ماہنامہ انوا ر مدینہ
جلد : ٣١
شعبان المعظم ١٤٤٤ھ / مارچ ٢٠٢٣ء
شمارہ : ٣
ض
سیّد محمود میاں
مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں
نائب مُدیر
ض
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 40 روپے ....... سالانہ 500 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور اِی مسالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ یل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
اکائونٹ نمبر ا نوارِ مدینہ
00954-020-100- 7914 - 2
مسلم کمرشل بنک کریم پارک برانچ راوی روڈ لاہور(آن لائن)
رابطہ نمبر : 0333 - 4249302
جامعہ مدنیہ جدید : 042 - 35399051
خانقاہ ِحامدیہ : 042 - 35399052
موبائل : 0333 - 4249301
دارُالافتاء : 0423 - 35399049
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز
٤
درسِ حدیث
حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب
١٠
تبلیغ کا آغاز ....... تعلیمات کا دوسرا رُخ
حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب
١٥
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کے مناقب
حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب
٢٥
رمضان شریف ، شب ِ قدر ، اعتکاف
حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب
٢٩
روزہ اور اُس کی اقسام
حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب جھنجھانوی
٣٨
فضیلت کی راتیں ( قسط : ٢ )
حضرت مولانا نعیم الدین صاحب
٥٠
جامعہ مدنیہ جدید میں تقریب تکمیلِ بخاری شریف
مولانا محمد حسین صاحب
٥٦
نتائج سالانہ امتحان دورہ حدیث شریف
٦٠
اخبار الجامعہ
٦٤
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
حرف
آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
٣ شعبان المعظم جمعہ کے بیان میں پاکستانی قوم کی عمومی اور سطحی سوچ پر گفتگو ہوئی پھر خیال ہوا کہ اِس کو قلمبند کرکے نظرثانی کے بعد کچھ مناسب ردّوبدل کر کے بطورِ ''حرف ِ آغاز''شائع کردیا جائے ! لہٰذا بطورِ تمہید و برہان اس کی ابتداء باری تعالیٰ کے ارشاد سے کی جاتی ہے
( اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَ اِذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْء فَلَا مَرَدَّلَہ وَ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہ مِنْ وَّالٍ) ( سُورة الرعد : ١١ )
''مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایات و مہربانیوں سے کسی قوم کو اُس وقت تک محروم نہیں فرماتے جب تک کہ وہ قوم خود ہی سرکشی اور نافرمانی کرتی چلی جائے اور مکمل ڈھٹائی اختیار کرکے رُکنے کا نام نہ لے پھر جب اللہ تعالیٰ ارادہ کرلیں قوم کی بربادی کا تو وہ ٹلا نہیں کرتی اور اُس (اللہ ) کے سوا کوئی مددگار نہیں''
اور دوسری جگہ ارشاد ہے :
( وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ ) ( سُورة محمد : ٣٨ )
'' یعنی اگر تم منہ پھیر لوگے تو اللہ کو بھی تمہاری پروا نہیں ہے وہ کسی اور قوم کو تمہاری جگہ لاکھڑا کرے گا پھر وہ تمہارے جیسے نالائق و بدعہد نہ ہوں گے''
٭
آپ حضرات اور ہم سب ایک جملہ بہت عرصہ سے سنتے رہتے ہیں اور خود بھی کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان جن حالات میں باقی ہے اور قائم ہے یہ اللہ کی خاص ''رحمت'' ہے ! پاکستان کا اِن حالات میں باقی رہنا ایک'' معجزہ'' ہے ! اور پاکستان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ یہ کلمے کے نام پر بنا ہے ! ! یہ جملے آپ اور ہم بار ہا کہتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں !
یہ بہت خطرناک جملہ ہے ! یہ جملہ اللہ سے مذاق ہے ! سچ تو یہ ہے کہ ہم اور آپ کو یہ جملہ کہنا زیب نہیں دیتا ! کیونکہ عوام ہوں یا خواص ، فوجی قیادت ہو یا عوامی قیادت ، سارے کے سارے مجرم ہیں تو مجرم پر گرفت نہ ہو اور پکڑ نہ آئے سخت ، اس کو ڈھیل تو کہا جاسکتا ہے اسے رحمت نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ کی رحمت ہے ! ! تو کیا یہ اللہ سے مذاق نہیں ہے ؟ کیا یہ اللہ کے غضب کو اور زیادہ دعوت نہیں دے رہا کہ ہم بحیثیت قوم کے مسلسل نیچے دھنستے چلے جارہے ہیں اور عذاب میں مبتلا ہیں ! ؟ ایک مصیبت پھر مصیبت ، پھر اُس مصیبت پر مصیبت ! کیا یہ چیزیں نہیں ہورہیں ہمارے ساتھ ؟ چالیس پچاس برس پہلے آدھا ملک ٹوٹ کے ختم نہیں ہوگیا ؟ اس کے بعد سے پھر ہم یہی جملہ اُس وقت بھی کہتے تھے اس سے پہلے بھی کہتے تھے اور آج بھی وہی جملہ رٹ رہے ہیں ! توبہ استغفار اور رجوع نہیں کررہے جو جس گناہ میں مبتلا ہے اُس پر قائم ہے مضبوط ہے اور ڈَٹا ہوا ہے اور کہتا ہے بس اللہ بڑا مہربان ہے !
تو بحیثیت قوم کے ہم مجرم ہیں ،لیڈر بھی مجرم ہے عوام بھی مجرم ہے، فوجی لیڈر بھی مجرم ہے اور سول لیڈر بھی مجرم ہے ، اور بحیثیت اجتماعی مجرم بھی ہیں ! اور بحیثیت اجتماعی گناہ پر ڈَٹے بھی ہوئے ہیں ! اور بحیثیت اجتماعی اللہ سے رحمت کے اُمیدوار بھی ہیں ! اور اس کو'' معجزہ'' کہتے ہیں ! کتنی بڑی جہالت کتنی بڑی نادانی، کتنی بڑی اپنے آپ سے دشمنی ہے یہ جو ہم کر رہے ہیں ! ہندوستان کو ہم سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہودی ہمارے خلاف لڑنے کو میدان میں آئے اس کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب ہم اپنے لیے دشمن بن گئے تو ہم نے ان کا کام آسان کردیا، ہم خود پٹ رہے ہیں اور تباہ ہورہے ہیں اور مٹ رہے ہیں انہیں ضرورت نہیں ہے ! بحیثیت قوم ہم سارے کے سارے منافق ہیں ، ساری قیادت منافق ہے ،ووٹ دینے والے بھی منافقت کرتے ہیں اور ووٹ لینے والے بھی منافقت کرتے ہیں ! !
تو یہ کہنا کہ پاکستان کا بننا معجزہ ہے، تو معجزہ کہہ سکتے ہو کہ اللہ نے ہمیں نعمت دی تھی انعام کیا تھا مگر اِس معجزے کے جواب میں ہم نے کیا کیا ؟
قرآن تو معجزہ ہے ! لیکن قرآن کے ساتھ ہمارا جو سلوک ہے کیا یہ بھی معجزہ ہے ؟ زِنا ہم کرتے ہیں، جھوٹ ہم بولتے ہیں ،شراب ہم پیتے ہیں، منافقت ہم کرتے ہیں ، کیا قرآن اِن کی مذمت نہیں کر رہا ؟ تو قرآن معجزہ ہے لیکن قرآن کے ساتھ ہمارا ٹھٹھہ اور مذاق کیا یہ بھی معجزہ ہے یا یہ جرم ہے ؟
بتائیے جرم ہے یا نہیں ہے ؟ ہم سارے کے سارے اس جرم میں مبتلا ہیں ، بہت بڑا مغالطہ ہے بہت بڑا دھوکہ ہے ہمارے لیڈروں کو ہماری ایجنسیوں کو، ایجنسیوں کے حضرات بھی ملتے ہیں تو وہ بھی ایسی باتیں ہم سے کرتے ہیں کہ نہیں جی پاکستان کو کچھ نہیں ہوتا یہ معجزہ ہے اللہ کا !
ہم سوچتے ہیں کہ یا اللہ اِن سے زیادہ بھی کوئی نادان ہے جو جرم کو عبادت سمجھ رہے ہیں ! اور بدبخت یہودیوں کی طرح اپنے کو اللہ کا لاڈلا سمجھتے ہوئے اُس کی ڈھیل کو رحمت سمجھ رہے ہیں ! تو بحیثیت مجموعی ہم بہت بڑے گناہ میں مبتلا ہیں ،بہت بڑی معصیت میں مبتلا ہیں، عورت بھی مرد بھی !
بے پردہ عورتیں پھر رہی ہیں ، پہنائیں برقعہ ذرا پھر دیکھیں آج ہی گھر میں جھگڑا شروع ہوجائے گا ، اگر کسی کو توفیق ہے کہ میں پردہ کراؤں گا تو جاکر بہنوں سے کہہ کر دیکھو، کتنا گھر میں طوفان برپا ہوجائے گا ! ماں بھی اُس بیٹی کی حمایت میں میدان میں آجائے گی اَبا بھی آجائیں گے !
ڈاڑھی باپ بھی مونڈھ رہا ہے ،دادا بھی مونڈھ رہا ہے، نانا بھی مونڈھ رہا ہے، پوتا اور نواسہ بھی مونڈھ رہا ہے اور اس پر ڈَٹے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں اللہ کی رحمت ہے ہم پر ! روز آئینہ کے سامنے جاکر اس پر کریم ملتے ہیں اور بھوت جیسی شکل بنا کر اللہ کے نبی کی سنت کا مذاق اُڑاتے ہیں ! ! نماز نہیں پڑھیں گے لیکن یہ کام ڈاڑھی مونڈھنے کا ضرور کریں گے، نمازِ فجر جو فرض ہے روز پڑھنا وہ نہیں پڑھیں گے مگر یہ کام کریں گے اور کہیں گے اللہ بڑا مہربان ہے ! یہ کفریہ جملے ہیں توبہ کرنی چاہیے ، یہ سوچ اور یہ جملے ہمارے ایمان سے تعلق کو کم کرتے چلے جائیں گے حتی کہ خدانخواستہ خطرہ ہے کہ ہمارے دلوں سے اللہ ایمان نکال ہی نہ دے کہیں ؟ ! کہ جاؤ ! !
اب جو مدارس کے خلاف حکومتوں اور عالمی اداروں کے منصوبے ہیں ،کیا یہ ہمارے ایمان کے خلاف منصوبہ نہیں ہے ؟ اگر مدرسہ ختم ہو گیا تو کیاایمان ہماری نسلوں کا باقی رہ سکے گا ؟ ؟ کون ہوگا جو ہماری نسلوں کو اِیمان کی شمع دکھائے گا ؟ کیا یونیورسٹی دکھائی گی کالج دکھائے گا ؟ وہاں تو پہلے ہی شمع بجھی ہوئی ہے وہ تواَندھیرنگری ہے ! اندھیرا دِکھاتے ہیں اور اندھیرا پڑھاتے ہیں، تو ایمان کو چھینے کا انتظام ہورہا ہے ! اللہ سے ڈرو ! !
یہ جملہ کہ یہ معجزہ ہے یہ اللہ کی رحمت ہے ہمارے ساتھ ، یہ اہلِ بدر کہہ سکتے ہیں، یہ جملہ بدریوں کو جچتا ہے ! یہ جملہ خیبر کے مجاہدین اور صحابہ کو جچتا ہے، خندق کے میدان میں اُترنے والے صحابہ پر جچتا ہے یہ جملہ ،کیونکہ بدر کی فتح ایک معجزہ ہے، خیبر کی فتح ایک معجزہ ہے، اُحد کی فتح ایک معجزہ ہے، خندق کی فتح ایک معجزہ ہے، حضرت محمد رسول اللہ ۖ ہمیں مل گئے اور ہم انہیں مل گئے ہم ان کے صحابی بن گئے یہ اللہ کا ایک معجزہ ہے یہ اللہ کی ہم پر ایک رحمت ہے ! وہ یہ جملے کہہ سکتے ہیں، یہ جملے اُن پر جچتے ہیں ! اور ہم جو زِنا کرتے ہیں اور شراب پیتے ہیں جو رشوت لیتے دیتے ہیں جو ہر قسم کی نافرمانی اور معصیت کررہے ہیں وہ یہ جملے کہیں اور گناہ کرتے جائیں اور کہیں کہ اللہ کی رحمت ہے ، اللہ بڑا مہربان ہے ، کیا یہ اللہ سے بغاوت نہیں ہے ؟ کیا یہ حرکت اُس کے غصے کو دعوت نہیں دے گی ؟ اور کیا یہ بات مصیبت پر مصیبت کو دعوت نہیں دے گی ؟ ہم سب اِن گناہوں میں مبتلا ہیں !
یاد رکھو ہم سب تباہی کی طرف جارہے ہیں میں آپ کو آئینہ دکھاتا ہوں ،یہ مطلب نہیں کہ آپ جائیں مصیبت میں، میں نہیں جارہا بلکہ بحیثیت مجموعی سب جائیںگے حتی کہ صوفی ،بزرگ، قطب، ابدال سب عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے خدانخواستہ !
کیونکہ حدیث میں آتا ہے جب اس قسم کی کوئی بات ہوئی تو صحابہ نے پوچھا حضرت جو بیچ میں صالحین ہوں گے اُن کا کیا بنے گا ؟ فرمایا دنیا میں ایک جیسا سلوک ہوگا صالحین کے ساتھ بھی پیروں کے ساتھ بھی اُستادوں کے ساتھ بھی قطب اور اَبدال سب کے ساتھ مگر آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے لیکن دنیا میں جب مصیبت آئے گی تو اس میں وہ بھی لپیٹ میں آئیں گے ! ! جب گناہ عام ہوجائے گا اور عام گناہ پر اللہ کی پکڑ آئے گی تو پھر زلزلہ آنے سے پہلے، سیلاب آنے سے پہلے کوئی فرشہ نہیں آئے گا کہ جو اِس بزرگ کو یوں اُٹھا کر لے جائے گا اس قطب کو یوں اُٹھا کر لے جائے گا اس پیر صاحب کو اُٹھا کر لے جائے گا اور انہیں جاکر غار میں بٹھا دے گا یہ چیزیں نہیں ہوں گی بلکہ سب مبتلا ہوںگے ! !
لہٰذا غوثوں کو بھی ڈرنا ہے، قطبوں کو بھی ڈرنا ہے، ابدالوں کو بھی ڈرنا ہے، ولیوں کو بھی ڈرنا ہے ، علماء کو بھی ڈرنا ہے، پیروں کو بھی ڈرنا ہے اور مریدوں کو بھی ڈرنا ہے ! !
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اُسے کسی کی پروا نہیں ہے ،وہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتا ، وہ بہت بے نیاز ہے اور ہم اُس کی بے نیازی کا مذاق اُڑا رہے ہیں اُس کی ڈھیل کا مطلب نہیں سمجھ رہے ! یہ ڈھیل ہے یہ رحمت نہیں ہے یہ ہمیں ڈھیل مل رہی ہے !
وہ جملے جو اصحاب ِبدر کے ہیں وہ افغانستان کے مجاہدین پر جچتے ہیں وہ کہہ سکتے ہیں مگر وہ جملے ہم بزدل لوگ کہتے ہیں جو نہ ہندوستان سے جہاد کے لیے تیار ہیں، نہ امریکہ سے، نہ رُوس اور اسرائیل سے بلکہ ان سے ڈرتے ہیں ! کیا فوج ،کیا سول، کیا ہمارے حکمران، اعلانِ جہاد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو وہ جملے جو اِن جیسے مجاہدین کو کہنے چاہییں وہ بزدل کہتے ہیں ! وہ شکست خوردہ کہہ رہے ہیں ! وہ شراب خور کہہ رہے ہیں ! وہ زانی کہہ رہے ہیں !
یہ اللہ کے عذاب کو دعوت ہے بھائی، اللہ کے عذاب سے ڈرو، اللہ سے استغفار کرو ہم پکڑ کی طرف جارہے ہیں ،مسجد میں بیٹھے ہیں یا باہر بیٹھے ہیں سب اللہ کی پکڑ کی طرف جارہے ہیں اللہ سے پناہ مانگو، اللہ سے پناہ مانگو، مجھے بھی استغفار کرنی چاہیے آپ کو بھی کرنی چاہیے، سب کو کرنی چاہیے اور عملی استغفار، صرف زبانی کلامی نہیں اَسْتَغْفِرُ اللّٰہْ اَسْتَغْفِرُاللّٰہْ سو تسبیح پڑھ ڈالیں بس ! نہیں بلکہ اپنی کرتوتوں سے رُک جاؤ ! جو خراب کرتوت کرتے ہیں اُس سے باز آجائیں ! پھر تو خیر کی اُمید ہے ورنہ تباہی آرہی ہے ! !
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے سچی توبہ کی ،عملی توبہ کی ،ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے، آخرت میں رسول اللہ ۖ کی شفاعت اور اُن کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین !
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (اِدارہ)
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
''توحید'' و ''رسالت''کے متعلق تمام اَنبیاء کا مؤقف ایک ہے !
عاشوراء کے مبارک دن میں حضرت امام حسین کی شہادت !
یوم عاشوراء ............................ فرعون کی غرقابی کا دن !
دُنیا کو ترقی کر کے جہاں تک جانا ہے وہ سب احکام
حضرت محمد ۖ کے ذریعے بتلا دیے گئے ! !
( درسِ حدیث نمبر٢٢٣ ٦ محرم الحرام ١٤٠٧ھ/١٢ ستمبر ١٩٨٦ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جنابِ رسول اللہ ۖ نے بتلائے ہیں اوقات اور مقامات جس میں ایسے مقامات کہ جہاں دُعا قبول ہوتی ہے وہ بھی بتلائے ! اور جو اُن مقامات تک نہیں پہنچ سکتا یا ہمیشہ نہیں رہ سکتا تو اُس کے لیے کیا چیز ہوگی ؟ اُس کے لیے رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے اوقات بتادیے کہ ان اوقات میں یہ عبادت کی جائے تو اتنا ثواب ہے ! ان اوقات میں دُعا کی جائے تو قبول ہوگی ! تو اُن میں رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے جو پسند فرمایا ہے وہ محرم کے روزوں کو بھی پسند فرمایا ہے !
اور ایسے ہوا تھا اس کا واقعہ کہ جب رسولِ کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں دیکھا کہ یہودیوں نے محرم کا روزہ رکھا ہے دسویں تاریخ کا، رسول اللہ ۖ نے اُن کوبُلاکر دریافت کیا کہ یہ کون سا روز ہے جس دن تم روزہ رکھتے ہو ؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ یَوْم عَظِیْم یہ ہمارے لیے ایک عظیم الشان دن ہے ! اور اُس کی وجہ یہ ہے اَنْجَی اللّٰہُ فِیْہِ مُوْسٰی وَقَوْمَہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو اور اُن کی قوم کو نجات دلائی تھی ! اور غَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَہ فرعون اور اُس کی قوم کو ڈبودیا غرق کردیا تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے شکر کے طور پر یہ روزہ رکھا تھا ! اُس دن روزے سے ہوں یا اُس سے اگلے سال سے روزہ رکھا ہو اُس دن کا، بظاہر یہ ہے کہ اُس سے اگلے سال سے اُس دن کا روزہ اُنہوں نے رکھا اور یہ تاریخ چاند کی تاریخ سے اُنہوں نے لی کہ سال جو بنتا ہے اس کا دن یہ آتا ہے ! تو یہ سال کون سا ہے ؟ عربی مہینوں سے جو سال بنتا ہے وہ ہے مراد، تو اِس واسطے ہم بھی اسے قائم رکھے ہوئے ہیں کہ ہمارے نبی حضرتِ موسٰی علیہ السلام نے رکھا تھا تو ہم بھی یہ رکھتے چلے آرہے ہیں !
