Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

مارچ 2024

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ رمضان المبارک ١٤٤٥ھ / مارچ ٢٠٢٤ء شمارہ : ٣
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر




جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +923334249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923354249302+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
نئے میدانِ عمل میں پہلے کام حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ١٠
روزہ ....... تزکیۂ نفس حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٢٧
میرے حضرت مدنی قسط : ٨ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٣٢
تربیت ِ اولاد قسط : ١٢ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٦
چہل حدیث متعلقہ رمضان و صیام حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری ٤١
حضرت مولانا قاضی قمرالدین صاحب چکڑالوی مولانا محمد معاذ صاحب ٥٠
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦١
وفیات ٦٣




حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
عالمی اضطراب اور اس پر بہت سے لوگوں بلکہ ملکوں کی بے فکری اور اس کے ساتھ مستی وہ بھی اس انداز کی کہ جیسے لیلةُ البدر میں سمندر کنارے لہروں کے مدوجزر کا نظارہ ہو ! !
اہلِ فلسطین کے ساتھ عالمی سطح پر بپا کی جانے والی خون کی ہولی، کفار اور مسلم حکمرانوں کا اس پر بے حسی اختیار کرتے ہوئے اپنے ملکوں میں قومی سطح پر کھیلوں اور ناچ گانوں کا انعقاد کرنا اس عالمی درندگی پر لطف اندوز ہونے کے مترادف ہے ! ! ؟
اس پر مزید یہ کہ چرچ کی سرپرستی اور امریکہ و برطانیہ کی قیادت میں عالمی سطح پر ہم جنس پرستی کا پرچار بلکہ اس کو قانونی تحفظات فراہم کرنا بہت بڑے خدائی عذاب کے قریب تر آنے کی خبر دے رہا ہے ! !
اجتماعی سطح کا یہ غیر فطری عالمی غدر تمام آسمانی دینوں سے کھلی بغاوت ہے اس سے صرفِ نظر کرنا گناہِ کبیرہ ہے جبکہ اس کے خلاف علمِ جہاد بلند کرنا عالمِ اسلام پر فرض ہوچکا ہے ! !
علماء حق اپنے تئیں ہر کسی کو آگاہ و خبردار کرنے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں ان کی آواز پر لبیک کہنا
ہر مسلمان پر فرض ہے ! اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْن




شب ِقدر کی دُعا
٭٭٭
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم اگرمجھے معلوم ہو جائے کہ شب ِقدر کون سی ہے تو(اُس رات ) میں کیا دُعا کروں ؟
آپ نے فرمایا (دُعا میں ) یوں کہنا
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند فرماتا ہے
لہٰذا مجھے معاف فرمادے




درسِ حدیث
٭٭٭
قطب عالم حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین !
( درسِ حدیث نمبر٦٣/١٦٤ ٢٦ شعبان المعظم ١٤٠٥ھ/١٧ مئی١٩٨٥ء )
آخرت کے معاملہ میں کسی کے لیے دعویٰ نہیں کیا جاسکتا !
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ضروری ہے !
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں آتا ہے کہ انسان جب اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں ! یہ اللہ کی طرف سے ایک وعدہ ہوگیا کہ جب وہ مجھ سے استغفار کرے گا تو میں اسے بخش دُوں گا ! حدیث میں وہ کلمات آتے ہیں کہ مثلاً ایک بندہ نے گناہ کیا تو وہ کہتا ہے رَبِّ اَذْنَبْتُ خداوند ِکریم میرے سے گناہ ہو گیا میں نے گناہ کیا تو معاف فرما ! تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہ رَبًّا یَغْفِرُالذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِہ کیا میرا بندہ یہ بات جان گیا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو اس کا گناہ پر مواخذہ فرماتا ہے اور معاف بھی فرمادیتا ہے،دونوں کام کرتا ہے چاہے تو مواخذہ فرمائے اور چاہے تو معاف فرما دے ! غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ملائکہ کے سامنے کہ میں نے اپنے اس بندہ کو معاف فرمادیا ! ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآئَ اللّٰہُ اس کے بعد جب تک اللہ چاہیں وہ ٹھہرا رہتا ہے(گناہ سے رُکا رہتا ہے) ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا پھر گناہ ہو جاتا ہے ! اور گناہ ہوتے رہتے ہیں انسان توبہ کرلیتا ہے عہد کرلیتا ہے پھر غلطی ہو جاتی ہے پھر وہ کہتا ہے رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْباً فَاغْفِرْہُ
اے میرے پروردگار میں نے گناہ کا کام کیا ہے تو معاف فرمادے ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہ رَبًّا یَغْفِرُالذَّنْبَ وَیَأْخُذُبِہ یہ بندہ اتنی بات پہچانتا ہے کہ اس کا پروردگار ہے جو مواخذہ فرماسکتا ہے ! اورمعاف فرماسکتا ہے ! دونوں کام کرسکتا ہے، اسی لیے یہ میری طرف رجوع کررہا ہے توبہ کررہا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے معاف کردیا !
گویا استغفار کی فضیلت یہ ہے کہ جب وہ زبان سے کلمات کہتا ہے اوردل میں اعتراف کرتا ہے گناہ کااور معافی کی درخواست کرتا ہے کہ میرے سے غلطی ہوئی ، معاف فرما ! تو اللہ پاک معاف فرمادیتے ہیں ! اسی طرح ہوتارہتا ہے حتی کہ تیسری دفعہ مثلاً یا اس سے بھی زیادہ دفعہ جیسے بھی اللہ کی مرضی ہو، یہاں تیسری دفعہ ارشاد ہورہا ہے ،پھر وہ ٹھہرارہتا ہے پھر گناہ کرتا ہے اورپھر اللہ تعالیٰ اسی طرح فرماتے ہیں اورپھر فرماتے ہیں غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْیَفْعَلْ مَاشَآئَ ١ میں نے اس کو بخش دیا ہے مکمل طرح اب وہ جو چاہے کرے !
کیا مطلب ؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اس پر ایسی رحمت کی نظر فرمادی ہے کہ اب اس کی گناہ کی طاقت کمزورہو جائے گی اور نیکی کی طاقت بڑھ جائے گی ! جب خدا کی رحمت کی نظر ہوتو پھر یہی ہوتا ہے کہ گناہ کی قوت کم ہوجاتی ہے وہ کمزور پڑجاتی ہے اور خدا کی عبادت اور اس کی اطاعت کی قوت اس میں بڑھ جاتی ہے ! تو اب جو چاہے کرے یعنی آزاد ہے جہاں چاہے پھرے، وہ پھرے گا بھی تو بھی کچھ نہیں ہوگا ! گناہ کے کاموں کی قوت ہی اس کی کمزور پڑ گئی ہو گی !
اہلِ بدر :
اسی طرح کے کلمات آئے ہیں اہلِ بدر کے بارے میں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو چاہیں کریں اور میں نے ا ن کو بخش دیا ! تو یہ مطلب تھوڑا ہی تھا کہ سچ مچ وہ گناہ کرتے پھریں بلکہ ان سے تو گناہ
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٣
نہیں ہوئے وہ تو گناہ سے بچتے رہے ،یہی مطلب ہے کہ ان سے اب گناہ نہیں ہوں گے اوریہ گناہ سے بچے رہیں گے !
کسی کے بارے میں دعویٰ نہیں کیا جاسکتا :
حدیث شریف میں یہ آتا ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ ایک آدمی نے قسم کھا کر یہ کہہ دیا کہ وَاللّٰہِ لَا یَغْفِرُ اللّٰہُ لِفُلاَنٍٍ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ فلاں آدمی کو نہیں بخشیں گے ! یہ جملہ اُس نے کہہ دیا، یہ جملہ کہنا ایسا ہے جیسے اپنے بارے میں پتا چل گیا اسے کہ میں بخشا گیاہوں ! یا وہ(خود) خدا سے بڑی کوئی چیز ہے کہ خدا کی مرضی میں دخل دے رہا ہے، متکبرانہ جملہ ہے بڑائی کا جملہ ہے ! بڑائی اللہ کوپسند نہیں اَلْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمَتَکَبِّرْ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک متکبر ہے ! آپ کسی انسان کو کہیں ''بڑا متکبر ہے ''تووہ خفا بھی ہو جائے گا ! اوراللہ تعالیٰ نے اپنا نام رکھا ہے'' مُتَکَبِّر '' بڑائیوں والا سب سے بڑی عظمتوں والا ! ایک ہی ذات ہے بس جہاں سب ختم ہو جاتے ہیں وہی رہتا ہے ! ! تو ارشادفرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کہ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَتَأَ لّٰی عَلَیَّ یہ کون ہے جو میرے بارے میں قسم کھاکر کہتا ہے کہ میں یہ نہیں کروں گا، یہ جرأت کیسے ہوئی اس کو ! ؟ ناپسند ہے اللہ کو یہ بات ! آدمی دوسرے کو نصیحت توکرسکتا ہے ، گناہ سے روک سکتا ہے اورروکنا فرض ہے نصیحت فرض ہے !
''حقیر '' و '' غیر حقیر '' کا پتہ مرنے کے بعد چلے گا :
مگر اسے یہ سمجھ لینا کہ وہ حقیر ہے یہ جائز نہیں ! کیونکہ حقیر اور غیر حقیر کا پتا تو مرنے کے بعد چلتا ہے وہ تو پتا ابھی ہے ہی نہیں ! کون کدھر جائے گاکدھر نہیں ،کچھ پتا نہیں آخری وقت تک ؟ انسان کو یہی بتایا گیا ہے کہ اپنے ایمان کی سلامتی خدا سے چاہو تو مَنْ ذَا الَّذِیْ یَتَأَ لّٰی عَلَیَّ اَنِّیْ لَا اَغْفِرُ لِفُلانٍ یہ کون ہے جو قسم کھا رہا ہے میرے بارے میں کہ میں فلاں آدمی کو نہیں بخشوں گا ! !
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں قَدْ غَفَرْتُ لِفُلانٍٍ وَاَحْبَطْتُّ عَمَلَکَ ١ اس بندہ سے اللہ نے فرمایا کہ میں نے فلاں کی بخشش کردی جس کے بارے میں تونے قسم کھائی تھی اور تیرا عمل میں نے ساقط کردیا ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٤
اللہ تعالیٰ نے استغفار بتائی ، اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف بتایا، نہی عن المنکر بتایا ،بری بات سے روکو مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا کہ کسی کو کمتر نہیں سمجھ سکتے ذلیل نہیں سمجھ سکتے ! اگر ذہن میں یہ آئے کہ یہ مجھ سے کمتر ہے تو تم کمترہو گئے اس سے ! جب ذہن میں یہ آئے کہ یہ مجھ سے نیچا ہے تو خدا کی نظر میں تم نیچے ہوگئے وہ اُونچا ہو گیا ! تو یہ جائز نہیں ہے ! ! !
کچھ نہ کہنا ،یہ بھی جائز نہیں ہے :
اب اگر کوئی کہے کہ میں توکچھ کہتا ہی نہیں کسی کو بھی ! تو یہ بھی جائز نہیں ہے ! کہنا تو پڑے گا سمجھانا پڑے گا اورطریقہ اختیار کرنا پڑے گا اس کے لیے( بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ) ١ حکمت کے ساتھ اچھے وعظ کے ساتھ، تو یہ طریقہ استعمال کرنا پڑے گا ! تو خداوندکریم نے ہمیں بشارت دی ہے کہ جو استغفار کرے گا میں قبول کروں گا اوراس کے طریقے بتلائے اوراس میں جو خطرات ہوتے ہیں وہ بتلائے ! آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے دین کی تبلیغ میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ، سب کچھ بتلایا !
اللہ تعالیٰ ہم سب کے اگلے اورپچھلے گناہوں کو معاف فرمائے اورآخرت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین ! اختتامی دُعا........................ (مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ اگست ٢٠٠٥ ء )
١ سُورة النحل : ١٢٥




شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php




سیرتِ مبارکہ
نئے میدانِ عمل میں پہلے کام
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
(١) تعمیر ِ مساجد و اقامت ِ صلوة :
( لَمَسْجَد اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ فِیْہِ رِجَال یُّحِبُّونَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ ) ( سُورة التوبة : ١٠٨ )
''البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد اوّل دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ١ اس کی پوری پوری حقدار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو (اور بندگانِ الٰہی تمہارے پیچھے نماز پڑھیں ) اس میں ایسے لوگ (آتے) ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ پاک صاف رہیں اور اللہ تعالیٰ (بھی) پاک صاف رہنے والوں ہی کو پسندکرتا ہے ''
( اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّکٰوةَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰی اُولٰئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِینَ ) (سُورة التوبة : ١٨ )
١ ( اَ وّلِ یَوْمٍ )کے معنی یہی کیے گئے ہیں کہ اَ وَّلُ یَوْمِ وُجُوْدِہ یا اَوّلُ یَوْمِ بِنَائِ ہ یعنی وجودمیں آنے کے پہلے دن سے یا تعمیر کے پہلے دن سے ! لیکن یہاں یہ نکتہ بھی نظر انداز نہ ہونا چاہیے کہ یوم کے معنی دور کے بھی آتے ہیں کما فی قولہ تعالٰی ( خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ ) (المفردات فی غریب القرآن) یعنی ہجرت کے بعد جو دور شروع ہوا اُس کے آغاز میں ! ! اور یہی سبب ہے کہ اس اوّل یوم کو تاریخ یعنی سن ہجری کاپہلا دن مانا گیا ! !
وَاَفَادَ السہیلی اَنَّ الصَّحَابَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اَخَذُوا التَّارِیْخَ مِنْ قَوْلِہِ تَعَالٰی
( لَمَسْجَد اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ ) ( وفاء الوفاء ج ١ ص ١٧٧ )
یعنی صحابہ کرام نے مذکورہ بالا آیت سے ہی استدلال کرتے ہوئے سن ہجری کا آغاز اس دن سے کیاہے
''فی الحقیقت مسجدوں کو آباد کرنے والا تو صرف وہ ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پرایمان لائے، نماز قائم کرے، زکوة ادا کرے اور اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہ مانے، جو لوگ ایسے ہیں ان ہی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہدایت یاب (سعادت اور کامیابی کی راہ پانے والے) ہوں گے''
( وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ ) ١
''نماز قائم کرو، زکوة ادا کرو اور سرِ نیازخم کرو اُن کے ساتھ جو اللہ کی بارگاہ میں سرجھکا رہے ہیں ''
مسجدِ قباء :
قباء کا قیام عارضی تھا مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا کوئی لمحہ اس فرض کی انجام دہی میں صرف نہ ہوتاجس کے لیے وہ خدا کے رسول اور پیامبر بنائے گئے تھے !
اِقامة دین ٢ جو اَنبیاء علیہم السلام کا نصب العین ہوتاہے اس کا پہلا کام ہے اقامة الصلٰوة یعنی ایسا ماحول بنانا اور ایسی جماعت تیار کرناجس کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور جس کے دل کا چین ذکر اللہ ہو ! قباء پہنچ کر سب سے پہلے آپ نے اس فرض کو انجام دیا اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے جو نمبر اوّل میں تحریر کی گئی ہے !
جماعت :
خدا پرستی یعنی خدائِ واحد کی عبادت آپ کی فطرت تھی۔ شب ِمعراج میں خاص نوعیت کی تعلیم دی گئی اور اگلے روز حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نازل ہوکر پانچوں وقت کی نمازوں کی عملی تعلیم بھی دے دی ! دو روز تک پانچوں وقت کی نمازیں پڑھاکر جس طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ارکان اور اوقات ِ نماز کی تعلیم دی(اسی طرح) جماعت اور نماز باجماعت کا طریقہ بھی بتادیا لیکن جب تک
١ سُورة البقرة : ٤٢ ٢ یعنی دین کے منشاء اور مقصد کو صحیح طور سے سمجھنا، اس کے تمام پہلوؤں کا خیال رکھنا اور پوری مستعدی سے اس کو جامہ ٔ عمل پہنانا۔
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم مکہ معظمہ میں رہے تسلسل کے ساتھ نماز باجماعت کا موقع نہیں مل سکا، جہاں اسلام کا نام لینا ہی مشکل تھا وہاں جماعت کا سلسلہ کس طرح قائم ہوسکتا تھا ؟ ؟
مدینہ کے حضرات اسلام سے مشرف ہوئے ان کی تعلیم کے لیے خاص خاص حضرات کو بھیجا گیا، وہاں کچھ حلقے مسلمانوں کے قائم ہوئے تو نمازوں کی جماعتوں کاسلسلہ بھی شروع ہوگیا ! !
اقامت جمعة :
پھر ان حضرات نے اپنے ہی اجتہاد سے ہفتہ میں ایک روز عمومی جماعت کے لیے بھی مقرر کرلیا اور سرورِ کائنات رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ابھی مکہ معظمہ میں تھے کہ نمازِ جمعہ کی فرضیت بھی نازل ہوگئی جس نے حضراتِ صحابہ کے اجتہاد کی تصدیق کردی، صحابہ کرام کا یہ اجتہاد وہ تھا جس پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم فخر کیا کرتے تھے کہ یہود اور نصاریٰ نے ہفتہ میں ایک دن عمومی اجتماع کے لیے مقرر کیا مگر وہ منشاء ِ خداوندی کے مطابق نہیں تھا ، یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس نے ہمیں اس دن کی توفیق بخشی جو منشائِ خداوندی کے عین مطابق تھا ١
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کوئی مسجدتعمیرنہیں ہوئی تھی اور تاریخ ِ اسلام اب تک بجز ایک مسجد کے جو حضرت صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ نے مکہ معظمہ میں اپنے مکان کے سامنے میدان میں بنالی تھی ٢ کسی اور مسجد کی تعمیر سے نا آشنا تھی، کوئی مکان، کوئی میدان یاکسی میدان کا کوئی حصہ نماز کے لیے مقرر کرلیا جاتا تھا وہاں لوگ نماز پڑھ لیا کرتے تھے عموماً بکریوں کے باڑے میں کسی حصہ کو نماز کے لیے مخصوص کر لیا کرتے تھے ورنہ جہاں وقت آتا نماز پڑھ لیا کرتے تھے ٣
١ ھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْھِمْ فَاخْتَلُّوْا فِیْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ لَہ۔ ( صحیح البخاری باب فرض الجمعة ص ١٢٠ )
(ھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْھِمْ) یَعْنِی الْفَرْدَ الْمُنْتَشِرْ الصَّادِقُ بِالْجُمْعَةِ فِیْ حَقِّنَا وَ بِالسَّبْتِ ، وَالْاَحَدِ فِیْ حَقِّھِمْ
( فَاخْتَلُّوْا فِیْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ لَہُ) اَیْ لِھٰذَا الْیَوْمِ کَمَا ھُوْ عِنْدَ اللّٰہِ ۔ (حجة اللّٰہ البالغة ج٢ ص ٢٨)
٢ صحیح البخاری ص ٥٥٣
٣ یہ باڑے رہائشی مکانوں کے قریب ہوتے تھے اور عام لوگ ان ہی باڑوں میں رہا بھی کرتے تھے۔
قباء کا قیام عارضی تھا اس میں اختلاف ہے کہ کتنے روز قیام رہا ! ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف تین روز قیام رہا مگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اس عارضی قیام میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے مسجد کی بنیاد ڈال دی ! ١
کلثوم بن ہدم جو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے میزبان تھے ان ہی کا ایک میدان تھا جس میں کھجور سُکھائے جاتے تھے اسی میدان میں یہ مسجد تعمیر کی گئی !
سب سے پہلے آپ نے پتھر رکھا، دوسرا پتھر حضرت صدیق اکبر اور تیسرا فاروقِ اعظم سے رکھوایا (رضی اللّٰہ عنہم) پھر جملہ صحابہ نے حصہ لیا ! خود ہی مزدور تھے اور خود ہی معمار، مزدوروں میں خود آقائِ دو جہان بھی شامل رہے بھاری بھاری پتھر اُٹھاتے وقت جسم مبارک خم ہوجاتا، مٹی بدنِ اطہر پر پڑتی کوئی صحابی آگے بڑھ کر پتھر لے لیتا تو آپ دوسرا اُٹھا لیتے تھے ! ٢
مسجدکی تعمیر کے ساتھ آداب ِ معاشرت اور اخلاق کی تعمیر بھی ہوئی حتی کہ کلام اللہ شریف میں جب مسجد کا تذکرہ فرمایا تو ساتھ ساتھ اہلِ مسجدکی بھی تحسین فرمائی( فِیْہِ رِجَال یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا )
'' اس میں وہ لوگ ہیں جو محبت کرتے ہیں اس بات سے کہ پاک صاف رہیں ''
پھران کو شرفِ لازوال اور فخرِ دائم یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کا پروانہ بھی عطا ہوگیا
( وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ ) ''اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے''
مسجد مدینة (مسجد النبی) :
قباء سے مدینہ تشریف آوری ہوئی تو جس جگہ ناقہ بیٹھا تھا وہی جگہ مسجدکے لیے منتخب کی گئی ! یہ جگہ ایک میدان کے کنارہ پر تھی، قبیلہ بنی نجار کے حضرات یہاں نماز پڑھا کرتے تھے ٣ زمین کے
١ اُسِّسَ الْمَسْجَدُ الَّذِیْ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی ( صحیح البخاری ص ٥٥٥) وفاء الوفاء کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تکمیل بعد میں ہوئی، مدینہ میں قیام فرمانے کے بعد آپ صحابہ کرام کے ساتھ قباء تشریف لائے اور مسجد کی تعمیر کرائی( وفاء الوفاء ج١ ص ١٧٩ ) ٢ وفاء الوفاء ج١ ص ١٨٠
٣ حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے یہاں ایک دیوار بیت المقدس کے رُخ پر بنادی تھی، یہیں جمعہ کی نماز بھی پڑھایا کرتے تھے، سایہ کی کوئی چیز دیوار پرنہیں تھی( ابن ِسعد ج٢ ص ٢ ) ہماری اصطلاح میں ایسی مسجد کو''قناتی مسجد '' کہتے ہیں عیدگاہیں عموماً ایسی ہی ہوتی ہیں !
مالک یہاں کھجوریں بھی سُکھا لیا کرتے تھے ! میدان کے باقی حصہ میں کھجور کے درخت کھڑے تھے کچھ پرانی قبریں اور کچھ مکانوں کے کھنڈر تھے ، ایک طرف کچھ نشیب تھا وہاں پانی بھر جاتا تھا
اس خرابہ کی قسمت جاگی سید الانبیاء صلی اللہ عليہ وسلم نے اسی کو مسجد کے لیے منتخب فرمایا، یہ طول و عرض میں سوسوگز سے کچھ زائدتھا ! ! ١
سہل اور سُہیل کے والد رافع بن ابی عمرو کا انتقال ہوچکاتھا حضرت اسعد بن زرارہ ان کے مربی تھے ! تحقیق کے بعدمعلوم ہوا کہ یہ میدان ان ہی یتیموں کا تھا۔ انہوں نے چاہا کہ بِلاکسی معاوضہ کے مسجدکے لیے پیش کردیں مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اس طرح کی پیشکش بڑے آدمیوں سے بھی منظور نہیں فرمایا کرتے تھے یتیم بچوں سے کیسے منظور فرمالیتے ٢ آپ کے اصرار کرنے پر یہ مالک ہبہ کرنے کے بجائے فروخت کرنے پرراضی ہوئے، دس دینار قیمت تجویز کی گئی صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ قیمت ادا کر کے زمین مسجدکے لیے وقف کردی ٣
زمین ہموار کی گئی، پانی سینچ دیا گیا، قبروں سے ہڈیاں نکلیں ان کو الگ دبادیاگیا، درخت کٹوائے گئے، بنیاد کھودی گئی، تعمیر شروع ہوئی، یہاں بھی صحابہ کرام ہی مزدور تھے وہ ہی معمار ! سیّدالانبیاء صلی اللہ عليہ وسلم بھی برابر کے شریک تھے ! !
١ ابن ِسعد ج٢ ص ٢
٢ یعنی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کوئی ضرورت ظاہر فرماتے اس پر بطورِ ہدیہ وہ چیز آپ کو پیش کی جاتی تو بطورِ ہدیہ اس کو منظور نہیں فرماتے تھے بلکہ قیمت ادا فرماتے تھے جیسے مکہ معظمہ سے روانگی کے وقت حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک ناقہ پیش کیا آپ نے قیمتاً منظور فرمایا ! البتہ بغیر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی طلب کے کوئی ہدیہ پیش کیا جاتا تو اس کو منظور فرمالیتے تھے !
٣ ابن ِسعد ج٢ ص ٢ ، غزوہ ٔ خیبر کے بعد جب مسجدبڑھائی گئی تو اس کے لیے جو زمین خریدی گئی تھی اُس کی قیمت حضرت عثمان نے ادا فرمائی (ترمذی شریف مناقب عثمان ج٢ ص ٢٠٩ ) مگر اب زمین کی قیمت بہت بڑھ گئی تھی اس ٹکڑے کی قیمت حضرت عثمان نے دس ہزار اور ایک روایت ہے کہ پچیس ہزار ادا کی ہے ( وفاء الوفاء ج١ ص ٢٤١ )
عجیب و غریب پُر تقدس جذیہ سے کام ہورہا تھا، پتھر اُٹھائے جاتے تویہ رجز پڑھا جاتاتھا
ھٰذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَیْبَرَ ھٰذَا اَبَرُّ رَبََّنَا وَ اَطْھَر
''خیبر (جو کھجوروں کی منڈی ہے) وہاں سے بھی بوجھ اُٹھایا جاتا ہے اور لادا جاتا ہے یہ بوجھ اُس جیسا نہیں ہے (بلکہ) اے ہمارے رب توجانتاہے یہ اس سے بہت
اچھا نیکی والا اور بہت پاکیزہ ہے ''
کبھی یہ رجز پڑھا جاتا اور سیّد الانبیاء صلی اللہ عليہ وسلم کی زبان مبارک بھی ساتھ ساتھ ترنم فرما ہوتی تھی
اَللّٰھُمَّ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرَ الْاٰخِرَة فَانْصُرِ الاَنْصَارَ وَ الْمُھَاجِرَة ١
کبھی اس میں یہ ترمیم فرمالیتے
اَللّٰھُمَّ اِنَّ الاَجْرَ اَجْرَ الاٰخِرَة فَارْحَمِ الاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَة ٢
یہ مسجد اگرچہ دوسری ہے مگر اس لحاظ سے اوّلیت اس کوہی حاصل ہے کہ جو آبادی مستقل قیام کے لیے طے فرمائی گئی اس میں پہلی مسجدیہی ہے ! اس بنا پر حسب ارشاد رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم ( لَمَسْجَد اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ ) ٣ کا اصل مصداق یہی ہے کیونکہ قبا صرف نزول گاہ تھا اور جو مستقل قیام گاہ اور قُبَّةُ الْاِسْلَامْ تھا وہ یہی مقام ہے جہاں ناقۂ نبی نے گردن پھیلا دی تھی اور جہاں تُبَّعُ یَمَنْ ٤ نے
١ اے اللہ صرف آخرت کی بھلائی ہی بھلائی ہے، پس مدد فرما اَنصار کی اور مہاجرین کی ( بخاری ص ٥٥٥ و ابن ِسعد ج٢ ص ٢)
٢ اے اللہ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا اجر ہی اجر ہے جو مقصود ومطلوب ہونا چاہیے، پس رحم فرما اَنصار اور مہاجرین پر
٣ سُورة التوبة : ١٠٨
٤ تُبَّعُ بنُ الاَقْرَنْ یمن کا بادشاہ تھا اس کی اولاد میں جو بادشاہ ہوئے ان کو تُبَّعْ ہی کہا گیا ! ان ہی میں سے ایک '' تُبَّعْ '' ایک فوجی مہم کے سلسلہ میں ''یَثْرِبْ'' بھی پہنچاوہ یہاں قتل ِعام کر کے ا س آبادی کو ختم کرنا چاہتا تھا کہ اہلِ علم نے اس کو خبر دی کہ ''نبی آخر الزماں '' کا دَارُالْہِجْرَةْ ہوگا ! وہ متاثر ہوا، برباد کرنے کے ارادہ کو ملتوی کیا اور یہاں ایک مکان تعمیر کرادیا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم جب تشریف لائیں تو یہاں قیام فرمائیں اور ایک تحریر بھی لکھ کر دے دی جو نسلاً بعد نسل محفوظ رہی اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تک پہنچی ! ! (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
سینکڑوں سال پہلے خاتم الانبیاء صلی اللہ عليہ وسلم کے لیے نزول گاہ تعمیر کردیا تھا بس مسجد النبی کی اوّلیت قیام گاہِ مستقل کی اوّلیت ہے ١ اور مسجد قبا کی اوّلیت عارضی قیام گاہ کی اوّلیت ہے ، عارضی اور مستقل میں جو فرق ہونا چاہیے وہ یہاں بھی کارفرما ہے۔
تعمیر :
اُس وقت بیت المقدس کی جانب نماز پڑھی جاتی تھی لہٰذا قبلہ اسی طرف یعنی شمال کی جانب رکھا گیا اس طرف کی دیوار ستر ہاتھ لمبی بنائی گئی دوسری جانب ساٹھ ہاتھ بنیادیں پتھروں سے بھری گئیں ٢




