ اَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ مِأَةَ مَرَّةٍ ١ اللہ سے توبہ کرو ، میں اللہ تعالیٰ سے ہر دن یا دن بھر میں یا کوئی کوئی دن ایسا ہوتا ہے کہ میں سو مرتبہ تک توبہ کرتا ہوں !
نبی کی استغفار کا مطلب :
یہ فرق رہے گا ہمارے اور جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے استغفار میں کہ آپ کا بتلانا تعلیم کے لیے ہے اور آپ کا استغفار اور توبہ رفع ِ درجات کے لیے ہے ! کیونکہ وہ سوائے اس کے کہ
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٢٥
اظہارِ عاجزی ہو اپنی، اور اپنے آپ کی نفی کرنا ہو اِس کے سوا اور کچھ نہیں ہے ! اور ایسی چیز پر اللہ کی طرف سے درجات کی بلندی ہوتی ہے ! !
اور ہمارے لیے یہ ہے کہ ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے ہمارے گناہ سَچ مُچ ہیں وہ معاف ہوتے ہیں ! بہت سی باتیں تو ایسی ہیں یعنی ایسے بیانات بزرگانِ دین کے بارے میں ملیں گے اور ہیں موجود ایسے کلمات کہ بعض اُن کے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اگر میں یہ قسم کھالوں کہ ان سے کوئی کبیرہ گناہ نہیں ہوا اور کوئی صغیرہ بھی میں نے نہیں دیکھا تو میں حانث نہیں ہوں گا ! یعنی واقعی میں نے نہیں دیکھا اُس آدمی سے کہ کبیرہ گناہ کا صدور ہوتا ہو یا اُسے صغیرہ گناہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہو، کبھی میں نے نہیں دیکھا ! بعض اکابر کے بارے میں نقل کرنے والے بڑے بڑے حضرات ایسے جملے نقل کرتے ہیں ! ! لیکن اس کو یہی کہا جائے گا کہ وہ آدمی یہ اپنے علم کی حد تک بتارہا ہے باقی اللہ کے اور اُس کے درمیان کیا معاملات تھے اور کون سی چیز ایسی تھی کہ جو صغیرہ ہوسکتی تھی اور کون سی ایسی تھی جو کبیرہ ہوسکتی تھی اُس کا کسی کو کیا پتہ چلتا ہے ؟
بہت ہی خفی چیزیں ہیں جو بندے اور خدا کے درمیان ہوتی ہیں پتہ ہی نہیں چل سکتا اُن کا ! ایک آدمی اگر نماز پڑھابھی رہا ہے ہم تو یہی دیکھیں گے کہ نماز پڑھارہا ہے اگر اُس کے ذہن میں یہ آجائے کہ میں اچھا قاری ہوں میں قراء ت زور سے پڑھ لوں ذرا آواز بلند کروں تو پھر اُس کی عبادت میں کمی آتی چلی جائے گی اسی قدر ! اب اِس کا پتہ تو ہمیں نہیں چل سکتا یہ تو اللہ جان سکتا ہے اور وہ (خود) جان سکتا ہے دیکھنے والا تو یہی کہے گا کہ میں نے تو اُسے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ مجھے کسی گناہ میں مبتلا نظر آیا ہو کوئی کبیرہ گناہ کیا ہو ! یہ کہتے ہیں کہ رُکوع میں اگر کوئی آرہا ہے نماز میں شامل ہونے کے لیے اور رکوع لمبا کردے کہ وہ اِس میں مل جائے آکر یا اسی اعتبار سے نماز لمبی کردے کہ فلاں شخص آنے والا ہے وہ بھی شامل ہوجائے تو پھر اب یہ بات تو ایسی ہے کہ جسے وہ جان سکتا ہے پڑھانے والا اور خدا جان سکتا ہے ہمیں خبر ہی نہیں ! اور اُس پر وہ کہتے ہیں یعنی فقہائے کرام اَخْشٰی عَلَیْہِ عَظِیْمًا بہت بڑی چیز کا مجھے ڈر لگتا ہے اُس کے بارے میں یعنی ایک طرح کا شرک ہوگیا ! !
پھر ایک(مسئلہ) یہ ہے کہ وہ جانتا کسی کو نہیں ہے وہ عام لوگوں کی رعایت کرتا ہے کہ نماز لمبی پڑھوں گا تاکہ جو آنے والے ہیں وہ آجائیں نماز میں تعداد نمازیوں کی زیادہ ہوجائے وہ گناہ نہیں ہے ! !
ایک یہ ہے کہ فلاں چودھری صاحب ہیں یا فلاں ممبر ہے یا فلاں وزیر ہے وہ آنے والا ہے وہ آجائے یا میرا اُستاد ہے جو بھی کوئی ہے کسی خاص معین کا ذہن میں آجائے وہ غلط ہے ! !
ظاہر کا اور خلوتوں کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے :
تو میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی جان سکتے ہیں کہ کس سے گناہ ہوا ہے اور کس سے نہیں ہوا ! اور صغائر اور کبائر یہ سب اُسی کے علم میں ہے ! بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا تعلق اور مخلوق سے ہوتا ہے اُن کو آدمی جان سکتا ہے ! ظاہر سے ہوتا ہے وہ جان سکتا ہے ! باطن اور اُس کی خلوتیں یہ اللہ تعالیٰ جان سکتا ہے، رب العزت جان سکتا ہے، اُس کا خالق جو ہے وہ جان سکتا ہے جس نے اُسے بنایا باقی کوئی نہیں جان سکتا ! تو اس واسطے جو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے بتلادیا اور اللہ نے اُن کے ذریعے ہم تک پہنچادیا وہ حق ہے وہ یہی ہے کہ صرف انبیائے کرام اس چیز سے بچے ہوئے ہیں باقیوں سے گناہ ہوتا ہے ایسی چیز کہ جسے گناہ کہا جائے وہ ہوتی ہے صغیرہ ہویا کبیرہ ! تو جب یہ ہوتی ہے تو اِستغفار کرنا چاہیے ! !
اپنے اُوپر تنقیدی نظر ڈالتے رہنا چاہیے :
اور یہ تو جب ہے جب اپنے اُوپر تنقیدی نظر ڈالے کوئی ! اور اگر تنقیدی نظر ہی نہیں ڈالتا صرف اپنی اچھائی ہی اچھائی پر نظر ہے یہ بھی تو ہوسکتا ہے ! تو پھر یوں کہناپڑے گا کہ نہ تو دوسروں کو اُس کا گناہ نظر آیا کبھی، نہ اُسے خود اپنا گناہ نظر آیا کبھی ! لیکن کیا ایسے ہے کہ واقعی جو دوسروں کو نظر نہیں آیا وہ نہیں ہوا اور جب اُسے بھی نظر نہیں آیا تو سَچ مُچ نہیں ہوا گناہ اُس سے ، یہ نہیں ہے ! بلکہ اگر کسی آدمی کو اپنے گناہ نظر نہیں آرہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اُوپر تنقیدی نظر نہیں ڈال رہا ! یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہ نہیں ہو رہا اُس سے کوتاہی نہیں ہورہی ، کوتاہی ہورہی ہے گناہ ہورہا ہے ! اُس کو خدا کی طرف رجوع کرنا اور استغفار کرنا چاہیے ضرور ! ! !
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا یہ ارشاد صحابۂ کرام سے ہے یَاَیُّھَا النَّاسُ تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ فَاِنِّیْ اَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ یہ عرصہ چودہ اور پندرہ (شعبان) کی درمیانی شب کا جو ہے وہ اسی قسم کا ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور تجلی اس قسم کی مکلف مخلوق کی طرف فرماتے ہیں کہ وہ اگر توبہ کرے تو وہ قبول ہوجائے ! تو اِس واسطے ہمیں اس طرف خاص طرح توجہ کرنی چاہیے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف فرمائے، آمین۔ اختتامی دُعا
( مطبوعہ ماہنامہ اَنوارِ مدینہ جنوری ٢٠٠٩ )
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)
حضراتِ صحابہ کرام کو ہجرت ِمدینہ کی اجازت
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
فتنۂ کفرسے بچنے اور اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کی خاطر کسی امن کی جگہ جاکر پناہ لینے کا سلسلہ پہلے سے جاری تھا اسی غرض سے ایک جماعت حبشہ گئی تھی اور حضرت ابو سلمہ ،حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت عبداللہ بن جحش بن رباب وغیرہم کو جب معلوم ہوا کہ یَثْرِبْ میں ان کو امن مل سکتا ہے تو وہ بیعت ِعقبہ سے پہلے ہی یَثْرِبْ چلے آئے تھے ! ١
پھر جب مدینہ کے چند افراد کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی تو آپ نے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم بہ نفس نفیس ان کے ساتھ چلیں مگر مدینہ کی فضا خانہ جنگی کے باعث خراب تھی تو ان حضرات نے اُس وقت تعمیل ِفرمائش سے معذرت کردی تھی ! لیکن یہ سب باتیں اُس وقت تک اس بناپر تھیں کہ وہاں امن مل جانے کی توقع تھی لیکن جس مقصد عظیم کے لیے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی اس کو سامنے رکھ کر کس مقام کو مرکز بنایا جائے جو ضرورت کے وقت ایک مضبوط محاذ بھی ثابت ہو سکے یہ اب تک طے نہیں ہوا تھا اسی اثناء میں ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تین مقامات بتائے گئے ہیں کہ اِن میں سے کسی کو منتخب کر لو مدینة ، بحرین یا قِنَّسْرِیْن ! ٢
ایک مر تبہ فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ہجرت کر کے ایک ایسے مقام پر جارہا ہوں جہاں کھجور کے باغات ہیں ، مجھے خیال ہوا کہ یہ مقام یمامہ ہوگا یا ہجر ٣ لیکن جس طرح اہلِ مدینہ نے اسلام کا استقبال کیا اس نے طے کردیا کہ یہ مرکز وہ ارضِ پاک ہے جس کو یَثْرِبْ کہا جاتا تھا جس نے بعد میں مدینة النبی ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کا غیر فانی اسم گرامی اختیار کیا۔ انتہا یہ کہ مقامِ عقبہ پر جو آخری
١ سیرة ابن ہشام ج١ ص ٣٨١ ، فتح الباری ج٧ ص ١٨٠ ٢ ترمذی شریف وفتح الباری ج٧ ص ١٨١
٣ بخاری شریف ص ٥٥١
بیعت ہوئی اُس میں باقاعدہ وعدہ ہوگیا کہ حضراتِ مہاجرین وہاں پہنچیں گے اور اہلِ مدینہ اُن کا انتظام کریں گے چنانچہ اس کے بعد نہ صرف یہ کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اجازت دے دی بلکہ ایک اصول طے ہوگیا کہ جو دائرہ اسلام میں داخل ہوا اُس پر لازم ہے کہ وہ مدینہ منورہ کو اپنی قیام گاہ بنائے ! ١
سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ رُوئے انور ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کے عاشق جاں نثار اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام، یہ ان دونوں سے جدا ہونا نہیں چاہتے تھے مگر اسی اصول کی پابندی نے ان کو ہجرت پر مجبو ر کیا ٢ چنانچہ بیعت عقبہ کے بعد ہجرت کرنے والوں میں حضرت بلال، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت سعد رضی اللہ عنہم کے اسمائِ گرامی سب سے پہلے ہیں ان کے بعد سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیس نفر کے قافلے کے ساتھ تشریف لائے اور قبا میں رفاعہ بن عبدالمنذر کے یہاں فروکش ہوئے ٣ پھر رفتہ رفتہ جس کو موقع ملا وہ مکہ سے نکل کرمدینہ پہنچتا رہا !
شوقِ استقبال :
حضرتِ انصار نے اس دعوت پر ہی اکتفاء نہیں کی جو بیعت ِعقبہ کے سلسلہ میں دے چکے تھے بلکہ بیعت کے بعد جب مدینہ واپس آگئے تو یہاں سے چندحضرات مکہ تشریف لے گئے اور حضراتِ مہاجرین کے ساتھ واپس ہوئے ان کو ''مہاجر انصاری'' کہا جاتا ہے ! ٤
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو دعا کی تلقین اور ہجرت کا اشارہ :
سُورۂ اسراء کی چند آیتیں یہ ہیں :

١ قرآنِ حکیم نے سچا مومن اُسی کو قرار دیا جو ہجرت کرکے آئے یا ہجرت کرنے والوں کے لیے قیام کا انتظام کرے اور راہِ خدا میں جان اور مال سے جہاد کرے (سورۂ انفال کی آخری آیات )
٢ فتح الباری ج٧ ص ٢٠٨ ٣ فتح الباری ج٧ ص ٢٠٩
٤ ان حضرات کے اسماء گرامی یہ ہیں : حضرت ذکوان بن عبد قیس ، حضرت عقبة بن وہب بن کلدة ، حضرت عباس بن عبادة نضلة ، حضرت زیاد بن لبید رضی اللّٰہ عنہم ۔ ( ابن سعد ج١ ص ١٥٢ )
( اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا وَّمِنَ اللَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہ نَافِلَةً لَّکَ عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدخُلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِن لَّدُ نْکَ سُلْطَانًا نَّصِیْرًا ) (سُورة الاسراء : ٧٨ تا ٨٠)
''اے رسول نماز قائم کرو سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے کے وقت تک (ظہر، عصر، مغرب عشاء کے وقتوں میں ) اور نماز فجر میں خاص اہتمام سے قرآن پڑھو ١ بلا شبہ صبح کے وقت تلاوت ِ قرآن ایک ایسی تلاوت ہے جس میں حاضری زیادہ سے زیادہ ہوتی ہے ٢
''اور اے نبی رات کا کچھ حصہ (پچھلا حصہ) شب بیداری میں بسر کر، یہ تیرے لیے ایک مزید عمل ہے، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسے مقام میں پہنچادے جو نہایت پسندیدہ مقام ہو (جس کی تعریف کی جاتی ہے) اور تیری دعا یہ ہونی چاہیے کہ اے پروردگار (مجھے جہاں کہیں پہنچا تو ) سچائی کے ساتھ پہنچا اور (جہاں کہیں سے نکال تو) سچائی کے ساتھ نکال اور مجھے اپنے حضور سے قوت عطا فرما، ایسی قوت کہ (ہرحال میں ) مددگاری کرنے والی ہو''
تشریحات :
(١) سُورۂ اسراء جس کاآغاز معراج کے واقعہ سے ہوا اسی نویں رکوع کی یہ آیات ہیں جن میں اس دعا کی تلقین ہوئی ہے(رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ) (جہاں سے نکالنا ہو سچائی کے ساتھ نکال اور جہاں پہنچانا ہو سچائی کے ساتھ پہنچا) جس میں بقول ابن عباس (رضی اللہ عنہما) ہجرت کا ایماء ہے ! ٣
١ آفتاب پرستوں کی عبادت طلوعِ آفتاب کے وقت ہوتی ہے اور توحید پرستوں کی عبادت اس سے پہلے ہوتی ہے یا اس وقت جب اِن معبودانِ باطل کا زوال ہوتا ہے۔ ٢ رات اور دن کے کار پرداز فرشتے اس وقت جمع ہوتے ہیں (بخاری شریف ص ٩٠،٦٨٦) ٣ سُنن ترمذی کتاب التفسیر ج٢ ص ١٤٢
(٢) معراج شریف ابتلاء اور آزمائش کے اس نازک دور میں ہوئی جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ کے حامی اور مددگار یعنی بنو ہاشم، شعب ابی طالب میں پناہ گزیں اور محصور تھے اور اہلِ مکہ اور بالفاظِ دیگر پوری دنیا آپ سے بائیکاٹ کیے ہوئے تھی ! !
