ماہنامہ انوا ر مدینہ
جلد : ٣٢ ذوالحجہ ١٤٤٥ھ / جون ٢٠٢٤ء شمارہ : ٦
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭
بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ ، ای میل اور وٹس ایپ
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+
دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
سیرتِ مبارکہ ..... رشتۂ اخوت اور حضرات ِانصار حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٣
مقالاتِ حامدیہ ............. طلباء کے فرائض حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٢٧
میرے حضرت مدنی قسط : ١١ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٣٠
قربانی کے مسائل حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب ٣٣
تربیت ِاولاد قسط : ١٥ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٩
اسلام ایک مدلل دین ہے ! حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ٤١
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق قسط ٣ ڈاکٹر محسن محمد صاحب صالح ٥٠
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦٢
وفیات ٦٤
حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے
اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَآئُ
قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا جِلَآؤُھَا قَالَ کَثْرَةُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَ تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ ١
'' یہ قلوب (گناہوں کی وجہ سے ) زنگ آلود ہوجاتے ہیں جس طرح کہ
لوہا زنگ آلود ہوجاتا ہے جبکہ اسے پانی لگتا رہے !
عرض کیا گیا یا رسول اللہ اس کی جِلا (اور صفائی ) کی کیا صورت ہے ؟
ارشاد فرمایا کثرت کے ساتھ موت کو یاد کرتے رہنا اور تلاوتِ قرآن کرتے رہنا '' !
دل کا زنگ آلو د ہوجانا انتہائی خطرناک بیماری ہے اور ایسی پوشیدہ کہ کوئی طبیب اور خود مریض بھی بسا اوقات اس کا پتا نہیں لگا سکتا اور اگر پتا لگا بھی لے تو خود سے اس کا علاج معلوم نہیں کیا جاسکتا
١ مشکوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٦٨
مگر امت کے طبیب ِ روحانی اور مشفق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس سنگین بیماری کا ایسا علاج بتلایا کہ اس پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا !
شاید ہی کوئی انسان ہوکہ جس کا قلب بے داغ ہو سو ہر کسی کو چاہیے کہ اس کے علاج کی فکر کرے اور ہر دن تلاوتِ قرآن پاک کا پختہ معمول بنائے اور کم از کم ایک پارہ روزانہ تلاوت کیا کرے !
دوسرا عمل یہ کہ ہر وقت اپنی موت کو یاد کرتا رہے اور تنہائی میں بیٹھ کر پوری توجہ کے ساتھ کچھ وقت موت کی یاد میں گزارا کرے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال کی توفیق اور حسن ِ خاتمہ کی نعمت سے نوازے ، آمین !
قطب الاقطاب شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php
درسِ حدیث
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ کا مجلس ِذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ ''انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے ، آمین !
استغفار کے فوائد ! انسان گناہ کیوں کرتا ہے اور اس کی حکمت ؟
گناہ کا اعتراف اور ندامت بھی ضروری ہے !
بڑی غلطی وہ ہوتی ہے جو اللہ کے یہاں بڑی ہو !
اللہ کی رحمت نہ ہو تو معمولی بات بھی بڑا گناہ بن سکتی ہے !
(درسِ حدیث نمبر٦٦/٢٠٧ ١٥ شعبان المعظم ١٤٠٦ھ/٢٥ اپریل ١٩٨٦ئ)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے مثالیں بھی دی ہیں واقعات بھی بتائے ہیں کہ استغفار سے کیا کیا فوائد ہوتے ہیں حدیث شریف میں یہ آتا ہے حضرت عبد اللہ ابن ِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ جو استغفار کو لازمی کرلے عادت بنالے جَعَلَ اللّٰہُ لَہ مِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَّخْرَجًا اللہ تعالیٰ اس کے واسطے ہر تنگی سے کشادگی پیدا فرماتے ہیں وَمِنْ کُلِّ ھَمٍّ فَرَجًا اور ہر غم سے نجات کا راستہ وَرَزَقَہ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ١ اوراللہ تعالیٰ اس کو وہاں سے رزق پہنچائیں گے جہاں اس کا گمان نہ ہوگا !
قرآن پاک میں سورۂ نوح میں ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلٰوة والسلام نے اپنی قوم سے یہ فرمایا تھا
( اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِنَّہ کَانَ غَفَّارًا ) اللہ سے استغفار کرو وہ معاف فرمانے والا ہے !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٩
کیا کیا فوائد ہوں گے ؟ توفوائد بتلائے ( یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا ) اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائیں گے ! قحط سالی خشک سالی دور ہوجائے گی ! ( وَیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ ) اور اللہ تعالیٰ تم کو مزید عطا فرمائیں گے مال بھی اور نرینہ اولاد بھی ! مال کی کمی بھی بہت پریشانی کی بات ہے، اولاد میں نرینہ اولاد نہ ہو تو پریشانی کی بات ہے ! یہ سب چیزیں یعنی قحط سالی، مالی کمی، نرینہ اولاد کا نہ ہونا یا کم ہوجانا یہ ان کی قوم میں پایا جاتا تھا مگر حضرت نوح علیہ الصلٰوة والسلام فرماتے ہیں کہ یہ بطورِسزا کے ہے تمہارے لیے، تم استغفار کروگے تو اللہ تعالیٰ راضی ہوجائیں گے تمہارے گناہوں کو معاف فرمادیں گے اور یہ پریشانیاں جو اس اس قسم کی ہیں یہ جاتی رہیں گی ( وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْھَارًا ) ١ تمہارے لیے یہ باغات ہیں ، باغ تیار دیر سے ہوتا ہے اور جل جائے درخت تو اس کی جگہ پورا درخت مکمل پیدا ہونے میں تو بڑا وقت چاہیے یہ بھی ہوگا ! نہریں بھی چلیں گی یعنی پانی کی اتنی فراوانی ہوجائے گی کہ تمام قسم کی ضرورتیں جو ہوتی ہیں انسان کی ، پھلوں سے یا زمین کی پیداوار سے متعلق وہ سب پوری ہوں گی ! لیکن ان کی قوم نہ مانی ! !
حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے بارے میں یہ نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص ان کے پاس آیا تو اس نے یہی شکایت کی کہ مالی کمی ہے بہت پریشانی ہے ! انہوں نے اسے استغفار بتلایا ! کسی اور شخص نے نرینہ اولاد کے نہ ہونے کو بتایا اس کے لیے بھی انہوں نے یہی بتلایا اس کو کہ استغفار کرو ! سننے والے جو پاس بیٹھے تھے ایک صاحب، انہوں نے کہا کہ آپ نے اس کو بھی اس کو بھی اور کوئی اور بھی آیا تھا اس کو بھی مختلف اغراض کے لیے استغفار بتلایا ہے ! ! ؟ تو انہوں نے پھر یہ آیت پڑھی کہ حضرت نوح علیہ السلام نے جیسا کہ قرآن پاک میں آتا ہے اپنی قوم کو استغفار کا مشورہ یا حکم دیا اورتبلیغ کی اللہ کی طرف سے کہ انہیں استغفار کرنا چاہیے ! اور جب وہ استغفار کریں گے تو یہ خشک سالی جاتی رہے گی ، بارش ہوگی ، پانی کی فراوانی ہوگی ، پیداوار ہوگی ، وغیرہ وغیرہ ! !
١ سُورۂ نوح : ١٢
انسان گناہ کیوں کرتا ہے ؟
آخر انسان گناہ کرتا ہی کیوں ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیوں نہیں کردیا کہ گناہ ہی نہ ہو ! تو حدیث پاک میں آتا ہے یہ کہ گناہ سے توبہ کرنا یہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے کہ کوئی اس سے توبہ کرے اور توبہ وہی کرے گا جو گناہگار ہوگا ! ملائکہ کو حکم نہیں ہے کہ وہ استغفار کریں کیونکہ گناہ ہے ہی نہیں ! ہاں انسانوں کو حکم ہے کہ استغفار کریں کیونکہ گناہ ہے جنات کو حکم ہے کہ وہ استغفار کریں کیونکہ گناہ ہے ! جانوروں کا یہ معاملہ نہیں ہے کہ وہ استغفار کریں ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں ہے ان کا گناہ ہی نہیں ہے !
تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم قسم کھاکر فرماتے ہیں وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ قسم اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا اگر تم گناہ نہ کرو لَذَھَبَ اللّٰہُ بِکُمْ تو اللہ تعالیٰ تمہیں تو لے جائیں وَلَجَآئَ بِقَوْمٍ اور ایسے لوگوں کو(تمہاری جگہ) لائیں کہ یُذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ کہ جن سے گناہ ہو اور وہ خدا سے توبہ کریں تو فَیَغْفِرُلَھُمْ ١ ان کو اللہ تعالیٰ بخشے اپنی بخشش سے نوازے !
اللہ تعالیٰ کے جو اسمائے صفات ہیں ننانوے ان میں غَفَّارْ بھی ہے یعنی بخشنے والا ! ان میں تَوَّابْ بھی ہے توبہ بہت زیادہ قبول فرمانے والا یا بار بار قبول فرمانے والا ! گناہ تو بار بار ہوتا ہے اور عَفُو بھی ہے اللہ کے اسمائے حسنٰی میں ! اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یہ حدیث کی دعا ہے ! تو ان صفات کا تقاضا یہ ہے کہ ان صفات کا کوئی مصرف (مظہر)ہو وہ مصرف یہی ہے انسان اور جنات ! یہ دو مکلف بنادیے ان دو کو اپنی مغفرت کا اور عفو کا مصرف بنادیا توبہ قبول فرمانے کا ! تو صفاتِ رحم سے تعلق ہے قریب قریب ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کا وجود قدرتی طور پر عقلی طور پر بھی سمجھ میں آتا ہے جب اللہ کی یہ صفات ہیں تو ان صفات کا کہیں استعمال تو ہوتا ہوگا تو وہ استعمال تم پر ہورہا ہے ! لیکن اگر تم فرشتے بن جائو یا جانور بن جائو تو پھر اللہ ایسی مخلوق اور پیدا فرمادیں گے کہ جو گناہ اور توبہ دونوں کام کریں گے ! ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب المناقب باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٢٨
گناہوں کا اعتراف ضروری ہے مگر صرف اللہ کے سامنے :
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم فرماتے ہیں اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ بندہ جب گناہ کا خدا سے اقرار کرلیتا ہے ثُمَّ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ ١ پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں ! تو جس بندے سے گناہ کا صدو ر ہوا ہو اس کے اعتراف کا مطلب کیا ہے ؟ کیا وہ کسی کے سامنے اعتراف کرے جاکر، نہیں کسی کے سامنے نہیں کرے گا اعتراف، کسی دوسرے کو بتلانا اپنے گناہ کو کہ یہ گناہ میں نے کیا ہے یہ منع ہے ! ! حدیث شریف میں آتا ہے اِنَّ مِنَ الْمَجَانَةِ یعنی یہ بندے کی بے پرواہی کی بات ہے کہ وہ اپنا خدا کی رحمت سے بے پرواہ ہونا ظاہر کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو اس کے گناہ پر رکھا ہے پردہ اور وہ اپنا پردہ خود کھول رہا ہے کہتا ہے میں نے یہ گناہ کیا ہے ! تو اعتراف کا مطلب پھر کیا ہے ؟ اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دل میں اعتراف کرے کہ واقعی میں نے برا کام کیا مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے نافرمانی ہوئی ! ندامت اس کے دل میں آئے، ندامت دل میں لانا یہ اعتراف ہے ! اعتراف سے مراد اپنے اور اللہ کے درمیان اعتراف کرنا ہے ،مخلوق کے سامنے گناہ کا اظہار کرکے پھر استغفار کرنا پھر اعتراف کرنا یہ مطلب نہیں ہے اس کا تو اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ جب بندہ اپنے دل میں مان لیتا ہے یہ بات کہ میں پُر تقصیر ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے ثُمَّ تَابَ پھر وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں ! ٢
١ مشکٰوة المصابیح کتاب المناقب باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٠
٢ ان سے مراد وہ گناہ ہیں جو حقوق اللہ سے متعلق ہوتے ہیں اور جو گناہ بندوں کے حقوق سے تعلق رکھتے ہوں ان میں صرف دل میں ندامت اور اعتراف کافی نہیں ہے جس بندہ کاحق تلف کیا اور اس کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو اس کو اس کا حق ادا کرنا یا اس سے معاف کرانا بھی ضروری اور لازمی ہے اس کے بغیر اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرماتے۔ محمود میاں غفرلہ
بار بار گناہ کرنے والوں میں یا توبہ کرنے والوں میں شمار ہو گا ؟
ایک بات یہ بھی ہوتی ہے انسان سے کہ اس نے توبہ کرلی اور پھر گناہ کرلیا پھر کہتا ہے آئندہ کبھی نہیں کروں گا ایسا ! تھوڑی دیر گزرتی ہے پھر وہی کرلیتا ہے ! پھر کہتا ہے ہرگز نہیں کروں گا اور کبھی نہیں کروں گا ! وغیرہ وغیرہ لیکن تھوڑے عرصے بعد پھر وہ کام کرلیتا ہے گناہ کا ! تو یہ آدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں بار بار گناہ کرنے والوں میں لکھا جائے گا یا بار بار توبہ کرنے والوں میں اس کو لکھا جائے گا ! ؟ کیونکہ دونوں باتیں بار بار پائی جارہی ہیں ،گناہ بھی بار بار اور توبہ بھی بار بار ! ! تو یہاں حدیث شریف میں آتا ہے مَا اَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ جو آدمی خدا سے استغفار کرتا رہے اس کو اللہ کے یہاں ان لوگوں میں شمار نہیں کیا جائے گا کہ جو گناہ پر جمے ہوئے ہیں وَاِنْ عَادَ فِی الْیَوْمِ سَبْعِیْنَ مَرَّةً ١ اگرچہ وہ دن میں اس گناہ کو ستر دفعہ کرلے اور ستر ہی دفعہ توبہ کرلے تو اس کو یہ نہیں لکھا جائے گا اللہ کے یہاں کہ یہ گناہ پر جما ہوا ہے ! حدیث شریف میں آتا ہے کہ کُلُّکُمْ خَطَّائُ وْنَ تم سب کے سب بار بار غلطیاں کرنے والے ہو ! کوئی ایسا نہیں ہے جس سے غلطی نہ ہوتی ہو بلکہ یہ سمجھ لیں کہ بار بار ہوتی ہے یا خَطَّائُ وْنَ کا ترجمہ بڑی بڑی غلطیاں کرنے والے ہو !
اللہ کی رحمت نہ ہو تو معمولی بات بھی بڑاگناہ بن سکتی ہے :
معنٰی یہ ہے کہ اگر خدا کی رحمت نہ ہو تو پھر تو بڑی سخت بات بن سکتی ہے ! اس پر مجھے خیال آتا ہے ویسے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے افضل توامت میں اور کوئی نہیں ہے بعد میں ہی ہے دوسروں کا درجہ افضلیت میں ،مرد ہوں یا عورتیں ہوں سب میں افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں اور دونوں کے بارے میں یہ آتا ہے کَادَ الْخَیِّرَانِ یَھْلِک قریب تھا کہ یہ دو بڑے اچھے لوگ نیکوکار ہلاک ہوجائیں ! اور بات کیا تھی ؟ وہی تھی جو سورۂ حجرات میں آتی ہے ( لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ) اور ( لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ) کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی آواز سے زیادہ آواز نہ اٹھائو ! زیادہ زور سے بولنا یہ بھی گستاخی ہے ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٤٠
( وَلَا تَجْھَرُوْا لَہ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ) جیسے ایک دوسرے سے زور زور سے بول لیتے ہیں اس طرح نہ کرو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے ساتھ ( اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ) ١ کہ تمہارے عمل ضائع چلے جائیں خدا کی نظر میں معاذ اللہ اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے ! یہ گناہ کیسا ہوا ؟ زبان سے متعلق، رفع ِ صوت گلے سے متعلق ، الفاظِ زبان سے متعلق ، بظاہر غور کیا جائے کوئی (بڑا ) عملی گناہ اس نے نہیں کیا لیکن اتنی سی بات پر بھی یہ فرمادیا گیا ( اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ )
دربارِ رسالت صلی اللہ عليہ وسلم کا ادب :
توحضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بعد میں بہت آہستہ بات کرتے تھے بعض دفعہ دہرانی پڑتی تھی کہ کیا کہہ رہے ہیں ذرا زور سے بتائیں حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جَہِیْرُ الصَّوْتْ تھے حضرت ثابت ابن قیس ابن ِ شماس جو ہیں وہ تو گھر میں بیٹھ گئے وہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے بہت مقرب صحابی تھے فصیح اللسان تھے جہیر الصوت تھے لائوڈ سپیکر تو ہوتا نہیں تھا تو خطیب اگر اچھا بھی ہو اور آواز بلند نہ ہو تو بڑی دقت کی بات ہوتی تھی ! خطابت کے لوازمات میں سے یہ تھا کہ اچھی اور بڑی آواز ہو تو یہ خطیب تھے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے ! کیونکہ آواز قدرتی بڑی تھی تو جب بھی بولتے تھے وہ زیادہ آواز ہوتی تھی ! جب یہ آیتیں اتریں تو وہ گھر میں بیٹھ گئے آئے ہی نہیں (سامنے) ! آتے ہوں گے نماز کو اور خاموشی سے چلے جاتے ہوں گے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے ہی نہیں پڑے تو رسول کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟ تو معلوم ہوا گھر میں ہیں ! پوچھوایا کیا بات ہے ،نہیں آئے ،ملے نہیں ؟ جو بھی پیغام دیا ہو اس قسم کا تواس آدمی نے آکر بتایا کہ وہ تو ان آیتوں کی وجہ سے بہت پریشان ہیں غم میں مبتلا ہیں ! وہ کہتے ہیں کہ میرے تو عمل سارے ضائع چلے گئے ہوں گے ؟ کیونکہ ان کی آواز تو ہمیشہ ہی زیادہ ہوتی تھی ! تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ان سے یہ کہو کہ تم اہلِ نار میں سے نہیں ہو بَلْ ھُوَ مِنْ اَہْلِ الْجَنَّةِ ١ تم جنتی ہو اَوْکَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ تو انسان سے غلطی ہوتی ہے اور اگر یہ ترجمہ کیا جائے کہ بڑی غلطی ہوتی ہے تو بڑی غلطی بھی ہوجاتی ہے کبھی نہ کبھی !
١ سُورة الحجرات : ١ ، ٢ ٢ مشکٰوة المصابیح کتاب المناقب رقم الحدیث ٦٢١١
بڑی غلطی وہ ہے جو اللہ کی نظر میں بڑی ہو :
اور بڑی غلطی کا مطلب وہ نہیں ہے کہ جسے ہم بڑی غلطی سمجھتے ہیں ! بلکہ وہ ہے جو خدا نے بتادی ہو وہ بڑی غلطی ہے ! چاہے اس کو بعض لوگ غلطی بھی نہ سمجھتے ہوں مگر خدا کے یہاں وہ غلط ہے !
