ماہنامہ انوار مدینہ
جلد : ٣١ ذیقعدہ ١٤٤٤ھ / جون ٢٠٢٣ء شمارہ : ٦
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 03334249302
جازکیش نمبر : 03044587751
جامعہ مدنيہ جديد : 04235399051
خانقاہِ حامديہ : 04235399052
موبائل : 03334249301
موبائل : 03354249302
موبائل : 03234250027
دارُالافتاء : 042335399049
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
تبلیغ کا آغاز .... محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی حیثیت اور خصوصیات حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ١٠
قربانی حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ٢٠
تربیت ِ اولاد( قسط : ٣ ) حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣١
قربانی کے مسائل حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب ٣٤
رحمن کے خاص بندے( قسط : ١٤ ) حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٤٠
حضرت فاطمہ کے مناقب( قسط : ٢ ) حضرت مولانا محمد عاشق اِلٰہی صاحب بلند شہری ٤٦
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب کیمل پوری مولانا محمد معاذ صاحب ٥١
کار گزاری برائے سفر پاپو (انڈونیشیا) مولانا محمد عاطف کرامت صاحب ٦٠
اخبار الجامعہ ڈاکٹر محمد امجد صاحب ٦٤
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
حرف آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
''عدل'' ظلم نہیں ہوسکتا اور'' ظلم'' عدل نہیں بن سکتا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ! برصغیر میں انگریز نے اپنا تسلط قائم کرنے کے بعد اپنا خود ساختہ ''ظلماتی نظام'' یہاں کے باشندوں پر مسلط کیا جس کا نام ''عدالتی نظام'' رکھا !
علماء کی قیادت میں آزادی ٔ ہند کی تحریک کے نتیجہ میں انگریز کو بالآخر ہندوستان سے نکلنا پڑا تو اسی ''ظلماتی نظام'' کو یہاں کے باشندوں پر مسلط رکھنے کے لیے مسلمانوں اور ہندؤوں میں سے اپنے وفادار وظیفہ خواروں کے مضبوط گروہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا جو نسل دَر نسل اس کی وفاداری کرتے چلے آرہے ہیں اور ''عدالتی نظام'' کے نام پر ''ظلماتی نظام '' کو پوری قوت کے ساتھ نافذ کیے ہوئے ہیں ! !
مملکت ِ خدا داد پاکستان میں اس کے قیام سے لے کر آج تک سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، سرداروں ، وڈیروں نے ہر بڑے ادارے کو یرغمال بنا رکھا ہے خواہ فوجی ادارے ہوں یا عوامی ، پارلیمانی ہوں یا عدالتی، نوکر شاہی کا مافوق طبقہ ہو یا ماتحت غرض ہر جگہ اِن ہی کا راج ہے !
ان تمام راجوں کا مہاراجہ قادیانی اور آغاخانی طبقہ ہے جو روزِ اوّل سے اسلام اور پاکستان کا ایسا پکا دشمن ہے جیسے یہودو ہنود ہیں ! !
اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان آج جن خطرناک حالات سے دوچار ہے وہ اِن ہی مہاراجوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے جب تک اِن ناپاک جتھوں سے اپنے اداروں کو پاک نہیں کردیتے اور ''عدالتی نظام'' کے نام پر فرنگی کے بنائے ہوئے خود ساختہ ''ظلماتی نظام'' کو جڑ سے اُکھاڑ نہیں دیتے تب تک پاکستان کو خطرات سے بے خطر قرار نہیں دیا جاسکتا ! یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم اپنی اسلام سے وابستگی اور مذہبی شناخت کو دیگر تمام وابستگیوں پر فوقیت دیتے ہوئے یک جان ہوجائیں ! ! !
آج کا ہر یہودی باشندہ اپنی دقیانوسی مذہبی شناخت کو ہر چیز پر مقدم رکھے ہوئے ہے ! اور عیسائیوں کادوزخ بھی اپنی پسماندہ روایات کا علَم بلند کیے ہوئے ہے ! اور ہندو بھی اپنے پتھریلے دھرم کی مالا گلے میں ڈالے ہوئے سیاسی اور سائنسی میدانوں میں اپنی پوجا پاٹ کی شناختوں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ! مگر ہم بہت پیچھے ہیں اس لیے کہ ہماری مذہبی شناخت پیچھے ہے ! !
ہم دین و مذہب کو اپنے وجود کے ساتھ سجائے ہر جگہ نہیں جاتے اس کا برملا اظہار کرنے کی اپنے اندر جرأت نہیں رکھتے ! بلکہ شرماتے ہیں ! جبکہ یہود و نصاریٰ اور ہنود کی سیاسی اورفوجی قیادت بے دھڑک طشتری نما ٹوپی کھوپڑی پردھرتے ہیں ! صلیب گلے میں لٹکاتے ہیں ! اورماتھے پر تِلک ،قَشقہ چڑھاتے ہیں !
پاکستان آج جن نازک حالات سے گزر رہا ہے اُس کا واحد حل یہی ہے کہ پاکستان میں فقہ حنفی کو بِلا تاخیر قانون قرار دیتے ہوئے نافذ کیا جائے ، سکولوں اور کالجوں کو فرنگی کے فرسودہ اور زہریلے نظام ِ تعلیم سے مکمل طور پر پاک کر دیا جائے اورپاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلہ کو فی الفور نافذ کر کے ملک کی قومی زبان اُردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے ! عدالتی اور غیر عدالتی ، سرکاری اور غیر سرکاری تمام معاملات کو اُردو یا مقامی زبانوں میں انجام دیا جائے ، بصورتِ دیگر آزادی ایک خواب ہی رہے گا حقیقت نہ بن سکے گا ! اور ہمارا ملک بیرونی دشمنوں اور اندرونی منافقین کی سازشوں کی بھینٹ چڑھ کر خدانخواستہ اپنا وجود ہی کھو بیٹھے گا ! ! اللہ وہ روزِ نامسعود نہ دکھائے، آمین ثم آمین ! !
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
دلوں کا زنگ اور اُس کا علاج ! دُنیا کی غیر محسوس محبت !
جوں جوں مال بڑھے گا محبت بھی بڑھے گی !
( درسِ حدیث نمبر ٥٤/٢١ ١٣ صفر المظفر ١٤٠٢ھ/١١ دسمبر ١٩٨١ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَآئُ کہ دلوں پر زنگ آجاتا ہے جیسے لوہے پر زنگ آجاتا ہے اگر اُسے پانی لگ جائے ! تو عرض کیا گیا جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے وَمَا جِلَآؤُھَا یہ ٹھیک کیسے ہوگا ؟ لوہے کو زنگ لگ جائے تو اُسے صاف کرنے کا طریقہ اور ہے اور دل اگر زنگ آلود ہوجائے تو وہ کیسے صاف ہوگا وہ کیسے ٹھیک ہوگا ؟
جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کَثْرَةُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ ١ یہ دو چیزیں ہیں
ایک یہ کہ موت کا ذکر، موت کی یاد زیادہ کی جائے ! اور دُوسرے ہے قرآنِ پاک کی تلاوت !
اس سے یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ دل کے اندر جو خرابیاں آتی ہیں وہ دُھل جاتی ہیں ، دل میں چیزوں کی محبت اور دُنیا کی محبت جڑ پکڑ جاتی ہے وہ جڑ کیسے کٹے اُس کی، تو وہ اسی طرح کٹ سکتی ہے کہ انسان موت کو یاد رکھے کہ یہ سب چیزیں چھوٹ جانے والی ہیں اور کوئی بھی چیز ساتھ جانے والی نہیں ! ورنہ اگر ایسا
وہ نہیں کرے گا تو پھر یہ ہے کہ جتنا بڑا ہوتا جائے گا اُتنی اُسے دُنیا کی محبت اور بڑھتی جائے گی ! اور یہ بھی
١ مشکوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٦٨
نہیں ہے کہ کسی چیز سے اُس کی محبت کم ہوجائے ! اگر ایک کوٹھی تھی دو بنالے گا ،دو تھیں چار بنالے گا اور پہلے ایک کوٹھی سے محبت تھی تو اب چار سے ہوگئی ! ! ایک باغ تھا دو بنالیے، چار بنالیے، چھ بنالیے اب چھ باغوں سے محبت ہوگئی اُسے ! ! گویا یہ دُنیا کی محبت جو ہے یہ دل کو گھیرے چلی جاتی ہے اور اُس میں مضبوطی بڑی ہے کہ انسان اُس سے چھٹکارا نہیں حاصل کرسکتا ! اور اگر وہ کہتا ہے کہ نہیں جی، مجھے نہیں ہوگی یا مجھے نہیں ہے تو یہ کہنا عام آدمی کا تو غلط ہے ! عام آدمی کی حالت تو ایسی نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ اللہ نے کسی کے دل میں ایمان بنادیا اُس کی حالت ایسی ہو تو ہو ورنہ نہیں ! جب بڑا ہوجاتا ہے آدمی، بوڑھا ہوجاتا ہے بچے بھی کمانے لگتے ہیں (معاشی طور پر) ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے تو اُسے چاہیے تھا کہ اللہ اللہ کرے، وقت الگ ہوکے بیٹھ کر گزارے، خدا کی یاد میں گزارے ، ایسا نہیں ہوتا ! ! بلکہ بیٹوں کی، پوتوں کی، پڑپوتوں کی، بیٹیوں کی، نواسوں کی، نواسیوں کی اور کس کس کی اُس کو محبت بڑھتی چلی جاتی ہے ! ! اور عورتیں جو ہوتی ہیں وہ تو بڑے جھگڑے کرتی ہیں ان باتوں پر ! ! گھر کے اندر کوئی عورت ہوگی اُس کی وہ بہو ہوگی، بچے سے اُس کے محبت ہوگی کیونکہ وہ پوتے ہیں اور بہو سے نفرت ہوگی ! ؟ روز لڑائی جھگڑے لڑائی جھگڑے سارا وقت اسی میں گزرجاتا ہے ! ! اور وہ اگر الگ بیٹھنا چاہے اور چاہے کہ اللہ اللہ کرلوں تو وہ نہیں کرسکتی ! کیونکہ وہ گھر میں رہتی ہے اُس کا دائرہ اور بھی محدود ہے ! اس واسطے اُس کے سامنے تمام چیزیں ہوتی ہیں اور تمام چیزوں پر نوک جھونک وہ کرتی ہیں ! اور مرد ہوتا ہے تو وہ ذرا اِس سے کم ہے ! وہ اِدھر اُدھر بھی کچھ ہوجاتا ہے ! بٹ جاتا ہے اُس کا حصہ ! !
دُنیا کی غیر محسوس محبت :
تو اس طرح سے دُنیا جو ہے اُس کے بارے میں خیال کرنا کہ دُنیا آئے اور اُس کی محبت نکل جائے ؟ یہ غلط بات ہے ! نہیں دُنیا جب آئے گی تو ساتھ ساتھ اپنی محبت اور چاہت بھی لائے گی ! جیسے کسی (دُوسرے)کی کوئی چیز ہو تو اُسے آدمی دیکھتا ہے تو اُس کی اتنی احتیاط نہیں کرتا ! لیکن اپنے آپ جو خرید کر لے آتا ہے گھر میں پھر چیز اپنی ہوتی ہے ! اور شیشے کی ہوتی ہے نازک ہوتی ہے تو کہتا ہے کہ کوئی ہاتھ بھی نہ لگائے ! حالانکہ وہ دُکان پر جب رکھی ہوتی تھی تو وہ ٹوٹ بھی جاتی تو بھی اتنا خیال نہ ہوتا ! اپنی ہونے کے بعد جو اُس کا تعلق بڑھا ہے قلبی ! بس اسی غیر محسوس طرح انسان محسوس بھی نہیں کرتا کہ میں کدھر جارہا ہوں ! ! ؟ ؟
دُنیا کی محبت بڑھنے سے خدا کی یاد کم ہوجاتی ہے :
ہوتا یہ ہے جو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اور دلوں پر زنگ آتا چلا جاتا ہے، لگتا ہے زنگ اس قسم کا مراد ہے جو دُنیا ہی کی چیزوں کی محبت سے ہوتا ہے ! جب دُنیا کی محبت بڑھے گی خدا کی یاد کم ہوگی ! خدا کی یاد کم ہونا یہی دل کا زنگ ہے ! !
(اس بارے میں ) عرض کیا گیا تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا اس کا علاج یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرو ! پہلے تو ایسے ہی ہوگا خیال آیا نکل گیا، آیا نکل گیا خیال ! لیکن بعد میں پھر ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ یہ سب چیزیں فنا ہوجانے والی ہیں ! ان سے دل کا تعلق کم کرنا چاہیے اور پھر ٹھیک ہوجاتا ہے جب اپنی اصلاح کا ارادہ کرلے آدمی اور اللہ سے مدد چاہے کہ اللہ تعالیٰ تو میری اصلاح فرمادے تو مجھے ٹھیک کردے تو انسان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ رفتہ رفتہ تعلق کم ہوتا چلا جاتا ہے (دُنیا سے) ! پھر کسی چیز سے بھی تعلق اُتنا نہیں رہتا جتنا خدا کی ذات سے ہوجاتا ہے ! !
باقی سب چیزیں دُوسرے درجے میں چلی جاتی ہیں تو اس طرح کا (اگر معاملہ ہو تو) چاہے وہ سب چیزیں قائم رہیں اُس کی، کتنا بھی بڑا مالدار ہو، کتنا بھی بڑا وہ زمیندار ہو، کارخانے دار ہو لیکن اگر اُس نے اپنی اصلاح کرنی چاہی ہے اور اصلاح کی دُعا مانگتا ہے خدا سے تو پھر اُس کا یہی ہوجائے گا کہ اُس کو اِن چیزوں کی محبت نہیں رہے گی ! !
دل میں غیر اللہ کی محبت نہ رہنا خدا کا احسان ہے :
اور محبت نہ رہے کسی چیز کی تو یہ بڑا اِحسان ہے خدا کا ! ورنہ بڑی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے انسان ! جب کسی چیز کی محبت ہو تو بس اُس میں تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ! اور نکل جائے اور خدا ہی کی رہ جائے محبت پھر بالکل ٹھیک ہے پھر کوئی بات نہیں رہتی ! ! !
دنیا اور آخرت کو جمع کردیا :
ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ نہیں ہے کہ آدمی بال بچوں کو چھوڑدے اور ایک طرف بیٹھ جائے ! اور سمجھے کہ میری محبت نہیں رہی تو میں بہتر ہوں ! یہ بھی نہیں بتایا شریعت نے ! ہر ایک کی درجہ بندی کی ہے اور اُس میں انسان کو مکلف کیا ہے کہ تیرے ذمے ہے یہ کام کرنا ! اب دل چاہے یا نہ چاہے کرے گا وہ کام ! تو دونوں چیزوں کو شریعت نے جمع کیا ! دُنیا کو بھی اور آخرت کو بھی ! اور اُس کے طریقے بتلائے اور یہ بتایا کہ اس طرح کرو، اس طرح کروگے تو اُس میں کامیابی حاصل ہوجائے گی ! !
جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک تو یہ بات فرمائی کَثْرَةُ ذِکْرِ الْمَوْتِ کہ انسان ویسے ہی موت کا ذکر کرتا رہے اور رفتہ رفتہ آہستہ آہستہ دل میں بیٹھ بھی جائے گی یہ بات کہ آخر ایک دن خدا کے یہاں جانا ہے ! !
تلاوت ِ قرآن جس طرح بھی ہو مفید ہے :
اور دُوسری بات یہ ہے کہ تلاوتِ قرآنِ کریم کرے ! تلاوت ِ قرآنِ کریم لفظوں میں ہو تو بھی فائدہ ہے، آدمی کسی رنج میں مبتلا ہو تو پھر تلاوت سے اُس کے دل کو بڑی تشفی ہوتی ہے ،یہ قدرتی بات اللہ نے رکھی ہے اس میں ، سکینہ و سکون ہے قرآن پاک کی تلاوت میں ! ! !
اور پھر یہ بات ہے کہ اگر اس کی ہمت ہو اور وہ ترجمہ بھی سمجھ لے اُس کی تفسیر سمجھے کچھ وقت اس پر لگائے آدھا پونا گھنٹہ لگادیا کرے، روزانہ چند آیتوں کو دیکھ لیا کرے ! تلاوت الگ کرے تلاوت تو دس منٹ میں ہوجاتی ہے ! پندرہ بیس منٹ کسی آیت کی تفسیر دیکھ لی کبھی کچھ دیکھ لیا کبھی کچھ دیکھ لیا اگر ایسے کرنے لگے تو قلب و ذہن پر اس کے اور بھی اچھا رُوحانی اثر پڑے گا ! !
سرورِ کائنات علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں بیماریاں بھی بتائی ہیں اور علاج بھی بتائے ہیں اور یہ بیماریاں وہ ہیں جو انسان کی اپنی ذاتی ہوتی ہیں ! اخلاقی ہوتی ہیں ! اور اِن کا علاج آدمی کبھی تو خود کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا ! تو علاج اور طریقے اُس کے بتائے ہیں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔اختتامی دُعا.................................
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ دسمبر ١٩٩٤ )
محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی حیثیت ،فرائض اور خصوصیات
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
معاہدات اور طاقت کا توازن :
قریش اور ترقی پذیر قبائلِ عرب کے پاس نہ فوج تھی نہ پولیس ! البتہ معاہدات کا سلسلہ ایسا تھا جو فوج اور پولیس کا کام دیتا تھا، معاہدہ ایک حصار ہوتا تھا جو جان کا بھی محافظ ہوتا تھا اور مال کا بھی ! اور اِن معاہدات کے ذریعہ طاقت کا بھی توازن قائم رہتا تھا ! حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو اِسی چیز نے بچایا تھا کہ قبیلۂ غفار (جس سے قریش کا معاہدہ تھا) اگر بگڑ گیا تو قریش کا اس طرف سے گزرنا اور غلہ بر آمد کرنا ناممکن ہوجائے گا !
ابوبکر صدیق، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہم) خود اپنے طورپر مختلف قبائل سے معاہدے کیے ہوئے تھے !
ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم براہِ راست کسی قبیلہ سے معاہدہ کیے ہوئے نہیں تھے مگر اِن کی حفاظت کی ذمہ داری خواجہ ابو طالب نے لے رکھی تھی، خواجہ ابو طالب دوسرے قبائل سے معاہدے کیے ہوئے تھے اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم جس طرح خواجہ ابی طالب کی پناہ میں تھے اور خواجہ ابوطالب آپ کی پناہ کے ذمہ دار تھے اسی طرح وہ تمام قبائل بھی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی حفاظت کے ذمہ دار تھے جو ابو طالب سے معاہدہ کیے ہوئے تھے ! ! !