اسی شب میں پانچ نمازیں فرض ہوئیں جن کی طرف ان آیتوں میں اشارہ ہے ان کی تشریح آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنی تعلیم اور عملِ متواتر سے فرمائی !
شعب ابی طالب میں محصور ہونے کا دور اور اس کے بعد کے سال وہ تھے جن میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ کے رُفقاء کی مظلومیت، لاچار گی اور بے مائیگی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی ایسی حالت میں کون اُمید کرسکتا تھا کہ ان ہی مظلوموں سے فتح اور کامرانی پیدا ہوسکتی ہے لیکن وحی الٰہی نے صرف فتح وکامرانی ہی کی بشارت نہیں دی کیونکہ فتح وکامرانی کی عظمت کوئی غیر معمولی عظمت نہیں تھی بلکہ ایسے مقام تک پہنچنے کی خبر دی جو نوعِ انسان کے لیے عظمت اور ارتفاع کی سب سے آخری منزل ہے
( عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا )
فضل وکمال کا ایسا مقام جہاں پہنچ کر محمودیت خلائق کی عالمگیر اور دائمی عظمت حاصل ہو جائے ! کوئی عہد ہو، کوئی ملک ہو، کوئی نسل ہو، لیکن کروڑوں دلوں میں اس کی ستائش ہوگی، اَن گنت زبانوں پر اِس کی مدحت طرازی ہوگی، محمود یعنی سرتا سر محمود ہستی ہوجائے گی !
مَا شِئْتَ قُلْ فِیْہِ فَاَنْتَ مُصَدِّق فَالْحُبُّ یَقْضِیْ وَالْمَحَاسِنُ تَشْھَدُ
''جو تعریف تم کرنا چاہو کرلو، تمہاری تعریف درست اور تم راست کو ہو گے، محبت کا یہی تقاضا ہے اور محاسن وکمالات اس کی شہادت دیتے ہیں ''
یہ مقام انسانی عظمت کی انتہاء ہے اس سے زیادہ اُونچی جگہ اولادِ آدم کو نہیں مل سکتی ، اس سے زیادہ انسانی رفعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، انسان کی سعی اور ہمت ہر طرح کی بلندیوں تک اُڑسکتی ہے لیکن یہ بات نہیں پاسکتی کہ روحوں کی ستائش اور دلوں کی مداحی کا مرکز بن جائے، خالق ِ کائنات اس کی مدح کرے اور وہ کائنات ِ انسانی کی اُس وقت مدد کرے جس وقت ہر ایک نفس خواہ وہ نفسِ عوام ہو یا نفسِ خواص کسی ولی ِمقرب کا نفس ہو یا کسی اُولو العزم نبی ِمرسل کا نَفْسِیْ نَفْسِیْ پکار رہا ہو !
(٣) جس اُولو العزم نبی اور رسول کے بلند ترین درجات کا زینہ'' معراج ''تھا اور سطح اعلیٰ ''مقامِ محمود'' اسی کی حیات ِ مقدسہ کا اہم واقعہ ''ہجرت'' ہے ! یہ ترک ِوطن معاذ اللہ جان بچانے کے لیے نہیں تھا بلکہ اس جہادِ عظیم کے لیے تھا جس کا ثمرہ مقامِ محمود ہے یعنی رحمت ِکاملہ اور امنِ عالم کی وہ مقدس دعوت جس کا نام'' اسلام'' ہے جس کے مبلغین اور داعیانِ کرام کی تربیت تیرہ سال تک مکہ کی سنگلاخ امتحان گاہ میں ہوتی رہی ! اب وقت آیا ہے کہ اس کو وقف ِعام کیا جائے اور ایک شہر یا ایک علاقہ یا ملک کی تگنائی ١ سے نکال کر پورے عالم کو اس سے آشنا کیا جائے اور وہ تمام مشقتیں برداشت کی جائیں اور تمام مصیبتیں جھیلی جائیں جن کی نظیر پیش کرنا ایسی غیر معمولی عظیم الشان دعوت کے لیے ضروری ہے جس کی بناپر رہتی دنیا تک آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی تعریف ہوتی رہے اور قیامت کو مقام ِ محمود کا شرفِ اعظم حاصل ہو ! !
یہ ترک ِوطن اسی جہاد ِ عظیم کے لیے تھا اسی لیے یہ ایک ایسا شرف تھا کہ اگر اللہ ربُ العالمین کو منظور نہ ہوتا کہ یہ شرف عطا کیا جائے تو محبوب ربُ العالمین ( صلی اللہ عليہ وسلم ) مکی یا ہاشمی اور قریشی ہونے کے بجائے حضرات ِانصار میں سے ہوتے ! ٢
اسی ہجرت نے اس مؤقف کی بنیاد رکھی جہاں سے رحمة العالمین صلی اللہ عليہ وسلم نے اعلان فرمایا :
( یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا نِ الَّذِیْ لَہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) ٣
''اے اَفرادِ نسل ِانسانی میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں ، وہ خدا کہ آسمانوں اور زمین کی ساری بادشاہت اُسی کی ہے''
١ ملک کی حدود یا تکون ٢ لَو لَا الْھِجْرَةُ لَکُنْتُ اَمْرَأً مِنَ الْاَنْصَارِ ( صحیح البخاری ج ١ ص٥٣٣ ،
رقم الحدیث ٧٢٤٥ ) ٣ سُورة الاعراف : ١٥٨
سن ِہجری :
مسجد جو اِسلامی تعلیمات کے بموجب حیات ِ اجتماعی کی علامت بلکہ شرط ِ اوّل ہے اس ہجرت کے بعد ہی وہ پہلا دن میسر آیا جس میں تاسیسِ مساجد کا سلسلہ شروع کیاگیا ١ اسی پہلے دن کو اسلام کی نشاتِ اجتماعی کا پہلا دن مانا گیا جس سے اسلامی سن (سن ِہجری) کا آغاز کیا گیا ! ٢
مخالفین کا منصوبہ :
( اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا وَّاَکِیْدُ کیْدًا فَمَھِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْھِلْھُمْ رُوَیْدًا ) ٣
''وہ ایک منصوبہ بنا رہے ہیں اور میں ایک منصوبہ بنا رہا ہوں سو ڈھیل دیجیے منکروں کو تھوڑے دن کی ڈھیل '' ٤
( وَاِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ ) ٥
''اور (اے نبی) وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں ) کافر تیرے خلاف اپنی چھپی تدبیروں میں لگے تھے تجھے باندھ کر ڈال دیں ٦ یا قتل یا جلاوطن کردیں اور وہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی مخفی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے ''
( وَاِنْ کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْھَا وَاِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیْلًا ۔ سُنَّةََ مَنْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا ) ٧
١ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لَمَسْجِد اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ قَالَ السُّھیلی من اول یوم حل النبی صلی اللہ عليہ وسلم بدارا الھجرة ( تفسیر مظہری ) ٢ صحیح البخاری ص ٥٦٠ حدیثِ سہل
٣ سُورة الطارق : ٨ قال ابن عباس ھذا وعید من اللّٰہ عزوجل وقد اخذھم اللّٰہ یوم بدر (تفسیر مظہری) ٤ ''البتہ وہ لگے ہیں ایک داؤ کرنے میں اور میں لگا ہوں ایک داؤ کرنے میں ، سو ڈھیل دے منکروں کو ڈھیل دے ان کو (صبر کر) '' (حضرت شاہ عبدالقادر )
٥ سُورة الانفال : ٣٠ ٦ تجھ کو بٹھادیں (حضرت شاہ عبدالقادر) ٧ سُورة الاسراء : ٧٦ ، ٧٧
''اور انہوں نے اس میں بھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی کہ تجھے اس سرزمین (ملک ِ عرب) سے عاجز کر کے نکال دیں اور اگر وہ ایسا کر بیٹھے تو (یاد رکھ) تیرے (نکالے جانے کے پیچھے) مہلت نہ پاتے مگر بہت تھوڑی (وہ سب تباہ کردیے جاتے) ہم تجھ سے پہلے جو پیغمبر بھیج چکے ہیں اُن سب کے معاملہ میں ہمارا قاعدہ یہی رہا ہے اور ہمارے ٹھہرائے قاعدے کو تو بدلتا ہوا نہ پائے گا''
تشریح : جس قوم نے اپنا نصب العین یہ بنا رکھا تھا کہ اسلام کا نام و نشان مٹا ڈالے اس کی ناکامی اس سے زیادہ کیا ہوسکتی تھی جس کو وہ مٹانا چاہتی تھی وہ بڑھ رہا تھا ، پھیل رہا تھا ، اُس کی حفاظت اور ترقی کے مرکز قائم ہورہے تھے !
عرب سے باہر(مملکت ِحبش ) افریقہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت پہنچی ہوئی تھی وہ ایک مرجع اور ایک مرکز بن گئی تھی ١ قریش کا نمائندہ وفد جو اِس کو اُکھاڑنے کے لیے گیا تھا وہ ناکام ہوچکا تھا اب تازہ ناکامی یہ تھی کہ یثرب میں اور خاص ان میں جو نہ صرف قریش کے ہم عقیدہ اور پیرو تھے بلکہ ان میں قریش کی رشتہ داری اور قرابت بھی تھی اسلام کی جڑیں مضبوط ہورہی تھیں ، یہاں تک کہ ساری دنیا کا مقابلہ کرنے کے عزم اور حوصلہ کے ساتھ فداکاروں کی ایک جماعت منظم ہوچکی تھی وہ سخت جان جو دس بارہ سال تک مکہ میں ہر طرح کی مصیبتیں جھیل کر امتحان وآزمائش کی بھٹی میں تپ کر کندن ہوچکے تھے وہ مکہ سے نکل نکل کریثرب پہنچ رہے تھے اور اس طرح ایک محاذ مضبوط ہورہا تھا ! اس پر قریش کے رہنما جتنے بھی خوف زدہ ہوں جتنے بھی چراغ پا ہوں کم تھا کیونکہ زندگی اور موت کا سوال جو پہلے چلمن ٢
١ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور اُن کے تقریبًا تیس ساتھی یمن سے بذریعہ جہاز روانہ ہوئے کہ خدمت مبارک میں حاضر ہوکر اسلام قبول کریں مگر بادِ مخالف نے جہاز کو بندرگاہِ جہاز کے بجائے افریقہ کی بندرگاہ پر پہنچا دیا وہاں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت حبش میں موجود ہے تو اس کے پاس پہنچے اور اسلام قبول کر کے اس کے ساتھ رہنے لگے اور فتح خیبر کے موقع پر ٧ھ میں وہ سیّد الانبیاء صلی اللہ عليہ وسلم کی بارگاہ ِ اقدس میں بازیاب ہوئے۔ (بخاری شریف ص ٥٤٧ وغیرہ) ٢ چِق، تیلیوں کا بنا ہوا پردہ
کے پیچھے سے جھانک رہا تھااب بے نقاب ہوکر سامنے آچکا تھا لہٰذا ضروری تھا کہ قریش کے تمام سردار سر جوڑکر بیٹھیں اور پوری سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کریں ! !
چنانچہ مکہ کے تاریخی دارُالندوہ (پنچایت گھر یا کونسل ہائوس) میں خاص اجلاس طلب کیا گیا ارکانِ ندوہ کے علاوہ دوسرے ہم نوا رہنماؤں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی، زیرِ بحث اور فیصلہ طلب معاملہ (ایجنڈا) یہی تھا کہ اسلام اور اُس کے داعی کا قصہ کس طرح ختم کیا جائے ؟ !
ربیع الاوّل کے پہلے ہفتہ میں یہ اجتماع ہوا اور پوری سنجیدگی سے مسئلہ پرغور کیا گیا چند تجویزیں پیش کی گئیں :
(١) محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کو بیڑیاں پہناکر لوہے کی سلاخوں کے پیچھے باندھ کرڈال دو ١
نجد کا ایک شخص جو وہاں وقت پر پہنچ گیا تھا اُس نے کہا
'' اس سے محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کی مقبولیت بڑھے گی، لوگوں کی ہمدردیاں زیادہ ہوں گی اور بہت ممکن ہے اُس کے ساتھی کسی طرح اُس کو چھڑالے جائیں اس سے قریش کی بدنامی اور ہوا خیزی ہوگی'' ! !
(٢) محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کو وطن سے نکال دو ٢ تمہیں چھٹی مل جائے گی ! تم اپنا نظام قائم کر سکوگے اور موجودہ انتشار ختم ہوجائے گا ! !
١ لِیُثْبِتُوْکَ ( سُورة الانفال : ٣٠ ) یہ تجویز پیش کرنے والا رئیس قریش ابوالبختری مقتول غزوۂ بدر تھا !
٢ لِیُخْرِجُوْکَ ( سُورة الانفال : ٣٠ ) نیز آخری آیت ( وَاِنْ کَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْھَا وَاِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیْلًا ۔ سُنَّةََ مَنْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا ) (سُورة الاسراء : ٧٦ ، ٧٧ ) پورا ترجمہ اُوپر گزرچکا ہے اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تجویز بھی کافی اہمیت اختیار کرچکی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو پریشان اور عاجز کر کے سرزمین ِ عرب سے ہی نکال دیں ! بظاہر اِس پر عمل اس لیے نہیں ہوا کہ اس میں یہ خطرہ محسوس کیا گیا کہ یہ جہاں پہنچ جائیں گے وہاں اپنا مرکز قائم کر کے حملہ کردیں گے اور قریش کو تباہ کردیں گے مگر ارشاد ربانی کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت حق جل مجدہ اس قومِ عرب یا قبیلہ قریش کو برباد کرنا نہیں چاہتے تھے اس لیے یہ تجویز منظور نہیں کی گئی کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو سنتُ اللہ یہ ہے کہ وہ قوم برباد ہوجاتی ہے جو اپنے نبی کو جِلاوطن کردے۔
نجدی شیخ، بہت غلط رائے ہے، وہ ایسا ہوشیار ہے اور اس کے کلام میں ایسی طاقت ہے کہ جہاں جائے گا اپناجتھا بنالے گا تمہارے لیے عذاب بن جائے گا ! !