تو اب ان میں جب ہر انسان ایسا ہوا کہ اس سے غلطی ہوتی ہے تو اچھا کون ہے ؟ تو فرمایا کہ
خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ ان خطاکاروں میں بہترین وہ ہیں کہ جو بار بار توبہ کریں ! جو توبہ بار بار کرتے رہیں وہ بہترین لوگ ہیں ! ! تو استغفار کی بڑی فضیلتیں ہیں ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمتوں اور مغفرتوں سے نوازے، ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے، اپنی رضا اور فضل نصیب فرمائے، آمین ! اختتامی دعا............ (مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ فروری ٢٠٠٩ ء )
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی امور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے
سیرتِ مبارکہ
رشتۂ اخوت اور حضرات ِانصار کا ایثار
٭٭٭
مؤرخِ ملت مجاہد فی سبیل اللہ حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللہ '' کے چند اوراق ( صلی اللہ عليہ وسلم )
٭٭٭
( وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰتُوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ ) ( سُورة النساء : ٣٣ )
''اور جن سے اقرار باندھا تم نے ان کو پہنچاؤ ان کا حصہ'' (شاہ عبدالقادر)
عرب میں عقد مولات کا اثر مرنے کے بعد یہ ظاہر ہوتا تھا کہ مولیٰ (جس سے یہ معاملہ ہوتا تھا) وہ چھٹے حصے کا مستحق ہوا کرتا تھا ! مندرجہ بالا آیت کے بموجب رشتۂ اخوت کا اثر وفات کے بعد ظاہر ہونا چاہیے تھا کہ ایک دوسرے کا وارث ہوتا مگر حضراتِ انصار نے بیعت عقبہ کے سلسلہ میں جب دعوت دی تھی تو امداد کا وعدہ بھی کیا تھا ، آقائے دو جہان صلی اللہ عليہ وسلم نے جب رشتۂ اخوت قائم فرمایا تو حضراتِ انصار کی مخلصانہ اور ایثار شیوہ ذہانت نے اس کے معنی یہ سمجھے کہ امداد کا طریقہ برادرانہ ہونا چاہیے ، امداد کرنے کے لیے جائیداد تقسیم نہیں کی جاتی مگر برادر زندگی میں برابر کا شریک ہوتا ہے لہٰذا حضراتِ انصار نے فیصلہ فرمایا کہ مہاجر بھائیوں کو اپنی زندگیوں میں برابر کا شریک بنالیں ! چنانچہ دربار رسالت میں درخواست پیش کردی اِقْسِمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ اِخْوَانِنَا النَّخِیْل ١
''ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان باغات تقسیم فرمادیجیے''
منصوبہ یہ تھا کہ بھائیوں کا حصہ بھائیوں کے قبضہ میں دے دیا جائے وہ اس کو اپنی ملک سمجھیں ، اپنی صواب دید کے بموجب اس میں تصرف کریں اور فائدہ اٹھائیں ! لیکن رحمت عالم صلی اللہ عليہ وسلم کی شفقت نے یہ منظور نہیں فرمایا کہ حضرات انصار کی جائیدادوں سے ان کی ملکیت ختم ہو !
١ صحیح البخاری ص ٣١٢ و ٥٣٤ رقم الحدیث ٢٣٢٥ و ٢٧١٩
دوسری طرف دشواری یہ تھی کہ خود حضرات انصار کا جو مقصد تھا وہ اس پیشکش سے پورا نہیں ہوتا تھا ، حضراتِ انصار کا مقصد تو یہ تھا کہ مہاجرین کی مالی مشکلات ختم ہوں لیکن اس طرح تقسیم کے بعد حضراتِ مہاجرین صاحب ِجائیداد ضرور ہوجاتے مگر یہ حضرات تاجر پیشہ ، کاشتکاری اور زراعت سے ناواقف تھے وہ ان جائیدادوں سے پیداوار کر کے وہ امداد حاصل نہیں کر سکتے تھے جس کے لیے حضراتِ انصار نے یہ ایثار کیا تھا ، رحمت ِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے حضراتِ انصار کو اس دشواری کی طرف توجہ دلائی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا
''امداد کی صورت یہ ہے کہ زمین اور باغ کے بجائے پیداوار کا حصہ مہاجرین کو دیں ، باغات کی خدمت اور زمین میں کاشت کی ذمہ داری آپ صاحبان لیں اور پیداوار مہاجرین کو دے دیں '' ١
حضراتِ مہاجرین نے بھی یہی فرمائش کی کہ
''کام کی ذمہ داری آپ لیں اور پیداوار میں ہمیں شریک کر لیں '' ٢
١ البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٢٢٨ و ٢٢٩
٢ عام طور پر یہی صورت ہوئی اگرچہ بعض حضرات نے یہ بھی کیا کہ زمینیں اور باغ لے لیا اور خود کام کیا حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کو جو درخت دیے گئے تھے وہ ان پر مالکانہ تصرف کرتی رہیں اور اپنی ملک ہی سمجھتی رہیں حتی کہ جب ان سے واپس کرنے کو کہا گیا تو تیار نہ ہو ئیں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے تقریبًا دس گنی جائیداد دے کر ان کو واپس کرنے پر راضی کیا ! ! (البدایہ والنہایہ ج٤ ص ٧٩،٨٠ بحوالہ مسند احمد)
علامہ علی بن برہان الدین حلبی کی تحقیق یہ ہے کہ حضرات انصار کی پیشکش اگرچہ یکساں تھی کہ وہ اپنی نصف جائیدادیں دینا چاہتے تھے مگر حضرات مہاجرین میں سے بعض نے تو اس کو اس صورت سے منظور کیا کہ حضرات انصار ہی کام کریں گے اور ان کی پیداوار مہاجرین حضرات کو دیتے رہیں گے اور بعض نے ان اراضی کو بطور بٹائی منظور کیا کہ وہ خود کام کریں گے اور نصف حصہ انصار کو دیتے رہیں گے۔ (سیرة حلبیہ ج٢ ص ٢٩٧)
مگر اس دوسری صورت میں کوئی خاص ایثار نہیں ہے حالانکہ حضرات انصار کا ایثار اتنا تھا کہ مہاجرین حضرات کو یہ فکر ہوگیا کہ تمام اجروثواب یہ سمیٹ لیں گے ہم تہی دامن رہ جائیں گے۔ ( واللہ اعلم بالصواب)
حضراتِ انصار نے جیسے ہی یہ تجویزیں سنیں ، دفعةً ان کے جذبات کی صدا بلند ہوئی
سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ''ہم نے سن لیا ہے ہم پوری پوری تعمیل کریں گے ''
دنیا نے بہت سے انقلاب دیکھے مگر اس انقلاب کی کوئی مثال چشم عالم کے سامنے نہیں آئی کہ مالک خود اپنی مرضی سے کاشتکار اور اجنبی لوگ پر دیس سے آئے ہوئے خود بخود زمیندار بن گئے ١
یہ ایثار کیوں تھا ؟
قرآن شریف میں ہم بھی پڑھتے ہیں
( اِنَّمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا مَتَاع وَّ اِنَّ الْاٰخِرَةَ ھِیَ دَارُ الْقَرَارِ ) ٢
''یہ دنیا (موجودہ زندگی) صرف چند دن کام چلانا ہے اور برت لینا ہے بیشک آخرت ہی ٹھہراؤ (اور مستقل قیام ) کا مقام ہے'' ٣
( وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ ) ''بیشک اصل زندگی عالمِ آخرت ہے'' ٤
( وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّ اَعْظَمَ اَجْرًا) ٥
''اور جو نیک عمل اپنے لیے آگے بھیج دوگے اس کو اللہ کے پاس پہنچ کر اس سے اچھا اور ثواب میں بڑا پاؤگے''
ہمارا عقیدہ یہی ہے اور بلا شبہ ان آیتوں پر ہمارا ایمان ہے لیکن ہمارے ایمان وعقیدہ کو یقین کا وہ درجہ حاصل نہیں ہے جو مشاہدہ کی شان رکھتا ہو پھر مشاہدہ بھی غلطی کر جاتا ہے ہماری آنکھیں آفتاب کو گردش کرتا ہوا دیکھتی ہیں ہر صبح وشام کا طلوع وغروب ہمارا مشاہدہ ہے لیکن سائنس کے ماہرین کہتے ہیں کہ
١ حضراتِ انصار رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تصور یہی تھا اگرچہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کو منظور نہیں فرمایا، حضراتِ مہاجرین کی حیثیت کو عارضی قرار دیا چنانچہ جب حضراتِ مہاجرین کو جائیدادیں مل گئیں تو حضرات ِانصار کی جائیدادیں واپس کردی گئیں ۔ ٢ سُورة المومن : ٣٩
٣ ''یہ جو زندگی ہے دنیا کی سوبرت لینا ہے اور وہ گھر جو پچھلا ہے وہی ہے ٹھہراؤ کا گھر'' (حضرت شاہ عبدالقاد رحمہ اللہ)
٤ سُورة العنکبوت : ٦٤ ٥ سُورة المزمل : ٢٠
یہ مشاہدہ غلط ہے ! آفتاب گردش نہیں کرتا زمین گھومتی ہے ! جب مشاہدہ بھی غلط ہوجاتا ہے تو یقین کا کوئی اور درجہ بھی ہوسکتا ہے جو مشاہدہ سے بالا ہو جو سراسر یقین ہی یقین ہو اس میں کسی طرح بھی شک و شبہ یا کسی قسم کے احتمال کی گنجائش نہ ہو جس کو اصطلاحاً عَیْنُ الْیَقِیْنْ کہتے ہیں ١ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یقین کا یہی درجہ حاصل تھا ٢ اسی یقین کی بناپر حضراتِ انصار اپنی جائیدادیں تقسیم کرنے پر خوش تھے کہ ہم نے آخرت کی حقیقی زندگی کے لیے بہت بڑا سرمایہ حاصل کرلیا اور جس کو راہِ خدا میں اپنی ملک سے نکالا اس پر ابدی اور لازوال ملک کی مہر لگ گئی جو کبھی ہٹنے والی نہیں ہے۔
دوسری طرف اسی یَقِیْن اور عَیْنُ الْیَقِیْن نے ان حضراتِ مہاجرین کے پاک دلوں میں ایک اضطراب پیدا کردیا جو مفت میں صاحب جائیداد اور زمیندار بن گئے تھے۔
اضطراب اس پر تھا کہ حضراتِ انصار کے اس ایثار کا ثمرہ یہ ہوگا کہ اجروثواب کا ہر ایک درجہ حضراتِ انصار ہی حاصل کرلیں گے (رضی اللّٰہ عنہم اجمعین) ہم ان درجات تک نہیں پہنچ سکیں گے چنانچہ حضراتِ مہاجرین نے اپنے آقا ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کی خدمت میں عرض کیا :
''یا رسول اللہ ! جن لوگوں میں ہم آکر اترے ہیں ، ہماری چشم ِبصیرت نے ان جیسے ہمدرد غمگسار نہیں دیکھے، تنگی ہو یا فراخی ان کی ہمدردی میں فرق نہیں آتا ! اپنی جائیدادیں ہمیں دیں پھر کام کی ذمہ داری بھی خود لے لی، محنت وہ خود کریں گے اور نفع میں ہمارا حصہ لگائیں گے پس سارا اجروثواب وہی سمیٹ لیں گے''
١ مشاہدۂ آتش ،یقین پیدا کردیتا ہے کہ یہ آگ ہے اور یہ جلاتی ہے لیکن جو یقین آتشِ سوزاں میں بھسم ہونے والے کو ہوسکتا ہے وہ صرف مشاہدہ کرنے والے یا تانپے والے کو نہیں ہوسکتا، جلنے اور خاکستر ہونے والے کا یقین ہی عَیْنُ الْیَقِیْنْ ہے۔
٢ یہی عَیْنُ الْیَقِیْنْ صحابہ کرام کی افضلیت کا سبب ہے کیونکہ امت میں یہ درجہ کسی کو بھی حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ امت میں کسی کو بھی یہ شرف حاصل نہیں ہے کہ صادق مصدوق محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی زبان مبارک سے بالمشافہ کوئی ارشاد سنا ہو جس سے یقین کا آفتاب روشن ہوا ہو ! !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضراتِ مہاجرین کو اطمینان دلایا کہ
''اگر تم ان کا احسان مانو ١ اور ان کے لیے دل سے دعا کرتے رہو تو تمہارا ثواب بھی کم نہ ہوگا '' ٢
حضراتِ انصار کے اسی یقین کا یہ اثر تھا کہ جو ایثار کرچکے تھے اس پر وہ قانع نہیں تھے چنانچہ جائیداد کے اس بٹوارہ کے بعد بھی ان کا دست کرم کو تاہ نہیں ہوا وہ ان کی طرف بھی بڑھتا رہا جنہیں جائیداد نہیں ملی تھی جو گہرستی اور صاحب اہل وعیال نہیں تھے ، یہ اصحاب صفہ تھے ان کی خدمت بھی وہ اپنا فرض سمجھتے تھے۔
طالب علم کے لیے قانون :
اصحاب صفہ کے لیے سوال کرنا حرام تھا، فاقہ سے بیہوش ہوکر ان کو گرجانا آسان تھا مگر سوال کرنا محال ! ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ان کے چہروں سے بھی ان کے فاقہ کا راز فاش نہ ہو ! !
١ ہمارے ایک بزرگ تحریر فرماتے ہیں : ''دعا کا احسان درہم ودینار کے احسان سے کم نہیں ہے ! پھر فرماتے ہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جب کوئی سائل آتا اور دعائیں دیتا جیسا کہ سائلوں کا طریقہ ہے تو ام المومنین بھی اس فقیر کو دعائیں دیتیں اور بعد میں خیرات دیتیں ! کسی نے کہا اے ام المومنین آپ سائل کو صدقہ بھی دیتی ہیں اور جس طرح وہ آپ کو دعا دیتا ہے آپ بھی دعا دیتی ہیں ! فرمایا میں اگر اس کو دعا نہ دوں اور فقط صدقہ دوں تو اس کا احسان مجھ پر زیادہ رہے گا کیونکہ دعا صدقہ سے کہیں بہتر ہے، اس لیے دعا کی مکافات دعا سے کردیتی ہوں تاکہ میرا صدقہ خالص رہے دعا کے مقابلہ میں نہ ہو ۔ کذا فی المفاتیح شرح المصابیح لہٰذا جو شخص دراہم معدودہ دے کر مخلصانہ دعاؤں کا سودا کرسکتا ہے وہ کبھی نہ چوکے اور اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دے دعا ضرور حاصل کرے
جمادے چند دَادم جاں خریدَم
بحمد اللہ زَہے اَرزاں خریدَم
''چند پتھروں کے بدلے میں نے جان خرید لی ، بحمد اللہ میں نے بہت سستا سودا کیا ''
( سیرة المصطفیٰ از حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی ج ١ ص ٣٣١ )
٢ البدایة و النہایة ج ١ ص ٢٢٨
حضراتِ انصار کی مزاج شناسی نے ان قناعت پسندوں کے لیے ایک نئی راہ تجویز کی ان حضرات نے مسجد کے ستونوں میں رسیاں باندھ دیں ، کھجوروں کے موسم میں وہ کھجورکے خوشے جن میں گدرے کھجور ہوتے تھے ، درختوں سے کاٹ کر لاتے اور ان رسیوں میں لٹکادیتے تھے ١ کھجور پک کر گرجاتے یا یہ حضرات توڑ لیتے اور ان سے فاقہ کُشائی کرتے رہتے تھے ! بظاہر یہ نُقْل ہوتا تھا مگر درحقیقت سَدِّ رَمَقْ کا ذریعہ تھا فاقہ زدہ کمریں سیدھی ہوسکتی تھیں ٢ ! !
ایثار و اخلاص کی مثالیں :
( وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَة ) ٣
''اپنے سے مقدم رکھتے ہیں اگرچہ ان پرفاقہ ہی ہو''
اس آیت میں حضراتِ انصار کی جو خصوصیت بیان فرمائی گئی اس کی مثال حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ٤
یہ ایک فاقہ زدہ شخص آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں آیا کہ یا رسول اللہ میں سخت بھوکا ہوں ٥
آپ نے گھر والوں سے دریافت کرایا کچھ کھانے کو ہے ؟ ہر ایک گھر سے جواب آیا صرف پانی ہے ! !
آپ نے حاضرین سے فرمایا : کوئی صاحب ان کو اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں ؟
١ وفاء الوفاء ج١ ص ٣٢٤ ٢ نُقْل جو چیز تبدیلی ٔ ذائقہ کے لیے کھا لی جائے ، ایک قسم کی مٹھائی ، ناشتہ کرنا
سَدِّ رَمَقْ اتنا کھانا کہ زندگی قائم رہ سکے ٣ سُورة الحشر : ٩
٤ ایک اور مثال بھی بیان کی گئی ہے کہ ایک صاحب کوبکری کی سری پیش کی گئی، انہوں نے کہا فلاں صاحب اور ان کے بچے زیادہ ضرورت مند ہیں چنانچہ یہ سری ان کے یہاں بھیجی گئی انہوں نے ایک دوسرے صاحب کا نام لے کر اور ان کی ضروریات ظاہر کر کے ان کے یہاں بھجوادی ! اسی طرح سات آدمیوں میں گھوم کر پہلے شخص کے پاس آئی !
ہر ایک دوسرے کو اپنے سے مقدم رکھتا رہا ! ( فتح الباری ج ٧ ص ٩٥ بحوالہ ابن مردویة )
٥ فتح الباری ج٧ ص ٩٤
حضرت ابو طلحہ نے عرض کیا : میں حاضر ہوں ! وہ اپنے ساتھ لے گئے، گھر میں جاکر بیوی سے کہا رسول اللہ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کے مہمان کی عزت کرو (ادب واحترام سے مدارات کرو)
اہلیہ محترمہ نے کہا : صرف بچوں کے سہارے کا کھانا موجود ہے !
حضرت ابو طلحہ نے فرمایا : جو کچھ ہے تیار کرو ! چراغ روشن کر لو بچوں کو بہلا کر سلادو ! ١
محترم خاتون نے ایسا ہی کیا ، کھانا تیار کیا چراغ جلایا،جب کھانے بیٹھے تو یہ خاتون اٹھیں بظاہر اس لیے کہ چراغ کی بتی بڑھادیں (لو تیز کر دیں ) مگر بڑھانے کے بجائے( میاں بیوی کی آپس کی تجویز کے مطابق )چراغ بجھادیا ! اندھیری میں کھانا شروع کیا ٢ میاں بیوی صرف ہاتھ اور منہ چلاتے رہے گویا کھارہے ہیں کھایا کچھ نہیں بھوکے پیٹ رات گزار ی ٣ یہ تھا ایثار ! !
سیاسی بالا دستی :
اب اخلاص ملاحظہ فرمایے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ظاہر فرمادیا تھا کہ سیاسی اقتدار میں حضرات ِانصار کا حصہ نہیں ہوگا ! ! ان کے مقابلہ میں دوسروں کو بڑھایا جائے گا ! !