( بقیہ حاشیہ ص ١٥)
٭٭٭
ایک روایت یہ ہے کہ اس تُبَّعْ کا نام اَسعد تھا، کنیت ابوکرب ، اس نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی شان میں دو شعر بھی کہے تھے
شَھِدْتُ عَلٰی اَحْمَدَ اَنَّہُ رَسُوْل مِّنَ اللّٰہِ بَارِی النَّسَم
فَلَوْ مَدَّ عُمْرِیْ اِلٰی عُمْرِہ لَکُنْتُ وَزِیْرًا لَہُ وَ ابْنُ عَمْ
''میں شہادت دیتا ہوں کہ احمد اُس خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہوں گے جو جانوں کا پیدا کرنے والا ہے !
اگر میری عمر اِن کے زمانہ تک دراز ہوگئی تو میں ان کا وزیر بھی ہوں گا (سلسلہ نسب کے لحاظ سے ) ابن عم بھی ''
( معارف ابن قتیبة ص٢١١ ، وفاء الوفاء ج١ ص ١٣٤ )
١ ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آغاز کے لحاظ سے اگرچہ مسجد قباء اَولیٰ ہے کہ اس کی تعمیر پہلے شروع ہوئی لیکن تکمیل کے لحاظ سے مسجد ِمدینہ مقدم ہے ! (ملاحظہ ہو وفاء الوفاء ج١ ص ١٧٩)
٢ یعنی جنوب اور شمال کی دیواریں ستر ستر ہاتھ اور مشرق ومغرب کی دیواریں ساٹھ ساٹھ (وفاء الوفاء ج١ ص ٢٣٨) ایک ہاتھ دو بالشت (وفاء الوفاء ج١ ص ٢٤٢) آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے دورِ مسعود ہی میں غزوۂ خیبر کے بعد مسجد میں توسیع فرمائی تو طول و عرض تقریباً سو سو ہاتھ ہوگیا اور عمارت مربع ہوگئی(وفاء الوفاء ج١ ص ٢٤٣ و ج١ ص ٢٥١
و ج١ ص ٢٥٣) اور اس توسیع کے لیے زمین کی ضرورت تھی تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک اعلان فرمایا کہ کوئی بندۂ خدا اس زمین کو خریدتا ہے اس معاوضہ پر کہ اُس کو جنت میں اس سے اچھا مکان ملے گا ! یہ سعادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی اور انہوں نے فوراً اپنے آپ کو پیش کردیا چنانچہ اس کی قیمت دس ہزار اور ایک روایت کے بموجب پچیس ہزار اپنے پاس سے ادا کی۔ (ترمذی شریف ج ٢ ص ٢١١ ، وفاء الوفاء ج١ ص ٢٤١)
تین ہاتھ کی اُونچائی تک دیواریں بھی اسی پتھر سے چنی گئیں ، ان کے اوپر کچی اینٹوں کی تعمیر کی گئی ١ البتہ دروازوں کے بازو پتھروں کے رہے ٢ ساٹھ ہاتھ (تیس گز) چوڑی چھت کے سہارے کے لیے بیچ میں کھمبے (ستون) کھڑے کیے، تین تین کھمبوں کی دو لائنیں ایک طرف (شرقی جانب میں ) اور دو لائنیں غربی جانب میں ، دونوں لائنوں کے بیچ کا حصہ وسیع رکھا گیا ٣ میدان میں سے جو کھجور کاٹے گئے تھے اُن کے کھمبے اگلی لائن میں لگائے گئے جو قبلہ کی جانب تھی ٤ چھت میں نیچے بلیاں رکھ کر ان کے اُوپرکھجور کے پٹھے (شاخیں جن پر پتے ہوتے ہیں ) پتوں سمیت بچھادیے گئے ان کے اوپر ہلکی ہلکی مٹی پھیلادی گئی اور چھپر کی طرح ڈھلواں رکھی گئی مگرپھر بھی بارش ہوتی تو ٹپکتی تھی ٥
نیچے پختہ فرش نہیں تھا صرف ہموار زمین تھی، پانی ٹپکتا تو کیچڑ ہوجاتی تھی ٦ اسی لیے کچھ دنوں بعد
١ طبقات ابن ِسعد ج٢ ص ٢ ٢ بخاری شریف ص ٦١ ، و فاء الوفاء ص ٢٣٣
٣ وفاء الوفاء ج١ ص ٢٣٨ ، ٢٤٨ ، ٢٥٢ ٤ بخاری شریف ص ٦١ ، وفاء الوفاء ج١ ص ٢٣٣
٥ وفاء الوفاء ج١ ص ٢٤٢ اس عمارت کے لیے کوئی چندہ نہیں کیا گیا، حضرات ِصحابہ نے پیش کرنا چاہا اور درخواست کی کہ باقاعدہ چھت ڈلوادی جائے فرمایا نہیں ۔ اِْبَنْوا لِیْ عَرِیْشًا کَعَرِیْشِ مُوْسٰی ثُمَامَات وَ خُشَیْبَات وَظُّلَّة کَظُلَّةِ مُوْسٰی وَ الاَمْرُ اَعْجَلُ مِنْ ذٰلِکْ یعنی''موسیٰ علیہ السلام کے چھپر کی طرح (یہ چھت ہوگی) کہ نیچے لکڑیاں (بلیاں ) ان کے اوپر پُھونس (پھرفرمایا ) ''انسان کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ عجلت لیے ہوئے (نازک) ہے'' ابن ِسعد ج٢ ص ٢ و فاء الوفاء ج١ ص ٢٤٢
٦ عَنِ ابْن شِہَابٍ کَانَتْ سِوَارِی الْمَسْجِدِ فِیْ عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم جُزُوْعًا مِنْ جُزُوْعِ النَّخْلِ وَکَانَ سَقَفُہُ جَرِیْدًا وَخَوْصًا لَیْسَ عَلَی السَّقَفِ کَثِیْرُ طِیْنٍ ، اِذَا کَانَ الْمَطَرُ اِمْتَلَا الْمَسْجِدُ طِیْنًا ، اِنَّمَا ھُوَ کَھَیْئَةِ الْعَرِیْشِ ( وفاء الوفاء ص ٢٤٢ و ابنِ سعد ج٢ ص ٢ )
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک سال شب ِقدر کے متعلق فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں اس وقت بادل کا نام و نشان نہ تھا مگر دفعةً رات کو بارش ہوئی توواقعی صبح کوپانی اور کیچڑ میں سجدہ کرنا پڑا !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی پیشانی مبارک پربھی مٹی لگی ہوئی تھی ! (بخاری شریف ص ٢٧٠ و فاء الوفاء ص ٢٤٢ )
چھت پر مٹی زیادہ کردی گئی اور فرش پر بھی کنکریاں بچھادی گئیں ١ چھت کی اُونچائی سات ہاتھ (ساڑھے تین گز یعنی ساڑھے دس فٹ ) ٢
تین طرف دروازے رکھے گئے، قبلہ(بیت المقدس ) کی طرف کوئی دروازہ نہیں تھا، جنوب اور مشرق و مغرب کی جانب دروازے تھے ٣ کچھ دنوں بعد جب بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا (جو مدینہ سے جنوب کی جانب ہے) تو اس طرف کی دیوار کا دروازہ بند کردیا گیا اور جانب ِشمال کی دیوار جو پہلے دیوارِ قبلہ تھی اس طرف دروازہ کھول دیا گیا ٤ اور اسی دیوار سے متصل وہ سائبان بنادیا گیا جو صفہ کہلاتا تھا ٥ جو اُن صحابہ کا مسکن تھا جن کے اہل وعیال نہیں ہوتے تھے اور تعلیم، روحانی تربیت نیز رضا کارانہ خدمات کی غرض سے یہاں رہا کرتے تھے ! معاش کے لیے دن کو لکڑیاں چن لیتے تھے
مگر رات کی تاریکی میں تلاوتِ قرآن اور نوافل کے قندیل روشن رکھتے تھے ! ! ٦
١ وفاء الوفاء ج١ ص ٤٧٢ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے دورِ خلافت میں مسجد کی تعمیر کرائی تو فرش باقاعدہ کنکریوں کا کرادیا۔ (وفاء الوفاء ج١ ص ٤٧٣ )
٢ وفاء الوفاء ج١ ص ٢٣٩ اور ایک روایت یہ بھی ہے کہ اُونچائی صرف پانچ ہاتھ تھی یعنی ڈھائی گز ! اس کی تائید حضرت حسن بصری کے قول سے ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ'' عریش موسیٰ کی بلندی اتنی تھی کہ اگر کھڑے ہوکر ہاتھ اُونچا کرتے توچھپر کو لگ جاتا تھا'' ( وفاء الوفاء ص ٢٤٢ )
مگر بظاہر سات ہاتھ والی روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک مرتبہ تعلیم کی غرض سے منبر پر کھڑے ہوکر نماز پڑھی تھی (بخاری شریف ص ٥٥ و ١٢٥) صرف پانچ ہاتھ کی بلندی پر اس طرح نماز پڑھنا مشکل تھا اس کے علاوہ اسی مسجد میں کھجور کے گپھے (خوشے) بھی اصحابِ صفہ کے لیے لٹکا دیے جاتے تھے (بخاری شریف ص ٦٠ و فتح الباری و نسائی قولہ عزوجل ( وَلَا تَیَمَّمُ الْخَبِیْثَ مِنْہُ) ص ٣٤٥ مجتبائی) اس سے بھی سات ہاتھ کی بلندی کی تائیدہوتی ہے ! باقی عریشِ موسیٰ کی تشبیہ کا مقصد یہ ہے کہ چھت عام قاعدہ کے مطابق نہیں تھی، بہت نیچی تھی اور حقیقت یہی ہے کہ اتنے طویل و عریض ہال کے لیے سات ہاتھ کی چھت بہت نیچی مانی جاتی ہے واللّٰہ اعلم بالصواب
٣ وفاء الوفاء ج١ ص ٢٤٠ و ابن سعد ج٢ ص ٢ ٤ وفاء الوفاء ج١ ص ٢٤٠
٥ وفاء الوفاء ج١ ص ٢٦٢ ان حضرات کو مسجد ہی میں سونے کی اجازت تھی( ابن ِسعد ج ٢ ص ١٣ وبخاری ص ٦٣)
٦ بخاری شریف ص ٥٨٦
ابتدا میں منبر نہیں تھا تو ایک ستون کے برابر میں مٹی کی چوکی (چبوتری) بنادی گئی تھی ١ آقائِ دو جہاں صلی اللہ عليہ وسلم اسی پر رونق افروز ہوکر خطاب فرمایا کرتے تھے اور ستون پر سہارا لگا لیا کرتے تھے ٢
١ منبرمن طین وفاء الوفاء ص ٢٨١ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم صحابہ میں بِلا امتیاز کے تشریف فرماہوتے تھے کوئی اجنبی آتا تو اس کو معلوم نہ ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کون سے ہیں ؟ تو ہم نے چاہا کہ آپ کے لیے ایک نشست کی جگہ بنادیں کہ کوئی اجنبی بھی آئے تو اُسے معلوم ہوجائے لہٰذا ہم نے ایک دکان (چبوترہ) بنادیا مٹی کا، آپ اس پر تشریف رکھا کرتے تھے ( فتح الباری ص ٩٥ تحت قول بَارِزًا یَوْمًا لِلنَّاسِ حدیث جبرائیل باب سوال جبریل)
٢ ایک خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم میرا غلام بڑھئی (نجار) ہے اگر آپ اجازت دیں تو میں اس سے ایسی چیز بنوادُوں جس پر آپ آرام سے تشریف رکھیں ، پیچھے تکیہ بھی لگالیں اور خطاب کے وقت زحمت نہ ہو ! !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کی اس عرضدداشت پر کوئی التفات نہیں فرمایا لیکن جب مجمع زیادہ ہونے لگا تو حضراتِ صحابہ نے بھی محسوس کیا کہ اس طرح خطاب فرمانے میں زحمت ہوتی ہے تو کوئی ایسی چیز بنادی جائے کہ آپ اس پر تکیہ بھی لگاسکیں
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے بھی صحابہ کا مشورہ منظور فرمایا۔ (وفاء الوفاء ج١ ص ٢٧٨) تو اسی خاتون سے فرمائش کی (بخاری ص ٦٤ و ص ١٢٥) چنانچہ جنگل سے جو غابة کے نام سے مشہور تھا جھاؤ کی لکڑی لائی گئی اور یہ چیز بنوئی گئی جس کو منبر کہا گیا جس کے کل تین درجے تھے یعنی دو سیڑھیاں جو ایک ایک بالشت گہری تھیں ، تیسرا حصہ جس سے پیٹھ لگائی جاسکتی تھی دو بالشت تھا اس طرح کل طول چار بالشت تھا (دو ہاتھ) اور چوڑائی میں سوا دو با لشت ! (وفاء الوفاء ج١ ص ٢٨٤)
اس منبر کو دیوارِ قبلہ سے کچھ ہٹا کر رکھا گیا دیوار اور منبر کے درمیان سے بکری گزر سکتی تھی ! (بخاری شریف ص ٧١)
یعنی ایک ہاتھ سے کچھ زائد کہ آدمی بھی آڑا ہوکر نکل سکتاتھا (وفاء الوفاء ج١ ص ٢٩٠) اس طرح منبر کے کنارے سے لے کر دیوار تک تقریبًا سو ا تین ہاتھ (ڈیڑھ گز ) کا فاصلہ ہوتا تھا۔ یہیں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے یعنی آپ کے مصلے شریف کا طول تقریباً سوا تین ہاتھ تھا (جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک مرتبہ خانہ کعبہ کے اندر نفلیں پڑھی تھیں تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی روایت یہ ہے کہ آپ سامنے کی دیوار سے تقریبًا تین ہاتھ کے فاصلہ پرکھڑے ہوئے تھے (وفاء الوفاء ج١ ص ٢٧١ و بخاری شریف ص ٧٢ ) چنانچہ علماء نے یہی مستحب قرار دیا ہے کہ سترہ یا دیوار اور نمازی کے قدموں کے درمیان صرف اتنا ہی فاصلہ رہنا چاہیے کہ سجدہ ہوسکے ! (یعنی تقریبًا ڈیڑھ گز ) ( سُنن ابوداود باب الدنو من السترة)
گریہ حنانة :
وہ کھجور کا تنہ (کھمبا) جس کی برابر مٹی کی چبوتری پر تشریف فرماہوکر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم خطاب فرمایا کرتے تھے، سیّد الانبیاء محبوب ربُ العالمین نے جب اس سے الگ منبر پر رونق افروز ہوکر خطاب فرمایا اور اس وجہ سے وہ کھمبا آپ کے پُر تقدس قرب اور ذکر اللہ کی رُوح پر ور وجاں بخش آواز سے محروم ہوگیا تو قدرت کے ایک عجیب وغریب کرشمہ نے اہلِ ایمان کے ایمان کو تازہ اور عقل پرستوں کے توہمات کو حیرت زدہ کردیا ! حضراتِ صحابہ نے اسی بے حس و حرکت اور بے جان سوکھے کھمبے سے ایک رِقت انگیز آواز سنی جس سے کلیجہ پھٹا جاتا تھا ١ کچھ ایسی آواز تھی جیسے اُونٹنی اپنے بچہ کی یاد میں بلباتی ہے ٢ رحمت للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم نے ستون کا یہ درد انگیز گریہ سنا تو منبر سے اُتر کر کھمبے کے پاس تشریف لائے اس پر دست ِمبارک رکھا تب یہ کھمبا بچوں کی طرح ہچکیاں لیتا ہوا آہستہ آہستہ خاموش ہوا ٣ رحمت ِ عالم جانِ جہاں نے اس سوختہ دل ،فراق زدہ کی مزید دلداری فرماتے ہوئے فرمایا :
کیا چاہتے ہو ؟ اس مسجد میں اسی جگہ تم پھلدار ہوجاؤ یا جنت کا حصہ چاہتے ہو جہاں تمہارا پھل اہلِ جنت تناول کریں ؟ اس نے دارِ بقاء کو دارِ فنا پر ترجیح دی ! ! گویا اس بے زبان نے زبانِ درد سے عرض کیا
( وَالْاٰخِرَةُ خَیْر وَّ اَبْقٰی ) چنانچہ اس کھمبے کو مسجد کے فرش خام میں منبر کے قریب اس جگہ دبادیا گیا جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے :
مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَ مِنْبَرِیْ رَوْضَة مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ ٤
حجرات اُمہات المومنین :
مسجد کی تعمیر سے فراغت ہوئی تو مسجد سے متصل ہی ازواجِ مطہرات کے لیے مکان بنوائے اس وقت تک حضرتِ سودہ اور حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہما نکاح میں آچکی تھیں اس لیے دو ہی حجرے بنوائے جب اور ازواجِ مطہرات آتی گئیں تو اور مکانات بنتے گئے ! ! ٥
١ صحیح البخاری ج١ ص ٢٨١ ٢ صحیح البخاری ص ٥٠٧ ٣ صحیح البخاری ص ١٢٥ ، ٢٨١
٤ وفاء الوفاء ص ١٧٦ و خصائص الکبرٰی باب حنین الجذع ٢/ ٧٥ ٥ وفاء الوفاء ج١ ص ٣٢٥
مسجد سے متصل حضرت حارثہ بن نعمان کی جائیداد تھی ہر ایک مکان کے لیے وہی اپنی جائیداد کا ٹکڑا پیش کرتے رہے یہاں تک کہ تمام جائیداد محبوب ربُ العالمین صلی اللہ عليہ وسلم کے نذر کردی ! ! ١
مسجد کی طرح چار حجرے بھی کچی اینٹوں کے تھے، اُوپر کھجور کے پٹھوں اور پتوں کی چھت چھوٹے سے صحن کے گرد کھجور کی کھپچیوں (پٹھوں ) کی دیواریں جن پر مٹی لِھیس دی گئی ٢
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کا ایک کواڑ تھا ٣ باقی کے دروازوں پر ٹٹیاں تھیں پانچ حجرے ایسے بنائے گئے کہ ان میں کچی اینٹیں بھی نہیں لگائی گئیں بلکہ ٹٹیاں کھڑی کر کے ان پر مٹی لھیس دی گئی اور اوپر کھجور کے پٹھوں اور پتوں کی ہلکی سی چھت ڈال دی گئی، ان کے دروازوں پر نہ ٹٹیاں تھیں نہ کواڑ بلکہ ٹاٹ یا کمبل کے پردے پڑے رہتے تھے جو طول میں تین ہاتھ اور عرض میں ایک ہاتھ سے کچھ زائد تھے ٤ چھتیں ایسی نیچی کہ حضرت حسن بصری کا بیان ہے کہ حضرت عثمان کی خلافت کا دور تھا، جب میں ذرا بڑا ہوگیا تھا میں ان حجروں میں جاتا تو کھڑے ہوکر اُن حجروں کی چھتوں کو ہاتھ لگالیا کرتا تھا ٥ رات کو گھروں میں چراغ جلانے کا رواج نہیں تھا ٦ لہٰذا ان حجروں میں رات کو صرف نورِ حق کی روشنی رہتی تھی ! !
١ وفاء الوفاء ج١ ص ٣٢٧ روایت میں منزل کا لفظ ہے کَانَتْ لِحَارِثَةَ بْنِ نُعمَانَ مَنَازِلُ قُربَ المَسْجِدِ
(کہ حضرت حارثہ کے مکانات مسجد کے قریب تھے اور جب ضرورت پیش آتی تو حضرت حارثہ ایک مکان نذر کردیا کرتے تھے) مگر چونکہ یہ بھی ثابت ہے کہ ہر ایک زوجہ کے لیے حجرہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے بنوایا تو منزل سے مراد منزل کی جگہ ہوگی بنا بنایا مکان مراد نہیں واللّٰہ اعلم بالصواب
٢ کَانَتْ بُیُوتًا مِنْ لَبِنٍ وَلَھَا حَجَر مِنْ جَرِیْدٍ مَطْرُوْرَةٍ بِالطِّیْنِ( ابنِ سعد ص ١٨١ الجزء الاوّل من القسم الثانی طبقات ابن سعد ص ٤٣٨
٣ عرعر یا ساج کی لکڑی کا ( وفاء الوفاء ج١ ص ٣٢٥ )
٤ طبقات الجزء ا الاوّل من القسم الثانی ص ١٨١
٥ طبقات ج ١ ص ١٨٤ ٦ صحیح البخاری ج١ ص ٥٦
٨٧ھ میں اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک ١ نے مسجد نبوی (عَلٰی صَاحِبِہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ) کی توسیع کی تو ان مبارک حجروں کو مسجد میں شامل کر لیا !
ابواُمامة حضرت سہیل بن حنیف فرمایا کرتے تھے کاش ان حجروں کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا کہ لوگ دیکھتے کہ جس نبی کے دست ِ مبارک پرتمام خزانوں کی کنجیاں رکھ دی گئی تھیں اُس نے خود اپنے لیے کیا پسند کیا تھا ٢
صُفّة و اصحابِ صُفّة :
پہلے گزر چکا ہے کہ تبدیلی ٔ قبلہ کے بعد جب نماز جنوب کی جانب رُخ کر کے پڑھی جانے لگی تو اس طرف کی دیوار میں جو دروازہ تھا وہ بند کردیا گیا اور پہلی دیوار قبلہ (شمالی دیوار) میں دروازہ
١ متوفٰی ٩٦ھ ظالم خلیفہ مانا گیا ہے مگر ابنِ اَبِی عیلة کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ ولیدپر رحم فرمائے اس کے کچھ کارنامے بہت شاندار ہیں مثلاً مسجد ِ نبوی کی توسیع نیزجامع دمشق کی تعمیر ! اسی کے زمانہ میں اُندلس (اسپین) فتح ہوا !
نیز ہندوستان میں فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا ! چنانچہ دِ یبل (موجودہ کراچی) اسی کے زمانہ میں فتح ہوا ! مجھے وہ چاندی کے بادیے(پیالے) دیا کرتا تھا کہ میں بیت المقدس کے فقیروں میں جاکر تقسیم کردوں (تاریخ الخلفاء ص ١٥٦)
دیبل سندھ، جنوبی پاکستان کا ایک قدیم شہر ہے وہاں سے اسلام جنوبی ایشیا میں داخل ہوا اور اب یہ شہر کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے ! اَلاِدْرِیْسِی نُزْہَتُ الْمُشْتَاقِ فِیْ اُفُقٍ میں داخل ہونے کے بارے میں کہتے ہیں وہ مدینہ کے مقام کے بارے میں کہتے ہیں کہ الدِیْبَلْ اور مَہْرَانُ الاَعْظَمْ کے درمیان اس کے مغرب کی طرف چھ میل کا فاصلہ ہے۔
٢ ان جھونپڑیوں اور چھپروں کے تنکوں کو اہلِ مدینہ رگ ِ جان سمجھتے تھے جب ولیدکا حکم پہنچا کہ ان کو مسجد میں شامل کیا جائے تو اہلِ مدینہ بیتاب ہوگئے اور کچھ اس طرح تڑپ کر روئے کہ کبھی کسی کو اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا گیا تھا ،نہ کبھی اتنے زیادہ لوگوں کو روتے ہوئے دیکھا تھا ! حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور دوسرے اکابر تابعین نے بھی اسی جذبہ کا اظہار فرمایا ! (ابن ِسعد ج٢ ص ١٨١ ، وفاء الوفاء ج١ ص ٣٢٧ )
کھول دیا گیا اس سے متصل چبوترہ بنادیا گیا اور اس پر سائبان ڈال دیا گیا اسی کو'' صُفَّة '' کہا جاتا تھا ١
نادار مسلمان جن کے اہل و عیال نہیں ہوتے تھے ان کا مسکن یہی ہوتا تھا، توکل ان کا سرمایہ ہوتا تھا، سوال کرنا ممنوع ٢ ، تعلیم ،روحانی تربیت اور رضا کارانہ خدمات ان کے فرائض اور مشاغل ہوتے تھے
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر اصحاب ِصفہ کو دیکھا کہ ان کے پاس چادر تک نہ تھی
١ قال عیاض : الصُفّة بِضَمِّ الصَّادِ وَ تَشْدِیْدِ الْفَائِ ظُلَّة فِیْ مُؤَخَّرِ مَسْجِدِ النَّبِیِّ یَا وِیْ اِلَیْھَا الْمَسَاکِیْنُ
وفاء الوفاء ج١ ص ٣٢١
٢ اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک دلچسپ واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے، آپ نے فرمایا قسم ہے
اُس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ میں بھوک کی وجہ سے اپنے جگر کو زمین پر ٹیک دیا کرتا تھا (پیٹ کو زمین سے چمٹا دیا کرتا تھا) اور میں بھوک کی وجہ سے پتھر پیٹ پر باندھ لیا کرتا تھا ! !
ایک روز سرِ راہ جاکر بیٹھ گیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس طرف سے گزرے (سوال کرنا ممنوع تھا )تو میں نے (ایک لطیف طریقہ اختیار کیا کہ) ایک آیت دریافت کر لی ! (کہ جب میری طرف متوجہ ہوں تو شاید میرے فاقہ کا بھی ان کو اندازہ ہوجائے اور مجھے لے جا کر کھانا کھلادیں ) مگر حضرت ابوبکر نے وہ آیت بتادی اور تشریف لے گئے !
پھر عمرفاروق رضی اللہ عنہ تشریف لائے میں نے ان سے بھی آیت دریافت کی ! حضرت عمر نے بھی آیت بتادی اور روانہ ہوگئے ! اس کے بعد وہ آئے جن کی کنیت ابو القاسم تھی (جن کی شان ہی یہ تھی کہ وہ خیروبرکت کے قاسم (تقسیم کرنے والے، فطرتِ انسان کے نبض شناس تھے) آپ نے جیسے ہی نظر ڈالی آپ پہچان گئے ! مجھ سے فرمایا ساتھ آؤ، میں ساتھ ہولیا،آپ مکان پرتشریف لے گئے وہاں ایک قَدَحْ (بادیہ) میں دودھ رکھاہوا تھاجو کسی نے ہدیہ میں بھیجا تھا، آپ نے فرمایا ابو ہریرہ اصحابِ صفہ کو بلاؤ ! آپ کا یہ حکم میرے نفس پر شاق گزرا کہ تھوڑا سا دودھ جس کو میں تنہاپی سکتا ہوں اس کے لیے اصحابِ صفہ کو بلایا جا رہا ہے ! پھر مجھ سے ہی کہا جائے گا کہ پلاؤ ! یہ وسوسہ ذہن میں آرہا تھا ! مگر مجبور تھا تعمیل حکم کرنی تھی ! چنانچہ اصحابِ صفہ آئے، مجھے حکم ہوا، میں نے یکے بعد دیگرے ہر ایک کو دودھ پلایا، جب سب کو پلا چکا تومجھے حکم ہوا کہ تم پیو، میں نے پیا، فرمایا اور پیو ! پھر پیا فرمایا اور پیو ! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اب بالکل گنجائش نہیں رہی ! تب آپ نے یہ بادیہ خود لیا اور بسم اللہ پڑھ کر باقی کو نوش فرمایا ( بخاری ٢/ ٩٥٥ )
فقط تہبند تھا یا صرف کمبل جس کو اپنی گردنوں میں باندھ لیتے تھے ،کمبل بھی اس قدر چھوٹا کہ کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا ، کسی کے ٹخنوں تک ! نماز میں ستر کھلنے کا خطرہ رہتاتو ہاتھ سے تھامے رکھتے تھے ! ١
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس کھانے کی چیز صدقہ میں آتی تو ان کو دے دیتے، خود تناول نہیں فرماتے تھے
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس کھانے کی چیز صدقہ میں آتی تو ان کو دے دیتے، خود تناول نہیں فرماتے تھے کیونکہ صدقہ آپ کے لیے حرام تھا ٢ جو چیز بطورِ ہدیہ آتی تو ان کو بلالیتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ٣
یہ حضرات فاقہ سے نہیں گھبراتے تھے ! کیونکہ خود اپنے آقا ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کو دیکھتے کہ کئی کئی وقت گزرجاتے اور فاقہ نہیں ٹوٹتا ! بھوک سے کبھی اتنا ضعف ہوجاتا کہ نماز کی حالت میں گر پڑتے ! لوگوں کو خیال ہوتا کہ دورہ پڑگیا ہے حالانکہ دورہ فاقہ کا ہوتا تھا ! ! ٤
کبھی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ان کو انصار پر تقسیم فرمادیتے کہ اپنے مقدور کے بموجب ہر شخص ایک ایک دو دو کو لے جائے اور اپنے ساتھ ان کو کھانا کھلائے ! ! ٥
١ صحیح البخاری ج١ ص ٦٣ و فتح الباری ج١ ص ٤٢٦
٢ یہ مطلب نہیں کہ وہ کوئی گندی یا ناپاک چیز تھی بلکہ قیامت تک کے لیے آپ اور آپ کے اہلِ بیت کے لیے بطورِ امتحان اور آزمائش ایسا کیا گیا ! واللہ اعلم نیز آپ اور آپ کے اہلِ بیت کو اللہ تعالیٰ نے دینے والا بنایا لینے والا نہیں بنایا ، زکوة دینے والا ہوگا تو لینے والے کی بَر آئے گی ورنہ..............مالدار آدمی پر زکوة اور خیرات اس لیے حرام ہے کہ وہ کسی اور کا حق ہے اس لیے نہیں کہ وہ ناپاک یا گندی چیز ہے۔ محمود میاں غفرلہ
٣ سُنن الترمذی باب فی معیشة اصحابہ النبی صلی اللہ عليہ وسلم ج٢ ص ٥٩ ٤ ایضًا
٥ یہ بھی صورت ہوتی کہ آپ فرمایا دیتے کہ جن کے یہاں دو کھانے والے ہوں وہ تیسرے کو لے جائے اور جس کے یہاں کھانے والے چار ہوں وہ دو کو لے جائے اور ساتھ کھانا کھلائے ! ایک روز آپ نے اسی طرح اصحابِ صفہ کو تقسیم فرمادیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہاں چا ر کھانے والے تھے خود حضرت ابوبکر، ان کے صاحبزادے اور اہلیہ اور ایک خادم مگر آپ اپنے ساتھ تین کو لے گئے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سات اصحاب کو لے گئے ! (بخاری شریف ص ٨٤ و ٥٠٦ وغیرہ)
مسجد مبارک کے دوستونوں میں ایک رسی بندھی رہتی تھی، کھجوروں کے موسم میں حضراتِ انصار کھجورں کے گپھے (خوشے) اپنے باغات سے لاکر لٹکا دیتے تھے جو کھجور پک جاتا اُس کو لکڑی سے جھاڑ کر کھا لیا کرتے تھے ١ ان بہادر وجاں باز فقراء اور درویشانِ باوقار کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم بشارت دیا کرتے تھے
لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَالَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ لَاَحْبَبْتُمْ اَنْ تَزْدَادُوْا فَقْرًا وَحَاجَةً ٢
''اگر تم جان جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں تمہارے لیے کیا تیار ہے تو تم آرزو کرو کہ ہمارا یہ فقروفاقہ اور بڑھ جائے'' ان حضرات کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی تھی ٣
نمازِجنازہ کی جگہ :
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تو جس کسی بیمار کی نزعی کیفیت ہوتی (مرنے کے قریب ہوتا) تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو اطلاع دی جاتی آپ تشریف لاتے اس کے لیے دعا فرماتے وہ شخص وفات پاجاتا تو اکثر ایسا ہوتا کہ تجہیز وتکفین آپ کے سامنے ہی ہوتی اور آپ دفن کے وقت وہاں رہتے ! اس میں آپ کو بہت دیر ہوجاتی تھی اس کا ہمیں احساس ہوا ! تو ہم نے یہ کر لیا کہ وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو اطلاع دیتے آپ تشریف لاتے نمازِ جنازہ پڑھاتے پھر کبھی واپس تشریف لے جاتے اور کبھی دفن ہونے تک وہاں تشریف رکھتے ! !
١ وفاء الوفاء ج١ ص ٣٢٤
٢ وفاء الوفاء ج١ ص ٣٢٢ و سُنن ترمذی باب فی معیشة اصحاب النبی صلی اللہ عليہ وسلم ج٢ ص ٥٩
٣ عارف سہروردی نے عوارف میں لکھا ہے کہ اصحابِ صفہ کی تعداد چار سو تک پہنچتی ہے ! حافظ ابونُعیم نے
حِلْیَةُ الاَوْلِیَاء میں سب کا تذکرہ کردیا ہے ( فتح الباری ج١١ ص ٢١٥)
علامہ شاطبی نے بہت دلچسپ بحث کی ہے کہ'' صُفَّة'' سے ''خانقاہ'' پر استدلال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان حضرات کا یہ قیام اور یہ قیام گاہ ضرورت کی بناپر تھا یہ کوئی مستقل ادارہ نہیں تھا ( الاعتصام )
پھر ہمیں محسوس ہوا کہ آپ کو اس میں بھی زحمت ہوتی ہے تو یہ طے کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو تکلیف نہ دی جائے گی بلکہ جنازہ لے کر خود آپ کی خدمت میں پہنچ جایا کریں گے ! چنانچہ اس پر عمل ہوا جب جنازہ لے کر کاشانۂ نبوت پر پہنچتے تو قریب ہی ایک جگہ تھی وہاں آپ نماز پڑھاتے ! پھر یہی معمول ہوگیا کہ اسی خاص جگہ پر نمازِ جنازہ پڑھائی جاتی تھی حتی کہ اس جگہ کا نام ہی مَوْضَعُ الْجَنَائِزْ پڑگیا ١
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٢٠ تا ٤٣٦ )
(جاری ہے)




شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1




١ طبقات ابن ِسعد ص ١٤ جلد اوّل قسم ثانی۔ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا معمول یہی تھا کہ مَوْضَعُ الْجَنَائِزْ میں نماز پڑھایا کرتے تھے جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے باب الصلٰوة علی الجنائز بالمصلی و المسجد میں پیش کی ہیں ۔ (ص١٧٧ )
مگر بعض مرتبہ کسی عارض کی وجہ سے مسجد میں بھی نماز پڑھ لی ہے (فتح الباری ج٣ ص ١٥٥ باب مذکور)
اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کا مذہب یہ ہے کہ کسی خاص ضرورت کے بغیر مسجد میں نمازِ جنازہ مکروہ ہے ! ! البتہ امام شافعی رحمہ اللہ جائز قرار دیتے ہیں ! ! واللّٰہ اعلم بالصواب




روزہ ....... تزکیۂ نفس
( قطب عالم حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب )
٭٭٭
قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ) ١
'' اے ایمان والو ! حکم ہوا تم پر روزے کا جیسے حکم ہوا تھا تم سے اگلوں پر !
شاید تم پرہیزگار ہو جائو ، کئی دن ہیں گنتی کے''
روزہ کی تعریف :
روزے کے لغوی معنی'' رکنے'' کے ہیں اور اصطلاحِ شرع میں ،صبح صادق سے لے کر غروب ِآفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے نیت کے ساتھ رکنے کو روزہ کہتے ہیں !
پچھلی اُمتوں سے مراد یہود و نصاری ہیں چنانچہ روزہ شریعت ِ موسوی کا با ضابطہ ایک اہم اور مشہور جزو ہے اگر چہ مشرکین بھی کسی نہ کسی صورت میں روزہ رکھتے ہیں لیکن اُن کے روزے ناقص، ادھورے اور برائے نام ہیں اور اب شریعت ِ موسویہ کے حاملین کے یہاں بھی روزے کی ادائیگی میں تقصیر ہونے لگی ٢ ان کے روزوں کی حقیقت اتنی ہے کہ وہ یا تو کسی بلا کو دفعہ کرنے کے لیے رکھتے ہیں یا کسی فوری اور مخصوص روحانی کیفیت کے حاصل کرنے کے لیے ! ! یہود کی قاموسِ اعظم میں ہے کہ
'' قدیم زمانہ میں روزہ یا تو بطور ِ علامت ِ ماتم رکھا جا تا تھا یا جب کوئی خطرہ در پیش ہوتا تھا اور یا پھر جب سالک اپنے اندر الہامات کی قبولیت کی استعداد پیدا کرنا چاہتا تھا ''
روزہ کا مقصد :
لیکن شریعت ِ مطہرہ کی نظر میں روزہ تزکیۂ نفس، تربیت جسم اور تعمیل حکم ِ خدا وندی کا ایک بہترین دستور عمل ہے اس لیے ارشاد ہوا ( لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) تاکہ تم تقوی اختیار کرو یعنی اسلامی روزہ کی
١ سُورة البقرة : ١٨٣ ،١٨٤ ٢ کوتاہی
غرض و غایت تقویٰ ہے روزہ سے تقوے کی عادت پڑتی ہے ! روزہ میں انسان خدا کے حکم کی وجہ سے کھانے پینے سے باز رہتا ہے تو گویا خدا کی یاد بھی دل میں صبح سے شام تک رہتی ہے اور اس سے تقوے کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے !
شریعت ِ مطہرہ نے عبادت اور کارو بارِ حیات یکساں طور پر قائم رکھنے کا طریقہ بتلایا ہے ! اس لیے روزہ میں کارو بار کی ممانعت نہیں فرمائی گئی ! نہ ہی روزہ ہمیشہ رکھنے کا حکم دیا گیا ! بلکہ سال میں گنے چنے صرف اُنتیس یاتیس دن روزہ رکھنا بتلایا گیا ہے اس لیے ( اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ )ارشاد فرمایا گیا
فرضیت ؟
اس آیت مبارکہ میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ اس امت پر ایسے ہی فرض کیا گیا ہے جیسے پچھلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا،آیت کے آخر میں اس کا فائدہ اور اس کی غرض وغایت بھی ذکر فرمائی گئی ہے کہ وہ حصول کیفیت ِتقویٰ ہے !
تقویٰ ؟
تقویٰ در اصل دل کی اُس کیفیت کا نام ہے جو ذکر الٰہی کی کثرت کے باعث حاصل ہوتی ہے کہ جب دل میں ہر وقت خدا وند ِقدوس کی یاد رہنے لگتی ہے تو اللہ کی ذاتِ پاک سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے اور یہ تعلق انسان کی طبیعت کو نیکی کر نے کے لیے اُبھارتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور چونکہ متقی انسان خدا کی نافرمانی سے ڈرتا ہے اس لیے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ خدا سے ڈرنے کا نام'' تقویٰ '' ہے مگر یہ تشریح یا ترجمہ ناتمام ہے کیونکہ شریعت میں خدا سے محض ڈرنا نہیں بتلایا گیا بلکہ اس سے امید رکھنی اور اُس کی رحمت پر نظر رکھنی اور اس سے دعاء مانگنی بھی سکھائی گئی ہے اور مایوسی کفر قرار دی گئی ہے گویا خدا سے ڈرنا ایسا نہیں ہوتا جیسے کسی ظالم بادشاہ یا شیر سے ہو، کیونکہ اس میں نفع کی امید نہیں ہوتی اور نقصان کا ڈر ہی ڈر ہوتا ہے ! اس کے برخلاف حق تعالیٰ سے ''امید'' و ''خوف'' دونوں ہی قائم رکھنے بتلائے گئے ہیں ! اس لیے تقویٰ میں ڈرنے کے ساتھ اُمید بھی ہوتی ہے ! ! !
جلال و جمال :
قرآنِ پاک میں حق تعالیٰ کی صفات رحمت و رأفت ،مودّت و مغفرت وغیرہ جابجا اور بار بار ذکر فرمائی گئی ہیں ! اور ساتھ ہی وہ صفات بھی ذکر فرمائی گئیں ہیں جن میں اُس کا غالب و قاہر ہونا ظاہر کیا گیا ہے مثلاً ارشاد ہوا
( حٰم تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ غَافِرِ الذَّنْبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا ہُوَ اِِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ) ١
اس آیت مبارکہ میں صفاتِ جلالیہ وجمالیہ دونوں ہی جمع فرمادی گئی ہیں ! ایک مومن جب ذکر الٰہی کی کثرت کرتا ہے تو اُس کا دل صفات ِ جلالیہ و جمالیہ کا مَوْرَدْ بن جاتا ہے ٢ پھر جو کیفیت حاصل ہوتی ہے اس کانام'' تقویٰ'' ہے ! روزہ میں انسان اللہ تعالیٰ سے صحیح معنی میں ڈرتا ہے اور اس کی تکمیل پر اسے مجبور کرنے والی چیز صرف اس کا ایمان ہوتاہے ! ورنہ دن میں تنہائی کے ایسے مواقع میسر آتے رہتے ہیں جن میں وہ روزہ توڑ سکتا ہے ! لیکن اس کاا یمان ،گرمی اور شدتِ پیاس کے وقت بھی اسے ایسا کرنے سے باز رکھتا ہے ! یہ حالت مسلسل تیس دن رہتی ہے ! جو یقینا اس کے ایمان کو عظیم قوت بخشتی ہے اور حصول تقویٰ کی طرف قدم بقدم لے چلتی ہے ! ! اس سے اس کا ایمان وتقویٰ بڑھتا ہے اس کے مزاج میں صبر و تحمل محنت و مشقت جیسی صفات پیدا ہوجاتی ہیں ! ''قوت ِ ارادی'' جو بہت قیمتی جو ہر ہے روزہ میں تقویٰ کی بدولت ہر روز ایک امتحان سے گزرتی ہے ! ایک متقی مسلمان یہ سب کچھ صرف اس لیے کرتا ہے کہ اسے خدا وند ِکریم کی خوشنودی اور رضاء مطلوب ہوتی ہے اس کے سوا محض ریاضت اس کا ہر گز مقصود نہیں ہوتی !
روزہ اور غیبت :
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہورہا ہے کہ روزہ ایک فرض عبادت ہے جس کی روح نیک نیتی ہے اور اس کے بعد نیک اعمال ہیں ! جس طرح جسمِ انسانی بے پراوئی کی بنا ء پر بیماراور کمزور ہوجا تا ہے اسی طرح عبادات بھی بے پروائی سے کمزور ہوجاتی ہیں ! عبادت کی حفاظت اس طرح کی جاتی ہے کہ
١ سُورة المؤمن : ١ تا ٣ ٢ اُترنے کی جگہ
اسے برائی سے پاک صاف رکھا جائے ! مثلاً اگر عبادت کرتے وقت یہ نیت ہو کہ لوگ مجھے اچھا کہیں تو عبادت بے روح ہو جائے گی چاہے وہ نماز روزہ ہو یا کوئی اور عبادت ہو ! !
ایسے ہی عبادات کے دوران برائی کا اثر ہوا کرتا ہے کہ وہ عبادت برائی سے کبھی تو ایسی خراب ہوجاتی ہے جیسے صاف پانی گرد و غباراور خس وخاشاک سے ! اور کبھی اس سے بھی زیادہ ایسی کہ جیسے پاک پانی میں کوئی ناپاک چیز مل جائے تو پانی بالکل قابلِ استعمال نہیں رہتا ! ! اس طرح وہ عبادات اس برائی سے انتہاء درجہ خرابی کو پہنچ جاتی ہیں لہٰذا عبادات کی حفاظت بھی ضروری امر ہے وہ اس طرح کہ روزہ کے دوران معصیت سے بچے،اور یہ حقیقت ہے کہ معاصی اور گناہوں میں انسان سب سے زیادہ بہت آسانی سے جو گناہ کرتا ہے وہ زبان سے ہوتا ہے اوریہ گناہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کا پتہ بھی نہیں لگتا ! نہ اسے ندامت ہوتی ہے ! نہ وہ خدا سے توبہ کرتا ہے ! اور اسی بے شعوری کے باعث مثلاً کسی کی غیر موجود گی میں اس کا ذکر ایسے انداز سے کرنا کہ اگر وہ یہاں موجود ہوتا تو اسے برا لگتا گناہ ہے اور اسی کا نام'' غیبت ''ہے ! ! لیکن آپ دیکھیں گے کہ عام طور پر غیبت کرنے کے بعد آدمی یہ کہتا ہے کہ میں نے تو وہ بات ذکر کی ہے جو اُس آدمی میں واقعی خرابی کی ہے ! میں نے اس کے سر جھوٹ تو نہیں لگایا ! ! یا یہ کہتا ہے کہ میں یہ بات اس کے منہ پر کہہ سکتا ہوں میں اس سے ڈرتا نہیں ! ! اور یہ نہیں جانتا کہ اسی کا نام'' غیبت'' ہے ! اور یہی بدگمانیوں اور جھگڑوں کی جڑ ہے ! کیونکہ جب یہ بات دوسرے تک پہنچے گی تو اس کی بڑی دل آزاری ہوگی وہ رنجیدہ ٔخاطر اور ناراض ہوجائے گا ! اور پھر وہ بھی کوئی ایسی ہی بات اس کے بارے میں اس کی غیر موجود گی میں کہہ دے گا جو اس شخص میں واقعی کمزوری کی ہوگی اورجب وہ اس تک پہنچے گی تو یہ برہم ہوگا ! اس طرح بے وجہ صرف زبان کی بے احتیاطی سے نا اتفاقی جنم لے گی ! ! لہٰذا شریعت نے اسے اخلاقی جرم قرار دیا اس کا دروازہ ہی بند کردیا اور فرمایا
( وَلَا ےَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَ ےُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ ےَّأْکُلَ لَحْمَ اَخِےْہِ مَےْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّاب رَّحِیْم ) ( سُورة الحجرات : ١٢ )
'' برا نہ کہو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو ،کیا پسند ہے تم میں کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو سو گِھن کھاتے ہو تم اس سے ! اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ معاف کرنے والا ہے مہربان''
حدیث شریف میں اِرشاد فرمایا گیا :
مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَةً اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ ١
''جو شخص باطل چیزیں اور ان پر عمل کو ترک نہیں کرتا تو اللہ کو اُس کے کھانا اور پینا چھوڑنے کی کچھ پروا نہیں '' ! ! !
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الصوم رقم الحدیث ١٩٩٩




جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (اِدارہ)




قسط : ٨
میرے حضرت مدنی
٭٭٭
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
اَمیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
مجھے جیل کی کوٹھریوں کی عادت ہے :
باتیں تو کئی یاد آگئیں لیکن میں نے اُوپر لکھا تھا دو مد تھے تشریف آوری کے ،دوسرا مدجس کے لیے حضرت اہتمام سے تشریف لاتے کسی اہم مضمون کا لکھنا ہوتا تھا وہ اگر طویل ہوتا یعنی ایک دو روز کا ہوتا تو حسین آباد تشریف لے جاتے، دو چار گھنٹہ کا ہوتا تو ایک گاڑی سے یہاں تشریف لے آتے اور وہی سارا منظر جو اُوپر سونے کے سلسلے میں گزرا وہی یہاں بھی ہوتا ! حضرت قدس سرہ کا معمول گرمی ہو یا سردی اگر شب کو سونے کی نوبت آتی تو کچے گھر ہی میں آرام فرماتے تھے، سردی میں تو کوئی دِقت نہ تھی، لیکن گرمی میں بہت ہی اصرار کرتا کہ مدرسہ کی چھت پر بہت ہی اچھی ہوا آئے گی، منت خوشامد کرتا حضرت فرماتے کہ مجھے جیل کی کوٹھریوں کی عادت ہے ! ! (آپ بیتی ص ٤٠٩)
میں تو کچے گھر ہی میں سوؤں گا :
ایک مرتبہ حضرت قدس سرہ اور مولانا عزیز گل صاحب اور دو مہمان مغرب کے وقت تشریف لائے علی الصباح گنگوہ جانا تھا، میں نے عرض کیا کہ گرمی بڑی شدید ہے برسات کا زمانہ تھا آج تو مدرسہ کی چھت پر بڑے کمرے میں چار پائی بچھوادُوں ، بڑی اچھی ہو ا آئے گی، حضرت نے فرمایا کہ میں تو کچے گھرہی میں سوؤں گا ، ان لوگوں کے لیے بچھوا دیجیے ! میں نے مولانا عزیر گل صاحب سے اللہ اُن کو بہت ہی خوش رکھے، پوچھا کہ آپ کی وہاں چار پائیاں بچھوادُوں ،جو مولانا عزیز گل سے کبھی مل چکا ہوگا وہ ان کے طرزِ گفتگو سے خوب واقف ہوگا ! کہنے لگے کہ ہم بھی وہیں مریں گے جہاں یہ مرے گا، چونکہ اس زمانے میں گھر والے نہیں تھے اس لیے میں نے بقیہ حضرات کی چار پائیاں زنانے مکان کی سہ دری میں بچھوادیں کہ وہاں فی الجملہ ہوا تھی ! ! (آپ بیتی ص ٤١٠)
حضرت مدنی کی آہ سحر گاہی :
ایک بات اور یاد آگئی اور یہ بھی یاد نہیں کہ کہیں اور لکھوا چکا کہ نہیں ! حضرت مدنی اور حضرت رائے پوری ثانی کا معمول یہ رہا کہ سفر ہو یا حضر، ان دونوں حضرات کی چار پائی مجمع سے علیحدہ ہوتی تھی اور یہ ناکارہ اس ضابطہ سے دونوں کے یہاں مستثنیٰ تھا ایک مرتبہ آبھہ حضرت مدنی تشریف لے گئے، یہ سیہ کار بھی ساتھ تھا حسب ِ معمول سب رُفقاء کی چار پائیاں مختلف کمروں میں بچھیں ۔ حضرت قدس سرہ نے فرمایا کہ ان کی چار پائی میرے ہی کمرے میں ہوگی۔ آبھہ والے بھی حضرت قدس سرہ کے ساتھ بے تکلف تھے، کہنے لگے کہ حضرت جی یہ کیا بات ہے کہ خادم لوگوں کی چارپائیاں تو دُور ہوں ان کی کیا خصوصیت ہے کہ حضرت ہی کے پاس ہو ؟ قبل اس کے کہ حضرت قدس سرہ جواب مرحمت فرماویں میں بول پڑا کہ میں اس کی وجہ بتلاؤں ، وہ یہ کہ یہ دونوں حضرات رات کو بہت مشغول رہتے ہیں اور آدمیوں کے قرب سے ان کا حرج ہوتا ہے اور میں تو ایسا ہوں جیسے تمہاری یہ بکری یہاں بندھ رہی ہے ایک چار پائی کے قریب وہ بھی بندھی ہوئی ہے ایک میں بھی سہی، جانوروں سے حرج نہیں ہوتا، آدمیوں سے ہوتا ہے ! میں نے اپنے اکابر میں اپنے والد صاحب اور حضرت مدنی قدس سرہ کو اَخیر شب میں بہت ہی آواز سے روتے سنا، بسا اوقات ان اکابرکے رونے سے مجھ جیسے کی آنکھ بھی کھل جاتی تھی جس کی آنکھ سونے کے بعد بڑی مشکل سے کھلتی ہے۔ حضرت مدنی قدس سرہ ہندی کے دو ہے بڑے درد سے پڑھا کرتے تھے، میں ہندی سے واقف نہیں اس لیے مضامین کاتو پتہ نہیں چلتا تھا، لیکن رونے کا منظر اب تک کانوں اور دل میں ہے جیسے کوئی بچہ کو پیٹ رہا ہو اور وہ رو رہا ہو۔ ( آپ بیتی ص ٤١٠ ، ٤١١)
ہمت و جفاکشی :
ہمت وجفا اور مشقت اُٹھانا تو میں نے اپنے سارے اکابر میں حضرت مدنی کے برابر کسی کو نہیں دیکھا ! ایک مرتبہ ١٢ ربیع الاوّل کے موقع پر حضرت سہارنپور تشریف لائے ہوئے تھے اہلِ شہر نے اصرار کیا کہ آج ہمارے یہاں سیرت کا جلسہ ہے ،زکریا نے کہہ دیا کہ اب مولود کا نام سیرت ہوگیا ! نہ معلوم حضرت مدنی قدس سرہ کس خیال میں تھے سختی سے انکار فرمادیا کہ میں نہیں آؤں گا اور خوب ڈانٹا کہ تم لوگوں کو عقیدت ساری ١٢ ربیع الاوّل ہی کو آتی ہے، سال میں کبھی توفیق ہوتی ہے جلسہ کرنے کی ؟
لوگوں نے کہا حضرت ہم توہروقت متمنی رہتے ہیں کوئی مانتا نہیں ، سناتا نہیں ! حضرت نے فرمادیا کہ کوئی سننے کے لیے تیار ہوتومیں سنانے کے لیے تیار ہوں ! لوگوں نے اپنی حماقت سے استقبال کا خوب اظہار کیا ! حضرت قدس سرہ نے ہر ہفتہ تشریف لانے کاوعدہ فرمالیا اور جمعرات کی رات اس کے لیے متعین ہوگئی اس لیے کہ جمعہ حضرت کا کئی کئی ماہ کاپہلے سے موعودہوتاتھا، تقریباً چار ماہ مسلسل اگرکسی دوسری جگہ طویل سفرنہ ہوتاتوحضرت جمعرات کی شب میں ساڑھے آٹھ بجے کی گاڑی سے تشریف لاتے، اسٹیشن سے سیدھے جامع مسجد جاتے اور نماز کے بعد وعظ شروع فرماتے، ساڑھے بارہ ایک بجے اس سیہ کار کے مکان پر تشریف لاتے، چونکہ مجھے معمول معلوم تھا اور میری پہلی اہلیہ مرحومہ کو حضرت قدس سرہ کے لیے کھانے یا پینے کی چیزوں کا بہت ہی زیادہ اہتمام تھا، وہ بارہ بجے چائے کا پانی رکھ دیتی اور حضرت کی آواز اوپر چڑھنے کی جب آتی کہ میرا قیام اس وقت اوپر کے کمرے میں تھا تو چائے دم کرتی اور زورسے کھڑکا کرتی اور میں جلدی سے آکر چائے لے جاتا !
حضرت پراُس وقت چونکہ تعب ہوتاتھا اس لیے پیتے تو تھے رغبت سے اور بار بار مجھ سے فرماتے کہ آپ اس غریب کو ناواقف ستاتے ہیں ! میں عرض کرتا کہ میں نے نہیں کہا اس نے اپنے شوق سے خود پکائی اور چونکہ مجھے معلوم ہوتا تھا اس لیے چار پائی اور بستر پہلے سے تیار ہوتا، حضرت چائے پی کر آرام فرماتے ١
١ آپ بیتی ص ٤١٠، ٤١١
اختیاری سونا اور اختیاری جاگنا :
میں نے اختیاری سونا اور سوکر اختیاری جاگنا اپنے اکابر میں صرف حضرت قدس سرہ اور حضرت مدنی میں دیکھا ! حضرت سہارنپوری قدس سرہ کو بارہا دیکھاکہ ریل پر تشریف لے جاکر گاڑی اگر دس پندرہ منٹ لیٹ ہوتی تو حضرت فرماتے کہ میں تو اتنے سولوں گا اور کوئی خادم جلدی سے بستر پلیٹ فارم پرکھول دیتا اور حضرت تکیہ پر سر رکھتے ہی سوجاتے اور دس منٹ کے اندر خود اُٹھ جاتے ! میرے حضرت قدس سرہ کبھی کبھی یہ بھی ارشاد فرماتے کہ سونے کے ارادے کے بعد مجھے اکثر تکیہ پر سر رکھنے کی بھی خبر نہیں ہوتی ہے ! !
یہ مقولہ میں نے اپنے چچا جان سے بھی اکثر سنا کہ ماہِ مبارک میں وتروں کے بعد چار پائی پر تشریف لے جاکر تکیہ پر سر رکھنے سے پہلے ہی آنکھ لگ جاتی تھی۔ چچاجان نور اللہ مرقدہ کا معمول ماہِ مبارک میں تراویح کے بعد فوراً سونے کا تھا اور بارہ بجے اُٹھ کر سحر تک کھڑے ہوکر نوافل پڑھنے کا تھا اور جہر سے قرآنِ پاک پڑھتے، صبح کو اذان کے ساتھ ہی نماز ہوجاتی اور اس کے بعد خود مصلّے پر بیٹھ کر اشراق تک اوراد وظائف پڑھتے اور خدام کو تقاضا کرکے سلادیتے ! کہاں سے کہاں چلا گیا !
بہرحال حضرت مدنی قدس سرہ کی نیند اِس قدر قابو کی تھی کہ سینکڑوں دفعہ میرے یہاں رات دن میں آرام فرمانے کی نوبت آئی اور میں نے حضرت کی راحت کی وجہ سے بارہا اس کی کوشش کی کہ کوئی حرکت نہ ہواور کوئی نہ بولے چاہے گاڑی نکل جائے، مگر حضرت قدس سرہ گاڑی سے آدھ گھنٹہ پہلے ایک دم اُٹھ کر بیٹھ جاتے ! اس ہفتہ واری آمد میں بھی رات کو ساڑھے چار پر گاڑی جاتی تھی اور چار بجے سے پانچ سات منٹ قبل اٹھ جانا طے شدہ تھا ! میں حضرت کے اٹھتے ہی کسی شخص کو تانگے کو بھیجتااور پہلی اہلیہ مرحومہ اس وقت بھی چائے تیار رکھتی ! اس وقت کی چائے پر حضرت زیادہ ناراض ہوتے تھے کہ میں دیوبند جاکر پی لوں گا، چائے کے وقت پہنچ جاؤں گا، میرے اصرار پرکبھی توپی لیتے اور کبھی عتاباً انکار فرمادیتے تھے ! کیا کیامناظر آنکھوں کے سامنے آگئے پرانی یادیں تازہ ہوگئیں (جاری ہے)
١ آپ بیتی ص ٤١٢




