Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

جنوری 2025

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٣ رجب المرجب ١٤٤٦ھ / جنوری ٢٠٢٥ء شمارہ : ١
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر




جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923354249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560




مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
سیرت ِ مبارکہ ..... مقاصد ِ بعثت و فرائض ِ نبوت حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٢
مقالاتِ حامدیہ ............ علاماتِ قیامت حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٢٣
تربیت ِ اولاد قسط : ٢٢ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٤٦
گرین گولڈ : مستقبل کی تخیلاتی معیشت کی بنیاد ڈاکٹر مبشر حسین صاحب رحمانی ٥١
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٥٩
اخبار الجامعہ مولانا انعام اللہ صاحب ٦١




تقریب تکمیل ِبخاری شریف و دستار بندی
٭٭٭
١٥ رجب المرجب ١٤٤٦ھ /١٦جنوری ٢٠٢٥ء بروز جمعرات جامعہ مدنیہ جدید میں
''تکمیل بخاری شریف و دستار بندی ''کی پر وقار تقریب ان شاء اللّٰہ صبح دس بجے
منعقد ہوگی اس مبارک موقع پر شرکت فرماکر برکات سے مستفیض ہوں !
اَلداعی اِلی الخیر
سیّد محمود میاں غفرلہ و اراکین و خدام جامعة مدنیة جدید




حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
علماء کرام نے ہمیشہ امت کی رہنمائی اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے مدارس کے خلاف ہر قسم کی سازشوں اور بدنیتی پر مبنی اقدامات کے خلاف علماء نے ہمیشہ اتحاد اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے، حالیہ بل کے حوالے سے بھی اکابر علماء نے جس اتفاق اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ نہایت قابلِ تحسین ہے،یہ اتحاد نہ صرف مدارس کے تحفظ کے لیے مضبوط دیوار ثابت ہوا ہے جس کے نتیجہ میں حکومت ِ وقت '' اِعلاَمِیة '' جاری کرنے پر مجبور ہوگئی ہم جب تک اپنی دینی و تعلیمی اقدار کے تحفظ کے لیے متحد رہیں گے، کوئی بھی طاقت ہمارے سامنے کھڑی نہیں ہو سکے گی ! اکابر علماء کی اس جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہمارے ذمہ فرض ہے !
حکومت کی طرف سے حالیہ بل کا اِعلَامِیة ( نوٹیفکیشن )ایک مثبت قدم ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مدارس کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور دینی اداروں کے خلاف بدنیتی کے بجائے تعمیری روّیہ اپنانا چاہتی ہے ! حکومت کو چاہیے کہ وہ آئندہ بھی مدارس کے حوالے سے مثبت اور تعمیری روّیے تشکیل دے تاکہ ملک میں دینی تعلیم کا فروغ بلا رکاوٹ جاری رہ سکے ! اگرچہ موجودہ صورتحال حوصلہ افزاہے لیکن پھر بھی ہم حکومت کو واضح طور پر خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ آئندہ اگر مدارس کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے یا ان کے خلاف کسی قسم کی سازش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا سخت ترین ردّعمل دیا جائے گا جس کے اثرات ہر سطح پر محسوس کیے جائیں گے !
مدارس صرف تعلیم کے مراکز نہیں بلکہ یہ امت ِمسلمہ کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے ایسے قلعے ہیں جہاں دینِ اسلام کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے ! ضرورت پڑنے پر مدارس کے تحفظ کے لیے علماء ، طلباء اور عوام کو ہر ممکن اقدام کے لیے تیار رہنا ہوگا ! حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ مدارس کی مضبوطی درحقیقت ملک کی دینی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے مترادف ہے !
ہم دعاگو ہیں کہ مدارس ہمیشہ علم و تقویٰ کے چراغ جلاتے رہیں اور ان کا تحفظ ہر مسلمان کی اوّلین ترجیح رہے ،مدارس کی حفاظت ، ہمارے ایمان کی حفاظت ہے مدارسِ دینیہ صرف تعلیمی ادارے نہیں ہیں ، یہ ہمارے دین کا قلعہ ہیں ، ہمارے وجود کی بنیاد ہیں ، یہ ادارے جنہوں نے تاریخ کے ہرمرحلے پر امت ِمسلمہ کو علم کی روشنی عطا کی آج ہماری شناخت اور عزت کی علامت ہیں ، یہ ہمارے بچوں کو وہ شعور فراہم کرتے ہیں جو نہ صرف دنیا کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتا ہے بلکہ انہیں دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بھی سکھاتا ہے !
ایک بات واضح رہنی چاہیے کہ مدارس کے تحفظ کی جنگ صرف ایک بل سے جیتی نہیں جاسکتی بلکہ یہ ایک طویل جدوجہد ہے جس میں حکومت، علماء ، طلباء اور عوام سب کا کردار اہم ہے ! اگر ہم واقعی اپنے مدارس کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر لمحے ان کے تحفظ کے لیے کمر بستہ رہنا ہوگا اور اس کے لیے اتحاد کی قوت کو استعمال کرنا ہوگا !
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی کوششوں میں کامیابی اور کفار کے نافذ کردہ تمام قوانین کو نیست ونابود فرمائے ، آمین !




درسِ حدیث
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ
کا مجلس ِذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' شارع رائیونڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین (ادارہ)
٭٭٭
سب محتاج اور گناہ گار ہیں اور اللّٰہ تعالٰی بخشنے والے ہیں
( درسِ حدیث ١٦٣ ١٩ شعبان ١٤٠٥ھ/١٠ مئی ١٩٨٥ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ !
سب گمراہ ہیں :
ایک حدیث شریف میں جو حضرت ابوذر رضی اللّٰہ عنہ کی ہے آتا ہے کہ جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں یَاعِبَادِیْ کُلُّکُمْ ضَآلّ اِلَّا مَنْ ہَدَیْتُ
تم سب کے سب گمراہی ہی پر ہو سوائے ان کے جنہیں میں ہدایت عطا فرما دوں
فَاسْئَلُوْنِی الْھُدٰی اَھْدِکُمْ مجھ سے تم ہدایت چاہو میں تم کو ہدایت دوں گا !
سب محتاج ہیں :
وَکُلُّکُمْ فُقَرَآئُ اِلاَّ مَنْ اَغْنَیْتُ فَاسْئَلُوْنِیْ اَرْزُقْکُمْ
تم سب کے سب محتاج ہو سوائے ان کے جنہیں میں بے نیاز کردوں مُسْتَغْنِی کردوں !
ہاتھ اورپائوں بھی نہیں ہلا سکتا آدمی ، ہاں خدا قدرت دے تو پھرٹھیک ہے ، ورنہ تو سراپا محتاج ہے ، احتیاج ہی احتیاج ہے اس کے اندر ، قدرت دیتا ہے تو ہاتھ پائوں ہلتے ہیں ،اصل میں تو قدرت خداوندکریم کے قبضہ میں ہے ! !
ارشاد فرمایا کہ جب سب کے سب محتاج ہو اور ہر چیز کے محتاج ہو ، تمام ضروریات جو انسان کی ہیں ان سب میں انسان محتاج ہے ضرورت مند ہے تو مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا !
سب گناہگار ہیں :
کُلُّکُمْ مُذْنِب اِلَّامَنْ عَافَیْتُ تم سب کے سب گناہگار ہو سوائے ان کے کہ جنہیں میں عافیت دوں
بچالوں گناہ سے، وہ بچے گا گناہ سے ورنہ طبعاً انسان گناہ کی طرف ، ضلالت کی طرف ، گمراہی کی طرف چلتا ہے
ارشاد فرمایا فَمَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ اَ نِّیْ ذُوْقُدْرَةٍ عَلَی الْمَغْفِرَةِ تم میں سے جو یہ جان لے کہ میں بخشنے پر قدرت رکھتا ہوں فَاسْتَغْفَرَنِیْ غَفَرْتُ لَہ وَلَا اُبَالِیْ پھر وہ مجھ سے معافی چاہے استغفار کرے
میں اسے معاف فرمادیتا ہوں اورمجھے کوئی پروا نہیں ہوتی ! کہ اس نے کیا گناہ کیے تھے اور ارشاد فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کہ میرے لیے تو سب برابر ہیں ! سب میری مخلوق سب میری سلطنت ، سب میری حکومت ، کوئی کہیں بھی چلا جائے وہاں میری حکومت ہے ، کچھ بھی کسی کو ملے وہ میرا ہی دیا ہوا ہے، دنیا میں ہے تو اورآخرت میں ہے تو ! !
اگر سب نیک ہو جائیں :
ارشاد فرمایا یہاں کہ وَلَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَحَیَّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ وَرَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ
اگر تم میں سے تمہارے اوّل اور آخر جو پہلے گزرچکے ہیں اورجو بعد میں آئیں گے اورجو زندہ ہیں اورجومر چکے ہیں اورجو تروتازہ ہیں یا خشک ہیں یہ سب کے سب اِجْتَمَعُوْا عَلٰی اَتْقٰی قَلْبِ عَبْدٍ مِّنْ عِبَادِیْ سارے کے سارے اگر اتنے نیک ہو جائیں کہ جو سب سے زیادہ نیک اورمتقی کا قلب ہے ویسے ہی سب کا قلب ہو جائے ،سب اس درجہ میں ہو جائیں تو ارشاد ہوتا ہے مَا زَادَ ذٰلِکَ فِیْ مُلْکِیْ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ میرے ملک میں اس سے کوئی زیادتی نہیں ہوگی کوئی بڑھوتری نہیں آئے گی حتی کہ ایک پِسُّو کے پر کے برابر بھی یہ نہیں کہ میری سلطنت بڑھ گئی ! !
میری سلطنت پہلے بھی تھی اب بھی ہے قرآن پاک میں آتا ہے قیامت کے دن جب صور پھونک دیا جائے گا اورسب فناء ہو چکے ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ
آج کس کا ملک ہے ؟ کس کی سلطنت ہے، کس کی حکومت ہے ؟ کوئی جواب دینے والا بھی نہیں ہوگا ! خود ہی ارشاد فرمائیں گے لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ اللہ ہی کے لیے ہے جو یکتا ہے جو قَہَّارْ ہے !
بڑے غلبہ والا ہے ، بہت بڑا غلبہ ہے اس کا ! ! !
اگر سب برے ہو جائیں :
اور اگر فرض کیجیے وَلَو اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُم وَحَےَّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ وَرَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ
سارے کے سارے اوّل اور آخر ، زندہ اور مردہ تر و تازہ اور خشک سارے جمع ہو جائیں
عَلٰی اَشْقٰی قَلْبِ عَبْدٍ مِّنْ عِبَادِیْ سب سے زیادہ بد نصیب بدبخت میرے بندوں میں جو ہوں اس کا دل جیسا ہے ویسے ہی سب کا دل اگر ہو جائے معاذ اللّٰہ ! تو مَا نَقَصَ ذٰلِکَ مِنْ مُّلْکِیْ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ
میری سلطنت میں میرے قبضہ وقدرت سے ایک پِسُّو کے پر کے برابر بھی کمی نہیں ہوگی ! !
کمی تو وہاں آئے جہاں کوئی چیز نکل کر کہیں جارہی ہو مگر وہ تو ہے ہی اس دائرہ میں ، وہ مخلوق ہے مخلوقات کے درجہ سے نہیں نکل سکتی چاہے وہ قریب ہو چاہے وہ دور ہو، چاہے جہاں ہو، اتنے فاصلہ پر ہو جو مانپے نہیں جا سکتے کوئی پیمانہ ان کا نہیں ہے روشنی کا بھی پیمانہ نہیں ، روشنی کے سالوں کا بھی پیمانہ نہیں !
