ماہنامہ انوا ر مدینہ
جلد : ٣١
ذوالحجہ ١٤٤٤ھ / جولائی ٢٠٢٣ء
شمارہ : ٧
سیّد محمود میاں
مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں
نائب مُدیر
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 0333 - 4249302
جازکیش نمبر : 0304 - 4587751
جامعہ مدنیہ جدید : 042 - 35399051
خانقاہ ِحامدیہ : 042 - 35399052
موبائل : 0333 - 4249301
موبائل : 0335 - 4249302
موبائل : 0323 - 4250027
دارُالافتاء : 0321 - 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز
٤
درسِ حدیث
حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب
٦
تبلیغ کا آغاز ....... شعب اَبی طالب میں پناہ حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب
١٢
عورتوں کے لیے پردہ کیوں ضروری ہے ؟
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب
٢٣
تربیت ِ اولاد( قسط : ٤ )
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی
٣٠
حضرت فاطمہ کے مناقب( قسط : ٣ ، آخری )
حضرت مولانا محمد عاشق اِلٰہی صاحب بلند شہری
٣٥
رحمن کے خاص بندے( قسط : ١٥ )
حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری
٥٠
حضرت شیخ الحدیث کی طلباء کو ہدایات
مفتی احسان الحق صاحب اخونزادہ
٥٦
٢٩ ذیقعدہ ١٤٤٤ھ/١٩ جون ٢٠٢٠ء کو جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب مدظلہم حج کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے اللہ تعالیٰ حضرت کے سفر حج کو آسان فرمائے اور قبول فرمائے، آمین
حرف آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں اتحاد و اِتفاق تقریباً مفقود ہوچکا ہے سیاسی انتشار ، سماجی انتشار ، اندونی انتشار ، بیرونی انتشار غرض ہر شعبۂ زندگی میں اختلاف واِنتشار کا راج ہے ! ہر شخص حیران وسرگردان ہے ! !
کچھ لوگ سکون کے متلاشی سوال کرتے ہیں کہ کیا کریں اور کہاں جائیں ! ؟ ؟
جواب ہمیں بھی نہیں آتا سوائے اس کے کہ قرآن و حدیث سے راہنمائی حاصل کرلی جائے !
ایک حدیث شریف نظر سے گزری جو دل کو لگی کہ موجودہ دور کی طغیانی سے بچ نکلنے میں ہماری مددگار ہوسکتی ہے !
''حضرت عمران بن حُصین رضی اللّٰہ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے والد سے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کے اسلام قبول کرنے سے پہلے) دریافت فرمایا کہ اے حُصین آج کل تم کتنے خداؤں کو پوجتے ہو ؟
تو میرے والد نے جواب دیا کہ سات (معبودوں ) کو پوجتا ہوں چھ زمین میں اور ایک آسمان میں ہے ! ! ١
١ زمین کے معبود یہ چھ بت تھے : یَغُوثْ ، یَعُوقْ ، نَسَرْ ، لَاتْ ، عُزّٰی ، مَنَاتْ
آپ نے دریافت فرمایا اپنی انتہائی پسندیدہ چیز کو طلب کرنے اور ناپسندیدہ سے بچنے کے لیے ان خداؤں میں سے (بالآخر) کس کو (طاقتور) گردانتے ہو ؟ تو وہ بولے جو آسمان میں ہے ! ! !
اے حُصین ! دیکھو اگر تم اسلام لے آئے تو میں تم کو دو باتیں سکھلاؤں گا جو تم کو فائدہ دیں گی !
حضرت عمران رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں جب حُصین اسلام لے آئے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ مجھے وہ دو باتیں سکھلادیجیے جن کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا
تو آپ ے فرمایا کہ اَللّٰھُمَّ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ وَ اَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ ١
'' اے اللہ جو رُشد (وہدایت) میری ذات سے وابستہ ہے وہ مجھے سوجھاتا رہ اور مجھے بچالے میرے نفس کے شر سے''
آج کے پُرفتن، بہکے اور بھٹکے ہوئے دور میں ہر خاص و عام مسلمان کو چاہیے خواہ وہ عالم ہویا غیر عالم ، قائد ہویا غیر قائد یہ انتہائی مختصر دُعا اخلاص سے مانگے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو !
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْن
١ سُنن ترمذی بحوالہ مشکوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٤٧٦
درسِ حدیث
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
نفلی اعمال اُتنے کرے جن پر پابندی ہو سکے !
آخرت میں انسان کے اعمال کی اچھی بُری شکلیں !
قرآنی سورت اپنے اندر پرندہ کی طرح سمو لے گی !
اور اللہ کے دربار میں زوردار سفارش کرے گی !
( درسِ حدیث نمبر ٥٥/٧٨ ٩ا رمضان المبارک ١٤٠٣ھ/یکم جولائی١٩٨٣ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
میں یہ عرض کررہا تھا کہ حدیثوں میں یہ مضمون آتا ہے کہ فلاں عمل نے اللہ کے یہاں فلاں شکل اختیار کرلی ! اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ جیسے ہم یہاں دُنیا میں فلم تیار کرنے لگے ہیں جس میں بولتا ہے آدمی، چلتا ہے پھرتا ہے، تمام کام کرکے دکھاتا ہے حالانکہ وہ تصویروں کا مجموعہ ہے ! ! اور آواز ٹیپ ہے ! حقیقتاً وہ آدمی نہیں ہے ! نہ وہ چل رہا ہے ! نہ وہ پھر رہا ہے ! نہ وہ بول رہا ہے ! اور دس دفعہ دہرائیں گے دس دفعہ وہی شکل بنے گی !
تو اب یہ انسان کا جو عمل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دوام کی شکل عطا فرما دیتے ہیں جیسے آدمی نے وضو کیا اُس کا فلم بنایا جائے ! نماز پڑھی اُس کی فلم بنالی جائے ! اللہ کے یہاں ایسے تمام عمل جتنے بھی ہیں سب کی (فلم) خود بخود تیار ہے پہلے سے ہے ! بلکہ اُس کے مطابق یہاں ہورہا ہے ! ! ؟
پھر اور آگے وہی ہوگا جو پہلے سے تھا ! ! !
کلمہ کی شکل :
یہ جو عمل ہیں ہمارے روز مرہ کے دُنیا کے کام یہ بے کار نہیں جاتے ان کی شکل ہوتی ہے متشکل ہوجاتے ہیں ! اور یہ ہمیں کام (اور فائدہ)دیتے ہیں ! جیسے کہ میں نے عرض کیا تھا کہ کلمہ طیبہ میں لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا جو حصہ ہے اُس کے بارے میں فضیلت آتی ہے جو پڑھتا ہے اس کے لیے تو اللہ تعالیٰ اُس سے ایک جانور پیدا فرمادیتے ہیں جو عرشِ الٰہی کے قریب گھومتا ہے اور دُعا کرتا ہے اپنے پڑھنے والے کے لیے کہ تو اس کی بخشش فرمادے۔
قبر ..... اچھی بری شکل :
اور میں نے عرض کیا تھا کہ قبر میں جب آدمی دفن ہوتا ہے تو آدمی کو ایک شکل نظر آتی ہے وہ اُسے دیکھتا ہے کہتا ہے کہ تیرے سے میرا جی خوش ہورہا ہے اُنس محسوس کررہا ہوں ! وہ کہتا ہے میں تیرا عمل ہوں تیرے ساتھ رہوں گا !
اسی طرح وحشت ناک شکل بھی نظر آتی ہے ! اور اُس سے کہتا ہے کہ تجھے دیکھ کر مجھے وحشت ہو رہی ہے ! وہ کہے گا میں تیرا عمل ہوں تیرے ساتھ رہوں گا ! اور عمل کا شکل بن جانا (یہ کتاب و سنت میں ) آیا ہے
زکوة چور کی قبر :
جو زکوٰة نہیں دیتا اُس کے بارے میں آتا ہے کہ و ہ مال کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں ! اَنَا مَالُکَ میں تیرا مال ہوں ! اور وہ سانپ اُسے ڈستا رہے گا، مارتا رہے گا، منہ مارکر کاٹتا رہے گا ! تو شُجَاعًا اَقْرَعَ یعنی گنجے قسم کا سانپ بناکر ڈال دیا جائے گا گردن میں ! وہ عمل ہوگا ! !
( سَیُطَوَّقُوْنَ مَابَخِلُوْا بِہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ) وہ سوال کا جواب بھی دے گا ! اوروہ اُس سے چھٹکارا نہیں پاسکے گا ! جیسے کوئی چیز(پھوڑا وغیرہ) کہیں نکل آئے آدمی کے پھر یا تو تکلیف دیتی ہے ،چھٹکارا نہیں پاسکتا اُس سے وہ ! تو خود بخود پکے گی، بڑھے گی، پھوٹے گی، جو تکلیف ہونی ہے وہ ہوگی، اسی طریقہ پر یہ جوسانپ یا کوئی چیز ہے جو اُس کی گردن میں ہوگی اُس دن، اُس سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکے گا ! تاوقتیکہ اللہ ہی اُس کو نجات دے ! اللہ تعالیٰ پناہ میں رکھے ! !
تو جو عمل اُس کا قبر میں سامنے آئے گا ہوسکتا ہے کہ وہ کسی جانور کی شکل میں ہو جس سے وہ ڈرتا ہو یا اور کسی ایسی ہی شکل میں ہو جس سے اُسے وحشت ہوتی ہو وہی سامنے آئے ! اور وہ کہے میں ساتھ ہی رہوں گا، تکلیف بھی پہنچاتا رہے گا، سامنے بھی رہے گا تو آدمی کا بُرا حال ہوتا ہے ! اور ایسی جگہ جہاں دُوسرا کوئی ہو ہی نہ سرے سے ! سوائے اللہ کی ذات کے ! تو وہ جگہ تو بہت وحشت کی جگہ ہے ؟ !
پرندہ کی طرح اپنے اندرسما لے گی :
حدیث شریف میں ایسے اعمال بتائے گئے کہ جن میں اللہ تعالیٰ اُن کو اچھی شکل دیتے ہیں یا مددگار بنادیتے ہیں ! مثال کے طور پر یہاں حدیث شریف میں آتا ہے کہ اَلم تَنْزِیْلُ السَّجْدَةِ ١ ایک شخص پڑھا کرتا تھا اور بہت زیادہ پڑھتا تھا ! بہت پسند تھی اُسے یہ سورت ! تلاوت بکثرت کرتا تھا ! کَانَ کَثِیْرُ الْخَطَایَا گناہ بھی تھے اُس کے بہت ! فَنَشَرَتْ جَنَاحَھَا عَلَیْہِ معلوم ہوتا ہے اُسے شکل دے دی گئی کسی پرندے کی کہ اُس نے اس کے اُوپر اپنے پر پھیلالیے ! اور عرض کیا اللہ تعالیٰ سے
رَبِّ اغْفِرْلَہ فَاِنَّہ کَانَ یُکْثِرُ قِرَائَ تِیْ خداوند ا تو اِس کو معاف فرمادے کیونکہ یہ مجھے زیادہ پڑھا کرتا تھا اللہ تعالیٰ نے اُس کی شفاعت قبول فرمالی ! اور جب اللہ تعالیٰ نوازتے ہیں تو پھر اُس کی عجیب شان ہے نوازشوں کی ! اُس سے فرمایا کہ جو گناہ تھے اس کے اُن گناہوں کے بدلے نیکیاں کردیں ،لکھ دیں !
پھر زور دار سفارش کر کے بخشوا لے گی :
حدیث شریف میں آتا ہے کہ تُجَادِلُ عَنْ صَاحِبِھَا فِی الْقَبْرِ یہ قبر میں اپنے پڑھنے والے کی طرف سے جھگڑتی ہے اور کہتی ہے کہ اِنْ کُنْتُ مِنْ کَتَابِکَ فَشَفِّعْنِیْ فِیْہِ اگر میں تیری کتاب میں ہوں داخل ، تو میری شفاعت اس کے بارے میں قبول فرما ! اور اگر میں کتاب میں نہیں ہوں تو مجھے
اپنی کتاب سے مٹادے ! ارشاد فرمایا کہ یہ طَیْر جیسی ہوتی ہے پرندے کی سی شکل اس کی بن جاتی ہے ! تَجْعَلُ جَنَاحَھَا عَلَیْہِ فَتَشْفَعُ لَہ فَتَمْنَعُہ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ شفاعت کرتی ہے اُس کے لیے اور عذابِ قبر
١ پارہ ٢١
سے روک دیتی ہے وَقَالَ فِیْ تَبَارَکَ مِثْلَہ اور اسی طرح ( تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ) ١ جو سورة ہے اس کے بارے میں بھی فرمایا !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی جو ہیں وہ عمل کرتے تھے جو سنتے تھے (اسی طرح) تابعی جو سنتے تھے وہ عمل کرتے تھے کَانَ خَالِد لاَّ یَبِیْتُ حَتّٰی یَقْرَأَھُمَا ٢ حضرت خالد رضی اللہ عنہ راوی حدیث جو ہیں جب تک وہ یہ دو سورتیں نہیں پڑھ لیتے تھے وہ سوتے ہی نہیں تھے ! سونے کے بعد تو یہ پتہ ہی نہیں کہ آدمی اُٹھ بھی سکے گا یا نہیں ! تو جو سوتا ہے وہ سوتے وقت پڑھ لے اسے، اس طرح کا عمل جو ہے وہ ثابت ہے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم سے ! !
قرآن کی کسی سورت یا آیت سے محبت بھی فائدہ دے گی :
حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے مفہوم اُس کا یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جس آدمی کو قرآنِ پاک کے کسی حصہ سے محبت ہو اُس سے فائدہ ہوتا ہے اُس کو ! قرآنِ پاک کا کوئی حصہ اُسے پسند ہے اور وہ پڑھتا ہے اُسے، دوہراتا ہے اُسے، تو اسے فائدہ اُس سے ہوگا ! چنانچہ ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) جو ہے اسی طرح کا اس کے بارے میں آرہا ہے ! ایک صحابی کو پڑھتے ہوئے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، آپ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی ! ایک دوسرے صحابی ابوہریرہ یہ گفتگو سن رہے تھے یہ جملہ سنا کہ ''واجب ہوگئی '' تو دریافت کیا کہ کیا واجب ہوگئی ؟ ارشاد فرمایا کہ جنت واجب ہوگئی ٣
اُنہیں یہ پسند تھی وہ اس کو پڑھ رہے تھے بہت تعلق کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا سنا اور سن کر آپ نے پسند فرمایا اور فرمایا کہ یہ جنت میں ہے !
حدیث شریف میں ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد )کا دو سو مرتبہ روزانہ پڑھنا بھی آیا ہے ! اور سو مرتبہ پڑھنا بھی آیا ہے ! یہاں حدیث میں ہے کہ سوتے وقت جو سو دفعہ پڑھتا ہے ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد )
١ پارہ ٢٩ ٢ مشکوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٧٦
٣ مشکوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٦٠
اور دائیں طرف کروٹ سے سوتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُسے فرمائیں گے کہ تو اس طرح اپنے یَمِینْ یعنی دائیں طرف جنت میں داخل ہوجا ١ مطلب یہ ہے کہ کلمات کا دوہرانا تاثیر رکھتا ہے
اور ( قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد ) میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ہے ( اَللّٰہُ اَحَد) اللہ ایک ہے اُس کی صفات کا ذکر ہے کہ وہ صَمَدْ ہے بے نیاز ہے سب اُس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے ! اور یہ ذکر ہے کہ نہ اُس کے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ( لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ) اور یہ ذکر ہے کہ اُس کا ہمسر کوئی نہیں ہم جنس کوئی نہیں ،مرد کے جیسے عورت ہوتی ہے ہم جنس اور جانوروں میں اس طرح جنسیں موجود ہیں ، جانوروں کے علاوہ درختوں میں موجود ہیں ! یہ شکل کوئی نہیں ! تو اس میں دُعا تو کوئی نہ ہوئی اس میں تو ثنا ہوئی، تعریف ہوئی، وحدانیت کا اقرار ہوا، اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کی تعریف ہوئی، اور اُس کی صفات کا ذکر ہوا ، تو یہ ذکر صفات کا اور اُس کی وحدانیت کا اعتراف ،یہ بھی اللہ کو پسند ہے اس کی تکرار بھی پسند ہے ! تو اس واسطے اللہ اللہ کہنا اس کی تکرار کرنا یہ بھی اللہ کو پسند ہے ! جس کو جتنا وقت ملتا ہے جو گزرچکا وہ گزرچکا ! اور جو ملتا ہے اُس کو کام میں لانا چاہیے جتنا لایا جاسکتا ہے کام میں ! یہ بھی نہیں کہ آدمی فقط اسی کام کا ہوجائے ! اگر فقط اسی کام کا ہوگا تو تھوڑے دنوں بعد طبیعت گھبراجائے گی ! اور پھر چھوڑدے گا آدمی ! وہ بہتر نہیں وہ نہیں پسند فرمایا ! ! !
نفلی عمل اُتنا کرنا چاہیے جس پر پابندی ہو سکے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا اُس فعل کو جس پر مداومت کی جائے اتنا ہو کہ ہمیشہ ہوسکے ، وہ زیادہ پسند فرمایا ہے ! اور ویسے بھی آپ اندازہ کر لیجیے کہ اگر درود شریف کی ایک تسبیح روز پڑھے کوئی آدمی تو سال میں وہ چھتیس ہزار بن جاتا ہے ! اور اگر پانچ سو دفعہ روز پڑھے ! ہزار دفعہ روز پڑھے ! تو چند دن پڑھنے کے بعد ناغہ ہوجائے گا ! ناغہ ہو گیا تو رُک جا ئے گا عمل ! تو جو عمل مختصر ہو مگر ہمیشہ ہو، بس اُس میں ناغہ نہ ہو وہ بہتر ہوتا ہے ! اور حساب کرلیں تو وہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور نفع بھی اُس کا زیادہ ہے ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق دے !
١ مشکوة المصابیح فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٥٩
حدیث کا مطلب :
اس میں جو آتا ہے مثال کے طور پر کہ جو ( تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ) پڑھے گا تو اس طرح یہ سورت بچالے گی اور اگر کوئی فلاں سورت پڑھے گا تو یہ سورت اس طرح بچالے گی ! اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی یہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کو گناہوں سے بچالے گا ! اور اُس کا اثر خود بخود یہ بھی ہوگا کہ وہ گناہوں سے ہٹتا چلا جائے گا نیکی کی طرف آتا چلا جائے گا ! یہ اس کی تاثیر دُنیا میں اُس کے قلب پر مرتب ہوگی ! اور اُس کی زندگی میں نظر آئے گی، فرق نظر آئے گا !
یہ مطلب نہیں ہوتا ایسی چیزوں کا کہ آدمی ویسے کا ویسے ہی رہے گا اور بخشش ہوجائے گی ! بلکہ مقصد یہی ہوتا ہے کہ جو اِس کو پڑھے گا جسے اس کی توفیق ہوگی وہ خود بدلتا بھی چلا جائے گا اور نیکی کی طرف آتا ہی چلا جائے گا ! ! ! ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے، اپنی رضا اور فضل سے دُنیا اور آخرت میں نوازے، آمین اختتامی دُعا ....