قسط : ١٢
تربیت ِ اولاد
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
ختنہ کا بیان
٭٭٭
ختنہ کا مسنون طریقہ :
٭ جب بچہ میں برداشت کی قوت دیکھی جائے، چپکے سے نائی کو بُلا کر ختنہ کرادیں !
٭ جب اچھا ہو جائے تو غسل کرادیں !
٭ اگر گنجائش ہو اور بار بھی نہ ہو اور پابندی بھی نہ کرے اور شہرت ونمود اور طعن و بدنامی بھی خیال نہ ہو
تو شکریہ میں دو چار اَعزاء و احباب یا دو چار مسکینوں کو جو میسر ہو کھلادے، اللہ اللہ خیر صلا لیکن بار بار ایسا بھی نہ کرے ورنہ پھر وہی رسم پڑجائے گی۔ (اصلاح الرسوم ص ٤٨ ۔بہشتی زیور ص ١٥)
ختنہ و غیرہ کی تقریب میں بچوں کے نام سے کچھ دیے جانے کا مسئلہ :
مسئلہ : ختنہ و غیرہ کی کسی تقریب میں چھوٹے بچوں کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے خاص اُس بچہ کو دینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ماں باپ کو دینا مقصود ہوتاہے اس لیے وہ سب نیوتہ بچے کی مِلک نہیں بلکہ ماں باپ اُس کے مالک ہیں جو چاہیں سو کریں ! البتہ اگر کوئی شخص خاص بچہ ہی کو کوئی چیز دے تو پھر وہی بچہ اُس کا مالک ہے ،اگر بچہ سمجھدار ہے تو خود اُسی کا قبضہ کر لینا کافی ہے جب قبضہ کرلیا تو مالک ہوگیا ! اگر بچہ قبضہ نہ کرے یا قبضہ کرنے کے لائق نہ ہو تو اگر باپ ہو تو اُس کے قبضہ کرلینے سے اور اگر باپ نہ ہو تو دادا کے قبضہ کرلینے سے بچہ مالک ہوجائے گااور اگر باپ دادا موجود نہ ہوں تو وہ بچہ جس کی پرورش میں ہے اُس کو قبضہ کرنا چاہیے ! (بہشتی زیورص ٥/٣٤)
ختنہ کے موقع پر لوگوں کو اہتمام سے بُلانا :
(ختنہ کے موقع پر ) لوگوں کو آدمی اور خطوط بھیج کر بُلانا بالکل سنت کے خلاف ہے ! حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ابی العاص کسی ختنہ میں بلائے گئے آپ نے انکار فرمادیا، کسی نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ عليہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہم لوگ ختنہ میں نہیں جاتے تھے اور نہ اُس کے لیے بلائے جاتے تھے۔ (رواہُ احمد )
اس سے معلوم ہوا کہ جس کام کے لیے لوگوں کو بُلانا سنت سے ثابت نہیں اس کے لیے بلانے کو صحابہ نے ناپسند فرمایااور جانے سے انکار کیا ! اور وجہ اس کی یہ ہے کہ بُلانا اہتمام کی دلیل ہے تو شریعت میں جس چیز کا اہتمام نہیں کیا اُس کا اہتمام کرنا دین میں ایجاد کرناہے ! اسی وجہ سے حضرت ابن عمر نے جب لوگوں کو چاشت کی نماز کے لیے مسجد میں جمع دیکھا تو براہ اِنکار اِس کو بدعت فرمایا ،اسی بناء پر فقہاء نے نفلی جماعت کو مکروہ کہا ہے ! ( اصلاح الرسوم ص ١١٠ ، ١١١ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت میں جس چیز کا اعلان ضروری نہیں اُس کے لیے لوگوں کو جمع کرنا اور بُلانا سنت کے خلاف ہے !
ختنہ کی دعوت :
فرمایا میرے ایک عزیز ہیں اُن کے لڑکے کا ختنہ ہے چونکہ عزیزوں (رشتہ داروں ) کو زور ہوتا ہے اس لیے اُنہوں نے کہا کہ ضرور آنا پڑے گا ! میں نے کہا کہ میں اصلاح الرسوم میں منع لکھا چکا ہوں اور حدیث بھی لکھی ہے کیسے جاسکتاہوں ! ؟ کہیں گے تو ضرور کہ رُوکھا ہے لیکن عزیزوں سے بھی یہی کرنا پڑتا ہے !
فرمایا ایک مرتبہ ایک شیعہ کے ہاں سے ختنہ کی تقریب پر ہمارے یہاں کھانا آیا، میں نے اس تحریر کے ساتھ واپس کردیا کہ ہماری فقہ میں اَطْعَمَہْ (مسنون دعوت کے کھانوں ) کی فہرست موجودہے اور یہ کھانا اس فہرست سے خارج ہے لہٰذا مجھے معذور سمجھیں ، میں اس قسم کا کھانا اپنے اعزہ و اَقرباء (رشتہ داروں ) سے بھی قبول نہیں کرتا، بحمداللہ اس جواب سے کوئی شکایت نہیں ہوئی ! ١
ختنہ میں اخفاء بہتر ہے یا اعلان و اِظہار :
سوال : اصلاح الرسوم میں ختنہ کے اعلان اور اس کے تداعی (اہتمام سے بلانے) کو منع کیا ہے اور مدخل میں مذکر کے ختنہ کا اظہار اور لڑکی کے ختنے کے اخفاء کو سنت کہا ہے !
جواب : اصلاح الرسوم میں ممانعت کی دلیل بھی لکھی ہے اس لیے اس پر عمل متروک نہ ہوگااس دلیل میں مطلق ختان وارد ہے لہٰذا حکایة فعل پر ہی محمول نہ کیا جائے باقی مدخل میں جس اظہار کو مسنون کہا ہے وہ بمعنی عدم اخفاء ہے، مطلب یہ ہے کہ اخفاء (چھپ کے ہوئے ہونے) کا اہتمام نہ کیا جائے چنانچہ اس بالمقابل اخفاء ختان جاریہ (لڑکی کے ختنہ کو خفیہ رکھنا) اس کاقرینہ ہے تو اس سے اعلان بمعنی اہتمام تداعی (یعنی اہتمام سے بُلانے کا) جائز ہونا لازم نہیں آتا۔ (امدادُ الفتاویٰ ج ٤/ص٢٣٩)
ختنہ کی دعوت میں شرکت سے متعلق حضرت تھانوی کا دلچسپ واقعہ :
فرمایا کہ قصبہ رامپور میں ایک مالدار مولوی صاحب کے لڑکے کے ختنہ تھے اپنے حضرات بھی اس میں مدعوتھے مجھ کو بھی بلایا گیا، میں بھی چلا گیا۔ اصلاح الرسوم (کتاب) میں اس سے پہلے لکھ چکا تھا
١ دعوتِ عبدیت ص ٦٠
میں نے پہلے سے طے کر لیا تھا کہ میں قاضی انعام الحق صاحب کے مکان میں ٹھہروں گا اور اس کی وجہ (بطورِ حیلہ) کے میں نے یہ بیان کی تھی کہ مجمع میں بعض بڑے لوگ ہوں گے میں اُن کے ادب میں رہوں گا اور بعض لوگ چھوٹے ہوں گے وہ میرے ادب میں رہیں گے، نہ مجھ کو راحت ملے گی نہ اُن کو اور اس تقریب میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب بھی تشریف لائے تھے، میں قاضی انعام الحق صاحب کے مکان پرٹھہرا۔ عشاء کے وقت میں نے دیکھا ہے کہ نائی عام میں بُلاوا دیتا پھرتا ہے، میں نے دریافت کیا یہ بُلاوا کیسا ہے ؟ اُس نے کہاکہ تمام برادری کی دعوت ہے ،میں کھٹک گیاکہ معاملہ گڑبڑ ہے اور بظاہر تفاخر ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ خیال ہوا کہ میں تو اصلاح الرسوم میں منع کر چکا ہوں اگر شر کت کی تو کتاب کا خاک اثر رہے گا !
اس لیے میں نے خود سوچ کر تجویز کیا کہ میں قاضی انعام صاحب کے باغ میں جاتا ہوں وہاں کسی کا خیال ہی نہ جائے گا اور میں شریک ہونے سے بچ جاؤں گا اور شریک نہ ہوں گا ! گو اِس میں مجھ کو بعض کلفتیں ہوں گی مگر کچھ بھی ہوشرکت کرنا مناسب نہیں اور اُس زمانہ میں بھی تصانیف کا کام کر رہا تھا سفر میں تصنیف کا سامان بھی ساتھ رکھتا تھا اُس وقت بھی ضروری سامان تھا اُس کو لے کر اَخیر شب میں باغ میں پہنچ گیا۔ لوگوں نے مختلف سڑکوں پر بھی ڈھونڈا مگر میں کہاں وہ سب تو ڈھونڈتے رہ گئے ! میں ریل کے وقت باہر باہر اسٹیشن پہنچ گیا، اسٹیشن پر مولانا معین الدین صاحب ملے وہ بھی اس تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے، کہنے لگے کہ میں تو تم سے لڑنے آیا تھا ! یہ اُنہوں نے اس وجہ سے کہا کہ اُنہوں نے بھی ایک مرتبہ تقریب میں مدعو کیا تھا میں نے انکار کردیا تھا، کہنے لگے کہ میں یہ سوچ کر چلا تھا کہ غریب آدمیوں کے یہاں شرکت سے انکارکرتے ہو مگر جب تم کو نہ پایا تو اب لڑائی کی گنجائش نہ رہی اور کہنے لگے کہ جب تم ہی شریک نہ ہوئے تو اب میں بھی شریک نہ ہوں گا ! !
یہاں ایک لطیفہ ہوا کہ میں قرآن شریف کی سورة نمل پڑھ کر آرہاتھا اُس میں ہُد ہُد کا قصہ آیا میں نے ایک دوست کو بُلا کر کہا کہ دیکھو قرآن شریف میں میرے اس واقعہ کی نظیر اور تائید آیات میں موجود ہے ( وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَالِیَ لَا اَرَی الْھُدْھُدَ اَمْ کاَنَ مِنَ الْغَائِبِیْنَ لَاُعَذِّبَنَّہ عَذَابًا شَدِیْدًا ) جیسے وہاں ھُدْ ھُدْ کی تلاش شروع ہوئی تھی میری بھی تلاش ہوئی، ہمارے محاورہ میں ہُدہُد بے وقوف کو کہتے ہیں اور میں بھی بے وقوف سا تھا !
ھُدْ ھُدْ سلیمان علیہ السلام کے لشکر سے غائب ہوا، میں بھی اُس تقریب کے مجمع میں سے غائب ہوگیا تھا اُس کی سزا عذاب اور ذبح تجویز کی گئی تھی، مجھ کو بھی بُرا بھلا کہا گیا ملامت کی گئی یہ بھی ذبحِ نفس ہے ! ھُدْ ھُدْ نے ایک ایسی چیز کی خبر دی تھی جس کا علم حضرت سلیمان علیہ السلام کو نہ تھااس سے معلوم ہوا کہ کسی واقعہ کا علم اگر کسی ناقص کو ہو کامل کو نہ ہو تو ممکن ہے ! اسی طرح عوام کی مفاسد کی خبر مجھ کو ہو اور اکابر کو نہ ہو تو بعید نہیں اور جیسے وہاں بلقیس عورت کی سلطنت تھی ایسے ہی یہاں پر بھی عورتوں کی حکومت تھی جس کی وجہ سے یہ رسمیں ہوگئیں !
اور حسیات میں کسی کے علم کا زیادہ ہونا یہ کوئی کمال نہیں جزئی واقعات میں ممکن ہے کہ چھوٹوں کا علم بڑوں سے بڑھا ہواہو ! سو جیسے اس علم سے حضرت سلیمان علیہ السلام پر ھُدْ ھُدْ کو فضیلت نہیں ہو سکتی ایسے ہی مجھ کو بھی اپنے اکابر پر فضیلت نہیں ہوسکتی البتہ ہمارے حضرات علومِ مقصود ہ میں بڑھے ہوئے ہیں اور یہ علوم مقصودہ میں سے نہ تھا ! ١
بالغ ہونے کے بعد ختنہ کرانا :
بالغ ہونے کے بعد بھی ختنہ کا حکم ہے اور اس میں شرط یہ ہے کہ وہ اس کا تحمل (یعنی برداشت) بھی کر سکے ورنہ چھوڑ دیا جائے گا ختنہ کی ضرورت سے اس کے بدن کو دیکھنا اور ہاتھ لگانا سب جائز ہے ٢
ضروری تنبیہ :
ختنہ کے وقت بعض موقع پر لڑکا بالغ ہونے کے قریب ہوتا ہے جس کا پوشیدہ بدن ختنہ کرنے والوں کے علاوہ دوسروں کو بِلا ضرورت دیکھنا حرام ہے لیکن سب بے تکلف دیکھتے ہیں اور گناہگار ہوتے ہیں اور ان گناہوں کا سبب یہ بُلانے والا ہوتا ہے۔ ٣ (جاری ہے)
٭٭٭
١ الافاضاتِ یومیة ص ٢/٣٦٧ ٢ امدادُ الفتاویٰ ج١ ص٢٤٠ ٣ اصلاح الرسو م ص ٤٤




چہل احادیث متعلقہ رمضان و صیام
( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری )
٭٭٭
(١) فرمایا نبی الرحمت صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ انسان کے ہر عمل کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک بڑھا دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے کیونکہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دُوں گا ! بندہ اپنی خواہش اور اپنے کھانے کو میرے لیے چھوڑ تا ہے پھر فرمایا کہ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اس وقت ہو گی جب خداسے ملاقات کرے گا ! اور روزہ دار کے منہ کی بو خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے عمدہ ہے ! اور روز ے ڈھال ہیں (جو گناہوں سے اور دوزخ سے بچاتے ہیں )جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو گندی باتیں نہ کرے اور شور نہ مچائے پس اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرنے لگے یا لڑنے لگے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں (لڑنا جھگڑنا گالی کا جواب دینا میرا کام نہیں ) ! (بخاری و مسلم )
(٢) فرمایارحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اورسرکش جنات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ! اُن میں سے کوئی دروازہ رمضان ختم ہونے تک نہیں کھولا جاتا ہے اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جن میں سے کوئی دروازہ (ختم رمضان تک) بند نہیں کیا جاتا ہے ! اور خدا کی طرف سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے خیرکے طلب کرنے والے آگے بڑھ ! اور اے شر کے تلاش کرنے والے رُک جا ! اوربہت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ سے آزاد کرتے ہیں اورہر رات ایسا ہی ہوتا ہے (ترمذی شریف )
ایک روایت میں ہے جب رمضان داخل ہوتا ہے تو رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (بخاری و مسلم )
(٣) فرمایا رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام ''رےّان'' ہے اس سے صرف روز ے دار ہی داخل ہوں گے ! (بخاری و مسلم )
(٤) فرمایا رسولِ مقبول صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جس نے ایک دن خدا کی راہ میں روز رکھ لیا اللہ تعالیٰ اسے دوزخ سے اس قدر دُور کر دیں گے کہ ستر سال میں جتنی دور پہنچا جائے ! (بخاری شریف )
(٥) فرمایا سرکارِدو عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جس نے بِلا کسی شرعی رُخصت اور بِلا کسی مرض کے (جس میں روزہ چھوڑنا جائز ہو)رمضان کا روزہ چھوڑدیا تو اگرچہ (بعد میں )اس کو رکھ لے تب بھی سای عمر کے روزوں سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی ! ( مسنداحمد )
ف : مطلب یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی فضیلت اور برتری اس قدر ہے کہ اگر رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا تو عمر بھر روزے رکھنے سے بھی وہ فضیلت اور اجرو ثواب نہ پائے گا جو رمضان میں روزے رکھنے سے ملتا ہے گو قضا کا ایک روزہ رکھنے سے حکم کی تعمیل ہو جائے گی !
روزہ کی حفاظت :
(٦) فرمایا فخربنی آدم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے لیے (حرام کھانے یا حرام کام کرنے یا غیبت وغیرہ کرنے کی وجہ سے )پیاس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ! اور بہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے لیے( ریا کاری کی وجہ سے ) جاگنے کے سوا کچھ نہیں ! ( سنن دارمی )
(٧) فرمایا سرکارِ دو عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ روزہ (شیطان کی شرارت سے بچنے کے لیے )ڈھال ہے جب تک کہ روزہ دار (جھوٹ بول کر یا غیبت وغیرہ کرکے )اس کو پھاڑ نہ ڈالے ! ( سنن نسائی )
(٨) فرمایا سرورِ کونین صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جس نے روزہ رکھ کر بری بات اور برے عمل کو نہ چھوڑا تو خدا کو اس کی کچھ حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ! ( بخاری شریف )
قیامِ رمضان :
(٩) فرمایا رسول اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جس نے ایمان کے ساتھ( اور )ثواب سمجھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے ! اور جس نے ایمان کے ساتھ (اور) ثواب سمجھتے ہوئے رمضان میں قیام کیا (تراویح وغیرہ پڑھی ) تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے ! او ر جس نے شب ِقدر میں قیام کیا ایمان کے ساتھ اور ثواب سمجھ کر اس کے اب تک کے گناہ معاف کردیے جائیں گے ! (بخاری و مسلم)
(١٠) فرمایا فخرِ دو عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ روزے اور قرآن بندہ کے لیے سفارش کریں گے ! روزے کہیں گے اے رب! ہم نے اس کو دن میں کھانے سے اور دیگر خواہشات سے روک دیا لہٰذا س کے حق میں ہماری سفارش قبول فرمالیجیے ! قرآن عرض کرے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے نہ دیا لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما لیجیے چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی ! (بیہقی فی شعب الایمان)
رمضان اور قرآن :
(١١) فرمایا حضرت ابو ہریرہ نے کہ رسولِ خدا صلی اللہ عليہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، رمضان میں آپ کی سخاوت بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی تھی ! رمضان کی ہر رات میں جبرئیل (علیہ السلام ) آپ سے ملاقات کرتے تھے اور آپ ان کو قرآنِ مجید سناتے تھے ! جب جبرئیل (علیہ ا لسلام)آپ سے ملاقات کرتے تھے تو آپ اس ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے جو بارش لے کر بھیجی جاتی ہے ! (بخاری و مسلم)
رمضان میں سخاوت :
(١٢) فرمایا حضرت ابن ِعباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہ جب رمضان داخل ہوتا تھا تو حضور اقدس صلی اللہ عليہ وسلم ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اورہر سائل کو عطا فرماتے تھے ! (بیہقی فی شعب الایمان)
مطلب یہ ہے کہ آپ یوں بھی کسی سائل کو محروم نہ فرماتے تھے مگر رمضان میں اس کا اہتما م مزید ہو جاتا تھا
روزہ افطار کرانا :
(١٣) فرمایا خاتم الانبیاء صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جس نے روزہ دار کا روزہ کُھلوا یا یا مجاہد کو سامان دے دیا تو اس کور وزہ دارجیسا اجر ملے گا ! (بیہقی فی شعب الایمان)
اور غازی اور روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے !
روزہ میں بھول کر کھا پی لینا :
(١٤) فرمایا رحمةللعالمین صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جو شخص روزہ میں بھول کر کھا پی لے تو روزہ پورا کرلے کیونکہ (اس کا کچھ قصور نہیں )اسے اللہ نے کھلایا اور پلایا ! (بخاری و مسلم)
سحری کھانا :
(١٥) فرمایا نبی مکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے ! (بخاری و مسلم )
(١٦) فرمایا بنی مکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ ہمارے اور اہلِ کتاب کے روز وں میں سحری کھانے کا فرق ہے ! (مسلم)
(١٧) فرمایا نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ سحری کھانیوالوں پرخدا او ر اُس کے فرشتے رحمت بھجتے ہیں ! (طبرانی)
افطار کرنا :
(١٨ ) فرمایا نبی الرحمت صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے یعنی غروبِ آفتاب ہوتے ہی فوراً روزہ کھول لیا کریں گے ! (بخاری و مسلم)
(١٩) فرمایا رحمت ِکائنات صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بندوں میں مجھے سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو افطار میں سب سے زیادہ جلدی کرنے والا ہے ! یعنی غروب ہوتے ہی فوراً افطار کرتاہے اور اسے اس میں جلدی کا خوب اہتمام رہتاہے ! (سنن ترمذی )
(٢٠) فرمایا سید الکونین صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جب اِدھر سے (یعنی مشرق سے) رات آ گئی اور اُدھر سے (یعنی مغرب سے )دن چلا گیا تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہوگیا (آگے انتظار کرنا مکروہ ہے) ! (مسلم )
(٢١) فرمایا رسول اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جب تم روزہ کھولنے لگو تو کھجوروں سے افطار کرو کیونکہ کھجور سراپا برکت ہے ! اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لو ! کیونکہ وہ (ظاہر و باطن) کو پاک کرنے والاہے ! (سنن ترمذی )
روزہ جسم کی زکٰوة ہے :
(٢٢) فرمایا خاتم الانبیاء صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ ہر چیز کی زکٰوة ہوتی ہے اور جسم کی زکٰوة روزہ ہے ! (ابن ماجہ) سردی میں روزہ :
(٢٣) فرمایا سرورِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ موسم سرما میں روزہ رکھنا مفت کا ثواب ہے ! (سنن ترمذی )
مفت کا ثواب اس لیے فرمایا کہ اس میں پیاس نہیں لگتی اور دن بھی جلدی سے گزر جاتاہے ! افسوس ہے کہ بہت سے لوگ اس پر بھی روزے سے گریز کرتے ہیں !
جنابت روزہ کے منافی نہیں :
(٢٤) فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہ رمضان المبارک میں حضورِ اقدس صلی اللہ عليہ وسلم کو بحالت ِجنابت صبح ہو جاتی تھی اور یہ جنابت احتلام کی نہیں (بلکہ بیویوں کے ساتھ مباشرت کرنے کی وجہ سے ہوتی تھی )پھر غسل فرما کر روزہ رکھ لیتے تھے ! (بخاری و مسلم)
مطلب یہ ہے کہ صبح صادق سے قبل غسل نہیں فرمایا اور روزہ کی نیت فرمالی، پھر طلوعِ آفتاب سے قبل غسل فرماکر نماز پڑھ لی ! اس طرح سے روزہ کا کچھ حصہ حالت ِجنابت میں گزرا اس لیے کہ روزہ بالکل ابتدائے صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے !
اسی طرح اگر روزہ میں احتلام ہو جائے تو بھی روزہ فاسد نہیں ہوتاکیونکہ جنابت روزہ کے منافی نہیں ہے !
ہاں اگر عورت کے ماہواری کے دن ہوں تو روزہ نہ ہوگا ان دنوں کی قضا بعد میں فرض ہے !
یہی مسئلہ نفاس کے ایام کا ہے ،نفاس وہ خون ہے جوبچہ پیدا ہونے کے بعد آتا ہے !
روزہ میں مسواک :
(٢٥) فرمایا حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسولِ خدا صلی اللہ عليہ وسلم کو بحالت ِروزہ اتنی بار مسواک کرتے ہوئے دیکھا کہ جس کا میں شمار نہیں کرسکتا ! (سنن ترمذی)
مسواک تر ہو یا خشک روزہ میں ہر وقت کر سکتے ہیں ! البتہ منجن ، ٹوتھ پائوڈر، ٹوتھ پیسٹ یا کوئلہ وغیرہ سے روزہ میں دانت صاف کرنا مکروہ ہے !
روزہ میں سُرمہ :
(٢٦) فرمایا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم میری آنکھ میں تکلیف ہے کیا میں روزہ میں سُرمہ لگا لوں ؟ فرمایا لگالو ! (سنن ترمذی )
اگر روزہ دار کے پاس کھایا جائے :
(٢٧) فرمایا فخر بنی آدم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جب تک روزہ دار کے پاس کھایا جاتا رہے اُس کی ہڈیاں تسبیح پڑھتی ہیں اور اُس کے لیے فرشتے استغفار کرتے ہیں ! (بیہقی فی شعب الایمان)
آخر عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام :
(٢٨) فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ عليہ وسلم رمضان کے آخری د س دنوں میں جس قدر عبادت میں محنت فرماتے تھے دوسرے ایام میں اس قدر محنت نہیں فرماتے تھے ! (مسلم)
(٢٩) فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہ جب آخری عشرہ آتا تھا تو سرورِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم تہبند کس لیتے تھے (تاکہ خوب عبادت کریں )اور پوری رات عبادت کرتے تھے اور گھر والوں کو عبادت کے لیے جگاتے تھے ! (بخاری و مسلم)
شب ِقدر :
(٣٠) فرمایا رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ بلا شبہہ یہ مہینہ آچکا ہے اس میں ایک رات ہے (شب ِقدر جو عبادت کی قدر و قیمت کے اعتبار سے )ہزار مہینوں سے بہترہے ! جو اِس رات سے محروم ہوگیا کل خیر سے محروم ہو گیا ! اور اس شب کی خیر سے وہی محروم ہوگا جو پورا پورا محروم ہو (جسے ذوقِ عبادت بالکل نہیں اور جو فکرسعادت سے خالی ہے ) (ابن ماجہ)
(٣١) فرمایا سرورِ کونین صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ شب ِقدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو (بخاری )

