ماہنامہ انوا ر مدینہ
جلد : ٣١ شوال المکرم ١٤٤٤ھ / مئی ٢٠٢٣ء شمارہ : ٥
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 40 روپے ....... سالانہ 500 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 0333 - 4249302
جازکیش نمبر : 0304 - 4587751
جامعہ مدنیہ جدید : 042 - 35399051
خانقاہ ِحامدیہ : 042 - 35399052
موبائل : 0333 - 4249301
موبائل : 0335 - 4249302
موبائل : 0323 - 4250027
دارُالافتاء : 0321 - 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ١٨
تبلیغ کا آغاز .... محمد ۖ کی حیثیت اور خصوصیات حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ٢١
تربیت ِ اولاد( قسط : ٢ ) حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٤
رحمن کے خاص بندے( قسط : ١٣ ) حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣٨
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب( قسط : ١ ) حضرت مولانا محمد عاشق اِلٰہی صاحب بلند شہری ٤٤
فضیلت کی راتیں ( قسط : ٤ ، آخری ) حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٥٠
شوال کے روزوں کی فضیلت حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٥٩
وفیات ٦١
اخبار الجامعہ جناب مولانا انعام اللہ صاحب ٦٣
ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
نرخ نامہ
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500
حرف آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
کچھ احباب نے سماجی ترسیلات ١ کے یوٹیوب چینل پر ایک عالم کا کسی خاتون اینکر کے سوالات کے جوابات پر مشتمل ایک مکالمہ بعنوان ''مولوی صاحب پھنس گئے '' سنایا !
آرزو کاظمی نامی خاتون اینکر کا انداز غیر سنجیدہ اور تجاہل پر مبنی تھا ! عالم نے جن کا نام اور تفصیلات معلوم نہیں ان خاتون کی بودی سی بات کا سادہ ساجواب دیا مگر خاتون اینکر نے بات کو گھماپھرا کر اس انداز میں اُلجھانے کی دانستہ کوشش کی جس سے اسلام کا مذاق اور اِستہزا اور مسلمانوں کی دل آزاری ہو !
خاتون اپنی اس گری ہوئی حرکت کو اپنی دانست میں چاہے جتنا بڑا کارنامہ خیال کرتی ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پسماندہ دور کی گھسی پٹی باتوں کا اعادہ اور وقت کا ضیاع تھا !
آج سے تقریبًا ستر برس قبل ایک خاتون ہی کی طرف سے اسی نوعیت کی ایک بودی تحریر اُس دور کے خواتین کے ماہنامہ میں شائع ہوئی تھی والد ماجد حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ نے اس کے جواب میں ایک مدلل اور شائستہ تحریر رقم فرمائی تھی جو مکمل متن کے ساتھ اداریہ کا حصہ بناکر قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے :
١ سوشل میڈیا (Social Media)
میں سوچتی ہوں ! جنت میں ہمارا کیا درجہ ہے ؟
رسالہ ''حور'' بابت ماہ جون جولائی(١٩٥٤ئ) میں ایک مضمون بعنوان '' بہنوں کی کیا رائے ہے '' ؟
نظر سے گزرا اُس مضمون کے نصف آخر کو بغور دیکھتا رہا اور اپنی بہن کی اِس جرأت پر کہ اُنہوں نے نہایت بے باکانہ انداز میں نہ صرف مردوں کی گوشمالی کی بلکہ اللہ، اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کے پیچھے بھی وہ ہاتھ دھو کر پڑی ہیں ! میں محو ِحیرت رہ گیا ! ! استفسار اور سوال جرم نہیں لیکن اگر باندازِ استہزاء ١ ہو تو وہ استہزاء میں داخل ہے اور استہزاء جرم ہے ! آپ کا اندازِ سوال قابلِ افسوس ہے ! ! !
جواب
جو چیز حقیقت ہو اُس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مثلاً لندن موجود ہے ! واشنگٹن موجود ہے !
اسٹالن گراڈ موجود ہے ! یا اِن سے بھی زیادہ محسوس چیز جو سامنے ہو جیسے پانی کا نرم اور سیال ہونا، آگ کا مُحَرِّقْ ہونا ٢ گلاب کے پھول کا نرم ونازک ہونا اُس کے کانٹوں کا نوکدار اور موذی ہونا وغیرہ سب ناقابلِ انکار حقیقتیں ہیں اگر کوئی ان باتوں کا انکار کرے تو اُسے کہا جائے گا کہ یہ حقائق کاانکار کر رہا ہے۔
یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ جب کسی چیز کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے تو اُس کا مدار اَکثریت پر ہوتا ہے مثلاً باشندگانِ ملک یا صوبہ کی عادات و خواص جب گنائیں جائیں گی تو یہ کہا جائے گا کہ فلاں جگہ کے باشندے ایسے ہیں اور فلاں جگہ کے ایسے، خواہ سب باشندے ایسے نہ ہوں ! !
اب آپ ان دونوں باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مردوں اور عورتوں کی حقیقت پر غور کیجئے کہ اس خالقِ عالم نے ان دونوں میں کیا کیا ممتاز فرق رکھے ہیں۔
١ بطور ِمذاق اُڑانے ٢ جلانے کی خصوصیت
عورت و مرد کا جسمانی و مزاجی فرق :
عورتوں میں نزاکت ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا، عورتیں ہاتھاپائی، زور آوری اور لڑائی کے کام کے لیے موزوں نہیں، مرد اِن پر بھاری رہتے ہیں طاقت میں مردوں سے کم ہوتی ہیں یہ تیمارداری کے لیے نہایت موزوں رہتی ہیں، عورتیں شرم وحیاء والی ہوتی ہیں اِن میں اور مردوں میں گہرا اِتصال ہے یہ اُن کے بغیر اور وہ اِن کے بغیر نہیں رہ سکتے ! !
ان کا مزاج طبی حیثیت سے دیکھا جائے تو مرطوب اور سرد ہوتا ہے ١ تدبر و فکر میں مردوں سے دوم درجہ رکھتی ہیںوغیرہ وغیرہ۔ یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور انکار بے انصافی ہے، صرف اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا گیا کہ :
( اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰت حٰفِظٰت لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ) ٢
''مرد حاکم ہیں عورتوں پر اِس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اِس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں،
سو جو عورتیں نیک ہیں اطاعت کرتی ہیں مرد کی عدم موجودگی میں بحفاظت ِ الٰہی نگہداشت کرتی ہیں''
''عورت'' نفرت کی چیز :
ذرا تصور کیجئے کہ اسلام کس ملک میں آیا ؟ اسلام جس ملک میں آیا اُس میں دعویٔ انسانیت کے ساتھ انسانیت کو کس طرح دفنایا جا رہا تھا ! اُس ملک میں لڑکی کی پیدائش کی خبر گویا باپ کے لیے پیغامِ اجل سے بدتر ہوتی تھی وہ سب سے منہ چھپاتا پھرتا تھا اور سوچتا تھا کہ کس طرح زمین میں گڑجاؤں !
١ اکثر عورتیں اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتیں اور بات بے بات رو پڑتی ہیں اور آپس کی گفتگو میں بطورِ کمال یہ جملہ کہا کرتی ہیں کہ میں نے چیخ ماری یا میری چیخ نکل گئی یا میں چیخ مار دوں گی ، مرد ایسی بات نہیں کہتے !
٢ سُورة النساء : ٣٤
( وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہ مُسْوَدًّا وَّ ھُوَ کَظِیْم ۔ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْئِ مَا بُشِّرَ بِہ ط اَیُمْسِکُہ عَلٰی ھُوْنٍٍ اَمْ یَدُسُّہ فِی التُّرَابِ) ١
''اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبردی جاوے تو سارے دن اُس کا چہر ہ بے رونق رہے اور دل ہی دل میں گھٹتا رہے (اور) جس چیز کی اُس کو خبردی گئی ہو اُس کے عار سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرے، آیا اِس کو ذلت پرلیے رہے یا اس کو (زندہ یا مار کر) مٹی میں گاڑ دے ''
وہ مذہبِ حنیفی جسے ملتِ ابراہیمی کہہ کہہ کر ذبح کیا جارہا تھا جس کی خاک کو باطل کے ببولے ٢ چین نہ لینے دے رہے تھے اُس(مذہبِ حنیفی) کے مدعی جنہیں فرائض ِانسانیت کی بالکل بھی خبر نہ تھی، اپنے اوہام ِ باطلہ کی خاطر کسی کی جان لینے میں گریز نہ کرتے تھے ! اُن کے نزدیک جان کی کوئی قیمت نہ تھی ! حتی کہ اپنی اولاد کو بھی وہ اپنے اوہام سے کم قیمت سمجھتے تھے ! اُن کا مسلک تھا کہ لڑکی کو زندہ درگور کرنا کہیں بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ داماد کا منہ دیکھنا پڑے !
اسلام سے پہلے عورت کی پامالی کا عبرتناک قصہ :
اسی کو ایک صحابی نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام سے اسلام لانے کے بعد ذکر کرنے لگے کہ
''حضرت میری ایک بچی تھی میں سفر میں تھا کہ وہ پیدا ہوئی جب واپس آیا تو معلوم ہوا کہ بچہ پیدا ہو کر مرگیا، چند سال بعدہمارے قریب پڑوس سے ایک بچی ہمارے گھر آنے لگی میں اُسے دیکھتا تھا تو جی چاہتا تھا کہ اُسے گود میں لوں اور پیار کروں، نہ جانے کیوں خود بخود محبت اُمنڈ کر آتی تھی وہ بچی بھی میری طرف اسی طرح گرتی تھی حتی کہ مجھے اس سے اُنس بڑھتا گیا اور اس کی ماں کو یہ یقین ہو گیا کہ میں اسے کسی طرح نقصان نہ پہنچا سکوں گا ! تو اُس نے ایک دن مجھ سے راز ظاہر کردیا اور کہنے لگی کہ
یہ تمہاری ہی بچی ہے ! اور فلاں وقت پیدا ہوئی تھی جبکہ آپ سفر میں گئے ہوئے تھے ! میں نے اس کی اطلاع آپ کو اس لیے نہیں دی تھی کہ آپ رنجیدہ ہوتے اور ممکن تھا کہ اسے نقصان پہنچاتے ! یہ بات میں نے سن تو لی لیکن طبیعت پر سخت اثر ہوا اور اب رفتہ رفتہ طبیعت کا تقاضا یہ ہونے لگا کہ کسی طرح
١ سُورة النحل : ٥٨ ، ٥٩ ٢ ہوا کا چکر ،گرد باد
اس کی ماں کی نگاہ سے بچے تو میں اِسے لے جاؤں اور اس کا کام تمام کردوں ! ! بالآخر ایک دن اس ارادہ میں کامیاب ہوگیا اور اس کی ماں سے چھپا کر اسے لے گیا ! ایک گڑھے میں لے جا کر اسے ڈال دیا اور اُوپر سے اسے مٹی وغیرہ سے دبانا شروع کیا ! وہ چلا رہی تھی کہ ابا جان ! ابا جان ! اور میں اپنے کام میں لگا ہوا تھا حتی کہ جو آخری آواز میرے کان میں آئی کہ جس کے بعد اُس کی کوئی آواز نہیں آئی وہ یہی ''ابا جان'' کی آواز تھی ! !
یہ صحابی قصہ بیان کرنے میں انتہا درجہ منہمک تھے کہ دوسرے صحابی نے روکا کہ بس کرو تم نے نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام کے قلب ِمبارک کو دُکھایا ، انہوں نے دیکھا تو رحمة للعالمین ۖ کے بے ساختہ آنسو جاری تھے ! ! نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام نے دوسرے صحابی سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مت روکو اِنہیں کہنے دو ! انہیں اپنے کیے ہوئے گناہ پر ندامت وحسرت ہے اسی لیے یہ مجھ سے کہہ رہے ہیں ! اور ان سے کہا کہ دوبارہ بیان کرو آپ نے پھر سے سارا قصہ سنا اور پھر روئے'' ! ! ١
عورتوں کو حقوق دلائے :
یہ تھی آقائے نامدار ۖ کی رحمدلی اور شفقت کہ سنگدل قوم کے ایک فرد ہونے کے باوجود سینہ ٔ مبارک انسانی ہمدردیوں سے بھرا ہوا تھا آپ نے ہی حقیقتاً اس رسم کو مٹایا ! لڑکیوں کے حقوق منوائے ! انہیں میراث بھی دلائی ! ان کا قتل ایسا ہی حرام قرار دیا جیسا مرد کا ! ! اور لوگوں کو بلا خوف ِملامت خدا کا پیغام پہنچا کر اُس نسب کو جسے لوگ ننگ و عار سمجھتے تھے ایک شرف ثابت کیا ایک دوسرے کے حقوق بتلائے اور باہم قوی رابطہ پیدا کردیا ( وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآئِ بَشَرًا فَجَعَلَہ نَسَبًا وَّصِہْرًا وَّکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا) ٢
آپ نے ہی شوہر بیوی کے درمیان، رشتہ داروں کے درمیان حتیٰ کہ پڑوسیوں اور ہم پیشہ لوگوں کے درمیان محبت واُخوت لازم کردی ! ! !
( وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسَاکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِی الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ) ٣
١ ماخوذ اَز تفسیر کبیر ٢ سُورة الفرقان : ٥٤ ٣ سُورة النساء : ٣٦
''اور تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اختیار کرو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور اہلِ قرابت کے ساتھ بھی اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب و غرباکے ساتھ بھی اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر کے ساتھ بھی اور اُن کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ میں ہیں ''
تواضع :
اسلام نے ہی ہم کو تواضع کا سبق دیا ایک دوسرے کے مقابلہ میں بدگوئی، بد خلقی، غیبت، بڑائی اور تکبر سے سختی سے روکا ( اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا) ١ ''بیشک اللہ تعالیٰ ایسوں سے محبت نہیں رکھتے جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہوں ''
اسلام نے بتلایا کہ جن سے ملنا خدا نے ضروری قرار دیا ہے اُن سے ضرور ملو، اگر نہیں ملو گے تو مرتکب ِ (گناہِ) کبیرہ ہوگے اور خدا کے بڑے نافرمانوں کی فہرست میں داخل ہوجاؤ گے کہ جن کی نشانی ایک یہ بھی ہے :
( وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ) ٢
''اور قطع کرتے ہیں ان تعلقات کو کہ حکم دیا ہے اللہ نے ان کو وابستہ رکھنے کا اور فساد کرتے رہتے ہیں زمین میں، پس یہ لوگ پورے خسارے میں پڑنے والے ہیں ''
( فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہ بَیْنَ الْمَرْئِ وَزَوْجِہ ) ٣
''سو بعض لوگ ان دونوں(فرشتوں ہاروت ، ماروت) سے اس قسم کا سحر سیکھ لیتے ہیں جس کے ذریعہ سے کسی مرد اور اُس کی بیوی میں تفریق پیدا کردیتے تھے ''
بیوی کو بتلایا کہ شوہر کی انتہائی تعظیم کرے اور شوہر وآقاؤں کے ذمہ ڈالا کہ ہر زیرِدست پر خواہ بیوی ہو یا کوئی دوسرا، خواہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ، ملازم ہو یا کوئی اور سب کے ساتھ بھلائی اور نرمی کرے ! ! آپ نے فرمایا اِتَّقُوا للّٰہَ فِی النِّسَآئِ ٤ عورتوں کے حق میں خدا سے ڈرو !
١ سُورة النساء : ٣٦ ٢ سُورة البقرة : ٢٧ ٣ سُورة البقرة : ١٠٢ ٤ مشکوة رقم الحدیث ٣٢٥٠
ارشاد ہوا : اپنی بیوی کا کام کرنے سے بھی تم کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے !
آپ نے فرمایا : سب مومن ہیں ،ایمان کا کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور تم سب میں اچھے وہ لوگ ہیں جو اپنی بیبیوں کے ساتھ اچھے ہوں !
ارشاد ہوا : مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُوَقِّرْ کَبِیْرَنَا وَلَمْ یَحْمِلْ عَالِمَنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔ الحدیث
''جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی توقیر نہ کرے اور عالموں کی تعظیم نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے '' !
حتی کہ دربارِ نبوی سے زندگی کے آخری لمحات میں جو پیغام اُمت کے لیے صادر ہوا یہ تھا ! ! !
اَلصَّلٰوةُ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ١ ''دیکھو نماز اور تمہارے زیر دست ''اسی وجہ سے جابجا جہاں رشتہ داروں، عورتوں ،یتیموں اور مسکینوں کے معاملات کا ذکر کیا گیا ہے خصوصیت سے'' اِتَّقُوْا '' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ کسی قسم کی زیادتی ہونے پائے !
عورتوں کا علیحدہ ذکر کیوں نہ کیا گیا ؟
مردوں اور عورتوں کے احکام تقریباً مشترک ہیں اس لیے علیحدہ ان کا ذکر نہیں کیا گیا قرآنِ پاک ایک مقدس ذات محمد رسول اللہ ۖ پر نازل کیا گیا ہے اس میں مردوں اور عورتوں کو بالواسطہ خطاب کیاگیا ہے ! حقیقتاً بلا واسطہ کسی کو خطاب نہیں ہوا ! البتہ چونکہ یہ بات اَظہر من الشمس تھی کہ خطاب بالواسطہ ہو رہا ہے اس لیے کہیں تو یوں فرمایا گیا ہے ( قُل لِّلْمُوْمِنِیْنَ ) (قُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ) مومنین مردوں سے کہہ دو مؤمن عورتوں سے کہہ دو یعنی '' کہہ دو'' کا لفظ استعمال کیا گیا
اور کہیں فرمایا گیا یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا جب یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اور یٰاَیُّھَا النَّاسُ یا کوئی اور اس قسم کا عام لفظ ہو تو اس میں باتفاقِ علماء عورتیں بھی داخل ہوتی ہیں ! یہ نہیں ہے کہ مردوں سے تو قصاص و خون کا مطالبہ ہو عورتوں سے نہ ہو ! مردوں کو سزا دی جائے اور عورتوں کو نہ دی جائے ! یا صرف عورتوں سے کسی قسم کا مطالبہ ہو مردوں سے نہ ہو ! ! نماز، روزہ، زکوة، حج اور اخلاق و عمل کا ہر ہر پہلو مردوں اور
١ مشکوة المصابیح کتاب النکاح رقم الحدیث ٣٣٥٦
عورتوں دونوں کو شامل ہے مسائلِ فقہیہ سے کتابیں بھری پڑی ہیں پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ قرآنِ پاک میں صرف مردوں کو خطاب کیا گیا ہے عورتوں کو نہیں حالانکہ اوّل لِلْمُوْمِنَاتِ میں عورتوں ہی کو پیغام پہنچایا گیا ہے ( یٰنِسَائَ النَّبِیِّ ) یا (یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَائِ الْمُوْمِنِیْنَ ) میں عورتوں ہی کو خطاب ہے ! ! !