مگر اسلام سے مشرف ہونے والوں میں بڑی تعداد وہ تھی جن کے کسی سے خود اپنے معاہدے نہیں تھے کیونکہ وہ اپنے قبیلوں کے شیوخ اور سر براہ نہیں تھے، سر براہ دوسرے تھے یہ اِن کے تابع تھے ! ! شیوخ اور سربراہوں کے معاہدات کے باعث یہ فائدہ تو تھا کہ غیر قبیلہ کے لوگ ان کو مظالم کا نشانہ نہیں بنا سکتے تھے مگر خود قبیلہ کے لوگوں کی مخالفت سوہانِ روح تھی ! یہ مسلمان ہوگئے تھے مگر جس مقصد سے مسلمان ہوئے تھے وہ حاصل نہیں تھا یعنی یہ لوگ خدائے واحد کی عبادت نہیں کر سکتے تھے ! چھپ کر قرآن شریف پڑھتے ! اگر راز فاش ہوجاتا تو طرح طرح کے ظلم سہنے پڑتے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اذیتیں اور تکلیفیں سہہ رہے تھے مگر آپ کو اپنی تکلیف کا احساس نہیں تھا ! البتہ ان ساتھیوں کی اذیت کا احساس آپ کو بے چین رکھتا تھا !
ہجرتِ حبشہ :
آپ کو معلوم ہوا کہ حبش کا بادشاہ (اَصْحَمََہْ)نیک نفس عیسائی ہے اس کی مملکت میں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے لہٰذا آپ نے مشورہ دیا کہ جو جاسکتے ہوں وہ حبش چلے جائیں !
اس مشورہ پر عمل ہوا، پہلے پندرہ صحابہ کا قافلہ روانہ ہوا، گیارہ مرد تھے اور چار عورتیں ! یہ قافلہ ساحلِ سمندر پر پہنچا، ایک جہاز روانہ ہونے والا تھااس میں نہایت سستے محصول پر جگہ مل گئی !
قریش کو اس قافلہ کی روانگی کا علم ہوا تو ایک جماعت ان کو پکڑنے کے لیے دوڑادی مگر جب وہ ساحلِ سمندر پہنچی تو جہاز روانہ ہوچکا تھا ! ! ان حضرات کو وہاں اطمینان میسر آیا تو پھر اور مسلمانوں نے بھی یہ راستہ اختیار کیا ! مکہ معظمہ سے خفیہ طور سے اِکا دُکا روانہ ہوکر پہلے ساحل پر جمع ہوگئے اور وہاں سے حبش روانہ ہوگئے، اس دوسرے قافلہ میں تقریبًا ستر افراد تھے ! ! !
کفار کا تعاقب ،شاہِ حبشہ کا درباراور حضرت جعفر کا خطاب :
قریش کے لیے یہ بہت بڑا اَلمیہ تھا کہ اتنے مسلمان وہاں جمع ہوگئے ! ؟ انہوں نے بہت کچھ ہڈیوں ١ اور تحفوں کے ساتھ شاہِ حبش کے پاس سفارت بھیجی کہ یہ لوگ بھاگ کر چلے آئے ہیں ان کو حوالہ کردیا جائے !
بادشاہ نے مسلمانوں کو طلب کر کے ان کا مقصد معلوم کیا ! ؟ حضرت جعفر بن ابی طالب نے مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے جو تقریر فرمائی وہ تمام مؤرخین نے نقل کی ہے اس کا اُردو پیرہن یہ ہے :
١ ہاتھی دانت وغیرہ
''بادشاہ عالی جاہ ! یہ درست ہے کہ ہماری قوم بت پرست ہے، جاہل ہے اس کو حلال حرام کی تمیز نہیں ، مردار کھا جاتی ہے، بدکاریاں کرتی ہے، ہمسایوں کو ستاتی ہے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا ہے، لڑکیوں کو زندہ دَرگور کردیا جاتا ہے، جو برائی ہوسکتی ہے وہ سب ہمارے معاشرہ (سماج) میں موجود ہے ! !
اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنا فضل فرمایا ہم میں ایک شخص پیدا ہوا، عمر کے چالیس سال اُس نے ہمارے بیچ میں رہ کر اس طرح گزارے کہ پوری قوم اس کی شرافت کی قائل ہوگئی، اس کی صداقت اور سچائی سے یہاں تک متاثر ہوئی کہ اس کو الصادق اور الامین کہنے لگی ! اس نے بتایا کہ خدا نے اس کو نبی بناکر بھیجا ہے اور خدا کا حکم یہ ہے کہ صرف خدائے واحد کی عبادت کرو، بت پرستی چھوڑدو، خدا کے سوا کسی کے سامنے ماتھا مت ٹیکو، کسی کو ناحق نہ ستاؤ، کمزوروں کی مدد کرو، غریبوں پر رحم کرو، خلقِ خدا کی خدمت کرو، رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو، ایک دوسرے سے محبت کرو، آپس میں شفقت اور مہربانی سے کام لو، سچائی اختیار کرو، بری باتیں چھوڑدو، نیک اور دیانتدار بن جائو !
اے بادشاہ ! ہمیں یہ باتیں اچھی معلوم ہوئیں ہم نے اس کا دامن سنبھال لیا ہے اور اُس کے کہنے پر عمل شروع کردیا ہے''
ناکام مداخلت :
سفارت ِقریش کے ارکان نے دیکھا کہ بادشاہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سے متاثر ہو رہا ہے تو انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم کے متعلق ان کا عقیدہ معلوم کیجئے یہ کچھ اور کہتے ہیں اور عیسائیوں کی تردید کرتے ہیں ! !
بادشاہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم کے متعلق ان کا عقیدہ معلوم کیا تو حضرت جعفر نے سورۂ مریم کا پورا رکوع پڑھ کر سنادیا جس میں حضرت مریم کی پاکدامنی بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں ہیں بلکہ خدا کے بندے اور اُس کے رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے معجزے عطا فرمائے تھے اور پہلا معجزہ یہ تھا کہ انہوں نے گہوارے ہی میں بولنا شروع کردیا تھا ! !
بادشاہ قرآن پاک کی آیتوں اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سے یہاں تک متاثر ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ! ! !
(اپنے دربار میں موجود )پادریوں کو خطاب کر کے کہا کہ میرا یقین ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت اس سے ایک تنکا کے برابر بھی زیادہ نہیں ہے جو انہوں نے قرآن شریف کے حوالہ سے بیان کی ہے ١
شاہِ حبشہ کا اِنتہا پسندوں کو حتمی جواب :
پھر قریش کے سفیروں سے کہہ دیا کہ یہ لوگ آپ کے غلام نہیں ہیں آپ کے مقروض نہیں ہیں پھر اِن کو آپ کے حوالے کیوں کیا جائے ؟ ؟
مسلمانوں سے کہا کہ وہ اس کی مملکت میں اطمینان سے رہیں ! مسلمان وہاں پر رہے، ایک مرتبہ ایک غنیم کا حملہ ہوا تو مسلمانوں نے شاہی فوج کی مدد بھی کی ! ! ٢
ناکام سفارت کاری :
قریش کو اِس سفارت کی ناکامی کا علم ہوا تو مسلمانوں کے خلاف ان کا غیظ و غضب اور بڑھ گیا اور خواجہ ابو طالب اور آلِ ہاشم پر پورا زور ڈالنا شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ عليہ وسلم) کی ذمہ داری سے دست کش ہوجائیں چنانچہ رؤسائِ قریش کا ایک وفد خواجہ ابو طالب کے پاس پہنچا اور بہت زور ڈالا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو منع کریں ورنہ اُن کو ہمارے حوالہ کردیں ! مجبور ہوکر ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے گفتگو کی آپ نے فرمایا :
١ یہ بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا جب اس کا انتقال ہوا تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اسی روز اس کے انتقال کی خبر دے دی اور غائبانہ نماز ِ جنازہ پڑھی !
٢ المبسوط للسرخسی ج١ ص ٩٨ باب نکاح اہل الحرب ودخول التجار الیہم بامان ۔
''چاچا جان ! آپ کی شفقت ومحبت کا شکریہ آپ یقینا معذور ہیں آپ میری امداد سے دست کش ہوجائیے مگر مجھے میرے رب نے جس مقام پر کھڑا کردیا ہے میں اُس سے ذرّہ برابر بھی نہیں ہٹ سکتا''
خواجہ ابو طالب نے یہ پختگی دیکھی تو قریش کو جواب دے دیا کہ وہ محمد صلی اللہ عليہ وسلم کی حمایت نہیں چھوڑ سکتے ! اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو اجازت دی کہ وہ اپنا کام کرتے رہیں !
نئی صورتِ حال :
لیکن آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور مسلمانوں کے لیے یہ نئی صورت پیدا ہوگئی تھی کہ ایک سو کے قریب مسلمان حبشہ چلے گئے تو اب صرف تیس چالیس مسلمان رہ گئے جن کے لیے مکہ کی غضبناک فضاء میں زندگی اور بھی دوبھر ہوگئی تھی ! ان میں کافی تعداد غلاموں کی تھی ! اگرچہ ان میں سے زیادہ ترکو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خرید کر آزاد کردیا تھا لیکن آزادی کے بعد بھی وہ بے پناہ تھے، مسلمان ان کی پناہ ہوسکتے تھے مگر وہ خود چھپ چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور تھے ! !
آپ کی دُعا :
مسلمانوں کی تعداد سو سے زیادہ ہوگئی تھی ان میں طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور شیرِ خدا حضرت علی رضی اللہ عنہم جیسے جنگجو بہادر بھی تھے جنہوں نے مستقبل میں عظیم الشان کارنامے انجام دیے اور غزوات میں بہادری کے بے نظیر جوہر دکھائے ! مگر یہ حضرات اُس وقت ایسے نہیں تھے جن کی مکہ میں دھاک ہو اور جن سے پورا شہر مرعوب رہتا ہو
یہ بات صرف دو کو حاصل تھی عمر بن الخطاب اور اُن کے ماموں ابوجہل بن ہشام کو ، مگر یہ دونوں اسلام کے مقابلہ میں بہت سخت تھے ١ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے کہ خداوندا اِن دونوں میں جو تجھے زیادہ محبوب ہو اُس سے اسلام کو تقویت فرما۔
١ نام دونوں کا عمر تھا ایک ابنُ الخطاب تھے دوسرا عمر بن ہشام جو اَبوالحکم کی کنیت سے مشہور تھا پھر ابوجہل کے نام سے مشہور ہوا !
حضرت عمر کا اسلام :
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ جرأت ہی تھی کہ ایک روز طے کر لیا کہ محمد (صلی اللہ عليہ وسلم) کا قصہ تمام کرکے اِس خلفشار کا خاتمہ کردوں جس سے قریش کی زندگی تلخ ہوگئی ہے اور آئے دن ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے !
عمر بن الخطاب نے تلوار ہاتھ میں لی اور محمد (رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم) کی تلاش میں نکلے ! راستہ میں ایک صاحب نُعیم بن عبداللّٰہ ١ (رضی اللہ عنہ) نے آپ کو دیکھا تیور چڑھے ہوئے تھے ! دریافت کیا ابن الخطاب کیا اِرادہ ہے ؟ ؟
عمر بن الخطاب : اس فتنہ کو ختم کرنے جارہا ہوں جو ''محمد'' نے برباد کردیا ہے (صلی اللہ عليہ وسلم) !
نُعیم بن عبداللّٰہ : خاندانِ ہاشم اور جو اِن کے حلیف ہیں اُن سے کیسے نمٹوگے ! ؟
اور دیکھو ابن الخطاب ! محمد(صلی اللہ عليہ وسلم) کو ختم کرنے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید مسلمان ہوچکے ہیں ! ! ! ؟ ؟
عمر (رضی اللہ عنہ) ان طعن آمیز، اشتعال انگیز فقروں کو کب برداشت کر سکتے تھے ! وہ فورًا پلٹے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی تلاش چھوڑ کر بہن کے مکان پر پہنچ گئے ! وہاں حضرت خباب بن الارت قرآن شریف پڑھا رہے تھے ! جیسے ہی حضرت عمر نے دروازے پر پہنچ کر آوازدی ہمشیرہ صاحبہ نے حضرت خباب کو اَندر کردیا، مگر تلاوت کی کچھ بھنک عمر کے کانوں میں پڑچکی تھی، عمر جیسے ہی مکان میں داخل ہوئے، پوچھا تم کیا پڑھ رہے تھے ؟ بہن بہنوئی نے بات کو چھپانا چاہا، کچھ خاموش رہے تو عمر نے اسی تیزی میں کہا : میں نے سنا ہے تم بے دین ہوگئے ہو ! یہ کہہ کر بہنوئی پر ہاتھ اُٹھایا ! بہن اپنے شوہر کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو اِن کے سر پر بھی اتنی زور سے مارا کہ خون بہنے لگا ! !
١ نُعَیم بن عبداللّٰہ النَّحام مسلمان ہوچکے تھے مگر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ النَّحام نَحْمَة سے ماخوذ ہے نَحْمَة کے معنی ہیں آہٹ یا کھنکار کی آواز۔ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا تھا سَمِعْتُ نَحْمَتَہ فِی الْجَنَّةِ میں نے جنت میں اِن کا نَحْمَة سنا ہے، اسی بشارت کی بناپر اِن کا خطاب نَحَّامْ ہوگیا۔( سیرت حلبیہ ١ / ٣٤٩ )
اب بہن کو جوش آگیا فرمایا عمر جو چاہو کر لو ہم مسلمان ہوچکے ہیں اور ہم قرآن شریف پڑھ رہے تھے ! !
بہن کے سر سے خون بہتا ہوا دیکھ کر حضرت عمر کچھ پسیجے، غصہ ٹھنڈا ہوا تو فرمایا : مجھے دکھاؤ کیا پڑھ رہے تھے ؟ بہن نے فرمایا تم دیکھنا چاہتے ہو تو پہلے غسل کرو، تم کافر ہو ناپاک ہو، قرآن کو نہیں چھو سکتے
اب عمر فاروق کا غصہ ختم ہوچکا تھا اور اصل حقیقت معلوم کرنے کا شوق اتنا بڑھ چکا تھا کہ بہن کے توہین آمیز کلام کو برداشت کیا ! اور غسل کر کے کلامُ اللہ کے اَوراق پڑھنے شروع کیے ! ! ؟
( سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ لَہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یُحْی وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر ۔ ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم ۔ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر ۔ لَہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ۔ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِ وَہُوَ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۔ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ ) ( سُورة الحدید : ١ تا ٧ )
''آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے (کہ وہ ہر ایک نقص سے مبرا ہے) وہ زبردست حکمت والا ہے، آسمانوں اور زمین کی سلطنت اُسی کی ہے، (مستحقِ بادشاہت وہی ہے) وہی زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہی پہلے ہے وہی پیچھے، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی (باطن) اور وہ ہر چیز کا پورا علم رکھنے والا ہے !
وہ ایسا ہے کہ اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ روز (دور) میں ! پھر وہ عرش پر رونق افروز ہوا ہر چیز کا اُس کو علم ہے، وہ جانتا ہے ہر اُس چیز کو جو زمین کے اندر داخل ہوتی ہے اور جو زمین سے نکلتی ہے، جو آسمان سے اُترتی ہے جو آسمان پر چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو ،تمہارے اعمال دیکھتا ہے، آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے اور تمام باتوں کا مرجع وہی اللہ کی ذات ہے وہ ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں ، وہ دل کی باتوں کو پوری طرح جانتا ہے، ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر ''
اُوپر کی آیتوں میں اللہ کی ذات اور صفات کا ذکر ہے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ میں یہ آیتیں پڑھ رہا تھا اور جب اللہ کا نام آتا تھا دل کانپ جا تا تھا، یہاں تک کہ جب ساتویں آیت پر پہنچا ''ایمان لاؤ اللہ پر اور اُس کے رسول پر'' تو بے اختیار زبان سے نکلا
اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ
حضرت خباب رضی اللہ عنہ جن کو اَندر چھپا دیا گیا تھا انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے کلمہ ٔ شہادت سنا تو خوش ہوتے ہوئے باہر آئے اور فرمایا : عمر بشارت ہو ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے دعا فرمائی تھی کہ خداوندا ابوجہل اور عمر میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہو اُس سے اسلام کی تقویت فرما ! حضرت عمر یہ بشارت سن کو فورًا ہی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوئے یہ وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم دارِ بنی اَرقم میں جو کوہِ صفا کی تلی میں تھا، پناہ گزیں تھے ! !
حضرت حمزہ، حضرت طلحہ اور کچھ اور صاحبان حاضر ِ خدمت تھے اُن صاحبان نے عمر کو دیکھا، تلوار ہاتھ میں لیے آرہے ہیں ، کچھ خیال پیدا ہوا، مگر یہ بھی سوچ لیا کہ بھر پور جواب دیا جائے گا ! لیکن عمر پہنچے تو اَنداز دو سرا تھا ! ؟ آگے بڑھے تو رحمت عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے کھڑے ہوکر استقبال کیا اور چادر یا کُرتے کا کنارہ پکڑ کر فرمایا : عمر کیسے آئے ؟ پھر فرمایا عمر باز نہ آؤگے ! کیا خدا کے قہر کا انتظار کر رہے ہو ! ! ؟ ١
عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) : حضرت باز آچکا ہوں اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہْ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی اتنی مسرت ہوئی کہ خود آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے بھی زور سے تکبیر کہی اور آپ کے ساتھیوں نے بھی زور سے تکبیر کہی یہاں تک کہ یہ دامنِ کوہ نعرۂ تکبیر سے گونج اُٹھا ! ٢
١ البدایة والنہایة ج٣ ص ٨١
٢ ماخوذ اَز البدایة والنہایة ج ٣ ص ٧٩ تا ٨٢ ، السیرة الحلبیة ص ٣٤٩ تا ٣٥٤ و تاریخ الخلفائ
نیا دور اور ہنگامہ :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہوجانے سے اسلام کا ایک نیا دور شروع ہوا ! اب تک یہ موقع نہیں ملتا تھا کہ مسلمان حرمِ کعبہ میں نماز پڑھ سکیں مگر عمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو پہلے سردارانِ قریش میں سے ہر ایک کی ڈیوڑھی پر پہنچ کر ہر ایک کو آگاہ کیا کہ عمر مسلمان ہوگیا ہے، اس کے بعد تمام مسلمانوں کو ساتھ لے کر حرم شریف میں داخل ہوئے اور کھلے بندوں نماز پڑھی لیکن قریش نے سب کی پوری طرح تواضع کی خصوصًا حضرت فاروق ہر ایک کا نشانہ بنے ! ! ١
کافی مار پیٹ کے بعد کسی طرح یہ ہنگامہ ختم ہوا مگر عمر بن الخطاب کا مسلمان ہوجانا ایسا حادثہ نہیں تھا جس پر قریش آسانی سے صبر کر لیتے انہوں نے حضرت عمر کی زندگی دو بھر کردی حتی کہ وہ بھی مکان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے لیکن عرب کے مشہور اور باہیبت قبیلہ بَنِیْ سَہْم سے ان کا معاہدہ تھا یہ معاہدہ اِس وقت کام آیا ! !