توجنابِ رسول اللہ ۖ نے فرمایا فَنَحْنُ اَحَقُّ وَ اَوْلٰی بِمُوْسٰی مِنکُمْ ١ ہم زیادہ قریب ہیں زیادہ حقدار ہیں یعنی حق اُسی کا زیادہ ہوتا ہے جو قریب زیادہ ہو ! ہم زیادہ قریب ہیں بہ نسبت تمہارے حضرت موسٰی علیہ السلام سے ! اس واسطے رسول اللہ ۖ نے بھی یہ روزہ رکھا !
یہودی صرف دعویدار ہیں جبکہ مسلمان عمل پیرا :
وہ تو حضرت موسٰی علیہ السلام کو ماننے کے دعویدار تھے فقط ! اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں تھے لیکن مسلمان تو اُن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے ! اُن کی تعلیم یہی تھی کہ جب نبی آخرالزمان علیہ الصلٰوة والسلام آئیں تو وہ جو احکام لائیں گے وہ ماننا ! ! !
''توحید'' کے متعلق تمام اَنبیاء کا مؤقف ایک ہے :
باقی تو سب کی ایک ہی رہی ہے'' توحید'' کہ اللہ ایک ہے اور جو نبی ہیں اُن سب پر جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں بالاجمال ایمان ہے ہمارا کہ سب سچے تھے ! تو یہ تعلیم شروع دن سے چلی آرہی ہے ! تو اَنبیائے کرام سب کے سب اس بارے میں یک زبان ہیں یک دل ہیں کہ اللہ ایک ہے !
اور خدا کے ساتھ اُس کی صفات میں کوئی شامل و شریک نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اُس کے یکتا ہونے پر سب کا ایمان چلا آرہا ہے ! !
١ مشکوة شریف کتاب الصوم رقم الحدیث ٢٠٦٧
رسول اللہ ۖ کو بھی فرمایا گیا کہ یہ جو گزرے ہیں ابراہیم اور زکریا ، یحییٰ، عیسٰی، الیاس ، یونس اور لوط وغیرہ وغیرہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدٰھُمُ اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ )یہی ہیں وہ لوگ کہ جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے تو اِن کی ہدایت کی پیروی کیجیے ! تو ہدایت جو دی تھی وہ کیا تھی ؟ وہ یہی تھی ! ایسے ہی ( اِتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرَاہِیْمَ ) ابراہیم علیہ السلام کے مذہب کی پیروی کرو ،ملت کی پیروی کرو ! اُن کی ملت میں کیا چیز تھی جس کی پیروی اب مقصود ہے، احکام تو تھے نہیں بہت تھوڑے احکام تھے (صُحُفِ اِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی ) حضرت موسٰی علیہ السلام کے صحیفے ، توراة دی گئی احکام اُس میں سخت تھے مگر پورے نہیں تھے ،کچھ تھے، جو تھے وہ سخت تھے ! ابراہیم علیہ الصلٰوة والسلام کے چند صحیفے تھے اُن میں احکام بہت تھوڑے تھے ! تو اُن کی تو پیروی کو نہیں فرمایا گیا !
تمام احکام ؟
احکام تو بہت زیادہ اب دیے گئے جن میں وہ سب شامل ہیں جو اُن کے تھے اور جو لوگوں نے غلطیاں اُس میں بڑھادی تھیں ایجادات بڑھادی تھیں بدعات بڑھادی تھیں وہ اسلام نے بتلادیں اور ہٹا دیں وہ سب !
تو جس مذہب کی پیروی کا حکم مقصود ہے وہ تو'' توحید'' ہے اور''رسالت'' پر ایمان ہے
یہ ہے ملت ِ ابراہیم ! !
انبیاء کی تفصیل ؟
ایک جگہ ارشاد ہے( اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِہ ) ہم نے ایسے وحی کی ہے آپ پر جیسے نوح علیہ السلام پر کی اور اُن کے بعد جو نبی اور آئے ، وہ نبی کتنے ہیں کون سی قومیںہیں اُن کو بتایا نہیں گیا ( مِنْھُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْھُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ) کچھ تو ایسے ہیں جنہیں ہم نے بیان کیا ہے کچھ ایسے ہیں جو ہم نے نہیں بتلائے قرآنِ پاک میں یہ آتا ہے (وَعَادًا وَّثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِھِمْ ) عاد اَور ثمود اَور جو اُن کے بعد تھے ( لَا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا اللّٰہُ ) اُن کو خدا کے سوا کوئی جانتا ہی نہیں ! تاریخ میں اُن کے نام ہی نہیں ہیں ! پتہ ہی نہیں ہے قوموں کی قومیں ایسی ہیں ، تو اُن میں جو اَنبیائے کرام گزرے اُنہیں کوئی نہیں جانتا ! تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
( اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیِّیْنَ مِنْ م بَعْدِہ ) اورجو اَنبیائِ کرام اُن کے بعد گزرے اُن پر وحی ہم نے کی جیسے اُن پر کی ویسے تم پر بھی وحی کی ! تو سب کی وحی ایک توحید کے بارے میں اقرارِ رسالت تصدیق ِ رسالت کے بارے میں ! !
دُنیا کو ترقی کر کے جہاں تک جانا ہے وہ سب احکام بتلادیے گئے ہیں :
احکام تو پہلے تھوڑے ہوا کرتے تھے بعد میں بڑھتے چلے گئے حتی کہ جناب ِ رسول اللہ ۖ کے دور میں علمی چیزیں بہت زیادہ آگئیں اتنی کہ جہاں تک دُنیا کو ترقی ہوکر پہنچنا تھا اُتنی آگئیں ! رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ہم حضرت موسٰی علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ہم زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اُن کی پیروی کریں یا اُن کو جس چیز سے خوشی ہوئی تھی اُس پر ہم خوش ہوں ! ہمیں زیادہ حق ہے تو پھر آپ نے روزہ رکھا ! !
پہلے پہل اَیامِ بِیضْ اور عَاشُوراء کے روزے فرض تھے :
اسلام میں شروع شروع میں تو روزے فرض کیے گئے تھے '' اَیامِ بیض' 'کے ہر مہینے میں تین دن تیرہ چودہ پندرہ یہ فرض تھے ! جب رمضان آگیا تو پھر یہ فرض منسوخ ہوگیا اب جو چاہے وہ رکھے روزے ہر مہینے، چاہے نہ رکھے، اس طرح سے تیس روزے بن جاتے ہیں کیونکہ ہر نیکی کا دس گنا بدلہ ہوتا ہے جب ہر مہینے میں تین روزے ہوگئے تو گویا مہینہ بھر روزہ ہوگیااُس کا ! اللہ نے جو وعدہ فرمایا ہے اجر کا وہ اس حساب سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس طرح دُوں گا ! ایسا بھی وقت گزرا ہے مدینہ منورہ آنے کے بعد کہ رسول اللہ ۖ نے یہ دس محرم کا روزہ بھی فرض فرمایا تھا کہ یہ بھی رکھو یہ بھی واجب رہا ہے ! لیکن جب رمضان آگیا تو پھر یہ منسوخ ہوگیا اب یہ سب روزے نفلی رہ گئے ! تو مَنْ شَائَ صَامَہ ١ جس کا دل چاہے وہ رکھ لے روزے ! بہرحال ایک ایسا روزہ کہ جو فرض رہا ہو !
١ مصنف ابن ابی شیبة کتاب الصیام رقم الحدیث ٩٣٥٦
اب اگرچہ فرض نہیں رہا لیکن اُسے مزید فضیلت تو حاصل ہے اور روزوں کے اُوپر برتری حاصل ہے اُس کو اَجر کے حساب سے !
یہودیوں سے مشابہت نہیں ہونی چاہیے :
آقائے نامدار ۖ جس سال دُنیا سے رُخصت ہوگئے اُس میں فرمایا تھا کہ آئندہ سے اگر ہم روزے رکھیں گے تو اِس کے ساتھ ایک اور ملالیں گے تاکہ یہودیوں کی عبادت سے ہماری عبادت میں فرق ہوجائے ! وہ رکھتے تھے ایک ہی دن کا تو مسلمانوں کو فرمایا کہ وہ رکھیں دو دن کا نو، دس یا دس، گیارہ(محرم کا) ! !
حضرت حسین کی شہادت اس مبارک دن میں ہوئی :
یہ دن مبارک شمار ہوتا آیا ہے حتی کہ اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ! تو اس کے بعد سے پھر اِس دن کی دُوسرے تذکرے کی وجہ سے فضیلت ذہنوں سے ختم ہوگئی ! ورنہ حقیقتاً جو آتا ہے حدیثوں میں وہ محض اس کے تمام فضائل ہی فضائل ہیں ! !
اس دن سُرمہ لگانا اور اہلِ خانہ کے لیے اچھا کھانا پکانا :
کچھ دوائوں کے طور پر بھی مفید سمجھا گیا ہے سرمہ لگانا، کہتے ہیں کہ سرمہ لگائے اس دن میں تو آنکھیں دُکھنے نہیں آتیں ! سال بھر محفوظ رہے گا آنکھوں کی بیماری سے !
اسی طرح سے جو اس دن کھانا وغیرہ بہتر پکائے اپنے گھر والوں ہی کے لیے تو اللہ تعالیٰ رزق میں برکت عطاء فرماتے ہیں ! سال بھر اُس کی برکات چلتی رہیں گی ! یہ بہت آسان آسان عمل ہیں اور ثواب بہت زیادہ ہے ! ان میں فوائد بہت زیادہ ہیں ! جنابِ رسول اللہ ۖ نے اوقات بتادیے ، طریقے بتادیے ،فوائد بتادیے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اَعمالِ صالحہ کی توفیق عطاء فرمائے اور اپنی بارگاہ میں قبولیت سے نوازے، آمین،اختتامی دُعا .................................................... (مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون٢٠١٠ )
تعلیمات کا دوسرا رُخ
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ ۖ کے چند اَوراق
ض ض ض
پڑھنا، لکھنا، تہذیب، تمدن :
(١) تخلیق نواز اور انقلاب انگیز تعلیمات کا دُوسرا رُخ بھی ملا حظہ فرمائیے :
مشہور مثل '' کَلَامُ الْمُلُوْکِ مُلُوْکُ الْکَلَامِ'' کی وجد آفریں مثال بھی آپ کے سامنے آجائے گی !
وحی کا آغاز لفظ '' اِقْرَأْ ' ' سے ہوا اور اس اہمیت کے ساتھ کہ نام '' رب ''بھی بعد میں لایا گیا ! ( اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ ) ''پڑھ اپنے رب کے نام سے''
پھر پروردگار (رب) کی تین صفتیں بیان کی گئیں خَلَقَ ، اَلْاَکْرَمُ ، عَلَّمَ زیادہ زور عَلَّمَ پر دیا گیا ( عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ )''تعلیم دی قلم کے ذریعہ ، سکھایا اِنسان کو وہ جو نہیں جانتا تھا '' کیا اس اسلوب ِ کلام سے ہمیں یہ سبق نہیں ملتا کہ جو شخص اس وحی پر ایمان لائے اُس کا پہلا فرض قرأت اور تعلیم ہے ؟ ! ١ اور تعلیم بھی وہ نہیں جو ماں باپ بچوں کو زبانی دے دیتے ہیں بلکہ تعلیم ایسی جس میں پڑھنا بھی ہو اور قلم سے لکھنا بھی !
١ جس طرح یہ سبق ملتا ہے کہ معلم حقیقی اللہ تعالیٰ ہے وہ انسان کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو وہ نہیں جانتا وہ جس طرح قلم کے ذریعہ سکھاتا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ ''اُمی محض'' محمد ۖ کو بِلا کسی واسطہ کے علم الاوّلین والآخرین سے نواز دے ! عَلَقَ (خون بستہ) یعنی لہو کی پھٹکی اس کو علم سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی، خون کی پھٹکی کے لیے علم کا تصور بھی بے محل ہے ! لیکن خدائے قادر پروردگارِ عالم اس عَلَقَ سے انسان کو پیدا کرتا ہے اور علم بے پایاں کی دولت سے نوازتا ہے ! وہی رب ذوالجلال محمد ۖ جیسے اُمی کو جوہرِ علم سے آراستہ کر رہا ہے، بِلا شبہ کسی اُمی کو نہیں کہا جاسکتا کہ ''پڑھ '' پڑھنے کا حکم اُمی کے حق میں تکلیف مالا یطاق ہے مگر رب ِ محمد کا حکم محمد ۖ کے لیے تکلیف مالا یطاق نہیں ہے کیونکہ جو حکم کر رہا ہے وہ پہلے ہی محمد ۖ کو وہ جوہر عطا کرچکا ہے جس نے محمد ۖ کو خطابِ اِقْرَائْ کا
اہل اور محل بنادیا واللہ اعلم باالصواب (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
(٢) کچھ توقف کے بعد دوبارہ سلسلہ شروع ہوا تو اس کا پہلا لفظ تھا
( یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّرْ ) ''اے لحاف میں لپٹنے والے ''
اس اَلْمُدَّثِّرْ ١ کو چھ کاموں کی ہدایت کی گئی :
(بقیہ حاشیہ ص ١٥) تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے کے لیے یہ موضوع بہت دلچسپ ہے کہ وہ تحقیق کرے کہ اُس وقت تعلیم کے بارے میں اقوامِ عالم کی حالت کیا تھی اور ان کا ذوقِ تعلیم کہاں تک سرد پڑ چکا تھا !
مغربی یورپ، انگلینڈ، جرمنی وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا ہے وہاں تو انسان ابھی پہاڑ کی گھاٹی اور پھونس کی جھونپڑی سے بھی نہیں نکلا تھا، رات کو ایک ہی جھونپڑی میں اپنے مویشی کے ساتھ بند ہوتا تھا۔ مشرقی یورپ جہاں ''رومن لا'' (Roman Law)کا اقبال چمک رہا تھا وہاں بھی علم اور تعلیم کی کچھ دولت تھی تو صرف کلیسا کے تاریک کناروں میں چھپی ہوئی ،کلیسا سے باہر یا دولت ِ علم سے آشناہی نہ تھے یا تعلیم ان کے لیے ممنوع تھی اور کلیسا کے علماء بھی صرف نفع اندوزی کی حدتک علم کے قدر دان تھے ! اگر نفع کسی کتاب کی فروخت سے ہوتا یا چمڑے پر لکھی ہوئی کتاب کے حروف مٹاکر چمڑہ فروخت کردینے میں نفع ہوتا تو وہ اس سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ ( بحوالہ موسیو لیبان)
ہندوستان کا حال معلوم ہے کہ یہاں صرف براہمہ ہند علم کے مالک سمجھے جاتے تھے اور غیر برہمن میں سے آدھی سے زیادہ مخلوق شودر تھی وہ علم حاصل تو کیا کر سکتی اگر علم کی بھنک بھی کان میں پڑجاتی تو کان میں سیسہ پگھلا دیا جاتا ! ( بحوالہ منو سمرتی)
ایران اور فارس میں عیش پرستی علم پر غالب تھی ! اور چین وافریقہ کا ماضی ان کے موجودہ حال سے معلوم ہورہا ہے ! امریکہ و کینیڈا، آسٹریلیا، ربع مسکون (کرۂ ارض کا ایک چوتھائی حصہ جو آباد ہے ) سے خارج تھا تو انسانی دنیا سے بھی خارج تھا ! ! !
١ '' المُدثر '' دِثار سے ماخوذ ہے۔ دِثار کا ترجمہ حضرت شاہ عبدالقادر صاحب نے لحاف فرمایا ہے کیونکہ دِثار اُس کپڑے کو بھی کہاجاتا ہے جس سے گرمائی حاصل کی جائے (مجمع البحار)
لیکن عرف میں دِثار اُس کپڑے کو کہتے ہیں جو اُس کپڑے کے اُوپر پہنا جائے جو بدن سے متصل رہتا ہے، جو کپڑا بدن سے لگا رہتا ہے اس کو '' شِعار ''کہتے ہیں۔
آنحضرت ۖ نے حضراتِ انصار کے متعلق فرمایا تھا اَلْاَنْصَارُ شِعَار وَ النَّاسُ دِثَار (بخاری شریف )
یعنی تم میرا وہ لباس ہو کہ اگر تم الگ ہوجاؤ تو بدن ننگا ہوجائے ! اور دوسرے لوگ اُوپر کا آرائشی کپڑا ہیں وہ الگ ہوجائیں تو بدن برہنہ نہیں ہوگا ! ! ( باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
(١) دعوت و تبلیغ ( قُمْ فَاَنْذِرْ) (٢) تعظیم رب (عبادت) ( وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ )
(٣) ظاہر کی پاکی اور صفائی ( وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ ) (٤) باطن کی پاکی وصفائی ( وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ )
(٥) بے لوث خدمت (وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرْ ) (٦) رضاء مولیٰ کو نصب العین بناکر اُس پر جم جانا، صبرو اِستقامت سے کام لینا ( وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ)
لفظ (اَلْمُدَّثِرْ) سے خطاب اور اُس کے بعد یہ احکام ! کیا ان کا اشارہ یہ نہیں ہے کہ خدا پرستی اور تلاشِ حق، ہمدوشِ تہذیب وتمدن ہونی چاہیے !