عقل محدود ہے :
یہاں انسان کی عقل ختم ہو جاتی ہے ، محدود ہے عقل بھی ! اگرچہ بہت بڑی چیز ہے عقل بلا شبہ، پھر عقل کی سواریاں ہیں جن پر سوارہو کر وہ کام کرتی ہے ، قوتِ خیالیہ ہے ، قوتِ واہمہ اور دیگر طاقتیں ہیں اس قسم کی جو خدا نے عقل کو بخشی ہیں جن سے وہ سارے خیالات جمع کرکے آگے کے خاکے بنالیتی ہے (سوچتا ہے انسان ) ایسے کروں گا ایسے ہوگا ، یہ کروں گا یہ ہوگا ، اوروہ صحیح بناتی ہے ، ان ہی پر دنیا ترقی کیے جارہی ہے، لیکن تمام چیزوں کے باوجود وہ بہت چھوٹی سی چیز ہے اورمحدود ہے ! لامحدود کا تصور اس(عقل) کے بس کی بات نہیں ہے ! اس واسطے وہاں عاجزی کرلینی چاہیے اوراس طرف دماغ کودوڑانا ہی نہیں چاہیے ! اگر کوئی آدمی تنہا بیٹھ کر وسعتوں کا خیال کرنا شروع کردے اورساری عمر اس میں گزار دے تو بھی وہ وسعتیں محدود ہی ہوں گی ! اللہ پاک اور اس کا ملک لامحدود ہیں ! لہٰذا منع فرمادیا کہ اس طرح کے خیالات میں نہ پڑو ، یہ الجھن ہے ، تمہارے بس سے باہر ہے ، جو چیز تمہارے بس سے باہر ہے اس میں نہ پڑو ! اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرمارہے ہیں کہ سارے کا سارا میرا ہی ملک ہے، اس کونے میں سے اٹھا کروہاں رکھ دوں توکیا ہو گیا ؟ وہاں سے اٹھا کر یہاں رکھ دوں تو کیا ہو گیا ؟ فاسقوں کو دے دوں یہ چیز تو کیا ہو گیا ؟ اور نیکوں کو دے دوں تو کیا ہوگیا ؟ کوئی فرق نہیں پڑتا ، ہے تو سارا میرا ملک اورساری میری مخلوق ہے اور سب میرے قبضہ قدرت میں ہے !
ارشاد فرمایا وَلَوْاَنَّ اَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَحَےَّکُمْ وَمَیِّتَکُمْ وَرَطْبَکُمْ وَیَابِسَکُمْ اوّل آخرزندہ مردہ رطب ویابس اِجْتَمَعُوا فِیْ صَعِےْدٍ وَاحِدٍ سب ایک زمین میں جمع ہو جائیں اس کے بعد فَسَئَلَ کُلُّ اِنْسَانٍ مِّنْھُمْ مَابَلَغَتْ اُمْنِےَّتَہ ہر انسان اپنی اپنی انتہائی آرزو جو اس کی ہو سکتی ہے وہ میرے سامنے پیش کرے اورمانگے، مجھ سے سوال کریجہاں اس کی آروزوئیں انتہا کو پہنچ سکتی ہیں فَاَعْطَیْتُ کُلَّ سَائِلٍ مِّنْکُمْ اور میں ہر سائل کو وہ دے دوں جو اس کے دماغ کی اور اس کی عقل کی اور تمام قوتوں کی انتہا ہے ،ہر ایک کومیں وہ دے دوں ! تو ارشاد فرماتے ہیں مَانَقَصَ ذَالِکَ مِنْ مُّلْکِی تو بھی میرے ملک میں کوئی نقصان نہیں ہوتا ! !
اب یہ سمجھانے کے لیے ویسے ہی فرمادیا، حقیقت میں اتنا بھی نہیں ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ جو کچھ وہ دے رہا ہے اورجسے دے رہا ہے دونوں اس کا ملک ہیں تو کمی کہاں سے آئے گی ! اس کی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے یہاں سے یوں گھوم گئی ایک چیز تو کمی کا تو سوال ہی کوئی نہیں ! البتہ انسان سوچتا ہے کچھ تو ہواہوگا، تو ''کچھ ''کے لیے فرمادیا کہ بس یوں سمجھ لو کہ تم میں سے کوئی آدمی سمندر میں گزرے اوراس میں سوئی ڈبوئے پھر وہ اٹھالے تو اس سے کیا کمی آئے گی سمندر میں ؟ کچھ کمی نہیں آئے گی اس میں ایک طرح کی نفی ہی ہوگئی ! لیکن پھر بھی سمندر میں کمی تو آگئی چاہے قطرہ سے بھی کم کی کمی آئی ہو
اللہ کے ہاں یہ بھی نہیں ہے ! اور سمندر پھر محدود ہے اورخدا کی ذات لا محدود ہے ! یہی ایمان ہے ، یہی بتایا ہے انبیائِ کرام نے اورا سلام نے کہ اللہ کی ذات اورصفات لا محدود ہیں ، قدرت لامحدود ہے اس کی ! دیکھ لیں ہر آدمی کے چہرے گنتے جائیں یہاں سے وہاں تک پوری دنیا میں گھوم جائیں ، ایک دوسرے سے ملتا ہوا نہیں ہوگا ! اوراگر آپ کو دے د یا جائے کہ اتنے فٹ ہے اوراس میں اتنی شکلیں بنائو ، کتنی بنائیں گے تھک جائیں گے کچھ بھی نہیں کرسکتے، عقل میں نہیں آتی بات ! یہ بھی عقل سے باہر ہے کہ چار ارب کی تعداد میں انسان ہوں اورہر ایک دوسرے سے ممتاز ہو جدا ہو عقل سے باہر ہے ، اوریہ بھی نہیں کہ کوئی سوفٹ کا ہے کوئی ہزار فٹ کا ہے ،یہ بھی نہیں ہے ، وہ ذرا سا ہے چند فٹ کا دس فٹ کا بھی نہیں ہے اس میں اتنا فرق ! گویا اللہ تعالیٰ اپنی عظیم قدرت دکھاتا ہے !
اس طرح باطن بھی جد اہے جیسے ظاہرجدا ہے، ہر ایک کا معاملہ خدا سے جدا ہے ،تھوڑا تھوڑا سافرق ہے ، خدانے بنایا ہی جدا ہے ! تو ارشاد فرمایا کہ جیسے کوئی سوئی ڈبوئے سمندر میں اورنکالے تو کیا کمی آئے گی اس میں ؟ کوئی کمی نہیں آئے گی !
اللہ تعالیٰ سخی ہیں :
ارشاد فرمایا ذٰلِکَ بِاَنِّیْ جَوَّاد یہ اس لیے ہے کہ میری صفات میں ہے سخاوت '' مَاجِدْ '' کا معنٰی یہ ہے کہ وہ سخاوت میں زیادہ بڑھا ہوا ہے ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو میں نے کہا ہے وہ میں کربھی سکتا ہوں اورمیں کرتا ہی ہوں ! ارشاد فرمایا اَفْعَلُ مَا اُرِیْدُ جو میں چاہوں وہ کرلوں
عَطَائِیْ کَلَام وَعَذَابِیْ کَلَام میں کسی کو دینا چاہوں تو کلمہ '' کُنْ '' فرمادوں تو وہ ہو جائے گا !
اوراگر کسی کو عذاب میں مبتلا کروں تو بھی کلمہ '' کُنْ '' فرمادوں ، عذاب میں مبتلاہو جائے گا معاذاللّٰہ !
اِنَّمَا اَمْرِیْ لِشَیٍٔ اِذَا اَرَدْتُّ اَنْ اَقْولَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ ١ میں جب کوئی چیز چاہتا ہوں تو '' کُنْ '' فرمادوں تو وہ ہو جاتی ہے اور '' کُنْ'' فرمانے میں بھی دیر لگی اس سے بھی پہلے ہو جاتا ہے اور'' کُنْ '' فرمانے کا بھی میں محتاج نہیں ہوں ، ارادہ فرمالے تو ہو جاتا ہے !
اور اصل چیز اس کا ارادہ ہے، کبھی '' کُنْ '' فرمادے تو ہے اورحکم فرمادے تو ہے، آہستہ آہستہ کرنا چاہے تو ہے ، چھ مہینے بعد کھیتی ہوگی سال بعد فلاں موسم آئے گا نو مہینے دس مہینے بعد آئے گا
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٥٠
فلاں چیز کا موسم ! ایسے اس نے نظام بنا دیا یہاں ، اس کی قدرت ہے اس نے یہاں ایسے بنا دیا ! !
اورجنت میں ایسے بناد یا کہ جو ارادہ کرو، فوراً ہو جائے گا ! وہاں وہ نظام بنادیا ہے دیر ہی نہ لگے، پھل کو دل چاہتا ہے ابھی پیدا ہوجائے گا ،ابھی درخت اگے گا اوراس پر ابھی پھل آجائے گا اورابھی پک جائے گا، سارے کام ہو جائیں ! وہاں کے بارے میں یہ آتا ہے کہ وہاں یہ ہوگا ! تو اس نے ایک نظام بنادیا ہے اس پر چل رہا ہے ! وہ اس نظام کا محتاج نہیں ہے، جب وہ چاہے جو چیز چاہے وہ فوراً ہو سکتی ہے
یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت ہے اور آگے فضیلت استغفار کی آرہی ہے کہ جو بندہ یہ سمجھ لے کہ میں بخشنے والا ہوں اورمجھ سے وہ استغفار کرے غَفَرْتُ لَہ میں اسے بخش ہی دیتا ہوں وَلَا اُبَالِیْ پروا بھی نہیں کرتا، بس میں بخش دوں گا اورجو اس کی تَقْصِیْرَاتْ ہیں وہ بھی معاف کردیتا ہوں ! ! !