مگر ان حضرات کو نہ اپنے لیے اقتدار کی طلب تھی نہ اولاد کے لیے کہ وہ خود بھی عشق مولیٰ میں گم تھے اسی عشق کا متوالا اپنی اولاد کو دیکھنا چاہتے تھے ! ان کو اپنے آقا محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی خوشنودی مطلوب تھی اور اس آقا کی خوشنودی کے ذریعہ تمام آقاؤں کے آقا حضرت حق جل مجدہ کی رضا حاصل کرنا چاہتے تھے !
ان کو اس پر ناز تھا کہ جہاں یہ پیشین گوئی کی جاتی تھی اِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِیْ اَثَرَةً ٤
وہاں بشارت بھی ساتھ ساتھ دی جاتی تھی فَاصْبِرُوْا حَتّٰی تَلْقَوْنِیْ وَمَوْعِدُکُمُ الْحَوْضُ ٥
١ گویا مہمان کے اعزاز میں کیونکہ کسی ضرورت سے ہی چراغ جلایا جاتا تھا ورنہ عام طور پر گھرمیں چراغ جلانے کا دستور نہیں تھا( بخاری شریف ج ١ ص ٥٦ ) ٢ عام عادت تھی اس لیے دوبارہ چراغ جلانے کا اہتمام نہیں کیا گیا !
٣ بخاری شریف ص ٥٣٥ ، ٥٣٦
٤ '' تم میرے بعد دیکھوگے کہ دوسروں کو تم پر ترجیح دی جائے گی ان کو بڑھایا جائے گا تم کو نظر انداز کیا جائے گا
٥ ''صبر کرنا یہاں تک کہ تمہاری میری ملاقات ہو اور ملاقات کا مقام حوض کوثرہوگا، اسی کا وعدہ ہے'' ( بخاری ص ٥٣٥)
اور جب ان حضرات کے ایثار واخلاص کا یہ عالم ہے تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی ایک نظر نے پوری جماعت میں یہ اخلاص وایثار پیدا کیا وہ خود اخلاص وایثار سے تہی دامن ہو (معاذ اللّٰہ)
اور کیا محمد رسول اللہ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کے ایثار، اخلاص اور آپ کی صداقت وحقانیت کی یہ کھلی ہوئی دلیل نہیں ہے !
صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَعَلٰی اَصْحَابِہِ الْکِرَامِ وَ اَتْبَاعِہ اَجْمَعِیْن آمین
اخلاص وللہیت کی اہمیت :
( وَالْاٰخِرَةُ خَیْر وَّاَبْقٰی ) ١
''جو آپ کے کام آئے وہ بہتر ہے اس سے جو ہمارے پاس رہے''
( یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا ) ٢
''محبت کرتے ہیں ان سے جو وطن چھوڑ کر آئے ان کے پاس اور نہیں پاتے اپنے دلوں میں کوئی (تنگی اور) حسد اس سے جو دیا جائے مہاجرین کو''
٤ھ میں قبیلہ بنی نضیر کے یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو شہید کردینے کا منصوبہ بنایا وہ کامیاب نہیں ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان کے شر سے محفوظ رکھا ! مگر ظاہر ہے ان کے اس منصوبہ سے وہ معاہدہ ختم ہوگیا جو بقاء باہم کے متعلق سن ١ ہجری میں ہوا تھا، لا محالہ ان کو وہ سزادی گئی جو ازروئے معاہدہ لازم تھی یعنی ان کو اس علاقہ سے خارج کردیا گیا، ان کی جائیدادیں اسلامی مَحْرُوْسَہْ میں داخل ہوئیں ٣ چونکہ یہ علاقہ جنگ کے بغیر قبضہ میں آیا تھا تو اس کو مجاہدین پر تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ وحی الٰہی نے اس کو خاص رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا حق قرار دیا ! ٤
١ سُورة الاعلٰی : ١٧ ٢ سُورة الحشر : ٩ ٣ اسلامی ریاست کی عملداری میں آئیں
٤ ( وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ) ( سُورة الحشر : ٦ ) اس وقت تک مملکت کی ضرورتیں بھی غیر معمولی تھیں کہ ایک مملکت کی بنیاد رکھی جارہی تھی اور حضرات مہاجرین وانصار میں اگرچہ ایسے صاحب ِ استطاعت بھی تھے جو ضروریات ِ زندگی فراہم کر سکتے تھے مگر کچھ ایسے تہی دست بھی تھے کہ فاقہ کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں تھا تو اگر یہ جائیداد مجاہدین پر مساویانہ تقسیم کردی جاتی تو نہ مملکت کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوسکتی تھیں نہ فاقہ زدہ انصار ومہاجرین کو قابل اعتماد امداد مل سکتی تھی۔ (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
رسولِ خدا رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے سب سے پہلے حضرات صحابہ کی مشکلات تھیں آپ نے حضراتِ انصار کو جمع فرماکر استصواب فرمایا کہ اس علاقہ کی اراضی انصار اور مہاجرین دونوں کو دی جائیں یا صرف حضراتِ مہاجرین کو دی جائیں تاکہ وہ حضراتِ انصار کی جائیدادیں واپس کردیں اور ان کے مکانات خالی کردیں ؟
ارشادگرامی کا جواب دینے کے لیے قبیلہ اوس اور خزرج کے دونوں سردار سعد بن عبادة (خزرج) سعد بن معاذ (اوس) کھڑے ہوئے ! عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم جو کچھ آپ تقسیم فرمائیں حضراتِ مہاجرین کو تقسیم فرمادیں ، ہمیں نہ اپنے مکانات کی ضرورت ہے نہ جائیدادوں کی بلکہ ہم بہت خوش ہوں گے اگرہماری جائیدادوں اور ملکیتوں میں سے کچھ اور ان مہاجرین کو عنایت فرمادیں جو راہِ خدا میں وطن سے بے وطن ہوئے، گھروں سے اجڑے ، جائیدادوں سے محروم ہوئے ! ؟
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے یہ حوصلہ مندانہ جواب سنا تو مطمئن ہوئے اور دعا دی
اَللّٰہُمَّ ارْحَمِ الاَنْصَارَ وَ اَبْنَائَ الاَنْصَارِ
اور بعض دوسری روایتوں میں تیسرا لفظ اَبْنَائَ اَ بْنَائِ الاَنْصَارِ بھی ہے ١
اب آپ نے اس علاقہ کا ایک حصہ حضراتِ مہاجرین کو عنایت فرمایا ! حضراتِ انصار میں سے دو صاحب بہت ضرورت مند تھے حضرت ابودجانہ اور حضرت سہل بن حنیف ان کو کچھ جائیداد عطا فرمائی !
( بقیہ حاشیہ ص ٢٠ )
٭٭٭
اب قرآن پاک کے الفاظ میں ان جائیدادوں پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا تسلط تسلیم کرایا گیا
( وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ )
یعنی تمام جائیداد پر آپ کا اختیار تمیزی تسلیم کیا گیا تو آپ نے مساویانہ تقسیم کے بجائے ایسا بندوبست فرمایا کہ افراد کی ضرورتیں بھی پوری ہوئیں اور جماعت کی اقتصادی اور جنگی ضرورتوں کو بھی مدد مل سکی ! ! واللہ اعلم
١ ''اے اللہ رحم فرما انصار پر اور انصار کی اولاد پر '' (اور ان کی اولاد کی اولاد پر)
باقی علاقہ اپنے پاس رکھا ! جس میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف سے کاشت ہوتی تھی ١ اور اس کی آمدنی میں سے ازواجِ مطہرات کا نفقہ ادا فرماتے تھے ! باقی تمام آمدنی مسلمانوں کی جماعتی اور انفرادی خصوصاً جہاد کی ضرورتوں میں صرف کردیتے تھے ! ٢
بہرحال حضراتِ انصار نے نہ صرف یہ کہ اس جائیداد میں حصہ لینے سے معذرت کردی بلکہ اپنی باقی جائیدادوں کے متعلق بھی پیشکش کردی ! !
یہ ہے ایک عملی مثال اس بلندی حوصلہ اور وسعت قلب کی جس کو زیب ِ عنوان آیت میں سراہا گیا ہے
چند سال بعد بحرین کا علاقہ محروسہ اسلامیہ میں داخل ہوا تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے چاہا کہ حضرات ِ انصار کو کچھ جاگیریں عطا فرمادیں مگر حضرتِ انصار نے ان کے لینے سے صرف انکار ہی نہیں کیا بلکہ بضد ہوگئے کہ جتنی جاگیریں ہمیں عطا فرمائی ہیں اتنی ہی حضرات ِ مہاجرین کو بھی عنایت فرمادیں (مگر) اتنی گنجائش نہیں تھی
ارشاد ہوا اَمَّا لَا، فَاصْبِرُوْا حَتّٰی تَلْقَوْنِیْ فَاِنَّہُ سَیُصِیْبُکُمْ بَعْدِیْ اَثَرَة ( بخاری ص ٥٣٥)
''اگر آپ صاحبان منظور نہیں کرتے تو صبر سے کام لو یہاں تک کہ تم (حوض کوثر پر) مجھ سے ملوگے (یعنی اس ایثار کے جواب میں ایثار نہیں ہوگا) بلکہ تمہیں ترجیحات سے واسطہ پڑے گا کہ دوسروں کو تم پر مقدم رکھا جائے گا، تمہارے حقوق کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا''
اسماء گرامی بردران مہاجرین وانصار :
رجسٹروں کو اس وقت توفیق نہیں ہوئی تھی کہ حضراتِ صحابہ کے اسماء گرامی اپنے صفحات میں محفوظ کریں اور بھائی بننے والوں کو لکھاوٹ کی ضرورت بھی نہیں تھی تاہم راوی حضرات کے سینوں نے جو نام محفوظ رکھے عیون الاثر فتح الباری وسیرة ابن ہشام کے حوالہ سے یہاں درج کیے جاتے ہیں
١ السیرة الحلبیة ج١ ص ٢٩٧
٢ فَیَجْعَلُہُ مَجْعَلَ مَالِ اللّٰہِ ( صحیح البخاری ٥٧٥ و ٨٠٧ ) وَغَیرِہِ فِی السِّلَاحِ وَ الْکُرَاعِ عُدَّةً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
( صحیح البخاری ص ٧٢٥ و قسطلانی )
حضرات ِمہاجرین حضراتِ انصار
٭٭٭
ابوبکر صدیق خارجة بن زید
عمربن الخطاب عتبان بن مالک
ابوعبیدة الجراح سعد بن معاذ
عبدالرحمن بن عوف سعد بن ربیع
زبیر بن عوام سلامة بن سلامة بن وقش
عثمان بن عفان اوس بن ثابت
طلحة بن عبیداللّٰہ کعب بن مالک
سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ابی بن کعب
مصعب بن عمیر ابو ایوب خالد بن زید انصاری
ابوحذیفة بن عتبة عباد بن بشر
عمار بن یاسر حذیفة بن یمان
ابوذر غفاری منذر بن عمرو
سلمان الفارسی ابودرداء عمویمر بن ثعلبة
بلال بن رواح ابورویحة الخثمی
عاقل بن بکیر مبشر بن عبدالمنذر
خنیس بن حذاقة منذر بن محمد
سرة بن ابی رہم عبادة بن الخشخاشن
سطح بن اثاثة زید بن المزین
حضرات ِمہاجرین حضراتِ انصار
٭٭٭
حاطب بن بلتعة عویم بن ساعدة
ابومرثد عبادة بن صامت
عبداللّٰہ بن جحش عاصم بن ثابت
عتبة بن غزوان ابودجانة
ابوسلمة بن عبدالاسد سعد بن خیثمة
عثمان بن مظعون ابوالہیثم بن تیہان
عبیدة بن الحارث عمیر بن الحمام
طفیل بن الحارث سفیان نسر خزرجی
صفوان بن بیضائ رافع بن معلّٰی
مقداد عبداللّٰہ بن رواحة
ذوالشمالین یزید بن الحارث
ارقم طلحة بن زید
زید بن الخطاب معن بن عدی
عمرو بن سراقة سعد بن زید
عکاشة بن محصن مجذر بن دمار
عامر بن فہیرہ حارث بن صمة
مہجع مولٰی عمر بن الخطاب سراقة بن عمرو بن عطیة
مواخات قبل ہجرت :
تعاون وتناصر اور افادہ و استفادہ کی ضرورت جیسی مدینہ طبیبہ میں تھی ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں بھی تھی کیونکہ اس سے بے سہاروں کو سہار امل جاتا تھا اور بے پناہوں کو پناہ ! چنانچہ بقول علامہ حافظ ابن عبدالبر مکہ میں بھی رشتہ ٔ اخوت مواخات کے ذریعہ مضبوط کیا گیا تھا یہ برادران مہاجرین اٹھارہ تھے ان کے مبارک اسماء گرامی سے اس صفحہ کو آراستہ کیا جارہا ہے :
٭٭٭
سیّدنا ومولانا محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم علی کرم اللّٰہ وجہہ
ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ
عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ
حمزہ رضی اللّٰہ عنہ زید بن حارثة رضی اللّٰہ عنہ
زبیر بن العوام رضی اللّٰہ عنہ عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ
عبیدة بن الحارث رضی اللّٰہ عنہ بلال بن رباح رضی اللّٰہ عنہ
مصعب بن عمیر رضی اللّٰہ عنہ سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ
ابوعبیدة رضی اللّٰہ عنہ سالم مولٰی ابی حذیفة رضی اللّٰہ عنہ
سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ طلحة بن عبیداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ
( عیون الاثر ج ١ ص ١٩٩ الحافظ محمد بن سیّد الناس الیعمری )
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٥٤ تا ٤٦٦ )
(جاری ہے)
اجتماعی قربانی
٭٭٭
جامعہ مدنیہ جدید میں اس سال بھی اجتماعی قربانی کا انتظام کیا گیا ہے
قربانی میں حصہ لینے والے حضرات جلد رابطہ فرمائیں
گائے فی حصہ 27,000 روپے
وقف قربانی 20,000 روپے
قربانی کے جانوروں کی کھالیں جامعہ مدنیہ جدید کو دینا مت بھولیے
کھال فروخت کرکے اس کی قیمت بھی ارسال کی جا سکتی ہے
JAZZ CASH ACCOUNT : 0304 - 4587751
منجانب
جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور پاکستان
0333-4506315 - 0335-4249302
0333-4249302 - 0321-4499000
0305-5008065 - 0321-4884074
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ کے وہ مضامین جو پندرہ بیس برس قبل ماہنامہ انوار مدینہ میں شائع ہوچکے ہیں قارئین کرام کے مطالبہ اور خواہش پر ان کو پھر سے ہر ماہ سلسلہ وار ''خانقاہ حامدیہ '' کے زیر اہتمام اس مؤقر جریدہ میں بطور قندِ مکرر شائع کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے
(ادارہ)
طلباء کے فرائض
( نظر ثانی و عنوانات : حضرت مولانا سےّد محمود میاں صاحب )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
سامعین کرام ! علم جب خداکی خوشنودی کے لیے حاصل کیا جائے تو اس کا حاصل کرنا ثواب بن جاتا ہے اور اگر علم حاصل کرنے کا مقصد دنیا طلبی،جاہ اور حب ِنام ونمود ہو تو ا س میں یہ اجرنہیں رہتا بلکہ وہ گناہ بھی ہو سکتا ہے ! ! میرے اس مضمون کا عنوان ہے ''طلباء کے فرائض ''اس لیے طلبا کے چند اہم فرائض عرض کر رہا ہوں
طلبا کا پہلا فرض :
طلبا کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اساتذہ کا احترام کریں دنیا میں ہمیشہ سے یہ قاعدہ چلا آرہا ہے کہ محسن کا احسان مانا جاتاہے اور چونکہ ماں باپ کا احسان سب سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے ہر آدمی ماں باپ کی اطاعت و احترام سب سے زیادہ کرتا ہے اور ان کا احسان سب سے زیادہ مانتاہے ! ! بچپن کا دور ماں باپ کی شفقتوں کی بدولت بہت آرام وسکون سے ان کے زیرِ سایہ گزرتاہے لیکن جب بچہ ماں باپ کے سایہ سے نکل کر ادھر ادھر جانا آناشروع کرتاہے تو اسے تہذیب وتمدن کے ایک اور سانچہ کی ضرورت پڑتی ہے اس سانچہ میں ڈھالنے والااستاد ہوتاہے ! استاد کی حاجت چند روز میں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ اپنی آئندہ زندگی اور روشن مستقبل میں ہر لمحہ استاد کا محتاج رہتاہے حتی کہ وہ ان علوم و فنون کو مکمل حاصل کرلے کہ جن کی اسے آئندہ کے لیے ضرورت ہے۔
اگر غور کیا جائے تو ماں باپ کے احسان کے بعد سب سے بڑا احسان استاد کا ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے علوم ایک طالب علم کے ذہن میں ایسے ہی منتقل کرتا ہے جیسے ماں باپ اس کو بچپن میں اپنے ہاتھ سے کھلایا پلایا کرتے تھے اور جس طرح ماں باپ کھلا پلا کر خوش ہوتے تھے اسی طرح یہ شفیق استاد بھی اپنی معلومات عطاء کرکے خوش ہوتا ہے اور شاگردوں میں جومحنتی اور طلب علم میں منہمک ہوتا ہے اس سے وہ زیادہ خوش رہتاہے ! ! !
نیز جس طرح وہ ماں باپ جو خود غنی ہوں اولاد کی کمائی سے بے نیازہوں بڑھاپے میں بھی انہیں اولاد کی مدد کی ضرورت نہ ہو اپنی اولاد سے مخلصانہ توقع وابستہ رکھتے ہیں کہ یہ لائق اٹھے اسی طرح شفیق ومخلص استاد بھی اپنے شاگرد کو لائق تر بناناچاہتا ہے حالانکہ اسے شاگردسے اپنے گھریلو اور ذاتی معاملات میں یا بڑھاپے کی بیکاری ،ضعف اور بیماری کے زمانہ میں عموماً کام آنے کی کوئی امید نہیں ہوتی بلکہ کبھی کبھی تو استاد کسی ملک کا ہوتا ہے اور شاگرد کسی ملک کا اور بعد میں زندگی بھر آپس میں ملاقات بھی نہیں ہوتی توگویا ماں باپ کی طرح اگر کوئی طبقہ احسان کرتا ہے تو وہ اساتذہ کا طبقہ ہے جو اپنے شاگردوں پر احسان کیا کرتا ہے ! ! !
جب اساتذہ اتنے بڑے محسن ہوئے تو طالب علم کا فرض ہوتاہے کہ وہ احسان شناسی کرے ان کی اطاعت کرے اور انہیں خوش رکھ کر ان کی دعائیں لے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جوشخص لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ! ! !