فصاحت کی خوبی :
نیز یہ بات سب جانتے ہیں کہ کلامِ فصیح کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اختصار کیا جائے اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ اختصار کے وقت دو کے لیے ایک لفظ ایسا بول دیتے ہیں جس میں دونوں داخل ہوجائیں جیسے چاند سورج کو شمس وقمر کے بجائے'' قمرین'' ١ ا ور حضرت عمر وابوبکر کے بجائے ''عُمرین'' ٢ کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر
( وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ ) ٣
میں'' لَھُمْ ''کا لفظ بولا گیا جس کے حقیقی معنی اگر لیے جائیں تو خطاب صرف مردوں کے لیے رہ جاتا ہے حالانکہ مرد و عورت سب مراد ہیں ! !
( یٰاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ) ٤ میں'' کُمْ'' سے مراد مرد و عورتیں سب ہیں ! بس اسی طرح( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ) وغیرہ میں سب عورتیں شریک ہیں ! !
البتہ احکام کی تفصیل اور یہ کہ کس جگہ انہیں شریک نہ مانا جائے یہ کہیں کہیں قرآنِ پاک سے اور اکثر جگہ حدیث شریف سے معلوم ہوئی ہے ! آپ کو اگر دیکھنا ہو تو اُردو میں بھی مسائل کی کتابیں ہیں اُنہیں دیکھیں !
حضرت مریم علیہا السلام کا نام ذکر کرنے کی وجہ :
برملا عورتوں کا ذکر(ناموں کے ساتھ) کچھ اچھی چیز نہیں اسی لیے قرآنِ پاک میں سوائے حضرت مریم علیہا السلام کے باقی کسی عورت کا نام نہیں لیا گیا !
حضرت مریم کا نام کہیں تو مریم علیہا السلام کو آدم زاد بتانے کے لیے لیا گیا ہے ( وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ) ٥
١ دو چاند ٢ دو عمر ٣ سُورة الاحزاب : ٣٦ ٤ سُورة النساء : ١ ٥ سُورہ تحریم : ١٢
یعنی خدا کی جنس سے نہ تھیں جو خدا کی بیوی بنتیں کیونکہ بیوی ہم جنس ہی ہوتی ہے ١ بلکہ عمران کی بیٹی تھیں !
اور کہیں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اِن کا بیٹا بتایا جائے (ذٰلِکَ عِیْسیَ ابْنُ مَرْیَمَ) ٢ یہ ہے عیسٰی مریم کا بیٹا تاکہ یہ وہم نہ رہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے ! !
حضرت مریم علیہا السلام کے علاوہ جہاں بھی عورتوں کا ذکر آیا ہے اُس میں (امْرَأةُ فِرْعَوْنَ ، امْرَأَةَ نُوْحٍ امْرَأَةَ لُوْطٍ ) استعمال کیا گیا ہے ! ! ٣
''زُلیخا ''کا نام کہیں قرآنِ پاک میں نہیں آیا ، جہاں جہاں ذکر آیا ہے عزیر کی بیوی کہا گیا ہے
( اِمْرَاةُ الْعَزِیْزِ ) ! ! ٤
ثواب و اَجر میں برابری :
غرض عورتوں کے علیحدہ ذکر سے پرہیز کیا گیا اور اس کے بجائے کھول کر واضح طور پر
یہ اعلان کردیا گیا کہ
( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِن فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوةً طَیِّبَةً وَّ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْ یَعْمَلُوْنَ ) ٥
''جو شخص کوئی نیک کام کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ِایمان ہو تو ہم اُس شخص کو دنیا میں پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور آخرت میں ان کے اچھے کاموں کے عوض میں اُن کا اجر دیں گے'' ! !
( وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِن فَاُولٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا ) ٦
١ یعنی اللہ تعالیٰ جنس و اَنواع سے بالا و منزہ ہیں بلکہ وہ ان کے خالق ہیں اور یہ مخلوقات ہیں اس لیے کسی بھی طرح کی جنسی یا نوعی مماثلت محال ہے، اُس کا کوئی ہمسر نہیں ہے ( وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا اَحَد )
( لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْیٔ ) القرآن محمود میاں غفرلہ ٢ سُورة الاحزاب : ٧ ٣ سُورة التحریم : ١٠ ، ١١
٤ سُورة یوسف : ٣٠ ٥ سُورة النحل : ٩٧ ٦ سُورة النساء : ١٢٤
''جو شخص کوئی نیک کام کرے گاخواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے (ان کے حق میں ذرّہ برابر کمی نہ کی جائے گی) اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا'' ! !
( لِلرِّجَالِ نَصِیْب مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْب مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ) ( النساء : ٣٢ )
''مردوں کے لیے اُن کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں کے لیے اُن کے اعمال کا حصہ ثابت ہے'' ! !
اس لیے آپ قرآنِ پاک کا متعصبانہ انداز میں مطالعہ نہ فرمائیں دنیوی زندگی میں عورت مرد کے برابر اور فریق تسلیم کی گئی ہے ! !
عورت بھی مرد کے خلاف کارروائی کرا سکتی ہے :
دیکھئے '' لِعَانْ ''کے مسائل کو ! شوہر و بیوی دونوں سے برابر کی قسمیں کھلائی جاتی ہیں اور دونوں کو برابر مانتے ہوئے علیحدگی کردی جاتی ہے ! یہ کس احمق نے کہا ہے کہ اگر عورت مرد کو بدکاری اور فسق و فجور میں دیکھے تو اُس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی بالکل غلط ہے ! وہ ضرور گواہ پیش کرے اور مرد کو سزا دلائے ! ! !
ایک صحابی جو بدر کی جنگ میں شریک تھے جن کا شمار اُن تین سوتیرہ صحابہ میں ہے کہ جن کے بارے میں انتہائی فضیلت کے کلمات استعمال کیے گئے ہیں ایک مرتبہ انہوں نے کسی طرح مسائل میں غلطی کھا کر نبیذی شراب پی لی ! اُن پر کیس چلا ! ! حضرت عمر کا زمانہ ٔ خلافت تھا وہاں تک معاملہ پہنچا، حضرت عمر نے
آخر میں اُن کی بیوی کا بیان لیا اور سزاکا فیصلہ دے دیا ! (یہ حضرت عمر کے رشتہ دار بھی تھے) ! ؟ ١
عورت اور ووٹ :
دنیا میں جس طرح ایک مرد کوحق ِرائے دہندگی حاصل ہے عورت کو بھی ہے ! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ووٹ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دیاتھا اِن کی رائے اُن کے ساتھ تھی ! ! !
١ ماخوذ اَز تفسیر قرطبی تحت قولہ ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ ) ( سُورة المائدہ : ٩٠ )
انسان و جانور کے چہرہ پر مت مارو :
یہ کہنا بھی سراسر ناانصافی اور گستاخی ہے کہ اسلام نے صرف عورت کے چہرہ پر مارنے سے منع کیا ہے کیونکہ وہ اس کی دل بستگی کا سامان ہے کیونکہ یہ حکم انسان اور جانور سب کے لیے ہے ! ! بلکہ عرب میںدوسرے کی توہین کرنے کے لیے جو دشمن قتل کے بعد ایک دوسرے کے ناک کان کاٹ لیا کرتے تھے وہ بھی شریعت نے ممنوع قرار دیا ! جانوروں کے چہرے پر مارنے سے بھی روکا ہے ! !
یہ سب اعتراضات غالباً دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیںنبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام خدا کے رسول تھے وہ سچے تھے اس لیے کہ جھوٹا رسول نہیں ہو سکتا اور جو کچھ انہوں نے اپنی زندگی میں فرمایا وہ چاہے بطورِ ِپیشینگوئی کے ہویا کشف ِحالی ہو ١ سب سچ ثابت ہوتا رہا ! ! اس لیے ہم ان کے فرمان کے مقابلہ میں اپنی عقل کو چھوڑ دیتے ہیں ! ! !
راجہ ،رانی :
ان کے ارشادات کا مفہوم ہے کہ جنت میں مرد کو بادشاہت ملے گی عورتیں ملکہ کی حیثیت رکھتی ہوں گی ! ان کو وہاں سب کچھ ملے گا ! (ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے) کہ اگر عورت اولاد کی خواہش کرے گی وہ بھی ہوجائے گی ! غرض یہ کہ
'' ان کو وہاں وہ سب چیزیں ملیں گی جو وہ چاہیں گے وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے یہ تمہارے پروردگار کا پکا وعدہ ہے '' ! ! ( لَھُمْ فِیْھَا مَا یَشَآئُ وْنَ خَالِدِیْنَ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ وَعْدًا مَّسْئُوْلًا ) ٢
پھر اس سوال کے کیا معنی (باقی رہ جاتے ہیں) کہ بے چاری عورت کا کیا ہوگا ؟ ؟ ؟
جب دنیا میں مرد کے ساتھ عورت ہر طرح ترقی کرتی ہے اگر شوہر نواب یا بادشاہ بنتا ہے تو یہ رانی اور ملکہ کہلاتی ہے ! تو کیا آخرت میں یہ محال ہوگا ! ؟ ؟ حالانکہ وہاں کے لیے خصوصی وعدہ ہے :
( مَنْ عَمِلَ سَیِّئَةً فَلَا یُجْزٰی اِلَّا مِثْلَھَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِن فَاُولٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا بِغَیْرِ حِسَابٍ) ٣
١ زمانہ حال سے متعلق کشف ٢ سُورة الفرقان : ١٦ ٣ سُورة المومن : ٤٠
''جو شخص گناہ کرتا ہے اُس کو تو برابر سرابرہی بدلہ ملتا ہے اور جو نیک کام کرتا ہے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو تو ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں اُن کو بے حساب رزق ملے گا ''
( لَھُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ فِیْھَا وَلَدَیْنَا مَزِیْد ) ( سُورہ ق : ٣٥ )
''ان کو بہشت میں سب کچھ ملے گا جو یہ چاہیں گے اور ہمارے پاس اور بھی زیادہ نعمت ہے ''
نیک عورت :
حدیث شریف میں رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ نیک کار عورت کی نیک کاری ستر اولیاء اللہ کی عبادت کے برابر ہے ! ! !
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا : یاد رکھو جو(عورتیں) تم میں نیک ہیںوہ نیک لوگوں سے پہلے جنت میںجاویں گی ! پھر (جب شوہر جنت میں آئیں گے تو) ان کو غسل دے کر اور خوشبو لگا کر شوہروں کے حوالہ کردیا جائے گا ! ! اُن کی سواریاں سرخ اور زرد رنگ کی ہوں گی اُن کے ساتھ (بطورِ خادم) ایسے بچے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے موتی ! ! !
قرآنِ پاک کی آیات اور احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ(جنت میں) مردوں اور عورتوں میں نہایت قلیل امتیازی فرق ہوگا جتنا کہ ہونا چاہیے ! ! ١ اور حکومت یا مخدومیت میں دونوں شریک ہوں گے ! ! البتہ نیکی اور تقویٰ سب کے لیے شرط ہے اسلام بھی یہی چاہتا ہے اور دوسرے مذاہب بھی ! ! !
ایک انگریز شاعر نے یہی بات تقویٰ کے متعلق کہی ہے کہ قرآنِ پاک کی آیات کے بہت ہی قریب معنی بیٹھتے ہیں :
١ تاکہ مرد اپنی فطری وجاہت کی وجہ سے عورت نہ لگے اور عورت اپنی فطری نزاکت کی وجہ سے مرد نہ لگے اوراگر یہ فرق نہ رہا تو جنسی جذبات میں باہمی تلاطم اور کشش کیسے پیدا ہوگی۔ محمود میاں غفرلہ
TO WHOM IS HONOUR JUSTLY DUE
TO THOSE WHO PRIDE AND HATE SUB DUE
''عزت کا صحیح معنی میں استحقاق کس کو حاصل ہے ؟ (عزت دائمی کے) وہ مستحق ہیں جو نفرت اور غرور کو دباتے ہیں( اور اپنے نفس کو اُبھرنے نہیں دیتے)''
WHO WHEN REVILED THEIR TONGUES RESTRAIN
AND INJURED INJURE NOT AGAIN
''وہ وہ ہیں جنہیں اگر (برا کہا جائے اور) گالی گلوچ سے بات کی جائے تو وہ اپنی زبانوں کو روکتے ہیں اور جب ستائے جائیں تو دوبارہ (بدلہ میں جواباً) وہ نہیں ستاتے ''
گویا پہلا شعر ( وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ) ١ (کا مفہوم بیان کر رہا ہے)
اور دوسرا شعر ( وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا) ٢ (کا مفہوم بیان کر رہا ہے )
الغرض جو نیکی اور تقویٰ اختیار کرے وہ اسلام میں سربلند ہو تا ہے ( اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ) ٣
''تم سب میں اللہ کے نزدیک بڑا شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے''
اگر مردوں میں یہ وصف پیدا ہوجائے تو وہ جنید و شبلی بن جاتے ہیں اور عورتوں میں ہو تو وہ رابعہ (بصریہ)، شعوانہ اور آمنہ رَملِیَّہ بن جاتی ہیں ! !
حضرت بشربن حارث( المعروف بالحافی) ،امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کے مرشد ہیں وہ ان سے ملنے تشریف لے جایا کرتے تھے ! (خاتون بزرگ) حضرت شعوانہ کے پاس حضرت فضیل بن عیاض جایا کرتے تھے ! اور دعا کراتے تھے ! حضرت فضیل بن عیاض حضرت ابراہیم بن ادھم کے مرشد ہیں !
بہرحال یہ اپنی ہی کج فہمی ہے ورنہ اسلام نے نہ دنیا میں مساوات میں کسر چھوڑی نہ آخرت میں ! !
١ سُورہ آلِ عمران : ١٣٤ ٢ سُورة الفرقان : ٦٣ ٣ سُورة الحجرات : ١٣
البتہ بہیمِیت صفت ١ یورپین ذہنوں کے لیے اسلام میں گنجائش نہیں کیونکہ اسلام حقانیت ، فطرت اور بلند کرداری کی تعلیم دیتا ہے ! !
اور یورپ وہ تعلیم دیتا ہے جسے بے غیرت جانوروں سے حاصل کیا جا سکتا ہے ! اور بہیمِیت کے سوا کوئی لفظ اس کے لیے نہیں استعمال کیا جا سکتا ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو استقامت نصیب فرمائے اور اسلام کی سمجھ اور اُس کے احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ (بحوالہ خواتین کا ماہنامہ ''حور'' لاہور جلد ١٥ شمارہ٨،٩ اگست ستمبر١٩٥٤ئ)
مزید شرمناک بات یہ ہے کہ یوٹیوب کے ''عوامی منظر نامہ '' پر اِس نشریہ کو وقفہ وقفہ کے بعد لُچے لفنگوں کی واہیات حرکات سے مزین کرکے اسلام اور مسلمانوں کی جس انداز میں توہین و تضحیک کی گئی ہے اس پر تاحال حکومتی حلقوں کی طرف سے کسی قسم کا کوئی ردّعمل سامنے نہیں آیا ؟ ؟ اگرچہ اس کے اندر لوفروں کی لچر حرکات بجائے خود اِس پر تبصرے کے لیے بہت کافی ہیں ! وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْن
١ بے شرم وبے غیرت درندہ صفت
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
موت کی یاد اور تلاوتِ قرآن سے دل کا زنگ دُور ہوتا ہے !
تلاوت کے رُوحانی اثرات کے علاوہ جسمانی اثرات بھی ہوتے ہیں !
( درسِ حدیث نمبر ٥٣/٦ ٧ مضان المبارک١٤٠١ھ/١٠ جولائی ١٩٨١ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ ان دلوں پر صَدَأَ آجاتا ہے، زنگ لگ جاتا ہے کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ جیسے کہ لوہے پر زنگ لگ جاتا ہے، لوہے کو اگر پانی لگتا رہے تو وہ خراب ہوجاتا ہے اِذَا اَصَابَہُ الْمَآئُ قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاجِلَاؤُھَا عرض کیا گیا دلوں کو صاف کرنے کا طریقہ کیا ہوگا ؟ ؟ لوہے کو صاف کرنے کا طریقہ تو اور ہے قَالَ کَثْرَةُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ ١ ارشاد فرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا اور تلاوتِ قرآنِ پاک ! یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے دل کی صفائی ہوتی ہے ! ! !
موت ایک حقیقت ہے :
موت ایسی چیز ہے جو فرضی نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے ! نہ آج تک کوئی باقی رہا ہے اور نہ رہنا ہے ! اور سب کو نظر آتا ہے، سب اپنے ہاتھوں اس کے سارے کام انجام دے کر آتے ہیں ! مگر اس کے باوجود
١ مشکوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٦٨
دُنیا میں مصروفیت ایسا گھیرا ڈالتی ہے کہ آخرت سے جوکہ حقیقت ہے پھر نظر ہٹ جاتی ہے ! اور پھر اِن چیزوں میں لگ جاتا ہے ! اور دُنیا دُنیا داری دُنیا کی محبت یہی ایسی چیزیں ہیں جو سب سے زیادہ گناہوں کا سبب بنتی ہیں ! انسان گناہ کرتا ہی اسی وجہ سے ہے کہ اُسے یہ بیماری لگ جاتی ہے حُبِّ دُنیا، حُبِّ جاہ، حُبِّ مال، حُبِّ جائیداد یا اسی قسم کی چیزیں ! ! !
برائی کی جڑ :
ارشاد ہوا حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ ١ دُنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے ! تو جناب رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا موت کی یادکی کثرت ایسی چیز ہے جو انسان کے دل کو اُس طرف سے اس طرف لاتی ہے ! غلط سے صحیح کی طرف ! اور دُنیا سے آخرت کی طرف اس کو گھسیٹ لاتی ہے ! اور جب نظر آخرت کی طرف آجائے تو گویا ایک راستہ اور مرحلہ طے ہوگیا ! ! !