ایک اشکال کا جواب : یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ ایسے بخش دیتاہے تو بعض لوگوں کے حقوق بعض لوگوں کے ذمہ ہوتے ہیں وہ کیسے بخش دیتا ہے ؟ ؟
تو اس کا بھی انتظام ہے، اللہ تعالیٰ بدل دلوا دیتے ہیں اس سے قیامت کے دن اپنے پاس سے ! جسے بخشنا ہے اسے بخش ہی دیں گے ! تو جن کے حقوق ہیں ان کے حقوق ادا فرمادیں گے اپنے پاس سے ! بس اپنے اعمال پر نظر رہنی چاہیے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کواپنی رضا اورفضل سے نوازے، آمین
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جولائی ٢٠٠٥ء )
٭٭٭




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ
کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1




مقاصدِ بعثت ، فرائضِ نبوت اور تکمیل
٭٭٭
سیّد الملة و مؤرخ الملة حضرت مولانا سیّد محمد میاں صاحب کی تصنیفِ لطیف
سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللّٰہ '' صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اوراق
٭٭٭
دعا اور قبولیتِ دعا
سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام جب بیت اللّٰہ کی بنیادیں بلند کررہے تھے تو دل کی تمناؤں کے ترجمان دعائیہ کلمات یہ تھے جو زبانِ مبارک پر جاری تھے
( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) ١
''اے ہمارے رب ! اٹھا ان میں سے ایک رسول ان ہی میں کا، پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھادے ان کو کتاب اور پکی باتیں اور ان کو سنوار ے''(شاہ عبدالقادر)
قبولیتِ دعا
( ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الاُمِّیِّنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ) ٢
''وہی ہے جس نے اٹھایا اَن پڑھوں میں ایک رسول ان ہی میں کا، پڑھتا ان کے پاس اس کی آیتیں اور ان کو سنوارتا اور سکھاتا کتاب اور عقلمندی''(شاہ عبدالقادر)
( لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ ) ٣
''اللہ نے احسان کیا ایمان والوں پر جو بھیجا ان میں رسول ان ہی میں کا ،پڑھتا ہے ان پر آیتیں اس کی اور سنواتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور کام کی بات ''
( شاہ عبدالقادر )
١ سُورة البقرة : ١٢٩ ٢ سُورة الجمعة : ٢ ٣ سُورہ آلِ عمران : ١٦٤
''دمے آموز آں را کتاب وعلم'' ١ ( شاہ ولی اللّٰہ )
دعا اور قبولیت ِ دعا کے الفاظ پر دوبارہ نظر ڈال لیجیے حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کے مقاصد یہ تھے (١) تلاوت آیات اللّٰہ (٢) تعلیم کتاب اللّٰہ (٣) تعلیم الحکمة (٤) تزکیة

(١) تلاوتِ آیات اللہ
( یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ) کا ترجمہ یہی کیا گیا ہے ''پڑھتا ہے ان پر آیتیں ''
لیکن پڑھنے ہی کے لیے لفظ '' قرأت '' بھی آتا ہے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو حکم ہوا کہ پڑھو تو قرأت کا لفظ ہی لایا گیا ( اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقْ ) مگر یہاں دعا میں بھی '' یَتْلُوْا '' ہے اور قبولیت دعا میں بھی
'' یَتْلُوْا'' ہی ارشاد ہوا ہے یعنی تلاوت کرتا ہے تو کیا قرأت اور تلاوت میں کچھ فرق ہے ؟
واقعہ یہی ہے تلاوت اور قرأت میں فرق ہے تلاوت کے معنی صرف پڑھنے کے نہیں ہیں ٢ بلکہ تلاوت میں عمل بھی ملحوظ ہوتا ہے پھر عمل بھی ایسا کہ تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے یعنی تلاوت میں صرف قول نہیں ہوتا بلکہ قول مع سعی پیہم ٣ یعنی جس طرح آپ آیتیں سنائیں گے ساتھ ساتھ عمل اور عمل کے تسلسل کا بھی مشاہدہ کرادیں گے یعنی جس طرح یہ ایک معجزہ ہے کہ ایک اُمیمحض جس نے عمر عزیز کے چالیس دور اس طرح گزارے کہ پڑھنے پڑھانے سے نا آشنا تھا اس کو ''اِقْرَأ '' کا حکم ہورہا ہے اور وہ قرأت کررہا ہے اسی طرح اس معجزہ کے ساتھ یہ ایک عجیب وغریب مشاہدہ بھی ہے کہ پڑھ کر سنانے والا جو کچھ پڑھتا ہے وہ خود اس کی عملی تصویر بن جاتا ہے یعنی پڑھنے کے ساتھ ایسا کردار بھی پیش کرتا ہے کہ آپ اس کے عمل سے بھی اس کو پڑھ سکتے ہیں ! ایک مثال ملا حظہ فرمائیے
١ سکھلا وے ان کو کتاب اور تہہ کی باتیں (تفسیر عثمانی ص ٣٠)
٢ یہ مقصد نہیں ہے کہ تلاوت قرآت اور پڑھنے کے معنی میں نہیں آتا قرآن شریف میں بہت جگہ محض پڑھنے کے معنی میں بھی آیا ہے( وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَأَ اٰدَمَ بِالْحَقِّ ) ( نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ ) وغیرہ مگر جب ماخذ کا لحاظ کیا جائے تو صرف قرأت کے معنی نہیں ہوتے بلکہ کچھ اضافہ بھی ہوتا ہے تفصیل دوسرے حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے
٣ تلاوت کا مأخذ '' تلو'' ہے جس کے معنی ہیں اتباع کرنا، پیچھے چلنا، اس طرح کہ آپ میں اور جس کے پیچھے چل رہے ہیں اس کے درمیان کوئی اور چیز حائل نہ ہو (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
ارشادِ ربانی ہے ( اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہ نَافِلَةً لَّکَ عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) ١
شاہ صاحبان کے الفاظ میں اردو اور فارسی ترجمہ ملاحظہ فرمائیے
''کھڑی رکھ نماز، سورج کے ڈھلنے سے رات کی اندھیری تک ٢ اور قرآن پڑھنا فجر کا بے شک قرآن پڑھنا فجر کا ہوتا ہے روبرو ٣ اور کچھ رات جاگتا رہ اس میں یہ بڑھتی ہے تجھ کو شاید کھڑا کرے تجھ کو تیرا رب تعریف کے مقام میں '' ٤
( شاہ عبدالقادر صاحب رحمہ اللّٰہ )




(بقیہ حاشیہ ص ١٣)
٭٭٭
تَلَاہُ : تَبِعَہُ مُتَابَعَةً لَیْسَ بَیْنَھُمْ مَا لَیْسَ مِنْھَا وَذٰلِکَ یَکُوْنُ تَارَةً بِالْجِسْمِ وَ تَارَةً بِالْاِقْتَدَائِ فِی الْحُکْمِ وَمَصْدَرُہُ تُلُوًّ وَ تِلْو۔ وَتَارَةً بِالْقِرَأَةِ اَوْ تَدَبُّرِ الْمَعْنٰی وَمَصْدَرُہُ تِلَاوَة ( وَالْقَمَرِ اِذَا تَلَاھَا ) اَرَاَد بِہِ ھٰھُنَا اَلْاِتِّبَاعُ عَلٰی سَبِیْلِ الْاِقْتَدَائِ وَالمَرْتَبَةِ وَذٰلِکَ اَنَّہ یُقَالُ اِنَّ الْقَمَرَ ھُوَ یَقْتَبِسُ النُّوْرَ مِنَ الشَّمْسِ وَھُوَ لَھَا بِمَنْزِلَةِ الْخَلِیْفَةِ ...( ثُمَّ قَالَ )... وَالتِّلَاوَةُ تَخْتَصُّ بِاِتِّبَاعِ کُتُبِ اللّٰہِ الْمُنَزَّلَةِ تَارَةً بِالْقِرَأَةِ وَتَارَةً بِالْاِرْتِسَامِ لِمَا فِیْھَا مِنْ اَمْرٍ وَ نَھْیٍ وَ تَرْغِیْبٍ وَ تَرْھِیْبٍ اَوْ مَا یُتَوَھَّمُ فِیْہِ ذٰلِکَ وَھُوَ اَخَصُّ مِنَ الْقِرَائَ ةِ فَکُلُّ تِلَاوَةٍ قِرَائَ ة وَلَیْسَ کُلُّ قِرَائَ ةٍ تِلَاوَة لَا یُقَالُ تَلَوْتُ رُقْعَتَک َوَاِنَّمَا یُقَالُ فِی الْقُرْآنِ فِیْ شیْئٍی اِذَا قَرَأْتَہُ وَجَبَ عَلَیْکَ اِتِّبَاعُہُ
( المفردات فی غریب القرآن ، باب التاء ص ٩٧ ، الناشر: مکتبة نزار مصطفی الباز، السعودیة )
١ سُورة بنی اسرائیل : ٧٨ ، ٧٩
٢ یعنی کواکب پرستوں کے طریقہ کے برخلاف ! کواکب پرست طلوع آفتاب کے وقت کی پوجا کرتے ہیں تو خدا پرستوں کی عبادت طلوع آفتاب سے پہلے ہوتی ہے یا زوال آفتاب کے بعد۔ ( واللّٰہ اعلم بالصواب )
٣ یعنی دن اور رات کے کار پرداز فرشتے اس وقت جمع ہوتے ہیں وہ قرأت سنتے ہیں کیونکہ وہ خود قرأت نہیں کرسکتے ان کا وظیفہ تسبیح وتحمید ہوتا ہے ( واللّٰہ اعلم )
٤ وہ تعریف کا مقام ہے شفاعت کا جب کوئی نہ بول سکے گا تب حضرت عرض کر کر خلق کو چھڑا دیں گے تکلیف سے
(موضح القرآن)
''برپا دار نماز را وقت زوال آفتاب تاہجوم تاریکی شب ولازم گیر قرآن خواندن فجر را ، ہر آئینہ قرآن خواندن فجر را حاضر میشوند فرشتگان،
ودر بعض شب بیدار باش بقرآن شب خیزی زیادہ شد برائے تو، نزدیک است کہ ایستادہ کند ترا پرورگار تو بمقام پسندیدہ'' ١ ( شاہ ولی اللّٰہ صاحب )
وحی الٰہی کے کلمات کو شمار کیجیے جو ان آ یتوں میں ہیں ، کل تیس لفظ ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے عمل اور کردار پر نظر ڈالیے تو دفتر بے پایاں ہے ! پانچ فرض ، ان کے اجزاء ترکیبی قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ، ان کے اوقات ،پڑھنے کا انفرادی اور جماعتی طریقہ پھر ہر ایک کے ساتھ سنتیں ، نفلیں ، ان کے آداب اور طریقے جو احادیث کے سینکڑوں صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ، یہ سب تلاوت کے معنی واضح کر رہے ہیں
فریضہ نماز عام مسلمانوں کے لیے
چار وقت کی وہ نمازیں جن کا سلسلہ آفتاب ڈھلنے کے وقت سے شروع ہو کر اندھیری رات گئے تک رہتا ہے اور پانچویں وقت کی نماز (صبح کی نماز) جس میں قرآن شریف پڑھنے کی خاص تاکید ہے کیونکہ یہ ''مَشْہُوْد'' ہوتا ہے یعنی اس وقت دن اور رات کے کار گزار فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے یہ پانچ نمازیں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی طرح تمام مسلمانوں پر فرض ہیں ۔
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خصوصیت
لیکن آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ ان پانچ نمازوں کے علاوہ آپ کے لیے ایک اور حکم بھی ہے
( فَتَھَجَّدْ بِہ نَافِلَةً لَّکَ ) ٢ جس کے معنی حضرت شاہ عبدالقادر نے یہ کیے ہیں
''کچھ رات جاگتا رہ اس میں (نماز پڑھنے میں ) ، یہ بڑھتی ہے تجھ کو''
یعنی یہ خاص طور پر آپ کے حق میں اضافہ ہے حضرت شاہ ولی اللّٰہ صاحب نے ترجمہ کیا ہے
''شب خیزی زیادہ شد برائے تو''
١ ''قائم رکھ نماز سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور قرآن پڑھنا فجر کا بے شک قرآن پڑھنا فجر کا ہوتا ہے روبرو اور کچھ رات جاگتا رہ قرآن کے ساتھ یہ زیادتی(بڑھوتری) ہے تیرے لیے ، قریب ہے کہ کھڑا کر دے تجھ کو تیرا رب مقام محمود میں (تعریف کے مقام میں ) (ماخوذ از تفسیر عثمانی ص ٦٣٦) ٢ سُورة بنی اسرائیل : ٧٩
گویا نماز تہجد بھی آپ پر فرض ہے ! یہ فرض امت پر نہیں ١ امت کے حق میں صرف سنت ہے، نہ پڑھیں تو کوئی گناہ نہیں مگر آپ کے حق میں فرض ہے ٢
١ امام ابوحنیفة نے وترکو واجب قرار دیا ہے، یہ بھی تہجد ہی کا حصہ ہے ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد صرف وتروں کے متعلق ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ اَمَدَّ کُمْ بِصَلٰوةٍ ھِیَ خَیْر لَّکُمْ مِنْ حُمْرِالنَّعَمِ الْوِتْرُ جَعَلَہُ اللّٰہُ لَکُمْ فِیْمَا بَیْنَ صَلاَةِ الْعِشَائِ اِلٰی اَنْ یَّطْلُعَ الْفَجْرُ ( سُنن ترمذی رقم الحدیث ٤٥٢ و سُنن ابوداود رقم الحدیث ١٤١٨ )
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک نماز کا اور اضافہ کردیا ہے یہ نماز ایسی ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی دولت (حُمْرِالنَّعَمْ ) سے بھی بہتر ہے یہ نماز وتر ہے جس کا وقت اللہ تعالیٰ نے نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان مقرر کیا ہے
٢ اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ نبوت کے دور ِ اوّل میں جو حکم ہوا تھا ( قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلَیْلًا ) ( سُورة المزمل: ٢ ) ''باستثناء تھوڑی سی شب کے تمام رات قیام کرو'' وہ منسوخ نہیں ہوا کیونکہ اس کی جو علت یا حکمت بیان کی گئی تھی وہ آخر تک باقی رہی ! حکمت یا علت یہ تھی کہ اس سے نفس پامال ہوتا ہے قول اور فعل میں موافقت ہوتی ہے اور دعاء اور ذکر بہت ہی ٹھیک طرح ادا ہوتے ہیں ( اِِنَّ نَاشِئَةَ الَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًا ) ( سُورة المزمل: ٦ )
''بے شک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے اور (دعا ہو یا قرأت )ہربات خوب ٹھیک نکلتی ہے''
یہ آپ کی حیات ِ مقدس کا وہ جوہری جزو تھا جو ہمیشہ قائم رہنا چاہیے تھا چنانچہ قائم رہا تو اس کو پیدا کرنے والا عمل یعنی قِیَامُ اللَّیْل وہ بھی لازم رہا ! پھر ارشاد ربانی ( فَتَھَجَّدْ بِہ ) نے اس کو اور پختہ کردیا، کیونکہ جب اسی آیت میں بشارت دی گئی کہ آپ کو مقام محمود پر مبعوث کیا جائے گا( عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ) ( بنی اسرائیل : ٧٩ ) اور ظاہر کیا گیا کہ تہجد اس کا ذریعہ ہوگا، تو ایک علت یا حکمت کا اور اضافہ ہوگیا اور مطلب یہ ہوا کہ آپ کی یہ خصوصیات ہیں کہ(١) ہمیشہ نفس پامال (بتغیر دیگر مطیع اور فرمانبردار) (٢)قول اور فعل میں مطابقت، ذکر اور دعا کی نہایت صحیح طرح سے ادائیگی (٤)اور مقامِ محمود پر آپ مبعوث فرمائے جائیں گے ! یہ تمام خصوصیات قِیَامُ اللَّیْل پر مرتب ہوں گی لہٰذا قِیَامُ اللَّیْل یعنی تہجد مخصوص طور پر آپ پر فرض رہے گا ! !