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جولائی ١٩٩٨ ء )
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org
شعب اَبی طالب میں پناہ !
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اَوراق
قتل کا منصوبہ :
پے درپے ناکامیوں نے قریش کو اور زیادہ مشتعل کردیا ، کھلم کھلا قتل کرنے میں قبائلی جنگ چھڑجانے کا خطرہ تھا لیکن خفیہ طور پر قتل کرنے میں پہلے ثبوت کی ضرورت تھی جس کا مہیا کرنا بنوہاشم کے لیے تقریبًا ناممکن تھا ! ! چنانچہ خفیہ طور پر جانِ جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کی سازش ہونے لگی ! خواجہ ابو طالب کے چوکنے دماغ نے اس کو بھانپا ! انہیں صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہیں بلکہ خاندانِ ہاشم کے اور لوگوں کے متعلق بھی خطرہ ہوا ! مثلاً خواجہ ابوطالب کے بڑے صاحبزادے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اگرچہ ہجرت کر کے حبش چلے گئے تھے لیکن چھوٹے صاحبزادے حضرت علی رضی اللہ عنہ یہیں تھے جو ہردم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے ! خواجہ ابو طالب نے خاندان کے لوگوں سے مشورہ کیا اور طے یہ کیا کہ شہر کے خطرناک ماحول سے نکل کر کسی محفوظ مقام پر پناہ لی جائے ؟
پہاڑوں کے بیچ میں ایک مقام ''خَیفْ بنی کَنانة'' تھا یہ بنو ہاشم کا موروثی رقبہ تھا طے یہ ہوا کہ وہاں جاکر قیام کیا جائے ! چنانچہ پورا خاندان (جس کے بہت سے افراد اَبھی مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے )اس مقام پر چلا گیا جس کا دوسرا نام شعب ابی طالب تھا ! صرف ابولہب اور اُس کا گھرانہ مکہ میں رہ گیا جو اپنے خاندان کے خلاف قریش کا سرگرم حامی تھا، ابو طالب یہاں پہنچ کر بھی اپنے بھتیجے کی نگرانی راتوں کو کیا کرتے تھے ان کے سونے کی جگہ بھی بدلتے رہتے تھے !
قومی بائیکاٹ :
قریش کے سرداروں نے اس کا جواب یہ دیا کہ تمام مخالف گروپوں کو ملاکر اُن سب کا مقاطعہ کردیا جو خواجہ ابوطالب کے ساتھ اس گھاٹی میں پناہ گزیں ہوئے تھے ! قریش کے ساتھ قبیلہ بنی کنانة بھی اس معاہدہ میں شریک ہوا ١ مقاطعہ صرف رشتے ناطے کا نہیں تھا بلکہ کھانے پینے کی چیزیں بھی بند کردیں ! ایک عہد نامہ لکھا گیا کہ ان کے ساتھ نہ نکاح بیاہ کیا جائے گا نہ خرید فروخت ! اور کوشش کی جائے گی کہ مکہ سے باہر بھی کہیں سے یہ لوگ کچھ نہ خرید سکیں ! بیوپاریوں کو آمادہ کیا گیا کہ مکہ کے راستوں کی نگرانی رکھیں اور باہر سے آنے والی جنس کو مکہ میں پہنچنے سے پہلے ہی خرید لیا کریں ! سردارانِ قریش کے اس معاہدہ پر دستخط ہوئے اور یہ عہد نامہ قومی حفاظت خانہ ( کعبہ کے خزانہ) میں محفوظ کردیا گیا ! ٢
مقاطعہ کا آغاز :
نبوت کے ساتویں سال محرم کی پہلی تاریخ سے یہ مقاطعہ شروع ہوا تھا جو تقریبًا تین سال تک رہا ٣ اس عرصہ میں درختوں کے پتے اور جڑیں کھاکر زندگی گزارنی پڑی ! بچے بلبلاتے تھے مگر اُن کو دودھ میسر نہیں آتاتھا ! بکریاں ختم ہوگئی تھیں ! اور پے درپے فاقوں سے ماؤں کے دُودھ خشک ہوگئے تھے ! حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما جیسے رُفقاء اگرچہ بنو ہاشم نہیں تھے مگر وہ ان کے ساتھ تھے تو مقاطعہ ان سے بھی اتنا ہی سخت تھا ! ! ٤ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رات کو سوکھا چمڑا ہاتھ آگیا میں نے اس کو پانی سے دھویا پھر آگ پر بھونا اور پانی ملاکر کر کھایا ! ٥
جذبات میں تبدیلی :
مکہ میں جو رشتہ دار تھے ان میں وہ بھی تھے جن کو اِس حالت پر ترس آتا تھا مگر پابندیاں ایسی سخت تھیں کہ کوئی کچھ اِمداد نہیں کرسکتا تھا ! اس معاہدہ کی کوئی مدت نہیں تھی اس کی انتہا یہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کے لیے حوالہ کردیں ! ٦
١ بخاری شریف ص ٤٣٠ ٢ البدایة النہایة بحوالہ موسٰی بن عُقبة عن الزہری ج ٣ ص ٨٤
٣ ابن سعد ج ١ ص ١٤٠ ٤ سیرت ابن اسحاق بحوالہ ازالة الخفاء ج ٢ ص ١٠
٥ روض الانف بحوالہ سیرة النبی ج١ ٦ موسٰی بن عقبة بحوالہ زہری ، البدایة و النھایة ج ٣ ص ٨٤
تین سال پورے ہونے لگے تو یک طرفہ متواتر ظلم و ستم نے کچھ اہلِ قرابت کے دلوں میں نرمی پیدا کی اور یہ بحث شروع ہوئی کہ معاہدہ کی پابندی کب تک کی جائے گی ؟ لیکن پلہ اُن کا بھاری تھا جن کے سینوں میں دلوں کی جگہ پتھر بھرے ہوئے تھے !
کرشمۂ قدرت :
دفعةً ایک قدرتی حل سامنے آگیا ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چچا ابوطالب کو خبردی کہ کیڑوں نے معاہدہ کے تمام حرف چاٹ لیے ہیں صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے ! خواجہ ابو طالب نے یہ اِلہامی خبر سنی تو قریش کے سرداروں کے پاس پہنچے کہ آج ہمارا تمہارا معاملہ طے ہے محمد نے یہ خبر دی ہے اگر یہ خبر جھوٹی ہے تو میں تمہارے ساتھ ہوں اور اگر سچی ہے تو جب معاہدہ ہی نہیں رہا تو اس کی پابندی کیسی ! ؟
سردارانِ قریش نے یہ فیصلہ منظور کیا ! ان کو یقین تھا کہ جیت ہماری ہوگی ! مگر جب خزانہ کھول کر دستاویز نکالی گئی تو دیکھا '' الصادق الامین'' کی خبر حرف بحرف صحیح ہے ! ! سنگ دلوں کے پیشواؤں نے پھر بھی یہ کہہ کر ٹالنا چاہا کہ یہ محمد کا جادو ہے (صلی اللہ علیہ وسلم ) مگر اب وہ اپنے اصرار میں کامیاب نہ ہوسکے اور مجبورًا تسلیم کرنا پڑا کہ معاہدہ ختم ہوگیا ! ! اس قدرتی کرشمہ کے بعد ایسی فضا ہوگئی کہ بنو ہاشم شعب سے نکل کر مکہ میں آگئے ! ! ! ١
رُوحانی عروج :
ایسے سخت امتحان میں رُوحانی ترقی کہاں تک ہوسکتی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں چنانچہ اسی زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کا شرفِ عظیم حاصل ہوا ! ! معراج میں پنج وقتہ نمازیں فرض ہوئیں نماز کے آخر میں اَلتَّحِیَّاتْ پڑھی جاتی ہے جس میں نہ صرف آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم اور اُن بزرگوں پر جو اِس امتحان میں کامیاب ہوئے تھے بلکہ اُن کے طفیل میں تمام عباد صالحین پر سلام بھیجا جاتا ہے ! !
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ
١ البدایة و النھایة ج ٣ ص ٩٦
پناہ کی دیواریں منہدم :
قریش کا مقاطعہ جو بعثت ِمبارکہ کے ساتویں سال شروع ہوا تھا تین سال بعد ( ١٠ بعثت مبارکہ میں ) ختم ہوا ، چند ماہ بعد رمضان کا مہینہ آیااس مہینہ میں چند روز کے فرق سے خواجہ ابوطالب اور سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوگئی ! ! سیّدہ خدیجہ وہ خاتون تھیں جو سب سے پہلے ایمان لائیں اور ابوطالب وہ شیخ قبیلہ تھے جو آخر تک ایمان نہیں لائے اور یہ اعلان کرتے ہوئے مرے کہ میں نے اپنے باپ دادا کا مذہب نہیں چھوڑا ! ! مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں جاں نثار تھے ! !
پناہ کی یہ دونوں دیواریں منہدم ہوگئیں تو اب دشمنوں کا راستہ صاف تھا عُقبة بن ابی مُعَیط اور ابولہب جو بدترین موذی دشمن تھے اور دونوں پڑوسی تھے ١ ان کا طریقہ یہ تھا کہ راستہ میں کاٹنے بچھوا دیتے ! دروازہ میں غلاظت کا بھرا ہوا ٹوکرا ڈلوادیتے تھے ! ان کے چھوٹے ان سے بھی آگے تھے وہ کاشانۂ نبوی میں گھس کر برتنوں کو خراب کرتے ! پکتی ہوئی ہنڈیا کو اَوندھی کردیتے یا اس میں پلیدی ڈال دیتے تھے ٢ خدا جانے کتنی مراتبہ ایسا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے تشریف لائے سر مبارک اور کپڑے گردوغبار اور پلیدی سے آلودہ ! صاحبزادیاں یہ حالت دیکھ کر دلگیر ہورہی ہیں کپڑے دھو رہی ہیں ، سرمبارک صاف کر رہی ہیں زبان سے بد دُعا دیتی ہیں تو ارشاد ہوتا ہے
لَا تَبْکِیْ یَابُنَیَّةْ فَاِنَّ اللّٰہَ مَانِعُ اَبَاکِ ٣
بیٹی دلگیر نہ ہو اللہ تمہارے باپ کا محافظ ہے
پناہ کی تلاش :
نبی کا بھروسہ خدا پر ہوتا ہے اور شروع میں جب یہ حکم نازل ہوا تھا کہ
( وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ) ( سُورۂ شعراء : ٢١٤ )
'' اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوتِ اسلام دو ''
تو ساتھ ہی حضرت حق جل مجدہ نے یہ ہدایت بھی فرمائی تھی :
١ ابن سعد ج١ ص ١٣٤ ٢ البدایة والنھایة ج ٢ ص ١٢٢ ٣ ایضًا
( وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ الَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ ) ١
''بھروسہ کر خدائے قادر ورحیم پر جو تم کو دیکھتا رہتا ہے جب تم کھڑے ہوتے ہو اور نمازیوں کے ساتھ تمہاری نشست و برخاست کو وہ دیکھتا رہتا ہے''
مگر چونکہ نبی کی زندگی کا ہر ورق اُمت کے لیے سبق ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ پر مکمل اور کامل بھروسہ کے باوجود ظاہری ذرائع اور اسباب سے دامن نہیں جھٹکتا کیونکہ اگر سلسلۂ اَسباب کو چھوڑدیا جائے تو اس عالمِ اسباب کا نظام ہی درہم برہم ہوجائے، بہرحال جب خواجہ ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کو موقع مل گیا کہ جو کچھ وہ اب تک نہیں کر سکتے تھے اس کو کر گزریں تو آپ کو بھی ایسے ذریعہ کی تلاش ہوئی جو قانونِ عرب کے بموجب آپ کے لیے پناہ بن سکے ! مگر مٹھی بھر مسلمانوں یا آلِ ہاشم کے علاوہ مکہ کا بچہ بچہ دشمن تھا اور کوئی ہمدرد بھی نہ تھا تو کس کی ہمت تھی کہ قریش کے مقابلہ میں آپ کی ڈھال بن سکے ! لہٰذا آپ نے مکہ سے باہر نظر دوڑائی ! !
طائف کا سفر :
مکہ سے تقریبًا چالیس میل کے فاصلہ پر ایک سرسبز پہاڑ ہے نہایت زرخیز وہاں بڑے بڑے باغات اب بھی ہیں اور اُس وقت بھی تھے ،مکہ کے رئیسوں کی وہاں کوٹھیاں تھیں ، قبیلۂ ثقیف کا وہاں تسلط تھا وہ عرب کا طاقتور قبیلہ مانا جاتا تھا، قریش بھی اس کا لوہا مانتے تھے اس قبیلہ سے ان کی رشتہ داریاں بھی تھیں
امتحان ِ صبر و تحمل ،رؤساء طائف اور اُن کے جواب :
تین بھائی عَبْدِ یَالِیْل، مسعُود اور حبیب یہاں کے رئیسِ اعظم اور قبیلہ ثقیف کے سردار تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ان پر پڑی کہ اگر وہ پناہ میں لے لیں تو آپ کو فریضۂ تبلیغ کی ادائیگی میں آسانی ہو ! چنانچہ آپ رمضان گزرنے کے بعد ماہِ شوال میں طائف تشریف لے گئے ٢ دس روز وہاں قیام فرمایا ٣
١ سُورۂ شعراء : ٢١٧ تا ٢١٩ ٢ یہ سفر بظاہر پیادہ ہوا کسی سواری کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ! محمد میاں
٣ ابن سعد ج ١ ص ١٤٢
عوام و خواص اور ہر ایک کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کی رُوساء اور معززین کے مکانوں پر پہنچ کر گفتگو کی ١ ان تینوں بھائیوں سے بھی ملاقات کی، اپنا مقصد واضح کیا مگر کسی ایک نے بھی انسانیت سے جواب نہیں دیا !
ایک نے کہا : اگر خدا نے تمہیں رسول بناکر بھیجا ہے تو وہ خانہ کعبہ کے کپڑے کھسوٹ رہا ہے ! ٢
دوسرے نے کہا : اللہ کو آپ کے سوا کوئی اور نہیں ملا تھا جس کو رسول بناکر بھیجتا ! !
تیسرے نے کہا : واللہ میں تم سے بات نہیں کروں گا کیونکہ جیسا تمہارا دعویٰ ہے اگر واقعی تم خدا کے رسول ہو تو رسول کی شان یہ نہیں ہے کہ اس سے بحث کی جائے اور اگر تم خدا پر جھوٹ باندھ رہے ہو تو میری شان یہ نہیں ہے کہ میں جھوٹے سے بات کروں ! ! ٣
ان لوگوں کے بھونڈے جواب سن کر آپ نے فرمایا کہ اتنی مہربانی کرو کہ میرے آنے کی خبر کسی کو نہ دو ! آپ کو خیال ہوا کہ مکہ والوں کو میرے آنے اور اِن کے جوابوں کی خبر ہوگی تو وہ اپنی حرکتوں میں اور دلیر ہوجائیں گے ! مگر اِن بدنصیبوں نے اس فرمائش کی تعمیل اس طرح کی کہ طائف کے آوارہ گردوں کو اِشارہ کردیا ، وہ آپ کے پیچھے پڑگئے اور گستاخیاں کرنے لگے ! اور جب کسی طرح ان سے جان چھڑاکر آگے بڑھے تو طائف کے لوگوں نے جو دونوں طرف صف بنائے کھڑے تھے ذاتِ اقدس پر دونوں طرف سے پتھر برسانے شروع کردیے ! سنگ باری سے پنڈلیاں مجروح ہوگئیں ! گھٹنے چور ہوگئے ! بدن مبارک لہولہان ہوگیا ! ! !
ایک جان نثار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ساتھ تھے وہ کبھی آگے کبھی پیچھے بچانے کی کوشش کر رہے تھے مگر تنہا کیا کر سکتے تھے ! پتھروں سے ان کا سر بھی پھٹ گیا ! ٤ بالآخر کسی طرح آبادی سے باہر نکلے تو بے ہوش ہوکر گر پڑے !
زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اُٹھایا قریب ہی کچھ پانی تھا وہاں لے گئے تاکہ خون کے دھبے دھو دیں ! نعلِ مبارک اُتارنے چاہے تو خون سے اس طرح جم گئے تھے کہ اُتارنا مشکل پڑا ! طبعیت سنبھلی
١ ابن سعد ج ١ ص ١٤٢ ٢ اس کی عزت پامال کر رہا ہے ٣ البدایة و النہایة ج ٣ ص ١٣٥
٤ طبقات ابن سعد ج١ ص ١٤٢
تو قریب کے ایک باغ میں تشریف لے گئے ایک درخت کے سایہ میں تشریف فرماہوئے اور اپنے معبود کی بارگاہ میں مشغولِ دُعا ہوگئے ! ! ١
بارگاہِ اَحد میں عجزواِنکسار :
اہلِ طائف کی وحشیانہ حرکتوں سے مجروح ومضروب ''محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) انگور کی ٹٹی ٢ کے سایہ میں نڈھال بیٹھے ہیں ، دل میں درد ہے، زخموں میں ٹیس مگر پیشانی بارگاہِ رب العزت میں جھکی ہوئی ہے اور زبان مبارک مصروفِ دعا ہے ! ! ٣ (ترجمہ یہ ہے) :
''میرے اللہ میں تجھ ہی سے اپنی بے بسی کا شکوہ کرتا ہوں میں لوگوں میں ذلیل ہورہا ہوں اس کا شکوہ تجھ ہی سے کرتا ہوں اے سارے مہربانوں میں سب سے زیادہ مہربان ! ! !
اُن کا رب (نگران و مددگار) تو ہی ہے جو دنیا میں کمزور سمجھے جاتے ہیں جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا جن کے پاس وسیلے اور ذریعے نہیں ہوتے اور ہاں میرا رب تو ہی ہے ، اے میرے پروردگار تو مجھے کن کے حوالے کر رہا ہے ؟ ان کے جو مجھ سے دُور ہیں ! جو مجھ سے بات بھی کرتے ہیں تو منہ بگاڑ کر یا اُن کے جو میرے دشمن ہیں ، کیا تو نے میرے معاملہ کا مالک اِن کو بنادیا ہے ! ! ؟
اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے، خداوندا اگرمجھ پر تیرا عتاب نہیں ہے تو مجھے کسی بات کی پروا نہیں ہے ! خداوندا تیری عافیت کا دامن بہت وسیع ہے میری سمائی تیری عافیت کی گود ہی میں ہے !
