ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٣ شوال المکرم ١٤٤٦ ھ / اپریل ٢٠٢٥ء شمارہ : ٤
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭
بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+
دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٧
سیرتِ مبارکہ .........شب وروز کے حالات ومعمولات کا تزکیہ حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٠
مقالاتِ حامدیہ ....... علومِ اسلامیہ اور ان کی بقاء کے لیے امت کے فرائض حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٢١
رحمن کے خاص بندے قسط : ٣١ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٢٨
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٣٣
حضراتِ صحابہ معیارِ حق ہیں ! حضرت مولانا مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری ٣٥
یونیورسٹیوں اور مدارسِ دینیہ کے ذرائع آمدن جناب ڈاکٹر مبشر حسین صاحب رحمانی ٥١
وفیات ٦٣
حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
زیر نظر تحریر رجب المرجب ١٣٩١ھ/ ستمبر ١٩٧١ء میں والد ماجد قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ نے اسی رسالہ کے لیے بطورِ اداریہ تحریر فرمائی تھی آج پھر ہم برکت اور عبرت کے لیے اس مبارک تحریر کو نذرِ قارئین کررہے ہیں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ! محمود میاں غفرلہ
کامیابی کی کنجی
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا
مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ !
خدا وند کریم کی یاد ہی تمام کامیابیوں کی کنجی، ہر سعادت کی کامرانی ہے یہی انسان کو دنیا میں کامیاب تر بناتی ہے اور اخروی فلاح و کامرانی عطا کرتی ہے !
ہمارے آج کل کے حالات میں امن و جنگ کے درمیان غیر یقینی ہے، اقتصادی مشکلات بدستور قائم ہیں اور پوری مملکت پر ان کی گردش ہے ! ان تمام معاشی، مالی اور جسمانی نقصانات کی تلافی اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک ہی کر سکتی ہے ، تمام حالات کا ردّو بدل اللہ کے اختیار میں ہوتا ہے
حضرت نوح علیہ الصلٰوة والسلام نے جب ان کی قوم قحط و خشک سالی کی شکار تھی اور شامت ِ اعمال کے باعث وہ نرینہ اولاد سے محروم تھی اور بانجھ پن کی بیماری عام تھی ، ارشاد فرمایا
( اِسْتَغْفِرُوْارَبَّکُمْ اِنَّہ کَانَ غَفَّارًا یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّ یُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَیَجْعَلَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلَّکُمْ اَنْھَارًا) ( سورة نوح : ١٠ تا ١٢ )
''اپنے پروردگار سے اپنے گناہ بخشواؤ یقینا وہ ہمیشہ ہی مغفرت فرمانے والا رہا ہے وہ تم پر آسمان کی دھاریں چھوڑ دے گا اور تمہارے مال اور بیٹے بڑھا دے گا اور تمہارے باغ بنادے گا اور نہریں بنادے گا''
گویا اس غذائی، اقتصادی بد حالی اور نسلی محرومی کا علاج یہی ہے کہ بندہ خدا کی طرف رجوع کرے
اور اپنی بد اعمالیوں سے تائب ہو ! ہنگامی مشکلات ، جہاد اور خوف کے وقت بھی خدا وند کریم نے نماز پڑھنے اور اپنی یاد جاری رکھنے کا حکم فرمایا ارشاد ہوا
( فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ
مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ) ( سورة البقرة : ٢٣٩ )
''پھر اگر تم کو کسی کا ڈر ہو تو پیادہ نماز پڑھو یا سوار پھر جس وقت تم امن پاؤ تو اللہ کو یاد کرو جس طرح اس نے تم کو وہ سکھایا ہے جس کو تم نہ جانتے تھے''
یعنی اگر لڑائی اور خوف کا وقت ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں سواری پر یا پیادہ بھی اشارہ سے نماز درست ہے اگرچہ قبلہ کی طرف بھی منہ نہ ہو !
پانچویں پارہ میں نمازِ خوف کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے ارشاد فرمایا گیا
( فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ فَاِذَا اطْمَاْ نَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا ) ( النساء : ١٠٣ )
'' پھر جب تم (اس طریقے سے) نماز پڑھ چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے پھر جب خوف جاتا رہے تو نماز کو مکمل طریقہ سے ادا کرو بلا شبہ نماز مسلمانوں پر اپنے مقررہ وقتوں میں فرض ہے''
یعنی خوف کے وقت تنگی اور بے اطمینانی کی وجہ سے اگر نماز میں کسی طرح کوتاہی ہوگئی تو نمازِ خوف سے فراغت کے بعد ہر وقت اور ہر حالت میں کھڑے ہو یا بیٹھے یا لیٹے اللہ کو یاد کرو حتی کہ عین ہجوم اور مقاتلہ کے وقت بھی کیونکہ وقت کی تعیین اور دیگر قیود کی پابندی تو نماز کی حالت میں تھی اور ان پابندیوں میں دشواری ہوتی تھی اس کے سوا ہر حالت میں بلا وقت اللہ کو یاد کر سکتے ہو، کسی حالت میں اس کی یاد سے غافل نہ رہو ! !
اس آیت کے ذیل میں حضرت عبد اللّٰہ بن عباس نے فرمایا کہ صرف وہ شخص کہ جس کے عقل و حواس کسی وجہ سے قائم نہ رہیں وہ تو معذور ہے ورنہ کوئی شخص اللہ کی یاد نہ کرنے میں معذور نہیں ! اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ ان حالات میں خود رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے کیا عمل کیا ہے جن کے دست ِ مبارک میں تمام عالم کی کنجیاں بلکہ ہر دو عالم کی کامیابیاں ودیعت فرمادی گئی تھیں تو اس کے لیے یہی لائحہ عمل ملے گا !
بلاشبہ اللہ بہترین ساتھی ہے جو دنیا وآخرت کا ساتھی ہے جب سب چھوٹ جاتے ہیں تو وہ ہی قبر کو جنت بنا دیتا ہے اور ہر طرح کی راحت ِ دائمی عطا کرتا ہے ، وہ ہی بہترین مددگار ہے اسی سے سچی اور سب سے زیادہ محبت رکھنی چاہیے اور اس کی یاد دل ہی دل میں ہر وقت قائم رکھنی چاہیے ! !
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْن
درسِ حدیث
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ
کا مجلس ِذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' شارع رائیونڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔ (ادارہ)
اللہ کا خوف نعمت ہے،برائیوں سے روک کر نیکی کی طرف لاتا ہے !
( درسِ حدیث ٣١٥ ١٢جولائی ١٩٦٨ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا
مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے ایک صحابی حضرت ابو درداء رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک دفعہ منبر پر فرمایاکہ ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتٰنِ ) ١ انہوں نے یہ سن کر عرض کیا وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہْ یا رسول اللہ ! اگر وہ چوری اور بد کاری کرتا ہے پھر بھی دوہرا ہی اجر ملے گا ؟ آپ نے پھر یہی آیت تلاوت فرمائی ! میں نے دو بارہ عرض کیا کہ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہْ اے اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم اگر وہ زنا اور چوری بھی کرتا ہے توبھی دوہرا اجر ملے گا ؟ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے تیسری مر تبہ بھی یہی آیت تلاوت فرمادی ! میں نے پھر وہی بات عرض کردی کہ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہْ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا وَاِنْ رَغِمَ اَنْفُ اَبِیْ الدَّرْدَائِ ٢ اگر ابودرداء کی ناک بھی رگڑی جائے تو بھی یہی ہوگا یعنی اگر ابودرداء کو ایسا ہونا نا گوار بھی ہو کہ زنا و چوری کے باوجود خدا سے ڈرنے والے کودوہرا اجر ملے تب بھی دوہرا ہی اجر ملے گا !
١ سورة الرحمن : ٤٦ ٢ مشکوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٧٦
حقیقت یہ ہے کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا جو حق تعالیٰ کے غصہ اور عذاب سے لرزاں و ترساں رہے گا ،رفتہ رفتہ اس کے گناہ چھوٹ جائیں گے ! خوف ِ خدا کے با عث وہ ہر گناہ کے کام سے بچتا رہے گا، حق تعالیٰ سے ڈر نا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہے
جو اسے آخر کار نیکو کار بنادے گی ! جن کے قلوب میں خوفِ خدا راسخ ہوگا ان سے گناہ کا صادر ہونا محال ہوتا جائے گا ! ایسے لوگ گناہوں اور غلط کا ریوں سے تیزی سے دور ہوتے جاتے ہیں ! !
'' خوفِ خدا'' ایک طرح کی نعمت ہے اس کا ثمرہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو خدا سے ڈر تا ہے اس سے سب ڈرتے ہیں ! جس سینے میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اس سینہ میں غیر اللہ کا خوف گھر نہیں کر سکتا، ہاں جو سینہ خوفِ خدا سے خا لی ہوتا ہے وہ پھر دوسروں کے خوف سے پر ہوجاتا ہے اسے ہر چیز ڈراتی ہے وہ ہرشے سے خوف کھاتا ہے اس کی زندگی تلخ ہوجاتی ہے ! !
یہ بھی سمجھیے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف تب پیدا ہو گا جب آپ کو یہ یقین ہو کہ وہی ہمارا خالق اور مالک ہے ! نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے وہ ( عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِ یْر ) ہے ١ اس سے زبر دستی کوئی نہیں کر سکتا ! وہ ( فَعَّال لِّمَا یُرِیْدُ ) ہے ٢ جو چاہتا ہے کرتاہے کوئی بھی اس کا ہمسر اورشریک نہیں ! اگر وہ پکڑے تو کوئی چھڑانے والا نہیں ! اور انبیاء علیہم السلام اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کر سکتے ! آیت الکرسی میں ہے ( مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ اِلَّا بِاِذْنِہ ) ٣
جو حق تعالیٰ سے ان کے شانِ شایان اعتقاد نہیں رکھتا وہ کبھی خوفِ خدا نہیں کھائے گا اور معاصی کے ارتکاب سے بھی کبھی باز نہیں آئے گا، گناہ پر گناہ کرتا رہے گا اور آخرکار جہنم رسید ہوجائے گا !
مضمونِ حدیث پر واقعہ یا د آیا کہ ایک دفعہ ہارون الر شید یہ کہہ بیٹھے کہ ''مجھے ڈبل اجرو ثواب ملے گا'' نہ معلوم انہوں نے کس نیت سے یہ بات کہی تھی، کہنے کے بعد وہ بہت پشیمان ہوئے اور امام ابویوسف سے یہ قصہ بیان کیا
١ سورة البقرة : ٢٠ ٢ سورة ھود : ١٠٧ و سورة البروج : ١٦ ٣ سورة البقرة : ٢٥٥
حضرت امام ابویوسف نے دریافت فرمایا کہ آپ مجھے قسم کھا کر بتلائیں کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ڈر تے ہیں ؟
ہارون الرشید نے بقسم جواب دیا کہ ہاں میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، آپ نے فرمایا پھر فکر کی بات نہیں کیونکہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اسے دو جنتیں ملتی ہیں اور پھریہ آیت تلاوت فرمائی ( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتٰنِ )
اللہ تعالیٰ ہمارے سینوں کواپنے خوف سے معمور فرمائے اورآخرت میں سر کارِ دو عالم صلی اللہ عليہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین
( مطبوعہ انوارِ مدینہ فروری ٢٠١٧ء بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ١٢جولائی ١٩٦٨ئ)
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے
سیرتِ مبارکہ
شب وروز کے حالات ومعمولات کا تزکیہ
٭٭٭
اسلامی تہذیب کے بنیادی اصول، آداب اور دعائیں ،عمل اور تعلیم
پاک زندگی کیسی ہوتی ہے ؟
سیّد الملة و مؤرخ الملة حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب کی تصنیفِ لطیف
سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللّٰہ '' صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اوراق
٭٭٭
بنیادی اصول : ارشادِ ربانی ہے
( فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْ لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ ) ( سُورة البقرة : ١٥٢ )
''بس تم یاد رکھو مجھ کو میں یاد رکھوں تم کو اور احسان مانو میرا اور ناشکری مت کرو'' ١
( لَئِنْ شَکَرْتُمْ لاََزِیْدَ نَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد )( سُورة ابراہیم : ٧ )
'' اگر حق مانو گے تو اور دوں گا اور ناشکری کرو گے تو میری مار سخت ہے '' ٢
( اُذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا وَّسَبِّحُوْہُ بُکْرَةً وَّ اَصِیْلًا ) ( سُورة الاحزاب : ٤١ ، ٤٢ )
''یاد کرو اللہ کو بہت سی یاد اور پاکی بو لو اس کی صبح وشام'' ٣
( فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ ) ٤
''جب نماز ادا کر چکو تو یاد کرو اللہ کو کھڑے بیٹھے اور پڑے ''
( وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِفْیَةً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ) ( سُورة الاعراف : ٢٠٥ )
''اوریاد کر اپنے رب کو دل میں عاجزی کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور زبان سے بھی آہستہ آہستہ بغیر پکارے صبح اور شام اور ایسا نہ کرنا کہ غافلوں میں سے ہوجاؤ ''
١ ترجمہ شاہ عبدالقادر ٢ ترجمہ شاہ صاحب ٣ ترجمہ شاہ صاحب ٤ سورة النساء : ١٠٣
( وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَتَمَتَّعُوْنَ وَیَأْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًی لَّھُمْ ) ١
''اور وہ جو کافر ہیں عیش کرتے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور جہنم ان لوگوں کا ٹھکانا ہے''
( وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا ) ٢
''اور جب کسی بستی کی تباہی آنی ہوتی ہے تو (اس کی ترتیب یہ ہوتی ہے) اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں (نبی کے ذریعہ ان پر احکامِ شریعت نازل کرتے ہیں ) پھر (وہ بجائے اس کے کہ تعمیل کریں )نافرمانی میں سرگرم ہوجاتے ہیں (فسق وفجور کرنے لگتے ہیں ) بس ان پر عذاب کی بات (بربادی کا قدرتی قانون) ثابت ہوجاتی ہے اور (پاداشِ عمل میں ) ان کو برباد ہلاک کر ڈالتے ہیں ''
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا سَبَقَ الْمُفَرِّدُوْنَ ''سبقت لے گئے الْمُفَرِّدُوْن'' ٣
صحابہ کرام : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْمُفَرِّدُوْن مفردون کون ہیں ؟
ارشاد ہوا : اَلذَّاکِرُوْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَالذَّاکِرَاتُ ٤ ''وہ مرد اور عورتیں جو کثرت سے اللہ کا ذکر کرتی ہیں ''
آیات بالا اور حدیث ان اصول کی تعلیم دے رہی ہیں جن پر اسلام کی کامل ومکمل تہذیب کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے عمل اور تعلیم سے رکھی ہے !
مثبت : ذکر اللہ، شکر، تسبیح، تکبیر، عاجزی، خوفِ خدا ٥
١ سورة محمد : ٢ ١ ٢ سورة الانبیاء : ١٦ ٣ لغت کے لحاظ سے معنی ہیں الگ ہوجانے والے، یک سو ہوجانے والے
٤ صحیح مسلم کتاب الذکر والدعا والتوبة و الاستغفار رقم الحدیث ٦٨٠٢ ج٢ ص ٢٤١
٥ یہ جشن، جلوس، باجے اور گانے جو دوسری تہذیبوں کے لوازم ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کے مذہب کی تعلیمات بھی ہیں ، اسلامی تہذیب کے مزاج کے خلاف اور اسلامی تعلیمات کے لیے ناقابل برداشت ہیں اسی لیے ان کو حرام قرار دیا گیا ہے انتہا یہ کہ حالات ِ جنگ میں جہاں شوکت وحشمت کا اظہار ضروری سمجھا جاتا ہے بطر و ریاء کی وہاں بھی اجازت نہیں ہے ! (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
منفی : جو ناشکری سے پاک ہو اَنعَامْ یعنی مویشی (ڈھوروں اور ڈنگروں ) کی مشابہت (جس کو احادیث میں شیطانی عمل) کہا گیا ہے اس میں تعیش (عیش پرستانہ اور شاہانہ انداز) نہ ہو یعنی اس میں سادگی ہو، سنجیدگی ہو اور کفایت شعاری ہو !