البتہ یہ تخفیف ضرور ہوئی کہ پہلے حکم تھا کم و بیش نصف شب قیام کرو، بعد میں یہ سہولت کردی گئی کہ قرأت سہولت کے مطابق کرو ( فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ ) ( سُورة المزمل : ٢٠ )
امام ابوحنیفة تہجد اور وتر میں فرق کرتے ہیں وہ تہجد کو عام مسلمانوں کے لیے سنت قرار دیتے ہیں اور صرف وتر کی تین رکعت کو واجب قرار دیتے ہیں ! امام صاحب کا استدلال احادیث سے بھی ہے جو پہلے حاشیہ میں بیان کی گئیں (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
اس خصوصیت کی علت اور حکمت بھی بیان کی گئی کہ آپ کو مقامِ محمود کا منصب ِ عالی عطا کرنا ہے
( عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ) ١ ''قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تمہیں ایسے مقام پر پہنچائے جو عالمگیر اور دائمی ستائش کا مقام ہو جس کی ہر طرح تعریف کی جائے !
(بقیہ حاشیہ ص ١٦) اور استاد محترم حضرت علامہ انور شاہ رحمہ اللّٰہ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت امام صاحب کی دلیل قرآن پاک کی یہ آیتیں بھی ہیں جن میں قِیَامُ اللَّیْل کا حکم ہے ( قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا ) ( سُورة المزمل : ٢ )
یہ حکم جس طرح آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے لیے رہا ، امت کے لیے بھی رہا منسوخ نہیں ہوا ،چنانچہ لفظ جمع کے ساتھ ارشاد ہوا ( فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ )''تم پڑھو جس قدر میسر ہو'' البتہ آپ کے لیے یہ تخفیف کی گئی کہ قرأت بقدر سہولت ہو اور امت کو مزید سہولت یہ دی گئی کہ آخر شب کو بیدا ہونے کا یقین نہ ہو تو شروع شب میں وتر کی تین رکعتیں پڑھ لیں جیسا کہ حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا خطرہ ہو کہ آخرشب میں نہیں اٹھ سکیں گے تو اوّل شب میں وتر پڑھ لیں ۔ (صحیح مسلم ج١ ص ٢٥٨ )
بایں ہمہ یہ نظر انداز نہ ہونا چاہیے کہ حضراتِ علماء کا ایک قول یہ بھی ہے کہ تہجد آنحضرت کے حق میں نفل کا درجہ ہی رکھتا تھا آپ پر فرض نہیں تھا ! مگر یہ صرف علمی نکتہ سنجی ہے ورنہ عمل کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اسی طرح پابند رہے جیسے فرائض کے ! ( وَاللّٰہُ اَعْلَمْ بِالصَّوَابْ )
١ سُورة بنی اسرائیل : ٧٩ '' مقامِ محمود '' یَحْمَدُہُ اَھْلُ الْجَمْعِ کُلُّھُمْ ''یعنی میدانِ حشر میں جمع ہونے والی ساری مخلوق آپ کی تعریف کرے گی'' (بخاری ) یہ اس لیے کہ آپ پوری مخلوق کے لیے شفاعت کریں گے اور آپ کی سفارش قبول ہوگی احادیث میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ میدانِ حشر میں پوری مخلوق جمع ہوگی اور منتظر ہوگی کہ اس کا حساب ہو اور ان کے حق میں فیصلہ ہو ! ایک دراز مدت اس انتظار میں گزر جائے گی ! اہل ایمان کو اس کی درازی اتنی محسوس نہیں ہوگی مگر اہلِ کفر کے لیے یہ درازی خود مصیبت بن جائے گی تو اب کسی ایسے مقرب بارگاہ کی تلاش ہوگی جو حضرت حق جل مجدہ سے سفارش کرے کہ حساب کر کے ان کا معاملہ کردیا جائے، مخلوق حضرت آدم، حضرت ابراہیم اور دیگر اکابر انبیاء علیہم السلام کے پاس دوڑے گی کہ وہ شفاعت کریں گے مگر تمام انبیاء (علیہم السلام) معذرت کردیں گے ! ! اور حضرت خاتم الانبیاء علیہم السلام کا نام لیں گے تب مخلوق رحمتِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف رجوع کرے گی، آپ بارگاہ ِ الٰہی میں حمدوثناء کرتے ہوئے سجدہ کریں گے اور پوری مخلوق کے لیے سفارش کریں گے تو حساب شروع ہوگا (بخاری وترمذی شریف وغیرہما) اب ساری مخلوق آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی اس سفارش سے بہرہ اندوز ہوگی ! ! اس کو '' شَفَاعَتِ کُبْرٰی '' کہا جاتا ہے ! !
جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے
یہ ایک عام اصول ہے یہاں یہی ظاہر کرنا ہے کہ سرورکائنات صلی اللہ عليہ وسلم کا جس طرح یہ مقامِ عالی ہے کہ ''بعد از بزرگ توئی قصہ مختصر'' اسی طرح آپ کے فرائض میں بھی اضافہ ہے اور ایسا اضافہ کہ عام انسانوں کو یہ حوصلہ نہیں ہے کہ اس اضافہ کو برداشت کرسکیں ١ یہ حوصلہ بھی رب ِمحمد نے صرف محمد ہی کو عطا فرمایا تھا جس نے اس اضافہ کو برداشت کیا ٢ (صلوات اللّٰہ علیہ دائمًا ابدًا )
١ مگر یہ اضافہ عجیب قسم کا ہے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے عرض کیا : یا رسول اللّٰہ آپ تو معصوم ومغفور ہیں پھریہ ریاضت کیوں کہ پائے مبارک پر ورم آجاتا ہے تو آپ نے جواب دیا اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا ( بخاری ص ٧١٦ ) ''کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں '' یعنی عام اہل ایمان کے لیے فرضیت اس لیے ہے کہ گناہوں کا کفارہ ہو اور آپ کے لیے فرضیت بر بناء شکر ہے اسی لیے نفلیں جو شکر ادا کرنے کے لیے ہوتی ہیں وہ آپ کے حق میں فرض ہیں !
( وَاللّٰہُ اَعْلَمْ بِالصَّوَابْ )
٢ برداشت کرنے کی صورت ملاحظہ فرمائیے حضرت حذیفة رضی اللّٰہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نیت باندھنے میں آپ نے تین دفعہ اللہ اکبر فرمایا پھر فرمایا : ذُو الْمَلَکُوْتِ وَ الْجَبَرُوْتِ وَالْکِبْرِیَائِ وَالْعَظْمَةِ ''مالک ِملک ، اقتدرِ اعلیٰ کا مالک، بڑائی اور عظمت والا '' پھر قرأت شروع کی تو پوری سورۂ بقرة نہایت اطمینان سے پڑھی پھر اسی کے مناسب بہت طویل رکوع کیا پھر اتنا ہی طویل قیام کیا پھر اتنا ہی طویل سجدہ کیا، سجدہ کے بعد بڑے اطمینان سے دیر تک بیٹھے رہے پھر دوسرا سجدہ کر کے کھڑے ہوئے تو سورۂ آلِ عمران پوری پڑھی، تیسری رکعت میں سورة نساء مکمل ، چوتھی رکعت میں سورة مائدة یا سورة الانعام پوری پڑھی ! !
صحابی کے بعد راوی شعبة کو شک ہے کہ کون سی سورت کا نام لیا تھا (ابوداود باب ما یقول فی الرکوع)
حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ایسا بھی کرتے تھے کہ تین دفعہ میں تہجد پڑھا کرتے تھے یعنی ایک مرتبہ اٹھے، وضو کیا مسواک کی نفلیں پڑھیں پھر آرام فرمایا ! تھوڑی دیر تک سوتے رہے، پھر اٹھے ! اس طرح تین دفعہ سوئے پھر اٹھے اور نوافل پڑھتے تھے (صحیح مسلم )
ظاہر ہے بار بار اٹھنا کتنا شاق ہوتا ہے پھر تلاوت کی صورت حضرت عائشة اور حضرت اُم سلمة رضی اللّٰہ عنہما نے بیان فرمائی کہ ایک حرف الگ الگ کھینچ کر ! ! (بخاری ، ابوداود ، ترمذی وغیرہ)
حضرت عائشة رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ آخر میں آپ تہجد کی نماز بیٹھ کر ادا فرماتے تھے مگر صورت یہ ہوتی تھی کہ پہلے بیٹھ کر پڑھتے رہتے جب تیس چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہوکر پڑھتے پھر رکوع کیا کرتے تھے
( صحیح البخاری ص ١٣٥ و ص ١٥١ وغیرہ )
بسلسلہ عبادت آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خصوصیات
نماز کے سلسلہ میں صرف یہی نہیں کہ تہجد آپ پر فرض تھا بلکہ تہجد کے علاوہ بھی اور نوافل آپ کے حق میں فرض کا درجہ رکھتی تھیں ! ! ١
روزہ
نماز کے علاوہ روزے کے بارے میں خصوصیت یہ تھی کہ چند روز کا مسلسل روزہ کہ بیچ میں افطار قطعاً نہ ہوا اُمت کو اس کی جازت نہیں مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا معمول تھا ! ! ایک مرتبہ صحابہ کرام نے اصرار کرکے اجازت حاصل کی اور مسلسل روزہ رکھنا شروع کیا ٢ مگر صرف دو روز بعد ہی اندازہ ہوگیا
نہ ہرجائے مرکب تواں تاختن کہ جاہا سپر باید انداختن ٣
حضرات علماء نے روزے کے تین درجے قرار دئیے ہیں
(١) عوام کا روزہ ،یعنی فقہی قاعدوں کے مطابق کھانے پینے وغیرہ سے رکنا اور مکروہات ومحرمات
یعنی غیبت، جھوٹ، خیانت، حسد، مکروفریب وغیرہ سے اجتناب واحتیاط
(٢) خواص کا روزہ، یعنی صرف مکروہات ومحرمات سے اجتناب نہیں بلکہ ایسی جائز چیزوں سے بھی
احتیاط برتی جائے جو یادِ خدا سے غافل کردیں ! ! مثلاً شعر وشاعری یا شکار وغیرہ
(٣) اخص الخواص کا روزہ، اللہ کے سوا ہر چیز سے یکسوئی اور برطرفی اور صرف ذات ِ حق جل مجدہ
میں محویت اور اس کی ذات وصفات میں ایسی مشغولیت کہ وہی جملہ توجہات کا محور ہوں ! !
١ مثلاً ظہر کی سنتیں اگر وقت پر نہ پڑھی جائیں تو ان کی قضا نہیں ہے لیکن ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی ظہر کی سنتیں رہ گئیں تو آپ نے نمازِ عصر کے بعد ان کو پڑھا( بخاری ص ١٦٤ ، و ص ١٦٥) پھر ان کو معمول بنالیا (بخاری ص ٨٣) حالانکہ نمازِ عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک اور نماز ِ صبح کے بعد سے طلوع آفتاب تک نوافل سے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے( بخاری ص ٨٣) مگر چونکہ آپ کے حق میں نوافل فرض کا درجہ رکھتی تھیں لہٰذا آپ نے
عصر کے بعد یہ نفلیں پڑھیں ! ( وَاللّٰہُ اَعْلَمْ بِالصَّوَابْ )
٢ صحیح البخاری باب التنکیل لمن اکثر الوصال ص ٢٦٣
٣ ہر جگہ گھوڑے نہیں دوڑائے جاسکتے ، بہت سی جگہیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہاں سپر ڈال دینا چاہیے
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے روزے کی یہی شان ہوتی تھی اور یہ شان نقطۂ عروج پر پہنچ جاتی تھی جب آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے
اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عِیَالِہ ١
''مخلوق، اللہ کا کنبہ ہے، بس خلق ِ خدا میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب وہ ہے جو اللہ کے عیال پر احسان کرے''
عجیب و غریب بات یہ ہوتی تھی کہ جس طرح توجہ اِلی اللّٰہ اور ذات ِ حق میں انہماک بڑھتا تھا اتنا ہی اس کی مخلوق کے حق میں رحم و کرم اور جود و سخا کا درجہ بڑھتا تھا یعنی پروردگار کی محبت اس کی پروردہ مخلوق پر لطف واحسان کی صورت میں جلوہ گر ہوتی تھی ! !