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :
عمر فاروق رضی اللہ عنہ مکان میں چھپے ہوئے تھے، باہر میدان میں اتنا ہجوم تھا کہ پوری وادی آدمیوں سے پٹی ہوئی تھی اور یہ شور تھا کہ عمر بے دین ہوگیا ہے، میں مکان کی چھت پر کھڑا ہوا یہ ہنگامہ دیکھ رہا تھا میں پریشان تھا کہ کیا ہوگا ؟ دفعةً ایک صاحب نمودار ہوئے ریشمی کفوں دار قمیص پہنے ہوئے اُس کے اوپر ریشمی قبا اور شیوخِ عرب کے قاعدے کے بموجب ایک بڑھیا چادر اوڑھے ہوئے وہ اندر مکان میں پہنچے والد صاحب سے دریافت کیا کیا واقعہ ہے ؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں ! جرم یہ ہے کہ مسلمان ہوگیا ہوں !
اس سردار نے کہا'' ہر گز نہیں ، یہ کچھ نہیں کرسکتے میں آپ کو پناہ دیتا ہوں '' یہ کہہ کر یہ سردار باہر آیا اور اعلان کردیا کہ عمر کو میں نے پناہ دے دی ہے ! !
١ ماخوذ اَز تاریخ الخلفاء لجلال الدین السیوطی و البدایة والنہایة ج ٣ ص ٧٩ تا ٨٢
و السیرة الحلبیة ص ٣٤٩ تا ٣٨٢
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جیسے ہی اُس سردار نے یہ اعلان کیا وہ تمام مجمع کائی کی طرح چھٹ گیا میں نے کسی سے پوچھا یہ صاحب کون ہیں ؟ جواب دیا قبیلہ ٔ بنی سہم کاشیخ ورئیس عاص بن وائل سہمی ١
با ایں ہمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کی ڈھارس بندھی اور بقول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وہ قوت حاصل ہوئی جو پہلے نہیں تھی ٢ ہم کھلے بندوں حرم کعبہ میں پہنچے، طواف کیا، نماز پڑھی ! حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
حضرت عمر کا مسلمان ہونا اسلام کی فتح تھی، ان کی ہجرت نصرت اور اِن کی حکومت رحمت'' ٣
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٢٨٢ تا ٢٩١ )
اجتماعی قربانی
جامعہ مدنیہ جدید میں ہر سال کی طرح اجتماعی قربانی کا انتظام کیا گیا ہے
قربانی میں حصہ لینے والے حضرات جلد رابطہ فرمائیں
فی حصہ 23000 روپے
قربانی کے جانوروں کی کھالیں جامعہ مدنیہ جدید کو دینا مت بھولیے
کھال فروخت کر کے اس کی قیمت بھی ارسال کی جا سکتی ہے
JAZZ CASH ACCOUNT : +92-304-4587751
منجانب
جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور پاکستان
03334506315 - 03214499000
03334249302 - 03055008065
03334191602 - 03214884074
١ صحیح البخاری ص ٥٤٥ ٢ صحیح البخاری ٥٢٠ ٣ البدایة والنہایة ج٣ ص ٧٩
قر بانی
( حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب )
قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ عليہ وسلم مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ الَّنْحِر اَحَبَّ اِلَی اللّٰہ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ وَاِنَّہ لَیُوْتَی یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِقُرُوْنِھَا وَ اَشْعَارِھَا وَ اَظْلَافِھَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانِ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْسًا۔ ١
''حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی عمل بقر عید کے دن خدا تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ عزیز نہیں ! اور وہ قربانی قیامت کے دن اپنے سینگوں اور پائوں اور کھروں سمیت آوے گی ! اور بے شک قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی جنابِ الٰہی میں مقبول ہو جاتا ہے پس خوش کرو اس قربانی کے ساتھ اپنا دل ''
محترم بزرگو ! یہ حدیث جو میں نے اس وقت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے قربانی کے احکام پر مشتمل ہے جو اِس وقت تقریر اور جلسہ کا موضوع ہے ! تقریر تو مختصر ہوگی اس لیے کہ اوّل تو مسئلہ جزوی ہے اور جزئیات میں تفصیل نہیں ہوتی کیونکہ بسط وتفصیل تو اُصول میں ہوتی ہے ! !
اس کے علاوہ یہ ایک عام مسئلہ ہے اور اس سے کوئی مسلمان بھی ایسا نہیں جو واقف نہ ہو !
قربانی کا عمل کوئی حال کا عمل نہیں بلکہ صدیوں سے چلا آتاہے اس لیے بھی اس میں تفصیل کی ضرورت نہیں نہ تو نفسِ مسئلہ میں تفصیل کی گنجائش ہے اور نہ اس کے عام ہونے کی وجہ سے تفصیل کی ضرورت ہے !
اصول : دو چیزوں کا مرکب :
مسئلے کی شرح سے پہلے ایک اُصول سمجھ لیجیے اوریہ اُصول جس طرح تکوینی ہے اسی طرح تشریعی بھی ہے وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ دو چیزوں سے ملا کر بنایا ہے ،ایک رُوح ، ایک جسم ! یعنی ہر چیز کی ایک صورت ہے ایک اُس کی حقیقت، ایک اُس کی ہیئت ہے اور ایک اُس کی
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الصلٰوة رقم الحدیث ١٤٧٠
ماہئیت ہے، یایوں کہیے کہ ایک اُس کا ظاہری حصہ ہے اور ایک باطنی ! غرض تمام انسان کل حیوانات ، نباتات، جمادات کی جہاں ایک صورت ہے وہاں اُس کی ایک حقیقت بھی ہے ! ایک اُس کا بدن بھی ہے اور ایک اُس کی رُوح بھی ہے ! اور ہربدن میں خدا تعالیٰ نے اس کے مناسب روح ڈالی ہے !
جب حق تعالیٰ کی توجہ کائنات کی طاقتوں اوربدن بنانے کی طرف متوجہ ہوئی تو یہی اصول مد نظر تھا !
انسان :
سب سے پہلے انسان ہی کو لیجیے کہ اوّل انسان کا بدن تیار کیا جاتاہے جس کی ابتداء نطفہ یعنی ایک گندے قطرے سے ہوتی ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے :
( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِینٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَأْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ) ١
'' ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ یعنی گندے قطرے سے بنایا جو کہ ایک محفوظ مقام میں رہا ! پھر ہم نے اُس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنادیا ! پھر ہم نے اُس لوتھڑے کو بوٹی بنادیا ! پھر ہم نے اُس بوٹی کو ہڈیاں بنادیا ! پھر ہم نے اُن ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا ! پھر ہم نے اُن کو ایک دوسری ہی مخلوق بنادیا ! سوکیسی بڑی شان ہے اللہ کی جو تمام صنّاعوں ٢ سے بڑھ کرہے ''
تو رُوح ڈالنے سے پہلے ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے جس کی تیاری میں زمین کی قوتیں بھی متوجہ ہوتی ہیں ، آسمان کی بھی ،آفتاب کی بھی طاقتیں متوجہ ہوتی ہیں اور ہوائوں کی بھی ،غرض جب کائنات کی ساری قوتیں مل کرڈھانچہ تیار کر لیتی ہیں تو اُس میں پھر رُوح ڈال دی جاتی ہے یہی صورت سارے جمادات، حیوانات اور نباتات کی ہے ! ! !
جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سمجھ لیجئے کہ اس کائنات کی کوئی بھی چیز باقی نہیں رہ سکتی
١ سُورة المؤمنون : ١٢ تا ١٤ ٢ ہنر مند ،کاریگر
جب اس کا بدن اور رُوح ملے ہوئے نہ ہوں ! گویا بدن کی بقاء موقوف ہے رُوح پر ! اوررُوح کی بقاء بدن پر ! اگر اپنے بدن کو توڑپھوڑکرخستہ وخراب کردیایا وہ خود ہی قدرتی طورپر خراب ہوگیا اور اس
میں سکت باقی نہ رہی تو پھر اُس میں روح نہیں ٹھہرتی بلکہ پروازکر جاتی ہے اس لیے کہ بدن ہی رُوح کو سنبھالے رکھتاہے ! مثلاً انسان میں اگر رُوح ہے تو وہ انسان ہے ورنہ لاشہ ہے جو بیکار ہے ! ! پھرجس طرح مجموعہ بدن کے لیے مجموعہ ُروح ہے ! اسی طرح بدن کے ہرہر جزوکی ایک رُوح ہے ! جو اسی جزوکے ساتھ رہ سکتی ہے اگر اس جزو کو ختم کردیاجائے تو یہ رُوح بھی نہ رہے گی ! یہ نہ ہوگا کہ بدن کے ایک جزو کو ختم کردیں تو اس کی رُوح کسی دوسرے جزومیں پہنچ جائے ! مثلاً آنکھ ہے اس کی رُوح قوتِ بینائی ہے اگر آنکھ پھوڑدی جائے تویہ نہیں ہوتا کہ دیکھنے کی قوت مثلاً ناک میں آجائے بلکہ یہ قوت باقی ہی نہیں رہتی ! اسی طرح ناک ہے اس میں سونگھنے کی قوت ہے وغیرہ ! ! !
غرض یہ کہ خداوند تعالیٰ نے جس قدر قویٰ پیدا کیے ہیں ان میں قوت اور رُوح بھی پیدا کردی ہے اوریہ دونوں مل کر کائنات کا حصہ بنتے ہیں ! اگر دونوں کو الگ الگ کردیا جائے تو اسی حقیقت کو ''موت''کہتے ہیں اور اس حقیقت سے کائنات کی تمام اشیاء ختم ہو جاتی ہیں ! ! !
اصول :
ایک دُوسرا اُصول اور سمجھ لیجیے جو اِسی سے متعلق ہے کہ بدن کے اندر جو قوتیں چھپی ہوئی ہیں ان کی پہچان ان ابدان ہی کے ذریعے کی جاتی ہے مثلاً قوتِ بینائی کی شناخت آنکھ سے کی جاتی ہے ! اور قوتِ سماعت کی کان سے ! غرض یہ صورتیں ان قوتوں کے تعارف کا ایک ذریعہ ہیں اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو یہ تعارف ختم ہوجائے ! اس اصول کا حاصل یہ ہوا کہ بدن ذریعہ ہے رُوح کی پہچان کا ! !
اصول :
اب تیسرا اُصول اور سمجھ لیجیے کہ اگر آپ رُوح تک کوئی اثر پہنچانا چاہیں تو وہ بدن ہی کے ذریعے پہنچ سکتاہے اس عالم میں براہِ راست رُوح کو مثاثر کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ! مثلاً اگر آپ رُوح پر گرمی کا اثرکرنا چاہیں تو بدن کو آگ کے سامنے لے جائیں جب پہلے بدن گرم ہوجائے گا اُس کے بعد رُوح کو گرمی پہنچے گی اور اگر ٹھنڈک پہنچانا چاہیں تو آپ بدن پر پانی ڈالیں گے یا اس پر برف ملیں گے یا وضو کریں گے وغیرہ ،غرض ہر تاثیر کے لیے بدن ذریعہ ہے، بغیر بدن کے اثرات نہیں پہنچ سکتے !
تو اب تین اُصول معلوم ہوئے کہ بدن سے تین کام لیے جاتے ہیں ! !
اوّل رُوح کے قرار و قیام کا ! دوسرے رُوح کے تعارف کا اور پہچان کا ! اور تیسرے تاثیر کا !
اور یہ تینوں باتیں اس قدر ظاہر ہیں کہ اِن پر کسی دلیل کے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ! اوریہ تینوں اُصول جس طرح تکوینی ہیں اسی طرح تشریعی بھی ہیں ! یعنی اعمالِ شرعیہ میں بھی ایک صورت ہے، ایک رُوح اور بغیر صورت کے رُوح کا باقی رہنا ناممکن ہے ! اسی طرح اگر رُوح تک کوئی اثر پہنچانا چاہیں تو وہ صورت ہی کے ذریعہ پہنچ سکتا ہے ! اس کی مثالوں سے شریعت بھری پڑی ہے !
مثال کے طورپر وضو کولیجیے کہ اس کی ایک صورت ہے اور ایک رُوح ! اس کی صورت تو وہ خاص ہیئت اور افعال ہیں جو انسان وضو کرنے کے وقت اختیار کرتا ہے یعنی ایک خاص طرح سے بیٹھ کر اعضاء کادھونا وغیرہ اور یہی ہیئت اس کے تعارف کا ذریعہ ہے چنانچہ جب آپ وضو کررہے ہوں تو ہر شخص آپ کو دیکھ کرپہچان لے گا کہ آپ وضو کررہے ہیں ، کھانانہیں کھا رہے ، کیونکہ کھانا کھانے کی ہیئت اورہے !
اور ایک اُس (وضو) کی رُوح ہے یعنی طہارت حاصل کرناتاکہ اِنسان دربارِ الہٰی میں حاضری کے قابل ہوسکے !
اور ایک اس (وضو ) کی تاثیر ہے یعنی وہ خاص قسم کا اِنشراح جو اِنسان کے قلب میں وضو کے بعد پیدا ہوتا ہے ! تو یہ طہارت اور اِنشرح بغیر وضو کی صورت اختیار کیے کبھی بھی حاصل نہیں ہو سکتا !
اسی طرح غسل کی ایک صورت ہے یعنی تمام جسم کو دھونااور ایک اُس کی روح ہے یعنی طہارت اور صفائی ! اور اس کی صفائی اور اس کی تاثیر فرح واِنبساط ہے ! اب اگر کوئی شخص تمام عمر غسل نہ کرے تو اس کو فرح واِنبساط کی وہ خاص کیفیت کبھی بھی نصیب نہ ہوگی ! الغرض ہر چیز کی رُوح حاصل کرنے کے لیے اس کی صورت کا اختیار کرنا ضروری ہے !
اسی طرح آپ نماز کو لیجیے کہ اس کی صورت، نیت باندھ کر کھڑا ہونا اور رکوع وسجود وغیرہ ادا کرنا ہے اور اس کی رُوح خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا اور اپنی عبدیت اوربندگی کا اظہار کرنا ہے ! تو اگر آپ نماز کی ہیئت اختیار نہ کریں تو بندگی کی یہ خاص صورت کبھی بھی حاصل نہ ہوگی ! ! !
اسی طرح زکٰوة اور روزہ وغیرہ عبادات ہیں کہ ہر ایک کی رُوح اور صورت ہے ! !
تو یہ جو''قربانی''ہے اس کی بھی ایک صورت ہے اور ایک رُوح ! صورت تو جانورکا ذبح کرنا ہے اور اِس کی حقیقت ایثارِ نفس کا جذبہ پیدا کرنا ہے جو تقرب اِلی اللہ ہے ! تو ظاہر ہے کہ یہ روح بغیر جانور کو ذبح کیے کیسے حاصل ہو سکتی ہے ؟
یہ بات پہلے معلوم ہو چکی ہے کہ ہر صورت میں اس کے مطابق رُوح ڈالی جاتی ہے ، نماز میں نماز کی رُوح، زکٰوة میں زکٰوة کی رُوح اورقربانی میں قربانی کی رُوح ڈالی جاتی ہے ! غرض خداتعالیٰ نے اس کی جو صورت مقرر کردی ہے وہی اختیار کرناپڑے گی تب وہ رُوح اس میں ڈالی جائے گی لہٰذااگر وہ کسی چیز کی قربانی طلب کریں تو قربانی دینی ہوگی ! ! !
( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) ( سُورہ آلِ عمران : ٩٢ )
''تم خیر کامل کبھی نہ حاصل کرسکو گے یہاں تک کہ اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو''
اور محبوب چیز مال ہوتا ہے، مال سے بھی زیادہ جانور عزیز ہوتا ہے کیونکہ جاندار ہونے کی وجہ سے اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے کیونکہ اگر بے جان چیز ضائع ہوجائے تو آدمی دوسری گھڑکر بنا سکتا ہے ! بخلاف جاندار کے اگر فنا ہوگیا تو دوسرا نہیں ملتا !
اور یہ مال تو ایسی چیز ہے کہ فنا ہوکر ہی نفع پہنچاتا ہے مثلاً اگر کسی کے پاس ایک کروڑ روپیہ رکھا ہوا ہے تو وہ بیکار ہے اس سے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کوخرچ نہ کرلے ! ! تو جب دُنیوی منافع اس کو خرچ کیے بغیر نہیں مل سکتا تو رضائے حق جو اعلیٰ ترین نفع ہے وہ کیسے بغیر محبوبات کی قربانی کے حاصل ہو سکتا ہے اور محبوبات کیا ہیں ؟ ؟ جان ومال ، اولاد و آبرو اور غیرت وغیرہ چنانچہ ارشاد ہے
( اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ) ١
''بیشک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی جانوں اور مال کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا''
غرض اِن میں سے آپ کوہرچیز لٹانی ہوگی تب کہیں بندگی کا اظہار ہوگا ! درحقیقت جنت تو ایمان کے بدلے میں ملے گی اور اعمال تو ایمان کی شناخت کاذریعہ ہیں ،جیسے اگر سونا خریداجائے تو اس کو کسوٹی پرگھس کردیکھا جاتا ہے اگر کھرا ہے تو اس کی قیمت اداکرتے ہیں ورنہ نہیں تو اس جگہ قیمت سونے کی ہوتی ہے اُن لکیروں کی نہیں ہوتی جو کسوٹی پرچڑھ جاتی ہیں ! ! !
بس اسی طرح آخرت کے بازار میں جنت کے عوض میں ایمان کی قیمت ادا کرنی ہوگی اور ہمارے یہ اعمال(کسوٹی کی) ان لکیروں کی طرح ہمارے ایمان کی پختگی کی علامت ہیں اس لیے جنت حاصل کرنے کی غرض سے ہمیں محبوباتِ نفس کوقربان کرنا لازمی ہے ! اگر مال خرچ کرنے کا حکم ہوتو مال قربان کرو ! جان قربان کرنے کا حکم ہو توجان نثارکرو ! عزت کی ضرورت ہوتو وہ بھی قربان کرو ! یہی عشق کی پختگی کی علامت ہے ! !
ایک صحابی حضور اقدس صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے آپ سے محبت ہے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ سوچ کر کہو کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے پھر یہی عرض کیامجھے آپ سے محبت ہے ! آپ نے پھر وہی فرمایا کہ سوچ کرکہو کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے تیسری بار بھی عرض کیا مجھے آپ سے محبت ہے !