ان اصول کو سامنے رکھیے اور سرورکائنات صلی اللہ عليہ وسلم کے عمل اور آپ کی تعلیمات ملاحظہ فرمائیے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق بخشے
دلیل صداقت :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا عمل سامنے آئے تو یہ بھی غور فرمائیے کہ کیا ایسا شخص (معاذ اللّٰہ) جھوٹا ہوسکتا ہے ؟ اور یہ بھی خیال فرمائیے کہ تعلیم سے زیادہ عمل ہے جو تلاوت آیات اللہ کی تشریح کرتا ہے
ذکر اللّٰہ :
حضرت عبداللّٰہ بن بُسر رضی اللّٰہ عنہ کی اس درخواست کے جواب میں (کہ کوئی ایسا عمل بتادیجیے جس کا میں پابند رہوں ) ارشاد ہوا
لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ١ ''تمہاری زبان ہروقت یادِ خدا میں تر رہنی چاہیے''
علماء نے اس کی تشریح یہ بھی فرمائی ہے کہ جس وقت اور جس حالت کے لیے جو دعا احادیث میں وارد ہوئی ہے وہ اس موقع پر پڑھی جائے مگر یہ ذکر اللہ کا ہلکا درجہ ہے آیاتِ بالا میں ہدایت ہے کہ
'' ذکر کثرت سے کرو ، کھڑے ، بیٹھے اور لیٹنے کی حالت میں بھی اللہ کا ذکر کرتے رہو ''
( بقیہ حاشیہ ص ١١ )
غزوہ ٔبدر کے موقع پر کفارِ قریش بڑی شان کے ساتھ اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتے ہوئے مکہ سے روانہ ہوئے تھے حضرت حق جل مجدہ نے مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا ہے ارشاد ِ ربانی ہے
( وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بَطَرًا وَّ رِیَآئَ النَّاسِ ) (سُورة الانفال : ٤٧ )
''اور ان جیسے نہ ہو جائو جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کی نظر میں نمائش کرتے ہوئے نکلے ''
١ مشکوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٢٧٩ و مسند امام احمد بن حنبل
''ذکر ہلکی آواز سے ہو اور دل سے بھی ہو ١ غفلت کسی وقت نہ ہو '' ٢
ان آیات کا تقاضا صرف ان دعاؤں کے پڑھ لینے سے پورا نہیں ہوتا جو مختلف حالات کے متعلق احادیث میں وارد ہوئی ہیں جن کی تفصیل آگے آرہی ہے کیونکہ آیات کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی یاد زیادہ سے زیادہ ہو اور ہر حالت میں ہو !
سیّد الانبیاء رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم کی شان یہاں بھی نرالی ہے وہ تمام اورادو وظائف جو حضراتِ علماء کرام اور مختلف سلسلوں کے مشائخ طریقت کی تعلیمات میں رائج ہیں ان سب کا مصدر وماخذ وہ سینہ مبارک ہے جو گنجینۂ اسرار و معارف تھا
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ٣
صرف استغفار کے متعلق حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم گن لیا کرتے تھے کہ ایک ہی مجلس میں آپ کی زبان مبارک سے سو مرتبہ یہ کلمات صادر ہوجایا کرتے تھے
رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمِ ٤
''اے میرے رب ، میری مغفرت فرما اور مجھ پرنظر عنایت فرما بے شک تو بہت توبہ قبول کرنے والا بہت رحمت والا ہے''
یہ زبان مبارک کا ذکر تھا اور قلب مبارک کی شان یہ تھی کہ وہ حالت خواب میں بھی بیدار رہتا تھا اور حضرت حق کی طرف اتنا متوجہ کہ آپ کی رؤیا (خواب ) بھی وحی ہوتی تھی ٥
گہرے مراقبہ میں قلب زیادہ سے زیادہ متوجہ رہتا ہے اور اعضاء بے حس و حرکت ، تقریباً یہی شان ہوتی تھی جب چشم نیم باز محو خواب ہوتی تھی اِنَّ عَیْنَیَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ ٦
١ حضرات مشائخ طریقت رحمہم اللہ ذکر کی مختلف صورتیں بتاتے ہیں ذکر بالجہر، ذکر خفی ، ذکر اخفی وغیرہ
پاس انفاس، مراقبہ وغیرہ ان کا ماخذ اسی طرح کی آیتیں ہیں ٢ قلب میں ذکر اللہ جاری اور مراقبہ قائم رہے
٣ تمام معجزات و کمالات جو باقی سب انبیاء رکھتے تھے وہ سب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی ذات میں جمع ہیں
٤ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ ( مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٢٣٥٢ )
٥ رُؤْیَا الاَنْبِیَائِ وَحْی ( صحیح البخاری کتاب الوضوء رقم الحدیث ١٣٨ ج ١ ص ٢٥ )
٦ صحیح البخاری کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٤٧
شب و روز کے حالات و معمولات اور ان کے آداب و دعائیں ١
جو حالات ومعمولات ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں ان کے متعلق بہت سی دعائیں روایات میں وارد ہیں حضراتِ محدثین نے ان کو ضخیم جلدوں میں جمع کیا ہے ہم یہاں مختصر آداب اور صرف ایک ایک دعا پیش کررہے ہیں ،نمونہ اور مثال مقصود ہے اِسْتِیْعَابْ کا نہ مقام ہے نہ مقصود ، اللہ تعالیٰ ان نمونوں پر ہی عمل کی توفیق بخشے یہ بھی غنیمت ہے ( لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة ) ٢
معمولات ِ شب :
سرورکائنات صلی اللہ عليہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ایک تہائی رات تک نمازِ عشاء پڑھ لی جائے اس کے بعد آرام کیا جائے ،قصہ کہانی اور باتوں کے لیے مجلس جمانا درست نہیں ہے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم عشاء سے پہلے سوجانے اور نماز عشاء کے بعد باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے البتہ سفر یا علمی یا ملی ضرورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں ٣
ارشاد ہوا جب آپ سونے کا ارادہ کریں تو وضو کیجیے جیسے نماز کے لیے وضو کی جاتی ہے ٤ جب لیٹنے کا ارادہ کریں تو پہلے بستر کو جھاڑ لیں لیٹنے لگیں تو یہ دعا پڑھیں
بِاسْمِکَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِیْ وَبِکَ اَرْفَعُہ اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَارْحَمْھَا
وَاِنْ اَرْسَلْتَھَا فَاحْفَظْھَا بِمَا تَحْفَظُ بِہ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ ٥
١ احقر کا رسالہ ''دعائیں '' ملاحظہ فرمائیں اس میں تمام دعائیں جمع کردی ہیں ترجمہ بھی ساتھ اور دعاؤں پر زیر زبر
بھی لگادیے ہیں ۔ محمد میاں
٢ سورة الاحزاب : ٢١
٣ سنن ترمذی باب کراہیة النوم قبل العشاء والسحر بعدہا و باب ماجاء فی الرخصة فی السمر بعد العشائ
٤ صحیح البخاری کتاب الدعوات رقم الحدیث ٦٣١١
٥ صحیح البخاری کتاب الدعوات رقم الحدیث ٦٣٢٠
''تیرے ہی نام پراے میرے پروردگار میں نے اپنی کروٹ (بستر پر) رکھی ہے اور تیرا ہی نام لے کر اس کو اٹھائوں گا اگر تو میری جان کو روک لے (اسی حالت میں انتقال ہوجائے) تو اس پر رحم فرما اور اگر میری جان کو چھوڑ دے(زندگی میں بیدار ہوجاؤں ) تو اس کی اسی طرح حفاظت فرما جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کیا کرتا ہے''
پھر آپ دہنی کروٹ پر لیٹیں داہنا ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ لیں اور یہ دعا پڑھیں
اَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ وَاَلْجَأْتُ ظَھْرِیْ اِلَیْکَ رَھْبَةً وَّرَغْبَةً اِلَیْکَ لَا مَلْجَائَ وَلَا مَنْجَا مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ ١
''اے اللہ ! میں نے اپنی ذات تجھے سونپ دی اپنا معاملہ تیرے سپرد کردیا، اپنی کمر تیری پناہ میں دے دی تیرے جلال سے ڈرتے ہوئے اور تیری رحمت اور تیرے لطف و کرم کی طرف رغبت کرتے ہوئے ! نہیں کوئی پناہ اور نہ تجھ سے نجات پانے کی جگہ مگر تیری ہی طرف (تیرا ہی دامن) میں ایمان لایا تیری کتاب پر جو تونے نازل کی اور ایمان لایا میں تیرے نبی پر جس کو تونے بھیجا''
حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو یہ بھی بتایا تھا کہ جب سونے کولیٹو تو سُبْحَانَ اللّٰہ ٣٣ مرتبہ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ٣٣ مرتبہ ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ ٣٤ مرتبہ پڑھ لیا کرو ٢
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَد اور مُعَوَّذَتَیْنِ (سورة الفلق و سورة الناس) بھی تین تین مرتبہ پڑھا کرتے تھے، ہر مرتبہ دونوں دست مبارک پر دم کرتے دونوں ہاتھ بدن کے سامنے کے حصے پر پھیر لیتے تھے ٣
١ صحیح البخاری کتاب الدعوات رقم الحدیث ٦٣٢٠ ص ٩٣٤
٢ صحیح البخاری کتاب الدعوات رقم الحدیث ٦٣١٨ ص ٩٣٥
٣ صحیح البخاری کتاب الدعوات رقم الحدیث ٦٣١٩ و ٥٠١٧ ص ٩٣٥ و ص ٧٥٠
بیداری کے وقت دعا :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَآ اَ مَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ ١
''تمام تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے ہمیں زندہ کیا اس کے بعد کہ ہمیں مار دیا تھا (سلا دیا تھا) اور اللہ ہی کی طرف ہے مرنے کے بعد زندہ ہوکر جانا''
نیزیہ دعا :
اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰتِ وَرَبَّ الاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّویٰ وَمُنْزِلَ التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ َشرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ اٰخِد بِنَاصِیَتِہ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئ وَاَنْتَ الْاٰخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئ وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنِکَ شَیْئ اَقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَاَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ ٢
''اے اللہ اے آسمانوں کے پرورگار زمین کے پیدا کرنے والے اور عرش عظیم کے مالک اے ہمارے پروردگار اور ہر چیز کے مالک ( اور پروردگار) دانے کو پھاڑنے والے، گٹھلی کو چیرنے والے (جس سے پودا نمودار ہو) تورات، انجیل اور قرآن کو نازل کرنے والے میں تیری پناہ لیتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جس کی توپیشانی کے بال پکڑے ہوئے ہے جو تیرے قبضہ قدرت میں ہے اے اللہ تو ہی ہے اوّل پس تجھ سے پہلے کوئی نہیں اور توہی آخر پس کوئی نہیں جوتیرے بعد ہو اور تو ہی ہے ظاہر بس تیرے اوپر کوئی نہیں اور تو ہی ہے باطن بس تیرے ورے (تجھ سے زیادہ نزدیک )کوئی نہیں ، ادا کردے ہمارے ذمہ سے قرض اور بے نیاز کردے ہم کو فقر سے''
١ صحیح البخاری کتاب الدعوات رقم الحدیث ٦٣١٢
٢ مشکوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٤٠٨
تہجد کے وقت جو دعائیں پڑھا کرتے تھے ان میں ایک یہ بھی تھی
اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مَلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الحَقُّ وَلِقَائُکَ حَقّ وَ قَوْلُکَ حَقّ وَالْجَنَّةُ حَقّ وَالنَّارُ حَقّ وَالنَّبِیِّوْنَ حَقّ وَمُحَمَّد حَقّ وَالسَّاعَةُ حَقّ
اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ
اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَوْ لَا اِلٰہَ غَیْرُک وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ ١
''اے اللہ تیرے ہی لیے ہے سب تعریف توہی ہے قائم رکھنے والا آسمانوں اور زمین کا اور ان چیزوں کا جو ان میں ہیں اور تیرے ہی لیے ہے تمام تعریف
تو ہی ہے نور (رونق) آسمانوں کا زمین کا اور ان تمام چیزوں کا جو ان میں ہیں اور تیرے ہی لیے ہے حمد ! تو ہی بادشاہ آسمانوں کا اور زمین کا اور ان سب کا جوان میں ہیں اور تیرے لیے ہی ہے تعریف تو ہی ہے حق، تیرا وعدہ حق ، تیرے سامنے حاضر ہونا حق ،تیرا قول حق، جنت حق ، دوزخ حق، تمام انبیاء حق، محمد حق، قیامت حق
اے اللہ میں تیرا مطیع ہوں ، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر ہی بھروسہ رکھتا ہوں ، تیری ہی طرف رجوع ہوتا ہوں اور تیرے ہی لیے مخاصمت کرتا ہوں اور تجھ ہی کو اپنا منصف بناتا ہوں پس بخش دے ان (گناہوں ) کو جو میں نے آگے کیے اور جو پیچھے کیے اور جو چھپا کر کیے اور جو علانیہ کیے اور تمام گناہ جن کو میں نہیں جانتا تو ان کو مجھ سے بہت زیادہ جانتا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو ہی ہے آگے لانے والا
١ صحیح البخاری کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٢٠
اور تو ہی ہے پیچھے رکھنے والا، صرف تو ہی معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور نہیں کوئی غور و فکر کی طاقت (تدبیر) نہ کوئی عمل کی قوت تیرے بغیر ''
نمازِ تہجد اور دعا :
ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللّٰہ عنہا حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما کی خالہ تھیں حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کو اپنے بچپن ہی میں شوق ہوا کہ دیکھیں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تہجد کس طرح پڑھتے ہیں چنانچہ رات کو خالہ میمونہ کے یہاں پہنچ گئے، حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں جب رات کا ایک حصہ گزر گیا تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم بیدار ہوئے قضاء حاجت کے بعد آپ مشکیزہ پر تشریف لے گئے جو لٹکا ہوا تھا بڑے اطمینان سے پوری طرح وضو کیا اچھی طرح مسواک فرمائی اسی اثناء میں آپ نے سُورۂ آلِ عمران کا آخری رکوع پورا پڑھا پھر آپ نے اطمینان سے نماز شروع کی میں نے بھی آپ کے بائیں جانب کھڑے ہوکر نیت باندھ لی، آپ نے دست مبارک میرے کان پر رکھا اور مجھ کو دائیں جانب کر لیا ١ تہجد کے بعد آپ نے جو دعا مانگی اس میں یہ بھی تھا
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْرًا
وَّعَنْ یَّسَارِیْ نُوْرًا وَّ فَوْقِیْ نُوْرًا وَّتَحْتِیْ نُوْرًا وَّاَمَامِیْ نُوْرًا وَّخَلْفِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا ٢
''اے اللہ میرے دل میں نور بھردے ،میری سماعت میں نور بھردے ،میرے دائیں نور کردے، میرے بائیں نور کردے ،میرے اوپر نور کردے ،میرے نیچے نور کردے، میرے آگے نور کردے ،میرے پیچھے نور کردے اور میرے لیے نور مقرر کردے ''
تہجد میں قراء ت :
سیّدة عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تہجد میں عموماً گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے، پہلے چار رکعت، مت پوچھو وہ کس قدر طویل اور کس قدر پر لطف ہوتی تھیں ،پھر چار رکعت مت پوچھو کہ وہ کس قدر طویل اور کس قدر پر کیف ہوتی تھیں پھر تین رکعت پڑھا کرتے تھے ٣
١ صحیح البخاری کتاب الوضوء رقم الحدیث ١٨٣ ٢ ایضًا کتاب الدعوات رقم الحدیث ٦٣١٦
٣ ایضًا کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٤٧
حضرت حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ نے چار رکعتوں میں چار سورتیں ختم کیں ، سورہ بقرہ، سورۂ آلِ عمران، سورہ نساء اور سورہ مائدہ یا سورة الانعام (گویا ایک چوتھائی قرآن شریف پڑھا لیا) ١
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بڑھاپے کی وجہ سے ضعف غالب ہوگیا تو آپ قراء ت بیٹھ کر کیا کرتے تھے اور جب تیس چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہوکر پڑھا کرتے تھے ٢
تاریکی ٔ شب ان ہی انوار سے منور رہتی تھی یہاں تک کہ سپیدہ ٔ صبح طلوع ہوتا اور مؤذن اذان پڑھتا اس وقت آپ فجر کی دو رکعت پڑھتے اور تھوڑی دیر داہنی کروٹ پر لیٹ کر آرام فرما لیتے ٣
اور کبھی ایسا ہوتا صبح صادق سے کچھ پہلے نوافل سے فراغت پاکر کچھ دیر آرام فرماتے یہاں تک کہ مؤذن کی اذان پر اٹھ جاتے اور وضو فرماکر نماز صبح کے لیے تشریف لے جاتے ٤
( وَبِالاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) ٥ ''اوقات ِ سحر (آخر شب) میں وہ استغفار کیا کرتے ہیں ''
وقت صبح :
لطف کی بات یہ ہے کہ رات بھر کے مجاہدہ اور ریاضت کے بعد بھی احساس یہی ہے کہ حقِ عبودیت ادا نہیں ہوا لہٰذا صبح ہو رہی ہے تو یہ استغفار پڑھا جارہا ہے جس کو اہل علم سیّد الاستغفار کہتے ہیں
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوئُ لَکَ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ ٦
١ سنن ابوداود باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ رقم الحدیث ٨٧٤
٢ صحیح البخاری کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٤٨ ص ١٥٤
٣ صحیح البخاری کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٦٠ ص ١٥٥
٤ صحیح البخاری کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٤٦ ص ١٥٤
٥ سورة الذاریات : ١٨
٦ صحیح البخاری کتاب الدعوات باب افضل الاستغفار رقم الحدیث ٦٣٠٦
''اے اللہ تو ہی ہے میرا رب تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے ہی مجھ کو پیدا کیا ہے میں تیرا بندہ ہوں میں تیرے عہد پر اور تیرے وعدے پر (قائم ہوں ) جہاں تک میں طاقت رکھتا ہوں جو گناہ میں کر چکا ہوں ان کے شر سے بچنے کے لیے پناہ لیتا ہوں میں اقرار کرتا ہوں تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اور اقرار کرتا ہوں اپنے گناہ کا جو تیرے حق میں میں نے کیا، بس میرے گناہ بخش دے بے شک تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا ''
صبح و شام :
دن یا رات کا آغاز ہوتا تو زبان مبارک پر جو دعائیں جاری ہوتیں ان میں سے ایک یہ ہے
اَمْسَیْنَا وَاَمْسَی الْمُلْکُ لِلّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ١
''ہماری شام ہوگئی اللہ کے تمام ملک کی شام ہوگئی، سب تعریف اللہ کے لیے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اللہ یکتا اور تنہا اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کا ملک ہے اسی کے لیے حمد ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے ''
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ ھٰذِہِ اللَّیْلَةِ وَخَیْرِ مَا فِیْھَا وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَسُوْئِ الْکِبَرِ وَفِتْنَةِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ٢
''میں تجھ سے التجا کرتا ہوں اس رات کی بھلائی کی جو اس رات میں ہے اور میں تیری پناہ لیتا ہوں اس رات کی خرابی سے اور ان تمام چیزوں کی خرابی اور شرارت سے جو اس رات کے اندر ہیں اور تیری پناہ لیتا ہوں کسل سے ،بیکار کردینے والے بڑھاپے اور بڑھاپے کے برے دور سے اور تیری پناہ لیتا ہوں دنیا کے فتنہ سے اور عذابِ قبر سے''
(جاری ہے)
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللّٰہ '' صلی اللہ عليہ وسلم ص ٥٦٢ تا ٥٧٢ ناشر کتابستان دہلی )
٭٭٭
١ صحیح مسلم کتاب الذکر و الدعا و التوبة و الاستغفار رقم الحدیث ٦٩٠٢ ٢ ایضًا رقم الحدیث ٦٩٠٣
علومِ اسلامیہ اور ان کی بقاء کے لیے امت کے فرائض
( قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں )
عنوانات و تزئین ، حاشیہ و نظر ثانی بتغیرِ یسیر : حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہ وَاَصْحَا بِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعدُ !
ایک مسلمان اگر یہ معلوم کرنا چاہے کہ میرے معبود ِ حقیقی کو کیا چیز پسندہے اور کیا نا پسند ہے تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ مشکوةِ نبوت کی طرف رجوع کرے ! کیونکہ بہت سے امور ایسے ہیں جو انسانی عقل کے ادراک سے باہر ہیں ! مثال کے طور پر نماز ایک اہم ترین رکن اور محبوب ترین عبادت ہے لیکن اگرکوئی شخص طلوعِ فجر سے لے کر طلوعِ آفتاب تک سوائے صبح کی چار رکعتوں کے اور نوا فل پڑھنا چاہیے اسی طرح عصر کے بعد سے غروبِ آفتاب تک سوائے عصر کی نماز کے اور نفلیں پڑھنا چاہے تو اسے بجائے ثواب کے گناہ ہوگا ! ! حالانکہ بظاہر وہ نماز ہی پڑھ رہا ہے اور خدا کی یاد میں مصروف ہے ! اسی طرح بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو حق تعالیٰ کو پسند یا نا پسند تھیں اور عقلِ انسانی اس کے ادراک سے قاصر تھی اس لیے باری تعالیٰ نے انبیائِ کرام معبوث فرمائے اور ہمارے نبی آخر الزمان سرورِ کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے اتنی وضاحت سے احکام بتلائے کہ اس قسم کی کسی چیز کی کمی نہ رہے آپ کے بعد صحابۂ کرام اور ان کے شا گردوں نے ان ہی علومِ نبویہ کی اشاعت کی ، ان پر عمل پیرا رہے اوردنیا کے گوشہ گوشہ میں یہ علوم لے کر پھیلتے چلے گئے ! ! ان کے بعد با عمل علماء سلسلہ وار اس علم وعمل کے حامل رہے حتی کہ ہمارا زمانہ آیا ! ! !
صحابہ کرام کے شا گردوں سے لے کر آج تک ایسے تمام علماء کے حالات ان کے علم و عقل کا توازن اور عملی پہلوکا جائزہ ہرزمانے میں لیا جاتا رہا ہے ! ! اس پر بہت کتابیں لکھی گئیں کا وِشیں کی گئیں اور اس علم کا نام ''اسماء الرجال'' رکھاگیا اور بے سند علم کومعتبر نہیں شمار کیا گیا ! جیسا کہ امام بخاری فرماتے ہیں اِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ یعنی( علومِ دینیہ میں معتبر) علم سیکھنے سے آتا ہے ! یہی علماء وہ مقدس حضرات ہیں جنہیں وا رث علومِ نبویہ کہا جائے توبجا ہوگایہی وہ علم ہے جس کا سیکھنا ہی خود بڑی عبادت ہے اور عند اللّٰہ سب سے اعلیٰ فضیلت ہے !
جناب رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم کا ایک ایسے ہی موقع پر ارشاد ہے
اَنَا اَعْلَمُکُمْ بِاللّٰہِ ١ میں تم سب سے زیادہ خدا کی معرفت رکھتا ہوں !
امام بخاری رحمة اللّٰہ علیہ نے اس سے استدلال فرمایا کہ'' علم'' اور'' معرفت ''دل کاکام ہے اس پر بھی دوسری نیکیوں کی طرح اجر ملتاہے بلکہ یہ سب سے افضل نیکی ہے اور سب کی جڑ ہے، نیز ار شادِ باری تعالیٰ ہے
( ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ) ٢ '' کیا علم والے اور بے علم برا بر ہوتے ہیں '' ؟
( وَمَا یَعْقِلُھَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ) ٣ '' اور ان کو سمجھتے وہی ہیں جو علم والے ہیں ''
امام بخاری رحمة اللّٰہ علیہ نے علم کی فضیلت بیان کرنے کے لیے ایک باب تحریر فرمایا ہے اس میں آیات واحادیث کے جملے لے کرارشاد فرماتے ہیں
بَابُ : الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ : لِقَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ( فَاعْلَمْ اَنَّہُ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ) فَبَدَأَ بِالْعِلْمِ وَ اَنَّ الْعُلَمَائَ ھُمْ وَرَثَةُ الاَنْبِیَائِ وَرَّثُوا الْعِلْمَ مَنْ أَخَذَہ اَخَذَ بِحَظٍّ وَّافِرٍ وَمَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ بِہ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ طَرِیْقًا اِلَی الْجَنَّةِ ۔
''علم'' یعنی جاننا بولنے اور عمل کرنے (دو نوں ہی) سے پہلے (ضروری) ہے کیونکہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے فَاعْلَمْ یعنی جانے کہ سوائے اللہ کے کوئی معبود نہیں ، پہلے ''فَاعْلَمْ'' فر ما کر علم کو مقدم فرمایا ! ا ور یہ کہ علماء ہی یقینا انبیائِ کرام کے وارث ہیں ! انبیاء نے علم کاترکہ چھوڑا ہے جس نے علم حاصل کیا اس نے بڑا حصہ حاصل کیا اور جو علم حاصل کرنے کے لیے راستہ چلتا ہے اللہ تعالیٰ جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں '' ! ! !
١ صحیح البخاری کتاب الایمان باب قول النبی صلی اللہ عليہ وسلم انا اعلمکم باللّٰہ
٢ سورۂ زمر : ٩ ٣ سورة العنکبوت : ٤٣
ارشاد ربانی ہے ( اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآئُ ) ١
''اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ''
یہی وہ علم ہے جس کی اشا عت کے بارے میں در بارِ رسالت سے حکم ہوا
لِیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ ''جوموجود ہیں وہ غیر موجود لوگوں تک پہنچائیں ''
لہٰذا سب سے پہلے صحابۂ کرام نے اشاعت علومِ دینیہ میں مستعدی سے کام لیا اور اس پر عمل کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی ! ! !
قَالَ اَبُوْذَرٍّ لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَمَامَةَ عَلٰی ھٰذِہ وَ أَشَارَ اِلٰی قَفَاہُ ثُمَّ ظَنَنْتُ اَنِّیْ اُنَفِّذُ کَلِمَةً سَمِعْتُھَا مِنَ النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم قَبْلَ اَنْ تُجِیْزُوْا عَلَیَّ لَاَنْفَذْتُھَا ٢
''حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ نے ار شاد فرمایا کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو اور اپنی گدی کی طرف اشارہ فرمایا پھر میں یہ اندازہ کروں کہ میں ایک کلمہ بھی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے سنا ہے تلوار چلنے سے پہلے زبان سے ادا کر سکتا ہوں تو میں ضرور زبان سے ادا کروں گا''
اسی بنا پر اس علم کے حاصل کرنے لیے صحابۂ کرام تک نے بھی سفر کیے ہیں
رَحَلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ مَسِیْرَةَ شَھْرٍ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اُ نَیْسٍ فِیْ حَدِیْثٍ وَّاحِدٍ ٣
''حضرت جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت عبد اللّٰہ بن اُنیس رضی اللّٰہ عنہ کے پاس صرف ایک حدیث کے لیے ایک ماہ کی مسا فت والا سفر کیا ''
علم دین حاصل کرنے میں صحابیات کے شغف کا بھی یہی حال تھا حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں
نِعْمَ النِسَآئُ نِسَآئُ الاَنْصَارِ لَمْ یَمْنَعْھُنَّ الْحَیَائُ اَنْ یَّتَفَقَّھْنَ فِی الدِّیْنِ ٤
''انصار کی عورتیں بہت ہی اچھی ہیں انہیں دین میں گہری بصیرت (فقہ) حاصل کرنے سے شرم مانع نہیں ہوتی ''
١ سورة فاطر : ٢٨ ٢ صحیح البخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول و العمل
٣ صحیح البخاری کتاب العلم باب الخروج فی طلب العلم ٤ ایضًا کتاب العلم باب الحیاء فی العلم
اسی لیے حضرت مجاہد رحمة اللّٰہ علیہ فرماتے تھے
لَا یَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ مُسْتَحْی وَلَا مُسْتَکْبِر ١ ''سیکھنے میں شر مانے والا اور متکبر علم نہیں حاصل کر سکتے ''
غرض یہ چندسطور اس لیے لکھی گئی ہیں کہ علم دین کی فضیلت معلوم ہو اور ہر آدمی چاہے وہ جس عمر کا ہو اور کسی بھی حیثیت کا ہوعلمِ دین حاصل کرنے میں دریغ نہ کرے ، اپنے مشاغل جاری رکھتے ہوئے بھی علم کے لیے تھوڑا بہت وقت نکالے اور ایسے علماء سے جو متبعِ سنت ہوں علم حاصل کرنے کے لیے رجوع کرے ، یہ نیکی عند اللّٰہ سب سے بڑی نیکی ہے اور اس کے افضل ہونے کا ثبوت قرآن کریم اور احادیث سے ملتا ہے ! !
ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جو پر فتن ہے حضرت حذیفة رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْ لَیُوْشِکَنَّ اللّٰہُ اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ عِنْدِہ ثُمَّ لَتَدْعُنَّہُ وَلاَ یُسْتَجَابُ لَکُمْ ٢
''قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم لوگ ضرور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ باری تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیجیں پھر تم اس سے دعا مانگو گے اور تمہاری دعا قبول نہ ہوگی ''
یہ کس قدر ہیبت ناک وعید ہے کہ دعا بھی قبول نہ ہو، اس کی ہم مضمون بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ برائی سے روکنا اور اچھائی کی تعلیم دینا ضروری ہے ور نہ شدید گرفت کااند یشہ ہے ! ! ! حدیث شریف میں آتا ہے
اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اِلٰی جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَةَ کَذَا وَ کَذَا بِاَھْلِھَا قَالَ یَا رَبِّ اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلَانًا لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَةَ عَیْنٍ قَالَ فَقَالَ اَقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَ عَلَیْھِمْ فَاِنَّ وَجْھَہ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَةً قَطُّ۔ ٣
١ صحیح البخاری کتاب العلم باب الحیاء فی العلم ٢ مشکوة المصابیح کتاب الاداب باب الامر بالمعروف
رقم الحدیث ٥١٤٠ ٣ مشکوة المصابیح کتاب الاداب رقم الحدیث ٥١٥٢
''باری تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام پر وحی فرمائی کہ فلاں شہر کو باشندوں سمیت پلٹ دو ! وہ عرض کرنے لگے ان میں تیرا فلاں بندہ ہے جس نے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی ! ار شاد ہوا کہ اس شہر کو اس پر اور (تمام) باشندوں پرپلٹ دو کیونکہ ( وہ میری نافرمانی دیکھتا تھا اور ) کبھی ایسا نہ ہوا کہ میری نافرمانی دیکھ کر اس نے منہ بھی بسورا ہو ''
یہ اہم تر ین کام بغیرکمالِ علمی کے انجام دینا ممکن نہیں ، عام اور معمولی حالات میں ہر آدمی اپنے ساتھی اور گھر کے افراد کی غلطی پہچان سکتاہے اور بتلا سکتاہے لیکن یہ بہت ہی معمولی با توں تک محدود ہے اگر لین دین ،خریدو فروخت اور معاملات کے ہزا روں مسائل دیکھے جائیں تو ایک نیک آدمی باو جودیکہ وہ نیک ہوتا ہے ان سے با لکل ناآشنا رہتا ہے اور اسے ان چیزوں میں علماء کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اسی لیے باری تعالیٰ نے ہر گروہ اور علاقہ میں سے ایک آدھ آدمی پر(مکمل) علمِ دین سیکھنا فرض فرما دیا
( فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَة لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ) ١
'' تو ایسا کیوں نہیں کیا جدا جدا آبادیوں میں سے ایک ایک حصہ نکلتا تاکہ دین میں سمجھ پیدا کریں ! جب اپنی قوم میں لوٹ کر آئیں تو انہیں خبر پہنچائیں تاکہ وہ بچتے رہیں ''
( وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّة یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ٢
''اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جونیک کام کی طرف بلاتی رہے اور اچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برائی سے منع کرتی رہے اور یہی لوگ اپنی مراد پانے والے ہیں ''
اس لیے آپ جملہ معا ونین ِ مدارس پر ضروری ہو تا ہے کہ اپنی اولاد میں جس طرح دنیاوی علوم کا شوق پیدا کرکے دوسری تعلیم دلاتے ہیں دینی تعلیم بھی دلا ئیں ! اگر اعلیٰ حیثیت اور اعلیٰ خاندانوں والے
١ سورة التوبة : ١٢٢ ٢ سورة اٰلِ عمران : ١٠٤
افراد اس طرف توجہ نہیں کریں گے تو اس بے توجہی سے پیدا ہونے والے نقصانات کی ذمہ داری ان ہی پر عائد ہوگی ! اور ایسے علماء کافقدان جواعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہوں اوراونچی حیثیت کے گھرانوں کے چشم و چراغ ہوں ایک طرح کا وبال بن سکتا ہے ! کیونکہ ضرورت اس ا مر کی ہے کہ ہرطبقہ کوکھٹکھٹایا جاسکے اور بے دھڑک احکامِ الٰہیہ ہر سطح کے لو گوں تک پہنچائے جا سکیں اور یہ بات پوری طرح اسی وقت حاصل ہوگی جب ہر طبقہ میں علماء کاوجود ہو ! ! اور ایسے وقت کہ جب لوگ غفلت میں ہوں خدمت ِدین کرنے والوں کوانتہا درجہ بڑے ثواب کی بشارت دی گئی ہے ! ! حدیث میں ارشاد ہوا
سَیَکُونُ فِیْ اٰخِرِ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ قَوْم لَّھُمْ مِثْلُ اَجْرِ اَوَّلِھِمْ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقَاتِلُوْنَ اَھْلَ الْفِتَنِ ١
'' اس امت کے آخر میں ایسے لوگ ہوں گے کہ انہیں ان جیسا اجر مل جائے گا جو پہلوں کوملا ہے وہ لوگ وہ ہوں گے جواچھی باتیں بتلائیں گے برائی سے رو کیں گے اور فتنہ پردازوں سے مقابلہ کریں گے ''
نیز ایسے ہی لو گوں سے خوشی کااظہار فرماتے ہوئے ان کی تسلی کے لیے ارشاد فرمایا
مَثَلُ اُمَّتِیْ مَثَلُ الْمَطَرِ لَا یُدْرٰی اَوَّلُہُ خَیْر اَمْ اٰخِرُہُ ٢
''میری امت کی مثال بارش کی سی ہے کہ یہ نہیں پتہ چلتا کہ بارش کا پہلا جھلّا (بوچھاڑ) زیادہ بہتر تھا یا آخری حصہ''
ان دونوں روایتوں سے ثواب کی زیادتی معلوم ہو رہی ہے اور درجہ ان کاہی بڑا ہے جو پہلے گزرے کیونکہ ہماری ہر نیکی میں وہ شریک ہیں اوران کی وجہ سے ہم تک دین پہنچا ! !
١ مشکوة المصابیح کتاب المناقب باب ثواب ھذہ الامة رقم الحدیث ٦٢٨٩
٢ مشکوة المصابیح کتاب المناقب باب ثواب ھذہ الامة رقم الحدیث ٦٢٨٦
یہاں تک کے مضمون کا خلاصہ یہ ہوا کہ
(١) بندے پر احکامِ الٰہیہ کی اطاعت اور انبیاء کرام کے بتلائے ہوئے احکام پر چلنا واجب ہے کیونکہ ہر اس چیز تک کہ جس میں خدا وند ِقدوس کی ر ضامندی ہوبندہ کی رسائی ممکن نہیں ہوتی، بہت سی چیزیں عقل سے با لا ہوتی ہیں جنہیں بتلانے کے لیے انبیاء کرام کی بعثت ہواکرتی تھی ! !
