Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

مئی‬ 2024

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ ذیقعدہ ١٤٤٥ھ / مئی ٢٠٢٤ء شمارہ : ٥
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر




جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +923334249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل نمبر : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٩
سیرتِ مبارکہ ..... نئے میدانِ عمل میں پہلے کام حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٧
میرے حضرت مدنی قسط : ١٠ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٢٤
تربیت ِ اولاد قسط : ١٤ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٤
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٤ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣٨
مقاصد ِبعثت حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٤٥
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق قسط : ٢ ڈاکٹر محسن محمد صاحب صالح ٥٥
اخبار الجامعہ مولانا محمد انعام اللہ صاحب ٦٣
وفیات ٦٤




حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
٨ فروری ٢٠٢٤ء بروز جمعرات وطن عزیز پاکستان میں عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا جس کے نتیجہ میں سولہویں قومی اسمبلی کے اراکین منتخب ہوئے ، انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ جتنا زیادہ مشکل نظر آرہا تھا اتنا ہی زیادہ آسان ثابت ہوا بایں طور کہ تحریک انصاف کے علاوہ دو بڑی پارٹیوں کی طرف سے باہمی جمہوری روّیے سامنے آئے ، اگر یہ دونوں پارٹیاں اتحاد نہ کرتیں تو ملکی معاملات دوبارہ انتخابات کی طرف جا سکتے تھے ، ملکی تاریخ کے الیکشن میں یہ پہلا موقع ہے کہ رات کو میڈیا جو بتا رہا تھا صبح ہوتے ہی آسمانی مخلوق نے پورا نقشہ ہی بدل دیا، بڑے بڑے برج الٹ چکے تھے جیتے ہوئے ہارنا شروع ہو گئے اور ہارے ہوئے لوگ جیتنا شروع ہو گئے ! !
ایک اہم بات یہ بھی سب کے پیش نظر رہے کہ اس مصنوعی جیت کو ملک کی سیاست پر مسلط کرنے کے کیا نتائج نکلیں گے ؟ جمعیة علماء اسلام کی قیادت نے بھی ان مصنوعی حالات و واقعات کو محسوس کیا ، مقتدر شخصیات نے قائد جمعیة سے ملاقاتیں کی اور پیشکشیں کیں لیکن قائد جمعیة نے اپنی روایات کے مطابق اصولی سیاست کو ترجیح دیتے ہوئے چار بڑے اعلانات کیے
(١) فروری کے الیکشن کے نتائج کو مسترد کیا !
(٢) ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا !
(٣) اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کیا !
(٤) ایک تحریک کے آغاز کرنے کا اعلان کیا جسے ''عوامی اسمبلی'' کا نام دیا گیا !
اس'' عوامی اسمبلی ''کا پہلا اجلاس ٢٠ اپریل کو پشین صوبہ بلوچستان میں منعقد ہو ا جبکہ ٢ مئی کو کراچی صوبہ سندھ میں ، ٩ مئی کو پشاور صوبہ کے پی کے میں عوامی اسمبلی کے انعقاد کا اعلان کیاجا چکا ہے !
تادم تحریرلاہور صوبہ پنجاب میں تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا !
قائد جمعیة نے مختلف مواقع پر جن خیالات کا اظہار کیا انہیں ہم نذرِ قارئین کرتے ہیں :
(١) جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو تنقید میرا آئینی حق ہے !
(٢) دفاعی قوت نے ایک ایک حلقہ میں اپنی مرضی کے نمائندوں کو چنا ہے !
(٣) ہماری جماعت جمعیت علماء اسلام آئینی وجمہوری راستے سے اس دھاندلی کو بے نقاب کرنے کا عزم و ارادہ رکھتی ہے !
(٤) کیا پارلیمنٹ اتنی بڑی مجبوری ہے کہ اس کی ممبر شپ کے لیے بوٹ چاٹے جائیں !
(٥) جمعیة علماء اسلام کو دھاندلی کے ذریعہ شکست سے دوچار کرنے کی منصوبہ بندی اسلام دشمن عالمی قوتوں کے دبائو کا نتیجہ ہے !
(٦) جمعیة علماء اسلام کی نظر میں موجودہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ کم اور اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ زیادہ ہے !
(٧) جمعیة علماء اسلام کی عاملہ الیکشن کے نتائج کو مسترد کر چکی ہے !
(٨) ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے افغانستان میں امارت اسلامی کے استحکام اور پاک افغان پرامن تعلقات کے لیے جوکردار ادا کیا ہے وہ مغربی دنیا کے لیے قابل قبول نہیں ہے !
(٩) ہمارا جرم یہ بھی ہے کہ ہم نے اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے خلاف اہل فلسطین اور حماس کے موقف کی حمایت کی ہے !
(١٠) جمعیة علماء اسلام یہ طے کر چکی ہے کہ اب ہمیں عوام کی طرف جانا ہوگا، انہیں اعتماد میں لینا ہوگا تاکہ عوام اپنے ووٹ کے تحفظ کے لیے اپنی صفوں میں وحدت لائیں اور اپنے حق رائے دہی کو محفوظ کرسکیں !
قائد جمعیة نے اس واضح موقف کو سامنے رکھتے ہوئے صوبہ بلوچستان سے احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا ہے اس احتجاج کو ''عوامی اسمبلی ''کا نام دیا گیا ہے !
٢٠ اپریل ٢٠٢٤ء بروز جمعہ بمقام پشین صوبہ بلوچستان میں پہلی عوامی اسمبلی کا بھرپور اجلاس ہوا ، اس اجلاس سے قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم نے مرکزی اور تفصیلی خطاب کیا حضرت کے خطاب لاجواب کے اہم نکات درج ذیل ہیں :
(١) یہ عوامی اسمبلی ہے اس لیے کرسی ٔ صدارت پر بیٹھے فرد کو جناب اسپیکر کہہ کر مخاطب کروں گا !
(٢) ہمارے ہاتھ میں پرچم نبوی ہے، ہاتھ کٹ جائیں ، سینے چھلنی ہو جائیں مگر اسے جھکنے نہیں دینا، اسے سربلند رکھنا ہے !
(٣) میرا کارکن اس راستے میں تھکن سے واقف نہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ
الجہاد ماض الی یوم القیامة
(٤) اسمبلیاں خریدی اور بیچی گئی ہیں ! تحریک چلائیں گے اور ان جعلی حکمرانوں کو حکومت کرنے نہیں دیں گے !
(٥) کٹھ پتلی حکمرانوں کے پیچھے کب تک چھپو گے ؟
(٦) پاکستان کے بنانے میں فوج کا کوئی کردار نہیں ! اس ملک کو بنانے اور بچانے کے لیے قربانیاں مدراس، علما ء اور عوام نے دی ہیں !
(٧) آج ہماری اسٹیبلشمنٹ مدارس کے خاتمے کا سوچ رہی ہے !
(٨) یاد رکھو ! جب جنگ چھڑے گی تو اپنے بارے میں سوچو کہ تم رہو گے یا نہیں رہو گے ؟
(٩) ہم نے ہمیشہ ملک کو مستحکم کرنے کے لیے کردار ادا کیا ہے !
(١٠) اگر تم آئین اور جمہوریت کو اپنے بوٹوں تلے روندتے رہو گے اور پارلیمنٹ کو اپنی لونڈی سمجھتے رہو گے تو آج ہم میدان میں کھڑے ہیں ، کل سامنے کا یہ پہاڑ بھی ہمارا انتظار کر رہا ہے !
(١١) بزدلی کی سیاست کسی اور نے سیکھی ہو گی، میرے آبا ء و اجداد اور میری تاریخ نے مجھے جرأت کی سیاست سکھائی ہے، میں بزدلی پر لعنت بھیجتا ہوں !
(١٢) ان سیاست دانوں نے جو مجھ سے باتیں کی ہیں مجھے معلوم ہیں کہتے ہیں کہ بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن یہ آپ کی ہمت ہے ہم تو مجبور ہیں !
(١٣) پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ عوام کے نہیں ، فوجی جرنیلوں کے نمائندے ہیں !
(١٤) اب مجرم کو مجرم کہنا پڑے گا ! مجرم کو بے نقاب کرنا پڑے گا ! منہ تو سیاست دانوں کا کالا کیا جاتا ہے لیکن ملک کے قیام کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ رہی ہے اور وہی ملک کے انحطاط کی ذمہ دار ہے !
(١٥) فوج اپنے بجٹ کا دس فیصد حصہ مسلح تنظیمیں بنانے اور انہیں پالنے پر خرچ کرتی ہے اور ان تنظیموں کو ہمارے خلاف استعمال کیا جاتا ہے !
(١٦) ہم نے نشاندہی کی تھی کہ قادیانیت کو اسلام کا اسٹیٹس دلانے کے لیے کچھ قوتیں کام کر رہی ہیں سیاسی راستے سے انہیں ناکامی ہوئی، آج سپریم کورٹ کے ذریعے سے وہ ایجنڈا پورا کیا جا رہا ہے !
(١٧) بدقسمتی سے چیف جسٹس بھی پشین کا ہے۔ چیف جسٹس صاحب ! آپ کے شہر سے آپ کو پکار کر کہہ رہا ہوں کہ آپ کی نیت ٹھیک نہیں ، اپنے فیصلے کو قادیانیت کے لیے ریلیف قرار دے کر علماء کے متفقہ فتوے کے بعد اب ان سے فتوے پوچھ رہا ہے جن کے فتوئوں پر ہمیں کبھی اعتماد نہیں رہا !
(١٨) سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں !
(١٩) امریکہ و برطانیہ ! افغانستان، عراق، لیبیا، فلسطین اور پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے قاتل تم ہو !
(٢٠) اسرائیلی فوج، حماس کے مجاہدین کا مقابلہ نہیں کر سکتی، نہتے عوام پر بمباری کر رہی ہے !
(٢١) جب ایک جرنیل نے افغانستان پر امریکی یلغار کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ہم تب بھی امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ کھڑے رہے اور اب بھی امارت اسلامی کے ساتھ کھڑے رہیں گے !
(٢٢) جمعیة علماء اسلام پاکستانی قوم کو ساتھ لے کر ہمیشہ فلسطینی مجاہدین کے ساتھ کھڑی رہے گی !
(٢٣) اگر بین الاقوامی راستہ ملے تو ہمارے کارکن وہاں جا کر لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں !

(٢٤) منزل کے حصول تک جنگ جاری رہے گی !
ہم اعلان کرتے ہیں کہ
(١) ہم ٨ فروری کے دھاندلی زدہ الیکشن کو مسترد کرتے ہیں !
(٢) ہم قادیانیت کو ریلیف دینے پر مشتمل سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہیں !
(٣) ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں !
(٤) ہم امریکہ و مغرب کی جارحیت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں !ف
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْن




قطب الاقطاب شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php




درسِ حدیث
٭٭٭
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اسلام نے سب سے پہلے فلاحی مملکت قائم کی !
حقوق العباد بھی معاف کرانا ضروری ہیں !
نبی علیہ السلام کا نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار !
(درسِ حدیث نمبر٦٥/٢٠٩ ٢٩ شعبان المعظم ١٤٠٦ھ/٩ مئی ١٩٨٦ئ)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت باری تعالیٰ کا ارشاد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ہم تک پہنچایا ہے یَاابْنَ آدَمَ اِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِیْ وَرَجَوْتَنِیْ غَفَرْتُ لَکَ اے انسان جب تک تو مجھ سے دعا مانگتا رہے گا امید قائم رکھے گا تو میں تجھے بخشتا رہوں گا عَلٰی مَا کَانَ فِیْکَ (چاہے)تجھ میں جو بھی کمی ہو وَلَا اُبَالِیْ اور مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے ! یہ کسی چیز کی پرواہ نہ ہونا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کہ میرے لیے کوئی کام مشکل نہیں ،کوئی کام کوئی وزن نہیں رکھتا میں بے پرواہ ہوں جو چاہوں کروں اختیارات بھی قدرت بھی بے نیازی بھی تمام چیزیں ظاہر ہوتی ہیں وَلَا اُبَالِیْ کے لفظ سے !
یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اے انسان اگر تیرے گناہ اتنے زیادہ ہوجائیں کہ عَنَانَ السَّمَآئِ آسمان کی طرف جو بادل ہیں وہاں تک پہنچ جائیں ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِیْ پھر تو مجھ سے ان کی معافی چاہے غَفَرْتُ لَکَ ١ میں بخش دوں گا ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٦
بندوں کے حقوق :
اور بخشنے میں ایسی چیزیں آجاتی ہیں کہ جن کا تعلق دوسرے بندوں سے ہو، حدیث شریف میں آتا ہے مثال کے طور پر کہ اگر کسی آدمی پر قرض ہے تو وہ قرض اسے ادا کرنا پڑے گا چاہے دنیا میں خود ادا کردے ، چاہے وصیت کرجائے اور اگر نہیں ادا کیا ہے تو قیامت میں ادا کرنا پڑے گا ! وہ شہید کا بھی معاف نہیں (اس کے علاوہ دوسرے) گناہ معاف ہوجاتے ہیں !
حدیث پاک میں آتا ہے کہ اَلسَّیْفُ مَحَّائ لِّذُّنُوْبِ اَوْکَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ یہ تلوار جو ہے یہ گناہوں کو مٹادیتی ہے صاف کردیتی ہے اور کہیں آتا ہے کہ کَفٰی بِبَارِقِ السَّیْفِ مَحَّائً لِّذُّنُوْبِ اَوْکَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وہ جو تلوار کی چمک ہے وہ گناہوں کو معاف کرنے کے لیے کافی ہے ! اس طرح کے ارشادات موجود ہیں
کئی طرح کا جہاد :
تو کئی طرح کا جہاد ہے جو جہاد ہی شمار ہوتا ہے مگر سب سے اعلیٰ درجہ اس کا ہے کہ جو تبلیغ ِ اسلام کے لیے ہو ! دفاعی جہاد بھی ہوسکتا ہے، وطن کے دفاع کا بھی ہوسکتا ہے اس میں جو مارے جائیں گے وہ بھی شہید ہی ہوں گے !
پھر سب سے اعلیٰ اور افضل وہ ہے جو حدیث شریف میں آیا ہے لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا
اس لیے لڑرہا ہے کوئی آدمی کہ اللہ کے کلمے کی سربلندی ہو اس لیے جان دے رہا ہے اور لے رہا ہے
یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ مارتے بھی ہیں مارے بھی جاتے ہیں ! جب انسان میدانِ جہاد میں ہو خدا کے لیے تو اگرچہ تلوار اپنے کو نہ بھی لگے مگر اس کی چمک بھی بڑی چیز ہے اور اگر اپنے کو لگ رہی ہے تو جس وقت اپنے اوپر آتی ہوئی دیکھ رہا ہے تلوار وہ لمحہ جو ایک سیکنڈ سے بھی کم ہوتا ہے وہ کیسے گزرتا ہے اور کیا کیفیت بدن میں پیدا کرجاتا ہے وہ بس کافی ہے گناہوں کو مٹانے کے لیے !
حقوق العباد بندوں ہی سے معاف کرانا ہوں گے :
لیکن قرض تو رہتا ہے ! اور جیسے قرض رہتا ہے ویسے ہی حقوق بھی رہتے ہیں ! یعنی کسی کو گالی دی وہ حق باقی رہے گا، کسی پر الزام لگایا وہ باقی رہے گا ،کسی طرح کی بھی حق تلفی کسی دوسرے آدمی کی کی ہو تو وہ اس آدمی سے معافی لینی پڑتی ہے چاہے واضح کرے اور معافی چاہے ! چاہے واضح نہ کرے اور معافی چاہے ! دونوں طرح ہوسکتا ہے،وضاحت نہیں کرتا کہتا ہے کہ آپ کے حق میں تقصیرات ہوتی رہی ہیں وہ معاف کرالیتا ہے اس سے تو وہ بھی ٹھیک ہے ! اس سے بھی بہت سی چیزوں کی معافی ہوسکتی ہے !
دوسری شکل یہاں جو آرہا ہے کہ تیرے گناہ پہنچ جائیں بادلوں تک پھر تو مجھ سے معافی چاہے !
تو گناہوں کی دو قسمیں ہوتی ہے :
گناہوں کی ایک قسم وہ ہے کہ جو انسان اور خدا کے درمیان غلطیاں نافرمانیاں اس قسم کی کہ جن کا تعلق اس بندے اور خدا کے ساتھ ہے بس ! ! !
اور دوسری غلطیاں اس قسم کی ہیں کہ جس میں کوئی اور مخلوق بھی شامل ہورہی ہو ! مخلوق اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جانوروں تک کا یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی زیادتی نہیں کرسکتے وہ بھی منع آیا ہے اور اتنی مکمل تعلیم کسی دین میں نہیں ہے جتنی اسلام میں ہے !
تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں معاف کردوں گا اگر استغفار کیا وَلَا اُبَالِیْ ۔ اور لَا اُبَالِیْ کا مطلب یہ ہے کہ تیرے ذمہ جو حقوق ہیں ان کو ادا کرنا ایک کام ہے یہ میں ادا کردوں گا ! اگر خداوند ِ کریم کی کسی بندے پر نظر رحمت ہوجائے تو پھر یہ فیصلہ ہوگیا کہ اس کو بخشنا ہی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کو بخشتے ہیں تو پھر جن لوگوں کے حقوق ہیں اس کے ذمہ، ان کے حقوق اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ادا فرمادیتے ہیں اس آدمی کو جس کا حق ہے جس کا قرضہ ہے اس کو قیامت کے دن وہاں اتنا دے دیا جائے گا کہ وہ خوش ہوجائے اور اسے معاف کردے، دینا بہرحال ہوگا اس کا حق مارا کہیں نہیں جائے گا اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ذرّہ کے برابر بھی اللہ تعالیٰ زیادتی نہیں فرماتے تو وہ تو ملے گا اسے ضرور جس کا حق ہے ! لیکن جس پر حق ہے اس کی مدد کیسے ہو ؟ اس کی مدد اس طرح پر ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اس دوسرے آدمی کو راضی کریں گے کہ تو اتنا لے لے اگر وہ کہے گا نہیں تو اور دیں گے پھر کہے گا نہیں پھر اور دیں گے حتی کہ وہ کہے گا ٹھیک ہے ! اس طریقے پر ہوگا !
تو یہ لَااُبَالِیْ کے جملہ سے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ یہ فرمارہے ہوں کہ جب میں بخشنا چاہوں کسی کو تو بخش ہی دیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں ہوتی ! وہ جو لوگ ہیں جن کے حقوق ہیں اللہ ان کے حقوق کا بھی ذمہ لے لیتا ہے کہ وہ میں ادا کردوں گا اور میں دے دوں گا اس کو ! ١
نبی علیہ السلام مقروض کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے :
ایک دفعہ ایسے ہوا کہ ایک صحابی کا جنازہ لایا گیا پوچھا کہ قرض ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ہے ! آپ نے دریافت فرمایا ھَلْ تَرَکَ وَفَائً لِّدَیْنِہ اس نے چھوڑا ہے کچھ کہ قرض ادا ہوجائے ؟
تو صحابۂ کرام میں سے ان کے وارثوں نے جواب دیا کہ نہیں اس کے پاس تو کچھ نہیں تھاتو پھر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ تم نماز پڑھ لو اس کی ! لیکن ایک صحابی اور تھے انہوں نے کہا کہ جناب نماز پڑھادیں اس کی وَعَلَیَّ دَیْنُہ ٢ اس کا قرض جو ہے وہ میں ادا کردوں گا ! تو پھر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کی نماز پڑھادی ! ! آپ نے جہالت کی عادتیں ختم کرادیں :
گویا آپس میں جو اُن کا طریقہ تھا (جو زمانۂ جاہلیت سے) پرانا چلا آرہا تھا کسی سے کوئی کام کرالیا مزدوری نہیں دی، کوئی ادھار لے لیا اور کہہ دیا کہ اب جو مانگے گا دیکھا جائے گا، ہمت ہے تو لے کر دکھائے ہم سے ، دیکھتے ہیں کیسے لیتا ہے یہ ہم سے، وغیرہ یہ جہالت کی چیزیں تھیں جیسے غنڈہ گردی ہو ایک طرح کی ،یہ ان میں بڑے بڑے لوگ کیا کرتے تھے ! !
یہی عاص ابن ِ وائل سہمی تھا، حضرت خباب رضی اللہ عنہ زمانۂ ابتدائِ اسلام میں بھی لوہار تھے لوہے کا کام کیا کرتے تھے ! حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو اس نے آرڈر دیااور بناکے انہوں نے پہنچادی چیزیں ،
١ مگر اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت کس پر ہوتی ہے اس کا علم دنیا میں نہیں ہوسکتا موت کے بعد ہی پتہ چلتا ہے اس لیے خطرہ کی چیز ہے لہٰذامرنے سے پہلے ہی معاملہ صاف کرالینا چاہیے۔ محمود میاں غفرلہ'
٢ بخاری شریف ج ١ ص ٣٢٣ پیسوں کا تقاضا کیا تواَکڑگیا ! ٹلاتا رہا ! پھر کہنے لگا کہ لَا اُعْطِیْکَ حَتّٰی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ میں تمہیں اس وقت دوں گا جب تم رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو چھوڑدو ان کی نبوت کا انکار کرو تو میں دوں گا ! یعنی جو تم ایمان لائے ہو اس سے ہٹو ! انہوں نے کہا کہ نہیں لَا اَکْفُرُ حَتّٰی تَمُوْتَ ثُمَّ تُبْعَثَ نہیں میں اسلام پر جما رہوں گا کفر پر نہیں آئوں گا انکار نہیں کروں گا ان کی نبوت کا حتی کہ تو مرے اور تو دوبارہ زندہ ہو قیامت کے دن ! وہ بہت ہوشیار تھا حاضر دماغ حاضر جواب تھا کہنے لگا جب قیامت کے دن زندہ ہوں گا فَسَاُوْتٰی مَالًا وَّوَلَدًا ١ وہاں پھر میرے پاس مال بھی ہوگا اولاد بھی ہوگی وہاں دے دوں گا تمہیں ! ! نہیں دیے پیسے، بڑے بڑے شریف لوگ جو کہ سردار تھے اور سرداروں میں یہ بددماغی، بد معاملگی، نہ دینا، لے لیے دیے ہی نہیں یہ عام تھیں اس طرح کی چیزیں ٢ رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے بہت زیادہ تنبیہ کی کہ یہ عادتیں چھوڑو ! کسی کی ایک پائی بھی ہے تو دینی پڑے گی ! !
تقسیم سے پہلے اپنے طور پر مال غنیمت سے کوئی نہیں لے سکتا :
مال غنیمت میں سے ایک صاحب نے کچھ لے لیا ! کوئی چیز کسی طرح کی عام معمولی چیز تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے منع فرمایا کہ یہ تو جائز ہی نہیں ہے ! تو کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ہو جب تک وہ تقسیم نہ ہوجائے اس وقت تک وہ ایک آدمی کی نہیں ہوسکتی ! اگر ایک آدمی اس میں سے کوئی چیز لے لیتا ہے تو اس نے سب کی خیانت کی ! تو واقعات اس طرح کے گزرے ہیں ایسے عجیب کہ جن سے صحابۂ کرام ڈرگئے ! !
مال غنیمت میں خیانت کا وبال :
ایک صاحب تھے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا کجاوہ کَسا کرتے تھے وہ خادم تھے یا غلام تھے بہرحال وہ کجاوہ کَس رہے تھے یا کیا کررہے تھے ؟ اچانک ایک تیر لگا آکر ایسے کہ ان کا انتقال ہوگیا !
١ بخاری شریف ج ١ ص ٢٨١ و ٣٠٤ ٢ اسی طرح کے کام آج کل غریب مسلمانوں کو قادیانی، عیسائی اور آغاخانی بنانے کے لیے این جی اوز کررہی ہیں ۔ محمود میاں غفرلہ
اب لوگوں نے کہا ھَنِیْئًا لَّہُ الشَّھَادَةُ اس کے لیے شہادت مبارک ہو ! مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے شہادت سے واقفیت جو دِلادی ہے اس کی بناء پر ان میں موت کا ڈر ختم ہوگیا ہے ! تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے ! کَلَّا اِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِیْ غَلَّھَا لَتَشْتَعِلُ عَلَیْہِ نَارًا یہ جو اس نے چادر کوئی لے لی تھی وہ اس نے خیانت کی تھی تقسیم نہیں ہوئی تھی ، تقسمِ مال کے بغیر اس سے پہلے ہی اس نے وہ چُرالی تھی چھپالی تھی ،میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس کے اوپر آگ بن کر جل رہی ہے لَتَشْتَعِلُ عَلَیْہِ نَارًا تو پھر پتا چلایا دیکھا تلاش کیا تو واقعی اس کے پاس ایسی چیز تھی ! تو آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ یہ معاملہ ہورہا ہے ! ! ؟
جب یہ اعلان فرمایا تھا آپ نے تو اس وقت ایک صاحب کوئی چیز لے آئے کہ یہ جناب ذرا سی چیز ہے ! ایک اور صاحب تھے وہ تَسمہ لے آئے جوتے کا ایک تھا یا دو تھے تسمے ! تو آپ نے دونوں کو یا یہ فرمایا یا یہ فرمایا اگر ایک تھا تو شِرَاک مِّنْ نَّارٍ یا فرمایا شِرَاکَانِ مِنْ نَّارٍ ١ وہ جوڑا تھا اگر تو اس کے بارے میں یہ فرمایا کہ یہ تو جہنم کے ہیں ! ! تو بالکل خیانت نہیں کرسکتا مال غنیمت میں ، سوئی بھی نہیں لے سکتا اس سے ،جب تقسیم ہوجائے بس پھر ٹھیک ہے ! پھر تمہارے حصے میں جو چیز آئی وہ بالکل حلال ہے اور بابرکت بھی ہے ! ورنہ یہ حال ہے کہ وہ نار ہے آگ ہے ! !
صداقت و دیانت ..... بگڑے ہوئے سدھر گئے :
تورسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے ان لوگوں کو زمانۂ جاہلیت کی چیزوں سے نکال لیا ! آخرت ان کے سامنے رہتی تھی اور کوئی بد دیانتی ان کے اندر نہیں رہی ! ادنیٰ سے ادنیٰ بددیانتی بھی نہیں رہی ،سوئی کے بھی وہ روادار نہیں رہے کسی حقیر چیز کو بھی اِدھر سے اُدھر کردیں اُدھر سے اِدھر کردیں ، نہیں ! یہ اِدھر ہی رہے گی اِدھر سے اُدھر نہیں جاسکتی حالانکہ حقیر ترین چیز ہے ! تو بڑی چیز کا تو کہنا ہی کیا ہے ؟ اور یہی صحابۂ کرام ہیں کسریٰ کا محل یہ دریا پاربھی تھا اور ادھر بھی تھا بغداد کی طرف جب وہ فتح ہوا ہے
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الجھاد باب قسمة الغنائم و الغلول فیھا رقم الحدیث ٣٩٩٧
تو بڑی بڑی سونے کی بہت بڑی چیزیں ایک صاحب لائے ،لاکر حضرتِ سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیں اتنی بڑی بڑی قیمتی چیزیں کسی نے ان میں سے ایک چیز بھی نہیں لی جواہرات میں سے ایک دانہ بھی نہیں لیا ! ! !
خدائی نصرت ..... دریا میں گھوڑے اتاردیے :
خدا کی نصرت ان کے ساتھ تھی اسی لیے وہ دریا پار کیا ہے ! اور دریا میں طغیانی تھی وہ لوگ غافل تھے کہ طغیانی میں بغداد کے اس طرف تو آ ہی نہیں سکتے ! تو صحابہ نے غور کیا غور کرتے رہے دعا کرتے رہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ ! پھر ان کے ذہن میں یہی آیا کہ ایسے کرو اسی دریا ہی میں چلو وہ چلے گھوڑے بھی تیرے ان کے ! ؟ اورگھوڑا ایسا تیرنے والا جانور نہیں ہے کہ بیٹھا رہے سوار اور سامان بھی لدا رہے اور وہ تیرتا بھی رہے ! تھوڑا تو تیر لیتا ہے اور بھینس خوب تیر لیتی ہے ! گھوڑا نہیں تیرسکتا اس طرح سے اتنا وقت ! وہ دریا گہرا تھا جہاں گہرا تھا وہاں بھی اللہ نے اس کو گہرا نہیں رکھا ان کے لیے ! ؟ اللہ تعالیٰ نے ایسے آسان فرمادیا اور کسی کا کوئی سامان گُم نہیں ہوا ! ایک آدمی کا ایک پیالہ گُم ہوگیا ! اسے لوگوں نے کہا کہ یہ کیوں گُم ہوا ہے تیرا پیالہ ؟ کیا وجہ ہے جو گُم ہوگیا ؟ اس نے کہا کہ میں نے کوئی نافرمانی خدا کی نہیں کی ہے اور مجھے امید ہے کہ مل جائے گا ! پھر وہ پیالہ بھی مل گیا ! وہ کسی جھاڑی میں اٹک گیا تھا !
دشمن ڈرگیا اور ہتھیار ڈال دیے :
ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ یہ (طوفان کے باوجود دریا پارکرکے) ادھر آرہے ہیں تو ہتھیار ہی ڈال دیے ،کوئی لڑا بھی نہیں ان سے اور ایسے لوگوں سے لڑا بھی نہیں جاسکتا ! تو ان لوگوں میں دیانتداری اتنی آگئی اور پہلے وہ حال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم مقروض پر نماز نہیں پڑھتے تھے لیکن جب ذہن نشین ہوگیا مسئلہ اور اہمیت لوگوں کے سامنے آگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم موجود ہوں اور انکار کردیں نماز پڑھنے سے اس کی ! یہ تو ان کے لیے سب سے بڑے اَلَم کی بات ہے دکھ کی بات ہے ! اس کے بعد تو کوئی اس طرح سے ہوا نہیں ہوگا قصہ، خود بخود بھی نہیں ہوا ہوگا ! جو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے اشارے پر چلتے تھے وہ ایسی چیز کے بعد کہاں ایسا کرسکتے تھے تو عادت ٹھیک ہوگئی ! !
سب سے پہلی فلاحی مملکت :
ایک دم جب ٹھیک ہوگئے اور ادھر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس مال غنیمت بھی آیا بیت المال میں تو پھر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ اب جس کا انتقال ہوجائے تو میں اس کی نماز پڑھ دُوں گا !
اور اگر کوئی آدمی مقروض بے روزگار مرجائے ،بچے اس کے ایسے ہوں کہ ان کا کوئی سہارا نہ ہو تو وہ میرے ذمہ ہے ! ضَیَاعًا اَوْ کَلًّا فَاِلَیَّ جو کوئی مال چھوڑجائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے !
وَمَنْ تَرَکَ مَالًا فَلِوَرَثَتِہ ( او کما قال علیہ الصلٰوة و السلام )
'' خُمس '' محتاجوں میں تقسیم ہوجاتا،آپ اور ازواج کے لیے کچھ نہ بچتا :
خود رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ایسے کیا آپ کا جو خُمس آتا تھا مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ تو وہ اسی طرح سے خرچ ہوجاتا تھا گھر میں تو کوئی چیز رہتی نہیں تھی خود بھی ایسے ہی خرچ کرتے تھے ! ازواجِ مطہرات بھی ایسے ہی خرچ کرتی تھیں !
تو یہاں (اس حدیث شریف میں ) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وَلَا اُبَالِیْ اسی طرح سے فرمایا کہ اگر تو میرے پاس آئے اور اتنی ہوں تیری خطائیں کہ جس سے زمین بھرجائے اور پھر میرے پاس تو آتا ہے لَا تُشْرِکُ بِیْ شَیْئًا اور شرک نہ ہو تیرے پاس تو میں تیرے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت اپنی عطا فرمائوں گا اور نوازوں گا ! ١
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام پر استقامت دے، ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور اپنی رضا اور رحمت سے نوازے، آمین ! اختتامی دعا ...................... ( مطبوعہ ماہنامہ انوار مدینہ اپریل ٢٠٠٩ ء )
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٦
سیرتِ مبارکہ