دوسرا مرحلہ تلاوتِ قرآنِ پاک (کی برکت) سے طے ہوجاتا ہے ! کیونکہ جب کوئی آدمی کثرت سے تلاوت کرے گا تو بسا اوقات اُس کو یہ خیال آجاتا ہے کہ اُس کا ترجمہ بھی تو دیکھوں کہ کیا ہے ؟ جب ترجمہ کچھ سمجھ آنے لگتا ہے تو انسان عمل کی طرف آجاتا ہے تو یہ دُوسرا مرحلہ بھی طے پاگیا ! تو اب قلبی کیفیت تو یہ ہوئی کہ اُس کے سامنے حقیقت عیاں ہوجائے کہ یہ دُنیا جس میں ہم ہیں عارضی ہے اور آخرت جو آنے والی ہے وہ ہی حقیقی ہے ! یہ طبعی طور پر ناپائیدار ہے اور وہ پائیدار ! یہ تبدیلی تو دل کی حالت کی ہوئی ! اور دُوسری تبدیلی عملی ہوئی جس کا سبب کثرت سے تلاوتِ کلام پاک ہوا !
تلاوت کے حسی اثرات :
تلاوت کے اثرات قلب پر جو ہوتے ہیں وہ تو ہوتے ہی ہیں، اس کے علاوہ حسی اثرات بھی اُس کے جسم پر مرتب ہوتے ہیں ! مثلاً جھاڑ پھونک کے ذریعے،حدیث شریف میں آتا ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا فَاتِحَةُ الْکِتَابِ شِفَائ مِّنْ کُلِّ دَآئٍ ٢ سورۂ فاتحہ تمام بیماریوں کا علاج ہے ! تو قلبی بیماریوں
١ مشکوة المصابیح کتاب الرقاق رقم الحدیث ٥٢١٢
٢ مشکوٰة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٧٠
کے لیے بھی یہ علاج ہونا چاہیے یعنی ترجمہ اور مطلب کے اعتبار سے عقائد کی اصلاح بھی ہے ! خدا کی حمد و ثنا اور شکر کے بعد اُس کی ربوبیت کا اعتراف ہے ! توحید ہے ! ہدایت کی دُعا ہے ! اس کے علاوہ اس میں ایک جملہ عاجزی کا بھی ہے ! اپنی بہت عاجزی اور اللہ کی بڑائی کا بیان وہ
( اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) ہے ! تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں یعنی سب سے بڑا مدد کرنے والا ! مدد کرنے والوں کی بھی مدد کرنے والا ! مدد کرنے والوں کو بھی توفیق دینے والا تو ہی ہے ! اور تیری ہی عبادت ہم کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں کیونکہ حقیقتًا مدد دینے والا تو ہی ہے ! تو پوری مخلوق کے بارے میں جیسا کہ اس نے اعتراف کیا عاجزی کا اسی طرح اُس نے تمام مخلوقات کے بارے میں گویا اعتراف کیا کہ کوئی بھی تو مدد کے قابل نہیں ! اور کون مدد کرسکتا ہے ؟ اگر کسی کا خدانخواستہ اُنگلی کا اتنا سا ٹکڑا ضائع ہوجائے اور ماں باپ چاہیں کہ کسی طرح سے یہ پیدا ہوجائے تو نہ پیدا کرسکتے ہیں اورنہ اپنا لگاسکتے ہیں ! ! تو اصل میں مدد دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ! ! ! تو اس مضمون کا اثر باطن پر تو یہ پڑتا ہے کہ جو غلط عقائد ہیں اُن سے ہدایت پر آجاتا ہے ! اور ظاہری طور پر یہ ہے کہ پھر انسان یہ اعتراف کرتا ہے اور خدا سے مدد چاہتا ہے تو اس کے کثرت سے پڑھنے سے فوائد ضرور مرتب ہوتے ہیں ! چالیس، اکتالیس دفعہ روزانہ پڑھتے ہیں، زیادہ سے زیادہ ایک سو ایک دفعہ پڑھنا پانی پر دم کرنا یہ پلانا بیمار کو کافی ہوتا ہے ! ! تو اللہ تعالیٰ نے کلامِ پاک کے اندر عقائد اور معانی کے اعتبار سے بھی شفا رکھی ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا سے نوازے، آمین ۔اختتا می دُعا .........(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ مئی ١٩٩٣ )
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org
محمد ۖ کی حیثیت ،فرائض اور خصوصیات
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ ۖ کے چند اَوراق
شمع سوزاں اور سراج منیر کوگل کرنے کی کوشش :
وہی محمد ۖ سردارانِ قریش جس کو ''اَلصَّادِقْ'' اور '' اَلْاَمِیْن ''کہا کرتے تھے اُس کی مقدس تعلیم کو جب اِنہوں نے اپنے مفادات کے لیے خطرۂ عظیم اور برقِ خرمن سوز سمجھا ١ تو اب رات دن ان کی کوشش یہ تھی کہ اِس آواز کود بائیں اور اِس شمع کوگل کردیں ! چنانچہ باپ دادا کے مذہب ِقدیم کے نام پر عوام میں اشتعال پیدا کردیا جس پر وہ آنحضرت ۖ اور گنے چنے مٹھی بھر مسلمانوں کے درپے ہوگئے ! اس کے علاوہ خود اِن کی سرگرمیاں نئے نئے ستم ایجاد کرنے میں مصروف رہنے لگیں خانہ کعبہ کا حرم ِمحترم جہاں خود اُن کے عقیدے کے بموجب کسی بھی جاندار کو ستانا گناہ تھا،
جب محمد (رسول اللّٰہ ۖ ) وہاں اپنے رب کی عبادت کرتے تو ستائے جاتے اور طرح طرح ستائے جاتے تھے
ایک دفعہ ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا
''اگر میں نے دیکھ لیا کہ حرمِ کعبہ میں ''محمد'' اپنا چہرہ زمین پر رکھے ہوئے ہیں
تو میں اُس کی گردن اپنے پیر سے روندھ دُوں گا ٢
ابوجہل نے تو ایسا نہیں کیا لیکن اس کا دوست'' عُقبہ بن ابی مُعَیط'' اس سے بھی زیادہ حرکت کر گزرا ! آنحضرت ۖ حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے عُقبہ بن ابی مُعَیط نے چادر گردن میں ڈال دی اور اِتنی زور سے اس کو اِینٹھا کہ محبوبِ خدا(ۖ) کا سانس گھٹ گیا، آنکھیں باہر کو آنے لگیں ! ! اتفاق سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے ،عقبہ کو دھکیل کر پیچھے کیا، چادر گردن مبارک سے ڈھیلی کی اور اِن دشمنانِ حق سے کہا :
١ ایسی بجلی جو کھیت کو جلا ڈالے ٢ بخاری شریف کتاب التفسیر رقم الحدیث ٤٩٥٨ لاَطَأَنَّ عَلٰی عُنُقِہ
( اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَقَدْ جَآئَ کُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُمْ ) ١
''کیا تم ایک آدمی کو اِس پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے وہ روشن دلیلیں لایا ہے
(جن کا تم انکار نہیں کرسکتے )'' ٢
خانہ کعبہ کے قریب اکثر سردارانِ قریش کی نشست رہتی تھی ایک روز آنحضرت ۖ نماز میں مصروف تھے ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا فلاں محلہ میں اُونٹنی ذبح ہوئی ہے ایسا کرو کہ اس کا بچہ دان اُٹھا لاؤ ٣ اور ''محمد'' کے سر پر رکھ دو ! یہی بدبخت عقبہ بن ابی معیط کھڑا ہوگیا اس محلہ میں گیابچہ دان اُٹھوا کر لایا اور جب آپ سربسجود تھے پورا ملغوبا سرِ مبارک پر ڈال دیا ! آنحضرت ۖ کو حرکت کرنی مشکل ہوگئی ( یا بارگاہِ خداوندی میں مظلومانہ شکایت کے لیے قصدًا حرکت نہیں کی ٤ ) مگر یہ بدبخت اپنی اس بدمستی پر خوش تھے اور قہقہے مارتے ہوئے ایک دوسرے پر ڈُھلک رہے تھے !
١ سُورة المومن : ٤٨ ٢ بخاری شریف ص ٧١١ ٣ سَلَاجَزُوْرٍ '' سَلا '' بچہ دان (بخاری شریف وغیرہ)
٤ قانونِ اسلام کے ماہرین یعنی حضراتِ ائمہ مجتہدین کے لیے یہ واقعہ ایک دوسرے نقطہ ٔ نظر سے موضوع بحث بن گیا کہ نماز کے لیے پاکی شرط ہے، جب اتنی پلیدی ڈال دی گئی تو کیا نماز باقی رہی تو آنحضرت ۖ نے سجدہ ختم کیوں نہیں کیا ؟ فقہی نقطۂ نظر سے یہ مسئلہ بحث طلب ہے اس بناء پر امام بخاری رحمہ اللہ کا رُجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائِ نماز اور بقائِ نماز کی حالت میں فرق ہے، نماز کی ابتداء بیشک اس طرح کرنی چاہیے کہ بدن یا کپڑوں پر کوئی ناپاکی نہ ہو لیکن بقائِ نماز کے لیے یہ شرط نہیں ہے ! لیکن دیگر ائمہ کا یہ مسلک نہیں ہے امام ابویوسف رحمہ اللہ کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر نماز میں ناپاکی اتنی دیر رہے کہ اتنی دیر میں ایک رُکن ادا کیا جاسکتا ہے تب نماز نہیں ہوگی اور اگر اِس سے کم وقفہ تک رہے تو نماز ہوجائے گی۔ جو حضرات ابتداء اور بقاء دونوں کے لیے پاکی ضروری قرار دیتے ہیں ان کا ایک جواب وہ ہے جس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا یعنی آنحضرت کو جب ناپاکی کا احساس ہوا تو آپ نے یقین فرمالیا کہ نماز ختم ہوگئی اور اسی لیے آپ کو اِتنا صدمہ ہوا کہ آپ نے بد دعا فرمائی باقی آپ کا اسی حالت میں رہنا احتجاجاً تھا یعنی آپ نے سرِ مبارک اس لیے نہیں اُٹھایا کہ آپ بارگاہِ ربُ العالمین میں یہ حالت پیش فرماکر احتجاج فرما رہے تھے !
( باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
آنحضرت ۖ کی چھوٹی صاحبزادی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر ہوئی، وہ دوڑی ہوئی آئیں اور گندگی کے اِس بوجھ کو سرِ مبارک سے ہٹایا ١
جب حرمِ پاک میں رہنماؤں اور سرداروں کی یہ حرکتیں تھیں تو مکہ کے عوام مکہ کی گلیوں کوچوں میں جو کچھ کر گزرتے کم تھا ! چنانچہ ایسا بھی ہوا کہ اُوپر سے کوڑا کرکٹ ''جسد ِ اطہر'' پہ ڈالا گیا !
اور ایک پڑوسی عورت کا محبوب مشغلہ یہ تھا کہ وہ آپ کے راستے میں کانٹے بچھادیا کرتی تھی ! ٢
اس قسم کی حرکتیں خدا جانے کتنی ہوئیں اور لطف یہ ہے کہ یہ حرکتیں اصل پروگرام سے زائد تھیں ! !
منصوبہ بند کوششیں :
ابھی آنحضرت ۖ نے دعوتِ عام نہیں دی تھی، آپ خاموشی سے ذکر و فکر اور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی تربیت میں مصروف تھے اس وقت بھی قریش کے تاڑنے والوں نے یہ کوشش کی تھی کہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھے اور محمد رسول اللہ ۖ سے کسی طرح کی مفاہمت ہوجائے ! مگر اُن کی یہ کوششیں
(بقیہ حاشیہ ص ٢٢)لیکن حقیقت ہے کہ یہ تمام تحقیق اُس وقت ہے جب یہ مان لیا جائے کہ پاکی کے احکام اس واقعہ سے پہلے نازل ہوچکے تھے لیکن اگر پاکی کا حکم ( وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ ) ( المُدثر : ٤ ) بعد میں نازل ہوا تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا !
حافظ ابن حجر نے سورۂ مدثر کی تفسیرمیں ابن ِمنذر کی روایت پیش کی ہے القی علٰی رسول اللّٰہ ۖ سلٰی جزور فنزلت یعنی اس آیت کا سبب ِنزول ہی یہ واقعہ ہے۔ ( فتح الباری سورۂ مدثر ج٨ ص ١٥١ )
١ آنحضرت کو جو تکلیف پہنچائی جاتی تھی آپ اس کا انتقام تو کیا لیتے کبھی بد دُعا بھی نہیں کرتے تھے البتہ حقوق اللہ کی توہین کی جاتی تھی تو آپ بے چین ہوجاتے تھے اور اُس وقت بد دُعا کے الفاظ بھی زبانِ مبارک پر آجاتے تھے ! یہاں اس وقت جو کچھ کیا گیا اس میں اوّل حرمِ کعبہ کی توہین تھی جو خود عقیدۂ قریش کے بموجب بھی حق اللہ کی توہین تھی، دوم یہ کہ بارگاہ ِ خدا میں سجدہ ریزی کی توہین تھی جس کو ہر ایک سلیم الفطرت انسان کی فطرت حق اللہ کی توہین سمجھتی ہے چنانچہ اس موقع پر اِن سردارانِ قریش کے حق میں آپ کی زبان سے بد دُعائیہ کلمات نکلے اور وہ اس طرح پورے ہوئے کہ یہ سب سردار جنگ ِبدر میں مارے گئے ! ! ! (بخاری شریف ص ٣٧ وغیرہ)
٢ یہ ابو لہب کی بیوی تھی جو آنحضرت ۖ کی چچی بھی ہوتی تھی اور اس نے آپ کو بچپن میں گود بھی کھلایا تھا ۔ (طبقات ابن سعد ج١ ص ١٣٤)
ناکام رہی تھیں ! لیکن جب آنحضرت ۖ نے پورے قریش بلکہ پورے عرب کو مخاطب کر کے تبلیغ شروع کی تو مخالفانہ کوششوں کا بھی نیا دور شروع ہوا !
قریش کے لیے یہ سوال بہت اہم اور بہت پیچیدہ تھا کہ جس کا وہ احترام کرتے رہے تھے اور جس کو '' الصادق'' اور '' الامین ''کہا کرتے تھے اب اس کی تردید کس طرح کریں اور عوام کو کس طرح مطمئن کر کے ''الصادق الامین '' کے خلاف مشتعل کریں ! ؟
حج کا زمانہ قریب آیا تو یہ سوال بہت اہم ہوگیا کیونکہ یہ یقین تھا کہ محمد (رسول اللہ ۖ )اس اجتماعِ عظیم سے فائدہ اُٹھائیں گے اس مسئلہ پر غور کرنے کے لیے قبائلِ مکہ کے ذمہ داروں کا اجتماع کیا گیا ! ! بحث مباحثہ کے بعد طے کیا گیا کہ پہلے محمد ۖ سے الگ گفتگو کر لی جائے ولید بن مغیرہ کو گفتگو کے لیے منتخب کیا گیا ولید بن مغیرہ مکہ کا سب سے بڑا دولتمند تھا، بہترین خطیب، بلند پایہ شاعر، جہاں دیدہ، عمر رسیدہ، تجربہ کار اور ایسا سلیقہ مند کہ شاہانِ ایران، افریقہ اور شام کے درباروں میں جاتا رہتا تھا اور وہاں اس کی عزت کی جاتی تھی ! ولید بن مغیرہ کا آسان تعارف اب یہ ہے کہ اسلام کے مشہور اور کامیاب ترین جرنیل حضرت خالد رضی اللہ عنہ اِس کے نامور فرزند تھے جو اِس واقعہ سے تقریبًا پندرہ سال بعد حلقۂ بگوشِ اسلام ہوئے ! !
ولید آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا، گفتگو کی ! آنحضرت ۖ نے اپنے مقصد کی وضاحت کی اور چند آیتیں قرآنِ پاک کی پڑھ کر سنائیں ! ولید آیتیں سن کو ہکا بکا رہ گیا ! آنحضرت ۖ کو تبلیغ سے منع تو کیا کرتا خود گم ہوگیا خاموشی سے مجلس سے اُٹھا اور جب مجلس ِقریش میں واپس پہنچا تو حالت عجیب تھی ! لوگوں کو خیال ہوا ولید بہک گیا ! محمد کا ہوگیا (ۖ) ! مگر ولید باہمہ عقل ودانش حیران تھا کہ جو کلام سنا ہے اِس کے بارہ میں اور خود محمد (رسول اللہۖ) کے بارہ میں کیا فیصلہ کرے ! ؟ پورے غور و فکر اور موازنہ کے بعد ولید نے ارکانِ مجلس سے کہا :
''محمد کو کاذب نہیں کہہ سکتے، اس کو کاہن بھی نہیں کہہ سکتے، شعر و سخن کا میں ماہر ہوں اس کا کلام شعر بھی نہیں ہے، کاہنوں کی تُک بندیوں کو بھی جانتا ہوں ،محمد جو کلام پیش کرتے ہیں وہ ان سب سے بہت بلند ہے اِس کو کوئی جواب نہیں اُس کی تاثیر کا یہ عالَم ہے کہ مجھ جیسا پختہ اور ٹھوس آدمی بھی چکرا گیا''
زرد صحافتی مہم : ١
اصل سوال کے متعلق ولید نے رائے دی کہ ''محمد'' ۖ کی شائستہ اور شیریں گفتگو اور اُس کلام کی غیر معمولی تاثیر کا توڑ یہی ہوسکتا ہے کہ پوری قوت سے پروپیگنڈہ کرو کہ
(١) محمد (ۖ) جادو گر ہے وہ ایسے منتر پڑھتا ہے کہ گھر گھر میں پھوٹ پڑجاتی ہے لہٰذا اِس کی بات نہ سنو ! !
(٢) وہ دین سے پھر گیا ہے، وہ کہتا ہے کہ تم سب تمہارے باپ دادا اور تمہارے وہ دیوتا جن کی پوجا کرتے ہو، یہ سب دوزخ کا ایندھن ہیں ! !
(٣) تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ محمد (ۖ) کا دماغ خراب ہوگیا ہے ! !
ولید کی رائے سے سب نے اتفاق کیا اور صرف طے ہی نہیں کیا بلکہ اِس شدومد سے عمل بھی شروع کردیا کہ ابھی قبائل کے لوگ حج کے لیے روانہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ محمد (ۖ) کی بے دینی کا چرچا ان کی گلی کوچوں تک پہنچ گیا ! اور نہ صرف محمد (ۖ) بلکہ آپ کے خاندان ''آلِ ہاشم'' کے متعلق بھی نفرت کی لہر اُن تمام قبائل میں دوڑگئی جو حج کے لیے آنے والے تھے ! !