(٣٢) فرمایا محبوبِ رب العالمین صلی اللہ عليہ وسلم نے (اعتکاف کرنے والے کے متعلق ) کہ وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اسے وہ ثواب بھی ملتاہے جو (اعتکاف سے باہر )تمام نیکیاں کرنے والے کو ملتا ہے ! (ابن ماجہ)
یعنی اعتکاف میں بیٹھ کر اعتکاف والا خارجِ مسجد جو نیکیاں کرنے سے عاجز ہے تو وہ ثواب کے اعتبار سے محروم نہیں ہے،اگر اعتکاف نہ کرتا تو مسجد سے باہر جو نیکیاں کرتا ان کا ثواب بھی پاتا ہے !
آخری رات میں بخششیں :
(٣٣) فرمایا رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ رمضان کی آخری رات میں اُمت ِ محمدیہ کی مغفرت کردی جاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ ! کیا اس سے شب ِقدر مراد ہے ؟ فرمایا نہیں ! (یہ فضیلت آخری رات کی ہے شب ِقدر کی فضیلتیں اس کے علاوہ ہیں )بات یہ ہے کہ عمل کرنے والے کا اجر اُس وقت پورا دے دیا جاتا ہے جب کام پورا کر دیتا ہے اور آخری شب میں عمل پورا ہو جاتا ہے لہٰذا بخشش ہو جاتی ہے ! ( مسنداحمد )
عید کا دن :
(٣٤) فرمایا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب شب ِقدر ہوتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں جو ہراُس بندۂ خدا کے لیے دعا کرتے ہیں جو اللہ عز وجل کا ذکر کر رہا ہو ! پھرجب عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں کہ دیکھو ان لوگوں نے ایک ماہ کے روزے رکھے او رحکم مانا اور فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتو بتائو اس مزدور کی کیاجزا ہے جس نے عمل پورا کردیا ہو ؟
وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے رب اس کی جزا یہ ہے کہ اس کا بدلہ پورا دے دیا جائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
''اے میرے فرشتو میرے بندوں اور بندیوں نے میرا فریضہ پورا کر دیا جو اُن پر لازم تھا اور اب دعا میں گڑگڑانے کے لیے نکلے ہیں ،قسم ہے میرے عزت و جلا ل اورکرم کی اور میرے علو و ارتفاع کی میں ضرور ان کی دعا قبول کروں گا ، پھر (بندوں کو) ارشادباری تعالیٰ ہوتا ہے کہ میں نے تم کو بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا لہٰذا اس کے بعد (عید گاہ سے ) بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں ! (بیہقی )
رمضان المبارک کے بعد دواہم کام :
صدقہ فطر :
(٣٥) فرمایا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ مقرر فرمایا رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے صدقۂ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے او رمساکین کی روزی کے لیے ! ( ابو داود )
شش عید کے روزے :
(٣٦) فرمایا فخرِ کونین صلی اللہ عليہ وسلم نے کہ جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعدچھ (نفل روزے) یعنی عید کے مہینہ میں رکھے تو (پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا ! اگر ہمیشہ ایسا ہی کیا کرے تو) گویااس نے ساری عمر روزے رکھے ! (مسلم شریف)
چند مسنون دُعائیں :
(٣٧) فرمایا معاذ بن زہر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم افطار کے وقت یہ دُعا پڑھتے تھے
اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ( سُنن ابوداود)
''اے اللہ میں نے تیرے ہی لیے روز رکھا اور تیرے ہی دئیے ہوئے رزق پرکھولا''
(٣٨) فرمایا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ افطار کے وقت (یعنی بعد افطار) رسولِ کریم صلی اللہ عليہ وسلم یہ دعا پڑھتے
ذَھَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ۔ ( سُنن ابوداود)
'' پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور ان شاء اللہ اجر ثابت ہو گیا ''
افطار کی ایک اور دُعا :
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْیئٍ اَنْ تَغْفِرَلِیْ ١
'' اے اللہ ! میں آپ کی اس رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہرچیز کو سمائے ہوئے ہے کہ آپ میرے گناہ معاف فرمادیں ''
١ سُنن ابنِ ماجة کتاب الصیام رقم الحدیث ١٧٥٣
(٣٩) جب کسی کے یہاں افطار کرے تو اہلِ خانہ کو یہ دعا دے :
اَفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّآئِمُوْنَ وَاَکَلَ طَعَامَکُمُ الاَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلٰئِکَةُ ١
'' روزہ دار تمہارے یہاں افطار کیا کریں اور نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں اور فرشتے تمہارے لیے دعا کریں ''
شب ِقدر کی دعا :
(٤٠) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرمجھے معلوم ہو جائے کہ شب ِقدر کون سی ہے تو(اس رات ) میں کیا دعا کروں ؟ فرمایا (دعا میں )یوں کہنا
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ٢
'' اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے ،معافی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا مجھے معاف فرمادے''
رمضان المبارک کے چار اہم کام :
(١) لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی کثرت کرنا (٢) استغفار میں لگے رہنا
(٣) جنت نصیب ہونے کا سوال کرنا (٤) دوزخ سے پناہ میں رہنے کی دُعا کرنا
(فضائلِ رمضان بحوالہ صحیح ابن ِخزیمہ)
١ سُنن ابنِ ماجة کتاب الصیام رقم الحدیث ١٧٤٧ ٢ سُننِ ترمذی




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
whatsapp : +92 321 4790560




حضرت مولانا قاضی قمر الدین صاحب چکڑالوی
( مولانا محمد معاذ صاحب ، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
حضرت مولانا قاضی قمرالدین صاحب چکڑالوی کی ولادت ٢٣ رمضان المبارک ١٢٧٤ھ / ٨مئی ١٨٥٨ء بروز ہفتہ موجودہ علاقہ پکھڑ تحصیل چکڑالہ ضلع میانوالی میں ہوئی، آپ کے زمانہ میں میانوالی تحصیل جبکہ بنوں ضلع تھا۔آپ کے والد گرامی کا نام قاضی محمد سلیمان ہے، آپ کا تعلق اعوان قوم کی شاخ تگوال سے ہے، یہ بات پیش نظر رہے کہ اعوان امام المشارق و المغارب علی بن ابی طالب کی اولادِ امجاد میں سے ہیں !
قاضی محمد سلیمان علاقے کے بہت بڑے زمیندار تھے، اس کے ساتھ ساتھ مغلیہ دور ہی سے یہ خاندان علاقے میں منصب ِقضا ء پر بھی فائز چلا آرہا تھا، آپ بھی چکڑالہ کے قاضی تھے۔
حضرت مولاناقاضی قمرالدین چکڑالوی نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر ہی میں والد گرامی سے حاصل کی، حفظ قرآن مجید کے بعد آپ کو علاقہ انگہ ضلع خوشاب کے مدرسہ میں بھیج دیا گیا، انگہ میں آپ کی ننھیال بھی تھی، یوں آپ تعلیمی میدان میں خاندانی بزرگوں ہی کے زیرِ سایہ پروان چڑھتے رہے ١
انگہ کے مدرسہ کی شہرت مولانا سلطان محمود انگوی رحمہ اللہ سے قائم تھی، آپ وہاں علومِ متداولہ کا درس دیا کرتے تھے ٢ قاضی صاحب نے آپ سے تعلیم حاصل کرنی شروع کی، جس وقت قاضی صاحب انگہ میں زیرِ تعلیم تھے اُسی زمانہ میں فخر السادات حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی بھی وہیں زیر تعلیم تھے اندازہ ہے کہ قاضی صاحب کا انگہ میں قیام پانچ چھ سال رہا ہوگا کیونکہ پیر صاحب انگہ سے ١٢٩٠ھ میں ہندوستان تشریف لے آئے تھے جبکہ قاضی صاحب ١٢٩٣ھ تک وہیں زیرِ تعلیم رہے !
اُس زمانہ کا عمومی دستور علوم و فنون کی تکمیل اور حدیث پڑھنے کے لیے ہندوستان رُخ کرنے کا تھا ، ضابطہ کے مطابق آپ نے تکمیل ِعلم کے لیے سفر کیا اور سہارنپور کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، آپ کا
١ فیض ِقمر الاولیا ء ص ١٢١ ، ١٢٢ ٢ مہر منیر ص ٦٨
یہ سفر ١٢٩٣ھ میں ہوا۔سہارنپور میں آپ کی تعلیم حضرت مولانا احمد حسن کانپوری اور فخر المحدثین حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری کے زیر سایہ مکمل ہوئی !
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جس زمانے میں قاضی صاحب ان حضرات سے استفادہ کررہے تھے یہ دونوں ہی مدرسہ عربیہ سہارنپور سے متعلق اور وہاں مدرسِ حدیث تھے، اسی وجہ سے تذکرہ نگاروں نے قاضی صاحب کو بھی مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور ہی کا فاضل لکھا ہے، اس مفروضہ پر راقم نے مدرسہ مظاہر علوم رابطہ کیا کہ رُوداد میں قمر الدین بنوی نامی طالب علم کے نتائج ١٢٩٣ ھ تا ١٢٩٦ھ تک کی رُودادوں سے بتادیے جائیں تاکہ آپ کی پڑھی کتب اور اساتذہ متعین ہوسکیں ، مظاہر علوم وقف کے ناظم مولانا محمد سعیدی مدظلہم نے رُودادوں کو ملاحظہ فرمایا، صرف١٢٩٦ھ کی رُوداد میں مختصر المعانی میں قمرالدین نامی ایک طالب علم کا نام ملا جن کے بارے میں درج ہے کہ درمیانِ سال میں وطن چلے گئے ١
اب سوال یہ ہے کہ قاضی صاحب کا استفادہ ان حضرات سے کہاں رہا ؟ تو اس ضمن میں عرض ہے کہ مولانا احمد حسن کانپوری اور مولانا احمد علی سہارنپوری دونوں ہی مظاہر علوم کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے مکان پر بھی طلبہ کو پڑھاتے تھے، مولانا احمد حسن کانپوری کو مظاہر علوم سے رُخصت کے وقت جو اعزازی سند دی گئی تھی اس میں اس بات کا واضح اقرار درج ہے، مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری نقل فرماتے ہیں
''مولوی صاحب موصوف اوقاتِ درس مقررہ مدرسہ میں اور غیر وقت میں ہمیشہ بدل و جان و سعی وافر درس دینے میں مصروف رہے کہ مہتممان و طلبہ ان سے ہمیشہ خوش و مداح رہے، بہت مستعد و ذکی شائق تدریس و ماہر کتب متداولہ ہیں
حافظ ِقرآن بھی ہیں واللّٰہ علی ما نقول وکیل
العبد محمد مظہر عفی عنہ مدرس اوّل مدرسہ ہذا
العبد قاضی فضل الرحمن خان مہتمم مدرسہ العبد عبد الواحد خان نائب مہتمم مدرسہ ٢
١ رُوداد ١٢٩٦ ھ مدرسہ عربیہ سہارنپور ص ٨ ٢ علمائِ مظاہر اور اُن کی تصنیفی خدمات جلد اوّل صفحہ ٨٦
اسی طرح مولانا احمد علی سہارنپوری مدرسہ کے ساتھ ساتھ مکان پر بھی طلبہ کو درس دیا کرتے تھے مولانا عبدالعلی میرٹھی، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا سید پیر مہر علی شاہ وغیرہ کا محدث سہارنپوری سے پڑھنا اس کی واضح مثالیں ہیں !
خیر تذکرہ چل رہا تھا مولانا قاضی قمرالدین چکڑالوی کا، قاضی صاحب کا سہارنپور میں استفادہ ان دو حضرات ہی سے رہا، موقوف علیہ تک کی کتب مولانا احمد حسن کانپوری سے جبکہ صحاح ستہ فخر المحدثین مولانا احمد علی سہارنپوری سے پڑھیں ، حضرت مولانا سہارنپوری نے تکمیل ِحدیث پر آپ کو جو اجازت نامہ عطا فرمایا خوش قسمتی سے ہمیں وہ چکڑالہ ہی کے ایک رہائشی محترم قاضی جاوید صاحب کے ذریعہ مہیا ہوا یہ اجازت نامہ آپ کی مختصر سوانح گلدستہ ذبیح میں نقل ہے، اس کتاب کے مؤلف آپ کے پوتے محمد ظفر ذبیح صاحب ہیں ، حصولِ برکت کے لیے اس اجازت نامے کو یہاں درج کیا جاتا ہے
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین و الصلٰوة و السلام علی رسولہ محمد و آلہ و صحبہ اجمعین اما بعد فیقول العبد الضعیف الراجی الی اللّٰہ القوی عفی عنہ ان المولوی قمر الدین بن قاضی سلیمان ساکن ضلع بنوں قد عرض علی الصحیحین للبخاری و لمسلم و الجامع للترمذی و السنن لابی داود و شیئا معتدا لابن ماجة و شیئا یسیرا من النسائی قرائة و سماعة و قد عرضت الکتب المذکورة علی الشیخ الابجل و الفاضل الاکمل مولانا محمد اسحاق الدہلوی و قد اجازنی و انا اجیز للمولوی قمر الدین الموصوف ان یشتغل بالکتب المذکورة و یعلم المستفیدین بالشروط المعتبرة عند اہل الحدیث و بالمراجعة الی الشروح و اللغات العربیة عند مس الحاجة
واللّٰہ المستعان و علیہ التکلان و آخر دعونا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
حررہ فی شہر ذی القعدة ١٢٩٦ ست و تسعین بعد الالف و المأتین من ہجرة سید الثقلین صلی اللّٰہ تعالی علیہ و علی آلہ و اصحابہ اجمعین ۔
(الخاتم) احمد علیٰ کل حال ١
١ گلدستہ ذبیح وظیفہ قمریہ، ص ١٣٣ از محمد ظفر ذبیح،طبع دوم ربیع الاوّل ١٤٣٧ھ /دسمبر ٢٠١٥ئ
حضرت سہارنپوری کے عطا فرمودہ اس اجازت نامے سے معلوم ہوا کہ آپ نے ان سے صحیح بخاری، صحیح مسلم ،جامع ترمذی اور سنن ابی داود مکمل پڑھیں جبکہ سنن ابن ماجہ کا اکثر حصہ اور سنن نسائی کا بعض حصہ پڑھا ! یہ بات پیش ِنظر رہے کہ موطا امام مالک، موطا امام محمد اور مشکوة المصابیح آپ نے محدث سہارنپوری سے نہیں پڑھیں ، وجہ اس کی یہ ہے حضرت سہارنپوری کے ہاں کتابیں مکمل کرنا ضروری نہیں تھا، آپ طالب علم کی استعداد کو دیکھتے تھے، جب وہ چاہتا یا خود محسوس فرماتے، توپڑھی گئی کتابوں کی صراحت کے ساتھ اجازتِ عامہ تحریر فرما دیا کرتے تھے، مدرسہ کے تعلیمی اوقات اور زمانہ تعلیم تو متعین ہوتا تھا جبکہ مکان پر تعلیم حاصل کرنے والوں کا زمانہ تعلیم طے نہیں ہوتا تھا۔حدیث کی رہ جانے والی تین کتب آپ نے کن سے پڑھیں ؟ اس کی صراحت تو نہیں ملی، البتہ سہارنپور کے استفادہ میں آپ کے دو اساتذہ محدث کانپوری و محدث سہارنپوری ہی کا تذکرہ ملتا ہے، اس لیے ظن ِغالب یہی ہے کہ آپ نے فنون کے ساتھ ساتھ بقیہ کتب محدث کانپوری ہی سے پڑھی ہوں گی، محدث کانپوری کی جن کتابوں کی تدریس کا تذکرہ ملتا ہے اس میں مشکوة المصابیح کو خصوصی اہمیت حاصل ہے و اللہ اعلم سہارنپور سے تحصیل علم کے بعد آپ طب کی تکمیل کے لیے بستی قاضیاں ضلع مظفر گڑھ تشریف لے گئے، یہاں آپ نے حکیم قاضی فقیر محمد صاحب سے علم طب میں کمال حاصل کیا یہاں سے آپ ١٢٩٨ ھ میں وطن مالوف چکڑالہ تشریف لے آئے۔
حضرت مولانا قاضی قمرالدین چکڑالوی کے مخطوطات میں ایک اجازت نامہ اربعین نووی کا بھی ملتا ہے، اربعین کی اجازت آپ کو مولانا احمد بن بہا ء الحق الاسدی سے حاصل تھی، اس اجازت میں آپ کے شاگرد اور خانقاہ سراجیہ کندیاں کے بانی مولانا احمد خان بھی شامل تھے، اربعین کی یہ سند بہت نادر ہے، ذیل میں اس کا کچھ حصہ درج کیا جاتا ہے :
یقول الفقیر احمد بن بہاء الحق الاسدی عفی عنہ انی سمعت و قرء ت احادیث اربعین النووی علی والدی رحمہ اللّٰہ تعالی وھو سمعہا و قرأھا علی والدہ شیخ الاسلام ابی الخیر قادر حسن بن القاضی غلام محمد الاسدی تغمدھم اللّٰہ تعالی بغفرانہ الجلی وھو قرء و سمع من شیخہ الفاضل الربانی شیخ الاسلام خلیل الرحمن الخوشابی عن شیخہ ابی الوقت السید الحامد الدھلوی عن شیخہ الاجل المحدث الشیخ غلام حلیم المعروف بالشیخ عبدالعزیز الدھلوی عن شیخہ و ابیہ الشیخ ولی اللّٰہ الدھلوی ............
اس کے بعد مکمل سند تحریر فرمانے کے بعد ان الفاظ میں اجازت تحریر فرمائی
وقد التمس منی و ان لم اکن اھلا للاجازة قاضی قمرالدین و المولوی احمد خان ادام اللّٰہ فیوضھما ان اجیزھما و حررتھما بروایة اربعین النووی بالسند المذکورة و اسئل اللّٰہ تعالی حسن الخاتمة
کتبہ احمد عفی عنہ بقلمہ و قالہ بفمہ ١
تدریس :
چکڑالہ تشریف آوری کے بعد آپ نے مدرسہ کی بنیاد رکھی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، علاقہ میں علوم و فنون کی تدریس کا تو خاطر خواہ بندوبست تھا مگر دورہ ٔحدیث کا انتظام نہیں تھا آپ نے علاقے کی اس کمی کو پورا کیا اور فنون کے ساتھ ساتھ دورہ ٔحدیث بھی پڑھانا شروع کیا ! ایک طویل عرصے تک ابتدائی کتب سے لے کر کتب حدیث تک تمام کتب آپ خود ہی پڑھایا کرتے تھے، بعد میں پیرانہ سالی کی وجہ سے صرف کتب ِحدیث کی تدریس خود فرماتے جبکہ دیگر درجات کی تعلیم آپ کے خلیفہ و جانشین مولانا قاضی کلیم اللہ چکڑالوی اور دیگر منتہی حضرات دیتے تھے !
طرزِ تدریس :
حضرت مولانا قاضی قمر الدین چکڑالوی بہترین مدرس تھے، آپ محدث ِوقت ہونے کے ساتھ ساتھ مربی بھی تھے، دورانِ درس اساتذہ اور مشائخ کے سبق آموز واقعات سنا کر طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی بھی کرتے تھے، آپ کے اندازِ تدریس کی بعض جھلکیاں آپ کے تلمیذ ِرشید حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی کی مجالس میں ملتی ہیں ، ذیل میں انہیں پیش کیا جاتا ہے :
١ گلدستہ ذبیح وظیفہ قمریہ، ص ١٢٨ ، ١٣٠
(١) غورغشتی میں مولانا نصیرالدین غورغشتوی نے بخاری شریف کے ابتدائی سبق میں ''باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ''کی تشریح کرتے ہوئے طلبہ سے فرمایا
''ہمارے اُستاذ شیخ المشائخ حضرت مولانا قاضی قمرالدین محدث چکڑالوی نے ایک عمدہ بات ارشاد فرمائی تھی، انہوں نے فرمایا کہ در اصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندوں کا جو تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہیں اور بندے مخلوق، اللہ تعالیٰ مالک ہیں اوربندے مملوک، اللہ تعالیٰ معبود ہیں اور بندے عابد ، یہ تعلق بذریعہ وحی ثابت ہوا ہے اس تعلق کے ثبوت کے بعد پھر بندوں سے ایمان، علم اور اعمال و عبادات کے مطالبات ہوتے ہیں چنانچہ اسی ترتیب سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے یہاں سب سے پہلے وحی کا ذکر کیا ہے کہ اس سے تعلق کا ظہور اور ثبوت ہوا ہے پھر اس کے مقتضیات ایمان علم اور اعمال کا ذکر کیا'' ١
(٢) حضرت مولاناقاضی قمرالدین صاحب دورانِ درس عقائد پر بھی طلبہ کی ذہن سازی کیا کرتے تھے ایک مرتبہ عقیدہ حیات النبی کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے اپنے اُستاذ امام المحدثین مولانا احمد علی سہارنپوری کا ملفوظ ارشاد فرمایا، حضرت غورغشتوی اس ملفوظ کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''ہم نے اپنے اُستاذ شیخ المشائخ حضرت مولانا قاضی قمرالدین صاحب چکڑالوی سے سنا تھا کہ ہم نے اُستاذ الکل شیخ المشائخ حضرت مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری سے بخاری شریف پڑھتے وقت سنا کہ بہتر بات یہ ہے کہ کہا جائے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی وفات ایسی ہے کہ اس کے بعد موت وارد نہیں ہوتی بلکہ دوامی حیات آپ کو حاصل ہے اور باقی انبیا ء کرام علیہم السلام بھی اپنی قبروں میں حیات ہیں '' ٢
١ مجالس ِغورغشتوی ص ٥٧ از مولانا محمد امیر بجلی گھر، طبع: ٢٠١١ ء مطبع مدرسہ فاروقیہ لالہ زار کالونی،لنڈی ارباب روڈ پشاور
٢ مجالس ِغورغشتوی ص ١٦٢
(٣) حضرت محدث چکڑالوی گاہ بگاہ تلامذہ کو خود دار بننے کی نصیحت بھی کیا کرتے تھے، تکمیل ِبخاری کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے محدث غورغشتوی اپنے اُستاذ کی نصیحت یوں نقل فرماتے ہیں
''ہمارے اُستاذ حضرت مولانا قاضی قمرالدین نے ارشاد فرمایا کہ علماء میں اگر استعداد اچھی ہو اور لوگوں سے وہ استغنا سے رہیں تو وہ بادشاہ ہیں ! اس لیے علماء کو کبھی چندہ کے لیے اُمرا کے دروازہ پر نہیں جانا چاہیے، مسجد میں یا جلسہ میں عام اعلان کردینے میں کوئی حرج نہیں اور اگر غیر علماء کریں تو زیادہ اچھا ہے اور استعداد مطالعہ اور درس و تدریس سے بڑھتی ہے، اس کا ہمیشہ اہتمام ہونا چاہیے'' ١
تلامذہ :
حضرت مولانا قاضی قمرالدین چکڑالوی نے ١٢٩٨ھ سے تدریس شروع فرمائی جو آپ کی وفات ١٣٢٧ھ تک اُنتیس سال لگاتار جاری رہی، اس زمانے میں بڑے بڑے کبار حضرات نے آپ سے شرف ِتلمذ حاصل کیا، چند نام مشت ِنمونہ اَز خروارے نقل کیے جاتے ہیں :
٭ حضرت مولانا ولی اللہ انھی شریف
٭ حضرت مولانا ابوالسعد احمد خان ، بانی خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف
٭ حضرت مولانا فضل علی قریشی بانی خانقاہ مسکین پور شریف ضلع مظفرگڑھ
٭ حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی ، مدرسہ مسجد کھجور والی غورغشتی اٹک
٭ حضرت مولانا قاضی کلیم اللہ چکڑالوی ،جانشین خانقاہ قمریہ چکڑالہ
فتنوں کا تعاقب :
حضرت مولانا قاضی قمرالدین صاحب علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، علاقے میں قاضی آپ ہی کے خانوادے سے مقرر کیے جاتے تھے، جس وقت آپ تعلیم سے فارغ ہوکر واپس