(٢) علم دین مستند، معتبر اور متبعِ سنت علماء سے حاصل کر نا چاہیے !
(٣) علم دین ہی وہ علم ہے جو انبیاء کرام کا ترکہ ہے اور اس کا سیکھنا سب سے افضل عبادت ہے
اور یہ سب سے مقدم ہے ! ( بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین ٣ فروری ١٩٦٧ئ)
قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے ! (ادارہ)
رحمن کے خاص بندے قسط : ٣١
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
ہم جنسی کی لعنت :
اس وقت جنسی بے راہ روی اور انارکی کا یہ عالم ہے کہ ''ہم جنسی'' (یعنی مرد اور عورتوں کا خلاف ِ فطرت خواہش رانی کرنا)کو باقاعدہ قانونی شکل دینے کی مہم چلائی جارہی ہے حتی کہ چند ماہ قبل ہندوستان کی عالت ِ عالیہ نے اس منحوس عمل کو سند ِجواز عطا کرنے کا مکروہ فیصلہ کیا جس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ ہم جنسی ایسا غلیظ اور مکروہ عمل ہے کہ انسان تو انسان عام جانور بھی اس بدترین عمل کے قریب نہیں جاتے، مشہور محدث امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ
''جانوروں میں سے بھی سوائے گدھے اور خنزیر کے کوئی جانور قومِ لوط والا عمل نہیں کرتا'' ١
لیکن آج اپنے آپ کو مہذب اور انسانیت کی ٹھیکے دار قرار دینے والی یورپین قومیں اس عملِ بد کی نہ صرف تائید کر رہی ہیں بلکہ اس خلاف ِ فطرت تعلق کو قانونی شکل دینے پر تمام ممالک کو مختلف انداز سے مجبور کر رہی ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ بے غیرت اور بے ضمیر مغرب زدہ میڈیانے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس عمل کی برائی ظاہر کردے تو اس کے خلاف ہی مباحثے اور تبصرے شروع ہوجاتے ہیں
قومِ لوط کا بھیانک انجام :
اس بدترین جرم کا دنیا میں سب سے پہلے قومِ لوط نے ارتکاب کیا تھا یہ قوم اردن کے مشرقی جانب بحرمیت کے کنارے ''سدوم'' وغیرہ شہروں میں آباد تھی اس کی ہدایت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا جب حضرت لوط علیہ السلام
نے اس قوم کے حالات کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ یہ پوری کی پوری قوم شرک وکفر کے ساتھ ساتھ ہم جنسی
١ تفسیر در منثور ج٣ ص ١٨٧
کے گندے اور خلاف ِ فطرت عمل میں مبتلا ہے بلکہ اس غلیظ عمل کی موجد بھی ہے کہ اس سے پہلے دنیا کی کسی قوم میں اس برائی کا وجود نہ تھا، شیطان لعین نے سب سے پہلے ''سدوم'' کے لوگوں کو ہی یہ گندی راہ سجھائی تھی تو حضرت لوط علیہ الصلوة و السلام نے ان کو نصیحتیں فرمائیں قرآنِ کریم میں کئی جگہ ان کے ناصحانہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں سورۂ اعراف میں ہے
( وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہ اَتَأْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَاسَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ اِنَّکُمْ لَتَأْتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآئِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْم مُّسْرِفُوْنَ ) ١
''اور ہم نے لوط کو بھیجا ،جب کہا اس نے اپنی قوم سے کہ کیا تم اس بے حیائی کے کام کو کرتے ہو جس کو تم سے پہلے سارے عالم میں کسی نے نہیں کیا ؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں پر شہوت کے مارے دوڑتے ہو، یقینا تم لوگ حد سے آگے گزرنے والے ہو''
اور سورہ شعراء میں ارشاد ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا
( اَتَأْتُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَ وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْم عٰدُوْنَ ) ٢
''کیا تم دنیا کے مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو ؟ اور چھوڑتے ہوئے اپنی بیویوں کو جو تمہارے رب نے تمہارے واسطے ہی بنائی ہیں بلکہ تم لوگ حد سے گزرنے والے ہو''
اس کے علاوہ بھی مختلف انداز میں حضرت لوط علیہ السلام انہیں سمجھانے کی کوششیں کرتے رہے لیکن وہ لوگ ایسے خبیث الفطرت تھے کہ مان کر نہیں دیے بلکہ الٹے حضرت لوط علیہ السلام کا مذاق اڑتے رہے اور انہیں اپنے علاقہ سے نکال دینے کی دھمکیاں دینے لگے
( وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا اَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ اِنَّھُمْ اُ نَاس یَّتَطَھَّرُوْنَ ) ٣
''اور اس کی قوم نے یہی جواب دیا کہ ان کو اپنے شہر سے نکال دو یہ لوگ بہت پاکیزہ رہنا چاہتے ہیں ''
١ سورة الاعراف : ٨٠ ، ٨١ ٢ سورة الشعراء : ١٦٥ ، ١٦٦ ٣ سورة الاعراف : ٨٢
اور جب حضرت لوط علیہ السلام انہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتے تو وہ لوگ بڑی جسارت اور ڈھٹائی کے ساتھ یہی کہتے کہ وہ عذاب لاکر دکھاؤ جس سے تم ڈراتے ہو ! قرآن کریم میں ذکر ہے
( فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ) ١
'' پھر ان کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب نازل کرا دیجیے اگر آپ سچے ہیں ''
اس قوم کی پے درپے شرارتوں اور خباثتوں سے تنک آکر بالآخر حضرت لوط علیہ السلام کے مقدس ہاتھ فریاد کے لیے بارگاہ ِ خدا وندی میں اٹھ گئے اور ارشاد ہوا
( رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِ یْنَ ) ٢ ''اے میرے رب ان شریر لوگوں پر میری مدد فرمائیے ''
یہ فریاد بارگاہ ِ خداوندی میں قبول ہوئی اور اس منحوس وملعون قوم کو سبق سکھانے کا خدائی فیصلہ کرلیا گیا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے فرشتوں کی ایک جماعت ''سدوم'' کے لیے روانہ ہوئی جس نے بحکمِ خداوندی اپنی مہم پر جاتے ہوئے ملک شام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی ملاقات کی (اور انہیں بڑھاپے میں ''اسحق'' نام کے ایک صاحبزادے کی بشارت سنائی جس کا ذکر قرآن پاک میں کئی جگہ موجود ہے پھر یہ فرشتے خوب صورت اور بے ریش نوجوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے گھر مہمان بن کر پہنچے ! !
خوبرو نوجوانوں کی خبر ملتے ہی اس شہوت پرست قوم کی خباثت نے انگڑائی لی اور آبرو باختہ افراد کا ایک ہجوم حضرت لوط علیہ السلام کی رہائش گاہ پر چڑھ دوڑا یہ وقت حضرت لوط علیہ السلام کے لیے بڑی تنگی اور مشقت کا تھا ،مہمانوں کی بے عزتی کے تصور سے ان کی پریشانی ناقابل بیان تھی اور اس دیارِ غیر میں ان نازک حالات میں اپنی بے کسی کا بھی بڑا احساس تھا چنانچہ آپ نے ان اوباشوں
کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی حتی کہ (اپنے فعل ِبد سے باز آنے کا اور اپنی روش درست کرلینے کی شرط پر) اپنی صاحبزادیوں کا ان (میں سے ہم کفو افراد) سے رشتہ کردینے تک کی پیشکش فرمادی
١ سورة العنکبوت : ٢٩ ٢ سورة العنکبوت : ٣٠
مگر انہیں نہ باز آنا تھا نہ باز آئے اور پوری ڈھٹائی سے کہہ دیا کہ ہمیں آپ کی لڑکیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ، ظاہر ہے کہ یہ خباثت اور گستاخی کی آخری حد تھی، بالآخر ان خبیثوں کی مسلسل شرارت اور حضرت لوط علیہ السلام کی بے بسی دیکھ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بحکمِ خداوندی اپنے بازو کو ان ہوس پرستوں پر کھینچ کر مارا جس سے وہ سب کے سب اندھے ہوگئے، اسی کو قرآن کریم میں اس آیت میں بیان کیا گیا
( وَلَقَدْ رَاوَدُوْہُ عَنْ ضَیْفِہ فَطَمَسْنَآ اَعْیُنَھُمْ فَذُوْقُوْا عَذَابِیْ وَنُذُرِ ) ١
''اور اس سے اس کے مہمانوں کو لینے مطالبہ کرنے لگے پس ہم نے ان کی آنکھیں ملیامیٹ کردیں ، اب چکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا''
نیز فرشتوں نے حضرت لوط علیہ الصلوة والسلام کو تسلی دی کہ ہم کوئی انسان نہیں ہیں بلکہ آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور یہ خبیث آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور اب ان لوگوں پر بڑا عذاب آیا ہی چاہتا ہے لہٰذا آپ رات ہی میں صبح ہونے سے پہلے پہلے اپنے لوگوں کو لے کر اس علاقہ سے فوراً نکل جائیے اور جاتے وقت کوئی پیچھے مڑکر نہ دیکھے اور جو پیچھے مڑ کر دیکھے گا وہ ان ہی میں رہ جائے گا چنانچہ پیچھے رہ جانے والوں میں حضرت لوط علیہ الصلوة والسلام کی وہ کافرہ بیوی بھی تھی جس نے فرشتوں کی آمد کی اطلاع اوباشوں کو دی تھی پھر صبح ہوتے ہی اس قوم پر جو اندوہ ناک عذاب آیا ہے اس کی منظر کشی قرآن پاک میں اس طرح کی گئی ہے
( فَلَمَّا جَآئَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ) ٢
''پھرجب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے وہ بستی اوپر کی نیچے کر ڈالی اور ہم نے اس پر کنکر کے پتھر تہہ بہ تہہ برسادیے وہ سب پتھر تیرے رب کے پاس سے نشان زدہ تھے (ان پر عذاب کی خاص علامت تھی) اور اس طرح کا عذاب (ایسے) ظالموں سے کچھ دور نہیں ''
١ سورة القمر : ٣٧ ٢ سورة ھود : ٨٢ ، ٨٣
تفسیر ی روایات میں ہے کہ قومِ لوط کئی شہروں میں آباد تھی ہر شہرکی آبادی تقریباً ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی ان سب بستیوں کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوری زمین وغیرہ سمیت اوپر اٹھایا اور اسے آسمان تک لے گئے کہ آسمان والوں نے ان بستیوں کے جانوروں تک کی آوازیں اپنے کانوں سے سنیں ، پھر وہیں سے ان بستیوں کو الٹ کر زمین پر پٹخ دیا اور ساتھ میں نشان زدہ پتھروں کی بارش کرکے پوری قوم کو کچل دیا گیا حتی کہ اس قوم کے جو افراد دنیا میں ادھر ادھر گئے ہوئے تھے ان پر بھی پتھر کی بارش کر کے ان کا بھی کام تمام کردیا۔ (تلخیص تفسیر ابن کثیر مکمل ص ٦٧٠، ٦٧١)
قومِ لوط پر جو عذاب آیا اس میں عذاب کی تقریباً تمام شکلیں بیک وقت جمع کردی گئیں اس میں اوباشوں کی آنکھوں کا اندھا ہوجانا ،پھر زلزلہ کا آنا، زمین کا دھسنا اور الٹنا بھی ہے اور پتھروں کی بارش کے ساتھ ساتھ پانی میں ڈبونے کا بھی عذاب یہاں جمع ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل اللہ کے نزدیک کس قدر قابلِ لعنت اور لائق غضب و عذاب ہے ؟ ؟ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُ
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
٭٭٭
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
احادیث ِ مبارکہ میں شوال المکرم کے چھ نفلی روزوں کی بڑی فضیلت ذکر کی گئی ہے چنانچہ میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہ سِتًّا مِّنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ ١
'' جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہو گا ''
ف : علمائِ کرام فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ اگر اُنتیس ہی دن کا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تیس روزوں کا ثواب دیتے ہیں اور شوال کے چھ نفلی روزے شامل کرنے کے بعد روزوں کی تعداد چھتیس ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون ( اَلْحَسَنَةُ بِعَشْرِاَمْثَالِھَا) (ایک نیکی کا ثواب دس گنا) کے مطابق ٣٦ کا دس گنا ٣٦٠ ہو جاتا ہے اور پورے سال کے دن٣٦٠سے کم ہی ہوتے ہیں سو جس نے پورے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں چھ نفلی روزے رکھے وہ اس حساب سے ٦٠ ٣ روزوں کے ثواب کا مستحق ہو گا اور اجر و ثواب کے لحاظ سے یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی بندہ سال کے ٣٦٠ دن برابر روزے رکھے !
بہتر ہے کہ یہ روزے شوال کے شروع میں رکھ لیے جائیں کیونکہ رمضان میں روزے رکھنے سے روزوں کی عادت سی ہو جاتی ہے اس لیے بعد کے چھ روزے رکھنا مشکل نہیں ہوتا ! دوسرے ان روزوں کو مؤخر کرنے کی صورت میں بسا اوقات روزے رکھنے کا اتفاق نہیں ہوتا اور اس طرح یہ رہ جاتے ہیں !
١ صحیح مسلم کتاب الصوم رقم الحدیث ١١٦٤ ، مشکوة المصابیح کتاب الصوم رقم الحدیث ٢٠٤٧
بعض لوگ عید کے دوسرے دن ہی سے ان روزوں کے رکھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں یہ غلط ہے فقہائِ کرام کا کہنا ہے کہ شوال میں جب بھی یہ روزے رکھ لیے جائیں جائز ہے اور ان کا اجر وثواب ملتا ہے ! !
یاد رہے کہ جس کے رمضان کے کچھ روزے رہ گئے ہوں پہلے وہ ان کو رکھے بعد میں شوال کے روزے رکھے، اگر کوئی شوال کے روزوں میں قضا ء ِ رمضان کی نیت کرے گا تو اسے مذکورہ ثواب حاصل نہیں ہو گا ! کیونکہ جب کوئی شوال کے روزوں میں قضائِ رمضان کی نیت کرے گا تو وہ تو رمضان کے روزے پورے کرے گا، اگر مزید روزے رکھتا ہے تو رمضان اور شوال کے روزے مل کر مذکورہ ثواب کے حصول کا ذریعہ بنیں گے ورنہ نہیں مثلاً کسی کے رمضان کے چھ روزے قضا ہو گئے اب وہ شوال میں چھ روزے قضائِ رمضان کے رکھتا ہے تو اس طرح اس کے رمضان کے تیس روزے پورے ہوئے اب اگر چھ روزے مزید رکھے گا تو چھتیس بنیں گے اور تین سو ساٹھ روزوں کا ثواب ہو گا ورنہ نہیں ! !
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ
کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1
٭٭٭
حضراتِ صحابہ معیارِ حق ہیں !