(٣) ابوجہل میری تو قطعی رائے یہ ہے کہ محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کا کام تمام کردیا جائے ! باقی یہ خطرہ کہ اس کے ولی (بنو ہاشم) انتقام لیں گے اور اس طرح قبائلی جنگ بھڑک اُٹھے گی تو اس سے نجات کی صورت یہ ہے کہ کسی ایک قبیلہ کے آدمی قتل نہ کریں بلکہ ہر ایک قبیلہ سے آدمی منتخب کیے جائیں ، یہ سب مل کر حملہ کریں ! اس صورت میں خون کی ذمہ داری سب پر ہوگی ! بنو ہاشم اس اجتماعی طاقت کا مقابلہ نہ کرسکیں گے ! لا محالہ دیت اور خون بہاطے ہوگا جس کو ہم لامحالہ سب مل کر ادا کردیں گے ! تمام اراکین نے ابوجہل کی تجویز سے اتفاق کیا اور اس کی تیاری شروع کردی ! ! ! ١
مکہ سے ہجرت اور اِمداد خداوندی :
( اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ ) ( سُورة الاسراء : ٨٠ )
''اے رب ! جہاں سے تو مجھ کو نکالے تو سچائی کے ساتھ نکال''
( اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (سُورة التوبة : ٤٠)
''اگر تم مدد نہ کروگے رسول کی تو اللہ نے اُس کی مدد کی ہے جب نکالا اُس کو کافروں نے''
گرمیوں کا موسم، ستمبر ١٣تاریخ، ربیع الاوّل کی یکم پیر کا دن ٢ مکہ والے گرمیوں میں مکان سے باہر ڈیوڑھیوں کے سامنے یا راستہ کے کنارے پر چارپائیاں بچھا لیتے ہیں اور آدھی رات تک گپ شپ کرتے ہیں !
١ البدایة والنہایة ج ٣ ص ١٧٥ ، ١٧٦ وغیرہا من کتب السیر
٢ جو حضرات سفر ہجرت کے رُفقاء یا اس سفر کے مدد گار تھے اُنہوں نے تاریخ یا دن بیان نہیں کیا ، دوسرے حضرات نے بیان کیا ہے ! چونکہ ڈائری یا روز نامچہ کا رواج نہیں تھا اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی تقویمات (جنتریوں ) میں اختلاف رہتا تھا اس لیے قدرتی طور پر تاریخوں کے بیان میں اختلاف ہوگیا ہم نے تقویم ہجری و عیسوی مرتبہ ابو النصر محمد خالدی صاحب ایم اے (عثمانیہ) کے لحاظ سے یہ تاریخ اور دن مقرر کیا ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب
سفر ہجرت کی شب :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا معمول یہ ہے کہ تہائی رات تک نماز عشاء سے فارغ ہو جاتے ہیں پھر کچھ سورتوں کی تلاوت فرماتے ہوئے باوضو بستر پر اور عموماً کھری چار پائی پر آرام فرماتے ہیں اس وقت کچھ آنکھ لگ جاتی ہے صحن میں آپ تنہاہی ہوتے ہیں یا آپ کی زوجہ مطہرہ لیکن آج خلافِ معمول آرام نہیں فرما رہے اور آج آپ تنہا بھی نہیں ہیں ، آپ کے چچازاد بھائی (حضرت علی رضی اللہ عنہ) جن کی عمر تقریباً بائیس سال ہے وہ بھی حاضر ہیں اور کچھ باتیں ہورہی ہیں جیسے حساب سمجھا رہے ہیں ! !
دوسری طرف عجیب بات یہ ہے کہ مکان سے باہر کچھ آدمی آرہے ہیں تلواریں ان کے ہاتھ میں ہیں ! یہ نہایت خاموشی سے آتے ہیں اور دروازے کے قریب بیٹھ جاتے ہیں رفتہ رفتہ دس بارہ آدمی آگئے ہیں ان میں ابوجہل بھی ہے ابولہب بھی اور عقبہ بن ابی معیط اور اُمیہ بن خلف بھی ! ! ان میں سے کوئی اُٹھتا ہے اور کواڑوں کی دراز سے اندر جھانکتا ہے ! !
اب آدھی رات گزر چکی ہے، آخری پہر شروع ہوگیا ہے، پورے مکہ پرسناٹا چھا گیا ! یہ کافر جو باہر آگئے تھے غالباً کھڑے کھڑے تھک گئے اس لیے قطار لگا کر دروازہ کے سامنے بیٹھ گئے ! دفعتاً آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اُٹھتے ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹاتے ہیں اپنی چادر ان کے اوپر ڈال دیتے ہیں پھر دروازہ سے باہر تشریف لاتے ہیں سورۂ یٰسین تلاوت فرما رہے ہیں اور جب کافروں کے برابر پہنچتے ہیں تو یہ آیت زبانِ مبارک پر ہے :
(وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِھِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰھُمْ فَھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ) ١
''کردی ہم نے اُن کے آگے دیوار اور اُن کے پیچھے دیوار پھر اُوپر سے ڈھانک دیا سو اُن کو نظر نہیں آتا''
اب نہیں کہا جاسکتا کہ ان کافروں کو نیند آگئی تھی یا جیسا کہ آیت کا مفہوم ہے ان کی آنکھوں کے سامنے دیوار کھڑی کردی گئی تھی لیکن جو اطمینان آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو ہے اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے
١ سُورہ یٰسین : ٩
سامنے قدرت نے کوئی دیوار کھڑی کردی ہے جس کو آپ محسوس فرما رہے ہیں ( صلی اللہ عليہ وسلم ) اطمینان کی بھی انتہا ہوگئی کہ آپ یونہی نہیں گزر جاتے ہیں بلکہ دست ِمبارک میں مٹی لیتے ہیں اور ہر ایک کے سر پر مٹی رکھتے ہوئے تشریف لے جاتے ہیں ١ یہ نبی کا اعتماد وثوق اور یقین ہے خدا پر اور خدا کے کلام پر !
خدا پر بھروسہ اور اطمینان کی دوسری مثال یہ نوجوان (علی رضی اللہ عنہ) پیش کر رہے ہیں کہ وہ بستر پر آرام سے لیٹے ہیں ، وہ سمجھ رہے ہیں کہ آج کی شب شب ِمقتل ہے ! دشمن اسی لیے اکٹھے ہورہے ہیں کہ اس بستر والے کو ذبح کریں ، آرام گاہ کو ذبح خانہ بنائیں ، بستر والا نہ ہو تو جو بستر پر ہوگا وہ ذبح ہوگا مگر یا تو اللہ کی حفاظت پر اطمینان کامل ہے یا دیدارِ محبوب کے شوقِ مضطر نے موت کو بھی محبوب بنادیا ہے !
گر مشاہدۂ دوست از پس مرگ است حیاتِ خضر و مسیحا نصیب دشمن باد ٢
یہی تسکین بخش اطمینان ہے کہ جیسے ہی لیٹتے ہیں سوجاتے ہیں ، خدا جانے کتنی دیر تک یہ دشمن جو تلواریں لیے ہوئے تھے غافل بیٹھے رہے انہیں ایک شخص نے آکر چونکایا جس نے خبردی کہ جس کو تم قتل کرنے آئے تھے وہ نکل گیا اورتمہاری غفلت کی انتہا ہے کہ خاک تمہارے سروں پر ہے اور تمہیں خبر نہیں ! ؟ اب یہ گھبراکر اُٹھے سروں پر ہاتھ پھیرے تو خاک آلود تھے، یقین ہوگیا کہ یہ شخص سچ کہتا ہے دروازہ دیکھا تو وہ بھی کھلا ہوا تھا ! ؟
کسی کے مکان میں گھسنا بہت معیوب تھا مگر یہ لوگ ضابطہ اخلاق سے دامن جھاڑ کر خاص منصوبہ کے تحت آئے تھے اور اب ناکامی کی جھونجل بھی تھی، غصہ اور جوش میں اندر گھس گئے ! دیکھا کہ ایک سن رسیدہ (محمد صلی اللہ عليہ وسلم فداہ روحی) کی جگہ خواجہ ابو طالب کا سب سے چھوٹا لڑکا ''علی'' بستر پر دراز خراٹے لے رہا ہے ! حواس باختہ دشمنوں نے جھنجھوڑکر اُٹھایا ! پوچھا محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کہاں ہے ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا مجھے کیا خبر ؟ جواب صحیح تھا، انہیں خبرنہیں تھی، بہت پوچھ گچھ کی، ڈرایا دھمکایا مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ نہیں بتا سکے، یہاں سے دوڑے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان پر گئے،
١ ابن سعد وابن ہشام وغیرہ ٢ اگر دوست کا دیدار مرنے کے بعد ہونا ہے تو خضر اور مسیحا کی عمر دُشمنوں کو نصیب ہو
ایک لڑکی (بڑی صاحبزادی حضرت اسمائ) سامنے آئی، پوچھا تمہارے باپ کہاں ہیں ؟ مجھے خبر نہیں ، لڑکی نے جواب دیا ! ابوجہل نے اس معصومہ کے اتنی زور سے طمانچہ مارا کہ کان کی بالی گرگئی ! ١
جب ان بدبختوں کو یقین ہوگیا کہ شکار ہاتھ سے نکل گیا تو اس کی تلاش میں دوڑے ! مکہ کی گلی گلی چھان ماری اور جب کہیں پتہ نہ چلا تو فوراً منادی کرادی کہ جو محمد اور اُس کے ساتھی کو زندہ گرفتار کرکے لائے یا اُن کا سر لائے اس کو (ایک دیت کے بموجب) سو اُونٹ انعام میں دیے جائیں گے ٢
سو اُونٹ انعام معمولی نہیں تھا، انعام کے شوق میں بہت سے من چلے دوڑے مگر کامیابی کسی کو بھی نہیں ہوئی ! کیونکہ رب ِمحمد اپنے محمد کی مدد کر رہا تھا ( صلی اللہ عليہ وسلم )یہی تو ہے ارشادِ خدا وندی ( فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ ) بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کی ! اور وہ جو دعا بتائی گئی تھی جس کا ایک جزو تھا ( وَاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا) اور مجھے اپنے حضور سے قوت عطا فرما، ایسی قوت جو ہرحال میں میری مددگار ہو !
تو اس اطمینان سے زیادہ جس سے پوری طرح مسلح ہوکر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم بستر سے اُٹھے اور روانہ ہوئے تھے '' سلطانِ نصیر '' کیا ہوسکتا ہے ! ! ٣
صادق واَمین کی امانتداری :
دشمنوں نے اگرچہ یہ خطاب اب چھوڑ دیا تھا ٤ مگر آپ کی صداقت، وامانت اِن دشمنوں کی خاطر(دکھاوے کے لیے) نہیں تھی بلکہ اس لیے تھی کہ آپ کی فطرتِ مبارکہ کا جوہر تھی چنانچہ
١ ابن سعد وابن ہشام وغیرہ ٢ بخاری شریف ص ٥٥٤ ٣ ایسی قوت جو ہرحال میں مددگار ہو
٤ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ عجیب بات ہے اللہ تعالیٰ نے میرے نام کو سب و شتم سے بچالیا ان کو میرا نام لینا گوارا نہیں ہوتا بلکہ مُذَمَّمْ کہہ کر برا بھلا کہتے ہیں حالانکہ میں مُحَمَّدْ ہوں میرا نام مُذَمَّمْ نہیں (بخاری شریف ص ٥٠١ رقم الحدیث ٣٥٣٣)
یہ خطاب استعمال نہیں کرتے تھے مگر آپ کی صداقت اور امانت سے انکار نہیں تھا مانتے تھے جانتے تھے پہچانتے تھے کہ آپ صادق و اَمین ہیں اسی پر تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( اَمْ لَمْ یَعْرِفُوْا رَسُوْلَھُمْ فَھُمْ لَہُ مُنْکِرُوْنَ ) (المومنون : ٦٩ ) کیا ان لوگوں نے اپنے رسول کو پہچانا نہیں ہے کہ اُس کا انکار کرتے ہیں ! ( باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جو سمجھا رہے تھے وہ ان امانتوں کا حساب ہی تھا جو اِن ہی دشمنوں کی آپ کے پاس تھیں ، جو اَب منصوبۂ قتل ِناحق کو کامیاب بنانے کے درپے تھے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس خطرناک اور ہیبت ناک فضا میں علی رضی اللہ عنہ کو اِس لیے چھوڑا تھا کہ جن کی امانتیں ہیں ان کو واپس کر کے اور پوری طرح حساب سمجھا کر تشریف لائیں چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تین دن بعد روانہ ہوئے، جب امانتیں اداکر چکے اور حساب سمجھا چکے ! ! !
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٣٣٢ تا ٣٤٦ )
( بقیہ حاشیہ ص ٣١ )
قرآنِ حکیم نے اصل مرض کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ( مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا ) معبودانِ باطل کی محبت ان لوگوں سے یہ حرکتیں کراتی تھی !
( وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ )( البقرة : ١٦٥ )
''کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر اُن کو مانتے ہیں جن کو انہوں نے خدا کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور ان سے ایسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی خدا سے کرنی چاہیے ! اور جو ایمان والے ہیں وہ بہت سخت ہوتے ہیں اللہ کی محبت میں ''
حُبِّ اَنداد یعنی معبودانِ باطل کی محبت اور خدا کی محبت میں یہ فرق ہوتا ہے کہ اللہ سے محبت کرنے والا ہٹ دھرمی نہیں کرسکتا کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ ہر موقع پر عدل و انصاف سے کام لو حق کی شہادت دینے والے رہو ( کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ ) (سُورة النساء : ١٣٥ ) اور معبودانِ باطل کا کوئی حکم ہی نہیں اگر ہے تو باطل پرستی لہٰذا وہ جو کچھ کر بیٹھیں کم ہے ! !
میرے حضرت مدنی قسط : ٣
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
اَمیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
آہ ! سفر و حضر کا رفیق، حضرت شیخ الہند کی نمازِ جنازہ میں شرکت نہ کرسکا :
اس کے بعد حضرت شیخ الہند قدس سرہ کا حادثہ وصال دیکھا اور مالک کی قدرت کا عجیب کرشمہ دیکھا یہ سیہ کار جس کو حاضری کی بہت ہی کم توفیق ہوتی تھی تجہیز و تکفین میں شریک اور میرے آقا میرے سردار حضرت شیخ الاسلام مولانامدنی جو سفر و حضر کے رفیق مالٹا میں بھی ساتھ نہ چھوڑا، ایک دن پہلے جدا ہوگئے اور تجہیز و تکفین اور تدفین میں بھی شریک نہ ہوسکے، بڑی عبرت کا قصہ ہے !