٢ البدایہ والنہایہ ج٣ ص ١٣٦ ٢ بانس یا سرکنڈوں کا بنا ہوا چھپر جو دروازوں یا کھڑکیوں پر لگاتے ہیں یا جن پر بیلیں چڑھاتے ہیں ، چھپنے کی جگہ ، آڑ لینے کی جگہ ، آڑ ، پردہ ، اوٹ ، حجاب
٣ غور کیجیے کیا ایسا شخص کاذب یا ساحر یا شاعر ہوسکتا ہے ؟ (معاذ اللہ)
تیرے چہرہ کا وہ نور جس سے اندھیریاں روشنی بن جاتی ہیں ! جس کے ادنیٰ جلوے سے دنیا اور آخرت کے بگڑے ہوئے کام سنور جاتے ہیں ! میں اُسی نور کی پناہ لیتا ہوں ! میں پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ مجھ پر تیرا غضب پڑے یا عتاب نازل ہو ! تجھ ہی کو منانا ہے اور اُس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہو ! !
اے اللہ مجھ میں نہ طاقت ہے نہ زور ہے، جو کچھ طاقت ہے تیرا ہی صدقہ ہے جو کچھ قوت ہے وہ تیری ہی عطا ہے ،میری کوئی تدبیر کار گر نہیں ، کار ساز توہی ہے، بگڑی کو بنانے والا تو ہی ہے'' ! ! ١
یہاں سے اُٹھے، دل غمگین تھا ، حسرت و افسوس کے دھوئیں سے دم گھٹ رہا تھا ، سرجھکائے ہوئے تشریف لے جارہے تھے کچھ دھیان پلٹا تو دیکھا پہاڑی سامنے ہے جس کو قَرْنُ الثَّعَالِبْ یا قَرْنُ الْمَنَازِلْ کہتے ہیں آپ یہاں ٹھٹکے ! اُوپر نظر اُٹھی تو دیکھا ایک بادل آپ پر چھایا ہوا ہے ! بادل پر نظر ڈالی تو دیکھا حضرت جبرئیل امین جلوہ افروز ہیں اور فرما رہے ہیں :
''اللہ تعالیٰ نے سن لیا، دیکھ لیا، تم نے جو کچھ کہا،جو لوگوں نے جواب دیا، جس طرح تم کو واپس کیا اور جو سلوک تمہارے ساتھ کیا وہ بھی دیکھ لیا !
اب یہ پہاڑوں کے فرشتے (مَلَکُ الْجِبَال) موجود ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بھیجا ہے آپ حکم کیجیے ، یہ تعمیل کریں گے'' پھرمَلَکُ الْجِبَال سامنے آیا سلام عرض کیا پھر کہا
''یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہاری قوم کی تمام باتیں خدانے سنیں ، دیکھیں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے آپ جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا ! آپ حکم دیں مکہ کے دونوں طرف جو پہاڑ ہیں اُن کو ملاکر اِن تمام گستاخ بے ادب لوگوں کو پیس ڈالوں ''
ایک آزمائش وہ تھی کہ اہلِ طائف ہر طرف سے پتھر پر سارہے تھے ! دوسری آزمائش یہ ہے کہ جبرئیل امین اور مَلَکُ الْجِبَال ان سب کو پیس ڈالنے کی فرمائش کے منتظر ہیں ! وہ امتحان تھا صبروضبط ، تحمل اور استقلال کا !
١ البدایة والنہایة ج٣ ص ١٣٦
امتحان :
یہ امتحان ہے وسعت ِ ظرف، فراخی حوصلہ اور دعوی رحم و کرم کا جس خدا نے آپ کو اِس امتحان میں ثابت قدم رکھااُس نے آپ کو اِس امتحان میں بھی کامیاب فرمایا !
فرشتے کی درخواست سن کر دل مبارک بیتاب ہوگیا یہ خدا کی مخلوق جونبی کی کھیتی ہے برباد کردی جائے ؟
آپ نے فرشتوں کو جواب دیا :
اَرْجُوْا اَنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ اَصْلَابِھِمْ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا یُشْرِکُ بِہ شَیْئًا ١
''اگر یہ بدنصیب راہِ راست پر نہ آئیں تو اِن کی نسل سے میں نااُمید نہیں ہوں مجھے توقع ہے کہ اِن کی نسل میں وہ ہوں گے جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور شرک سے باز رہیں گے'' ٢
باغ کے مالک اور اُن کا عیسائی غلام :
یہ باغ عُتْبَة ٣ اور شَیْبَة بْن رَبِیْعَة کا تھا جو مکہ کے مشہور رئیس تھے، یہ دونوں بھائی باغ میں موجود تھے انہیں غیرت آئی کہ اِن کے شہر کے ایک شخص کے ساتھ طائف والوں نے یہ سلوک کیا ! مگر یہ ہمت پھر بھی نہیں ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر بات کرتے ! انگوروں کے خوشے تھالی میں رکھ کر غلام کو دیے کہ وہ اِن مظلوم مہمانوں کے پاس لے جائے جو سایہ میں بیٹھے ہوئے ہیں ! غلام کا نام
١ صحیح البخاری ص ٤٥٨ و صحیح مسلم ج ٢ ص ١٠٩
٢ حضرت نوح علیہ السلام کو اِس کی توقع نہیں رہی تھی آپ نے بارگاہِ رب العزت میں یہ عرض کیا تھا
( اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَایَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ) (سُورۂ نوح : ٢٧ ) ترجمہ : ''اگر ان کو مہلت رہی تو یہ بندگانِ خدا کو گمراہ ہی کریں گے اور صرف ان ہی کو جنم دیں گے جو بدکار اور بدترین کافر ہوں گے''
٣ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نانا حضرت ابوسفیان کے خسر، غزوۂ بدر میں سب سے پہلے یہ دونوں بھائی اور عتبہ کا لڑکا ولید بن عتبہ ہی حضرت حمزہ حضرت علی اور حضرت ابوعبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہم کے ہاتھ سے مارے گئے تھے ! تفصیل سلسلہ غزوات میں ملاحظہ فرمائیے !
عداس تھا مذہبًا عیسائی تھا وہ آپ کے پاس انگور لے کر آیا آپ نے انگوروں کی طرف ہاتھ بڑھایا تو زبان مبارک پر آیا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ عداس الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سن کو چونکا، کہنے لگا یہاں کے آدمی تو الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہیں کہتے ١
آپ نے فرمایا : تم کہاں کے ہو ؟
عداس نے جواب دیا : میرا آبائی وطن '' نینوی'' تھا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم : وہینینوی جو میرے بھائی یونس علیہ السلام کا وطن تھا !
عداس : آپ حضرت یونس علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں ؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : میرے اور اِن کے درمیان ''نبوت '' کا رشتہ ہے وہ بھی اللہ کے نبی تھے میں بھی اُسی خدا کا بھیجا ہوا نبی ہوں ! !
عداسیہ سن کر تڑپ گیا ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پیر چومنے لگا ! !
عُتْبَة اور شَیْبَة نے دُور سے دیکھا تو کہنے لگے اس کو تو '' محمد '' نے بگاڑدیا (صلی اللہ علیہ وسلم )
جب عداس واپس پہنچا تو دونوں بھائیوں نے غلام سے پوچھا : تم یہ کیا حرکت کر رہے تھے ؟
عداس : یہ نبی ہیں ان سے بہتر کوئی آدمی نہیں انہوں نے مجھے دو باتیں بتائیں جو نبی ہی بتاسکتا ہے !
دونوں رئیس : اس کی باتوں میں نہ آؤ، اپنے مذہب پر رہو تمہارا مذہب اس کے دین سے بہت اچھا ہے ٢
مُطْعِمْ بِنْ عَدِیْ کی قدردانی :
طائف میں یہ سب کچھ ہوا مگر وہ سوال پھر بھی رہ گیا جس کے لیے آپ نے سفر اختیار کیا تھا آپ نے مکہ پہنچنے سے پہلے یکے بعد دیگرے رؤسا مکہ اَخنس بن شریق اور سُہیل بن عمرو کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ حمایت کا وعدہ کر لیں مگر دونوں نے انکار کردیا کہ وہ قریش کے حلیف ہیں ، وہ قریش کے خلاف کسی کو بھی پناہ نہیں دے سکتے !
١ ملاحظہ فرمائیے سورہ ٔفرقان کی آیت ٦٠ ( وَاِِذَا قِیْلَ لَہُمْ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ )
''جب ان مشرکین مکہ سے کہا جاتا ہے کہ سجدہ کرو رحمن کو تو وہ (انجان بن کر کہتے ہیں ) رحمن کون'' ؟
٢ البدایة و النھایة ج ٣ ص ١٣٦
پھر آپ نے اُس کے پاس پیغام بھیجا جس کے لیے یہ شرف مقدر تھا یہ رئیس ِمکہ مُطْعِمْ بِنْ عَدِیْ تھا اس نے حمایت کا وعدہ بھی کیا اور یہ فرمائش بھی کی کہ آپ اس کے یہاں تشریف لائیں ! !
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مُطْعِمکے یہاں تشریف لے گئے ، رات ان کے یہاں گزاری، صبح ہوئی تو مُطْعِم نے خود ہتھیار سجائے، اس کے چھ سات لڑکے تھے سب کو مسلح کیا ! پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر چلا حرم کعبہ میں پہنچا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ طواف کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا مُطْعِم اور بیٹے حفاظت کرتے رہے جب طواف سے فارغ ہوئے تو مُطْعِم نے اعلان کردیا کہ
'' محمد میری پناہ میں ہیں '' (صلی اللہ علیہ وسلم )
ابوسفیان مُطْعِم بِنْ عَدِیکے پاس آیا دریافت کیا : تم نے محمد کو اپنی پناہ میں لیا ہے یا ان کا مذہب قبول کر لیا ہے ؟ ؟ (صلی اللہ علیہ وسلم )
مُطْعِم نے جواب دیا : میں نے مذہب نہیں بدلا ، صرف محمد کو پناہ دی ہے ! !
ابوسفیان نے کہا : تب آپ کے اعلان کا احترام کیا جائے گا ! ١
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
١ البدایة و النھایة ج ٣ ص ١٣٧
عورتوں کے لیے پردہ کیوں ضروری ہے ؟
( حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب )
علی گڑھ یونیورسٹی میں میری تقریرتھی جب میں اسٹیج پر پہنچا تو بہت سی عورتیں ہمارے سامنے بِلا پردہ کے بیٹھی ہوئی تھیں ! میں پیچھے ہٹنے لگا ، اُنہوں نے کہا کہ آئیے ، میں نے کہا کہ پہلے پردہ ڈالو پھر آئوں گا ! خیر پردہ لٹکا دیا گیا تو میں گیا !
جب میں تقریر کرنے کے لیے بیٹھا تو عورتوں نے کہا کہ اگر ہم درمیان تقریر سوال کریں تو کیا جواب دیا جائے گا ؟
میں نے کہا کہ درمیان تقریر اجازت نہیں ہے البتہ جو سوالات ذہن میں آئیں اُن کو لکھ لو تقریر کے بعد جواب دیا جائے گا !
چنانچہ تقریر کے بعد پچاس سے ساٹھ سوالات آئے اُن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ
عورتوں کو بِلا وجہ گھروں میں مقید کیا گیا ہے اور ان کے لیے حکم یہ ہے کہ ہر وقت منہ چھپائیں رکھیں !
اس سے ایک نقصان تو یہ ہے کہ اَلْاِنْسَانُ حَرِیْص فِیْمَا مُنِعَ یعنی انسان کو جس چیز سے روکا جاتا ہے وہ اُس کا حریص ہو جاتا ہے ! !
اور دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس پردے کی وجہ سے عورتیں گھروں میں گھونٹتی ہیں ، باہر کی ہوائوں سے بھی محروم ہو گئیں اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی ! !
اور تیسری خرابی یہ ہے کہ اس پردے کی وجہ سے عورتیں تعلیم سے بھی محروم ہو گئیں ! گھروں میں رہ کر تومکمل تعلیم نہیں ہو سکتی لہٰذا اُن کو کھلے بندوں چھوڑ دینا چاہیے تا کہ اُن کی حرص ختم ہو اور تازہ ہوائوں سے فائدہ اُٹھائیں اور آزادی سے تعلیم حاصل کریں ! !
میں نے اُن سے کہا کہ پہلے الزامی جواب سن لو پھر تحقیقی جواب دوں گا ! ! !
الزامی جواب :
الزامی جواب یہ ہے کہ دُنیا میں د وہی چیز یں عام طور پر چھپانے کی رکھی گئی ہیں ! ! ایک دولت دوسری عورت ! اگر دولت کے چھپانے سے چوروں کی حرص بڑھتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ آپ لوگ دولت کو بینکوں سے نکال کر سڑکوں پر ڈال دیں تا کہ چوروں کی حرص ختم ہو جائے اور اُن کے دلوں میں خوب سیری ہو جائے ! اس طرح کرنے سے اگر آپ کی دولت محفوظ رہی تو میں فتویٰ دوں گا کہ عورتیں بھی کھلے بندوں آ جائیں ! اور اگر دولت رات ہی رات صاف ہو گئی تو میں عورتوں کو وہی حکم دوں گا جو دولت کے چھپانے کے بارے میں دیتا ہوں ! !
میں نے کہاکہ چوروں کا خطرہ تو الگ ہے مگر دولت فی نفسہ ایسی چیز نہیں ہے جو منظر عام پر لائی جائے اور سڑکوں پر پھیلا دی جائے اور یہ جتلایا جائے کہ میں لکھ پتی یا کروڑ پتی ہوں بلکہ وہ چھپانے کی چیز ہے اسی لیے اس کو چھپایا جاتا ہے ! ! !
اسی طرح عورت ہے اس کی حرمت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ مردوں سے الگ ہو کر پردے میں رہے ! جنت تو دارُالْمُتَّقِیْن ہے وہاں پر معصیت کا کوئی خطرہ نہیں ہے مگر پھر بھی مرد و عورت کا اختلاط نہیں ہو گا اسی لیے دعوتِ خصوصی میں صرف مرد ہی حضرات بلائے جائیں گے ! !
تو یہ خصوصیت خطرئہ معصیت کی وجہ سے نہیں ہو گی بلکہ عورت کی حرمت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو مردوں سے الگ رکھا جائے ! مگر شریعت نے ان کی دل شکنی نہیں کی اور کلیةً اُن کو الگ نہیں رکھا بلکہ صرف غیر محرم سے الگ رکھا ہے اسی طرح جنت میں بھی ان کی دل شکنی نہیں ہوگی کیونکہ اس دعوتِ خصوصی میں جو سب سے اہم دولت ملنے والی ہو گی وہ دیدارِ خدا وندی ہو گی ! حدیث شریف میں آتا ہے کہ حق تعالیٰ کی زیارت سے لوگوں کے چہرے منور ہو جائیں گے اور حُسن و جمال میں ہزاروں گنا اضافہ ہو گا ! جب مرد حضرات دیدار کر کے اپنی اپنی جنتوں میں واپس آئیں گے تو اُن کی عورتیں کہیں گی کہ آج تو تمہارا حسن و جمال میں ہزاروں گنا اضافہ بڑھا ہوا ہے ! ! اس کی وجہ کیا ہے ؟
وہ کہیں گے کہ آج ہم حق تعالیٰ کی زیارت کر کے آئے ہیں ! مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہارا حُسن و جمال بھی پہلے سے ہزاروں گنا بڑھا ہوا ہے ! ! اس کی وجہ کیا ہے ؟
تو وہ کہیں گی کہ حق تعالیٰ یہاں پر خود آ کر زیارت کرا کے گئے ہیں ! !
تو حق تعالیٰ مردوں کو بُلا کر زیارت کرائیں گے اور عورتوں کے پاس خود آ کر اُن کو زیارت کرائیں گے یعنی تجلیاتِ الٰہی وہاں پر پہنچیں گیں ! !
تو عورتوں کے دل میں جو وسوسہ پیدا ہوتا کہ حق تعالیٰ نے تو مردوں کو بُلا کر زیارت کرا دی مگر ہم زیارت سے محروم ہیں ؟ تو حق تعالیٰ اس وسوسے کو دُور کرنے کے لیے جنت میں خود آکر عورتوں کو زیارت کرائیں گے ! ! لہٰذا جب دونوں کا مقصد حل ہو گاتو کوئی اشکال نہیں ! !
مگر عدمِ اختلاط کی بناء معصیت کا خطرہ نہیں ہے بلکہ اس کی فطرت کو باقی رکھنے کے لیے حق تعالیٰ نے اُن کو مردوں سے الگ رکھا ہے ! چونکہ عورت کی فطرت میں حیا ہے اس لیے وہ مردوں سے طبعی طور پر منہ چھپاتی ہیں ! ! اور یہ واقعہ ہے کہ اگر عورت میں خود فحش نہ ہو تو مردوں کی مجال نہیں کہ اُن پر ہاتھ ڈال دیں ! جب کوئی مرد کسی عورت کے اندر لوچ دیکھتا ہے تب ہی اُس کی طرف مائل ہو تا ہے ! !
بہر حال جنت میں پردے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ جس طرح مردوں کے مجامع ہوں گے اسی طرح عورتوں کے مجامع بھی مردوں سے الگ ہوں گے اختلاط کی شکل نہ ہو گی ! !
تحقیقی جواب :
ان کے سوال کا تحقیقی جواب ہم نے یہ دیا کہ تم لوگ یہ کہتی ہو کہ عورتوں کو گھونٹ دیا گیا ، وہ تعلیم سے محروم ہو گئیں ! اور تازہ ہوائوں سے بھی محروم ہو گئیں ! اور اُن کی صحت خراب ہو گئی ! اور تم نے جو یہ کہا کہ اَلْاِنْسَانُ حَرِیْص فِیْمَا مُنِعَ یہ اُس وقت ہے جبکہ کلیةً عورتوں کے مردوں سے ملنے کو روک دیا جائے حالانکہ کلی طور پر نہیں روکا گیا ہے ! بلکہ اسلام نے یہ حکم دیا کہ نکاح کے ذریعہ سامنے آئو اور ملو ! بغیر نکاح کے نہ ملو ! تو اسلام نے ایک راستہ یعنی بذریعہ نکاح ملنے کا راستہ کھول دیا ! اور ایک راستہ بغیر نکاح کے بند کر دیا گیا !
پھر اُدھر مُحَرَّمَاتِ اَبَدِیَّة ١ سے بھی پردہ کا حکم نہیں دیا گیا ! البتہ مُحَلَّلَاتْ ٢ سے پردہ کروایا !
تو ایک نوع کے ملنے اور اُن کے سامنے آنے کی اجازت دے دی گئی اور ایک نوع کے ملنے اور سامنے آنے سے روک دیا لہٰذا جب اس کا بدل سامنے رکھ دیا تو اب حرص کا کوئی سوال ہی نہیں ! اگر کلی طور پر مردوں سے ملنے اور سامنے آنے سے روکا جاتا تو حرص ترقی کر سکتی تھی مگر اسلام نے حرص کا دروازہ ہی بند کر دیا ! جتنے مرد ہیں تقریباً اُتنی ہی عورتیں بھی ہیں اور مان لیجیے کہ عورتیں زائد بھی ہوں تو چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دے دی گئی لہٰذا اس کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کہ وہ مردوں سے کلی طور پر الگ تھلگ رہیں ! !