دارُالہجرت اور حضرات مہاجرین کے لیے دعا
درستی آب وہوا اور حفظانِ صحت کے لیے پیغمبرانہ تدبیر
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اوراق
٭٭٭
یَثْرِبْ کے بجائے مَدِیْنَةُ النَّبِیْ :
( وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً
وَّلَا اَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَکْبَرُ لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ اَلَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ) ١
''جن لوگوں پر (ان کے ایمان لانے کی وجہ سے) ظلم ہوا اور ظلم سہنے کے بعد انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا بدلہ تو کہیں بڑھ کر ہے، کاش یہ لوگ علم سے کام لیتے ! یہ (مہاجرین) وہ ہیں جو ہر طرح کی مصیبتوں میں ثابت قدم رہے اور جو اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ''
مکہ جو حضرات مہاجرین کا وطن تھا نہایت خشک اور گرم مقام تھا نیچے ریت اور کنکریاں اوپر گرم پہاڑ جن میں شادابی کا نام نہیں تھا ! اس کے برخلاف یَثْرِبْ شاداب باغوں کے بیچ میں ایک کھلی ہوئی آبادی ہر طرف کھیت اور سبزہ، اس کی ایک وادی جس کا نام بُطْحَان تھا ٢ گویا گندے پانی کی جھیل تھی
جہاں سڑا ہوا پانی ہمیشہ بہتا رہتا تھا جس کی وجہ سے پورے یثرب کی آب ہوا مرطوب رہتی تھی ٣
١ سُورة النحل : ٤١
٢ اس طرح کے میدان جن میں سیلاب آتا تھا علاقہ یثرب میں تین تھے العَقِیْقُ ، بُطْحَان ، قَنَاة۔( معجم البلدان)
٣ بقول حضرت عائشہ صدیقہ اَ وْبَأُ اَرْضِ اللّٰہِ '' اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وبا والی سرزمین '' (بخاری ص ٢٥٣)
مکہ جیسے گرم اور خشک مقام کے آدمی یہاں آتے تو بیمار پڑجاتے تھے اسی وجہ سے یہاں کا بخار حُمّٰی یَثْرِبْ پورے عرب میں مشہور تھا چنانچہ حضرات مہاجرین یہاں پہنچے تو مزاج خراب ہوگئے حضرت صدیقِ اکبر کو نہایت تیز بخار وہ بحرانی کیفیت میں یہ شعر پڑھتے تھے
کُلُّ اَمْرٍ مَصَبَّح فِیْ اَھْلِہ وَالْمَوْتُ اَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہ
''لوگ اپنے اہل و عیال میں ہوتے ہیں تو صبح صبح ان کو دعا دی جاتی ہے
اَنْعِمْ صَبَاحًا ١ اور حال یہ ہے کہ موت جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے''
حضرت بلال رضی اللہ عنہ اگرچہ حبشی تھے ٢ مگر عمر گزری تھی مکہ کی گلیوں اور اس کی وادیوں میں ان کو بخار ہوا تو وہ بخار کی گھبراہٹ میں یہ اشعار پڑھتے تھے
اَلَا لَیْتَ شِعْرِیْ ھَلْ اَبِیْتَنَّ لَیْلَةً بِوَادٍ وَ حَوْلِیْ اِذْخِر وَ جَلِیْلُ
وَھَلْ اَرِدْنَ یَوْمًا مِیَاہَ مَجِنَّةٍ وَھَلْ یَبْدُوَنْ لِیْ شَامَة وَ طَفِیْلُ
'' کاش مجھے معلوم ہوجاتا کہ کیا میں کوئی رات وادی (مکہ) میں اس حالت میں گزار سکوں گا کہ میرے گرد (گیاہ) اِذْخِرْ ٣ اور (گیاہ) جَلِیْل ہو اور کیا کسی روز مَجِنَّةْ ٤ کے چشموں پر میرا ورود ہوسکے گا اور کیا کوہِ شامہ ٥ اور کوہ ِ طفیل مجھے سامنے نظر آئیں گے''
١ یہ اہل مکہ کی تہذیب تھی صبح اٹھتے ہی ایک دوسرے کو کہتے تھے اَنْعِمْ صَبَاحًا '' آپ کی صبح بہت اچھی''
شعر کہنے والے کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ میں یہاں اپنے اہل و عیال سے دور اس دعا کے سننے سے محروم ہوں
٢ یہ قطعی بات نہیں ہے کہ پیدائش مکہ میں ہوئی تھی، اس میں اختلاف ہے (الاستیعاب) حضرت ابوبکر نے ان کو منہ مانگی قیمت پر خرید کر آزاد کردیا، آزاد ہونے کے بعد حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی رہتے تھے، حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا حساب کتاب بھی ان ہی کے پاس رہتا تھا ! پھر مؤذن رسول اللہ ہونے کی سعادت حصہ میں آئی ! کَانَ خَازِنًا لِاَبِیْ بَکْرٍ وَ مُؤَذِّنًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم ( الاستیعاب )
٣ اِذْخِرْ ایک گھاس کا نام ہے چھتوں اور چھپروں میں لگائی جاتی ہے۔ (بخاری شریف ص ٢٢ )
٤ ایک پہاڑ کا نام ہے وَ قِیْلَ مَجِنَّة بَلَد عَلٰی اَمْیَالٍ مِنْ مَّکَةَ وَ قِیْلَ جَبَل (معجم البلدان)
٥ شامة اور طفیل پاس پاس دو پہاڑ ہیں جومکہ سے پچیس تیس میل کے فاصلہ پرہیں (معجم البلدان)
پھر ان کے لیے بد دعا بھی کرتے تھے جن کے ظلم و ستم نے ان کو ہجرت پرمجبور کیاتھا ١ کہ
''اے اللہ ان لوگوں نے ہمیں اپنے وطن سے نکال کر اس وباء والی سرزمین میں پہنچایا اے اللہ ان پر لعنت کر '' (ان کواپنی رحمت سے محروم کردے)
صحابہ کرام کی یہ حالت ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے دعا فرمائی
''اے اللہ ہمیں ''مدینہ'' بھی ایسا ہی محبوب بنا دے جیسا مکہ محبوب تھا یا مکہ سے بھی زیادہ ہمیں مدینہ کی محبت دے دے ! اے اللہ مدینہ کے صَاع میں مدینہ کے مُدْ میں ہمارے لیے برکت عطا فرما ! خداوندا ہمارے لیے اس کی آب ہوا کو صحت بخش کردے اور اس کے بخار کویہاں سے منتقل کرکے جُحْفَة پہنچا دے'' ٢
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اس قبولیت کے آثار آج تک نمایاں ہیں کہ مدینہ منورہ کی آب ہوا نہایت معتدل اور خوشگوار ہے ! دولت وثروت مدینہ میں نہیں ہے مگر ہرچیز میں برکت ہے عموماً اہل مدینہ اس برکت کودولت وثروت سے بہتر سمجھتے ہیں ! !
١ شیبة بن ربیعة ، عُتبة بن ربیعة ، اُمیة بن خلف ( صحیح البخاری ص ٢٥٣ ) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی دعا قبول ہوئی اگلے سال یہ سب غزوہ ٔبدر میں مارے گئے !
٢ مکة معظمة سے چار منزل تقریباً اسی میل کے فاصلہ پر مدینہ کے راستہ میں ایک سیلاب زدہ مقام تھا، پہلے اس کا نام ''مَہْیَعَة'' تھا اس وقت ایک بڑا شہرتھاپھراس طرف سیلاب آنے لگے تویہ تباہ ہوگیا اور اس تباہی اور بربادی کے سبب سے ہی اس کو جُحْفَة کہا گیا ( معجم البلدان ) جُحْف کے معنی چھیل ڈالنا ، جَحَفَہُ قَشَرَہُ ،
جَائَ ہُمْ سَیْل جُحَاف فَاحْتَجَفَھُمْ فَسُمِّیَتْ اَلْجُحْفَةُ ( قاموس)
رحمت عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے اس علاقہ کو بخار منتقل کرنے کے لیے نامزد فرمایا ! یہ خود اس علاقہ کی بربادی کی دلیل ہے رحمت ِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم کب گوارا کر سکتے تھے کہ کسی آباد علاقہ کو وباء کے لیے منتخب فرمائیں ! باقی یہ کہ منتقل کرنے کے بجائے سرے سے اس مرض کو ختم کرنے کی دعا کیوں نہیں فرمائی تو حقیقت ہے کہ جس طرح مزاجوں کی تبدیلی تقاضاء فطرت ہے ایسے ہی بخار بھی فطرت کا تقاضا ہے، جو صاحب ِ کمال قدرت کے اسرارورموز اور قضاء و قدر کی حکمتوں اور مصلحتوں کا مزاج شناس ہو وہ تبدیلی فطرت کی دعا نہیں کر سکتا تھا ! ( واللّٰہ اعلم بالصواب)
پھر اس دارُالھجرت کی جو محبت دلوں میں ڈالی گئی اس کا ادنیٰ نتیجہ یہ ہے کہ اس یَثْرِبْ کو یَثْرِبْ کے بجائے اپنے محبوب نبی کی طرف منسوب کر کے مدینة النبی ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کہا جانے لگا پھر اسی ایک نام پربس نہیں ہوئی بلکہ ارباب ذوق نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق نام رکھے جو سو سے زائدہوگئے ان میں سے چورانوے نام علامة سمہودی نے وفاء الوفاء باخبار دار المصطفٰی میں شمار کرائے ہیں ۔ ١
مواخات (مہاجرین اور انصار میں بھائی چارہ ) :
(١) پچاس کے قریب صحابہ کرام مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے مدینہ آچکے ہیں باقی آ رہے ہیں آنے والوں میں وہ بھی ہیں جو مکہ میں صاحب حیثیت تھے، جائیدادوں اور کاروبار کے مالک تھے مگر اب یہ سب قرآن پاک کے الفاظ میں ''الفقرائ'' ہیں ٢ کیونکہ نہ صرف جائیدادوں پر بلکہ ان کے مال و متاع اور سامان واسباب پر بھی دوسروں کا قبضہ ہوچکا ہے ! عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے رعب داب اور دھاک کے آدمی چند ہی تھے جنہوں نے کھلم کھلا ہجرت کی باقی سب وہ تھے جو چھپتے چھپاتے خالی ہاتھ بمشکل تمام مدینہ پہنچے تھے، ان کے بدن کے کپڑے بھی سالم نہیں تھے ! !
(٢) پوری دنیا میں صرف و ہ مٹھی بھر جاں نثار، ان پر دیسی فقراء اور تہ دستوں کے مددگار تھے جنہوں نے بیعت عقبہ کے موقع پر ان کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی تھی مگر یہ کتنے تھے ان کے ذرائع کیا تھے ؟ صرف تہتر یا پچھتر جبکہ ان میں دو عورتیں بھی تھیں ! ٣
(٣) یَثْرِبْ اوّل تو کاروباری قصبہ نہیں تھا اور جو کاروبار تھا اس پر یہودیوں کا قبضہ تھا !
قبیلہ اَوسْ اور خَزْرَجْ کے لوگ جن سے حضرات انصار کا تعلق تھا وہ کاشتکار تھے کسی کے پاس اپنی زمین تھی کوئی دوسروں کی زمین میں بٹائی پرکاشت کرتا تھا، جن کی زمینیں اپنی تھیں اقتصادی ڈھانچہ ان کا بھی بگڑا ہوا تھا جس کے پاس جو کچھ پس انداز تھا وہ اَوسْ اور خَزْرَجْ کی آپس کی لڑائی میں ختم ہوچکا تھا جس کا سلسلہ تقریباً ایک سو بیس سال کے بعد تین چار سال پہلے ختم ہوا تھا ! ! !
١ وفاء الوفاء ج١ ص ٧ تا ١٩ ٢ سورہ ٔ حشر : ٨
٣ جو حضرات بیعت کے موقع پر حاضر نہیں ہوسکے اور مسلمان ہوچکے تھے ان کی تعداد بھی اس سے زیادہ نہ ہوگی
عموماً بَیْع سَلَمْ ١ (بَدْھنِیْ ) کی شکل میں یا سود پر پیشگی رقم لے لی جاتی تھی اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ پوری پیدا وار اِس سلم یا سود کی نذر ہوجاتی تھی ! ان قبیلوں کے کچھ لوگ ان حالات سے مستثنیٰ تھے مگر ان میں سے چند کے سواء باقی سب صاحب ِ جائیداد بڑے لوگ اپنے سابق مذہب پر قائم تھے ! !
(٤) اللہ کے گھر (مسجد مبارک) کی تعمیر شروع ہوئی تو رحمةللعالمین صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے ان در ماندہ پردیسی مہاجرین کی بود وباش کا مسئلہ بھی تھا کہ اگر ان کے رہنے کا ٹھکانا ہوجائے تو دَارُالْہِجْرَةْ میں وطن کی کچھ آسائش میسر آسکے اور پراگندہ حالی ختم ہو، ممکن تھا ان کے لیے الگ محلہ آباد کردیاجاتا معاشرت کا جو فرق تھا کہ اہلِ مدینہ کاشتکار اور زمیندار تھے اور مہاجرین تاجر پیشہ، شہری زندگی کے عادی اس کا بھی تقاضا یہی ہونا چاہیے تھا کہ ان کی آبادی الگ ہوتی ! نئی آبادی کے لیے مالی مشکلات کا حل وہ باہمی تعاون تھا جس نے بلا کسی غیر معمولی خرچ کے مسجد مبارک اور ازواجِ مطہرات کے حجرات کی تعمیر کرادی تھی لیکن علیحدہ آبادی سے مہاجرین اور انصار میں شیروشکر جیسی یگانگت نہیں پیدا ہوسکتی تھی اور باہمی انسیت والفت کی وہ نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو عطا فرمائی تھی (جس کو کلامِ پاک میں خاص طور پر نمایاں فرمایا گیا تھا) وہ مشاہدہ بن کر سامنے نہیں آسکتی تھی ! ٢
جن کو مساوات، اشتراکِ عمل اور ایک دوسرے کے لیے ایثار واخلاص کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا علیحدہ آبادی نہ ان کے لیے مناسب تھی نہ وہ خود یہ علیحدگی برداشت کر سکتے تھے جو اسلامی معاشرہ میں او نچ نیچ کی بنیاد بن جاتی ! اس کے علاوہ تعلیم و تربیت کے لحاظ سے جس مساوی سطح کی ضرورت تھی علیحدہ آبادی اس کے لیے خلیج بن جاتی !
حضراتِ مہاجرین کم وبیش دس بارہ سال تک برکات نبوت سے فیضیاب ہوکر تربیت یافتہ عالم وفاضل بن چکے تھے حضرات انصار کی مخلصانہ ذہانت اگرچہ ان کے لیے رہنماہوتی تھی مگر اس
١ صحیح البخاری کتاب البیوع ص ٢٩٨
٢ ( ھُوَ الذَّیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ اِنَّہ عَزِیْز حَکِیْم ) ( سُورة الانفال : ٦٢ ، ٦٣ )
ذہانت میں رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم ''ر ؤف رحیم'' کا رنگ بھرنے اور حضرات انصار کو مہاجرین کی سطح پر
لانے کے لیے جس تَوَاصِیْ بِالْحَقْ ١ باہمی احتساب، افادہ اور استفادہ، تعلیم وتعلّم کی ضرورت تھی، الگ آبادی کی صورت میں وہ پوری نہیں ہوسکتی تھی ! ! !
(٥) عرب میں عَقْدِ مُوَالَات کا طریقہ رائج تھا، غیر قبیلہ کا آدمی کسی بھی قبیلہ میں پہنچتا اور ایک معاہدہ کر کے اس قبیلہ میں داخل ہوجاتا، اب اسی قبیلہ کی طرف منسوب ہوتا، معاہدات صلح وجنگ میں شریک رہتا اور مرنے کے بعد اس کا ترکہ بھی اسی قبیلہ میں تقسیم کیا جاتا ! ! !
حضراتِ مہاجرین اور انصار میں یہ عقد ہوسکتا تھا لیکن یہ عَقْدِ مُوَالَات کچھ روایتیں رکھتا تھاان میں ایسی روایات بھی تھیں جن کو اسلام برداشت نہیں کر سکتا ٢ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کو بدبودار فرمایا ٣ اور قرآن حکیم نے ان کے برخلاف اعلیٰ بنیادوں پر اسلامی تہذیب و اخلاق کی عمارت بلند کی ،
اب یہ پیغمبرانہ تدبر تھا کہ عَقْدِ مُوَالَاتْ کے بجائے آپ نے عَقْدِِ مُوَاخَاتْ کی بنیاد ڈالی ! ٤
(٦) حضرتِ انس رضی اللہ عنہ کے مکان میں حضراتِ مہاجرین وانصار (رضی اللہ عنہم اجمعین) کا اجتماع ہوا، یہ کل نوّے حضرات تھے، پینتالیس مہاجرین، پینتالیس انصار !
١ ایک دوسرے کو حق پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے کی نصیحت کرنا !
٢ ہمارے زمانہ کا سیاسی گٹھ جوڑ اور پارٹی بندی اس کا نمونہ ہے کہ حق وانصاف کا نام لینا بھی جرم ہوتا ہے !
جابیجا، جائز وناجائز پارٹی کی حمایت کی جاتی ہے اور اسی کو تدبر اور دانشمندی سمجھا جاتا ہے۔
٣ دَعُوْھَا فَاِنَّھَا مُنْتِنَة ۔ ( صحیح البخاری ص ٧٢٩ کتاب تفسیر القرن رقم الحدیث ٤٩٠٥ )
٤ زمانۂ جاہلیت میں اس تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی کہ حق پر کون ہے اور تقاضاء انصاف کیا ہے ، صرف یہ معاہدہ (عقد ِموالات) ہی دلیل ہوتا تھا یعنی چونکہ ہمارا حلیف میدان جنگ میں ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اس کی حمایت میں میدان جنگ میں ہوں ! اسلام نے اس قسم کے معاہدہ ہی کو حرام قرار دیا !
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا مشہور ارشاد ہے لَاحِلْفَ فِی الْاِسْلَامِ
اور مسلمانوں کے لیے قرآن پاک کی خاص ہدایت یہ ہے
(باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنی صواب دید کے بموجب ان میں سے ایک ایک انصاری کو ایک ایک مہاجر کا نام بنام بھائی قرار دے دیا یہ رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم کی پیغمبرانہ فراست اور مردم شناسی تھی کہ جن کو آپ نے بھائی بنایا فطری طور پر ان کے مزاج برادرانہ تھے ، وہ حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے ہمدرداور مددگار بن گئے ! اور مزاجوں کی موافقت کے ساتھ جب حضرات مہاجرین سے للہیت اور اعلیٰ اخلاق کا بھی ظہور ہوا تو حضراتِ انصار کے اخلاص نے عقیدت کی شان اختیار کر لی !
اُمُّ الْعَلَائ ایک انصاری خاتون تھیں جن کے گھرانے کے حصہ میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آئے تھے وہ اپنے مہمان کی اتنی معتقد ہوگئیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اُمُّ الْعَلَائ نے بڑے وثوق سے کہا شَھَادَتِیْ عَلَیْکَ لَقَدْ اَکْرَمَکَ اللّٰہُ یعنی میں قسم کھاکر کہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یقینا آپ کو بخش دیا ہے ! ١ ( سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٤٦ تا ٤٥٤ ) (جاری ہے)
( بقیہ حاشیہ ص ٢٢ )
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ )
(ترجمہ) '' مسلمانو ! ایسے ہوجاؤ کہ انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے یہ اللہ کے لیے(سچی) گواہی خواہ خود تمہارے خلاف ہو یا ماں باپ اور قرابت والوں کے خلاف ہو'' ( النساء : ١٣٥ )
نیز ارشاد ہے :
''اگر کسی قوم سے کسی بناپر ناراضگی بغض اور غصہ ہے تو ہرگز ہرگز ایسا نہ ہو کہ یہ بغض تمہیں ابھاردے اس بات پر کہ اس کے ساتھ انصاف نہ کرو، ہرحال میں انصاف کرو، یہی تقویٰ سے لگتی ہوئی بات ہے'' (سورۂ مائدہ : ٨)
''اور ایک گروہ نے اگر تمہیں خانہ کعبہ میں جانے سے روک دیا ہے جس سے تمہیں غم و غصہ ہے تو اس کا یہ اثر ہرگز نہ ہونا چاہیے کہ یہ غم و غصہ تمہیں اس بات پر ابھار دے کہ تم زیادتی کرنے لگو ، تمہارا دستور تو یہ ہونا چاہیے کہ نیکی اور پرہیزگاری کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم کے کام میں مدد نہ کرو'' (سورہ مائدہ : ٢)
١ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس طرح وثوق کر لینے اور قسم کھانے کو پسند نہیں فرمایا، کیونکہ کسی کومعلوم نہیں ہے کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ، آپ نے تعلیم دی کہ یہ کہنا چاہیے کہ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بخش دیا ہوگا (بخاری ص ١٦٦) مگر حضرت اُمُّ الْعَلَائ کا یہ وثوق اور یقین اس بنا پر تھا کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے غیر معمولی تقویٰ اور آپ کے اعلیٰ اخلاق نے ان کو گرویدہ اور معتقد بنادیا تھا ! !