تو آپ نے فرمایا کہ تیار ہوجائو مصیبتیں جھیلنے کے لیے فقروفاقہ کی زندگی بسر کرنے کو اور آفتیں سہنے کو !
ظاہر بات ہے کہ عاشق اپنی محبت کا ثبوت اُس وقت تک نہیں دے سکتا جب تک مصیبتیں نہ جھیلے ! اس لیے ارشاد ہے :
( اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ) ٢
'' کیا لوگوں کا خیال ہے کہ محض اتناکہنے سے چھٹکارا ہوجائے گا کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی''
١ سُورة التوبة : ١١١ ٢ سُورة العنکبوت : ٢
( وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ) ١
''حالانکہ ہم نے آزمایا ان سے پہلے لوگوں کو پس ضرور معلوم کر لے گااللہ تعالیٰ سچے لوگوں کو اور ضرور معلوم کرلے گاجھوٹوں کو''
صورت اصل ، رُوح تابع :
غرض اصل بیان یہ تھا کہ جس طرح اعمال کی رُوح ضروری ہے اسی طرح ان کی صورت بھی مطلوب ہے ! اس لیے کہ دنیا میں صورت اصل ہے اور رُوح اس کے تابع ! تو اب یہ بات واضح ہوگئی کہ دنیا میں جس طرح ہر چیز کی بقاء کے لیے صورت کی ضرروت ہے اسی طرح اعمالِ شرعیہ کی رُوح کی بقاء کے لیے اِن کے جسم اور صورت کی ضرورت ہے !
اشکال کا جواب :
اگر کوئی شخص کہے کہ اعمال میں اصل تورُوح ہے اس لیے رُوح کو لے لو اور صورت کو چھوڑ دو تو اُس کوچاہیے کہ یہ عمل اپنے اُوپر جاری کرے پہلے اپنے بدن کو ختم کردے اورخود کشی کرلے کہ بس میں تو اپنی رُوح کو باقی رکھوں گا ! ورنہ اگر خود بغیر صورت کے نہیں رہ سکتے تو پھر اعمالِ شرعیہ میں آخر کیوں یہ عملِ جراحی کیا جاتا ہے ٢ ؟ ؟ ! !
اعمال کی رُوح کا نام ؟
جیسا کہ شروع میں معلوم ہو چکا ہے کہ کائنات میں جس طرح مجموعہ بدن کے لیے مجموعہ رُوح ہے اسی طرح ہر ہر چیز کی علیحدہ علیحدہ رُوح بھی ہے جیسے آنکھ میں قوتِ بینائی اس کی رُوح ہے وغیرہ اسی طرح سارے مجموعہ اعمال کی رُوح ہے اور پھر ہر ہر عمل کی علیحدہ علیحدہ رُوح ہے اور اس رُوح کا نام '' تَقْوٰی''ہے چنانچہ قربانی کے متعلق ارشاد ہے :
( لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآئُ ھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ) ٣
''یعنی خدا تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اورخون نہیں پہنچتالیکن تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے''
١ سُورة العنکبوت : ٣ ٢ کانٹ چھانٹ ٣ سُورة الحج : ٣٧
تو قربانی کی رُوح بھی تقویٰ ہے ! سواگر کوئی یہ کہے کہ جب قربانی سے تقویٰ مقصود ہے تو پھر قربانی کی کیا ضرورت ہے بلکہ تقوٰی اختیار کرلو ! تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ پھر سارے اسلام کو چھوڑ کر بس تقویٰ ہی اختیارکر لو کیونکہ روزہ کے متعلق ارشاد ہے :
( کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) ١
''اے ایمان والوں فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیز گار ہوجائو'' تو روزہ کا حاصل بھی تقوی ہی ہے !
نماز کے متعلق ارشاد ہے ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَ الْمُنْکَرِ ) ٢
''نماز بے حیائی اوربرے کاموں سے روکتی ہے''
پھر ارشاد ہے :
( لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰئِکَةِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَی الزَّکٰوةَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) ٣
''سارا کمال اِسی میں نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلویا مغرب کو لیکن کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور کتب پر اور پیغمبروں پر ! اور مال دیتا ہو اللہ کی راہ میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اورمسافروں اور سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے والوں کو جونماز کی پابندی رکھتاہو اور زکٰوة بھی ادا کرتا ہو ! اور جواَشخاص اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں جب عہد کریں ! اور وہ لوگ مستقل رہنے والے ہوں تنگدستی میں بیماری میں اور قتال میں یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں ''
١ سُورة البقرة : ١٨٣ ٢ سُورة العنکبوت : ٤٥ ٣ سُورة البقرة : ١٧٧
لیجیے سارے اسلام کا حاصل تقویٰ نکلا اس لیے سب کو چھوڑ کر تقویٰ اختیار کرلیجیے، لیکن یہ بالکل غلط ہے اس لیے کہ جس طرح ہر ہر جزوکی رُوح علیحدہ ہے اسی طرح ہر عبادت کا تقویٰ جداگانہ ہے توجو تقویٰ گوشت پوست کے ذریعے پہنچتا ہے اور حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسری عبادت سے کیسے حاصل ہو سکتا ہے ؟ مثلاً زید کی رُوح کو گدھے کے قالب میں اگر منتقل کردیا جائے تب بھی وہ زید نہ بنے گا بلکہ گدھا ہی رہے گا اسی طرح صدقہ صدقہ ہی رہے گا ،قربانی کا قائم مقام اسے کیسے کیا جاسکتا ہے ! تو دنیا میں تو بغیر صورت کے چارہ نہیں اس لیے قربانی کرنی ہی پڑے گی ! ہاں آخرت میں پہنچ کر آپ قربانی نہ کریں کیونکہ صورت ضروری نہیں لیکن دنیا میں اگر آپ نے اعمال کی صورت کو ترک کردیا تو یقین رکھیے کہ آپ نے اس کی رُوح کو بھی فنا کردیا ! ! اسی لیے نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے :
مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ الَّنْحِر اَحَبَّ اِلَی اللّٰہ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ
یعنی بقر عید کے روز سب سے زیادہ محبوب قربانی ہے ! تو اس روزسوائے اس عمل کے دوسرا عمل کیسے اُس کا قائم مقام ہوسکتا ہے ؟ اور حدیث میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا :
یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ھٰذِہِ الْاَضَاحِیْ یعنی یہ قربانیاں کیا چیز ہیں ؟
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
سُنَّةُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے
صحابہ نے استفسار کیا :
فَمَا لَنَا فِیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ یا رسول اللہ! اس سے ہمارا کیا فائدہ ہے
آپ نے ارشاد فرمایاکہ
بِکُلِّ شَعْرَةٍ حَسَنَة ١ قربانی کے ہر بال پر نیکی ملے گی
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الصلٰوة رقم الحدیث ١٤٧٦
قربانی کی حقیقت :
اصل میں قربانی کی حقیقت تو یہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتا مگر خدا تعالیٰ کی رحمت دیکھئے کہ اُن کو یہ گوارا نہ ہوا اس لیے حکم دیا کہ تم جانور کو ذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے اپنے آپ کو قربان کردیا چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے خواب کے ذریعے بشارت دی کہ آپ اپنے اکلوتے بیٹے اسمٰعیل کی قربانی پیش کریں !
اب دیکھیے یہ حکم اوّل تو اولاد کے بارے میں دیاگیا ! اور اولاد بھی کیسی اور فرزندبھی ناخلف نہیں بلکہ نبی ٔ معصوم ! ایسے بچہ کو قربان کرنا بڑا مشکل کا م ہے ! ! حقیقت میں انسان کو اپنی قربانی پیش کرنا آسان ہے مگر اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد کو ذبح کرنا بڑا سخت اور مشکل کام ہے ! مگر حکمِ خدا وندی تھا اس لیے آپ نے بیٹے کی محبت کو پس ِپشت ڈالا اور حکمِ خداوندی کے آگے سرجھکا دیا اور حضرت اسمٰعیل کو لے کر منٰی کے مَنْحَرْ ١ میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ بیٹا مجھے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو ذبح کردُوں تو حضرت اسمٰعیل نے فوراً فرمایا اِفعَلْ مَا تُؤمَر یعنی جو آپ کو حکم ہوا وہ ضرور کیجئے ! !
اگر میری جان انہیں چاہیے تو ایک جان کیا ہزارجانیں بھی ہوں تو نثار ہیں ! چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رسیوں سے ان کے ہاتھ پائوں باندھے ،چھری تیز کی ! اب بیٹا خوش ہے کہ میں خدا کی راہ میں قربان ہو رہا ہوں اِدھر باپ خوش ہے کہ میں اپنی قربانی پیش کررہا ہوں ! چنانچہ حکمِ خداوندی کی تعمیل میں اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلائی تو چھری کند ہوگئی ! اور اُس وقت حکم ہوا
( قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ) ( سُورة الصفّٰت : ١٠٥ )
''بیشک آپ نے اپنا خواب سچا کردکھایا ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں ''
اوراب ہم اس کے عوض جنت سے ایک مینڈھا بھیجتے ہیں اور تمہارے بیٹے کی جان کے عوض ایک دوسری جان کی قربانی مقرر کرتے ہیں چنانچہ اُسی دن سے گائے ،مینڈھا یا بکری وغیرہ قربانی کے لیے فدیةً مقرر ہوگیا ! ! !
١ ذبح کرنے کی جگہ
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ذبیحہ ١ کا اصل مقصد جان کو پیش کرنا ہے ! چنانچہ اس سے انسان میں جان سپاری اور جان نثاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہی اس کی رُوح ہے تو یہ رُوح صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی ؟ کیونکہ قربانی کی رُوح تو جان دینا ہے اور صدقہ کی رُوح مال دینا ہے ! ! !
پھر اس عبادت کا صدقہ سے مختلف ہونا اس طرح بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ کا کوئی دن مقررنہیں ! مگر اِس کے لیے ایک خاص دن مقرر کیا گیا اور اس کا نام '' یَوْمُ النَّحْرِ''یعنی عیدالاضحٰی یعنی قربانی کا دن رکھا گیا جہاں تک قربانی کے مسئلہ کا تعلق ہے تو یہ سلفاً خلفاً ایسی ہی ہوتی چلی آئی، انبیاء کا بھی اور اُمت کا بھی اس پر اجماع ہے ! !
یہود و نصاریٰ جن اَنبیاء کو مانتے ہیں اُن کے ہاں بھی قربانی تھی :
انبیاء بنی اسرائیل میں سب کے یہاں قربانی تھی ائمہ کرام کا بھی اس پر اجماع ہے یہ اور بات ہے کہ امام شافعی ،امام احمد بن حنبل اور امام ابویوسف ان سب کے یہاں قربانی سنت ہے اور امام ابوحنیفہ وغیرہ کے نزدیک واجب ہے اس حکم میں ائمہ کے اختلاف اور دقائق ہیں مگر قربانی میں سب متفق ہیں ! !
اور اگر یہ کوئی غیر شرعی عمل ہوتا تو احادیث میں اس کی صفات وغیرہ کیوں بیان کی جاتیں چنانچہ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ ہم کو حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے ہدایت فرمائی اَنْ نَشْرِفَ الْعَیْنَ وَالْاُذُنَ یعنی ہم قربانی کی آنکھ اور کان دیکھ بھال کر لیا کریں !
وَاَنْ لَّا نُضَحِّیَ بِمَقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا شَرْقَآئَ وَلَا خَرْقَآئَ ہم نہ قربانی کریں ایسے جانور کی جس کا کان آگے سے کٹا ہوا ہو اور پیچھے سے کٹا ہوا ہو اور نہ چِراہوا ہو اور نہ جس کے کانوں میں سوراخ ہو !
اور اس کے علاوہ بھی بعض اوصاف مذکور ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے احکام صدقہ سے بالکل جداگانہ ہیں ! اس لیے اس میں صدقہ کے احکام سے پرہیز کرنا ضروری ہے پھر ساری اُمت آج تک بلااختلاف اس عمل کو کرتی چلی آئی اور تعامل سب سے بڑی دلیل ہے ! ! !
( مطبوعہ ماہنامہ انوار مدینہ جنوری ١٩٧١ و جنوری ٢٠٠٤ء )
١ جو جانور ذبح کیا جائے
تربیت ِ اولاد قسط : ٣
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ !
اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
بعض اولاد وَبالِ جان اور عذاب کا ذریعہ ہوتی ہے :
یاد رکھو جس طرح اولاد ہونا نعمت ہے اسی طرح نہ ہونا بھی نعمت ہے بلکہ جس کے نہ ہوئی ہو یا جس کے ہوکر مرگئی ہو اُس کو اور بھی زیادہ شکر کرنا چاہیے !
صاحبو ! آج کل کی تو اولاد عمومًا خداسے غافل رہنے والی ہوتی ہے پس جس کے نہ ہو وہ شکر کرے کہ اللہ تعالیٰ نے سب فکروں سے آزاد کیا ہے اُن کو چاہیے کہ اطمینان سے اللہ تعالیٰ کو یاد کریں ! بعض لوگوں کے لیے اولاد عذابِ جان ہوجاتی ہے جیسے منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
( وَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَلَا اَوْلَادُھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الدُّنْیَا ) ١
''اے محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم) آپ کو اِن کے مال اور اَولاد اچھے معلوم نہ ہوں اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتے ہیں کہ اِن مالوں اور اَولادوں کی وجہ سے اُن کو اِس دُنیا میں عذاب دیں ''
١ سُورة التوبة : ٨٥
واقعی بعض لوگوں کے لیے اولاد وَبالِ جان ہی ہوجاتی ہے ! بچپن میں تو اُن کے پیشاب پاخانہ میں نمازیں برباد کرتے ہیں جب بڑے ہوجاتے ہیں تو اُن کے لیے طرح طرح کی فکریں ہوجاتی ہیں کہ ان کے لیے جائیداد ہوروپیہ ہو اور گھر ہو خواہ دین رہے یا نہ رہے ! لیکن جس طرح بن پڑے گا ان کے لیے دُنیا سمیٹیں گے اور ہر وقت اِسی دُھن میں رہیں گے ! حلال وحرام میں بھی کچھ تمیز نہ کریں گے پس ایسی اولاد کا نہ ہونا ہی نعمت ہے جن لوگوں کے اولاد نہیں اُن پر خدا کی بڑی نعمت ہے اگر اَولاد ہوتی تو اُن کی کیا حالت ہوتی، واللہ اعلم !
جن کی صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں اُن کی تسلی کے لیے ضروری مضمون :
حضرات ! آپ کو خوب یادہوگا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو قتل کردیا تھا اُس کے لیے اور اُس کے والدین کے لیے (اس میں بڑی )مصلحت بھی تھی ! روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس لڑکے کے قتل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس کے والدین کو ایک لڑکی دی جس کی اولاد میں انبیاء علیہم السلام پیدا ہوئے ! تو بتلایئے اگر آگے لڑکا ہوتا اورویسا ہی ہوتا جیساوہ لڑکا تھا جسے حضرت خضر علیہ السلام نے مار ڈالاتھا تو آپ کیا کر لیتے ؟ !
یہ خدا کی بہت بڑی مصلحت ہے کہ اُس نے آپ کو لڑکیاں دیں کیونکہ عموماً لڑکیاں خاندان کو بدنام نہیں کیا کرتیں اور والدین کی اطاعت بھی خوب کرتی ہیں اور لڑکے تو آج کل ایسے آزاد ہوتے ہیں کہ خدا کی پناہ اُن کے ہونے سے تو نہ ہونا ہی بھلاتھا ! اب آج کل اگر حضرت خضر علیہ السلام ایسے کو نہیں مارتے تو اللہ میاں تو ذبح کرسکتے ہیں اور اللہ کا پیدا نہ کرنا (یا پیدا کرکے موت دے دینا ) یہ بھی ایک گو نہ ذبح کرنے کے مثل ہے ! اور جس کو اللہ تعالیٰ کچھ بھی اولاد نہ دیں نہ لڑکا نہ لڑکی اُس کے لیے یہی مصلحت ہے کیونکہ بندوں کے مصلحتوں کو اُن سے زیا دہ اللہ جانتے ہیں (دیکھیے آج ایک شخص بے فکری سے دین کے کام میں لگا ہوا ہے کیونکہ اُس کے اولاد نہیں )
اولاد کے پس ِپشت مصیبتیں اور پریشانیاں :
عورت کے لیے توبچے کا ہونا سخت مصیبت ہے ! لوگ کہا کرتے ہیں کہ عورت دوبارہ جنم لیتی ہے مگر مرد کے لیے بھی کم مصیبت نہیں ہے کہ زچہ کی خبرگیری، گوند سونٹھ گھی وغیرہ کے لیے خرچ کی ضرورت ہوتی ہے اور بچہ صاحب جو تشریف لائے ہیں وہ مانند پھول اور پان کے ہیں (یعنی نہایت کمزور) ذراسے میں کملاجاتے ہیں ، سرد ہو الگ گئی تو اَینٹھ گئے اور گرم ہوا لگ گئی (یعنی لُولگ گئی) تو بھڑک اُٹھے ، کبھی رونا شروع ہوا تو روئے ہی جاتے ہیں اور یہ پتا نہیں چلتا کہ کیوں رو تے ہیں ! بچہ حیوان بے زبان ہوتا ہے اپنا دُکھ بیان نہیں کر سکتا، علاج بھی قرائن اور قیاس سے (یعنی اندازے سے) کیا جاتا ہے ! کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ پیٹ میں درد ہے اس واسطے روتاہے لہٰذا گٹھی دی جاتی ہے ! اور کبھی خیال ہوتا ہے کہ کان میں درد ہے اس کے واسطے تمباکو کی پیک کان میں ڈلوائی جاتی ہے ! یہ تکلیفیں تو وہ ہیں جو معمولی سمجھی جاتی ہیں ان کی تدبیریں عورتیں خود ہی کرلیتی ہیں ! !
اور کبھی ایسی بیماریاں بچوں کو ہوتی ہیں کہ جو گھر والوں کو سمجھ میں نہیں آتیں اور بڑے بڑے قابل اور تجربہ کار حکیموں اور ڈاکٹروں کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور ذرا سے بالشت بھر کے آدمی کے لیے ہزاروں روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے اُس وقت تارے نظر آتے ہیں (دماغ چکرا جاتے ہیں ) اور بے ساختہ آدمی کہہ اُٹھتا ہے کہ پہلی اولاد ہوئی تو ہمیں ماردیا بھلے مانس اس کا کیا قصور ہے تو ہی نے تو اِسے بلایا ہے !