ابولہب کی ذمہ داری :
ابو لہب کے متعلق طے کیا گیا کہ وہ محمد (ۖ) کی نگرانی رکھیں گے اور جہاں وہ تقریر کرنا چاہیں یا لوگوں سے گفتگو کریں وہ ان کو منتشر کردیں ! ''ابو لہب'' آنحضرت ۖ کا سب سے بڑا چچا (تایا) تھا، مالدار اور باوجاہت بھی تھا ! عرب کے قاعدے کے مطابق خاندان کا بڑا شخص خاندان کے ہر فرد کا ولی مانا جاتا تھا اور اُس کو حق ہوتا تھا کہ وہ اپنے چھوٹے کے متعلق کوئی اعلان کردے، قصاص وغیرہ کے قضیوں میں ایسے ولی کے قول کی خاص اہمیت ہوتی تھی ! اسی غرض سے اُس کو اِس خدمت کے لیے مقرر کیا گیا تھا کہ خاندان کے سب سے بڑے شخص کی حیثیت سے لوگوں کو بتائے کہ محمد (ۖ) کا دماغ
١ DISINFORMATION
خراب ہوگیا ہے،وہ اپنے خاندانی بزرگوں کو جہنمی بتاتا ہے اور ویوتائوں کی توہین کرتا ہے وغیرہ ! ظاہر ہے خاندان کے سب سے بڑے شخص کے قول سے زیادہ کس کی بات معتبر ہوسکتی ہے ! ! ؟
آلِ ہاشم کی ذمہ داری :
حج کے موقع پر انتظام کے متعدد شعبے خصوصًا سِقایہ یعنی حاجیوں کے لیے پانی کا انتظام (جو سرزمینِ حجاز خصوصًا مکہ میں سب سے سخت کام تھا) آلِ ہاشم کے سپرد ہوتا تھا !
یہ عجیب بات ہے کہ ابولہب کے علاوہ آپ کا پورا خاندان اگرچہ مسلمان نہیں ہوا تھا مگر آپ کا حامی تھا ! خواجہ ابو طالب ان میں پیش پیش تھے ! سردارانِ قریش کے پروپیگنڈے کے باعث جو نفرت خاندانِ ہاشم سے عرب میں پھیل گئی تھی، خواجہ ابو طالب کو اِس کا اندازہ تھا، انہیں خطرہ ہوا کہ حج کے موقع پر یہ نفرت بغاوت کی شکل اختیار کرلے گی اور وہ ان خدمات سے محروم ہوجائیں گے جو حج کے موقع پر ان کے سپرد ہوتی تھیں ! قبائلی رقابت اس فتنہ کو اور ہوادے سکتی تھی !
منفی میڈیا مہم کا جواب :
لہٰذا خواجہ ابو طالب نے تقریبًا سو شعر کا طویل قصیدہ لکھا ١ جس میں خانہ کعبہ، حرم شریف کی عظمت وحرمت، اس کے واجب الاحترام ہونے کے متعلق مسلمہ روایات پھر خاندانِ ہاشم کی عظیم الشان خدمات کا تذکرہ کیا اس قصیدہ میں آنحضرت ۖ کی سیرت پر بھی روشنی ڈالی کہ اِن کے اخلاق واَوصاف کیا ہیں اور قریش کس طرح ان کی تعظیم کرتے رہے ہیں اسی قصیدہ کا وہ مشہور شعر ہے جو نعت شریف کے موقع پر عام طور سے پڑھایا جاتا ہے :
وَاَبْیَضَ یُسْتَسْتَقَی الْغَمَامُ بِوَجْھِہ ثِمَالُ الْیَتَامٰی عِصْمَة ِللْارَامِلِ٢
١ ابن ہشام نے اس پورے قصیدہ کو نقل کیا ہے اور اس کی وجہ تصنیف یہی بیان کی ہے جو اُو پر گزری( ج١ ص ١٦٦ تا ١٧١)
٢ یعنی محمد ۖ کی ایک تعریف یہ ہے کہ ایسا روشن چہرہ جس کا واسطہ دے کر بادل سے بارش مانگی جاتی ہے ! یتیموں کی پناہ ہیں ! بے سہارا بیوہ عورتوں کی عصمتوں کے محافظ ! (صحیح البخاری رقم الحدیث ١٠٠٨ )
(یہ ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ بارش نہیں ہوئی تھی تو قریش نے آپ سے دعا کرائی تھی اور بارش ہوگئی تھی)
آنحضرت ۖ کے محامد بیان کرنے کے بعد یہ بھی واضح کیا کہ اگرچہ وہ ایک نئے مذہب کی دعوت دے رہے ہیں مگر اَبنائِ ہاشم جو حجاج کی خدمت کرتے ہیں وہ ان کے مذہب کے حامی نہیں ہیں وہ بدستور اپنے قدیم مذہب پر قائم ہیں اور ان کے عقائد وہی ہیں جو سردارانِ قریش اورعام عرب کے عقائد ہیں، وہ اسی طرح دیوتاؤں کو مانتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں، بایں ہمہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ''محمد'' (ۖ)کو مخالفین کے حوالے کردیں ! خاندانِ ابو طالب اپنی جانیں قربان کردے گا مگر اپنی موجودگی میں محمد (ۖ) کا بال بیکا نہیں ہونے دے گا ! ! !
عرب شعر کے دلدادہ ہوتے تھے، شاعروں کے قصیدے جیسے ہی پڑھے جاتے تھے، بچہ بچہ کی زبان پر چڑھ جاتے تھے اور پھر جگہ جگہ وہ نقل کیے جاتے تھے ! اُس وقت شعراء کے قصائد کو وہی طاقت حاصل تھی جو دورِ حاضر میں کسی مضبوط پریس کو حاصل ہے چنانچہ خواجہ ابو طالب کا یہ قصیدہ تمام قبائل میں پھیل گیا اور اس طرح وہ فتنہ فر و ہوا جو بنو ہاشم کے خلاف کھڑا کیا جا رہا تھا ! مگر آنحضرت ۖ کی دعوت کے متعلق اس کی وہی قوت باقی رہی بلکہ خواجہ ابو طالب کے قصیدے نے اور تائید کردی کہ محمد (ۖ) نئے مذہب کے داعی ہیں ! چنانچہ خواجہ ابو طالب اور ان کے ساتھیوں کو تو اپنی خدمات کی انجام دہی میں کوئی نئی دُشواری پیش نہیں آئی مگر آنحضرت (ۖ ) کا تعاقب پوری طرح کیا گیا آنحضرت ۖ جہاں تشریف لے جاتے عرب کا گورا چٹا ١ ایک باوجاہت سردار (ابولہب) ان کے پیچھے ہوتا جو لوگوں کو ڈانتا رہتا کہ اِن کی بات نہ سنو، یہ پاگل ہوگئے ہیں ٢ ( مَعَاذَ اللّٰہ )
١ ابو لہب کا رنگ سفید، سرخی رُخساروں میں گھپی ہوئی، اس کے رُخساروں کو شعلوں سے تشبیہہ دیتے ہوئے اس کا لقب ''ابو لہب'' رکھا گیا تھایعنی شعلوں والا ٢ طبقات ابن سعد ج١ ص ١٤٥ وغیرہ
ہڑبونگ اور اِنتشار :
ابو لہب کا یہ طریقہ انفرادی نہیں رہا بلکہ اجتماعی بن گیا اور یہ طے کردیا گیا کہ محمد رسول اللہ (ۖ) جہاں بھی تقریر کریں یا قرآنِ پاک کی آیتیں سنائیں اتنا شور مچاؤ کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے اور محمد (ۖ) زچ ہوکر رہ جائیں ١ قریش ِ مکہ کی شرارت پسندی کو دَاد دینی چاہیے کہ کئی سال تک یہ پروگرام چلاتے رہے ! ! !
ناکہ بندی :
ابو ذر قبیلہ غفار کے نمایاں شخص تھے، دل میں صداقت کی تڑپ رکھتے تھے آنحضرت ۖ کے دعویٰ ٔنبوت کا چرچا آپ تک پہنچا، حقیقت معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوا، چھوٹے بھائی (اُنَیْس) سے کہا مکہ معظمہ جاؤ اور تحقیق کر کے آؤ، اُنَیْس مکہ آئے، ملے جلے اور واپس جاکر رپورٹ دی
''ایک صاحب ہیں اچھی باتیں بتاتے ہیں بری باتوں سے روکتے ہیں ''
ابو ذر اس دو حرفی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوئے خود سفر کا اِرادہ کر لیا اور فورًا ہی تیار ہوکر چل دیے ! ابو ذر مکہ میں آئے لیکن تحقیق کس سے کریں ؟ جہاں نام لینا بھی مصیبت کا سر لینا تھا، لوگ مارنے اور پیٹنے کو تیار ہوجاتے تھے، وہاں راستہ کو ن بتاتا اور تعارف کون کراتا، کئی دن اسی شش وپنج میں گزر گئے حضرت علی رضی اللہ عنہ اِن کو دیکھا کرتے تھے ایک روز ان کو دیکھ کر ٹھٹکے اَتہ پتہ اور مکہ آنے کا سبب معلوم کیا اور جب مقصد معلوم ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو مگر اس طرح چلو کہ کسی کو معلوم نہ ہوکہ میرے ساتھ چل رہے ہو، میں کوئی اندیشہ محسوس کروں گا تو چپل ٹھیک کرنے کے بہانے دیوار سے لگ کر کھڑا ہو جاؤں گا تم آگے چلتے رہنا ! غرض حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بڑی رازداری سے کام لیا تب حضرت ابوذر منزلِ مقصود تک پہنچ سکے ! ! !
حضرت ابو ذر کی نظر رُوئے انور پر پڑی، دل نے تصدیق کی کہ گوہر مراد حاصل ہوگیا ! آپ نے اسلام کا پیغام معلوم کیا اور بقول ابو ذر وہیں کے وہیں (فورًا) مسلمان ہوگئے ! ! ٢
١ قَالَ اللّٰہ تَعَالٰی ( لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ ) ( سُورۂ حٰم سجدہ : ٢٦ )
٢ اَسْلَمْتُ مَکَانِیْ ( صحیح البخاری ص٤٩٩)
زَدوکوب اور مشقِ ستم : ١
ایمان کا نور تھا یا جرأت وہمت کا فولاد جو اَبوذر کو حاصل ہوا ! واپس ہوکر حرمِ کعبہ میں پہنچے قریش کے کئی سردار حرم میں موجود تھے حضرت ابوذر کی نظر اِن فرعون منش سرداروں پر پڑی تو جوش آگیا ایسی سیدھی راہ اور ایسی سچی بات ! اور ان لوگوں نے اس کے ناکے بند کر رکھے ہیں ! ؟
اور یہ محمد(ۖ) مجسم صداقت وہدایت ان کا کوئی نام تک زبان پر نہیں لاسکتا اس تصور نے جذبہ کی قوت حاصل کی ! چنانچہ آپ نے ان رؤسا کو خطاب کر کے فرمایا
یَا مَعَشَرَ الْقُرَیْش ! اِنِّی اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
(اے قریشیو ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں )
قریش کے سردار اس جرأت کو کب نظر انداز کر سکتے تھے ، آوازدی
قُوْمُوْا اِلٰی ھٰذَا الصَّابِیْ اُٹھ کھڑے ہو اِس بے دین کی طرف (مارو اِس بے دین کو)
سب طرف سے لوگ حضرت ابو ذر پر ٹوٹ پڑے اور جاں بلب کردیا !
حضرت عباس جو اَب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہاں موجود تھے، انہیں خطرہ ہوا کہ ابو ذر کی جان جاتی رہے گی وہ اِن کے اُوپر اوندھے پڑگئے اور پکار کر کہا :
''یہ قبیلہ غفار کا آدمی ہے ، اس کے قبیلہ والوں نے اگر تمہارا راستہ بند کردیا
تو بھوکے مر جاؤ گے ، غلہ کا ایک دانہ تم تک نہ پہنچ سکے گا ''
غلہ کا نام سن کر لوگوں نے ان کو چھوڑا !
اگلے روز پھر یہی ہوا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اسلام کا نعرہ بلند کیا اور قریش کے نوجوانوں نے اِن کو پیٹنا شروع کیا، تب بھی حضرت عباس ہی کسی طرح وہاں پہنچ گئے اور یہی کہہ کر اِن کو بچایا ! ! ٢
اس طرح کے واقعات اسلام لانے والوں کے ساتھ مسلسل ہوتے رہتے تھے
١ مذہبی آزادی سلب ، عدم برداشت اور دہشت گردی ٢ بخاری شریف ص ٤٩٩
٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کئی بار اِس طرح تختۂ مشق بن چکے تھے ! مگر مارنے والوں میں کوئی بچانے والا بھی کھڑا ہوجاتا تھا جس سے جان بچ جاتی تھی ! !
لیکن ایسا بھی ہوا کہ کوئی بچانے والا نہیں پہنچ سکا تو جان بھی جاتی رہی !
٭ حارث بن ابی ہالہ جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لڑکے اور آنحضرت ۖ کے پر وردہ تھے ایک مرتبہ آنحضرت ۖ کو چھڑانے آئے، لوگوں نے آپ کو تو چھوڑدیا مگر اِن کو اِتنا مارا کہ شہید ہوگئے اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون تھا جس سے حرمِ مکہ کی وہ زمین رنگین ہوئی جہاں اللہ کے بندے طواف کیا کرتے ہیں ! ! ! ١
٭ حضرت عمار رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں ان کے والد کا نام یاسر اور والدہ کا نام سُمَیَّہ تھا ابوجہل نے حضرت سُمَیَّہ رضی اللّٰہ عنہا کے اندام نہانی میں برچھی ماری وہ غریب شہید ہوگئیں ! ! یہ پہلی خاتون تھیں جو راہِ خدا میں شہید ہوئیں ! ٢
٭ حضرت عمار کو جلتی ہوئی زمین پر لٹاتے اور اِتنا مارتے کہ بے ہوش ہوجاتے تھے مگر زندگی تھی باقی رہ گئے !
٭ حضرت بلال اُمیہ بن خلف کے غلام تھے جب ٹھیک دوپہر ہوجاتی تو ان کو تپتے ہوئے بالُو پر لٹا یا جاتا ٣ اور پتھر اِن کے سینہ پر رکھ دیا جاتا کہ جنبش نہ کرنے پائیں اور ان سے کہا جاتا کہ اسلام سے باز آئیں، مگر اِن کی زبان سے '' اَحَدْ '' ہی نکلتا یعنی ''معبود ایک ہی ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ہے'' جب دھوپ میں تیزی نہ رہتی تو گلے میں رسی بندھوا کر لڑکوں کے حوالے کردیا جاتا کہ مکہ کے اِس سرے سے اُس سرے تک گھسیٹتے پھریں ! ! !
١ اَوَّلُ مَنْ قُتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ تَحْتَ الرُّکْنِ الْیَمَانِیْ ( الاصابہ ج١ ص ٣٠٦ )
٢ اَوَّلُ شَہِیْدَةٍ فِی الْاِسْلَامِ ( الاستیعاب ص ٦٣٥ ) ٣ ریت
٭ حضرت ابوفُکَیہہ صفوان بن اُمیہ کے غلام تھے، صفوان ان کو بھی یہی سزا دلواتا تھا کہ اِن کو گھسیٹتے ہوئے تپتے ہوئے ریت پر ڈال دیا جاتا اور سینہ پر پتھر رکھ دیا جاتا، ایک روز اتنا بھاری پتھر سینہ پر رکھ دیا گیا کہ ان کی زبان نکل آئی ! ! !
٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو تیسرے خلیفہ ہوئے، بہت اُونچے خاندان کے باحیثیت رئیس تھے جب مسلمان ہوئے تو دوسروں نے نہیں خود اِن کے چچا نے ان کو رسی سے باندھ کر مارا ! ! !
٭ حضرت زُبیر بن العَوَّام اسلام لائے تو ان کے چچا اِن کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے ! ! !
٭ حضرت خَبَّابْ بن الارت مسلمان ہوئے تو ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں ! ایک روز دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹادیا گیا، ایک شخص چھاتی پر پیر رکھ کر کھڑا ہوگیا کہ کروٹ نہ لے سکیں، یہاں تک کہ کوئلے خون اور چربی سے تر ہوکر ٹھنڈے ہوگئے ! مدتوں کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا اور پیٹھ کھول کر دکھائی جو برص کے داغ کی طرح بالکل سفید تھی ١
الغرض اس طرح کے مظلوموں کی فہرست بہت طویل ہے اور مظالم کی داستان اس سے بھی زیادہ طویل ! مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے مظالم جو سوچے سمجھے منصوبے کے بموجب قریش کی طرف سے کیے جارہے تھے انہوں نے مکہ کی پوری فضا کو اس درجہ دہشت زدہ اور مرعوب کردیا تھا کہ کھلے بندوں اعلانِ حق تو درکنار لوگوں کو آنحضرت ۖ کا نامِ نامی زبان پر لانے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی حتی کہ حضرت ابو ذر غفاری بعض روایتوں کے بموجب ایک ماہ تک حرم شریف میں پڑے رہے صرف زم زم پر گزر رہا مگر آنحضرت ۖ تک نہ پہنچ سکے، کسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اَندازہ ہوا تو بڑی رازداری کے ساتھ وہ آنحضرت ۖ کے پاس لے گئے (جس کی تفصیل اُوپر گزری)
١ یہ تمام واقعات اِن حضرات کے حالات میں ''الاستیعاب '' اور '' الاصابہ'' وغیرہ میں درج ہیں۔
رُوپوشی :
اس طرح کے بے پناہ مظالم نے آنحضرت ۖ کو مجبور کردیا کہ کسی خفیہ مقام پر قیام فرمائیں چنانچہ ایک مدت تک دارِ بنی اَرقم میں آپ اور آپ کے ساتھی جن کی تعداد تیس کے قریب تھی، پناہ گزیں رہے !