سیدة عائشة صدیقة رضی اللّٰہ عنہا کی شہادت ملاحظہ فرمائیے
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم اَجْوَدَ النَّاسِ وَ کَانَ اَجْوَدُ مِا یَکُوْنُ فِیْ رَمَضَانَ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ وَکَانَ یَلْقَاہُ فِیْ کُلِّ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِسُہُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم اَجْوَدُ بِالْخَیْرِ مِنَ الرِّیْحِ الْمُرْسَلَةِ ۔ ٢
''(یعنی ) رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم سب سے زیادہ سختی تھے اور آپ کی بے پناہ سخاوت کا زیادہ ظہور رمضان میں ہوتا تھا جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کیا کرتے تھے ! اور حضرت جبرائیل کی ملاقات رمضان شریف کی ہر ایک رات میں ہوتی تھی وہ آپ سے قرآن شریف کا دور کیا کرتے تھے ! بس واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی سخاوت اور بخشش( جو سال بھر نسیم صبح رہتی تھی) اس زمانہ میں وہ آندھی سے زیادہ تیز ہوجاتی تھی( جس کے جھونکے کسی رکاوٹ کے پابند نہیں ہوتے ہر طرف پہنچتے ہیں اور ہر ایک کو متاثر کرتے ہیں ) ''
١ مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٤٩٩٨ از شعب الایمان للبہیقی باب الشفقة والرحمة علی الخلق
٢ صحیح البخاری کتاب بدء الوحی رقم الحدیث ٦ ص ٣ و ٢٥٥ وغیرہ
زکوة
امت کے لیے ایک نصاب معین کیا گیا کہ اس سے کم پر زکوة ہی واجب نہیں ہوتی اور جب واجب ہوجاتی ہے تو صرف چالیسواں حصہ دینا ہوتا ہے ، باقی سب مال حلال ومباح بلکہ پاکیزہ اور طیب
مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا دستور العمل پہلے گزر چکا ہے کہ آپ نے طے فرما لیا تھا کہ کا شانہ نبوت سونے چاندی سے پاک رہے گا ! ! دینار تو دینار ،درہم کی بھی مجال نہیں تھی کہ وہ دولت کدہ پاک میں رات گزار سکے ! ١
جہاد
جہاد کے سلسلہ میں عام مسلمانوں کے لیے زَحْفْ عَنِ الْقِتَالْ حرام ہے ٢ ! لیکن آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی شان یہ تھی کہ ابھی دولت کدہ سے بھی نہیں نکلے صرف ہتھیار سجائے ہیں اس وقت ہر ایک مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ اسلحہ اتار دے اور موقع ہو تو ارادہ جنگ بھی ملتوی کردے لیکن آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ہتھیار سجانے کے بعد جائز نہیں سمجھتے تھے کہ اسلحہ اتار دیں جب تک فیصلہ کن جنگ نہ کرلیں ! ! ٣
غرض یہ کردار تھا جس کو پیش کرتے ہوئے آپ آیات اللّٰہ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے جو قرآن نہیں پڑھ سکتے تھے وہ آپ کے عمل سے آیات اللّٰہ کی تلاوت کیا کرتے تھے ! !
خلاصہ کلام :
تلاوت آیات اللہ کی تشریح کو ہم تبرکاً شہید ِ وفا عبداللّٰہ بن رواحة کے اشعار پر ختم کرتے ہیں ٤
وَفِینَا رَسُوْلُ اللّٰہِ یَتْلُوْ کِتَابَہ اِذَا انْشَقَّ مَعْرُوْف مِنَ الْفَجْرِ سَاطِعُ
اَرَانَا الْھُدٰی بَعْدَ الْعَمٰی فَقُلُوْبُنَا بِہ مُوْقِنَات اَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ
یَبِیْتُ یُجَافِیْ جَنْبُہ عَنْ فِرَاشِہ اِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِکِیْنَ الْمَضَاجِعُ
( صحیح البخاری کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٥٥ )
١ اس سلسلہ میں مفصل بحث گزرچکی ہے کہ کس طرح سب کچھ خرچ کر کے ''فاقہ'' اختیار کیا جاتا تھا ! (محمد میاں )
٢ یعنی جنگ کے وقت میدانِ جنگ سے بھاگ جانا ٣ البدایة والنہایة ج٤ ص ١٣
٤ وہ جاں نثار اور فدا کار جو غزوۂ موتہ میں شہید ہوئے
(١)''ہمارے بیچ میں اللہ کے رسول ہیں ( صلی اللہ عليہ وسلم ) جو کتاب اللہ کی تلاوت اس وقت کرتے ہیں جبکہ وہ معروف اور جانی پہچانی شے جو روشن ہوتی ہے جس کو فجر کہتے ہیں شق ہوتی ہے (پوپھٹتی ہے)''
(٢) اس اللہ کے رسول نے ہمیں نابینائی (گمراہی) کے بعد ہدایت کا راستہ دکھایا، پس ہمارے قلوب اس کا یقین رکھتے ہیں کہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں وہ ہوکر رہے گا !
(٣) یہ( اللہ کے رسول) اس طرح رات گزارتے ہیں کہ آپ کا پہلو بستر سے الگ رہتا ہے
(خاص) اس وقت جبکہ مشرکین بستر پر(دراز ہوتے ہیں اور بستران کے جثوں ) سے بوجھل ہوتے ہیں
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللّٰہ '' صلی اللہ عليہ وسلم ص ٥٣٠ تا ٥٤١ ناشر کتابستان دہلی )
٭٭٭





وفیات
٭٭٭
٭ گزشتہ ماہ جمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کے سابق امیر سیٹھ عبدالوہاب مرحوم کی اہلیہ ، محترم سیٹھ عدنان وہاب صاحب رہنما جے یو آئی ضلع لاہور کی والدہ اور جے یو آئی ضلع لاہور کے معاون کنوینئر جناب عبدالواسع صاحب کی دادی صاحبہ طویل علالت کے بعد انتقال فرما گئیں
٭ ١٨ دسمبر کو شاعر ختم نبوت حضرت سید امین شاہ صاحب گیلانی رحمة اللہ علیہ کے صاحبزادے ، سید سلمان صاحب گیلانی کے چھوٹے بھائی جناب سید حسان صاحب گیلانی انتقال فرماگئے
٭ ٢٨ دسمبر کوجامعہ مدنیہ جدید کے معاون ناظم مولانا محمد عامر اخلاق صاحب کی خالہ زاد بہن مختصر علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئیں
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے وہ مضامین جو پندرہ بیس برس قبل ماہنامہ انوار مدینہ میں شائع ہوچکے ہیں قارئین کرام کے مطالبہ اور خواہش پر ان کو پھر سے ہر ماہ سلسلہ وار ''خانقاہ حامدیہ '' کے زیر اہتمام اس مؤقر جریدہ میں بطور قندِ مکرر شائع کیا جارہا ہے ! اللہ تعالیٰ قبول فرمائے (ادارہ)
٭٭٭
علاماتِ قیامت
٭٭٭
قرآنی آیات اوراحادیث کی روشنی میں الہامی تجزیہ
( قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب )
عنوانات و تزئین ،حاشیہ و نظر ثانی بتغیرِ یسیر : حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب
٭٭٭
قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ( وَاِنَّہ لَعِلْم لِّلسَّاعَةِ ) ١ '' اور وہ نشان ہے قیامت کا ''
اس کی مختصر تفسیر کرتے ہوئے علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں
'' حضرت مسیح علیہ السلام کا اوّل مرتبہ آنا تو خاص بنی اسرائیل کے لیے ایک نشان تھا کہ بدوں باپ کے پیدا ہوئے اورعجیب وغریب معجزات دکھلائے اوردوبارہ آنا قیامت کا نشان ہوگا ان کے نزول سے لوگ معلوم کرلیں گے کہ قیامت بالکل نزدیک آلگی ہے '' ! ! !
احادیث ِمقدسہ میں علامات ِقیامت بہت بتلائی گئی ہیں لیکن ان میں ترتیب کیا ہوگی اورایک علامت سے دوسری علامت تک کتنا فصل ہوگا ، اس کی صراحت بہت کم علامات میں فرمائی گئی ہے ! !
حدیث کی سب کتابوں میں کتاب الفتن موجود ہے اوراس میں '' باب العلامات بین یدی الساعة ''
یعنی قیامت سے پہلے وجود میں آنے والی علامتوں کے باب موجود ہیں ! !
١ سُورة الزخرف : ٦١
علمائِ کرام کو حق تعالیٰ جزاء خیردے کہ انہوں نے یہ بھی کوشش کی کہ یہ علامت یکجا کردی جائیں اور ان میں کیا ترتیب ہوگی وہ بھی ذکرکر دی جائے ! ! اس سلسلہ میں سب سے مفید رسالہ وہ ہے جو حضرت شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی رحمة اللّٰہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے اس میں بہت سی احادیث سے استفادہ کرکے ایک مضمون کی شکل دے دی ہے، اسی سے اقتباس کرکے یہ مضمون لکھ رہا ہوں ! !
کفر و فسق کی تشریح
قرب ِقیامت کی علامات میں فسق وفجور بڑی علامت ہے ! اس کی تھوڑی سی تشریح عرض کرتا ہوں ''کفر ''اور''فسق ''دو لفظ ہیں بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کفر کا تعلق عقیدہ سے ہے اور فسق کا تعلق فقط اعمال سے ہے ،کوئی آدمی خلافِ شرع کام کرتا ہو تو اسے فاسق کہا جاتا ہے ! لیکن حقیقت یہ ہے کہ فسق کا تعلق عقیدہ اور عمل دونوں سے ہوتا ہے ! !
''عقیدة ''کا فسق
''عقیدة '' کا فسق یہ ہے کہ انسان صحابہ کرام کے بتلائے ہوئے عقائد سے ہٹ جائے، جب وہ ان عقائد سے ہٹے گا تو فسق فی العقیدة میں یعنی بدعت ِاعتقادی میں مبتلا ہوجائے گا اورکبھی کبھی یہفسق فی العقیدة کفرتک بھی پہنچادیتا ہے !
صحابہ کرام کے بتلائے ہوئے عقائد وہی ہیں جو جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم نے تعلیم فرمائے ہیں اوران پر ساری امت قائم چلی آرہی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام معیارِ حق ہیں ! ! !
خُرُوْج ١ شِیْعِیَّتْ ٢ جَہْمِیَّتْ ٣ اِعْتَزَالْ ٤ اورفرقہائے جَبْرِیَة ، قَدْرِیَة ، مُرْجَِیة ، کَرَّامِیَّة ٥
سب اسی اصول سے ہٹنے سے پیدا ہوئے ، ان فرقوں میں بہت سے فرقے فسق تک گمراہی میں مبتلا ہوئے ! اوربہت سے حد ِکفر تک آگے چلے گئے ! جو طبقے صحابہ (کے طریقہ)سے حدِ فسق تک ہٹے
١ خوارج کا باطل فرقہ ٢ اہلِ تَشَیُّیْع کا باطل فرقہ ٣ جَہْمِیَّة کا باطل فرقہ
٤ معتزلة کا باطل فرقہ ٥ یہ بقیہ بھی باطل فرقوں کے نام ہیں محمود میاں غفرلہ
وہ ''بدعتی'' بھی کہلاتے ہیں ! ! غرض جس طرح اعمال میں فسق ہوتا ہے اسی طرح عقائد میں بھی ہوتا ہے ان دونوں کا فروغ علاماتِ قیامت میں ہے !
عمل کا فسق
علاماتِ قیامت میں جو بداعمالیاں صراحةً احادیث میں شمار کرائی گئی ہیں ، یہ ہیں
ظلم کا اس قدر بڑھ جانا جس سے پناہ لینی مشکل ہو ! خیانت کا عام ہونا ! جوا شراب ناچ اورگانے کی کثرت ! مردوں کا ناجائز حد تک عورتوں کا مطیع ہونا ! اولاد کی نافرمانی ! نااہلوں کے ذمہ وہ کام لگانے جن کے وہ اہل نہ ہوں ! اپنے اسلاف پر طعن ! مساجد کی بے حرمتی ! ١ جھوٹ کو ایک فن کا درجہ دینا ! ٢ گالی گلوچ کی کثرت ! دلوں میں شرم وحیا اورامانت ودیانت کی کمی وغیرہ ! ! !