دلیل صداقت ١ :
آنحضرت ۖ کی صداقت کی بہت سی دلیلیں پیش کی گئی ہیں، مستقل کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ،احادیث اور تاریخی روایات کے علاوہ خود قرآنِ حکیم نے بہت سی دلیلوں کی طرف اشارہ کیا ہے، یہاں صرف دو دلیلیں پیش کی جارہی ہیں، ہر ایک انصاف پسند کے لیے یہ دو دلیلیں کافی ہیں
( بقیہ حاشیہ ص١٦ )
مختصر یہ کہ دِثار میں صرف ستر پوشی نہیں ہوتی بلکہ اس سے ایسی آرائش ہوتی ہے جو تہذیب کے تقاضے کو پورا کرے جیسے ہندوستان میں شیروانی یا اَچکن اور عرب کے قاعدہ کے مطابق چادر اور دورِ حاضر میں عبا ! پس لفظ '' المدثر '' اور اس کے بعد کے الفاظ ( وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ ) یہ تصور پیدا کر رہے ہیں کہ داعی اِلی اللہ کو پورے لباس سے آراستہ ہونا چاہیے اور لباس بھی ایسا جو پاک صاف ہو ! یعنی اسلام جب رہبانیت یا سادھو پنے کو پسند نہیں کرتا تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ اُس کا داعی برہنہ یا صرف ستر پوش (لنگوٹی کسنے والا) نیم برہنہ ہو ! برہنگی یا نیم برہنگی دونوں حرام ہیں ! پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ پورا لباس اُسی وقت ہوسکتا ہے جب تمدن اِس حد تک پہنچا ہوا ہو کہ کپڑا تیار ہوسکے، وہ سل سکے وغیرہ وغیرہ
پس اس بات سے انکار کرنے کی گنجائش نہیں ہے کہ کلامُ اللہ شریف کے اس اسلوب خصوصًا ان الفاظ سے جیسے تہذیب وتمدن کی قدر اَفزائی ہوتی ہے، ایسے ہی صنعت وحرفت، تبادلہ، تجارت وغیرہ ان تمام عوامل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو کسی انسان کے '' المدثر '' لحاف پوش یا مہذب لباس ہونے کے لیے ضرور ہوں اور جب ستر پوشی فرض ہے تو لباس وپوشاک کا تیار کرنا اور اُس کی تیاری کے جملہ ذرائع مہیا کرنا بھی مسلمان کے حق میں اجتماعی فریضہ ہوا ! واللہ اعلم بالصواب
١ سیرة کی تمام کتابوں میں یہ عنوان نہیں ہوتا مگر کتاب اللہ نے آغازِ قرآن میں جب نوعِ انسان کو عبادت کا حکم دیا تو ساتھ ساتھ صداقت ِکتابُ اللہ کی دلیل بھی ایسی پیش کی جس کے ساتھ رسول خدا ۖ کی صداقت بھی ضروری ہوجاتی ہے ملاحظہ فرمائیے سورۂ بقرہ رکوع ٣
پہلی دلیل خود آپ کی زندگی :
آپ کی زوجۂ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بھی آپ کی سابقہ زندگی تھی ! اسی زندگی کے معیار پر حضرت خدیجہ نے غار ِ حرا کے واقعہ کو پرکھا اور غیر اختیاری طورپر آپ کی نبوت کی معترف ہوگئیں ! اور جب آپ نے پوری قوم کے سامنے دعوت پیش کی تو وحی ِخداوندی نے ہدایت کی کہ آپ اپنی قوم سے یہ کہیں کہ یہ دعوت تو میں آپ کو پیش کر رہا ہوں لیکن
''واقعہ یہ ہے کہ میں اس سے پہلے تم لوگوں کے بیچ میں اپنی پوری عمر بسر کر چکا ہوں کیا تم سمجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے'' (سورۂ یونس : ١٦)
تشریح :
وحیِ الٰہی کی تلقین یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ۖ اپنی صداقت کے ثبوت کے لیے لوگوں سے کہیں کہ ساری باتیں چھوڑدو، صرف اِسی بات پر غور کرو کہ میں تم میں کوئی نیا آدمی نہیں ہوں جس کے حالات وکردار کی تمہیں خبر نہ ہو، میں تم ہی میں سے ہوں اور اعلانِ وحی سے پہلے ایک پوری عمر تم میں بسر کرچکا ہوں اس تمام مدت میں زندگی تمہای آنکھوں کے سامنے رہی، بتلاؤ اس تمام عرصہ میں کوئی ایک بات بھی سچائی اور امانت کے خلاف مجھ میں دیکھی ! ؟ تم نے نہ صرف صادق اور امین کہا بلکہ صادق اور امین میرا لقب کردیا ! پھر اگر اس تمام مدت میں مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ کسی انسانی معاملہ میں جھوٹ بولوں تو کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اب خدا پر بہتان باندھنے کے لیے تیار ہوں اور جھوٹ موٹ کہنے لگوں کہ مجھ پر اُس کا کلام نازل ہوتا ہے کیا اتنی سی موٹی بات بھی تم سمجھ نہیں سکتے ؟ ١
١ تمام علماء اخلاق ونفسیات متفق ہیں کہ انسان کی عمر میں ابتدائی چالیس سال کا زمانہ اُس کے اخلاق اور خصائل کے اُبھرنے اور پنپنے کا اصل زمانہ ہوتا ہے ! پس اگر ایک شخص چالیس برس تک صادق واَمین رہا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اکتالیسویں برس میں قدم رکھتے ہی ایسا کذاب اور مفتری بن جائے کہ انسانوں پر ہی نہیںبلکہ اُس خدا پر بہتان باندھنے لگے جس کو وہ اپنا خالق ومالک جانتا ہے جس کی عظمت کا معترف ہے، جس کے قہرو غضب سے وہ خود بھی ڈرتا ہے اور لوگوں کو بھی ڈرا رہا ہے جس کی عبادت میں شب وروز مشغول رہتا ہے جس کا ذکر ہر وقت اُس کی زبان پر رہتا ہے اور ہروقت وہ اپنی کوتاہیوں کی معافی اُسی رب سے مانگتا رہتا ہے (باقی حاشیہ اگلے صفحے پر )
دوسری دلیل خود کلامُ اللہ :
سچے آدمی کی سچائی کی سب سے بڑی دلیل خود اُس کی زندگی ہے اور اپنی زندگی کو دلیلِ صداقت کے طور پر وہی پیش کر سکتا ہے جوفی الواقع سچا ہو اور اپنی سچائی پر اُس کو پورا یقین ہو، جس کے عمل نے کبھی ضمیر سے بغاوت نہ کی ہو اور جس کا ضمیر اپنے کردارِ عمل سے ہمیشہ مطمئن رہا ہو !
''آفتاب آمددلیل آفتاب'' لیکن آفتاب دلیل اُن ہی کے لیے بن سکتا ہے جو آفتاب کو دیکھ رہے ہیں ! جنہوں نے آفتاب نہیں دیکھا اُنہیں تو کسی اور ہی شاہد کی ضرورت ہوگی !
قرآنِ حکیم (کلامُ اللہ) کہتا ہے وہ شاہد میں ہوں خود اپنی صداقت کی بھی دلیل ہوں اور صداقت محمد ۖ کی دلیل بھی میں ہی ہوں ! !
وہ عرب جن کو مطمئن کر کے تمام دنیا کے لیے داعی بنانا تھا کلامِ الٰہی کا خطاب ان سے ہے :
''تم اہلِ لسان ہو، اپنی زبان کے عاشق ہو، ایسے عاشق کہ شعروسخن ہر ایک کی گھٹی میں پڑا ہے، شعروسخن کی یہی گرم بازاری ہے کہ قومی میلوں اور تہواروں کے موقع پر خصوصًا زمانہ ٔحج میں جب سارے عرب کے چنیدہ دماغ منیٰ میں جمع ہوتے ہیں تو کئی کئی روز تک مشاعروں کی محفلیں گرم رکھتے ہو، اُن میں بڑی شان سے مقابلہ کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں، پھر جو قصیدے سب سے اُونچے مانے جاتے ہیں
(بقیہ حاشیہ ص ١٨) جیسا کہ احادیث میں ہے کہ ایک ایک مجلس میں ستر ستر بار الفاظ استغفار زبانِ مبارک پر آجاتے تھے پھر یہی خدا پرستی اور خدا ترسی کی لگن ہے جس کی وجہ سے اس کی قوم اُس سے ناراض ہورہی ہے اور وہ قوم کی نگاہوں میں معتوب ہورہا ہے ، کیا یہ شخص جھوٹا ہوسکتا ہے ؟ !
جبکہ کلام بھی ایسا ہوکہ اُس کا کوئی فقرہ بھی خدا کے ذکر سے خالی نہ ہو، کہیں اُس کے قہر و غضب کا ذکر ہو،کہیں لطف وکرم کا، کہیں اُس کے ہمہ گیر علم کو بیان کر کے بتایا گیا ہو کہ اِنسان جو بھی کرتا ہے اللہ اُس کو دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے انسان کو اپنے ہر فعل اور ہر ایک قول کا جواب دینا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
ان کی یہاں تک قدر کرتے ہو کہ خانہ کعبہ میں جہاں تمہارے بہت سے معبود رہتے ہیں اس قصیدہ کو بھی ایک معبود بناکر آویزاں کرتے ہو ! اور تمہارے ذوق وشوق کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اُن کے سامنے ماتھا رگڑتے ہو ان کو سجدہ کرتے ہو ! اور صرف قصیدے ہی کو نہیں بلکہ شاعر کو بھی غیر معمولی طاقت کا انسان سمجھنے لگتے ہو کہ اُس کے ساتھ جن رہتا ہے جو ایسا غیر معمولی شعر اُس کو سکھادیتا ہے ! !
اب دیکھو محمد ۖ بھی تمہارے سامنے ہیں جنہوں نے کبھی کسی اُستاد کے سامنے زانو ٔ تلمذ طے نہیں کیا ،کبھی کسی کی شاگردی نہیں کی ، کبھی کسی مکتب میں
نہیں پڑھا ، کبھی کوئی شعر نہیں کہا، کبھی شعروسخن کی مجلس میں شرکت نہیں کی !
تم نے اس کو صادق اور اَمین تو کہا مگر نہ کبھی شاعر کہا، نہ کبھی خطباء اور مقررین میں اِن کو شمار کیا !
اس محمد (ۖ) کی زبان سے ایک کلام تمہارے سامنے پیش کیا جا رہا ہے محمد کہتے ہیں کہ یہ کلام میرا نہیں، یہ کلام خدا کا کلام ہے جو میرے اُوپر نازل ہوتا ہے جیسا نازل ہوتا ہے بجنسہ اور بعینہ آپ کو سنا دیتا ہوں بس !
اگر تمہیں اس (کلام کی سچائی) میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے( محمد ۖ ) پر نازل کیا ہے تو( اس کا فیصلہ بہت آسان ہے اگر یہ محض انسانی دماغ کی بناوٹ ہے تو تم بھی انسان ہو، زیادہ نہیں) اس جیسی صرف ایک ہی سورت بنا لاؤ (اگر تمہارا عقیدہ ہے کہ جنات شعراء کے مددگار ہوا کرتے ہیں تو تم (ایسا کرو کہ) اللہ کے سوا جن (طاقتوں) کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لو اگر تم سچے ہو ! اور اگر تم ایسا نہ کرسکو اور حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہ کرسکوگے تو اُس آگ کے عذاب سے ڈرو جو (لکڑی کی جگہ) انسان اور پتھر کے ایندھن سے سُلگتی ہے اور منکرین ِ حق کے لیے تیار کی جاچکی ہے'' (سورۂ بقرہ : ٢٣ )
کلامُ اللہ کی شوکت وقوت اور اپنی صداقت کا یقین حیرت انگیز ہے ایک شخص جس کے ساتھ صرف چند افراد ہیں جن کو اُنگلیوں پر گنا جاسکتا ہے وہ نہ صرف قریش کو نہ صرف اہلِ مکہ کو بلکہ ہر ایک عربی بولنے والے بلکہ پوری دنیا میں جو بھی شک و شبہ کرے خواہ وہ کوئی ہو اُن سب کو چیلنج کر رہا ہے ! چیلنج معمولی نہیں ہے، ایسا سخت اور تلخ چیلنج جو معمولی سے معمولی انسان کی غیرت کو بھی اس درجہ مشتعل کردے کہ وہ اپنے تمام ذرائع اور وسائل کو کام میں لاکر چیلنج کا جواب دینے کے لیے بوکھلا جائے !
مضمون چیلنج دوربارہ ملا حظہ فرمائیے :
''اگر تم اِس چیلنج کو قبول نہیں کر سکتے اور اس جیسی کوئی ایک سورت نہیں لاسکتے تو یقین کر لو کہ تم باطل پر ہو ، تم حق کا مقابلہ کر رہے ہو، تم عذاب ِ الٰہی کے مستحق ہو ، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہوگا جس کا ایندھن تم جیسے انسان اور پتھر ہوں گے''
قرآنِ حکیم کی ایک سورت سورۂ کوثر بھی ہے جس میں صرف تین آیتیں (جملے) ہیں جن کے کل الفاظ بارہ اور بیالیس حروف ہیں !
چیلنج کا خلاصہ یہ ہے کہ حق وباطل اور سچائی اور بناوٹ کا فیصلہ اِس پر ہے کہ تم صرف ایسا کلام پیش کردو جوبارہ لفظوں پر مشتمل ہو ! مگر وہ اپنے ظاہری اور معنوی کمالات میں اس جیسا ہو ! تمام دنیا کے ادیبوں کی مجلسیں اور شعروسخن کے کمالات کا فیصلہ کرنے والے جج موجود ہیں، کسی بھی عدالت، کسی بھی ادبی مجلس میں موازنہ کے لیے پیش کردو، اگر تمہارے حق میں فیصلہ ہوجائے تو مان لیا جائے گا کہ یہ کلام اللہ کا کلام نہیں ہے، محمد کی من گھڑت ہے (معاذ اللہ) ! !
پھر یہ چیلنج صرف ایک مرتبہ اتفاقی طور پر نہیں بلکہ مختلف عنوانوں سے بار بار دہرایا گیا اور اُسی قوت کے ساتھ دہرایا گیا ! ! مثلاً
(١) سورۂ ہود مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی آیت ١٣ جو اِس سلسلہ کی سب سے پہلی آیت ہے اس کا ترجمہ یہ ہے :
''کیا لوگ ایسا کہتے ہیں کہ محمد (ۖ) نے یہ قرآن اپنے جی سے گھڑ کر خدا پر بہتان باندھا ہے ! آپ کہہ دیجئے اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو اس طرح کی دس سورتیں گھڑی ہوئی بناکر پیش کردو اور اللہ کے سوا جس کسی کو اپنی مدد کے لیے پکار سکتے ہو اُس کو پکار لو''
پھر دو آیتوں کے بعد آیت ١٦ کا ترجمہ یہ ہے :
''یہی وہ لوگ ہیں (جو صرف دُنیاوی مفاد اور آسائش کے لیے حق سے اعراض کرتے ہیں اور اِس کلام کو اللہ کا کلام نہیں مانتے) جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہ ہوگا''
(٢) سورۂ یونس بھی مکہ میں نازل ہوئی، اس کی آیت ٣٨ میں بھی اس چیلنج کو دہرایا گیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے :
''کیا یہ( لوگ) کہتے ہیں کہ اِس شخص نے اللہ کے نام پر یہ بہتان باندھا ہے تم کہہ دو اگر تم اِس قول میں سچے ہو تو قرآن کی مانند ایک سورت بناکر پیش کردو اور خدا کے سوا جن جن (ہستیوں )کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتے ہو( تمہیں پوری اجازت ہے) بلالو ''
(٣) پہلے دس سورتوں کا مطالبہ کیا گیا تھا اس مرتبہ صرف ایک سورت کا ! پھر سورہ ٔطور آیت ٣٤ میں ''سورہ'' کا لفظ بھی نہیں بلکہ حدیث (کلام، بات) کا لفظ آیا ہے :
( فَلْیَأْتُوْا بِحَدِ یْثٍ مِّثْلِہ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْن ) ''اس طرح کا کوئی کلام لے آئیں اگر سچے ہیں''
(٤) سورۂ بنی اسرائیل آیت ٨٨میں اعلان کیا گیا :
''اگر تمام انسان اور جن اکٹھے ہوکر چاہیں کہ اس قرآن کے مانند کوئی کلام پیش کر دیں تو کبھی بھی پیش نہیں کرسکیں گے اگرچہ اُن میں سے ایک دوسرے کا مددگار ہی کیوں نہ ہو''
(٥) یہ آیتیں وہ ہیں جن میں یہ چیلنج صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے :
''اس جیسا قرآن پیش کردیں''
( سورۂ بنی اسرائیل : ٨٨)
''دس سورتیں بنا لائیں''
(سورہ ٔ ہود : ١٣)
''ایک سورت بنا لائیں''
( سورۂ یونس : ٣٨)
''ایک سورت بنالائیں''
(سورۂ بقرہ : ٢٣)
''اس طرح کا کوئی کلام لے آئیں''
(سورۂ سبا : ٣٤)
ان آیتوں کے علاوہ اور بہت سی آیتیں ہیں جن میں بطورِ اشارہ وکنایہ اِس چیلنج کو بار بار دہرایا گیا ہے ! اس چیلنج کے مخاطب عرب کے وہی فصحاء اور بلغاء ہیں جن کو اپنی اَدبیت اور فصاحت و بلاغت پر ناز تھا جو اپنے زمانہ میں بھی عربی ادب کے اُستاد مانے جاتے تھے اور آج بھی اُستاد مانے جاتے ہیں ! کیا قرآنِ پاک اور قرآنِ پاک کے پیش کرنے والے محمد ۖ کی صداقت کے لیے یہ آفتاب جیسی کھلی ہوئی دلیل کافی نہیں ہے کہ نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا جس میں اکثریت قرآن اور اسلام کے مخالفین کی ہے چودہ سو برس سے اس چیلنج کو سن رہی ہے مگر اس کو منظور کرنے سے آج بیسویں صدی عیسوی میں بھی اسی طرح عاجز ہے جیسے ساتویں صدی عیسوی میں عاجز تھی جب یہ قرآن نازل ہورہا تھا !
قریش جو اِس کے مخاطب ِاوّل تھے اُن سے یہ نہ ہوسکا کہ بارہ الفاظ کا کوئی مرتب کلام اس چیلنج کے جواب میں پیش کر سکیں ! اس کے سوا جو کچھ تدبیریں وہ کرسکتے تھے وہ سب کر لیں مثلاً منصوبہ بند طریقے سے ممانعت کردی کہ کوئی قرآن نہ سنے اور جب محمد ۖ نے بازاروں ، میلوں اور پبلک مقامات پر کھڑے ہوکر سنانا شروع کیا تو منصوبہ یہ تھا کہ اتنا شور مچایا جائے کہ محمد ۖ کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑسکے ١
اگر کوئی اجنبی شخص اس شوروغل پر اعتراض کرنے لگے تو کبھی کہہ دیا جائے معاذ اللہ مجنون ہوگیا ہے ! کبھی یہ کہہ دیا جائے کہ یہ جادوگر ہے یہ منتر پڑھتا ہے تو ماں بیٹے سے نفرت کرنے لگتی ہے !
بیوی اپنے شوہر سے اور بھائی بھائی سے جدا ہوجاتا ہے ! ٢
١ سُورہ حٰم سجدہ : ٢٦ ٢ سُورة الذاریات : ٥٢ ، سُورة الطور : ٢٩ وغیر ذالک
یہ ابتدائی تدبیریں تھیں ! پھر جو کچھ کیا گیا، اسلام لانے والوں کو طرح طرح ستایا گیا پھر ان کا بائیکاٹ کیا گیا ! ان کو ترکِ وطن پر مجبور کیا گیا ! اور جب وطن ترک کرچکے تو مدینہ پر بار بار حملے کر کے ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی ! یہ سب کچھ کیا گیا مگر یہ نہ ہوسکا کہ قرآنِ حکیم کے چیلنج کا جواب دے دیں اور ایک سورت اس کے مقابلہ میں پیش کر کے صداقت ِ قرآن اور صداقت ِمحمد کی تردید کردیں !
یہ صداقت کی دوسری دلیل تھی جو آنحضرت ۖ نے پیش کی اور یہ دلیل جس طرح آنحضرت ۖ کے دورِ مسعود میں برھان قاطع اور حجت ِکاملہ تھی آج چودہ سوبرس کے بعد ایسی ہی درخشاں اور تاباں دلیل ہے جو پوری دنیا کو للکار رہی ہے !
( قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہ وَ لَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا ) ١ ( سُورہ بنی اسرائیل : ٨٨ )
ضمیر سے بغاوت کی یہ بد ترین مثال تاریخ نے فراموش نہیں کی کہ قریش کے یہی سرغنہ ابوجہل، اَخنس بن شریق اور ابو سفیان جو دوسروں کو قرآن شریف سننے سے منع کرتے تھے، راتوں کو چھپ چھپ کر خود قرآن شریف سنا کرتے تھے ! رات کے آخری حصہ میں جب رسولِ خدا ۖ بھینی بھینی آواز سے قرآن شریف پڑھتے تھے تو قرآن پاک کی فصاحت و بلاغت صدائِ پُرسوز میں عجیب کیفیت پیدا کردیتی تھی جو ایک دفعہ سن لیتا وہ بار بار سننے کے لیے بے چین رہتا ! ان سرداروں کو کسی طرح سننے کا اتفاق ہوگیا تو پھر جب موقع ملتا خلوت کدہ آستانہ ٔ مبارک پر پہنچ جاتے اور کان لگائے سنتے رہتے ! کبھی آپس میں مڈبھیڑ بھی ہوجاتی تو ہر ایک دوسرے کو ملامت کرتا مگر یہ ایک ایسا جرم تھا جس سے باز رہنا مشکل تھا ! البتہ نوجوانوں کو منع کرتے ہیں ! سب کا اتفاق تھا کہ اگر وہ گرویدہ ہوگئے تو ہماری طرح اپنے ضمیر سے بغاوت نہیں کر سکیں گے ! ٢ ( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ ۖ ص ٢٥٤ تا ٢٦٤ )
١ '' اگر تمام انسان اور سارے جن اِس پر متفق ہوجائیں کہ اِس قرآن جیسا قرآن پیش کردیں تو وہ اِس جیسا قرآن پیش نہیں کر سکیں گے، خواہ وہ اس میں ایک دوسرے کی کتنی ہی مدد کریں''
٢ سیرة ابن ِہشام ج١ ص ١٩٣ ، البدایہ والنہایہ ج٣ ص ٦٤ ، الاصابہ ج ١ ٢٣١ ذکر اَخنس بن شَریقْ
رسول اللہ ۖ کی صاحبزادیاں
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کے مناقب
( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ )
ض ض ض
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا سیّد عالم ۖ کی دُوسری صاحبزادی ہیں اس پر سب کا اتفاق ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سب صاحبزادیوں میں بڑی تھیں ان کے بعد حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہاپیدا ہوئیں، ان دونوں میں آپس میں کون سی بڑی تھیں اس میں سیرت لکھنے والوں کا اختلاف ہے، بہرحال یہ دونوں بہنیں اپنی بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے چھوٹی تھیں ان دونوں بہنوں کا نکاح ابولہب کے بیٹوں عُتْبَہ اور عُتَیْبَہ سے آنحضرت ۖنے کردیا تھا ! حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح عتبہ سے اور حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح عتیبہ سے ہوا تھا ! ابھی صرف نکاح ہی ہوا تھا رُخصت نہ ہونے پائی تھیں کہ قرآنِ مجید کی سورة ( تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ ) نازل ہوئی جس میں ابولہب اور اُس کی بیوی (اُم جمیل) کی مذمت (بُرائی) کی گئی ہے اور اُن کے دوزخ میں جانے سے مطلع کیا گیا ہے ! جب یہ سورت نازل ہوئی تو ابولہب نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ محمد (ۖ) کی بیٹیوں کو طلاق دے دو ورنہ تم سے میرا کوئی واسطہ نہیں ! ابولہب کی بیوی اُم جمیل نے بھی بیٹوں سے کہا کہ یہ دونوں لڑکیاں (یعنی حضرت محمد رسول اللہ ۖ کی صاحبزادیاں) (العیاذ باللّٰہ) بد دین ہوگئی ہیں لہٰذا اِن کو طلاق دے دو چنانچہ دونوں لڑکوں نے ماں باپ کے کہنے پر عمل کیا اور طلاق دے دی۔ (اُسد الغابہ)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح :
جب حضورِ اقدس ۖ نے اپنی صاحبزادی حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح عتبہ سے کردیا تو اِس کی خبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ملی، وہ اُس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس خبر سے اِن کو بڑا ملال ہوا اور یہ حسرت ہوئی کہ کاش میرا نکاح محمد (ۖ) کی صاحبزادی رُقیہ سے ہوجاتا ! یہ سوچتے ہوئے اپنی خالہ حضرت سعدیٰ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور اُن سے تذکرہ کیا۔ خالہ صاحبہ نے اِن کو اسلام کی تبلیغ کی وہاں سے چل کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اِن کو اپنی خالہ کی باتیں بتائیں جو اُنہوں نے اسلام کی ترغیب دیتے ہوئے کہی تھیں۔ حضرت صدیق ِ اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کی باتوں کو سراہتے ہوئے خود بھی دعوت ِ اسلام پیش کی اور فرمایا :
وَیْحَکَ یَا عُثْمَانُ اِنَّکَ لَرَجُل حَاذِم اَیَخْفٰی عَلَیْکَ الْحَقُّ مِنَ الْبَاطِلِ ھٰذِہِ الْاَوْثَانُ الَّتِیْ یَعْبُدُہَا قَوْمُکَ اَلَیْسَتْ حِجَارَةً صُمًّا لَا تَسْمَعُ وَلَا تُبْصِرُ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ
''افسوس ! اے عثمان (اب تک دعوتِ حق تم نے قبول نہیں کی) تم تو ہوشیار اور سمجھ دار آدمی ہو، حق اور باطل کو پہچان سکتے ہو، یہ بُت جن کو تمہاری قوم پوجتی ہے کیا گونگے پتھر نہیں ہیں جو نہ سُنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں نہ نفع نہ ضرر پہنچاسکتے ہیں''
یہ سُن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ بیشک آپ نے سچ کہا ! یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ سید عالم ۖ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیے تشریف لے آئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کے سامنے اسلام قبول کرلیا ! ان ہی دنوں میں ابولہب کے بیٹوں نے آنحضرت ۖ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دی تھی لہٰذا آنحضرت ۖ نے حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کردیا ١ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا سے بڑی تھیں،دونوں کو ایک ساتھ طلاق ہوئی تو بظاہر عقل کا مقتضٰی یہ ہے کہ پہلے بڑی دُختر کی شادی کی ہوگی ٢ واللہ تعالیٰ اعلم
ہجرتِ حبشہ :
جوں جوں مسلمان بڑھتے جارہے تھے اور اسلام کے حلقہ بگوشوں کے جتھے میں اضافہ ہوتا جارہا تھا مشرکین ِ مکہ اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی تدبیریں کرتے جارہے تھے ! ان ظالموں نے
١ الاصابہ ٢ الاستیعاب
خدائے وحدہ' لاشریک کے پرستاروں کو اِس قدر ستایا کہ اپنے دین کی سلامتی اور جان کی حفاظت کے لیے اِن حضرات کو اپنے مالوف وطن چھوڑنے پڑے ! مسلمانوں کی ایک جماعت ترک ِ وطن کرکے حبشہ کو چلی گئی ان میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ بنت سید البشر حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر حبشہ کو ہجرت کی تھی ! جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ حبشہ کو روانہ ہوئے تو (کئی روز تک) آنحضرت ۖ کو اِن کی خیر خبر نہ ملی ! آپ اس فکر میں مکہ معظمہ سے باہر جاکر مسافروں سے معلوم فرمایا کرتے تھے، ایک روز ایک عورت نے کہا کہ میں نے ان کو دیکھا ہے ! اُس کا جواب سن کر آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ اللہ اِن کا ساتھی ہے، بیشک لوط علیہ السلام کے بعد عثمانسب سے پہلا مہاجر ہے جس نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ہجرت کی ہے۔(اُسد الغابہ)
حبشہ کو دوبارہ ہجرت :
ان دونوں حضرات کے ساتھ چند مسلمان مرد عورتیں اور بھی تھیں، جب یہ حضرات حبشہ پہنچ گئے تو وہاں یہ خبر ملی کہ مکہ والے مسلمان ہوگئے ہیں اور اسلام کو غلبہ ہوگیا ہے ! اس خبر سے یہ حضرات بہت خوش ہوئے اور اپنے وطن کو واپس لوٹے لیکن مکہ معظمہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے اور پہلے سے بھی زیادہ تکلیفیں مسلمانوں کو دی جارہی ہیں ! یہ سن کر بہت قلق ہوا ! پھر اِن میں سے بعض حضرات وہیں سے حبشہ کو واپس ہوگئے۔ پہلی ہجرت کے بعد ایک بڑی جماعت نے (جس میں ٨٣ مرد اور ١٨ عورتیں بتلائی جاتی ہیں) متفرق طور پر ہجرت کی اور پہلی ہجرت حبشہ کی'' ہجرتِ اُولیٰ '' اور یہ دُوسری ہجرت حبشہ کی ''ہجرتِ ثانیہ'' کہلاتی ہے۔ بعض صحابہ نے حبشہ کو دونوں ہجرتیں کیں اور بعض نے صرف ایک ہجرت کی ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دونوں مرتبہ حبشہ کو ہجرت کی تھی قَالَ فِیْ اُسُدِ الْغَابَةِ وَھَاجَرَا کِلَاھُمَا اِلَی الْاَرْضِ الْحَبْشَةِ الْہِجْرَتَیْنِ ثُمَّ اِلٰی مَکَّةَ وَھَاجَرَا اِلَی الْمَدِیْنَةِ ۔
مدینہ منورہ کو ہجرت :
دوسری مرتبہ دونوں حضرات یعنی حضرت عثمان اور حضرت رقیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہجرت کرکے حبشہ تشریف لے گئے پھر وہاں سے مکہ معظمہ تشریف لے آئے اور اِس کے بعد مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت کی قَالَ الْحَافِظُ فِی الْاِصَابَةِ وَالَّذِیْ عَلَیْہِ اَھْلُ السِّیَرِ اَنَّ عُثْمَانَ رَجَعَ اِلٰی مَکَّةَ مِنَ الْحَبْشَةِ مَعَ مَنْ رَجَعَ ثُمَّ ھَاجَرَ بِاَھْلِہ اِلَی الْمَدِیْنَةِ ۔(حافظ ابن ِ حجر فرماتے ہیں کہ اہلِ سیر کا یہی کہنا ہے کہ حضرت عثمان مکہ لوٹ آنے والوں کے ساتھ مکہ آئے پھر اہلیہ کے ساتھ مدینہ طیبہ ہجرت کی)
اولاد :
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے صرف ایک صاحبزادہ تولد ہوا جس کا نام عبد اللہ رکھا گیا اس صاحبزادہ کی ولادت حبشہ میں ہوئی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک صاحبزادہ کا نام اسلام سے پہلے عبد اللہ تھا ،اس کی وجہ سے ابوعبداللہ کنیت تھی ! پھر جب حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا سے صاحبزادہ تولد ہوا تو اُس کا نام بھی عبد اللہ تجویز کیا اور اپنی کنیت ابوعبد اللہ باقی رکھی ١
اس صاحبزادہ نے چھ برس کی عمر پائی اور جمادی الاولیٰ ٤ ھ میں وفات پائی۔ حضرت سید عالم ۖ نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھائی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قبر میں اُتارا ! وفات کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرغ نے ان کی آنکھ میں ٹھونگ ماردی جس کی وجہ سے چہرہ پر ورم آگیا، مرض نے ترقی کی حتی کہ راہی ملک ِ بقا ہوگئے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ٢ حضرت عبد اللہ کے بعد حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ٣
وفات :
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا نے ٢ ھ میں وفات پائی، یہ غزوۂ بدر کا زمانہ تھا۔ حضورِ اقدس ۖ جب غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں اُن کی تیمارداری کے لیے آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو چھوڑکر روانہ ہوئے (باقی ص٦٣ )
١ الاستیعاب ٢ اُسد الغابہ ٣ الاصابہ
رمضان شریف ، شب ِ قدر ، اعتکاف
( حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ )
ض ض ض
انسان کیا ہے ؟
اس کا جواب نہایت آسان اور ظاہر ہوتے ہوئے انتہا درجہ پوشیدہ اور حد سے زیادہ مبہم ہے ! ! ؟ چنانچہ عربی شاعر اَبُو العَلاَ المَعَرِّیْ نے کہا تھا
وَالَّذِیْ حَارَتِ الْبَرِیَّةُ فِیْہِ
حَیْوَان مُسْتَحْدَث مِنْ جِمَادِ
''جس کی حقیقت میں ساری مخلوقات سر گرداں ہے وہ ایک جاندار ہے جو جماد یعنی مٹی وغیرہ سے پیدا کیا گیا ''
تاہم علماء اور حکماء نے اس سوال کا جواب دیا ہے ! منطقی صاحبان فرماتے ہیں کہ
انسان ''حیوانِ ناطق'' ہے یعنی ایسا جاندار جوبدیہیات سے نظریات کو پہچان سکے ،اُمور متعارَفہ سے غیر معلوم اُمور کو دریافت کر سکے ! !
اسی طرح اَطبائ، فلاسفہ وغیرہ نے اپنے اپنے مذاق کے بموجب مختلف عبارتوں سے اس سوال
کا جواب دیا ہے ! اور یادش بخیر مسٹر ڈارون کا خیال یہ ہے کہ
'' انسان درحقیقت بندر تھا جو ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ گیا ''
ارتقائی مدارج نے اس کی دُم غائب کردی اور اُس کے قد کو سیدھا کردیا !
جدید فلاسفہ کی تحقیق ہے کہ
'' انسان ابتداء میں ایک کیڑا ہوتا ہے جو نشوو نما پاتے پاتے انسان بن جاتا ہے ''
مگر علمائِ تصوف و سلوک کا جواب سب سے زیادہ دلچسپ اور کار آمد ہے، علمائِ حقیقت فرماتے ہیں کہ
''یہ ایسی مخلوق ہے جس میں جانوروں کی خواہشات اور فرشتوں کے مَلَکَاتْ کو یکجا کر دیا گیا ہے '' ! ! !
علمائِ سلوک کا یہ جواب اُن کے مخصوص مذاق کا آئینہ دار ہے علمائِ سلوک و تصوف کا کام یہی ہے کہ وہ رذیل اور کمینہ اخلاق سے رُوح کو پاک و صاف کریں ، اعلیٰ اخلاق اور بلند ترین فضائل کو اِس طرح فطرت ِ انسانی کے ساتھ پیوست کر دیں کہ وہ طبیعت ِثانیہ بن جائیں ! !
جانوروں کی خواہشات کے لیے اصطلاحی لفظ '' بَہِیْمِیَتْ '' ہے اور فرشتوں کے ملکات کو ''مَلکُوتی صفات'' سے تعبیر کیا جاتا ہے ! ! اس حقیقت کی دُوسری تعبیر یہ بھی ہے کہ
'' انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو خیر اور شر سے مرکب کیا گیا ہے ''
حقیقت یہ کہ ہم اصلاح اور تزکیہ نفس کا اُونچا مقصد سامنے رکھ کر اِنسان پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم ابتداء میں نو زائیدہ بچہ کو اِس طرح بے حس اور عقل و شعور سے خالی پاتے ہیں جس طرح اور حیوانات کے بچے ! جن کے تمام احساسات اور تخیلات کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ بھوک لگے تو رو لیں، پیٹ بھر جائے تو سو جائیں لیکن پھر(جسمانی) نشوو نما کے ساتھ ساتھ فہم اور شعور کا بھی نشوو نما ہوتا چلا جاتا ہے چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد اُس کے علم و اِدراک کی ایک مخصوص کیفیت جانوروں کے بچوں سے اُس کو ممتاز کر دیتی ہے !
یہاں سے منطقی تعریف کا آغاز ہو تا ہے کہ'' وہ ایک ایسا جاندار ہے جس میں اِدراک کی قوت ہو'' لیکن وہ قوتِ ادراک پالینے کے بعد بھی اپنی خواہشات میں جانوروں سے کچھ ممتاز نہیں ہوتا ! کھانے پینے کی طرف میلان ،دُنیا کی طمع اور حرص، مرضی کے بر خلاف پر غیظ و غضب اور پھر تکبر اور خود پسندی اور اسی طرح نفسانی خواہشات وغیرہ وغیرہ ! وہ شیر، بھیڑیے، بکرے اور بندروں جیسا ہوتا ہے ان ہی میلانات اور اَوصاف کا نام '' بَہِیْمِیَتْ'' ہے ! ! لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس بَہِیْمِیَتْ اور حَیْوَانِیَتْ کے دور میں ایک لطیف استعداد اُس کے اندر ضرور ہوتی ہے جس کو اگر بروئے کار لا یا جائے تو وہ پکا خدا پرست، پرہیزگار، رحمدل، دُنیا سے بے نیاز، خدا کی مرضی پر راضی اور جانثار، حلیم اور بردبار ہو سکتا ہے ! یہ لطیف استعداد اگرچہ اُس کی فطرت کا جزو ہوتی ہے مگر اُس کا ظہور دس بارہ سال کی عمر سے پہلے عمومًا نہیں ہوتا ، شریعت ِغَرَّاء نے اس لطیف استعداد پر اَحکام کی تکلیف کو موقوف رکھا ہے اور سن ِبلوغ کو اُس استعداد کے لیے ایک معیار قرار دیا ہے ! بہرحال یہ حسی مشاہدہ صوفیائِ کرام اور علمائِ حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ انسان بَہِیْمِیِتْ اور مَلکُوتِیْ صفات سے مرکب ہے ! ! !
قرآنِ پاک کی متعدد آیتیں اِس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک اور چیز کی تعلیم دیتی ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو اگرچہ خیرو شر، بَہِیْمِیِتْ اور مَلکُوتِیَتْ سے مرکب کیا گیا ہے مگر مرضی اِلٰہی یہ ہے کہ وہ بَہِیْمِیْ صفات کو چھوڑ کر مَلَکُوْتِی صفات اپنے اندر پیدا کرے اور بارگاہِ رب العزت میں اعلیٰ تقرب حاصل کرلے ! ارشاد ہوتا ہے :
( اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَن یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا ) ( الاحزاب : ٧٢ )
''ہم نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی مگر اُن سب نے اس کے برداشت کرنے سے انکار کیا اور اس سے خو ف کھایا، انسان نے اس کو برداشت کر لیا کیونکہ وہ ظَلُوْمْ و جَہُولْ تھا ''
یعنی زمین آسمان اور پہاڑ نہ بَہِیْمِی صفات رکھتے ہیں اور نہ مَلکوتی صفات کی اُن کے اندر صلاحیت ہے انسان میںبَہِیْمِی صفات فطری طور پر موجود ہیں اورمَلَکُوْتِی صفات بھی اُس کی فطرت میں وَدیعت فرمائی گئی ہیں تو اُس کو یہ امانت عطا فرمائی گئی تاکہ وہ صِفَاتِ خَبِیْثَہ سے پاک ہو کر مَلَکُوْتِی صِفَاتْ حاصل کرلے ''ظَلُوْم'' کے بجائے ''عادل'' ہو ! '' جاہل''کے بجائے ''عالِم'' بنے !
سورۂ تین میں خدا وند ِعالم نے چند چیزوں کی قسمیں کھا کر اِرشاد فرمایا ہے :
( لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ اَجْر غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ) ( سُورة التین : ٤ تا ٦ )
''انسان کو ہم نے بہت ہی بہتر وضع عنایت فرمائی پھر اُس کو سب سے نیچے کے درجہ میں دھکیل دیا، مگر صرف وہ لوگ جو اِیمان لائے جنہوں نے نیک کام کیے اُن کے لیے ایسا اجر ہے جس پر کوئی احسان نہیں جتایا جائے گا ''
یعنی انسان جس میں بہترین صلاحیت اور لطیف تر اِستعداد و دیعت کی گئی ہے اُس کی اصل فطرت بیشک بہترین وضع پر ہوئی ہے اب اگر وہ اُس لطیف استعداد کو بیکار چھوڑ کر بَہِیْمِی صفات کا گرویدہ بنتا ہے طمع ،حرص، غضب، نفسانی شہوات کا دلدادہ رہتا ہے تو اُس کو سب سے نیچے کے درجہ میں ڈالا جائے گا کہ اُس نے فطرت کی بہت بڑی نعمت کو قطعاً لغو اور بیکار کردیا لیکن اگر وہ اُس نعمت ِکبرٰی سے بہرہ اندوز ہو کر ایمان اور عملِ صالح پر کار بند ہوتا ہے تو اُس کے لیے خدا وند ِعالم کے ہاں بڑے بڑے اجر اور مراتب ہیں ! واللہ اعلم
فلسفہ ٔ رمضان :
اس تمہیدکے بعد حجة الاسلام سیّدنا حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کی تقریر سے امداد لیتے ہوئے رمضان، روزہ، اعتکاف اور شب ِقدر کا فلسفہ بیان کرتے ہیں
وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ وَھُوَالْمُعِیْنُ
اور مضمون ہذا کے ساتھ اگر اُن تمثیلات کو بھی مِلا لیا جائے جو شعبان کے نمبر میں شب ِ برأت اور روزۂ شعبان کے سلسلہ میں عرض کی گئی تھیں تو ناظرین کرام کا حظ دو بالا ہوجائے گا !
حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ نفسانی اور حیوانی شہوات کا مدار خورد و نوش پر ہے، کھانے پینے میں بے اعتدالی ہو تو اِن بَہِیْمِی صفات میں زیادتی ہوجاتی ہے، روزہ کا مقصد یہی ہے کہ بَہِیْمِی صفات کو کمزور کرنے، مَلَکُوْتِی صفات کو قوت پہنچانے کے لیے کھانا پینا جماع وغیرہ چھوڑ دے !
٭
''قلب ''کو غیر اللہ کے تصورات سے پاک کر لے ! حسد، بغض، کینہ، عداوت وغیرہ صفاتِ خبیثہ سے صاف کر لے !
٭ ''زبان ''کو غیبت، چغلی، دشنام، بیہودہ مذاق، جھوٹ وغیرہ سے محفوظ رکھے !
٭ ''آنکھ ''کو نظر بد سے !
٭ '' اعضاء '' کو اَفعالِ ممنوعہ سے روکے ! یہ ہے روزہ کی رُوح ! !
امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں روزہ کی تین قسمیں ہیں :
(١) عوام کا روزہ یعنی کھانا پینا اور جماع ترک کردینا ! !
(٢) خواص کا روزہ یعنی حواس اور اَعضاء کو خواہشات سے روک کر ایسے جائز افعال سے بھی اجتناب کیا جائے جن سے نفس کو کسی قسم کی مسرت یا لذت حاصل ہو ! !
(٣) اَخص الخواص کا روزہ یعنی ما سوا خدا تمام چیزوں سے اجتناب اور اِحتراز کرکے صرف حضرت حق جل مجدہ کے مراقبہ اور اُسی کے تصور اور دھیان میں مستغرق رہا جائے ! !
فضائلِ روزہ :
سیّدنا حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں روزہ ایک بہت بڑی نیکی ہے جو مَلَکُوْتِی صفات کو قوی کرتا ہے اور بَہِیْمِی صفات کو کمزور کرتا ہے ! رُوح کو صیقل اور صاف کرنے میں اور بَہِیْمِی طبیعت کو مقہور اور مغلوب کرنے میں روزے کے برابر کوئی نیکی نہیں !
اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہ یعنی عام قاعدہ تو یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب علیٰ حسب ِمراتب وتفاوتِ نیت وغیرہ دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک ملتا ہے چنانچہ فرشتے اسی قاعدہ کے بموجب نامۂ اعمال میں ثواب لکھتے ہیں مگر روزہ اس عام قاعدہ سے مستثنیٰ ہے اور اُس کا تعلق مخصوص طورپر میرے ساتھ ہوتا ہے لہٰذا اس کا بدلہ بھی مخصوص طور پر میں ہی مرحمت کروں گا ! ! !
حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب روزہ کی اصل اور رُوح یہ قرار دی گئی کہ بَہِیْمِی اور ناپاک صفات کو کمزور کیا جائے تو جس قدر یہ صفات کمزور ہوتی رہیں گی اُتنی ہی رُوح میں صفائی پیدا ہوتی رہے گی ! گناہوں کا کفارہ ہوتا رہے گا مَلکوتی صفات میں قوت بڑھتی رہے گی، مَلَائِیْک سے خاص قرب حاصل ہوتا رہے گا اور فرشتوں کی نگاہ میں وہ محبوب اور عزیز بنتا رہے گا چنانچہ رسول اللہ ۖ کا اِرشاد ہے :
وَلَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ ١
'' یقینا روزہ دار کے منہ کی بو خدا کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ اچھی مانی جاتی ہے''
١ مشکوة المصابیح کتاب الصوم رقم الحدیث ١٩٥٩
کیوں نہ ہو، یہ اَثر ہے اُس فاقہ اور اُس نفس کُشی کا جو اللہ کے لیے ہے جو رُوح کے زنگ کو دُور کرتا ہے ! ملائکہ سے مشابہت پیدا کرتا ہے ! شاہ صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص روزہ کو عادت بنالیتا ہے تو عادات ِ خبیثہ کے مہلک خطرات سے محفوظ ہوجاتا ہے ! !
فضائلِ رمضان شریف :
ماہِ شعبان کی اشاعت میں عرض کیا گیا تھا کہ رُوحانی عالَم اور ملائِ اَعلیٰ کے لیے بھی فصلِ بہار اور موسمِ گل ہوتا ہے چنانچہ رمضان شریف کا مہینہ عالمِ بالا کے لیے فصل گاہ ہے ! رُوحانی مَلَکات سرسبز ہوتے ہیں، با غیچہ ہائے رحمت میں تازگی آتی ہے، جنتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور عالمِ اَسفل پر مخصوص اَنوار اور برکات کی بارش ہوتی ہے ! ! !
فضائلِ رمضان کے متعلق اگر تمام احادیث کو جمع کیا جائے تو بہت زیادہ طول ہوجائے گا رسالہ کے اوراق اِس کے متحمل نہیں ، یہاں ہم اس سلسلہ میں صرف دو حدیثیں پیش کرتے ہیں :
پہلی حدیث : رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا میری اُمت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیںمرحمت ہوتی ہیں جو دُنیا میں کسی اُمت کو نہیں عطاکی گئیں :
(١) رمضان کی پہلی شب میں خدا وند ِعالم نظر لطف فرماتا ہے اور جس پر خدا وند ِعالم نظرِ لطف فرماگئے اُس کو کبھی عذاب نہ دے گا ! ! خدا وندا ہمیں نظرِ لطف کا اہل کردے، آمین ١
(٢) روزہ داروں کے منہ کی بو خدا کے یہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ اچھی مانی جاتی ہے !
(٣) فرشتے میری اُمت کے لیے رات دِن مغفرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں !
(٤) خدا وند ِعالم جنت کو حکم فرماتے ہیں کہ مزین ہوجا،بہت ممکن ہے میرے کچھ بندے دُنیاکی مصیبت سے نجات پا کر تیرے اندر میری نوازشوں سے بہرہ اَندوز ہوں !
(٥) جب آخری شب ہوتی ہے توتمام روزہ داروں کو بخش دیا جاتا ہے (یعنی جنہوں نے روزے کے آداب کا پورا پورا لحاظ کیا تھا)
١ دُوسری حدیثوں میں یہ بھی آتاہے کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، دو زخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور بڑے بڑے شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے !
کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا وہ شب ِقدر ہوتی ہے ؟
فرمایا نہیں لیکن قاعدہ یہی ہے کہ مزدور کو مزدوری کام کے ختم پر دی جاتی ہے۔ (ترغیب و ترہیب ص ٢٠١)
دُوسری حدیث میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ شعبان کے آخری دن رسول اللہ ۖ نے تقریر فرمائی آپ نے ارشاد فرمایا :
'' مسلمانو ! وہ مبارک اور با عظمت مہینہ آگیا جس میں ایک رات وہ ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ! خدا نے اِس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور شب بیداری کو نفل قرار دیا ہے، اس مہینہ میں نفلی کام فرض کے برابر ثواب رکھتے ہیں اور اس ماہ میں ایک فرض کا ثواب ستر گنا ملتا ہے !
یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ! ١
یہ باہمی ہمدردی کا مہینہ ہے ! وہ مہینہ ہے جس میں مومن کے رزق میں زیادتی کی جاتی ہے جو شخص کسی روزہ دار کو اِفطار کرائے گا تو اُس کے گناہوں کی بخشش ہوگی اُس کی گردن آگ سے نجات پائے گی ! اور جس طرح روزہ دار کو روزہ کا ثواب مِلے گا اُسی کے برابر اِفطار کرانے والے کوبھی ثواب مِلے گا بدوں اِس کے کہ اُس کے ثواب میں کمی واقع ہو ! ٢
صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے اندر اِتنی وسعت کہاں ہے کہ دُوسروں کی دعوت کریں ! ؟
رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا خداوند ِعالم یہی ثواب مرحمت فرماتا ہے اُس شخص کو بھی جو چھوارے سے یا پانی کے گھونٹ سے یا تھوڑے سے دُودھ سے کسی کا روزہ اِفطار کرادے ! !
١ یعنی ہر نفسانی خواہش کو چھوڑ کر صبر کرنا اِس مہینہ کی خصوصیت ہے ٢ بہتر یہ ہے کہ دُوسرے کی اِفطاری سے روزہ اِفطار کرے تاکہ اُس کو دوگنا ثواب مل جائے اور اپنا ثواب بدستور قائم رہے !
یہ وہ مہینہ ہے جس کے اَوّل میں رحمت ہوتی ہے ! وسط میں گناہوں کی بخشش ! آخر میں آتشِ جہنم سے نجات !
جو شخص اپنے غلام کے کام میں تخفیف کر دے تو خدا وند ِعالم اُس کے گناہ بخشش دیتا ہے اُس کو دوزخ سے نجات دیتا ہے !
اس مہینہ میں چار باتیں کثرت سے کرو :
(١) اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا وِرد رکھو !
(٢) استغفار زیادہ پڑھو ! (٣) خدا وند ِعالم سے جنت کی دُعا مانگتے رہو !
(٤) دوزخ سے پناہ مانگتے رہو ! (ترغیب و ترہیب ص ٢٠٢)
اعتکاف :
اس مبارک ماہ کی برکات کو زائد سے زائد حاصل کرنے کے لیے مسنون ہے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے ! بیسواں روزہ اِفطار کر کے اعتکاف میں داخل ہو اور چاند دیکھنے پر اعتکاف سے فارغ ہو ! اگر دس روز کاممکن نہ ہو تو سات روز پانچ روز تین روز جس قدر ممکن ہو اور کم اَز کم ایک روز ! اعتکاف میں بیہودہ بکواس کرنی بھی منع ہے ! نیز بناوٹی طور پر خاموش ہو کر بیٹھنا بھی مکروہ ہے ! !
ہر محلہ کی مسجد میں ایک شخص کو اِعتکاف کرنا چاہیے، یہ سنت ِکفایہ ہے ! اگر ایک شخص نے اِعتکاف کر لیا تو سب سے یہ سنت اَدا ہوگئی ! اگر موقع ہوتو جامع مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے !
شب ِقدر :
سیّدناحضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ لیلةُ القدر دو ہیں :
٭ ایک تووہ جس کے متعلق قرآنِ پاک میں اِرشاد ہے
( فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ) اس شب میں تمام کاموں کی تقسیم ہوتی ہے !
یہی وہ شب ہے جس میں سارا قرآنِ کریم ایک دفعہ ہی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا کی طرف منتقل کر دیاگیا تھا چنانچہ ارشادِ ربانی ہے
( اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ) ہم نے اس کو لیلةُ القدر میں نازل کیا !
حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ رات سال بھر میں آتی ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ رمضان میں ہی ہو ہاں غالب گمان یہی ہے کہ رمضان شریف میں ہوتی ہے !
٭ دوسری شب ایک اور بھی ہے اُس کو بھی '' لَیْلَةُ الْقَدْر'' کہا جاتا ہے اس میں رُوحانیت کی شعائیں منتشر ہوتی ہیں ! عالمِ اسفل کی طرف مَلَائِک کا دورہ ہوتاہے ! اب اگر اُس وقت مسلمان نماز پڑھتے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے کے اَنوار کا عکس پڑتا ہے اور مَلَائِک سے خاص قرب حاصل ہوجاتا ہے ! شیاطین دُور ہٹ جاتے ہیں ! دُعائیں قبول ہوتی ہیں ! نیز اَحادیث میں ہے کہ فرشتے مصافحہ کرتے ہیں ! اور ترغیب و ترہیب میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے غیبی مصافحہ کا اَثر یہ ہوتا ہے کہ دل پر رِقت طاری ہوتی ہے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں یہ شب جیسا کہ صحیح احادیث میں وارِد ہے اکیسویں یا تیئسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا اُنتیسویں ہوتی ہے ! ! !
حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ اپنی اس تحقیق پر علماء کے اختلاف کو اِس طرح منطبق فرماتے ہیں کہ اگر لَیْلَةُ الْقَدْر سے مقدم الذکر لَیْلَةُ الْقَدْر مراد ہو تو بے شک اُس کے لیے کوئی مہینہ معین نہیں
نہ کوئی شب مقرر ہے !
اور اگر لَیْلَةُ الْقَدْر سے دُوسری لَیْلَةُ الْقَدْر مراد ہوتو وہ رمضان شریف کے عشرہ ٔ اَخیرہ کی مذکورہ بالا تاریخوں میں ہوتی ہے !
جو شخص شب ِقدر میں مذکورہ بالا کیفیت حاصل کر لے تو رسول اللہ ۖ نے اُس کو مندرجہ ذیل دُعا کی تلقین فرمائی ہے : اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
اے اللہ ! تو آمرز گار ہے ١ معافی تجھ کو پسند ہے پس مجھ کو معاف فرما
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون ٢٠١٥ ئ)
ض ض ض
١ بخشنے والا ، معاف کرنے والا
روزہ اور اُس کی اقسام
( حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب جھنجھانوی قدس سرہ )
ض ض ض
معلوم ہونا چاہیے کہ روزہ کی تین قسمیں ہیں :
پہلا صوم عام ہے جس کے معنی ہیں اس نیت کے ساتھ کہ میں اللہ پاک کی خوشنودی کے لیے روزہ رکھتا ہوں اوّلِ فجر سے لے کر غروب ِآفتاب تک کھانے پینے اور لذائذ ِ نفسانی سے خود کو اَلگ رکھنا اور مکمل پرہیز کرنا
وہ منعم بے نیاز اور مکرم بندہ نواز قرآنِ مجید میں (کہ اس صحیفے کے لیے لطیفہ ٔ اعزاز ہے) بیان فرماتا ہے :
( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ ) ( سُورة البقرة : ١٨٣ )
''اے ایمان والو ! تمہارے لیے روزے لکھے گئے ''یعنی تم پر ماہِ رمضان المبارک میں روزہ رکھنا فرض کیا گیااور اس حکم کی پیروی تم پر واجب ہوئی اور اللہ پاک کے اس کرم پر غور کرو کہ اس بات کو ''کُتِبَ'' یعنی نوشتہ شدہ '' کہا گیا ہے جس کے معنی ہیں لکھا گیا، یہ نہیں کہا کہ میں نے لکھا ہے چونکہ روزہ میں پیاس کی تکلیف اور بھوک کی مشقت ہے اس لیے باری تعالیٰ نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ اس تحریر کو اپنے سے نسبت دے لیکن جب اپنی شانِ رحمت و مغفرت کو ظاہر کرنا چاہا تو غایت ِ لطف و کرم کے ساتھ فرمایا کہ ہم نے رحمت و مغفرت کو اپنے ذمہ لے لیا !
( کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ ) (سُورة الانعام : ٥٤ )
'' تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اُوپر لازم فرمالیااور مغفرت کو اپنے ذمہ لے لیا''
جب تو اپنی کمزوری اور شدت ِ ضعف کے باوجود اِس حکم کو بجا لایا جو تیرے لیے لکھا گیا تھا تو کیا اللہ جل شانہ نے اپنے فضل و کرم، جمال وجلال اور عزت وکبریائی کے ساتھ جو اپنے لیے لکھا اور اپنے اُوپر لازم فرمایا ہے وہ اسے پورا نہیں کرے گا (جبکہ وہ کرنے پر ہر طرح قدرت رکھتا ہے) اور اپنے لطف و کرم سے تیری بخشش نہیں فرمائے گا اور تجھے بہشت بریں میں جگہ نہیں دے گا ! !
اس مہینے کی ہر مقدس شب میںجبکہ سورج جو ستاروں کا شہنشاہ ہے جاکر غار ِمغرب میں چھپ جاتا ہے اور رات ظلمت ِ شب کے پردے اطرافِ عالم میں چھوڑدیتی تو اس سے پہلے کہ صبح ہو اور اپنے جمال جہاں آرا سے عالَم کو بقعۂ نور بنادے، بارگاہِ الٰہی کا مقرب فرشتہ آواز لگاتا ہے :
ھَلْ مِنْ مُّسْتَغْفِرٍ فَیُغْفَرُلَہ ''ہے کوئی گناہ کی معافی چاہنے والا کہ اُس کے گناہ معاف کردیے جائیں'' ھَلْ مِنْ تَائِبٍ فَیُتَابَ عَلَیْہِ '' ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ ہم اُس کی توبہ قبول کریں'' ! ! !
کیا کوئی پکارنے والا ہے جو اپنا دست ِ نیازی ہماری بارگاہ میں عجز واِنکسار کے ساتھ پھیلائے تاکہ ہم مقصد کے موتیوں سے اُس کی مٹھی بھردیں !
کوئی توبہ کرنے والا ہے جو اپنے کیے پر پشیمان ہو اور اس کے دفترِ عصیاں کو ہم مغفرت کے پانی سے دھو ڈالیں !
کوئی خطاوار ہے جسے ہم اپنی ایک نگاہ ِ لطف کے ساتھ بخش دیں !
کوئی مراد طلب ہے کہ ہم اُس کی جوئے بار تمنا میں آب ِمراد کو رَواں فرمادیں !
کوئی ڈرنے والا ہے کہ ہم اُسے اپنی بارگاہِ لطف وعطا میں باریابی کے اعزاز سے نوازیں !
کوئی راہِ طلب کا مسافر ہے کہ ہم اپنی رحمتوں کے سائے میں اُسے منزلِ مراد تک پہنچادیں !
ما یار بسیم ہیچ بے یار ہست
تا گل و ہمیش ز لطف ما خارے ہست
آوازۂ لطفِ ما در عالم بگرفت
در عرصۂ غم ہیچ گنہ گار ہست
''ہے کوئی بے یارومددگار کہ ہم اُس کے سچے ساتھی اور بہترین مدد کرنے والے ہیں ! ہے کوئی جس کا دل غم کے کانٹے سے فگار ہو کہ ہم اُسے خوشیاں عطا کر کے پھول کی طرح شگفتہ کردیں ! ہمارے لطف و کرم کا شہرہ دونوں جہانوں میں پھیلا ہوا ہے ! ہے کوئی ایسا آوارہ وبے سہارا اِنسان جو غم کی وادیوں میں بھٹک رہا ہو !