نہایت عجیب بات یہ ہے کہ اِن تمام مظالم کے مقابلہ میں رَحْمَة لِّلْعَالَمِیْن کی زبانِ مبارک اگر متحرک ہوتی تو صرف دعائے خیر کے لیے ! یہی حضرت خباب جن کو اَنگاروں پر لٹایا گیا تھا اُنہوں نے ایک روز درخواست کی کہ رسولِ خدا (ۖ) ان ظالموں کے لیے بد دُعا فرمادیں ! آنحضرت ۖ دیوارِ کعبہ کے سایہ میں چادر کا تکیہ بنائے ہوئے اس کے سہارے تشریف فرما تھے جیسے ہی حضرت خباب کے الفاظ سُنے سیدھے بیٹھ گئے رُوئے انور سرخ ہوگیا ! فرمایا :
''پہلی اُمتوں میں یہاں تک ظلم ہوئے ہیں کہ لوہے کے کنگھے سے ہڈیوں اور پٹھوں تک گوشت کھرچ دیا جاتا تھا، کسی داعی ٔ حق کے سر پر آرہ رکھ کر بیچ سے چیر دیا گیا مگر ان حضرات کے پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی ! پھر فرمایا یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو مکمل فرمائے گا یہاں تک کہ ایک مسافر تنہا صنعاء یمن سے حضرِ موت تک پہنچ جایا کرے گا، راستہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا اُس کو کسی کا خوف نہیں ہوگا، بہت سے بہت بھیڑیے کا خطرہ ہوگا جو اِس کے گلہ پر حملہ کر سکے گا ١
مقصد :
حضرت عمار ،ان کے والد اور والدہ تینوں کو طرح طرح ستایا جا رہا تھا آنحضرت ۖ اس طرف سے گزرے ان کو مبتلائِ عذاب دیکھ کر فرمایا : صَبْرًا یَا آلَ یَاسِرٍ اِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّةُ ٢ ''آلِ یاسر ! صبرو کرو، تم سے جنت کا وعدہ ہے''
١ بخاری شریف ص ٥٤٣ ٢ الاستیعاب ص ٦٣٦
نصب العین :
یعنی اس انقلابی پارٹی کی پہلی شرط یہ تھی کہ اس کے مجاہدین کی نظر صرف آخرت پر ہوگی ! ان کی ہر قربانی اللہ کے لیے ہوگی ! غلبہ اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد یقینا دنیاوی مفادات بھی حاصل ہوں گے مگر وہ اللہ تعالیٰ کا فضل واِنعام مانا جائے گا، مجاہد کا نصب العین نہیں ہوگا قرآنِ حکیم نے اعلان فرمادیا :
( تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ ) ( سُورة القصص : ٨٣ )
''یہ عالمِ آخرت ہم ان ہی لوگوں کے لیے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑا بننا
چاہتے ہیں اور نہ فساد کرنا اور نیک نتیجہ متقی لوگوں کے لیے ہوتا ہے''
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ ۖ ص ٢٧٠ تا ٢٨٢ )
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (اِدارہ)
تربیت ِ اولاد قسط : ٢
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ !
اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
اولاد کی اہمیت اور اُس کے فضائل :
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور بچے جنے والی ہو کیونکہ تمہاری زیادتی سے دُوسرے اُمتوں پر فخر کروں گا کہ میری اُمت اتنی زیادہ ہے۔ (ابوداود و نسائی )
فائدہ : اولاد کا ہونا بھی کتنا بڑا فائدہ ہے زندگی میں بھی کہ وہ سب سے بڑھ کر اپنے خدمت گزار اور مددگار اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد اِس کے لیے دُعا ( اورایصالِ ثواب بھی کرتے ہیں) اور اگر آگے نسل چلی تو اُس کے دینی راستہ پر چلنے والے مدتوں تک رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی برابر اِس کو ثواب ملتا رہتا ہے اور قیامت میں بھی (بڑا فائدہ ہے )۔ اسی طرح جو بچے بچپن میں مرگئے وہ اِس کو بخشوائیں گے ! جو بالغ ہو کر نیک ہوئے وہ بھی (اپنے والدین کے لیے ) سفارش کریں گے ! اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہے جس سے دُنیا میں بھی قوت بڑھتی ہے اور قیامت میں ہمارے پیغمبر ۖ خوش ہوکر فخر فرمائیں گے ! (حیاة المسلمین )
حضور ۖ کی اولاد سے محبت :
حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دل میں پیدا کی ہے اور یہ ایسی محبت ہے کہ جو مقدس ذاتیں محض حق تعالیٰ ہی کی محبت کے لیے مخصوص ہیں وہ بھی اس محبت سے خالی نہیں چنانچہ سیدنا رسول اللہ ۖ کو حضراتِ حسنین سے ایسی محبت تھی کہ ایک بار آپ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں حضرات حسنین بچے تھے لڑکھڑاتے ہوئے مسجد میں آگئے۔ حضور ۖ سے اُن کا لڑ کھڑانا دیکھ کر نہ رہاگیا۔ آپ نے درمیانِ خطبہ ہی ممبر سے اُتر کر اُن کو گود میں اُٹھالیااور پھر خطبہ جاری فرمایا ! اگر آج کوئی شیخ ایسا کرے تو جہلا اُس کی حرکت کو خلافِ وقار کہتے ہیں، مگر وہ زبان سنبھالیں کیسا وقار لیے پھرتے ہیں آج کل لوگوں نے تکبر کانام وقار اور خودداری رکھ لیاہے !
اور وفات کے واقعات میں یہ ہوا کہ حضور ۖ نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت رنج وغم کا اظہار فرمایا، آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان سے یہ بھی فرمایا کہ اے ابراہیم ہم کو تمہاری جدائی کا واقعی صدمہ ہے !
الغرض اولاد کی محبت سے ذوات ِقدسیہ بھی خالی نہیںیہ تو حق تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہمارے اندر اولاد کی محبت پیدا کردی اور اگر یہ داعی نہ ہوتا تو ہم اُن کے حقوق ادا نہ کرسکتے ! (الفیض الحسن ملحقہ حقوق الزوجین)
اولاد کی محبت کیوں پیدا کی گئی ؟
بچے جو گوہ کا ڈھیر اور موت کی پوٹ ہیں، اُن کی پرورش بغیر قلبی داعیہ (اور جذبہ) کے ہوہی نہیں سکتی ! بچے تو ہروقت اپنی خدمت کراتے ہیں، خود خدمت کے لائق نہیں اُن کی حرکتیں بھی مجنونانہ (پاگل پن کی سی ہوتی) ہیں مگر حق تعالیٰ نے ایسی محبت پیداکردی ہے کہ اُن کی مجنونانہ حرکت بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں حتی کہ بعض دفعہ وہ کبھی خلافِ تہذیب کام کرتے ہیں جس پر سزا دیناعقلاً ضروری ہوتا ہے مگر بچوں کے متعلق عقلمندوں میں اختلاف ہوجا تاہے، ایک کہتا ہے سزا دی جائے دُوسرا کہتا ہے نہیں بچے ہیں ان سے ایسی غلطی ہو ہی جاتی ہے معاف کردینا چاہیے ! غرض اپنے بچوں کو تو کیوں نہ چاہیں، دُوسرے کے بچوں کو دیکھ کر پیار آتا ہے اور اُن کی حرکتیں اچھی معلوم ہوتی ہیں ! اگر یہ محبت کا تقاضا اور داعیہ نہ ہوتو راتوں کو جاگنا اور گوہ موت کرانا دشوار ہوجاتا، کسی غیر کی بچے کی خدمت کر کے دیکھو تو حقیقت معلوم ہوجائے گی ! گو خدا کا خوف کرکے تم روزانہ اُس کی خدمت کردو مگر دل میں ناگواری ضرور ہوگی غصہ بھی آئے گا سوتیلی اولاد کی خدمت اس لیے گراں ہوتی ہے کہ اس کے دل میں اُن کی محبت نہیں ہوتی چونکہ اولاد کی محبت بغیر محبت کے دُشوار تھی اس لیے حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دل میں ایسی پیدا کردی کہ اب وہ اُس کی خدمت کرنے پر مجبور ہیں ! ! !
اولاد کی تمنا :
(لوگوں کو) اَولاد کی تمنا اِس لیے ہوتی ہے کہ نام باقی رہے گا (خاندان اور سلسلہ چلے گا ) ! تو نام کی حقیقت سن لیجئے کہ ایک مجمع میں جاکر ذرا لوگوں سے پوچھئے تو بہت سے لوگوں کو پردادا کانام معلوم نہ ہوگا ! جب خود اولاد ہی کو اپنے پردادا کانام معلوم نہیں تو دُوسروں کو خاک معلوم ہوگا ؟ تو بتلائیے اولاد والوں کا بھی نام کہاں رہا ؟ !
صاحبو ! نام تو خدا کی فرمانبرداری سے چلتاہے ! خدا کی فرمانبرداری کرو اُ س سے نام چلے گا ! اولاد سے نام نہیں چلا کرتا بلکہ اولاد نالائق ہوئی تو اُلٹی بدنامی ہوتی ہے ! اور نام چلا بھی تو نام چلنا ہی کیا چیز ہے جس کی تمنا کی جائے ! یوں کسی کو طبعی طور پر اَولاد کی تمنا بھی ہوتو میں اُس کو برا نہیں کہتا کیونکہ اولاد کی محبت انسان میں طبعی (فطری ) ہے چنانچہ بعض لوگ جنت میں بھی اولاد کی تمنا کریں گے حالانکہ وہاں نام کا چلنا بھی مقصود نہ ہوگا۔ کیونکہ جنت کے رہنے والے کبھی ختم نہ ہوں گے بلکہ وہاں اس تمنا کا منشاء (سبب )محض طبعی تقا ضا ہوگا، تو میں اس سے منع نہیں کرتا۔
مقصود صرف یہ ہے کہ اس طبعی تقاضے کی وجہ سے عورت کی خطاء نکال لینا کہ تیرے اولاد نہیں ہوتی یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں ،بڑی غلطی ہے ! اور اس قسم کی غیر اختیاری جرائم نکال کر اُن سے خفا ہونا اور اُن پر زیادتی کرنا ممنوع (اور ناجائز) حرام ہے ! اس میں اُن بیچاریوں کی کیا خطا ہے جو ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ! ( حقوق البیت ص ٣٩)
یہ تو نہایت سخت غلطی ہے مثلاً بعض لوگ بیوی سے کہتے ہیں کہ کمبخت تیرے کبھی اولاد ہی نہیں ہوتی تو اس میں وہ بیچاری کیا کرے ؟ اولاد کا ہونا کسی کے اختیار میںتھوڑی ہے بعض دفعہ بادشاہوں کے اولاد نہیں ہوتی حالانکہ وہ ہر قسم کی مقوی غذائیں اور (حمل والی ) دوائیں بھی استعمال کرتے ہیں مگر پھر بھی خاک اثر نہیں ہوتا ! یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے قبضہ واِختیار کی بات ہے اس میں عورتوں کا کیا قصورہے ؟
بعض مردوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ بیوی سے اس بات پر خفا ہوتے ہیں کہ کم بخت تیرے تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوتی ہیں ! سو اوّل تو اِس میں اُس کی کیا خطا ہے، اطبائ(ڈاکٹروں ) سے پوچھوتو وہ شاید اس میں آپ ہی کا قصور بتلائیں ، دُوسرے یہ ناگواری کی بات بھی نہیں !
اگر اولاد ذخیرہ ٔ آخرت ہوتو بہت بڑی نعمت ہے :
اگر اولاد دین میں مدد دے تو سبحان اللہ (اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ) ایک بزرگ تھے وہ نکاح نہ کرتے تھے ایک مرتبہ سورہے تھے کہ اچانک چونک پڑے اور کہنے لگے جلدی کوئی لڑکی لاؤ (نکاح کرناہے ) ایک مخلص مرید حاضر تھے اُن کی ایک لڑکی کنواری تھی لاکر فوراً حاضر کی اُسی وقت نکاح ہوا اللہ تعالیٰ نے ایک بچہ دیا اور وہ مرگیا۔ بیوی سے کہا کہ جو میرا مطلب تھا وہ پورا ہو گیا اب تجھ کو اختیار ہے اگر تجھ کو دُنیا کی خواہش ہے تو میں تجھ کو آزاد کردُوں کسی سے نکاح کرلے اور اگر اللہ کی یاد میں اپنی عمر ختم کرنا ہو تو یہاں رہو چونکہ وہ بیوی اُن کے پاس رہ چکی تھی اور صحبت کا اثر اُس کے اندر آگیا تھا اُس نے کہا کہ میں تو اب کہیں نہیں جاؤں گی چنانچہ دونوں میاں بیوی اللہ کے یاد میں رہے !
(باقی صفحہ ٦٠)
رحمن کے خاص بندے قسط : ١٣
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
کھانے پینے میں اسراف :
اسلام نے جائز حدود میں رہتے ہوئے کھانے پینے وغیرہ پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے ! لیکن اگر کسی انسان کی یہ حالت ہوجائے کہ وہ ہر وقت اسی اُدھیڑپن میں لگا رہے کہ کیا کھائے اور کیا پیے ؟ تو یہ حالت کسی بھی انسان کے لیے پسندیدہ قرار نہیں دی جاسکتی ! کیونکہ انسان کی پیدائش محض کھانے پینے کے لیے نہیں ہوئی ہے بلکہ اپنے رب کی اطاعت اور بندگی اس کے وجود کا اصل مقصد ہے اس مقصد کو دَرکنار کر کے چٹورپن کا عادی بن جانا محض خسارے کی بات ہے !
٭ سیّدنا حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ۖ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ
مَا مَلَأَ آدَمِیّ وِعَائً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ اَکَلات یُقِمْنَ صُلْبَہ
فَاِنْ کَانَتْ لَا مَحَالَةَ فَثُلُت لِطَعَامِہ وَ ثُلُث لِشَرَابِہ وَ ثُلُث لِنَفَسِہ۔ ١
''آدمی پیٹ سے زیادہ بدترین برتن کوئی نہیں بھرتا، آدمی کو پیٹھ سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں، پس اگر ضروری ہی ہو تو تہائی حصہ کھانے کے لیے، تہائی حصہ پینے کے لیے اور تہائی حصہ سانس لینے کے لیے رکھنا چاہیے''
٭ سیّدنا ابوجُحیفہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ثرید (گوشت کے شوربے میں روٹی کے ٹکڑے ڈال کر تیار کیا ہوا کھانا ) کھا کر پیغمبر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھے ڈکار آنے لگی جسے سن کر پیغمبر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
١ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٢٣٨ ، الترغیب و الترھیب رقم الحدیث ٣٢٧٣
یَا ھٰذَا ! کُفَّ مِنْ جُشَائِکَ فَاِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ شَبَعًا فِی الدُّنْیَا اَکْثَرُھُمْ جُوْعًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ ١
''ارے بھائی ! اپنی ڈکار ہم سے الگ رکھو کیونکہ دنیا میں جو لوگ زیادہ بھر پیٹ رہیں گے وہی قیامت میں سب سے زیادہ بھوکے ہوں گے''
سیّدنا ابوجُحیفہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا الخ
٭ سیّدنا حضرت ابو اُمامہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا :
سَیَکُوْنُ رِجَال مِّنْ اُمَّتِیْ یَأْکُلُوْنَ اَلْوَانَ الطَّعَامِ وَ یَشْرَبُوْنَ اَلْوَانَ الشَّرَابِ
وَ یَلْبَسُوْنَ اَلْوَانَ الثِّیَابِ وَ یَتَشَدَّقُوْنَ فِی الْکَلَامِ فَاُولٰئِکَ شِرَارُ اُمَّتِیْ ٢
''عنقریب میری اُمت میں ایسے لوگ پائے جائیں گے جو مختلف قسم کے کھانے کھائیں گے اور مختلف مشروبات پئیں گے اور طرح طرح کے کپڑے پہنیں گے اور مَٹھار مَٹھار کر باتیں بنائیں گے پس یہ میری اُمت کے بدترین لوگ ہیں''
٭ سیّدنا عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ۖ نے صحابہ کرام کے چہروں سے بھوک کا احساس فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا کہ ''بشارت قبول کرو ! کیونکہ عنقریب تم پر ایک ایسا زمانہ آنے والاہے کہ صبح کو تمہارے سامنے ثرید کا پیالہ لایا جائے گا اور شام کو بھی اُسی طرح کا کھانا پیش کیا جائے گا'' تو صحابہ نے عرض کیاکہ اس دن ہم لوگ اچھی حالت میں ہوں گے (گویا کہ عبادت میں یکسوئی میسر ہوگی) تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ''نہیں، بلکہ آج تم لوگ اس دن سے زیادہ بہتر حالت میں ہو'' ٣
١ الترغیب والترہیب مکمل حدیث ٣٢٧٤ بیت الافکار الدولیة
٢ الطبرانی فی الکبیر ٨/١٠٧ رقم الحدیث ٧٥١٣ دار احیاء التراث العربی ، الترغیب و الترھیب
مکمل رقم الحدیث ٣٢٩٤ بیت الافکار الدولیة ، ومثلہ عن فاطمة رقم الحدیث ٣٢١٢
٣ رواہ البزار ، الترغیب و الترہیب مکمل رقم الحدیث ٣٢٨١ بیت الافکار الدولیة
٭ سیّدنا حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
اِنَّمَا اَخْشٰی عَلَیْکُمْ شَھَوَاتِ الْغَیِّ فِیْ بُطُوْنِکُمْ وَ فُرُوْجِکُمْ وَ مُضِلَّاتِ الْھَوٰی ۔ ١
''مجھے تم پر تمہارے پیٹوں اور شرم گاہوں اور گمراہ کُن افکار میں کج روی کی خواہشات پیدا ہونے کا خطرہ ہے''
٭ سیّدنا حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
کُلُوْ وَاشْرَبُوْا وَ تَصَدَّقُوْا مَالَمْ یُخَالِطْہُ اِسْرَاف وَلَا مَخْیَلَة ۔ ٢
''کھاؤ پیو اور صدقہ کرو جب تک کہ اِس کے ساتھ اسراف اور کبرو غرور شامل نہ ہو''
٭ سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ پیغمبر ۖ نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ شِرَارَ اُمَّتِی الَّذِیْنَ غُذُوْا بِالنَّعِیْمِ وَ نَبَتَتْ عَلَیْہِ اَجْسَامُھُمْ ٣
''میری اُمت کے بدترین وہ لوگ ہیں جو نعمتوں میں پلیں بڑھیں اور اسی حالت میں اُن کے بدن پروان چڑھیں''
افسوس ہے کہ ایک طرف مذکورہ روایات ہیں، دوسری طرف آج ہم لوگوںکا حال یہ ہے کہ ہماری توجہات کھانے پینے کی لذتوں کی طرف حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں ! قوم کا چاہے کچھ بھی حال ہو اور دُنیا کے حالات کتنے ہی سنگین ہوں، ہمارے دسترخوانوں اور ہوٹلوں پر اس کا بظاہر کوئی اثر نظر نہیں آتا ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری قوم بس کھانے پینے میں ہی مست ہے اور اپنی ساری خداداد صلاحیتیں اِسی پر صرف کر رہی ہے الامان والحفیظ۔
١ رواہ احمد ٤/٤٢٠ دارُالفکر بیروت ، الترغیب و الترھیب مکمل رقم الحدیث ٣٢٨٧
٢ سُنن النسائی ج١ ص٢٧٥ ، سُنن ابن ماجة ص ٢٥٧ و الترغیب و الترھیب مکمل رقم الحدیث ٣٢٩١
٣ رواہ البزار، الترغیب و الترھیب مکمل رقم الحدیث ٣٢٩٣ بیت الافکار الدولیة
کھانے کو ضائع نہ کریں :
شریعت میں رزق کے احترام کی بڑی تاکید کی گئی ہے اسی لیے ہاتھو دھوکر دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا حکم ہے تاکہ اگر کھانے کا کوئی حصہ دسترخوان پر گر جائے تو وہ ضائع نہ ہو بلکہ جمع کر کے استعمال کر لیا جائے ! حد تو یہ ہے کہ اُنگلیوں پر جو کھانا لگا رہتا ہے اُسے بھی منہ سے چاٹ لینے کا حکم ہے، چاٹے بغیر رُومال سے صاف کرنا یا پانی سے دھولینا ممنوع ہے۔
اسی طرح حتی الامکان پلیٹ اور برتن کو صاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کو موجب ِاجر وثواب عمل قرار دیا گیا ہے ! اس میں بھی رزق کے اجزاء کی تعظیم پیش ِ نظر ہے۔
٭ سیّدنا حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا :
اِذَا اَکَلَ اَحَدُکُمْ طَعَامًا فَلَا یَمْسَحْ یَدَہ حَتّٰی یَلْعَقَھَا اَوْ یُلْعِقَھَا۔ ١
''جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اُس وقت تک اپنی اُنگلیوں کو صاف نہ کرے جب تک کہ انہیں خود نہ چاٹ لے یا (کسی دوسرے بے تکلف شخص کو) نہ چٹادے''
٭ سیّدنا حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ الشَّیْطَانَ لَیَحْضُرُ اَحَدَکُمْ عِنْدَ کُلِّ شَیْیئٍ مِنْ شَأْنِہ حَتّٰی یَحْضُرَہ عِنْدَ طَعَامِہ ، فَاِذَا سَقَطَتْ لُقْمَةُ اَحَدِکُمْ فَلْیَأْخُدْھَا فَلْیُمِطْ مَا کَانَ بِھَا مِنْ اَذًی ثُمَّ لِیَأْکُلُھَا وَلَا یَدَعَھَا لِلشَّیْطَانِ فَاِذَا فَرَغَ فَلْیَلْعَقْ اَصَابِعَہ فَاِنَّہ لَا یَدْرِیْ فِیْ اَیِّ طَعَامِہِ الْبَرَکَةُ ۔ ٢
''شیطان ہر کام کے وقت تمہارے پاس موجود رہتا ہے، یہاں تک کہ کھاتے وقت بھی حاضر ہوتا ہے، پس اگر تم میں سے کسی کا لقمہ ہاتھ سے گرجائے تو وہ اسے
١ صحیح البخاری رقم الحدیث ٥٤٥٦ ، صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٠٣١ ، الترغیب والترھیب مکمل رقم الحدیث ٣٣١٠ بیت الافکار الدولیة
٢ صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٠٣٣ ، الترغیب و الترھیب رقم الحدیث ٣٣٠٨ بیت الافکار الدولیة
اُٹھا کر ناگوار چیز دُور کر کے کھالے اور شیطان کے لیے نہ چھوڑے ! پھر جب کھانے سے فارغ ہوجائے تو اپنی اُنگلیاں چاٹ لے اس لیے کہ اُسے یہ معلوم نہیں ہے کہ کھانے کے کس حصہ میں برکت ہے ''
شارحین لکھتے ہیں کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ گرے ہوئے لقمے کو نہ کھانے میں ایک تو اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری اور رزق کی بے حرمتی لازم آتی ہے ! !
