Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

جولائی 2024

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ محرم الحرام ١٤٤٦ھ / جولائی ٢٠٢٤ء شمارہ : ٧
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر




جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+

موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560




مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٧
سیرتِ مبارکہ ..... رشتۂ اخوت اور حضرات ِانصار حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١١
مقالاتِ حامدیہ ............. خود شناسی حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ١٧
میرے حضرت مدنی قسط : ١٢ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٢٠
تربیت ِ اولاد قسط : ١٦ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٠
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٥ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣٦
حضرت امام حسین اور ماہِ محرم الحرام حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٤٣
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق قسط ٤ ڈاکٹر محسن محمد صاحب صالح ٥٥
اخبار الجامعہ مولانا انعام اللہ صاحب ٦٣
وفیات ٦٤




حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
٢٣ جون بعد مغرب خانقاہ حامدیہ کے ہفتہ وار حلقہ ٔ ذکر و درس کے بعد کوٹ رادھاکشن کے رہائشی جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل عزیز مولوی محمد آصف صاحب سلمہ مجھے بتلانے لگے کہ
'' میں آن لائن طلباء کو قرآنِ کریم کی تعلیم بھی دیتا ہوں ! لندن میں پانچویں جماعت کے کچھ بچے مجھ سے قرآنِ کریم پڑھتے ہیں ان کو دین و دنیا کی ضروری باتیں اور عقائد بھی بتاتا رہتا ہوں ! !
نماز کی پابندی کا پوچھا تو بچے نے بتلایا کہ پابندی سے پڑھتا ہوں سوائے ظہر کی نماز کے ! میں نے پوچھا ایسا کیوں ہے ؟ تو کہنے لگا اس وقت ہم سکول میں ہوتے ہیں وہاں اس کی اجازت نہیں ہے اس لیے نہیں پڑھ سکتے ١ ! !
میں نے کہا کہ تم سکول میں اپنے دیگر مسلمان بچوں سے ملو اور ان کو نماز کی ترغیب دو پھر سب بچے مل کر سکول کے پرنسپل سے ملو اور کہو کہ ہم مسلمان ہیں اور اس وقت ہماری عبادت کا وقت ہوتا ہے لہٰذا ہمیں اپنی عبادت کی ادائیگی کے لیے وقفہ چاہیے !
١ ذہن میں رہے ''سکول '' نہ کہ ''مدرسہ '' !
چنانچہ اس بچے نے ہمت کی اپنے دیگر مسلمان بچوں کو ساتھ ملایا ترغیب دی دس پندرہ بچے ہوگئے ! سب مل کر سکول پرنسپل سے ملے اور اس کے سامنے اپنا مطالبہ رکھ دیا ! جس کو بالآخر اس نے مان لیا ! اب ہم سب بچے روزانہ مل کر ظہر کی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور دوسرے مذہب والے بچے بڑے دیکھ رہے ہوتے ہیں '' ! !
اس واقعہ کو نقل کرنے کا مقصد اپنے مسلمان بھائیوں کو ''مدرسہ ''کی برکات اور اس کی روشن انقلابی طاقت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھلانا ہے ! ! !
تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیں
مورخہ ٢٩ ذوالقعدہ /٧ جون بروز جمعہ اسلام آباد میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس سندھ پیپلز پارٹی کے ڈپٹی سپیکر غلام مصطفی شاہ فاضل سکول/کالج (نہ کہ مدرسہ ) کی زیرِصدارت جاری تھا کہ جمعہ کی نماز کا وقت ہوگیا مگر اجلاس جاری رہا ، نمازِ جمعہ کا وقفہ نہ کیا گیا ! ! ؟
اس پر جمعیة علماء اسلام کے ناظمِ اعلیٰ ممبر قومی اسمبلی حضرت مولانا عبدالغفور صاحب حیدری مدظلہم نے حسب ِ ضابطہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے اجلاس برخواست کرنے کی طرف توجہ دلائی ! پھر دلائی ! مگر نمازِ جمعہ کے لیے اجلاس برخواست نہ کیا گیا ! ؟ بالآخر مولانا حیدری صاحب اجلاس کا مقاطعہ (Boycott) کرتے ہوئے احتجاجاً باہر تشریف لے گئے ! مزید افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ اس موقع پر بقیہ نام نہاد مسلم ارکان میں غالب اکثریت بھی جوکہ خیر سے سکول / کالج کی پیدا وار ہے اس کفریہ عمل میں سپیکر کی ہم نوا بنی اجلاس کو جاری رکھے رہی ! !
پاکستان کی تاریخ میں نمازِ جمعہ کی سرکاری طور پر بے قدری و پامالی کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی ! !
جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ روزانہ ہر فرض نماز کے لیے وقفہ کیا جاتا ! کیونکہ نمازِ جمعہ کی طرح ہر نماز اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض کی ہے ! ! !
تصویر کا دوسرا سیاہ چہرہ سکول و کالج سے برآمد ہونے والی اکثریت کی جانب سے بپا کیے ہوئے ناپاک انقلاب کا نقشہ پیش کررہا ہے ! ! !
جبکہ پہلا روشن رخ آپ ملاحظہ فرما ہی چکے ہیں کہ کفر و شر کے گڑھ برطانیہ کے اندر لندن کے ایک ''سکول'' میں ''مدرسہ'' کے فاضل کی تھوڑی سی مخلصانہ کوشش سے ایک بابرکت انقلاب بپا ہوا ! !
خیر و شر کے بیچ معرکہ آرائی قیامت تک جاری رہے گی ! مگر ساتھ ہی قرآن کا حتمی اور آخری فیصلہ بھی سن لیں !
( وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْن ) اور نیک انجام متقین کے لیے ہے ! !
لگے ہاتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ''عزمِ استحکام'' متقین ہی کے ہاتھوں انجام پاسکتا ہے وگرنہ انجام ''عدمِ استحکام '' ہی کی بدنما شکل میں سامنے آئے گا وَالْعَیَاذُ بِاللّٰہْ ! !
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ




قطب الاقطاب شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
٭٭٭
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php




درسِ حدیث
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کا مجلس ِذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ ''انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے ، آمین !
خطاکار بھی ہو اور اچھا بھی ہو ؟ ؟
( درسِ حدیث نمبر٦٧/٣٠٩ ٢٩ شعبان المعظم ١٤٠٦ھ/٩ مئی ١٩٨٦ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نا مدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّائ یعنی تمام بنی آدم بار بار غلطیاں کرنے والے ہیں ! خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ اَلتَّوَّابُوْنَ ١ یعنی ان غلطیاں کرنے والوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو بار بار توبہ بھی کرتا ہے ! معلوم ہوا کہ انسان سے غلطی ہوتی رہتی ہے ایک دو بار ہی نہیں بلکہ بار بار غلطی ہو تی رہتی ہے اور غلطی کرتے بھی سب بنی آدم ہیں ! یہ اور بات ہے کہ کوئی بڑی غلطی کرتا ہے تو کوئی چھوٹی غلطی ، بعض تو کبائر کا ارتکاب کرتے ہیں اور بعض صغائر کا ار تکاب کرتے ہیں اور بعض سے خلافِ اولیٰ کام کرنے کی غلطی ہوتی ہے !
آپ یہ جانتے ہیں کہ خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ اَلتَّوَّابُوْنَ کے زُمرہ میں ہم اس وقت داخل ہوں گے جب ہم ہر وقت اپنی غلطیوں اور اپنی خطائوں پر نظر رکھیں ! اپنی نیکیوں اور اچھائیوں پر مغرور نہ ہوں ! اگر ہم نے اپنے نفس کا احتساب نہ کیا اور اپنے عیب اور گناہوں پر نظر نہ رکھی تو ظاہر ہے کہ تو بہ و استغفار ہم نہیں کریں گے ،گناہ تو کرتے رہیں گے گناہوں پر توبہ نہ کریں گے، گویا گناہ اور خطائیں تو ہم سے ضرور صادر ہوں گی ! کیونکہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّائ مگر گناہوں پر نظر نہ رکھنے کے باعث توبہ کرنے والوں میں سے نہ بنیں گے اور خَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ اَلتَّوَّابُوْنَ میں ہمارا شمار نہ ہوگا ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٤١
توچاہیے کہ ہر وقت اپنی خطاؤں اور کمزوریوں پر نظر رکھیں اور باربار نادم ہوکر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں ! اگر کسی کو اپنے آپ میں کوئی بھی غلطی اور خامی نظر نہ آئے تو یہ بھی ایک طرح کی خطا اور گناہ ہے ! ! اس لیے اس سے توبہ کرنی چاہیے ! !
شیطان کی جلن :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ایک امید افزاء روایت کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا شیطان نے (حق تعالیٰ سے) کہا وَعِزَّتِکَ یَا رَبِّ لَا اَبْرَحُ اُغْوِیْ عِبَادَکَ مَا دَامَتْ اَرْوَاحُہُمْ فِیْ اَجْسَادِہِمْ یعنی اے پرورد گار تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو اغوا کرتا رہوں گا بہکاتا اور بھٹکاتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی ! یعنی جب تک وہ زندہ رہیں گے تب تک میں انہیں راہ راست سے بھٹکاتا رہوں گا !
توحق تعالیٰ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ وَعِزَّتِیْ وَ جَلَالِیْ وَ ارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَا اَزَالُ اَغْفِرُلَہُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِیْ ١ یعنی مجھے اپنی عزت و جلال اور بلندیٔ مقام کی قسم میں بھی معاف کرتا رہوں گا جب تک وہ توبہ کرتے رہیں گے ! !
مطلب یہ ہوا کہ جب بھی میرے بندے سچے دل سے توبہ کریں گے میرے دربار سے انہیں معافی مل جائے گی ! حتی کہ روایت میں آتا ہے کہ جب یہ دیکھ لو کہ کسی آدمی نے اپنے گناہ سے توبہ کر لی ہے تو پھر اس کو اس گناہ کا طعنہ دینا جائز نہیں کیونکہ تو بہ کے بعد قوی امید ہے کہ خدا تعالیٰ نے معاف کر دیا ہو گا !
قبولیت کی آخری حد :
حضرت ابن ِعمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتے رہتے ہیں جب تک اس پر غر غرہ کی کیفیت نہ طاری ہو ! ٢
مطلب یہ ہے کہ عالمِ آخرت نظر آنے سے پہلے پہلے توبہ کرے ! بعد میں توبہ قبول نہیں کیونکہ پھر ایمان بالغیب نہیں رہتا حالانکہ مقصود ایمان با لغیب ہے ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٤٤ ٢ ایضًا رقم الحدیث ٢٣٤٣
توبہ کی عادت اور اُس کا فائدہ :
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا جو شخص استغفار کواپنا معمول بنالے اللہ تعالیٰ اس کے واسطے ہر تنگی سے (نکلنے کا راستہ) بنا دیں گے ! اور ہر غم سے کشادگی پیدا ہو جائے گی ! اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو گا ! ١
اصل میں بندہ اور خالق کے در میان تعلقات گناہ سے خراب ہوتے ہیں ! اور توبہ و استغفار اس تعلق کو استوار کرتے ہیں ! توبہ سے دل گناہوں کی آلائش سے پاک ہو جاتا ہے حق تعالیٰ اور بندہ کے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں تو حق تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور پریشا نیاں کافی حد تک کم ہو جاتی ہیں ! !
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسان جب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امیدیں قائم رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا معاف کرتا رہوں گا جوبھی تیرے اندر گناہ ہوں اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں !
اور فرمایا اے ابن آدم اگر تیرے گناہ آسمان کے با دلوں کے برابر پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے استغفار کرے توتجھے معاف کر دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں !
پھر فرمایا اے انسان اگر تو میرے پاس اتنے گناہ لے کر آئے کہ جو ساری زمین کو بھردیں البتہ میرے پاس شرک سے صاف ہوکر آئے تومیں اتنی ہی مغفرت ساتھ لے کر ملوں گا ! ٢ گویا گناہوں کی کثرت میں بھی نا امید نہ ہونا چاہیے ! اگرگناہ زیادہ ہیں تو حق تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا دائرہ بھی توبہت زیادہ وسیع ہے !
حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد وَلَا اُبَالِیْ یعنی ''مجھے کوئی پر واہ نہیں ''کا مطلب یہ ہے کہ میں بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف کر سکتا ہوں مجھے کوئی روکنے والا نہیں ! ! ! ٣
١ مشکٰوة المصابیح رقم الحدیث ٢٣٣٩ ٢ ایضًا رقم الحدیث ٢٣٣٦ ٣ یعنی گرفت بھی کرسکتا ہوں اور معاف بھی کرسکتا ہوں اس جملہ سے کوئی مسلمان اپنے کو غلط فہمی میں ڈال کر خسارہ نہ اٹھائے ۔ محمود میاں غفرلہ
ایک حدیث شریف میں ہے (جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے) رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی استغفار کرتا رہے اللہ کے یہاں وہ توبہ کرنے والوں میں شمار ہو گا ! ! ١
بات یہ ہے کہ آدمی گناہ سے توبہ کر لیتا ہے پھر گناہ سر زد ہوجاتا ہے، پھرتو بہ کرلیتا ہے پھرغلطی کربیٹھتا ہے پھر توبہ کرتا ہے اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ! تو اب اس آدمی کا شمار بار بار گناہ کرنے والوں میں ہوگا یا بار بار توبہ کرنے والے خوش نصیبوں میں ، کن لو گوں کی فہرست میں اس کا نام درج ہوگا ؟ ؟ ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے بتلایا کہ اس کا شمار ان لو گوں میں نہیں ہوگا جو گناہوں پر ڈٹے ہوئے ہوں بلکہ ان میں ہوگا جوبار بار توبہ کرتے ہیں ! اور فرمایا چاہے وہ دن میں ستر مر تبہ بھی گناہ کر لے ! ! یہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت ہے اور بہت بڑا کرم ہے ! ! اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے،آمین
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ اکتوبر ٢٠١٦ ء بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ٧ جون ١٩٦٨ء )
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٤٠




قطب الاقطاب شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
٭٭٭
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1