دوسرا فرض :
آپ جانتے ہیں کہ علم ہی وہ دولت ہے جس سے تہذیب ِاخلاق کا بے بہا سرمایہ حاصل ہوتا ہے یہ سرمایہ اس لیے نہیں ہوتا کہ اسے تالا لگا کر رکھ دیا جائے بلکہ یہ دولت سرمایۂ تجارت کی طرح استعمال میں لانے سے بڑھتی ہے اس سے خود کو اور دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے ! علم کی گرانمایہ دولت حاصل ہو جائے تو اس کا فرض ہوتاہے کہ وہ اس پر عمل بھی کرے کیونکہ علم عمل ہی کے لیے حاصل کیا جاتاہے ! اگر آپ اپنے علم پر عمل کریں گے تو اس سے جاہل کوبھی فائدہ پہنچے گا کیونکہ وہ جاہل جو پڑھ نہیں سکتا آپ کے عمل سے سبق حاصل کرے گا اور اس کے اخلاق و معاملات بھی سدھر جائیں گے ! !
لیکن اگر خدانخواستہ آپ نے خود ہی اپنے علم پر عمل نہ کیا وہی بے تہذیبی،وعدہ خلافی ، غیر ذمہ دارانہ گفتگو، بے شرمی ،بے حیائی ،گالی گلوچ اختیار کیے رکھی جو ایک غیر مہذب اور جاہل کا شیوہ ہو سکتی ہے کسی پڑھے لکھے کو زیب نہیں دیتی تو آپ میں اور جاہل میں کوئی فرق نہیں رہے گا بلکہ آپ ایسے ہوں گے جیسے اپنے علم کا چراغ بجھاکر جہل کی تاریکی میں اضافہ کر رہے ہوں ۔
تیسرا فرض :
طلبا کا تیسرا فرض جو سب سے اہم ہے یہ ہے کہ وہ دینی معلومات حاصل کریں ہم اس دنیاوی زندگی کے آرام سے گزارنے کے لیے اتنے جتن کرتے ہیں ہر قسم کی کوشش اور بے انتہا محنت کرتے ہیں حالانکہ اس دنیاوی زندگی کا پل بھر کا بھی بھروسہ نہیں ہوتا لیکن اُس جہان میں آرام وراحت حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے جو لافانی ہے ! ! ہم اپنے ظاہری لباس وضع قطع کو اور اپنے جسم کو سنوارتے ہیں اور جس روح سے اس(جسم) کی بقاء ہے اس کی حالت درست کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے ! ہم اپنے جسم کو کھلاتے پلاتے ہیں اور کبھی روحانی غذا روح کو نہیں پہنچاتے ! تو کیا جسم ودنیا کی طرف اتنی توجہ اور روح و آخرت سے اتنی غفلت درست ہے ؟ یقینا درست نہیں اس لیے ہر طالب علم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر اس نے علم دین سے (مکمل) واقفیت حاصل نہیں کی تو اس کا علم ہرگز کامل نہیں ! !
علمِ دین اس علم کا نام ہے جس میں ہمیں جناب رسالتمآب صلی اللہ عليہ وسلم نے وہ باتیں بتلائی ہیں جو خدا کو پسند اور ناپسند ہیں ، جن پر عمل کرنے سے خدا کی رحمت اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور عمل نہ کرنے سے بندہ اس کی ناراضگی اور قہر وغضب کا مستحق ہوسکتا ہے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی خوشنودی سے نوازے اورغضب سے پناہ میں رکھے(آمین )
وَآخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
٭٭٭
قسط : ١١
میرے حضرت مدنی
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
٭٭٭
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ از آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی دامت برکاتہم
امیر الہند و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
٭٭٭
مدرسہ کی تنخواہ کے ساتھ کثرتِ اسفار کی وضاحت :
ایک دفعہ اس سیاہ کار نے حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ سے عرض کیا کہ آپ کی جلالت ِ شان کی وجہ سے کوئی کہہ سکے یا نہ کہہ سکے لیکن مدرسہ کی تنخواہ کے ساتھ یہ اسفار کی کثرت بہت سوں کے لیے موجب ِاشکال ہے !
حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ نے وہ شرائط نامہ جو مولانا انور شاہ صاحب کی تشریف بری اور حضرت شیخ الاسلام کی دار العلوم میں ابتدائی تقرر کے وقت طے ہوا تھا، مجھے مرحمت فرمایا کہ آپ اسے پڑھ لیجیے، اس میں توواقعی اتنی وسعت تھی کہ حضرت قدس سرہ کے اسفار اس کے مقابلہ میں بہت ہوتے تھے ، جتنی ممبران کی طرف سے حضرت کو اجازت دی گئی وہ وقت ہی ایسا تھا کہ دار العلوم کی موت و حیات حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کی آمد پر موقوف تھی، کانگریسی اخبارات اور رسائل جو دار العلوم کی مخالفت میں بہت زوروں پر تھے، حضرت شیخ الاسلام کی تشریف آوری پر ایسے ساکت ہوئے کہ پھر کوئی مخالفت کی زور دار آواز نہیں نکلی البتہ بعض حضرت کے مخالفین کی طرف سے چندہ کی کمی وغیرہ کے الزامات قائم کیے گئے مگر حضرت قدس سرہ نے دار العلوم کے چندہ میں جو مساعی جمیلہ اس وقت فرمائی ہیں وہ اس ناکارہ کو خوب معلوم ہیں ، ہر سفر میں بڑی بڑی رقمیں حضرت لے کر آتے تھے اور دار العلوم میں غلہ اسکیم کے سالانہ جلسہ کی بنیاد بھی حضرت نور اللہ مرقدہ ہی نے ڈالی تھی۔ ( آپ بیتی ص ٨٩١، ٨٩٣)
حضرت مدنی اور حضرت شیخ کی مکاتیب میں اشعار کی کثرت :
اس ناکارہ کا معمول ماہِ مبارک میں تقریباً چالیس سال سے خط و کتابت کا بالکل نہیں ، مگر یہ کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے جو مدرسہ سے تعلق رکھتی ہیں یا اور کوئی خاص مجبوری ہو تو لکھنے پڑتے ہیں ، لیکن اس ضابطہ میں ایک استثناء ہمیشہ سے رہاوہ یہ کہ اکابر کی خدمت میں ایک دو خط اس تشریح کے ساتھ کہ ''اس کے جواب کی ہرگز ضرورت نہیں صرف دعا کی یاد دہانی ہے'' لکھنے کا ہمیشہ سے رہا !
اس سلسلہ میں اعلیٰ حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری نور اللہ مرقدہ کے متعدد خطوط باوجود میرے اس لکھنے کے کہ ''جواب کی ضرورت نہیں '' اور باوجود اس اہتمام کے اعلیٰ حضرت رائے پوری اوّل اور حضرت اقدس رائے پوری ثانی حضرت مولانا عبدالقادر صاحب نور اللہ مرقدہ کے خطوط میرے انبار میں متعدد موجود ہیں اور حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس سرہ کا تو یہ بھی اہتمام تھا کہ حضرت اقدس باوجود اپنے مشاغل اور ماہِ مبارک کے اہتمام کے ایک دو کارڈ ماہِ مبارک میں اگر میں نہ لکھوں ، تب بھی حضرت اقدس شیخ الاسلام قدس سرہ تحریر فرمایا کرتے تھے، عموماً اس میں ایک یا دو شعر ہوا کرتے تھے یہ سارے کارڈ کہیں محفوظ ہیں اور وہ اشعار اتنے اونچے ہوتے تھے کہ یہ ناکارہ ان کا مصداق نہیں بن سکتا مگر حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کے تعلق کے اظہار اور شفقت کو یاد کر کے رونے کے سوا اب کچھ نہیں رہا ایک کارڈ کا مضمون جو حضرت نے متعدد رمضانوں میں لکھا تھا یہ تھا
آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند
آیا بود کہ گوشۂ چشمے بما کنند
ایک ماہِ مبارک کے کارڈ کا شعر یہ تھا
١ وہ لوگ جو کہ مٹی کو ایک نظر سے سونا بنا دیتے ہیں ، کیا ہوسکتا ہے کہ ایک نظر ہماری طرف بھی کریں ؟
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے ابرِ کرم ، بحرِ سخا ، کچھ تو ادھر بھی
مجھے یہ شعر اسی طرح یاد ہے، کارڈ سامنے نہیں ، بعض خطوط میں عربی کے اشعار بھی تحریر فرمائے، اسی طرح اس سیہ کار کا بھی معمول ہرماہ مبارک میں ایک دو کارڈ حضرت مدنی کو لکھنے کا تھا، اس میں بھی ایک دو شعر ہوا کرتے تھے۔ یہ دونوں شعر مجھے بھی اپنے مختلف کارڈوں پر رمضان میں لکھنا بہت یاد ہے ! چونکہ حضرت قدس سرہ کا اہتمام اور معمول مجھے معلوم تھا اس لیے حضرت کی روانگی کے بعد جہاں کہیں بھی حضرت قدس سرہ کا رمضان گزرتا، میں انتیس شعبان یا یکم رمضان کو کارڈ لکھ دیتا تاکہ میرا کارڈ جوابی نہ بنے بلکہ ابتدائی درخواست بنے ! (آپ بیتی ص ٦٥٨ ، ٦٥٩)
(جاری ہے )
قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔
(ادارہ)
قربانی کے مسائل
( حضرت مولاناڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب )
٭٭٭
قربانی کس پر واجب ہے ؟
مسئلہ : جس پر صدقہ فطر ١ واجب ہے اس پر بقر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہوتو اس پر قربانی واجب نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر کردے توثواب ہے !
مسئلہ : قربانی فقط اپنی طرف سے کرنا واجب ہے، اولاد کی طرف سے واجب نہیں بلکہ اگر نابالغ اولاد مالدار بھی ہوتو تب بھی اس کی طرف سے کرنا واجب نہیں نہ اپنے مال میں سے نہ اس کے مال میں سے کیونکہ اس پر واجب ہی نہیں ہوتی،لیکن اگر باپ اپنے مال میں سے اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے کر دے تو مستحب ہے ! بیوی اور بالغ اولاد مالدار ہو تو ان کو اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے !
مسئلہ : بیوی اوربالغ اولاد مالدار ہو اور شوہر بیوی کے لیے اوروالدبالغ اولاد کے لیے اپنے پاس سے قربانی کے جانور لادے تاکہ وہ قربانی کرسکیں تو جائز ہے !
مسئلہ : جو بیٹا باپ کے ساتھ باپ کے کاروبار میں لگا ہو اور کاروبار میں اس کا اپنا حصہ اور ملکیت کچھ نہ ہوتو اگر اس کے علاوہ بیٹے کے پاس قربانی کا نصاب ہوتو اس پر قربانی واجب ہو گی اور اگر نہیں ہے تو قربانی واجب نہیں ہوگی !
مسئلہ : عورت کے پاس کچھ مال نہ ہو لیکن اس نے نصاب کے بقدر مہر شوہر سے ابھی لینا ہو تو اگر
١ صدقہ فطر ہر اُس مسلمان پر واجب ہے جس پر زکٰوة فرض ہے یا زکٰوة توفرض نہیں لیکن نصاب کے برابر قیمت ( آج مورخہ ٢٧ مئی ٢٠٢٤ء کے مطابق 1,65,000 روپے ) کا اورکوئی مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد اس کے پاس ہے چاہے اس نے روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں ۔
مہر معجل ہو اور شوہر مالدار ہو توعورت پر قربانی واجب ہے ! اور اگرمہر معجل ہو لیکن شوہر فقیر ہے یا مہرہی موجل ہو خواہ شوہر مالدار ہو یا فقیر ہوتو عورت پر قربانی واجب نہیں !
مسئلہ : اگر پہلے اتنا مالدار نہ تھا اس لیے قربانی واجب نہ تھی پھر بارہویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے کہیں سے مال مل گیا تو قربانی کرناواجب ہے !
قربانی مقیم پر واجب ہوتی ہے مسافر پر نہیں :
مسئلہ : قربانی کے تینوں دن اقامت کا ہونا شرط نہیں ہے دسویں گیارہویں تاریخ کو سفر میں تھا پھر بارہویں تاریخ کو سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ گیا یا پندرہ دن کہیں ٹھہرنے کی نیت کرلی تو اب قربانی کرنا واجب ہوگیا !
مسئلہ : دسویں تاریخ کو گھر میں تھا پھر گیارہویں کو سفرمیں چلا گیا اور بارہویں کو سورج ڈوبنے سے پہلے گھر آگیا تو قربانی واجب ہوگی !
مسئلہ : اگر مالدار قربانی کے دن گزرنے سے پہلے سفر پر چلا گیااورباقی وقت سفرمیں گزرا تو اس سے قربانی ساقط ہے !
مسئلہ : جو شخص حج پر گیا اور حساب سے شرعی مسافر بنتا ہو اس پر قربانی واجب نہیں مثلاً ایک شخص ٢٥ ذیقعدہ کو مکہ مکرمہ پہنچا، اب چونکہ منٰی و عرفات جانے میں پندرہ دن سے کم ہیں اس لیے یہ شخص مکہ مکرمہ میں اقامت کی نیت بھی کرلے تب بھی مقیم نہیں مسافر ہی رہے گا اس لیے خواہ یہ شخص حج سے پہلے مدینہ منورہ جائے یا نہ جائے ١٢ ذی الحجہ تک یہ مسافر رہے گا اور اس پر قربانی واجب نہ ہوگی !
قربانی کا وقت :
مسئلہ : ذوا لحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے تک قربانی کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے لیکن قربانی کا سب سے بہتر دن دسویں کا ہے پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ !
مسئلہ : دسویں تاریخ کو شہر والوں کے لیے قربانی کا مستحب وقت عید کی نماز اور خطبہ کے بعد ہے جبکہ گائوں والوں کے لیے کہ جس میں عید کی نماز نہیں ہوتی سورج طلوع ہونے کے بعد ہے !
مسئلہ : گائوں والوں کے لیے دسویں تاریخ کوفجر کی نماز کے بعدبھی قربانی کرناجائز ہے !
مسئلہ : امام عید کی نماز پڑھا چکا لیکن ابھی خطبہ نہیں پڑھا کہ کسی نے قربانی کردی تو قربانی جائز ہے !
مسئلہ : امام کے نماز پڑھانے کے دوران قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی !
مسئلہ : امام نے نماز پڑھائی پھر لوگوں نے قربانی کی اس کے بعد پتہ چلا کہ امام کا وضو نہ تھا اور امام نے بلا وضو عید کی نماز غلطی سے پڑھادی تھی تو قربانی ہوگئی اعادہ کی ضرورت نہیں !
مسئلہ : اگر کسی عذر سے یا بلا عذر پہلے دن یعنی دسویں کو عید کی نماز نہیں ہوئی تو سورج کے زوال سے پہلے قربانی جائز نہ ہوگی البتہ زوال کے بعد جائز ہوگی اور دوسرے دن جب عید کی نماز پڑھی جائے تو نماز سے پہلے بھی قربانی جائز ہے !
مسئلہ : اگر عید کی نماز ہوئی اور پھر لوگوں نے قربانی کی، بعد میں یہ بات ظاہر ہوئی کہ وہ دن دسویں کا نہیں نویں ذوالحجہ کا ہے اور چاند دیکھنے میں غلطی ہوگئی تھی تو اگر باقاعدہ گواہی سے چاند کے ہونے کا اعلان کیا گیا تھا تو نماز اور قربانی دونوں جائز ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں !
مسئلہ : دسویں سے بارہویں تک جب جی چاہے قربانی کرے چاہے دن میں چاہے رات میں لیکن رات کو ذبح کرنا مکروہِ تنزیہی ہے شاید کوئی رگ نہ کٹے اور اندھیرے میں پتہ نہ چلے اور قربانی درست نہ ہو !
مسئلہ : اگر کوئی شہر کا رہنے والا اپنی قربانی کا جانور کسی گائوں میں بھیج دے تو وہاں اس کی قربانی عید کی نماز سے پہلے بھی درست ہے اگرچہ وہ خود شہرہی میں موجود ہو، ذبح ہو جانے کے بعد اس کو منگوالے اور گوشت کھائے !
قربانی کے جانور :
مسئلہ : بکرا ، بکری ، بھیڑ ، دنبہ ، گائے، بیل ، بھینس ، بھینسا ، اونٹ ، اونٹنی ان جانوروں کی قربانی درست ہے ان کے علاوہ کسی اورجانور کی قربانی درست نہیں !
مسئلہ : بکری سال بھر سے کم کی درست نہیں جب پورے سال بھر کی ہو تب قربانی درست ہے ! اور گائے بھینس دوبرس سے کم کی درست نہیں ، پورے دو برس کی ہوچکے تب قربانی درست ہے
اور اُونٹ پانچ برس سے کم کادرست نہیں ہے !
تنبیہ : بکری جب پورے ایک سال کی ہوجاتی ہے اورگائے جب پورے دو سال کی ہوجاتی ہے اور اونٹنی جب پورے پانچ سال کی ہو جاتی ہے تواس کے نچلے جبڑے کے دودھ کے دانتوں میں سے سامنے کے دودانت گر کر دوبڑے دانت نکل آتے ہیں ، نر اورمادّہ دونوں کا یہی ضابطہ ہے تو دوبڑے دانتوں کی موجودگی جانور کے قربانی کے لائق ہونے کی اہم علامت ہے لیکن اصل یہی ہے کہ جانور اتنی عمر کا ہو، اس لیے اگر کسی نے خود بکری پالی ہواور وہ چاند کے اعتبار سے ایک سال کی ہو گئی ہو لیکن اس کے دو دانت ابھی نہ نکلے ہوں تو اس کی قربانی درست ہے ! لیکن محض عام بیچنے والوں کے قول پر کہ یہ جانور پوری عمر کا ہے اعتماد نہیں کرلینا چاہیے اور دانتوں کی مذکورہ علامت کو ضروردیکھ لینا چاہیے !
مسئلہ : دنبہ یا بھیڑ اگر اتنا موٹا تازہ ہوکہ سال بھر کے جانوروں میں رکھیں تو سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو سال بھر سے کم لیکن چھ ماہ سے زائد عمر کے دنبہ اوربھیڑ کی قربانی بھی درست ہے ! اور اگر ایسا نہ ہو تو سال بھر کا ہونا چاہیے !
مسئلہ : گائے ، بھینس ، اونٹ میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو بھی درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اورسب کی نیت قربانی کرنے کی یا عقیقہ کی ہو صرف گوشت کی نیت نہ ہو ! اگر کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگا تو کسی کی قربانی درست نہ ہوگی مثلاً آٹھ آدمیوں نے مل کر ایک گائے خریدی اور اس کی قربانی کی تو درست نہ ہوگی کیونکہ ہر ایک کا حصہ ساتویں سے کم ہے، اسی طرح ایک بیوہ اوراس کے لڑکے کو ترکہ میں گائے ملی اور اس مشترکہ گائے کی قربانی کی تو درست نہیں ہوئی کیونکہ اس میں بیوہ کا حصہ ساتویں سے کم ہے !