دوسرے یہ کہ اکثر متکبرین لوگ ہی یہ گرا ہوا لقمہ کھانے سے اعراض کرتے ہیں اور یہ شیطان کا طریقہ ہے اس لیے لَا یَدَعْھَا لِلشَّیْطَانِ (یہ لقمہ شیطان کے لیے نہ چھوڑو) کی تعبیر استعمال کی گئی ہے ۔ ١
بعض احادیث میں ہے کہ جو شخص دسترخوان پر گرے ہوئے ٹکڑوں کو کھانے کا اہتمام رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائیں گے۔ ٢
اور بعض اکابر سے منقول ہے کہ جو شخص گرے ہوئے کھانے کے ٹکڑوں کو کھائے گا وہ تنگ دستی اور موذی بیماریوں سے محفوظ رہے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ٣
بعض لوگوں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ روٹی کے درمیانی حصہ کو کھالیتے ہیں اور کنارے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر وہ کنارے کوڑے دان میں ڈال دیے جاتے ہیں تو یہ رزق کی بڑی بے حرمتی کی بات ہے اور سراسر اسراف میں داخل ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ ٤
برتن دُعا دیتا ہے :
برتن اور پلیٹ کو صاف کر کے رزق کو بے حرمتی سے بچانے پر نبی اکرم ۖ نے مغفرت کی بشارت سنائی ہے حضرت نُبیشة الخیر سے منقول ہے کہ نبی اکرم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
مَنْ اَکَلَ فِیْ قَصْعَةٍ ثُمَّ لَحِسَھَا اِسْتَغْفَرَتْ لَہُ الْقَصْعَةُ ۔ ٥
١ حاشیہ سنن الترمذی، ابواب الاطعمة ، باب ماجاء اللقمة تسقط ٢ /٢
٢ شمائل کبرٰی ١/٤٢ بحوالہ مجمع الزوائد ٥/٣٠ ٣ شمائلِ کبرٰی ١/٤٢
٤ مستفاد فتاویٰ تاتارخانیہ ج١٨ ص١٣٤ زکریا ٥ سُنن الترمذی باب ماجاء فی اللقمة تسقط ٢/٢
''جو شخص کسی پیالے میں کھانا کھائے پھر اس کو اچھی طرح صاف کرلے تو وہ پیالہ اُس کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے''
اس کی شرح کرتے ہوئے محدثین لکھتے ہیں کہ برتن کو صاف کرنا تواضع کی علامت ہے، پس جو شخص یہ عمل کرے گا وہ کبر سے بری ہونے کی وجہ سے مغفرت کا مستحق ہوگا ! اور چونکہ برتن اس مغفرت کے حصول کا سبب بن رہا ہے اس لیے طلب ِمغفرت کو برتن کی جانب منسوب کیا گیا ہے۔ ١
خلاصہ یہ کہ شریعت میں اس بات کی بہت تاکید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو رزق کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ اس کی ہرگز ناقدری نہ کریں ! لیکن اس معاملہ میں آج کل ہمارے معاشرے میں کوتاہیاں عام ہیں، بالخصوص تقریبات اور دعوتوں میں کھانے کی جس قدر بے حرمتی ہورہی ہے وہ ناقابلِ بیان ہے ! ہوس میں پلیٹوں میں زیادہ کھانا نکال لیا جاتا ہے اور پھر اسے بے تکلف کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے، پلیٹیں صاف کرنے کی سنت متروک ہوتی جارہی ہے اور کوئی شخص دوسرے کی پلیٹ میں چھوڑا ہوا کھانا ہرگز پسند نہیں کرتا ہے جس کی وجہ سے اس عمل کی برائی ہی دل سے نکل چکی ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لائے اور ہر طرح کی ناشکری اور ناقدری سے احتراز کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رزق کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائیں اور ناقدری کی وجہ سے اپنی نعمتوں سے محروم نہ فرمائیں، آمین !
١ طیبی بحوالہ حاشیہ سُنن ترمذی ٢/٢
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب قسط : ١
( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ )
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سیّد ِ عالم ۖ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں علماء نے اِن کو آنحضرت ۖ کی صاحبزادیوں میں عمر میں سب سے چھوٹی بتایا ہے حضرت عائشہ سے ایک صاحب نے دریافت کیا کہ آنحضرت ۖ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا ؟ جواب میں فرمایا فاطمہ ! سائل نے دوبارہ دریافت کیا کہ مردوں میں کون زیادہ محبوب تھا ؟ جواب میں فرمایا کہ فاطمہ کا شوہر !
الاصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت سیّد ِ عالم ۖ کی عمر شریف کے اکتالیسویں سال ہوئی ! مدائنی فرماتے ہیں کہ اِن کی ولادت اُس وقت ہوئی جبکہ آنحضرت ۖ کی عمر شریف ٣٥ سال تھی اور اُس وقت قریش کعبة اللہ کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے اور سیّد ِعالم ۖ بھی اُن کے ساتھ مشغول تھے۔
جب سیّد ِ عالم ۖ کو ربّ العزت کی جانب سے تبلیغ کا حکم ہوا اور آپ نے باَمر الٰہی توحید کی دعوت دینا شروع کردی تو قریش ِ مکہ آپ کے دُشمن ہوگئے اور طرح طرح سے آپ کو ستانے لگے ! آپ کی تکلیف سے آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اورآپ کی اولاد سب ہی کو تکلیف پہنچتی اور دُکھ ہوتا تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی کم عمری میں ان تکلیفوں کو سہتی تھیں۔ ایک مرتبہ سیّد ِ عالم ۖ نے کعبہ شریف کے قریب نماز کی نیت باندھ لی، وہیں قریش اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اِن میں سے ایک بدبخت نے حاضرین ِ مجلس سے کہا کہ بولو تم میں سے کون اِس کام کو کرسکتا ہے کہ فلاں خاندان نے جو اُونٹ ذبح کیا ہے اُس کی اَوجھڑی اور خون اور لید لے آوے اور پھر جب یہ سجدہ میں جاویں تو اِن کے کاندھوں کے درمیان رکھ دیوے ؟ یہ سن کر ایک شقی اُٹھا جو اُس وقت کے حاضرین میں سب سے زیادہ بدبخت تھا اُس نے یہ سب گندی چیزیں لاکر سیّد ِ عالم ۖ کے دونوں کاندھوں کے درمیان رکھ دیں اور آپ سجدہ ہی میں رہ گئے۔ آپ کا یہ حال دیکھ کر اُن لوگوں نے (بے خود ہوکر) ہنسنا شروع کیا اور اِس قدر ہنسے کہ ہنسی کی وجہ سے ایک دُوسرے پر گرنے لگے۔ کسی نے یہ ماجرہ دیکھ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جاکر خبردی (اُس وقت وہ نوعمر تھیں)خبرپاکر دوڑی چلی آئیں اور سیّد ِ عالم ۖ کے مبارک کاندھوں سے اُٹھاکر وہ گندگی پھینک دی اور اِن لوگوں کو بُرا کہنے لگیں پھر جب سیّد ِ عالم ۖ نماز سے فارغ ہوگئے تو آپ نے تین مرتبہ بد دُعا فرمائی۔ آپ کی عادت تھی کہ جب دُعا فرماتے تو تین مرتبہ فرماتے تھے اور جب اللہ سے سوال کرتے تھے تو تین مرتبہ سوال کرتے تھے۔ آپ نے اوّل تو قریش کے لیے عام بد دُعا کی اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ(اے اللہ تو قریش کو سزادے) اس کے بعد قریش کے سرغنوں کے نام لے کر ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ بد دُعا فرمائی ! ١
الغرض حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بچپن دین کے لیے تکلیفیں سہنے میں گزرا حتی کہ سیّد ِ عالم ۖ نے قریش کی ایذائوں سے بچنے کے لیے مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی۔
ہجرت :
سیّد ِ عالم ۖ نے حضرت ابوبکر صدیق کو رفیق ِ سفر بناکر ہجرت کی تھی اور آپ اپنے تمام کنبہ کو مکہ معظمہ ہی میں چھوڑگئے تھے۔ حضرت صدیقِ اکبر نے بھی آپ کا پورا اِتباع کیا اور اپنے اہل و عیال کو چھوڑکر آپ کے ساتھ چلے گئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سیّد ِ عالم ۖ نے ہجرت فرمائی تو ہم دونوں بیویوں (حضرت سودہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کو اور اپنی صاحبزادیوں کو مکہ ہی میں چھوڑکر تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ پہنچ کر جب آپ مقیم ہوگئے تو زید بن حارثہ اور ابو رافع کو دو اُونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ بھیجا تاکہ ہم سب کو مدینہ منورہ لے جائیں اور حضرت ابوبکر نے بھی اِس مقصد سے دو یا تین اُونٹ دے کر آدمی بھیجا اور اپنے بیٹے عبد اللہ کو لکھ دیا کہ سارے کنبہ کو لے آئو چنانچہ حضرت سیّد ِ عالم ۖ اور صدیق ِ اکبر کے سب گھر والوں نے ایک ساتھ مدینہ منورہ کو ہجرت کی ! اس قافلہ میں حضرت فاطمہ اور ان کی بہن حضرت اُم کلثوم اور اُم المؤمنین
١ مشکٰوة المصابیح عن بخاری و مسلم
حضرت سودہ اور حضرت اَسماء بنت ِ ابی بکر اور ان کے علاوہ دیگر حضرات تھے، جس وقت یہ قافلہ مدینہ منورہ پہنچا سیّد ِ عالم ۖ مسجد کے آس پاس اپنے اہل و عیال کے لیے حجرے بنوارہے تھے۔ ان ہی میں آپ نے اپنی صاحبزادیوں اور اُم المومنین حضرت سودہ کو ٹھہرایا۔
شادی :
ہجرت کے بعد ٢ہجری میں سیّد ِ عالم ۖ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کردیا اُس وقت سیّدہ فاطمہ زہرائ کی عمر پندرہ سال پانچ ماہ تھی اور حضرت علی مرتضٰی کی عمراکیس سال پانچ ماہ تھی ! حضرت انس نے فرمایا کہ پہلے حضرت ابوبکر صدیق نے سیّد ِ عالم ۖ کو پیغام دیا کہ حضرت سیدہ فاطمہ زہراء سے میرا نکاح فرمادیں لیکن آپ نے اعراض فرمایا پھر ان کے بعد حضرت عمر نے بھی یہی پیغام دیا لیکن آپ نے ان کے پیغام سے بھی اعراض فرمایا جب ان دونوں اکابر کو معلوم ہوگیا کہ آپ ہمارے نکاح میں نہ دیں گے تو دونوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رائے دی کہ تم اپنے لیے پیغام دو ! حضرت علی کا بیان ہے کہ مجھے ان حضرات نے اس چیز کی طرف متوجہ کیا جس سے میں غافل تھا ان کی توجہ دلانے سے میں سیّد عالم ۖ کی خدمت ِ گرامی میں حاضر ہوا اور پیغامِ نکاح دے دیا۔ ١
مسند امامِ احمد میں حضرت علی کا واقعہ خود اُن کی زبانی نقل کیا ہے کہ جب میں نے سیّد ِ عالم ۖ کی صاحبزادی کے بارے میں اپنے نکاح کا پیغام دینے کا اِرادہ کیا تو میں نے (دل) میں کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے پھر یہ کام کیونکر انجام پائے گا ؟ لیکن اس کے بعد ہی معًا دل میں سیّد ِ عالم ۖ کی سخاوت اور نوازش کا خیال آگیا (اور سوچ لیا کہ آپ خود ہی کچھ انتظام فرماویں گے) ! ! لہٰذا میں نے حاضر خدمت ہوکر پیغامِ نکاح دے دیا۔ آپ نے سوال فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ ہے ؟ میں نے عرض کیا نہیں ! فرمایا وہ زِرہ کہاں گئی جو میں نے تم کو فلاں روز دی تھی ؟ میں نے کہا جی ہاں وہ تو ہے ! فرمایا اُس کو (مہر میں) دے دو ! ! !
١ زُرقانی علی المواہب
مَوَاہِبِ لَدُنِّیَہْ میں ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ جب میں نے اپنا پیغام دیا تو سیّد ِ عالم ۖ نے سوال فرمایا کہ کچھ تمہارے پاس ہے ؟ میں نے عرض کیا میرا گھوڑا اور زِرہ ہے۔ فرمایا تمہارے پاس گھوڑے کا ہونا (جہاد) کے لیے ضروری ہے لیکن ایسا کرو کہ زِرہ کو فروخت کردو ! چنانچہ میں نے وہ زِرہ چار سو اَسی درہم میں فروخت کرکے رقم آپ کی خدمت میں حاضر کردی ١ اور آپ کی مبارک گود میں ڈال دی ! آپ نے اُس میں سے ایک مٹھی بھرکر حضرت بلال کو دی اور فرمایا کہ اے بلال جائو اِس کی خوشبو ٢ ہمارے لیے خرید کر لائو اور ساتھ ہی ساتھ جہیز تیار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ایک چارپائی اور چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی تیار کیا گیا۔ (رُخصتی کے روز) عشاء کی نماز سے قبل سیّد ِ عالم ۖ نے سیّدہ فاطمہ کو حضرت اُمّ اَیمن کے ساتھ سیّد السادات حضرت علی مرتضٰی کے گھر بھیج دیا پھر نماز کے بعد خود اُن کے یہاں تشریف لے گئے اور حضرت سیّدہ فاطمہ سے فرمایا کہ پانی لائو چنانچہ وہ ایک پیالہ میں پانی لے آئیں، آپ نے اس پانی سے منہ مبارک میں پانی لیا اور پھر اس پانی سے اُن کے سینہ پر اور سر پر چھینٹے دیے اور بارگاہِ خداوندی میں دُعا کی
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ
اے اللہ میں اِس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردُود کی شرارت سے محفوظ رکھنے کے لیے آپ کی پناہ میں دیتا ہوں
اس کے بعد ان کے دونوں کاندھوں کے درمیان اس پانی کے چھینٹے دیے پھر علی سے بھی پانی منگایا اور اس میں کلی کرکے ان کے سر اور سینہ اور دونوں کاندھوں کے درمیان چھینٹے دیے اور وہی دُعا دی جو لخت ِ جگر حضرت سیّدہ فاطمہ کو دی تھی ! اس کے بعد یہ فرماکر واپس تشریف لے آئے بِسْمِ اللّٰہِ وَالْبَرْکَةِ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہو سہو !