غرض کہیں ناک دُکھ رہی ہے، کہیں آنکھ دُکھ رہی ہے ،ذرا ساجی اچھا ہوتا ہے تو اپنی جان میں بھی جان آجاتی ہے اور جب اس کی طبیعت خراب ہوتی ہے تواپنی زندگی بھی تلخ ہوجاتی ہے بَیْنَ الرَّجَائِ وَالْخَوْفِ یعنی اُمید اور خوف کے درمیان کی زندگی کا لطف آتاہے(اور درجات کی ترقی ہوتی ہے) ! !
خیر خدا خدا کرکے لڑکا بڑا ہوا تو اَب اُس کی شادی ہوئی پھر اُس کی اولاد ہوئی پھر اُس کے اولاد ہوئی اور سارا دَندھا اَز سرنو شروع ہوا ! جن تکلیفوں سے خدا خدا کر کے کچھ نجات پائی تھی اب پھر اُن کا آغاز ہوا ! اگر اُس کی اولاد نہ ہوئی تو اُس کا غم کہ اولاد کیوں نہیں ہوتی ؟ اور اگر ہوئی بھی تو وہ بھی سب سازو سامان لائی یعنی وہی گُوہ مُوت ! یہ عیش وآرام ہے دُنیا کے، یہ اشغال ایسے ہیں کہ جن سے کوئی بھی خالی نہیں حتی کہ لوگوں کی طبیعتیں ان سے ایسے مانوس ہوگئی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوں تو طبیعت گھبراتی ہے کہ کوئی شغل نہیں ۔ (جاری ہے)
قربانی کے مسائل
( حضرت مولاناڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب )
قربانی کس پر واجب ہے ؟
مسئلہ : جس پر صدقہ فطر ١ واجب ہے اُس پر بقر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہوتو اُس پر قربانی واجب نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر کردے توثواب ہے !
مسئلہ : قربانی فقط اپنی طرف سے کرنا واجب ہے، اولاد کی طرف سے واجب نہیں بلکہ اگر نابالغ اولاد مالدار بھی ہوتو تب بھی اُس کی طرف سے کرنا واجب نہیں نہ اپنے مال میں سے نہ اُس کے مال میں سے کیونکہ اُس پر واجب ہی نہیں ہوتی،لیکن اگر باپ اپنے مال میں سے اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے کر دے تو مستحب ہے ! بیوی اور بالغ اولاد مالدار ہو تو اُن کو اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے !
مسئلہ : بیوی اوربالغ اولاد مالدار ہو اور شوہر بیوی کے لیے اوروالدبالغ اولاد کے لیے اپنے پاس سے قربانی کے جانور لادے تاکہ وہ قربانی کرسکیں تو جائز ہے !
مسئلہ : جو بیٹا باپ کے ساتھ باپ کے کاروبار میں لگا ہو اور کاروبار میں اُس کا اپنا حصہ اور ملکیت کچھ نہ ہوتو اگر اِس کے علاوہ بیٹے کے پاس قربانی کا نصاب ہوتو اُس پر قربانی واجب ہو گی اور اگر نہیں ہے تو قربانی واجب نہیں ہوگی !
مسئلہ : عورت کے پاس کچھ مال نہ ہو لیکن اُس نے نصاب کے بقدرِ مہر شوہر سے ابھی لینا ہو تو اگر
١ صدقہ فطر ہر اُس مسلمان پر واجب ہے جس پر زکٰوة فرض ہے یا زکٰوة توفرض نہیں لیکن نصاب کے برابر قیمت ( آج مورخہ ٢٧ مئی ٢٠٢٣ء کے مطابق ایک لاکھ پچپن ہزار روپے ) کا اورکوئی مال اُس کی حاجاتِ اَصلیہ سے زائد اُس کے پاس ہے چاہے اُس نے روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں ۔
مہر معجل ہو اور شوہر مالدار ہوتوعورت پر قربانی واجب ہے اور اگرمہر معجل ہو لیکن شوہر فقیر ہے یا مہرہی موجل ہو خواہ شوہر مالدار ہو یا فقیر ہوتو عورت پر قربانی واجب نہیں !
مسئلہ : اگر پہلے اتنا مالدار نہ تھا اس لیے قربانی واجب نہ تھی پھر بارہویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے کہیں سے مال مِل گیا تو قربانی کرناواجب ہے !
قربانی مقیم پر واجب ہوتی ہے مسافر پر نہیں :
مسئلہ : قربانی کے تینوں دن اقامت کا ہونا شرط نہیں ہے دسویں گیارہویں تاریخ کو سفر میں تھا پھر بارہویں تاریخ کو سورج ڈوبنے سے پہلے گھر پہنچ گیا یا پندرہ دن کہیں ٹھہرنے کی نیت کرلی تو اب قربانی کرنا واجب ہوگیا !
مسئلہ : دسویں تاریخ کو گھر میں تھا پھر گیارہویں کو سفرمیں چلا گیا اور بارہویں کو سورج ڈوبنے سے پہلے گھر آگیا تو قربانی واجب ہوگی !
مسئلہ : اگر مالدار قربانی کے دن گزرنے سے پہلے سفر پر چلا گیااورباقی وقت سفرمیں گزرا تو اس سے قربانی ساقط ہے !
مسئلہ : جو شخص حج پر گیا اور حساب سے شرعی مسافر بنتا ہو اُس پر قربانی واجب نہیں مثلاً ایک شخص ٢٥ ذیقعدہ کو مکہ مکرمہ پہنچا، اب چونکہ منٰی و عرفات جانے میں پندرہ دن سے کم ہیں اس لیے یہ شخص مکہ مکرمہ میں اقامت کی نیت بھی کرلے تب بھی مقیم نہیں مسافر ہی رہے گا اس لیے خواہ یہ شخص حج سے پہلے مدینہ منورہ جائے یا نہ جائے ١٢ ذی الحجہ تک یہ مسافر رہے گا اور اس پر قربانی واجب نہ ہوگی !
قربانی کا وقت :
مسئلہ : ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کے سورج ڈوبنے سے پہلے تک قربانی کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے لیکن قربانی کا سب سے بہتر دن دسویں کا ہے پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ !
مسئلہ : دسویں تاریخ کو شہر والوں کے لیے قربانی کا مستحب وقت عید کی نماز اور خطبہ کے بعد ہے جبکہ گائوں والوں کے لیے کہ جس میں عید کی نماز نہیں ہوتی سورج طلوع ہونے کے بعد ہے !
مسئلہ : گائوں والوں کے لیے دسویں تاریخ کوفجر کی نماز کے بعدبھی قربانی کرناجائز ہے !
مسئلہ : امام عید کی نماز پڑھا چکا لیکن ابھی خطبہ نہیں پڑھا کہ کسی نے قربانی کردی تو قربانی جائز ہے !
مسئلہ : امام کے نماز پڑھانے کے دوران قربانی کی تو قربانی نہیں ہوگی !
مسئلہ : امام نے نماز پڑھائی پھر لوگوں نے قربانی کی اُس کے بعد پتہ چلا کہ امام کا وضو نہ تھا اور امام نے بِلا وضو عید کی نماز غلطی سے پڑھادی تھی تو قربانی ہوگئی اِعادہ کی ضرورت نہیں !
مسئلہ : اگر کسی عذر سے یا بِلا عذر پہلے دن یعنی دسویں کو عید کی نماز نہیں ہوئی تو سورج کے زوال سے پہلے قربانی جائز نہ ہوگی البتہ زوال کے بعد جائز ہوگی اور دوسرے دن جب عید کی نماز پڑھی جائے تو نماز سے پہلے بھی قربانی جائز ہے !
مسئلہ : اگر عید کی نماز ہوئی اور پھر لوگوں نے قربانی کی، بعد میں یہ بات ظاہر ہوئی کہ وہ دن دسویں کا نہیں نویں ذی الحجہ کا ہے اور چاند دیکھنے میں غلطی ہوگئی تھی تو اگر باقاعدہ گواہی سے چاند کے ہونے کا اعلان کیا گیا تھا تو نماز اور قربانی دونوں جائز ہیں اِعادہ کی ضرورت نہیں !
مسئلہ : دسویں سے بارہویں تک جب جی چاہے قربانی کرے چاہے دن میں چاہے رات میں لیکن رات کو ذبح کرنا مکروہِ تنزیہی ہے شاید کوئی رگ نہ کٹے اور اندھیرے میں پتہ نہ چلے اور قربانی درست نہ ہو !
مسئلہ : اگر کوئی شہر کا رہنے والا اپنی قربانی کا جانور کسی گائوں میں بھیج دے تو وہاں اُس کی قربانی عید کی نماز سے پہلے بھی درست ہے اگرچہ وہ خود شہرہی میں موجود ہو، ذبح ہو جانے کے بعد اُس کو منگوالے اور گوشت کھائے !
قربانی کے جانور :
مسئلہ : بکرا ، بکری ، بھیڑ ، دُنبہ ، گائے، بیل ، بھینس ، بھینسا ، اُونٹ ، اُونٹنی ان جانوروں کی قربانی درست ہے ان کے علاوہ کسی اورجانور کی قربانی درست نہیں !
مسئلہ : بکری سال بھر سے کم کی درست نہیں جب پورے سال بھر کی ہوتب قربانی درست ہے اور گائے بھینس دوبرس سے کم کی درست نہیں ،پورے دو برس کی ہوچکے تب قربانی درست ہے اور اُونٹ پانچ برس سے کم کادرست نہیں ہے !
تنبیہ : بکری جب پورے ایک سال کی ہوجاتی ہے اورگائے جب پورے دو سال کی ہوجاتی ہے اور اُونٹنی جب پورے پانچ سال کی ہو جاتی ہے تواُس کے نچلے جبڑے کے دُودھ کے دانتوں میں سے سامنے کے دودانت گر کر دوبڑے دانت نکل آتے ہیں ، نر اورمادّہ دونوں کا یہی ضابطہ ہے تو دوبڑے دانتوں کی موجودگی جانور کے قربانی کے لائق ہونے کی اہم علامت ہے لیکن اصل یہی ہے کہ جانور اِتنی عمر کا ہو، اس لیے اگر کسی نے خود بکری پالی ہواور وہ چاند کے اعتبار سے ایک سال کی ہو گئی ہو لیکن اُس کے دو دانت ابھی نہ نکلے ہوں تو اُس کی قربانی درست ہے لیکن محض عام بیچنے والوں کے قول پر کہ یہ جانور پوری عمر کا ہے اعتماد نہیں کرلینا چاہیے اور دانتوں کی مذکورہ علامت کو ضروردیکھ لینا چاہیے !
مسئلہ : دُنبہ یا بھیڑ اگر اتنا موٹا تازہ ہوکہ سال بھر کے جانوروں میں رکھیں تو سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو سال بھر سے کم لیکن چھ ماہ سے زائد عمر کے دُنبہ اوربھیڑ کی قربانی بھی درست ہے ! اور اگر ایسا نہ ہو تو سال بھر کا ہونا چاہیے !
مسئلہ : گائے ، بھینس ، اُونٹ میں اگر سات آدمی شریک ہو کر قربانی کریں تو بھی درست ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو اورسب کی نیت قربانی کرنے کی یا عقیقہ کی ہو صرف گوشت کی نیت نہ ہو، اگر کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگا تو کسی کی قربانی درست نہ ہوگی مثلاً آٹھ آدمیوں نے مِل کر ایک گائے خریدی اور اُس کی قربانی کی تو درست نہ ہوگی کیونکہ ہر ایک کا حصہ ساتویں سے کم ہے، اسی طرح ایک بیوہ اوراُس کے لڑکے کو ترکہ میں گائے مِلی، اس مشترکہ گائے کی قربانی کی تو درست نہیں ہوئی کیونکہ اِس میں بیوہ کا حصہ ساتویں سے کم ہے !
مسئلہ : گائے اُونٹ میں بجائے سات حصوں کے صرف دوحصے ہوں یعنی دو آدمی مِل کر ایک گائے یا اُونٹ ذبح کریں اوراِس طرح دونوں میں سے ہرایک کے حصہ میں ساڑھے تین حصے ہوتے ہوں تو یہ جائز ہے کیونکہ دونوں میں سے کسی کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہے، اسی طرح اگر تین یا چار یا پانچ یا چھ آدمی مِل کر ایک گائے کی قربانی کریں تو جائز ہے !
قربانی کا گوشت اور کھال :
مسئلہ : افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرے، ایک حصہ اپنے لیے رکھے، ایک حصہ اپنے رشتے داروں اوردوستوں کے لیے اورایک حصہ فقراء پر صدقہ کرے ! اگر کوئی زیادہ حصہ فقراء پر صدقہ کردے تو یہ بھی درست ہے اور اگر اپنی عیالداری زیادہ ہے اس وجہ سے سارا گوشت اپنے گھر میں رکھ لیا تو یہ بھی جائز ہے !
مسئلہ : قربانی کا گوشت فروخت کرنا جائز نہیں ، اگر کسی نے فروخت کردیاتو اُس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے !
مسئلہ : قربانی کی کھال یا تو یونہی خیرات کردے یا اُس کو فروخت کرکے اُس کی قیمت صدقہ کردے !
مسئلہ : گوشت یا کھال کی قیمت کو مسجد کی مرمت یا کسی اورنیک اور رفاہی کام میں لگانا جائز نہیں ، صدقہ ہی کرنا چاہیے !
مسئلہ : جس طرح قربانی کا گوشت غنی کو دینا جائز ہے اسی طرح کھال بھی غنی کودینا جائز ہے جبکہ اُس کو بِلا عوض دی جائے اُس کی کسی خدمت وعمل کے عوض میں نہ دی جائے، غنی کی مِلک میں دینے کے بعد وہ اگر اُس کو فروخت کرکے اپنے استعمال میں لانا چاہے تو جائز ہے !
مسئلہ : قربانی کا گوشت اور اُس کی کھال کافر کو بھی دینا جائز ہے بشرطیکہ اُجرت نہ دی جائے !
مسئلہ : گوشت یا چربی یا کھال قصائی کو مزدوری میں نہ دے بلکہ مزدوری اپنے پا س سے الگ دے !
مسئلہ : سات آدمی گائے میں شریک ہوں اور آپس میں گوشت تقسیم کریں تو تقسیم میں اَٹکل سے کام نہ لیں بلکہ خوب ٹھیک ٹھیک تول کر بانٹیں کیونکہ کسی حصہ کے کم یا زیادہ ہونے میں سود ہوجائے گا
خواہ شریک اِس پر راضی بھی ہوں اورجس طرف گوشت زیادہ گیا ہے اُس کا کھانا بھی جائز نہیں البتہ اگر گوشت کے ساتھ سری پائے اور کھال کو بھی شریک کرلیا تو جس طرف سری پائے یاکھال ہو اُس طرف اگرگوشت کم ہو تو درست ہے چاہے جتنا کم ہو، جس طرف گوشت زیادہ ہو اُس طرف سری پائے بڑھائے گئے تو اب بھی سود رہا !
مسئلہ : اگر ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہیں اور وہ سب آپس میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ ایک ہی جگہ کچایاپکا کر فقراء واَحباب میں تقسیم کریں تو یہ بھی جائز ہے !
مسئلہ : تین بھائی یا زیادہ یعنی سات تک بھائی ایک گائے میں شریک ہوں اور کہیں کہ اپنی اپنی ضرورت کا گوشت لے لو اور باقی فقراء پر تقسیم کردو تو یہ جائز نہیں بلکہ یا تو پہلے کچھ فقراء کو دے کر پھر باقی کو برابر برابر تقسیم کرلیں یا پہلے برابربرابر تقسیم کریں پھر ہر ایک اپنے حصہ میں سے فقراء کودے !
متفرق مسائل :
مسئلہ : اُونٹ میں نحراَفضل ہے اورذبح بھی جائزہے جبکہ گائے بکری میں ذبح مستحب ہے !
مسئلہ : تنہا ایک شخص پوری گائے ذبح کرے تو پوری گائے ایک قربانی ہوکرکُل کی کُل واجب ہوئی !
مسئلہ : اپنی قربانی کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے،اگر کوئی خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو یااِس کی ہمت نہ ہوتی ہو تو کسی اورسے ذبح کرالے اورذبح کے وقت جانور کے سامنے کھڑا ہونا بہتر ہے !
مسئلہ : قربانی کرتے وقت زبان سے نیت کہنا اور دُعا پڑھنا ضروری نہیں ، اگر دل میں خیال کرلیا کہ میں قربانی کرتا ہوں اورزبان سے کچھ نہیں پڑھا فقط زبان سے بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر ذبح کردیا تو بھی قربانی درست ہو گئی لیکن اگر یاد ہو تو دُعا پڑھ لینا بہتر ہے !
ذبح سے پہلے کی دُعا : اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ۔
ذبح کے بعد کی دُعا : اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَّخَلِیْلِکَ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْھِمَا الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ
مسئلہ : جس پر قربانی واجب تھی لیکن اُس نے برسوں قربانی نہیں کی تووہ گناہ کی معافی بھی مانگے
اور جتنے سالوں کی قربانی رہ گئی اُس قدر قیمت کا صدقہ کردے !
مسئلہ : قربانی سے پہلے قربانی کے جانور کا دُودھ دوہا ہو یا اُس کی اُون اُتاری ہو تو اُس کو صدقہ کرنا لازم ہے !
مسئلہ : قربانی کی رسی وغیرہ سب چیزیں خیرات کردے ! قسط : ١٤
رحمن کے خاص بندے
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارُالعلوم دیوبند )
زیب و زینت میں اسراف :
اسلام میں بقدر ِضرورت زینت اختیار کرنا منع نہیں ہے جیسا کہ ارشادِ خدا واندی ہے :
( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ) ١
''اے پیغمبر ! آپ فرمادیجئے کہ کس نے حرام کی ہے اللہ کی وہ زینب جو اُس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور صاف ستھری روزی ؟ ''
لہٰذا قصداً زینت کو ترک کرنا اور نامناسب تراش وخراش اور لباس کے ساتھ رہنا (جیسا کہ جو گیوں اور سنیاسیوں وغیرہ کا طریقہ ہے) شریعت میں ہرگز پسند نہیں ہے !
صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
''جس شخص کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا''
تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ''ہم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اُس کا کپڑا اور جوتا شاندار ہو ؟ '' (جو بظاہر تکبر کی علامت قرار دیا جاتا ہے)
تو اِس پر پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا کہ یہ''محض کپڑا اور جوتا اچھا ہونا تکبر نہیں ! کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ تو خود باجمال ہیں اور وہ جمال کو پسند فرماتے ہیں بلکہ تکبر تو یہ ہے کہ آدمی حق بات کا خوامخواہ انکار کرے اور دوسرے لوگوں کو اپنے سے کمتر سمجھے'' ٢
١ سُورة الاعراف : ٣٢
٢ صحیح مسلم رقم الحدیث ٩٨ ، سُنن الترمذی رقم الحدیث ١٩٩٩ ، الترغیب والترہیب رقم ٤٤٨٧
نیز پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ نے ایک سفر سے واپسی کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا :
اِنَّکُمْ قَادِمُوُا عَلٰی اِخْوَانِکُمْ فَاَصْلِحُوْا رِحَالَکُمْ وَاَصْلِحُوْا لِبَاسَکُمْ حَتّٰی تَکُوْنُوْا کَاَنَّکُمْ شَامَة فِی النَّاسِ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ ۔ ١
''تم اپنے بھائیوں کے پاس حاضر ہونے والے ہو اِس لیے اپنے کجاووں اور اپنے لباس کو درست رکھو تاکہ تم لوگوں کے درمیان شناسا اور ممتاز رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پراگندگی اور بدہیئتی پسند نہیں ہے''
اس سے معلوم ہوا کہ خوامخواہ ناگوار لباس میں رہنا کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے بلکہ جس کے پاس وسعت ہو اُسے اچھے اور باوقار اَنداز میں رہنا چاہیے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کا اظہار ہے چنانچہ صحابی رسول سیّدنا حضرت ابو الاحوص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اِن کے والد پیغمبر علیہ السلام کی خدمت میں اس حالت میں حاضر ہوئے کہ اُن کے بال گرد آلود اور ہئیت نہایت خراب تھی تو آپ نے ان سے فرمایا کہ ''کیا تمہارے پاس کچھ مال نہیں ہے ؟ '' تو انہوں نے جواب دیا کہ ''اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال مجھے عطا فرمارکھا ہے '' تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ
فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِذَا أَنْعَمَ عَلٰی عَبْدٍ نِعْمَةً أَحَبَّ أَنْ تُرٰی عَلَیْہِ ٢
'' جب اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے کسی بندہ کو نعمت سے نوازتے ہیں تو یہ چاہتے ہیں کہ
اُس پر نعمت کا اظہار ہو''
اور سیّدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص کو پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے پرا گندہ بال دیکھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ''کیا اِس کے پاس کوئی ایسی چیز (کنگھی وغیرہ) نہیں ہے جس سے وہ اپنے بالوں کو درست کرے ؟ ''
١ ابوداود کتاب اللباس باب ما جاء فی اسبال الازار ج ٢ ص ٥٦٥ ٢ رواہ الطبرانی فی الصغیر ج ١ص ١٧٩ ، الموسوعة الفقھیة ج ١٠ ص ٢١٦ کویت ، ومثلہ فی سُنن ابی داود باب الخلقان وفی غسل الثوب ج ٢ ص ٥٦٢
اور ایک شخص کو آپ نے میلے کپڑوں میں دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ ''کیا یہ شخص کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے کپڑے کو دھوئے ؟ '' ١
اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ طَیِّب یُحِبُّ الطَّیِّبَ نَظِیْف یُحِبُّ النَّظَافَةَ ۔ ٢
''بلا شبہ اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور پاکیزگی کو پسند فرماتے ہیں اور صاف ستھرے ہیں اور نظافت کو پسند فرماتے ہیں ''
اس طرح کی روایات سے صفائی ستھرائی اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوش لباسی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ! ! !
مجلس میں حاضری کے وقت زینت :
خاص طور پر جب آدمی کسی مجلس میں جانے کا ارادہ کرے تو اُسے اپنی وضع قطع اور ہیئت درست کرلینی چاہیے چنانچہ اُم المومنین سیّدتنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے انتظار میں دروازے پر حاضر تھے، جب نبی اکرم علیہ الصلٰوة والسلام نے ان سے ملنے کا ارادہ فرمایا تو گھر میں ایک ٹپ رکھا ہوا تھا جس میں پانی تھا، پس آپ نے اس میں اپنا چہرۂ مبارک دیکھ کر اپنی داڑھی اور سر کے بالوں کو درست فرمایا، پھر باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے تعجب سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا آپ بھی ایسا اہتمام فرماتے ہیں ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا
نَعَمْ ! اِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ اِلٰی اِخْوَانِہ فَلْیُھَیِِّیئْ مِنْ نَفْسِہ فَاِنَّ اللّٰہَ جَمِیْل یُحِبُّ الْجَمَالَ۔ ٣
''جی ہاں ! جب آدمی اپنے بھائیوں سے ملنے جائے تو اُسے اپنے کو سنوار لینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جمال والے ہیں اور جمال کو پسند فرماتے ہیں ''
١ سُنن ابوداود ج٢ ص ٥٦٢ ، الموسوعة الفقہیة ج ١٠ ص ٢١٦ ٢ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٢٧٩٩
و الموسوعة الفقھیة ج ١١ ص ٢٧٤ ٣ اخرجہ السمعانی ، الموسوعة الفقھیة ج ١١ ص ٢٦٥
اسی بناء پر جمعہ اور عیدین میں زیب و زینب کرنے اور اچھا لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے اور پیغمبر علیہ السلام کا معمول مبارک بھی یہی تھا چنانچہ مروی ہے کہ آپ کا ایک خاص جبہ تھا جسے آپ جمعہ اور عیدین میں زیب ِ تن فرمایا کرتے تھے ! ١
علاوہ ازیں نماز کی حالت میں زیب و زینت بجائے خود مطلوب ہے ارشادِ خداوندی ہے
( یٰبَنِی اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) (سُورة الاعراف: ٣١)
'' اے آدم کی اولاد ! مسجد میں حاضری کے وقت اپنی زینت کو اختیار کیا کرو ''
اور پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ فَلْیَلْبَسْ ثَوْبَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ اَحَقُّ مَنْ تَزَیَّنَ لَہ ٢
''جب کوئی آدمی نماز پڑھے تو دونوں کپڑے پہنے کیونکہ اللہ تعالیٰ زینت کیے جانے کے زیادہ حقدار ہیں ''
اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت نافع رحمة اللہ علیہ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ ''کیا تمہارے پاس دو کپڑے نہیں ہیں ؟'' انہوں نے عرض کیا کہ ''جی ہاں موجود ہیں '' تو آپ نے فرمایا کہ ''اگر تمہیں گھر سے باہر کہیں بھیجا جائے تو کیا تم ایک ہی کپڑا پہن کرچلے جاؤگے ؟ '' تو حضرت نافع نے عرض کیا کہ ''نہیں '' (بلکہ دونوں کپڑے پہن کر نکلوں گا) یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ''بتاؤ کیا اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے لیے زینت کی جائے یا لوگ زیادہ حقدار ہیں ؟ '' تو حضرت نافع رحمة اللہ علیہ نے عرض کیا کہ یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ ہی زینت کے زیادہ حقدار ہیں '' ٣
ان روایات وآثار سے معلوم ہوگیا کہ شریعت میں ترکِ زینت بذاتِ خود پسندیدہ نہیں ہے ! !
١ الموسوعة الفقہیة ج ٦ ص١٣٨ ٢ البیھقی ج ٢ ص٣٦ ، الموسوعة الفقھیة ج ١١ ص ٢٦٩
٣ الموسوعة الفقہیة ج ١١ ص ٢٦٩
زینت میں اسراف ممنوع ہے :
البتہ زینت میں حد سے تجاوز اور اسراف شریعت میں پسند نہیں ہے سیّدنا حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ان کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو خاص طور پر یہ ہدایت فرمائی :
اِیَّاکَ وَالتَّنَعُّمَ فَاِنَّ عِبَادَ اللّٰہِ لَیْسُوْا بِالْمُتَنَعِّمِیْنَ ۔ ١
''تم (بتکلّف) ناز و نعم میں پڑنے سے بچتے رہنا کیونکہ اللہ کے بندے نعمتوں میں تکلّفات کرنے والے نہیں ہوتے''
اسی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے عام لوگوں کو سرمایہ داروں کے ساتھ زیادہ اُٹھنے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ان کی وسعت اور فراوانی دیکھ کر آدمی میں خواہ مخواہ اُن کی حرص کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور زندگی بے سکون ہوجاتی ہے اس کے برخلاف فقراء اور مساکین کے ساتھ رہنے میں راحت ہی راحت ہے
عون ابن عبداللّٰہ فرماتے ہیں کہ میں سرمایہ داروں کے ساتھ رہا تو میں نے اپنے سے زیادہ کسی کو فکرمند نہیں پایا اس لیے کہ میں مالداروں کے پاس اپنی سواری سے اچھی سواری اور اپنے کپڑے سے اچھا کپڑا دیکھتا تھا (جس سے مجھے حرص ہوتی تھی) ! پھر میں نے فقراء کے ساتھ روابط قائم کیے تو مجھے سکون مل گیا ! ٢
اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے تراش خراش میں میانہ روی کی تعلیم دیتے ہوئے آدمی کو روزانہ تیل کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے ! ٣
الغرض اسلام عام حالات میں تکلّفات سے منع کرتا ہے اور سادگی اور بے تکلفی کی تلقین کرتا ہے خود نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی زندگی نہایت سادہ اور تکلّفات سے دُور تھی، جب جیسی سہولت ہوئی وسعت کے مطابق زیب وزینت اختیار فرمائی ! گویا کہ نہ تو زینت کو مقصود بنایا اور نہ ہی اس سے بالکل دُوری
١ المُسند للامام احمد ج ٥ ص٢٤٣ ، دارُالفکر بیروت ، شعب الایمان للبہقی ج ٥ ص ١٥٦ رقم الحدیث ٦١٨٧ ، الترغیب الترھیب مکمل رقم الحدیث ٣٢٩٢ ٢ سُنن الترمذی کتاب اللباس ج١ ص ٣٠٧
٣ سُنن ترمذی ج ١ ص ٣٠٥ عن عبداللّٰہ بن مغفل
اختیار کی بلکہ موقع محل اور حالات کے اعتبار سے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے ! !
یہی مزاج صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی تھا چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جو خاص صفات بیان فرمائی ہیں اُن میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ بہت کم تکلف کرنے والے تھے اَقَلَّھَا تَکَلُّفًا ١
اور دیکھا جائے تو بے تکلف زندگی ہی سب سے شاندار زندگی قراردی گئی ہے تکلّفات کے اہتمام سے آدمی غیر محسوس طریقہ پر ایک طرح کی ضیق میں مبتلا ہوجاتا ہے ! اس لیے تمام اہلِ ایمان کو بالخصوص بے تکلف زندگی کی عادت بنانی چاہیے اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں ، آمین۔
وفیات
٢٨ اپریل ٢٠٢٣ء کو جناب محمد سلیم صاحب مختصر علالت کے بعد چائنہ سکیم لاہور میں وفات پاگئے۔
٨ مئی کو جناب حفظ الرحمن صاحب کے تایا حاجی محمد یوسف خان صاحب ربڑی والے طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئے ۔
٢٥ مئی کو جامعہ مدنیہ جدید کے شعبہ تجوید کے اُستاذ مولانا قاری محمد آیاز صاحب کے بہنوئی ثناء اللہ صاحب کو ضلع کرک میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الایمان رقم الحدیث ١٩٣
قسط : ٢
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب
( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ )
اولاد :
جب تک حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زندہ رہیں حضرت سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دُوسرا نکاح نہیں کیا ،آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی نسل حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہی چلی ! آپ کی اولاد میں جو صاحبزادے تھے وہ قبل اَزبلوغ ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تھے اورآپ کی صاحبزادی حضرت اُم کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے توکوئی اولاہی نہیں ہوئی اورحضرت رُقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اورحضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو اولادہوئی تھی اُن سے بھی نسل نہیں چلی ! ١
جس قدربھی سادات ہیں (جن کے فیوض سے مشرق و مغرب مستفیدہے) سب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد ہیں ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کی صاحبزادی سے جونسل چلی وہ آپ کی نسل سمجھی گئی ورنہ عام قاعدہ یہ ہے کہ انسان کی نسل اُس کے بیٹوں سے چلتی ہے اوربیٹی سے جو نسل چلتی ہے وہ اُس کے شوہرکے باپ کی نسل مانی جاتی ہے !
حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے علاوہ جوبھی نبی بھیجااُس کی ذُرّیت اُس کی پشت سے فرمائی اورمیری ذُرّیت اللہ تعالیٰ نے علی رضی اللہ عنہ کی پشت سے جاری فرمائی ! ٢
سب سے پہلے حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیداہوئے ! سیدعالم صلی اللہ عليہ وسلم نے اُن کانام'' حسن'' تجویز فرمایا خودہی اُن کے کان میں اذان دی اورعقیقہ کے روزحضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایاکہ
١ اُسد الغابہ ٢ شرح المواہب للزرقانی
اس کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کردو ! حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وزن کیا تو ایک درہم (چونی بھر) یااُس سے کچھ کم وزن اُترا !
ابوداود اَورنسائی کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ دونوں کاعقیقہ فرمایا ! ١
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت رمضان المبارک ٣ہجری کوہوئی ! بعض نے شعبان ٣ ہجری میں اِن کی ولادت بتائی ہے اوربعض علماء نے ٤ہجری اوربعض نے ٥ ہجری بھی ان کی ولادت بتائی ہے مگراوّل قول ہی ٹھیک ہے۔پھراگلے سال حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ان دونوں سے بہت محبت فرماتے تھے آپ نے فرمایاکہ یہ دونوں دُنیامیں میرے پھول ہیں اور یہ بھی فرمایاکہ یہ دونوں جنت میں جوانوں کے سردار ہیں ! ٢
حضرت سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سینہ سے سرتک حضرت حسن رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے مشابہ تھے اورحضرت حسین رضی اللہ عنہ سینہ سے نیچے نیچے حضور صلی اللہ عليہ وسلم کے مشابہ تھے ! ٣
ان دونوں بھائیوں کے بعدتیسرے بھائی حضرت محسن رضی اللہ عنہ پیداہوئے ! حضورِ اقدس صلی اللہ عليہ وسلم نے ہی یہ نام تجویزفرمایاتھا ! حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں اپنی کنیت اَبوحرب رکھناچاہتاتھا ! جب حسن کی ولادت ہوئی تومیں نے اُس کانام'' حرب'' رکھ دیا ٤ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا دکھاؤ میرا بیٹا کہاں ہے ، تم نے اس کاکیانام رکھا ؟ میں نے عرض کیا'' حرب'' رکھ دیاہے ! آپ نے فرمایا نہیں ، اس کانام'' حسن'' ہے ! پھرجب حسین کی ولادت ہوئی تومیں نے اُس کانام بھی'' حرب'' تجویزکردیا ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ دکھائو میرا بیٹا کہاں ہے، اس کا تم نے کیا نام رکھا ؟ میں نے عرض کیا'' حرب'' نام رکھ دیا ہے ! آپ نے فرمایا نہیں یہ حسین ہے ! پھر جب تیسرا بچہ پیدا ہوا تو اُس کا نام بھی میں نے '' حرب'' تجویز کردیا !
١ مشکٰوة المصابیح باب العقیقہ ص ٣٦٢ ٢ مشکٰوة المصابیح ٣ مشکٰوة المصابیح
٤ حرب کا معنٰی ''جنگ'' ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہادر اور نبرد آزما انسان تھے اُنہوں نے چاہا کہ کسی طرح مجھے ابُوحرب کہا جانے لگے اس لیے ہر مرتبہ آپ نے بچوں کا نام حرب رکھا !
آنحضرتصلی اللہ عليہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا دکھائو میرا بیٹا کہاں ہے ، اس کا تم نے کیا نام رکھا ؟ میں نے عرض کیا کہ '' حرب'' نام رکھ دیا ہے ! فرمایا نہیں ،یہ محسن ہے ! پھر فرمایا کہ میں نے جو اِن کے نام تجویز کیے ہیں یہ تینوں نام ہارون (صلوٰة اللّٰہ وسلامہ علیہ) کے (تینوں ) بچوں کے نام ہیں ! اُن کے ایک بچے کا نام شبر، دُوسرے کا شبیر، تیسرے کا مبشر تھا(حسن، حسین، محسن اِن کا ترجمہ ہے) ١
حضرت سیدہ فاطمہ کے تیسرے صاحبزادے حضرت محسن رضی اللہ عنہ نے بچپن ہی میں وفات پائی ! ٢
حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں :
اوّل حضرت رُقیہ جنہوں نے بچپن میں اِنتقال فرمایا اِسی وجہ سے بعض مؤرخین نے اِن کو لکھا بھی نہیں ہے
دُوسری صاحبزادی حضرت اُم کلثوم تھیں ان کا پہلا نکاح اَمیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا جن سے ایک صاحبزادے حضرت زید اور ایک صاحبزادی حضرت رُقیہ پیدا ہوئیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عون بن جعفر رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا اور اِن سے کوئی اَولاد نہیں ہوئی ! پھر جب اِن کی وفات ہوگئی تو اِن کے بھائی حضرت محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا اِن سے ایک صاحبزادی پیدا ہوئیں جو بچپن ہی میں وفات پاگئیں ! پھر حضرت محمدبن جعفر کے انتقال کے بعد اُن کے بھائی حضرت عبد اللہ بن جعفر سے نکاح ہوا اِن سے بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی اور ان ہی کے نکاح میں حضرت اُم ِکلثوم کی وفات ہوئی اور اُسی روز اُن کے صاحبزادے حضرت زید کی وفات ہوئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پیدا ہوئے تھے !
حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تیسری صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا تھیں ، ان کا نکاح حضرت عبد اللہ بن جعفر سے ہوا تھا جن سے دو صاحبزادے عبد اللہ اور عون رضی اللہ عنہم پیدا ہوئے پھر جب حضرت زینب کی وفات ہوگئی تو حضرت عبد اللہ بن جعفر نے ان کی بہن حضرت اُم کلثومسے نکاح فرمالیا جس کا ذکر ابھی گزرا !
١ جمع الفوائد و مسند امام احمد ٢ المواہب وشرحہ
یہ اولاد (تین لڑکے، تین لڑکیاں ) حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوئیں ان کے علاوہ حضرت علی کی دُوسری بیویوں سے جو بعد میں ان کے نکاح میں آئیں اور بھی اولاد ہوئی !