سیرتِ مبارکہ
٭٭٭
رشتۂ اخوت اور حضرات ِانصار کا ایثار
مؤرخِ ملت مجاہد فی سبیل اللہ حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللہ '' کے چند اوراق ( صلی اللہ عليہ وسلم )
٭٭٭
مسجد اور حجرات کی تعمیر اور مواخات پر دوبارہ نظر
اقتصادی تعمیر، بنیادی نظریہ، طریقہ تعمیر اور دورِ حاضر کی اقتصادی تحریکات
٭٭٭
محمد رسول اللہ ( فداہ روحی ) صلی اللہ عليہ وسلم اور حضراتِ مہاجرین جو مسجد کی اور پھر (ازواجِ مطہرات کے ) حجروں کی تعمیر کر رہے ہیں ، اس شہر(مکہ) کے رہنے والے ہیں جو ملک ِ عرب کا مرکزی شہر ہے جو اپنے تمدن میں دنیا کے متمدن شہروں سے پیچھے نہیں ہے جس کی آبادی باقاعدہ ہے، مختلف محلوں میں بٹی ہوئی، بیچ میں سڑکیں ، بازار پررونق، مکانات پختہ، ہر طرح کی آرائش سے آراستہ ! ایک امکان وہ بھی ہے جس کو '' دَارُالْقَوَارِیْر '' کہا جاتا تھا ١ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ کے مہاجر رفقاء نے ان ہی محلوں میں پرورش پائی تھی، ان ہی گلیوں اور کوچوں میں کھیلے تھے، ان ہی سڑکوں پر دوڑے اور چلے تھے پھر تاجربن کر ان ہی بازاروں میں خریدوفروخت کرتے رہے تھے ! !
دارالہجرت (مدینہ طیبہ) میں جب یہ حضرات خود مزدور اور معمار بن کر کچی اینٹوں ، چھوٹے بڑے ناہموار پتھروں ، کھجور کی ٹٹیوں ٢ اور کھجور کے پٹھوں اور پتوں سے مسجد مبارک اور حجروں کی تعمیر کررہے تھے تو اپنے خاندانی مکانات اور مکہ کے محالات کا نقشہ ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا ! !
١ ( شیش محل) معجم البلدان : دار القواریر: قال احمد بن جابرحدثنی العباس بن ہشام الکلبی قال: کتب بعض الکندیین الی ابی یسالہ عن مواضع منہا دار القواریر بمکة ، فکتب: فاما دارالقواریر فکانت لعتبة بن ربیعة بن عبد شمس ابن عبد مناف ثم صارت للعباس بن عتبة بن ابی لہب بن عبد المطلب ثم صارت لام جعفر زبیدة بنت ابی الفضل بن المنصور فاستعملت فی بنائہا القواریر فنسبت الیہا ، وکان حماد البربری بناہا قریبا من خلافة الرشید و ادخل بئر جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف الیہا
٢ بانس یا سرکنڈوں کا چھوٹا سا ٹٹا آڑ کے طور پر لگانا
نبوت کے ابتدائی تین سال میں جو تربیت دی گئی تھی اس کا نصاب اور طریقۂ تربیت پہلے گزر چکا ہے ، یہ تربیت صرف تین سال تک ہی نہیں رہی بلکہ قیامِ مکہ کی پوری مدت میں اس کا سلسلہ جاری رہا اور وہ رنگ جو پہلے تین سال میں کھلا تھا وہ پختہ اور زیادہ پختہ ہوتا رہا ! !
بلاشبہ یہ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ تمدن کے تمام نقشوں کو چھوڑ کر جفاکش زاہدانہ اور درویشانہ زندگی کا نقشہ جمایا جا رہا ہے ! مگر قرآن پاک میں حضرت حق جل مجدہ کا ارشاد تو یہ ہے
( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ) ( سُورة الاعراف : ٣٢ )
''تو کہہ ! کس نے منع کیا ہے رونق اللہ کی جو پیدا کی اس نے اپنے بندوں کے واسطے اور ستھری چیزیں کھانے کی۔ تو کہہ وہ ہے ایمان والوں کے واسطے دنیا کی زندگی میں نری (مخصوص طور پر) ان کی ہیں قیامت کے دن''
ملت کے معمار :
پھر زینت سے یہ اجتناب کیوں ؟ آپ کو فراموش نہ ہونا چاہیے کہ حضرات ِ صحابہ نے اس دور کو تعمیر ملت کا دورِ اوّل قرار دیا تھا چنانچہ اسی سال کو اسلامی سن (سن ہجری کا پہلا سال) مانا گیا، کلامِ الٰہی نے بھی ( مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ ) ١ کا لفظ استعمال کرکے صحابہ کرام کے اس تخیل کی تائید فرمائی !
ملت سے مذاق :
آج ہر طرف پسماندہ قوموں کو ترقی دینے کا شور ہے لیکن جب ان کی ہمدردی کے دعویدار سیاسی رہنما مساوات اور سوشلزم کا نام لے کر کہتے ہیں ''معیار زندگی بلند کرو'' تو مسجد مبارک اور تعمیر حجرات کا سادہ نقشہ خاموشی سے اشارہ کرتا ہے کہ قوم کی تعمیر ایسے نعرے سے نہیں ہوسکتی بلکہ اس طرح کے عمل سے ہوتی ہے ! ! ہمدردی یہ نہیں کہ آپ اپنی کوٹھی کی سب سے اونچی منزل پر رونق افروز ہوکر خاک نشین غریبوں کو حکم دیدیں کہ ایسی ہی کوٹھی تم بھی بناؤ تاکہ مساوات اور برابری رونما ہو ! !
١ ( لَمَسْجِد اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ ) (سُورة التوبة : ١٠٨ )
اس کو ہمدردی نہیں کہا جاسکتا یہ ستم ظریفی ہے ١ اس نعرے سے آپ اپنے کردار کو مشتبہ کردیتے ہیں کہ آپ اس نمائشی نعرے سے غریبوں کو سبز باغ دکھا کر اپنی عیش پرستی کے لیے وجہ جواز نکالتے ہیں ! ! ٢
اقتصادی تعمیر کا طریقہ :
ہمدردی یہ ہے کہ آپ قصرِ معلی کی سطح با لا سے نیچے اتریں ، غریبوں کی ٹوٹی چٹائی پر ان کے برابر بیٹھیں ، پھر ان کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں ! یعنی پہلا مرحلہ یہ ہے کہ بلند کرنے کے بجائے آپ معیارِ زندگی کو برابر کریں ! سیرت ِ مبارکہ کا ایک روشن باب یہ ہے کہ آپ نے اقتصادی تعمیر وترقی کے لیے یہی اسلوب اختیار فرمایا ! ! چند مثالیں ملا حظہ فرمائیے :
(١) ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ ٹٹیوں کا تھا ! ٹٹیوں میں سوراخ ہوگئے تھے جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم غَزْوَةُ دُوْمَةِ الْجَنْدَلِ میں تشریف لے گئے تو حضرت ام سلمہ نے اس غیبوبت میں حجرے کی دیواریں کچی اینٹوں کی بنوالیں ! ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم غزوہ سے واپس ہوئے تو سب سے پہلے ان ہی کے یہاں تشریف لے گئے ! ! دریافت کیا : یہ تعمیر کیسی ؟ ؟
حضرت ام سلمہ نے معذرت کی کہ دیوار اس لیے بنوالی ہے کہ پردہ ہوجائے کسی کی نظر نہ پڑسکے !
فرمایا : ام سلمہ مال کا بدترین مصرف یہ تعمیر ہے ٣ حاصل یہ ہے کہ آپ نے عذر قبول فرمایا مگر اس عمل کی تائید اور حمایت نہیں فرمائی جس سے ایک امتیاز پیدا ہورہا تھا !
(٢) اسی دور کا یہ واقعہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک راستے کے کنارے پر ایک مکان دیکھا جو حال میں تعمیر ہوا تھا اس کا پھاٹک شاندار بنایا گیا تھا اور پھاٹک پر قبہ نما محراب بھی رکھی گئی تھی ! دریافت فرمایا یہ مکان کس کا ہے ؟ ایک انصاری کا نام بتایا گیا ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم خاموش ہوگئے !
١ مذاق مذاق میں ظلم کرنا ٢ یعنی جب معیار زندگی بلند کرنا نصب العین قرار دیا گیا تو جس کا معیار بلند ہوگیا ہے وہ قابلِ اعتراض نہیں گویا وہ منزل پر پہلے پہنچ گیا ہے۔
٣ طبقات ابن سعد ج ٢ ص ١٨١ ( الجزء الاوّل من القسم الثانی ) یعنی کرایہ کے لیے مکانات بنوانا بھی ایک قسم کی زمینداری ہے جو پسند نہیں ہے ( واللّٰہ اعلم بالصواب )
اگلے روز یہ انصاری دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے تو خلاف ِ معمول آقاء دو جہان صلی اللہ عليہ وسلم کا رُخ پلٹا ہوا پایا ! حاضرین مجلس سے اس بے التفاتی کی وجہ معلوم کی تو کوئی خاص سبب کسی کو بھی معلوم نہیں تھا ! ؟ البتہ کل کے واقعہ کا تذکرہ کیا گیا کہ جب حضرت والا( صلی اللہ عليہ وسلم ) آپ کے مکان کی طرف سے گزرے تھے تو قبہ دار پھاٹک کو دیکھ کر دریافت فرمایا تھا کہ یہ پھاٹک کس کا ہے ؟ انصاری جاں نثار نے یہ بات سنی، واپس مکان پر پہنچے اور پورے پھاٹک کو منہدم کراکر زمین کے برابر کردیا ! ! ! ١
(٣) یمن کا ایک قبیلہ بَنُو اَشْعَر تھا ، اس قبیلہ کے جو خاندان مسلمان ہوگئے تھے وہ مدینہ میں رہتے تھے اور فوجی خدمات (جہاد) میں حصہ لیا کرتے تھے۔ ہر ایک خاندان اپنے آمد و خرچ کا خود ذمہ دار تھا لیکن ان کا یہ بھی دستور تھا کہ اگر کسی کی آمدنی میں کمی ہوجاتی (مثلاً موسم کے ختم پر نئی فصل سے پہلے تنگی ہوجاتی یا سفر میں کسی کا توشہ ختم ہوجاتا) تو ایسا کرتے تھے کہ تمام خاندانوں میں جس کے یہاں جو کچھ غلہ یا توشہ ہوتا وہ سب ایک جگہ اکٹھا کر لیتے تھے پھر سب کو برابر تقسیم کردیتے یہ آپس کی ہمدردی اور باہمی اتفاق کی صورت آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو اتنی پسند تھی کہ مجمع میں اس کی تعریف فرماتے ہوئے یہاں تک فرماتے ہُمْ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُمْ ''وہ میرے ہیں اور میں ان کا'' ٢
(٤) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو ان سے بہت زیادہ تعلق ِخاطر تھا ! جب آپ سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں ان سے رخصت ہوتے اور جب سفر سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے ان کے یہاں تشریف لے جاتے ! ایک مرتبہ آپ سفر سے واپس ہوئے اور حسب ِ معمول ان کے یہاں تشریف لے گئے مگر حجرہ (کمرہ)
١ سُنن ابوداود باب فی البناء ج ٢ ص ٣٦٤ مجتبائی ۔ اخلاص کی انتہاء یہ ہے کہ منہدم کردینے کی اطلاع بھی نہیں دی کچھ دنوں بعد جب دوبارہ اس طرف سے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا گذر ہوا تو خود آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس پھاٹک کا نام ونشان بھی نہیں تھا تب آپ نے فرمایا اَمَا اِنَّ کُلَّ بِنَائٍ وَبَال عَلٰی صَاحِبِہ اِلَّا مَالَا اِلاَّ مَالاَ اِلَّا مَالَا ''ہر ایک تعمیراس کے بانی کے حق میں وبال ہے مگر جو ضروری ہو بہت ضروری ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو ''
٢ بخاری شریف ج ١ ص ٣٣٨
کے اندر نہیں داخل ہوئے، دروازہ سے ہی واپس تشریف لے آئے ! حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس مرتبہ نئی بات یہ کی تھی کہ حجرے کے دروازے پر کپڑے کا پردہ آراستہ کردیا تھا ! حضرت علی اس وقت موجود نہیں تھے واپس ہوئے تو حضرت فاطمہ غمگین بیٹھی تھیں ! جب انہیں معلوم ہوا کہ غمگین اس لیے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تشریف لائے تھے اور خلافِ معمول باہر سے ہی واپس ہوگئے تو خدمت ِ مبارک میں حاضر ہوکر کبیدگی کا سبب دریافت کیا ، ارشاد ہوا
'' دروازہ پر کپڑے کا پردہ سجا رکھا ہے مجھے ایسے تکلّفات سے کیا واسطہ ''
اب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ناراضگی کا سبب معلوم ہوا تو معافی چاہی اور عرض کیا جو حکم ہو اس کی تعمیل کروں ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک غریب عیالدار کا نام لیا اور فرمایا کہ یہ کپڑا ان کے یہاں پہنچادو ١
(٥) حضرت ابوہریرہ اور حضرت اسماء بنت یزید وغیرہما کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے عورتوں کو سونے کے زیورات سے منع کیا ،یہاں تک فرمادیا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اپنے محبوب کو آگ کا کنگن پہنائے وہ اس کو سونے کا کنگن پہنادے ! ! ٢
سلسلہ مواخات اور سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک سبق
( وَیُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ) ( سُورة الِ عمران : ١٦٣)
'' ان (اہلِ ایمان ) کو پاک صاف کرتے ہیں (سنوارتے ہیں ) اور ان کو کتاب اور حکمت (دَانِشْ و بِیْنِشْ ) کی تعلیم دیتے ہیں ''
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم مدینہ میں قیام فرماہوئے تو آپ کی حیثیت سیاسی سربراہ (امیر) کی بھی تھی ! آپ مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کوئی قانون بناسکتے تھے مگر سیرة مبارکہ کا سبق یہ ہے کہ قانون بنانا کارگر نہیں ، دلوں کو بنانا چاہیے ! سیاسی یا اقتصادی انقلاب کے بجائے دلوں کی دنیا میں انقلاب برپا کرو !
١ سُنن ابوداود باب فی اتخاذ الستور ٢ سُنن ابوداود باب ماجاء فی الذہب للنساء ج٢ ص ٢٣٠ مجتبائی
علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ممانعت ابتداء میں تھی اس کے بعد عورتوں کو سونے کے زیورات کی اجازت دی گئی البتہ یہ ضروری قرار دیا گیا کہ ہر سال ان کی زکوة بلا ناغہ پوری پوری ادا ہوتی رہے !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا ایک بہت مشہور ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے
''جسم انسان میں ایک پارچۂ گوشت ہے اگروہ ٹھیک ہے تو بدن کی پوری عمارت آباد اگر وہ خراب ہے تو بدن کی پوری عمارت ویران یاد رکھو وہ قلب ہے'' ١
کلامُ اللہ شریف نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی شان یہ بیان فرمائی تھی
''تمہارا (اہلِ ایمان کا) رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق (سخت ناگوار) گزرتا ہے ! تمہاری بھلائی کا حریص (بہت خواہشمند) ہے وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والا رحمت والا ہے '' ٢
وہ ان (اہلِ ایمان) کو اللہ کی آیتیں سناتا ہے اور ان کو سنوارتا ہے (ہر طرح کی برائیوں سے انہیں پاک کرتا ہے) '' ٣
قانون کے سامنے چار ونا چار گردنیں جھک جاتی ہیں مگر دل نہیں سنور تے ! یہ نبی رحمت رؤف رحیم کی نظر کیمیا اثر کی برکت تھی کہ حضراتِ انصار کے دل ایسے سنورے کہ بخل اور حب ِ مال کی برائی ختم ہوکر ایثار، فدائیت اور سخاوت کے وہ بے پناہ جذبات ان میں موجزن ہوئے کہ جیسے ہی رشتۂ اخوت قائم ہوا انہوں نے خود درخواست پیش کردی !
اِقْسِمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ اِخْوَانِنَا النَّخِیْلَ ٤ ''ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان باغات تقسیم کردیجیے''
حضراتِ انصار کا اصرار یہ تھا کہ حضراتِ مہاجرین کو ان جائیدادوں کا مالک بنا دیا جائے لیکن رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم جیسے غریب اور پردیسی مہاجرین کے حق میں مشفق ومحسن تھے اسی طرح آپ کا دامن رحمت انصار پر بھی پھیلا ہوا تھا ان کے حق میں بھی آپ رؤف رحیم تھے آپ نے ملکیت کی تقسیم منظور نہیں فرمائی صرف پیداوار کی تقسیم کا فیصلہ فرمایا ! ! (یہ ہونی چاہیے شان سیاسی سربراہ اور رہنماء قوم کی)
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٦٧ تا ٤٧٣ )
٭٭٭
١ بخاری شریف وغیرہ ٢ سورۂ توبہ : ١٢٨ ٣ سورۂ آلِ عمران : ١٦٤ ٤ بخاری شریف ص ٣١٢ و ص ٥٣٤




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے وہ مضامین جو پندرہ بیس برس قبل ماہنامہ انوار مدینہ میں شائع ہوچکے ہیں قارئین کرام کے مطالبہ اور خواہش پر ان کو پھر سے ہر ماہ سلسلہ وار ''خانقاہ حامدیہ '' کے زیر اہتمام اس مؤقر جریدہ میں بطور قندِ مکرر شائع کیا جارہا ہے ! اللہ تعالیٰ قبول فرمائے (ادارہ)
خود شناسی
( نظر ثانی و عنوانات : حضرت مولانا سےّد محمود میاں صاحب )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ !
میرے مضمون کا عنوان ہے ''خود شناسی ''اس کامطلب ہے اپنے آپ کو پہچاننا ! اپنے آپ کو پہچاننا کئی طرح ہوسکتا ہے اس کی ایک بہت ہی مفید صورت یہ بھی ہے کہ بندہ اپنی حقیقت سامنے رکھے کہ وہ کتنا عاجز بے بس اور محتاج ہے اور اس کے بالمقابل اپنے پروردگار کی عظمت وقدرت، جلال و جبروت، قہر و غلبہ کا تصور کرے گویا خود شناسی کو خداشناسی کا ذریعہ بنائے مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ
جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا یقینا اس نے اپنے رب کو بھی پہچان لیا ! مثلاً انسان یہ غور کرے کہ وہ کھانا کھاتا ہے پانی پیتا ہے مگر یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے ارادہ سے اسے ہضم کرسکے بلکہ اسے نہیں معلوم ہوتا کہ جسم کے اندر کیا عمل ہورہا ہے کس طرح خوراک اور کس طرح پانی جزو بدن بن رہے ہیں ! وہ کھاپی کر سوجاتا ہے گویا اور بھی زیادہ بے خبر ہو جاتا ہے ! لیکن جب اٹھتا ہے تو طبیعت میں تازگی اور توانائی محسوس کرتاہے اور اپنے منشاء کے کام میں بشاشت ِنفس سے لگ جاتا ہے ! زندگی بھر انسان کا یہی معمول رہتا ہے لیکن کبھی اس طرف خیال نہیں جاتاکہ آخرمیری بدنی صلاحیتوں کوبحال رکھنے والی نظروں سے غائب مگر حاضر ذات میرے ساتھ کیا کیا احسانات فرمارہی ہے اور کیسے کیسے میری تربیت کررہی ہے کہ میں اگر سوبھی جاتا ہوں تو پھر بھی وہ نظامِ بدنی کو قائم رکھتی ہے !
اگر اس طرح انسان اپنی ذات ہی پر نظرِ غائر ڈالے تو اسے یقینا ذاتِ پروردگار نظر آ جائے گی اور اسے ''خود شناسی'' کے ساتھ'' خدا شناسی'' حاصل ہوگی ! ! !
( بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہ بَصِیْرَة وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَا ذِیْرَہ ) ( القیامة : ١٤ ، ١٥ )
''بلکہ انسان اپنے اوپر خود شاہد ہے گووہ کتنے ہی بہانے پیش کرے''
کبھی انسان صحت مند ہے تو کبھی بیمار ہوتا ہے بیماری کی صورت میں وہ اتنا عاجز رہتا ہے کہ اپنی بیماری کو جو اسی کے جسم میں ہوتی ہے نہیں پہچان سکتا اپنے باطن میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتا ! آخر علم ناقص مستعار لیتا ہے طبیب و ڈاکٹر اسے دیکھتے ہیں حالات سنتے ہیں طرح طرح کے ٹیسٹ لیتے ہیں پھر بیماری کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں اور بعض اوقات پھر بھی بیماری کسی کی سمجھ میں نہیں آتی یا سمجھ میں آجاتی ہے مگر سب اس کے علاج سے قاصر رہتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتاہے کہ ایک انسان معمولی سی بیماری محسوس کرتا ہے ڈاکٹر بھی معمولی ہی سمجھ کر علاج شروع کرتے ہیں مگر وہ بجائے صحتمند ہونے کے اور بیمار ہوتا چلاجاتا ہے ! !
کیا یہ انسان کی کھلی ہوئی عاجزی نہیں کہ دست ِقدرت اتنا لطیف وقوی ہے کہ اس کے سامنے سب عاجز آجاتے ہیں ! اسی لیے سرورکائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے ایک دعا میں ارشاد فرمایا ہے
لَا شِفَآئَ اِلَّا شِفَآئُکَ ( مشکٰوة المصابیح رقم الحدیث ١٥٣٠ )
'' خداوندا تیری شفاء کے سواکوئی شفاء نہیں '' یعنی حقیقتاً شفاء تو ہی بخش سکتا ہے
وجدانیات کے لیے یعنی ان چیزوں کے لیے جو انسان اپنے اندر پاتا ہے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہواکرتی ! وہ اس کے لیے ایسی ہوتی ہیں جیسے مشاہدہ مثلاً کسی شخص کے سرمیں درد ہوتو اسے اس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہ ہوگی وہ خود یقین کے ساتھ اپنے درد کو محسوس کرے گا ایسے ہی خوشی اور غم، محبت اورنفرت ایسی وجدانی کیفیات ہیں جن کے لیے اس انسان کو جوانہیں محسوس کررہا ہو کسی دلیل کی حاجت نہیں ہوتی ! !
لہٰذا اگر انسان خود شناسی کے ذیل میں ان تصرفات ِقدرت پر نظر رکھے جو اسے اپنی ذات میں نظر آسکتے ہیں تو اسے معرفت ِخدا کے وجدانی دلائل دکھائی دیں گے ! ! ارشاد ربانی ہے
( سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی ےَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ) ١
''عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں دنیا میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے ''
غرض ایک بالکل بے پڑھا لکھا انسان بھی اگر اس طرح غور کرے تو اسے اپنی ذات میں خداوندکریم کی ذات پاک کی معرفت ملے گی ! ! ارشاد خداوندی ہے
( وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ) ٢ '' اور خود تمہارے نفسوں میں بھی ، پس کیا تم غور سے نہیں دیکھتے''
انسان خود شناسی کے راستہ منزلیں طے کر تا ہوا خداشناسی تک جا پہنچتا ہے ! کیونکہ ایک طرف جب وہ اپنی حقیقت اور اپنی صفات پر نظر ڈالتا ہے تو ہر طرف کمی اورخامی نظر آتی ہے ! !
دوسری طرف ذات خداوندی کے بارے میں سوچتا ہے تو وہ ذات بے عیب اور کمالات سے متصف مشہود ہوتی ہے ! !
حق تعالیٰ کا ''قَیُّوْم'' ہونا کہ وہ تما م ہی مخلوق کو قائم رکھے ہوئے ہے اس کا'' حَیُّ'' ہوناکہ درحقیقت وہی صفت ِحیات سے متصف ہے یا جسے وہ حیات مستعار بخش دے ! !
اس کا'' مُمِیْت'' ہونا ''عَلِیْم ''ہونا،'' خَبِیْر'' ہونا جتنی بھی صفات ہیں ان سب صفات سے معرفتِ باری تعالیٰ کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ! ! اور اللہ کا وعدہ ہے
( وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ) ٣
''اور جنہوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم انہیں ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے''
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی معرفت ِ کاملہ نصیب فرمائے
٭٭٭
١ سُورة حٰم السجدة : ٥٣ ٢ سُورة الذاریات : ٢١ ٣ سُورة العنکبوت : ٦٩