قسط : ١٠
میرے حضرت مدنی
٭٭٭
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
امیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
حضرت مدنی کے بڑے بھائی کی شفقتیں :
حضرت مد نی قدس سرہ کے بڑے بھائی حضرت مولانا سیّد احمد صاحب نور اللہ مرقدہ اعلی اللہ مراتبہ کی شفقتیں تو اس سیاہ کار پر اُس وقت سے رہیں جب میری عمر ڈھائی برس کی تھی جیسا کہ میں اپنی گنگوہ کی حاضری کی ابتداء میں لکھ چکا ہوں اور مدینہ پاک سے اخیر زندگی تک روضۂ اقدس کی خاک وغیرہ بھیجنے کا معمول اخیر تک رہا اور ١٤٤٥ھ میں جبکہ اس سیاہ کار کا قیام مدینہ پاک میں رہا اس وقت کی شفقتوں کا تو پوچھنا ہی کیا جس حجرہ میں میرا قیام تھا اس میں رطب اور جب رطب کا زمانہ نہ ہوتا تو ایک صندوق عمدہ کھجوروں کا ہر وقت بھرا رہتا تھا میں کھاتا اور بانٹتا اگلے دن صبح کو پھر وہ پر کردیا جاتا ! ایک ڈبہ تازہ پنیر کا بھرا رہتا، ایک زیر زمزم شریف سے پر رہتی ! اور کیا کیا بتاؤں علی الصباح ایک مستقل برّاد (کیتلی ) دودھ کی چائے جس میں مشک و عنبرخوب پڑا ہوتا میری قیام گاہ پر آجاتی ! یہ تولمبی داستانیں ہیں ۔
اس وقت تک تو ان کا ایک گرامی نامہ جو میرے والد صاحب کے انتقال پر تعزیت کے سلسلہ میں آیا تھا وہ اتفا ق سے سامنے نظر پڑ گیا اس کے لکھوانے کو میرا جی چاہا مستقل عنوان تو کوئی مولانا مرحوم کا ہے نہیں اور اگر لکھاجائے تو بہت طویل مضمون ہوجائے ! لیکن اس خط کے نقل کرانے کو میرا بھی جی چاہا بڑے مزے کا ہے اس لیے تبعاًحضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کے حالات ہی نقل کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے
بسم اللّٰہ
عزیزم میاں مولوی محمد زکریا صاحب سلمکم اللّٰہ تعالٰی
از جانب خاکسار سید احمد غفرلہ
بعد اہدائے سلام مسنون الاسلام آں کہ احقر بخیریت رہ کر صحت و عافیت تمہاری مع جملہ کچے بچے کا خواستگار ہے ! اگرچہ آپ مدرس ہوگئے ہیں ہم جیسے دور افتادہ کوکیوں خیال میں لانے لگے مگر اوّل تو اس عاجز کو آپ کے والد بزرگوار سے اور مرحوم کو اس تابکار سے کچھ ایسا تعلق مخلصانہ تھا جس کی وجہ سے اگر آپ خدانخواستہ بے اعتنائی بھی برتوگے تو ایں جانب علیہ الرحمة والغفران ایسے نہیں ہیں کہ چپکے ہوکر بیٹھ رہیں !
الحاصل حافظ محمد یعقوب صاحب کے خط سے آپ کے والد ماجد صاحب مرحوم کا اس دارِ فانی کو چھوڑ کر دارِ جاودانی کی طرف منتقل ہو نامعلوم ہوکر جو کچھ اثر قلب پژمردہ بلکہ مردہ پر ہوا ہے، عالم الغیب ہی جانتا ہے مگر عزیزم کیا کیا جائے ، بجز انا للّٰہ وانا الیہ راجعون کے چارہ نہیں اسی پر ( صَلَوَات مِّنْ رَّبِّھِمْ ) انعام ملنے کی توقع ہے ! اب آپ کو چاہیے سر لابیہ کا کرشمہ کر دکھاؤ جیسے کہ وہ اپنے کمالاتِ علمی واخلاقی کی وجہ سے ہردل عزیز تھے تم بھی اپنے آپ کو ویسا ہی ثابت کرو
ان الفتی من یقول ھا انا ذا لیس الفتی من یقول کان ابی
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب مدظلہم العالی کی خدمت میں عرصہ ہوا ایک عریضہ ارسال کیا تھا اس کے تھوڑے عرصہ بعد دوسرا عریضہ بھائی مقبول صاحب کی خدمت میں ارسال کیا، مگر تعجب ہے کہ آج تک کسی کا جواب نہیں آیا ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راستہ میں کہیں ضائع ہوا آپ مہربانی کر کے دونوں حضرات ونیز جملہ واقفین کی خدمت میں مؤدبانہ سلام عرض کردیں اور خصوصیت سے حضرت مولانا مدظلہم اور مولانا رائے پوری مدظلہم کی خدمت اقدس میں زبانی یا بذریعہ تحریر اس عاجز کی طرف سے نہایت ادب سے سلام مسنون کے بعد دعائے فلاح دارین کی التجا کردیں اور اگر ہمت کر کے دوچار پیسہ کا ٹکٹ خرچ کر کے اس عاجز کو مدینہ منورہ کے پتہ پر دو چار حرف خیروعافیت وغیرہ کے لکھ بھیجیں تو آپ کی سعادت مندی سے بعید نہیں معلوم ہوتا !
میاں الیاس کو بھی ایک خط لکھا ہے مگر وہ تو ہمیشہ کے سست درسست اپنے مطلب میں چست ہیں ! ہم جیسے نابکاروں کی دلداری کی کیا پرواہ کریں گے، مگر یاد رہے گی کہ خدانخواستہ یہ سراپا عصیاں ہندوستان میں آگیا تو ایسی خبر لے گا کہ وہ بھی یاد کریں گے ! اور اگر خدا نخواستہ وہ مدینہ منورہ آگئے تو پھر کیا پوچھنا ! ہندوستان کا راستہ ہی نہ بھلادیا تو کہنا ! !
اینجانب علیہ الرحمة عنقریب ملک ِشام کو طلاقِ مغلظہ دے کر دو چار روز میں مدینہ منورہ کو بھاگا چاہتے ہیں ، بس گویا کہ پابرکاب ہیں ! کیا عجب ہے کہ راستہ میں قدس شریف کی بھی زیارت سے شرف حاصل ہو، نہیں تو سوئز ہوتے ہوئے ینبوع میں جاکودیں گے اور پھر کیف خلقت پر سوا ہوکر منزلِ مقصود کی راہ لیویں گے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب مدظلہم کے واسطے ایک سماوار مولانا خلیل احمد صاحب مدظلہم نے خرید کر ارسال کرنے کے واسطے ارشاد فرمایا تھا، اپنی بدنصیبی کے اثر سے کچھ کا کچھ ہوگیا اب جاکر دیکھیں گے، مل گیا تو روانگی کی فکر کریں گے
میاں زکریا یاد رکھو، اگر میرے خط کا جواب نہ دیا تو پھر میں روٹھ جاؤں گا پھر کتنا بھی مناؤگے منوں گا ہی نہیں ، بس اور زیادہ بات چیت نہیں کرتا ! !
اس کے بعد یہ عبارت بھی تھی جس کو مولانا مرحوم نے قلم زدکردیا تھا
''اگر شکل اوّل کا نتیجہ ظہور پذیر ہو تو اس کو دعا و پیار نہیں تو موجب تاخیر کیا ہے اینجانب علیہ الرحمة کے نتیجہ صاحب تو اپنی ماں کو بھی لے گئے، اکیلے رہنا گوار نہیں ہوا اور طرفہ یہ کہ خود تو مدینہ میں اور اماں جان تبوک میں ! ! فقط''
سیّد احمد غفرلہ ٢٦ جمادی الاولیٰ ١٣٣٧ھ
٭٭٭
حضرت مولانا کے والا نامے میں سماوار کے سلسلہ میں جو لفظ ہے کہ ''کچھ کا کچھ ہوگیا'' اس لفظ میں اشارہ اس حادثہ ٔ عظیمہ کی طرف ہے جبکہ مدینہ کے بالکلیہ انخلاء کا حکومت ِترکیہ نے اپنے آخری دور میں حکم کیا تھا اور حضرت مولانا سیّد احمد صاحب رحمة اللہ علیہ اڈریا نوپل کی طرف منتقل کیے گئے تھے !
اس کا مختصر حال حضرت مدنی قدس سرہ کی خود نوشت سوانح (نقش ِ حیات) جلد اوّل ص٤ پر ہے !
شام سے واپسی کے متعلق جو مولانا نے اس خط میں لکھا ہے وہ اسی طویل غیبت سے واپسی کا ذکر ہے اور جب ١٣٣٨ھ میں اس ناکارہ کی پہلی حاضری حجاز مقدس ہوئی اس وقت مولانا سیّد احمد صاحب رحمة اللہ علیہ نئے نئے واپس شدہ تھے ۔ حضرت مولانا سید احمد صاحب قدس سرہ کے مکاتیب کا بھی بڑا ہی ذخیرہ اس سیہ کار کے کتب خانہ میں محفوظ ہے اور جو ظرافت ومحبت کا نمونہ اوپر کے خط میں ہے اس کے نمونے بھی ان خطوط میں بہت ملیں گے !
بالخصوص ١٣٣٨ء کے بعد سے وصال تک روز افرزوں سلسلہ بڑھتاہی رہا ١٣٤٦ھ کے بعد سے چونکہ مولانا رحمة اللہ علیہ کے مدرسہ شرعیہ کا حساب اور ہندوستان کا چندہ، مدرسہ شرعیہ کی روداد کا شائع ہونا بھی اس سیہ کار سے متعلق ہوگیا تھا اس لیے کوئی ہفتہ بھی لمبے چوڑے خط سے خالی نہ جاتا تھا اور اس کے درمیان میں لطائف وظرائف اور محبت آمیز فقرے کثرت سے ہوتے تھے ان کے ایک شاگرد ِ رشید الحاج عبدالحمید جو آج کل جدہ کے کسی بڑے عہدہ پر فائز ہیں ١٣٤٥ھ میں میری مدینہ پاک سے واپسی کے بعد ان کی شادی ہوئی، میں اور مولانا مرحوم خوب چاہتے رہے کہ میرے سامنے ہوجائے مگر مقدر نہ ہوا، میری مدینے سے روانگی کے کچھ دنوں بعد ہوئی تو حضرت مولانا مرحوم نے ایک پرظرافت خط لکھا تھا کہ آپ کی روانگی کے بعد آپ کے عبدالحمیدصاحب دولہا بن گئے ہیں ! چناں چنیں میں نے آپ کی طرف سے پانچ گنی (اشرفی) ان کے نکاح میں خرچ کر کے آپ کے حساب میں درج کردی ہیں ! میں نے بھی اس کے جواب میں ترکی بہ ترکی ان کو دولہا بنے ہوئے نہ دیکھنے کی حسرت اور شادی میں عدمِ شرکت پر قلق اور پانچ گنی کی قلت پر افسوس لکھ دیا، اب تو میرا بہت ہی دل چاہ رہا ہے کہ حضرت مولانا سیّد احمد صاحب کی شفقتیں اور کچھ خطوط نقل کراؤں ، مگر وقت نہیں ہے، جو چیزیں علی گڑھ میں لکھوا چکا ہوں وہیں پوری ہوجائیں تو غنیمت ہے۔ ( آپ بیتی ص ٤١٦ تا ٤٢٠)
تقسیم ِ ہند کے ہنگامی حالات و چند واقعات :
٢٨ ذی الحجہ ١٣٦٦ھ مطابق ١٢ نومبر ١٩٤٧ء کو حضرت مدنی قدس سرہ نور اللہ مرقدہ دیوبند سے روانہ ہوکر شب کو مظفر نگر میں قیام فرماکر دوپہر کو بڑی وقت سے دہلی پہنچے وہاں گاندھی جی، جواہر لال نہرو نے اس پربہت ہی قلق اور اظہارِ افسوس کیا کہ آپ اس قدر مشقت اور تکلیف اٹھا کر تشریف لائے ہیں ، آپ اطلاع کرادیا کریں ، سرکاری ٹرک آپ کو لایا کرے گا، وہی لے جایا کرے گا اور اس وقت بھی ان لوگوں نے حضرت قدس سرہ کے لیے ایک سرکاری ٹرک تجویز کیا جو حضرت کو دیوبند لے جائے اور چار فوجی گور کھا اس پر ہتھیاروں سے مسلح حفاظت کے لیے مقرر ہوئے !
حضرت قدس سرہ نے اس ناکارہ کو نظام الدین اطلاع کرائی کہ میں سرکاری ٹرک میں فوجی پہرہ کے ساتھ دیوبند جارہا ہوں ، تمہاری مستورات (جو سب نظام الدین والدہ ہارون کیشدتِ علالت کی وجہ سے ٢١ شعبان ١٣٦٦ھ سے گئی ہوئی تھیں اور وہاں ہی محبوس تھیں ) کو اس وقت میرے ساتھ جانے میں سہولت رہے گی، میں تو پہلے ہی سے آنے کے لیے سوچ رہا تھا، مستورات کی آمد کے لیے اس سے زیادہ آسان صورت کوئی نہ تھی اس لیے مولانا یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ نے بھی طیب ِ خاطر سے نہیں بلکہ قلق سے سب کو اجازت دے دی ! اور ٣ محرم ١٣٦٧ھ مطابق ١٧ نومبر ١٩٤٧ھ دوشنبہ کی صبح کو حضرت نے اپنا ٹرک نظام الدین بھیج دیا اور زکریا مع مستورات اور مولانا یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ سے طرفین کی آبدیدہ نگاہوں کے ساتھ رخصت ہوکر سوار ہوگئے ! وہ ٹرک چاروں طرف سے پردوں سے بند تھا اور چاروں کونوں پر چار گور کھا مسلح کھڑے ہوئے تھے، آگے کے حصہ میں حضرت اقدس مدنی قدس سرہ اور عزیز مولوی عبدالمجید مرحوم اور عالی جناب محمود علی خاں صاحب رئیس کیلا شپور جو اتفاق سے دہلی گئے ہوئے تھے اپنی ریوالور کے ساتھ آگے بیٹھے تھے اور یہ ناکارہ مستورات کے ساتھ پیچھے تھا ، نوبجے دہلی سے چل کر ٧ میل کے قریب پہنچے تھے کہ دفعةً ٹرک خراب ہوگیا، بہت ہی دقت اور مشقت سے اس کو دھکے لگائے، مستورات کو اتارنا مشکل تھا لیکن حضرت مدنی قدس سرہ نے باوجود اپنے ضعف وپیری کے بدنی قوت سے زیادہ اپنی روحانی قوتوں کے ذریعہ اس کو بنفس نفیس دھکیلا !
حضرت ہی کی برکت سے وہ چل سکا، ورنہ اس قدر سخت وزنی تھا کہ ہم چند ضعفاء کے قابو کا نہیں تھا، ہم لوگوں کے دھکیلنے سے وہ ذرا بھی جنبش نہ کرتا، حضرت قدس سرہ کے زور سے ہی وہ حرکت کرتا تھا، بہت مشکل سے پانچ چھ گھنٹے میں سونتا تک پہنچا وہاں ایک مدرسہ بچوں کا تھا گاؤں والے اور مدرسہ والے حضرت قدس سرہ کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے اور وہ لوگ اپنے یہاں سے مکئی، چاول وغیرہ جس قسم کی بھی ان کے یہاں روٹیاں تھیں اور ساگ وغیرہ لے کر آئے چونکہ میرے ساتھ عورتیں تھیں اس لیے مدرسہ کا ایک حصہ خالی کر کے مستورات کو پہنچایا اور میں اور حضرت قدس سرہ مسجد میں چلے گئے اور فوجی ٹرک کو درست کرتے رہے ! ٹیلیفون تو ہاں کوئی تھا نہیں ، ایک فوجی گاڑی ادھر سے جاتے ہوئی ملی ان فوجیوں نے ان کے ذریعہ کوئی پیام بھی بھیجا، مغرب کے بعد وہ ٹرک درست ہوا، انہوں نے چلنے کا تقاضا کیا !
حضرت نے فرمایا کہ میرے ساتھ مستورات ہیں بے وقت جانے میں دقت ہے، اب صبح کو چلیں گے مگر وہ فوجی گورکھے کہاں مانتے، زیادہ اصرار کیا، جلدی جلدی عشاء کی نماز پڑھی کھانا کھایا، ٹرک میں چونکہ چاروں طرف پردہ تھا اور چاروں کونے پر فوجی تھے اس لیے راستہ میں بحمد اللہ کسی نے تعرض نہیں کیا، مظفر نگر آکر حضرت قدس سرہ نے ایک حکیم صاحب کے مکان پر ٹرک ٹھہراکر مجھ سے یہ فرمایا کہ دیوبند میرے جانے کے بعد یہ آگے نہیں جائیں گے، تم کو مستورات کی وجہ سے دقت ہوگی، میں مظفر نگر سے دیوبند دن میں آسانی سے چلا جاؤں گا۔ حضرت نور اللہ مرقدہ نے ان حکیم صاحب کے مکان پر خوب زنجیریں بجائیں ، میرے سامنے تو کواڑکھلے نہیں ، حضرت قدس سرہ نے فرمایا کہ تم کو دیر ہورہی ہے اور فوجی لوگوں کو بھی خوب تقاضا ہورہا تھا اس لیے مظفر نگر سے براہِ روڑکی سہارنپور صبح کے چار بجے پہنچے۔ ( آپ بیتی ص ٤٧٣ تا ٤٧٥)
معرکة الاراء مشورہ :
١٠ محرم ١٣٦٧ھ دو شنبہ کی صبح کو حضرت مدنی قدس سرہ ڈیڑھ بجے تشریف لائے اور کار میں گنگوہ تشریف لے گئے ! حضرت رائے پوری قدس سرہ بھی دو شنبہ کی صبح کو حضرت مدنی کی آمد کی خبر پر دوشنبہ کی صبح کو ہی تشریف لے آئے تھے مگر حضرت مدنی اسٹیشن سے سیدھے گنگوہ تشریف لے گئے تھے، اس لیے نظام سفر واپسی کا معلوم نہ ہوسکا اس لیے حضرت رائے پوری قدس سرہ حضرت مدنی کا دن بھر انتظار فرماکر بعد عصر واپس تشریف لے گئے ! مغرب بعد حضرت واپس تشریف لائے اور حضرت رائے پوری کی آمد وانتظارو واپسی کا حال معلوم ہوا تو علی الصباح بہٹ تشریف لے گئے اور وہاں جاکر جب معلوم ہوا کہ حضرت رائے پوری جاچکے تو پیچھے پیچھے رائے پور تشریف لے گئے اور دونوں اکابر عصر سے پہلے سہارنپور تشریف لائے اور بعد مغرب وہ معرکة الاراء مشورہ ہوا جس کا بہت سی جگہ اس زمانے میں رسائل واخبارات میں ذکر آیا تھا۔ علی میاں نے بھی حضر ت رائے پوری کی سوانح میں اس کا ذکر کیا ہے !
میں دہلی سے واپسی پر حضرت مدنی قدس سرہ سے اور سہارنپور آمد پر حضرت رائے پوری سے عرض کر چکا تھا کہ دہلی میں بہت زورو اِصرار میرے اور عزیز یوسف کے پاکستان چلے جانے پر رہا، مگر میں آپ دونوں حضرات کے مشورے پر اپنے سفر کو معلق کیے ہوئے ہوں اور عزیز یوسف کا سفر مجھ پر موقوف ہے ! رائے پور میں اسی دن حضرت اقدس رائے پوری بھی اشارةً اس قسم کا ذکر کر چکے تھے کہ پنجاب والوں کا مجھ پر بھی زور ہورہا مگر میں نے حضرت والا اور حضرت شیخ کے مشورے پر موقوف کررکھا ہے اس لیے یہ دونوں حضرات مشترک طور پر واپس تشریف لائے اور بعد مغرب کچے گھر میں یہ سیہ کار اور دونوں اکابر مشورے کے لیے جمع ہوئے اور اس کی ابتداء حضرت رائے پوری نے اس عنوان سے کی کہ حضرت ! (خطاب حضرت مدنی کو تھا) اپنے سے تعلق رکھنے والے تو سارے مشرقی اور مغربی پنجاب کے تھے اور حضرت قدس سرہ (اعلیٰ حضرت رائے پوری) کے متعلقین بھی زیادہ تر ان ہی دو جگہ کے تھے۔ مشرقی تو سارا مغربی کی طرف منتقل ہوگیا، ان سب حضرات کا بہت اصرار ہورہا کہ میں بھی پاکستان چلا جاؤں ۔ رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن صاحب بھی حضرت اقدس رائے پوری کو پاکی مسلمانوں کی ضرورتوں کا بار بار احساس دلاتے تھے اور خود اپنا جانا بھی حضرت رائے پوری کی تشریف بری پر محول کیے ہوئے تھے اور یہ بھی حضرت نے فرمایا کہ میرا تو مکان بھی مغربی میں ہے اور ان سب مظلومین کی دلداری بھی اسی میں ہے ! شروع رمضان ہی سے ان کا اصرار ہورہا ہے مگر آپ دونوں حضرات کے مشورے پر میں نے معلق کر رکھا ہے ! یہاں تو پھر بھی اللہ کے فضل سے اہل اللہ ہیں مگر وہاں اللہ اللہ کرنے والوں کا سلسلہ تقریباً ختم ہوگیا ! کچھ شہید ہوگئے کچھ اجڑ گئے اور تقریباً حضرت کی گفتگو کا رخ یہ تھا کہ وہاں قیام ضروری ہے !
اس سب کو سن کو حضرت مدنی قدس سرہ نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور آبدیدہ ہوکر فرمایا کہ ہماری اسکیم توفیل ہوگئی، ورنہ نہ تو یہ قتل و غارت ہوتا اور نہ یہ تبادلۂ آبادی ہوتا ! حضرت مدنی کا فارمولہ یہ تھا کہ صوبے سب آزاد ہوں ، داخلی امور میں سب خودمختار، خارجی امور فوج، ڈاک خانہ وغیرہ سب مرکز کے تحت مرکز میں ہندومسلم سب برابر ہوں گے ! ٤٥ ، ٤٥ اور ١٠ جملہ اقلیتیں !
گاندھی جی نے تو اس کو منظور کر لیا تھا مگر مسٹر جناح نے اس کا انکار کردیا۔ حضرت قدس سرہ نے فرمایا کہ اگر ہماری تجویز مان لیتے تو نہ کشت وخون کی نوبت آتی اور نہ تبادلۂ آبادی کی، اب میں تو کسی کو جانے سے نہیں روکتا، اگرچہ میرا وطن مدینہ ہے اور محمود وہاں بلانے پر اصرار بھی کر رہا ہے مگر ہندوستانی مسلمانوں کو اس بے سروسامانی اور دہشت اور قتل و غارت گری میں چھوڑ کر میں نہیں جاسکتا اور جسے اپنی جان ومال، عزت وآبرو، دین اور دنیا یہاں کے مسلمانوں پر نثار کرنی ہو وہ یہاں ٹھہرے اور جس کو تحمل نہ ہووہ ضرور چلا جاوے ! حضرت قدس سرہ کے اس ارشاد پر میں جلدی سے بول پڑا کہ میں تو حضرت ہی کے ساتھ ہوں ! حضرت اقدس رائے پوری نے فرمایا کہ تم دونوں کو چھوڑ کر میرا جانا بھی مشکل ہے ! میں نے تو اس گفتگو کو کسی سے نقل نہیں کیا اور توقع ان حضرات سے بھی معلوم نہیں ہوئی ،لیکن عشاء کی نماز پڑھتے ہی عمومی شور ہر شخص کی زبان پر سنا کہ اکابر ثلاثہ کا فیصلہ یہاں رہنے کا ہوگیا ہے اور پھر ان ہی دونوں بزرگوں کی برکت تھی اور اصل تو اللہ ہی کا انعام واحسان تھا کہ ایک دن پہلے تک جو لوگ تشویش میں تھے وہ اگلے دن اطمینان کی سی باتیں کر رہے تھے ! یہ زمانہ بھی قیامت کی یاد کو بہت ہی تازہ کر رہا تھا اور دنیا کی بے ثباتی ہر شخص پر ایسی مسلط تھی کہ بڑے بڑے قیمتی قیمتی برتن تانبے لوہے کے بہت ہی معمولی پیسوں میں فروخت ہوئے ! دہلی میں نیلا م ہوتے تھے اور تانبہ کے برتن بلا مبالغہ دو ڈھائی آنہ سیر فروخت ہوتے، رئیس لوگ اپنی کاروں میں نظام الدین اسپیشلوں میں سوار ہونے کے لیے جاتے اور کار اسٹیشن پر چھوڑ کر ریل میں سوار ہوجاتے ! !
مولانا حفظ الرحمن صاحب نے کئی مرتبہ افسوس سے فرمایا کہ لوگ سڑکوں پر عمدہ کاریں چھوڑ کر جارہے ہیں ، اگر جمعیة کو دے جائیں تو ان کو فروخت کر کے جمعیة کے کام میں لایا جاسکتا ہے، اب اس طرح لاوارثی مال کو کیا کام میں لایا جاوے ! لاقانونیت اس طرح پھیلی ہوئی تھی کہ اس کے قصے بھی بہت ہی ناقابل تحریر ہیں ، اس زمانے میں دہلی میں مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ اللہ تعالیٰ ان کو بلند درجات عطا فرماوے، سارے دن دہلی کے فساد زدہ علاقوں میں نہایت بے جگری سے پھرتے تھے، مسلمانوں کو دلاسہ دیتے اور گالیاں سنتے مگراللہ ان کو مراتب ِ عالیہ نصیب فرماوے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے تحمل اور برداشت خوب عطا فرمایا تھا۔ ( آپ بیتی ص ٥٧٧ ، ٥٧٨)
وسعت ظرفی اور حسن سلوک :
اور ان سے بڑھ کر میرے حضرت مدنی قدس سرہ تھے، سارے ہندوستان کا اسی خطرہ کے زمانے میں دورہ فرماتے اور مصائب پر ان کا اجر سناتے، بڑے لانبے لانبے دورے حضرت کے مسلمانوں کو جمانے کے سلسلہ میں ہوئے، ایک چیز پر مجھے بہت ہی رشک آیا، نہایت شدید مخالف، معاند لیگی جنہوں نے حضرت نور اللہ مرقدہ کو منہ درمنہ بہت کچھ کہا اور سنایا حضرت ان کو بھی بہت ہی تسلی کے خطوط تحریر فرماتے اور خود جاکر ان کو دلاسہ دلاتے اور ایسی گفتگو فرماتے جیسے یہ حضرت کا بہت ہی معین ومددگار ہے ! مجھے دو آبے کے متشدد لیگیوں کے متعلق خود سننے کی اور حضرت قدس سرہ کے گرامی نامے دیکھنے کی نوبت آئی کہ گھبرائیں نہیں ان شاء اللہ حالات کسی وقت سازگار ہوں گے، آپ کو جو تکلیف پیش آوے مجھے لکھیں میں ان شاء اللہ ہرنوع کی مدد کروں گا !
بعض لیگیوں کی سفارش کے لیے ہندوحکام کے پاس بھی تشریف لے گئے جن کے نام میں لکھوانا نہیں چاہتا، مگر حضرت کے علوشان کی داد ہمیشہ دوں گا کہ جن لوگوں نے حضرت کی شان میں غائبانہ اور منہ درمنہ سخت سخت الفاظ کہے حضرت نے ان کی سفارشیں اور اس بات تک کی ضمانتیں لیں کہ اب یہ لوگ آپ کے خلاف کچھ نہیں کہیں گے ! مگر لیگی حضرات کو اس پر بھی اعتماد نہ ہوا اور نہ حضرت کی اس سفارش کی قدر فرمائی اور پاکستان چلے گئے ! حضرت کو اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجات سے نوازے اس زمانے میں حضرت قدس سرہ پر تاثر بہت تھا بسا اوقات تقریروں میں کسی کسی بات پر آبدیدہ بھی ہوجاتے تھے۔
وہ محروم تمنا کیوں نہ سوئے آسمان دیکھے
کہ جو منزل بمنزل اپنی محنت رائیگاں دیکھے
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہ وارحمہ رحمة واسعة
(آپ بیتی ص ٥٨٠ ، ٥٨١)
(جاری ہے)