امروہہ میں شیعہ سنی مناظرہ طے ہوچکا تھا کئی مہینے پہلے سے اعلان اشتہار وغیرہ شائع ہورہے تھے اخبارات میں زور شور تھا سہارنپور سے میرے حضرت قدس سرہ پہنچ گئے اور لکھنؤ سے مولانا عبدالشکور صاحب دونوں اس نوع کے مناظرہ کے امام شہرۂ آفاق اہلِ تشیع جواَب تک بہت ہی زوروں پر تھے ان دونوں حضرات کے پہنچنے پر اس کوشش میں لگ گئے کہ مناظرہ ہرگز نہ ہو اور التواء بھی سنیوں کی طرف سے ہو اس لیے انہوں نے مولوی محمد علی جوہر مرحوم کو آدمی بھیج کر دہلی سے بلایا اور مرحوم نے مناظرہ کے خلاف آپس کے اتحاد پر مجامع میں اور مجالس میں چوبیس گھنٹے تک وہ زور باندھے کہ حد نہیں ، میں نے مرحوم کو عمر بھر میں اُسی وقت دیکھا نہ اس سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھنا یاد ہے، میں نے مرحوم سے کہا کہ مجھے آپ سے ملنے کا عرصہ سے اشتیاق تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ وہ شاید ایک دو منٹ میرے اشتیاق پردیں ، اگرچہ مجھ سے واقفیت نہیں تھی مگر وہ میرے حضرت اور مولانا عبدالشکور صاحب کے اقدام پر بہت ہی ناراض ہورہے تھے اس لیے اُنہوں نے سخت ناراض ہوکر یہ کہا کہ اس سے نمٹ لوں پھر ملوں گا سارے دن یہ ہنگامہ رہا، دوسرے دن ١٧ ربیع الاوّل ١٣٣٩ھ کو علی الصباح میرے حضرت قدس سرہ نے حضرت شیخ الہند کے نام بہت مختصر پرچہ اس مضمون کا لکھوایا۔
صورتِ حال یہ ہے کہ اور سنیوں کی طرف سے اس وقت التواء ہر گز مناسب نہیں ، آپ میرے نام ایک خط جلد بھیج دیں کہ مناظرہ جاری رکھا جائے یا مناظرہ ملتوی نہ کیا جائے ! بہت مختصر پرچہ میں لے کر امروہہ سے دہلی روانہ ہوا، جب میں اسٹیشن پر پہنچا تو دو چار آدمی ملے، مصافحہ کیا میں نے ان سے پوچھا کون ،کیسے ؟ انہوں نے کہا کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب مدنی قدس سرہ جو اِسی گاڑی سے کلکتہ جارہے ہیں ان کی زیارت کے واسطے آئے ہیں ، میرے پاس نہ کاغذ، نہ پنسل، ایک کاغد ردّی اسٹیشن سے ڈھونڈا اور ایک کوئلہ اُٹھایا اور جو مجھے اسٹیشن پر پہنچانے کے واسطے گیا تھا اُس کے ہاتھ کوئلے سے حضرت قدس سرہ کے نام پرچہ لکھا کہ حضرت مدنی قدس سرہ کو وہیں اُتارلیں ، یہ کہہ کر دہلی روانہ ہوگیا۔
میرے حضرت نے گاڑی پر آدمی بھیجا اور حضرت سے اُترنے کو فرمایا باوجود اِس کے کہ حضرت کا کلکتہ کا ٹکٹ تھا اور سامانِ سفر ساتھ تھا ،میرے حضرت کے حکم پر حضرت مدنی وہیں اُتر گئے انقیادِ اکابر میں نے جتنا حضرت مدنی قدس سرہ میں دیکھا اتنا کم کسی دوسرے میں دیکھا، اپنی طبیعت کے جتنا بھی خلاف ہو مگر اپنے بڑوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا ان ہی کا حصہ تھا ! اور سارے دن مناظرہ کے متعلق زوردار تقریریں فرمائیں جس میں فریقین کو نصیحت کہ یہ زمانہ آپس میں اشتعال کا نہیں ہے اِس وقت میں تو غیر مسلموں سے بھی صلح کرنے کی شدید ضرورت ہے، چہ جائیکہ آپس میں لڑائی جھگڑا کیا جائے، میں حضرت قدس سرہ کا گرامی نامہ حضرت شیخ الہند کے نام لے کر مغرب کے قریب حضرت کی قیام گاہ پرپہنچا تو حضرت شیخ الہند قدس سرہ پر مرض کا شدید حملہ تھا پیش کرنے کی نوبت نہیں آئی، دوسرے دن صبح کو وصال ہوگیا اور دنیابھر میں تار ٹیلیفون دوڑنے لگے، حضرت مدنی قدس سرہ کے نام کلکتہ اور اُس کے قرب وجوار کے چند اسٹیشنوں پر تار دیے گئے، جہاں تک اہل الرائے کی یہ رائے ہوئی کہ صبح کی جس گاڑی میں حضرت مدنی گئے ہیں وہ اس وقت تک کہاں پہنچے گی ؟ اس جگہ سے لے کر کلکتہ تک ہر مشہوراسٹیشن پر تار دیا گیا، میں نے کہا ایک تار حضرت مدنی کو امروہہ بھی دے دو، سب سے مجھے بیوقوف بتلایا اور بعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ حضرت سہارنپوری کو تار دلوانا چاہتا ہے، حضرت مدنی کے نام سے ہر شخص نے کہا کہ آخر امروہہ کا کیا جوڑ ؟ میں نے کہا احتیاطاً ! جب الحاج مفتی کفایت اللہ صاحب صدر جمعیة العلماء نور اللہ مرقدہ اعلی اللہ مراتبہ اللہ تعالیٰ ان کو بہت ہی بلند درجات عطا فرمائے
باوجودیکہ میں سیاسی حیثیت سے ان کے ساتھ نہیں تھا ممکن ہے کسی جگہ مولانا مرحوم کا تذکرہ ذرا تفصیل سے آسکے لیکن مفتی صاحب مرحوم کو شفقت بہت تھی اور بہت وقعت سے میری بات قبول فرمایا کرتے تھے، بہت سے سیاسی اور مذہبی مسائل میں اپنی رائے کے خلاف میری رائے کو ان الفاظ سے شائع کیا ہے کہ بعضے مخلص اہلِ علم کی رائے یہ ہے گو میری رائے نہیں ، اس قسم کی کوئی عبارت اس وقت کے وقف بل میں بھی شائع ہوئی ہے جو مفتی صاحب نے لکھا تھا، بہت سے وقائع اس قسم کے مفتی صاحب کے ساتھ پیش آئے کہ میری رائے کو اُنہوں نے اپنی رائے کے خلاف انتہائی تبسم اور خوشی کے لہجے میں بہت اہتمام سے قبول کیا !
اس موقع پر بھی میرے بار بار اِصرار اور لوگوں کے انکار پر تیز لہجے میں فرمایا کہ جب یہ بار بار فرمارہے ہیں تو آپ کو ایک تار امروہہ دینے میں کیا مانع ہے ! چنانچہ تاردیا گیا شاید ارجنٹ نہ دیا ہو کہ دینے والوں کی رائے کے خلاف ہو، دوسرے دن امرہہ تار پہنچا اور تیسرے دن علی الصباح حضرت مدنی حضرت شیخ الہند کے مکان پر پہنچے، یہ ناکارہ اُس وقت تک امروہہ روانہ نہیں ہوا تھا بلکہ جاہی رہا تھا وہ منظر ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہے گا !
حضرت مدنی انتہائی ساکت ، قدم بالکل نہیں اُٹھتا تھا ہر قدم ایسا اُٹھ رہا تھا جیسا ابھی گر پڑیں گے مصافحہ بھی ایک آدھ ہی نے کیا، میں نے تو کیا نہیں ، ہر شخص اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا مولانا مدنی حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے مردانہ مکان کے سامنے کی سہ دری میں جاکر دو زانو بیٹھ گئے اور چپ ! دو چار حاضرین بھی گھر میں موجود تھے وہ بھی جمع ہوکر مولانا کے پاس بیٹھ گئے اور میں قدرت کا کرشمہ سوچتا رہا کہ جو شخص سفر و حضر میں کسی وقت بھی جدانہ ہوا ہو، وہ انتقال سے ایک دن بعد قبر پر حاضر ہوا اور جس کو حاضری کی نوبت کبھی نہ آئے ہو وہ دہلی سے لے کر تدفین تک جنازہ کے ساتھ ساتھ رہے !
عجب نقش قدرت نمودار تیرا
حضرت شیخ الہند قدس سرہ کی نمازِ جنازہ دہلی میں میرے چچا جان نے پڑھائی اور حضرت کے حقیقی بھائی مولانا محمد حسن صاحب نے شرکت نہیں کی تاکہ ولی کو اِعادہ کا حق رہے، انہوں نے دیوبند آنے کے بعد پڑھائی ١
جانشین شیخ الاسلام کا عقیقہ :
ان ہی حوادث میں حضرت میرٹھی نور اللہ مرقدہ کا حادثہ انتقال بھی ہے جس کو میں ارشاد الملوک کی تمہید میں لکھ بھی چکا ہوں کہ یکم شعبان ١٣٦٠ھ مطابق ٢٥ اگست ١٩٤١ء دو شنبہ کی صبح کو چھ بجے وصال ہوا۔ چار بجے شام کو مکان کے قریب ہی اپنے خاندانی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ حادثہ کے وقت بھی ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ حضرت اقدس مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوری نوراللہ مرقدہ ایک سفر سے سہارنپور واپس تشریف لائے اور اس ناکارہ زکریا سے ارشاد فرمایا کہ حضرت میرٹھی کی شدت علالت کی خبریں سنی جارہی ہیں خیال یہ ہے کہ رائے پور جانے سے پہلے حضرت میرٹھی کی عیادت بھی کرتا جاؤں بشرطیکہ تو بھی ساتھ ہو، میں نے قبول کر لیا اور قرار یہ پایا کہ اتوار کو دیوبند چلیں شب کو وہاں وقیام رہے پیر کی صبح کو میرٹھ چلے جاویں شام کو واپسی ہوجائے منگل کو حضرت رائے پور تشریف لے جاویں ، چنانچہ اتوار کے دن ظہر کے وقت دیوبند حاضری ہوئی اور پیر کی صبح کو حضرت مدنی سے میرٹھ جانے کی اجازت چاہی، حضرت نے اپنی عادتِ شریفہ کے موافق اجازت میں تامل فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آج عقیقہ ہے، میں ابھی بکرے کٹواتا ہوں اس کا گوشت کھا کر
١ آپ بیتی ص ٢٧٥ تا ٢٧٨
دس بجے کی گاڑی سے چلے جانا ! یہ عقیقہ عزیزم مولوی ارشد سلمہ کا تھا مگر نہ معلوم علی الصباح میرٹھ جانے کا فوری تقاضا میری طبیعت پر اور مجھ سے زیادہ حضرت کی طبیعت پر کیوں ہوا اور بہت ہی گرانی اور طبیعت کے تکدر سے حضرت مدنی سے جانے کی اجازت لی، جس کا طبیعت پر دوپہر تک بہت ہی قلع رہا
حضرت قدس سرہ نے بھی بڑی گرانی سے اجازت دی وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ چھ بجے صبح کو مولانا میرٹھی کا انتقال ہوچکا ہے اور دوتار سہارنپور پہلا حادثے کی اطلاع کا دوسرا جنازے کی نماز میں انتظار کا سہارنپور جاچکے ہیں اور حادثہ کی اطلاع کا تار دیوبند حضرت مدنی کی خدمت میں بھی روانہ ہوچکا ہے اس کی وجہ سے جو گرانی ندامت کلفت صبح سے تھی کہ حضرت کی منشاء کے خلاف آنا ہوا وہ جاتی رہی ! جنازہ اس ناکارہ کے انتظار میں رکھا ہوا تھا تجہیز و تکفین کے بعد جنازہ کی نماز ہوئی ظہر سے پہلے ہی تدفین ہوگئی اور شام کو حضرت اقدس رائے پوری نور اللہ مرقدہ کی ہمرکابی میں سہارنپور واپسی ہوگئی، معلوم ہوا کہ حضرت میرٹھی نے اس سیہ کار کے لیے نمازِ جنازہ کی وصیت فرمائی تھی۔ ١
ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
نرخ نامہ
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500
١ آپ بیتی ص ٢٧٩، ٢٨٠
قسط : ٨
تربیت ِ اولاد
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ !
اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
پیدائش کے بعد بچہ سے متعلق ضروری ہدایات :
دستور ہے کہ مٹی بیسن سے بچہ کو غسل دیتے ہیں اس کے بجائے نمک کے پانی سے غسل دیں اور تھوڑی دیر بعد خالص پانی سے نہلائیں تو بہت سی بیماریوں جیسے پھوڑا پھنسی وغیرہ سب سے حفاظت رہتی ہے لیکن نمک کا پانی ناک یا کان یا منہ میں نہ جانے پائے ،اگر بچہ کے بدن میں میل زیادہ معلوم ہو تو کئی روزتک نمک کے پانی سے غسل دیں اور اگر میل نہ بھی ہو تو تب بھی چلہ بھر تک تیسرے چوتھے دن خالص پانی سے غسل دے دیا کریں اور غسل کے بعد تیل مل دیا کریں (سرد موسم میں احتیاط رکھیں ) اگر بچہ کی چار پانچ مہینہ تک تیل کی مالش رکھیں تو بہت مفیدہے۔
بچہ کو ایسی جگہ رکھیں جہاں بہت روشنی نہ ہو ،زیادہ روشنی سے اُس کی نگاہ کمزور ہوجاتی ہے ! بچہ کو زیادہ دیر تک ایک کروٹ پر لیٹے ہوئے کسی چیز پر نگاہ نہ جمانے دیں اس سے بھینگا پن ہوجاتا ہے کروٹ بدلتے رہیں !
بچہ کو خراب دُودھ نہ پلائیں ! اس کی پہچان یہ ہے کہ ایک بوند دُودھ ناخن پر ڈال کر دیکھیں اگر فوراً بہہ جائے یا بہت دیر تک نہ بہے تو خراب ہے اور اگر ذراسا بہہ کر رہ جائے تو عمدہ ہے ! اور جس دُودھ پر مکھی نہ بیٹھے وہ برا ہے ! بچہ کو دُودھ دینے سے پہلے کوئی میٹھی چیزجیسے شہد یا کھجور چبائی ہوئی وغیرہ اُنگلی پر لگا کر اُس کے تالو میں لگائیں ! اگر دُودھ چھاتیوں میں جم جائے اور تکلیف ہو اور چھاتیوں میں کھچاؤ معلوم ہونے لگے تو فوراً علاج کرائیں ۔ (بہشتی زیور )
چھوٹے بچوں کو بالکل تنہا نہ چھوڑنا چاہیے :
ایک جگہ ایک عورت اپنا بچہ چھوڑ کر کہیں کام کو چلی گئی، پیچھے ایک بلی نے آکر اِس قدر نوچا کہ اسی میں جان گئی ! اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ بچہ کو تنہا نہ چھوڑنا چاہیے دُوسرے یہ کہ بلی کتے جانور کا کچھ اعتبار نہیں ! بعض عورتیں بیوقوفی کرتی ہیں کہ بلیوں کو ساتھ سُلاتی ہیں اگر کسی وقت کہیں دھوکہ میں پنجہ دانت ماردے یا نرخرہ پکڑ لے تو کیا کر لوگی ؟ !