اے عزیز باتمیز جان لے کہ یہ ماہِ مبارک جسے اللہ پاک کا مہینہ کہا جاتا ہے ہزار عزت واحترام کے قابل ہے کہ یہ کوئی دل آزار وبے حمیت مہمان نہیں ہے کہ جو تیرے گھر میں جھاڑو دے دے یعنی تیرے لیے بارِ خاطر اور باعث ِ نقصان ہو بلکہ یہ ایسا معزز مہمان ہے کہ جب آتا ہے اپنی حوائجِ ضروریہ کو اپنے ساتھ لاتا ہے اور تیرے لیے رحمت ومغفرت کے اسباب پیدا کرتا ہے اور جب جاتا ہے تو روزہ رکھنے والوں کی لغزشوں کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے ! ایسے مبارک مہینے کو عزیز نہ رکھنا اور یہ سوچنا کہ جب اگلے سال یہ مہینہ آئے گا تب دیکھا جائے گا، کسی طرح صحیح نہیں ہے ! اس لیے کہ کون جانتا ہے کہ کسی انسان پر آئندہ سال آئے گا بھی یا نہیں ؟ یہ خیال کر کہ ایسے کتنے لوگ تھے جو پچھلے سال اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں سے مالا مال تھے روزہ داروں اور عبادت گزاروں میں تھے، امسال وہ اس دنیا سے جاچکے ہیں اور اب وہ خود دوسروں کی دعا اور فاتحہ کے محتاج ہیں ! !
چند روز کے لیے اپنے لب ِشکر بار پر روزہ کی مقدس مہر لگالے اور درویشوں کا طریق اختیار کر تاکہ تجھے یہ شرف حاصل ہو اَلصَّوْمِ لِیْ وَ اَنَا اَجْزِیْ بِہ ''روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر و ثواب دُوں گا ''
اللہ پاک نے روزے کی اپنے سے نسبت قائم کی ہے اسی وجہ سے جو بھی طاعت وعبادت اس مہینے میں بندہ سے وجود میں آتی ہے اللہ پاک اُسے قبول فرماتا ہے اور اہلِ عالم کو اِس پر اطلاع ہوتی ہے لیکن روزے کو کوئی نہیں دیکھتا ! اسی لیے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ خاص میرے لیے ہے ! مختلف مذہبوں اور ملتوں کے لوگ اپنے اپنے اصنام کی عبادت یا پوجا کرتے ہیں لیکن کسی نے اپنے ان معبودوں کے لیے روزہ نہیں رکھا، ہر طرح کی پوجا پاٹ کی مگر روزہ نہیں رکھا۔ روزہ خالصتاً اللہ کے لیے ہے اور اِس کا اجر اُسی کے ذمہ ہے ! !
روایت کے نقل کرنے والوں اور پیغمبر ِ خدا کی حدیث کو بیان کرنے والوں نے کہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ پاک جو سب سے بڑا بادشاہ ہے اپنے مقرب فرشتوں میں سے ایک فرشتے کو حکم دے گا کہ وہ میدانِ حشر کی فضا ء میں پرواز کرے جمیع خلائق پر کہ میدانِ حشر میں جمع ہیں، ایک نظر ڈالے اور ان کو شمار کرے ، وہ فرشتہ ایک پلک جھپکنے میں جن و اِنس ، وحوش و طیور وغیرہ تمام مخلوقات کی تعداد کو جان لے گا اور ان کے روئیں روئیں کا حساب لگالے گا ،اسی کے ساتھ ان کی جنس کو متعین کرے گا !
تب فرمانِ خداوندی صادر ہوگا کہ '' اے میرے مقرب فرشتے تونے میدانِ حشر میں موجود تمام خلقت کی تعداد کو جان لیا تو اب بہشت کی جانب دیکھ اور وہاں کے نعائم کا حساب کر '' اس پر فرشتہ باغِ بہشت کی نہروں، چشموں ، ثمردار درختوں نیز اَرضِ فردوس کے خوبصورت محلوں، حسین چمنستانوں اور اُن میں محو خرام حور و غلمان کو دیکھے گا اور ان کا حساب کرے گا، اسی طرح حکمِ خداوندی کے مطابق وہ دوزخ اور ساکنانِ دوزخ پر ایک نظر ڈالے گا اور ان سب کے اعداد و شمار کو جان لے گا، اُس وقت اللہ پاک ارشاد فرمائے گا کہ'' اے میرے مقرب فرشتے تو نے ان سب کا حال تو ایک لمحہ میں جان لیا اور اس کو جاننے میں ذراسی دیر بھی نہیں لگی، اب تو روزہ رکھنے والوں کے لیے جو اَجروثواب میری طرف سے ہے اس کا شمار کر ''بارگاہِ ایزدی کا وہ مقرب فرشتہ ہزار سال تک سوچے اور غوروفکر میں ڈوبا رہے گا اور بالآخر بارگاہِ کبریائی میں عرض پرداز ہوگا کہ خدایا میں عاجز ہوں اور مجھ سے ان رحمتوں کا حساب نہ ہوسکے گا جو تو اپنے روزہ دار بندوں پر نازل فرمائے گا ! اے خداوند ِکریم روزہ کی جزا تو تیرے کرم بے نہایت پر ہے جس کا کوئی حساب نہیں ! اس لیے کہ خداوندا تونے خود فرمایا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اُس کا اجر میرے ذمہ ہے !
سوال : روزے کے ایجاب میں حکمت کیا ہے ؟
جواب : ایک بات تو یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ایک سال تک جو گناہوں کا ڈھیر جمع ہوتا ہے روزے میں لگنے والی بھوک کی آگ اُسے جلا ڈالتی ہے اور دوسرا جواب (کہ جس پر ہزار جانیں نچھاور کی جاسکتی ہیں) یہ ہے کہ اللہ پاک نے بغیر کسی واسطے کے روزے کے سلسلے میں اپنی خوشنودی کی خبردی ہے اور روزہ داروں کو مہمانِ بہشت قرار دیا ہے( وَاللّٰہُ یَدْعُوْا اِلٰی دَارِالسَّلَامِ ) ١
''اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے''
اس کے بعد فرمایا کہ چند روز روزہ داری کے سلسلہ میں بھوکے رہو تاکہ تمہارے چہرے سے آثار ِمہمانی ظاہر ہوں !
١ سُورہ یونس : ٢٥
کنز العلوم میں ہے کہ حضرت موسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلٰوة والسلام پر وحی نازل ہوئی کہ
'' اے موسیٰ ہم اُمت ِ محمدی کو دو نور عطا فرمائیں گے جنہیں دو ظلمتوں کا کوئی خوف نہ ہوگا ''
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا اِلہ العالمین وہ دو نور کون سے ہیں ؟ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا پہلا نور قرآن ہے اور دوسرا نور ماہِ رمضان !
حضرت موسیٰ نے پھر پوچھا وہ دونوں ظلمتیں کون سی ہیں جن سے ان دو نور والوں کو ضرر نہیں پہنچے گا ؟ فرمایا گیا وہ دو ظلمتیں ظلمت ِ قبر اور ظلمت ِ یوم قیامت ہیں !
اس مقدس ومبارک مہینے میں اُمت ِمحمدی کے لیے بیس فضائل ہیں : دو حرمتیں ہیں، دو عصمتیں ہیں ،
دو نعمتیں ہیں، دو رُخصتیں ہیں، دو کرامتیں ہیں ،دو بشارتیں ہیں، دو برکتیں ہیں، دو راتیں ہیں ،دو ہدیے ہیں، دو فرحتیں ہیں !
٭ دو حرمتیں یہ ہیں : ایک حرمت ماہ رمضان ایک حرمت ِ قرآن !
( شَھْرُ رَمَضَانُ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ) ١ ''ہم نے نازل کیا قرآنِ پاک کو ماہِ رمضان المبارک میں''
٭ دو عصمتیں ہیں : ایک شیطانِ لعین سے کہ وہ انسان کو گمراہ کرتا ہے اور قلوب میں وسوسے ڈالتا ہے ! اور دوسرے دوزخ کی آگ سے کہ اس مہینہ میں شیطان قید کردیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں !
دو نعمتیں ہیں : ایک یہ ہے کہ اس مبارک ماہ میں بہشت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ! دوسرے یہ کہ دلوں کو نورِ ایمان کی روشنی سے منور کردیتے ہیں !
٭ دو رُخصتیں ہیں : ایک وقت سے پہلے افطار مسافر کے حق میں اور دوسرے بیمار کے حق میں !
( فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّة مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ) ٢
''سو جو شخص اس ماہ میں موجود ہو اُس کو ضرور اس میں روزہ رکھنا چاہیے اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے ایام کا شمار رکھنا ہے''
١ سُورة البقرة : ١٨٥ ٢ سُورة البقرة : ١٨٥
٭ دو کرامتیں ہیں : ایک خود روزہ اور دوسرے جزائے روزہ جس کو اللہ پاک نے اپنے سے متعلق رکھا ہے اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہ ''روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اِس کی جزا دُوں گا''
دوسرے یہ کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک وعنبر کی خوشبو سے بہتر ہے !
٭ دو بشارتیں ہیں : ایک اِرادۂ یسر ، دوسرے نفی عسر
( یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ) ''اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ آسانی کرنا منظور ہے اور تمہارے ساتھ دُشواری منظور نہیں''
٭ دو برکتیں یہ ہیں : ایک برکت ِروزہ دوسرے برکت ِسحور یعنی سحری کھانے کی برکت
٭ دو راتیں ہیں : ایک شب ِبدر ، دوسری شب ِقدر
٭ دو ہدیے یہ ہیں : پہلا یہ کہ روزہ دار کی نیند بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بیداری کی عبادت میں داخل ہے ! دوسرے یہ کہ اِس کی خاموشی تسبیح وتہلیل کا درجہ رکھتی ہے !
٭ دو فرحتیں یہ ہیں : ایک افطار کی فرحت ، دوسرے دیدار کی فرحت !
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُمت ِ محمدی کو عذاب نہیں دے گا اس لیے کہ اِس نے اُمت کو ماہِ رمضان اور ( قُلْ ھُوَ اللّٰہْ اَحَد ) کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں !
اے مومن روزہ دار ( قُلْ ھُوَ اللّٰہْ اَحَد ) پڑھ اور برأت ونجات حاصل کر ! ! !
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ مقبول ۖ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے ماہِ رمضان میں پانچ چیزیں عطا فرمائیں :
٭ پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ میری اُمت پر اپنی رحمتوں کے ساتھ نظر کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس پر اللہ پاک کی نگاہِ رحمت ہوجاتی ہے اُس کو پھر عذاب نہیں دیا جاتا
٭ دوسرے یہ کہ اللہ پاک کے نزدیک روزہ داروں کے منہ کی بو، مشک وعنبر پر فوقیت رکھتی ہے !
٭ تیسرے رمضان المبارک کی تمام راتوں اور دنوں میں فرشتے روزہ داروں کے گناہوں کے لیے توبہ واستغفار کرتے ہیں !
٭ چوتھے یہ کہ اللہ پاک بہشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اللہ کے اِن نیک بندوں اور دوستوں کا استقبال کرنے کے لیے آمادہ وآراستہ رہیں کہ وہ وقت نزدیک آگیا ہے کہ وہ دنیا کی تکلیفوں اور محنتوں سے رہائی پائیں اور میری رحمتوں کی طرف دوڑتے ہوئے آئیں !
٭پانچویں یہ کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی ہے اللہ پاک جو رحیم وکریم ہے روزہ داروں کو بخش دیتا ہے اور اُن کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔
جب ماہِ رمضان شروع ہوتا ہے عرشِ خداوندی لرزنے لگتا ہے کہ ایسا مہمانِ عزیز مومنین کے پاس جا رہا ہے کیا خبر ہے کہ وہ اِن کے پاس سے خوش و خرم واپس آتا ہے یا نہیں !
ماہِ رمضان میں مقربانِ بارگاہِ الٰہی تیرے حجرۂ خواجگی یعنی تیرے محل کی طرف دیکھتے ہیں کہ تو کسی بھوکے فقیر کو روٹی کا لقمہ دیتا ہے یا نہیں ؟ کسی یتیم کا دل خوش کرتا ہے ہا نہیں ؟ تو نے حلال روزی کمائی ہے یا حرام کی کمائی سے تیرے لیے کھانا تیار کیا گیا ہے ؟ ایسا تو نہیں کہ تو یتیم یا کسی بیوہ کے مال سے روزہ کھول رہا ہے !
امام بلخ خلف بن ایوب کے یہاں ایک باندی تھی جس کو انہوں نے فروخت کردیا، حاکم شہر نے اس کو خریدا اور اپنے گھر لے گیا، وہ باندی محل میں بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ملازم افطاری کے لیے مختلف چیزیں لا لاکر دستر خوان سجا رہے تھے اور جیسا کہ حکام کا شیوہ اور ان کے یہاں کا دستور ہوتا ہے کہیں سے گوشت کہیں سے شیرینی اور کہیں سے خوان لگ کر آرہا تھا، کنیز نے اس سے پہلے کبھی یہ نہ دیکھا تھا کہ دوسروں کے مال سے روزہ کھولا جاتا ہو ! اس نے پوچھا کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہے کہ افطاری کا سامان ایک ساتھ اور یکجا صورت میں نہیں لایا گیا ! اسے جواب ملا کہ اہلِ قریہ پر یہ محصول کی صورت میں عائد ہوتا ہے جیسے جیسے لوگ لالاکر دیتے جاتے ہیں سامان یہاں آتا رہتا ہے ! کنیز نے تعجب سے کہا کیا مسلمانوں میں اس قسم کی باتیں بھی ہوتی ہیں ؟ جواب ملا کہ ''ہاں'' یہی ہوتا ہے اس پر وہ کنیز رونے لگی اور کہنے لگی کہ مجھے میرے پہلے آقا کے یہاں پہنچا دو جہاں میں نے پرورش پائی ہے کہ جب کوئی مرغ بیمار ہوتا اور اس کے دسترخوان کا کوئی ریزہ چن لیتا تو شفایاب ہوجاتا !
اے خلف بن ایوب کی باندی سے برتر اِنسان سر اُٹھا اور سوچ کہ کس برتے پر تو خود کو اپنے وقت کا عالم اور زاہد کہہ سکتا ہے اور اس کا سزاوار ہوسکتا ہے ! ! !
اے عزیز باتمیز ! تجھے اس ماہِ مقدس میں اپنے ایک سال کے گناہ بخشوا لینے چاہئیں اگر تونے اس مبارک مہینے ''شہر رمضان'' میں اپنے گناہوں کو نہ بخشوایا تو پھر اس کے لیے کون سا مہینہ ہوگا ؟ دریائے رحمت جوش میں ہے اگر اس وقت تو اپنے مقصد ومراد تک نہیں پہنچتا تو کب پہنچے گا ؟
رسول اللہ ۖ سے روایت ہے کہ صبر کے دو حصے ہیں، نصف حصہ ایمان سے متعلق ہے اور نصف حصہ روزے سے ! نیز کہا گیا ہے کہ اِنسان کے اعمال اور ذخیرہ ٔ ثواب کو مظالم برباد کردیتے ہیں، سوائے روزہ کے کہ اِس کا ثواب انسان سے نہیں چھینا جاتا، باری تعالیٰ قیامت کے دن حکم فرمائیں گے کہ روزہ دار سے قصاص نہ لیا جائے !
اب کہ تجھے روزۂ عام کے بارے میں معلوم ہوگیا جو ''اَخیار'' کا روزہ ہے اور اس کی فضیلت وثواب سے بھی تجھے آگاہی ہوگئی، تو اے فرزند اَرجمند جان لے کہ روزہ کی دوسری قسم خاصانِ خدا کا روزہ ہے اور وہ مذکورہ اُمور سے بچنے کے علاوہ تمام عیوب وذنوب یعنی گناہوں اور بد اعمالیوں سے بچنا اور ظاہری وباطنی دونوں سطح پر صبر اختیار کرنا اور اپنے اعضاء وجوارح کو تمام برائیوں سے محفوظ رکھنا ہے جیسا کہ نفس کو شراب وطعام یا کھانے پینے سے روکا جاتا ہے اسی طرح تمام قویٰ اور اعضا ئ(مثال کے طور پر) آنکھوں، کانوں، زبان اور دل کی حفاظت کی جائے کہ وہ بری چیزوں کے دیکھنے، ان کے بارے میں سننے اور انہیں چکھنے اور عالمِ خیال میں ان کی خواہش کرنے سے بچپں۔
جب اِن اعضاء کی حفاظت ہوجائے گی تو باقی تمام اعضاء بھی مصئون ومحفوظ ہوجائیں گے اور تو مکمل طور پر راہِ خدا میں ایستادہ اور منزل صبرورضامیں قائم ہوگا۔
٭ سب سے پہلے دل کی حفاظت فرض ہے، اللہ پاک نے فرمایا ہے ( وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَافِیْ قُلُوْبِکُمْ ) ١ ''اللہ تعالیٰ وہ سب کچھ جانتا ہے جو تمہاے دلوں میں ہے ''
١ سُورة الاحزاب : ٥١
دل بادشاہ ہے اور تمام اعضاء وجوارح اس کے تابع فرمان ہیں ! جب دل نیکی اختیار کرتا ہے تو رعیت یعنی اعضائے مختلفہ بھی اس کی پیروی میں صلاح وفلاح کی راہ اختیار کرتے اور نیک بن جاتے ہیں !
رسول اللہ ۖ کی ایک حدیث ہے کہ دل جو ایک پارۂ گوشت ہے اگر وہ نیک ہوجائے تو سارا جسم نیک ہوجائے اس کے برعکس جب دل برائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو تمام بدن برا ہوجاتا ہے شیخ طریقت برہانِ حقیقت حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے پیرومرشد حضرت شیخ سری سقطی کی خدمت میں بار یاب ہوا، دیکھا کہ شیخ (علی الرحمة) بری طرح رو رہے ہیں اور وہاں پانی کا برتن ٹوٹا ہوا پڑا ہے ! میں نے پوچھا کہ یا حضرت آپ کے اس گریہ وزاری کا کیا سبب ہے ؟ جواب میں فرمایا کہ میرے بیٹے ایک مدت سے میرے دل میں ٹھنڈا پانی پینے کی آرزو تھی اور میں چاہتا تھا کہ مٹی کا ایک نیا کوزہ میسر آجائے تاکہ اس میں پانی ٹھنڈا کر کے پیوں، بہت مدت کے بعد یہ حاصل ہوا، کل رات میں نے اس میں پانی بھرکر رکھ دیا کہ صبح تک ٹھنڈا ہوجائے، وقت ِ سحر خواب میں دیکھا کہ بہشت کی ایک حور اپنے جمال بے مثال کے ساتھ میرے پاس آئی ! میں اس کے حسن وجمال کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا اور میں نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ جواب دیا کہ میں اس شخص کے لیے ہوں جو نئے مٹی کے کوزے سے ٹھنڈا پانی پیے۔ پھر غیرت ِ حسن سے مجبور ہوکر اُس نے کوزہ پر ہاتھ مارا، کوزہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور تمام پانی بہہ گیا، میری آنکھ کھل گئی، میں نے دیکھا کہ واقعی کوزۂ آب ٹوٹ گیا ہے اور پانی بہہ گیا ہے، اب اس خیال سے کہ دل کی ایک ادنیٰ خواہش پر میں اس حدتک موردِ عتاب قرار دیا ہوں، میری ندامت بھری آنکھوں سے بے اختیار حسرت کے آنسو بہہ رہے ہیں !
٭ دوسرے نادیدنی چیزوں سے آنکھوں کی حفاظت ہے، خدائے تعالیٰ رسول اکرم ۖ سے فرماتا ہے
(قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر بِمَا یَصْنَعُوْنَ) ( سُورة النور : ٣٠ )
''(اے محمد) ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اور اپنے اعضائے جنسی کی حفاظت کریں کہ یہی باتیں انہیں تمام برائیوں سے پاک کرنے والی ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن تمام چیزوں کی خبر رکھتا ہے جو وہ کرتے ہیں''
اس بارۂ خاص میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلٰوة والسلام نے فرمایا ہے کہ نظر سے پرہیز کرو کہ نظر دل میں آرزو پیدا کرتی ہے اور نظر کرنے والے کے لیے یہی خواہش فتنہ بن جاتی ہے !