میرے حضرت مدنی قسط : ١٢
٭٭٭
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی دامت برکاتہم
امیر الہند و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
٭٭٭
مجاہدات :
حضرت شیخ الاسلام مولانا الحاج سیّدحسین احمد صاحب المدنی نور اللہ مرقدہ کے مجاہدات کے لیے تو بڑے دفتر چاہئیں ! یہ تومیرا متعدداکابر سے سناہواہے کہ جب مدینہ پاک میں ذکروشغل کی ابتداء کی تو مدینہ پاک سے باہر ایک مسجد اجابہ تھی جو اب تو شہر کے اندر آگئی اور چاروں طرف آبادی بہت بڑھ گئی اس وقت ویرانہ میں تھی، حضرت وہاں بیٹھ کر اس زور و شور سے ضربیں لگایا کرتے تھے کہ دور تک آواز جایا کرتی تھی اور بعض مرتبہ جوشِ عشق میں ضربیں لگاتے لگاتے اٹھ کر مسجد کی دیواروں میں سر دے کر مارا کرتے تھے !
یہ گستاخ بعض مواقع پر حضرت سے عرض بھی کردیتا تھا کہ آپ کی دماغی قوت کا کون مقابلہ کرسکتا ہے جس کا سر دیواروں پر مارنے سے بھی نہ پھوٹا،حضرت نے کبھی اس کی تردید تو فرمائی نہیں مگر ایسا گہرا سکوت فرماتے تھے کہ یہ گستاخ کہہ کر خود ہی پشیمان ہوتا تھا !
حجاز سے واپسی اور صبح کو چھ بجے دیوبند پہنچنا اور اسی وقت سات بجے بخاری شریف کا سبق پڑھا دینا تومجھے بھی معلوم ہے۔ الیکشن کے ہنگامہ میں ایک مرتبہ جمعرات کی شام کو چار بجے کی گاڑی سے دہلی تشریف لے گئے، دس بجے حاجی علی جان مرحوم کی کوٹھی میں کوئی میٹنگ تھی دو گھنٹے اس میں مشغول رہے وہاں سے فارغ ہوکر رات ہی کو نانوتہ پہنچے، صبح کی نماز کے بعد نانوتہ میں جلسہ میں تقریباً دو گھنٹے تقریر فرمائی، وہاں سے فارغ ہوکر سہارنپور ہوتے ہوئے سیدھے سنسار پور تشریف لے گئے وہاں ایک اجتماع میں تقریر فرمائی، جمعہ بہٹ آکر پڑھا اور جمعہ کے بعد دو گھنٹے وہاں تقریر فرمائی، عصر کے بعد سہارنپور تشریف لائے،عشاء کے بعد سہارنپور کے ایک اجتماع میں تقریر فرمائی ،شنبہ کی صبح کو دیوبند جاکر بخاری شریف کا سبق پڑھادیا ! !
حضرت کے مجاہدات کی تفصیل توبہت لمبی ہے اور مجاہد ِاعظم کالقب حضرت کے لیے حضرت کے مجاہدات کے مقابلہ میں کم ہے البتہ سلہٹ کے ایک رمضان کا واقعہ لکھواتا ہوں جس کو مولوی عبدالحمید اعظمی نے ''مولانا مدنی کاقیام سلہٹ'' نامی رسالہ میں مفصل تحریر فرمایا ہے ! ( آپ بیتی ص ٨٣٩ ، ٨٤٠)
معمولاتِ رمضان :
یہ بہت ہی طویل مضمون اس رسالے کے دس صفحے پر آیاتھا،اسی دوران میں اکابر کے رمضان کے نام سے مستقل ایک رسالہ لکھنے کی نوبت آگئی اس میں بھی یہ مضمون بعینہ مکرر آگیا اگرچہ میرا تو جی چاہتا تھا کہ دونوں رسالوں میں مستقل آجائے مگر میرے بعض دوستوں کی رائے ہوئی کہ ایک ہی مضمون دو جگہ اتنا طویل تکرار ہے مختصر ہوتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا اس لیے یہاں سے لکھوانے کے بعد حذف کردیا مگر ہے قابلِ دید اور اکابر کے رمضان تو سارے ہی دیکھنے کے قابل ہیں ۔ دوستوں کا مشورہ ہے کہ اس مضمون کو خاص طور سے اس میں ضرور دیکھیں ، بعد میں مفتی محمود صاحب کی رائے یہ ہوئی کہ دونوں جگہ ہونا ضروری ہے اس لیے باقی رکھا گیا !
مولوی عبدالحمید صاحب اعظمی حضرت کے معمولاتِ رمضان کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ حضرت مولانا کا قیام تو داروغہ عبدالستار مرحوم کے مکان پر ہوتا تھا اور نئی سڑک کی بڑی مسجد جو قیام گاہ سے تقریباً دو فرلانگ ہے اس میں حضرت پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے تھے اور اسی میں زائرین معتقدین دور دراز سے آکر ماہِ مبارک میں فروکش ہوتے تھے چونکہ حضرت قدس سرہ کا پورے ماہ کا قیام ہوتا تھا اس لیے نیت اقامت کی ہوتی تھی اور جملہ نمازوں میں حضرت خود ہی امامت فرمایا کرتے تھے اور ظہر کی نماز کے بعد مصلے کے چاروں طرف جو بیسیوں بوتلیں پانی دم کرنے کی رکھی رہتی تھیں (ان پر دم کرتے) اس کے بعد مصلے کے نیچے سے وہ درخواستیں نکالتے جو ظہر کی نماز تک وہاں جمع ہوتی رہتی تھیں اور ان کو ہر ایک کو پڑھ کر صاحب درخواست کو بلا کر اس کی درخواست پوری فرماتے تعویذ وغیرہ لکھتے جس میں بیعت کی درخواست ہوتی ان سب کو ایک کونے میں جمع کرتے ان درخواستوں سے فارغ ہونے کے بعد بیعت ہونے والے حضرات کو بیعت کرتے پھر کچھ ارشاد ونصیحت کے بعد دولت خانہ پر تشریف لے جاتے، جانے کے ساتھ کبھی ذرا سا لیٹ گئے ورنہ تلاوت میں مشغول ہوگئے ڈاک کا کام اگر باقی رہ گیا تو اس کو پورا کیا !
اسی درمیان خصوصی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا اتنے میں عصر کی اذان ہوجاتی، حضرت ضروریات سے فارغ ہوکر نمازِ عصر کے لیے تشریف لے جاتے، نمازِ عصر سے فارغ ہونے کے بعد مولانا حافظ محمد جلیل صاحب مدرس دار العلوم دیوبند کے ساتھ سواپارے کا دور فرماتے، اس طرح کہ پاؤ پارہ حضرت پڑھتے اور پھر وہی پارہ حضرت مولانا محمد جلیل صاحب پڑھتے، مغرب تک اسی طرح رہتا، اگر غروب سے پہلے دور ختم ہوجاتا تو حضرت مراقب ہوتے اور رفقاء اپنے ذکروشغل میں مشغول رہتے اور معمولی افطار کے بعد جو عموماً کھجور اور زمزم ہوتے اور ناشپاتی، انناس، عمدہ کیلے، امرود، آم، بصری کھجوریں ، ناریل کا پانی، پپیتے، میٹھے اور نمکین چاول بھی ہوجاتے، تلے ہوئے انڈے بھی ہوتے اور عام ہندوستانی افطاری پھلکیاں ، چنے وغیرہ سے دسترخوان خالی ہوتے !
میں تو سمجھا کہ ان چیزوں کا یہاں رواج نہیں مگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ رواج تو خوب ہے مگر ان چیزوں کوگھٹیا سمجھا جاتا ہے اس لیے حضرت کے دسترخوان پر لانا توہین سمجھتے تھے، اس سب کے باوجود حضرت کا افطار بہت ہی مختصر ہوتا ! اس وقت میں سارے دسترخوان پر چہل پہل اور فرحت وسرور کا دور ہوتا مگر حضرت نور اللہ مرقدہ نہایت استغراق میں ساکت رہتے، افطارگاہ مسجد کے قریب ہی تھا لیکن دور کے ختم ہونے کے بعد سے جو استغراقی کیفیت ہوتی تو بعض مرتبہ اذان کی بھی اطلاع کرنی پڑتی !
(از زکریا: یہ منظر اس ناکارہ نے بھی دیوبند کی حاضری پر بارہا دیکھا کہ لوگ کسی سیاسی مسئلہ پر زور شور سے بحث و مباحثہ کرتے رہتے اور کسی موقع پر حضرت زور سے فرماتے ''آئیں '' ''آئیں '' اس وقت میں سمجھتا کہ حضرت جی تو یہاں ہیں ہی نہیں )
افطار کی ان تنوعات کے باوجود جو اوپر ذکر کیا گیا حضرت کا افطار کھجور زمزم کے بعد ایک آدھ قاش کسی پھل کی نوش فرماکر ناریل کا پانی نوش فرماتے اور ایک یا آدھی پیالی چائے کی نوش فرماتے لیکن دسترخوان کے ختم ہونے تک وہیں تشریف فرماتے اور کبھی کبھی کوئی مزاحی وتفریحی فقرہ بھی فرما دیا کرتے، آٹھ دس منٹ اس افطار میں لگ جاتے ، اس کے بعد حضرت مغرب کی نماز نہایت مختصر پڑھتے اور اس کے بعد دو رکعت نفل نہایت طویل تقریباً نصف گھنٹہ تک پڑھتے اس کے بعد حضرت طویل دعا مانگتے جس میں سارے اہلِ مسجد چاہے مشغول ہوں یا فارغ شرکت کرتے ! اس کے بعد اگر کہیں کھانے کی دعوت ہوتی تو مسجد سے داعی کے مکان پر تشریف لے جاتے ورنہ اپنی قیام گاہ تشریف لے جاتے ! کھانے میں دو دسترخوان ہوا کرتے تھے ایک حضرت اور کے رفقاء کا جو روٹی کھانے کے عادی تھے، اور دوسرا ان مہمانوں کا جو چاول کھانے والے ہوتے تھے، حضرت کے رفقاء میں صاحبزادے مولانا اسعد اور عزیزان ارشد وریحانہ بھی ہوتے، یہ تینوں بھی چاول کھانے والوں میں ہوتے ، حضرت مزاحاً ارشاد فرمایا کرتے کہ دو بنگالی میرے پاس بھی ہیں ، ان کے لیے بھی چاول پکا دیجیے، دسترخوان پر مختلف قسم کے چاول کثرت سے ہوتے تھے اس لیے کہ مجمع بنگالیوں کا ہوتا تھا اور وہ چاول کے عادی ہیں ،پراٹھے کا دستور ہے مگر سادی چپاتیاں نہ معلوم ہیں ، نہ کوئی پکانا جانتا ہے ! دسترخوان پر گوشت وغیرہ کے علاوہ کسی میٹھی چیز کا ہونا بھی ضروری ہے، حلوے اور شاہی ٹکڑوں کے علاوہ پپیتے اور پیٹھے کی سویاں اس تکلف سے پکائی جاتیں کہ ادھر کے لوگوں کو اس کی پہچان اور تمیز مشکل ہوتی ! نیپال کی سبز مرچیں تراش کر دسترخوان پر رکھنا بھی ضروری ہوتا ! باوجود اس کے کہ یہ مچھلیوں کا ملک ہے معلوم نہیں کہ مچھلی دسترخوان پر کیوں نہیں ہوتی تھی ! ایک نئی ترکاری بانس کی لائی گئی تھی، تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہاں بانسوں میں ایک گوپھا ہوتا ہے اس کی ترکاری پکائی جاتی ہے ! !
حضرت نور اللہ مرقدہ کا عمومی دسترخوان دیوبند میں بھی اور یہاں بھی عرب کے قاعدہ کے موافق ایک بڑے طباق میں ترکاری اور اس کے چاروں طرف حلقہ بناکر کھانے والے بیٹھتے تھے ! حضرت نور اللہ مرقدہ کے پاس ایک کپڑے میں گرم چپاتیاں لپٹی رہتی تھیں اور حسب ِ ضرورت مہمانوں کو مرحمت فرماتے رہتے تھے ! اگر کوئی شخص اپنی رکابی کو بھری ہوئی چھوڑدیتا تو حضرت اس کو اٹھاکر اپنے دست ِ مبارک سے صاف کردیتے اور دسترخوان پر گرے ہوئے روٹی کے ٹکڑے اٹھاکر بے تکلف کھالیتے تھے جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو بھی اس کا اہتمام ہوگیا ! حضرت کا معمول دو زانو بیٹھ کر کھانے کا تھا ایک چپاتی بائیں ہاتھ میں دبالیتے اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے توڑکر کھاتے، سب سے اوّل میں افتتاح کرتے اور سب سے آخر میں فارغ ہوتے، کھانے کے بعد سب مہمان چائے پیتے !
یہ سب تفصیل دعوت کی تھی، اگر کہیں دعوت نہ ہوتی تو حضرت مغرب کی نماز سے فراغ کے بعد سیدھے قیام گاہ پر تشریف لاتے، کھانا پہلے سے تیار ہوتا، تشریف لاتے ہی دو دسترخوان ایک چاول والوں کا اور دوسرا حضرت اور ان کے رفقاء روٹی کھانے والوں کا چونکہ مکان پر کھانے سے جلدی فراغ ہوجاتا اس لیے حضرت کھانے کے بعد چند منٹ بیٹھ جاتے، احباب مختلف گفتگو علمی یا اخباری کرتے رہتے حضرت بھی اس میں شریک ہوتے، اس کے بعد چند منٹ کے لیے حضرت آرام فرماتے ! !
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کا مخصوص لہجہ اور ان کی نماز کا خشوع اور خضوع نہ صرف ہندوستان بلکہ عرب اور حجاز میں بھی ممتاز ومسلم ہے ! سلہٹ میں حضرت نماز اور تراویح کی امامت خود فرماتے اس لیے تراویح کی شرکت کے لیے دور دراز سے روزانہ سینکڑوں آدمی آتے اور تراویح وتہجد کی شرکت فرماکر صبح سب اپنے گھر روانہ ہوجاتے !
(از زکریا : حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کی قراء ت اور نمازوں کے متعلق جو لکھا لفظ بلفظ صحیح ہے فرائض کی اقتداء تو اس ناکارہ کو سینکڑوں مرتبہ ہوئی ہوگی لیکن ماہِ رمضان میں حضرت قدس سرہ کی خدمت میں حاضری کی کبھی توفیق نہیں ہوئی البتہ تراویح میں دو مرتبہ اقتداء کی نوبت آئی، پہلی مرتبہ رمضان المبارک ١٣٦٣ھ میں جبکہ حضرت مدنی قدس سرہ اِلہ آباد جیل سے رہا ہوکر ١٤ رمضان یکشنبہ کی صبح کو سہارنپور پہنچے اور اسی وقت دوسری گاڑی سے دیوبند روانہ ہوگئے اور ایک شب دیوبند قیام کے بعد ٢ شنبہ کی دوپہر کو بارہ بجے دہلی تشریف لے گئے چونکہ اس سال ٢١ رجب کی صبح کو چچا جان کا انتقال ہوگیا تھا اس لیے حضرت قدس سرہ دہلی پہنچنے کے بعد مغرب کے بعد نظام الدین بسلسلہ تعزیت تشریف لے گئے ، تراویح کے وقت حضرت نے فرمایا جو امام تراویح ہے وہ تراویح پڑھائے، میں نے عرض کیا کہ کس کی ہمت ہے کہ آپ کے سامنے تراویح پڑھا سکے آج تو آپ ہی کو پڑھانی ہے ،تھوڑی سی ردّوقدح کے بعد حضرت نے منظور فرما لیا اور اس شب کی تراویح کی امامت حضرت نظام الدین نے فرمائی اور اپنی تراویح کا قرآن جو پہلے سے شروع ہوا ہوا تھا اس میں پارہ چودہ کے نصف سے سورہ بنی اسرائیل کے ختم تک ایک پارہ بیس رکعت میں ایسے اطمینان سے پڑھا کہ لطف آگیا ! !