مسئلہ : گائے اونٹ میں بجائے سات حصوں کے صرف دوحصے ہوں یعنی دو آدمی مل کر ایک گائے یا اونٹ ذبح کریں اوراس طرح دونوں میں سے ہرایک کے حصہ میں ساڑھے تین حصے ہوتے ہوں تو یہ جائز ہے کیونکہ دونوں میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہے ، اسی طرح اگر تین یا چار یا پانچ یا چھ آدمی مل کر ایک گائے کی قربانی کریں تو جائز ہے !
قربانی کا گوشت اور کھال :
مسئلہ : افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرے، ایک حصہ اپنے لیے رکھے، ایک حصہ اپنے رشتے داروں اوردوستوں کے لیے اورایک حصہ فقراء پر صدقہ کرے ! اگر کوئی زیادہ حصہ فقراء پر صدقہ کردے تو یہ بھی درست ہے ! اور اگر اپنی عیالداری زیادہ ہے اس وجہ سے سارا گوشت اپنے گھر میں رکھ لیا تو یہ بھی جائز ہے !
مسئلہ : قربانی کا گوشت فروخت کرنا جائز نہیں ! اگر کسی نے فروخت کردیاتو اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے !
مسئلہ : قربانی کی کھال یا تو یونہی خیرات کردے یا اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت صدقہ کردے !
مسئلہ : گوشت یا کھال کی قیمت کو مسجد کی مرمت یا کسی اورنیک اور رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں ، صدقہ ہی کرنا چاہیے !
مسئلہ : جس طرح قربانی کا گوشت غنی کو دینا جائز ہے اسی طرح کھال بھی غنی کودینا جائز ہے جبکہ اس کو بلا عوض دی جائے اس کی کسی خدمت وعمل کے عوض میں نہ دی جائے، غنی کی مِلک میں دینے کے بعد وہ اگر اس کو فروخت کرکے اپنے استعمال میں لانا چاہے تو جائز ہے !
مسئلہ : قربانی کا گوشت اور اس کی کھال کافر کو بھی دینا جائز ہے بشرطیکہ اجرت میں نہ دی جائے !
مسئلہ : گوشت یا چربی یا کھال قصائی کو مزدوری میں نہ دے بلکہ مزدوری اپنے پا س سے الگ دے !
مسئلہ : سات آدمی گائے میں شریک ہوں اور آپس میں گوشت تقسیم کریں تو تقسیم میں اٹکل سے کام نہ لیں بلکہ خوب ٹھیک ٹھیک تول کر بانٹیں کیونکہ کسی حصہ کے کم یا زیادہ ہونے میں سود ہوجائے گا
خواہ شریک اس پر راضی بھی ہوں اورجس طرف گوشت زیادہ گیا ہے اس کا کھانا بھی جائز نہیں البتہ اگر گوشت کے ساتھ سری پائے اور کھال کو بھی شریک کرلیا تو جس طرف سری پائے یاکھال ہو اس طرف اگرگوشت کم ہو تو درست ہے چاہے جتنا کم ہو ، جس طرف گوشت زیادہ ہو اس طرف سری پائے بڑھائے گئے تو اب بھی سود رہا !
مسئلہ : اگر ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہیں اور وہ سب آپس میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ ایک ہی جگہ کچایاپکا کر فقراء واحباب میں تقسیم کریں تو یہ بھی جائز ہے !
مسئلہ : تین بھائی یا زیادہ یعنی سات تک بھائی ایک گائے میں شریک ہوں اور کہیں کہ اپنی اپنی ضرورت کا گوشت لے لو اور باقی فقراء پر تقسیم کردو تو یہ جائز نہیں بلکہ یا تو پہلے کچھ فقراء کو دے کر پھر باقی کو برابر برابر تقسیم کرلیں یا پہلے برابربرابر تقسیم کریں پھر ہر ایک اپنے حصہ میں سے فقراء کودے !
متفرق مسائل :
مسئلہ : اونٹ میں نحرافضل ہے اورذبح بھی جائزہے جبکہ گائے بکری میں ذبح مستحب ہے !
مسئلہ : تنہا ایک شخص پوری گائے ذبح کرے تو پوری گائے ایک قربانی ہوکرکُل کی کُل واجب ہوئی !
مسئلہ : اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے،اگر کوئی خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو یااس کی ہمت نہ ہوتی ہو تو کسی اورسے ذبح کرالے اورذبح کے وقت جانور کے سامنے کھڑا ہونا بہتر ہے !
مسئلہ : قربانی کرتے وقت زبان سے نیت کہنا اور دعا پڑھنا ضروری نہیں ، اگر دل میں خیال کرلیا کہ میں قربانی کرتا ہوں اورزبان سے کچھ نہیں پڑھا فقط زبان سے بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر ذبح کردیا تو بھی قربانی درست ہو گئی لیکن اگر یاد ہو تو دعا پڑھ لینا بہتر ہے !
ذبح سے پہلے کی دُعا : اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ۔
ذبح کے بعد کی دُعا : اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَّخَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْھِمَا الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ
مسئلہ : جس پر قربانی واجب تھی لیکن اس نے برسوں قربانی نہیں کی تووہ گناہ کی معافی بھی مانگے
اور جتنے سالوں کی قربانی رہ گئی اس قدر قیمت کا صدقہ کردے !
مسئلہ : قربانی سے پہلے قربانی کے جانور کا دودھ دوہا ہو یا اس کی اُون اتاری ہو تو اس کو صدقہ کرنا لازم ہے !
مسئلہ : قربانی کی رسی وغیرہ سب چیزیں خیرات کردے !
٭٭٭
تربیت ِ اولاد قسط : ١٥
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا،اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
بچوں کی تعلیم و تربیت کے مدارج اور اس کے طریقے :
٭ سب سے پہلے بچہ کو کلمہ شریف سکھادو خواہ ایک ہی کلمہ ہو، جس کو عورتیں بہت آسانی سے سکھا سکتی ہیں
٭ نیز بچہ کو احکام کی زبانی تعلیم بھی دیتی رہو مثلاً اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اور یہ بتلانا کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی جو صفات ہیں وہ بتلاؤ مثلاً سب چیزوں کو انہوں نے ہی پیدا کیا، وہی جِلاتے(پیدا کرتے ) ہیں ، ان کو تمام چیزوں کی خبر ہے !
٭ اگر بچہ شرارت کرے تو کہو کہ اللہ میاں ناراض خفا ہوں گے اور جو علوم ان کے مناسب ہیں عورتیں ان کے ذہن میں خوب ڈال سکتی ہیں ، بار بار کہتے رہنے سے بچہ کو یقین ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کو سب چیز وں کی خبر ہے، عورتوں کو چاہیے کہ ان کے خیالات درست کریں !
٭ اس کے بعد جب ان کو اور ہوش ہو تو چھوٹی سورتیں قرآن شریف کی یاد کرادیں !
٭ جب سات برس کے ہوں تو نماز پڑھنے کا طریقہ بتلادیں اور دس برس کی عمر میں مار کر پڑھوائیں ! لیکن ان کو نماز کے بارے میں کوئی بھی کچھ نہیں کہتا، اگر کوئی بچہ امتحان میں فیل ہوجائے تو اس پر افسوس ہوتا ہے لیکن اگر نماز سال بھر نہ پڑھے تو ذرا بھی افسوس نہیں ہوتا ! اسلام زبانِ حال سے شکایت کر رہا ہے کہ افسوس میری طرف بالکل توجہ نہیں رہی ،میں تم کو غیرت دلا تاہوں یہ بتلایئے کہ اس کی حفاظت آپ کے ذمہ ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کیوں نہیں کی جاتی ؟ کیا یہود و نصاری اس کی حفاظت کریں گے ؟ یا ہندو مجوس اس کی حمایت کریں گے ؟ جب اپنے سامان کی مالک ہی حفاظت نہ کرے تو اور کون کرے گا ! ؟
الغرض بچوں کی تعلیم کی ابتداء نماز سے کی جائے اور اس کو عادتِ ثانیہ بنایا جائے،جب بچہ دس برس کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو اُس کو مارو پیٹو ! غرض بچپن ہی میں نماز کے طریقہ کی تعلیم دو !
٭ جب سیانا ہوجائے ، لڑکا ہو یا لڑکی ،اس کو علمِ دین پڑھائیں قرآن پڑھائیں ، اگر قرآن شریف پورا نہ ہوتو ایک ہی منزل پڑھا دی جائے آخر کی طرف سے پڑھا دیں ! اس کی چھوٹی چھوٹی سورتیں نماز میں کام آئیں گی نیز قرآن شریف کے پڑھنے میں ہرحرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں !
نماز روزہ اور اچھی عادتیں سکھلا نا عورتوں پر لازم ہے :
بعض عورتیں اگر خود نماز پڑھ لیتی ہیں تو وہ اپنے بچوں اور ماماؤں (نوکرانیوں ) کو نماز کے واسطے نہیں کہتیں ، بچوں کی پرورش زیادہ ترما ماؤں کی آغوش میں ہوتی ہے لہٰذا ان کو اخلاقِ حسنہ سکھلانا اور نماز وغیرہ کی تعلیم دینا عورتوں کے ذمہ ضروری ہے، اس میں ہرگز غفلت نہ کریں !
جب بچہ سات برس کا ہوجائے اس وقت سے نماز کی تاکید شروع کردیں اور جب دس سال کا ہوجائے تو مار پیٹ کر نماز پڑھائیں ! اطباء نے لکھا ہے کہ اچھے اخلاق اور نیک اعمال کا اثر صحت پر بھی اچھا ہوتا ہے، جس بچہ کو نیک کاموں کی عادت ہوگی اس کی صحت بھی عمدہ ہوگی، عورتوں کو بچوں کی صحت کا بہت خیال ہوتا ہے اس لیے میں نے یہ فائدہ بھی بتلادیا ہے، اگر دین کا خیال نہ ہوتو صحت کا ہی خیال کرکے بچوں کو نماز وغیرہ کی تاکید کرتی رہیں !
(باقی ص ٦١ )
اسلام ایک مدلل دین ہے
٭٭٭
١٦ رجب١٤٤٥ھ/ ٢٨ جنوری ٢٠٢٤ء کو جامعہ مدنیہ جدید میں تکمیل ِبخاری کی تقریب منعقد ہوئی اس موقع پر شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم نے بیان فرمایا اس کی افادیت کے پیش ِ نظر نذرِ قارئین کیا جارہا ہے ملاحظہ فرمائیں (ادارہ)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آپ کے سامنے حضرت امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی حدیث کی عظیم کتاب بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھی گئی اور سند کے ساتھ پڑھی گئی آج کے دور سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم تک اس حدیث کو سکھانے والے جو جو اساتذہ ہیں ان سب کے نام آپ کو بتائے گئے سنائے گئے اور آپ نے سنے ! یہ تو ایک حدیث ہے جو اس وقت پڑھی گئی ، سات ہزار سے بھی زیادہ حدیثیں ہیں بخاری شریف میں وہ ساری کی ساری اسی (طرح ) سند سے پڑھی جاتی ہیں ! اور بخاری کے علاوہ جو بقیہ صحاح ہیں اور ( ان کے علاوہ دیگر ) احادیث لاکھوں کی تعداد میں سب کو سند سے بیان کیا جاتا ہے ! تو سند صرف میری نہیں ہے یا آپ کی نہیں ہے صرف طلباء کی نہیں ہے یہ سند ہر مسلمان مرد اور عورت کی ہے !
ہر کام چھوٹا ہو یا بڑا اجتماعی ہو یا انفرادی ، عام زبان میں جسے ہم دنیاداری کہتے ہیں اور دینداری کے جو بھی کام ہیں ان کے پیچھے سند موجود ہے اسی طرح انہوں نے ان سے پڑھا انہوں نے ان سے پڑھا انہوں نے ان سے پڑھا حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے پڑھا !
یہ کھانا تم نے سیدھے ہاتھ سے کیوں کھایا ؟ اس کے پیچھے یہ سند موجود ہے کہ اس لیے کھایا کہ انہوں نے یہ بات ان سے سنی انہوں نے اپنے فلاں استاذ سے پڑھی انہوں نے فلاں استاد سے پڑھی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے پڑھی ! !
تم نے اسمبلی میں حزب اختلاف کیوں بنائی ؟ تواگر پیپلزپارٹی کرے گی اور اس سے آپ پوچھیں کہ اس کی بنیاد بتاؤ تم حزب اختلاف میں کیوں ہو اس کی وجہ بتاؤ سند کے ساتھ ؟ نہیں بتا سکتی اس کے بعد بے نظیر تھی اب آصف زرداری ہے ان سے پوچھیں تمہارے اس کام کی بنیاد اور سند کیا ہے ؟ نہیں بتا سکتے ! !
مسلم لیگ ن سے پوچھیں اس سے پہلے کے جو ہیں ان سے پوچھ لیں ہر مسلم لیگی سے پوچھ لیں کہ تم نے جو یہ کام کیا فلاں وقت تم حزب اختلاف میں تھے فلاں وقت تم حزب اقتدار میں تھے کیوں تھے ؟ سند اور بنیاد بتاؤ ؟ بنیاد کے بغیر کوئی چیز معتبر نہیں ہوتی تو بنیاد نہیں بتا سکتے ! !
امریکہ کے صدر سے پوچھیں جو اسلام سے خارج ہے کافر ہے کہ تم جو صدر ہو یہ تم کس بنیاد پر ہو اس کی سند بیان کرو ؟ وہ کہے گا سند کوئی نہیں ہے ! ! روسی صدر پیوٹن سے پوچھیں ، چین کے صدر سے پوچھیں اس کی دلیل بتاؤ کہ تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا ؟ سند لاؤ تو نہیں بتا سکتے ! !
لیکن اگر آپ علماء کرام سے پوچھیں کہ آپ جو جہاد جہاد کرتے رہتے ہیں کیا سند ہے ؟ ؟
تو ایک طالب علم اٹھ کر پوری سند رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم تک بیان کر دے گا ! ! آپ جو سیاست کرتے ہیں اور سیاست میں آتے رہتے ہیں کبھی آپ حزب اقتدار میں آجاتے ہیں کبھی آپ اپوزیشن میں آجاتے ہیں (کبھی آپ ایوان سے واک آئوٹ کر جاتے ہیں اور پھرآپ دوبارہ آکر بیٹھ جاتے ہیں )کیا سند ہے کیا دلیل ہے ؟ تو وہ پوری دلیل بیان کریں گے ! ١ تو مسلمانوں کی موجودہ قیادتیں جن کو ہم
١ واک آئوٹ کرجانا پھر دوبارہ آبھی جانا اس عمل کی دلیل قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے ترجمہ کو بغور ملاحطہ فرمائیں
( وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَن اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِھَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ
حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعًا ) ( النساء : ١٤٠ )
'' اور حکم اتار چکا تم پر قرآن میں کہ (ایوانوں کی مجالس وغیرہ میں ) جب سنو اللہ کی آیتوں پر انکار ہوتے اور ہنسی ہوتے
تو نہ بیٹھو ان کے ساتھ یہاں تک کہ(اس موضوع کو چھوڑ کر) مشغول ہوں کسی دوسری بات میں ، نہیں تو تم بھی ان ہی(اہلِ ایوانوں ) جیسے(منافق) ہو گے اللہ اکٹھا کرے گا منافقوں اور کافروں کو دوزخ میں ایک جگہ ''
بھٹو صاحب کہتے ہیں ، مسلم لیگ کے قائدین کا نام لیتے ہیں ، ایم کیو ایم کا نام لیتے ہیں ان کا جواب بھی سکوت میں ہوگا ، ایسے ہی جیسے پیوٹن کا جواب سکوت میں ہے ،امریکی صدر کا جواب سکوت میں ہے، جاپانیوں کا جواب سکوت میں ہے ! ! کتنا بڑا سانحہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے پاس کوئی سند نہیں ہے پیپلزپارٹی کو ووٹ دینے والے کے پاس سند کوئی نہیں اس کی مالی مدد کرنے والے کے پاس اس کام کی سند کوئی نہیں ، مسلم لیگ کی مدد کرنے والے کے پاس بھی اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے ! !
جرنیلوں سے پوچھو کہ تم جرنیل کیوں بن گئے ، تم کرنل کیوں بن گئے، بریگیڈئیر کیوں بن گئے ؟ سند بتاؤ ،کوئی سند نہیں اور امریکی جرنیل سے پوچھ لیں چین کے جرنیل سے پوچھیں کوئی سند ہے ؟ بس اتنا کہے گا بس مجھے پسند تھا میرا شوق تھا میرا رجحان فوج کی طرف تھا میرا رجحان فضائیہ کی طرف تھا میرا رجحان بحریہ کی طرف تھا میں ادھر آگیا ! جو چیزیں اس نے کالج اسکول میں پڑھی ہیں یونیورسٹی میں پڑھی ہیں ان کی بھی نہیں ہے سند !
تو اس کا مطلب ہے کہ'' الف'' سے لے کر'' ے'' تک یہ دین مستند ہے ! اور اُن دینوں کی'' الف'' سے لے کر'' ے'' تک کوئی تختی ہی نہیں ہے تو سند کیسے ہوگی ! ؟ بنیادی تختی جو'' الف'' سے شروع ہوتی ہے ''ے ''پر ختم ہوتی ہے وہی نہیں ہے ! تو ہم نے یہ سوچنا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
تو اللہ نے ہمیں اتنا مضبوط بنایا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کی سند موجود ہے ! الٹے ہاتھ سے کھانا کیوں نہیں کھاتے ؟ آپ کہیں میں حدیث اٹھا کر لے آؤں گا ڈھونڈ کر لے آؤں گا الٹے ہاتھ سے کھاؤ ! اگر آپ ساری زندگی صرف کر دیں ایک حدیث نہیں لاسکتے ہیں جس میں آئے کہ الٹے ہاتھ سے کھانا کھالو ! ! تو نہ کھانے کی بھی دلیل ہے اور کھانے کی بھی دلیل ہے ! نہ جانے کی بھی دلیل ہے اور جانے کی بھی دلیل ہے ! تم اپوزیشن بن گئے ہوتو اٹھ کر کیوں آجاتے ہو بائیکاٹ کیوں کرتے ہو ؟ تو اس کی بھی دلیل ہے (اسلام میں ) ! لیکن وہی دلیل اگر آپ باقی پارٹیوں سے مانگیں کہ تم نے بائیکاٹ کیوں کیا ؟ کوئی دلیل نہیں ہے ان کے پاس ! مگر قرآن میں اس کی بھی دلیل ہے (جیسا کہ گزری)
تو اتنا مستحکم دین کہ سیاست کی بھی دلیل ہے ، تجارت کی بھی دلیل ہے ، گھریلو زندگی کی بھی دلیل ہے ، گھر سے باہر کی زندگی کی بھی دلیل ہے ، اور یہ دلیل جو آپ کے سامنے پڑھی ہے (بخاری شریف سے) چالیس سے زیادہ اسماء گرامی اساتذہ کے بیان ہوئے ہیں یہاں سے لے کر نبی علیہ السلام تک اور سب کے آخری استاد کون ہیں ؟ حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم آخری استاد اورنبی علیہ السلام کے استاد کون ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ! توجس کے استاد اللہ میاں ہوں وہ علم اللہ سے لے رکھا ہو اس نے اور جن کا استاد اللہ نہیں ہے، کون ہے ؟ اس کا انہیں بھی نہیں پتا کیوں کہ وہ ہا ہا ہا کہیں گے دلیل نہیں ہے ١
تو آپ کو اللہ نے بہت بڑے دین سے جوڑ دیا یہ مضبوط اور مستحکم چیز سوائے دینی مدارس کے کہیں بھی کائنات میں آپ کو نہیں ملے گی کیونکہ جن عالمی لیڈروں کے میں نے نام لیے ہیں وہ کالج یونیورسٹیوں سے پڑھے ہوئے ہیں لیکن کیا پڑھا ہے ؟ بے بنیاد ہر چیز بے بنیاد ان کی سیاست بے بنیاد ان کی جنگ بے بنیاد ! امریکہ نے ویتنام پر بم کیوں مارا کوئی دلیل ؟ کوئی دلیل نہیں ہے ویتنامیوں سے پوچھو تم امریکہ سے کیوں لڑے کوئی دلیل ؟ بس اپنی مقامی کچھ وجوہات بتائیں گے علاقائی بتا دیں گے زیادہ سے زیادہ عالمی کوئی چیز بتا دیں گے اپنے ہی دور کی اور اس کے بعد ختم ! مگر آپ کے پاس دلیل ہے !