زچہ (بچہ کی ماں ) کو نجس اور اَچھوت سمجھنا غلط ہے :
زچہ (یعنی جس عورت کے بچہ پیدا ہوا ہے ) اُس کوبالکل نجس اور اَچھوت سمجھنا اُس سے الگ بیٹھنا ، اُس کا جھوٹا کھا لینا یاجس برتن کو وہ چھولے اُس میں دھوئے مانجھے بغیر پانی نہ پینا ، غرض یہ کہ بالکل بھنگن کی طرح سمجھنا یہ بھی محض لغو اَور بیہودہ ہے۔ (بہشتی زیور )
شوہر کو زَچہ کے قریب نہ آنے دینا :
یہ بھی ایک دستور ہے کہ پاک ہونے تک کم اَز کم پہلا نہان ہونے تک زچہ کے شوہر کو اُس کے پاس آنے نہیں دیتیں بلکہ اِس کو عیب اور نہایت برا سمجھتی ہیں ۔ اس رسم کی وجہ سے بعض دفعہ بہت دِقت اور حرج ہوتا ہے کہ کیسی ہی ضرورت ہو کیا مجال ہے کہ جو وہاں تک شوہرکی رسائی ہو جائے، یہ کون سی عقل کی بات ہے، کبھی کوئی ضروری بات کہنے کی ہوئی اور کسی اور سے کہنے کے قابل نہ ہوئی یا کچھ کام نہ سہی تب بھی شاید اُس کا دل اپنے بچے کو دیکھنے کے لیے چاہتا ہو، ساری دُنیا تو دیکھے مگر وہ نہ دیکھنے پائے یہ کیا لغو حرکت ہے ! اچھے صاحبزادے تشریف لائے کہ میاں بیوی میں جدائی پڑ گئی ہے اس بے عقلی کی بھی کوئی حد نہیں !
زچہ (بچہ کی ماں ) کے غسل میں تاخیر اَور نماز میں کوتاہی :
سوا مہینے تک زچہ کوہرگز نماز کی توفیق نہیں ہوتی ،بڑی بڑی نماز کی پابندی کرنے والی بھی بے پروائی کر جاتی ہیں حالانکہ شریعت کا حکم ہے کہ جب خون بند ہو جائے فوراً غسل کرے اگر غسل نقصان کرے تو تیمم کر کے نماز پڑھنا شروع کردے ، بغیر عذر کے ایک وقت کی بھی فرض نماز چھوڑنا بہت سخت گناہ ہے ! حدیث شریف میں ہے کہ ایسا شخض دوزخ میں فرعون ،ہامان اور قارون کے ساتھ ہوگا ! والعیاذ باللّٰہ
متعین اوقات میں زچہ کی تین مرتبہ نہلانے کی رسم :
زچہ(بچہ کی ماں ) کو تین مرتبہ نہلانا ضروری جانتی ہیں چھٹی کے دن اور چھوٹاچِلّہ (دُوسرا نہان ) اور بڑا چِلّہ ! شریعت سے یہ صرف حکم تھا کہ جب خون بند ہو جائے تو نہالے چاہے پورے چالیس دن میں خون بند ہو جائے ،یہ شریعت کا پورا مقابلہ ہے یا نہیں ؟
بعض لوگ یہ عذر کرتے ہیں کہ بغیر نہائے ہوئے طبیعت گِھن کرتی ہے اس لیے نہلا دیتے ہیں کہ طبیعت صاف ہو جائے اور میل کچیل صاف ہو جائے ! لیکن یہ عذر غلط ہے اگر یہی وجہ ہوتی تو زچہ کا جب دل چاہے نہا لے یہ وقتوں کی پابندی کیسی ؟ کہ پانچویں دن ہی ہوپھر دسویں اور پندرھویں دن ہی ہو بلکہ جب اُس کا دل چاہتا ہے تب نہیں نہلاتیں یا نہلانے سے کبھی کبھی زچہ بچہ دونوں کو نقصان پہنچ جاتا ہے تب بھی نہلاتی ہیں اور جب نفاس ( خون) بند ہوتا ہے اُس وقت ہرگز نہیں نہلاتیں بتلائو یہ صریح گناہ ہے یا نہیں !
غسل کے وقت عورتوں کا جمع ہونا :
نہانے کے وقت پھر سب عورتیں جمع ہو جاتی ہیں اور کھانا وہیں کھاتی ہیں اور برادری میں دُودھ چاول یا بتاشے وغیرہ تقسیم ہوتے ہیں ! بھلا صاحب یہ زبردستی پخ لگانے کی کیا ضرورت ! دو قدم پر تو گھر ہے مگر یہاں کھائیں گی وہی مثل ہے کہ مان نہ مان میں تیرا مہمان ! اُن کی طرف سے تو یہ زبردستی اور گھر والوں کی نیت وہی ناموری اور طعن وتشنیع سے بچنے کی نیت ،یہ دونوں وجہیں اس کے منع ہونے کے لیے کافی ہیں !
غسل کے وقت دھوم دھام اور ناچ گانا :
بعض شہروں میں آفت ہے کہ اس تقریب میں یا خصوصیت سے غسلِ صحت کے روز خوب راگ باجہ ہوتا ہے اور کہیں ناچ ہوتا ہے کہیں ڈومنیاں گاتی ہیں جن کی برائی لکھی جا چکی ہے ان خرافات اور گناہوں کو ختم کرنا چاہیے !
غسل کے وقت ستر اَور پردہ پوشی کی ضرورت :
مسئلہ : ناف سے لے کر رانوں کے نیچے تک کسی عورت کے سامنے بھی بدن کھولنا دُرست نہیں ! بعض عورتیں ننگی سامنے نہاتی ہیں ، یہ بڑی بے غیرتی اور ناجائز بات ہے ! چھٹی میں ننگی کرکے نہلانا اور اِس پر مجبور کرنا ہرگز دُرست نہیں ! ناف سے رانوں تک ہرگز بدن کو ننگا نہ کرنا چاہیے !
مسئلہ : جتنا بدن کو دیکھنا جائز نہیں وہاں ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں ! اس لیے نہاتے وقت اگر بدن بھی نہ کھولے تب بھی نائن وغیرہ سے رانیں ملوانا درست نہیں ،اگرچہ کپڑے کے اندر ہاتھ ڈال کر ملے ! اگر نائن اپنے ہاتھ میں کیسہ (تھیلا) پہن کر کپڑے کے اندر ہاتھ ڈال کر ملے تو جائز ہے ! !
اَچھوانی اَورسٹھورا وغیرہ تقسیم کرنے کو ضروری سمجھنا :
اَچھوانی گوند (سٹھورا) سارے کنبہ وبرادری میں تقسیم ہوتا ہے ! اس میں بھی وہی نام ونمود دِکھلاوا اور طعن و تشنیع سے بچنے کے مفاسد اَور نماز روزہ سے بھی بڑھ کر ضروری سمجھنے کی عِلّت موجودہے، تقریب والے کی تو اچھی خاصی لاگت لگ جاتی ہے !
پیدائش کی خبر نائی کے ذریعہ پہنچانے کی رسم :
نائی خط لے کر بہو کے میکہ یا سسرال میں خبر کرنے جاتا ہے اور وہاں اُس کو انعام دیاجاتا ہے ! خیال کرنے کی بات ہے کہ جو کام ایک پوسٹ کارڈ کے ذریعہ نکل سکے اُس کے لیے خاص ایک آدمی کا جانا کون سی عقلمندی کی بات ہے ! پھر وہاں کھانے کو میسر ہو یا نہ ہو مگر نائی صاحب کا قرض جو نعوذ باللہ خدا کے قرض سے بڑھ کر سمجھا جاتا ہے ادا کرنا ضروری ہے ! اور وہی ناموری کی نیت جبراً قہراً دینے وغیرہ کی خرابیاں یہاں بھی ہیں اس لیے یہ بھی جائز نہیں ! ! !
چند ضروری تنبیہات :
مسئلہ : مشہور ہے کہ زچہ بچہ کی ماں جب تک غسل نہ کرے اُس کے ہاتھ کی کوئی چیز کھانا دُرست نہیں ، یہ غلط ہے ۔ حیض اورنفاس میں ہاتھ ناپاک نہیں ہوتے !
مسئلہ : بعض عوام کہتے ہیں کہ چالیس دن کے اندر زچہ خانہ میں عورت کے پاس شوہر کو نہیں جانا چاہیے سو اِس کی کوئی اصل نہیں !
مسئلہ : عام عورتیں زچہ کے لیے چالیس روز تک نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتیں اگرچہ پہلے ہی پاک ہو جائیں سو یہ بالکل دین کے خلاف بات ہے ! نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے باقی کم کی کوئی حد نہیں ، جس وقت پاک ہو جائے غسل کرکے فوراً نماز شروع کردے ! اسی طرح اگر چالیس دن بھی خون بند نہ ہو توچالیس دن کے بعد پھر اپنے آپ کو پاک سمجھ کر نماز شروع کردے !
مسئلہ : اگر چالیس دن سے پہلے نفاس کا خون بند ہو جائے تو فوراً غسل کرکے نماز پڑھنا شروع کردے اور اگر غسل نقصان کرے تو تیمم کرکے نماز شروع کرے ہرگز کوئی نماز قضا نہ ہونے دے ۔ (جاری ہے)
جامعہ مدنیہ جدید کی ڈاکومنٹری
DOCUMENTARY OF JAMIA MADNIA JADEED
جامعہ مدنیہ جدید کی صرف آٹھ منٹ پر مشتمل مختصر مگر جامع ڈاکومنٹری تیار کی جاچکی ہے جس میں جامعہ کا مختصر تعارف اور ترقیاتی و تعمیراتی منصوبہ جات دکھائے گئے ہیں قارئین کرام درجِ ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں
https://youtu.be/QZTrwQbSYE4
رحمن کے خاص بندے قسط : ١٩
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
شریعت میں غلو پسندیدہ عمل نہیں :
''صراطِ مستقیم' یعنی ''بالکل سیدھا راستہ'' جس کی دعا سورۂ فاتحہ میں ہرمسلمان مانگتا ہے ! یہ وہ راستہ ہے جو ہر طرح کی کجی کے بغیر سیدھا جنت کے ''صدر دروازہ '' تک پہنچانے والا ہے ! اس راستہ کا مرکزی رہبر خود ''قرآنِ کریم'' ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
( اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ ) (سُورۂ بنی اسرائیل : ٩ )
''یہی وہ قرآنِ کریم ہے جو سب سے سیدھے راستہ کی رہنمائی کرتا ہے''
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا وَعَنْ جَنَبَتِیِ الصِّرَاطِ سُوْرَانِ فِیْھِمَا اَبْوَاب مُّفَتَّحَة وَعَلَی الْاَبْوَابِ سُتُوْر مُرْخَاة عِنْدَ رِأْسِ الصِّرَاطِ دَاعٍ یَقُوْلُ : اِسْتَقِیْمُوْا عَلَی الصِّرَاطِ وَلَا تَعَوَّجُوْا وَفَوْقَ ذٰلِکَ دَاعٍ یَدْعُوْ کُلَّمَا ھَمَّ عَبْد اَنْ یَّفْتَحَ شَیْئًا مِّنْ تِلْکَ الْاَبْوَابِ قَال َ: وَیْحَکَ لاَ تَفْتَحْہُ فَاِنَّکَ اَنْ تَفْتَحْہُ تَلِجْہُ ثُمَّ فَسَّرَہ فَاَخْبَرَہ اَنَّ الصِّرَاطَ ھُوَ الْاِسْلَامُ وَ اَنَّ الْاَبْوَابَ الْمُفَتَّحَةَ مَحَارِمُ اللّٰہِ وَاَنَّ السُّتُوْرَ الْمُرْخَاةَ حُدُودُ اللّٰہِ وَ اَنَّ الدَّاعِیَ عَلٰی رَاْسِ الصِّرَاطِ ھُوَ الْقُرْآنُ وَاَنَّ الدَّاعِیَ مِنْ فَوْقِہ ھُوَ وَاعِظُ اللّٰہِ فِیْ قَلْبِ کُلِّ مُؤْمِنٍ ۔ ١
''اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی ایک مثال بیان فرمائی ہے جس کے دونوں جانب دو دیواریں ہیں جن میں جابجا دروازے کھلے ہوئے ہیں اور اُن دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور راستہ کے شروع میں ایک آواز لگانے والا کہہ رہا ہے کہ
١ مشکٰوة المصابیح ج١ ص ٣١ رقم الحدیث : ١٩١ و مُسند احمد ج ٢ ص ١٨١ رقم الحدیث : ١٧٦٣٤
'' راستہ میں سیدھے چلتے رہو اور اِدھر اُدھر مت مڑو'' اسی طرح راستہ کے آخری سرے پر بھی ایک آواز لگانے والا ہے، جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی دروازہ کو کھولنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اُوپر سے آواز دینے والا شخص کہتا ہے کہ
''ارے تیرا برا ہو، دروازہ مت کھول ! کیونکہ اگر تو دروازہ کھولے گا تو اس میں داخل ہوجائے گا''
پھر نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ دیواروں میں کھلے ہوئے دروازوں سے اللہ کی حرام کردہ باتیں مراد ہیں اور ان پر جو پردے پڑے ہوئے ہیں ان سے اللہ کی حدود مراد ہیں اور راستہ کے شروع میں جو آواز لگا رہا ہے وہ قرآنِ پاک ہے اور راستہ کے آخری سرے پرجو آواز لگارہا ہے وہ ہر مومن کے دل میں پایا جانے والا اللہ کا واعظ ہے (یعنی وہ ایمانی شعور ہے جو اللہ نے ہر مومن کے دل میں وَدیعت رکھا ہے)''
اور ایک روایت میں خادمِ رسول سیّدنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک سیدھا خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ سَبِیْلُ اللّٰہِ (اللہ کا راستہ) ہے، پھر آپ نے اس خط کے دائیں بائیں کچھ اور لائنیں کھینچیں اور فرمایا کہ یہ الگ الگ راستے ہیں ان میں سے ہر راستہ پر ایک شیطان بیٹھا ہوا ہے جو اس کی طرف دعوت دے رہا ہے پھر آپ نے یہ آیت ِمبارکہ تلاوت فرمائی
( وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ )( الانعام : ١٥٣ )
'' اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے پس اسی کی پیروی کرو اور دیگر راستوں پر نہ چلو ورنہ وہ تم کو اللہ کے راستہ سے جدا کردیں گے'' ١
ان روایات سے معلوم ہوا کہ شریعت میں وہی راستہ مطلوب ہے جو ہر طرح کی کجی سے پاک ہو اور جس میں کسی بھی موقع پر حدود سے تجاوز نہ ہو، کیونکہ حد سے تجاوز راستہ سے ہٹ جانا ہے جس سے منزلِ مقصود تک
١ مشکوة المصابیح ج١ ص ٣٠ کتاب الایمان رقم الحدیث ١٦٦
پہنچنے میں خلل واقع ہوتا ہے اسی حد سے تجاوز کو دوسرے الفاظ میں '' غُلُوْ '' سے تعبیر کیا گیا ہے !