مؤرخین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تمام اولاد کی تعداد بتیس لکھی ہے جن میں سولہ لڑکے اورسولہ لڑکیاں تھیں ! حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پندرہ لڑکے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئیں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے چھ لڑکے اورتین لڑکیاں پیدا ہوئیں ! (اَز حکایاتِ صحابہ )
رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ وَاَرْضَاہُمْ اَجْمَعِیْنَ وَجَعَلْنَا بِھَدْیِہِمْ مُّتَّبِعِیْنَ
وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَعِلْمُہ اَتَمُّ وَاَحْکَمُ
فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ :
حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی سب سے زیادہ پیاری اور چہیتی صاحبزادی تھیں اِن کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے جنت کی عورتوں کی سردار بتایا ہے ان کی شادی کس سادگی سے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے کی، یہ بہت غور کرنے اور غور کرنے کے بعد اپنی اولاد کی شادیاں اس کے مطابق کرنے کی چیز ہے ! آج جو لوگ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ کے اہلِ بیت علیہم الرحمة والرضوان کی محبت کے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن ان کے اتباع اور اقتداء کو اپنی اور خاندان کی ذلت اور عار سمجھتے ہیں ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے قبول فرمالیا، منگنی کے تمام طریقے جن کا آج کل رواج ہے اِن میں سے کوئی بکھیڑا بھی نہ کیا گیا، یہ طریقے لغو اور سنت کے خلاف ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے خود ہی نکاح پڑھایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ باپ کابیٹی کے نکاح کے وقت چھپے چھپے پھرنا جس کا آج کل دستور ہے یہ بھی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے طریقہ کے خلاف ہے ! ! بہتر یہ ہے کہ باپ خود اپنی بیٹی کا نکاح پڑھ دیوے، مہر بھی تھوڑا سا مقرر کیا گیا، ہزاروں روپے مہر میں مقرر کرنا اور وہ بھی فخر اور بڑائی جتانے کے لیے اور پھر اَدا نہ کرنا اِس میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا اتباع کہاں ہے ؟ جو لوگ مہر زیادہ باندھ دیتے ہیں اور پھر اَدا نہیں کرتے وہ قیامت کے روز بیوی کے قرض دار وں میں ہوں گے ! ! !
حضرت سیّدہ فاطمہ کی رُخصتی صرف اس طرح ہوئی کہ حضرت اُم ایمن کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اُن کو دولہا کے پاس بھیج دیا ! یہ دونوں جہاں کے بادشاہ کی صاحبزادی کی رُخصتی تھی جس میں نہ دھوم دھام ،نہ میانہ، نہ پالکی، نہ روپیوں کی بکھیر ،نہ حضرت علی گھوڑے پر چڑھ کر آئے، نہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اِن سے کمیوں کا خرچ دلوایا، نہ کنبہ برادری کا کھانا کیا ،نہ حضرت علی نے بارات چڑھائی ، نہ آتش بازی کے ذریعہ اپنا مال پھونکا، دونوں طرف سے سادگی برتی گئی ! قرض اُدھار کرکے کوئی کام نہیں کیا ! مسلمانوں کو لازم ہے کہ سردارِ دو جہاں صلی اللہ عليہ وسلم کی پیروی کو نہ صرف اعتقاد سے بلکہ عمل سے بھی ضروری سمجھیں ! ! !
جہیز کتنا مختصر تھا ؟ اس کی تفصیل ہم لکھ چکے ہیں ، نہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے کسی سے قرض اُدھار کرکے جہیز تیار کیا ! نہ اس کی فہرست لوگوں کو دکھائی ! نہ جہیز کی چیزوں کی تشہیر کی گئی ! ہم کو اِس کی پیروی لازم ہے ! ! اگر بیٹی کو کچھ دیں تو گنجائش سے زیادہ کی فکر میں نہ پڑیں اور ضرورت کی چیزیں دیں اور دِکھاوا کرکے نہ دیں کیونکہ یہ اپنی اولاد کے ساتھ احسان ہے دوسروں کو دِکھلاکر دینا یافہرست دکھانا سراسر خلافِ شرع اور خلافِ عقل ہے ! ! !
پھر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے داماد اور بیٹی پر کام کی تقسیم کردی ! ابوداو'د شریف میں ہے کہ سردارِ دوجہاں صلی اللہ عليہ وسلم کی صاحبزادی چکی خود پیستی تھیں اور ہانڈی خود پکاتی تھیں اور جھاڑو خود دیتی تھیں ! آج کل کی عورتیں اس کو عیب سمجھتی ہیں بھلا جنت کی عورتوں کی سردار سے بڑھ کر کون عزت والی ہوسکتی ہے ؟ ؟ ! !
آج کل کے مسلمان کہلانے والے منگنی سے لے کر شادی تک اور پھر اِس کے بچوں کے پیدا ہونے اور ختنہ اور عقیقہ تک فضول رسمیں کرتے ہیں جس میں سے بہت سی شرکیہ رسمیں بھی ہیں اور کافروں سے لی ہیں اور بہت سی رسمیں سودی روپیہ لے کر انجام دیتے ہیں اور اِن رسموں کو کرنے میں نمازیں تک برباد کرتے ہیں اور بے شمار بڑے بڑے گناہوں میں ملوث ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیغمبر صلی اللہ عليہ وسلم کی پیروی کی توفیق بخشیں ، آمین ۔ (جاری ہے)
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب کیمل پوری
( مولانا محمد معاذ صاحب، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور )
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب کی ولادت١٩١٦ء میں کامل پور عالَم علاقہ چھچھ میں ہوئی ١ آپ کے والد کا نام حنیف اللہ جبکہ دادا کا نام مولانا محمد موسیٰ خان ہے ، مولانا موسیٰ خان صاحب مشہور عالم اور بہترین مدرس تھے، دُور دُور سے طلباء آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے آتے تھے !
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب کی ابتدائی تعلیم جماعت چہارم تک موضع غورغشتی میں حضرت حاجی صاحب ترنگزنی کی خلافت کے قائم کردہ ادارہ ''مدرسہ معین الاسلام'' میں ہوئی، چار سال تک غورغشتی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ ابتدائی عربی تعلیم کے لیے علاقہ چغرزئی سوات چلے گئے ، یہاں سے لاہور اور پھر فقہ واُصولِ فقہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے موضع اَنھی ضلع منڈی بہاؤ الدین میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے ٢
دارُالعلوم دیوبند میں داخلہ :
اَنھی شریف سے آپ شوال ١٣٥٣ھ میں اَزہر الہند دارُالعلوم دیوبند تشریف لے آئے آپ کی سند ِ فراغت پر تاریخ ِداخلہ اس طرح درج ہے :
فان الاخ الصالح البار المولوی کریم اللّٰہ بن حنیف اللّٰہ المتوطن دامان من مضافات کیمل پور۔ قد دخل دارالعلوم الدیوبندیة التی ھی مرکز العلوم الدینیة و مدارھا ومنھا ینفجر انھارھا و بحارھا فی الیوم العاشر من شوال المکرم سنة ثلث وخمسین بعد الف و ثلثمائة من الھجرة النبویة
دارُالعلوم دیوبند میں آپ کا قیام دو سال رہا ، پہلے سال میں مشکوة شریف اور فنون کی تکمیلی کتب جبکہ اس سے اگلے سال دورۂ حدیث میں شرکت کی۔ ذیل میں ہم دونوں سالوں میں پڑھی گئی کتب اور اِن میں حاصل کردہ نمبر درج کرتے ہیں ۔
١ دامن اَبا سین، مولفہ سکندر خان ص ٣١٢ ٢ مضمون لالہ سکندر خاں ، اخبار پشاور اشاعت ٣،٤ دسمبر ١٩٩١ء
١٣٥٤ھ : نمبر ٢٧٢ : کریم اللہ کیمل پوری ١
کتاب اُستاذ حاصل کردہ نمبر
اُقلَیدس ٥١
(شرح عقائد) خیالی حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ٢ ٥١
قاضی مبارک حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ٥٠
جمال القرآن حضرت مولانا قاری حفظ الرحمن پرتاب گڑھی ٥٠
مشکٰوة المصابیح حضرت مولانا عبدالسمیع دیوبندی ٤٩
نخبةُ الفکر ٤٨
توضیح التلویح حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ٤٧
مشق حضرت مولانا قاری حفظ الرحمن پرتاب گڑھی ٤٧
مُسَلَّم الثبوت حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ٤٧
شرح عقائد نسفی حضرت مولانا سیّد عبدالحق نافع گل کا کا خیل ٤٤
١٣٥٥ھ :
اس سال آپ دورۂ حدیث کی جماعت میں شامل ہوئے اور اعلیٰ نمبروں سے کامیابی حاصل کی، اس سال دورۂ حدیث کی جماعت میں ١٦٤ طلبہ تھے، آپ ان میں درجہ چہارم میں کامیاب ہوئے، اس سال کے مشہور فضلا میں مولانا نسیم احمد صاحب فریدی صدر مدرس جامعہ عربیہ امروہہ، مولانا عبدالاحد صاحب اُستاذ الحدیث دارُالعلوم دیوبند، مولانا محمد شریف صاحب بہاولنگری مہتمم و اُستاذ الحدیث جامعہ صادقیہ عباسیہ منچن آباد وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔
١ سالانہ رُوداد دارُالعلوم دیوبند ١٣٥٤ھ ص ٢٢٢ ٢ حضرت کے اسباق کی تفصیلات تذکرہ علامہ بلیاوی ص ١١١ سے ماخوذ ہیں
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب کو حضرت مدنی سے خاص عقیدت تھی، آپ نے حضرت مدنی کے بخاری و ترمذی شریف کے درسی افادات بہت اہتمام سے تحریر فرمائے تھے جنہیں آپ نے زندگی بھر حرزِ جان بنائے رکھا، آپ کی وفات کے بعد یہ مجموعہ آپ کے لائق صاحبزادے حضرت مولانا امان اللہ خان صاحب کی تحویل میں آیا، راقم نے ان ہی کے پاس اس تبرک کی زیارت کی تھی آپ کا دورۂ حدیث کا نتیجہ رُوداد سے نقل کیاجاتاہے :
نمبر٤ : مولوی کریم اللہ کیمل پوری ١
کتاب اُستاذ حاصل کردہ نمبر
مؤطا امام مالک حضرت مولانا سیّد عبدالحق نافع گل کاکا خیل ٥٢
ابوداود شریف حضرت مولانا سیّد میاں اصغر حسین دیوبندی
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی ٢ ٥١
بخاری شریف حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ٥١
شمائلِ ترمذی حضرت مولانا محمد اعزاز علی امروی ٥٠
ترمذی شریف حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ٥٠
مسلم شریف حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاوی ٥٠
طحاوی شریف حضرت مولانا سیّد عبدالحق نافع گل کاکا خیل ٥٠
ابن ماجہ شریف حضرت مولانا محمد اعزاز علی امروی ٤٩
موطا امام محمد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی ٤٨
نسائی شریف حضرت مولانا مفتی ریاض الدین بجنوری ٤٣
١ سالانہ رُوداد دارُالعلوم دیوبند ١٣٥٥ھ ص ٢٣٥ ٢ مولانا کریم اللہ صاحب کے ہم جماعت مولانا نسیم احمد فریدی نے اپنے مضمون '' حضرت میاں صاحب کے درس ابوداؤد کی چندجھلکیاں '' مشمولہ ماہنانہ الفرقان لکھنؤ ص ١٥ پر لکھا ہے کہ ابوداؤد شریف کا بعض حصہ حضرت میاں اصغر حسین صاحب کی نیابت میں مفتی محمد شفیع صاحب نے پڑھایا
انعامی کتب : اعلاء السنن (سوم وچہارم ) ، انہاء السکن، زیارة الحرمین
ماہنامہ دارُ التقویٰ اشاعت ِخاص حضرت مولانا مفتی عبدالواحد صاحب ص ٥٠٤ پر بندہ نے آپ کے اساتذہ کی تفصیلات اندازاً لکھی تھیں بعد میں اُستاذ محترم حضرت مولانا بلال اصغر دیوبندی کے ذریعہ محافظ خانہ سے اساتذہ کی تفصیلات مہیا کروائی گئیں جو ٢٦ ذوالحجہ ١٤٤١ھ کو محافظ خانہ دارُالعلوم دیوبند سے جاری کی گئیں فجزاہ اللّٰہ عنی خیرا الجزاء ۔
شعبان ١٣٥٥ھ/ اکتوبر ١٩٣٦ء میں آپ نے اعلیٰ درجات حاصل کر کے دارُالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی، دارُالعلوم دیوبند سے جو سنددی گئی اُس میں درج رائے سے اساتذہ کی نظر میں آپ کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے، دارُالعلوم کی سند میں درج ہے :
وھو عندنا سلیم الطبع جید الفہم ولہ مناسبة بالعلوم تامة یقدر بھا علی التدریس و الافادة بعون اللّٰہ تعالٰی
دارُ العلوم دیوبند کی طرف سے جن حضرات کو اَسناد جاری کی گئیں ان میں آپ کی سند کا نمبر ٢٠٣٩ ہے اس سند کے علاوہ صدر المدرسین شیخ الاسلام حضرت مدنی نے بھی آپ کو اجازتِ حدیث کی سند عطا فرمائی یہ سند دو طرفہ اور خط ِ نستعلیق میں کتابت کردہ ہے راقم نے اب تک حضرت مدنی کی طرف سے دیے گئے متعدد اِجازت نامے دیکھے ہیں مضمون میں یکسانیت کے باوجود طرزِ تحریر کے لحاظ سے یہ اجازت نامہ ممتاز ہے۔ اجازت نامے کے آخر میں حضرت مدنی کے قلم سے یہ عبارت درج ہے :
اجاز برقمہ افقر عباد اللّٰہ الی عفو الودود الصمد عبدہ المدعو بین الانام بحسین احمد غفرلہ و لوالدین و مشائخہ و اساتذتہ الرؤف الاحد سنة الف وثلثمائة وست وخمسین من ھجرة من لہ العفو والشرف علیہ الصلٰوة والسلام ١
١ پہلے حضرت مدنی یہ عبارت خود لکھا کرتے تھے بعد کے اجازت ناموں میں اس عبارت کی بھی کتابت کروالی گئی تھی حضرت صرف دستخط فرمایا کرتے تھے۔
تدریس :
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب دامانی نے تدریس کی ابتداء راندھیر سے کی ،کچھ عرصہ بعد تدریس کے لیے سورت تشریف لے گئے ١ مملکت ِ خداداد پاکستان بننے کے بعد آپ واپس اپنے وطن دامان تشریف لے آئے۔ دامان میں میاں خدا بخش صاحب کے مدرسہ میں تدریس شروع کی اس کے ساتھ ساتھ معاش کے لیے تجارت کا سلسلہ شروع کیا۔
لاہور آمد :
١٩٥٢ء میں آپ لاہور تشریف لے آئے اور جامعہ اشرفیہ میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا یہاں آپ کے تلامذہ میں حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب اشرفی (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور) ودیگر حضرات شامل تھے۔
١٩٥٥ئ/ ١٣٧٦ھ میں جامعہ مدنیہ کی ابتدا ہوئی تو آپ حضرت مولانا سیّد حامد میاں صاحب کی دعوت پر جامعہ مدنیہ تشریف لے آئے اور تادمِ زیست اسی مدرسہ سے وابستہ رہے۔ جامعہ مدنیہ ابتداء ً اَنارکلی میں مسلم مسجد، مکی مسجد اور مسجد نیلا گنبد میں تھا، اس دوران آپ مکی مسجد میں پڑھاتے رہے۔
١٩٦٥ئ/ ١٣٨٦ھ میں جامعہ مدنیہ کریم پارک منتقل ہوا تو آپ بھی کریم پارک تشریف لے آئے
تدریسی کتب :
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب دامانی فنا فی التدریس تھے آپ کو جامعہ کی جانب سے جو کتب پڑھانے کے لیے دی جاتیں اُنہیں شوق ودلجمعی سے پڑھاتے، جامعہ مدنیہ میں آپ نے کتب ِحدیث اور علوم و فنون کی دیگر کتب مہارت کے ساتھ پڑھائیں ، آپ کے زیرِ درس کتب میں جن کتابوں کا خاص طور پر نام ملتا ہے وہ یہ ہیں :
علم ادب میں نفحة العرب ، منطق میں سلم العلوم، قاضی مبارک، ملا حسن ۔اصولِ فقہ میں نورُالانوار،
١ مضمون لالہ سکندر خان، اخبار پشاور، اشاعت ٤٣ دسمبر ١٩٩١ء
اصول الشاشی ۔حدیث میں مسلم شریف، ترمذی شریف جلد اوّل، سنن نسائی شریف، موطا امام مالک۔
تفسیر میں تفسیر بیضاوی، تفسیر جلالین ۔ فقہ میں ہدایہ رابع ۔مناظرہ میں رشیدیہ۔ علم معانی میں مختصر المعانی۔
جامعہ مدنیہ میں دورۂ حدیث کی ابتداہی سے مسلم شریف آپ کے ذمہ تھی، مسلم شریف آپ کے پاس ١٤٠٠ھ/ ١٩٨٠ء تک رہی۔ شوال ١٤٠٠ھ میں آپ نے حضرت مولانا مفتی عبدالحمید صاحب سیتاپوری سے تبادلہ کر کے ترمذی شریف جلد اوّل لے لی، ترمذی شریف جلد اوّل آپ نے اپنی وفات تک پڑھائی دیگر کتب ِ حدیث نسائی مؤطا وغیرہ کبھی کبھی تبرکا ًپڑھادیا کرتے تھے !