پردہ اور صحت :
رہا یہ سوال کہ پردے میں رہنے سے صحت خراب ہو جاتی ہے ! تو گھر( بھی) ایک پنجرہ ہے رات کو تو اِسی میں ہم بھی رہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آدھی زندگی اس پنجرے میں گزرتی ہے اور آدھی زندگی باہر گزرتی ہے ! مرد آٹھ بجے کام پر جاتا ہے اور چار بجے واپس آ جاتا ہے تو آدھی زندگی میں بھی کٹوتی ہو گئی تو مردوں کی عمر کا زیادہ حصہ گھر ہی کے پنجرے میں گزرتا ہے اور تھوڑا حصہ باہر گزرتا ہے ! تو گھر میں رہنے سے اگر صحت خراب ہو جایا کرتی تو پھر مردوں کی بھی صحت خراب ہونی چاہیے ! ؟ لہٰذا یہ سوال ہی غلط ہے کہ پردے میں رہنے سے صحت خراب ہو جاتی ہے ! !
عورتوں سے سوال :
پھر میں نے ان سے خود سوال کیا کہ تمہارے نزدیک عورتوں کی صحت کب سے خراب ہو گئی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ پچاس ساٹھ سال سے عورتیں بہت کمزور ہو گئی ہیں ! میں نے کہا پچاس ساٹھ سال پہلے پردے کی شدت تھی اب تو خفت ہو گئی ہے تو معلوم ہوا کہ پردہ ہی ذریعہ تھا ان کی صحت کا !
اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ اُس زمانے میں عورتوں کی صحت خراب ہونی چاہیے تھی اُس زمانے میں پردہ کی
١ وہ رشتہ دار جن کا آپس میں کبھی نکاح نہیں ہوسکتا ٢ وہ مرد و عورتیں جن کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے ۔ محمود میاں غفرلہ
شدت تھی اور اِس زمانے کی عورتوں کی صحت اچھی ہونی چاہیے کیونکہ اب پردے کی خفت ہو گئی ہے مگر اب تو اُلٹا ہی نتیجہ نکل رہا ہے ! اور معلوم ہو رہا ہے کہ پردہ ہی ذریعہ ہے صحت کا اور بے پردگی ذریعہ ہے صحت کی خرابی کا ! ! !
بیماری کی وجہ ؟
میں نے کہا کہ بیمار رہنے کی وجہ پردہ نہیں ہے بلکہ تمدن کی خرابی ہے ! غذائیں بھی خراب اور دوائیں بھی خراب ! اور ماحول بھی خراب ! ہر وقت چیزوں کو کھانا یہی صحت کی خرابی کی بناء ہے، ورنہ منہ چھپانے سے اگر صحت خراب ہوا کرتی تو سردی کے زمانے میں ہر مرد بیمار ہوا کرتا کیونکہ لحاف کے اندر سب ہی منہ چھپائے رہتے ہیں مگر منہ چھپانے سے بیمار نہیں ہوتے تو معلوم ہوا کہ منہ چھپانا صحت کی خرابی کی وجہ نہیں ہے ! ! ! ١
پردہ اور تعلیم :
رہا تیسرا سوال کہ تعلیم میں کمی ہو گی اور تعلیم کی کمی کا سبب پردہ ہے ! تو میں نے کہا کہ پرانے زمانے کی عورتیں جو پردہ نشیں تھیں اگر اُن کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرو تو اُن میں تعلیم بھی زیادہ
معلوم ہو گی ! کیونکہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین کی عورتوں میں محدثات بھی تھیں اور فقیہات بھی تھیں ، متکلّمہ اور صوفیہ بھی تھیں ، اُن کے متعلق بڑی بڑی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں آج کل کی عورتوں میں وہ چیزیں نہیں ہیں جو اُن میں تھیں ! تو کیا وہ عورتیں بے پردگی میں یہ تعلیم و تربیت پاتی تھیں ؟ ! ہرگز نہیں بلکہ وہ پردہ ہی میں رہ کر یہ تعلیم و تربیت پاتی تھیں ! !
غیر ضروری تعلیم :
رہی خاص تعلیم جو بغیر اسکول جائے ہوئے حاصل نہیں ہوتی ! میں کہتا ہوں کہ اس خاص تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے ! عورتوں کا یہ کام ہی نہیں ہے کہ وہ دفتروں میں جا کر کلرک بنیں یا ریلوے میں
١ اسی طرح مردحضرات ہسپتالوں ، دواخانوں ، لیبارٹریوں میں اور لڑاکا طیاروں میں ہواباز زیادہ وقت ماسک اور ہیلمٹ میں گزارتے ہیں ۔ محمود میاں غفر لہ
جا کر ٹکٹ ماسٹر یا گارڈ بنیں یا فوجوں میں جا کر چیف کمانڈر بنیں ! یہ عورتوں کے فرائض نہیں ہیں لہٰذا اِس کی تعلیم دینا بھی غیر ضروری ہے ! اور غیر ضروری چیز کی وجہ سے ضروری چیز کو ختم کر دینا یہ کون سی عقل مندی ہے ! !
ضروری تعلیم :
اور جو ضروری تعلیم ہے یعنی گھریلو تعلیم مثلاً مسائل کی تعلیم اور قرآن شریف کی تعلیم ، اس کے لیے بے پردگی ضروری نہیں ہے بلکہ یہ تو گھروں میں رہ کر بھی حاصل ہو جاتی ہے ! اسی واسطے ازواجِ مطہرات کے بارے میں قرآن شریف میں فرمایا گیا ( وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ ) ١
یاد کرو تم اِن حکمتوں کو گھروں میں تم کو نبوت کی تعلیم دی جاتی ہے ! اس سے معلوم ہوا کہ جو تعلیم مقصود ہے وہ گھروں میں رہ کر بھی حاصل ہو سکتی ہے ! ! اور جو تعلیم گھروں سے نکل کر باہر حاصل ہو وہ ضروری نہیں ہے ! تو غیر ضروری کی وجہ سے ضروری کیسے ترک کریں گے ؟ ؟
مطلب یہ ہے کہ پردہ کا ہونا اور مردوں سے اختلاط نہ ہونا اس کی بناء معصیت نہیں ہے بلکہ عورت کی حرمت کا یہی تقاضا ہے کہ وہ مردوں سے الگ رہے ! !
بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہے کہ آپ مردوں کو بھی وہاں جانے سے روکتے ہیں مثلاً وہاں کا ماحول اچھا نہیں ، سوسائٹی خراب ہے اس لیے وہاں پر مت جائو ! اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس اختلاط کو معصیت ہی کی وجہ سے روکا جاتا ہے بلکہ ہر دائرے کا ایک طبعی تقاضا ہوتا ہے ا س کی وجہ سے روکتے ہیں کہ تمہارے موضوع کا وہ کام نہیں ہے بلکہ جو کام تمہارے موضوع کا ہے اس میں لگو ! اسی طرح عورت کا بھی ایک تقاضا ہے کہ وہ مردوں سے الگ رہے ! ! ! ٢
١ سُورة الاحزاب : ٣٤ ٢ اسی طبعی فرق کی وجہ سے آزادی کے نام پر فحاشی اور بے حیائی کی قیادت کرنے والا امریکہ اور یورپ اپنے ممالک میں پبلک مقامات پر عورتوں اور مردوں کے بیت الخلاء الگ الگ بناتے ہیں اور وہاں کی بے لگام عورتیں اس کو پسند بھی کرتی ہیں ! ! اور یہ ممالک دستی گھڑیاں ، پرس ،چشمے، جوتے اور دیگر دسیوں چیزیں عورتوں اور مردوں کی الگ الگ بناتے ہیں ! ! محمود میاں غفرلہ
حق تعالیٰ سبحانہ نے زندگی کے دو حصے کر دئیے ہیں : ایک گھریلو زندگی اور ایک باہر کی زندگی تو باہر کی زندگی کا ذمہ دار مردوں کو بنایا ہے اور گھریلو زندگی کا عورتوں کو ذمہ دار قرار دیا ہے ! !
تو مرد کا یہ کام نہیں ہے کہ گھر میں بیٹھ کر کھانا پکائے اور بچوں کو دُودھ پلائے اور اُن کی پرورش کرے ، یہ تو عورتوں کا کام ہے !
اور مرد کا کام یہ ہے کہ باہر جائے اور کمائے اور ذریعہ معاش پیدا کرے اور عورتوں اور بچوں کے نان و نفقہ کا انتظام کرے !
اگر عورتوں کو باہر کی زندگی میں لگائو تو گھریلو زندگی کا کیا حال ہو گا ؟ اسی طرح اگر مردوں کو گھریلو زندگی میں پھانس دو تو باہر کی زندگی کا کیا حال ہو گا ؟ اگر ایسا کر دیا گیا تو جو فطری نظام بنا ہوا ہے وہ درہم برہم ہو جائے گا ! اس لیے مرد و عورت ہر ایک اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں تب ہی فطری نظام درست ہوسکتا ہے
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ مئی ٢٠٠١ ء )
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)
تربیت ِ اَولاد قسط : ٤
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اَولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ !
اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
اولاد کی اہمیت اور اُس کے فضائل :
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی ہو اور بچے جنے والی ہو کیونکہ تمہاری زیادتی سے دُوسرے اُمتوں پر فخر کروں گا کہ میری اُمت اتنی زیادہ ہے ! (ابوداود و نسائی )
فائدہ : اولاد کا ہونا بھی کتنا بڑا فائدہ ہے زندگی میں بھی کہ وہ سب سے بڑھ کر اپنے خدمت گزار اور مددگار اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد اِس کے لیے دُعا ( اورایصال ِثواب بھی کرتے ہیں ) اور اگر آگے نسل چلی تو اُس کے دینی راستہ پر چلنے والے مدتوں تک رہتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی برابر اِس کو ثواب ملتا رہتا ہے اور قیامت میں بھی (بڑا فائدہ ہے ) اسی طرح جو بچے بچپن میں مرگئے وہ اِس کو بخشوائیں گے ! جو بالغ ہو کر نیک ہوئے وہ بھی (اپنے والدین کے لیے ) سفارش کریں گے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہے جس سے دُنیا میں بھی قوت بڑھتی ہے اور قیامت میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوکر فخر فرمائیں گے ! (حیا ة المسلمین )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اَولاد سے محبت :
حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دل میں پیدا کی ہے اور یہ ایسی محبت ہے کہ جو مقدس ذاتیں محض حق تعالیٰ ہی کی محبت کے لیے مخصوص ہیں وہ بھی اس محبت سے خالی نہیں چنانچہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضراتِ حسنین سے ایسی محبت تھی کہ ایک بار آپ خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں حضراتِ حسنین بچے تھے لڑکھڑاتے ہوئے مسجد میں آگئے ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کا لڑ کھڑانا دیکھ کر نہ رہاگیا ! آپ نے درمیانِ خطبہ ہی ممبر سے اُتر کر اُن کو گود میں اُٹھالیااور پھر خطبہ جاری فرمایا ! ! اگر آج کوئی شیخ ایسا کرے تو جہلا اُس کی حرکت کو خلاف ِوقار کہتے ہیں مگر وہ زبان سنبھالیں ،کیسا وقار لیے پھرتے ہیں آج کل لوگوں نے تکبر کانام وقار اور خودداری رکھ لیاہے ! !
اور وفات کے واقعات میں یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے وصال کے وقت رنج وغم کا اظہار فرمایا ! آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان سے یہ بھی فرمایا کہ اے ابراہیم ہم کو تمہاری جدائی کا واقعی صدمہ ہے ! الغرض اولاد کی محبت سے ذواتِ قدسیہ بھی خالی نہیں یہ تو حق تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ہمارے اندر اولاد کی محبت پیدا کردی اور اگر یہ داعی نہ ہوتا تو ہم اُن کے حقوق ادا نہ کرسکتے ! (الفیض الحسن ملحقہ حقوق الزوجین)
اولاد کی محبت کیوں پیدا کی گئی ؟
بچے جو گوہ کا ڈھیر اور موت کی پوٹ ہیں اُن کی پرورش بغیر قلبی داعیہ (اور جذبہ) کے ہوہی نہیں سکتی ! بچے تو ہروقت اپنی خدمت کراتے ہیں ، خود خدمت کے لائق نہیں اُن کی حرکتیں بھی مجنونانہ (پاگل پن کی سی ہوتیں ) ہیں مگر حق تعالیٰ نے ایسی محبت پیداکردی ہے کہ اُن کی مجنونانہ حرکت بھی بھلی معلوم ہوتی ہیں حتی کہ بعض دفعہ وہ کبھی خلافِ تہذیب کام کرتے ہیں جس پر سزا دیناعقلاً ضروری ہوتا ہے مگر بچوں کے متعلق عقلمندوں میں اختلاف ہوجا تاہے، ایک کہتا ہے سزا دی جائے دُوسرا کہتا ہے نہیں بچے ہیں ان سے ایسی غلطی ہو ہی جاتی ہے معاف کردینا چاہیے ! غرض اپنے بچوں کو تو کیوں نہ چاہیں ، دوسرے کے بچوں کو دیکھ کر پیار آتا ہے اور اُن کی حرکتیں اچھی معلوم ہوتی ہیں ! اگر یہ محبت کا تقاضا اور داعیہ نہ ہوتو راتوں کو جاگنا اور گوہ موت کرانا دُشوار ہوجاتا ! کسی غیر کی بچے کی خدمت کر کے دیکھو تو حقیقت معلوم ہوجائے گی ! گو خدا کا خوف کرکے تم روزانہ اُس کی خدمت کردو مگر دل میں ناگواری ضرور ہوگی، غصہ بھی آئے گا ،سوتیلی اولاد کی خدمت اس لیے گراں ہوتی ہے کہ اس کے دل میں اُن کی محبت نہیں ہوتی ! چونکہ اولاد کی خدمت بغیر محبت کے دُشوار تھی اس لیے حق تعالیٰ نے اولاد کی محبت والدین کے دل میں ایسی پیدا کردی کہ اب وہ اُس کی خدمت کرنے پر مجبور ہیں ! !
اَولاد کی تمنا :
(لوگوں کو) اولاد کی تمنا اس لیے ہوتی ہے کہ نام باقی رہے گا (خاندان اور سلسلہ چلے گا ) ! تو نام کی حقیقت سن لیجیے کہ ایک مجمع میں جاکر ذرا لوگوں سے پوچھئے تو بہت سے لوگوں کو پردادا کانام معلوم نہ ہوگا ! جب خود اولاد ہی کو اپنے پردادا کانام معلوم نہیں تو دوسروں کو خاک معلوم ہوگا ! ؟ تو بتلائیے اولاد والوں کا بھی نام کہاں رہا !
صاحبو ! نام تو خدا کی فرمانبرداری سے چلتاہے ! خدا کی فرمانبرداری کرو اُ س سے نام چلے گا ! اولاد سے نام نہیں چلا کرتا بلکہ اولاد نالائق ہوئی تو اُلٹی بدنامی ہوتی ہے اور نام چلا بھی تو نام چلنا ہی کیا چیز ہے جس کی تمنا کی جائے ! یوں کسی کو طبعی طور پر اولاد کی تمنا بھی ہوتو میں اُس کو برا نہیں کہتا کیونکہ اولاد کی محبت انسان میں طبعی (فطری ) ہے چنانچہ بعض لوگ جنت میں بھی اولاد کی تمنا کریں گے حالانکہ وہاں نام کا چلنا بھی مقصود نہ ہوگا ! کیونکہ جنت کے رہنے والے کبھی ختم نہ ہوں گے بلکہ وہاں اس تمنا کا منشاء (سبب )محض طبعی تقا ضا ہوگا، تو میں اس سے منع نہیں کرتا !
مقصود صرف یہ ہے کہ اِس طبعی تقاضے کی وجہ سے عورت کی خطاء نکال لینا کہ تیرے اولاد نہیں ہوتی یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں ،بڑی غلطی ہے ! اور اس قسم کی غیر اِختیاری جرائم نکال کر اُن سے خفا ہونا اور اُن پر زیادتی کرنا ممنوع (اور ناجائز) حرام ہے ! اس میں اُن بیچاریوں کی کیا خطاء ہے جو ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے ! (حقوق البیت ص ٣٩)
یہ تو نہایت سخت غلطی ہے مثلاً بعض لوگ بیوی سے کہتے ہیں کہ کمبخت تیرے کبھی اولاد ہی نہیں ہوتی تو اِس میں وہ بیچاری کیا کرے ؟ اولاد کا ہونا کسی کے اختیار میں تھوڑی ہے بعض دفعہ بادشاہوں کے اولاد نہیں ہوتی حالانکہ وہ ہر قسم کی مقوی غذائیں اور (حمل والی ) دوائیں بھی استعمال کرتے ہیں مگر پھر بھی خاک اثر نہیں ہوتا ! یہ تو محض اللہ تعالیٰ کے قبضہ واِختیار کی بات ہے اس میں عورتوں کا کیا قصورہے !
بعض مردوں کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ بیوی سے اس بات پر خفا ہوتے ہیں کہ کم بخت تیرے تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوتی ہیں ! سو اوّل تو اس میں اُس کی کیا خطاء ہے ، اطبائ(ڈاکٹروں ) سے پوچھو تو وہ شاید اس میں آپ ہی کا قصور بتلائیں ،دُوسرے یہ ناگواری کی بات بھی نہیں ! ! !