ظلم کا اس قدر بڑھ جانا جس سے پناہ لینی مشکل ہو ! ! ! اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں
٭ ایک تو یہ کہ حکام، انتظامیہ ،عدلیہ ،سب ہی ظالم ہو جائیں ! ! !
٭ دوسرے یہ کہ آپس میں خانہ جنگی ہو ! جرم کسی کا ہو مارا کوئی اورجائے یا اوراس قسم کی صورتیں ! یہ سب باتیں ہرسلیم الفطرت شخص کے نزدیک معیوب ہیں اوراسلام میں گناہ حرام یا قابلِ تعزیر وحد ہیں
جس قوم میں یہ پائی جائیں وہ رُوبزوال ہو جاتی ہے اوربڑھ جائیں تو تباہ ہوجاتی ہے ! ! ! پہلے زمانوں (قرونِ وسطیٰ) ٣ میں بھی یہ باتیں پائی گئی ہیں لیکن افراد میں تھیں یعنی بہت کم ! اورجب ان میں مبتلا لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو پوری مسلم قوم پر زوال آگیا حکومتیں چھنتی چلی گئیں حتی کہ پوری دنیا میں کوئی بھی مسلم سلطنت اپنی آزادی پر قائم نہ رہ سکی ! ! !
١ مساجد میں لائوڈ سپیکر کا بلا ضرورتِ شدیدہ استعمال اور ضرورت سے زیادہ آواز بلند کرنا اسی بے حرمتی میں شامل ہے اور ایذائے مسلم بھی ہے جو گناہ ہے ! اس کو ترک کردینا ضروری ہے علمائِ کرام خصوصی توجہ فرمائیں ۔ محمود میاں غفرلہ
٢ کفار ہمیشہ سے جھوٹے میڈیا کو فن کا درجہ دیتے چلے آئے ہیں اب مسلمان بھی اسی راستہ پر چل کھڑے ہوئے ہیں
٣ القرون الوسطی ، العصور الوسطی ٥٠٠ء سے ١٥٠٠ء کا درمیانی عرصہ پسماندہ یورپ کا دور !
جبکہ اخلاقی پسماندگی اور تنزلی تاحال جاری ہے ! ! محمود میاں غفرلہ
مذکورہ بالا خرابیوں کے پائے جانے پر عیسائیوں کے غلبہ کی خبر حدیث میں آئی ہے ! ١
حضرت شاہ رفیع الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں
'' جب یہ تمام علامات وآثار نمایاں ہو جائیں تو عیسائی بہت ملکوں پر غلبہ کرکے قبضہ کرلیں گے ''
اورایسا واقعتا ہوچکا ہے دنیا بھر کی سب مسلم سلطنتیں تباہ ہو گئیں اور عیسائی چھا گئے ! ! !
سوال اور جواب
اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ یہ خرابیاں تو ہماری قوم میں باقی تھیں پھر عیسائیوں (برٹش امپائر) کا غلبہ کیسے ہٹا ؟ ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کے مظالم زیادہ ہوگئے ! ! انہوں نے پوری دنیا کو کھلونا بنا لیا اور غلامی کی زندگی گزارنے پرمجبور کردیا ! ! ! اورظلم ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت ہدایت فرمائی تھی
وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہ لَیْسَ بَیْنَھَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَاب ٢
اورمظلوم کی بددُعا سے بچتے رہنا کیونکہ مظلوم کی دعا اوراللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں (یعنی نہایت سریع التاثیر ہوتی ہے ) ! ! !
عیسائیوں (برٹش امپائر) کے پوری دنیا پر چھا جانے کے بعد سمٹ جانے کی وجہ بظاہر یہی ہے کہ ان کے مظالم بڑھ گئے تھے انہوں نے اقوامِ عالم کو محکوم ہی نہیں ! بلکہ انہیں غلام بھی بنالیا تھا ! ٣ الجزائر ، ویت نام ، کوریا وغیرہ سب ان کے کھلونے بنے رہے ہیں اوراسرائیل کا ناسور ان کا ہی پیدا کردہ ہے
١ غلبہ عیسائیوں کا ہوگا یہود کا نہیں ! البتہ بدخصلت اور بزدل یہود ان کا ہمیشہ سے بغل بچہ رہے ہیں اور آئندہ بھی بغل بچہ رہتے ہوئے دنیا بھر میں جلتی پر تیل کا کام کرتے رہیں گے البتہ مسلمان مرعوبیت اور اپنی کور عقلی کی وجہ سے ان دونوں کی پھر بھی نقالی کریں گے ! ملاحظہ فرمائیں سورہ مائدہ آیت ٥١ تا ٦٨۔ محمود میاں غفرلہ
٢ صحیح البخاری کتاب الزکٰوة ج ١ ص٢٠٣ ٣ مگر پوری دنیا میں مسلمانوں کی اجتماعی بد عملی اور فسق و فجور اور یہود و نصاریٰ کی ذہنی غلامی کا جرمِ عظیم تاحال جاری ہے لہٰذا سزا کے تازیانے جو برٹش امپائر کے ہاتھوں برس رہے تھے اب امریکہ بہادر اور نیٹو کے ہاتھوں برس رہے ہیں ! ! محمود میاں غفرلہ
فرقے اور کچے علمائ
اگرچہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں وہ بھی دورِفتن ہی ہے ،طرح طرح کے فرقے نمودار ہو رہے ہیں اتباعِ سلف کے بجائے اپنی خواہش پر چلنے کا رجحان بڑھتا جارہاہے جو شخص تھوڑا بہت علم حاصل کرلیتا ہے وہ تنقید وجرح کی وادیٔ پرخار کی راہ لیتا ہے ! ! صحابہ کرام اوراسلاف کو چھوڑ کر اپنی شخصیت سازی میں لگ جاتا ہے ! یہی وہ بیماری ہے جو سب فتنوں بدعات اوراختلافات کی جڑ ہے ! !
کثرت ِنشرواشاعت نے اسے مرضِ متعدی بنا دیا ہے ! ایک غلطی اوربدعت کی اصلاح نہیں ہونے پاتی کہ کوئی اورنئی بدعت کسی اور رنگ میں ظاہر ہوجاتی ہے یا کوئی اور نیا فرقہ ٔ باطلہ ابھرنے لگتا ہے ! آخر اس دور کا مُنتہٰی کہاں ہو گا ؟ ؟ ؟
دورِ فتن ؟
دورِ فتن سے احادیث میں ایسا زمانہ بھی مراد ہوتاہے جس میں ایسی گڑبڑ ہو کہ عقلمند سے عقلمندشخص بھی حیران رہ جائے ایک پہلو کی اصلاح ہونے سے پہلے دوسرے پہلو کی خرابی پیدا ہو جائے یا ایک پہلو کی اصلاح میں دوسرے پہلو کی خرابی پیدا ہونے کا احتمال نظرآئے ! اس دور میں بھی یہی حالت جاری ہے کوئی واضح راستہ کسی کے سامنے نہیں ہے اورکوئی راہ بے خار نہیں رہی ! ! ! ١
طویل عالمی جنگ
لیکن احادیث ِمقدسہ کی روشنی میں یوں لگتاہے کہ رفتہ رفتہ مسلمان سنبھلتے ہی چلے جائیں گے کیونکہ انہیں عروج کی طرف جاناہے تقدیراتِ الٰہیة ظہور میں آنی ہیں مسلمان اگر خود نہ سنبھلے تو حالات سنبھلنے پر مجبور کریں گے ! یہ ایک بہترین فاتح قوم بننے والی ہے اگرچہ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ پوری طرح خود کفیل نہ ہو پائیں گے ! ؟ درمیان ہی میں دنیا کے حالات ایسے ہو جائیں گے کہ دنیا بھر کے مسلمان اورعیسائی آپس میں معاہدہ کریں اورکسی تیسری طاقت سے جنگ کریں اور فتحیاب ہوں ! ! اب آنے والا طویل دورعروج کے ساتھ طویل عالمی جنگ کا بھی ہوگا ! ! واللّٰہ تعالٰی اعلم
١ یعنی کوئی بھی راستہ ایسا نہیں جس میں کانٹے نہ ہوں ۔ محمود میاں غفرلہ
حدیث شریف میں آتا ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم عُمْرَانُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ یَثْرِبَ وَخَرَابُ یَثْرِبَ خُرُوْجُ الْمَلْحَمَةِ وَخُُرُوْجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ الْقُسْطُنْطِیْنِیَّةِ وَفَتْحُ القُسْطُنْطِیِْنِیَّةِ خُرُوْجُ الدَّجَّالِ ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدِہ عَلٰی فَخِذِ الَّذِیْ حَدَّثَہ اَوْ: مَنْکِبِہ
ثُمَّ قَالَ اِنَّ ھَذَا لَحَقّ کَمَا اَنَّکَ ھٰھُنَا اَوْ کَمَا اَنَّکَ قَاعِد یَعْنِی مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ١
''حضرت سرورِکائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا کہ بیت المقدس کی آبادی یثرب (مدینة منورة ) کی بربادی ہوگی ! اورمدینہ شریف کی ویرانی جنگ کا پیش خیمہ ہوگی ! اورجنگ کا شروع ہونا قسطنطنیة کی فتح ہوگا ! اور قسطنطنیة کا فتح ہو نا دجال کا خروج ہوگا ! پھر جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنا دست ِمبارک ان کے کندھے (مونڈھے )پر یا ران پر مارا پھر فرمایا کہ بلا شبہ یہ سب حق ہے (یقینا ہو گا) جیسے کہ تم یہاں موجود بیٹھے ہو یعنی معاذ بن جبل ''
''فتنة ''اور'' مَلْحَمَة '' کا فرق
احادیث میں اکثر جگہ لفظ'' فتنة''سے آپس کی لڑائی اورخانہ جنگی مراد ہوتی ہے اور ''مَلْحَمَة'' سے وہ لڑائی مراد ہوتی ہے جو مسلمانوں کی دوسروں سے ہو ! اس وقت اسرائیل نے بیت المقدس کو دارالحکومت بنالیا ہے اس لیے اس کی آبادی کا عروج تو شروع ہو گیا ہے ! !