٭ تیسرے تجھ پر کانوں کی حفاظت لازم ہے جس کے ذریعہ تو اپنے کانوں کو فحش اور فضول باتوں کے سننے سے بچاسکے ! یاد رکھ کہ سننے والا بھی کہنے والے کے ساتھ گناہ میں شریک ہوتا ہے ''سننا'' بہت سے خطرات پیدا کرتا ہے اور اس سے دل میں گونا گوں وسوسے جنم لیتے ہیں جن سے دل اور اس کے اتباع میں تمام جسم بہت سی ایسی مشغولیتوں میں گِھر جاتا ہے جو طاعت و عبادت کے لیے پھر کوئی جگہ نہیں چھوڑتیں !
٭ چوتھے زبان کی حفاظت ہے جو تیرے لیے ضروری ہے ! حضرت سفیان بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ۖ سے دریافت کیا یارسول اللہۖ وہ کون سی چیز ہے کہ جس سے آپ میرے بارہ میں ڈرتے ہیں رسول اللہ ۖ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ چیز یہ ہے !
حضرت یونس بن عبید رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرا نفس اِس پر تو قادر ہے کہ میں گرمیوں کے موسم میں بصرہ جیسے گرم شہر میں رہتے ہوئے روزہ رکھ لوں لیکن میں ایک کلمہ لایعنی کو ترک نہیں کرسکتا یعنی یہ ممکن نہیں کہ میری زبان سے کوئی لایعنی بات نکلے جب ایسا ہے تو زبان کی حفاظت تیرے لیے اور بھی ضروری ہوگئی !
حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ جب صبح کا وقت ہوتا ہے تو تمام اعضائے جسمانی زبان سے کہتے ہیں کہ تجھے ہم خدائے عزوجل کی قسم دیتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ تو راست گفتار رہے ! جب تو سیدھی رہے گی تو ہم سب سیدھے راستے پر چلیں گے اور جب تو کج رفتار ہوجائے گی تو ہم سب بہک جائیں گے !
٭ پانچویں یہ ہے کہ تو اپنے دست وپا کو غلط چیزوں کو حاصل کرنے اور بری جگہوں پر جانے سے روکے
مختصر یہ کہ خاصانِ خدا کا روزہ تمام شیطانی راستوں کے مسدود کردینے اور تمام برائیوں کے نفوذ کی راہوں کو تنگ سے تنگ کردینے سے عبارت ہے !
رسول اللہ ۖ نے فرمایا ہے کہ شیطان سرایت کرتا ہے ابن آدم کے جسم میں خون کے جاری ہونے کی جگہوں سے یعنی جس طرح لوگوں میں خون گردش کرتا ہے اسی طرح روحِ شیطانی بھی ابنِ آدم کے جسم میں سرایت کر کے خون کی طرح گردش کرتی ہے ! پس کوشش کرو کہ اس کے نفوذ کی راہیں تنگ کردو، اور یہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ اعضاء کی شہوانی خواہشات سے حفاظت کی جائے ! اس لیے کہ شیطان انسان کے قلب تک راہ نہیں پاتا مگر شہوانی خواہشات کی وساطت سے !
جب خاصانِ الٰہی کا روزہ جو اَبرار کہلاتے ہیں یہ ہے کہ وہ روزہ کی حالت میں تمام اعضائے بدن اور قوائے جسمانی کی حفاظت کرتے ہیں تاکہ تمام عیوب وذنوب یعنی گناہوں اور بد اعمالیوں سے بچ سکیں اور نیکی پر قائم ودائم رہیں، تاکہ اللہ پاک ان روزوں کی برکت سے جو ہمیشہ رکھتے ہیں تیسرے قسم کے روزوں کی توفیق انہیں ارزانی فرمائی۔
روزے کی اس تیسری قسم یعنی صومِ حقیقی مقربانِ بارگاہِ الٰہی اور غلامانِ حضرت رحمت پناہی کے لیے ہے کہ وہ آشکارہ پنہاں غیر حق اور محبت غیر حق سے پرہیز کریں، اس طرح ان کا روزہ ان کو غیر اللہ اور ان کی محبت سے منزہ ومبرا کردیتا ہے اور وہ اس مژدہ ٔ جاں افزا کے خلعت ِ لطیف اور تشریف شریف سے نوازے جاتے اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہ (فعل مجہول کی قرأت کے ساتھ) یعنی (روزہ خاص میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود بن جاؤں گا''
از غیر تو دارم ہمہ روز روزہ
ہر شب کنم از عطائے تو دریوزہ
تا روزۂ من ترا قبول اُفتد
جان و دلِ من بروزہ اند ، ہر روزہ
''ہر دن میں تیرے سوا خیال سے پرہیز کرتا ہوں، یہی میرا روزہ ہے ! ہر رات میں تیری بخششوں کے لیے تجھ سے دریوزہ کرتا ہوں تاکہ تو اپنی عنایت بے نہایت سے میرے روزے کو قبول فرمائے ! میرے دل و جان ہر روز روزہ دار رہتے ہیں''
جب یہ مقربانِ بارگاہ جو اَخص خواص ہیں روزہ رکھتے ہیں یعنی اس کا رخانہ ٔ افعال وآثار سے رخت ِ فکر باہر لے جاتے ہیں، اس کی حدود سے بلند ہوجاتے ہیں اور شیون وصفات کے اُن حجابات اور پردوں کو جلادیتے ہیں جو تمام آثار واَفعال کے مبادی وسرچشمہ ہیں تو ان کا قبلہ ٔ مراد اور کعبہ مقصود صرف ذات ِ واجب الوجود ہوتی ہے اور کوئی دوسرا خیال ان کے قریب نہیں آتا !
بیروں ز حدودِ کائنات است دلم
بترز احاطۂ جہات است دلم
فارغ ز تقابل صفات است دلم
مراةِ تجلیاتِ ذات است دلم
''میرا دل کائنات کی حدوں سے بلند ہوگیا ہے، میرا دل احاطہ ٔ جہات سے بالاتر ہوگیا ہے، میرا دل تقابلِ صفات سے بے نیاز ہوگیا ہے، میرا دل تجلیات ِ ذات کا آئینہ بن گیا ہے''( از صحائف ِمعرفت)
( مطبوعہ ماہنامہ انوار مدینہ مارچ١٩٩٣ء بحوالہ ماہنامہ بینات اپریل ١٩٩٢ء )
ض ض ض
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
فضیلت کی راتیں قسط : ٢
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
ض ض ض
ماہِ شعبان کی فضیلت :
یوں تو ہردن ہر مہینہ ہر سال ہی محترم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے مگر کچھ دن اور مہینے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاص فضیلت عطا کی ہے اُن میں سے ایک مہینہ شعبان المعظم کا بھی ہے اس مہینہ کی احادیث ِمبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے۔حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا ''شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا '' ١
حضرت اَنس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو آپ یوں دُعا فرماتے : یا اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمارے لیے برکت فرما اور خیریت کے ساتھ ہم کو رمضان تک پہنچا'' ٢
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ''جنابِ رسول اللہ ۖ (شعبان میں) اتنے زیادہ روزے رکھتے کہ ہم کہتے کہ اب آپ اِفطار نہ کریں گے اور کبھی آپ اِفطار کیے جاتے (یعنی روزے ہی نہ رکھتے) یہاںتک کہ ہم کہتے کہ اب آپ روزے نہیں رکھیں گے۔ ا ور میں نے آپ کو کسی مہینہ میں شعبان کے مہینے سے زیادہ (نفلی)روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا'' ٣
اس حدیث کے پیش ِنظر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ۖ شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے کیوں رکھتے تھے ؟ تواِس کی وجہ بھی حدیث میں موجود ہے، چنانچہ ایک حدیث میں آتاہے کہ حضرت اُسامہ نے ایک مرتبہ آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ۖ
میں آپ کو شعبان میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ
١ مسند فردوس دیلمی ٢ الدعوات الکبیر ج ٢ ص ١٤٢ ۔ مشکوٰ ة شریف ص ١٢١ ٣ بخاری و مسلم بحوالہ مشکوة ص ١٧٨
''شعبان ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں اس مہینہ میں اللہ رب العلمین کے حضور میں لوگوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ،میری آرزویہ ہے کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تومیرا شمار روزہ داروں میں ہو'' ١
شب ِبراء ت کی فضیلت :
ماہِ شعبان المعظم میں ایک بڑی فضیلت والی رات آتی ہے اس رات کے کئی نام ہیں :
(١) لَیْلَةُ الْبَرَائَ ةِ یعنی دوزخ سے بری ہونے کی رات (٢) لَیْلَةُ الصَّکِّ یعنی دستاویز والی رات (٣) لَیْلَةُ الْمُبَارَکَةِ یعنی برکتوں والی رات ۔عُرفِ عام میں اسے '' شب ِبرا ء ت'' کہتے ہیں ! شب کے معنی فارسی زبان میں رات کے ہیں اور براء ت عربی کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں ،یہ شعبان کی پندرہویں شب کو ہوتی ہے۔ احادیث ِمبارکہ میں اس شب کی بڑی فضیلت آئی ہے ،ایک حدیث میں آتاہے کہ''اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلۂ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتے ہیں'' ٢ کہتے ہیں کہ عرب میں اس قبیلہ کے پاس تقریبًا بیس ہزار بکریاںتھیں، اندازہ فرمائیے کہ بیس ہزار بکریوں کے کتنے بال ہوں گے ؟ اُن کا شمار کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اس رات میں اتنے لوگ دوزخ سے بری کیے جاتے ہیں جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا !
ایک دوسری حدیث میں آتاہے کہ ''جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو(اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ کیا کوئی بخشش کا طلبگارہے کہ میں اُس کو بخش دُوں ؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ میں اُسے رزق دُوں ؟ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ میں اُسے (تکلیف) سے نجات دُوں ؟ کیا کوئی ایسا ہے ؟ کیا کوئی ایسا ہے ؟ غرض تمام رات اسی طرح دربار رہتا ہے اور عام بخشش کی بارش ہوتی رہتی ہے حتی کہ فجر ہو جاتی ہے (اور دربار برخاست ہوجاتاہے) '' ٣
١ فضائل الاوقات ص ١٢٥ ، شعب الایمان ج٣ ص ٣٨٣ ٢ ترمذی ج ١ ص ١٥٦ و اِبن ما جہ ص ١٠٠
٣ نسائی ج ١ ص ٢٥١
شب ِبرا ء ت میں کیا ہوتا ہے ؟
حضورِ انور ۖ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں
''تمہیں معلوم ہے شعبان کی اس (پندرہویں )شب میں کیا ہوتا ہے ؟ اُنہوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ ۖ کیا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس رات میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے پیدا ہونے والے ہیں وہ سب لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات میں سب بندوں کے اعمال(سارے سال کے) اُٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی (مقررہ) روزی اُترتی ہے'' ١
ایک اعتراض اور اُس کا جواب :
یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ روزی وغیرہ تو پہلے سے لوحِ محفوظ میںلکھی جا چکی ہے پھر اس کا کیامطلب کہ اس شب میں انسان کو ملنے والی روزی لکھ دی جاتی ہے ؟
اس اعتراض کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ اس شب مذکورہ کاموں کی فہرست لوحِ محفوظ سے علیحدہ کرکے اُن فرشتوں کے سُپرد کردی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ کام ہیں ! الغرض اس رات میں پورے سال کا حال قلمبند ہوتا ہے، رزق ،بیماری ،تنگی ،راحت وآرام، دُکھ،تکلیف حتی کہ ہروہ شخص جو اِس سال پیدا ہونے یا مرنے والا ہو اُس کا وقت بھی اِسی شب میں لکھا جاتا ہے !
ایک روایت میں ہے حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیںکہ اس مہینے کی پندرہویں شب میں مَلکُ الموت (عزرائیل علیہ السلام) کو ایک رجسٹر دیا جاتا ہے اورحکم دیا جاتاہے کہ پورے سال میں مرنے والوں کے نام اس رجسٹر سے نقل کرلو ! کوئی آدمی کھیتی باڑی کرتاہے، کوئی نکاح کرتا ہے ،کوئی کوٹھی اور بلڈنگ بنوانے میں مشغول ہے مگر اُس کویہ بھی معلوم نہیں کہ میرا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہے ٢
١ الدعوات الکبیر ٢/ ١٤٦ ، مشکوة شریف ١ / ١١٥ ٢ لطائف المعارف ص ١٤٨ ، مصنف عبدالرزاق ٤/ ٣١٧
حضور علیہ الصلٰوة والسلام کا پندرہویں شب میں معمول :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ :
ایک رات رسول اکرم ۖ میرے گھر تشریف لائے اور لباس تبدیل فرمانے لگے لیکن پورا لباس اُتارا نہ تھا کہ پھر کھڑے ہو گئے اور لباس زیب ِتن فرمایا ! اس پر مجھے سخت رشک آیا اور گمان ہوا کہ آپ میری کسی سوکن کے یہاں جا رہے ہیں ! آپ کی روانگی کے بعد میں بھی پیچھے پیچھے چلی، یہاں تک کہ میں نے آپ کو ''بقیعِ غرقد''(جنت البقیع)میں اس حالت میں دیکھا کہ آپ مسلمان مردوزَن اور شہداء کے لیے مغفرت طلب فرمارہے ہیں ! یہ دیکھ کر میں نے دل میں کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ اللہ کے کام میں مشغول ہوں اور میں دُنیاوی کام میں لگی ہوئی ہوں ! اس کے بعد میں لوٹ کر اپنے حجرہ میں آئی،میں لمبی لمبی سانس لے رہی تھی کہ اتنے میں آپ تشریف فرماہوئے اور فرمایاعائشہ کیا بات ہے سانس کیوں پھول رہا ہے ؟ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ تشریف لا کر لباس تبدیل فرمانے لگے،ابھی لباس اُتارنے بھی نہ پائے تھے کہ دوبارہ لباس زیبِ ِتن کیا، اس پر مجھے رشک آیا اور خیال ہوا کہ آپ کسی اور زوجہ کے گھر تشریف لے جارہے ہیں تاآنکہ میں نے آپ کو قبرستان میں دُعا میں مشغول دیکھا ۔ اس پر آپ نے اِرشاد فرمایا ا ے عائشہ ! کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ اور اُس کا رسول تم پر کوئی ظلم وزیادتی کرے گا ؟
واقعہ یہ ہے کہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اُنہوں نے کہا کہ آج شعبان کی پندرہویں شب ہے جس میں قبیلۂ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں اور مشرک ،کینہ ور ،قطع تعلقی کرنے والے ، بدسلوک، غرور سے زمین پر لباس گھسیٹ کر چلنے والے، والدین کے نافرمان اورعادی شراب خور کی طرف اِس شب نظرِ کرم نہیں فرماتے ! ! اس کے بعد آپ نے لباس اُتارا اور فرمایا اے عائشہ شب بیداری کی اجازت ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں میرے ماں باپ آپ پر قربان بصد شوق،چنانچہ آپ کھڑے ہوگئے او ر عبادت کرنے لگے ! دورانِ نماز ایک بڑا لمبا سجدہ کیا جس پر مجھے آپ کی قبضِ رُوح کا گمان ہوا ، میں اُٹھ کر آپ کو دیکھنے بھالنے لگی،میں نے آپ کے تلووں کو ہاتھ لگایا تو اُن میں حرکت تھی، اس پر مجھے خوشی ہوئی ، میں نے آپ کوسجدہ میںیہ دُعا کرتے سُنا :
اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْہُکَ لَآ اُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکْ
صبح کو میں نے آپ سے اِن دُعائوں کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اِن دُعائوں کو یاد کرلو اور دُوسروں کو بھی ان کی تعلیم دو کیونکہ جبرئیل علیہ السلام نے مجھے یہ دُعائیں سکھائیں اور کہاکہ سجدہ میں یہ مکرر سہ کرر پڑھی جائیں'' ١
شب ِبراء ت میں کن لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی ؟
بہت سی حدیثوں میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ کچھ بد نصیب لوگ ایسے ہیں کہ اِس برکت والی رات میں بھی رحمت ِخداوندی سے محروم رہتے ہیں اور اُن پر نظرِ عنایت نہیں ہوتی ! ذیل میںایسے بدقسمت لوگوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو :
(١) مُشرک(٢)جادُوگر (٣)کاہن ونجومی(٤ ) بغض اور کینہ رکھنے والا (٥)جلّاد(٦)ظُلم سے ٹیکس وصول کرنے والا(٧)باجا بجانے والا اور اُن میں مصروف رہنے والا (٨) جُوا کھیلنے والا (٩) ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا (١٠) زانی مرد وعورت(١١) والدین کا نافرمان (١٢) شراب پینے والا اور اُس کا عادی (١٣)رشتہ داروں اور مسلمان بھائی سے ناحق قطع تعلقی کرنے والا
یہ وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کی اس بابرکت رات میں بھی بخشش نہیں ہوتی اور رحمت ِخداوندی سے محروم رہتے ہیں ! اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے گریبان میں منہ ڈالے اور غور وفکر کرے کہ کہیں ان عیبوں میں سے میرے اندر تو کوئی عیب اور بُرائی نہیں ! ! اگر ہوتو اُس سے توبہ کرے اور حق تعالیٰ کی طرف رُجوع کرے ،یہ خیال نہ کرے کہ میرے اتنے اور ایسے گناہ کیسے معاف ہوں گے یہ شیطانی خیال ہے !
١ ماثبت بالسنة ص ١٧٣
پندرہویں شعبان کے روزہ کا حکم :
آنحضرت ۖ شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور دُوسروں کوبھی اِس کی ترغیب دیتے تھے،خاص طورپر پندرہویں شب کے روزے کے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کا یہ اِرشاد منقول ہے کہ''جب شعبان کی پندرہویں شب آئے تو رات کو قیام کرو (یعنی نمازیں پڑھو) اور (اگلے)دن کا روزہ رکھو'' (اِبن ماجہ)
شب ِبراء ت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کن کاموں سے بچنا چاہیے :
(١) اس رات میں قیام کرنا یعنی نوافل پڑھنا مستحب ہے (٢) قبرستان جانا اور مسلمان مرد وزَن کے لیے ایصالِ ثواب کرنا مستحب ہے(٣) اگلے دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے
اس شب میں صلٰوة التسبیح پڑھیں،تہجد پڑھیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ عشاء اور فجر کی نماز ضرور جماعت کے ساتھ ادا کریں،ایسا نہ ہو کہ نفلوں میں تو لگے رہیں اور فرائض چھوٹ جائیں !
حضور علیہ الصلٰوة والسلام اکیلے قبرستان گئے تھے اس لیے اکیلے جائیں اور صرف مرد جائیں، عورتیں نہ جائیں، عورتوں کا قبرستان جانا جائز نہیں !