اگر اَولاد ذخیرہ ٔ آخرت ہوتو بہت بڑی نعمت ہے :
اگر اَولاد دین میں مدد دے تو سبحان اللہ (اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ) ایک بزرگ تھے وہ نکاح نہ کرتے تھے ایک مرتبہ سورہے تھے کہ اچانک چونک پڑے اور کہنے لگے جلدی کوئی لڑکی لاؤ (نکاح کرناہے ) ایک مخلص مرید حاضر تھے اُن کی ایک لڑکی کنواری تھی لاکر فوراً حاضر کی اُسی وقت نکاح ہوا ! اللہ تعالیٰ نے ایک بچہ دیا اور وہ مرگیا ! بیوی سے کہا کہ جو میرا مطلب تھا وہ پورا ہو گیا اب تجھ کو اختیار ہے اگر تجھ کو دُنیا کی خواہش ہے تو میں تجھ کو آزاد کردُوں کسی سے نکاح کرلے اور اگر اللہ کی یاد میں اپنی عمر ختم کرنا ہو تو یہاں رہو ! چونکہ وہ بیوی اُن کے پاس رہ چکی تھی اور صحبت کا اَثر اُس کے اندر آگیا تھا اُس نے کہا کہ میں تو اب کہیں نہیں جاؤں گی چنانچہ دونوں میاں بیوی اللہ کی یاد میں رہے ! ! اُن کے بعض خاص لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا بات ہے (اتنی جلدی شادی کرنے کی کیا وجہ تھی حالانکہ پہلے آپ انکار فر ماتے تھے ) فرمایا بات یہ تھی کہ میں سورہا تھا میں نے دیکھا کہ میدانِ محشر قائم ہے اور پلِ صراط پر لوگ گزر رہے ہیں ! ایک شخص کو دیکھا کہ اُس سے چلا نہیں جاتا لڑ کھڑاتا ہوا چل رہا ہے اُسی وقت ایک بچہ آیا اور ہاتھ پکڑا آنًا فانًا (یعنی فورًا) اُس کو لے گیا ! ! میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے ؟ ارشاد ہوا کہ اس کا بچہ ہے جو بچپن میں مرگیا تھا یہاں اس کا رہبر ہوگیا ! اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی مجھے خیال آیا کہ میں اس فضیلت سے محروم نہ رہوں شاید بچہ ہی میری نجات کا ذریعہ ہوجائے اس لیے میں نے نکاح کیا تھا اور میرا مقصود حاصل ہوگیا ! ١
(جاری ہے)
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
١ الدنیا ملحقہ دُنیا وآخرت ص ٩٨
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب قسط : ٣،آخری
( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ )
حضرت سیّدہ فاطمہ کے گھر میں سیّد ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا جانا :
حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم باخدا بھی تھے اور باخلق بھی ! یعنی اللہ جل شانہ' سے تعلق و محبت اوراللہ تعالیٰ کے ذکر میں بھی پوری طرح مشغول رہتے تھے اور مخلوق کے حقوق کی ادائیگی اور میل جول میں بھی کوتاہی نہ فرماتے تھے ! آپ چونکہ معلمِ انسانیت تھے اس لیے آپ کی زندگی ساری اُمت کے لیے نمونہ ہے۔ آپ کی زندگی سے سبق ملتا ہے کہ نہ تو اِنسان کو سراسر کنبہ و خاندان کی محبت میں پھنس کر خداوند ِ عالَم سے غافل ہوجانا چاہیے اور نہ بزرگی کے دھوکہ میں کنبہ و خاندان سے کٹ کر اَذکار و اَورَاد کو مشغلۂ زندگی بنالینا چاہیے ! اعلیٰ اور اَکمل مقام یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا پورا اتباع کرے اور ہر شعبۂ زندگی میں آپ کی اِقتداء کو ملحوظ رکھے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح بھی کیے اور آپ کی اولاد بھی ہوئی پھر صاحبزادیوں کی شادیاں بھی کیں اور اُن کی شادیاں کردینے کے بعد بھی اُن کی خیر خبر رکھی ! حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح جب آپ نے حضرت سیّدنا علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ سے کردیا تو آپ اُس روز رات کو اُن کے پاس تشریف لے گئے اور اکثر جاتے رہتے تھے اور اُن کے حالات کی خیر خبر رکھتے تھے اور اُن کے بچوں کو پیار کرتے تھے ! ایک مرتبہ حضرت سیّدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے درمیان آپس میں کچھ رنجش ہوگئی تو حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے گھر تشریف لے جاکر صلح کرادی ! اس کے بعد باہر تشریف لائے اور حاضرین میں سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ جب اِن کے گھر داخل ہوئے تو چہرے پر کوئی خاص خوشی کا اَثر نہ تھا اور اب جبکہ باہر تشریف لائے ہیں تو چہرہ پر خوشی کے آثار ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں کیوں خوش نہ ہوں جبکہ میں نے اپنے دو پیاروں کے درمیان صلح کرادی ! ( اصابہ)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، وہاں حضرت علی کو موجود نہ پایا ! صاحبزادی سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟ عرض کیا کہ ہماری آپس میں کچھ رنجش ہوگئی تھی لہٰذا وہ غصہ ہوکر چلے گئے اور میرے پاس قیلولہ نہ کیا ۔ ایک صاحب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھنا وہ کہاں ہیں ؟ اُنہوں نے جاکر تلاش کیا اور واپس آ کر عرض کیا کہ وہ مسجد میں سورہے ہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے ،دیکھا کہ وہ لیٹے ہوئے (سورہے) ہیں اور اُن کے پہلو سے چادر گرگئی ہے جس کی وجہ سے اُن کے جسم کو مٹی لگ گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مٹی پونچھنے لگے اور فرمایا قُمْ اَبَا تُرَابٍ قُمْ اَبَا تُرَابٍ اَو مٹی والے اُٹھ اَو مٹی والے اُٹھ ! (بخاری شریف)
صاحب ِ فتح الباری نے اس حدیث سے کئی مسئلے ثابت کیے ہیں مثلاً
(١) جو غصہ میں ہو اُس سے ایسا مذاق کرنا جس سے اُس کو مانوس کیا جاسکے درُست ہے !
(٢) اپنے داماد کی دلداری اور ناراضگی دُور کرنا بہتر عمل ہے !
(٣) باپ اپنی بیٹی کے گھر میں بغیر داماد کی اجازت کے داخل ہوسکتا ہے جبکہ یہ معلوم ہو کہ اُس کو گرانی نہ ہوگی ! ( فتح الباری )
ایک مرتبہ حضرت سیّد ِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تشریف لے گئے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ تھے وہاں پہنچ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوال فرمانے لگے کہ کیا یہاں چھوٹوا ہے ؟ کیا یہاں چھوٹوا ہے ؟ اتنے میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپہنچے حتی کہ دونوں ایک دوسرے سے گلے لپٹ گئے ! اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کی کہ اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اِس سے محبت کرے اُس سے بھی محبت فرما
( یہ اُس وقت کی بات ہے جبکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ چھوٹے سے تھے ) ! (مشکٰوة شریف)
حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہم روایت فرماتے ہیں کہ (ہمارے بچپن کے زمانہ میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو اپنی ران پر بٹھاتے تھے اور دُوسری ران پر حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بٹھالیتے تھے اور دونوں کو چمٹالیتے تھے اور یوں دُعاء فرماتے تھے اَللّٰہُمَّ ارْحَمْہُمَا فَاِنِّیْ اَرْحَمُہُمَا ( بخاری شریف) ''اے اللہ اِن پر رحم فرما کیونکہ میں اِن پر رحم کرتا ہوں '' !
بعض مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے کہ میرے بیٹوں (یعنی حضراتِ حسنین) کو لائو ! پھر آپ اُن کو سونگھتے اور (سینہ سے) چمٹاتے تھے ! ( ترمذی شریف)
حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ رات کو میں ایک ضرورت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا (باہر سے اپنے آنے کی اطلاع دی) آپ چادر لپیٹے ہوئے باہر نکلے چادر میں کچھ محسوس ہوتا تھا، میں نے جب اپنی ضرورت محسوس کرلی تو عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کیا ہے جسے آپ لپیٹے ہوئے ہیں ؟ آپ نے چادر کھول دی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے ایک کولہے پر حسن اور دُوسرے کولہے پر حسین ہیں ! آپ نے اُس وقت فرمایا کہ یہ میری اَولاد ہیں اور میری صاحبزادی کی اَولاد ہیں اور یہ بھی دُعا دی
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحِبُّہُمَا فَاَحِبَّہُمَا وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہُمَا (مشکٰوة المصابیح : )
''اے اللہ ! میں اِن سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اِن سے محبت فرما اور جو اِن سے محبت کرے اُن سے بھی محبت فرما''
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں باہر تشریف لائے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے مبارک دَوش پر بیٹھے ہوئے تھے !
خانگی اَحوال :
حضرت علی کوئی سرمایہ دار آدمی نہ تھے، ان کے یہاں نہ اَسبابِ عیش فراہم تھے نہ خورد و نوش کی فراوانی تھی، گھر میں نہ سامان بہت تھا نہ گھر عمدہ تھا نہ کوئی خدمت گار تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حال (فقر و فاقہ کا) اپنے لیے پسند کیا وہی داماد اور بیٹی کے لیے بھی پسند فرمایا تھا ایک مرتبہ حضرت سیّدہ فاطمہ حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ میرے اور علی کے پاس صرف ایک مینڈھے کی کھال ہے جس پر ہم رات کو سوتے ہیں اور دن کو اُس پر اُونٹ کو چارہ کھلاتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میری بیٹی صبر کر ! کیونکہ موسٰی علیہ السلام نے دس برس تک اپنی بیوی کے ساتھ قیام کیا اور دونوں کے پاس صرف ایک عَبا تھی (اِسی کو اَوڑھتے اور اِسی کو بچھاتے تھے)۔ (شرح مواہب لدنیہ)
ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیّدہ فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اُس وقت حضرت حسن اور حضرت حسین موجود نہ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میرے بیٹے کہاں ہیں ؟ عرض کیا آج اِس حال میں صبح ہوئی کہ ہمارے گھر (کھانے کو تو کیا) چکھنے کو (بھی) کچھ نہ تھا، لہٰذا (ان کے والد جناب) علی اِن کو یہ کہہ کر (باہر) لے گئے ہیں کہ گھر میں تم کو روکر پریشان کریں گے، فلاں یہودی کے پاس گئے ہیں (تاکہ کچھ محنت مزدوری کرکے لاویں ) یہ سُن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرف توجہ فرمائی اور اُن کو تلاش فرمالیا، وہاں دیکھا کہ دونوں بچے ایک کیاری میں کھیل رہے ہیں اور اُن کے سامنے کچھ کھجوریں پڑی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیسے فرمایا کیا میرے اِن بچوں کو گھر نہیں لے چلتے ہو ؟ گرمی تیز ہونے سے پہلے پہلے لے چلو۔ اُنہوں نے عرض کیا اِس حال میں آج صبح ہوئی ہے کہ ہمارے گھر میں کچھ بھی (کھانے بلکہ چکھنے کو) نہ تھا (اس لیے ان کو لے آیا ہوں اب میرے اور بچوں کے پیٹ میں تو کچھ پہنچ گیا مگر فاطمہ کے لیے کچھ کھجوریں اور جمع کرنا ہے) تھوڑی سی دیر جناب اور تشریف رکھیں تو میں فاطمہ کے لیے (بھی) چند کھجوریں جمع کرلوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ٹھہرگئے حتی کہ کچھ کھجوریں حضرت سیّدہ فاطمہ کے لیے جمع ہوگئیں ان کھجوروں کو ایک چھوٹے سے کپڑے میں باندھ کر واپس ہوئے۔ ایک بچہ کو حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور دُوسرے بچہ کو حضرت علی مرتضٰی سیّدالسادات نے گود میں لیا اور اِسی طرح گھر پہنچے ١ واقعہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیّدنا علی مرتضٰی نے یہودی کے باغ میں مزدوری کرکے اپنے لیے اور بچوں کے لیے اور اپنی اہلیہ محترمہ کے لیے کھجوریں حاصل کی تھیں ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بھی فقر و فاقہ رہتا تھا اور آپ کی صاحبزادی کے گھر میں بھی یہی حال تھا ! جب کچھ میسر آجاتا تو ایک گھر دُوسرے گھر کی خبر لیتا تھا۔ حضرت سیّدنا علی فرماتے تھے کہ
١ الترغیب والترہیب ج ٥
ایک مرتبہ میرے گھر میں کچھ نہ تھا جسے میں کھالیتا اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ ہوتا تو مجھے پہنچ جاتا ! لہٰذا میں مدینہ سے باہر ایک جانب کو نکل گیا اور ایک یہودی کے باغ کی دیوار کے باہر سے جو شق ہوگئی تھی اندر کو جھانکا، باغ والے یہودی نے کہا کہ اے اَعرابی کیا چاہتا ہے ؟ میرے باغ کو پانی دے دے اگر ہر ڈول پر ایک کھجور لینا منظور ہو ؟ میں نے کہا اچھی بات ہے دروازہ کھول ! چنانچہ اُس نے دروازہ کھول دیا اور میں نے پانی کھینچنا شروع کردیا، ہر ڈول پروہ مجھے ایک کھجور دیتا جاتا تھا، جب اتنی کھجوریں ہوگئیں کہ میری تھیلی بھرگئی تو میں نے کہا بس مجھے یہ کافی ہیں ، ان کو کھاکر اور پانی پی کر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپ اُس وقت مسجد میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف رکھتے تھے۔ ( الترغیب والترہیب )
حضرت اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدہ فاطمہ نے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جَو کی روٹی کا ایک ٹکڑا دیا، آپ نے فرمایا اے فاطمہ! تین روز سے میں نے کچھ کھایا نہیں ، اتنا عرصہ گزر جانے پر یہ مجھے ملا ہے۔ ( الترغیب والترہیب )
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صدیق ِ اکبر اور فاروقِ اعظم کے ساتھ حضرت ابواَیوب انصاری کے مکان پر پہنچے، اُنہوں نے آپ کی دعوت کی اور ایک بکری کا بچہ ذبح کرکے سالن پکایا اور روٹی تیار کی ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روٹی میں تھوڑا سا گوشت رکھ کر حضرت ابواَیوب کو دیا کہ یہ فاطمہ کو پہنچادو اُس کو بھی کئی روز سے کچھ نہیں مل سکا چنانچہ وہ اُسی وقت پہنچا آئے !
فضائل و مناقب :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکی دلداری کا بہت زیادہ خیال فرماتے تھے ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا :
فَاطِمَةُ بِضْعَة مِّنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْ وَفِیْ رِوَایَةٍ یُرِیْبُنِیْ مَا اَرَابَھَا وَیُؤْذِیْنِیْ مَا اٰذَاھَا۔ ١
١ مشکٰوة المصابیح کتاب المناقب رقم الحدیث ٦١٣٩
''فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا ! دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اِس کے رنج سے مجھے رنج ہوتا ہے اور اِس کی ایذاء سے مجھے ایذاء ہوتی ہے''
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت اور سیرت و صورت اور گفتگو سے اِس قدر مشابہت کسی کی عادت اور سیرت و صورت اور گفتگو کی نہیں دیکھی جتنی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تھی ! جب وہ آپ کے پاس آتی تھیں تو آپ کھڑے ہوجاتے تھے اور اُن کا ہاتھ چومتے تھے اور اپنے پاس بٹھاتے تھے اور جب آپ اُن کے پاس جاتے تھے تو وہ بھی کھڑی ہوجاتی تھیں اور آپ کا ہاتھ چومتی تھیں اور آپ کو اِحترام سے بٹھاتی تھیں ! ( مشکٰوة شریف)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت سےّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مل کر روانہ ہوتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے حضرت سیّدہ فاطمہکے پاس تشریف لے جاتے تھے۔ ( مشکٰوة شریف )
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ (جس پر تم کو غصہ آئے) اللہ کو (بھی اُس پر) تمہارے غصہ کی وجہ سے غصہ آتا ہے ! اور (تم جس سے راضی ہو) اللہ تعالیٰ (اُس سے) تمہاری رضا کی وجہ سے راضی ہوتے ہیں ! ( اُسد الغابہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا کہ قیامت کے روز پردے کے پیچھے سے ایک مُنادی اعلان کرے گا کہ اے لوگو ! اپنی آنکھوں کو بند کرلو، فاطمہ بنت ِ سیّدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم گزر رہی ہیں ! ( اُسد الغابہ)
ایک مرتبہ سیّد ِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن، حسین اور اُن کے والدین (رضی اللہ عنہم ) کے بارے میں فرمایا کہ جن سے اِن کی لڑائی ہے میری بھی لڑائی ہے اور جن سے اِن کی صلح ہے میری بھی صلح ہے ! (مشکٰوة شریف)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے اُس وقت فرمایا کہ بیشک یہ فرشتہ ہے جو زمین پر آج کی اِس رات سے پہلے کبھی نہیں نازل ہوا، اپنے رب سے اجازت لے کر مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کے لیے آیا ہے کہ یقینًا فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہے اور یقینًا حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ! (مشکٰوة شریف)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم سب بیویاں آپ کے پاس تھیں کہ اِس اثناء میں سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آگئیں ، اُن کی رفتار بس ہوبہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار تھی ! جب اُن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تو آپ نے فرمایا : آئو بیٹی مرحبا ! پھر اُن کو آپ نے بٹھالیا ! اس کے بعد چپکے سے اُن کے کان میں کچھ فرمایا جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ روئیں ! جب آپ نے اُن کو بہت رنجیدہ دیکھا تو دوبارہ آہستہ سے (اُن کے کان میں ) کچھ فرمایا وہ اچانک ہنسنے لگیں ! جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو میں نے دریافت کیا کہ بتائو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے آہستہ سے کیا فرمایا تھا ؟ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو میں کیوں کھولوں ؟ (سب سے فرمانے کی بات ہوتی تو آپ آہستہ سے کیوں فرماتے ؟)
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو میں نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاسے کہا کہ میرا جو تم پر حق ہے اُس کے زور میں پوچھتی ہوں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا فرمایا تھا ؟ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ہاں اب بتاسکتی ہوں ، پہلی مرتبہ جو آپ نے آہستہ سے فرمایا تو خبردی تھی کہ جبرئیل ہر سال مجھ سے ایک مرتبہ قرآن مجید کا دَور کرتے تھے اور اِس مرتبہ اُنہوں نے دو مرتبہ دَور کیا ہے اور میں (اس لیے) سمجھتا ہوں کہ دُنیا سے میرے کوچ کا وقت آگیا ہے ! لہٰذا تم اللہ سے ڈرنا اور صبر کرنا کیونکہ میں تمہارے لیے پہلے سے جانے والوں میں بہت بہتر ہوں ،یہ سن کر میں رونے لگی ! جب آپ نے میرا رنج دیکھا تو دوبارہ آہستہ سے کچھ فرمایا اور اُس وقت یہ فرمایا تھا کہ کیا تم اِس پر راضی نہیں ہو کہ جنت کی عورتوں کی سردار ہوگی یا یہ فرمایا کہ مؤمن عورتوں میں سب کی سردار ہو !
دوسری روایت میں ہے کہ پہلی مرتبہ آپ نے آہستہ سے فرمایا کہ میں اِسی مرض میں وفات پاجائوں گا لہٰذا میں رونے لگی ! پھر دوبارہ آہستہ سے فرمایا کہ آپ کے گھروالوں میں سب سے پہلے میں ہی آپ سے جاکر ملوں گی ،یہ سن کر مجھے ہنسی آگئی ! ( مشکٰوة شریف ص ٥٦٨)
دینی تربیت :
حضرت سرورِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جل شانہ' کی طرف سے اُمت کی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے تشریف لائے تھے۔ تربیت اور تزکیہ میں آپ کسی کا لحاظ نہیں فرماتے تھے، اپنی اَزواج و اَولاد اور عزیز واَقارب سب ہی کو اللہ تعالیٰ سے ڈراتے اور آخرت کا فکرمند بناتے تھے ! جب آیت کریمہ ( وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ )''آپ اپنے نزدیک کے کنبہ کو ڈرائیے''نازل ہوئی تو سیّد ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا اور قبیلوں اور بعض رشتہ داروں کے نام لے کر فرمایا کہ اپنے آپ کو دوزخ سے بچائو میں تمہارے کچھ کام نہیں آئوں گا۔ ( مشکٰوة شریف )
صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس موقع پر فرمایا کہ اے قریش ! اپنے نفسوں کو دوزخ سے بچالو میں اللہ کے معاملہ میں تمہارے کچھ کام نہ آئوں گا ! اور بنی عبد مناف سے بھی یہی فرمایا ! پھر فرمایا کہ اے عباس میں اللہ کے معاملے میں تمہارے کچھ کام نہ آئوں گا (اپنے کو دوزخ سے بچائو) ! اے صفیہ (جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں ) میں اللہ کے معاملے میں تمہارے کچھ کام نہیں آئوں گا (اپنے کو دوزخ سے بچائو) ! اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کی بیٹی فاطمہ میرے مال میں سے تم جو چاہو سوال کرلو میں اللہ کے معاملہ میں کچھ کا م نہیں آئوں گا(اپنے کو دوزخ سے بچائو) ! ! ! ١
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کردینے کے بعد بھی دینی تربیت کاخاص خیال رکھا ! حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ کے پاس تشریف لائے اور ہم دونوں کو نماز (تہجد) کے لیے جگایا پھر اپنے گھر میں تشریف لے گئے اور دیر تک نماز پڑھی ! ہمارے اُٹھنے ( اوروضو کرنے) کی کوئی آہٹ نہ سُنی تو دوبارہ تشریف لائے
١ یعنی خود نیک کام کرو اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف مت چلو ! اللہ تعالیٰ نے عذاب دینا چاہا تو میں نہیں چھوڑا سکوں گا ! اِس کا مطلب سفارش کی نفی نہیں ہے بلکہ عمل پر اُبھارنا مقصود ہے اور جس کی شفاعت کی جائے اُس کو بھی تو لائق ِسفارش ہونا ضروری ہے جو مؤمن نہ ہوگا اُس کی تو سفارش ہی نہ ہوگی !