اور قرآنِ کریم میں متعدد جگہ دین میں غلو کرنے سے ممانعت مذکور ہے چنانچہ سورۂ نساء میں فرمایا گیا
( یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ ) ١
''اے اہلِ کتاب اپنے دین کی بات میں غلو مت کرو اور اللہ کی شان میں صرف سچی ہی بات کہا کرو''
اور دوسری جگہ سورۂ مائدہ میں ارشاد ہوا :
( قُلْ یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ ) ٢
''اے پیغمبر آپ ارشاد فرمادیجیے کہ اے اہلِ کتاب اپنے دین کی باتوں میں ناحق مبالغہ مت کرو اور ایسے لوگوں کے خیالات پر مت چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوچکے اور بہتوں کو گمراہ کرگئے اور سیدھے راستے سے بہک گئے''
اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
''عقیدہ کا مبالغہ یہ ہے کہ ایک مولودِ بشری کو خدا بنادیا اور عمل میں غلو وہ ہے جسے ''رہبانیت'' کہتے ہیں ...............یہود کی جو قبائح بیان کی جاچکیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پرستی میں غرق ہونے کی وجہ سے دین داروں کی ان کے یہاں کوئی عظمت ووقعت نہ تھی حتی کہ انبیاء علیہم السلام کی اہانت و قتل وغیرہ ان کا خاص شعار تھا برخلاف اس کے کہ نصاریٰ نے تعظیم انبیاء میں اس قدر غلو کیا کہ ان میں سے بعض کو خدا یا خدا کا بیٹا کہنے لگے اور ترک ِ دنیا کر کے رہبانیت اختیار کرلی'' ٣
١ سُورة النساء : ١٧١ ٢ سُورة المائدة : ٧٧ ٣ فوائد ِعثمانی ج١ ص ٢٥٤ کراچی
خلاصہ یہ ہے کہ غلو چاہے عقائد میں ہو یا اعمال میں ، وہ شریعت میں منظور نہیں بلکہ یہی وہ دروازہ ہے جو تمام گمراہیوں کی طرف کھلتا ہے۔اُمتوں کی تاریخ پڑھنے سے باآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں بھی گمراہیاں آئیں ان کی ابتداء عقیدہ یا عمل میں غلو سے ہوئی، شروع میں اس پر روک ٹوک نہیں کی گئی اور اسے ہلکا سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا جس کا نتیجہ انجامِ کار کھلی ہوئی گمراہیوں کی شکل میں ظاہر ہوا !
افراط و تفریط دونوں ممنوع ہیں :
شریعت میں صراطِ مستقیم کی جو حدود مقرر ہیں اُن میں جس جانب بھی کوتاہی کی جائے گی اور حدود سے تجاوز کیا جائے گا اور شخصیات اور احکام کو اپنی جگہ اور مقام سے اِدھر اُدھر کیا جائے گا تو یقینا راہِ حق سے انحراف لازم آئے گا جیسا کہ پرانی اُمتوں نے کیامثلاً عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں اس قدر افراط سے کام لیا کہ انہیں خدا کے درجہ تک پہنچادیا ! اور دوسری طرف یہودیوں نے اس قدر تفریط سے کام لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت تک کا اِنکار کر بیٹھے ! اور بہت سے انبیاء علیہم السلام کی شان میں اہانت اور گستاخیوں کے مرتکب ہوئے (نعوذ باللہ) ان دونوں باتوں کی مذمت قرآن و سنت میں موجود ہے اور قرآنِ کریم میں بطورِ خاص ان باتوں کا تذکرہ در اصل اُمت ِ محمدیہ کی تنبیہ اور رہنمائی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ اُمت ایسی افراط و تفریط سے اپنے کو بچانے کی فکر کرے
لیکن یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ اُمت ِمحمدیہ میں بھی عقائد اور اعمال میں افراط و تفریط کرنے والی جماعتیں پائی جاتی رہی ہیں چنانچہ آج بہت سے لوگ وہ ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی شانِ والا شان سے متعلق ایسے عقائد گڑھ رکھے ہیں جن سے شرک فی الصفات کا پہلو نمایاں ہوتاہے، یہ سراسر غلو ہے جس کی خود پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ممانعت فرمائی ہے آپ کا ارشاد ِ عالی ہے
لَا تَطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ فَاِنَّمَا أَنَا عَبْدُہ وَلٰکِنْ قُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہ ۔ ( صحیح البخاری ج١ ص ٤٩٠ رقم الحدیث : ٣٤٤٥ )
''میری تعریف میں اِس قدر مبالغہ مت کرو جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی ابن مریم علیہما الصلٰوة والسلام کے بارے میں کیا پس میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں لہٰذا (میرے بارے میں ) یہی کہا کرو کہ ' ' اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول''
اور ایک روایت میں خادمِ رسول سیّدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں کچھ لوگ حاضر ہوکر اس طرح مخاطب ہوئے کہ''اے اللہ کے رسول ! آپ ہم میں سب سے بہتر اور سب سے بہتر کے بیٹے اور ہمارے سردار اور سردار کے بیٹے ہیں ''
یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
یٰاَیُّھَا النَّاسُ ! قُوْلُوْا بِقَوْلِکُمْ ، وَلَا یَسْتَھْوِیَنَّکُمُ الشَّیْطَانُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہِ مَا أُحِبُّ اَنْ تَرْفَعُوْنِیْ فَوْقَ مَا رَفَعَنِیَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ١
''اے لوگو ! تم اپنی بات کہو اور شیطان تم پر اثر انداز نہ ہو، میں تو عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں ! اور اللہ کا رسول ہوں ! بخد ا مجھے یہ بات ہرگز پسند نہیں ہے کہ تم مجھ کو میرے اُس درجہ اور مقام سے بلند کرو جس درجہ پر اللہ نے مجھے فائز فرمایا ہے''
پس ظاہر ہے کہ جب پیغمبر علیہ السلام نے اپنی شان میں ایسے الفاظ استعمال کرنے سے خود ممانعت فرمائی ہے تو کسی کے لیے حد سے تجاوز کی کیسے گنجائش ہوسکتی ہے ؟ اسی طرح بزرگانِ دین اور مرحوم اولیاء اللہ رحمہم اللہ کے بارے میں مبالغہ آرائی اور بد عقیدگی بھی عام ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بزرگوں کے مزارات پر کی جانے والی من گھڑت رسومات ہی کو اصل دین کا رُوپ دے دیا ہے ! اور جو اِس پر نکیر کرے اُلٹا اُسی کو مطعون قرار دیا جانے لگا ہے حالانکہ یہ ساری خرافات اولیاء اللہ کی تعلیمات کے بالکل برخلاف ہیں اوران کے نام پریہ کھیل تماشے دراصل ان کی کھلی ہوئی توہین اور برملا مذاق کہلائے جائیں تو بجا ہے ! ان غلو آمیز حرکتوں کی وجہ سے دین کی شبیہ داغدار ہورہی ہے لیکن ذرّہ برابر اِس کا احساس نہیں اس پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے ! ! !
یہ تو افراط کا پہلو ہے دوسری طرف تفریط کے مرتکب بھی کم نہیں ہیں ، چنانچہ بعض ایسے کم نصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اپنی ہمہ دانی کے زعم میں جب گفتگو کرتے ہیں تو ان کے تبصروں کی زد سے کبھی شانِ نبوت بھی نعوذ باللہ مجروح ہوجاتی ہے جیسا کہ منکرین ِحدیث کا حال ہے !
١ مُسند احمد ٢١/ ١٦٦ رقم ١٣٥٢٩ مؤسة الرسالة دمشق، السُنن الکبرٰی للنسائی، کتاب عمل الیوم واللیلة / ذکر اختلاف الاخبار فی قول القائل سیّدنا وسیّدی ٦/٧٠ رقم الحدیث : ١٠٠٧٧ طبع بیروت
اور بعض لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تاریخ وسیر کی رطب ویابس روایات کو ہاتھ میں لے کر چودہ سو سال بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مابین پیش آمدہ واقعات کے فیصل بن کر بیٹھ گئے اور پھر ان کے قلم نے ایسے نشتر چلائے کہ اہلِ ایمان کے قلب وجگر زخمی ہوگئے ! اور اہلِ دانش نے دانتوں تلے اُنگلیاں دبالیں ! اور ہر طرف سے الامان والحفیظ کی صدائیں بلند ہوئیں ، بلا شبہ یہ لوگ صحابہ کے معیارِ حق کا انکار کرکے راہِ حق سے اِنحراف کر بیٹھے ! یہ سب تفریط کا ایک ادنیٰ نمونہ ہے۔
اسی طرح ایک جماعت نے شرک وبدعت کی اصلاح کا خوشنما عنوان لگاکر سرے سے تصوف واِحسان اور اس راہ سے کی جانے والی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس بہانے اولیاء اللہ کی خدمات پرپانی پھیرنے کی ناروا کوشش کی، یہ بھی تفریط کا ایک پہلو ہے اور دین واِنصاف سے بعید ہے !
اسی تفریط میں وہ لوگ بھی پیش پیش ہیں جو دُنیا میں غیر مقلدیت کا علَم اُٹھائے ہوئے ہیں اور بات بات پر اکابر فقہاء وائمہ مجتہدین اور سلف صالحین سے تعلق رکھنے والے جلیل القدر اَساطین اُمت کی فکری اور فقہی آراء پر بے دریغ تنقید کرتے ہیں اور ان کے اعتماد کو ٹیس پہنچانے کا مشن چلائے ہوئے ہیں ! یہ سب لوگ بھی بدترین غلو کرنے والوں میں شامل ہیں اس لیے کہ مجمل نصوص کے معانی کی تعیین اور متعارض دلائل میں ترجیح کا کام مجتہدین کے بغیر انجام نہیں پاسکتا اس لیے ان کی خدمات کو نظر اندا کردینا اور اپنے ناقص علم کی بنیاد پر اُن اکابر کی تنقیص کرنا، یہ بجائے خود اپنے ناقص ہونے کی دلیل ہے جس سے اُمت میں انتشار ہوتا ہے اور فتنوں کی آبیاری ہوتی ہے ! اللہ تعالیٰ اُمت کو ہر سطح پر اَفراط و تفریط سے محفوظ رکھیں ، آمین۔ (جاری ہے)
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1
قسط : ٣
آب ِزم زم
فضائل ، خصوصیات اور برکات
( حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب، فاضل و مدرس جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
آب ِ زمزم ہر بیماری کا علاج ہے :
اللہ جل جلالہ وعم نوالہ نے آبِ زمزم میں ہربیماری سے شفاء کی خاصیت رکھی ہے چنانچہ رحمت ِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم خَیْرُ مَائِ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ مَائُ زَمْزَمَ فِیْہِ طَعَامُ الطُّعْمِ وَ شِفَائُ سُقْمٍ ١
''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا رُوئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے، اس میں کھانے والوں کے لیے کھانا ہے اور تمام بیماریوں سے شفاء ہے''
اسی مفہوم کی حدیث حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم زَمْزَمُ طَعَامُ طُعْمٍ وَ شِفَائُ سُقْمٍ ٢
''آب زمزم کھانے والے والوں کے لیے کھانا اور تمام بیماریوں سے شفاء ہے''
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہُ فَاِنْ شَرِبْتَہُ تَسْتَشْفِیْ بِہِ شَفَاکَ اللّٰہُ ٣
١ الترغیب والترہیب ج٢ ص ٢٠٩ ، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٢٨٦ ، طبرانی کبیر ج١١ ص ٩٨ وَرُواتُہ ثقات
٢ رواہ البزار با سناد صحیح کما فی الترغیب والترہیب ج٢ ص ٢٠٩
٣ مستدرک حاکم ج١ ص ٤٧٣ ، جامع الصغیر ج٤، ص ٤٠٤
''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا زمزم ہر اُس مقصد کے لیے ہے جس کے لیے پیا جائے اگر تونے شفاء کی نیت سے پیا تو اللہ تعالیٰ تجھے ضرور شفاء عطا فرمائے گا''
حضرت سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا معمول تھا کہ وہ بیماری کے لیے آب ِ زمزم ہی نوش فرمایا کرتے تھے اور آپ جب زمزم پیتے تو یہ دعا پڑھتے تھے :
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّ رِزْقًا وَّاسِعًا وَّ شِفَائً مِّنْ کُلِّ دَائٍ ١
''اے اللہ میں آپ سے علم نافع، وسیع رزق اور بیماری سے شفاء چاہتا ہوں ''
آبِ زمزم پیتے وقت اکابرین ِ اُمت کی دعائیں :
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے پہلے حصہ مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نیت سے بھی زمزم پیا جائے گا اللہ پاک پینے والے کی نیت اور اُس کی مراد ضرور پوری کریں گے صرف شرط یہ ہے کہ کامل یقین اور اللہ تعالیٰ کی ذات پرتوکل کرتے ہوئے پیئے، تجربہ کی نیت سے نہ پیئے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زمزم پیتے وقت جو دعائیں کرے گا اللہ تعالیٰ اُس کی دعائیں بھی قبول فرمائے گا !
اس حدیث کی وجہ سے کہ زمزم پیتے وقت دعائیں قبول ہوتی ہیں بہت سے صحابہ وتابعین ائمہ کرام اور علمائِ عظام نے زمزم پیتے وقت دُنیا وآخرت کی مختلف دعائیں کی ہیں ،بے شمار لوگوں نے اپنے مقاصد اور مطالب کو دنیا ہی میں پورا ہوتے ہوئے دیکھا بھی ہے اور اللہ تعالیٰ سے قوی اُمیدہے کہ آخرت سے متعلق مانگی گئی دعائیں بھی آخرت میں ضرور پوری فرمائیں گے۔
ذیل میں ہم چند اکابرین ِاُمت کی دعائیں نقل کرتے ہیں :
١ مستدرک حاکم ج١ ص ٤٧٣ ، جامع الصغیر ج٤ ص ٤٠٤
سیّدنا عمر فاروق کی دعا :
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَشْرَبُہُ لِظأ یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔
''یااللہ میں قیامت کے دن کی پیاس دُور کرنے کی نیت سے زمزم پیتا ہوں ''
سیّدنا ابن عباس کی دعا :
ترجمان القرآن سیّدنا ابن عباس جب آب زمزم پیتے تو یہ دعا فرماتے :
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّ رِزْقًا وَّاسِعًا وَّ شِفَائً مِّنْ کُلِّ دَائٍ ١
''اے اللہ میں آپ سے علم نافع، وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفاء چاہتا ہوں ''
یہ ایسی جامع ترین دعا ہے جو دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں پر مشتمل ہے۔
سیّدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی دعا :
سیّدنا امام اعظم ابوحنیفہ جب آب ِزمزم پیتے تو یہ دعا فرماتے تھے کہ ''رُوئے زمین کا'' سب سے بڑا عالم بن جاؤں اور اللہ تعالیٰ نے یہ بلند مرتبہ اور عظیم الشان مقام دنیا ہی میں آپ کو عطا فرمادیا !