( حضرت مولانا مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری ، انڈیا )
٭٭٭
السوال : کیافرماتے ہیں مفتیانِ عظام اس بارے میں کہ صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین
معیارِ حق ہیں یا نہیں ؟ مودودی جماعت ان کو معیارِ حق تسلیم نہیں کرتی ! سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام کے معیارِ حق ہونے کے کیا معنی ہیں ؟ صحابہ کرام اگر معیارِ حق ہیں تو اس کے کیا دلائل ہیں ؟ تفصیل سے بیان فرمائیں بینوا توجروا از بارہ مولا کشمیر،ہند
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب : حامدًا و مصلیًا ! صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین معیارِ حق ہیں اس کا معنی و مطلب یہ ہے کہ ان کے اقوال و افعال حق وباطل کی کسوٹی ہیں ان حضرات نے جو فرمایا یا جو دینی کام کیا وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ، حجت اور ذریعہ فلاح ہے اور ان کے معیارِ حق ہونے کے دلائل بے شمار ہیں قرآن میں ہے
( وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا ) ( سورة النساء : ١١٥ )
''اور جو شخص رسول کی مخالفت کرے گا بعد اس کے کہ امر حق ظاہر ہوچکا تھا اور مسلمانوں کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ ہولیا تو ہم اس کو جو کچھ وہ کرتا ہے کرنے دیں گے اور ا س کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے جانے کی ''
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں
معلوم شدکہ ہر کہ خلافِ راہ مومنان اختیار نمود مستحق دوزخ شدو مومنین دروقت نزول ایں آیت نبو دند مگر صحابہ (تحفۂ اثنا ء عشریہ ص٦٠٠)
''یعنی معلوم ہوا کہ جس نے مومنین کے خلاف راستہ اختیار کیا وہ مستحق ِدوزخ ہوا اور اس آیت کے نزول کے وقت مومنین صحابہ ہی تھے''
اس سے واضح ہوا کہ صحابہ کا طریقہ حق اور ہدایت کا طریقہ ہے اور وہ ہمارے لیے نمونہ ہے لہٰذا جو ان کے طریقہ کے خلاف چلے گا وہ گمراہ ہوجائے گا قرآن میں دوسری جگہ ہے
( ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰئِکَتُہ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ) ١
''وہ اور اس کے فرشتے تم پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں تاکہ حق تعالیٰ تم کو تاریکیوں سے نور کی طرف لے آوے''
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
مخاطب بایں آیت صحابہ اندو ہر کہ تابع ایشاں شد نیز از ظلمات برآمد الخ ٢
''یعنی اس آیت کے مخاطبین صحابہ ہیں (کہ اللہ نے ان کو ظلمات سے نکالا) اور جوان کے تابع ہو ا وہ بھی اندھیریوں سے نکلا کیونکر ظاہر ہے کہ جو اندھیری رات میں مشعل لے کر نکلے تو جو اس کے ہمراہ ہوتا ہے وہ بھی تاریکی سے خلاصی پالیتا ہے ''
معلوم ہوا کہ جو صحابہ کرام کے طریقہ پر چلے گا راہ یاب ہوگا او رجو سر مو ان کے طریقہ سے ہٹے گا گمراہ ہوجائے گا ! ایک جگہ صحابہ کے بارے میں قرآن میں فرمایا ( وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ٣ اور یہی لوگ کامیاب ہیں
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب فرماتے ہیں
وَلَا شَکَّ اَنَّ تَابِعَ الْمُفْلِحِ مُفْلِح ظاہر ہے کہ کامیاب کا تابع بھی کامیاب ہی ہے ٤
اور ایک جگہ فرمایا ( وَاُولٰئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ ) ''یہی لوگ راہِ راست پر ہیں '' ٥
حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں وَتَابِعُ الرَّاشِدِ رَاشِد ''بھلے کا تابع بھی بھلا ہی ہے '' ٦
١ سورة الاحزاب : ٤٣ ٢ تحفہ اثنا عشریہ ص٦٠١ ٣ سورة التوبة : ٨٨ ٤ تحفہ اثنا عشریہ ص ٦٠١
٥ سورة الحجرات : ٧ ٦ تحفہ اثنا عشریہ ص ٦٠١
ان مقدس ترین حضرات کے بارے میں قرآن میں کئی جگہ ( رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ ) ''اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے'' آیا ہے
علامہ ابن عبدالبر مقدمہ استیعاب میں فرماتے ہیں وَمَنْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ لَمْ یَسْخَطْ عَلَیْہِ اَبَدًا اِنْ شَائَ اللّٰہُ ١
''اللہ جس سے راضی ہوگیا پھر اس سے کبھی ناراض نہ ہوگا ان شاء اللّٰہ ''
چونکہ اللہ تعالیٰ کو اگلی پچھلی سب چیزوں کا علم ہے وہ راضی اس شخص سے ہوتے ہیں جو آئندہ زمانہ میں بھی رضائے الٰہی کے خلاف کام کرنے والا نہیں ہے اس لیے کسی کے واسطے رضائے الٰہی کا اعلان اس کی ضمانت ہے کہ اس کا خاتمہ اورا نجام بھی حالت ِصالحہ پر ہوگا اس سے رضائے الٰہی کے خلاف کوئی کام آئندہ بھی نہ ہوگا پھر ایسے مقدس حضراتِ صحابہ ہمارے لیے کیونکر معیارِ حق نہ ہوں گے ! !
قرآن میں ایک اور جگہ ہے
( یَوْمَ لاَ یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ نُوْرُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ ) ٢
''وہ دن کہ رسوا نہیں کرے گا اللہ نبی کو اور ان کے ساتھی مومنین کو ،ان کا نور دوڑتا پھرے گا ان کے سامنے اور ان کے دائیں جانب ''
دلالت می کندکہ ایشان را در آخرت ہیچ عذاب نخواہد شد و بعداز فوتِ پیغمبر نورِ ایشاں ضبط و زائل نہ خواہد شد واِلا نورِ ضبط شدہ وزوالِ پذیر فتہ روزِ قیامت چہ قسم بکار ِایشاں می آید ٣
'' یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آخرت میں ان کو کوئی عذاب نہیں ہوگا اور یہ کہ پیغمبر کی وفات کے بعد بھی ان کا نور زائل نہ ہوگا ورنہ زائل شدہ اور مٹا ہوا نور قیامت کے روز ان کے کیا کام آتا''
حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کو معیارِ حق بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں
١ مقامِ صحابہ ص ٤٤ ٢ سورة التحریم : ٨ ٣ تحفہ اثنا عشریہ ص ٥٣٠
'' میری امت پر وہ سب کچھ آئے گا جو بنی اسرائیل پر آچکا ہے، بنی اسرائیل کے بہتر فرقے ہوگئے تھے میری امت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے وہ سب دوزخی ہوں گے مگر صرف ایک ملت( فرقہ) ناجی ہوگی ! صحابہ کرام نے عرض کیا وہ ملت کون سی ہے ؟ ارشاد ہو ا مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ یہ وہ ملت ہے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں '' ١
اس حدیث پاک میں حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ فرمایا،صرف مَا اَنَا عَلَیْہِ نہیں فرمایا کیایہ صحابہ رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کو معیارِ حق قرار دینا نہیں ہے ؟ نیز ارشاد فرمایا
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَ عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذْ ٢
''اپنے اوپر میرے طریقہ کو اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقہ کو لازم کر لو اور دانتوں سے مضبوط پکڑ لو ''
اس حدیث میں خلفاء راشدین کے طریقہ کو ''سُنَّةْ '' کہنا اس کی دلیل ہے کہ جس طرح حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی سنت حجت ہے اسی طرح خلفائے راشدین کی سنت بھی حجت ہے !
علامہ تورپشتی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں
واما ذکر سنتھم فی مقابلة سنتہ لانہ علم انھم لا یخطؤن فیما یستخرجونہ و یستنبطونہ من سنتہ بالاجتھاد ولانہ عرف ان بعض سنة لا تشتھر الا فی زمانھم فاضاف الیھم لبیان ان من ذھب الی رد تلک السنة مخطیٔ فاطلق القول باتباع سنتھم سدا للباب ٣
یعنی حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے طریقہ کو سنت فرمایا اور ساتھ ساتھ خلفائے راشدین کے طریقہ کو بھی سنت سے تعبیر فرمایا یہ اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم جانتے تھے کہ
میرے خلفاء میری سنت کو سامنے رکھ کر جو کچھ استنباط کریں گے اس میں خطا نہیں
١ مشکوة المصابیح کتاب الایمان رقم الحدیث ١٧١ ٢ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ١٦٥
٣ الفتوحات الوھبیة ص ١٩٨
کریں گے یا پھر اس لیے ان کے طریقہ کو سنت فرمایا کہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی بعض سنتیں خلفائے راشدین کے زمانہ میں مشہور ہونے والی ہیں ، پہلے ہی سے حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے تنبیہ فرما دی اور سد ِباب کر دیا کہ کوئی اس پر اعتراض نہ کر سکے اور نہ رد کر سکے ''
اس سے واضح طو رپر ثابت ہوگیا کہ خلفائے راشدین رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کا طریقہ یقینا ہمارے لیے حجت او رمعیار ہے اس کے بالمقابل مودودی صاحب نے جو لکھا ہے وہ ملاحظہ کیجئے
''حتی کہ خلفائے راشدین کے فیصلے بھی اسلام میں قانون نہیں قرار پائے
جو انہوں نے قاضی کی حیثیت سے کیے تھے'' ١
خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کے متعلق ان کے یہ خیالات ہیں کہ ان کے فیصلے اسلامی قانون اور معیارِ حق نہیں قرا ر پائے اور اپنی جماعت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے جو گروہ قرآن کی نصوصِ قطعیہ سے مرتب کیے ہوئے اس دستورِ جماعت اسلامی کے اندر ہیں انہیں ہم امت ِمسلمہ کے اندر شمار کرتے ہیں اور جن لوگوں نے ان حدود کو پھاند لیا ہے انہیں دائر ہ امت کے باہر سمجھنے پر مجبور ہیں ٢
کیا یہ اپنی جماعت کو معیارِ حق بنانے کا ادعا نہیں ہے ؟ صحابہ تو معیارِ حق نہ بن سکیں لیکن یہ اور ان کی جماعت معیار ِحق ہے معاذ اللّٰہ ثم معاذ اللّٰہ !
نیز حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم صحابہ کرام کو معیار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں اِقْتَدَوْا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِیْ مِنْ اَصْحَابِیْ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ یعنی میرے بعد ابو بکرو عمر( رضی اللّٰہ عنہما) کی اقتدا کرنا ٣
حضور صلی اللہ عليہ وسلم تو اقتدا کرنے کی وصیت فرمائیں اور یہ جماعت اسے ذہنی غلامی بتاتی ہے نیز ارشاد فرمایا
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم یَقُوْلُ سَأَلْتُ رَبِّیْ عَنِ اخْتِلَافِ اَصْحَابِیْ مِنْ بَعْدِیْ فَاَوْحٰی اِلَیَّ یَا مُحَمَّدُ ! اِنَّ اَصْحَابَکَ عِنْدِیْ بِمَنْزِلَةِ النُّجُوْمِ فِی السَّمَآئِ بَعْضُھَا اَقْوٰی مِنْ بَعْضٍ وَلِکُلِّ نُوْر فَمَنْ اَخَذَ بِشَیئٍ مِمَّا ھُمْ عَلَیْہِ مِنِ اخْتِلَافِھِمْ فَھُوَ عِنْدِیْ عَلٰی ھُدًی
١ ترجمان القرآن جنوری ١٩٥٨ء بحوالہ مودودی مذہب ص ٦٦ ٢ ترجمان القرآن ج ٢٦ص ٢٧٧
٣ مشکوة المصابیح کتاب المناقب رقم الحدیث ٦٢٣٠
حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے اپنے بعد اپنے اصحاب کے اختلاف کی بابت حق تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری جانب وحی فرمائی یعنی میرے نزدیک آپ کے اصحاب کا رتبہ آسمان کے ستاروں کی طرح ہے کہ بعض ستارے بعض سے قوی ہیں لیکن ہر ستارہ کے لیے نور ہے، پس جو کوئی صحابہ کے اختلاف ِرائے سے کسی ایک جانب کو اختیار کرے گا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہوگا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اَصْحَابِیْ کَالنَّجُوْمِ فَبِاَیِّھُمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ١
''یعنی میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جن کی اقتدا کرو گے ہدایت کی راہ پائو گے''
اس حدیث میں اللہ جل شانہ کی وحی کے الفاظ فَھُوَ عِنْدِیْ عَلٰی ھُدًی اور حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کے یہ الفاظ اَصْحَابِیْ کَالنَّجُوْمِ فَبِاَیِّھُمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُم کیا صحابہ کے معیارِ حق ہونے کی واضح اور بین دلیل نہیں ہے ؟ نیز حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ اِلٰی قُلُوْبِ الْعِبَادِ الخ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو قلب ِ محمد صلی اللہ عليہ وسلم کو ان سب قلوب میں بہتر پایا اس کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کر دیا پھر دوسرے قلوب پر نظر ڈالی تو اصحابِ محمد رضی اللّٰہ عنہم کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا ان کو اپنے نبی کی صحبت کے لیے منتخب کر لیا، پس ان کو اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کا وزیر بنا لیا، پس جس کام کو یہ مسلمان (صحابہ)اچھا سمجھیں وہ عند اللہ بھی اچھا ہے اور جس کو یہ برا سمجھیں وہ عنداللہ بھی برا ہے ٢ نیز ارشاد فرمایا
مَا مِنْ اَحَدٍ مِنْ اَصْحَابِیْ یَمُوْتُ بِاَرْضٍ اِلَّا بُعِثَ قَائِدًا وَ نُوْرًا لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ٣
١ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٦٠١٧ ٢ مؤطا امام محمد ص ١١٢ ، البدایة والنہایة ج ١٠ص ٢٢٨
٣ مشکوة المصابیح کتاب المناقب باب مناقب الصحابة رقم الحدیث ٦٠١٥
''میرے صحابہ میں سے کوئی صحابی جس سر زمین پر وفات پائے گا قیامت کے روز وہ اس سر زمین والوں کے لیے قائد اور نور بن کر اٹھے گا''
نیز ارشاد فرمایا
اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلْبِہ ١
''اللہ تعالیٰ نے (حضرت) عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری کیا ہے ''
معلوم ہوا کہ حضرت عمر کی زبانِ مبارک سے حق کے خلاف کوئی بات نہیں نکل سکتی، پھر ان کی بات کیونکر معیار نہ ہوگی ؟ نیز دوسری روایت میں ارشاد ہے
لَقَدْ کَانَ فِیْمَا قَبْلَکُمْ مِّنَ الاُمَمِ مُحَدَّثُوْنَ فَاِنْ یَّکُ فِیْ اُمَّتِیْ اَحَد فَاِنَّہُ عُمَرُ ٢
''تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں ان میں محدث(جن کو حق باتیں الہام کی جاتی ہیں ) گزرے ہیں میری امت میں اگر کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہیں ''
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے
روی ابو نعیم من حدیث عروبة الکندی ان رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم قال ستحدث بعدی اشیاء فاحبھا الی ان تلزموا ما احدث عمر ٣
''رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشا د فرمایا میرے بعد بہت سی باتیں ایجاد ہوں گی، مجھے ان میں سب سے زیادہ محبوب وہ چیز ہوگی جس کو عمر نے ایجا دکیا تم سب اس کو لازم کرلینا ''
شارح بخاری شیخ الاسلام علامہ بدر الدین عینی بنایة شرح ہدایة میں فرماتے ہیں
سیرة العمرین لا شک فی فعلھا ثواب وفی ترکھا عقاب لانا امرنا بالاقتداء بھما لقولہ علیہ الصلٰوة والسلام اقتدوا بالذین من بعدی (ابی بکر و عمر) فاذا کان الاقتداء بھما مامورا بہ یکون واجبا و تارک الواجب یستحق العقاب والعتاب ٤
١ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٦٠٤١ ٢ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٦٠٣٤
٣ طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ٢٣٩ ٤ بحوالہ فتاوی قیام الملة والدین ص ٣٧٨
''حضرت عمر کی سیرت پر عمل کرنے میں بلا شبہ ثواب ہے اور اس کے ترک کرنے میں عقاب ہے اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کے اس قول مبارک اِقْتَدَوْا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِیْ اَبِیْ بَکْرٍ وَ عُمَرَ میں ہمیں آپ کی اقتدا کا حکم دیا گیا ہے تو جب ان دونوں حضرات کی اقتدا مامور بہ ہے تو ان کی اقتدا کرنا یقینا واجب ہوئی اور واجب کا ترک کرنے والا عقاب وعتاب کا مستحق ہوتا ہے ''
یہ علمائے ربانیین تو ان کی اقتدا کو واجب اور ان کے قول و عمل کو معیار قرار دیں اور مودودی جماعت اسے ذہنی غلامی اور اس سے بڑھ کر بت پرستی قرار دیتی ہے ع بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تابکجا
نیز حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا رَضِیْتُ لِاُمَّتِیْ مَا رَضِیَ لَھَا ابْنُ اُ مِّ عَبْدٍ یعنی میں اپنی امت کے لیے رضا مند اور خوش ہوں اس چیز سے جس چیز سے ابنِ اُم عبد(حضرت عبداللہ بن مسعود)راضی ہوں ١ نیز ارشاد فرمایا : تَمَسَّکُوْا بِعَھْدِ ابْنِ اُمِ عَبْدٍ ٢ یعنی ابنِ مسعود کی وصیت کو لازم اور مضبوط پکڑو
نیز ارشاد فرمایا : لَوْ کُنْتُ مُؤَمِّرًا مِّنْ غَیْرِ مَشْوَرَةٍ لأَمَّرْتُ عَلَیْھِمُ ابْنَ اُمِّ عَبْدٍ ٣
یعنی' ' اگر میں کسی کو بغیر مشورہ کے امیر بناتا تو ابنِ اُم عَبد(حضرت عبداللہ بن مسعود) کو بناتا''
کتنا اعتماد ہے حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کو اپنے صحابہ پر کہ علی الا طلاق فرمایا کہ ابنِ مسعود امت کے لیے جو پسند کریں میں بھی اسے پسند کرتا ہوں ! اور ابنِ مسعود تم کو جو وصیت کریں اسے مضبوطی سے پکڑے رکھو ! !