اور مجھ کو جگایا اور فرمایا اُٹھو نماز پڑھومیں آنکھیں ملتا ہوا بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ خدا کی قسم جتنی نماز ہمارے مقدر میں ہے وہی تو ہم پڑھیں گے ! ہماری جانیں اللہ کے قبضے میں ہیں جب اللہ تعالیٰ ہم کو بیدار فرمانا چاہتے ہیں بیدار فرمادیتے ہیں (اور تھوڑا بہت وقت جو ملتا ہے پڑھ لیتے ہیں ) یہ سُن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے اور میرے لفظوں کو (تعجب سے) دہراتے ہوئے واپس ہوگئے اور قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی ( وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیئٍ جَدَلًا )یعنی آدمی جھگڑے میں سب سے بڑھ کر ہے ! ! ( مسند احمد )
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا کہ سیّد ِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام اور باندیاں آئی ہیں ، چونکہ اُن کو خود چکی پیسنا پڑتی تھی اس لیے اُن کے ہاتھوں میں اس کے نشان پڑگئے تھے۔ اُن نشانوں کو دکھانے اور خدمت کے لیے باندی یا غلام طلب کرنے کے لیے وہ سیّد ِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم ِسرائے میں پہنچیں آپ تشریف نہیں رکھتے تھے لہٰذا وہ اپنی معروض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے کہہ آئیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زنان خانہ میں تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے ماجرا عرض کردیا ! !
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر آپ رات کو ہمارے پاس تشریف لائے اُس وقت ہم دونوں لیٹ چکے تھے، آپ کی آمد پر ہم نے کھڑے ہونے کا اِرادہ کیا آپ نے فرمایا اپنی جگہ (لیٹے) رہو پھر آپ میرے اور فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے اور فرمایا کیا تم کو میں اِس سے بہتر نہ بتادُوں جو تم نے مجھ سے سوال کیا ہے ؟ جب تم رات کو سونے کے لیے لیٹ جائو تو ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ اَلحمد للہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہوگا ! (مشکٰوة شریف)
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ سیّد ِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس موقع پر اِن تینوں چیزوں کو (فرض) نماز کے بعد پڑھنے کو بھی فرمایا ! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب سے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل سُنا کبھی نہیں چھوڑا !
ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سوال کیا (جس کو اِبن الکواء کہتے تھے) جنگ ِ صفین کی رات میں بھی آپ نے اِس کو پڑھا۔ فرمایا اِس رات میں بھی میں نے نہیں چھوڑا (اوّل رات میں بھول گیا تھا پھر) آخر سحر میں یاد آیا تو پڑھ لیا ! ( عمل الیوم واللیة)
اسی سلسلہ میں یہ مضمون بھی روایت کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم عطا فرمانے سے بڑی سختی سے انکار فرمایا اور یوں فرمایا کہ خدا کی قسم تم کو (خادم) نہیں دُوں گا ! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم کو دے دُوں اور صفہ ١ میں رہنے والوں کے پیٹ بھوک سے پیچ کھاتے رہیں اور اُن پر خرچ کرنے کو میرے پاس کچھ بھی نہ ہو ؟ یہ غلام جو آتے ہیں ان کو فروخت کرکے صفہ والوں پر خرچ کروں گا۔ (اصابہ)
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو اپنی صاحبزادی کو ایک غلام یا باندی عنایت فرمادیتے مگر آپ نے ضرورت کو پرکھا اور آپ کی خدا داد بصیرت نے آپ کو اِسی پر آمادہ کیا کہ صفہ میں رہنے والے میری بیٹی سے زیادہ ضرورت مند ہیں ! کسی نہ کسی طرح دُکھ تکلیف سے محنت و مشقت کرتے ہوئے صاحبزادی کی زندگی تو گزررہی ہے مگر صفہ والے تو بہت ہی بدحال ہیں جن کو فاقے پر فاقے گزرجاتے ہیں اُن کی رعایت مقدم ہے ! اور صاحبزادی کو ایسا عمل بتایا جو آخرت میں بے انتہا اَجر و ثواب کا ذریعہ بنے ! دُنیا کی فنا ہونے والی تکلیف آخرت کے بے اِنتہا انعامات سے بے انتہا کم ہے اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِن کا پڑھ لینا تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے !
ابوداو'د شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا اے فاطمہ ! اللہ سے ڈر اور اپنے رب کا فریضہ اَدا کر اور اپنے شوہر کا کام انجام دے اور سوتے وقت ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ اور ٣٣ مرتبہ اَلحمد للہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کریہ گنتی میں ١٠٠ ہوگئے جو تیرے لیے
١ ''اصحاب ِ صفہ ''وہ حضرات تھے جو دین ِمتین کے لیے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تھے، نہ کاروبار کرتے تھے نہ اُن کا گھر بار تھا، بھوک و پیاس کو غذا بناکر درسگاہِ نبوی کے طالب علم بن کر رہتے تھے اور ذکر و تعلیم اُن کا مشغلہ تھا مسجد ِ نبوی سے باہر ایک صفہ (یعنی چبوترہ) سائبان ڈال کر اِن حضرات کی اقامت کے لیے بنادیا گیا تھا اِس لیے اُن کو ''اصحاب ِ صفہ ''کہا جاتا ہے۔
خادم سے بہتر ہیں ! حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اِس کے جواب میں عرض کیا کہ میں اللہ (کی تقدیر) اور اُس کے رسول (کی تجویز) سے راضی ہوں ۔ شاید اِس موقع پر اللہ سے ڈرنے کو اِس لیے فرمایا کہ خدمت گزار طلب کرنے کو اِن کے بلند مرتبہ کے خلاف سمجھا ! واللّٰہ تعالٰی اعلم
بعض بزرگوں سے سُنا ہے کہ سوتے وقت اِن چیزوں کا پڑھ لینا آخرت کے اُجور و دَرجات دلانے کے ساتھ ساتھ دن بھر کی محنت و مشقت کی تھکن کو دُور کرنے کے لیے مجرب ہے !
حضرت ثوبان روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کو تشریف لے جاتے تھے تو اپنے گھر والوں میں سب سے آخری ملاقات حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تھے !
ایک مرتبہ ایک غزوہ سے تشریف لائے اور حسب ِ عادت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جانے کے لیے اُن کے گھر پہنچے، اُنہوں نے دروازہ پر (زینت کے لیے عمدہ قسم کا) پردہ لٹکارکھا تھا اور دونوں بچوں حضرت حسن و حسین کو چاندی کے کنگن پہنا رکھے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اَندر داخل ہوئے پھر واپس ہوگئے ، حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سمجھ لیا کہ آپ اس وجہ سے اندر تشریف نہیں لائے لہٰذا (اُسی وقت) پردہ ہٹادیا اور کنگن اُتارلیے ! دونوں بچے اِن کنگنوں کو لیے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روتے ہوئے پہنچے، آپ نے اُن کے ہاتھوں سے کنگن لے لیے اور مجھ سے فرمایا کہ اے ثوبان (راویٔ حدیث) جائو فاطمہ کے لیے ایک ہار عصب کا اور دو کنگن ہاتھی دانت کے خریدکر لے آئو یہ میرے گھر والے ہیں ، میں یہ پسند نہیں کرتا ہوں کہ اپنے حصہ کی عمدہ چیزیں اس زندگی میں کھالیں (یا پہن لیں ) ! (مشکٰوة شریف )
ایک مرتبہ ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور وہ یہ کہ حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے یہاں ایک شخص مہمان ہوا اُس کے لیے کھانا پکایا، حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بلالیتے تو اچھا تھا چنانچہ آپ کو کھانے کی دعوت دی اور آپ تشریف لے آئے، دروازہ پر پہنچ کر چوکھٹ کو ہاتھوں سے پکڑکر کھڑے ہوگئے، دیکھا کہ گھر میں ایک طرف ایک نقشین پردہ لٹکا ہوا ہے اُس کو دیکھ کر آپ واپس ہوگئے ! حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آپ کے پیچھے پیچھے چلی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپ کی واپسی کا کیا باعث ہوا ؟ ؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ نبی کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ سجاوٹ اور ٹیپ ٹاپ والے گھر میں داخل ہو ! (مشکٰوة عن احمد وابن ِ ماجہ)
ایک مرتبہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے (کمسنی میں ) صدقہ کے مال کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر منہ میں رکھ لی ! حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فورًا منہ سے نکال کر باہر ڈالنے کو فرمایا اور یہ بھی فرمایا کیا تم کو خبر نہیں کہ صدقہ نہیں کھاتے ہیں ! (مشکٰوة شریف )
تربیت کے سلسلہ کا ایک واقعہ یہ بھی اُسد الغابہ میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اُس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ سورہے تھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کچھ پینے کو مانگا وہیں اِن حضرات کی ایک بکری تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا دُودھ نکالا ابھی آپ نے کسی کو دیا نہ تھا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پاس پہنچ گئے ! آپ نے اُن کو ہٹادیا۔ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا کہ اِن دونوں میں آپ کو وہ دُوسرا (یعنی حسین) زیادہ پیارا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ بات نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ اِس دُوسرے نے اس سے پہلے طلب کیا تھا ! پھر فرمایا کہ میں اور تم اور یہ دونوں لڑکے اور یہ سونے والا قیامت کے روز ایک ساتھ ایک جگہ ہوں گے !
وفات :
حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیّد ِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ ماہ بعد وفات پائی ! اس بارہ میں اور بھی اَقوال ہیں مگر سب سے زیادہ صحیح یہی ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ستر روز عالَم ِ دُنیا میں رہ کر اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوئیں ! (اُسد الغابہ)
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اُن کو بہت رنج ہوا اور آپ کے بعد جب تک زندہ رہیں کبھی ہنستی نہ دیکھی گئیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو خبر دی تھی کہ میرے اہل میں سے سب سے پہلے تم ہی مجھ سے آکر ملوگی چنانچہ ایسا ہی ہوا ،ان کی وفات کے وقت حضرت اَسماء بن ِ عُمَیس رضی اللہ عنہا وہیں موجود تھیں ان سے حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ عورت کے جنازہ کو صرف اُوپر سے ایک کپڑا ڈال کر (مردوں کے جنازہ کی طرح) لے جاتے ہیں جس سے ہاتھ پائوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں تم کو ایسی چیز بتائے دیتی ہوں جو حبشہ میں دیکھ کر آئی ہوں یہ کہہ کر درخت کی ٹہنیاں منگاکر ایک مسہری سی بنادی اور اُس پر کپڑا ڈال دیا ! حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اِس کو بہت پسند کیا اور حضرت اَسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جب میں وفات پاجائوں تو تم اور علی مل کر مجھے غسل دینا اور کسی کو میرے غسل میں شرکت کرنے کے لیے مت آنے دینا ! جب وفات ہوگئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غسل دینے کے لیے آئیں حضرت اَسماء رضی اللہ عنہا نے اِن کو روک دیا اُنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اے اسماء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو آپ کی صاحبزادی کے پاس جانے سے کیوں روکتی ہو ؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ اُنہوں نے مجھے اس کی وصیت کی ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اچھا اُن کی وصیت پر عمل کرو چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معیت میں ان کو غسل دیا ١
١ حافظ ابن ِ حجر'' الاصابہ'' میں لکھتے ہیں کہ ابن ِ فتحون نے اِس کو بعید سمجھ کر اعتراض کیا ہے کہ حضرت اَسماء
اُس وقت حضرت ابوبکر کے نکاح میں تھیں ان کو حضرت علی کے ساتھ مل کر غسل دینا کیونکر درُست ہوا ؟
اور دُوسرا اشکال حنفی مذہب کی بناء پر پیش آتا ہے کہ وفات کے بعد شوہر بیوی کو غسل نہیں دے سکتا
( کَمَا قَالَ فِی الْفَتَاوَی الْعَالَمْکِیْرِیَّةِ وَیَجُوْزُ لِلْمَرْأَةِ اَنْ تَغْسِلَ زَوْجَہَا اَمَّا ہُوَ فَلَا یَغْسِلُہُمَا عِنْدَنَا)
دونوں اشکالوں کا جواب اس طرح ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے حضرت علی پردہ ڈال کر حضرت اسمائ کو پانی دیتے جاتے ہوں اور وہ غسل دیتی جاتی ہوں اور انہوں نے کوئی اور عورت اپنے ساتھ مدد کے لیے بلالی ہو ، واللہ اعلم !
اورکفناکر مسہری پر رکھ دیا۔حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھائی اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھائی ١ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی تھی کہ میں رات ہی کو دفن کردی جائوں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور قبر میں حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ اور اُن کے صاحبزادے فضل رضی اللہ عنہ اُترے !
کہتے ہیں کہ اِن کی وفات ٣ رمضان المبارک ١١ ھ کو ہوئی ! اُس وقت اُن کی عمر ٢٩ سال تھی اور بعض حضرات نے ٣٠ سال اور بعض نے ٣٥ سال بتائی ہے یہ تمام تفصیل اُسد الغابہ میں لکھی ہے۔اگر یہ صحیح مانا جائے کہ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف کے ٣٥ ویں برس ان کی ولادت ہوئی تھی تو ٢٨۔٢٩ سال کے درمیان اِن کی عمر ہوتی ہے جبکہ سن وفات ١١ ھ مانا جائے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے جنہوں نے ٣٥ برس کی عمر بتائی اُن کے قول کی بنا پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ولادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف کے ٢٩ ویں برس ہونا لازم آتا ہے لیکن یہ کسی کا قول معلوم نہیں ہوا ! الاستیعاب میں بھی ایک ایسا واقعہ لکھا ہے کہ جس سے ٣٥ برس والے قول کی تردید ہوتی ہے ! !
مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ام سلمٰی رضی اللہ عنہا سے روایت کیا گیا ہے کہ جس مرض میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی میں اُن کی تیمارداری کرتی تھی، ایک روز صبح ہوئی تو مجھ سے فرمایا کہ اے ماں میرے لیے غسل کا پانی رکھ دو چنانچہ میں نے اِس کی تعمیل کی ! پھراُنہوں نے بہت اچھی طرح غسل کیا اس کے بعد مجھ سے کپڑے طلب کیے کہ میرے نئے کپڑے دے دو میں نے اِس کی بھی تعمیل کی اور اُنہوں نے مجھ سے کپڑے لے کر زیب ِ تن فرمالیے ! پھر مجھ سے فرمایا کہ میرا بستر بیچ گھر میں بچھادو چنانچہ میں نے اِس کی بھی تعمیل کی ! اس کے بعد وہ قبلہ رُخ ہوکر اور اپنا ہاتھ رُخسار کے نیچے رکھ کر لیٹ گئیں اور مجھ سے فرمایا کہ اے ماں ! اب میری جان جاتی ہے میں نے غسل کرلیا ہے مجھے کوئی نہ کھولے ! چنانچہ اُسی وقت جان بحق ہوگئیں ! ! !
١ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نمازِ جنازہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی درخواست پر پڑھائی تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اُس وقت موجود نہ تھے باہر سے تشریف لائے تو میں نے اُن کو خبر کردی اُسدالغابہ میں بھی اس واقعہ کو (تذکرہ اُم سلمٰی میں ) ذکر کیا ہے لیکن علماء اِس کو صحیح نہیں مانتے کہ وفات سے پہلے جو غسل کیا تھا اُس کو کافی سمجھا گیا بلکہ صحیح یہی ہے کہ حضرت علی اور اَسماء بنت ِ عُمیس رضی اللہ عنہما نے بعد وفات غسل دیا۔ حافظ ابن ِ حجر رحمہ اللہ نے بھی الاصابہ میں اِس کو بعید تسلیم کیا ہے کہ وفات سے پہلے جو غسل فرمالیا تھا اُس پر اکتفاء کیا گیا ہو ! !
جب تک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دُوسرا نکاح نہیں کیا ! جب اُن کی وفات ہوگئی تو اُن ہی کی وصیت کے مطابق اُن کی بھانجی حضرت اُمامہ بنت ِ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا ! حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اَولاد آپ کی موجودگی ہی میں فوت ہوگئی تھی پھر آپ کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہابھی جلد آملیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَاَرْضَاہَا
واقدی فرماتے تھے کہ میں نے عبد الرحمن بن ابی الموالی سے کہا کہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت البقیع میں دفن کی گئیں ،اس بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ اُنہوں نے کہا کہ وہ حضرت عقیل رضی اللہ عنہ (بن ابی طالب) کے مکان کے ایک گوشہ میں دفن کی گئیں اُن کی قبر اور راستہ کے درمیان سات ہاتھ کا فاصلہ ہے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَاَرْضَاھَا
رحمن کے خاص بندے قسط : ١٥
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
تقریبات میں اسراف :
اس وقت مسلمان عام طور پر اِس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ وہ بہت پریشان ہیں ، روزگار نہیں ہے ، حکومت کی نیت خراب ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ان ہی مسلمانوں کی تقریبات میں ذرا آپ شریک ہوں تو ایسا لگے گا کہ اِس زمانہ میں مسلمانوں سے زیادہ خوشحال اور فارغ البال قوم کوئی اور نہیں ہے، چاہے کتنے ہی تنگی کے حالات ہوں مگر تقریبات میں جی کھول کر اَرمان نکالے جاتے ہیں ! نامعقول رسومات کی بے جا پابندیوں اور برادری کے ناقابلِ فہم ریت و رواج نے مسلم معاشرہ کو اِس قدر جکڑ رکھا ہے کہ نکاح کی تقریبات پورے معاشرے کے لیے ایک بڑا بوجھ بن چکی ہیں حالانکہ سرورِ عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّ اَعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَةً اَیْسَرُہ مَؤُوْ نَةً ١
'' سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم تکلّفات ہوں ''
لیکن ہمارا عمل اس ارشادِ عالی کے بالکل برخلاف ہوتا جارہا ہے ہم اپنی ناقص فہم کی بنیاد پر یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ جس نکاح میں جس قدر زیادہ تام جھام اور تکلّفات ہوں وہ اُتنا ہی شاندار ہوگا لیکن تجربہ سے وہی بات صادق آتی ہے جو الصادق الامین حبیب ربُ العالین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے
چنانچہ عموماً مہنگی اور دھوم دھام والی تقریبات میں غیر متوقع طور پر کوئی ایسی بات اکثر پیش آہی جاتی ہے جس سے ساری خوشی کا فور ہوجاتی ہے اور بشاشت کے بجائے بدمزگی کا ماحول بن جاتا ہے جبکہ شریعت کے موافق کی جانے والی تقریبات میں ہر اعتبار سے برکت ہوتی ہے اور واقعی قلبی مسرت اور خوشی کا
١ مشکٰوة المصابیح کتاب النکاح رقم الحدیث ٣٠٩٧
احساس ہوتا ہے اور دین پر عمل کرنے کی وجہ سے بفضلہ تعالیٰ عزت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کا بار بار تجربہ کیا جاچکا ہے !