مثال سے وضاحت :
نبی علیہ الصلوٰة والسلام کے پاس ایک صاحب آئے وہ کافر تھے لیکن مسلمانوں کے اخلاق اور اسلام کی برتری دیکھ کر متاثر تھے ، آپ کی جہاد کے لیے تیاری تھی وہ آئے پوری طرح وردی پہن کر زِرہ بند ہوکر اور نبی علیہ السلام سے کہنے لگے میں آپ کے ساتھ مل کر کافر وں سے لڑوں گا ! ! کافر آکر کہتا ہے کیا میں لڑوں یا اسلام لاؤں ؟ ؟
١ دنیا میں بھی دلیل نہیں ہے اور آخرت میں کچھ بات نہ بن پائے گی احادیث ِ مبارکہ میں منافقین اور کافر کی بے بسی اور لاچاری کا متعدد جگہ ذکر آیا ہے اس بات سے ان ہی احادیث کی طرف اشارہ ہے ملاحظہ ہو :
مشکوة المصابیح باب اثبات عذاب القبر ص ٢٤ رقم الحدیث ١٣١ و فصل ثالث باب ما یقال عند من حضرہ الموت ص ١٤٢ رقم الحدیث ١٦٣٠
نبی علیہ السلام نے فرمایا اَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ پہلے اسلام لا پھر ہمارے ساتھ صف میں مل کر دشمن سے لڑ ، تاکہ اس لڑنے کی سند اور بنیاد تجھے مل جائے ! ورنہ تیری لڑائی بے بنیاد ہوگی ! یہ ایسی ہی بے بنیاد لڑائی ہو گی جیسی (ہمارے مد مقابل)کافر ہم سے لڑ رہے ہیں ! تو تو اور وہ برابر ہوں گے( حالانکہ تو ہماری طرف سے لڑ رہا ہوگا ) ! ! !
اسلام میں دہشت گردی کا خاتمہ :
دہشت گردی انتہا پسندی کا دروازہ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے بند کر دیا کہ نہیں اسلام میں صرف مار کٹائی برائے مار کٹائی نہیں ہے ! تلوار چلانا برائے تلوار چلانا نہیں ہے ! بلکہ کس لیے ہے ( لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا ) تاکہ اللہ کا دین سر بلند ہو جائے یہ بنیاد اور یہ مقصد بتایا ! ! !
مدرسہ بمقابلہ کالج :
آپ جو اپنے گھروں سے آئے ہیں یہاں ان بچوں کے رشتے دار عزیزواقارب اور جو رشتہ دار نہیں تعلق دار ہیں وہ بھی آئے ہیں آپ اس کی بھی سند بتا سکتے ہیں ان سے پوچھ کر اور یہی سند چالیس افراد کی مل جائے گی کہ میرے پاس یہ دلیل ہے اس آنے کی اتنی چھوٹی سی چیز کی بھی دلیل موجود ہے ! !
یہی تقریب اگر یونیورسٹی میں ہو آپ کے کسی بچے کی وہاں تقریب ہو رہی ہو آپ جائیں پھر پوچھے آپ سے کوئی آپ کیوں آئے ؟ آپ کہیں گے میرا بیٹا پڑھ کر فارغ ہوا ہے بس مجھے اس کی خوشی ہے ! بھائی کیا پڑھا جو پڑھا اس کی سند بتاؤ ؟ ! سند نہیں بتا سکتے کوئی ! ! یہیں سے اٹھی ہے وہ چیز یہیں دفن ہو گئی اسی وقت مر گئی تواس کی سند کیسے بتائیں گے ! !
آپ کپڑے پہن کر کیوں آئے ہوئے ہیں دلیل ہے آپ کے پاس اسی طرح سند کے ساتھ ! آپ بغیر لباس کے کیوں نہیں آئے ؟ دلیل ہے آپ کے پاس ! کیونکہ کوئی ایسی روایت نہیں ملتی اسلام میں ! ! لیکن اگر اُن سے کوئی دلیل پوچھو تو کوئی دلیل نہیں ہے اس کی !
گھریلو قائد :
تو آپ خوش نصیب ہیں یہ پڑھنے والے بھی ان کو پڑھانے والے ، ان کے ماں باپ اور ان کے سرپرست بھی اور وہ خاندان اور وہ کنبہ جس کے یہ بچے اور افراد ہیں کہ ان کے گھروں میں ان کے خاندانوں میں اللہ نے ایک قائد اور ایک لیڈر پید اکر دیا جس سطح کا بھی ہے وہ لیڈر ہے اس کے پیچھے چلنا ہے اسے پیچھے نہیں چلانا تم نے ! اگر تم چلانا چاہو گے تو وہ ان شاء اللہ تمہارے پیچھے نہیں چلے گا تمہیں اس کے پیچھے چلنا ہے یا تو پڑھاتے ہی نہ اس کو یہ ، جب پڑھایا تو اب تمہیں اس کے پیچھے چلنا پڑے گا ! ! یہ قائد ہے اس نے اس مدرسہ میں طب بھی سیکھی ہے اسی قرآن و حدیث سے ! اس نے گھر کے معاملات بھی سیکھے ہیں ! اس نے باپ کے حقوق بھی سیکھے ہیں ! اس نے شوہر کی ذمہ داریاں بھی سیکھی ہیں ! اس نے عورتوں کی اور بیویوں کی ذمہ داریاں بھی سیکھی ہیں ! اس نے جہاد بھی سیکھا ہے ! اس نے یہ سیکھا کہ کب تلوار نکالنی ہے اور کب نہیں نکالنی ! کب تلوار چلانا عدل اور انصاف ہے اور کب تلوار چلانا زیادتی اور ظلم ہے یہ سب پتا ہے ! !
امریکی فوجی سے پوچھیں تلوار چلانا کب جائز ہے اور کب ناجائز ،نہیں پتا ! وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہے گا میرے ملک کو جب کوئی خطرہ محسوس ہو تب، تو بھائی چلو ملک کو خطرہ ہو یہ کس سے پڑھا سبق تم نے ؟ اس کی سند بتا دو وہ اس بات کی سند نہیں بتا سکتا ! وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہے گا کہ میرے افسر نے یہ بتایا ہے فوج میں ہمیں یہ تربیت دی گئی ہے !
فوجی لیڈر :
لیکن اگر (جامعات سے اس) طالب علم کو لے جائیں آپ فوج میں تو وہ فوج میں یہ سکھانا شروع کر دے گا کہ تمہارے اندر یہاں یہ کمی ہے اس کو دور کرو ! اپنی نیت صحیح کرو ایسے کرو ایسے کرو ایسے کرو تو یہ قائد ہے یہ لیڈر ہے ! ! (اگرچہ)ہر ایک میں فرق ہوتا ہے صلاحیت کا ، کوئی زیادہ لائق بن گیا کوئی کم ،کسی سے اللہ نے زیادہ کام لینے کا ارادہ کر لیا کسی سے کم کا ! ! وہ فرق تو میں اور آپ ختم نہیں کر سکتے وہ رہے گا لیکن رہیں گے لیڈر کوئی چھوٹے درجے کا کوئی بڑے درجے کا ان کی توقیر اور اکرام آپ سب کا فرض ہے کہ ان کی توقیر کریں اکرام کریں تمام چیزوں میں ! !
دیگر پارٹیاں :
پیپلزپارٹی میں ہماری خیر نہیں ہے ! مسلم لیگ میں ہماری خیر نہیں ہے ! جرنیلوں میں بھی ! مارشل لائوں میں بھی ہماری خیر نہیں ہے ! ہم تو ڈوبتے جا رہے ہیں دن بدن، اگر خیر ہے تو آپ کو علماء کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینا ہوگا میری بات کی تائید کرتے ہیں تو ہاتھ اٹھائیے سب ہاتھ اٹھائیں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور ہماری مدد فرمائے !
مقدس سیاست اور جہاد :
تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور آپ کو جس دین سے وابستہ کیا وہ مقدس ہے ! اسلام کی سیاست بھی مقدس ہے اسلام کی لڑائی بھی مقدس ہے اس کا نام جہاد ہے ! اور وہ تلوار سے ہو تو بھی مقدس ہے وہ بھی جہاد ہے ! وہ زبان سے ہو تو بھی مقدس ہے وہ بھی جہاد ہے ! ساری چیزیں جہاد ہیں ! ! گھر کے اندر جھاڑو دے رہا ہے تو یہ عبادت بن گئی کیوں ؟ سند موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر کے کام کاج میں حصہ لیتے تھے ! تو جھاڑپونچھ بھی اس میں آگیا سب چیزیں آگئیں ! یہ بلب اتار کر دوسرا لگا دیا یہ فیوز ہوگیا کیا سند ہے اس کی ؟ یہ لیڈر جو آپ کا بنا ہے یہ لیڈر آپ کو اس کی سند بتائے گا لیکن آپ نہیں بتا سکتے تھے سند اس کی ،کوئی بھی نہیں بتا سکتا تھا ! تو یہ بہت مستحکم دین ہے اتنا بڑا کہ جس کی عظمت پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے اور اللہ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے لہٰذا آپ نے مستقبل میں ہر معاملے میں اپنا قائد علماء کو بنانا ہے میری یہ بات سمجھ میں آرہی ہے یا نہیں آرہی ہے ؟ ؟
(اچھا تو بتلائیے) آپ سب مسلمان ہیں یا نہیں ؟ دین ہمارا ہے یا نہیں ؟ تو دین سے جو دلیل آئے گی وہ آپ کو قبول کرنا واجب ہے اس لیے کہ میں اور آپ مسلمان ہیں اور اس کا انکار کرنا گناہ کبیرہ ہے ناجائز ہے ! ! تو آپ اپنے تمام معاملات اجتماعی ہوں ،انفرادی ہوں ، سیاسی ہوں ، غیر سیاسی ہوں ،تجارتی ہوں ، آپ علماء کے سپرد کریں تو خیر ہے ورنہ خیر نہیں ہوگی ہماری ! !
آپ سب کو معلوم ہے بارش کتنے عرصہ سے نہیں ہورہی اوربارش کی کتنی ضرورت ہے یہ ہم شہری لوگوں کو تواتنا نہیں پتا ہوتا دیہاتیوں کو زیادہ پتا ہوتا ہے کسانوں کو جنہوں نے محنت کی ہے لیکن وہ بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کر رہے جنہوں نے محنت کی ہے ! ایک دوسرے کو رونا رو رہے ہیں مگر نماز نہیں پڑھیں گے ناپاک ہی رہیں گے کھیتوں میں جائیں گے ضرورت کے لیے بغیر استنجاء کیے اٹھ کر آجائیں گے ! ناپاک پھریں گے صبح سے شام تک ! مگر اللہ کی طرف رجوع نہیں ہے !
زمینی حقائق :
کوئی زیادہ نصیحتیں آپ کو نہیں کرتا آپ کو زمینی حقائق بتاتا ہوں ، بارشیں یہاں نہیں ہورہیں یہی حال افغانستان کا ہے ! لیکن وہاں کس کی حکومت ہے (بقول لوگوں کے)بچارے مولویوں کی ، عام طور پر لوگ تو یوں کہتے ہیں کہ مولوی بچارہ بھوکا ہوتا ہے ! مگر مولوی الحمدللہ بھوکا کبھی نہیں رہا، مولوی کے صدقہ ( اورطفیل ) میں کئی کئی کنبے پلتے ہیں اللہ کے فضل سے ! یہ ہم دیکھتے ہیں اور لوگ بھی دیکھتے ہیں جانتے ہیں ! اب (افغانستان میں )ان مولویوں کے ہاتھ میں حکومت ہے وہاں بھی بارش نہیں ہے ہم سے بہت کم غلہ وہاں پیدا ہوتا ہے یہ پنجاب ہے '' پنج آب '' کا مطلب پتا ہے ؟ پنجابیوں کو بھی نہیں پتا ہوگا '' پنج آب'' پانچ پانی پانچ دریا ،بہت کم ایسے خطے ہیں دنیا میں ! ١ تو یہ پنچ آب ہے مگر یہاں مشکل پڑی ہوئی ہے ! لیکن اللہ کی طرف رجوع نہیں ہے !
افغانستان میں یہ چیز نہیں ہے لیکن کل ہفتہ تھا آج کیا ہے اتوار ہے کل حکومت نے باقاعدہ اعلان کر کے اللہ میاں کا دروازہ کھٹکھٹایا ، پوری قوم نکل کر وہاں چوکھٹ کو کھٹکھٹایا اور صلوٰة استسقاء ادا کی اتنا بڑا مجمع ہے جیسے کہ حج کا مجمع ہوتا ہے سارا افغانستان نکل آیا ،کل اللہ کے دربار میں سجدہ کیا اس کا کنڈا کھٹکھٹایا آج پورے افغانستان میں بادل چھا چکے ہیں اور جہاں پر برف پڑتی ہے وہاں برف باری شروع ہوگئی اور آج باقی افغانستان میں باران رحمت نازل ہونا شروع ہوگئی ہے ! !
١ دریائے جہلم ، دریائے چناب ، دریائے راوی ، دریائے بیاس اور دریائے ستلج
کون اہل ہوا اقتدار کا ؟ مولوی اہل ہے کہ اقتدار پر آئے یا یہ جو بت ہیں دنیا میں ، یہ جو دنیا کے بت ہیں جن کو عوام نے بت بنایا ہوا ہے ، صرف پاکستان میں ہی نہیں عرب میں بھی یہی حال ہے ! عربستان میں بھی شیاطین ہیں یہاں بھی شیاطین ہیں جن کو ہم نے اپنا قائد اور لیڈر بنا لیا ہے ! !
یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے کیونکہ جن سے اللہ ناراض ہے ان کو ہم نے اپنا قبلہ اور کعبہ بنا رکھا ہے انہیں بت بنا رکھا ہے ! لہٰذا ہمارا ملک خطرات میں اس وقت گھرا ہوا ہے اس لیے سوائے اللہ کی ذات سے رجوع کے کوئی صورت کام نہیں آئے گی اور اللہ کی ذات سے رجوع علماء سے جڑنے سے شروع ہوگا ! ان شاء اللہ العزیز آپ نے تمام معاملات میں جڑنا ہے اور اب اپنے طور پرجہاں تک ہو سکے جا کر اپنے علاقوں میں صلوٰة استسقاء بھی پڑھیں ! !
اہلِ شام و فلسطین کا حق :
اسی طرح فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ آپ کو سب کو پتا ہے ہم پر ان کا حق ہے یا نہیں ہے بتائیں بھائی، جو کہتے ہیں نہیں ہے ان کا ہم پر کوئی حق تو وہ ہاتھ اٹھائے ! ! ایک بھی نہیں ہاتھ اٹھائے گا کیونکہ سب الحمدللہ مسلمان ہیں ! آپ اس جہاد میں حصہ لینا چاہتے ہیں ثواب چاہتے ہیں یا نہیں چاہتے ، چاہتے ہیں تو آپ اپنے علاقوں میں قنوت نازلہ شروع کیجیے ! ہمارے ہاں جس دن سے یہ معرکہ شروع ہوا ہے فجر کی نماز میں بھی الحمدللہ قنوت نازلہ ہورہی ہے، مغرب کی نماز میں بھی قنوت نازلہ ہورہی ہے اور جمعہ کی نماز میں بھی قنوت نازلہ ہورہی ہے ! وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ان کا ہمارے پر حق ہے ہم اس جہاد میں حصہ لیں گے اور لے رہے ہیں کتنا ؟ جتنا بس میں ہے کیونکہ ہم بندوق لے کر نہیں جاسکتے ہیں ہمیں روک رکھا ہے رکاوٹیں ہیں تو جو کر سکتے ہیں وہ تو کریں کہ جیب میں سے چار پیسے نکالیں اور ان کے لیے جمع کرائیں اور قنوت نازلہ پڑھ کر دعا کریں دعا جو کریں گے اس میں آپ کا اس جہاد میں حصہ ہو جائے گا ! لہٰذا آپ نے اپنے مسلمان بھائیوں کا خیال رکھنا ہے اللہ تعالیٰ سے مدد چاہنی ہے رجوع الیٰ اللہ کرنا ہے رجوع الیٰ اللہ کے بغیر ہماری خیر نہیں ہے ! !
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
قسط : ٣
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق
مسئلہ فلسطین کی تفہیم کے لیے ایک راہنما مقالہ
( ڈاکٹر محسن محمد صالح اردو استفادہ محمد زکریا خان )
٭٭٭
(٢٠) فلسطین کی اسلامی شناخت مٹانا :
صہیونی ریاست اوّل روز سے اس منصوبے پر عمل پیرا تھی کہ فلسطین کی اسلامی شناخت ختم کردے اور خطے کو یہودی آبادی ، ثقافت اور تمدن میں تبدیل کر دے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ١٩٤٨ء کے مقبوضہ اراضی کا ٩٦ فیصد سرکاری تحویل میں لے لیا گیا یہ وہ علاقے تھے جہاں سے یا تو مقامی آبادی کو ملک بدر کیا گیا تھا یا یہ اوقاف کی زمین تھی جو صدیوں سے اسلامی مقاصد کے لیے وقف چلی آ رہی تھی ، ان علاقوں سے اسلامی شناخت کے تمام نشانات مٹا کر وہاں ١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی کنارے پر ١٩٦یہودی بستیاں بسائی گئیں جو کہ مغربی کنارے کی کل اراضی کا ساٹھ فیصد بنتا ہے۔
غزہ کے علاقے کا تیس فیصد سرکاری تحویل میں لیا گیا اور یہاں چودہ یہودی بستیاں تعمیر کی گئیں عربوں کی شکست کے بعد ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں کی وطن واپسی کا سوال ہی ختم ہو گیا ! مختلف ممالک کے یہودی اب بھر پور اعتماد کے ساتھ اور بڑی تیزی سے فلسطین کی طرف ہجرت کرنے لگے جس کی وجہ سے ١٩٤٩ ء سے لے کر ٢٠٠٠ء تک اٹھائیس لاکھ یہودی فلسطین میں آ کر آباد ہوئے ! !