٭ ابن ِمسعود نے امت کو صحابہ کے متعلق کیا وصیت فرمائی ہے دل کی گہرائیوں سے ملاحظہ فرمایئے فرماتے ہیں
مَنْ کَانَ مُسْتِنًّا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ، فَِنَّ الْحَیَّ لاَ تُؤْمَنُ عَلَیْہِ الْفِتْنَةَ، أُولٰئِکَ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانُوْا اَفْضَلَ ہٰذِہِ الاُمَّةِ، اَبَرَّہَا قُلُوْبًا وَ اَعْمَقَہَا عِلْمًا وَ اَقَلَّہَا تَکَلُّفًا ، اِخْتَارَہُمُ اللّٰہُ لِصُحْبَةِ نَبِیِّہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلِاِقَامَةِ دِیْنِہ فَاعْرِفُوْا لَہُمْ فَضْلَہُمْ وَاتَّبِعُوْہُمْ عَلٰی اَثْرِہِمْ وَتَمَسَّکُوْا
بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ اَخْلاَقِہِم وَسِیَرِہِمْ فَِنَّہُمْ کَانُوْا عَلٰی الْہُدَی الْمُسْتَقِیْمِ ٤
١ مظاہرِ حق ج ٤ ص٦٨٩ ، ٦٩٠ ٢ مشکوة المصابیح کتاب المناقب رقم الحدیث ٦٢٣٠
٣ مشکوة المصابیح کتاب المناقب رقم الحدیث ٦٢٣١ ٤ مشکوة کتاب الایمان رقم الحدیث ١٩٣
''جو شخص کسی کی اقتدا کرنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ اصحابِ رسول اللہ کی اقتدا کرے کیونکہ یہ حضرات ساری امت میں سب سے زیادہ اپنے قلوب کے اعتبار سے پاک اور علم کے اعتبار سے گہرے اور تکلف کرنے میں بہت کرم ہیں یہ وہ قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا ہے تو تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے آثار کا اتباع کر و کیونکہ یہی لوگ ہیں مستقیم پر ''
غور سے ملاحظہ کیجیے حضرت ابن مسعود کس درجہ صحابہ کرام کی جماعت کو قابلِ اتباع فرمارہے ہیں لیکن مودودی صاحب اور ان کے ہم خیال اسے ذہنی غلامی اور بت پرستی کہتے ہیں
٭ حضرت عبداللّٰہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں
مَا رَأَ یْتُ قَوْمًا کَانُوْا خَیْرًا مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم ١
''میں نے کوئی قوم نہیں دیکھی جو اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے بہتر ہو''
٭ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللّٰہ علیہ جو جلیل القدر تابعی ہیں انہوں نے اپنے ایک مکتوب میں صحابہ کے مقام کی وضاحت فرمائی ہے یہ طویل مکتوب حدیث کی مشہور کتاب ابو دائود میں سند کے ساتھ لکھاگیا ہے اس کے ضروری جملے یہ ہیں
فَارْضَ لِنَفْسِکَ مَا رَضِیَ بِہِ الْقَوْمُ لِاَنْفُسِھِمْ ، فَاِنَّھُمْ عَلَی عِلْمٍ وَقَفُوْا، وَ بِبَصَرٍ نَافِذٍ کَفُّوْا وَھُمْ عَلَی کَشْفِ الْاُمُوْرِ کَانُوْا اَقْوٰی ، وَ بِفَضْلِ مَا کَانُوْا فِیْہِ اَوْلٰی ، فَاِنْ کَانَ الْھُدَی مَا اَنْتُمْ عَلَیْہِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوْہُمْ اِلَیْہِ الخ ٢
'' پس تمہیں چاہیے کہ اپنے لیے وہی طریقہ اختیار کرلو جس کو قوم نے (یعنی صحابہ کرام نے) اپنے لیے پسند کر لیا تھا ا س لیے کہ وہ جس حد پر ٹھہرے علم کے ساتھ ٹھہرے اور انہوں نے جس چیز سے لوگوں کو روکا ایک دوربین نظر کی بنا پر روکا اور بلا شبہ
١ انصاف مع کشاف ص٥ ٢ سنن ابوداود کتاب السنة رقم الحدیث ٤٦١٢
وہی حضرات دقیق حکمتوں اور علمی باریکیوں کے کھولنے پر قادر تھے اور جس کام میں وہ تھے اس میں سب سے زیادہ فضیلت کے مستحق وہی تھے پس اگر ہدایت اس طریق میں مان لی جائے جس پر تم ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم فضائل میں ان سے سبقت لے گئے (جو بالکل ہی محال ہے )''
غور کیجیے ! حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللّٰہ سر مو ان کے طریقہ سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں ان کو اپنا مقتدا اور حق و باطل کا معیار سمجھ رہے ہیں مگر مودودی جماعت اس کی منکر ہے
آپ مزید ارشاد فرماتے ہیں
سن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وولاہ الا مر من بعدہ سننا الاخذ بھا تصدیق لکتاب اللّٰہ واستکمال لطاعة اللّٰہ وقوة علی دین اللّٰہ من عمل بھا مھتدی ومن استنصر بھا منصور ومن خالفھا اتبع غیر سبیل المومنین وولاہ ما تولی وصلا جھنم وساء ت مصیر١ ١
'' رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے کچھ طریقے مقرر فرمائے ہیں اور آپ کے بعد حضور صلی اللہ عليہ وسلم کے جانشین اولوالا مر حضرات نے بھی کچھ طریقے مقرر فرمائے ہیں کہ ان کا اختیار کرنا کتاب اللہ کی تصدیق ہے اور اللہ کی اطاعت کو مکمل کرنا ہے اور خدا کے دین کی مدد کرنا ہے جو اس پر عمل کرے گا راہ یاب ہوگا اور جو اس سے قوت حاصل کرے گا مدد کیا جائے گا اور جو ان کی مخالفت کرے گا اور ان کے طریقوں کے خلاف کرے گا اور اہلِ ایمان کے راستہ کے خلاف چلے گا اللہ تعالیٰ اس کو اسی طرف موڑ دے گا جس طرف اس نے رخ کیا ہے پھر اس کو جہنم میں داخل کرے گا اور جہنم بہت بری جگہ ہے''
١ جامع بیان العلم وفضلہ رقم الحدیث ١٣٠١
٭ حضرت امام حسن بصری تابعی رحمة اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں
''یہ جماعت (صحابہ کرام)پوری امت میں سب سے زیادہ نیک دل، سب سے زیادہ گہرے علم کی مالک اور سب سے زیادہ بے تکلف جماعت تھی ، خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی رفاقت کے لیے اسے پسند کیا وہ آپ کے اخلاق اور آپ کے طریقوں سے مشابہت پیدا کرنے کی سعی میں لگی رہا کرتی تھی، اس کو دُھن تھی تو اسی کی ، تلاش تھی تو اسی کی ، اس کعبہ کے پروردگار کی قسم وہ جماعت صراط مستقیم پر گامزن تھی '' ١
جو جماعت ان قدسی صفات کی حامل ہو وہ ہمارے لیے معیار نہ ہوگی تو اور کون سی جماعت ہوگی ؟ حضرت امام محمد بن سیرین رحمة اللّٰہ علیہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا
حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنہم) اس کو مکروہ سمجھتے تھے، اگر یہ علم تھا تو وہ مجھ سے زیادہ (قرآن و حدیث کے) عالم تھے اور اگر یہ ان کی ذاتی رائے تھی تو ان کی رائے میری رائے سے افضل ہے ٢
٭ حضرت امام اوزاعی رحمة اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں
یا بقیة العلم ما جاء عن اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما لم یجئی عن اصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلیس بعلم
''اے بقیہ ! بس علم تو وہی ہے جو آپ کے صحابہ سے منقول ہو اور جو اِن سے منقول نہیں وہ علم ہی نہیں '' ٣
٭ حضرت عامر شعبی رحمة اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
ما حدثوک عن اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فخذ بہ وما قالوا فیہ برایھم فبل علیہ ٤
١ الموافقات ج٤ ص٧٨ بحوالہ ترجمان السنة ج ١ ص٤٦ ٢ جامع بیان العلم ج ٢ص ٣١
٣ جامع بیان ا لعلم ج ٢ ص ٢٩ ٤ جامع بیان العلم ج ٢ ص٣٢
''جو باتیں تمہارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے صحابہ سے نقل کی جائیں انہیں اختیار کرلو اور جو اپنی سمجھ سے کہیں اسے نفرت کے ساتھ چھوڑ دو''
٭ علامہ ابن تیمیہ رحمة اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں
اس وقت سے لے کر قیامت تک مسلمانوں کے پاس جو خیر ہے مثلاً ایمان و اسلام، قرآن و علوم و معارف ، عبادات ودخول جنت ، جہنم سے نجات ، کفار پر غلبہ، اللہ کے نام کی بلندی ، وہ سب صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کی کوششوں کی برکت ہے جنہوں نے دین کی تبلیغ کی اور اللہ کے راستہ میں جہاد کیا ، جو مومن بھی اللہ پر ایمان لایا اس پر صحابہ کرام کا احسان قیامت تک رہے گا ۔ اور شیعہ وغیرہ (مودودی جماعت ) کو بھی جو خیر حاصل ہے وہ صحابہ کرام کی برکت سے ہے اور صحابہ کرام کی خیر خلفائے راشدین کی خیر کے تابع ہے اس لیے کہ وہ دین و دنیا کی ہر خیر کے ذمہ دار و سرچشمہ تھے'' ١ اور فرماتے ہیں
''صحابہ کرام کا اجماع قطعی حجت ہے اور ا س کا اتباع فرض ہے بلکہ وہ سب سے بڑی حجت اور دوسرے تمام دلائل پر مقدم ہے '' ٢
٭ امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ اللّٰہ تحریر فرماتے ہیں
پیغمبر صادق علیہ من الصلٰوت افضلہ ومن التسلیمات اکملہ تمیز فرقہ ناجیہ ازاں فرَقِ متعددہ فرمودہ است آن است الذین ھم علی ما انا علیہ و ا صحابی یعنی آن فرقہ آنان اندکہ ایشاں بطریق اندکہ من برآن طریقم واصحاب من برآں طریق اند ذکر اصحاب باوجود کفایت بذکر صاحب شریعت علیہ الصلٰوة والتحیة وایں موطن برائے آں تو اند بود کہ تابد انند کہ طریق من ہماں طریق اصحاب است وطریق نجات منوط باتباع طریق ایشاں است الخ (مکتوبات امام ربانی ج١ ص ١٠٢ ، ١٠٣)
١ منہاج السنہ ج ٣ص٢٤٥ بحوالہ تار یخ دعوت وعزیمت حصہ دوم ص٣٠٦ و ٣٠٧
٢ اقامة الدلیل ج٣ ص١٣٠ بحوالہ انوار البار ی ج١٠ ص ٤٨
''آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے نجات پانے والی جماعت کی پہچان میں فرمایا کہ جو اس طریقہ پر ہو جس طریقہ پر میں ہوں اور میرے صحابہ ! ظاہراً اتنا فرما دینا کافی تھا کہ جس طریقہ پر میں ہوں ،صحابہ کا ذکر اپنے ساتھ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ سب جان لیں کہ میرا جو طریقہ ہے وہی میرے اصحاب کا طریقہ ہے او رنجات کی راہ صحابہ کی پیروی میں منحصر ہے الخ''
٭ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں
معرفت حق و باطل فہم صحابہ و تابعین است آنچہ ایں جماعت ازتعلیم آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم بانضمام قرائن حالی ومقالی فہیمدہ انددراں تخطیہ ظاہر نہ کردہ واجب القبول است ١
''حق و باطل کا معیار صحابہ اور تابعین کی سمجھ ہے جس چیز کو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی تعلیم سے قرائن حالی ومقالی کو سامنے رکھ کر سمجھا ہے اس کا تسلیم کرنا واجب ہے''
نیز آپ اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''تحفہ اثنا عشریہ'' میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقام اور ان کے مر تبہ پر بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
بالیقین ایں جماعت ہم در حکم انبیاء خواہند بود ٢
''یقینا صحابہ کرام کی جماعت بھی انبیا علیہم السلام کے حکم میں ہوگی ''
پس جس طرح کسی نبی پرتنقید نہیں کی جاسکتی اور ان کی بات واجب التسلیم ہوتی ہے بوجہ دلائلِ قطعیہ یقینیہ کے ،اسی طرح صحابہ کرام پر بھی تنقید کرنے کی نیت کرنا بد دینی اور کھلی ہوئی گمراہی ہے اور ان کا قول و فعل ہمارے لیے معیارِ حق ہے ! !
٭ شیخ الا سلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
''صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کو تمام اہلِ سنت و الجماعت غیر معصوم مانتے ہیں مگر یہ قابلِ تسلیم نہیں ہے کہ معیارِ حق صرف معصوم ہی ہوسکتا ہے جس سے اللہ نے
١ فتاویٰ عزیزی ج١ ص ١٥٧ ٢ تحفہ اثنا عشریہ ص٥٢٩ فارسی
اپنی رضا کا اظہار کر دیا اس کے جنتی اور مخلد فی الجنة ہونے کا اعلان کر دیا وہ کیوں معیارِ حق نہ ہوگا'' ١
نیز حضرت مدنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
''صحابہ کرام میں جو بھی کمالات اور بھلائیاں ہیں خواہ از قسم علم ہوں یا از قسم عمل وہ سب جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ہی کے طفیل اور آپ کے اتباع ہی سے ہے بالذات کچھ نہیں ہیں مگر جب قرآن اور احادیثِ صحیحہ نے ان میں موجبات و معیاریت حقانیت کی خبر دے دی تو آج ہم کو ان کی معیاریت میں کلام اور تا مل کرنا یقینا قطعیات کا انکار ہوگا جو انکار کتاب اللہ ہے'' ٢
نیز فرماتے ہیں
'' صحابہ کرام کا اتباع جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ہی کاا تباع ہے جس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ہم پر واجب کیا ہے ! ان کا اتباع بحیثیت ِرسالت نہیں ہے بلکہ بحیثیت ِ نقل وفہم ارشاداتِ نبویہ کیا جاتا ہے اور اسی طرح بعد والے ائمہ کا اتباع بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ہی کا اتباع ہے جو کہ بحیثیت ِنقل و فہم ہی کیا جاتا ہے مطاعِ مطلق تو صر ف اللہ تعالیٰ ہے'' ٣
اور بھی بے شمار دلائل ہیں جن سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین امت کے لیے حق و باطل ، خیر و شر ، سنت و بدعت ،ثواب و عقاب وغیرہ امو رکے پرکھنے کی کسوٹی اور معیارِ حق ہیں ، جو کام انہوں نے کیا وہ حق اور سنت اور باعث ِنجات ہے اور ان کا ہر قول وفعل ہمارے لیے ذریعہ فلاح اور وہی ہمارے لیے ترقی و سعادت کی راہ ہے ! !
١ فرموداتِ حضرت مدنی ص ١٤٥ مرتبہ (مولانا)ابو الحسن بارہ بنکوی
٢ فرموداتِ حضرت مدنی ص ١٤٦ ٣ فرموداتِ حضرت مدنی ص ١٤٦
مگر مودودی جماعت اسے نہیں مانتی بلکہ اسے ذہنی غلامی اور بت پرستی قرار دیتی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ مودودی صاحب رسولِ خدا کے سوا کسی کو معیارِ حق ماننے کے لیے تیار نہیں مگر خود اپنی ذات کو اور اپنی جماعت کو معیارِ حق تسلیم کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ، صحابہ کرام کو معیارِ حق اور تنقید سے بالاتر نہ مان کر ان کی ذات پر بے جا اور بے دھڑک تنقید کرتے ہیں چنانچہ ایک جگہ لکھا ہے
''ان سب سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ بسا اوقات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بھی بشری کمزوریوں کا غلبہ ہوجاتاہے الخ'' ١
ان کے ایک رفیق نے ایک جگہ لکھا ہے
''مگر پھر بھی اسلام کی ابتدائی لڑائیوں میں صحابہ کرام جہاد فی سبیل اللہ کی اصلی اسپرٹ سمجھنے میں بار بار غلطیاں کرتے تھے '' ٢
جنگ اُحد میں شکست کے اسباب شمار کراتے ہوئے لکھا ہے
'' جس سوسائٹی میں سود خوری ہوتی ہے اس کے اندر سود خوری کی وجہ سے دوقسم کے اخلاقی مرض پیدا ہوتے ہیں ،سود لینے والے میں حرص و طمع ، بخل و خود غرضی
اور دوسرا سود دینے والے میں نفرت ، غصہ اور بغض و حسد پیدا ہوجاتے ہیں ، میدانِ اُحد کی جنگ میں ان دونوں بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل تھا '' ٣
اور اپنے بارے میں لکھا ہے
''اللہ کے فضل سے مجھے کسی مدافعت کی حاجت نہیں اور میرے رب کی مجھ پر خاص عنایت ہے کہ اس نے میرے دامن کو داغوں سے محفوظ رکھا ہے ''
اور اپنی جماعت کے متعلق لکھا ہے
١ تفہیمات ص٢٩٤ طبع چہارم ٢ ترجمان القرآن ١٩٥٧ء ص ٢٩٢ بحوالہ مودودی مذہب
٣ تفہیم القرآن ج ١ ص ٢٨٨ سورہ آلِ عمران
'' سیدھی بات یہ ہے کہ جب ہم یقین سے یہ کہتے ہیں کہ حق صرف یہ ہے (یعنی جماعت اسلامی)تو اس سے از خود یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ اس نظریہ کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے'' ١
گویا اپنی ذات اور اپنی جماعت کو تو معیارِ حق سمجھتے ہیں مگر صحابہ کرام کے معیارِ حق ہونے کو ذہنی غلامی قرار دیتے ہیں !