حضرت عبداللہ بن مبارک کی دعا :
شیخ الاسلام حضرت عبداللہ بن مبارک متوفّٰی ١٨١ھ کے بارے میں مروی ہے کہ ان کے پاس آب ِزمزم لایا گیا تو آپ نے اس کا ایک گھونٹ پیا پھر قبلہ رُو ہوکر فرمانے لگے کہ
''اے اللہ ابن ِابی الموالی نے ہم کو حدیث بیان کی محمد بن مکندر کے حوالہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم سے کہ آپ نے ارشاد فرمایا مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہ لہٰذا میں قیامت کے دن کی پیاس ختم ہونے کے لیے پی رہا ہوں ! بعد اَزاں آپ نے زمزم نوش فرمایا ٢
حضرت سفیان بن عیینہ کے شاگرد نے اس نیت سے زمزم پیا کہ اِن کے اُستاد انہیں سو احادیث سنائیں گے
امام ابوبکر دینوری نے اپنی کتاب ''المجالسة'' میں امام حمیدی سے روایت کیا ہے کہ ہم سفیان بن عیینہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ہمیں یہ حدیث بیان کی '' مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہ '' تو مجلس
١ مستدرک حاکم ج١ ص ٤٧٣ ، جامع الصغیر ج٤ ص ٤٠٤ ٢ الترغیب والترہیب ج ٢ ص ٢١٠
کے ایک شخص کھڑے ہوکر یہ عرض کیا کہ اے ابو محمد زمزم سے متعلق جو حدیث آپ نے بیان کی ہے کیا وہ صحیح نہیں ہے ؟ حضرت سفیان بن عیینہ نے جواب دیا جی بالکل صحیح ہے تو اس شخص نے کہا میں نے ابھی زمزم کا ایک ڈول اس نیت سے پیا ہے کہ آپ مجھے سو اَحادیث سنائیں گے تو سفیان بن عیینہ نے فرمایا کہ بیٹھیے تو وہ شخص بیٹھ گیا، حضرت سفیان بن عیینہ نے اسے پوری سو اَحادیث سنائیں ! ١
اللہ تعالیٰ امام سفیان بن عیینہ پر رحم فرمائے کہ سائل کے علمی شوق کو بِلا کسی رَد و قدح کے فوراً پورا فرمادیا !
حضرت امام شافعی کی زمزم پیتے وقت نیت ودُعا :
حافظ ابن حجر کا قول ہے کہ امام شافعی کے بارے میں مشہور ہے کہ امام صاحب نے رَمی کے درست ہونے کی نیت سے زمزم پیا اور دعا کی برکت سے ان کی نوے فیصد کنکریاں صحیح ودرست جگہ لگتی تھیں یا گرتی تھیں ! ٢
امام شافعی سے دوسری روایت یہ ہے کہ امام صاحب نے فرمایا میں نے زمزم تین مقاصد کے لیے پیا ہے (١) رمی کے لیے لہٰذا اس کے بعد میری رَمی سوفیصد یا نوے فیصد درست ہوگئی !
( ٢) دوسری نیت میری علم کی تھی، اب میں علم کے جس مقام پر ہوں وہ اِسی دعا کی وجہ سے ہوں !
(٣) تیسری نیت میں نے زمزم پیتے وقت یہ کی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل فرمادیں ! اس کی اُمید رکھتا ہوں اللہ تعالیٰ سے کہ وہ یہ دعا بھی پوری فرمائیں گے ! ٣
امام ابن خزیمہ کی زمزم پیتے وقت نیت ودُعا :
صحیح ابن خزیمہ کے مصنف امام الحافظ محمد بن اسحاق (متوفّٰی ٣١١ھ) سے مروی ہے کہ ان سے سوال کیا گیا مِنْ اَیْنَ اُوْتِیْتَ الْعِلْمَ آپ کو یہ علم کہاں سے حاصل ہوا ہے ؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہ لہٰذا میں نے جب بھی زمزم پیا تو اللہ تعالیٰ سے علمِ نافع کا سوال کیا ! ٤
١ جزء ابن حجر ص ١٩١ ٢ اخبار الاذکیاء لابن الجوزی ص ١٠٥ ٣ نشر الآس
٤ سیر العلام النبلاء ج ١٤ ص ٢٧٠ ، تذکرة الحفاظ ج٢ ص ٧٢١
صاحب ِمستدرک کی زمزم پیتے وقت دُعاء :
مستدرک ِ حاکم کے مصنف امام الحافظ المحدث ابو عبداللہ الحاکم (متوفّٰی ٤٠٥) سے مروی ہے کہ انہوں نے زمزم اس نیت سے پیا تاکہ وہ بہترین مصنف بن جائیں ! اس نیت کے بعد اور زمزم کی برکت کی وجہ سے وہ اپنے زمانہ کے بہترین مصنف بن گئے تھے ! ١
خطیب ِبغدادی کی زمزم پیتے وقت نیت و دُعا :
محدث ِ شام وعراق امام ابوبکر احمد بن علی، صاحب ِتاریخ ِبغداد (م : ٤٦٣ھ) سے مروی ہے کہ انہوں نے حج کیا تین بار آب ِزمزم پیا اور ہر مرتبہ حدیث مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہ پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ایک حاجت کے پورا ہونے کی دُعا کی
(١) پہلی دُعا کی کہ میں تاریخ ِ بغداد لکھ سکوں !
(٢) دوسری دُعا کی کہ میں شاہی مسجد جامع منصور میں حدیث پڑھاؤں !
(٣) تیسری دُعا کی کہ الامام المحدث الزاہد شیخ الاسلام بشرحافی کی قبر کے پاس دفن کیا جاؤں !
راوی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تینوں دعائیں پوری فرمادیں ٢
امام الجزری کے والد کی نرینہ اولاد کے لیے دعا :
حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے امام حافظ محمد ابن الجزری کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ ان کے والد تاجر تھے اور شادی کے بعد چالیس برس تک ان کے ہاں نرینہ اولاد نہیں ہوئی تو یہ حج کے لیے تشریف لے گئے اور وہاں آبِ زمزم پیتے وقت یہ دُعا کی یا اللہ مجھے ایسا فرزند عطا فرما جو بہت بڑا عالم ہو چنانچہ دُعا قبول ہوئی اور امام الجزری رمضان المبارک ٧٥١ھ میں پیدا ہوئے۔ ٣ (جاری ہے)
٭٭٭
١ تذکرة الحفاظ ج٣ ص ١٠٤٤ ٢ تذکرة الحفاظ ج٣ ص ١٩٣
٣ الغایة شرح الہدایة فی علم الروایة لابن الجزری
قسط : ٣
سبق آموز تاریخی حقائق
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے زُہد و قناعت،
فضل و کمال اور خدا ترسی کے بعض گوشے
انتخاب : حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی (مرتب فتاویٰ دارُالعلوم دیوبند)
عنوانات : حضرت مولانا تنویر احمد صاحب شریفی، مجلس یادگار شیخ الاسلام پاکستان کراچی
٭٭٭
امیر و غریب میں کوئی فرق نہیں :
عاشقِ رسول اور صحابۂ کرام کی سی زندگی کے مالک حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمة اللہ علیہ کی تواضع اور جذبۂ عدل و مساوات کاایک دل پذیر واقعہ بھی پڑھیے یہ بیان اُن کا ہے جس نے چشم ِخود یہ واقعہ دیکھا ہے یعنی مولانا منظور علیہ خاں حیدا آبادی فرماتے ہیں :
''ایک دن چند مہمان کھانے کے واسطے ہاتھ دھونے کو اُٹھے اور دوسرے صاحب نے ان کے ہاتھ دھلائے، مگر ایک بڈھا مسکین شکستہ حال رہ گیا، اُس کے کسی نے ہاتھ نہ دُھلائے۔ سیّدنا امام الکبیر اس تماشے کو دیکھ رہے تھے کہ بڈھے مسکین وغریب جان کر لوگوں کی توجہ اُس کی طرف نہیں ہورہی ہے۔ مولانا منصور علی خان کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ بڈھا خود لوٹے کے واسطے جھکا ہی تھا کہ دیکھتے ہی مولانا (محمد قاسم) صاحب نے جھپٹ کر اِس قدر جلد لوٹا اُٹھا لیا کہ میں حیران رہ گیا اور دونوں ہاتھوں سے نہایت ادب کے ساتھ لوٹا پکڑ کر اُس بڈھے کے ہاتھ دُھلادیے '' ١
١ سوانح قاسمی ج ١ ص ٤٦١
مسلمانوں کے ساتھ خواہ کتنا ہی شکستہ حال ہو، احترام واِکرام کا یہ دینی جذبہ کیا بتایا ہے کہ آپ کی نگاہ میں امیر و غریب اور شریف ووضیع کی کوئی تفریق تھی ؟ اور اپنے مہمانوں کی خدمت کے لیے اس چستی سے کیا سبق ملتا ہے کہ خدا نخواستہ آپ مہمانوں کی خدمت کو اپنے لیے باعث ِننگ وعار سمجھتے تھے ؟
خانقاہوں کے گدی نشین پیرزادے اور عافیت پسند قائدین ایمانداری سے بتائیں ، کیا یہ دینی جذبہ اِن میں باقی ہے ؟ اب تو بڑی بڑی بارگاہوں میں بھی مہمانوں میں امیر و غریب اور شریف وکمینے کی جو تفریق ہونے لگی ہے، جبہ ودَستار اور سوٹ بوٹ والوں کا دستر خوان الگ لگتا ہے اور غریب اور شکستہ حال دیندار مسلمانوں کا علیحدہ ایک طرف تعظیم و تکریم کی فراوانی ہوتی ہے اور دوسری طرف تحقیر وتوہین اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہُ ، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ !
دین پر لگادیا :
جس زمانے میں حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ منشی ممتاز علی کے مطبع میں تصحیح کی خدمت پر تھے تو آپ نے اس مطبع کے ایک دوسرے ملازم سے دوستی کی جس کو دین سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ بعض لوگ ناخوش تھے کہ پابند ِشرع مولوی ہوکر ایک آزاد شخص سے یہ کیا دوستی کر چھوڑی ہے ؟ مگر ملاحظہ فرمائیے حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے اس کو پھر کس طرح راہِ راست پر ڈال دیا لکھا ہے :
''ایک دن جب وہ اورمولانا تنہا تھے، مولانا نے حافظ جی سے کہا کہ بھئی ! ہماری دوستی کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ دونوں کا رنگ ایک ہی ہو ! اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ تمہاری وضع قطع کچھ اور ہو اور تمہارے دوست کی کچھ اور ؟ فرمایا کہ لاؤ میں ہی تمہارا رنگ اختیار کرتا ہوں (یہ سن کر) حافظ جی بیچارے کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور اُس کے بعد پھر اپنے دوست کا ایسا پختہ رنگ اختیار کیا کہ پرہیزگار مسلمانوں کی وضع قطع بھی کرلی اور اُس روز سے پکے نمازی اور نیک وضع بن گئے''
١ سوانح قاسمی ج ١ ص ٤٧١
اللہ والے اور مخلص مسلمان کی باتوں کی تاثیر ملاحظہ فرمائیے، خدا شاہد ہے اگر آج بھی اخلاص اور للہ فی اللہ کوئی اچھی بات کسی سے کہی جائے تو ضرور اَثر انگیز ہوگی، مگر آہ ! اب اخلاص و للہیت کہاں ہیں ؟ اب تو اِن کی جگہ نام ونمود اور مدح وستائش کی چھپی خواہش ہوتی ہے پھر اثر کہاں سے آئے گا ؟ ؟
مجھے بھی محبت ِ رسول نصیب ہو :
کوئی مولوی عبدالسمیع صاحب تھے جو بدعتوں کے قائل اور اہلِ بدعت کے وکیل بھی تھے ان ہی کے متعلق لکھا ہے :
''ایک صاحب نے میرٹھ میں مولانا (محمد قاسم صاحب) سے دریافت کیا کہ مولوی عبدالسمیع تو مولود شریف کرتے ہیں ، آپ کیوں نہیں کرتے ؟ ''
مولانا محمد قاسم صاحب رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا :
''بھائی انہیں (مولوی عبدالسمیع صاحب کو) سرکار دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم سے زیادہ محبت معلوم ہوتی ہے مجھے اللہ تعالیٰ محبت نصیب کرے'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٤٧٢)
طرفہ تماشا ہے کہ آج اِن ہی مولانا محمد قاسم صاحب رحمة اللہ علیہ کے خلاف رضا خانی غلاظت اُچھالتے ہیں اور اُن کے نوجوان علماء نا سمجھی سے نہ معلوم کیا کیا کہتے پھرتے ہیں !
ایک طرف ''حسن ِظن'' کا یہ عالَم اور دوسری طرف کچھ لوگوں نے دیوبندیوں کو کافر ثابت کرنے یا روٹی کمانے کے لیے آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے !
مخالف ِمسلک کا احترام :
جو لوگ علمائے دیوبند کو کافر کہہ کر اپنا جی ٹھنڈا کرتے ہیں اُسی گروہ کے ایک بزرگ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر آپ نے کیا سلوک کیا :
''مولانا نے نہایت عزت کے ساتھ ان کو مہمان بنایا، سب طالب علموں کو سمجھا دیا کہ خبردار کوئی گفتگو اُن کے طریقے کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ مہمان کی دل شکنی نہ کرنی چاہیے '' (سوانح قاسمی ج١ ص ٤٧٢)
اللہ اللہ ! اپنے مخالف مسلک کا یہ احترام واکرام ہے اور یہاں تو دین کا یہ پاس کہ دل شکنی ناجائز اور دوسری طرف اُسی بدعتی گروہ سے متعلق علمائے کرام کا یہ حال ہے کہ کافر کہنے میں بھی عار نہیں سمجھتے !
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ اپنے مخالفوں سے جو اِس خندہ پیشانی سے ملتے اور ان کی عزت کرتے تھے اس کے متعلق ایک دفعہ ایک حکیم صاحب نے مولانا گنگوہی سے شکوہ کیا کہ مولانا بھی عجیب آدمی ہیں ؟ یہ سن کر حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ نے فرما یا :
''حکیم صاحب ! آپ کیا فرمارہے ہیں ؟ آپ ان کے قلب کی حالت ملاحظہ نہیں فرماتے ؟ جس شخص کے قلب میں ایمان کی طرح یہ راسخ ہوچکا ہے کہ دنیا میں اس سے زیادہ ذلیل وخوار کوئی ہستی نہیں ہے'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٤٨٣)
یہ ایک عالمِ ربانی کی گواہی ہے حضرت کی تواضع اور عجز و اِنکساری کی ! !
سفر سے واپسی میں سنت کا اہتمام :
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کا دستور تھا کہ سفر سے جب کبھی واپس ہوتے تو سنت طریقے کے مطابق پہلے مسجد میں کچھ دیر قیام فرماتے، آنے کی خبر بستی میں کسی نہ کسی طرح پھیل جاتی اور لوگ آکر گھیر لیتے، کبھی کبھی آپ کے بوڑھے ابا جان بھی غلبۂ محبت میں مسجد ہی میں دیکھنے آجاتے مگر
''جوں ہی حضرت والا کی نظر والد بزرگوار پر پڑتی گھبراکر لپکتے اور اپنے والد بزرگوار کے قدموں پر گرجاتے، پھر والد کے قدموں سے سر اُٹھاتے اور اُن کے ہاتھ کو چومتے'' (سوانح قاسمی ج١ ص ٤٨٣)
اپنے وقت کے سب سے بڑے عالمِ دین کی انسانیت اور شرافت ملاحظہ فرمائیے کہ اپنے بوڑھے باپ کی کیسی تکریم فرماتے ! مسلمانو ! یہ ہے باپ کی عظمت جو صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت کی جارہی ہے۔ قرآن و حدیث میں والدین کی عظمت کا حال پڑھا ہوگا، وعظوں میں سنا بھی ہوگا مگر آنکھوں سے شاید پہلی ہی مرتبہ آپ کے زمانے والوں نے یہ منظر دیکھا ہوگا !