تربیت ِ اولاد قسط : ١٤
( افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا ! اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین

اولاد کو نیک بنانے کی پہلی منزل
٭٭٭
بچے پر ماں کے اخلاق و عادات کا اثر :
بچے اکثر مائوں کی گود میں پلتے ہیں جو مرد ہونے ہیں اور ان پر مائوں کے اخلاق و عادات کا بڑا اثر ہوتا ہے حتی کہ حکماء کا قول ہے کہ جس عمر میں بچہ عقل ہیولانی کے درجہ سے نکل جاتا ہے تو وہ اس وقت بات نہ کرسکے مگر اس کے دماغ میں ہر بات اور ہر فعل نقش (جم) ہوجاتا ہے اس لیے اس کے سامنے کوئی بات بھی بے جا اور نازیبا نہیں کرنی چاہیے بلکہ بعض حکماء نے یہ لکھا ہے کہ بچہ جس وقت ماں کے پیٹ میں جنین کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت بھی ماں کے افعال کا اثر پڑتا ہے اس لیے حکماء ِالٰہی نے یہ کہا ہے کہ ماں کو لازم ہے کہ حمل کے زمانے میں نہایت تقویٰ و طہارت سے رہے کیونکہ حمل کی حالت میں بھی اس کے افعال کا اثر جنین (بچہ) پر ہوتا ہے !
ایک حکایت :
اس کے متعلق ایک حکایت سنی ہے گو کتابی نہیں ہے لیکن سمجھانے کے واسطے اس کو بطورِ مثال کے بیان کرتا ہوں وہ یہ کہ ایک مرد و عورت بہت نیک تھے مگر ان کے بچہ نہ ہوتا تھا بڑی دعائوں اور امیدوں کے بعد حمل ٹھہرا اور بچہ کی امید ہوئی تو دونوں نے عہد کیا کہ دونوں زمانۂ حمل میں احتیاط اور تقوی سے رہیں گے ! مرد نے بھی بہت احتیاط کی تاکہ اس کے افعال کا اثر عورت پر نہ پڑے اور اس عورت کا اثر جنین (بچہ) پر نہ پڑے ! چنانچہ بڑی احتیاط کے بعد بچہ پیدا ہوا اور اس میں نیک و صلاح کے آثار ظاہر تھے جیسے جیسے بڑھتا گیا نیکی کے آثار نمایاں ہوتے گئے !
ایک مرتبہ وہ ہوشیار ہوکر باپ کے ساتھ بازار جارہا تھا کہ ایک کنجڑے کے ٹوکرے میں سے ایک بیر اٹھاکر کھالیا مرد کو حیرت ہوئی کہ یہ بات اس میں کہاں سے آئی گھر آکر بیوی سے پوچھا کہ بتلائو اس میں یہ عیب کہاں سے آیا ؟ معلوم ہوتا ہے کہ تونے حمل کے زمانہ میں کسی کی چوری کی ہے ! عورت نے کہا کہ میں سوچ کر بتلائوں گی پھر سوچ کر بتلایا کہ ہمارے پڑوسی کی بیری کی ایک شاخ ہمارے گھر میں لٹک رہی ہے اس میں سے بیر توڑکر میں نے کھالیا تھا کیونکہ میں نے غلطی سے اس کو چوری نہیں سمجھا ! !
جب جنین (ماں کے پیٹ میں بچہ) پر ہماری حرکتوں کا اثر ہوتا ہے تو ہوشیار بچوں کی طبیعت پر کیوں نہ اثر ہوگا گو وہ بات نہ کرسکتے ہوں مگر اثر بات کا لیتے ہیں اس واسطے اولاد کی اصلاح کے لیے عورتوں کی تعلیم کا اہتمام نہایت ضروری ہے ! ( التبلیغ وعظ الاستماع والاتباع )
پس اولاد کے نیک ہونے کے لیے پہلا درجہ تو یہ ہے کہ والدین خود نیک بنیں !
اولاد کو نیک بنانے کا دوسرا درجہ :
دوسرا درجہ یہ ہے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کے سامنے بھی کوئی بے جاحرکت نہ کریں اگر چہ وہ بالکل نا سمجھ بچہ ہو کیونکہ حکماء نے لکھاہے کہ بچہ کے دماغ کی مثال پریس جیسی ہے کہ جو چیزاس کے سامنے آتی ہے وہ دماغ میں منقش ہوجاتی ہے پھر جب اس کو ہوش آتاہے تو وہی نقوش اس کے سامنے آجاتے ہیں اور وہ ایسے ہی کام کر نے لگتا ہے جیسے اس کے دماغ میں پہلے ہی سے منقش تھے !
غرض یہ مت سمجھ کہ یہ نا سمجھ بچہ ہے یہ کیا سمجھے گا ! یاد رکھو جو بھی کام تم اس کے سامنے کرو گے ان سے اس کے اخلاق پر ضرور اثر پڑے گا۔ حکماء نے لکھا ہے کہ دودھ پیتا بچہ جو کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتا اس کے سامنے بھی نامناسب کام نہ کرے تاکہ اس کے متخیلہ (دل و دماغ) پر ان افعال کا اثر نہ ہو بلکہ یہاں تک لکھا کہ جنین (بچہ کے ماں کے پیٹ میں ) ہونے کی حالت میں بھی ماں کو اچھے اور پاکیزہ خیال رکھنا چاہیے، اس کا بھی اثر پڑتا ہے ! اصلاح کا افضل طریقہ یہ ہے کہ جو کام دوسروں سے کرا نا چاہتے ہو ان کو خود کر نے لگو ! ( حسن العزیز الکمال فی الدین للنساء )
شروع عمر میں بچہ کی تربیت و نگرانی کی زیادہ ضرورت ہے :
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائِ (شروع) عمر میں بچہ کی سمجھ ہی کیا ہوتی ہے جو وہ اچھی یابری بات کا اثر لیں ، بچپن میں ان کی تربیت کر نے والا (پڑھانے والا) خواہ کیسا اور کوئی بھی ہو، سمجھ آجانے کے بعد کسی نیک آدمی کے پاس ان کو رکھنے کی ضرورت ہونی چاہیے ! !
سو خوب سمجھ لیجیے کہ یہ خیال غلط ہے ! بچپن میں جبکہ بچہ دودھ پیتا ہے اس وقت بھی اس کے دماغ میں اخذ کا مادہ ہوتا ہے (یعنی کسی بات کااثر قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے) گو وہ زبان سے کچھ نہ کہہ سکے ! اور اس کی مثال ایسی ہوتی ہے کہ جیسے فوٹو گرافر کی ،تم جو کچھ کہتے ہو وہ سب اس میں جا کر محفوظ اور منقش ہوجاتا ہے گو اس وقت آواز نہ نکلے لیکن جس وقت ان نقوش پر سوئی چلے گی وہ سب باتیں اس میں سے بعینہ نکلیں گی ! یہی حال بچوں کے دماغ کا ہے کہ ابتدائی عمر میں بھی وہ سب باتوں کو اخذکر کے محفوظ کر لیتا ہے گو اس وقت ان پر عمل نہ کر سکے یا زبان سے ظاہر نہ کر سکے پھر جب اس میں بولنے اور عمل کرنے کی پوری قوت ہوجاتی ہے توپہلی باتوں کے آثار اس سے ظاہر ہونے لگتے ہیں !
ایک عقلمند تجربہ کار کا قول :
چار پانچ سال کی عمر میں بچہ میں اچھی یا بری عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں ! ایک تجربہ کار کا مقولہ ہے کہ بچوں کی اصلاح کا وقت پانچ سال تک ہے اس مدت میں جتنے اخلاق اس میں پختہ ہونے ہوتے ہیں پختہ ہوجاتے ہیں اس کے بعد اس میں پھر کوئی عادت پختہ نہیں ہوتی ! اس سے معلوم ہوا کہ ہم جس زمانہ کو نا سمجھی کا زمانہ خیال کرتے ہیں وہی وقت بچوں کی اصلاح کا ہے اور بچے اسی زمانہ میں سب کچھ اخذ کر لیتے ہیں یعنی حاصل کر لیتے ہیں ! ( الکمال فی الدین للنساء )
سب سے بڑے بچہ کی اصلاح و تربیت کی زیادہ ضرورت :
ایک مسماة نے بیان کیا کہ بچوں کی اصلاح کا سہل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے بچہ کی پوری طور پر تربیت کر دی جائے پھر سارے بچے اسی جیسے اٹھیں گے ! جیسے کام کرتا ہوااس کو دیکھیں گے اگلے بچے (یعنی اس کے چھوٹے بہن بھائی ) بھی وہی کام کریں گے اور اسی کی عادتیں اور خصلتیں سیکھ لیں گے ! ( الکمال فی الدین للنساء ملحق حقوق الزوجین )
تعلیم و تربیت اور اچھی عادتیں سکھانے کی ضرورت :
تیسرا درجہ یہ ہے کہ جب بچہ بڑا ہوجائے تو اس کو دینی تعلیم سکھاؤ اور خلاف شریعت کا موں سے بچاؤ اور نیک لوگوں کے صحبت میں رکھو، برے لوگوں کی صحبت سے بچاؤ ! غرض جس طرح بزرگوں نے لکھا ہے اسی طرح بچوں کی تعلیم کا اہتمام کرو ! بعض عورتیں اس میں بہت کوتاہی کرتی ہیں اور بچوں کے اخلاق کی درستگی زیادہ تر عورتوں ہی کے اہتمام کر نے سے ہو سکتی ہے کیونکہ بچے شروع میں زیادہ عورتوں کے پاس ہی رہتے ہیں ! اولاد کے یہ حقوق صرف عورتوں ہی کے ذمہ نہیں بلکہ مردوں کے بھی ذمہ ہیں ! (حقوق البیت)
اکثر لوگ بچپن میں تربیت کا اہتمام نہیں کرتے، یوں کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تو بچے ہیں حالانکہ بچپن ہی کی عادت پختہ ہوجاتی ہے، جیسی عادت ڈالی جاتی ہے وہ آخر تک رہتی ہے اور یہی وقت ہے اخلاق کی درستگی اور خیالات کی پختہ گی کا ! بچپن کا علم ایسا پختہ ہوتا ہے کہ کبھی نہیں نکلتاالا ماشاء اللہ ! چنانچہ بچہ شروع میں ماں باپ کی گود میں رہتا ہے اور ان ہی کو ماں باپ سمجھتا ہے بعدمیں اگر کوئی شک ڈالے کہ یہ تمہارے ماں باپ نہیں ہیں خواہ کتنے ہی لوگ شک ڈالنے والے ہوں تو کبھی شک نہ ہوگا ! یہ ہے پچپن کے خیالات کی پختگی ! (حسن العزیز)
(جاری ہے)