ان کی اس باطنی خباثت کی حکیم الا سلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ نے بھی نشاندہی فرمائی ہے آپ فرماتے ہیں
اندریں صور ت مودودی صاحب کا دستور جماعت کی بنیادی دفعہ میں عموم واطلاق کے ساتھ یہ دعوی کرنا کہ رسولِ خدا کے سوا کوئی معیارِ حق اور تنقید سے بالا تر نہیں ہے جس میں صحابہ سب سے پہلے شامل ہوتے ہیں پھر ان پر جرح و تنقید کا عملی تجربہ بھی کرڈالنا حدیث ِرسول کا محض معارضہ ہی نہیں بلکہ ایک حد تک خوود اپنے معیارِ حق ہونے کا ادعا ہے جس پر صحابہ تک کو پرکھنے کی کوشش کر لی گئی گویا جس اصول کو شدو مدسے تحریک کی بنیاد قرار دیا گیا تھا اپنے ہی بارے میں اسے سب سے پہلے توڑ دیا گیا اور سلف و خلف کے لیے رسول کے سوا خود معیارِحق بن بیٹھنے کی کوشش کی جانے لگی '' ٢
فقط
واللّٰہ اعلم بالصواب وہو الھادی الی الصراط المستقیم
١٧ شعبان المعظم ١٣٩٩ھ/ ١٣ جولائی ١٩٧٩ئ
١ ترجمان القرآن ج٢٦ ص٧٧ ٢ مودودی دستور وعقائد کی حقیقت ،مقدمہ ص١٨
یونیورسٹیوں اور مدارسِ دینیہ کے ذرائع آمدن
( جناب ڈاکٹر مبشر حسین صاحب رحمانی )
٭٭٭
دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ برطانیہ ، یونیورسٹی آف کیمرج برطانیہ ، میسا چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکہ، ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ ، اسٹین فورڈ یونیورسٹی امریکہ، ای ٹی ایچ زیورخ سوئٹزر لینڈ وغیرہ شامل ہیں ، دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کی اکثریت مغربی ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔ ٹائمزہائیر ایجوکیشن کی یونیورسٹیوں کی ٢٠٢٤ء کی عالمی رینکنگ کے مطابق دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں سے کوئی ایک بھی اسلامی ملک میں موجود نہیں ، یہ یقینا ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ امت مسلمہ عصری سائنسی علوم وتحقیق میں بہت پیچھے ہے۔
مغربی ممالک میں موجود دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں جو عصری سائنسی تعلیم فراہم کی جاتی ہے اس سے جو انسانی ذہن تشکیل پاتا ہے اس کے رگ وپے میں مادّیت پرستی چھائی ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مخلص سائنسدان اور محققین انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دیتے ہیں مگرعوام کی اکثریت دنیاوی اسباب ، مادیت پرستی اور پیٹ بھرنے کے لیے ہی ان یونیورسٹیوں کا رخ کرتے ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جتنی بہترین یونیورسٹی ہوگی اس کا سائنسی تحقیق وتدریس اور تعلیم کا معیار اعلیٰ ہوگا نیز جیسے جیسے ہم یونیورسٹیوں کی رینکنگ کے حساب کے نیچے آئیں گے، ہمیں ان یونیورسٹیوں میں سہولیات کا فقدان اور سائنسی تحقیق وتدریس کے معیار میں تنزلی محسوس ہوگی !
یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے عالمی سطح پر کئی گورننس ماڈلز پر موجود ہیں جن میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاں ، پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیاں اور سیمی پرائیوٹ سیکٹر کی یونیوسٹیاں شامل ہیں ۔ عمومی طور پر ان یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن کے لیے کئی طریق ِکار اختیار کیے جاتے ہیں جو کہ ان کے گورننس ماڈلز پر انحصار کرتے ہیں مگر ہم یہاں عمومی طور پر یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن کا ذکر کرتے ہیں !
(١) اوّل ان یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے حکومتیں ایک خطیر رقم فراہم کرتی ہیں ۔ ان یونیورسٹیوں کو اس خطیر رقم کاایک معتدبہ حصہ ملکی یعنی وفاقی حکومت کی جانب سے ملتا ہے اور کچھ حصہ مقامی وعلاقائی حکومت کی جانب سے ملتا ہے ! ملکی وعلاقائی حکومتوں کی جانب سے یونیورسٹیوں کو جاری ہونے والے فنڈ کی مقدار کئی عوامل پر انحصار کرتی ہے جن میں ان یونیورسٹیوں کی کارگردگی، ملکی و علاقائی سیاست، تدریس وتحقیق کا معیار ،طلباء کرام و اساتذہ کی تعداد ،یونیورسٹی کا حجم وغیرہ شامل ہیں ۔
(٢) دوسرا ذریعہ آمدن ان یونیورسٹیوں کا طلباء کرام سے بھاری رقم فیس وصول کر کے ہوتا ہے پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی فیس کم ہوتی ہے جبکہ پرائیوٹ سیکٹر کی یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیس ہوتی ہے
میسا چیوسٹس انسٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکہ کے ایک طالب علم کے ایک سال کے اخراجات (ٹیوشن فیس، ہاسٹل، کھانے پینے، کتب وغیرہ) تقریباً چھیاسی ہزار امریکی ڈالر ہوتے ہیں جن میں سے باسٹھ ہزار امریکی ڈالر (تقریباً دو کڑور چالیس لاکھ پاکستانی روپے) سالانہ صرف فیس کی مد میں ہیں ۔
(٣) تیسرا ذریعہ آمدن یونیورسٹیوں کا پروجیکٹس فنڈنگ کی مد سے آتاہے، یونیورسٹیوں میں سائنسدان اور محققین عالمی اور قومی سائنسی تحقیق کے فنڈنگ کے اداروں میں تحقیق کے لیے ریسرچ پروجیکٹ پروپوزل جمع کرواتے ہیں ان ریسرچ پروپوزل کے منظور ہونے پر سائنسدان اور محققین کو بہت بڑی رقم ملتی ہے جس میں کچھ فیصد رقم یونیورسٹی کے انتظامی اخراجات کے لیے وقف ہوتی ہے اور باقی رقم اس سائنسدان اور ریسرچر کو تحقیق کرنے کے لیے مہیا کی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ سائنسدان اور محقق ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے طلباء رکھتا ہے ، ان کی فیس اور اسکالرشب دیتا ہے نیز اسی رقم سے پوسٹ ڈاکٹریٹ، ریسرچ فیلو اور ایڈمن اسٹاف بھی رکھا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیق کے لیے کمپیوٹرز، لیبارٹری اور اس میں موجود مشینیں و آلات بھی کسی حدتک اسی رقم سے حاصل کیے جاتے ہیں نیز سائنسی تحقیقی مقالوں کو عالمی سائنسی کا نفرنسوں میں پیش کرنا اور ان کانفرنسوں میں شامل ہونے کے لیے سفر سمیت تمام اخراجات بھی اسی مد سے آتے ہیں !
(٤) چوتھا ذریعہ آمدن بعض یونیورسٹیوں میں اس طرح ہوتا ہے کہ سائنسدانوں ، محققین اور ریسرچ فیلوز کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کے کچھ فیصد حصے کا بندوبست خود کریں یعنی سائنسدان ومحققین خود فنڈنگ لے کر آئیں جس سے ان کی تنخواہیں ادا کی جائیں گو کہ یہ طریقہ کار اتنا پائیدار اور دیرپا نہیں ہوتا اور اس ماڈل پر جاب کرنے والے سائنسدان اور محققین کوشش کرتے ہیں کہ جلد از جلد پکی جاب حاصل کریں مگر یہ طریقہ آمدن ابھی بھی بعض یونیورسٹیوں میں رائج ہے !
(٥) پانچواں ذریعہ آمدن یونیورسٹیوں کا انٹیلیکچول پراپرٹی (Intellectual Property ) یعنی ''فکری ملکیت'' سے ہونے والی آمدنی سے ہوتا ہے جس میں سند حق ایجاد یعنیپیٹنٹPatent حق تصنیف ،کاپی رائٹ، ٹریڈ مارکس، ٹریڈسیکرٹ، سافٹ وئیر، ڈیزائن رائٹ وغیرہ سے ہونے والی آمدنی بھی شامل ہے۔
انٹیلیکچول پراپرٹی سے ہونے والی آمدنی کے بارے میں یونیورسٹیوں کی پالیسی مختلف ہوتی ہیں مثلاً اگر ایک انٹیلیکچول پراپرٹی (ایجاد) سے ایک لاکھ یورو کی آمدنی ہوئی تو اس ایجاد کو بنانے والے سائنسدان کو ستر فیصد حصہ جبکہ یونیورسٹی کو تیس فیصد حصہ ملے گا۔ اگر ایک انٹیلیکچول پراپرٹی (ایجاد) سے آمدنی چار لاکھ یورو سے تجاوز کر جاتی ہے تو اس ایجاد کو بنانے والے سائنسدان کو چالیس فیصد حصہ جبکہ یونیورسٹی کو ساٹھ فیصد حصہ ملے گا !
اسی طریقے سے یونیورسٹی کے سائنسدان اور محققین اگر کوئی سائنسی تحقیقی کام کرتے ہیں جس کو کمرشل لائز کرنا ہو تو اسپن آوٹ کمپنی(Spinout Company) بنائی جاتی ہے جس میں یونیورسٹی کا شیئر ہوتا ہے مثلاً یونیورسٹی آف آکسفورڈ برطانیہ کے سائنسدانوں اور محققین نے کرونا ویکسین بنائی اور اس بنانے کے نتیجے میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ برطانیہ کو خطیر رقم آمدن کی مد میں ملی !
(٦) چھٹا ذریعہ آمدن یونیورسٹیوں کا اپنی خدمات اور پراپرٹی کو دے کر پیسے کمانا ہوتا ہے !
(٧) ساتواں ذریعہ آمدن ان یونیورسٹیوں کا دنیا بھر سے طلباء کو اپنے پاس بلا کر داخلہ دینا ہوتا ہے امریکہ وبرطانیہ ہی کی مثال لے لیجئے ان دونوں ملکوں کی بعض یونیورسٹیوں کے وفود ہرسال ترقی پذیر ممالک جن میں ایشیائی ممالک، خلیجی ممالک اور افریقی ممالک شامل ہیں ، کا بالخصوص دورہ کرتے ہیں اور وہاں کے امیر گھرانوں کے بچوں کو انتہائی مہنگی فیس کے عوض اپنی یونیورسٹیوں میں داخلہ دیتے ہیں ! برطانوی پارلیمنٹ کی رپورٹ کے مطابق سال ٢٠٢٢ء اور ٢٠٢٣ء کے اندر تقریباً ساڑھے سات لاکھ بین الاقوامی طلباء نے برطانوی یونیورسٹیوں میں پڑھا جن میں پچانوے ہزار یورپی ممالک سے تعلق رکھتے تھے جبکہ چھ لاکھ ساٹھ ہزار طلباء یورپ کے باہر سے تھے، وہ چار ممالک جنہوں نے سب سے زیادہ طلباء برطانیہ بھیجے ان میں انڈیا نے ایک لاکھ چھبیس ہزار ، چین نے ایک لاکھ دو ہزار سات سو پچانویں ، نائیجریا نے تریپن ہزار سات سو نوے اور پاکستان نے چوبیس ہزار نو سو پچاس طلباء بھیجے ! !
اسی طریقے سے اور بھی کئی ذرائع ہوتے ہیں جن کی مدد سے یونیورسٹیاں اپنے ذرائع آمدن بڑھاتی ہیں جن میں اینڈومنٹ فنڈ (Endowment Fund) اور اوقاف اور ڈونیشن یا عطیات شامل ہیں ! دنیا کے کھرب پتی افراد اور ان کے رفاہی ادارے یونیورسٹیوں کی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہوتے ہیں مثلاً برطانوی ارب پتی سرڈیو ڈہارڈنگ Sir David Harding نے ٢٠١٩ ء میں سوملین برطانوی پاؤنڈ یونیورسٹی آف کیمرج برطانیہ کو سوکے قریب پی ایچ ڈی طلباء رکھنے کے لیے عطیہ کیے غرض عصری تعلیمی اداروں اور بالخصوص دنیا کی یونیورسٹیوں میں ذرائع آمدن کے لیے باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ موجود ہوتے ہیں جوکہ آمدنی کو بڑھانے کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں !
راقم نے بھی چونکہ ان ہی عصری تعلیمی اداروں سے سائنسی تعلیم حاصل کی ہے اور اپنی زندگی ان ہی یونیورسٹیوں میں پڑھتے پڑھاتے گزاری ہے لہٰذا ذہن میں اکثر یہ خیال آیا کہ کیوں نہ مدارسِ دینیہ کو بھی اسی یونیورسٹی ماڈل پر ڈھالا جائے ؟ اللہ پاک جزائے خیر عطا فرمائے اکابرِ امت اور مفتیانِ کرام کو جنہوں نے راقم کی صحیح سمت رہنمائی کی اور واضح کیا کہ میرا یہ خیال غلط ہے اور خلط مبحث ہے ! علماء کرام کی صحیح دینی رہنمائی کے حوالے سے کچھ واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا
یہ کوئی ١٩٩٨ ء کا زمانہ ہوگا جب راقم کالج جاتا تھا اس وقت مدنی مسجد کراچی میں جانے کا اتفاق ہوا، مغرب کے بیان میں جو بات کانوں میں پڑی وہ یہ کہ
''اللہ سے ہوتاہے ، اللہ کے غیر سے کچھ نہیں ہوتا ! ڈگری، پیسہ، مال و دولت ان سے کچھ نہیں ہوتا، صرف اللہ سے ہوتا ہے ''
الحمد للہ پھر علماء کرام سے تعلق مزید گہرا ہوا اور اللہ نے توفیق دی کہ اکابر امت اور صحابہ کرام کے واقعات پڑھوں جن میں جابجا اللہ کے خزانوں سے براہِ راست لینے کے واقعات کا ذکر آیا ہے پھر جب کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران ٢٠٠٢ء میں چھٹیوں میں چلّے پر جانا ہوا تو رائیونڈ سے فارغ علماء کرام کے ساتھ وقت لگانے کا موقع ملا ! یہ دو نوجوان علماء کرام سال کی تشکیل پر تھے اور ان کے ساتھ پندرہ دن کی تشکیل دی، ان ہی میں سے ایک نوجوان عالم کو جماعت کا امیر بھی متعین کیا گیا تھا ایک دن راقم کو ایک اور ساتھی کے ساتھ خدمت (کھانا پکانے) کی ذمہ داری دی گئی۔ الحمد للہ دوپہر کا کھانا پوری جماعت کے لیے تیار ہونے والا تھا کہ امیر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ کچھ مزید ساتھی کھانے میں شریک ہوں گے ! اب راقم بہت پریشان ہوا کہ کھانا تو اتنے افراد کے لیے تیار نہیں کیا گیا ! فرمایا کہ بھائی کھانا پکاتے ہوئے سورہ یٰسین پڑھو اور دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے مدد طلب کرو اللہ پاک کھانے میں برکت دے گا ! اب ہم جیسے دنیادار انجینئرنگ یونیورسٹی کے طلباء کوعلماء کرام نہ صرف یہ کہ رجوع اِلی اللہ کی ترغیب دے رہے ہیں بلکہ عملی مشق کے ذریعہ اللہ کے خزانوں سے لینے کا طریقہ تلقین کر رہے ہیں !
اسی طریقے سے تبلیغی مرکز رائیونڈ جانا ہوا تو وہاں تبلیغی مرکز کی بے سروسامانی دیکھ کر کئی خیالات آئے کہ کیوں یہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں اور شان و شوکت اختیار نہیں کرتے ؟ یہ بھی خیال آیا کہ کیوں یہ دین کی دعوت کو سینہ بہ سینہ پھیلانے کی ترغیب دیتے ہیں ؟ یعنی ایک طرف باطل قوتیں اور کفار اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ ہیں دنیاوی اسباب سے لدے ہوئے اور دوسری طرف یہ ترغیب دی جارہی ہے کہ اللہ کی ذات پر توکل کیا جائے، اسباب کو اسباب کے درجے میں رکھ کر محنت کی جائے اور رجوع اِلی اللہ کیا جائے ! وہاں پر موجود تبلیغی ساتھیوں نے ذہن کو صاف کیا کہ ہماری نظر مادّی اسباب پر نہیں ہونی چاہیے، اسباب کا انکار نہیں مگر نظر مُسَبِّبُ الاَسْبَابْ پر ہونی چاہیے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اسی طرح مدارس دینیہ جانے اور اکابر کے بیانات سننے کا اتفاق ہوتا رہا جن میں حکیم محمد اختر صاحب کی مجالس، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی اتوار کی مجالس وغیرہ شامل ہیں نیز حضرت مولانا سعید احمد صاحب جلال پوری شہید کی خدمت میں ایک سال عصر تا عشاء گزارنے کی بھی توفیق ملی
ان ہی حضرات کی تھوڑی باتیں سننے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ مدارسِ دینیہ براہ راست اللہ کی مدد سے چلتے ہیں اور مسلمانوں کو مغربی علوم، سائنس وٹیکنالوجی اور جدید یت سے متاثر نہیں ہونا چاہیے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
پھر اکابر ہی کی رائے اور مشورہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری فرانس سے حاصل کی اور سائنسی علوم وٹیکنالوجی میں اپنا لوہا منواکر دنیا کے بہترین سائنسدانوں میں تین مرتبہ اپنا نام شامل کروادیا الحمد للّٰہ اور ابھی بھی کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں عالمی معیار کی سائنسی تحقیق کر کے مسلمانوں کا لوہا منوا رہا ہوں !
قارئین یاد رکھیے کہ راقم ایک کمپیوٹر سائنسدان ہے اور دنیا دار بندہ ہے اور جب مادیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے اکتا جاتا ہے تو تقویٰ وللہیت کے حصول کے لیے مدارسِ دینیہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور یہ صرف میرا مسئلہ نہیں بلکہ جتنے بھی ہم جیسے دنیا دار لوگ ہیں ان کو مدارسِ دینیہ اور علماء کرام سے ہی رہنمائی ملتی ہے ، ہم جیسے دنیادار لوگوں کے دلوں پر جب دنیا کی محبت، مادیت پرستی، عقل پرستی اور جدیدیت کا اثر ہونے لگتا ہے تو جائے پناہ یہی مدارسِ دینیہ ہوتے ہیں !