انداز ِ تدریس :
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب کے اندازِ تدریس کے بارے میں آپ کے تلمیذ حضرت مولانا قاری محمد یعقوب صاحب الائی مدظلہم رقم طراز ہیں :
'' ( مدینہ مسجد) کے شمال مغربی حصہ میں حضرت مولانا کریم اللہ خان صاحب تشریف فرما ہوا کرتے تھے، ............... حضرت مولانا کریم اللہ خان صاحب جہیر الصوت ہونے کی وجہ سے مسجد ہال کے درودیوار کو اپنی موجودگی کا احساس دلایا کرتے تھے، پڑھائی کا انداز جارحانہ تھا مگر اسم بامسمیٰ ہوتے ہوئے کریمانہ اخلاق کے مالک بھی تھے ، فرقِ باطلہ کو آڑے ہاتھوں لینے کے عادی رہے، رفض یا اسماء الرجال میں کسی رافضی کا تذکرہ آجاتا ہال میں موجود دیگر مدرسین بھی ہمہ گوش ہوجاتے، کبھی تو اپنی مسند سے اُٹھ کر جولانی کیفیت اختیار کر لیتے تھے''
حضرت مولانا خالد محمود صاحب مدظلہم اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید فرماتے ہیں :
''ہم نے حدیث میں آپ سے ترمذی شریف ج اوّل اور اس کے اختتام پر ایک نشست میں تبرکاً موطا امام مالک پڑھی تھی، ترمذی شریف میں آپ غیر مقلدین کی تحفة الاحوذی کو مد ِ نظر رکھتے ، اس میں احناف پر کیے گئے اشکالات بیان کر کے ان کے جوابات دیتے۔
موطا امام مالک میں آپ نے فرمایا تھا، ابحاث ساری ترمذی میں ہوگئی ہیں اس کتاب کو تبرکاً پڑھ لو، تو ایک ہی نشست میں تھوڑے سے حصہ کی قرأت ہوگئی تھی تاکہ سند متصل ہوجائے۔
علم ادب میں آپ سے نفحة العرب پڑھی، اس میں آپ باب، صیغہ بتاتے اور واقعے کو وضاحت سے بیان فرماتے۔
منطق میں آپ سے سلم العلوم، قاضی مبارک اور ملا حسن پڑھی۔منطق میں آپ نفس ِمسئلہ اور کتاب کے ساتھ خارجی مثالوں سے بھی مسئلہ کی وضاحت فرماتے اصول الشاشی میں نے اور مولانا امان اللہ صاحب نے خارجی اوقات میں آپ کی مسجد جامع مسجد حنفیہ اسلام پورہ میں پڑھی ''
شوال ١٣٨١ھ/مارچ ١٩٦٢ء سے شعبان ١٤٠٣ھ/ مئی ١٩٨٣ء تک اکیس سال آپ کی تدریس ِحدیث کا زمانہ ہے اس زمانے میں جن حضرات نے آپ سے حدیث شریف پڑھی اُن میں سے چند حضرات کے نام مشتے نمونہ اَز خروارے درج کیے جاتے ہیں :
٭ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کشمیری مدظلہم ، حال مقیم برطانیہ
٭ حضرت مولانا پیر حبیب الرحمن اشرف صاحب مدظلہم، خطیب جامع مسجد حسن (پتھرانوالی) لوہاری
٭ حضرت مولانا مفتی قاری عبدالرشید صاحب، اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور
٭ حضرت مولانا چودھری عبدالغنی صاحب، سابق مدرس جامعہ مدنیہ لاہور
٭ حضرت مولانا میاں عبدالرحمن صاحب، امام وخطیب جامع مسجد تلوار والی انار کلی لاہور
٭ حضرت مولانا محمد اسلم صاحب عثمانی مدظلہم، امام وخطیب جامع مسجد حبیب عیدگاہ شاہدرہ ٹائون
٭ حضرت مولانا قاری محمد ادریس طارق صاحب مدظلہم ، شیخ التجوید جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور
٭ حضرت مولانا قاری محمد رمضان صاحب مدظلہم،شیخ التجوید جامعہ مدنیہ وجامعہ منظور الاسلامیہ لاہور
٭ حضرت مولانا سیّد رشید میاں صاحب مدظلہم ، اُستاذ الحدیث ومہتمم جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور
٭ حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم ،شیخ الحدیث ومہتمم جامعہ مدنیہ جدید شارع رائیونڈلاہور
٭ حضرت مولانا امان اللہ صاحب بن مولانا کریم اللہ صاحب ، سابق اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید
٭ حضرت مولانا خالد محمود صاحب مدظلہم ، اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید شارع رائیونڈ لاہور
٭ حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مدظلہم ، اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور
٭ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب مدظلہم، فاضل ومدرس جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور
٭ حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب مدظلہم ، اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ وجامعہ دارُالتقویٰ لاہور
٭ حضرت مولانا محمد انور صاحب ، امام و خطیب جامع مسجد عثمانیہ و مسند نشین خانقاہِ صابریہ کوٹ عبدالمالک
٭ حضرت مولانا غلام مصطفی صاحب ، بانی مدرسہ فاروقیہ کوٹ عبدالمالک
٭ حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحدصاحب ، مفتی جامعہ مدنیہ و جامعہ دارُ التقویٰ لاہور
٭ حضرت مولانا قاری محمد یعقوب صاحب الائی مدظلہم، اُستاذ الحدیث ومہتمم جامعہ امدادیہ ہری پور ہزارہ
بیعت :
حضرت مولانا کریم اللہ صاحب کیمل پوری رحمة اللہ علیہ کا بیعت کا تعلق امام الاولیاء حضرت اقدس مولانا احمد علی صاحب لاہوری رحمة اللہ علیہ سے تھا !
امامت وخطابت :
درس وتدریس کے ساتھ ساتھ آپ امامت وخطابت سے بھی وابستہ رہے، آپ اسلام پورہ میں جامع مسجد حنفیہ سعدی روڈ میں امامت وخطابت پر مامور تھے، مسجد سے متصل رہائشی مکان بھی تھا، یہاں سے آپ روزانہ سائیکل پر جامعہ مدنیہ کریم پارک تشریف لاتے، حنفیہ مسجد میں امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ آپ درسِ قرآن بھی اہتمام کے ساتھ دیتے تھے !
علمی فیض :
آپ کے اکثر تلامذہ خدمت ِ دین میں مصروف ہیں ، جامعہ مدنیہ کریم پارک میں عرصہ چوبیس سال سے ترمذی شریف حضرت ہی کی سند سے پڑھائی جارہی ہے، ١٩٩٨ء سے ٢٠٠٦ء تک حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب اور ٢٠٠٧ء سے اب تک مولانا نعیم الدین صاحب مدظلہم مسلسل ترمذی شریف جلد اوّل پڑھا رہے ہیں ! یہ بات پیش ِ نظر رہے کہ حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب نے تعلیمی سال ١٤٢٦ھ/٢٠٠٥ ء میں ترمذی اوّل نہیں پڑھائی ، اسی طرح ١٤٤٢ھ اور ١٤٤٣ھ کے تعلیمی سال میں حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مدظلہم نے بھی ترمذی شریف جلد اوّل نہیں پڑھائی !
علالت اور وفات :
شعبان ١٤٠٣ھ/ مئی ١٩٨٣ء میں سالانہ تعطیلات ہوئیں تو آپ دامان تشریف لے آئے رمضان المبارک کے قریبًا تئیس روزے رکھے، تئیسویں روزے کو آپ کا گلہ پھول گیا، تشخیص کے لیے آپ کو پشاور لے جایا گیا جہاں پھیپڑ وں کے کینسر کی تشخیص ہوئی، علاج کا سلسلہ شروع ہوا مگر جانبر نہ ہوسکے، آپ کے صاحبزادے محترم امین اللہ صاحب کا بیان ہے کہ عید الاضحی کے دن آپ نے عید کی نماز پڑھی، قربانی کا گوشت پکواکر پیش کیا گیا آپ نے اس میں سے کچھ تناول فرمایا، مغرب کے قریب آپ کو دل کا دورہ پڑا جس کی وجہ سے آپ کا انتقال ہوگیا رَحِمَہُ اللّٰہِ رَحْمَةً وَّاسِعَةً
اگلے روز ١١ ذوالحجہ ١٤٠٣ھ/ ١٩ ستمبر ١٩٨٣ء بروز پیر حضرت مولانا ظہور الحق صاحب (اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور)نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی آپ کی تدفین کامل پور عالم کے قبرستان میں ہوئی ، راقم الحروف اپنی دامان حاضری شوال ١٤٤٠ھ کے موقع پر آپ کی قبر پر بھی حاضر ہوا تھا !
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org
کار گزاری برائے سفر پاپو (انڈونیشیا)
( مولانا محمد عاطف کرامت صاحب، سابق متعلّم جامعہ مدنیہ جدید )
اللہ پاک نے محض اپنے فضل سے اپنے راستے میں سات ماہ کے لیے نکلنے کی توفیق عطا فرمائی الحمد للہ ہماری جماعت کا سفر اپنے آخری مراحل میں ہے دل میں یہ خیال آیا کہ اس مبارک سفر کی کچھ یاداشیں ، احوال اور جذبات و کیفیات کو سطور میں منتقل کردیا جائے اور اللہ جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ اِن سطور کو صدور میں زندہ فرمادے، آمین !
ہماری جماعت کی تشکیل انڈونیشا کے جزائر میں ہوئی انڈونیشا (رسمی اعداد و شمار کے مطابق) مسلمانوں کی تعداد کے اعتبار سے (تقریبًا ستائیس کروڑ) سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ شرقاً غرباً ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا فاصلہ چھ گھنٹے کی ہوائی پرواز کا ہے اور زمینی مسافت تقریبًا پانچ ہزار کلو میٹر ہے۔ انڈونیشا کے تقریبًا سترہ ہزار جزائر ہیں ۔
ہماری تشکیل انڈونیشا کے آخری مشرقی جزیرے پاپو PAPUA میں ہوئی ہے PAPUA کی جکارتہ سے زمینی مسافت تقریبًا تین ہزار کلو میٹر اور ہوائی سفر تقریبًا چار گھنٹے کا ہے PAPUA انڈونیشا اور آسٹریلیا کے درمیان منقسم ہے۔ انڈونیشا کے PAPUA کا رقبہ تقریبًا صوبہ بلوچستان کے برابر ہے اور پورا جزیرہ پاکستان سے دو گنا بڑا ہے۔ اس صوبہ میں اکثریت (ساٹھ فیصد) عیسائیوں کی ہے۔ ہماری تشکیل PAPUA کے جنوب میں مغربی جزائر میں ہے جن میں سے مشہور جزائر RAJA AMPAT کے ہیں صرف ان جزائر کی تعداد تقریبًا پندرہ سو کے قریب ہے۔
الحمدللہ ہمیں PAPUA کے جزائر میں کام کرتے ہوئے تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے اب تک تقریبًا پینتالیس مقامات / جزائر میں کام کیا ہے ایک ہزار کلو میٹر سے زیادہ سمندری سفر کرچکے ہیں اگرچہ ان جزائر میں ضروریات ِ زندگی بہت بنیادی اور مختصر ہیں اور بعض جزائر میں بجلی بھی بس جزوی طور پر موجود ہے لیکن اللہ پاک نے اس علاقے کو عجیب خوبصورتی سے نوازا ہے سبز ٹیلگوں سمندری پانی سے رتیلے ساحل ، ہوا میں معلق پہاڑ، رنگا رنگ پرندے، سحر کن سمندری مچھلیاں اور دیگر مخلوقات ان عجائبات میں سے چند ایک ہیں مقامی حضرات ان جزائر کو گمشدہ جنت کہتے ہیں ۔
ان دُور دراز کے جزیروں میں مسلمانوں کا وجود، مساجد کا قیام اور اذان کی آواز ایمان کو تروتازہ اور گرمادیتی ہے اور اپنے اسلاف کی انتہائی کاوشوں اور قربانیوں کی گواہی دیتی ہے جن کے بغیر اسلام کی روشنی اس دُور افتادہ احاطہ اَرض تک شاید نہ پہنچ پاتی۔
جہاں ان جگہوں پر جاکر ایمان تازہ ہوتا ہے وہاں پر ساتھ ساتھ افسردگی اور حزن و ملال کی ایک کیفیت بھی چھا جاتی ہے جب ان خوب صورت مساجد کو نمازیوں سے بالکل خالی پاتے ہیں باطل کی محنت نے مسلمانوں کے دینی تشخص کو دُھند لاکر دیا ہے اور اندیشہ اور خوف اس بات کا ہے کہ کچھ عرصہ میں ان جزائر سے مسلمانوں کے نشان مٹ بھی سکتے ہیں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اس شعر کی کسک اس خطے کے مسلمانوں کی دینی کیفیت دیکھ کر محسوس ہوتی ہے۔ عیسائی مشنریوں کی محنت اور کوشش کے شواہد جابجا متعدد اور بڑے بڑے گرجا گھروں کی شکل میں نظر آتے ہیں ۔ انڈونیشیا پر تین سو سال تک ہالینڈ کا قبضہ اور تسلط رہا ہے اس دور میں عیسائیت نے اس علاقے میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑے جس کا نتیجہ آج نظر آرہا ہے حتی کہ بہت سارے جزائر کو صرف عیسائیوں کے لیے خاص کردیا گیا ہے اور مسلمانوں کو چند پسماندہ جزائر تک محدود کردیا گیا ہے ! مسلمانوں میں اِرتداد وعیسائیت کو پھیلایا جارہا ہے ! کتنے ہی عیسائی ہمیں ملے جن کے باپ دادا مسلمان تھے اور اگلی ساری نسل عیسائی ہوچکی ہے ! پورے RAJA AMPAT جزائر (تقریبًا ١٥٠٠) میں ہمیں صرف دو حافظ قرآن ملے
اسلاف کی قربانیوں پر فخر اور موجودہ صورتحال پر افسوس کی متضاد کیفیات کے ساتھ شکروفکر کا احساس طاری رہا ! شکر اِس بات پر کہ اللہ پاک نے مجھ جیسے نالائق، کمزور اور گناہگار کو دین کی نسبت سے ان بعید علاقوں میں آنے کی توفیق دی جہاں پر شاید کئی صدیوں پہلے ہمارے اسلاف اسلام کا پیغام لے کر آئے اور فکر اِس بات کی کہ اِن علاقوں میں دین کے احیاء اور تقویت کے لیے انتھک محنت نہ کی گئی اور مسلمان جماعت دَرجماعت ان علاقوں میں نہ آئے تو اسلام ان علاقوں میں ایک قصۂ پارینہ بن جائے گا
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا اِلہ اِلا اللہ
الحمد للہ اس شعر کا حقیقی مصداق ان علاقوں میں دیکھنے میں آرہا ہے، مقامی دعوت و تبلیغ بڑے جزیروں میں جڑ پکڑ تی نظر آرہی ہے، تبلیغی مدارس کا قیام بھی وجود میں آرہا ہے، کچھ افراد قربانی، مجاہدہ اور استقامت کے ساتھ دعوت کی مبارک محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارہے ہیں جس کے ثمرات ونتائج بھی نظر آنے شروع ہوگئے ہیں ! ! !
لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حضرات کی مستقل حوصلہ افزائی، تائید اور نصرت کی جائے تاکہ ان کے پائے استقلال نہ ڈگمگائیں ! پاکستانی جماعتوں کے آنے سے ان حضرات کے جذبات پھر سے اُٹھتے ہیں ، صف ِ اوّل کے مجاہدین محاذ پر لڑتے لڑتے جب تھکن سے چور ہوجاتے ہیں تو مرکز سے تازہ دم کمک پہنچنے پر مجاہدین کی جو کیفیت ہوتی ہے تقریبًا وہی کیفیت ان حضرات کی پاکستانی جماعتوں کی آمد پر ہوتی ہے ! پاکستانی جماعتوں کے ذریعے بند دروازے کھلوائے جاتے ہیں ، مشکل اور سخت محاذوں کو نرم اور ہموار کیا جاتا ہے !
الحمد للہ تقریبًا پچھتر اَفراد کم و بیش اوقات کے لیے اللہ پاک کے راستے میں نکلے، اللہ پاک کی ذات سے اُمید ہے کہ اس سال رائیونڈ اجتماع پر اِن علاقوں سے کئی جماعتوں کی آمد ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ !
اللہ جل شانہ نے مولانا الیاس صاحب کے کام کو جو قبولیت دی ہے ان علاقوں میں اس کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے ہوتا ہے۔ رائیونڈ سے آٹھ ہزار کلو میٹر دُور اِن جزائر میں جب مقامی حضرات کو ہم تین دن، چلہ اور چار مہینے کی آواز لگاتے دیکھتے ہیں اسی ترتیب پر مشورے اور تعلیم کے حلقوں میں فکر مندی اور یکسوئی کے ساتھ بیٹھے پاتے ہیں اور وہی چھ نمبر کی تکرار یہاں کی مقامی زبانوں میں سنتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ حضرت مولانا الیاس صاحب واقعی اس محنت کو قبول کرواگئے ! اللہ پاک ہمیں اس محنت کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ ایک بزرگ سے سنا تھا
''اللہ پاک نے اس طرزِ محنت کو قبول فرما لیا ہے اب تم اپنے آپ کو اس محنت کے لیے قبول کرواؤ ''
ایک جذبہ جو بارہا اُبھرتا رہا وہ جذبۂ تشکر ہے۔ انڈونیشیا کے دینی حالات کو دیکھ کر (اگرچہ دنیاوی وسائل اور ترقی کے اعتبار سے انڈونیشیا پاکستان سے بہت آگے ہے) پاکستان جیسی نعمت کا احساس اور شکر بڑھتا ہے، پاکستان میں دعوت و تبلیغ کی محنت کا مرکز، مدارس، خانقاہوں اور دیگر دینی محنتوں کا وجود ایسی نعمتیں ہیں جن کا حقیقی شکر ادا کیا ہی نہیں جاسکتا ہے ! ان دینی نسبتوں کی وجہ سے اللہ پاک نے ان مقامی حضرات کے دلوں میں پاکستانیوں کی جو محبت اور عقیدت ڈالی ہے وہ قابلِ دید ہے ! ہمارا ایک ایک قول و فعل ان حضرات کے نزدیک قابلِ تقلید ہے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے بڑوں کی ان نسبتوں کا حقیقی امین اور محافظ بنائے ! اللہ پاک نے پاکستان والوں کو عرب و عجم میں جو دینی امتیاز اور مقام دیا ہے اس کا مقتضیٰ تو یہ ہے کہ ہم اپنا سب کچھ دین کی بقاء واحیاء کے لیے لگادیں !
ان ہی جذبات وکیفیات اور ندامت کے ساتھ واپسی ہورہی ہے، یہاں کے لوگ نرم مزاج، خوش اخلاق اور مہمان نوازی جیسی قابلِ قدر صفات کے حامل ہیں ! ان حضرات کا جو حق تھا وہ ہم سے ادا نہ ہوسکا ! اللہ پاک ہمیں معاف فرمائے، تاحیات دین متین کی محنت کے لیے قبول فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے، آمین
والسلام
احقر محمد عاطف کرامت
شعبان ١٤٤٤ھ انڈونیشیا
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭ ١٥ رمضان /٦ اپریل کو جامعہ مدنیہ جدید کے شعبہ دارُالافتاء کے مفتی مولانا محمد زبیر صاحب عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے ، بعد ازاں ٥ شوال/ ٢٦ اپریل کو بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے والحمد للہ !
٭ ٤ شوال /٢٥ اپریل کو جامعہ مدنیہ جدید کے شعبہ حفظ کے اُستاذ مولانا قاری محمد وسیم صاحب عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے ، بعد ازاں ٢٤ شوال /١٥ مئی کو بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے والحمد للہ !
٭ ٦ شوال /٢٧ اپریل کو جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتہم عمرہ کی سعادت کے بعد بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے والحمد للہ !
٭ ١٠ شوال ١٤٤٤ھ/ یکم مئی ٢٠٢٣ء سے جامعہ مدنیہ جدید میں نئے تعلیمی سال کے داخلے شروع ہوئے اور اسی روز سے تعلیم کا آغاز ہوگیا والحمد للہ۔
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہِ حامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ 923454036960+
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.