١ خریدنے والے حضرت عثمان تھے۔ اُنہوں نے خریدکر واپس کردی اور رقم اور زِرہ دونوں حضرت علی کے پاس رہیں حضرت علی نے زِرہ اور رقم دونوں سیّد ِ عالم ۖ کی خدمت میں حاضر کردیں تو آپ نے حضرت عثمان کو بڑی دُعائیں دیں۔ ( زُرقانی) ٢ ایک اور روایت میں ہے کہ اِس رقم میں سے دو تہائی خوشبو میں اور ایک تہائی کپڑوں میں خرچ کرنے کے متعلق آنحضرت ۖ نے ارشاد فرمایا ۔
حضورِ اقدس ۖ کے مشہور خادم حضرت انس نے بھی حضرت سیّدنا علی اور سیدہ فاطمہ کے نکاح کی تفصیل نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖ نے مجھ سے فرمایا کہ جائو ابوبکر ، عمر، عثمان ، عبدالرحمن اور چند اَنصار کو بلالائو، چنانچہ میں بلالایا ! جب یہ حضرات حاضر ہوگئے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے تو آنحضرت ۖ نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور اِس کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ علی سے فاطمہ کا نکاح کردُوں ! تم لوگ گواہ ہوجائو کہ میں نے چار سو مثقال چاندی ١ مہر میں مقرر کرکے علی سے فاطمہ کا نکاح کردیا اگر علی اس پر راضی ہوں، اُس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے اس کے بعد آنحضرت ۖ نے ایک طبق میں خشک کھجوریں (یعنی چھوارے) منگائے اور حاضرین سے فرمایا جس کے ہاتھ چھوارے پڑیں لے لیوے چنانچہ حاضرین نے ایسا ہی کیا پھر اُسی وقت حضرت علی پہنچ گئے۔ ان کو دیکھ کر آنحضرت ۖ مسکرائے اور فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ تم سے فاطمہ کا نکاح چار سو مثقال چاندی مہر مقرر کرکے کردُوں، کیا تم اس پر راضی ہو ؟ اُنہوں نے عرض کیا جی میں راضی ہوں یا رسول اللہ ! جب حضرت علی نے رضامندی ظاہر کردی تو آنحضرت ۖ نے دُعا دیتے ہوئے فرمایا :
جَمَعَ اللّٰہُ بَیْنَکُمَا وَ اَعَزَّ جَدَّکُمَا وَ بَارَکَ عَلَیْکُمَا وَ اَخْرَجَ مِنْکُمَا کَثِیْرًا طَیِّبًا
''اللہ تم میں جوڑ رکھے اور تمہارا نصیب اچھا کرے اور تم پر برکت دے اور تم سے بہت اور پاکیزہ اولاد ظاہر فرماوے''
الاصابہ میں لکھا ہے تَزَوَّجَ عَلِیّ فَاطِمَةَ فِیْ رَجَبَ سَنَةَ مَقْدَمِہِمُ الْمَدِیْنَةَ وَبَنٰی بِھَا مَرْجِعَھُمْ مِنْ بَدْرٍ وَّلَھَا یَوْمَئِذٍ ثَمَانَ عَشَرَةَ سَنَةً یعنی حضرت علی نے حضرت فاطمہ سے ماہِ رجب میں نکاح کیا جبکہ
١ پہلے گزرا ہے کہ چار سو اَسی درہم میں زِرہ فروخت کرکے مہر میں اِس کی قیمت حضرت علی نے پیش کردی اور یہاں ٤٠٠ مثقال چاندی کا ذکر ہے۔ دونوں روایات اِس طرح جمع ہوسکتی ہیں کہ ٤٠٠ مثقال چاندی کے وزن کے ٤٨٠ درہم بنائے ہوئے ہوں۔ موجودہ سکہ کے اعتبار سے کسی نے حضرت فاطمہ کا مہر ١٣٧ روپے اور کسی نے ١٥٠ روپے سمجھ رکھا ہے حالانکہ مہر فاطمی کا تعلق دراہم سے ہے روپے سے نہیں ہے۔
ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تھے اور رُخصتی غزوۂ بدر سے واپس ہونے پر ہوئی ، اُس وقت حضرت سیّدہ فاطمہ کی عمر اٹھارہ سال تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح اور رُخصتی ایک ہی ساتھ نہ ہوئی تھی !
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کاجہیز :
الاصابہ میں لکھاہے کہ آنحضرت ۖ نے جہیزمیں حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوایک بچھونااورایک چمڑے کاتکیہ جس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی تھی اوردوچکیاں اوردومشکیزے عنایت فرمائے ! ایک روایت میں چارتکیے آئے ہیں اورایک روایت میں چارپائی کاذکربھی ہے ! ١
ایک روایت میں ہے کہ اِن کی رخصتی جس رات کو ہوئی اُن کا بسترمینڈھے کی کھال تھا ٢ ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھرکابسترہواَوریہ بھی ہوسکتاہے کہ یہ بھی جہیزمیں آنحضرت ۖ نے عنایت فرمایاہو ! ! !
ولیمہ :
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دُوسرے روزاَپناولیمہ کیا جس میں سادگی کے ساتھ جو میسر آیا کھلادیا ! ولیمہ میں جو (کی روٹی)، کھجوریں، حریرہ، پنیر، مینڈھے کاگوشت تھا ! ٣
کام کی تقسیم :
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پا س کوئی خادم نہیں تھا گھرکا کام دونوں میاں بیوی مل کر کرلیتے تھے حضورِاقدس ۖ نے اُن کاکام اس طرح تقسیم فرمادیاتھا کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گھرکے اندرکے کام کیا کریں (مثلاً آٹا گوندھنا ، کھاناپکانا، بستر بچھانا، جھاڑودینا وغیرہ) اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھرکے باہر کا کام انجام دیا کریں ! ! ٤ (جاری ہے)
١ مواہب لدنیہ مع شرح زرقانی ٢ الترغیب والترھیب ٣ من المواہب وشرحہ ٤ زادُ المعاد
قسط : ٤ ، آخری
فضیلت کی راتیں
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
شب ِجمعہ کی فضیلت :
(١) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلٰوة والسلام فرماتے تھے :
لَیْلَةُ الْجُمُعَةِ لَیْلَة غَرَّائُ وَیَوْمُ الْجُمُعَةِ یَوْم اَزْھَرُ ۔ ١
''جمعہ کی رات روشن رات ہے اور جمعہ کا دن چمکتا دن ہے ''
(٢) حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :
خَمْسُ لَیَالٍ لَا یُرَدُّ فِیْھِنَّ الدُّعَائُ لَیْلَةُ الْجُمُعَةِ وَاَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلَیْلَتَا الْعِیْدِ۔ ٢
''پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کی جانے والی دعا رد نہیں ہوتی : (١)شب ِ جمعہ (٢) رجب کی پہلی رات (٣) شعبان کی پندرہویں شب (٤) عید الفطر کی رات (٥) عید الاضحی کی رات ''
٭ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بَلَغَنَا اَنَّہ کَانَ یُقَالُ اِنَّ الدُّعَائَ یُسْتَجَابُ فِیْ خَمْسِ لَیَالٍ فِیْ لَیْلَةِ الْجُمُعَةِ وَلَیْلَةِ الْاَضْحٰی وَلَیْلَةِ الْفِطْرِ وَ اَوَّلِ لَیْلَةٍ مِنْ رَجِبٍ وَلَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ۔ ٣
١ شعب الایمان ج ٣ ص ٣٧٥ ، فضائل الاوقات للامام البیہقی ص ١٠٥ ، مشکوة ص ١٢١
٢ شعب الایمان ج ٣ ص ٣٤٢ فضائل الاوقات ص ٣١٢ ، مصنف عبدالرزاق ج ٤ ص ٣١٧
٣ شعب الایمان ج ٣ ص ٣٤٢ ، سُننِ کبریٰ ج ٣ ص ٤١٩ ، لطائف المعارف ابن رجب الحنبلی ص١٤٤
''ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ یوں کہا جاتا تھا کہ پانچ راتوں میں دعا قبول ہوتی ہے (١) شب ِ جمعہ (٢) عید الاضحی کی رات (٣) عید الفطر کی رات (٤) رجب کی پہلی رات (٥) اور شعبان کی پندرہویںشب ''
مذکورہ احادیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ شب ِ جمعہ اور رجب کی پہلی رات اس لحاظ سے فضیلت کی حامل ہیں کہ ان میں کی جانے والی دعائیں قبول ہوتی ہیں لہٰذا جو لوگ شب زندہ دار ہوں اُنہیں چاہیے کہ وہ ان راتوں میں خلوص کے ساتھ دعا میں مشغول ہوں البتہ چونکہ صحیح احادیث میں ان راتوں کی کوئی مخصوص و متعین عبادت نہیں آئی اس لیے اپنی طرف سے کسی خاص عبادت کااِن راتوں میں معمول نہ بنائیں ! ! !
شب ِ جمعہ کی ایک خاص فضیلت :
جمعہ کی اس فضیلت کے ساتھ ساتھ کہ یہ ایک روشن رات ہے اور اس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ایک دوسری فضیلت اور بھی ہے وہ یہ کہ جو مسلمان اس رات فوت ہوتا ہے وہ ایک تو منکر و نکیر کے سوال و جواب سے محفوظ رہتاہے دوسرے وہ عذاب ِ قبر سے مامون ہوجاتا ہے اُسے عذاب ِ قبر نہیں ہوتا چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَّمُوْتُ یَوْمَ الْجُمُعَةِ اَوْ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ اِلَّا وَقَاہُ اللّٰہُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ۔ ١
''جو کوئی مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی شب فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے قبر کے فتنہ سے محفوظ فرمادیتے ہیں ''
٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :
مَنْ مَّاتَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ اَوْ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ اُجِیْرَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَجَائَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَلَیْہِ طَابِعُ الشُّھَدَائِ۔ ٢
١ سُنن ترمذی ج ١ ص ١٠٥ باب ماجاء فی من یموت یوم الجمعة ، مُسند احمد ج٢ ص ١٦٩ ، مشکوة المصابیح ص ١٢١ ٢ شرح الصدور ص ٢٠٩ باب مَنْ لَّا یَسْئَلُ فِی الْقَبْرِ
''جومسلمان جمعہ کے دن یا شب ِجمعہ میں فوت ہو جاتا ہے اُسے عذابِ قبر سے پناہ دے دی جاتی ہے اور وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس پرشہیدوں کی مہر ہوگی ''
٭ حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں رسول اللہ ۖ نے فرمایا :
مَا مِنْ مُّسْلِمٍ اَوْمُسْلِمَةٍ یَّمُوْتُ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ اَوْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ اِلَّا وُقِیَ عَذَابَ الْقَبْرِ وَفِتْنَةَ الْقَبْرِ وَلَقِیَ اللّٰہَ وَلَا حِسَابَ عَلَیْہِ وَجَائَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَمَعَہ شُھُوْد یَّشْھَدُوْنَ لَہ بِالْجَنَّةِ اَوْطَابِع۔ ١
''جومسلمان مرد یا عورت شب ِ جمعہ میں یا جمعہ کے دن فوت ہوتا ہے وہ عذابِ قبر اور فتنۂ قبرسے محفوظ کردیا جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے اِس حال میں ملے گا کہ اُس پرکسی قسم کا حساب نہیں ہوگا اور قیامت کے دن اِس حال میں آئے گا کہ اُس کے ساتھ گواہ ہوںگے جواُس کے لیے جنت کی گواہی دیں گے یا مہر ہوگی ''
شب ِجمعہ کی یہ فضیلت جمعہ کے دن اور رمضان المبارک میں فوت ہوجانے والے شخص کے لیے بھی ثابت ہے چنانچہ جو مسلمان جمعہ کے دن یا رمضان المبارک میں فوت ہوجائے اُسے بھی عذابِ قبر نہیں ہوتا ! مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر پیش آنے والے بعض سوالوں کا جواب بھی ذکر کردیاجائے۔
(1) سوال : شب ِ جمعہ، جمعہ کے دن اور رمضان المبارک میں مرنے والے کوصرف ان ایام میں عذاب نہیں ہوتا یا قیامت تک معافی مل جاتی ہے ؟ ؟
جواب : مومن کو قیامت تک معافی مل جاتی ہے !
(2) سوال : ان ایام میں تو سود خور شرابی اور بدکار بھی مرتے ہیں کیا اُن سے بھی عذابِ قبر مرتفع ہوجاتا ہے ؟
١ شرح الصدور ص ٢٠٩
جواب : اس سوال کے مندرجہ ذیل جواب ہو سکتے ہیں :
(ا) دوسری نصوص کے پیش ِ نظر اِس حدیث میںاِجتناب عن الکبائر کی قید ہے لہٰذا جو کبائر سے بچتا ہوگا وہی عذابِ قبر سے بچے گا !
(ب) بعض بدکار بلا حساب بھی جنت میں جائیں گے جن کے لیے یہ سعادت مقدر ہے اِن ایام میں صرف اُن ہی کی موت واقع ہوتی ہے !
(ج) ان ایام میں موت سے صرف عذابِ قبر معاف ہے عذابِ آخرت نہیں ! اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان ایام کی برکت کے سوا کسی اور عمل کی بدولت عذابِ قبر سے بچ گیا تو آئندہ منازل سہل ہوں گی ! ! !
(3) سوال : ان ایام میں تو کافر بھی مرتے ہیں توکیا وہ بھی عذابِ قبر سے محفوظ ہوجاتے ہیں ؟
جواب : ان ایام میں اگر کافر مر جائے تو اُسے صرف ان ایام میں عذابِ قبر نہیں ہوتا ان کے بعد شروع ہو جاتا ہے ! ! !
(4) سوال : اگر کوئی فوت تو جمعرات کے دن میں ہوا اور اُس کی تدفین جمعہ یا جمعہ کے دن عمل میں آئی تو کیا اُس سے بھی عذابِ قبر مرتفع ہوجائے گا ؟
جواب : یہ وعدہ جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات میں موت پر ہے دفن پر نہیں البتہ عذابِ قبر چونکہ دفن کے بعد شروع ہوتا ہے اور مسلم میت پر شب ِ جمعہ سے حشر تک عذاب مرتفع ہوجاتا ہے اس لیے ایسا شخص عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا ! !
٭ ابن البزار رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :
اَلسُّوَالُ فِیْمَا یَسْتَقِرُّ فِیْہِ الْمَیِّتُ حَتّٰی لَوْ اَکَلَہ سَبُع فَالسُّوَالُ فِیْ بَطْنِہ فَاِنْ جُعِلَ فِیْ تَابُوْتٍ اَیَّامًا لِنَقْلِہ اِلٰی مَکَانٍ آخَرَ لَا یُسْئَلُ مَا لَمْ یُدْفَنْ ۔
''میت سے سوال و جواب اُسی جگہ ہوتا ہے جو جگہ میت کا مستقر بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو کسی درندے نے کھا لیا تو اُس سے سوال وجواب اُس درندے کے پیٹ میں ہوگا اور اگر کسی میت کو چند دن تابوت میں رکھا گیا کسی دوسری جگہ لے جانے کے لیے تو جب تک اُس میت کو دفنا نہیں دیا جائے گا اُس سے سوال و جواب نہیں ہوگا '' ١
حضرت یعقوب علیہ السلام نے طلب ِ استغفار کو شب ِ جمعہ پر موقوف رکھا :
مفسرین ِکرام لکھتے ہیں کہ برادرانِ یوسف نے اخیر میں جب اپنی خطاؤں کا اقرار کر کے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے عرض کیا کہ ہماری خطائوں کی بخشش کی دعا کر دیجئے تو آپ نے فرمایا تھا : ( سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ)''عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا'' گویا آپ نے فورًا ہی مغفرت طلب نہیں کی تھی بلکہ وعدہ کر لیا تھا کہ عنقریب کروں گا۔
سوال ہوتا ہے کہ آپ نے برادرانِ یوسف کے لیے مغفرت کب طلب کی ؟
اس سلسلہ میں نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام سے دو وقت منقول ہیں :
(١) ایک یہ کہ آپ نے طلب ِ مغفرت وقت ِسحر کی کہ یہ قبولیت ِ دعا کا وقت ہے !
(٢) دوسرے یہ کہ آپ نے طلب ِ مغفرت شب ِ جمعہ پر موقف رکھی، جب شب ِ جمعہ آئی تو آپ نے صاحبزادوں کے لیے مغفرت طلب کی ٢
حضرت عکرمہ رحمہ اللہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ( سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ ) (عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا) کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ شب ِ جمعہ میں مغفرت طلب کروں گا ٣
حضرت وہب بن مُنبہ رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بیس برس سے بھی زیادہ عرصہ تک ہر شب ِ جمعہ صاحبزادوں کے لیے مغفرت طلب کرتے رہے ٤
١ اس سوال و جواب کی تفصیل کے لیے احسن الفتاوٰی ج ٣ ص ١٩٧ تا ١٩٩ ملا حظہ فرمائیں، یہ معمولی تغیر کے ساتھ اسی سے ماخوذ ہیں ٢ روح المعانی ج٥ ص ٥٥ ٣ تفسیر مظہری ج٥ ص ٢٠٠ ٤ ایضاً
حضرت طاؤس رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے دعائِ مغفرت کو شب ِ جمعہ کے وقت ِ سحر پر مؤخر کیے رکھا پھر ایسا اتفاق ہوا کہ اسی شب ِ جمعہ دسویں محرم کی رات بھی ہوئی ١
حفظ ِقرآن کے لیے شب ِجمعہ میں کیا جانے والا ایک خاص عمل :
''حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ۖ کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی بھی آگئے اور آکر عرض کرنے لگے کہ (یا رسول اللہ ۖ ) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں قرآنِ پاک میرے سینے سے نکلا جاتاہے جو یاد کرتاہوں وہ محفوظ نہیں رہتا، رسول اللہ ۖ نے آپ سے فرمایا اے ابو الحسن (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دُوں کہ جن کے ذریعہ اللہ تمہیں بھی نفع دے گا اور جنہیں تم وہ کلمات سکھاؤ گے اُنہیں بھی نفع دے گا اور جو تم سیکھوگے وہ تمہارے سینے میں محفوظ رہے گا، (حضرت)علی ( رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ (ۖ ضرور سکھلا دیجئے ) چنانچہ آپ نے مجھے بتلایا کہ جب شب ِجمعہ آئے اور تم رات کے آخری تہائی حصے میں اُٹھ سکو تو یہ بہت ہی اچھا ہے کہ یہ وقت ملائکہ کے نازل ہونے کاہے اور دعا اس میں خاص طور سے قبول ہوتی ہے، اسی وقت کے انتظار میں میرے بھائی یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا (سَوْفَ اَسْتَغْفِرُلَکُمْ رَبِّیْ) (عنقریب میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا) آپ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ شب جمعہ آنے دو پھر استغفار کروں گا ! اگر اس وقت جاگنا دُشوار ہو تو آدھی رات کے وقت، اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو شروع رات ہی میں کھڑے ہو کر چار رکعت نفل اس طرح پڑھو کہ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ یٰسین پڑھو، دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ دخان پڑھو،
١ التفسیر المظہری ج ٥ ص ٢٠٠
تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ الم سجدہ پڑھو اور چوتھی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ ملک پڑھو، جب التحیات سے فارغ ہو جاؤ تو اوّل حق تعالیٰ شانہ کی خوب خوب حمدو ثنا کرو پھر مجھ پر اور تمام انبیائِ کرام پردرود بھیجو پھر تمام مومن مرد و عورت کے لیے نیز اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے جو مرچکے ہیں استغفار کرو اور اس کے بعد یہ دعا پڑھو :
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِی بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ اَبَدًا مَّا اَبْقَیْتَنِیْ وَارْحَمْنِیْ اَنْ اَتَکَلَّفَ مَا لَا یَعْنِیْنِیْ وَارْزُقْنِیْ حُسْنَ النَّظْرِ فِیْمَا یُرْضِیْکَ عَنِّیْ اَللّٰھُمَّ بَدِیْعَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِیْ لَا تُرَامُ اَسْئَلُکَ یَااَللّٰہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلاَلِکَ وَنُوْرِ وَجْھِکَ اَنْ تُلْزِمَ قَلْبِیْ حِفْظَ کِتَابِکَ کَمَا عَلَّمْتَنِیْ وَارْزُقْنِیْ اَنْ اَتْلُوَہ عَلَی النَّحْوِ الَّذِیْ یُرْضِیْکَ عَنِّیْ اَللّٰھُمَّ بَدِیْعَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِیْ لَا تُرَامُ اَسْئَلُکَ یَااَللّٰہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلاَلِکَ وَنُوْرِ وَجْھِکَ اَنْ تُنَوِّرَ بِکَتَابِکَ بَصَرِیْ وَاَنْ تُطْلِقَ بِہ لِسَانِیْ وَاَنْ تُفَرِّجَ بِہ عَنْ قَلْبِیْ وَاَنْ تَشْرَحَ بِہ صَدْرِیْ وَاَنْ تَغْسِلَ بِہ بَدَنِیْ فَاِنَّہ لَا یُعِیْنُنِیْ عَلَی الْحَقِّ غَیْرُکَ وَلَا یُؤْتِیْہِ اِلَّا اَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ۔
''اے اِلٰہ العالمین مجھ پر رحم فرما کہ جب تک میں زندہ رہوں گناہوں سے بچتا رہوں اور مجھ پر رحم فرما کہ میں بیکار چیزوں میں کلفت نہ اُٹھاؤں اور اپنی مرضیات میں خوش نظری مرحمت فرما ! اے اللہ اے زمین و آسمانوں کے بے نمونہ پیدا کرنے والے،اے عظمت اور بزرگی والے اور اُس غلبہ باعزت کے مالک جس کے حصول کا اِرادہ بھی نا ممکن ہے، اے اللہ اے رحمن میں تیری بزرگی اور تیری ذات کے نور کے طفیل تجھ سے مانگتا ہوں کہ جس طرح تونے اپنی کلامِ پاک مجھے سکھادی اسی طرح اِس کی یاد بھی میرے دل سے چسپاں کردے اور مجھے توفیق عطا فرماکہ میں اس کو اِس طرح پڑھوں جس سے تو راضی ہو جاوے !