قسط : ٢٤
رحمن کے خاص بندے
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری ، استاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
شرک کی بعض مروجہ صورتیں :
علامہ احمد رومی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب '' مجالس الابرار'' میں شرک کی درج ذیل چھ قسمیں بیان فرمائی ہیں
(١) شرکِ استقلال :
یعنی ایک یا زیادہ مستقل معبود اور خداؤں کو ماننا جیسے مجوسی (آتش پرست) خالقُ الخیر کو ''یزدان'' اور'' خالقُ الشر '' کو ''اہرمن'' کہتے ہیں اسی طرح مشرکین اور ہندو متعدد معبود مانتے ہیں اس تصور کا قرآنِ کریم میں جابجا بہت ہی مضبوط انداز میں رد کیا گیا ہے !
(٢) شرکِ تبعیض / شرکِ تثلیث :
یعنی مثلاً ایک کے بجائے تین خداؤں کو ماننا جیسے نصاریٰ (عیسائی) اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام اور روح القدس یا حضرت مریم علیہا السلام ان تینوں کے مجموعے کو ایک کہتے ہیں جس سے انہوں نے ''تین ایک'' اور ''ایک تین'' کا فلسفہ ایجاد کیا ! قرآن کریم میں اس نظریہ کی بھی پرزور انداز میں مذمت کی گئی ہے ارشادِ خداوندی ہے
( لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰہ وَّاحِد وَّاِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْھُمْ عَذَاب اَلِیْم ) ( المائدة : ٧٣ )
''اور بے شک وہ لوگ کافر ہوئے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ! حالانکہ ایک معبود ِ حقیقی کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور اگر وہ اپنی کہی ہوئی بات سے باز نہ آئے
تو ان میں سے کفر پر قائم رہنے والوں کو ضرور بالضرور درناک عذاب پہنچے گا''
اور دوسری جگہ فرمایا گیا :
( وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَاثَة اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہ وَّاحِد سُبْحَانَہ اَنْ یَّکُوْنَ لَہ وَلَد لَہُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا ۔ ( النساء : ١٧١ )
''اور یہ نہ ہو کہ خدا تین ہیں ! اس نظر یہ سے باز آجاؤ، یہی تمہارے لیے بہتر ہوگا بلاشبہ اللہ تو صرف ایک ہے ! اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، آسمان وزمین میں جو کچھ ہے وہ سب اسی کی مِلک ہے اور اللہ تعالیٰ کافی ہے کارساز''
معلوم ہوا کہ تثلیث کا عقیدہ بھی سراسر غیر معقول اور قطعاً لچر ہے ! !
(٣) شرکِ تقریب :
یعنی اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کے لیے کسی کو معبود بناکر خوش کرنا ! اس کی تردید کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایاگیا
( وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ) ( سُورہ یونس : ١٨ )
''اور اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نقصان پہنچا سکے اور نہ نفع ! اور کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں ''(گویا اللہ کے پیش کار ہیں )
حالانکہ مشرکین کا ان بتوں وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں سفارشی ماننا سراسر بے دلیل اور قطعاً من گھڑت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ پر نہ تو کسی کا زور اور جبر چل سکتا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی مجال ہوسکتی ہے ! !
سیّدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد شیطان کی برابر یہ کوشش رہی کہ لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کردے تاآنکہ اس نے تلبیہ کے اندر یہ الفاظ شامل کرادیے
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکَا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہ وَمَا مَلَکَہ
''میں حاضر ہوں ، اے اللہ میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ، مگر تیرا وہ شریک جس کا تو ہی مالک ہے اور وہ از خود مالک نہیں ہے''
(گویا کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار دینے کی وجہ سے وہ شریک بنایا گیا ہے نعوذ باللّٰہ منہ)
سیّدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس تلبیہ کے ذریعہ شیطان نے پوری قوم کو اسلام سے نکال کر شرک میں مبتلا کردیا ! ( مجمع الزوائد ج٣ ص ٢٢٣)
اور سیّدنا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ مشرکین کے اسی من گھڑت تلبیہ کے تناظر میں یہ آیت نازل ہوئی
( ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ شُرَکَآئَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآئ تَخَافُوْنَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ ) ( سُورة الروم : ٢٨ )
''اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر ہی سے ایک مثال بیان فرمائی ہے، بتاؤ کیا تمہارے غلام باندیاں ہماری دی ہوئی روزی میں تمہارے شریک ہیں ؟ کہ تم سب اس میں برابر ہو، اور تم ان سے ایسا ہی خطرہ رکھو جیسا تم آپس میں رکھتے ہو''
یعنی جب تم اپنے غلاموں کو جو تم جیسے ہی انسان ہیں ، اپنے ساتھ برابر کا شریک نہیں مانتے، تو بھلا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی کسی مخلوق کو کیسے شریک قرار دیا جاسکتا ہے یہ تو بالکل خلافِ عقل بات ہے ١
(٤) شرکِ تقلید :
یعنی باپ دادا یا بڑوں کی تقلید میں بلا سمجھے بوجے شرک کا قائل ہونا ! اس پر نکیر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا گیا :
( قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَاؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
شَیْئًا وَّلاَ یَھْتَدُوْنَ ) ( سُورة البقرة : ١٧ )
١ مجمع الزوائد ج٣ ص ٢٢٣
''مشرکین کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباء واجداد کو پایا ہے ! تو بھلا اگرچہ ان کے باپ داد کچھ نہ سمجھتے ہوں اور سیدھا راستہ نہ جانتے ہوں ''
(یعنی ایسی گم کر دہ راہوں کی پیروی کیسے درست اور معتبر ہوسکتی ہے ؟ )
اور قیامت کی منظر کشی کرتے ہوئے مشرکین کا یہ جملہ نقل کیا گیا
( وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآئَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا ) ١
''اور ( مشرکین قیامت میں ) کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی بات مانی پھر انہوں نے ہم کو راہ حق سے گمراہ کردیا''
اہم تنبیہ : واضح ہوکہ مشرکین کی تقلید تعصب یا جہالت پر مبنی ہونے کی وجہ سے شرک تھی ! اس کے بالمقابل ائمہ اربعہ کی تقلید کا مطلب یہ ہے کہ ''دلیل (قرآن وسنت) سے حکم سمجھنے کے بارے میں جان کر ائمہ اور علماء کی اتباع کرنا'' یہ تقلید ممنوع نہیں بلکہ کم علم رکھنے والوں کے لیے پسندیدہ ہے اور گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہے جس کے دلائل خود نصوص میں موجود ہیں لہٰذا اس کا موازنہ مشرکین کی مذموم تقلید سے کرنا صحیح نہیں ہے !
(٥) شرکِ اسباب :
یعنی اسباب کو مؤثر حقیقی سمجھنا اور نظام غیبی کا قائل نہ ہونا ! جیسے کوئی بارشوں میں موسموں کی تاثیر کا قائل ہو اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت یا تصرف کو ان میں نہ مانے !
(٦) شرکِ اغراض :
یعنی غیر اللہ کو خوش کرنے یا اس سے مفاد حاصل کرنے کے لیے عبادت کرنا (جیسے آج کل بعض فرقے اپنے مذہبی مقتداء کو سجدہ کرتے ہیں ) ٢
١ سُورة الاحزاب : ٦٧
٢ اضافہ و تلخیص مجالس الابرار ص ١٥٠ تا ١٥٢ بحوالہ بدر اللیالی شرح بدء الامالی
عبادات کے اعتبار سے شرک کی چار تقسیمات :
واضح ہو کہ عبادات خواہ بدنی ہوں یا مالی، قولی ہوں یا قلبی، سب صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں اور غیر اللہ کے لیے کسی بھی طرح کی عبادت کرنا موجب شرک ہے ! جس کی قدرے تفصیل ذیل میں درج ہے
(١) مالی عبادات میں شرک :
یعنی غیر اللہ کے لیے نذرومت وغیرہ ماننا ،غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا، یا مٹھائی وغیرہ غیر اللہ کے نام پر تقسیم کرنا، جیسے کہا جائے کہ فلاں بزرگ کے تقرب کے لیے یہ بکرا صدقہ کرتا ہوں اسے علماء نے ( وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہ ) ١ کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے !
(٢) بدنی عبادات میں شرک :
یعنی غیر اللہ کے لیے رکوع یا سجدہ کرنا ! اگر غیر اللہ کو متصرف مانے تو شرک ہے ورنہ حرام ہے سیّدنا حضرت انس رضی بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا کہ ''کیا ہم اپنے بھائی یا دوست سے ملاقات کے وقت جھک سکتے ہیں '' آپ نے فرمایا ''نہیں '' پھر عرض کیا کہ ''کیا مصافحہ کر سکتے ہیں ؟ '' تو آپ نے فرمایا ''ہاں '' ٢
دیکھئے آپ نے ''انحنائ'' یعنی جھکنے سے منع فرمایا اس لیے کہ ''انحنائ'' کا آخری درجہ سجدہ ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے کسی اور کے لیے جائز نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
( وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا) ( سُورة الجن : ١٨ )
''اورسجدہ کی جگہیں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں پس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مت پکارا کرو''
نیز ارشاد خدا وندی ہے
( لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ ) (حٰم السجدة : ٣٧)
''مت سجدہ کرو سورج کو اور نہ چاند کو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا فرمایا ہے''
١ سُورة المائدة : ٣ ٢ سُنن ترمذی باب ماجاء فی المصافحة رقم الحدیث ٢٧٢٨
(٣) قولی عبادات میں شرک :
یعنی غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارنا یا ان سے مدد مانگنا اس کو شرکِ قولی یا شرک فی الدعاء کہتے ہیں اگرچہ یہ عبادات بدنی میں شامل ہے لیکن چونکہ بہت سے لوگ غیر اللہ کے لیے قولی عبادات میں مبتلا ہیں اس لیے اس کو مستقل عنوان سے ذکر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ! درج ذیل آیات میں صراحتاً اس سے منع کیا گیا ہے
( اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَاد اَمْثَالُکُمْ ) (سُورة الاعراف : ١٩٤ )
''بلا شبہ جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تم ہی جیسے اللہ کے بندے ہیں ''
نیز فرمایا گیا
( وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ) (سُورة الفاطر : ١٣ )
''اور اللہ کو چھوڑ کر تم جن سے فریاد کرتے ہو وہ ایک کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں '' (یعنی بالکل لاچار ہیں )
(٤) قلبی عبادات میں شرک :
یعنی دل میں کسی سے اس طرح کاخوف یا امید رکھنا کہ اگر وہ ناراض ہوجائے توما فوق الاسباب ضرر پہنچادے گا اور اگر خوش ہوجائے تو فائدہ اور خیر پہنچادے گا حالانکہ یہ صفت صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
( وَکَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) (الانعام : ٨١)
''اور میں تمہارے( مقرر کردہ ) شریکوں سے کیوں ڈروں ؟ حالانکہ تم اس بات سے قطعاً خوف نہیں کھاتے کہ تم نے (از خود) اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسوں کو شریک بنارکھا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں اتاری پس دونوں فریقوں میں کون دل جمعی کا مستحق ہے ؟ بولو اگر تم سمجھ رکھتے ہو''
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا
( وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہ اِلَّا ھُوَ وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ) ( سُورة الانعام : ١٧ )
''اور اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائیں تو اس کے سوا اسے کوئی ہٹا نہیں سکتا اور اگر تمہارے ساتھ کسی خیر کا ارادہ فرمائیں تو وہ ہر چیز پر قادر ہیں ''
(مستفادوتلخیص از بدراللیالی شرح بدء الامالی ۔افادات حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم زکریا جنوبی افریقہ ج ١ ص ٤٣۔ ٤٥ مطبوعہ ادارہ الصدیق ڈابھیل)
اس کے برخلاف اسباب کے ذریعہ کسی کی مدد کرنا یا سبب ظاہری کے طور پر کسی انان سے مدد مانگنا ممنوع نہیں ہے۔
(جاری ہے)




جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے




مقاصد ِبعثت
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ، فاضل و مدرس جامعہ مدنیہ لاہو ر)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَ نَسْتَعِیْنُہ وَ نَسْتَغْفِرُہ وَ نُؤْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِئَاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہ وَ نَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہ وَ نَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہ ۔
صَلَّی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ وَ بَارَکَ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا
اَمَّابَعْدُ ! فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ )
صَدَقَ اللّٰہُ مَوْلَانَا الْعَلِیُّ الْعَظِیْمِ وَ بَلَّغَنَا رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ وَ نَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ لَمِنَ الشّٰھِدِیْنَ وَ الشَّاکِرِیْنَ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدِن النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَ اٰلِہِ وَصَحْبِہ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی عَدَدَ مَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی ۔
معزز علماء کرام، طلبہ عظام اور میرے محترم بھائیو اور دوستو !
اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو دنیا میں بھیجا ، کیوں بھیجا ، کیامقاصدہیں جن کو پورا کرنا تھا ؟ ابھی جومیں نے خطبہ میں آیت مبارکہ پڑھی ہے، اس میں ان سوالوں کا جواب ہے !
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) ( سُورة البقرة : ١٢٩ )
'' ہمارے پرور دگار ! ان میں ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو ان ہی میں سے ہو، جو آپ کے سامنے آپ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے''
اس آیت میں ان ہی مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اورآپ کے آنے کے موٹے موٹے مقاصد تین بیان کیے گئے ہیں !
(١) تلاوتِ آیات
(٢) تعلیم ِکتاب وحکمت
(٣) تزکیہ نفس
یہ تین مقاصد ہیں موٹے موٹے اور بڑے بڑے ،ویسے تو اور مقاصد بھی بہت سارے ہیں ، یہاں اللہ پاک نے صرف ان ہی تین کو ذکر کیا ، ہمارے ہاں تلاوتِ آیات پر بھی زور ہے ما شا اللہ ، تعلیم کتاب وحکمت کا بھی خوب خوب اہتمام ہے، اگر ہمارے ہاں کمی ہے تو تزکیۂ نفس کی کمی ہے !
تزکیۂ نفس کی اہمیت :
آپ غور کیجیے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضوراکرم صلی اللہ عليہ وسلم کے بھیجنے کے جو مقاصد ہیں چار جگہ ذکر فرمائے ہیں ،ایک تو اسی آیت میں یہاں اللہ تعالیٰ نے تعلیم کتاب وحکمت کو مقدم کیا اور تزکیۂ نفس کو بعد میں رکھا ! لیکن تین مقامات ایسے ہیں جہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تزکیہ کو مقدم رکھا ہے :
( کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ) ( سُورة البقرة : ١٥١ )
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے تزکیہ کو تعلیمِ کتاب وحکمت سے پہلے ذکر کیا
( لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ ) ( سُورہ الِ عمران : ١٦٤ )
اس جگہ بھی اللہ پاک نے تزکیہ کو پہلے ذکر کیا، سورۂ جمعہ میں ارشاد ہے :
( ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ) ( سُورة الجمعة : ٢ )
اس جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے تزکیہ کو پہلے ذکر کیا ہے !
غور فرمائیے ! اللہ تعالیٰ نے ان مقامات میں تزکیہ کو پہلے رکھا اور تعلیم کتاب وحکمت کو بعد میں ! ! اس سے تزکیہ کی اہمیت معلوم ہورہی ہے، آپ پڑھتے ہی ہیں کہ اَلْفَضْلُ لِلْمَتَقَدِّمِ پہلے آنے والے کی فضیلت ہے جس چیز کا ذکر پہلے ہوگا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی فضیلت بھی ہوگی اوراہمیت بھی ہوگی !
اللہ تعالیٰ نے سورة الشمس میں سات چیزوں کی قسم کھانے کے بعد فرمایا ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰھَا) یقینا کامیاب تو وہ ہوا جس نے اپنے آپ کو مزکی اور مصفی بنا لیا اور جس نے اپنے آپ کو گناہوں کی دلدل میں ڈال دیا وہ ناکام اور نامراد ہوگیا ! !
تزکیہ مقصود و مطلوب ہے :
معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے ہاں تزکیہ مقصود اور مطلوب چیز ہے ! ہمارے ہاں تلاوتِ آیات بھی ہے، تعلیم کتاب وحکمت بھی ہے اور سب کچھ ہے، ما شا اللہ ہو نا بھی چاہیے لیکن تزکیہ کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اس کی طرف بھی ہمیں توجہ دینی چاہیے !
تزکیہ کیا ہوتا ہے ؟
تزکیہ کہتے ہیں ظاہر اور باطن کی صفائی اور پاکی کو ! ہمارا ظاہر بھی صاف ہو اور باطن بھی پاک ہو ظاہر صاف ہو ظاہری آلودگیوں اور ظاہری گناہوں سے اور باطن پاک ہو باطنی آلودگیوں اور باطنی گناہوں سے ! یہ صفائی اور پاکی کیسے حاصل ہوگی ؟ اس سلسلہ میں حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تزکیہ میں دوچیزیں اہم ہیں
(١) اصلاحِ اعمال
(٢) اصلاحِ اخلاق
جوشخص بھی ان دونوں چیزوں کا اہتمام کرے گا اس کا تزکیہ ہوجائے گا ! ہم نے سمجھ لیا کہ شاید تزکیہ فقط اس چیز کا نام ہے کہ ضربیں لگالیں ، مجاہدے کرلیں ،ریاضتیں کرلیں ،یہ کرلیں ،وہ کرلیں ،وہ سب اپنی جگہ لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہ دوچیزیں اہم ہیں :
جنہوں نے اصلاحِ اعمال بھی کرلیے اور اصلاحِ اخلاق بھی تو امید کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے تزکیہ کا کام کرلیا ! !
دین پڑھنے کا مقصد :
ہم لوگ جو دین پڑھ رہے ہیں تو اس دین کے پڑھنے کا مقصد بھی تو یہی ہے کہ ہمارے اعمال بھی درست ہو جائیں اور ہمارے اخلاق بھی درست ہوجائیں !
حضرت امام محمدسے سوال :
حضرت امام محمدسے کسی نے پوچھا تھا کہ حضرت آپ نے ہر فن پرکتابیں لکھی ہیں اور بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں زہد سے متعلق کوئی کتاب نہیں لکھی ؟ فرمایا کیوں تم نے میری بیوع پر لکھی ہوئی کتاب نہیں پڑھی ؟ وہ زہد نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاملات میں ، معاشرت میں ، معیشت میں سب چیزوں میں اصلاحِ اعمال اور اخلاق کی بات چلتی ہے !
ہمارے اعمال جتنے اچھے ہوں گے اتنے ہی ہم دین کو پھیلانے والے بنیں گے ! ہماری پڑھائی کا مقصد حاصل ہوگا، ہمارے اخلاق جتنے اچھے ہوں گے ہماری وجہ سے دین کی اشاعت ہوگی، دین پھیلے گا ! خدا نخواستہ ہماری عملی لائن بگڑی ہوئی ہے پڑھ تو رہے ہیں بخاری شریف، مسلم شریف لیکن اعمال کی کوئی رغبت نہیں ہے تو ہم دین کے پھیلانے والے نہیں بنیں گے بلکہ دین کی اشاعت کو روکنے والے بن جائیں گے ! چنانچہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جن بچوں کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں ، اعمال درست ہوتے ہیں وہ اپنے گھروں میں جب جاتے ہیں تو ماں باپ اور ان کے عزیزو اقارب دیکھتے ہیں کہ یہ تو اتنے اچھے اعمال اور اخلاق والے ہیں تو وہ اوروں کو دکھاتے ہیں دیکھو ہمارے بچے دین پڑھ کر ما شا اللہ ایسے بنے ہیں اس سے پھر دوسروں کو رغبت ہوتی ہے وہ اپنی اولاد کو مدارس کی طرف بھیجتے ہیں ! اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا کہ جو مدرسوں میں نہیں گئے وہ تو فجر میں اٹھ رہے ہوں مسجد جارہے ہوں اور بخاری ومسلم پڑھنے والے پڑے سورہے ہوں تو ماں باپ کہتے ہیں کہ تیرے سے اچھا تو وہی ہے جو مسجد جارہا ہے نماز پڑھ رہا ہے تو نے مدرسہ جا کر کیا حاصل کیا ؟ اور اگر اس کے اخلاق بھی اچھے نہ ہوئے ماں باپ کے ساتھ معاملات بھی اچھے نہ ہوئے پھر تو ماں باپ کہتے ہیں بھائی بس تو نے پڑھ کر جو دینا تھا دے دیا اب ہم یہ غلطی نہیں کریں گے کہ کسی اور کو مدرسے بھیجیں !
بتائیے ہمارے اس طرز عمل سے دین کی اشاعت ہوئی یا دین کی اشاعت میں رکاوٹ ہوئی ؟ ! ہم نیک نامی کاذریعہ بنے یا بدنامی کا باعث بنے ؟ ! اس واسطے میرے عزیز طلبہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم تزکیہ نفس کی طرف توجہ دیں اور اصلاحِ اعمال واصلاحِ اخلاق کو اپنائیں ! !
حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی عملی حالت :
جناب نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کی زندگی دیکھیے شروع سے لے کر آخر تک چمکتی دمکتی نظر آئے گی، حضور صلی اللہ عليہ وسلم کے اعمال کا حال تو یہ تھا کہ آپ سے کوئی عمل چھوٹتا نہیں تھا،سفر ہو،حضر ہو، جنگ ہو، امن ہو، صحت ہو یا بیماری کی حالت کوئی عمل بھی نہیں رہتاتھا !
آپ کا نماز باجماعت کا اہتمام :
نمازوں کا اہتمام اس قدرتھاہم تصور بھی نہیں کرسکتے، حضور صلی اللہ عليہ وسلم کو سارے کہتے ہیں کہ آپ رحمة للعالمین ہیں اس میں کوئی شک نہیں یقینا آپ رحمة للعالمین ہیں لیکن اس کے باوجود آپ دیکھیے بخاری مسلم کی روایتیں ہیں ،ہمارے دورۂ حدیث والے پڑھتے پڑھاتے ہیں ، ان میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے نماز کے اندر جماعت میں شریک نہ ہونے والے پر کس قدر غصہ کا اظہار فرمایاہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
''میرا جی چاہتا ہے کہ ایک جوان سے کہوں تم نماز پڑھائو اوروں سے کہوں لکڑیوں کے گٹھے جمع کرو اور جاکران کے گھروں کو آگ لگا دوں جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے''
ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم جماعت میں شریک ہوتے ہیں ؟ بہت سے ہمارے ساتھی کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں ، موبائل سے کھیلتے رہتے ہیں جماعت ہورہی ہے ان کو پروا ہی نہیں ہوتی ، اس سے کیا ہمارے علم میں برکت ہوگی ؟ ہرگز نہیں ،علم میں برکت تو تب ہی ہوگی جب ہم علم کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کریں گے !
امام ابوحنیفہ کا اختلافی مسائل میں طرز عمل :
ہمارے امام عالی مقام کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حتی الوسع اختلاف سے بچتے ہیں ، اس پہلو کو اس انداز سے لے لو، اس پہلو کو اس انداز سے لے لو تاکہ کسی کا کوئی اختلاف نہ رہے، اس کی موٹی سی مثالیں نماز کے اندر بھی ہیں ، ظہرکے آخری وقت میں اختلاف ہے ، ہمارے ہاں مثلِ ثانی کے اختتام پر وقت ختم ہوتا ہے دیگر ائمہ کرام کے ہاں مثلِ اوّل کے اختتام پر،فقہائے احناف نے فرمایا کہ مثلِ اوّل سے پہلے پہلے ظہر پڑھ لوتاکہ دیگر ائمہ سے اختلاف نہ رہے،پھر جب ظہر کے اخیر وقت میں اختلاف ہوا تو اس کا اثر عصر کے اوّل وقت میں پڑ گیا علی اختلاف القولین ،ہمیں سبق دیا گیا کہ ظہر کو تو مثلِ اوّل کے اختتام سے پہلے پہلے ادا کرلو جبکہ عصر کو مثلِ ثانی کے ختم ہونے کے بعد پڑھو تاکہ کسی امام کا اختلاف باقی نہ رہے ، امام صاحب کے ہاں یہ احتیاطی پہلو تھا !
اور ایسا کئی مقامات پر ہے جن میں ایک مقام جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا بھی ہے، آپ کو معلوم ہوگا کہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے ! اگرکسی نے نماز تو پڑھی لیکن بلا کسی عذر کے جماعت کے بغیر پڑھی تو اس کی نماز ہی نہ ہوگی ان کے ہاں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے ، اب اس کی صورت یہی ہے کہ چند افراد کو اکٹھا کرے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھے، ہمارے ہاں اگرچہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض تو نہیں لیکن سنت ِموکدہ قریب بواجب ہے اور فقہائے احناف میں سے حضرت ابن الہمام صاحب ِ فتح القدیر فرماتے ہیں کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے ! آپ جانتے ہیں کہ فرض اور واجب میں عملاً کوئی فرق نہیں دونوں کا ادا کرنا ضروری ہے اور دونوں کے ترک پر گناہ لازم آتا ہے ،الغرض جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت ِموکدہ قریب بواجب ہی سہی، سنت موکدہ اگر ہم چھوڑیں گے وہ بھی جو قریب بواجب ہو تو بتائیں گناہ گار ہوں گے یا نہیں ؟ یہ نہ سمجھیں کہ سنت ِموکدہ ہی تو ہے، بسااوقات گناہ بڑھ جاتا ہے اس نظریہ کی وجہ سے ! جب بغیر جماعت کے نماز پڑھنے پرآپ نے اس قدر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ گھروں کو آگ لگانے پرتیارہوگئے تو سوچیے جو نماز کو قضا کردے گا اس پر حضور صلی اللہ عليہ وسلم کس قدر ناراض ہوں گے ؟
غزوہ خندق کے موقع پر کفار کے لیے بددعا :
آپ کو معلوم ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی چار نمازیں قضا ہوگئی تھیں ، غالباً حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی زندگی کا یہ پہلا واقعہ تھا جس میں آپ کی نمازیں قضا ہوئیں اس پر آ پ کو اس قدر شدید غم وغصہ تھا کہ آپ رحمة للعالمین ہونے کے باوجود زبانِ مبارک سے فرما رہے تھے :
مَلَأَ اللّٰہُ بُیُوْتَہُمْ وَ قُبُوْرَہُمْ نَارًا کَمَا شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلٰوةِ ( صحیح البخاری ص٥٩٠ )
''اللہ پاک ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے انہوں نے میری نمازیں قضا کروا دیں ''
نماز کے قضا ہونے کی وجہ سے آپ کو اس قدر غصہ، اتنے سخت ناراض کہ آپ ایسی بددعا دے رہے ہیں حالانکہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم تو ہمیں دعائیں سکھا رہے ہیں عذاب قبر سے بچنے کے لیے یہ پڑھو، جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے یہ پڑھو ! چنانچہ جو سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتے ان کو اپنے بارہ میں سوچنا چاہیے !
گناہ پر اصرار کا حکم ؟
علماء نے لکھاہے کہ گناہِ صغیرہ پر اصرار گناہِ کبیرہ تک پہنچا دیتاہے اورگناہِ کبیرہ پر اصرار کفر تک پہنچا دیتا ہے ! یعنی نماز یں چھوڑے رکھے تو ہو سکتا ہے کہ کفرکی راہ پر چل پڑے ،امام احمدبن حنبل فرماتے ہیں کہ جوجان بوجھ کر نماز چھوڑ دے وہ کافر ہوگیا اور اس کی سزا قتل ہے ! ! اللہ پاک ہمارے امام صاحب کو جزائے خیر دے انہوں نے ہم پر نرمی کی ہر معاملہ میں ، انہوں نے کفر کا فتوی نہیں دیا لیکن یہ ضرور فرمایا کہ ایسے شخص کو قید کردیا جائے !
بہر حال میرے عزیز طلبہ ! میں تو بتا رہاتھا کہ تزکیہ نفس مقصود ہے مطلوب ہے اورتزکیہ نفس میں دوچیزیں اہم ہیں :
(١) ا صلاحِ اعمال
(٢) اصلاحِ اخلاق
اور اعمال میں افضل ترین عمل نماز ہے !
حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی زندگی میں سب سے زیادہ عمل :
حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی زندگی میں سب سے زیادہ جو عمل نظر آتا ہے وہ نماز ہے،یہی وجہ ہے کہ آپ جب دنیا سے تشریف لے جارہے تھے آپ کو سب سے زیادہ اگر کسی چیز کی فکر تھی تو نماز کی تھی ! آپ ہمیں بتا گئے کہ دیکھو قیامت کے دن جب اللہ کے حضور میں پیش ہوں گے تو وہاں پر سب سے پہلے جس عمل کا حساب وکتاب ہوگا وہ نماز ہے ! !
نماز کے بارہ میں اکابر علماء دیوبندکا طرز عمل :
ہم اپنے بزرگوں کا نام لے لے کر جیتے ہیں ، کبھی حضرت نانوتوی کا، کبھی حضرت گنگوہی کا، کبھی حضرت تھانوی کا اور کبھی حضرت مدنی کا، ان کے واقعات سناتے ہیں ان کی زندگی کو دیکھیے تو ذرا ان کی زندگیوں میں ہمیں کیا ملتا ہے، حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب نے اپنے ایک رسالہ میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا جو ہمارے شیخ الشیوخ ہیں ان کے متعلق لکھا ہے
(١) حضرت حاجی صاحب نے فرمایا :
'' جب اللہ تعالیٰ سے ہماری ملاقات ہوگی اور اللہ پاک ہم سے پوچھیں گے کہ امداد اللہ کیا چاہیے تو ہم کہیں گے کہ اے اللہ ! اپنے عرش کے نیچے ڈیڑھ گز جگہ دے دیجیے تاکہ ہم نماز پڑھتے رہیں ہمیں حوروقصور کچھ نہیں چاہیے''
یہ تھے ہمارے بزرگ جن کو جنت میں جانے کے بعد بھی بس نماز ہی کی تڑپ ہوگی، ظاہر ہے کہ وہاں نماز تو ہوگی نہیں کیونکہ وہ دارُالجزاء ہے نہ کہ دارُالعمل ،لیکن تڑپ ہے کہ وہاں بھی نماز کی توفیق ملے !
(٢) اسی طرح سے ہمارے حضرت میاں جی نور محمد صاحب جو حضرت حاجی امداد اللہ صاحب کے شیخ تھے اور براہِ راست حضرت سید احمد شہیدسے خلافت بھی حاصل تھی لیکن اپنے آپ کو چھپایا ہوا تھا، مکتب میں بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے آپ کی نمازوں کا یہ حال تھا کہ تیس برس کے عرصہ میں کبھی جماعت سے تکبیرِ تحریمہ فوت نہیں ہوئی !
(٣) دارالعلوم دیوبند کی تحریک کے اصل محرک حاجی سید عابد حسین صاحب رحمة اللہ علیہ تھے،اللہ سے دعا کیا کرتے تھے : ''اے اللہ ! دین کی بقاکا ہندوستان میں کوئی ذریعہ بنادیجیے''
اللہ پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور دارالعلوم دیوبند بن گیا، دارالعلوم دیوبند کا فیض ہے کہ آ ج ہم یہاں بیٹھے ہیں ، ان ہی اساتذہ سے جودارالعلوم کے فیض یافتہ ہیں علوم حاصل کررہے ہیں !
حضرت حاجی صاحب کو ایک دفعہ دیکھا گیا کہ آپ نہایت غمگین اور پریشان بیٹھے ہیں ، کسی نے پوچھا تو فرمایا : آج میر ی ستائیس برس کے بعدجماعت سے تکبیرِ تحریمہ رہ گئی ہے ! !
یہ حضرات تکبیرِ تحریمہ کے رہ جانے کا ایسا غم مناتے تھے جیسے ہم اپنے عزیز کے مر جانے کاغم مناتے ہیں !
یہ واقعات میں ایسے ہی نہیں سنارہا بلکہ (مورخِ ملت) حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی کتاب ''علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے'' میں موجود ہیں !
(٤) ایسے ہی حضرت مولانارشید احمد گنگو ہی کے متعلق آتا ہے ان کے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ''یہ تو قدرت کی طرف سے الٹ ہوگیا کہ میں ان کا شیخ اور یہ میرے مرید، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں ان کا مرید اور یہ میرے شیخ ہوتے''
دارالعلوم دیوبند کے پاس ایک مسجد ہے جو چھتہ مسجدکے نام سے مشہور ہے اس میں اجلاس ہورہاتھا ، نماز کا وقت ہوا تو حضرت وضو کے لیے تشریف لے گئے ،آئے تو دیکھا جماعت کھڑی ہے، حضرت مولانا محمدیعقوب نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے جماعت کھڑی کردی تھی ! حضرت کو دیکھا گیا ،حضرت نماز کے بعد انتہائی پریشان ! حضرت سے پوچھا گیا تو فرمایا :
'' بھائی پریشان نہ ہوں تو اورکیا کروں ؟ آج بائیس برس بعد تکبیر اُولیٰ رہ گئی ''
یہ حضرات تکبیرِ تحریمہ رہ جانے پر اس قدر غمگین اور پریشان ہوتے تھے اور ہمارا حال یہ ہے کہ سرے سے نماز ہی کی فکر نہیں ! اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین !




قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔
(ادارہ)