عیسائیت کا مذہبی مرکز
احادیثِ مقدسة سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ عیسائیوں (یعنی عیسائیت ) کا مذہبی مرکز
''روم'' ہو گا اور ممکن ہے مادّی مرکز بھی اسی کو بنا لیا جائے ! ٢
١ سُنن ابوداود باب فی اَمارات الملاحم ٢ یعنی سیاسی عسکری اور معاشی اعتبار سے بھی آگے چل کر بجائے امریکہ کے یہ مرکز بن جائے۔بہت پہلے ''روم'' عیسائیوں کا سیاسی مرکز بھی تھا اور مذہبی مرکز بھی پھر ان کے آپس کے اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ ان کا دوسرا مرکز قسطنطینیة بن گیا مگر روم کی مذہبی مرکزیت ہمیشہ برقرار رہی چنانچہ نبی علیہ السلام کے دور میں عیسائیوں کے بادشاہ ہرقل کا دارالسلطنت قسطنطینیة اور مذہبی مرکز روم تھا ! ( باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
معاہدہ کا ٹوٹنا
مسلمان اور عیسائی دشمن پر فتح یاب ہونے کے بعد صرف دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے ایک بات کو اپنے وقار کا مسئلہ بنا کر معاہدہ توڑ دیں گے اورمسلمانوں سے جنگ کریں گے چنانچہ ایک اورحدیث میں ارشاد ہے صحابی نے فرمایا
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم ےَقُوْلُ سَتُصَالِحُوْنَ الرُّوْمَ صُلْحاً آمِناً فَتَغْزُوْنَ اَنْتُمْ وَہُمْ عَدُوًّا مِنْ وَّرَائِکُمْ فَتُنْصَرُوْنَ وَتَغْنِمُوْنَ وَتَسْلِمُوْنَ ثُمَّ تَرْجِعُوَْنَ حَتّٰی تَنْزِلُوْا بِمَرَجٍ ذِیْ تَلُوْلٍ فَیَرْفَعُ رَجُل مِّنْ اَہْلِ النَّصْرَانِیَّةِ الصَّلِیْبَ فَیَقُوْلُ غَلَبَ الصَّلِیْبُ فَیَغْضَبُ رَجُل مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَدُقُّہ فَعِنْدَ ذَلِکَ تَغْدِرُ الرُّوْمُ وَتَجْمَعُ لِلْمَلْحَمَةِ ١
''میں نے جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم سے سنا ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب (ایسا وقت آئے گا کہ)تم اہلِ روم سے قابلِ اطمینان صلح کروگے پھر تم اوروہ اپنے ایک دشمن سے لڑو گے تمہیں نصرت وغنیمت حاصل ہوگی اوربچ بھی جائو گے (سلامت رہوگے) پھر واپسی کے وقت ایک سبزہ زار میں جہاں ٹیلے ہوں گے ٹھہرو گے وہاں نصرانیوں میں سے ایک شخص صلیب بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آئی اس پر مسلمانوں میں سے ایک شخص کو غصہ آئے گا وہ صلیب توڑ دے گا ، اس وقت (صرف دو شخصوں کے جھگڑے پر اہلِ رو م وعیسائی) معاہدہ توڑ دیں گے اورجنگ کے لیے جمع ہو جائیں گے''
( بقیہ حاشیہ ص٢٨ )
اٹلس فتوحاتِ اسلامیہ حصہ چہارم کے ص ٣٤٠ پر یہ حاشیہ تحریر ہے
''یہ قیصر قسطنطین دوازدہم(Constantine 12th) تھا جو ١٤٤٩ء میں تخت نشین ہوا تھا دولت قسطنطنیة (بازنطینی سلطنت) کا پہلا حکمران قسطنطین اوّل یا قسطنطین اعظم (٣٢٤ تا ٣٣٧ء ) تھا جس کے نام پر قدیم ''بیزنطیم'' کو قسطنطنیة کا نام دیا گیا ۔نبی صلی اللہ عليہ وسلم کے ہم عصر قیصر ہرقل کا جانشین قسطنطین سوم (٦٤١ء ) تھا اور قسطنطین چہارم امیر معاویة کا ہم عصر تھا'' ( المنجد فی الاعلام ص ١٥٩۔١٦٠)
١ ابوداود باب ما یذکر من ملاحم الروم رقم الحدیث ٤٢٩٢
سقوطِ خیبر ، مدینة منورة ہدف ، ظہورِ مہدی
اس لڑائی میں عیسائیوں کو کامیابی ہوگی ١ مسلمانوں کا زبردست نقصان ہوگا وہ اپنا ہدف مدینہ منورہ کو بنائیں گے کسی لائن سے وہ خیبر تک پہنچ جائیں گے مسلمانوں کا حکمران وفات پاجائے گا اس وقت جوہوگا وہ اس حدیث میں آتا ہے
عَنْ اُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قاَلَ یَکُوْنُ اخْتِلَاف عِنْدَ مَوْتِ خَلِیْفَةٍ فَیَخْرُجُ رَجُل مِّنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَةِ ھَارِبًا اِلٰی مَکَّةَ فَیَأْتِیْہِ نَاس مِّنْ اَہْلِ مَکَّةَ فَیُخْرِجُوْنَہ وَھُوَ کَارِہ فَیُبَاےِعُوْنَہ بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقَامِ ٢
''جناب ِرسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی اہلیہ محترمہ حضرت اُم سلمة رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے روایت فرمائی ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک خلیفہ کی وفات کے وقت اختلاف ہوگا تو ایک شخص (جو خلافت کا اہل ہوگا) مدینہ سے مکہ مکرمہ کی طرف بھاگ جائے گا اس کے پاس اہلِ مکہ آئیں گے اسے (گھر سے ) نکالیں گے وہ اس معاملہ کو پسند نہ کرتاہوگا (لیکن لوگ ) ان سے رُکن اور مقام کے درمیان بیعت کریں گے '' ! !
آپ کے مقابلہ پر شامی لشکر کا انجام
اس وقت شام میں جو حاکم ہوگا وہ ان کی مخالفت میں لشکر روانہ کرے گا حسد میں یا عیسائی
حکومتوں کے ابھارنے پر جو صورت بھی ہو ! !
١ یہ کامیابی اور وقتی عروج یہود کو نہ ہوگا البتہ یہ بندر کی خصلت والے اپنی شرارتیں ہر حال میں جاری رکھیں گے
( وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْھِمْ مِّنْ اَقْطَارِھَا ثُمَّ سُئِلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْھَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِھَآ اِلَّا یَسِیْرًا )
مزید تفصیلات کے لیے سُورة الاحزاب کی آیات ١٢ تا ٢٠ ملاحظہ فرمائیں محمود میاں غفرلہ
٢ ابوداود کتاب المھدی باب فی ذکر المھدی رقم الحدیث ٤٢٨٦
وَیُبْعَثُ اِلَیْہِ بَعْث مِّنَ الشَّامِ فَیُخْسَفُ بِھِمْ بَالْبَیْدَآئِ بَیْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِےْنَةِ
''شام سے ان کے مقابلہ کے لیے لشکر بھیجا جائے گا اُس لشکر کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع(مقامِ) بَیْدَاء میں دھنسا دیا جائے گا''
اس مضمون کی دوسری روایت میں ہے کہ حضر ت اُم سلمة نے دریافت فرمایا
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کَیْفَ بِمَنْ کَانَ کَارِھًا قَالَ یُخْسَفُ بِھِمْ وَلَکِنْ یُّبْعَثُ
یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلٰی نِیَّتِہ ( ابوداود کتاب المھدی باب فی ذکر المھدی رقم الحدیث ٤٢٨٩ )
''اے اللہ کے سچے رسول( صلی اللہ عليہ وسلم ) اس لشکر والوں کے ساتھ جو لوگ بہ مجبوری
(مثلاً جبری بھرتی سے) آگئے ہوں گے ان کا کیا ہو گا ؟ ارشاد فرمایا وہ بھی دھنسا دئیے جائیں گے لیکن ہر شخص قیامت کے دن اپنی نیت کے مطابق اُٹھایا جائے گا یعنی جو لوگ جبراً ساتھ لیے گئے ہوں گے ان کا حشر ان کی نیتوں کے مطابق ہوگا ''
حضرت اُم سلمة رضی اللّٰہ عنہا کی پہلی والی روایت میں ہے کہ
فَاِذَا رَاَی النَّاسُ ذٰلِکَ اَتَاہُ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ اَھْلِ الْعِرَاقِ فَیُبَاےِعُوْنَہ
''جب لوگ یہ دیکھیں گے تو شام کے ابدال (اولیائِ کرام )اورعراق کے (بہترین لوگ ) گروہ در گروہ اِن کے پاس آئیں گے اوران سے بیعت ہوں گے''
ان کی مدد کرنے والے '' اہلِ مَاوَرَائُ النَّہْر ''بھی ہوں گے ١
١ دریائے جیحون جسے دریائے آموں (Amu Darya) بھی کہا جاتا ہے یہ دوہزار چھ سو بیس کلومیٹر لمبا ہے عربوں نے اس کے شمال یعنی اُس پار کے علاقوں کو ''ماوراء النہر'' کا نام دیا ہے یونانی ''مَاوَرَائُ النَّہْر'' کو (Transoxiana) کہتے ہیں یہ وسطی ایشیاء کا علاقہ ہے جبکہ اس دریا کے جنوب یعنی اُرلی طرف کو
( باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا
یَخْرُجُ رَجُل مِّنْ وَّرَآئِ النَّہْرِ یُقَالُ لَہُ الْحَارِثُ حَرَّاث عَلٰٰی مُقَدَّمَتِہ رَجُل یُقَالُ لَہ مَنْصُوْر یُوَطِّیئُ اَوْ یُمَکِّنُ لِاٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا مَکَّنَتْ قُرَیْش لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم وَجَبَ عَلٰی کُلِّ مُوْمِنٍ نَصْرُہ اَوْ قَالَ اِجَابَتُہ ۔ ١
( بقیہ حاشیہ ص ٣١ )
''مَادُوْنَ النَّہْر'' کہا جاسکتا ہے یہ جنوبی ایشیاء میں خراسان کا علاقہ ہو ا ''خراسان '' کا لفظ ''خور'' بمعنی شمس اور ''اسان'' بمعنی مشرق سے مرکب ہے(خور اسان ) اس کا مطلب ہوا ''مشرق کا سورج'' !
تیونس میں ایک بڑا خاندان بھی ١١٢٨ء میں خراسان کے نام سے موسوم رہا ہے اس خاندان کے سردار کا نام احمد تھا بعد ازاں ١١٥٧ء میں مراکش کی طرف نقل مکانی کرنا پڑی !
پاکستان تاجکستان اور چین کی سرحدوں کے قریب پامیر نامی پہاڑی سلسلہ سے جیحون اور سیحون ( سیر دریا) نام کے دو دریا نکلتے ہیں جیحون مشرق سے جنوب مغرب کی طرف بہتا ہے آگے جاکر شمال مغرب کی طرف بہتے ہوئے تاجکستان اور افغانستان کی سرحد بناتاہوا ترکمانستان میں داخل ہوجاتا ہے پھر ازبکستان میں داخل ہوکر '' بحیرۂ رال '' (Aral Sea) کے جنوبی کنارے کی طرف سے اس میں گرجاتا ہے جس کا پرانا نام ''بحیرۂ خوارزم'' ہے ! دریائیجیحون کو یونانی آکسس (Oxus) کہتے تھے
اوپر شمال کی طرف اس کا دوسرا جڑواں دریا سیحون(سیر دریا Syr Darya) بھی اس کے متوازی پیچ و خم کھاتا ہوا '' بحیرۂ رال '' کے شمال میں گر جاتا ہے
ان سے بہت دور شام میں ''سِیْحَان'' اور ''جِیْحَان'' نام کے دو جڑواں دریا اور بھی ہیں ناموں کی مشابہت کی وجہ سے بعض اوقات لوگوں کو مغالطہ ہوجاتا ہے
حدیث میں ''سیحان '' اور ''جیحان'' کو جنت کے دریا فرمایاگیا ہے ! اسی طرح ''فرات'' اور '' نیل'' کے بارے میں حدیث میں یہی ارشاد ہے محمود میاں غفرلہ
١ ابوداود کتاب المھدی باب فی ذکر المھدی رقم الحدیث ٤٢٩٠
''ایک شخص وراء النہر سے چلے گا اسے حَارِثْ کہا جاتا ہوگا وہ حَرَّاثْ (یعنی کاشت کرنے والا) ہوگا اس کے لشکر کے مُقَدَّمَةُ الْجَیْشْ (یعنی اگلے حصہ )پر مامور شخص کو مَنْصُورْ کہا جاتا ہوگا وہ آلِ محمد کے لیے ان کے مضبوطی سے جمنے کے لیے مؤثر طرح کام کرے گا جیسے (قبائلِ) قریش نے( اسلام قبول کرنے کے بعد ) جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم کے (دین کے)لیے استحکام کا کام کیا، ہر ایمان والے شخص پر اس کی مدد واجب ہے ''
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مَاوَرَائُ النَّہْر یعنی دریائے سیحون ١ کے پار(وسطی ایشیاء کے) علاقوں میں اسلام نہایت جوش سے ابھر چکا ہو گا ، واللّٰہ تعالٰی اعلم
بَنُوْکَلْب سے معرکہ اور ان کا انجامِ بد
حضرت اُم سلمة رضی اللّٰہ عنہا کی روایت میں ہے
ثُمَّ یَنْشَأُ رَجُل مِّنْ قُرَیْشٍ اَخْوَالُہ کَلْب فَیَبْعَثُ اِلَیْھِمْ بَعْثًا فَیَظْھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ وَذٰلِکَ بَعْثُ کَلْبٍ وَالْخَیْبَةُ لِمَنْ لَّمْ یَشْھَدْ غَنِیْمَةَ کَلْبٍ۔ ٢
''پھر ایک قریشی شخص ابھرے گا ، اس کے ماموں (یعنی ننھیال ) بَنُوْکَلْب ہوں گے وہ حضرت مہدی کے مقابلہ کے لیے لشکر روانہ کرے گا،حضرت مہدی ان پر فتح پائیں گے یہ لشکر (درحقیقت ) بَنُوْکَلْب پر مشتمل ہوگا جو ان کے اموالِ غنیمت نہ حاصل کرے وہ خسارہ میں رہا''
١ اس سے جیحون مراد لینا چاہیے کیونکہ سیحون اس سے اوپر شمال میں اس کے متوازی واقع ہے جیسا کہ حاشیہ میں ابھی گزرا ہے یہ دونوں وسطی ایشیا کے جڑواں دریا ہیں جو آگے جاکر بحیرۂ رال میں گرجاتے ہیں ! محمود میاں غفرلہ
٢ ابوداود کتاب المھدی باب فی ذکر المھدی رقم الحدیث ٤٢٨٦
تعارف، حلیہ ، نسب
حضرت امام مہدی علیہ رحمة اللّٰہ ورضوانہ کے نام کے بارے میں ارشاد ہو ا
یُوَاطِیئُ اِسْمُہ اِسْمِیْ وَاسْمُ اَبِیْہِ اِسْمَ اَبِیْ ١
''ان کا نام میرے نام پر ہوگا اور اُن کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہوگا ''
حضرت مہدی کے ساتھ ''موعود'' کالفظ استعمال کیا جاتا ہے یعنی جن کے ظہور کی اطلاع دی گئی ہے اور ان کا وجود اس وقت سارے مسلمانوں کی فلاح کا سبب ہوگا اوراس کا احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے ان کے بارے میں بہت روایات موجود ہیں حتی کہ روایات میں حضرت مہدی کا حلیہ بھی بتلایا گیا ہے
اَجْلَی الْجَبْھَةِ اَقْنَی الاَنْفِ کشادہ پیشانی بلند ناک ( ابوداود کتاب المہدی )
ایک اور روایت میں نسب بھی بتلایا گیا ہے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کو دیکھ کر ارشاد فرمایا
اِنَّ ابْنِیْ ھَذَا سَیِّد کَمَا سَمَّاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَسَیَخْرُجُ مِنْ صُلْبِہ رَجُل یُسَمّٰی بِاسْمِ نَبِیِّکُمْ صلی اللہ عليہ وسلم یَشْبَھُہ فِی الْخُلُقِ وَلَا یَشْبَھُہ فِی الْخَلْقِ ٢
''میرا یہ بیٹا سردار ہے جیسے کہ جناب ِرسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے انہیں (سیّد) فرمایا ہے اوران کی نسل میں ایک شخص پیدا ہوگا تمہارے نبی صلی اللہ عليہ وسلم کا ہم نام ہوگا عادات میں ان کے مشابہ ہوگا شکل وصورت میں نہیں ''
آپ کے متعلق تحریر کردہ رسائل میں یہ بھی ہے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے از غیب علم عطا ہوگا ! جسے'' عِلْمِ لَدُنِّیْ '' کہاجاتا ہے !