اے اللہ زمین اور آسمانوں کے بے نمونہ پیداکرنے والے، اے عظمت اور بزرگی والے اور اس غلبہ یا عزت کے مالک جس کے حصول کا اِرادہ بھی ناممکن ہے، اے اللہ اے رحمن میں تیری بزرگی اور تیری ذات کے نور کے طفیل تجھ سے مانگتا ہوں کہ تومیری نظر کو اپنی کتاب کے نور سے منور کردے اور میری زبان کو اس پر جاری کردے اور اس کی برکت سے میرے جسم کے گناہوں کا میل دھودے کہ حق پر تیرے سوا میرا کوئی مددگار نہیں اور تیرے سوا میری یہ آرزو کوئی پوری نہیں کر سکتا اور گناہوں سے بچنا یاعبادت پر قدرت نہیں ہو سکتی مگر اللہ برتر و بزرگی والے کی مدد سے ''
پھر آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ اے ابُوالحسن (علی) اس عمل کو تین جمعہ یا پانچ جمعہ یا سات جمعہ کرو، اللہ کے حکم سے دُعا ضرور قبول ہوگی، قسم ہے اُس ذاتِ پاک کی جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے کسی مومن سے بھی قبولیت ِ دُعا نہ چوکے گی ! حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ (حضرت) علی (رضی اللہ عنہ) کو پانچ یا سات جمعے ہی گزرے ہوں گے کہ وہ رسول اللہ ۖ کی اسی جیسی مجلس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ پہلے میں تقریبًا چار آیتیں پڑھتا تھا وہ بھی مجھے یاد نہیں ہوتی تھیں اور اب تقریبًا چالیس آیتیں پڑھتا ہوں اور ایسی اَز بر ہو جاتی ہیں کہ گویا قرآنِ پاک میرے سامنے کھلا ہوا رکھا ہے اور پہلے میں حدیث سنتا تھا اور جب اُس کو دوبارہ کہتا تھا تو ذہن میں نہیں رہتی تھی اور اب احادیث سنتا ہوں اور جب دوسروں سے نقل کرتا ہوں تو ایک لفظ بھی نہیں چھوٹتا آپ نے اس موقع پر فرمایا : رب ِ کعبہ کی قسم ابو الحسن (علی) مومن ہے'' ١
١ جامع ترمذی ج ٢ ص ١٩٧ طبع ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی کراچی، امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے، مستدرک حاکم ج١ ص ٤٦١
شب ِ جمعہ میں مزارات پر جانا :
اکثر لوگ مرد ہوں یا عورتیں جمعہ کی رات اولیاء کرام کے مزارات پر حاضری کو ضروری سمجھتے ہیں چنانچہ دُور دُور سے لوگ اس غرض کے لیے آتے ہیں اور منکرات و مناہی کا ارتکاب کرتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اوّل تو اِس رات میں مزارات پر جانے کو ضروری سمجھنا نا جائز ہے کیونکہ شرعًا اس کا کوئی ثبوت نہیں ! دوسرے عورتوں کو مزارات پر جانا جائز نہیں جیسا کہ کتب ِ فقہ وفتاوی میں تفصیلاً مذکور ہے ! اس لیے نہ تو اس شب میں مزارات پر حاضری کو ضروری خیال کرنا چاہیے اور نہ ہی عورتوں کو مزارات پر جانا چاہیے !
شب ِ جمعہ کی ناقدری :
شب ِ جمعہ کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں اُن کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اللہ کو راضی کیا جائے اور اُس سے خیرو برکت، مغفرت و عافیت، صحت و سلامتی کی دعائیں مانگی جائیں تاکہ اِس رات کی برکت سے وہ دعائیں قبول ہوں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ اس رات کی انتہائی ناقدری کرتے ہوئے لوگ اسے لہو و لعب کی نذر کر رہے ہیں، اکثر لوگ ساری ساری رات ٹیلیویژن اور انٹر نیٹ پر گندی و غلیظ فلمیں دیکھتے رہتے ہیں بہت سے لوگ کیرم ، شطرنج اور دیگر کھیل تماشوں میں ساری رات گزار دیتے ہیں ! نو جوان نسل جگہ جگہ فلڈلائٹیں لگا کر ساری رات میچ کھیلتی رہتی ہے جس سے اپنا وقت تو ضائع کرتے ہی ہیں دوسروں کا راحت وآرام بھی برباد کرتے ہیں ! ساری رات اس طرح گزرتی ہے صبح سحر کے وقت غفلت کی نیند سو جاتے ہیں ! ! ! اس طرح اس رات کی برکات سے محروم رہنے کے ساتھ ساتھ گناہوں کا بوجھ بھی سروں پر لادتے ہیں خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ یہ بڑے ہی نقصان اور گھاٹے کا سودا ہے ! مرنے کے بعد احساس ہوگا وہاں پتہ چلے گا کہ کرنا کیا تھا اور کر کیا آئے ؟ ! اللہ تعالیٰ سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے،آمین
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
احادیث ِ مبارکہ میں شوال المکرم کے چھ نفلی روزوں کی بڑی فضیلت ذکر کی گئی ہے چنانچہ میزبانِ رسول حضرت ابو اَیوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہ سِتًّا مِّنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ۔ ١
'' جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اُس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو اُس کا یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہو گا ''
ف : علمائِ کرام فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ اگر اُنتیس ہی دن کا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تیس روزوں کا ثواب دیتے ہیں اور شوال کے چھ نفلی روزے شامل کرنے کے بعد روزوں کی تعداد چھتیس ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون ( اَلْحَسَنَةُ بِعَشْرِاَمْثَالِھَا) (ایک نیکی کا ثواب دس گنا) کے مطابق ٣٦ کا دس گنا٣٦٠ہو جاتا ہے اور پورے سال کے دن٣٦٠سے کم ہی ہوتے ہیں سو جس نے پورے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں چھ نفلی روزے رکھے وہ اِس حساب سے ٦٠ ٣روزوں کے ثواب کا مستحق ہو گا اور اَجر و ثواب کے لحاظ سے یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی بندہ سال کے ٣٦٠ دن برابر روزے رکھے !
بہتر ہے کہ یہ روزے شوال کے شروع میں رکھ لیے جائیں کیونکہ رمضان میں روزے رکھنے سے روزوں کی عادت سی ہو جاتی ہے اس لیے بعد کے چھ روزے رکھنا مشکل نہیں ہوتا ! دُوسرے ان روزوں کو مؤخر کرنے کی صورت میں بسا اوقات روزے رکھنے کا اتفاق نہیں ہوتا اور اِس طرح یہ رہ جاتے ہیں !
١ مسلم شریف کتاب الصوم رقم الحدیث ١١٦٤ ، مشکوة کتاب الصوم رقم الحدیث : ٢٠٤٧
بعض لوگ عید کے دُوسرے دن ہی سے ان روزوں کے رکھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں یہ غلط ہے فقہائِ کرام کا کہنا ہے کہ شوال میں جب بھی یہ روزے رکھ لیے جائیں جائز ہے اور اِن کا اَجر وثواب ملتا ہے
یاد رہے کہ جس کے رمضان کے کچھ روزے رہ گئے ہوں پہلے وہ اُن کو رکھے بعد میں شوال کے روزے رکھے، اگر کوئی شوال کے روزوں میں قضا ء ِ رمضان کی نیت کرے گا تو اُسے مذکورہ ثواب حاصل نہیں ہو گا کیونکہ جب کوئی شوال کے روزوں میں قضائِ رمضان کی نیت کرے گا تو وہ تو رمضان کے روزے پورے کرے گا، اگر مزید روزے رکھتا ہے تو رمضان اور شوال کے روزے مِل کر مذکورہ ثواب کے حصول کا ذریعہ بنیں گے ورنہ نہیں مثلاً کسی کے رمضان کے چھ روزے قضا ہو گئے اب وہ شوال میں چھ روزے قضائِ رمضان کے رکھتا ہے تو اِس طرح اُس کے رمضان کے تیس روزے پورے ہوئے اب اگر چھ روزے مزید رکھے گا تو چھتیس بنیں گے اور تین سو ساٹھ روزوں کا ثواب ہو گا ورنہ نہیں !
بقیہ : تربیتِ اولاد
اُن کے بعض خاص لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا بات ہے (اتنی جلدی شادی کرنے کی کیا وجہ تھی حالانکہ پہلے آپ انکار فر ماتے تھے ) فرمایا بات یہ تھی کہ میں سورہا تھا میں نے دیکھا کہ میدانِ محشر قائم ہے اور پلِ صراط پر لوگ گزر رہے ہیں، ایک شخص کو دیکھا کہ اُس سے چلا نہیں جاتا لڑ کھڑاتا ہوا چل رہا ہے اُسی وقت ایک بچہ آیا اور ہاتھ پکڑا آنًا فانًا (یعنی فورًا) اُس کو لے گیا میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے ؟ ارشاد ہوا کہ اس کا بچہ ہے جو بچپن میں مرگیا تھا یہاں اس کا رہبر ہوگیا ! اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی مجھے خیال آیا کہ میں اس فضیلت سے محروم نہ رہوں شاید بچہ ہی میری نجات کا ذریعہ ہوجائے اس لیے میں نے نکاح کیا تھا اور میرا مقصود حاصل ہوگیا۔ (الدنیا ملحقہ دُنیا وآخرت ص ٩٨ )۔(جاری ہے)
وفیات
٧ رمضان المبارک /٢٩ مارچ کو جامعہ صدیقیہ گلشن راوی کے مہتمم قاری حبیب الرحمن صاحب کی والدہ صاحبہ طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرماگئیں ۔
١٠ رمضان المبارک /یکم اپریل کو عالمی شہرت یافتہ محترم قاری شاکر صاحب قاسمی اَسی سال کی عمر میں کینیڈا میں انتقال فرماگئے حضرت قاری صاحب بانی دارُالعلوم دیوبند حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے پڑ پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی جملہ دینی خدمات کو قبول فرمائے اور آخرت کے بلند درجات عطا فرمائے، آمین۔
١٤ رمضان المبارک /٥ اپریل کو جامعہ مدنیہ جدید کے شعبہ کمپیوٹر کے نگران فاضلِ جامعہ مولانا محمد ذیشان صاحب چشتی کے ماموں و خسر مختصر علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے۔
١٦ رمضان المبارک /٧ اپریل کو حضرت مولانا صوفی محمد سرور صاحب کی صاحبزادی طویل علالت کے بعد لاہور میںانتقال فرماگئیں ۔
١٧ رمضان المبارک /٨ اپریل کو جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب اور مولانا مفتی خلیل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کے ماموں ، فاضلِ جامعہ مولانا محمد شعیب صاحب کے والد گرامی قاری محمد جمیل صاحب مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرماگئے
٢١ رمضان المبارک /١٢ اپریل کو فاضلِ جامعہ مدنیہ جدید مولانا محمد عامر اخلاق صاحب کے بڑے بھائی جناب محمد طاہر صاحب طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے۔
٢٢ رمضان المبارک ١٤٤٤ھ / ١٣ اپریل ٢٠٢٣ء بروز جمعرات آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر ، دارُالعلوم ندوة العلماء کے مہتمم حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی رحمة اللہ علیہ پچانویں برس کی عمر میںلکھنو میں انتقال فرماگئے۔
٢٣ رمضان المبارک /١٤ اپریل بروز جمعہ جامعہ مدنیہ جدید کے سابق ڈرائیور محمد اقبال کے خسر جناب ملک احمد بخش صاحب مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے۔
٢٤ رمضان المبارک ١٤٤٤ھ /١٥ اپریل ٢٠٢٣ء کو وفاقی وزیر مذہبی اُمور حضرت مولانا مفتی عبدالشکور صاحب رحمة اللہ علیہ اسلام آباد میںٹریفک حادثہ میں شہید ہوگئے، اللہ تعالیٰ حضرت کی جملہ دینی خدمات کو قبول فرمائے اور آخرت کے بلند درجات عطا فرمائے، آمین۔
٢٥ رمضان المبارک /١٦ اپریل کو جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولانا محمد قاسم صاحب کے والد جناب شوکت علی صاحب بوجہ کینسر طویل علالت کے بعد سمبڑیال سیالکوٹ میں وفات پاگئے۔
٣٠ رمضان المبارک ١٤٤٤ھ /٢٠ اپریل ٢٠٢٣ء بروز جمعرات حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم صاحب چشتی کی صاحبزادی مختصر علالت کے بعد کراچی میں انتقال فرماگئیں۔
٣٠ رمضان المبارک ١٤٤٤ھ / ٢١ اپریل ٢٠٢٣ء بروز جمعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر الحق صاحب طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرماگئے آپ امراض چشم کے مایہ ناز پروفیسر میو ہسپتال لاہور کے ایم ایس اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی رہ چکے ہیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
بحمد اللہ خانقاہ ِ حامدیہ میں حسب ِ معمول گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی رمضان المبارک میں ملک کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے سالکانِ طریقت نے جامعہ کی مسجد حامد میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم کی معیت میںاعتکاف کیا اور سلوک واحسان، ریاضت و مجاہدہ میں مشغول و مصروف رہے۔ حضرت کی جانب سے مسترشدین ومریدین کے لیے کچھ اجتماعی اعمال اور کچھ حسب ِ حال ہر ایک کے لیے انفرادی اعمال کی ہدایات تھیں،اللہ تعالیٰ قبول فرمائے،آمین۔
١٧ ربیع الاوّل ١٤٤٤ھ/١٣ اکتوبر ٢٠٢٢ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے مولانا سعید احمد صاحب اسعد بن شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب صابر خلیفہ مجاز حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب ، ساکن بگڑانوالی خوشاب کو خرقہ خلافت و دستارِ فضیلت سے نوازا
٢٧ رمضان المبارک ١٤٤٤ھ /١٨ اپریل ٢٠٢٣ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے دو حضرات کو خرقہ خلافت و دستارِ فضیلت سے نوازا :
(١)مولانا محمد خالد صاحب بن محمد ایوب صاحب، کنڈہ تحصیل و ضلع مانسہرہ ( فاضل جامعہ مدنیہ جدید)
(٢) مولانا محمد عمران صاحب بن محمد گلاب صاحب ، شوہال نجف خان بالا کوٹ مانسہرہ( فاضل جامعہ مدنیہ جدید)
اللہ تعالیٰ ان سلاسل طیبہ کے فیوض و برکات کو اقوامِ عالم میں تا قیامت جاری و ساری فرما کر قبولیت سے نوازے اور ہمیں ان مشائخ کی تعلیمات پر عمل کی توفیق اور آخرت میں صالحین کے ساتھ محشور فرمائے، آمین
٢٧ رمضان المبارک کو بعد نماز ِظہر خانقاہ ِحامدیہ میں حضور اَقدس ۖ کے موئے مبارک کی زیارت بھی کروائی گئی ، اللہ تعالیٰ اس کی برکات سے متمتع فرمائے،آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید کے165 طلباء نے وفاق المدارس العربیہ کے سالانہ امتحانات میں شرکت کی جس میں مجموعی طور پر جامعہ کا رزلٹ70 فیصد رہا۔
٢٤ رمضان المبارک /١٥ اپریل کو جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتہم عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے ،اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
١٠ شوال المکرم ١٤٤٤ھ/ یکم مئی ٢٠٢٣ء سے جامعہ مدنیہ جدید میں نئے تعلیمی سال کے داخلے شروع ہوں گے اِن شاء اللہ
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میںایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں۔
منجانب : سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
+92 - 333 - 4249302 +92 - 333 - 4249301
+92 - 335 - 4249302 +92 - 345 - 4036960
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.