جنگ میں فتح پانے کے بعد صہیونی ریاست نے طے کیا تھا کہ ٢٠٠٨ء تک صہیونی ریاست کی کل یہودی آبادی تریپن لاکھ تک ہونا چاہیے ! ! پچاس فیصد سے زائد مقامی آبادی کو ملک بدر کر کے ان کی جگہ اتنی بڑی یہودی آبادی اور ان کی بود و باش اور تمدن سے قدیم فلسطین کا مشرقی اور اسلامی حسن ختم ہو کر رہ گیا ! فلسطین کی اراضی پر صہیونی مقبوضہ جات یہودی آباد کاری کا چربہ پیش کرنے لگے ! !
(٢١) بیت المقدس کی اسلامی شناخت مٹانا :
فلسطین کا قدیم تاریخی اور مقدس شہر '' القدس'' صہیونی ریاست کے نزدیک ان اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے جسے یہودی رنگ میں رنگنا ان کے منصوبے میں شامل رہا ہے ! بیت المقدس کے ٨٦ فیصد علاقے کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا، مقبوضہ علاقے میں دو لاکھ اڑتا لیس ہزار فلسطینیوں کے مقابلے میں یہاں چار لاکھ اٹھاون ہزار یہودی آباد کیے گئے ! بیت المقدس کے مشرق میں جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے دو لاکھ بیس ہزار یہودی آباد کیے گئے ! فلسطینیوں کے محلوں سے اس علاقے کو الگ تھلگ رکھنے کے لیے اور وہاں اسلامی تہذیب کی چھاپ چھپانے کے لیے یہودی آبادی والے علاقے کے گردا گرد شہر پناہ تعمیر کردیا گیا ہے ،صہیونی ریاست نے اعلان کررکھا ہے کہ بیت المقدس ہی ان کا ابد الآباد تک دار الحکومت رہے گا ! !
یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پرکنٹرول حاصل کرنے کے ہزار جتن کیے ہیں مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار (دیوار براق) کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے ! اس دیوار کی انتہا تک جتنا رقبہ تھا وہاں کی سب اسلامی تعمیر ختم کردی گئی ہے اور اس اراضی کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیاگیاہے ! اب تک مسجد کے زیر زمین دس کھدائیاں ہوچکی ہیں ، مسجد اقصیٰ کے زیر زمین چار مستقل سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں ! ان کھدائیوں اور سرنگوں کے نتیجہ میں مسجد اقصیٰ کی بنیاد یں کھوکھلی ہوکر رہ گئی ہیں ، خطرہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہے ! ! پچیس صہیونی شدت پسند تنظیمیں ایسی ہیں جو اعلانیہ مسجد اقصیٰ کو ڈھاکر وہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں ، ان تنظیموں کی طرف سے مسجد اقصیٰ پر ١٩٧٦ء سے لے کر ١٩٩٨ء تک ١١٢ سے زائد حملے ہوچکے ہیں ! ان میں سے ٧٢ حملے اوسلوپیکٹ کے بعد ہوئے ہیں مسجد اقصیٰ پر یہودی شدت پسندتنظیموں کی طرف سے کیے گئے حملوں میں سب سے خطرناک ٢١ اگست ١٩٦٩ء کی آتش زدگی کا واقعہ ہے !
(٢٢) مہاجر فلسطینیوں کا دوسرے ممالک کی شہریت لینے سے انکار :
بے وطن کیے گئے فلسطینیوں نے دوسرے ممالک کی شہریت اور مراعات لینے سے صاف انکار کر رکھا ہے وہ اپنے وطن لوٹنے پر ہی اصرار کر تے ہیں ! مغربی ممالک کی طرف سے فلسطینیوں کو فلسطین سے باہر آباد کرنے کے اب تک ٢٤٠ منصوبے سامنے آئے ہیں لیکن ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں نے کسی منصوبے سے اتفاق نہیں کیا ہے ! فلسطینیوں کو ان کے وطن واپس لانے کے لیے اب تک اقوام متحدہ ١١٠ قرار دادیں پاس کرچکی ہے ! دوسری طرف صہیونی ریاست کسی صورت میں ملک بدر کیے گئے فلسطینیوں کو واپسی کی اجازت نہیں دیتی، جہاں تک اقوام عالم کاتعلق ہے تو ان میں سے کوئی ملک بھی فلسطینیوں کی وطن واپسی یقینی بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے ! ٢٠٠٥ء کے اعداد و شمار کے مطابق ٥٤ لاکھ فلسطینی اپنے وطن سے باہر مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں اس کے علاوہ مغربی کنارے سے بے دخل کیے گئے ١٠ لاکھ فلسطینی الگ ہیں ، کل ملاکر یہ تعداد٦٤ لاکھ سے زیادہ بنتی ہے ! مہاجرت کی زندگی گزارنے والی آبادی فلسطین کی آبادی کا ٦٧ فیصد ہے ! فلسطینی مہاجرت کا یہ تناسب دنیا بھرمیں مہاجر بستیوں میں رہنے والی کسی بھی دوسری قوم سے زیادہ ہے ! فلسطینی مہاجرت بیسوی صدی کا سب سے المناک اور تاریخی واقعہ ہے ! !
(٢٣) اقوام متحدہ کا مسئلے کو مہاجرین تک محدود کرنا :
اقوامِ متحدہ میں ١٩٤٩ء اور پھر ١٩٧٤ء میں فلسطینی مہاجرت کے مسئلے پر رائے شماری ہوئی تھی اقوامِ متحدہ کے مشترکہ اجلاس نے واضح اکثریت سے اس بات کو تسلیم کیا کہ فلسطینیوں کو اپنے وطن لوٹنے کا حق حاصل ہے ! اسی طرح فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ کو بھی اقوام متحدہ نے جائز قرار دیا ہے جس میں مسلح مزاحمت بھی شامل ہے اس لیے کہ ایک تو صہیونی ریاست نسل پرستی پر قائم ہے اور جانبدار ہے اور دوسرا یہ کہ ریاست اصل باشندوں کو ان کے وطن لوٹنے کی اجازت نہیں دیتی ہے امریکہ اور اس کے حلیف اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل در آمد نہیں کرنے دیتے ، امریکہ اسرائیل کی حمایت میں ویٹو کا حق استعمال کرنے کی بھی دھمکی دیتا رہتا ہے ! ! !
قارئین کرام اقوام عالم نے جس اصول کو بنیاد مان کر یہودیوں کے لیے وطن کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے فلسطین میں ان کے لیے وطن بھی بنا لیا گیا ہے ہم پوچھنا چاہیں گے کہ کیا وہی اصول (بے گھر) فلسطینیوں پر لاگو کیا جاتا ہے جو طویل عرصے سے نہ صرف بے وطن ہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ انہیں ان کے اصل وطن سے بے دخل کیا گیا ہے ! اقوام عالم کس طرح اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے منافقت کرتی ہیں ؟ مسئلہ فلسطین اس کی سب سے بڑی دلیل ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی ایک سے زیادہ قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے کہ بے وطن فلسطینیوں کو وطن لوٹنے کا حق حاصل ہے اقوام متحدہ نے اسرائیل کو تسلیم کرکے کیسا انصاف کیا ہے جس نے اصلی باشندوں کو بے وطن کر کے ان کی ٧٧ فیصد اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے ! !
(٢٤) استشہادی کار روائیاں :
١٩٦٧ء تا ١٩٧٠ء فلسطینی تاریخ میں فدائی حملوں کا سنہری زمانہ رہا ہے ! اس عرصہ میں تحریک مزاحمت کا میابی کی طرف جارہی تھی لیکن ١٩٧١ء میں اردن نے مزاحمت کاروں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے منع کردیا ! اس کے بعد اگرچہ تحریک مزاحمت ختم نہیں ہوئی بلکہ لبنان کی سرزمین اس مزاحمت کے لیے استعمال ہونے لگی ہے لیکن لبنان کی خانہ جنگی جہاں لبنان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی وہاں تحریک مزاحمت سے فلسطین کو بھی نقصان ہوا ! ١٩٧٥ء تا ١٩٩٠ء کی لبنان کی خانہ جنگی کے علاوہ فلسطینی خیمہ بستیوں پر اسرائیل کی مسلسل بمباری، ١٩٧٨ء میں لبنان کے جنوبی حصے میں اسرائیل کی فوجوں کا گھسنا اور وہاں مزاحمت کی کار روائیوں کے خلاف بندوبست کرنا نیز اسرائیلی فوجوں کا لبنانی سرزمین کے اندر تک چلے جانا یہاں تک کہ ١٩٧٢ء میں بیروت کی سڑکوں پر اسرائیلی فوج کے بوٹوں کی دھمک پڑ رہی تھی اور جب اسرائیل نے بیروت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اپنے مطالبات میں سب سے اہم مطالبہ یہ رکھا کہ لبنان تمام مزاحمت کاروں کو ملک بدر کردے گا ! اسرائیل کے شدیددباؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب ریاستوں میں سے کوئی بھی اپنی سرزمین فلسطینی مزاحمت کاروں کو استعمال کرنے کی جرأ ت نہیں کرتا تھا ! !
(٢٥) غیر مخلص عرب قیادت :
فلسطینی مزاحمت کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ خود اس کے بھائی بند عرب رہے ہیں صہیونیوں کے خلاف مزاحمت کس طرح موثر ہوتی جبکہ مزاحمت کی تو انائی اپنے گھر میں عرب تنظیموں کے ساتھ پورا اترنے میں کھپ رہی تھی سبھی عرب تنظیموں کی خواہش تھی کہ فلسطینی مزاحمت کا کنٹرول انہیں حاصل ہو وہ فلسطینی مزاحمت کے سپوکس مین(ترجمان) کہلائیں اور جب کوئی فیصلہ کن گھڑی آئے تو وہ اصل فریق سے بالا بالا بڑی طاقتوں سے معاملات طے کر آئیں ! !
اکتوبر ١٩٧٣ء کی عرب اسرائیل جنگ کو اس لحاظ سے کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس میں معنوی طور پر مصر اور شام کامیاب ہوئے اور امید تھی کہ فلسطین کی نمائندگی کرنے والے حقیقی کردار سامنے آگئے ہیں جوکہ متحد اور ہم خیال ہیں (مگر ) ١٩٧٤ء ہی میں یہ تاثر زائل ہونا شروع ہوگیا اور جلد ہی متعلقہ عرب ملکوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ شروع کردیا ! ستمبر ١٩٧٨ء میں مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرلیا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کی وجہ سے عرب صہیونی تنازع میں سے ایک اہم اور مضبوط ترین فریق غیرجانبدار ہوگیا ! ! !
١٩٨٠ء تا ١٩٨٨ء عراق ایران جنگ سے بھی تحریک مزاحمت کو نقصان پہنچا، اس طویل جنگ سے نہ صرف دونوں ملک تباہ ہوئے بلکہ عرب ملکوں کے سامنے بھی ایک سے زیادہ سیاسی مسائل کھڑے ہوگئے ، دوسری طرف تحریک مزاحمت فلسطین کی مالی اعانت میں بھی خاطر خواہ کمی ہوگئی ، یہ وہی زمانہ ہے جس میں معدنی تیل کی قیمت آخری سطح تک گر گئی تھی ! ١٩٩٠ء میں عراق کا کویت پر قبضہ بھی تحریک مزاحمت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ اس سے بھی مشرق وسطیٰ کے اندرونی مسائل پیچیدہ ہوگئے پھر سوویٹ یونین کے گرنے سے بھی مغربی بلاک کی بکھری توجہ مخصوص اہداف کی طرف مجتمع ہوگئی ان اسباب کی وجہ سے فلسطینی قیادت بتدریج مسلح کار روائیوں سے دستبردار ہوکر رہ گئی اور ایک ایسے پرامن سیاسی حل پر مجبور پائی گئی جس میں ان کے لیے عمل کا میدان وہی قرار پاتا تھا جہاں ان کے لیے عمل کی کوئی گنجائش چھوڑ ی جارہی تھی ! ! !
خوش قسمتی سے ستر کی دہائی کا نصف آخر فلسطین نوجوانوں میں اسلامی بیداری اور جذبہ جہاد کے ابتدائی مراحل کا زمانہ ثابت ہوا اسی زمانے میں مختلف جہادی تنظیمیں ظاہر ہوئیں جیسے اُسْرَةُ الْجِہَادْ اور ١٩٨٠ء میں حَرْکَةُ الْجِہَادُ الْاِسْلَامِیْ ، اسی طرح تنظیم '' اَلْمُجَاہِدُوْنَ الْفَلَسْطِیْنِیُّوْنَ ''
آخر الذکر تنظیم کی بنیاد ٨٠ کی دہائی کی ابتداء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی تھی ! !
(٢٦) انتفاضة کا آغاز :
دسمبر ١٩٧٨ء اور ستمبر ١٩٩٣ء میں فلسطین کی اپنی سرزمین سے تحریک انتفاضة نے جنم لیا پہلی مرتبہ ایک خالص اسلامی تحریک نے مزاحمت کے عمل میں اپنے داخلی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے جہاد کا آغاز کیا۔ انتفاضة مبارکہ کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ تحریک ''حماس'' نے بھی انتفاضةکے ساتھ تحریک مزاحمت میں شمولیت اختیار کر لی ! انتفاضةنے جلد ہی عرب ریاستوں کے علاوہ بین الاقوامی طور پر توجہ حاصل کرلی اور مسئلہ فلسطین ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی سطح پر نمایاں ہوگیا ! انتفاضة کی مقبولیت سے جو سیاسی فوائد حاصل کیے جاسکتے تھے وہ علاقے کے سیاسی حالات فلسطینی قیادت اور عربی قیادت کی عقلی اٹھان اور دیگر عوامل کی وجہ سے آزادی فلسطین کے پرزور مطالبے کی بجائے معمولی اور جلد بازی میں قبول کیے گئے سیاسی معاہدوں کی نذر ہوگئے جن میں سب سے زیادہ مضر اسرائیل کے ساتھ عرب ریاستوں کا باضابطہ اور بلاواسطہ مذاکرات میں شریک ہونا ثابت ہوا ! ! !
(٢٧) مذاکرات کا دور :
عرب موقف میں کمزوری آنے سے ان قوتوں کو اس بات کے وسیع مواقع حاصل ہو گئے جوصہیونی قیادت سے پرامن مذاکرات کو وسعت دینے کے ایجنڈے پر زور دیتے رہے تھے یہاں تک کہ ١٩٨٨ء میں اقوامِ متحدہ نے اپنی قرارداد نمبر ١٨١ کے ذریعے فلسطین کی تقسیم کا اعلان کردیا ! قرارداد میں فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جس کے ایک حصے پر عرب اور دوسرے پر یہودیوں کا حق تسلیم کیا گیا ! قرار داد میں مسئلہ فلسطین کے اہم ترین مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے مسئلے کی نوعیت محض مہاجر فلسطینیوں کی وطن واپسی تک محدود کی گئی ! !
١٩٩١ء میں پہلی مرتبہ میڈریڈ ١ کے شہر میں عرب ریاستوں نے اسرائیل سے بلا واسطہ پر امن مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کیا۔ میڈریڈ مذاکرات کے دو برسوں بعد تک عرب نمائندے اسرائیل سے کوئی بھی قابل ذکر مطالبہ نہ منواسکے سوائے ان خفیہ مذاکرات کے جو بالآخر اوسلو ٢ معاہدے کی بنیاد بنے ! ستمبر ١٩٩٣ء میں اوسلو معاہدے پر طرفین نے دستخط کردیے۔
(٢٨) مذاکرات میں شکست :
اسولو معاہدے میں عرب قیادت نے اسرائیل کو ایک جائز ملک کے تسلیم کر لیا ! فلسطینی اراضی کے ٧٧ فیصد حصے پر بھی اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا گیا اور یہ کہ تحریک انتفاضہ کالعدم تنظیم ہوگی اور اسرائیل کے خلاف مسلح کارروائی غیر قانونی سمجھی جائے گی ! اسی طرح عرب قیادت پورے فلسطین کی آزادی کے فلسطینی متفقہ مطالبے سے بھی دستبردار ہوگئی اور یہ کہ اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے کسی عمل کو جائز نہیں سمجھا جائے گا اور یہ کہ ہر قسم کے مسائل کا حل پر امن مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا جائے گا !
عرب قیادت نے اوسلو معاہدے پر دستخط کر کے عملاً تحریک آزادی فلسطین اور دوسرے مطالبات کا گلا گھونٹ دیا ! دوسری طرف اسرائیل نے صرف اتنا تسلیم کیا کہ عرب قیادت (الفتح) کو فلسطین کے مسئلے کی قیادت کا حق حاصل ہے اور یہ کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے کے بعض حصوں میں فلسطینی قیادت کو محدود سطح پر آزادی دینے کا پابند ہوگا اور یہ کہ دوسرے اہم نوعیت کے مسائل اگلے پانچ برسوں میں طے کیے جائیں گے۔
(٢٩) اوسلو معاہدہ فلسطینی موقف کا ترجمان نہیں :
اوسلو معاہدے کے خلاف رد عمل نہ صرف فلسطین میں ہوا بلکہ دوسرے عرب ممالک کی سرکردہ شخصیات اور اسلامی قیادتوں نے بھی درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا :
١ میڈریڈ : ہسپانیہ کا ایک رہائشی علاقہ ٢ اوسلو : ناروے کا دارالحکومت
(الف) عالم اسلام کے وہ اہل علم جن کی حیثیت مسلمہ ہے نے فتویٰ جاری کیا کہ صہیونی قیادت کے ساتھ اس کی شرائط پر مذاکرات کرنا ناجائز ہے ! پورے فلسطین کی آزادی کے لیے مقدس جہاد ضروری ہے !
اور یہ کہ مسئلہ فلسطین حق وباطل کا معرکہ ہے جسے نسل درنسل جاری رہنا ہے جب تک اللہ اہل حق کو مکمل نصرت اور کامیابی سے ہمکنار نہیں کردیتا !
اور یہ کہ فلسطین کی اراضی پر کسی بشر کا حق نہیں ہے بلکہ یہ سارا خطہ اللہ کا ہے اور اللہ ہی کے لیے وقف (اوقاف) ہے ! کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ فلسطین کے کسی ایک حصے سے دستبردار ہو !
اگر اس وقت موجودہ نسل حالت ضعف میں ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ یہی حالت برقرار رہے گی ! آنے والی نسل کے حق کو مارنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا جاسکتا !