١ مجالس ِغورغشتوی ص ١٦٧
تشریف لائے تو اُس وقت آپ کے چچا زاد بھائی غلام نبی قاضی تھے، غلام نبی غیر مقلد اساتذہ سے پڑھ کر آئے تھے اس سے قبل علاقے میں فیصلے فقہ حنفی کے مطابق دیے جاتے تھے، قاضی غلام نبی نے آتے ہی سب سے پہلے عدمِ تقلید کا فتنہ کھڑا کیا جو چلتے چلتے انکارِ حدیث پر منتہی ہوا، حدیث کا انکار کرکے غلام نبی نے اپنا نام عبداللہ چکڑالوی اور اپنی تحریک کا نام ''اہلِ قرآن'' رکھا، عبداللہ چکڑالوی نے انکارِ حدیث کے نہج پر علاقے میں کام شروع کیا تو علاقے میں فتنہ کھڑا ہوگیا، اہلِ علاقہ نے فوراً اسے منصب ِقضا سے معزول کرکے قاضی قمرالدین محدث چکڑالوی کو قاضی مقرر کیا، قاضی صاحب نے نہ صرف عملی طور پر عبداللہ چکڑالوی کے خلاف کام شروع کیا بلکہ علاقے میں دورۂ حدیث بھی شروع کیا، آپ عبداللہ چکڑالوی کے تعاقب میں ہر جگہ پہنچے حتی کہ دوسرے شہروں میں بھی آپ نے اس کا تعاب کیا اور اس کے اثر کو ختم کیا، آپ ہی کی تحریک سے عبداللہ چکڑالوی کا ایک بیٹا اِرتداد سے واپس مسلمان ہوا، الغرض حضرت مولانا قاضی قمرالدین محدث چکڑالوی جہاں کتب ِحدیث کے ذریعے حدیث کو عام کرنے والے بنے وہیں فتنہ انکارِ حدیث کے حق میں بھی مہر سکوت ثابت ہوئے !
بیعت و ارشاد :
حضرت مولانا قاضی قمرالدین محدث چکڑالوی علاقہ چکڑالہ ضلع میانوالی سے تعلق رکھتے تھے علاقے کے پڑوس میں موسیٰ زئی شریف واقع ہے جہاں سلسلہ نقشبندیہ کی عظیم اور اہم ترین خانقاہ خانقاہ احمدیہ سعیدیہ ہے جو پنجاب، سرحد و افغانستان کے علاقوں میں سلسلہ نقشبندیہ کا نقطہ آغاز ہے، حضرت مولانا دوست محمد قندھاری رحمہ اللہ خانقاہ مظہریہ مجددیہ سے تربیت پاکر اس علاقہ میں آباد ہوئے اور سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج میں مصروف ہوگئے، اس وقت پاکستان اور افغانستان کے علاقوں میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا فیض موسیٰ زئی شریف کے شیوخ ہی کا مرہونِ منت ہے !
حضرت مولانا خواجہ محمد عثمان صاحب دامانی موسیٰ زئی شریف کے دوسرے سجادہ نشین تھے حضرت قاضی قمرالدین صاحب آپ ہی کے سلسلۂ ارادت میں منسلک تھے، آپ کے وصال کے بعد آپ کے خلیفہ و جانشین حضرت خواجہ سراج الدین رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے، آپ فنا فی الشیخ تھے، مرشد کی مجلس میں جہاں خود حاضری معمول تھا وہیں اپنے تلامذہ کو بھی موسیٰ زئی شریف کے شیوخ ہی سے بیعت کرواتے، حضرت مولانا ابوالسعد احمد خان صاحب بانی خانقاہ سراجیہ، حضرت مولانا فضل علی صاحب قریشی بانی خانقاہ مسکین پور، حضرت مولانا نصیر الدین صاحب غورغشتوی کو آپ خود خانقاہ موسیٰ زئی شریف لے کر گئے اور بیعت کروایا،مولانا قاضی قمرالدین صاحب، حضرت خواجہ سراج الدین صاحب کے کبار خلفا میں تھے، حضرت خواجہ سراج الدین صاحب سفر میں عموماً آپ کو ہمراہ رکھتے حتی کہ آپ کو خلافت بھی مدینہ منورہ میں روضہ اطہر کی حاضری اور مراقبہ کے متصل بعد عنایت فرمائی، حضرت خواجہ صاحب نے بوقت ِمجاز جو اِجازت نامہ مرحمت فرمایا اس میں آپ کا تذکرہ نہایت بلند کلمات سے کیا گیا ہے ، ذیل میں اجازت نامہ درج کیا جاتا ہے :
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ہو اللّٰہ الذی لآ الہ الا ہو نحمدہ و نصلی علی نبیہ ونسلم علیہ و علٰی آلہ الکرام و اصحابہ العظام و بعد فیقول العبد المفتقر الی رحمة اللّٰہ الملک الولی محمد سراج الدین کان اللّٰہ لہ عوضا عن کل شیء ان الاخ العالم و الصدیق الصالح جامع علوم الشرعیة و الطریقة و الحقیقة القاضی محمد قمرالدین وفقہ اللّٰہ سبحانہ لما یحب و یرضاہ
ہرگاہ قطع کرد منازل سلوک تا ولایت کبری و عروج کرد لطائف باصول خویش و مشرف شد بفنا و بقا۔
فامرنی فی المراقبة قبلتنا و مولانا قدسنا اللّٰہ تعالی بسرہ الاقدس بالاجازة فی الطریقة النقشبندیة المجددیة المعصومیة المظہریة فاجزت لہ اجازة مطلقة فی الطریقة العلیة النقشبندیة تمثیلا لامرھم الشریف ، اللّٰھم بارک فی عمرہ عملہ و ارشادہ ، اللّٰھم اجعلہ خالصا لوجہ اللّٰہ تعالی، اللّٰھم اجعلہ من المتقین الذین لاخوف علیہم و لا ھم یحزنون ۔ و شرط الاجازة الاستقامة علی الشریعة و الطریقة و عدم التعلق مع اھل الدنیا و دوام الذکر والمراقبة فان الدعوة للّٰہ تعالٰی من اوثق دعائم الاسلام و الایمان و صلی اللّٰہ تعالٰی علی خیر خلقہ محمد و آلہ و اصحابہ اجمعین ۔ ١
علمی فیض :
حضرت مولانا قاضی قمرالدین نقشبندی محدث چکڑالوی کا فیض تصوف اور حدیث دونوں ہی طرح عام ہوا، علمی طور پر آپ کا فیض شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی کے ذریعہ عام ہوا، حضرت محدث غورغشتوی نے اپنی تمام زندگی حدیث پڑھنے پڑھانے میں گزاری، آپ سے فیض یافتہ علماء دنیا بھر میں پھیل گئے، راقم کا سلسلہ سند قاضی قمرالدین محدث چکڑالوی سے دو طرح منسلک ہوتا ہے :
اوّل : مشکو ةالمصابیح جلد اوّل : راقم نے حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مدظلہم اور حضرت مولانا ولید الرشیدی صاحب مدظلہم سے مشکو ةجلد اوّل پڑھی ،ان دونوں حضرات نے مشکوة جلد اوّل پڑھی فخر اہلِ سنت مولانا قاری عبدالرشید سے ،انہوں نے حضرت مولانا سید غازی شاہ صاحب ہزاروی سے، انہوں نے حضرت مولانا محمد چراغ صاحب عرف الشذی(گجرانوالہ) سے ،انہوں نے حضرت مولانا ولی اللہ انھی شریف سے ،انہوں نے حضرت مولانا قاضی قمرالدین صاحب چکڑالوی سے ! !
دوم : راقم کو شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیرالدین غورغشتوی کے تین چار تلامذہ سے اجازتِ حدیث حاصل ہے ! ان میں حضرت مولانا مرتضی حسن حمیدی کو شمائل ترمذی کی ابتدائی احادیث سنائی تھیں ، حضرت محدث غورغشتوی تلمیذ ِرشید ہیں مولانا قاضی قمرالدین محدث چکڑالوی کے !
وفات :
حضرت مولانا قاضی قمرالدین صاحب چکڑالوی فنا فی الشیخ تھے، آپ کے شیخ حضرت خواجہ سراج الدین گرمی کے موسم میں وادیٔ سون قیام فرماتے تھے، اس وقت آپ بھی طلبہ کو لے کر مرشد کی
١ گلدستہ ذبیح وظیفہ قمریہ ص ١٣١
خدمت میں حاضر ہوتے اور دل و جان سے ان کی خدمت کرتے، آخری مرتبہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو صحت خراب تھی، آپ کا ارادہ رمضان حضرت شیخ کی خدمت ہی میں گزارنے کا تھا مگر گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے آپ چکڑالہ واپس تشریف لے آئے، یہاں علاج چلتا رہا مگر طبیعت سنبھلنے کے بجائے بگڑتی ہی گئی، حضرت خواجہ صاحب اس دوران مسلسل آپ کی طرف متوجہ رہے، مریدین کی صبح شام خبر لانے پر ڈیوٹی تھی، وفات والی رات آپ خود وادیٔ سون سے نکلے، جس وقت چکڑالہ پہنچے تو اجتماعِ ضدین تھا یعنی سحر کا اُجالا ہورہا تھا مگر ساتھ ہی علم و تصوف کا جامع کمالات آفتاب غروب ہورہا تھا ! ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قاضی صاحب مرشد کریم ہی کے منتظر تھے، حضرت خواجہ صاحب تشریف لائے، قاضی صاحب کا سر گود میں رکھا، فرطِ محبت سے آنسو نکل کر قاضی صاحب کی پیشانی پر ٹپکا، قاضی صاحب نے اس آنسو سے لو پکڑی اور کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے جانِ جاں آفریں کے سپرد کردی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ صبح کے وقت حضرت خواجہ سراج الدین نقشبندی سجادہ نشین خانقاہ عالیہ موسیٰ زئی شریف نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی، چکڑالہ ہی میں آپ کی تدفین ہوئی، آپ کی لوحِ مزار پر یہ تاریخ وفات کندہ ہے : ١٢شوال ١٣٢٧ھ /٢٧اکتوبر ١٩٠٩ء بروز پیر
٭٭٭




قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔ (ادارہ)




امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
١٢ فروری بروز پیر امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم جمعیة علماء اسلام کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے اسلام آباد تشریف لے گئے، رات کا قیام وطعام جامعہ کے فاضل مولانا عبدالباسط صاحب کی رہائشگاہ پر ہوا۔
اگلے روز ١٣ فروری کو جامعہ کے فضلاء مولانا ابوبکر صاحب، مولانا فیاض صاحب اور مولانا عمر صاحب نے حضرت صاحب سے ملاقات کی، دوپہر ڈھائی بجے عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے جامعہ مسجد فاروقِ اعظم اسلام آبادتشریف لے گئے ،مغرب کے قریب اجلاس کی طوالت کی وجہ سے حضرت صاحب نے اجازت طلب کی ، رات کا کھانا ڈیرہ اسماعیل خان کے حاجی غلام مصطفی صاحب کے داماد عبدالحمید صاحب کے اصرار پر ان کی رہائشگاہ پر تناول فرمایا بعد ازاں لاہور کے لیے روانگی ہوئی رات کے ایک بجے بخیر و عافیت جامعہ مدنیہ جدید تشریف لے آئے والحمد للہ !
١٧ فروری بروز ہفتہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم جامعہ کے فاضل مولانا انیس شاہ صاحب کی دعوت پر دس روزہ ختم نبوت کورس کے شرکاء سے خطاب کے لیے آس اکیڈیمی اڈا پلاٹ تشریف لے گئے جہاں آپ نے قرآنی تعلیمات کے موضوع پر بیان فرمایا۔




وفیات
٭٭٭
٭ ٥ جنوری کو جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولانا محمد علی صاحب کے والد گرامی بوجہ عارضہ قلب مختصر علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے۔
٭ یکم فروری کو جناب شاہد اسرار صاحب کی والدہ صاحبہ لاہور میں انتقال فرماگئیں ۔
٭ ١٠ فروری کو جناب حافظ محمد سلیمان صاحب اور فاضل جامعہ مولانا خدا بخش صاحب کی والدہ صاحبہ صادق آباد میں انتقال فرماگئیں ۔
٭ ١٥ فروری کو فاضل جامعہ مدنیہ مولانا محمد معاذ صاحب کی نانی صاحبہ اچانک بوجہ عارضۂ قلب لاہور میں انتقال فرماگئیں ۔
٭ ٢١ فروری کو جامعہ مدنیہ جدید کے شعبہ حفظ و ناظرہ کی معلمہ کی خوشدامن صاحبہ مختصر علالت کے بعد چکوال میں انتقال فرماگئیں ۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔




ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
نرخ نامہ
٭٭٭
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500




جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
٭٭٭
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ 923454036960+

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.