منگنی کی تقریب اور اُس میں اِسراف :
شریعت میں نکاح کو بہت آسان بنایا گیا ہے اور اصولی طور پر ہر طرح کے تکلّفات سے دُور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ جو معاملہ جس قدر آسان تھا وہی محض ہمارے تکلّفات کی وجہ سے انتہائی مشکل بن چکا ہے ! اس معاملہ میں قدم قدم پر ایسی فضول رسومات داخل کردی گئی ہیں کہ ان سے باہر نکل پانا معاشرہ کے لیے آسان نہیں رہا ! اس لیے ملت کے با اَثر اور ذمہ دار حضرات کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اور بلا خوف لومة لائم اس سلسلہ میں ہر سطح پر اِقدامات کرنے کی ضرورت ہے !
ان رسومات کی ابتداء منگنی کی تقریب سے ہوتی ہے جبکہ شریعت میں منگنی کے نام سے کسی تقریب کا وجود ہی نہیں ملتا ! دورِ نبوت یا دورِ صحابہ میں کہیں بھی یہ ثابت نہیں کہ محض منگنی اور رشتہ کی پختگی کے لیے رشتہ داروں کو بلایا گیا ہو اور دعوت کی گئی ہوجبکہ آج منگنی ہی کے موقع پر اتنی بڑی تقریب ہوجاتی ہے کہ اس میں کئی ولیمے با آسانی کیے جاسکتے ہیں ! پھر اس میں جولین دین اور دیگر تکلّفات ہوتے ہیں وہ الگ رہے، یہ سب چیزیں بلا شبہ فضول خرچی میں داخل ہیں جن سے اجتناب ضروری ہے
لڑکی والوں کے یہاں تقریب کا غیر ضروری اہتمام :
اسی طرح شریعت میں لڑکی والوں پر کسی طرح کی دعوت کا التزام نہیں ہے حتی کہ نکاح کے چھوہاروں کی ذمہ داری بھی ان پر نہیں ہے گویا کہ شریعت یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ لڑکی والوں کی سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ وہ اپنی لخت ِجگر اور نور ِنظر لڑکی کو رُخصت کر رہے ہیں اس سے زیادہ اِن سے کسی بات کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ! شریعت کے اس انتہائی مناسب نظریہ اور مؤقف کے برخلاف آج لڑکی والوں پر کئی طرح کا دباؤ ڈالا جاتا ہے مثلاً چوڑی بارات لائی جاتی ہے اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ بارات والوں کی خوب خاطر مدارات کی جائے بلکہ کہیں کہیں تو پہلے ہی سے کھانے کے اقسام تک طے کرالیے جاتے ہیں اور لڑکی والا بے چارہ چارو ناچار ان بے جا مطالبات کو ماننے پر مجبور ہوتا ہے ! کیونکہ اگر مطالبات پورے نہ ہوں یا ان میں کچھ کمی رہ جائے تو رشتہ تک توڑنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور نہایت بے شرمی کے ساتھ اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے ! اس سے زیادہ ظلالت اور کمینگی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے ؟
کچھ اسی طرح کا حال جہیز کے مطالبات کا بھی ہے جو سراسر ناجائز ہے جس کی وجہ سے کتنی ہی غریب بچیاں ماں باپ کی ناداری کی بناپر گھر بیٹھے بیٹھے گھٹ گھٹ کر زندگی گزار دیتی ہیں اور معاشرہ میں فتنہ و فساد رُونما ہوجاتا ہے والعیاذ باللّٰہ !
ولیمہ میں اِسراف :
شریعت نے نکاح کی خوشی میں لڑکے والوں پر حسب ِو سعت اہلِ تعلق کی دعوت کرنے کو پسندیدہ قرار دیا ہے جس میں ایک خاص حکمت یہ بھی ہے کہ اِس دعوت کی وجہ سے نکاح کا اعلانِ عام بھی ہوجاتا ہے لیکن ولیمہ میں کسی خاص انداز کے کھانے کو ضروری قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کو لڑکے والوں کی وسعت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
خود پیغمبر علیہ الصلٰوة و السلام کے مختلف نکاحوں میں ولیموں کا انداز الگ الگ رہا ہے، کبھی صرف ماحضر ناشتہ پر اکتفاء کیا گیا اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ سب اپنے توشہ دان لے آئیں اور پھر سب کے توشوں کو جمع کر کے دعوت کردی گئی، یہی ولیمہ ہوگیا ! صرف ایک زوجۂ مطہرہ اُم المومنین سیّدتنا حضرت زینت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح میں آپ نے ولیمہ میں گوشت کا خاص اہتمام فرمایا ! اس سے یہ ثابت ہوا کہ ولیمہ میں بھی بے جا تکلّفات کی اجازت نہیں ہے بلکہ جب جس کو جیسی سہولت ہو اُس کے اعتبار سے وہ سنت ولیمہ ادا کر سکتا ہے ! ! !
خاص طور پر ایسا ولیمہ جس میں صرف مالداروں کو دعوت دی جائے اور غرباء کو نہ بلایا جائے، اس کی سخت مذمت احادیث شریفہ میں وارد ہے۔ سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
شَرُّ الطَّعَامِ الْوَلِیْمَةِ یُدْعٰی لَھَا الْاَغْنِیَائُ وَ یُتْرَکُ الْفُقَرَائُ ١
''سب سے بدترین کھانا ایسے ولیمہ کا کھانا ہے جس میں صرف مالداروں کو دعوت دی جائے اور فقیروں کو چھوڑدیا جائے''
اسی لیے وہ ولیمہ جس کا مقصد فخر ومباہات اور ناموری اور مقابلہ آرائی ہو، وہ بھی انتہائی قابلِ مذمت ہے، سیّدنا حضرت عبداللہ بن عباس اور سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اَلْمُتَبَارِیَانِ لَا یُجَابَانِ وَلَا یُؤْکَلُ طَعَامُھُمَا ٢
''مقابلہ آرائی کرنے والوں کی نہ تو دعوت قبول کی جائے گی اور نہ اُن کا کھانا کھایا جائے گا ''
حضرت امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ''اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مہمان نوازی میں ایک دوسرے پر فخر و مباہات کی نیت سے دعوت کا اہتمام کرتے ہیں '' اس لیے دعوت ِولیمہ میں ایسی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے !
شادی کارڈ اور ڈیکوریشن :
تقریبات میں فضول خرچیوں کا ایک بڑا عنوان ''شادی کارڈ'' بھی بن گئے ہیں ! اگر تقریبات کی اطلاع کے لیے سادگی کے ساتھ کوئی تحریر لکھ کر دعوت نامہ بھیج دیا جائے، تو فی نفسہ اس میں حرج نہیں ، لیکن افسوس ہے کہ اب اس اطلاع نامہ کے نام پر بھی جم کر فضول خرچی کی جاتی ہے ! آج کل عجیب و غریب ڈیزائن کے نہایت گراں قیمت شادی کارڈ بازار میں دستیاب ہیں جن پر لوگ بے دریغ روپیہ خرچ کرتے ہیں حالانکہ یہ سراسر سرمایہ کی بربادی ہے کیونکہ ان شادی کارڈوں کی مدعو حضرات کے یہاں جوگت بنتی ہے اُسے بتانے کی ضروری نہیں ہے !
اسی طرح آج کل تقریبات میں محض ڈیکوریشن اور سجاوٹ میں بڑا سرمایہ ضائع کردیا جاتا ہے اور اس اضاعت ِ مال پر قطعًا کوئی گرانی نہیں ہوتی ! محض اپنا سٹینڈر ڈظاہر کرنے کے لیے عالی شان
١ مشکٰوة المصابیح کتاب النکاح رقم الحدیث ٣٢١٨ ٢ مشکٰوة المصابیح رقم الحدیث ٣٢٢٦
شادی ہال کرایہ پر لیے جاتے ہیں اور اگر لان یا فارم ہاؤس میں شادی کا پروگرام ہو تو لاکھوں روپے محض ٹینٹ اور سجاوٹ وغیرہ پر بے تکلف خرچ کیے جاتے ہیں !
حالانکہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ سجاوٹ محض وقتی دل لگی اور عارضی تماشا کی حیثیت رکھتی ہے اس سے کوئی دینی یا دُنیوی فائدہ وابستہ نہیں ہے ! یہ محض مال کا ضیاع اور بے فائدہ شوق کی تکمیل ہے اور اسراف وتبذیر میں شامل ہے جن کی قرآن و حدیث میں صراحةً ممانعت وارد ہے ! کیا اچھا ہو کہ یہ سرمایہ فضول ڈیکوریشن میں لگانے کے بجائے خود میاں بیوی کے کسی فائدہ والی چیز میں لگادیا جائے !
کھانے میں فضول خرچی :
اسی طرح آج کل تقریبات میں انواع واقسام کے کھانے بہت افراط سے بنائے جاتے ہیں اور بٹھاکر باعزت طریقہ پر کھلانے کے بجائے بفے سسٹم کے ذریعہ ''دست ِ خود ودہانِ خود'' کے انتظام کو فخر سمجھا جاتا ہے ! حالانکہ اس کی وجہ سے کھانوں کا جو ضیاع ہوتا ہے اور جس طرح بچا ہوا کھانا کوڑے دانوں میں پھینکا جاتا ہے وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے اور نعمت ِ خداوندی کی ناشکری ہے ! ! سرورِ عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو گرے ہوئے لقمہ کو اُٹھاکر صاف کرکے کھانے کا حکم دیا ہے ! اور دستر خوان پر گرے ہوئے ٹکڑوں کو بھی پھینکنے سے منع فرمایا ہے اور روٹی کے کنارے چھوڑ کر کھانے کی بھی ممانعت فرمائی ہے حتی کہ اُنگلیوں میں جو کھانا لگا رہ جاتا ہے اُس کو منہ سے چاٹنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ حصہ بھی ضائع نہ ہو ! ایک طرف یہ مبارک نبوی تعلیمات ہیں تو دوسری طرف ہم غیروں کے طریقہ پر چلتے ہوئے رزق کی بربادی خود اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں ، اس طرزِ عمل کے باوجود برکت کی اُمید رکھنا فضول ہے ! ! !
اوّل تو محض ناموری کے لیے بہت سی قسم کے کھانے بنانے سے احتراز کرنا چاہیے اور بہرحال کھانے کے ضیاع سے تو بچنے کا ضرور اہتمام ہونا چاہیے یہی شکر گزار مومن کی ذمہ داری ہے ! !
عقیقہ میں اِسراف :
بچہ یا بچی کی پیدائش پر عقیقہ کرنا مستحب ہے ! لیکن عقیقہ کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ حسب ِ ضابطہ بکرے یا بکری کو ذبح کردیا جائے اور اُس کا گوشت خود استعمال کرے یا اعزہ واَقارب اور فقراء کو بھی تقسیم کردے ! اس سے زیادہ کوئی اہتمام عقیقہ میں نہیں ہے۔ پس عقیقہ میں وسعت نہ ہونے کے باوجود لمبی چوڑی دعوت کرنا اور محض اس دعوت کے انتظام کے لیے عقیقہ کو مؤخر کرنا رُوحِ شریعت کے خلاف ہے اس لیے اس معاملہ میں بھی فضول خرچی اور بے جا تکلّفات سے پرہیز کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کی فضول خرچی سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائیں ، آمین۔ (جاری ہے)
وفیات
٭ ١٧ مئی کو حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب بخاری سابق سرپرست جمعیة علماء اسلام پنجاب و سابق امیر جمعیة علماء اسلام ضلع اوکاڑہ مختصر علالت کے بعد دیپالپور میں انتقال فرماگئے ۔
٭ ٢٦ ذیقعدہ /١٦ جون بروز جمعہ مدینہ منورہ کے مقیم الحاج اسماعیل صاحب جتوئی مدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے ،جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی ۔
٭ ١٨ جون کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس مولانا محمد حسین صاحب کے ہم زُلف محمد رمضان صاحب لاہور میں وفات پاگئے۔
٭ ١٩ جون کو جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ الحدیث اور ناظم تعلیمات حضرت مولانا خالد محمود صاحب مدظلہم کے بہنوئی فتح جھنگ میں وفات پاگئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
حضرت شیخ الحدیث کی طلباء کو ہدایات
( مفتی احسان الحق صاحب اخونزادہ ١ )
برکة العصر قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کی ذات سے کون ناواقف ہوگا ان کی مایہ ناز تصنیف '' فضائلِ اعمال'' دنیا کے چپے چپے میں پڑھی جاتی ہے، سنائی جاتی ہے اور اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں یہ مصنف کے اخلاص ہی کانتیجہ ہے حضرت کی اس کے علاوہ بہت سی کتب ہیں خصوصاً اَوجزالمسالک، بذل المجہود ، خصائلِ نبوی شرح شمائلِ ترمذی وغیرہ شروحِ حدیث میں نہایت اعلیٰ مقام رکھتی ہیں ۔ اسی طرح ان کی'' تقریرِ بخاری'' جو حضرت مولانا محمد شاہد صاحب سہارنپوری مدظلہم کی جمع کردہ ہے، بہت پُرمغز شرح ہے۔ اساتذہ فرمایاکرتے ہیں کہ ''تم کوئی شرح دیکھویانہ دیکھو، تقریرِ بخاری ضرور دیکھا کرو'' اور اکثر علما ء اس تقریرِ بخاری کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔ اسی تقریرِ بخاری میں '' کتاب العلم'' میں حضرت نے کہیں درس کے دوران علم، طلب ِ علم اورطلبہ کے متعلق( اپنے یامنقول)فوائد بیان کیے ،کہیں نصائح کیں تو راقم نے حسب ِ استطاعت کوشش کی کہ انہیں یکجاکر دیا جائے تاکہ اس سے دورۂ حدیث کے طلبہ کے علاوہ دوسرے طلبہ بھی مستفید ہوسکیں ۔حضرت شیخ الحدیث قدس اللہ سرہ نے فرمایا :
٭ معلم کوچاہیے کہ علمی بات کونہایت ڈٹ کر اور زورو شور سے کہے !
٭ اُستاذکو چاہیے کہ وہ شاگردوں کاامتحان لیتارہے اور اُن سے پوچھتارہے !
٭ اُستاذ اگر تشحیذ اذہان کے طور پر کوئی مسئلہ طلبہ کے سامنے پیش کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں !
٭ اگر کوئی مسئلہ مفتی سے دریافت کرنا ہو تو توڑ موڑ کر غلط کر کے پوچھے، یہ البتہ ناجائز ہے !
١ مدرس جامعہ اشرف العلوم ، گلستانِ جوہر کراچی
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سے مل کربیٹھتے تھے، کوئی امتیاز نہیں فرماتے تھے ،یہی ہمارے مشائخ کاطریقہ تھا، اِس زمانہ کی طرح نہیں کہ ممتاز جگہ پربیٹھیں !
٭ اگر اُستاذ کی مجلس میں مجمع زیادہ ہوتو جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے اور اگرقریب بیٹھنے کی خواہش ہو تو پہلے سے آیاکرے ! اور اگر پہلے ہی بیٹھنے والے اس طرح بیٹھے ہوں کہ اگلی صف میں یا بیچ میں جگہ خالی ہو توپھاند کر آگے جاسکتاہے اگرچہ تخطیِ رقاب سے منع کیاگیا ہے، مگر یہ اس لیے جائز ہے کہ پہلے سے بیٹھنے والوں ہی نے خودبے تمیزی کی کہ آگے جگہ چھوڑدی اور بھائی یہی حال صفوف کاہے کہ اگر لوگ اگلی صف میں جگہ چھوڑ کربیٹھیں تو آنے والے کوجائز ہے کہ اُن کوپھاند کر خالی جگہ میں جاکر بیٹھ جائے کہ انہوں نے خود کوذلیل کیا،کیوں نہیں آگے جاکر بیٹھے !
٭ اگرکوئی شخص معانیِ حدیث کونہ سمجھتاہو تو اس کو چاہیے کہ وہ ان کومحفوظ کرلے اور پھر دوسروں کو سمجھادے، ممکن ہے کہ کوئی اس کے شاگردوں میں اس سے زیادہ سمجھدار ہو اور ان میں امام ابوحنیفہ اور امام شافعی وغیرہماجیسے مجتہدین ہوں اور وہ ان احادیث کو سن کر ان سے مسائل کااستنباط کریں !
٭ اگرکوئی طالب علم بڑافہیم وذکی ہو اور اُستاذ اس جیسا نہ ہو تو اس کو اُستاذ سے استنکاف فی طلب العلم نہ کرنا چاہیے کہ میں تو اتنابڑافہیم اور یہ ایسا ؟ بھلا میں اس سے علم حاصل کروں ؟
٭ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ کامقولہ اَوجز المسالک میں نقل کیا ہے کہ اربع فی اربع عن اربع علی اربع الخ یہ سولہ چوکڑے ہیں اور ان ہی میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اُس وقت تک محدث نہیں ہوسکتاجب تک کہ علم اپنے بڑے اور ساتھی اور چھوٹے اور کتابوں سے حاصل نہ کرے !
٭ آدمی پہلے علم حاصل کرے پھر عمل کادرجہ ہے کیونکہ زمانہ علم میں تعلّم میں مشغولیت ہوتی ہے، عمل نہیں کرسکتا ! تویہ عمل نہ کرنا اس وعید میں داخل نہیں !
٭ جیسے مالِ وراثت بغیر عمل کے حاصل ہوتاہے اسی طرح علم بھی بغیر عمل کے حاصل ہوسکتاہے !
٭ علم کو اس وجہ سے نہ چھوڑاجائے کہ عمل نہیں ہوگا ! بلکہ اگر علم کے بعد خشیت کسی وقت حاصل ہوجائے تویہ بھی فائدہ دے گی !
٭ علم تعلّم سے حاصل ہوگا مطالعہ سے حاصل نہیں ہوگا ! یہ بالکل دھوکہ ہے کہ صرف کتب وشروح کودیکھ کر بغیر اُستاذ سے پڑھے علم حاصل ہوسکتاہے !