اور یہ کہ مسئلہ فلسطین تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور عالم اسلام کا کوئی ایک مسلمان بھی اللہ کی سرزمین سے دستبردار ہونے کا وبال نہیں اٹھاسکتا خواہ فتح وکامرانی پر کتنا ہی عرصہ کیوں نہ بیت جائے ! !
(ب) اوسلو معاہدے پر جس قیادت نے دستخط کیے ہیں وہ اپنے فعل کے آپ ذمہ دار ہیں ! قیادت نے عوام سے کوئی رائے طلب نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ عوامی نمائندے تھے ! جن دنوں معاہدے کی بات چل رہی تھی ان ہی دنوں فلسطین میں اس کی مخالفت ہورہی تھی خواہ اسلامی تنظیمیں ہوں یا وطن پرست تنظیمیں ہوں یا سیاسی تنظیمیں سب کے ہاں مخالفت پائی جاتی تھی یہاں تک کہ خود تنظیم'' الفتح''میں بھی مخالفت پائی جاتی تھی !
(ج) اس معاہدے میں طاقتور فریق نے اپنے مطالبات ایک کمزور فریق سے قوت کے زور پر منوائے ہیں اوسلو پیکٹ میں نہایت ہی اہم اور حساس مسائل کے حل سے صرف نظر کیا گیا ہے جن میں اہم ترین یہ ہیں
(١) القدس (بیت المقدس) کا مستقبل کیا ہوگا ؟ (٢) مہاجرین کا مستقبل کیا ہوگا ؟
(٣) مغربی کنارے اور غزہ کے علاقہ میں اسرائیلی مقبوضہ جات میں یہودی بستیوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟
(٤) مستقبل میں فلسطینی قیادت کی کیا سیاسی حیثیت ہوگی وہ کس قسم کے تصرفات کر سکتی ہے اور اس کی حدود وقیود کیا ہیں ؟
٢٠٠٠ء تک مذکورہ بالا اہم مسائل میں سے کسی کا حل بھی سامنے نہیں آیا ، دوسری طرف صہیونی ریاست بدستور خطے کو یہودی طرز میں ڈھالتی چلی جارہی ہے ! اسرائیل اپنے تصرفات میں ان معاہدوں کا بھی احترام نہیں کرتا جو اس نے خود مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر طے کیے ہیں ! !
صہیونی قیادت نے مغربی کنارے کا صرف ١٨ فیصد اور غزہ کا ٦٠ فیصد علاقہ فلسطین کے سپرد کیا ہے، اس طرح پورے فلسطین کا صرف ٧٢ء ٤ فیصد علاقہ فلسطینی قیادت کے پاس آیا ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ علاقے کا نظم ونسق (امن عامہ) پر دونوں ملکوں کا مشترکہ حق ہوگا ! جو علاقے فلسطینی قیادت کو دستوری طور پر دیے گئے ہیں ان میں سے عملاً مغربی کنارے کے ٥٨ فیصد پر اور غزہ کے ٤٠ فیصد علاقے پر صہیونی قبضہ ہے ! !
اوسلو معاہدے میں صہیونی ریاست جن علاقوں سے دستبردار ہوکر انہیں فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے پر آمادہ ہوئی تو عالمی امن قائم کرنے والوں کے اصرار پرصہیونی قیادت نے اس لیے اتفاق کر لیا تھا کیونکہ اس سے اسرائیل کی فلسطینی کثیر آبادی والے علاقے کی انتظامی ذمہ داریوں سے جان چھوٹتی تھی ! نیز شہری بندوبست پر جو کثیر سرمایہ لگتا اس سے بھی وہ بچ گیا ! فلسطینی کثیر آبادی والے محلوں کے قریب صہیونی بستیاں شہریوں کے حملوں سے غیر محفوظ تھیں ! یوں بھی غزہ میں گنجان فلسطینی آبادی کی وجہ سے اسرائیل یہاں سے نکلنے کا بہانہ چاہتا تھا ! اوسلو معاہدے سے پہلے اسرائیل غزہ کے مقبوضہ جات مصر کے زیر انتظام دینے پر آمادہ تھا ،مصر نے خود ہی اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کردیا تھا ! یہ علاقے فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کر کے دراصل صہیونی ریاست نے اپنی سلامتی کو ہی محفوظ بنایا تھا نہ کہ یہ عرب قیادت کی کوئی سیاسی کامیابی تھی۔
اوسلو معاہدے میں فلسطینی اتھارٹی کے اختیارات نہایت محدود ہیں ! نیزصہیونی استعمار کی نگرانی میں ہی ان پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے ! اس کے علاوہ صہیونی ریاست کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی فیصلے کو یا قانون کو ویٹو کے ذریعے بے اثر کر سکتی ہے ! ! !
اوسلو معاہدے کی روسے فلسطینی قیادت مستقل فوج نہیں رہ سکتی مزید برآں صہیونی ریاست کی باضابطہ اجازت کے بغیر اسلحے کا بھی لین دین نہیں کر سکتی ! !
فلسطینی اتھارٹی کے فرائض میں یہ شامل ہوگا کہ وہ صہیونی ریاست کے خلاف ہر قسم کی مسلح کارروائی کا سدباب کرے گی ! اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی نے مزاحمت کاروں میں سے بعض مجاہدین گرفتار کیے تاکہ خطے میں امن کے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے (اوسلو معاہدہ کرنے والی) فلسطینی قیادت اپنی سنجیدگی اور فرض شناسی ثابت کرسکے ! !
( صہیونی سلامتی والی اس شق کی تکمیل کے لیے) مسلح حملوں کے سدباب کے لیے نو (خفیہ) محکمے تشکیل دیے گئے ! ان خفیہ محکموں کی شاہانہ تنخواہوں کا بوجھ فلسطینی عوام پر ڈالا گیا جبکہ معاشی ترقی، صحت اور تعلیم کے شعبے اس بات کے زیادہ مستحق تھے کہ ان مدوں میں ٹیکس کی آمدنی صرف کی جاتی، فلسطینی اتھارٹی کے خفیہ اداروں نے اپنی کار کردگی دکھانے کے لیے اختیارات کا بے جا استعمال کیا لیکن فلسطینی حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا یہاں تک کہ ستمبر ٢٠٠٠ء میں تحریک انتفاضةکے میدان میں اترنے سے سرکاری اداروں کی سرگرمیاں قدرے اعتدال پر آگئیں ! ! !
اوسلو معاہدے میں سرحدوں کی حفاظت کا حق اسرائیل کو دیا گیا ہے ! فلسطینی اتھارٹی کو سرحدوں کا جائزہ لینا ہو یا سرحدوں سے باہر نکلنا ہو یا کسی کو فلسطینی سرحدوں میں داخل ہونا ہو تو فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے اس کی باضابطہ درخواست کرے گی !
(اوسلو معاہدہ فلسطین کے بنیادی اور حساس ترین مطالبات پر بالکل خاموش ہے) معاہدے میں فلسطینیوں کے مستقبل کا کوئی ذکر نہیں ہے، نہ ان کے الگ خود مختار وطن کا تذکرہ ہے ، متنازع مغربی کنارے پر کس کا حق ہے اس کا معاہدے میں کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی غزہ کے مقبوضہ جات کے بارے میں صراحت کی گئی ہے کہ یہ متنازع علاقہ ہے ! !
اوسلو معاہدے میں چونکہ اسرائیل کے عرب نمائندوں سے (پہلی مرتبہ) بلا واسطہ مذاکرات ہوئے تھے اس لیے اس معاہدے کے بعد ہر عربی حکومت نے اس میں اپنی سلامتی دیکھی کہ وہ دوسری حکومت سے پہلے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کر لے ! اسرائیل نے ہر حکومت سے اس کے ضعف کے بقدر مطالبات منوائے، اپنی مصنوعات کو فروغ دیا، اقتصادی معاہدے کیے اور اسلامی تحریکوں اور قوم پرست تحریکوں کے خلاف مزید قانون سازی کرائی ! !
(٣٠) تحریک انتفاضة کامبارک ظہور :
٢٩ ستمبر ٢٠٠٠ء میں تحریک انتفاضة نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو ثابت کیا کہ فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ہے ! تحریک انتفاضة بہت جلد نہ صرف فلسطینی عوام کی ہر دل عزیز تحریک بن گئی بلکہ عرب ممالک کے ستاتھ ساتھ دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی انتفاضہ کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی !
تحریک انتفاضة کے سرگرم عمل ہونے سے فلسطینی فراموش شدہ مسئلہ دوبارہ زندگی ہوگیا ! انتفاضہ نے اصل صہیونی عزائم سے پردہ ہٹایا اور صہیونی ریاست کی طرف سے امن کی اپیل کا پول کھولا تحریک انتفاضہ نے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں جس دجل اور فریب سے کام لیا گیا تھا اسے نمایاں کیا اور ثابت کیا کہ ان معاہدوں میں فلسطینیوں کے جائز حقوق سلب کیے گئے ہیں ! !
تحریک انتفاضة کے سرگرم ہوتے ہی فلسطینی عوام پر اسرائیلی غنڈہ گردی کا سیلاب آگیا ! فلسطینی نوجوانوں سے جیلیں بھر گئیں اور حق دفاع کو بنیاد بنا کر اسرائیل نے فلسطین کی بیشتر ارضی پر قبضہ کر لیا ! صرف پانچ ہی برسوں میں فلسطینی شہداء کی تعداد ٤١٦٠ تک پہنچ گئی جبکہ پینتالیس ہزار فلسطینی اسرائیلی بمباری سے زخمی ہوئے ! برسر روزگار فلسطینیوں میں سے ٥٨ فیصد بے روزگار کردیے گئے ! اسرائیل کے اس شدید ظلم کے باوجود تحریک انتفاضہ جہاد اور شجاعت اور شہادتوں سے تحریک کو لازوال کرتی چلی جارہی ہے !
تحریک انتفاضة کو فلسطین کی سبھی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے، فلسطین کی طویل مزاحمت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتفاضة کی شکل میں صہیونی ریاست کو ایک متحدہ قوت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ! انتفاضہ کی جہادی اور استشہادی کارروائیوں سے ١٠٦٠ صہیونی ہلاک ہوئے ہیں ، ٦٢٥٠ سے زیادہ صہیونی زخمی ہوئے ہیں ! !
صہیونی ریاست پر امن معاہدوں سے ہی فلسطینی اراضی اور ان کے حقوق کی مالک بنتی جارہی تھی انتفاضة نے جہاد کا باب کھول کر مذاکرات کے ذریعے فلسطینیوں کی فروخت کا سلسلہ کاٹ کر رکھ دیا ہے ! صہیونی ریاست عربوں کے ساتھ بلا واسطہ مذاکرات کے بعد تجارتی لین دین کے منصوبے بنارہی تھی انتفاضة کے جہاد سے اب اسے پہلے اپنی حفاظت کرنا ہے ! مشرق وسطی میں اسرائیل کی معاشی ترقی کا خواب ادھورا رہ گیا ہے اقتصادی طور پر اسرائیل کا سخت نقصان ہورہا ہے ، سیاحت سے جو زرکثیر حاصل ہوتا تھا وہ ختم ہوگیا ہے ! انتفاضة کے بعد بہت سے یہودیوں نے خوف کے مارے اسرائیل سے نقل مکانی کی ہے ! اسرائیل کی سیادت دوستونوں پر قائم تھی !
اسرائیل (معاہدوں کے ذریعے فلسطینی حملہ آوروں سے) محفوظ ہو
اور دوسرا اسرائیل اپنی مصنوعات کو ترقی دے کر اقتصادی اجارہ داری قائم کرے الحمد للہ تحریک انتفاضة نے اسرائیلی سیادت کے دونوں ستون ہلا کر رکھ دیے ہیں ! انتفاضة کی قوت سے اسرائیل مجبور ہوگیا کہ وہ غزہ کے مقبوضہ جات سے نکل جائے یہاں یہودی آباد کاری کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے !
(جاری ہے)
بقیہ : تربیت ِ اولاد
٭٭٭
اسی طرح ماماؤں (نوکرانیوں ) کو بھی نماز کی تاکید کرنی چاہیے چونکہ وہ تمہار ی ماتحت ہیں اگر تم ان کو دھمکاو ٔگی ضرور اثر ہوگا اور اس میں سستی کرنے سے تم سے بھی مواخذہ ہوگا کہ تم نے قدرت کے ہوتے ہوئے کیوں سستی کی بلکہ جس نوکرانی کومقرر کرو اس سے یہ شرط کر لیا کرو کہ تم کو پانچوں وقت کی نماز پڑھنا ہوگی ! جس گھر میں ایک شخص بھی بے نمازی ہوتا ہے اس گھر میں نحوست برستی ہے ! عورتوں کو اس طرف بالکل توجہ نہیں ! (الکمال فی الدین النسائ)
(جاری ہے)
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٩ مئی بروز جمعرات صوبائی امیر کے پی کے حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب کی دعوت پر امیر پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب پشاور جلسہ میں شرکت کی غرض سے صبح نو بجے براستہ موٹروے پشاور روانہ ہوئے، تقریباً ساڑھے تین بجے مفتی محمود مرکز پشاور پہنچے جہاں پر صوبائی امیرمولانا عطاء الرحمن صاحب نے شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب کو خوش آمدید کہا چونکہ قائدجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم مفتی محمود مرکز میں پہلے سے ہی قیام فرما تھے اس لیے امیر پنجاب قائد ِ جمعیت سے ملاقات کے لیے ان کے کمرے میں تشریف لے گئے قائد جمعیة نے امیرِ پنجاب کی مفتی محمود مرکز میں تشریف آوری پرانتہائی مسرت کا اظہار فرمایا ، قائد ِجمعیة اور امیرِ پنجاب کے درمیان ملکی اور بین الاقوامی امور پر کافی دیر تبادلہ خیال ہوتا رہا !
امیر پنجاب شہداء باجوڑ کی تعزیت کے لیے باجوڑ ایجنسی جانے کا ارادہ کیے ہوئے تھے کیونکہ شہداء باجوڑ کے لواحقین سے کچھ عرصہ پہلے وعدہ کر چکے تھے کہ ان شاء اللہ ہم ضرور آئیں گے اس لیے امیر پنجاب نے قائد ِجمعیة اور حاضرین ِمجلس سے اجازت چاہی ! !
بعد ازاں امیرِ پنجاب رات کے قیام کے لیے پشاور سے سخاکوٹ کے لیے روانہ ہوئے ،راستے میں عمر زئی قاضی محمد طیب صاحب کے گھر کچھ دیر کے لیے تشریف لے گئے قاضی صاحب نے امیرِ پنجاب کی ان کے گھر تشریف آوری پر انتہائی خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا کیونکہ قاضی خاندان قطب عالم حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب کے پرانے محبین میں سے تھے ! رات دس بجے سخاکوٹ پہنچے۔
اگلی صبح سوا بارہ بجے امیرِ پنجاب سخاکوٹ سے باجوڑ ایجنسی کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں امیرِ پنجاب اسیرِ مالٹا حضرت مولانا عزیز گل صاحب رحمة اللہ علیہ کے مزار پر تشریف لے گئے مزار مبارک پر فاتحہ خوانی اور دعائے خیر فرمائی۔
سخاکوٹ بازار میں جامعہ کے فاضل مولانا سعید صاحب کے اصرار پر دعائے خیر کے لیے ان کی دکان پر تشریف لے گئے اور عصر کے قریب باجوڑ پہنچے جہاں جمعیة علماء اسلام کے ضلعی سیکرٹری اطلاعات حضرت مولانا نظام الدین صاحب نے امیرِپنجاب کا پرتپاک استقبال کیا امیر پنجاب نے شہداء باجوڑ کے لواحقین سے تعزیت کی اور شہداء کے لیے دعائے خیر فرمائی، بعد ازاں حضرت صاحب نے مولانا نظام الدین صاحب اور حاضرین مجلس سے اجازت چاہی اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے ، رات ایک بجے بخیروعافیت خانقاہ حامدیہ واپسی ہوئی والحمدللہ !
٦ مئی بروز پیر بعد نماز ظہر امیرِپنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب جمعیة علماء اسلام کے نائب امیر حضرت مولانا سیّد جاوید حسین شاہ صاحب کی تعزیت کے لیے جامعہ عبیدیہ فیصل آباد تشریف لے گئے جہاں آپ نے ان کے صاحبزادے مولانا زکریا جمال شاہ صاحب سے تعزیت کی بعد ازاں لاہور کے لیے روانہ ہوئے رات نوبجے بخیر و عافیت خانقاہ حامدیہ واپسی ہوئی والحمد للہ !
١٥ مئی کو امیرِپنجاب دوپہر ایک بجے لاہور سے ملتان کے لیے روانہ ہوئے اور شام پانچ بجے جامعہ قاسم العلوم ملتان پہنچے جہاں صوبائی مجلس ِ عاملہ وضلعی امراء ونظماء کا اجلاس تھا جس کے مہمانِ خصوصی قائد جمعیة علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم تھے جہاں حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم نے خطاب فرمایا اجلاس ختم ہونے کے بعد کچھ دیر امیر پنجاب اور حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم کے درمیان ملاقات ہوئی ، بعد ازاں حضرت نے واپسی کی اجازت طلب فرمائی اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے ، رات ساڑھے بارہ بجے بخیروعافیت خانقاہ حامدیہ واپسی ہوئی والحمد للہ !
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1
وفیات
٭٭٭
٭ ٢٤ شوال ١٤٤٥ھ /٣ مئی ٢٠٢٤ء بروز جمعہ جمعیة علماء اسلام خضدار بلوچستان کے نائب امیر حضرت مولانا محمد صدیق صاحب مینگل کو نامعلوم حملہ آوروں نے شہید کر دیا۔
٭ ٢٤ شوال ١٤٤٥ھ /٣ مئی ٢٠٢٤ء بروز جمعہ جامعہ عبیدیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ فیصل آباد میں انتقال فرماگئے۔
٭ ٢٧ شوال ١٤٤٥ھ /٦ مئی ٢٠٢٤ء بروز پیر حضرت مولانا عبدالغفور صاحب حقانی شجاع آبادی طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔
٭ ١٢ ذوالقعدہ /٢٠ مئی کو خانقاہ حامدیہ سے وابستہ مخلص خادم محترم حافظ محمد سلیمان صاحب خانقاہ حامدیہ لاہور میں انتقال فرماگئے ، مرحوم صادق آباد بندور عباسیاں سے بغرضِ علاج لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔
٭ ١٤ ذوالقعدہ /٢٢ مئی کو جمعیة علماء اسلام ضلع اٹک کے سرپرست حضرت مولانا قاضی خالد محمود صاحب مختصر علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔
٭ ٢٦ مئی کوجمعیة علماء اسلام پنجاب کے نائب امیر محترم رائو عبدالقیوم صاحب کے چچا رائو ریاست علی خان صاحب سرگودھا میں انتقال فرماگئے ۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079142) MCB کریم پارک برانچ لاہور
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.