اور مسجد سے جب گھر تشریف لاتے تو سب سے پہلی ملاقات میں جب دیکھتے کہ حقہ والد صاحب کے آگے پڑا ہے تو دریافت فرماتے باواجی آپ کی چلم میں آگ بھی ہے یا نہیں ؟ جب کبھی والد صاحب فرماتے کہ بھائی ! بڑی دیر سے یوں ہی ٹھنڈا رکھا ہے اس پر حضرت یہ فرماتے کہ لائیے میں لاؤں ! حقے کو اُٹھاتے اُسے تازہ کرتے اور والد صاحب کی خدمت میں تیار کر کے پیش فرمادیتے۔ سچ ہے کہ آپ کی زندگی سراپا عمل ہی عمل ہے ! کہتے کم اور کرتے زیادہ تھے ! آج اس زندگی کا مسلمانوں میں کال سا پڑ گیا ہے جس کی بے حد ضرورت ہے کاش ! مسلمان ان واقعات سے کوئی عملی سبق لیتے۔
(جاری ہے)
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
امیرِ پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
یکم اکتوبر کو اَمیرجمعیة علماء اسلام پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب صوبائی تربیتی کنونشن میں شرکت کی غرض سے ساہیوال تشریف لے گئے جہاں آپ نے مختصر بیان فرمایا
٨ اکتوبر کو بعد نمازِ عصرجمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کے ضلعی سیکرٹری مولانا اشرف صاحب گجر اپنے رُفقاء کے ہمراہ مشاورت اور کارگزاری کے لیے امیرِ پنجاب کی رہائشگاہ پرتشریف لائے۔
١٠ اکتوبر کو اَمیرِ پنجاب تربیتی ورکرز کنونشن میں شرکت کی غرض سے ملتان تشریف لے گئے جہاں آپ نے مختصر بیان فرمایا۔
٢٢ اکتوبر بروز اتوار جمعیة علماء اسلام تحصیل رائیونڈ کی مجلس شوریٰ اور مجلس ِ عمومی کا مشترکہ اجلاس زیرِ صدارت حضرت مولانا مفتی خلیل الرحمن صاحب اور زیر نگرانی حضرت مولانا محمد یونس صاحب مدنی پاجیاں میں منعقد ہوا۔اجلاس سے امیر پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب نے جمعیة علماء اسلام اور باقی سیاسی جماعتوں میں فرق کو واضح فرمایا کہ جمعیة علماء اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے جس کا منشور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشش کرنا ہے اور فرمایا کہ دنیا کے بدلتے حالات سے یہ واضح ہورہا ہے کہ دنیا میں ان ہی قوموں کا وجود باقی رہے گا جو اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوں گی انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی مثال دی کہ وہاں کی سیاسی جماعتیں صرف سیاسی جماعتیں نہیں ہوتیں بلکہ سیاسی کے ساتھ ساتھ مذہبی بھی ہوتی ہیں ۔
اجلاس سے جنرل سیکرٹری پنجاب حافظ نصیر احمد صاحب احرار نے ایک پُر مغز خطاب فرمایا کہ جمعیة علماء اسلام کی بنیاد نظریات پر رکھی گئی ہے وہ سوسالہ تاریخ میں تمام تر مصائب، پریشانیوں ، لالچوں ، قائدین پرقاتلانہ حملوں اور کارکنان کی شہادتوں کے باوجود اپنے نظریہ پر قائم ہے، فرمایا کہ جمعیة علماء اسلام کے اوّلین امیر حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی نے ١٩١٩ء میں یہ فتوی دیا تھا کہ فلسطین کی زمین یہودیوں کو فروخت کرنا حرام ہے، جمعیة علماء اسلام اُس وقت سے آج تک فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے اور ''امریکہ اسرائیل مردہ باد ''کا نعرہ لگاتی ہے۔
اجلاس سے سیکرٹری اطلاعات پنجاب مولانا غضنفر عزیز صاحب نے بھی گفتگو فرمائی ، اجلاس سے ضلعی قائدین جرنل سیکرٹری ضلع لاہور مولانا اشرف صاحب گجر، شاہد اسرار صاحب صدیقی نے بھی گفتگو کی صوبائی اور ضلعی قیادت نے تحصیل رائیونڈ کے کارکنان اور تحصیل قائدین کو فلسطین فنڈ میں سب سے پہلے ٹارگٹ سے زیادہ فنڈ جمع کروانے پر بھرپور حوصلہ افزا کلمات سے نوازا ۔جنرل سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ تحصیل رائیونڈ پورے پنجاب کی پہلی تحصیل ہے جس نے اپنا فنڈ ضلعی جماعت کو سب سے پہلے جمع کروایا
اجلاس کے بعد ضلعی عاملہ کے اعزاز میں بھرپور استقبالیہ دیا گیا جس میں صوبائی قائدین کے ساتھ ساتھ ضلعی عاملہ کے اراکین نے بھی شرکت کی جس میں ضلعی جنرل سیکرٹری اطلاعات شاہد اسرار صاحب صدیقی ، ضلعی ناظم مالیات عبدالقدیر صاحب گجر اور دیگر نائبین میں حافظ ندیم اسلم، مولانا عبدالرحمن ، قاری محمود معاویہ صاحب مکی نے شرکت کی ۔آخر میں تحصیل رائیونڈ کے امیر مفتی خلیل الرحمن صاحب نے صوبائی اور ضلعی قائدین ِ مجلس شوریٰ و مجلس ِعمومی اور نائب امیر تحصیل رائیونڈ رانا عبدالجبار صاحب ، جنرل سیکرٹری امیر یونین کونسل 268 مولانا عبدالرحمن صاحب اور میزبان رانا حمزہ جلیل صاحب جن کے ڈیرہ میں اجلاس ہوا اُن کا اور مقامی کارکنان کا شکریہ ادا کیا ( مولانا یونس مدنی، جنرل سیکرٹری تحصیل رائیونڈ )
٢٨ اکتوبر کوبعد نمازِ ظہر اَمیرِ پنجاب کی زیرِ صدارت جمعیة علما ء اسلام صوبہ پنجاب کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مفتی مظہر صاحب اسعدی،حافظ نصیر احمد صاحب احرار، رائو عبدالقیوم صاحب،قاری جمال عبدالناصرصاحب ،حافظ غضنفرعزیز صاحب، نور خان صاحب ایڈووکیٹ، ڈاکٹر عبدالمعین صاحب، مفتی عبدالخالق صاحب مہار،مولانا عبدالمجید صاحب توحیدی شریک ہوئے،اجلاس میں جماعتی اور سیاسی صورتحال اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے حکمت ِعملی طے کی گئی کہ جمعیة علما ء اسلام صوبہ پنجاب آئندہ انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭٭٭
٩ اکتوبر بروز پیر بعد نمازِ عصر فاضلِ جامعہ مدنیہ جدید مولانا اشرف علی صاحب ایرانی کے ماموں زاد بھائی اسحاق صاحب، شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب سے خصوصی ملاقات کے لیے آئے اور رات کا کھانا بھی حضرت کے ساتھ کھایا۔
١٣ اکتوبر کو کوئٹہ سے جناب احمد شاہ صاحب اپنے رُفقاء کے ہمراہ حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے اُن کے رہائشگاہ پر تشریف لائے۔
١٥ اکتوبر کو قاری شرافت اللہ صاحب پانی پتی ، ان کے صاحبزادے قاری عظمت اللہ صاحب اور قاری فیض اللہ صاحب سرگودھا سے حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور دوپہر کا کھانا بھی تناول فرمایا۔
١٦ اکتوبر کو خوشاب سے الحاج ساجد صاحب اور اُن کے صاحبزادے، حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور دوپہر کاکھانا بھی تناول فرمایا۔
١٧ اکتوبر کو پھول نگر سے رانا شبیر صاحب، فاضلِ جامعہ مولانا سلیم صاحب کے ہمراہ حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔
١٨ اکتوبر کو مولانا محمد سعد صاحب کی دعوت پر ان کے ہاں الہادی ایجوکیشنل سلامت پورہ تشریف لے گئے جہاں حضرت صاحب نے مستورات میں اصلاحی بیان فرمایا اور رات کا کھانا بھی تناول فرمایا رات تقریباً آٹھ بجے جامعہ واپس تشریف لائے والحمد للہ۔
١٩ اکتوبر کو بعد از عشاء حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب ،جامعہ دارُ التقویٰ لاہور کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب ، جامعہ دارُ التقویٰ کے درجۂ مشکوة شریف کے طلباء کی دعوت ِعشائیہ پر لکشمی چوک نسبت روڈ تشریف لائے جہاں حضرت کا استقبال وہاں پہلے سے موجود احباب نے کیا حضرت صاحب کی آمد پر سلسلہ طعام کا آغاز ہوا ،حضرت صاحب حاضرین مجلس کو قیمتی نصائح سے بھی فیض یاب کرتے رہے۔
دورانِ محفل معزز میزبان کے گھر میں موجود کچھ نوادرات بھی حضرت نے ملاحظہ فرمائے جن میں قابلِ ذکر چارسو سالہ قدیم قرآنی نسخہ نسل درنسل ان کے خاندان میں چلا آرہا ہے جو کہ خط بہاری میں لکھا ہوا ہے اور جس میں ہر سورت کا نام اور ہر رکوع کا نشان سونے سے لکھا گیا ہے اور پورے قرآن میں جہاں جہاں بھی اسمِ ذات اللہ آیا ہے وہ زعفران سے لکھا ہوا ہے۔ کچھ دیر قیام کے بعد حضرت صاحب اپنی دعاؤں سے نوازتے ہوئے رُخصت ہوئے اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے شیوخ کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے اور اپنے بزرگوں سے ہمارا تعلق اور عقیدت مضبوط رکھے اور ہمیں اپنے اسلاف کے نقش ِ قدم چلائے اور اس مختصر سی محفل کو ہمارے لیے ذریعہ نجات بنائے، آمین ( محمد حنظلہ شاہد)
٭٭٭
١٣ اکتوبر ٢٠٢٣ء کوبعد نمازِ عصر حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ، مولانا محمد سلیم صاحب فاضلِ جامعہ مدنیہ جدید کی دعوت پر پھول نگر سیرت تاجدارِ ختم نبوت کانفرنس بعد نماز مغرب بستی گگہ سرائے اور سالانہ خاتم النبین کانفرنس بعد نمازِ عشاء بستی اولکھ کے لیے جامعہ سے روانہ ہوئے ، نماز ِمغرب راستے میں ادا کی ،گگہ سرائے میں داخل ہونے سے تین کلو میٹر پہلے علماء طلباء زعماے علاقہ نے شاندار استقبال کیا جلسہ گاہ پہنچنے سے پہلے رانا محمد رضوان رہنما پی ٹی آئی کے بے حد اصرار پر کچھ دیر اُن کے ڈیرہ پر تشریف لے گئے اس کے بعد ماسٹر رانا محمد یامین صاحب کے ڈیرہ پر کھانا تناول فرمایا ڈیرہ پر سابق اسپیکر رانا محمد اقبال صاحب کے بیٹے رانا محمد مجیب ڈپٹی ،رانا محمد ظہیر بابر ،راؤ عبدالحفیظ ، رانا شکیل احمد کونسلر ودیگر افراد نے حضرت کا خیر مقدم کیا۔ دورانِ بیان حضرت صاحب نے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اُٹھانے کے لیے تمام پار ٹیوں کے ذمہ داران کو اپنے اپنے قائدین کو مجبور کرنے پر آمادہ کیا، بصورتِ دیگر جمعیة علماء اسلام میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔
کانفرنس سے فراغت کے بعد مولانا عبدالعزیز صاحب مہتمم جامعہ مظاہر العلوم المدنیہ پھولنگر اور مولانا محمد سفیان معاویہ صاحب اُمیدوار برائے ایم پی اے جمعیة علماء اسلام ودیگر علماء کے ساتھ سالانہ خاتم النبیین کانفرنس بستی اولکھ پہنچے، جلسہ گاہ میں پہنچنے سے قبل سردار چوہدری محمد جمیل صاحب وائس چیرمین مسلم لیگ کے ڈیرہ پر تعزیت فرمائی۔ کانفرنس میں فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں بیان فرمایا، علماء وائمہ مساجد کو فجر کی نماز میں قنوت ِ نازلہ پڑھنے کی تلقین فرمائی ،نمازِ عشاء بستی اولکھ میں ہی ادا فرمائی بعد اَزاں تقریباً سوا گیارہ بجے بخیر و عافیت جامعہ مدنیہ جدید واپسی ہوئی۔
٢٣اکتوبر کو محمد احمد صاحب امام مسجد علی مرتضی اور جمیل احمد صاحب سابقہ امام رائیونڈ مرکز حضرت سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔
٢٣ اکتوبر کو فاضلِ جامعہ مدنیہ جدید مولانا محمد اُویس صاحب لیہ سے حضرت سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔
٢٣ اکتوبر کو فاضلِ جامعہ مدنیہ جدیدمولانا امین اللہ صاحب مستونگ بلوچستان سے حضرت سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔
٢٤اکتوبر کو کوئٹہ بلوچستان سے جامعہ مدنیہ جدید کے سابق طالب علم مولانا عبدالغفار صاحب اپنے رُفقا کے ہمراہ حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور دو دن جامعہ میں قیام فرمایا
٢٥ اکتوبر کوجناب محمدشاہد منظور صاحب مدیر اقرأ تعلیم الاطفال چھائونی، حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لائے ۔
وفیات
٭ ١٩ ربیع الاوّل ١٤٤٥ھ/٦ اکتوبر ٢٠٢٣ء بروز جمعہ شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کے نواسے، مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے امین حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب سہارنپورمیں اچانک انتقال فرماگئے ۔
٭ ٦ اکتوبر ٢٠٢٣بروز جمعہ جامعہ مدنیہ جدید کے مخلص خیرخواہ جناب محمد شاہد صاحب ایڈووکیٹ کے والد صاحب طویل علالت کے بعد وفات پاگئے۔
٭ ٢٤ ربیع الاوّل ١٤٤٥ھ/١١اکتوبر ٢٠٢٣ ء کو قائد ِجمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم کی خوشدامن صاحبہ انتقال فرما گئیں ۔
٭ ١٩ اکتوبرکو جامعہ مدنیہ جدید کے معاون ناظم مولانا محمد عامر اخلاق صاحب کے چچا زاد بھائی محمد وقار صاحب طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے۔
٭ ٢٣ اکتوبرکو جامعہ مدنیہ لاہور کے مہتمم حضرت مولانا سید رشید میاں صاحب مدظلہم کے برادرِ نسبتی، مولانا سید حسان میاں صاحب کے ماموں جناب حافظ انور صاحب بنگلور، ہندوستان میں وفات پاگئے
٭ ٢٥ اکتوبرکو جامعہ مدنیہ جدید کے نائب مہتمم حضرت مولانا سید مسعود میاں صاحب کی خوشدامن صاحبہ طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال فرماگئیں ۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
+92 - 333 - 4249302 +92 - 333 - 4249301
+92 - 335 - 4249302 +92 - 345 - 4036960

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.