٭ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جوباقاعدہ تعلیم یافتہ نہ ہوتووہ صرف کتابیں دیکھ کر فتویٰ نہ دے !
٭ علم توضرورحاصل کرنا چاہیے، مگرایساطریقہ اختیارکرے کہ مفضی الَی الملال اور موجب ِنفرت نہ ہو، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ہرچیز کے اوقات مقرر تھے، اس لیے کہ ہر وقت ایک ہی کام کرنے سے دل اُکتاجاتاہے !
٭ اگرکوئی شخص وعظ ،تبلیغ کے لیے کوئی خاص دن مقرر کرلے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، جائز ہے ! اور اس کو بدعت نہیں کہاجائے گا کیونکہ بدعت میں تعیین کے ساتھ ساتھ اس تعیین میں ہی ثواب سمجھا جاتاہے اور یہ کہ اِس دن نہ ہو تو پھر کوئی ثواب نہیں ملے گا ! ایسے ہی چہلم وغیرہ بدعت ہے، کیونکہ عوام کالانعام اس تعیین سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس دن یااس وقت میں کوئی خاص ثواب ہے اسی وجہ سے وہ اِن اوقات کو تبدیل نہیں کرتے ! قاعدہ طبعی یہ ہے کہ ایک چیز سے طبیعت اُکتاجاتی ہے، اسی لیے مشائخ درس میں مختلف کتابیں ایک ایک دن میں رکھتے ہیں تاکہ تنفرنہ پیدا ہو البتہ میراتوجی رمضان میں قرآن سے نہیں اُکتاتا، یہ میرے نزدیک مستثنیٰ ہے !
٭ علم عطا فرماناتواللہ تعالیٰ ہی کاکام ہے، تم اپنی کوشش جاری رکھواور اس کے حاصل کرنے کے لیے دعاکرتے رہو ! خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کااپنے بارے میں ارشادہے اِنَّمَا اَنَا قَاسِم کہ میں تو صرف تقسیم کاحقدار ہوں ورنہ اصل عطافرمانے والاتوخداہے ! لہٰذا محض اپنی محنت پر اعتماد نہ کرے، بہت سے محنتی کچھ نہ کرسکے اور بہت سے محنت نہ کرنے والوں کوبہت کچھ مل گیا !
٭ اگرچہ عطافرمانے والے صرف اللہ تعالیٰ ہیں اور کوئی نہیں ، لیکن صرف اس پر اعتماد کرکے نہ بیٹھو بلکہ اپنی کوشش اور فہم سے کام لینابھی ضروری ہے !
٭ طالب علم کومطالعہ کرنا چاہیے اور قوتِ مطالعہ بڑھانی چاہیے !
٭ مطالعہ کاطریقہ یہ ہے کہ ہرعلم کی مناسبات کودیکھے اورغور کرے اور مطالعہ کرتے وقت اُوپرنیچے سب طرف نظررکھے !
٭ علم میں رَشک کرنا چاہیے اپنے سے اُونچے والوں پر،توگویاقابلِ رشک علم وحکمت ہے نہ کہ دنیا کی چیزیں ! یہ نہیں کہ فلاں کاکرتہ اچھا ہے اور میرانہیں ! بلکہ علم وحکمت قابلِ غبطہ ورَشک ہیں !
٭ بڑے اور سردار بننے سے پہلے فقاہت حاصل کرلو اس لیے کہ بڑے ہونے کے بعدعلم جلدی نہیں حاصل ہوسکتا اور عوائق وموانع علم حاصل کرنے سے روک دیں گے !
٭ پیارو ! ہمارے مشائخ اور بزرگوں کایہی روّیہ رہا ہے کہ وہ جمع نہیں فرماتے تھے بلکہ جوآیا، خرچ کردیا ! بڑے حضرت رائے پوری یعنی حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب اور حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب کاطریقہ یہ رہاکہ جوآتابس اُس کودے ڈالتے تھے، پھرکہیں سے کچھ آجاتا، فرماتے: یہ دوسرا آگیا، اس کوبھی خرچ کردیتے ! میرے والد صاحب مقروض بہت تھے، اگر کہیں سے روپے آجاتے تو اس کو قرض خواہوں کو دے دیتے اور اگر پیسے وغیرہ ہوتے تو وہ بچوں کودے دیتے اور فرمایاکرتے تھے:'' جی نہیں چاہتاکہ اس مصیبت کولے کر سووں '' اور میرے چچاجان نوراللہ مرقدہ نے ایک بار فرمایا کہ بکریوں کی تجارت کروں گا، سنت ہے، چنانچہ بکریاں خرید کرمضاربت پردے دیں ، کچھ دنوں بعد جب میں دِلی گیاتوفرمایاکہ بکریاں تومرگئیں ! ان لوگوں کے ہاتھ میں روپیہ رُکتاہی نہ تھا، یہ قدرت کی طرف سے تھے ۔
٭ علم حاصل کرنے میں جومشقت اور تکالیف آئیں اُن کوبرداشت کرناچاہیے جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے میں مشقت اور تکالیف برداشت کیں کہ سمندر کے اندرتک تشریف لے گئے !
٭ سردار بننے کے بعد بھی بے فکر ہوکرنہ بیٹھنا چاہیے بلکہ تعلیم حاصل کرے ! حضرت موسیٰعلیہ السلام نبوت( سرداری) کے مل جانے کے باوجود کلیمُ اللّٰہ اور نبی مرسل اور دیگر خصوصیات کے باوجود حضرت خضر علیہ السلام سے علم حاصل کرنے تشریف لے گئے جن کی نبوت میں بھی اختلاف ہے !
٭ جب حضرت موسیعلیہ السلام سے یہ سوال ہواکہ آپ اپنے سے زیادہ کسی کوعالم جانتے ہیں ؟
تو حضرت موسیٰ علیہ السلامنے جواب میں فرمایاکہ نہیں ، وجہ اِس کی یہ ہے کہ حضرت موسیٰعلیہ السلام نبی تھے اور ظاہر ہے کہ نبی کاعلم اوروں سے زیادہ ہواکرتاہے، مگرچونکہ اَنانیت اللہ کوپسند نہیں بلکہ تواضع پسند ہے اس لیے عتاب ہوا !
٭ اَنانیت اللہ کوپسندنہیں تو اِس پسند نہ ہونے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اَلْکِبْریَائُ رِدَائِیْ کے مطابق کبریائی اللہ کی ذات میں ہے، وہاں پستی نہیں ہے، وہاں عظمت ہی عظمت ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جہاں جوچیز نہیں ملتی وہاں اُس کی قدر ہوتی ہے اسی لیے تواضع کی وہاں بڑی قدر ہے اور چونکہ وہاں علوہی علو، عظمت ہی عظمت ہے اس لیے اس کی کوئی قدرنہیں ! خوب سن لو پیارو ! جواللہ کے لیے اپنے آپ کو ذلیل سمجھے اُس کو اللہ اور بلند فرمادیتے ہیں مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ کامطلب یہی ہے !
٭ محض ذہانت پر اعتماد نہ کرے اورمحنت پربھروسہ نہ رکھے بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے !
٭ مشائخ کی خدمت کرناچاہیے اور اگر اولیاء اور بزرگوں سے دعالیناچاہتے ہو تو ان کی خوب خدمت کرو ! اور یہ اصولِ موضوعہ میں سے ہے کہ اُستاذکی خدمت اُس کااحترام وغیرہ علم میں برکت کاسبب ہوتاہے اور نافرمانی وغیرہ علم میں کمی کاباعث ہے ! اور والدین کااحترام وسعت ِ رزق کاباعث ہے اور عدم احترام موجب ِتنگی ٔرزق ہے !
٭ طلب ِعلم کے لیے سفر کرنامندوب ہے !
٭ تعلّم کی فضیلت مسلم اور علم کے فضائل تسلیم مگربقائے علم، تعلیم سے ہوتاہے !
٭ بقائے علم اُس وقت ہوگا جبکہ اس کے موانع کورَفع کردیا جائے ! اورظہورِ جہل اور رفعِ علم سے بچا جائے
٭ تعلیم نہایت ضروری ہے ! ورنہ علم اُٹھ جائے گااور قیامت قائم ہوجائے گی !
٭ علم تدریس سے باقی رہتاہے اور اضاعت ِعلم میں اضاعت ِنفس ہے !
٭ اہلِ علم کوچاہیے کہ وہ اپنے آپ کو زَرخرید نہ سمجھیں اور تنخواہوں پر نہ مریں کہ اگر تنخواہ نہ ہو تو تعلیم ہی چھوڑدیں ! بلکہ تعلیم وتدریس اللہ کے لیے ہواورتنخواہ یہ سمجھ کرلے کہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے، کفاف کے لیے لیتاہوں ، اگرتم دنیاکوٹھوکرماروگے تویہ دنیاخودتمہارے قدموں میں آکررہے گی !
٭ اپنے علم پر عمل کرے کیونکہ دس بارہ سال میں حاصل ہونے والے علم کوضائع کردینا خود اپنے آپ کوضائع کردینا ہے !
٭ اگر کوئی ایسا ہو کہ اس کو کسی خاص علم کی ضرورت نہ پڑتی ہو تو وہ اس سے اعراض نہ کرے بلکہ اس کو حاصل کرکے دوسروں کو سکھادے ! مثلاً مُقْعَدہے کہ اس کو جہاد کرنے کی تو طاقت نہیں اور یہ سمجھ کر کہ مجھ کو جہاد تو کرنا نہیں پھر کیا ضرورت جہاد کا علم سیکھنے کی ؟ ایسا نہ کرے بلکہ سیکھے اور دوسروں کو سکھلائے
اسی طرح عتاق (یعنی غلام آزاد کرنے)کا مسئلہ ہندوستان میں کہ یہاں تو اس کی ضرورت نہیں ، کیونکہ ترقیق (غلام بنانا)قانوناً بند ہے، مگر یہ سوچ کر کہ یہاں کیا ضرورت ہے ؟ ایسا نہ کرے بلکہ سیکھے اور دوسروں کو سکھادے اور ممکن ہے کہ آئندہ کام آجائے !
٭ اگر کوئی ذی علم راستہ میں چلا جارہا ہو یا سوار ہو تو لوگوں کو اُس سے مسئلہ پوچھنا جائز ہے !
٭ کوئی اس حال میں مسئلہ پوچھے کہ وہ سوار ہوکر کہیں جارہا ہو تو مسئلہ بتلادینا چاہیے !
٭ قاضی اگر راستے چلتے ہوئے فیصلہ کردے تووہ معتبر نہیں ہوگا ! بلکہ اس کو دارُالقضا میں فیصلہ کرنا ضروری ہے، بخلاف فتوی کے کہ وہ جائز ہے !
٭ امام بخاری تشحیذِ اذھان بھی کرتے ہیں ! وہ تمہیں محدث بناناچاہتے ہیں اور تمہارے اندر قوتِ مطالعہ بیدار کرنا چاہتے ہیں !
٭ ہاتھ اور سر کے اشارے سے نفیًا واثباتًا فتوی دینا تو جائز ہے مگر قضا میں جائز نہیں !
٭ اگرکوئی پورا عالم نہ ہو اور وہ تبلیغ کرے توجائز ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو یہ فرمایا ہے : وَاَخْبِرُوْھُنَّ مَنْ وَرَائَکُمْ وہ لوگ تمام دینی باتوں سے واقف نہ تھے اور اُن کو صرف چار باتوں کا حکم اور چار باتوں سے منع فرماکر اِس کی تبلیغ کا حکم فرمادیا !
٭ اگر کوئی مسئلہ وقتی طور پر پیش آجائے اور وہاں کوئی بتلانے والا نہ ہو تو اس کے واسطے سفر کرنا واجب ہے ! یہ نہ سوچے کہ ایک ہی مسئلہ توہے اس کے لیے سفر کرنے کی کیاضرورت ؟
٭ اگرکوئی مشغول ہوتو اس کو علم روزانہ سیکھناضروری نہیں بلکہ تناوب کرسکتاہے !
٭ اگراُستاذطلبہ سے کوئی ناگوار بات دیکھے تو ان کوتنبیہ کردے ،ڈانٹ دے !
٭ قضا اور فتویٰ کے درمیان فرق ہے کہ اگر فتویٰ اور درس حالت ِغضب میں ہو تو جائز ہے ! لیکن قضا حالت ِغضب میں ہو تو جائز نہیں !
٭ رُکبتین پر بیٹھنا یہ طالب علم کی ہیئت ہے کہ محدث کے سامنے اس طرح بیٹھنا چاہیے !
٭ ائمہ ومشائخ واَساتذہ کے سامنے دوزانوہوکربیٹھناچاہیے،یہی اولیٰ وبہترہے !
٭ اعادہ وہاں ہوتا ہے جہاں افہام کی ضرورت ہو !
٭ آج کل یہ مدارس بن گئے اور پھر اِن میں سہولتیں کھانے پینے وغیرہ کا اہتمام ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ یہ طالب ِ علم قدرنہیں کرتے، اگریہ سہولتیں میسرنہ ہوتیں بلکہ اس میں مشقت اُٹھانی پڑتی تو قدر کرتے ! لیکن اب تویہ حال ہے کہ اگر پڑھانے میں بیس ملتے ہیں اور کھیتی میں سوتو کھیتی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہے کہ بغیر مشقت کے حاصل ہوگیا اور اگر مشقت سے حاصل کرتے تو ہرگز یہ نہ ہوتا !
٭ امام اور اَمیر کوچاہیے کہ مدارس کا انتظام کریں اور ان کی تعلیم کا بندوبست کریں !
٭ امام اور امیربلدہ (شہر کے امیر)کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم وتربیت کامعقول انتظام کریں ! کیونکہ ہرشخص کافریضہ ہے کہ وہ اپنی رعایا یعنی اہل وعیال کوتعلیم دے !
٭ عورتیں رقیق القلب ہوتی ہیں ، ذراسی بات اُن پر اَثر کرجاتی ہے !
٭ علوم میں علمِ حدیث سب سے افضل واعلیٰ ہے اوربہت ہی مہتم بالشان ہے !
٭ جب منع وجواز میں تعارض ہوا کرتا ہے تو منع کو ترجیح ہوا کرتی ہے !
٭ محدثین کا قاعدہ یہ ہے کہ اگرکتاب میں غلطی خود اُس لکھنے والے کی طرف سے ہو تو اس میں اصلاح کرناجائزنہیں ،لیکن محقق طورپریہ معلوم ہوجائے کہ یہ غلط ہے توکیاکرے ؟
اس میں دوقول ہیں : ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ جب غلطی پرپہنچے تویوں پڑھے : الصحیح ہٰکذا وفی الکتاب ہٰکذا تاکہ ابتداً غلط پڑھ کر مَنْ کَذِبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبوَّا مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ
میں داخل نہ ہو ! او ردوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ پڑھتاچلاجائے اورجب غلط پڑھ چکے تو اُس کے بعد فور ًا والصحیح ہٰکذا پڑھے !
٭ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیراورمشیرتھے خاصةً اور دیگر اُمور میں دخیل تھے عامةً ۔ !
٭ تمام دھندوں کوچھوڑکرعلم میں لگ جانے سے ہی علم آتاہے ! جیسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرتمام چیزیں قربان کرکے ہمہ تن لگ گئے تھے !
٭ متعلّم کوچاہیے کہ اُستاذکے سامنے ادب سے خاموش رہے !
٭ جب اُستاذ کچھ بیان کرے توپوری توجہ کے ساتھ اس کی باتوں کو سُنے تاکہ کوئی بات سننے سے باقی نہ رہے !
٭ اگرکوئی عالم بات کہہ رہا ہو تولوگوں کو اُس کے سننے کے لیے خاموش کیا جاسکتا ہے ! اس سے اِجلالِ علماء معلوم ہوا۔
٭ جب کسی سے پوچھاجائے کہ کون اَعْلَمْ ہے ؟ تو اَللّٰہُ اَعْلَمْ یا فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْم
کہہ دے یہ نہ کہے کہ لوگوں کی نظر مجھ پر ہی پڑتی ہے جیسے گیدڑی سے اُس کے بچے نے پوچھا کہ : اماں پری کسے کہیں ؟ تو اس نے کہا : چپ چپ لوگوں کی نگاہ مجھ پر ہی ہے !
٭ اپنے آپ کو بڑا علامہ نہ سمجھے ! جبکہ اللہ نے اتنے بڑے نبی کے متعلق یہ پسند نہیں فرمایا کہ وہ اپنے آپ کو عالِم کہیں تو اَوروں کا کیا منہ ہے !
٭ رمی جمار کے وقت سوال کرنااورفتویٰ پوچھنا جائز ہے !
٭ علم کامرتبہ ذکر اللہ سے مقدم ہے ! لہٰذا اگرکوئی رمی جمار وغیرہ کے وقت مسئلہ پوچھے تو ذکر قطع کرکے جواب دے دے، بعض جاہل صوفیہ کی طرح نہیں کہ سورج تو طلوع ہونے والا ہے اور وہ اپنے اَوراد میں مشغول ہیں ، اب اگر اُن سے کوئی وقت پوچھتاہے توزبان سے توبتلاتے نہیں ، اُنگلی سے اشارہ کرتے ہیں ، فرمایا : حالانکہ وظیفہ وغیرہ کے دوران مسئلہ بتانے سے وظیفہ پر کوئی اثرنہیں پڑتا !
٭ جب کوئی طالب علم لائق ہوتاہے تووہاں اولاد وغیرہ کونہیں دیکھاجاتا !
٭ اگر اُستاذکسی ذہین وفطین شاگرد کو کوئی خاص وقت دے دے یا کسی خاص جماعت کو کوئی خاص وقت عنایت فرمادے کہ وہ اِس وقت استفادہ کرایاکریں تویہ جائز ہے ! اور یہ تخصیص ِ علم اور کتمانِ علم میں داخل نہیں اور دوسروں کو اِس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں جیسے امام ابوحنیفہ کی دومجلسیں ہوا کرتی تھیں :
ایک عمومی، اس میں ہر کوئی بیٹھ سکتا تھا، دوسری خصوصی، اس میں وہ لوگ شریک ہوسکتے تھے جو حافظ ہوں
٭ اکثر علماء موالی اور عتقا تھے، سارے سادات ہی نہیں تھے !
٭ حیاہر جگہ محمود ہے مگر علم میں اِس کومانع نہ ہونا چاہیے !
اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں طالب علم اور علم پر عمل کرنے والا بنائے ، آمین !
جامعہ مدنیہ جدید کی ڈاکومنٹری
DOCUMENTARY OF JAMIA MADNIA JADEED
جامعہ مدنیہ جدید کی صرف آٹھ منٹ پر مشتمل مختصر مگر جامع ڈاکومنٹری تیار کی جاچکی ہے جس میں جامعہ کا مختصر تعارف اور ترقیاتی و تعمیراتی منصوبہ جات دکھائے گئے ہیں
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
+92 - 333 - 4249302 +92 - 333 - 4249301
+92 - 335 - 4249302 +92 - 345 - 4036960
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.