دوسری مرتبہ دوسرے ہی سال رمضان ١٣٦٤ ھ کی پہلی تراویح حضرت نے سہارنپور کے اسٹیشن پر پڑھائی کہ ٢٩ شعبان کی شب میں صبح کو چاربجے بخاری شریف ختم ہوئی اور اسی دن شام کو مع اہل وعیال لاری سے دیوبند سے روانہ ہوکر سہارنپور پہنچے اور بارہ بجے کے قریب سہارنپور کے اسٹیشن پر بہت بڑی جماعت کے ساتھ تراویح پڑھی ، اہلِ مدرسہ و اہلِ شہر کی بڑی جماعت جو اپنے اپنے یہاں سے تراویح پڑھ کر اسٹیشن پر پہنچتے رہے اور بہ نیت نفل شریک ہوتے رہے ! !
زکریا کو حضرت نے حکم فرمایا کہ میرے قریب کھڑے ہو، سامع تمہیں بننا ہے ، میں عرض کیا کہ آپ کو لقمہ دینا آسان تھوڑا ہی ہے، مجمع میں حافظ بہت ہیں ، اچھے سے حافظ کو لاؤں ، حضرت نے قبول نہیں فرمایا اور اس شب کے استماع کا فخر اس سیہ کار کو حاصل ہوا فقط)
مولوی عبدالحمید صاحب لکھتے ہیں کہ چونکہ مجمع دور دور سے آتا تھا اذان کے بعد ہی مسجد پُر ہوجاتی تھی بعد میں آنے والوں کو جگہ بھی نہیں ملتی تھی، حضرت کے تشریف لے جانے کے لیے درمیان میں تھوڑی سی جگہ خالی رکھی جاتی، مسجد میں تشریف لاتے وقت متولی ٔ مسجد پانی کا گلاس پہلے سے بھر کر انتظار میں کھڑے ہوتے کہ حضرت مکان سے چائے وغیرہ سے فراغت کے بعد ایک پان کھاکر موٹر میں تشریف فرما ہوتے اور کلی کر کے سیدھے مصلے پر پہنچتے تھے، کثرتِ ہجوم کی وجہ سے ایک دو مکبر تو ضروری تھے اور اخیر عشرہ میں کئی کئی مکبر ہوجاتے تھے، تراویح میں ڈھائی پارے قرآن پاک کے اس طرح پڑھتے کہ اوّل چار رکعتوں میں مولوی جلیل سوا پارہ پڑھتے اور اسی سوا پارہ کو سولہ رکعتوں میں حضرت قدس سرہ پڑھتے ، ترویحہ بہت لمبا ہوتا ! !
حضر ت پر تراویح میں قرآنِ پاک پڑھتے ہوئے بعض وقت ایک جوش پیدا ہوتا کہ اس وقت کی لذت تو سننے والے ہی کو معلوم ہے ! تروایح کے بعد بہت طویل دعا ہوتی جس میں حاضرین پر گریہ وبکاء کاایسا زور ہوتا کہ بسا اوقات ساری مسجد گونج جاتی ! تراویح کے بعد حضرت اپنے رفقاء اور خدام کے ساتھ وہیں چائے نوش فرماتے اور تقریباً دس منٹ بعد حضرت قدس سرہ وعظ کے لیے کھڑے ہوجاتے اور لوگ اپنی اپنی مساجد سے تراویح پڑھنے کے بعد حضرت کے وعظ میں شرکت کے لیے مسجد میں آجاتے اور لوگوں کی کثرت کی وجہ سے تل رکھنے کی جگہ نہیں رہتی بلکہ لوگ مسجد سے باہر سڑکوں پر کھڑے ہوتے، وہاں آواز نہیں پہنچتی تھی اس لیے آلہ مکبر الصوت کا انتظام کیا گیا اور اس وقت میں وعظ میں شرکت کرنے والوں کو جن کی ہزاروں کی تعداد ہوتی تھی چائے بھی خاموشی سے ملتی رہتی، مگر اس میں آواز بالکل نہ ہوتی تھی اور نہ کوئی ایسا شخص ہوتاتھاجس کو چائے نہ ملی ہو، اتنے حضرت نور اللہ مرقدہ اپنی چائے سے فراغت پاتے اتنے میں مجمع بھی چائے سے فارغ ہوجاتا ! یہ وعظ بالکل اصلاحی ہوتا تھا، سیاسیات پر کوئی کلام طویل نہ ہوتا، ایک آدھ لفظ بیچ میں چاشنی کے طور پر آجاتا تھا (لارڈمیکالے اور ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر تو حضرت قدس سرہ کے وردِ زبان تھے) حضرت کے وعظ میں پرچہ بھی پہنچتا رہتا اور حضرت ا س کو سن کر اس کا جواب بھی تفصیل سے دیتے، جب وسط ِ رمضان کے بعد سے حضرت قدس سرہ کی طبیعت ناساز ہوگئی تو دوسرے لوگ وعظ کرتے رہے لیکن حضرت قدس سرہ باوجود ناسازیٔ طبع کے جب تک وعظ ختم نہ ہوتا وعظ میں تشریف فرما ہوتے ! !
اس کے ایک گھنٹہ بعد وعظ ختم ہوکر مصافحہ کا نمبر شروع ہوتا، باوجود انتظامات کے کار تک پہنچنے میں دیر لگ جاتی، مکان پر تشریف لانے کے بعد ہلکا سا ناشتہ پیش ہوتا جس میں جملہ حاضرین شرکت کرتے ڈیڑھ بجے رات کو یہ مجلس ختم ہوجاتی، اس کے بعد حضرت اپنے حجرہ میں تشریف لاتے، اس میں بھی بعض مخصوص حضرات سے تخلیہ میں بات کرتے، اس کے بعد تقریباً آدھ گھنٹہ حضرت آرام فرماتے اور پھر تہجد کے لیے بیدا ہوجاتے ! ! !
(از زکریا : اس کا اس ناکارہ کو بھی بہت ہی کثرت سے تجربہ ہوا ہے کہ میرے حضرت مرشدی سہارنپوری اور حضرت مدنی نور اللہ مرقدہما کی نیند اس قدر قابو کی تھی کہ جب سونے کا ارادہ فرماتے، لیٹتے ہی آنکھ لگ جاتی اور جب اٹھنے کا ارادہ ہوتا بغیر کسی الارم یاجگانے والے کے خود بخود آنکھ کھل جاتی ! میں ان دونوں اکابر کے متعلق آپ بیتی میں کہیں لکھوا بھی چکا ہوں کہ حضرت مرشدی جب اسٹیشن پر تشریف لے جاتے اور معلوم ہوجاتا کہ گاڑی دس منٹ لیٹ ہے تو حضرت فرماتے کہ دس منٹ میں ایک نیند لی جاسکتی ہے اور وہیں بسترہ کھلواکر آرام فرماتے اور دس منٹ بعد خود بخود اٹھ جاتے ! اور حضرت شیخ الاسلام کے متعلق سینکڑوں دفعہ یہ بات دیکھنے کی نوبت آئی کہ میرے مکان پر تشریف لاتے، آرام فرماتے اور گاڑی چھوٹنے سے آدھ گھنٹہ پہلے اپنے آپ اٹھ جاتے، میں نے بہت دفعہ کوشش کی کہ آنکھ نہ کھلے ، کوئی آہٹ نہ ہو مگر آدھ گھنٹہ پہلے اٹھ کر فوراً اسٹیشن کے لیے روانہ ہوجاتے، فقط)
اور ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد مسجد میں تہجد کے لیے تشریف لے جاتے جو لوگ تہجد کی شرکت کے لیے دور دور سے آتے وہ سب حضرت نور اللہ مرقدہ کے پہنچنے سے پہلے ورنہ پہلی رکعت میں ضرور شریک ہوجاتے ! ! تہجد میں دو قرآن کا معمول تھا ایک حضرت نور اللہ مرقدہ پڑھتے ، دوسرا مولانا محمد جلیل صاحب ،حضرت تہجد کے لیے تشریف لے جاتے وقت بہت اہتمام کرتے کہ آہٹ نہ ہو اور کسی کی آنکھ نہ کھلے، مگر لوگ فرطِ شوق میں جاگ ہی جاتے تھے، نفلوں کے بعد چونکہ سحری کا وقت بہت کم رہ جاتا اس لیے فوراً اسی وقت مکان پر سحری کا دستر خوان بچھ جاتا اور وقت کی تنگی کی وجہ سے جلدی جلدی انگلیاں اور منہ کھانے میں مشغول اور آنکھیں گھڑی پر اور کان مؤذن کی آواز پر ہمہ تن متوجہ رہتے ! اور حضرت سحری سے فراغت کے بعد تھوڑی دیر لیٹ جاتے اور پھر معاً نماز کی تیاری کرتے مسجد تشریف لے جاتے اور اسفار میں نماز ہوتی لیکن اخیر عشرہ میں اعتکاف کے زمانہ میں غلَس میں شروع ہوتی اور اسفار تام میں ختم ہوتی ! !
واپس جانے والے حضرات الوداعی مصافحے کرتے اور حضرت اپنی قیام گاہ پر تشریف لاتے اور فوراً لیٹ جاتے ، ایک دو خادم بدن دباتے اور سرمبارک پر تیل ملا جاتااور حضرت بعض مرتبہ باتیں کرتے کرتے ہی سو جاتے، رفقاء بھی سب سو جاتے ، حضرت تھوڑی دیر آرام کے بعد استنجاء اور وضو سے فارغ ہونے کے بعد تلاوت ِ قرآن شریف میں مشغول ہوجاتے اور دس بجے سے ان لوگوں کی آمد شروع ہوجاتی جن کو تخلیہ کا وقت دے رکھا تھا، لیکن اس درمیان میں بھی اگر کچھ وقت ملتا تو حضرت قدس سرہ تلاوت میں مصروف ہوجاتے اور اسی وقت میں ڈاک بھی تحریر فرماتے، اس سال چونکہ ڈاک کی ہڑتال تھی اس لیے ١٠ رمضان تک تو ڈاک کا سلسلہ بند رہا اور گزشتہ ڈاک جو ساتھ تھی اس کی تکمیل فرماتے رہتے، لیکن ١٠ رمضان کے بعد ڈاک جب شروع ہوگئی تو اس کا انبار لگ گیا تو اس میں بہت وقت خرچ ہونے لگا، اسی درمیان میں جن لوگوں کو کچھ خصوصی بات کرنی ہوتی وہ بھی آ تے جاتے، یہ سلسلہ کبھی کبھی تو ظہر تک چلتا اور اگر کبھی وقت مل جاتا تو ظہر سے پہلے آدھ گھنٹہ آرام فرمالیتے، اس سال حضرت نور اللہ مرقدہ کی طبیعت بہت ناساز رہی اور وسط ِ رمضان سے بخار وغیرہ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اس لیے بعض خدام نے اعتکاف کے متعلق استمزاج کیا کہ اعتکاف میں دقت زیادہ ہوگی، حضرت نے فرمایا کہ نہیں ، اعتکاف کی نیت کر لی ہے چنانچہ مسجد کے ایک کونہ میں حضرت کا معتکف بنادیا گیا، لیکن بخار کی شدت کی وجہ سے بسا اوقات دورانِ نماز میں سردی لگ جاتی، حضرت چادر اوڑھ لیتے، برقی پنکھے بند کردیے جاتے اور بعض مرتبہ چائے پی کر اسی طرح نماز میں مشغول ہوجاتے، اسی طرح بخار ہی کی حالت میں تہجد میں طویل قیام اور لمبی قراء ت کرنا پڑتی کیونکہ قیام گاہ پر حضرت کی ناسازیٔ طبع کی وجہ سے چار راتوں میں تہجد کی نماز باجماعت نہیں ہوسکی تھی اس لیے قرآن ختم ہونے کو کافی باقی رہ گیا تھا اس کمی کو اس عشرہ میں پورا کرنا ضروری تھا اس پر مزید یہ کہ مسجد میں قیام اور لوگوں کے ہجوم واژدہام کے باعث رات کے نصف گھنٹے کا وہ سکون اور خاموشی بھی یہاں میسر نہیں تھی جو قیام گاہ پر حاصل تھی اس لیے مشاغل کی زیادتی کے ساتھ آرام کا بھی کوئی خاص موقع نہیں ۔
اخیر عشرہ میں ہجوم بہت زیادہ بڑھ گیا تھا، مسجد سے باہر سڑکوں پر بھی آدمی رہتے تھے جس کی وجہ سے ظہر کے بعد کی درخواستوں میں بھی کافی اضافہ ہوگیا تھا، اسی طرح سے بیعت ہونے والوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی اور مخصوص طالبین و سالکین جن کو اپنے مخصوص حالات سنا کر ہدایات لینی تھیں ان کی تعداد تو بہت ہی بڑھ گئی تھی حتی کہ ان کے لیے نمبروار باری مقرر کرنی پڑگئی، صبح کی نماز سے فارغ ہوکر جانے والوں کے مصافحوں کی بہت کثرت ہوتی اس سے فارغ ہوکر حضرت اپنے معتکف میں تشریف لے جاتے اور تھوڑی دیر آرام فرمانے کے بعد جبکہ رات کا جاگا ہوا سارا مجمع گہری نیند سویا ہوا ہوتا حضرت اٹھ کر نہایت آہستہ آہستہ قدم بچاکر استنجاء کے لیے تشریف لے جاتے اور وضو فرماکر اپنے معمولات میں مشغول ہوجاتے ! !
شب قدر کے متوالے چھبیس کی صبح ہی سے مسجد میں آنے شروع ہوجاتے اور ہجوم بڑھتا رہتا، اس لیے کہ عوام میں شب ِقدر کے متعلق مشہور یہی ہے کہ وہ ستائیس کو ہوتی ہے اس لیے مسجد کے آس پاس کی جگہ بھی کھچا کھچ بھر گئی ، ظہر کے بعد کی درخواستوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ حد نہیں اور رات کو دم کرنے والی بوتلوں کا ہجوم حضرت کے مصلے کے چاروں طرف پھیل گیا اور جب تہجد کے بعد حضرت نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا یا تو ساری مسجد رونے سے گونج گئی اور خود حضرت نور اللہ مرقدہ کے اوپر جس کیف وسرور کی حالت دیکھی وہ بیان سے باہر ہے۔ شب ِ قدر کی تعیین میں حضرت کی مجلس میں مختلف گفتگو ئیں شروع ہوئیں راقم الحروف (مولانا عبدالحمید صاحب اعظمی) نے کہا کہ اہل اللہ کو تو شب قدر کے کوائف سارے معلوم ہوجاتے ہیں ، معلوم نہیں اس سال اخیر راتوں میں سے کون سی رات میں شب قدر تھی ؟ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ اس سال شب ِ قدر تئیسوئیں شب میں تھی ! تیسویں رمضان چہار شنبہ کو عید کا چاند دیکھنے کے بعد حضرت شیخ مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر قیام گاہ پر تشریف لے گئے، اس شب میں بھی تہجد کی نماز جماعت سے ہوئی اور حضرت نے اس قدر طویل قیام فرمایا کہ سارے رمضان میں کسی رات میں اتنا طویل قیام تہجد میں نہیں فرمایا ہوگا، صبح کو ٹھیک ساڑھے نوبجے حضرت نے اسی مسجد میں عید کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد عربی زبان میں جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ اصل کتاب میں موجود ہے۔
( آپ بیتی ص ٨٤٠ تا ٨٤٩)
٭٭٭