بہترہے کہ شعبان کی ١٣، ١٤ اور ١٥ تینوں دن کے روزے رکھ لیے جائیں انہیں'' اَیَّامِ بِیْض'' کہتے ہیں اور ان دنوں میں روزہ رکھنے کا بہت ثواب ہے۔
اس شب میں آتش بازی ہرگزنہ کی جائے، اس کاسخت گناہ ہے اور یہ ہندوئوں کا کام ہے نہ کہ مسلمانوں کا ، چراغاں نہ کیا جائے کیونکہ اوّل تو یہ شریعت سے ثابت نہیںدُوسرے اس میں اسراف ہے، بہت سے لوگ اِس شب میں بجائے عبادت کے حلوے مانڈے میں مصروف ہوجاتے ہیں، شریعت سے اس شب حلوہ وغیرہ پکانے کا کوئی ثبوت نہیں ! بہت سے لوگ مسجد میں اکٹھے ہو کر شوروغوغا کرتے ہیں اس سے بچا جائے اس کا سخت گناہ ہے، بہتر یہ ہے کہ نفلی عبادت خُفیہ کی جائے کہ دُوسرے کو پتہ نہ چلے، آنحضرت ۖ اور صحابہ کرام اِس شب میں اس طرح مسجد میں اکٹھے نہیں ہوتے تھے سب اپنے گھر و ں میںہی عبادت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین ض ض ض
جامعہ مدنیہ جدید میں تقریب تکمیلِ بخاری شریف
( مولانا محمد حسین صاحب ،مدرس جامعہ مدنیہ جدید )
ض ض ض
''صُفہ ''اسلام کا پہلا مدرسہ ہے جس کو نبی کریم ۖ نے ہجرت کے بعد قائم فرمایا اور اصحابِ صُفہ اس کے پہلے طلبائِ علوم تھے اور حضور اکرم ۖ اس کے پہلے معلم تھے ''جامعہ مدنیہ جدید '' کے دارُالحدیث سے بلند ہونے والی صدا قَالَ اللّٰہُ وَقَالَ الرَّسُوْلُ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جامعہ مدنیہ جدید صرف ایک علمی ادارہ نہیں بلکہ کلمہ حق کی بلندی کے لیے ایک اصلاحی اسلامی تحریک بھی ہے ! ادارہ ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر قرآن و حدیث کے علوم اور ائمہ کرام کے فقہی اصولوں کی اشاعت کے ذریعے علم کی روشنی پھیلا رہا ہے !
جامعہ مدنیہ جدید کے قیام کا مقصد قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت، فقہی اصولوں کا تعارف ، مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تہذیب سے آراستہ کرنا، زندگی کے تمام شعبوں میں ایسے ماہر علماء اور مفکرین تیار کرنا جو علیٰ وجہ البصیرت دعوت و تبلیغ اور تحقیق کا کام کر سکیں۔
جامعہ مدنیہ جدید روزِ اوّل سے ہی تعلیمی، تبلیغی اور تربیتی بنیادوں پر قائم ہے جامعہ سے متصل خانقاہِ حامدیہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ باطنی و اخلاقی اصلاح و تربیت کا بھی بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لیے باقاعدہ خانقاہی نظام قائم ہے ! اس کے علاوہ جدید علوم سے بھرپوراِستفادہ کے لیے بھی مختلف شعبہ جات قائم ہیں جو جامعہ مدنیہ جدید کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم کی زیر نگرانی و سربراہی میں خوب کام کر رہے ہیں، والحمد للہ !
اُنسٹھویں (٥٩) تکمیل ِبخاری شریف کی تقریب ٢٠ رجب١٤٤٤ھ/ ١٢ فروری ٢٠٢٣ء بروز اتوار جامعہ کی مسجد ِ حامد شارعِ رائیونڈ لاہور میں منعقد ہوئی ،بانی ٔ جامعہ مدنیہ جدید شیخ الحدیث حضرت اقدس حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی حسبِ خواہش اور اِرادے کی مرحلہ وار تکمیل کا عمل تیزی سے جاری ہے صرف اٹھارہ برس میں جامعہ سے ایک ہزار تین سو تریپن (١٣٥٣) علماء سند ِفضیلت حاصل کر کے ملک و بیرون ملک مختلف علاقوں میں دینی خدمات میں مصروف ہیں، والحمد للہ !
آج حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم کی زیر صدارت دورۂ حدیث شریف کے طلباء کو بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھانے کے لیے محفل منعقد کی گئی۔
مسجد ِ حامد کے وسیع صحن میں طلبہ ٔ دورہ حدیث سروں پر عمامے باندھے صحیح بخاری شریف اپنے سامنے تپائیوں پر سجائے اسٹیج کے سامنے موجود تھے اور اسٹیج کے دائیں اور بائیں اساتذہ اور مشائخ کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا، مسجد کا وسیع و عریض صحن طلباء اور مہمانوں کے اِژدحام کی وجہ سے اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تنگ پڑ گیا، اساتذۂ کرام کی زیر نگرانی نظم و ضبط دیدنی تھا، چاق و چوبند طلباء کی ایک جماعت مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے مسجد کے مرکزی دروازہ پر موجود تھی، گاڑیوں کی سلیقے سے پارکنگ کروانے کے لیے طلباء کی ایک فعال جماعت موجود تھی اور مسجد کے داخلی دروازہ پر جامعہ کے شعبہ مالیات کا اسٹال موجود تھا، مسجد کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ اور بانی جامعہ حضرت اقدس مولانا سیّدحامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے ملفوظات سے مزین فلیکس اور بیرونی دیواروں پر طلباء کی طرف سے معزز مہمانوں کے لیے استقبالیہ فلیکس آویزاں تھے !
تقریب کا آغاز بعد نمازِ ظہر ڈیڑھ بجے تلاوت ِ کلام ِ پاک سے ہوا، تلاوت قرآن کی سعادت جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ قاری محمود الحسن صاحب نے حاصل کی بعد ازاںنعت ِرسولِ مقبول جامعہ کے طلباء کرام شیراز اَحمد، ظفر علی ، ممتاز عالم، محمد سعد اور ننھے نعت خواں محمد اَحمد نے پیش کیں، جامعہ کے ننھے طالب علم قاری ضیاء الرحمن رازق نے ختم ِ بخاری کی مناسبت سے نظم پیش کی خصوصی طور پر بزمِ حسان کے نعت خواں حق نواز صاحب چنیوٹی نے طلبائِ کرام کے لیے چند اشعار پیش کیے اس موقع پر جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا امان اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے داماد مولانا محمد قاسم صاحب نے مولانا کی یاد میں خصوصی اشعار کہے ، جامعہ کے اسی سال دستارِ فضیلت حاصل کرنے والے خوش نصیب طالب علموں مولانا منصف زمان نے عربی اور مولانا عبداللہ رانااور مولانا زین العابدین صاحبان نے انگلش میں اپنے خیالات کا اظہار کیا !
بعد ازاں اُستاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتہم کا اصلاحی بیان ہوا اور اس کے بعد نائب مہتمم مولانا عکاشہ میاں صاحب نے ولولہ انگیز انداز سے حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو دعوت ِ خطاب دی اور طلباء کرام نے نعروں کی گونج سے حضرت کا بھرپور استقبال کیا
شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے طلباء کو بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھائی اور سیر حاصل تقریر فرمائی (یہ بیان قارئینِ کرام اگلے ماہ انوار ِ مدینہ میں ملاحظہ کرسکیں گے)
دورۂ حدیث سے فارغ التحصیل طلبائِ کرام کو شیخ الحدیث مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم اور تمام اساتذۂ کرام نے دستارِ فضیلت پہنائیں اس موقع پر طلباء اور ان کے والدین کی خوشی دیدنی تھی جامعہ مدنیہ جدیدکی طرف سے دستارِ فضیلت حاصل کرنے والے طلباء کو کتب تحفہ میں دی گئیںاور جامعہ کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے اوّل، دوم، سوم اور صاحب ِ ترتیب طلباء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے خصوصی انعامات سے نوازا !
اس موقع پر جامعہ مدنیہ جدید کے دو فضلاء ِکرام مولانا عبداللہ بن مولانا محمد یونس اور مولانا دانیال احمد ولد مولانا محمد یونس صاحب جنہوں نے ایک برس میںبخاری شریف مکمل حفظ کی ان کو بھی شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم اور تمام اساتذہ کرام نے دستارِ فضیلت عطا کی، والحمد للہ !
بعد ازاں راقم الحروف نے جامعہ مدنیہ جدید کا مختصر تعارف پیش کیا اور احباب کو توجہ دلائی گئی کہ جامعہ مدنیہ جدید و مسجد ِ حامد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اس ادارہ میں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانے پر جاری ہیں ، جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اہلِ خیر حضرات کی دعاؤں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجئے اور اپنے عزیز و اَقارب کو بھی ترغیب دیجئے تاکہ صدقہ جاریہ کا سامان ہو۔
جامعہ مدنیہ جدید میں مختلف شعبے کام کر رہے ہیں : شعبہ حفظ و ناظرہ ، تجویدوقرأت، درسِ نظامی، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الفقہ ، دارُ الافتائ، شعبہ عصری علوم (سکول)،شعبہ کمپیوٹر (ابتدائی کمپیوٹر ڈولپمنٹ ، ربوٹکس اینڈ آٹومیشن)،شعبہ نشر و اشاعت (ماہنامہ انوارِ مدینہ و مکتبة الحامد ) ، خانقاہِ حامدیہ ، الحامد ٹرسٹ ، مستشفیٰ الحامد(ڈسپنسری)، مکتبۂ جبریل اورشعبہ برقیات۔
انتظامیہ کی طرف سے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا گیا، بعد ازاںشیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم کی رِقت آمیز دُعا پر مجلس کا بخیر و خو بی اختتام ہوا۔
تقریب کے اختتام پر آنے والے مہمانانِ گرامی کے لیے ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا
اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ،آمین۔
اس تقریب کی مکمل کار روائی جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر سن سکتے ہیں
www.jamiamadaniajadeed.org
ض ض ض
وفیات
٢٢ فروری کو جامعہ مدنیہ جدید میں درجہ سادسہ کے طالب علم محمد وقار بن محمد یونس جنرل ہسپتال لاہور میں وفات پاگئے ان کی نمازِ جنازہ جامعہ مدنیہ جدید میں حضرت مولانا خالد محمود صاحب مدظلہم نے پڑھائی بعد ازاں ان کی میت آبائی علاقہ کوٹ رادھا کشن قصور لے جائے گئی۔
٢٧ فروری کو پھول نگر کے رانا محمد جمیل صاحب کا کم سن نواسہ ناگہانی حادثہ میں وفات پاگیا اللہ تعالیٰ لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے، آمین
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحوم کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
نتائج سالانہ امتحان دورہ حدیث شریف(١٤٤٤ھ/٢٠٢٣ئ)
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور )
ض ض ض
نمبر شمار
اسم الطالب
اسم الاب
المدیریة
حاصل کردہ نمبر
تقدیر
یب احمد
امتیاز
قصور
330
جید
2
عجاز الحق
حمد ساون
رحیم یار خان
539
ممتاز
3
اویس احمد
محمد افضل
قصور
370
جید جدًا
4
تیمور شاہ
عبدالظاہر شاہ
کوئٹہ
466
جید جدًا
5
ثناء اللّٰہ
برات خان
لاہور
355
جید جدًا
6
جمیل احمد
محمد سلیم
کوئٹہ
343
جید
7
جنید خان
فضل عظیم
سوات
557
ممتاز (دوم)
8
حافظ ابرار احمد
محمد رزاق
قصور
383
جید جدًا
9
حافظ انور خاں
عبدالخالق خان
قصور
318
جید
10
حافظ محمد شکیل
خلیل احمد
قصور
329
جید
11
حذ یفہ خالد
خالد رشید
ٹوبہ ٹیک سنگھ
518
ممتاز
12
رحیم اللّٰہ
محمد ابراہیم
تخار
400
جید جدًا
13
زین العابدین
عبدالغفار
کراچی
413
جید جدًا
14
سمیع اللّٰہ
محمد کریم شاہ
تور غر
296
جید
15
سید بلال شاہ
سید منصور علی
لاہور
321
جید
16
صبغت اللّٰہ
عبدالغفور
لاہور
327
جید
17
ضیاء الرحمن
بشیر حسین
مانسہرہ
321
جید
18
ظفر علی
محمد انور
مانسہرہ
342
جید
19
عبدالباقی
عبدالعزیز
تخار
519
ممتاز
20
عبدالصمد
محمد یونس
خانیوال
367
جید جدًا
21
عبدالکریم
عبداللطیف
ہرنائی
336
جید
22
عبداللّٰہ
رانا عبدالرؤف
لاہور
447
جید جدًا
23
عتیق الرحمٰن
محمد رفیق
ایبٹ آباد
377
جید جدًا
24
عمر حیات
محمد سائیں
نارو وال
409
جید جدًا
25
فضل الرحمٰن
عبدالرزاق
ژوب
293
مقبول
26
محسن علی
محمد علی
قصور
540
ممتاز (سوم)
27
محمد احمد سلام
محمد ادریس
قصور
335
جید
28
محمد افضل
لیاقت علی
قصور
331
جید
29
محمد بابر
نور محمد
قصور
385
جید جدًا
30
محمد بشارت خان
محمد افسر خان
ہری پور
295
جید
31
محمد تسنیم
محمد اکرم
قصور
416
جید جدًا
32
محمد تنویر قمر
نور احمد
قصور
347
جید
33
محمد حسن
نصرت الدین
کوئٹہ
366
جید جدًا
34
محمد رفیق
منیر احمد
ڈیرہ غازی خان
350
جید
35
محمد ریاض
آس محمد
قصور
337
جید
36
محمد ساجد
محمد اسلام طاہر
قصور
318
جید
37
محمد سرفراز احمد
راجہ تنویر احمد
لاہور
346
جید
38
محمد سعد
عمر حیات
کوہاٹ
415
جید جدًا
39
محمد سعد
محمد عامر
لاہور
418
جید جدًا
40
محمد سلطان
عبدالرحمٰن
مانسہرہ
377
جید جدًا
41
محمد شعیب
محمد فاروق
لاہور
308
جید
42
محمد شعیب
عبدالغفور شاہد
ہرہ پور
430
جید جدًا
43
محمد شعیب
محمد شفیع
مانسہرہ
391
جید جدًا
44
محمد شمس الحق
عبدالستار ضیاء
راجن پور
483
ممتاز
45
محمد صداقت علی
نصیر احمد
ڈیرہ غازی خان
534
ممتاز
46
محمد عابد
محمد دین
قصور
561
ممتاز (اوّل)
47
محمد عاطف
محمد یونس
کوئٹہ
300
جید
48
محمد عامر
محمد الیاس
لاہور
508
ممتاز
49
محمد عباس
محمد اسماعیل
لاہور
321
جید
50
محمد عثمان
محمد شبیر
ٹوبہ ٹیک سنگھ
372
جید جدًا
51
محمد عمر
خادم حسین
چکوال
361
جید جدًا
52
محمد عمر
مولانا محمد حسن
لاہور
535
ممتاز
53
محمد عمر
محمد سلیم
لاہور
316
جید
54
محمد عنصر
محمد مرسلین
اوکاڑہ
306
جید
55
محمد فیصل
محمد جمیل خان
لاہور
337
جید
56
محمد ممتازعالم
عالم شیر
لاہور
508
ممتاز
57
محمد نعمان
محمد عثمان
نارو وال
355
جید جدًا
58
محمد نوید
عمر خاں
قصور
319
جید
59
محمد وقار انجم
نور محمد
لاہور
526
ممتاز
60
محمد یوسف
محمد رضاء
لیہ
409
جید جدًا
61
مزمل حسین
نذیر احمد
شیخوپورہ
537
ممتاز
62
منصف زمان
خان زمان
پشاور
535
ممتاز
63
ناصر احمد
عزیز محمد
چترال
402
جید جدًا
64
وقاص احمد
مجاھد
شانگلہ
359
جید جدًا
65
یاسر ظفر
ظفر اقبال
لاہور
327
جید
بقیہ : حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
اور چونکہ آپ کے اِرشاد سے اُنہوں نے غزوۂ بدر کی شرکت سے محرومی منظور کی تھی اس لیے آنحضرت ۖ نے اُن کو اِس مبارک غزوہ میں شریک ہی مانا اور مالِ غنیمت میں ان کا حصہ بھی لگایا ! جس روز حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ فتح کی خوشخبری لے کر مدینہ منورہ پہنچے اُسی روز حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی ! ابھی اِن کو دفن کرہی رہے تھے کہ اللہ اکبر کی آواز آئی ! حضرت عثمان نے حاضرین سے پوچھا کہ یہ تکبیر کیسی ہے ؟ لوگوں نے توجہ سے دیکھا تو نظر آیا کہ حضرت زید بن حارثہ سید عالم ۖ کی اُونٹنی پر سوار ہیں اور معرکہ بدر سے مشرکین کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کی خوشخبری لے کر آئے ہیں۔ حضرت رقیہ کے جسم مبارکہ پر سوزش والے آبلے اور زخم پڑگئے تھے اسی مرض میں وفات پائی ! سید کونین ۖ غزوۂ بدر کی شرکت اور مشغولیت کی وجہ سے ان کی تدفین میں شریک نہ ہوسکے تھے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہ وَعِتْرَتِہ وَصَحْبِہ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور )
٣ فروری بروز جمعہ بعد نمازِ عصر قائد ِ جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم سے اُن کی رہائشگاہ پر ملاقات کی ، مختلف اُمور پر گفتگو ہوئی ، بعد اَزاں نمازِ عشاء کے بعد حضرت واپس تشریف لے گئے
١٢ رجب المرجب ١٤٤٤ھ/٤فروری٢٠٢٣ء کوجامعہ مدنیہ جدید میں سالانہ اِمتحانات کا انعقاد ہوا اور ٢١ رجب المرجب ١٤٤٤ھ/١٣ فروری٢٠٢٣ء سے جامعہ میں سالانہ تعطیلات ہو ئیں۔
٢٠ رجب المرجب ١٤٤٤ھ /١٢ فروری ٢٠٢٣ء بروز اتوار جامعہ میں '' ختم بخاری شریف و دَستار بندی ''کی پُر وقار تقریب بعد نمازِ ظہر تا عصر منعقد ہوئی والحمد للہ۔
٢٦ رجب ١٤٤٤ھ/١٨فروری ٢٠٢٣ء کو اِمتحانی مرکزجامعہ مدنیہ جدید میں وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات منعقد ہوئے جس میں جامعہ کے کل 165 طلباء نے شرکت کی ۔
٤ شعبان المعظم١٤٤٤ھ /٢٥ فروری ٢٠٢٣ء بروز ہفتہ سے حسب ِسابق جامعہ مدنیہ جدید میںحضرت مولانا مفتی محمدحسن صاحب مدظلہم نے دورۂ صرف ونحو کا آغاز کیا اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین
٤ شعبان المعظم١٤٤٤ھ /٢٥ فروری ٢٠٢٣ء بروز ہفتہ سے جامعہ مدنیہ جدید میں علماء و طلباء کے لیے جامعہ کے فاضل مولانا ذیشان صاحب چشتی کی زیر نگرانی''15 روزہ کمپیوٹر کورس'' کا آغاز ہوا اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
١٦ فروری کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس مولانا اظہار الحق صاحب عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
٢٦ فروری کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب نے بیڈن روڈ پر واقع مدرسہ حبیبیہ دارُالقرآن کے جلسہ تقسیم اَسناد میں شرکت کی اور حاضرین سے مختصر بیان فرمایا بعد ازاں حفاظ کرام کی رُومال پوشی اور انعامات تقسیم کیے ۔
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میںایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
+92 - 333 - 4249302 +92 - 333 - 4249301
+92 - 335 - 4249302 +92 - 345 - 4036960
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.