عجیب بات یہ ہے کہ اب بعض علماء کرام اور مدارسِ دینیہ کی ہی طرف سے مادیت، جدیدیت اور اسباب پر نظر رکھنے کی دعوت اور عملی ترغیب دی جارہی ہے تو ہم جیسا دنیادار طبقہ کہاں جائے اور کہاں سے روحانیت، للہیت، توکل علی اللہ حاصل کریں ؟ ؟
آسان الفاظ میں جدیدیت اور مغربی افکار سے متاثر بعض لوگ کچھ مدارسِ دینیہ کی فکری رہنمائی کر رہے ہیں اور افسوس یہ ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کے عنوان سے کر رہے ہیں ۔ ان کا مطمح ِ نظر یہ ہے کہ جس طریقے سے مغربی یونیورسٹیوں میں آمدن کے مختلف ذرائع ہیں ، یہی کچھ ذرائع مدارسِ دینیہ کو بھی اختیار کر لینے چاہیے مثلاً مدارسِ دینیہ کے ذرائع آمدن سے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ
''مدارسِ دینیہ کو اپنے ذرائع آمدن کے لیے چار ذرائع اختیار کرنے چاہئیں
(١) پہلا ذریعہ یہ کہ جو مدارس کے طلباء اپنے اخراجات خود برداشت کر سکتے ہیں ان کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اخراجات دیں ! مدارس اس کی تحقیق کریں کہ جو بچے کھاتے پیتے ہیں ان کو بتائیں کہ وہ اپنا خرچہ خود برداشت کریں ۔ ہمارے دین میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ آپ کسی پر بوجھ بن جائیں ،جب مدرسے پر خرچہ زیادہ بڑھتا ہے تو مدرسے کی تعلیمی کوالٹی گرجاتی ہے اساتذہ کی تنخواہیں رہ جاتی ہیں اور پھر مہتمم اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اسی مانگنے پر لگا ہوا ہوتا ہے !
(٢) دوسرا ذریعہ یہ کہ مدارس کے پاس انڈومنٹ فنڈ اور اوقاف ہونے چاہئیں !
(٣) تیسرا ذریعہ یہ کہ مدرسے کے اساتذہ اپنی خدمات لوگوں کوفراہم کر کے آمدن مدرسے میں لے کر آئیں ، یہ اساتذہ ٹریننگ دیں اور اس کی فیس وصول کریں اپنی کمپنیاں بنائیں !
(٤) اور چوتھا ذریعہ ڈونیشن اور عطیات ہونا چاہیے ''
یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے اودل خون کے آنسو روتا ہے کہ جنہوں نے امت ِ مسلمہ کی نظریاتی وعملی رہنمائی کرنی تھی جنہوں نے لوگوں کی نظریں اسباب سے ہٹا کر مُسَبِّبُ الاَسْبَابْ کی طرف پھیرنی تھیں جنہوں نے تصلب اختیار کرنا تھا جنہوں نے اکابر کے طریقہ کارکو عملی طور پر اختیار کر کے ہم جیسے دنیادار لوگوں کے لیے عملی مثال بننا تھا، اب وہی لوگ اسباب اختیار کرنے کی تلقین کر رہے ہیں ، اب وہی لوگ جدیدیت سے متاثر ہوگئے ہیں اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے ، آمین ! بقول شاعر
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت ، نہ نگاہ
غرض یہ تقویٰ، اخلاص، للہیت اور تربیت ظاہر وباطن ہی ہے جو کہ ان مدارسِ دینیہ کا خاصہ ہے ! اب اگر یہ اخلاص، تقویٰ اور للہیت مدارسِ دینیہ سے عنقا کردی جائے تو عصری علوم کے اداروں سے فراغت حاصل کرنے والوں اور مدارسِ دینیہ سے فارغ علماء کرام میں کیا فرق رہ جائے گا ؟ اور کس طریقے سے ان دینی مدارس سے فارغ علماء کرام معاشرے میں سدھا رپیدا کر سکیں گے ؟ اور پھر کس طریقے سے ان دینی مدارس سے فارغ علماء کرام اسلام اور ملک وملت کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دیں گے ؟ نیز پھر ان مدارس سے فارغ ہونے والوں میں اور مغربی ممالک کے لادینی عصری اداروں سے دینی اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں میں کیا فرق رہ جائے گا ؟ غرض یہ مدارسِ دینیہ ہی ہیں جوکہ دین کو اپنی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معاون ومددگار ہیں ! !
مسلمانوں کو کمزور اور ختم کرنے کے لیے باطل کی چالوں میں سے ایک چال یہ ہے کہ کسی طریقے سے مدارسِ دینیہ کوکمزور اور ختم کردیا جائے اور اس کے لیے جو عملی صورت اختیار کی جا رہی ہے وہ کہ یہ ان مدارسِ دینیہ کو بھی یونیورسٹیوں کی نہج پر ڈالا جائے ! ہماری گزارش ہے کہ مدارسِ دینیہ عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی نقالی کو اپنانے کے لیے بجائے اپنی نہج پر قائم رہیں بقول شاعر
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
مدارسِ دینیہ کی آمدن سے متعلق اکابر کی سوچ :
''حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے یہاں حدیث کے دور ے میں ستر ستر طالب علم ہوتے تھے، ان کا کھانا بھی کپڑا بھی ہوتا تھا مگر کوئی فکر ہی نہیں ، نہ چندے کی تحریک، نہ کبھی کسی سے فرمایا، ایک کمرہ بھی نہیں بنوایا نہ وہاں چندہ تھا نہ کچھ تھا پھر بھی وہاں خندہ ہی خندہ تھا''
( ملفوظات ِ حکیم الامت، جلد ١٧، حسن العزیز جلد ١ ملفوظ ٥١٧ صفحہ ١٢٦، ادارہ تالیفات ِ اشرفیہ لاہور)
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے دینی مدارس خصوصاً دار العلوم دیوبند کے قیام و بقا کے لیے جو دستور العمل تجویز فرمایا اس میں تحریر ہے کہ
''اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں ، جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرطِ توجہ اِلی اللہ اسی طرح چلے گا ! اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کار خانۂ تجارت یا کسی امیر محکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف ور جاء جو سرمایہ رجوع اِلی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امدادِ غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے '' ! ! !
( بانی دار العلوم کا دستور عمل تاریخ دار العلوم دیوبند، جلد اوّل ص ١٥٣)
جب دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی جاچکی تو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ
''عالم مثال میں اس مدرسے کی شکل ایک معلق ہانڈی کے مانند ہے جب تک اس کا مدار توکل اور اعتماد اِلی اللہ پر رہے گا یہ مدرسہ ترقی کرتا رہے گا ! اس واقعہ کو حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ نے ذیل کے اشعار میں نظم کیا ہے
اس کے بانی کی وصیت ہے کہ جب اس کے لیے
کوئی سرمایہ بھروسہ کا ذرا ہو جائے گا
پھر یہ قندیلِ معلق اور توکل کا چراغ
یوں سمجھ لینا کہ بے نور و ضیاء ہو جائے گا
(تاریخ دار العلوم دیوبند ج اوّل ص ٤٧)
راقم جب مدارس کی آمدن سے متعلق کچھ لوگوں کی تقریر سنتاہے اور اکابر کی تحریرات پڑھتا ہے تو تشویش ہوتی ہے ، کیا مدارسِ دینیہ کے طلباء کرام بوجھ ہیں جو مدارسِ دینیہ کے طلباء کرام سے فیس وصول کی جائے ؟ کیا مدارسِ دینیہ کے طلباء کرام مہمانِ رسول نہیں ہیں ؟ راقم کو یہ تشویش ہورہی ہے کہ ہمارے اکابر کا مدارسِ دینیہ کے حوالے سے یہ طرز عمل نہیں تھا۔ علومِ نبوت حاصل کرنے والے طلباء کرام کا تو اکرام کرنا چاہیے مدارسِ دینیہ تو توکل علی اللّٰہ کی بنیاد پر چلتے تھے ! !
خلاصہ یہ کہ اگر آپ لوگ جدیدیت سے اتنے ہی متاثر ہوگئے ہیں کہ یونیورسٹیوں کے نظام آمدن کو اکابر کے منہج سے ہٹ کر مدارسِ دینیہ کے لیے اختیار کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کیجیے مگر مسلمان عوام کو ''مدارس'' کے عنوان سے دھوکہ میں مت ڈالیے ! نیز اگر آپ یونیورسٹیوں کے ذرائع آمدن ہی اختیار کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ کو اپنے اداروں کے نام سے ''مدرسہ'' اور ''اکابر'' کے نام و نسبت نہیں ہٹا دینی چاہیے ؟ آخر میں مضمون کا اختتام صدر وفاق ''حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم کی گفتگو سے کچھ اقتباس نقل کر کے کرتے ہیں :
''ہمارے مدارس کی بنیاد حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے وقت سے ہی اس بات پر ہے کہ یہ پرائیویٹ ادارے ہیں ، ان کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہمیں حکومت سے کوئی امداد چاہیے، نہ ہمیں حکومت سے کوئی پیسے چاہئیں ، نہ حکومت کی ہمیں مداخلت چاہیے، ہم اپنے طریقہ کار جو اکابر کا طریقہ کار چلا آرہا ہے اس کے تحت چلنا چاہتے ہیں ، کوئی ایسے ادارے کو ہم اپنے اوپر مسلط نہیں کرنا چاہتے جو ہمارے اندرونی نظام میں دخل اندازی کرے ،جو ہمارے طریقہ کار میں مداخلت کرے، جو کسی طرح بھی ہمارے مقاصد پر اثر انداز ہو ، مدرسہ کو ہم اس سے آزاد رکھنا چاہتے ہیں ''
ہم یہ بات واضح الفاظ میں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ کسی حکومت کے ماتحت ہوکر ہم اپنے نصاب و نظام کو جاری نہیں رکھ سکتے، ایسا کرنا ہمارے لیے زہر قاتل ہے ! ہم نے ایسا کرنے والوں کے انجام دیکھے ہیں ، ہم نے سعودی عرب دیکھا ہے ، ہم نے امارات دیکھا ہے ، ہم نے مصر دیکھا ہے ، ہم نے شام دیکھا ہے کہ وہاں مدارس کو کس طریقے سے ختم کیا گیا، مدارس کو کس طریقے سے دبایا گیا ! آج وہاں پرکوئی کلمہ حق کہنے والا موجود نہیں ہے ! یا ہو تو اس کی جگہ جیل ہوتی ہے یا اس کے اوپر تشدد کیا جاتا ہے !
الحمد للّٰہ پاکستان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کے لیے بنایا اور پاکستان کو درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کا قلعہ بنایا ہے۔ ہم یہاں یہ صورت حال کسی قیمت برداشت نہیں کرسکتے کہ ہمارے مدارس اور علماء اس طرح ہوجائیں کہ ان کے سامنے کچھ بھی ہوتا رہے اور وہ اپنی زبانوں کو بند رکھیں اور شیطان اخرس بن کر زندگی گزاریں !
حکومتوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جب کسی (ادارہ ، شخص) کو گھیرنا ہوتا ہے تو شروع میں ساری پابندیاں عائد نہیں ہوتیں شروع میں اس کے لیے دانہ ڈالاجاتا ہے اس کے بعد آگے جاکر اس کو کسی وقت میں گھیرا جاتا ہے پوری تاریخ میں یہی طریقہ کار رہا ہے !
ابھی اگرچہ اس (مفاہمتی یاد داشت) میں لکھا ہوا ہے کہ اپنے نظام میں آزاد اور خود مختار رہیں گے لیکن اس کے باوجود ایک مرتبہ جب اس دائرے کے اندر آگئے اور اس میں یہ لفظ موجود ہیں کہ وزارتِ تعلیم کی طرف سے وقتاً فوقتاً ملنے والی ہدایات کے پابند ہوں گے تو اب آپ دیکھئے آج کسی کی حکومت ہے ،کل کسی اور کی حکومت ہوگی، وہ لوگ بھی حکومت میں وزارت ِ تعلیم کے اندر آئیں گے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ''مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں ''
جنہوں نے علی الاعلان یہ بات کہی ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ
''مدارس تو صرف یہ سکھاتے ہیں کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا ''
گویا مذاق اڑا کرکہ مرنے کے بعد کیا ہوگا حالات پڑھانے والے مدارس ہیں تو یہ مدارس موجودہ زندگی کے ساتھ کیسے چل سکتے ہیں ؟ تو وہ بھی تعلیم کے نظام کے اندر آسکتے ہیں ، کل کوکون آتا ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا لہٰذا مدارس کو اس دائرے کے اندر لانے کے ہم بالکل سختی کے ساتھ مخالف ہیں !
ہم (یہ جدید معلومات )اس الزام کو دور کرنے کے لیے نہیں پڑھا رہے، جو ساری دنیا یہ نامعقول بات کہتی ہے کہ مدارس سے ڈاکٹرکیوں پیدا نہیں ہوتے ،اس سے وکیل کیوں نہیں پیدا ہوتے،انجینئر کیوں نہیں پیدا ہوتے ،مدارس کے فضلاء کسی ملٹری کے اندر کمیشن کیوں نہیں لیتے اور اس بات کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں مدرسہ کے لوگ کمیشن لے چکے ہیں وہ بریگیڈئیر بن چکے ہیں وہ کرنل بن چکے ہیں !
ارے بھائی ! یہ مدرسہ بریگیڈئیر اور کرنل پیدا کرنے کے لیے نہیں تھا !
یہ قرآن و سنت کا علم محفوظ کرنے کے لیے تھا ،یہ عالم پیدا کرنے کے لیے تھا !
یہ بتاؤ کہ پورے پاکستان کے اندر کون سے سرکاری ادارے کے اندر اسلام کی تعلیم دی جارہی ہے ؟ کون سے سرکاری ادارہ میں حافظ پیدا ہورہے ہیں ؟ '' ١
١ ''مدارس رجسٹریشن '' پر شیخ الاسلام، صدر وفاق مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دامت برکاتہم کی وفاق المدارس کی
مجلس عاملہ میں گفتگو ١٧ دسمبر ٢٠٢٤ء
وفیات
٭٭٭
٭ ٢٦ شعبان المعظم ١٤٤٦ھ /٢٥ فروری کو فاضل جامعہ مدنیہ جدید مولانا سید رضا علی صاحب جعفری کے والد محترم جناب سید آصف علی صاحب جعفری لاہور میں انتقال فرما گئے ۔
٭ ٢٩ شعبان المعظم ١٤٤٦ھ /٢٨ فروری بروز جمعہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ کے نائب مہتمم ، حضرت مولانا سمیع الحق صاحب شہید کے فرزند حضرت مولانا حامد الحق صاحب حقانی سمیت آٹھ افراد جامعہ کی مسجدکے مرکزی ہال میں خودکش دھماکہ کے نتیجہ میں شہید ہوگئے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
ادارہ حضرت مولانا کے بیٹے حافظ سلمان الحق صاحب اور دیگر شہید ہونے والے حضرات کے لواحقین کے غم میں برابر کا شریک ہے اللہ تعالیٰ شہدا کے درجات بلند فرمائے ا ور جملہ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے، آمین !
٭ یکم مارچ کو مولانا آغا سید محمود شاہ سابق ایم این اے و جنرل سیکرٹری جمعیة علماء اسلام بلوچستان اور مولانا سید عتیق الرحمن شاہ صاحب کنوینئر جمعیة اساتذہ بلوچستان کی والدہ محترمہ انتقال فرماگئیں
٭ ٣٠ شعبان المعظم ١٤٤٦ھ /یکم مارچ ٢٠٢٥ء کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس و معاون ناظم تعلیمات ، خلیفۂ مجاز حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم ،جمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کی مجلس عمومی کے رکن و سابق ناظم انتخابات ضلع لاہور مولانا محمد حسین صاحب رحمة اللہ علیہ مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرماگئے ۔
٭ ١٨ رمضان المبارک ١٤٤٦ھ/١٩ مارچ ٢٠٢٥ء بروز بدھ جمعیة علماء اسلام پاکستان کے سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات و سابق رکن قومی اسمبلی و سنیٹر حافظ حسین احمد صاحب رحمة اللہ علیہ طویل علالت کے بعد کوئٹہ میں انتقال فرما گئے۔
٭ ٢١ رمضان المبارک ١٤٤٦ھ/٢٢ مارچ ٢٠٢٥ء بروز ہفتہ جامعہ مدنیہ جدید کے سابق ڈرائیور محمد اقبال حسن دل کے شدید دورہ کے باعث پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وفات پاگئے ان کی نماز جنازہ رات ساڑھے گیارہ بجے جامعہ مدنیہ جدید میں ادا کی گئی بعد ازاں تدفین کے لیے ان کی میت ان کے آبائی گائوں جتوئی مظفر گڑھ لے جائی گئی جامعہ میں تقریباً اکیس سال خدمت پر مامور رہے انتہائی محنت اور وفاداری سے کام کیا
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین !
ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
٭٭٭
نرخ نامہ
٭٭٭
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہِ حامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.