تربیت ِ اولاد قسط : ١٦
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
٭٭٭
سات ہی برس میں نماز پڑھنے کی عادت ڈالوانا چاہیے :
ایک مرتبہ مجھے خیال ہوا کہ حدیث میں جو آیا ہے مُرُوْا صِبْیَانَکُمْ بِالصَّلٰوةِ اِذَا بَلَغُوْا سَبْعًا ''جب بچے سات برس کے ہوجائیں تو ان کو نماز کا حکم دو'' اس حکم میں سَبْعًا (سات برس) کی قید آسانی کے لیے لگادی ہے ورنہ یہ قید ضروری نہیں بلکہ بچہ ہوش والا ہوجائے اس کو نماز پڑھوانا چاہیے اگر چہ سات سال سے کم ہو ، یہ خیال کر کے میں نے مدرسہ میں حافظ صاحب سے جو بچوں کوپڑھا تے ہیں ان سے کہا کہ سب لڑکوں سے نماز پڑھوائی جائے خواہ ان کی عمر سات برس ہو یا اس سے کچھ کم ! چنانچہ ایسا ہی کیاگیا ، نماز کے بعد معلوم ہوا کہ ایک لڑکے نے جس کی عمر سات برس سے کم تھی اس نے جائے نماز پر پیشاب کردیا اس وقت سات سال کی تشریع (قید ) کی حکمت معلوم ہوئی اور یہ سمجھ میں آیا کہ اس سے پہلے اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی ! واقعی شرعی احکام ایسے ہیں کہ ان کے خلاف کرنے سے جب نقصان سامنے آتا ہے تب ان کی تشریع کی وجہ (اورحکمت) معلوم ہوتی ہے !
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح گناہ کے کام کرنے میں مفاسد ہیں اسی طرح طاعات میں شریعت سے آگے بڑھنے میں بھی مفاسد ہیں ۔ ( دعوات ِعبدیت)
بچوں کو روزہ رکھانے کے متعلق کوتاہی :
بعض لوگ خود تو روزہ رکھتے ہیں لیکن بچوں سے ان کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کے باوجود ان سے روزہ رکھانے کی پرواہ نہیں کرتے ! اور بعض لوگ ان کے نابالغ ہونے کو دلیل سمجھتے ہیں لیکن خوب سمجھ لیا جائے کہ بالغ نہ ہونے سے بچوں پر واجب نہ ہونا تو لازم آیا ہے لیکن اس سے یہ معلوم نہیں آیا کہ بچوں کے اولیاء (سرپرست)پر بھی ان سے روزہ رکھوانا واجب نہ ہو،جس طرح نماز کے لیے بالغ نہ ہونے کے باوجود ان کو نماز کی تاکید کرنا بلکہ مارنا ضروری ہے اسی طرح روزہ کے لیے بھی حکم ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نماز میں (سات برس) عمر کی قید ہے اورروزہ میں قوتِ برداشت پر مدار ہے (یعنی جب روزہ کی تکلیف برداشت کرنے کی قابلیت و طاقت آجائے تو روزہ رکھوانا واجب ہے) اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک دم سے کسی کام کا پابند ہونا دشوار ہوتا ہے اگر بالغ ہونے کے بعد ہی تمام احکام شروع ہوں تو اس پر ایک دم سے بار پڑجائے گا اس لیے شریعت نے پہلے ہی آہستہ آہستہ اعمال کا عادی بنانے کا قانون مقرر کیا تاکہ بالغ ہونے کے بعد دشواری نہ ہو ! اس قانون کی تنفیذ (یعنی اس پر عمل کرانا) سرپرستوں پر لازم کیا گیا اگر سر پرستوں پر یہ واجب نہ ہو تو اس قانون کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوگا
بہت چھوٹے بچوں کے روزہ رکھانے میں ظلم و زیادتی :
بعض لوگوں کو بہت چھوٹے کم سمجھ ناتواں بچہ کو روزہ رکھانے کا شوق ہوتا ہے کچھ تو خود اس روزہ رکھانے کا فخر ہوتا ہے اور کچھ روزہ کشائی میں حوصلہ نکالنے یعنی بچہ کے افطار کی خوشی میں دعوت کرنے کا ارمان ہوتا ہے ! اوّل تو اس کی بنیاد ہی فاسد ہے اور پھر اس میں ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں (مثلاً ریاکاری، شہرت وغیرہ) کہ گناہ میں اضافہ ہوتا ہے !
عبرت ناک واقعہ :
مجھ کو ایک جگہ کا قصہ معلوم ہے کہ اسی طرح ایک بچہ کو روزہ رکھوایا اور اپنا نام اونچا کرنے کے لیے روزہ کشائی (یعنی روزہ کھولنے کی دعوت) کا بہت زیادہ اہتمام کیا ! گرمی کے بڑے سخت دن تھے عصر کے وقت تو بچہ نے جوں توں کرکے کھینچا پھر آخر میں برداشت نہ ہوا اور صبر نے جواب دے دیا ! ٹھنڈے پانی کے مٹکے بھرے رکھے تھے، برف گھولنے کا سامان ہورہا تھا اس سارے سامان نے آگ بھڑکا دی ! بیچارہ بچہ ایک ایک سے پانی کی خوش آمد کرتا رہا لیکن اگر پانی دے دیتے تو دعوت کا سامان بیکار جاتا اپنا سامان بچانے کے لیے پانی کو جواب دے دیا آخر بچہ سخت بے تاب ہوکر دوڑکر ایک مٹکے سے جاکر لپٹ گیا اور محبوب سے ملتے ہی روح نے جسم کو چھوڑدیا ! اس کی نعش زبانِ حال سے کہہ رہی تھی کہ لو بھئی تمہارا سامان تم ہی کو مبارک ہو ہم اپنی جان تمہارے سامان پر فدا کرتے ہیں ! ! کس قدر حسرت ناک ماجرا ہے یہ نتیجہ ہے غلو اور زیادتی کا ! ! کیا اس ہلاکت اور قتل کی نسبت ان ظالموں کی طرف نہ ہوگی ؟
مکتب یعنی بسم اللہ کی رسم کا بیان :
ایک مکتب یعنی بسم اللہ کی رسم ہے جو بڑے اہتمام اورپابندی کے ساتھ لوگوں میں جاری ہے
٭ چار برس چار مہینے چار دن کا ہونا اپنی طرف سے مقرر کر لیا ہے جو بالکل بے اصل ہے پھر اس کی اتنی پابندی کہ چاہے جو کچھ ہوجائے اس کے خلاف نہ ہونے پائے ! اور جاہل لوگ تو اس کو شریعت ہی کی بات سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے عقیدہ میں خرابی اور شریعت میں ایک حکم کا اضافہ کرنا لازم آتا ہے !
٭ دوسری خرابی مٹھائی بانٹنے کی بے حد پابندی ہے کہ جس طرح بھی ہوسکے جبراً قہراً ضرور کرو ورنہ بدنام ہو ! پھر شہرت اور دکھلاوے کے لیے اور واہ واہ سننے کے لیے کرنا یہ الگ گناہ ہے ! !
٭ بعض لوگ بچے کو اس وقت خلافِ شرع لباس پہناتے ہیں ، یہ بھی گناہ ہے۔ مناسب طریقہ یہ ہے کہ جب لڑکا بولنے لگے اس کو کلمہ سکھلاؤ پھر کسی دیندار بزرگ کی خدمت میں لے جا کر بسم اللہ کہلادو اور اس نعمت کے شکریہ میں اگر دل چاہے تو بغیر کسی پابندی کے جو توفیق ہوچھپا کر خدا کی راہ میں کچھ خیرات کردو لوگوں کو دکھلاکر ہر گز مت کرو ! !
٭ اور اس کے قریب قریب قرآن شریف ختم ہونے کے بعد کی رسمیں ہوتی ہیں اور ان میں بھی بہت سی غیر ضروری باتوں کی پابندی کی جاتی ہے اور بہت سی باتیں ناموری کے لیے کی جاتی ہیں ! جیسے مہمانوں کو جمع کرنا،کسی کو جوڑے دینا، وغیرہ (اصلاح الرسوم، بہشتی زیور)
بچوں کو تعلیم کس عمر سے دلانا چاہیے :
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے سب سے زیادہ ضروری چیز یعنی نمازکے لیے سات برس قرار دیے ہیں ! تو میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہی عمر پڑھنے کے لیے بھی مناسب ہے البتہ زبانی تعلیم اور (دعائیں وغیرہ) یاد کرا دینا یہ پہلے سے بھی جاری رکھیں ! اور چار برس اور چار مہینے اور چار دن تجویز کر کے لوگوں نے اپنی طرف سے رسم مقرر کر لی ہے، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ! (ملفوظات کمالات ِاشرفیہ)
بچوں کی تعلیم کا طریقہ :
جب بچہ سیانا ہوجائے تو اس کو نماز کی سورتیں اور دعائیں زبانی یاد کرائے اور نماز پڑھائے اور لڑکی ہو تو اس کو پردہ میں بٹھائے ! اور جب پڑھنے کے قابل ہوجائے تو اس کو کسی ایسے مکتب میں جس کا استاذ شفیق اور دیندار ہو بٹھلادے ! اور لڑکی ہو تو زنانہ مکتب میں بٹھلادے مگر جو آج کل زنانہ سکول ایجاد ہوئے ہیں ان کی آب و ہوا(ماحول) اچھی نہیں ان سے بچائے ! !
سب سے پہلے بچہ کو قرآن شریف پڑھوائے ! اگر دماغ متحمل ہو تو حفظ کرانا افضل ہے ورنہ ناظرہ ہی سہی مگر صحیح قرآن پڑھنے والے سے پڑھوائے ! اگر قرآن حفظ کرائے تو قرآن پورا ہونے کے بعد اور اگر ناظرہ پڑھوائے تو نصف قرآن کے بعد ایک ایک سبق دینی کتابوں کا شروع کرا دے اور ان اسباق کے ساتھ تھوڑا ساوقت نکال کر بقدرِ ضرورت کچھ حساب واملاء و انشاء کی بھی مشق ضرور کرادی جائے کہ ان چیزوں سے دین میں بھی مدد ملتی ہے ! !
اگر اللہ تعالیٰ فراغت دے تو عربی کی تعلیم بھی کرادے (یعنی عالم بنادے) کیونکہ اس زمانہ میں اس کی بڑی سخت ضرورت ہے ورنہ کوئی حلال اور طیب (پاکیزہ) پیشہ کسب ِ معاش کے لیے سکھلا دے تاکہ پریشانی سے ہمیشہ محفوظ رہے ! سیانے لڑکے کو علماء و مشائخ کی مجلس میں اپنے ساتھ لے جا یا کریں کہ ان حضرات کی صحبت و توجہ کی برکت دین وطاعت میں پختگی کا ذریعہ ہے ! !
بچوں کی تعلیم سے متعلق ضروری ہدایات :
٭ پڑھنے میں بچہ پر بہت محنت نہ ڈالے، شروع میں ایک گھنٹہ پڑھنے کا مقرر کر لے پھر دو گھنٹے پھر تین گھنٹے ، اسی طرح اس کی صحت اور طاقت کے مطابق اس سے محنت لیتا رہے ، ایسا نہ کرے کہ سارا دن پڑھاتا رہے ! ایک توتھکن کی وجہ سے بچہ جی چرانے لگے گا پھر زیادہ محنت سے دل و دماغ خراب ہو کر ذہن اور حافظہ میں فتور آجائے گا اور بیمار کی طرح کی سُست رہنے لگے گا پھر پڑھنے میں جی نہ لگائے گا ! !
٭ معمولی چھٹیوں کے سوا سخت ضرورت کے بغیر بار بار چھٹی نہ دلوائیں !
٭ جہاں میسر ہو علم و فن سکھلائیں ، ایسے آدمی سے سکھلائیں جو اس میں پورا عالم اور کامل ہو ! بعض آدمی سستا معلم (استاذ) رکھ کر اس سے تعلیم دلواتے ہیں ، شروع ہی سے طریقہ بگڑ جاتا ہے پھر درستگی مشکل ہوجاتی ہے !
٭ آسان سبق ہمیشہ تیسرے پہر کے وقت مقرر کریں اور مشکل سبق صبح کو کیونکہ اخیر وقت میں طبیعت تھکی ہوئی ہوتی ہے مشکل سبق سے گھبرائے گی !
٭ بچوں کو خصوصاً لڑکی کو پکانا اور سینا ضرور سکھلاؤ ! (بہشتی زیور)
ہندی انگریزی تعلیم سے پہلے بچہ کو قرآن اور دینی تعلیم پڑھائیں :
سب سے پہلے مسلمان بچہ کو قرآن پڑھانا چاہیے ! کیونکہ تجربہ ہے کہ تھوڑی عمر میں علوم حاصل کرنے کی استعداد تو ہوتی نہیں تو قرآن مفت پڑھا لیا جاتا ہے ورنہ وہ وقت بیکار ہی جاتا ہے (اس لیے ضروری ہے کہ) دینی تعلیم ہونی چاہیے خواہ اردو میں ہو یا عربی میں مگر انگریزی سے پہلے ہو کیونکہ پائیدار نقش پہلی چیز کا ہوتا ہے ! یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ آنکھ کھولتے ہی انگریزی ہی انگریزی میں ان کو لگادیا جائے۔اوّل تو قرآن شریف پڑھاؤ اگر پورا نہ ہوتو دس پارے ہی سہی اور اس کے ساتھ ہی روزانہ تلاوت کا بھی اہتمام رکھو ! اور اس کے بعد کچھ رسالے دینی مسائل کے اگرچہ اردو ہی میں ہوں ان کو کسی عالم سے پڑھواؤ ! اور اس کے ساتھ ہی اگر دین کے خلاف کوئی بات پیدا ہو تو فوراً تنبیہ کرو، اگر باز نہ آئے تو انگریزی چھڑادو ! !
(جاری ہے)




قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔
(ادارہ)




رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٥
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، استاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
اللہ کی ذات وصفات سے متعلق عقیدہ :
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق ہمارا کیا عقیدہ ہونا چاہیے ؟ اس بارے میں بار بار استحضار کرنے اور مذاکرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایمان میں تازگی اور توحید میں مزید پختگی ہوسکے اور فاسد افکار و نظریات کی تردید کی جاسکے چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور دیگر معتبر ائمہ عظام نے علماء حق اہلِ سنت والجماعت کا توحید کے بارے میں جو موقف بیان فرمایا ہے اس کے اہم نکات درج ذیل ہیں
(١) اللہ تعالیٰ تن تنہا اور اکیلا ہے اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں !
( وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہ وَّاحِد لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ) ( سُورة البقرة : ١٦٣ )
( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) ( سُورة اخلاص : ١ )
(٢) وہ سب سے بے نیاز ہے !
( یٰاَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ھُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ) ( سُورة الفاطر : ١٥ )
( اَللّٰہُ الصَّمَدُ ) ( سُورة اخلاص : ٢ )
(٣) وہ نہ خود جنا گیا اور نہ اس سے کسی کی پیدائش ہوئی !
( بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہ وَلَد وَّلَمْ تَکُنْ لَّہ صَاحِبَة) (الانعام : ١٠١ )
(٤) اس کا کوئی ہم جنس نہیں !
( وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَدا) ( سُورة اخلاص : ٤ )
(٥) وہ مخلوقات میں سے کسی چیز کے مشابہ نہیں !
( سُبْحَانَہ وَ تَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ ) ( سُورة الانعام : ١٠٠ )
(٦) اور مخلوقات میں سے بھی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے مشابہ نہیں !
( اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لاَّ یَخْلُقُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ) ( سُورة النحل : ١٧ )
( لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْئ ) ( سُورة الشوریٰ : ١١ )
(٧) وہ اپنی ذات و صفات کے ساتھ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا !
( لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ) ( سُورة البقرة : ٢٥٥ )
( لَا اَلٰہَ اِلَّا ھُوَ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِک اِلَّا وَجْھَہ ) ( سُورة القصص : ٨٨ )
( کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ) (الرحمن : ٢٦ ، ٢٧ )
وَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ عليہ وسلم اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئ وَاَنْتَ الْاٰخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئ ( صحیح مسلم ج٢ ص ٣٤٨ )
اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتیہ قدیمہ :
ویسے تو اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا احاطہ کرنا کسی مخلوق کے بس میں نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنے تمام کمالات کے ساتھ واجب الوجود ہے تاہم ذہن سے قریب کرنے کے لیے علماء اہل سنت نے خاص طور پر درج ذیل آٹھ صفات کو بیان فرمایا ہے جو صفاتِ ذاتیہ قدیمہ میں داخل ہیں ملاحظہ فرمائیں :
(١) صفت ِ حیات :
یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذاتی اور ازلی صفت ِ حیات سے ہمیشہ سے باحیات ہے اور ہمیشہ با حیات رہنے والا ہے ! یہ صفت اس میں کسی غیر کے سبب حاصل نہیں ہوئی بلکہ وہ ذاتی طور پر ہمیشہ سے حیات کی صفت سے متصف ہے اور ہمیشہ رہے گا اس پر موت طاری ہونا قطعاً محال ہے !
( اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَأْخُذُہ سِنَة وَّلاَ نَوْم ) ( سُورة البقرة : ٢٥٥ )
( وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ) ( سُورة الفرقان : ٥٨ )
(٢) صفت ِ قدرت :
یعنی اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ سے اپنی ازلی اور ابدی قدرت کی بنا پر تمام کائنات پرمکمل قدرت واختیار اور اقتدار حاصل ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہ قدرت پہلے نہ ہو بعد میں حادث ہو، بلکہ ہمیشہ ہمیش سے وہ قادر مطلق ہے اور قادر مطلق رہے گا ،نہ تو کوئی اس کے فیصلہ کو ٹال سکتا ہے اور نہ اسے کوئی عاجز کرسکتا ہے ! زندگی اور موت پر صرف اسی کا اختیار ہے کسی شی کو عدم سے وجود میں لانا یا موجود کو معدوم کرنا پھر معدوم کو دوبارہ وجود میں لانا اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے ! اسی طرح مخلوق کو روزی دینا یا روزی میں کمی کرنا وغیرہ سب صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے !
( اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر) ( سُورة البقرة : ٢٠ )
( قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ) ( الِ عمران : ٤٠ )
( اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ) ( سُورة الانعام : ٩٥ )
( وَمَامِنْ دَابَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا ) ( سُورة ھود : ٦ )
( وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہ مِنْ شَیْئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ اِنَّہ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا )
( سُورة الفاطر : ٤٤ )
(٣) صفت ِ علم :
یعنی اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے اعتبار سے ہمیشہ تمام جزئیات وکلیات، موجودات و معدومات، ممکنات وغیر ممکنات، کھلی ہوئی یاپوشیدہ ،چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی ہر چیز کاکامل ومکمل علم حاصل ہے جس میں کمی بیشی تغیر وتبدل کا کہیں سے کہیں تک کوئی امکان نہیں ، اس کا علمِ یقینی کائنات کی ہر شے کو محیط ہے ! !
مغیبات کے تمام علوم کی چابی صرف اور صرف اسی کے پاس ہے، اس کے بتائے بغیر کسی کو علمِ یقینی براہ راست بلا سبب ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا حتی کہ فرشتوں اور رسولوں کو بھی صر ف اسی قدر علم ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کیا اس سے زائد ایک ذرّہ بھی کسی کو اپنے طور پر نہیں مل سکتا !
( وَ عِنْدَہ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ۔ وَ ھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ ) ( الانعام : ٥٩ ، ٦٠ )
( وَاللّٰہُ خَبِیْر بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) ( سُورة المنافقون : ١١ )
( یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر ) ( سُورة الحدید : ٤ )
( وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم ) ( الحجرات : ١٦ )
( وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ وَاللّٰہُ عَلِیْم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ) ( سُورة التغابن : ٤ )
( اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر وَّاَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْئٍ عِلْمًا )( سُورة الطلاق : ١٢ )
( عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہ اَحَدًا اِِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِِنَّہ یَسْلُکُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہ رَصَدًا ) ( سُورة الجن : ٢٦ ، ٢٧ )
اسی سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے علاوہ کسی کو بھی ذاتی طور پر (عالم الغیب) کی صفت سے متصف نہیں کیا جاسکتا !
(٤) صفت ِ کلام :
یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ ازل سے ابد تک صفت ِ کلام سے متصف ہے ! اور کلام سے مراد دراصل وہ مافی الضمیرمعانی ہیں جو حروف اور آوازوں کے محتاج نہیں ، تاہم اللہ تعالیٰ حسب ِ ضرورت مخلوقات کے سامنے اپنی وحی کو براہِ راست یا بواسطہ ملائکہ حروف یا آواز کے ذریعہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلٰوة والسلام پر ظاہر فرماتا ہے گویا کہ اصلاً کلامِ الٰہی اگرچہ اصوات وحروف سے مبرا ہے لیکن مخلوق کو سمجھانے کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے اسے حروف کا پیراہن عطا فرمایا ہے اس لیے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ''قرآن مقدس'' الفاظ وحروف اور معانی دونوں اعتبار سے یقینا اللہ رب العزت کا بے نظیر و بے مثال معجزانہ کلام ہے جس میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں اور مخلوق اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے !
( اَلَمّ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ) ( سُورة البقرة : ١ ، ٢ )
( وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہ وَادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ( سُورة البقرة : ٢٣ )
( وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلَیْفَةً ) ( سُورة البقرة : ١٦٤ )
( وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا ) (سُورة النساء : ١٦٤)
(قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْجِنُّ وَالْاِنْسُ عَلٰی اَنْ یَّأْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْآنِ لَا یَأْتُوْنَ بِمِثْلِہ وَلَوْکَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا) ( سُورہ بنی اسرائیل : ٨٨ )
( سَلَام قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمِ ) ( سُورہ یٰسین : ٥٨ )
حضرت امام طحاوی رحمة اللہ علیہ کلامِ الٰہی قرآنِ کریم کا تعارف کراتے ہوئے بہت شاندار انداز میں تحریر فرماتے ہیں :
وَاِنَّ الْقُرْآنَ کَلَاَمُ اللّٰہِ مِنْہُ بَدَا بِلَا کَیْفِیَّةٍ قَوْلًا، وَاَنْزَلَہ عَلٰی رَسُوْلِہ وَحْیًا ، وَصَدَّقَہُ الْمُؤْمِنُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ حَقًا، وَاَیْقَنُوْا اَنَّہ کَلَامُ اللّٰہِ تَعَالٰی بِالْحَقِیْقَةِ لَیْسَ بِمَخْلُوْقٍ کَکَلَامِ الْبَرِیَّةِ فَمَنْ سَمِعَہ فَزَعَمَ اَنَّہ کَلَامُ الْبَشَرِ فَقَدْ کَفَرَ، وَقَدْ ذَمَّہُ اللّٰہُ وَعَابَہ ، وَاَوْعَدَہ بِسَقَرَ، حَیْثُ قَالَ تَعَالٰی ( سَاُصْلِیْہِ سَقَرَ) ( المدثر : ٢٦ )
فَلَمَّا اَوْعَدَ اللّٰہُ بِسَقَرَ لِمَنْ قَالَ (اِنْ ھٰذَا اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ) ( المدثر : ٢٥ )
عَلِمْنَا وَاَیْقَنَّا اَنَّہ قَوْلُ خَالِقِ الْبَشَرِ وَلَا یَشْبَہُ قَوْلَ الْبَشَرِ
( العقیقدة الطحاویة ص ١٠٢ مؤسسة المختار القاھرة )
یقینا قرآن پاک اللہ کا کلام ہے جو اس سے بلاکیف قولاً ظاہر ہوا اور اس نے اس کو اپنے رسول پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا اور اہل ایمان نے اس کے حق ہونے کی تصدیق کی اور اس بات پر یقین کیا کہ وہ حقیقتاً اللہ ہی کا کلام ہے، وہ مخلوقات کے کلام کی طرح مخلوق نہیں ہے ! پس جس نے قرآن سن کر یہ دعویٰ کیا کہ وہ انسان کا کلام ہے تو وہ کافر ہوگیا اور ایسے شخص کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مذمت اور تنفیض فرماتے ہوئے اسے دہکتی ہوئی جہنم کی آگ کی وعید سنائی ہے ! چنانچہ ارشاد خدا وندی ہے کہ ''میں اسے دہکتی ہوئی آگ میں ڈالوں گا''پس جب اس شخص کے لیے جو یہ کہتا ہو کہ ''قرآن تو صرف ایک انسان کی بات ہے'' اللہ نے جہنم کی وعید سنائی ہے تو ہم کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ یہ قرآن پاک انسانوں کے خالق کا کلام ہے اور کسی مخلوق کے کلام کے مشابہ نہیں ہے !
(٥) صفت ِ سمع :
یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنی ذاتی صفت سماعت سے حروف اور آوازوں کا سننے والا ہے جب کوئی سننے والا نہ تھا جب بھی وہ سننے والا تھا ! اور جب مخلوق میں سے کوئی سننے والا نہ رہے گا پھر بھی اللہ تعالیٰ سننے کی صفت سے متصف رہے گا ! اس کی سماعت کا مدار نہ تو کسی عضو یا آلہ پر ہے اور نہ وہ کسی سنانے والے یا سننے والے کا محتاج ہے ( لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْئ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ )
(٦) صفت ِ بصر :
یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز کو دیکھنے والا ہے اور اس کے دیکھنے کے لیے ان اسباب کی قطعاً ضرورت نہیں ہے جو مخلوق کے دیکھنے کے لیے ضروری ہیں مثلاً آنکھ کا ہونا یا اجالے کا ہونا وغیرہ بلکہ اللہ تعالیٰ بلا کسی سبب کے ذاتی اعتبار سے صفت ِبصارت سے کامل طور پر متصف ہے کوئی بھی چیز اس کے لیے بصارت سے کہیں بھی مانع نہیں ہے ! اسی طرح اللہ تعالیٰ کا بصیر ہونا نظر آنے والی شے کے وجود پر موقوف نہیں ہے بلکہ جب کائنات میں کوئی شے قابل رویت نہ تھی جب بھی اللہ تعالیٰ کامل طور پر دیکھنے والا تھا ! اور اگر اس کی ذات کے علاوہ کچھ بھی نہ رہے پھر بھی وہ دیکھنے کی صفت سے متصف رہے گا ! الغرض وہ ازل سے ابدتک بلا کسی مانع کے مکمل طو ر پر دیکھنے والا رہا ہے اور رہے گا
(٧) صفت ِ ارادہ ومشیت :
یعنی کائنات میں پیش آمدہ مثبت یا منفی امور سب کے سب اللہ تعالیٰ کی صفت ِارادہ و مشیت کے تابع ہیں اس کے ارادہ کے بغیر کائنات میں کوئی بھی عمل (خواہ وہ شریعت میں مطلوب ہو یا ممنوع) ہر گز وجود میں نہیں آسکتا حتی کہ ساری مخلوقات اگر کسی ساکن ذرّہ کو متحرک کرنے یا متحرک کو ساکن کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ کے بغیر وہ حرکت یا سکون پر قطعاً قادر نہ ہوں گے !
( وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ) ( سُورة البقرة : ٢٥٣ )
( اِنَّ رَبَّکَ فَعَّال لِّمَا یُرِیْدُ ) ( سُورہ ھود : ١٠٧ )
( وَمَآ تَشَآؤُنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ) ( سُورة التکویر : ٢٩ )
البتہ اہلِ سنت والجماعت ارادۂ خداوندی کو دو قسموں پر تقسیم فرماتے ہیں :
(الف) ارادہ ٔ قدر یہ کونیہ :
اس ارادہ کا تعلق مطلقاً بلا کسی تفصیل تمام حوادثات ِعالم سے ہے چاہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ اعمال وحوادث پسندیدہ ہوں یا نہ ہوں ! اس ارادہ کے اعتبار سے ہدایت اور ضلالت دونوں ارادہ ٔ خداوندی کے تابع ہیں جیسا کہ ارشاد ِ خداوندی ہے
( فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہ یَشْرَحْ صَدْرَہ لِلْاِسْلَامِ وَمَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہ یَجْعَلْ صَدْرَہ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَدُ فِی السَّمَآئِ) ( سُورة الانعام : ١٢٥ )
پس اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جس کو گمراہ رکھنا چاہتا ہے اس کے سینہ کو تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ آسمان میں چڑھا چلا جا رہا ہو۔
(ب ) ارادہ ٔ دینیہ امریہ شرعیہ :
یعنی ان امور کا ارادہ فرمانا جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت متعلق ہے جیسے فرمایا گیا :
( یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ) ( سُورة البقرة : ١٨٥ )
''اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ سہولت کاارادہ کرتا ہے اور وہ تم کو تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا''
پس شریعت کے تمام مامورات اسی ارادہ کے تحت آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا سبب ہیں
(٨) صفت ِ تکوین :
یعنی کائنات کو وجود بخشنے یا معدوم کرنے یا قائم رکھنے وغیرہ میں اصلاً اللہ تعالیٰ کی صفت تکوین مؤثر ہوتی ہے، یہ صفت اللہ تعالیٰ کی صفات ِ ذاتیہ قدیمہ میں داخل ہے اور اس کے تحت وہ تمام امور آتے ہیں جو تدبیر کائنات اور ایجاد سے متعلق ہیں مثلاً مخلوق کی روزی کا انتظام یا زندگی اور موت یا دیگر انقلابات ِ عالم وغیرہ اس لیے اس صفت کو صفت ِ فعلیہ سے بھی تعبیر کردیا جاتا ہے !
( اِنَّمَا اَمْرُہ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ ) ( سُورہ یٰسین : ٨٢ )
(باقی ص ٥٤)