قسط : ٢
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق
مسئلہ فلسطین کی تفہیم کے لیے ایک راہنما مقالہ
( ڈاکٹر محسن محمد صالح اردو استفادہ محمد زکریا خان )
٭٭٭
(٩) صہیونیت کا آغاز :
صہیونی تحریک جس نے اپنے لیے فلسطین میں قومی وطن کے وجود پر زور دیا اس تحریک کے برپا ہونے میں متعدد اسباب کار فرما رہے ہیں اس تحریک کا آغاز یورپ کے عیسائی ماحول میں ہوا خصوصاً جن دنوں پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تحریک زوروں پر تھی یہ سولہویں صدی کا زمانہ تھا اسی طرح یورپ میں قوم پرستانہ تحریکیں اور وطن پرستانہ تحریکوں نے صہیونی تحریک کے پختہ ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے خاص طور پر اُنیسویں صدی کی قوم پرستانہ اور وطن پرستانہ تحریکیں ۔
مشرقی یورپ میں صہیونیت کے فروغ میں خاص طور پر اس قضیے نے اہم کردار کیا ہے جسے یہودیوں کی سیاسی اصطلاح میں مسئلہ یہود (Jewish question)کہاجاتا ہے !
اسی طرح روس میں یہودیوں کی نسل کُشی نے بھی صہیونی تحریک کے برپا ہونے میں اہم کردار ادا کیا اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ میں یہودیوں کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ اور دوسری طرف یہودیوں میں تحریک تنویر(Reform judaism یہودی عقائد میں ایسی لچک پیدا کرنا جو یورپ کے لیے قابل قبول ہویعنی ایمانیات کو سماجی مسئلے سے زیادہ اہمیت نہ دینا) کی ناکامی بھی صہیونیت کے فروغ میں مددگار رہی ہے !
(١٠) مغربی استعمار کی سازش :
مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ متعدد اغراض کے لیے عالم اسلام کے بیچ میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے ! اس چھوٹی مگر خطرناک ریاست سے ایک طرف عالمِ اسلام کے دوبازو جدا ہوگئے ! ایک طرف افریقہ کے مسلم ممالک تھے تو دوسری طرف ایشیاء کے مسلم ممالک اور ان کے بیچوں بیچ صہیونی ریاست جو انہیں کاٹنے کے لیے بنائی گئی تھی ! صہیونی ریاست مسلم خطوں کی وحدت میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے ، اس سازش کی وجہ سے عالم اسلام میں متحدہ قوت کے ابھرنے اور ترقی کے امکانات کے سامنے ایک دیوار کھڑی کردی گئی ہے ! !
مسلم ممالک صرف کنزیومر (صارفین) ہیں اور صہیونی ریاست مغربی مال کی مشرق میں فروخت کی گزرگاہ ! صہیونی ریاست کے ناسور کی وجہ سے عظیم اسلامی وحدت جنم نہیں لے پائی ہے جو اس ریاست کی غیر موجودگی میں قدرتی طورپر عثمانی خلافت کے سقوط کے خلاء کو پر کر سکتی تھی ! اس میں شبہ نہیں کہ عظیم تر اسلامی وحدت میں رکاوٹ عالم اسلام کی بیچ میں صہیونی ریاست کا قائم رہنا ہے ، یہ جغرافیائی اور نظریاتی وحدت جس میں رکاوٹ صہیونی وجود ہے اس وقت تک اپنے طبعی انضمام کو نہیں پہنچ سکتی جب تک صہیونی ریاست کو مٹا نہیں دیاجاتا ! !
(١١) صہیونیت کے مقاصد :
صہیونی تحریک کی بنیاد اگست 1897ء میں سوئیزرلینڈ میں تھیوڈور ہرتزل(Theodor Herzl) کے ہاتھوں رکھی گئی تھی ! تحریک کے بانی نے روز اول سے اس تحریک کو استعماری مقاصد کے لیے بنایا تھا جس کا مقصد مغربی ممالک کے اہداف پورے کرنا تھا ! تمام تر چالاکی کے باوجود یہ تحریک پہلی جنگ عظیم تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرپائی تھی ! صہیونی تحریک ایک نسل پرستانہ تحریک ہے جس کی رگوں میں مذہبی قومی عناصر پائے گئے ہیں اس تحریک کے پروان پانے کاانحصار اس اصول پر رکھاگیا ہے کہ فلسطین کے اصل باسیوں کے کتنے حقوق چھین کر نو واردوں کو دیے جاسکتے ہیں ! ایک دفعہ صہیونی تحریک کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد مذہبی یہودی اور سیکولر یہودی میں کوئی فرق نہیں رہتا جب تک کوئی یہودی صہیونی تحریک کارکن ہے وہ ان ہی مقاصد کی تکمیل میں اپنی صلاحیتیں کھپائے گا جس کے لیے صہیونی تحریک برپا کی گئی ہے ! !
(١٢) فلسطین پر برطانوی انتد اب : ١
برطانیہ نے 1917ء میں اعلان بالفور کے اعلامیے کے ساتھ فلسطین میں صہیونی قومی ریاست کی بنیاد رکھی ، ستمبر1918ء میں برطانیہ نے خطے پر قبضہ مکمل کرتے ہوئے فلسطینی اراضی کا ایک حصہ صہیونیوں کو دے دیا ! اس سے پہلے برطانیہ عرب شیوخ سے معاہدہ کرکے خطے میں داخل ہوا تھا کہ وہ عرب ریاستوں کو مکمل آزادی اور خود مختاری دے گا ، یہ معاہدہ برطانیہ نے عربوں کے متحدہ نمائندے ''الشریف حسین'' سے کیا تھا ، مشرقی وسطیٰ کے ایک بڑے حصے پر قبضے کے بعد برطانیہ نے کسی معاہدے کا پاس خیال نہ کیا اور عربوں کوکبھی آزادی اور خود مختاری حاصل نہ ہوسکی !
معاہدہ سائکس پیکو ( Sykes Picot Agreement ) کے ذریعے مشرق وسطیٰ بشمول عراق اور وسیع تر شام ، فرانس اور برطانیہ کے اثر ونفوذ کے درمیان چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم کر دیا گیا ! 1916ء میں سائکس پیکو معاہدے کے تحت فلسطین کو بین الاقوامی خطہ قرار دیا گیا پھر اس کے بعد دوسرے معاہدے سان ریمو کانفرنسSan Remo Conference (اپریل 1920) کے تحت فلسطین پر بین الاقوامی خطے کی بجائے برطانیہ کے انتداب کے حق کو تسلیم کر لیاگیاجسے مئی 1922 میں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کر لیا !
(١٣) صہیونیت کے لیے برطانیہ کی خدمات :
برطانیہ نے فلسطین پر اپنے انتداب کے دوران میں (1918ء تا 1948ئ) یہودیوں کی
١ توریت، عارضی حکومت، چودھراہٹ کاحق (Mandate)
فلسطین میں آبادکاری کی بھر پور حوصلہ افزائی کی ، یہودی آبادکاری میں اضافہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1918 ء میں فلسطین میں صرف پچپن ہزار (55000) یہودی تھے اور 1948ء میں نقل پزیر ہونے والے یہودیوں نے یہودی آبادی کو چھ لاکھ چھیالیس ہزار (6,46,000) تک بڑھا دیا یعنی پہلے یہودی کل آبادی کا آٹھ فیصد تھے اور اس کے بعد ان کی آبادی کا تناسب 31.7 فیصد تھا !
اسی طرح برطانیہ نے فلسطینی اراضی کی یہودیوں کو فروخت کے کئی طریقے نکال لیے ، برطانیہ کے انتداب سے پہلے یہودی کل اراضی کے دو فیصد کے مالک تھے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد یہودی 6.7 فیصد ارضی کے مالک ہوگئے، یہ اراضی یاتو سرکار کی طرف سے الاٹ ہوئی یا پھر فلسطین میں موجود غیر فلسطینیوں نے یہ اراضی فروخت کی تھی ، زمین کی خریداری پر یہودیوں کی طرف سے پرکشش قیمت پربھی غریب فلسطینی اپنی اراضی نہ بیچتے تھے ! تیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود فلسطین کے اصل باشندے 93.3 فیصد اراضی کے مالک تھے اور فلسطینی آبادی کا تناسب 68.3 فیصد تھا ! !
برطانیہ نے نو واردوں کے لیے متعدد اقتصای، سیاسی ، تعلیمی اور عسکری پراجیکٹ بنائے 1948ء تک برطانیہ کی طرف سے 292 یہودی خیمہ بستیاں تعمیر پاچکی تھیں ،صہیونی ستر ہزار فوج کیل کاٹنے سے لیس تھی اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے آزادملک ہونے کااعلان کردیا ! ! !
(١٤) تاریخ تحریک مزاحمت :
بلاشبہ برطانیہ نے فلسطینیوں کے خلاف بڑی بڑی سازشیں کی تھیں لیکن وہاں کے غیور مسلمانوں نے برطانیہ کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رکھی اور غلامی پرکبھی راضی نہ ہوئے ! فلسطین میں برطانیہ سے آزادی پانے کی تحریکیں برابر چلتی رہیں ! آزادی کی تحریک میں اسلامی جماعتیں بھی تھیں اورقوم پرست تحریکیں بھی ! اسلامی قیادت کے بڑے ناموں میں موسیٰ کا ظم اور الحاج امین حسینی کی شخصیات مشہور و معروف ہیں جنہیں عوام کی بہت بڑی حمایت حاصل تھی !
بیسوی صدی کی ابتداء میں برطانیہ کے خلاف کئی بغاوتیں ہوئیں ان بغاوتوں میں اہم ترین 1920ء میں ''القدس'' کی بغاوت 1931 ء میں ' 'یافا' 'کی بغاوت 1929 ء میں ''البراق'' کی بغاوت اور اکتوبر 1932 ء کی بغاوت ! اسی طرح عز الدین قسام نے باضابطہ جہاد کا آغاز کیا ! ! عبدالقادر حسینی نے ''مقدس جہاد' ' کے نام سے جہاد کا آغاز کیا !
ان پے درپے بغاوتوں کی وجہ سے (1936 تا 1939) جنہیں فلسطین کی جہادی تاریخ میں انقلاب عظیم کہا جاتا ہے برطانیہ اس بات پر مجبور ہوگیا کہ وائٹ بک میں اس نے اگلے دس سالوں میں آزاد فلسطین کے قیام کی تحریر لکھ دی ! ! تحریر میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ برطانیہ سرکار معین رقبے سے زیادہ فلسطینی اراضی کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت نہیں کرے گی ! اس کے علاوہ یہ بھی لکھا گیا کہ پانچ سالوں کے بعد فلسطین میں یہودیوں کی نقل مکانی غیر قانونی قرار دے دی جائے گی ! ! ! اس تحریر کے بعد ہوا یہ کہ دنیا میں خاصی بڑی تبدیلیاں رونماں ہوگئیں ! برطانیہ کی بجائے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا اثرونفوذ بڑھ گیا ،1945ء میں جب وائٹ بک میں ثبت کی گئی تحریر کی تکمیل ہونا تھی توامریکہ نے ایسا نہیں ہونے دیا بلکہ فلسطینی اراضی کی فروخت کے ساتھ یہودیوں کی فلسطین میں نقل مکانی اور بڑھ گئی ! ! !
(١٥) فلسطین کی تقسیم :
1947ء میں اقوام متحدہ کے مشترکہ اجلاس میں قرار داد پاس کی گئی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے دو ملک بنادیے جائیں ۔ ایک عربی خطہ جو کل اراضی کا ٤٥ فیصد ہو اور یہودی خطہ جو کل فلسطینی اراضی کا ٥٤ فیصد ہو ! ؟ جبکہ قرار داد میں ایک فیصد رقبہ (قدس مبارک یا بیت المقدس) بین الاقوامی عملداری کے سپرد کرنے کی سفارش کی گئی !
ضروری آگاہی :
یہاں یہ بات قارئین کے لیے جان لینا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے مشترکہ اجلاس میں اگر کوئی قرار داد پاس کی جائے تو اقوام متحدہ کے میثاق کی رو سے ہی اس کی قانونی حیثیت اس معنی میں نہیں ہوتی کہ رکن ممالک ایسی قرار داد پر عمل در آمد کرنے پرمجبور ہوں گے ! علاوہ اس کے تقسیم فلسطین کی مجوزہ قرار داد بذات خود اقوام متحدہ کے میثاق کے مخالف ہے ! ؟ اقوام متحدہ کے میثاق میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر خطے کے عوام کومکمل آزادی ہوگی اور یہ کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کے حقدار ہوں گے ! ! مزید برآں اس قرار داد کی بابت نہ فلسطین کے عوام کواعتماد میں لیا گیا اور نہ رائے شمار ہوئی ! اس قرار داد کے جانبدارانہ اور مبنی برظلم ہونے کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوگی کہ غیر ملکی یہودی جو اقلیت میں بھی تھے انہیں اصل باشندوں کی نسبت زیادہ حصہ دیا گیا ! ! ؟ ؟
(١٦) صہیونی ریاست کااعلان :
14 مئی 1948ء کی شام اسرائیل نے اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا ! اسرائیل نے جلد ہی عرب فوج کو شکست سے دو چار کردیا ! پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عرب فوج کی قیادت بدنظمی کا بدترین نمونہ پیش کر رہی تھی ! اس کے علاوہ عرب فوج مکمل طور پر آزاد بھی نہ تھی، فوج کے ایک حصے پر استعمار کا شکنجہ کسا ہوا تھا جنگ کے بعد اسرائیل فلسطین کی ٧٧ فیصد اراضی کا مالک تھا ! صہیونی ریاست نے اپنے قیام کے ساتھ ہی آٹھ لاکھ فلسطینیوں کوملک بدر کردیا ! ملک بدر ہونے والے فلسطینیوں کے علاقوں میں یہودی آباد کیے گئے !
1948ء میں فلسطینی آبادی چودہ لاکھ تھی، جن علاقوں کو صہیونی ریاست نے فلسطینیوں سے خالی کرایا تھا وہاں نو لاکھ سے زیادہ آبادی تھی ٤٧٨ گاؤں تباہ کر کے وہاں اسرائیلی بستیاں بسائی گئی تھیں ! یاد رہے کہ مقبوضہ علاقے میں کل ٥٨٥ گاؤں تھے، کم از کم چونتیس مرتبہ فلسطینیوں کا قتل عام ہوا ! باقی ماندہ فلسطینی اراضی کے ایک بڑے حصے (5876 کلو میٹر) کو ایک معاہدے کے ذریعے اردن نے اپنے اندر سمو لیا ! اور (363 کلومیٹر) غزہ کے ایک حصے پر مصر کااثرونفوذ قائم ہوگیا ! اقوام متحدہ نے اس شرط پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا کہ وہ ملک بدر کیے جانے والے فلسطینیوں کو ملک واپس آنے کی اجازت دے گا ! ! اس قرار داد پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا ! !
(١٧) جمال عبدالناصر کی قیادت پر اعتماد :
1948ء تا 1968 ئ مصر کے جمال عبدالناصر نے فلسطینیوں کے لیے دو تحریکوں کے نام سے اسرائیل کے خلاف رد عمل کاآغاز کیا
ایک کا عنوان تھا ''معرکہ قومیہ'' اور دوسری تحریک کا عنوان تھا ''آزادی کا راستہ اتحاد !
فلسطین تنازع کے حل کے لیے عرب ریاستوں نے جمال عبدالناصر کی قیادت تسلیم کرلی !
دوسری طرف فلسطین کی اندرونی قوم پرست تحریکوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی مزاحمت ترک کردی کہ ان کے بارے میں عرب قیادتوں کو اختیار ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کا حل نکالیں !
حقیقت یہ تھی کہ عرب ریاستوں کے پاس مسئلے کے حل کے لیے کوئی متفقہ لائحہ عمل نہ تھا اور نہ ہی وہ اسرائیل کے خلاف جنگ کرنے میں سنجیدہ نظر آتی تھیں ، فلسطینی مزاحمت اکا دکا دیکھنے کو ملتی رہی لیکن کوئی ایسی اسکیم سامنے نہ آسکی جسے فلسطینی مزاحمت کا مکمل منصوبہ کہا جاسکے ! صہیونیوں کے کسی نئے ظلم کے خلاف جذبات میں آکر عوام مسلمان شدید رد عمل ظاہر کرتے رہے لیکن کچھ عرصے کے بعد اس کی شدت ختم ہوجاتی جبکہ صہیونی قوت روز بروز بڑھی جا رہی تھی !
(١٨) خود انحصاری کا رجحان :
جمال عبدالناصر کے ذاتی اثرورسوخ سے 1964 ء میں احمد شقیری کی قیادت میں وطن پرست تحریک'' تحریک آزادی فلسطین'' کی بنیاد رکھی گئی ، جمال عبدالناصر محسوس کر رہے تھے کہ فلسطین میں زیر زمین آزادی کی تحریکیں روزبروز بڑھ رہی ہیں انہیں خطرہ تھا کہ فلسطینی تحریکیں کہیں خود مختار نہ ہوجائیں ! خاص طور پر'' تحریک الفتح'' سے انہیں خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ وہ جمال عبدالناصر کی خدمات سے آزاد ہوجائے گی اس لیے جمال عبدالناصر نے اپنی سرپرستی میں تحریک آزادی کی بنیاد رکھ دی !
'' تحریک الفتح'' 1975ء سے سرگرم عمل تھی،1948ء سے پہلے والی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے '' تحریک الفتح'' نے عہد کیا کہ فلسطین کی آزادی کا صرف ایک ہی طریقہ مسلح عمل ہے ! خالص فلسطینی تحریک اور قیادت ہونے کی وجہ سے'' تحریک الفتح'' فلسطین کی سب سے زیادہ ہردلعزیز تحریک بن گئی تھی ! فروری 1969 ء میں یاسر عرفات نے تحریک کی قیادت سنبھالی اور اس کے ساتھ فدائی تحریکیں اس تحریک میں شامل ہوتی گئیں ! ! 1974ء میں عرب ریاستوں نے'' الفتح '' کو فلسطین کی واحد قانونی تحریک کے طور پر تسلیم کر لیا ! اقوام متحدہ نے بھی اسی سال اس تنظیم کی اقوام متحدہ میں بطور فلسطینی عوام کی واحد نمائندہ تنظیم کے رکنیت تسلیم کرلی !
(١٩) متحدہ عرب فوجیوں کی شکست :
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو بدترین شکست کا سامنا کرناپڑا ! اگلے چند ہی دنوں میں فلسطین کی باقی اراضی پر بھی اسرائیل کاقبضہ ہوگیا ! مغربی کنارے کا مشرقی علاقہ جہاں القدس واقع ہے یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا ! غزہ کاایک حصہ، سوریا میں واقع گولان کاپہاڑی سلسلہ اور مصر کا صحرائے سیناء بھی اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے مزید تین لاکھ تیس ہزار فلسطینی ملک بدر کردیے ۔
(جاری ہے)
٭٭٭




قطب الاقطاب شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1




اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭٭٭
بحمد اللہ خانقاہ ِ حامدیہ میں حسب ِ معمول گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی رمضان المبارک میں ملک کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے سالکانِ طریقت نے جامعہ کی مسجد حامد میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم کی معیت میں اعتکاف کیا اور سلوک واحسان، ریاضت و مجاہدہ میں مشغول و مصروف رہے۔ حضرت کی جانب سے مسترشدین ومریدین کے لیے کچھ اجتماعی اعمال اور کچھ حسب ِ حال ہر ایک کے لیے انفرادی اعمال کی ہدایات تھیں ،اللہ تعالیٰ قبول فرمائے،آمین۔
٢٧ رمضان المبارک کو بعد نماز ِظہر خانقاہ ِحامدیہ میں حضور اَقدس صلی اللہ عليہ وسلم کے موئے مبارک کی زیارت بھی کروائی گئی ، اللہ تعالیٰ اس کی برکات سے متمتع فرمائے،آمین۔
١٢ رمضان /٢٣ مارچ کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس مولانا محمد صابر صاحب عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے ،١١شوال /٢٠ اپریل کو بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
٦ شوال ١٤٤٥ھ /١٥ اپریل ٢٠٢٤ء کو جمعیة علما ء اسلام صوبہ پنجاب کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم اہل خانہ کے ہمراہ عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے ،٢١شوال ١٤٤٥ھ /٣٠ اپریل ٢٠٢٤ء کو بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
١١ شوال المکرم ١٤٤٥ھ/٢٠ اپریل ٢٠٢٤ء سے جامعہ مدنیہ جدید میں نئے تعلیمی سال کے داخلے شروع ہوئے اسی روز سے جامعہ میں تعلیم شروع ہوگئی والحمد للہ !




وفیات
٭٭٭
٭ ٢٩ رمضان ١٤٤٥ھ /٩ اپریل ٢٠٢٤ ء کو ڈپٹی کلکٹر رانا ظہیربابر صاحب کے بھائی رانا لقمان صاحب پھول نگر میں وفات پاگئے۔
٭ یکم شوال ١٤٤٥ھ /١٠ اپریل ٢٠٢٤ء کو فاضل جامعہ مولانا رانا سلیم صاحب کے حقیقی تایا رانا جمیل خاں صاحب مختصر علالت کے بعد پھول نگر میں وفات پاگئے۔
٭ ١٦ اپریل کو جمعیة علماء اسلام تحصیل کینٹ لاہور کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل حاجی عقیل انور صاحب لاہور میں انتقال فرماگئے۔
٭ ١٦ اپریل کو جمعیة علماء اسلام کی مجلس عاملہ لاہور کے ممبر جناب ہاشم تہامی صاحب ایڈووکیٹ کے بھائی عطاء الرحمن صاحب بوجہ ہارٹ اٹیک اچانک وفات پا گئے۔
٭ ١٨ اپریل کو مجلس تحفظ ختم نبوت سندھ کے امیر حضرت مولانا احمد میاں صاحب حمادی طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔
٭ ٢٢ اپریل کو حضرت مولانا منظور احمد صاحب چنیوٹی کے صاحبزادے ، مولانا محمد الیاس صاحب چنیوٹی ایم پی اے کے بھائی حضرت مولانا محمد ادریس صاحب چنیوٹی چنیوٹ میں انتقال فرماگئے۔
٭ ٢٨ اپریل کو جمعیة علماء اسلام تحصیل چنیوٹ کے امیر، جامعہ مدنیہ لاہور کے قدیم فاضل و سابق ناظم تعلیمات حضرت مولانا محمد عارف صاحب بوجہ ہارٹ اٹیک اچانک چنیوٹ میں انتقال فرما گئے۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔




جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079142) MCB کریم پارک برانچ لاہور

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.