حضرت امام حسین اور ماہِ محرم الحرام
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ، استاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
( بیان : ٧ محرم الحرام ١٤٤١ھ / ٧ ستمبر ٢٠١٩ء )
٭٭٭
( اِنَّ عِدَّةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْھآ اَرْبعَة حُرُم ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّةً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّةً وَّ اعْلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ) ١
میرے محترم عزیز طلبہ وطالبات ! اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی پیغمبر بھیجے ان تمام پیغمبروں میں سب سے افضل نبی اور سب سے افضل پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم ہیں ! تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ سب سے افضل، سب سے اعلیٰ اور اللہ تعالیٰ کے سب سے مقرب نبی حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم ہیں ! حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم سعودی عرب کے ایک مقدس شہر مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ، آپ کو معلوم ہوگا کہ حضور علیہ الصلٰوة و السلام کے پیدا ہونے سے پہلے ہی آپ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال ہو گیا تھا، حضور جب پیدا ہوئے تو والدہ محترمہ نے اس زمانہ کے دستور کے موافق حضور علیہ السلام کی تربیت کے لیے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللّٰہ عنہا کے ہمراہ طائف سے ذرا آگے ان کے گائوں بھیج دیا ،حضور علیہ السلام کافی عرصہ ان کے یہاں رہے ، جب آپ کی عمر مبارک چھ سال ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللّٰہ عنہا کا انتقال ہو گیا حضور علیہ السلام ابھی صرف چھ سال کے تھے پھر آپ اپنے دادا عبدالمطلب کی پرورش میں آگئے، دو سال ان کی پرورش میں رہے، آٹھ برس کے ہوئے تو دادا کا بھی انتقال ہو گیا، حضور علیہ السلامسے کسی نے آپ کے دادا کے متعلق پوچھا تھا کہ آپ کو ان کا کچھ نقشہ یاد ہے تو آپ نے فرمایا '' ہاں جب دادا کا انتقال ہوا اور لوگ ان کو لے جا رہے تھے تو میں بھی لوگوں کے ساتھ روتا ہوا جا رہا تھا''

پھر آپ اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آ گئے ابو طالب کے یہاں غربت بہت تھی حضورعلیہ السلام
١ سُورة البقرة : ٣٦
نے اپنا بوجھ ان پر ڈالنا مناسب نہیں سمجھا لہٰذا آپ خود بکریاں چرانے لگ گئے اور بکریاں چرا کر جو کچھ آپ کو ملتا اس کو اپنے اوپر خرچ کرتے اور گزر بسر کرتے ،اس طرح ایک طویل عرصہ گزر گیا ،پچیس برس کی عمر میں حضرت خدیجة الکبرٰی رضی اللّٰہ عنہا سے آپ کی شادی ہوئی،حضرت خدیجہ مکہ مکرمہ کی ایک امیر کبیر خاتون تھیں اور ان کا تجارت کا مشغلہ تھا، حضوران کا مالِ تجارت ملک شام لے جاتے رہے، اللہ نے آپ کی تجارت میں برکت دی، حضرت خدیجة الکبرٰی رضی اللّٰہ عنہا نے حضور علیہ السلام پر اپنی دولت کو نچھاور کیا ! اللہ تعالیٰ نے حضرت خدیجہ سے حضورعلیہ السلام کو چار بیٹیاں اور دو بیٹے دیے، دو بیٹے قاسم اور عبداللہ تھے جو بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے( عبداللہ کو طیب و طاہر بھی کہتے ہیں ) چار بیٹیوں میں سب سے بڑی بیٹی زینب ،ان کے بعد رقیہ ،ان کے بعد اُمِ کلثوم اور ان کے بعد حضرت فاطمة الزہرا ہوئیں رضی اللّٰہ عنھن ۔
حضرت زینب کی شادی حضور علیہ السلامنے ابو العاص بن ربیع سے کی جو حضرت زینب کے خالہ زاد بھائی تھے اور حضرت رقیہ کی شادی حضرت عثمان غنی سے کی ،لیکن حضرت رقیہ کا انتقال بہت ہی جلد ہو گیا غالباً دوہجری میں ،حضور علیہ السلام کو اپنی صاحبزادی کے انتقال کا بہت غم تھا، آپ نے ان کے لیے بہت دعائیں کیں ، ادھر ایسا ہوا کہ حضرت عثمان کو اہلیہ کے فوت ہونے کا بڑا ہی صدمہ ہوا وہ روتے تھے
کسی نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں ؟ ایسی کون سی بات ہے ؟ آپ کے لیے کیا کمی ہے ؟
تو حضرت عثمان غنی نے فرمایا : میں اس لیے روتا ہوں کہ میرا خاندانِ نبوت سے رشتہ کٹ گیا !
حضور علیہ السلام کی صاحبزادی میری اہلیہ تھیں ، اب اہلیہ کے فوت ہونے سے حضور علیہ السلام کے ساتھ میرا جو خاندانی رشتہ تھا وہ ختم ہو گیا اس لیے روتا ہوں ! !
کسی نے جا کر حضور علیہ السلام کو بتا دیا کہ عثمان تو اس طرح غمگین ہیں اور روتے ہیں ، حضور علیہ السلام نے حضرت عثمان کو بلایا اور اپنی تیسری صاحبزادی اُمِ کلثوم کے ساتھ ان کا نکاح کر دیا اور یہ فرمایا
''عثمان اگر اللہ نے مجھے سو بیٹیاں دی ہوتیں اور ایک کے بعد ایک فوت ہوتی جاتیں تو میں سو کی سو کا تمہارے ساتھ نکاح کر دیتا''
حضرت عثمان سے حضور علیہ السلام اس قدر زیادہ خوش تھے، حضرت عثمان نے حضور علیہ السلام کو اتنا زیادہ خوش رکھا تھا بہرحال یہ جو دو صاحبزادیاں تھیں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان کے نکاح میں آئیں !
اچھا یہ بات بھی ذہن میں رکھنا کہ یہ تینوں صاحبزادیاں حضرت زینب،رقیہ اوراُمِ کلثوم یہ سب حضور کی زندگی ہی میں فوت ہو گئی تھیں ،حضور علیہ السلامکے انتقال سے پہلے ہی ان تینوں کا انتقال ہو گیا تھا، اب صرف حضرت فاطمہ رہ گئیں جو آپ کی چوتھی صاحبزادی تھیں !
آپ کو معلوم ہوگا کہ حضور نے حضرت فاطمہ کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی سے کیا تھا ، حضرت فاطمة الزہرائ حضورکی لاڈلی صاحبزادی تھیں اور حضور علیہ السلام ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے ! حضورعلیہ السلام جب سفر پر جاتے تو سب سے مل کر جاتے اور سب سے اخیر میں حضرت فاطمة الزہراء سے ملتے اور جب واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمة الزہرائ سے ملتے کیونکہ حضرت فاطمہ سے تعلق حضور علیہ السلام کو بہت زیادہ تھا ، آپ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا
فَاطِمَةُ بَضْعَة مِّنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ ١
فاطمہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو اسے اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے یعنی اسے اگر کوئی ستاتا ہے تو وہ مجھے ستاتا ہے، حضور علیہ السلام حضرت فاطمہ سے بہت زیادہ محبت اور تعلق رکھتے تھے، ایک موقع پر حضور علیہ السلام نے حضرت فاطمة الزہرا ء کے بارے میں فرمایا :
فَاطِمَةُ سَیِّدَةُ نِسَائِ اَہْلِ الْجَنَّةِ ٢ فاطمہ تمام جنتی عورتوں کی سردار ہیں
حضرت فاطمہ کے لیے یہ کتنی بڑی سعادت کی بات ہے کہ حضور علیہ السلام ان کو جنتی عورتوں کی سردار کہہ رہے ہیں ! ہمیں اگر صرف اتنا ہی پتہ چل جائے کہ ہم جنتی ہیں تو ہمارے لیے کس قدر خوش نصیبی کی بات ہوگی چہ جائیکہ حضور علیہ السلام یہ فرما رہے ہیں کہ فاطمہ صرف جنتی نہیں بلکہ جنتی عورتوں کی سردار ہے ! یہ ان کے لیے بہت خوش نصیبی اور سعادت کی بات ہے ! حضرت فاطمة الزہراء حضور علیہ السلام کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھی، حضرت ابوبکر و عمر کا جذبہ تھا کہ وہ ان سے نکاح کرلیں
١ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٦١٣٩ ص ٥٦٨ ٢ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٦١٧١ ص ٥٧١
لیکن حضور علیہ السلامنے ان کو جواب دیا کہ نہیں فاطمہ چھوٹی ہے تمہاری عمریں بڑی ہیں پھر ان دونوں بزرگوں نے حضرت علی کو مشورہ دیا کہ تم حضور سے بات کرو، حضرت علی شرماتے بھی تھے اور گھبراتے بھی تھے لیکن ان کے حوصلہ دلانے پر بات کی تو حضور علیہ السلامنے حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کر دیا
حضرت علی کانکاح :
یہ نکاح اتنی سادگی کے ساتھ ہوا کہ سن کر بھی حیرانی ہوتی ہے، حضور علیہ السلام کی شخصیت ایسی تھی کہ اگر آپ چاہتے تو مکہ کے پہاڑ سونے کے بن کر آپ کے ساتھ چلنے لگتے ! حضور علیہ السلام اگر چاہتے تو آپ کو بڑے بڑے بنگلے محلات مل جاتے لیکن آپ نے کسی چیز کی خواہش نہیں کی ! حضرت علی سے کہا : تم مہر فراہم کرو ! حضرت علی حضرت عثمان کے پاس گئے کہ حضور علیہ السلام یوں فرماتے ہیں ، حضرت عثمان حضرت علی سے بہت زیادہ تعلق رکھتے تھے کیونکہ حضرت علی حضور علیہ السلام کے چچا زاد بھائی بھی تھے اور حضور علیہ السلام نے ان کی پرورش بھی کی تھی اور حضور علیہ السلام کو ان سے تعلق بھی بہت زیادہ تھا ! تو حضرت عثمان غنی کے پاس جب وہ گئے تو انہوں نے حضرت عثمان کے ہاتھ اپنی زِرہ بیچی ، زِرہ اس زمانہ میں لوہے کی قمیص ہوتی تھی جو جنگوں میں پہنتے تھے تاکہ تیر اور تلوار کے وار سے بچ سکیں ،حضرت عثمان نے وہ زِرہ خرید لی اور پیسے دے دیے ،معاملہ ختم ہو گیا ! ! جب حضرت علی جانے لگے تو حضرت عثمان غنی نے حضرت علی کو وہ زِرہ بھی واپس کر دی کہ
'' علی میں خوشی سے تمہیں یہ زِرہ بھی واپس کر رہا ہوں یہ تم لے جائو ''
حضرت علی نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں لا کر مہر رکھا، حضور علیہ السلام نے مہاجرین و انصار و دیگر بڑے صحابہ کو بلا کر عصر کے بعد مسجد نبوی میں نکاح کر دیا ! دیکھو کوئی وہاں پر ڈھول ڈھمکے نہیں ، کوئی وہاں تماشہ نہیں ، کوئی کچھ نہیں ، اللہ کے نبی نے کائنات کی شہزادی کا نکاح اور جنت کی عورتوں کی سردار کا نکاح اتنی سادگی کے ساتھ کیا کہ سن کر بھی حیرت ہوتی ہے، حضور علیہ السلام نے صحابہ کی موجودگی میں خود نکاح پڑھا دیا، جب رات ہوئی تو آپ نے اپنی باندی اُمِ ایمن کے ساتھ حضرت فاطمة الزہراء کو حضرت علی کے گھر بھیج دیا اور فرمایا کہ مناسب نہیں ہے کہ یہ اب میرے پاس رہے، چنانچہ ان کو حضرت علی کے پاس بھیج دیا اور پھر وہ دونوں نہایت خوشی کے ساتھ اور نہایت ہی پیار و محبت کے ساتھ رہنے لگ گئے ! ! !
حضرت فاطمة الزہرائ نے باوجودیکہ وہ کائنات کی شہزادی تھیں حضرت علی کی خدمت میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی ! حضرت فاطمة الزہرائ گھر کا کام کاج خود کرتی تھیں ، پینے کا پانی خود بھر کر لے آتی تھیں ، چکی میں آٹا خود پیس لیتی تھیں ، روٹیاں خود پکا لیتی تھیں اور سالن وغیرہ جو پکانا ہوتا وہ خود پکا لیتی تھیں ، حضرت فاطمة الزہرائ سے حضرت علی کی خدمت جس قدر ہو سکتی تھی وہ کرتی تھیں ! !
اللہ تعالیٰ نے حضرت فاطمہ کو تین بیٹے دیے اور تین بیٹیاں دیں ! حضرت فاطمہ کے سب سے بڑے بیٹے تھے حضرت حسن، دوسرے بیٹے تھے حضرت حسین ،تیسرے بیٹے تھے حضرت مُحَسِّن ! مُحَسِّن بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے اس لیے ان کو کوئی بھی نہیں جانتا ، دو بیٹے رہ گئے حضرت حسن اور حضرت حسین اور تین بیٹیاں تھیں ، بڑی بیٹی زینب اس کے بعد رقیہ اور اس کے بعد اُمِ کلثوم ! ! ! حضور علیہ السلام کو اِن نواسوں کے ساتھ اس قدر تعلق تھا کہ جب یہ پیدا ہوئے تو حضور نے خود بنفسِ نفیس ان کے کان میں اذان دی ،کتنی بڑی سعادت تھی نواسوں کے لیے کہ اللہ کے سب سے لاڈلے نبی ان کے کان میں اذان دے رہے ہیں ! حضور علیہ السلام نے حضرت علی سے ان کا عقیقہ بھی کروایا، حضرت علی سے پوچھا کہ بھئی تم نے ان کا کیا نام رکھا ہے ؟ تو پہلے حضرت حسن پیدا ہوئے تھے حضرت علی نے کہا انہوں نے اس کا نام'' حرب'' رکھا ہے، حضور علیہ السلامنے فرمایا یہ حرب نہیں ہے یہ حسن ہے ! ''حرب ''کے معنی ہوتے ہیں لڑائی کے، پھر سال بعد حضرت حسین پیدا ہوئے تو پھر حضور علیہ السلام تشریف لائے ،پوچھابچے کا نام کیا رکھا ؟ انہوں نے کہا میں نے اس کا نام ''حرب'' رکھا ہے فرمایا ''یہ حرب نہیں ہے ،یہ حسین ہے'' حضور علیہ السلام کو اِن سے اتنی محبت تھی خود نام رکھا خود اِن کے کان میں اذان دی حضور نے ان کے عقیقے کا باقاعدہ حکم دیا کہ ان کا عقیقہ کرو ! حضور علیہ السلام ان سے اتنا پیار کرتے تھے کہ کبھی کبھی خود اپنے نواسوں سے ملنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے ! آپ ان کو اپنی گود میں لیتے تھے اور کبھی کبھی نواسے بلکہ شہزادے حضورکے کندھے مبارک پر بھی چڑھ جاتے تھے ! ایک دفعہ ایک صحابی نے دیکھا کہ حضرت حسن حضور علیہ السلامکے کندھے پر سوار ہیں تو وہ کہنے لگے میاں کیا عمدہ سواری تم کو ملی ہے ! ! ؟ کیسی عالی شان سواری ہے تمہاری ! ! ؟
تو حضور علیہ السلام نے فرمایا
'' ہاں اگر سواری عالی شان ہے تو سوار بھی عالی شان ہے'' ١
اس سے حضرت حسن سے محبت کا پتہ چلتا ہے حضور علیہ السلامنے ان دونوں شہزادوں کے بارہ میں فرمایا
اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ سَیِّدَ ا شَبَابِ اَہْلِ الْجَنَّةِ ٢ '' حسن اور حسین دونوں جنتی جوانوں کے سردار ہیں ''
حضور علیہ السلام نے ان کی یہ منقبت بیان کی ، حضورعلیہ السلام ان سے بہت تعلق رکھتے تھے ، بہت پیار کرتے تھے، پھر دیکھیے حضور علیہ السلام نے کچھ پیشین گوئیاں بھی فرمائیں تھیں ، حضور علیہ السلام کو زندگی میں ہی بتلا دیا گیا تھا کہ حسین راہِ حق میں شہید ہوں گے ! !
ترتیب ِخلافت :
آپ کو معلوم ہوگا کہ حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد سب سے پہلے خلیفہ کون بنے ؟ حضرت ابوبکر،ان کے بعد حضرت عمر ،ان کے بعدحضرت عثمان اور ان کے بعد حضرت علی،حضرت علی جب خلیفہ بنے تو آپ کا دارالخلافہ پہلے مدینہ طیبہ تھا آپ نے دارالخلافہ منتقل کر کے کوفہ بنا لیا تھا اور وہاں بود و باش اختیار کر لی تھی کیونکہ حضرت عثمان غنی کے دور میں مدینہ طیبہ میں خاصا اختلاف اور انتشار پیدا ہوا تھا ،قتل و قتال تک بھی نوبت آگئی تھی تو حضرت علی چاہتے تھے کہ حضور علیہ السلام کے شہر کی بے حرمتی نہ ہو ! اس لیے آپ نے اپنا دارالخلافہ کوفہ منتقل کر لیا اور وہاں پر رہنے لگ گئے ! حضرت علی نے وہاں پر چار برس حکومت کی،٣٦ھ میں آپ خلیفہ بنائے گئے اور ٤٠ھ میں آپ کو شہید کردیا گیا ! حضرت علی کے بعد آپ کے صاحبزادے حضرت حسن خلیفہ بنائے گئے لیکن ان کی خلافت
صرف چھ مہینے رہی ! اس کے بعد انہوں نے حضرت امیرمعاویہ سے جن کی خلافت دمشق میں قائم تھی ان کے ساتھ صلح کر لی !
١ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٦١٧٢ ص ٥٧١ ٢ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٦١٧١ ص ٥٧١
حضرت حسن کی حضرت معاویہ سے صلح :
یہاں یہ بات سمجھتے چلیں کہ آپ نے یہ صلح کوئی مجبوراً نہیں کی تھی بلکہ اس صلح کی حضورِ اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے پیشین گوئی فرما ئی تھی حدیث میں آتا ہے :
حضرت ابوبکرہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایسے ہوا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کو منبر شریف پر بیٹھے دیکھا آپ کے نواسے حسن آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن کو دیکھنے لگتے اسی دوران آپ نے فرمایا
اِنَّ ابْنِیْ ھٰذَا سَیِّد وَّلَعَلَّ اللّٰہَ اَنْ یُّصْلِحَ بِہ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ١
''میرا یہ بیٹا سردار ہے مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرا دیں گے''
اس پیشین گوئی کا ظہور ہوا، حضرت حسن نے حضرت معاویہ سے صلح کر لی اور خلافت کے امور کو ان کے حوالہ کر دیا،(سب کو لے کر)مدینہ طیبہ آگئے اور گوشہ نشینی اختیار کر لی ! !
حضرت امام حسن کی شہادت :
تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت حسن کو ان کی بیوی کے ذریعہ سے زہر دلوا کر شہید کر دیا گیا ! اس طرح حضرت حسن شہید ہو گئے، لگتا ہے کہ حضرت حسن کو شہید کرانے والے وہ لوگ تھے جنہیں یہ صلح پسند نہیں تھی، خیر اب حضرت حسین رہ گئے، محسن تو بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے اور حضرت حسن کو اس طرح سے شہید کرا دیا گیا ! ٦٠ ہجری میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا ! !
یزید کا دعوی خلافت :
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال کے بعد یزید نے خلافت کا دعوی کیا اور اس نے زور و زبردستی چاہا کہ اہلِ مدینہ بھی اس کی خلافت کو مانیں لیکن اہلِ مدینہ نے مزاحمت کی اور انہوں نے
١ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٦١٤٤ ص ٥٧١
انکار کیا ! حضرت حسین، حضرت عبداللہ بن زبیر اورحضرت عبداللہ بن عمر یہ جو جلیل القدر صحابی تھے
انہوں نے اس حکم کی مخالفت کی اور بیعت نہیں کی ! اس وقت چونکہ اموی حکومت تھی انہوں نے زور و زبردستی چاہا کہ ان لوگوں سے بیعت ِخلافت لیں ، جب ان حضرات کو پتہ چلا تو حضرت عبداللہ بن زبیر مکہ چلے گئے ! حضرت حسین بھی مکہ چلے آئے ،حضرت عبداللہ بن زبیرنے مکہ مکرمہ پہنچ کر اپنی خلافت کا اعلان کر دیا ،حضرت حسین وہاں رہ رہے تھے، کچھ لوگوں نے حضرت حسین کو یہ مشورہ دیا کہ آپ مکہ مکرمہ ہی میں رہیں ، آپ ادھر ادھر کہیں نہ جائیں ! لیکن ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہیں ! !
کوفہ سے آنے والے خطوط :
ادھر کوفہ سے حضرت حسین کو خطوط آنے شروع ہو گئے کہ آپ مکہ مکرمہ سے ہمارے ہاں تشریف لے آئیں ، آپ کے والد نے اس کو دارالخلافہ بنایا تھا اخیر زندگی تک وہ یہیں رہے تھے اور یہاں آپ کے بہت سے حامی آپ کو ملیں گے جو آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے اور آپ پھر صحیح معنی میں اسلامی حکومت قائم کر سکیں گے ،حضرت حسین کو بہت سارے خطوط اہلِ کوفہ کی طرف سے ملے، حضرت حسین کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ جو خطوط آرہے ہیں ان کی تحقیق بھی کر لینی چاہیے کہ جو کچھ ان میں لکھا ہے وہ صحیح بھی ہے یا ایسے ہی زبانی جمع خرچ ہے ؟ تو انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کو بھیجا کہ آپ جائیں اور وہاں کے حالات کی تحقیق کریں ! حضرت مسلم نے جب وہاں جا کر حالات کا جائزہ لیا تو وہاں کے حالات شروع شروع میں بڑے سازگار معلوم ہوئے اور لوگوں نے دھڑا دھڑ ان کے ہاتھ پر بیعت کی، کئی ہزار لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے، حضرت مسلم بن عقیل نے حضرت حسین کو یہ حالات لکھے لیکن اس وقت آپ کو معلوم ہے کہ یزید کی حکومت تھی اور یزید کو ان حالات کا پتہ چل رہا تھا، یزید نے سخت گیری اور سختی کے ساتھ ان حالات سے نمٹنے کا سوچا ! ! !
ابن ِزیاد کی بطورِ گورنر تقرری :
چنانچہ اس نے حضرت نعمان بن بشیر کو جو ایک جلیل القدر صحابی اور وہاں کے گورنر تھے ان کو ہٹا دیا اور ان کی جگہ عبید اللہ بن زیاد جو خاندانِ نبوت کا شدید مخالف اور دشمن تھا اس کو وہاں کا گورنر مقرر کر دیا ! اب شروع کے حالات تو اچھے تھے لیکن بعد کے حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوئے کہ ان لوگوں نے حضرت مسلم بن عقیل کا جینا دوبھر کر دیا ! !
حضرت مسلم نے حضرت امام حسین کو خط لکھا کہ آپ یہاں نہ آئیں ، یہاں کے حالات اچھے نہیں ، لوگ بھی اچھے نہیں ! لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حضرت حسین کو یہ خط بعد میں ملا جبکہ حضرت حسین اپنے گھر کے بہتر(٧٢)افراد لے کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے تھے ! حضرت حسین روانہ ہوئے تو ان کو راستہ میں پتہ چلا کہ ان کے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا ! حضرت حسین نے چاہا کہ یہیں سے واپس ہوجائیں لیکن حضرت مسلم بن عقیل کے ورثا کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے اتنے بڑے آدمی کو شہید کر دیا گیا اور اب ہم یوں ہی واپس چلے جائیں ؟ نہیں ہم تو جہاد کریں گے ان لوگوں کے خلاف اور ان سے ان کا بدلہ لیں گے ! حضرت حسین اللہ کا نام لے کر چلے کہ جو حالات ہوں گے دیکھ لیں گے ! ان کے پیش ِنظر یہی تھا کہ یہ حکومت حکومت ِعادلہ نہیں ہے اور یہ حکومت ہمارے نانا کے دین کو خراب کر رہی ہے، نانا کے دین کی اصلاح کی غرض سے ہمیں حکومت بدلنی چاہیے ! حضرت حسین آگے بڑھتے رہے اور یزید ان کا گھیرا تنگ کرتا رہا اور یہی چاہتا رہا کہ کسی طرح سے ان کو گرفتار کر لے ، اس نے سب سے سخت گورنر لگایا اور اس کے بعد اس گورنر نے فوج کے جو سب سے سخت کمانڈر تھے ان کو بھیجا کہ جائو ان سے جا کر کہو کہ
'' یا تو اپنے آپ کو ہمارے حوالہ کر دیں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں ''
حضرت حسین کی رگوں میں حضرت علی حیدرِ کرار شیرِ خدا کا خون دوڑ رہا تھا ! انہوں نے کہا کہ نہیں ہم اپنے آپ کو تمہارے حوالہ نہیں کریں گے اور اگر تم جنگ بھی مسلط کرتے ہو تو ٹھیک ہے جنگ کریں گے ! لیکن کوشش یہی کرتے رہے کہ جنگ کی نوبت نہ آئے چونکہ آپ اس ارادہ سے نہیں آئے تھے !
حضرت امام حسین کی تین باتیں :
حضرت امام حسین نے ان لوگوں کو تین باتیں پیش کیں فرمایا :
(١) پہلی بات تو یہ ہے کہ میں جہاں سے آیا ہوں مجھے ادھر واپس جانے دو !
(٢) اگر یہ منظور نہیں تو پھر مجھے یزید کے پاس جانے دو میں اس سے جا کر خود اپنا معاملہ نمٹا لوں گا !
(٣) اور تیسری بات یہ ہے کہ مجھے اسلامی سرحدات پر بھیج دو میں وہاں جا کر اسلام کے لیے جہاد کرتا
رہوں گا !
شِمر کا بھڑکانا :
قریب تھا کہ ان باتوں پر صلح ہو جاتی لیکن شمر نے بیچ میں پڑ کر ابن ِزیاد کو بھڑکایا اور حضرت حسین کے خلاف سخت ایکشن لینے کو کہا ! ابن ِزیاد شمر کی باتوں میں آگیا ،حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں پر سختی کرنے لگا حضرت حسین سمجھ گئے کہ یہ شخص ہمارے ساتھ مصالحت کے بجائے مخالفت پر کمر بستہ ہے اور اس کا ارادہ ہر حال میں جنگ کا ہے تو آپ نے اپنے گھر والوں کو وصیتیں کیں حوصلہ دلایا اور بعد میں پیش آنے والے حالات میں صبر و تحمل سے کام لینے کو کہا ! !
حضرت امام حسین کی شہادت :
بالآخر ایک دن ایسا آیا کہ یزیدی فوجیوں کا لشکر چار ہزار کی تعداد میں حضرت حسین کے ساتھیوں پر ٹوٹ پڑا، انہوں نے ان پر حملہ کیا جس سے حضرت حسین بھی شہید ہوئے اور ان کے ساتھ جو اِن کے خاندان کے افراد آئے تھے وہ بھی شہید ہوئے، بچے بھی شہید ہوئے، بوڑھے بھی شہید ہوئے، اسی پر بس نہیں ان کے ساتھ یزیدی فوجیوں نے بڑا ہی ظالمانہ روّیہ اختیار کیا، ان کے سر کاٹے اور ان کی نعشوں کی بے حرمتی کی ! لیکن اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہوئی کہ جس جس نے بھی حضرت حسین کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کیا ان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی سخت سزائیں دیں کہ دنیا نے ان کی سزائوں کو دیکھ کر عبرت پکڑی، اللہ نے ایسا ان کو شکنجہ میں کسا اور دنیا میں ایسی سزا دی کہ وہ بچ نہیں سکے ایک ایک کر کے مارا گیا ! !
آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت حسین کی شہادت سجدہ کی حالت میں ہوئی حضرت حسین سجدہ میں تھے کہ آپ کے سر اَقدس کو کاٹ دیا گیا اس وقت آپ کا روزہ بھی تھا، روزہ اور نماز کی حالت میں آپ کو شہید کیا گیا اور حضرت حسین نے حق کے راستہ میں اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دی ! جس دن حضرت حسین کو شہید کیا گیا یہ دن دس محرم کا دن تھا ! ! !
دس محرم کی فضیلت :
اور دیکھو جیسے جمعہ کے دن کو بڑی فضیلت حاصل ہے اسی طرح سے دس محرم کو بھی بڑی فضیلت حاصل ہے ! چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم جب دنیا میں تشریف لائے تھے تو وہ بھی دس محرم کا دن تھا ! اور قیامت جب آئے گی تو وہ بھی دس محرم کا ہی دن ہوگا اور جمعہ کا دن ہوگا ! حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے : دس محرم کا دن ایسی فضیلت کا دن ہے کہ اگر کوئی اس دن روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک سال گزشتہ کے گناہ بخش دیتے ہیں ! !
فقہاء نے لکھا ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ نہیں رکھنا اس کے ساتھ ایک روزہ اور بھی رکھنا ہے یا تو نو محرم کا ساتھ ملا لیں اور یا پھردس محرم کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ بھی ساتھ ملا لیں تو ان شااللہ تعالیٰ یہ فضیلت حاصل ہو جائے گی ! !
ہم حسینی ہیں :
دیکھو بھائی ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم حسینی ہیں ! حضرت امام حسین کے ماننے والے ہیں ! ہم یزیدی نہیں ہیں ! ہمارا یزید سے کوئی واسطہ کوئی تعلق نہیں ، حضرت حسین کو ہم مظلوم قرار دیتے ہیں اور یزید کو ہم ظالم قرار دیتے ہیں ، ہمیں اُسوہ حسینی کو اختیار کرنا ہے اور اُسوہ حسینی کیا ہے ؟ کہ اپنے آپ کو حق پر جان دینے کے لیے تیار رکھو کہ جب بھی حق پر جان دینے کا موقع آیا تو کیا مرد کیا عورتیں سب حق کے لیے اللہ کے راستہ میں جان دیں گے جیسے حضرت حسین نے روزہ کی حالت میں اور سجدہ کی حالت میں جان دی ! تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو روزے اور نماز کا پابند بنائیں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کریں اور نافرمانیوں سے بچیں ! !
اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں کے سمجھنے کی توفیق دے اور حضرت امام حسین سے ہمیں محبت نصیب فرمائے اور ان کے اُسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین !
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ




بقیہ : رحمن کے خاص بندے
٭٭٭
اور صفاتِ ذاتیہ اور فعلیہ میں ایک باریک فرق یہ ہے کہ صفات ِذاتیہ کے مفہومِ مخالف کوذات ِ خداوندی کی طرف منسوب کرنا محال ہے مثلاً اللہ تبارک وتعالیٰ صفت ِحیات سے متصف ہے تو اس کو کبھی بھی موت سے متصف قرار نہیں دیا جاسکتا ! اسی طرح اس کی طرف علم کے بجائے جہل یا قدرت کے بجائے عاجزی کی نسبت ہرگز نہیں کی جاسکتی ! اس کے بر خلاف صفات ِ فعلیہ میں افعالِ متعارضہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے مثلاً زندہ کرنا اور موت دینا، عطا کرنا اور محروم کرنا، رحم کرنا اور غصہ کرنا، یہ سب باتیں بیک وقت اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوسکتی ہیں اور ان سب کا تعلق صفت ِ تکوین سے ہے ! ( مستفاد : بدر الیلالی شرح بدء الامالی فی علم العقائد ١/١٢٥ ، افادات مولانا مفتی رضاء الحق مدظلہ دارالعلوم زکریا افریقہ )
(جاری ہے)




قسط : ٤ ، آخری
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق
مسئلہ فلسطین کی تفہیم کے لیے ایک راہنما مقالہ
( ڈاکٹر محسن محمد صالح اردو استفادہ محمد زکریا خان )
٭٭٭
(٣١) فلسطین کے نصاریٰ کا موقف :
فلسطین میں عیسائی آبادی بھی پائی جاتی ہے، مسلمانوں کی طرح وہ بھی صہیونی ظلم کا شکار ہیں برطانیہ کے انتداب سے لے کر اب تک وہ آزادیٔ وطن کی تحریک میں مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ شانہ بشانہ شریک رہے ہیں ! فلسطین کے عیسائیوں کا مسلمانوں کے ساتھ مثالی اتحاد ہے وہ فلسطین میں رائج تہذیب و ثقافت اور (عربی) زبان کا اسی طرح دفاع کر رہے ہیں جیسے عام فلسطینی مسلمان کرتا ہے تقریر سے ، تحریر سے اور تلوار سے ! !
(٣٢) تحریک ِمزاحمت کے متفقہ اصول :
اپنے خطے سے محبت اور اس کا دفاع کرنا، اپنے مقدسات کا احترام اور دفاع کرنا دین ِاسلام کے واجبات میں سے ایک اہم واجب ہے ! اسلام کے علاوہ انسانیت بھی ان اصولوں کو تسلیم کرتی ہے اپنے ہم وطن لوگوں سے ناطے داری ہونا ، ان سے محبت کرنا اور ان کے لیے اچھے جذبات رکھنا ایک فطری جذبہ ہے سوائے اس کے کہ اس سے کوئی ایسی چیز حلال نہ ہو جائے جو اللہ نے حرام ٹھہرائی ہے ! اس دائرے میں رہتے ہوئے وطن اور اہل ِوطن سے محبت ایک فطری اور جائز جذبہ ہے ! بنا بریں اس فطری جذبے کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کے بنیادی عناصر خواہ وطن کی محبت نے انہیں ابھارا ہو یا عربی جذبے نے مہمیز دی ہو یا اسلامی جذبہ کار فرما ہو، سب ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہونے چاہئیں نہ کہ ایک دوسرے کے بر خلاف ! ! اسلامی معاشرے سے ضعف کے اسباب دور کرنا ہوں یا اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنا ہو یا تمدن یا ثقافتی ترقی حاصل کرنا ہو یا عرب مسلمانوں کے اتحاد کی تحریک ہو یا فلسطین کی آزادی کا مسئلہ ہو، ان میں سے کوئی عمل ایسا نہیں جو دوسرے عمل کے مخالف ہو بلکہ یہ سب ہی ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں اور یہ بالکل ممکن ہے کہ سب عناصر ایک ساتھ عمل کی تکمیل کا حصہ بنیں ! !
(٣٣) امن قائم کرنا اسلام کی غایت ہے :
دین ِاسلام سلامتی والا دین ہے ! اللہ خود اَلسَّلاَمْ ہے ! مسلمان ملاقات کرتے ہوئے سلام کہتے ہیں ، جنت کا ایک نام دَارُالسَّلَامْ ہے ! اسلام میں دوسری قوموں سے تعلقات کے لیے جو تعلیمات ہیں ان کا دائرہ کافی وسیع ہے ! پر امن بقا ئِ باہمی کا اصول بھی اسلام میں موجود ہے ! دوسرے مذاہب سے معاملات کرتے ہوئے اسلام نے اس اصول کی ترغیب دی ہے کہ احسن طریقے سے معاملے حل کیے جائیں !
اسلام کا متضاد دہشت گردی ہے یا جن نفوس کی اسلام میں حرمت ہے انہیں قتل کرنا بھی لفظ اسلام کا متضاد ہے ! علاوہ ازیں اسلام دین ِحق بھی ہے اور سراسر عدل پر مبنی دین بھی (جس میں خدا کی بندگی کا عہد کر لینے کے بعد) انسان تمام بندھنوں سے آزا د ہو جاتا ہے اس لیے یہ دین دین ِحریت بھی ہے ! بنا بریں اس دین ِحریت کے پیرو کار اپنے اوپر ظلم برداشت نہیں کرتے اور چونکہ یہ دین دین ِعدل بھی ہے اس لیے اسلام کے پیرو کار کسی پر ظلم بھی نہیں کرتے ہیں ! اس دین میں ذلت کی زندگی رسوائی اور ناموسی ہے ! اپنے دین ،عزت و ناموس، مقدسات اور اراضی پر وہ اپنی اعلیٰ سے اعلیٰ چیز بخوشی قربان کر دیتے ہیں ! !
فلسطین میں اس وقت تک سلامتی نہیں آ سکتی جب تک اہل ِفلسطین پر ظالمانہ معاہدے ٹھونسے جاتے رہیں ، ان کے حقوق سلب ہوتے رہیں اور اس کے اصل باشندے مہاجرت کی زندگی گزاریں ، ایسے ظالمانہ معاہدوں کو برابری پر قائم معاہدوں کا نعم البدل کہہ کر وقتی سیاسی مقاصد تو حاصل کیے جاسکتے ہیں اس لیے کہ وہاں کے شہریوں کو کمزور اور ضعیف سمجھ لیا گیا ہے لیکن ایسے معاہدوں سے فلسطین میں مستقل امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا ! آزادی فلسطین کا جہاد فرض ہی رہے گا اور اس کے شہریوں کے لیے ایک اعزاز اور آبرو مندی کی علامت صہیونی اور مغربی اصلاحات سے اس مزاحمت میں کوئی فرق نہیں آئے گا خواہ کوئی مغربی میڈیا کی ہاں میں ہاں ملا کر جہاد فلسطین کو دہشت گردی ہی کیوں نہ کہے ! اور اگر فلسطینی اپنے حقوق سے دستبردار ہو کر مزاحمت چھوڑ دیں تو اسے امن کہے ! یہ میڈیا تو حقوق کی جنگ کو ''دہشت گردی ''اور مظلوم کے ترک ِمزاحمت کو'' امن'' کہتا ہے ! !
(٣٤) اسلام میں جہاد کے اصول :
مسلمان یہودیوں کے خلاف جہاد اس لیے نہیں کرتے کہ کوئی شخص یہودی ہے ، اسلام میں اہل کتاب اور اہل ذمہ کے ساتھ سیاسی تعلقات کی تعلیمات موجود ہیں ! اسلام اہل ِکتاب اور اہل ذمہ سے عدل و احسان کرنے کا حکم دیتا ہے، انہیں عبادات اور رسومات ادا کرنے کی آزادی ہوتی ہے اور (عہد کرنے کے بعد)انہیں ویسے ہی حقوق حاصل ہو جاتے ہیں جیسے مسلم شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں جہاں تک مسئلہ یہود اور'' سامی نفرت'' ١ کا تعلق ہے تو اسلام اپنی طویل تاریخ میں ایسی اصطلاحات سے ناواقف رہا ہے ، کسی خاص نسل سے نفرت اور کسی قوم کا قتل ِعام یورپ کی سوغات ہے ! ! یہودی اسلامی عملداری والے علاقوں میں صدیوں رہے ہیں لیکن وہاں انہیں ایسی کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں جو انہیں یورپ میں رہتے ہوئے پیش آئی ہیں ! بنا بریں اسلامی تعلیمات میں یہ کوئی اصول نہیں کہ کسی یہودی کو صرف یہودی ہونے کی وجہ سے برداشت نہ کیا جائے ! مسلمانوں کا جہاد صہیونیوں کے خلاف ہے جو ایک متعصب نسل پرست تشدد پسند تحریک ہے اور جس نے مسلم خطوں پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے، جنہوں نے وہاں کے اصل باشندوں کو مہاجرت پر مجبور کیا، انہیں بے وطن کیا ، مسلمانوں کے مقدسات کی اہانت کی ! جان لیجیے کہ مسلمان ہر اس قوم کے خلاف علم جہاد بلند کرتے رہیں گے جو ان کی اراضی پر قابض ہوتا ہے خواہ اس کا کوئی مذہب ہو یا کوئی نسل ! !
١ حضرت نوح علیہ السلام کا بڑا بیٹا جن کی نسل ''سامی'' کہلاتی ہے
(٣٥) امت صرف اسلام کے اصول اور مبادیات پر متفق ہو سکتی ہے :
فلسطین کی آزادی اور صہیونیوں کی قوت منتشر کرنے کے لیے ہمیں اسلام کے اصولوں پر چلنا ہو گا ! اللہ تعالیٰ اپنے سچے بندوں کی نصرت کا خود ذمہ اٹھا لیا کرتا ہے ! علاوہ ازیں پوری امت ِمسلمہ کا عقیدہ بھی اسلام ہے جو اس تحریک میں فلسطین کے ساتھ کھڑی ہو گی اور اس لیے بھی کہ اسلام سراسر بھلائی اور فلاح کا دین ہے ! اسلام میں یہ کشش ہے کہ وہ مسلمانوں کو متحد کرتا ہے اور ان کی طاقت کو یکجا کر سکتا ہے ! فلسطین کی تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ اسلام کی وجہ سے اسے پہلے بھی آزادی نصیب ہوئی ہے جیسے تا تاریوں کا قبضہ اور پھر فرانس کے قبضے سے آزادی پانے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے جہاں تک اسلام کے علاوہ دوسرے نظریات کو بنیاد بنانے کا سوال ہے( جیسے وطن پرست تحریکیں یا قوم پرست تحریکیں یا عرب نیشنل ازم یا اشترا کی تحریکیں ) تو ماضی قریب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام کے علاوہ دوسرے نظریات ناکام ہی ہوئے ہیں ! !
(٣٦) مسئلہ فلسطین کا اسلامی حل :
اسلامی نقطہ نظر سے فلسطین کی آزادی کی تحریک کے نکات درج ذیل ہوسکتے ہیں :
(الف) اسلام ہی کو اپنا عقیدہ اور منہح حیات بنا یا جائے ! اپنی زندگی کو اسلامی اخلاقیات اور اسلامی قدروں کے مطابق ڈھالا جائے ! اپنے باہمی معاملات اللہ کی شریعت کے مطابق طے کیے جائیں !
(ب) تحریک آزادی فلسطین کی قیادت اسلامی شخصیت ہو جو معاملات سے نبرد آزما ہونے کی پوری صلاحیت رکھتی ہو جو پختہ ارادے اور نیت ِصادقہ کے ساتھ صہیونی عزائم کا توڑ کرنا جانتی ہو !
(ج) صہیونیت کے خلاف تحریک کا دائرہ صرف فلسطین تک محدود نہ رہنے دیا جائے بلکہ پورے عالمِ اسلام میں صہیونی عزائم کو نمایاں کرنے کے بعد امت کو اپنی پشت پر لایا جائے ! اسے صرف فلسطینی مسئلہ یا عرب اسرائیل مسئلہ تک محدود نہ رکھا جائے کیونکہ ارضِ فلسطین کی آزادی تمام مسلمانوں پر فرضِ عین ہے اس لیے کہ صہیونی منصوبے صرف فلسطین کی سرزمین تک محدود نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا میں صہیونی اپنے منصوبے بنا رہے ہیں لہٰذا یہ مسئلہ علاقائی نہیں بین الاقوامی ہے ! ایک بین الاقوامی عَدو(دشمن) سے بین الاقوامی سطح پر ہی نبٹا جاسکتا ہے ! !
(د) تحریک ِ آزادی فلسطین کی ہر سطح پر مدد کرنا کیونکہ فلسطین ارضِ رُباط ہے(مسلم علاقوں کا وہ مقام جہاں سے عدو(دشمن) دراندازی کر سکے اور جہاں کے باشندوں کو ہر وقت چوکنا رہنا پڑتا ہو ایسے مقام سے اگر ایک دفعہ دشمن اسلامی قلمرو میں گھس آئے تو پھر اس کا دوسرے علاقوں میں گھسنا آسان ہوجاتا ہے ! ارضِ رُباط میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلام میں خصوصی مراعات دی جاتی ہیں )
(ھ) تمام مسلم خطوں میں سیاسی، اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اعلیٰ صلاحیتیں اور استعداد کار پیدا کرنا، مسلم امہ کو ایک طویل جنگ کے لیے اپنے ہی پیدا کردہ وسائل پر انحصار کرنا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے مسلم ہستی کو زمین کی نیابت سونپی ہے موجودہ دور میں یہ ایک نہایت کٹھن کام ہے اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے مسلم امہ کو اپنے اندر بہت ساری لیاقتیں اور صلاحیتیں پیدا کرنا ہیں ، صرف فلسطین کی آزادی کاایک مسئلہ امت کو درپیش نہیں ہے بلکہ ہمارے بہت سے مقبوضہ جات آزاد ہونا ہیں ! !
(٣٧) مسئلہ فلسطین انسانی المیہ :
مسئلہ فلسطین صرف سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ انسانوں کو پیش آنے والے بہت سے مسائل سے عبارت ہے، صبح و شام حقوق انسانی کا واویلا کرنے والوں کے سامنے لاکھوں مظلوموں کی آہ و بکا ء ان کی جانبداری کے نفاق کا پردہ چاک کررہی ہے ! نیو ورلڈ آرڈر کا ننگ چھپائے نہیں چھپ رہا ! ترقی یافتہ ممالک کے سامنے جہاں حیوان وبہائم کے حقوق کی بات ہوتی ہے وہاں پچھلی نصف صدی سے ساٹھ لاکھ سے زائد انسانوں کا سوال ہے جن سے ان کا وطن بزورِ قوت چھین لیا گیا ہے، جن کی خیمہ بستیوں میں بھوک ہی بھوک ، افلاس ، امراض اور ناخواندگی ہے ، وہ بے گھر انسان جن کی جھونپڑیوں کو جلا کر ان پر یہودیوں نے بلند وبالا عمارتیں کھڑی کر لی ہیں ، ایک ایسے دعوے کو بنیاد بنا کر جو سراسر جھوٹ ہے، ایک ایسا دعویٰ جس کی نہ تاریخی حقیقت ہے نہ کوئی دینی (توراتی) شہادت ہے اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین میں اس کی گنجائش ہے !
فلسطین میں صہیونی ریاست مغربی استعمار کی باقی ماندہ بد نما شکل کی صورت میں قائم ہے ! مسلم آبادی والے دوسرے خطوں سے تو استعمار کو نکلنا پڑا، اب اسے ارضِ رُباط سے بھی نکلنا ہے آج یا کل ! چاہیۓ کہ اس انسانی المیے کو حل کرنے کے لیے پوری انسانیت کھڑی ہوجائے !
(٣٨) عمرانی صداقتیں :
دنیا میں (دجالی) صہیونی قوت ایک مسلمہ حقیقت ہے بین الاقوامی مالیاتی امور ہوں یا سیاسی ہیر پھیر ہوں یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہو ، ہرجگہ پس ِپردہ صہیونی منصوبہ کار فرما ہے ! امریکہ میں صہیونی اثرونفوذ سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا ! ہم کسی ''سامی نفرت'' کی وجہ سے یہ بات نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی ہمیں کسی خاص نسل سے بیر ہے ، اگر کوئی قوم ترقی پا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیتی ہے تو یہ قابل ستائش کام ہے نہ کہ قابل مذمت ! شرط یہ ہے کہ وہ انسانی فلاح کے لیے استعمال ہو، قوت حاصل ہونے پر ظلم اور فساد پھیلانا، دوسروں کے حقوق سلب کرنا قابل تحسین نہیں کہلا سکتا ! !
بلاشبہ صہیونی آج قوت میں ہیں لیکن یہ تفوق نا قابل تسخیر نہیں ہے ، یہ خیال غلط ہوگا کہ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کے پیچھیصہیونی ہوں گے ! صہیونی قوت خدا کی قوت پرغالب نہیں ہے اور نہ ہی وہ بشریت کی سرحدوں سے آگے نہیں نکل گئے ہیں ، خدا کی پیداکردہ مخلوق ہیں اپنے تئیں پیدا نہیں ہوئے، قوموں کے عروج و زوال کی کچھ خدا ئی سنتیں ہیں جیسے دوسری قوموں پر زوال کے دن آتے ہیں اسی طرحصہیونی بھی ہمیشہ طاقتور نہیں رہیں گے ! !
ہمیں اعتراف ہے کہ ترقی کی منازل بغیر محنت ومشقت اور اعلیٰ تنظیم کے حاصل نہیں ہوا کرتیں لیکن ہمیں ان اسباب کو بھی سامنے رکھنا ہے جو زوال لایا کرتے ہیں ، دنیا کی طویل تاریخ میں پہلے بھی اس قوم کو ترقی حاصل ہوئی تھی لیکن ان پر زوال کوئی ایک مرتبہ نہیں آیا ! صہیونی آج قوت میں ہیں تو اس میں امت ِ مسلمہ کے لیے نصیحت ہے ، ایک زمانے میں یہودی دنیا کی حقیرترین قوموں میں شمار ہوتے تھے، مسلمان بھی اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کرسکتے ہیں جو دنیا کی نیابت کے لیے ضروری ہوا کرتی ہیں ! ! !
(٣٩) تیسری عالمی جنگ کا خطرہ :
اسرائیل کی ہوشربا فوجی قوت اقوامِ عالم کے امن کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے ! اسرائیل کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جن میں 200ایٹم بم بھی شامل ہیں ! اسرائیل کی تیزرفتار فوج کی استعداد خطرناک حدتک زیادہ ہے، اسرائیل محض بہتر گھنٹوں میں سات لاکھ فوج ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل کر سکتا ہے ١ عالمِ اسلام کے قلب میں ایسی خطرناک فوج بین الاقوامی امن کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے جہاں کسی وقت بھی ایک خطرناک جنگ بھڑک سکتی ہے جو تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے ! !
آج نہیں تو کل مسلمان ایک بڑی قوت بننے والے ہیں ! یہ بات بعید نہیں کہ اسرائیل کی وجہ سے مسلمان بھی وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیار حاصل کر لیں ! مسلمان اپنی ایک انچ زمین سے بھی دستبردار ہونے کے نہیں ! حالت ِضعف میں کبھی مسلمان نچلے نہیں بیٹھے اب جبکہ وہ دن دور نہیں جب مسلمان ایک بڑی قوت ہوں گے ! اگر اسرائیل کے وجود کو عالمِ اسلام کے قلب سے ختم نہیں کیا جاتا تو مسلمان اپنی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے عدو(دشمن ) کو نکال کر دم لیں گے ! اس سے پہلے استعمار کو بھی عالمِ اسلام سے نکلنا پڑا تھا، استعماری طاقتیں بھی بڑی قوت ہوا کرتی تھیں ! !
ایک خطرناک بین الاقوامی جنگ سے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ عالمی طاقتیں اپنا اثرونفوذ استعمال کرتے ہوئیصہیونی ریاست کو مسلم اراضی سے بے دخل کردیں ! !
(٤٠) صہیونی ریاست کا زوال :
فلسطین میں صہیونی منصوبوں کا ناکام ہوجانا نہ صرف ممکن ہے بلکہ ایک واقعاتی حقیقت ہے صہیونی ریاست کا زوال ایک ربانی فیصلہ بھی ہے ! قرآن مجید کہ جس میں باطل کی آمیزش کا سوال ہی
١ مگر حالات نے ثابت کردیا کہ یہ محض ایک ہوّا تھا جس کے غبارہ سے اب پھونک نکل چکی ہے والحمد للّٰہ (ادارہ)
پیدا نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ صہیونی زوال کی بشارت دیتا ہے ! اس کا آخری رسول جس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ بھی صہیونیوں کے زوال کی بشارت دے کر گیا ہے ! پھراس دھرتی پر خدا کی ربانی سنتیں اثر انداز ہوتی ہیں ! انسانی تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہے کہ ظلم پر کوئی ریاست زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتی، خدا کے نا فرمانوں پر آفتیں آیا کرتی ہیں اور خدا کسی کا حق مارنے والا نہیں ہے ! ! !




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560




جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی امور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے




اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭٭٭
یکم جون بروز ہفتہ جمعیة علماء اسلام کے صوبائی امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب جمعیة علماء اسلام کے'' عوامی اسمبلی'' جلسے میں شرکت کے لیے بخاری شریف کے سبق سے فارغ ہوکر مظفرگڑھ تشریف لے گئے جہاں آپ نے جلسہ کی صدارت فرمائی، بعد ازاں جامعہ کی مصروفیات کی وجہ سے واپس لاہور کے لیے روانہ ہوئے رات دو بجے بخیرو عافیت جامعہ تشریف لے آئے ، اگلے دن کے تمام امور اور بخاری شریف کا سبق حسب ِ معمول ہوا والحمد للہ !
٣ ذوالحجہ ١٤٤٥ھ/١٠ جون ٢٠٢٤ء کو حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب مدظلہم حج کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے،١٦ ذوالحجہ / ٢٣ جون کو بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے۔
٢٠ جو ن بروز جمعرات شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب فاضل جامعہ رمیز اشرف صاحب کی دعوت پر جامع مسجد بلال گاؤں نول بٹھاڑ کھڈیاں خاص تشریف لے گئے جہاں بعد نماز ِمغرب آپ نے پانچ سالہ درسِ قرآن کی تکمیل کی تقریب میں قرآن پاک اور دینی تعلیم کی اہمیت پر بیان فرمایا۔
٢٣ جون بروز اتوار شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ،جامعہ مدنیہ جدید کے استاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب مدظلہم کے بیٹے فاضل جامعہ مولوی محمد عمر کی عیادت کے لیے میو ہسپتال تشریف لے گئے جہاں آپ نے ان کی عیادت کی اور صحت یابی کے لیے دعا فرمائی بعد ازاں فاضلِ جامعہ مدنیہ جدید اور شبان ختم نبوت کے ذمہ دار مولانا سید انیس شاہ صاحب سے ان کے والد جناب عبدالرئوف شاہ صاحب کی تعزیت کے لیے سنٹرل پارک تشریف لے گئے جہاں آپ نے مولانا انیس شاہ صاحب سے تعزیت ِمسنونہ کی اور مغفرت کی دعا فرمائی۔




وفیات
٭٭٭
٭ ٤ جون کو جمعیة علماء اسلام کے حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحب سابق ممبر قومی اسمبلی اور ان کے بھائی الحاج عباس خان صاحب ایک ہی دن قلعہ سیف اللہ بلوچستان میں انتقال فرماگئے ۔
٭ ١٨ جون کو سابق امیر جمعیة علماء اسلام جنوبی وزیرستان حضرت مولانا میرزا جان صاحب نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شہید ہوگئے۔
٭ ١٨ جون کو پاجیاں رائیونڈ کے بھائی عبدالجبار صاحب کے والد گرامی وفات پا گئے۔
٭ ٢٠ جون کو فاضلِ جامعہ مدنیہ جدید مولانا سید انیس شاہ صاحب کے والد محترم سید عبدالرئوف شاہ صاحب طویل علالت کے بعد میو ہسپتال لاہور میں انتقال فرماگئے۔
٭ ٢٤ جون کو فاضلِ جامعہ مدنیہ جدید مولانا محمد سلیم صاحب کے چچا ، رانا شبیر صاحب کے چھوٹے بھائی رانا ظہیر صاحب بابر پھولنگر میں وفات پاگئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔




جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079142) MCB کریم پارک برانچ لاہور

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.