مقصد اور ہدف
یَعْمَلُ فِی النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِیِّھِمْ صلی اللہ عليہ وسلم وَیُلْقِی الْاِسْلَامُ بِجِرَّانِہ اِلَی الاَرْضِ ٣
''لوگوں میں سنت ِرسول صلی اللہ عليہ وسلم کے مطابق عمل کریں گے اوراسلام بڑے سکون کے ساتھ ساری دنیا میں جم جائے گا ''
١ ابوداود کتاب المھدی رقم الحدیث ٤٢٨٢ ٢ ایضًا رقم الحدیث ٤٢٩٠ ٣ ایضًا رقم الحدیث ٤٢٨٦
خلاصہ
یہاں تک گزری ہوئی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت جو دور جا رہا ہے اس میں ان شاء اللّٰہ مسلمانوں کی بہتری ہوگی ! اسلام کی طاقت بڑھے گی ! مسلمانوں کی خرابیوں کا ازالہ ہوتا جائے گا !
مزید کمزوریاں جہاد کی برکت سے دورہوتی جائیں گی ! پورے عالم پر طویل ترین یاسخت ترین جنگ کا دور گزرے گا ! ! مسلمان اورعیسائی قریب ہوں گے اورآپس میں جنگی معاہدہ کریں گے ! ! پھر وہ شدید ترین جنگ کسی تیسرے فریق سے ہوگی اس میں مسلم عیسائی متحدہ قوت کامیاب ہوگی ! !
ان اتحادیوں کی کامیابی کے بعد پھر ذرا سی بات پر عیسائی معاہدہ منسوخ کرکے برسرِپیکار ہو جائیں گے ! مسلمان جو غالباً مادّی طاقت میں ناکافی حد تک خود کفیل ہوئے ہوں گے شکست کھا جائیں گے ! ! اوربہت سے مسلم علاقے عیسائیوں کے قبضہ میں چلے جائیں گے جن میں ترکی ، اُردن ا ور سعود ی عرب کا علاقہ صاف سمجھ میں آتا ہے ١ !
پھر لڑائی کا زور اس علاقہ(ترکی وغیرہ) میں اورشام وفلسطین میں رہے گا ! ان سب لڑائیوں میں جانی نقصان بے حد ہوگا ! خدا ہی جان سکتا ہے کہ یہ جنگ کس قسم کی ہوگی ،کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی ؟ ایٹمی ہوگی یا دوسرے ہتھیاروں سے ہوگی ؟ ؟
اس حصہ تک خوارقِ عادات کا ظہور نہ ہوگا ! ! انسان نے اس وقت تک جو مادّی ریڈیائی ترقی کی ہے یا کچھ کرے گا وہ آخری حد کو پہنچ چکی ہے یا (عنقریب)پہنچ جائے گی ! یہ ترقی بھی خوارقِ عادت کے مشابہ ہے ! ! ٢ اس کے بعد ظہور ِمہدی سے روحانی خَوَارِقْ کا ذکر ملتا ہے ! ! ٣
١ اگرچہ بادی النظر میں یہودیوں کا قبضہ محسوس ہو ! محمود میاں غفرلہ ٢ جیسے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ہیڈن ایجنڈا ، ہارپ ٹیکنالوجی ، ڈارک ویب سائٹ ، پورن گرافی جیسے پارٹس ریموٹ، کمپیوٹر ، ہولو گرافی جو جدید شیطانی سائنس ، جادو اور طلسمی شیطانی حملوں اور کرتبوں کا مرکب ہے ! محمود میاں غفرلہ
٣ یعنی ظاہری اسباب سے بالا خدائی نصرت کے تحت غیر معمولی روحانی کرامات کا ظہور ! محمود میاں غفرلہ
خود سے مہدی ہونے کا دعوی نہ کریں گے
حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور خلیفہ ٔوقت کے انتقال پرہوگا وہ خود مہدی ہونے کا دعویٰ نہ کریں گے لوگ پہچان کر انہیں خلیفة بننے پر مجبور کریں گے ! حضرت امام مہدی اسلامی افواج جمع کرکے حملہ آور عیسائیوں پر اپنے علاقے واپس لینے کے لیے جواباً حملہ کریں گے ! اورفتح کرتے کرتے ترکی تک پہنچیں گے ! جس وقت استنبول (قسطنطنیة )فتح کریں گے ١ اس وقت انہیں ظہورِ دجال کی اطلاع
١ ترکی کاموجودہ دارالحکومت'' انقرہ '' ہے جبکہ اس کے سابقہ دارالحکومت کا نام ''استنبول '' تھا یہ اصل میں ''اسلام بول'' تھا ! ترکی زبان میں ''بول'' قلعہ کو کہتے ہیں یعنی ''اسلام کا قلعہ'' کثرتِ استعمال کی وجہ سے بگڑ کر''استنبول '' ہوگیا ! جب ترکوں نے قسطنطینیة فتح کر لیا تو اس کا نام بدل کر '' استنبول یا اسطنبول '' رکھ دیا تھا ! ایک نام اس کا ''آستانہ'' بھی ذکر کیا گیا ہے ! !
٢٠ جمادی الاولیٰ٨٥٧ھ/ ٢٩اپریل ١٤٥٣ء میں سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت حاصل ہونے والی اس عظیم فتح کے اٹھائیس برس بعد فاتح سلطان محمد ثانی اچانک شدید پیچش کی بیماری سے وفات پاگئے ! ''جولاکوبو '' نامی وینسی(اٹلی) طبیب ان کو بتدریج زہر کھلاتا رہا جس کی وجہ سے وہ بالآخر شہید ہوگئے ! اس طبیب نے اپنے کو مسلمان ظاہر کرکے اپنا نام ''یعقوب پاشا ''رکھ لیا تھا ! اس بدبخت نے سلطان کی موت کی خبر فی الفور(اٹلی کے شہر) وینس ارسال کی جو وہاں سولہ دن بعد پہنچی ! اس کے مکتوب کے الفاظ مسیحی نفرت کی عکاسی کرتے تھے الفاظ یہ تھے
Le Grand Aquilae Morta (عظیم گدھ مرگیا ) ! ! (اقتباس از اٹلس فتوحاتِ اسلامیہ ص ٣٦٠)
اٹلس فتوحاتِ اسلامیہ کے ص ٣٤٤ کا حاشیہ بھی ملاحظہ فرمائیں
''سلطان محمد فاتح نے صوتی اور معنوی مناسبت کے باعث استنبول کو ''اسلام بول ''کا نام دیا ! یاقوتِ حموی متوفٰی ٦٢٦ھ نے معجَم البلدان (٤/٣٤٧) میں لکھا ہے کہ ''قسطنطین اعظم نے اسے دارالحکومت بنا کر اس کا نام قسطنطنیة (عربی میں قسطنطینیة ) رکھا جسے آج کل اسطنبول کہتے ہیں '' اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شہر پہلے سے مسلمانوں کے ہاں اسطنبول یا استنبول کے طور پر معروف تھا !
اس کی وجہ یہ ہے کہ قسطنطینِ اعظم نے ٣٣٠ء میں قدیم شہر بیزنطیم کو ''کان سٹین ٹینوپولس (Constantinopolis) یا قسطنطنیة کا نام دیا تھا مگر عام طور پر اسے آئس ٹِن پولن Eis Ten Polin (اندرونِ شہر) کہا جاتا تھا جسے مقامی لہجہ میں سٹامبول (Stamboul) کہتے تھے ، عرب اسی کو معرّب کر کے اسطنبول یا استنبول کہنے لگے (آکسفورڈ انگلش ریفرنس ڈکشنری ص ٧٤٨) محمود میاں غفرلہ
ملے گی اس لڑائی میں مسلمان فاتح ہوں گے ! لیکن اتنی بڑی تعدا میں شہید بھی ہو جائیں گے کہ فتح کی خاص خوشی نہ ہوا کرے گی ! سومیں سے ایک آدمی زندہ رہ جائے گا ! ١ (یعنی کسی کسی خاندان کا یہ حال ہوگا)
سپر طاقت بننے کا خواب چکنا چور
احادیثِ مقدسہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اسی دوران یہودی بھی مسلمانوں سے لڑیں گے اورہو سکتا ہے کہ یہ لڑائی حضرت مہدی علیہ السلام کے اسی سفرِ جہاد میں شام سے ترکی جاتے ہوئے موجودہ
(امریکہ کی ذیلی ریاست ) اسرائیل میں ہو ! ! اس کی خبریوں دی گئی ہے
تُقَاتِلُکُمُ الْیَھُوْدُ فَتُسَلِّطُوْنَ عَلَیْھِمْ حَتّٰی ےَقُوْلَ الْحَجْرُ یَا مُسْلِمُ ھٰذَا یَھُوْدِیّ وَرَائِیْ فَاقْتُلْہُ ٢
'' تم سے یہود قتال کریں گے تم ان پر غلبہ پا جائو گے حتی کہ پتھر بھی (پکار کر ) کہے گا اے مسلمان یہ یہودی ہے میرے پیچھے (چھپا)اسے قتل کر ڈال ''
موجودہ حالت اورانجا م سورہ ٔبنی اسرائیل کے ابتدائی حصہ(آیت نمبر ٨ ) میں ( وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ) کے جملہ سے بھی مفہوم ہوتی ہے کہ ان کی بداعمالیاں بڑھیں گی جب وہ انتہا ء کو پہنچیں گی تو انتہائی سزا دی جائے گی !
مسلم شریف میں اسی صفحہ پر جو روایات دی گئی ہیں اِن سے معلوم ہوتا ہے کہ سب یہودی مارے جائیں گے ! انہیں پتھر بھی پناہ نہ دیں گے ! صرف ایک درخت جسے'' غَرْقَدْ'' کہا جاتا ہے اُس کے پیچھے یا اُس کی آڑمیں ہوں گے تووہ انہیں پناہ دے گا ! !
غرقد کو'' عَوْسَجَہ' ' بھی کہتے ہیں ! کانٹوں دار درخت ہے فلسطین کے علاقہ میں ہوتا ہے چھوٹے کو عوسجة اوربڑے کو غرقد کہتے ہیں !
ان کا مارا جانا اوردرختوں اورپتھروں کا مخبری کرنا یہ (معجزہ یعنی)خوارقِ عادت کے طورپر ذکرفرمایا گیا ہے اگرچہ ممکن ہے کہ یہ سائنسی ترقی ہو ! لیکن احادیث کا سیاق وسباق اور انداز بیان خرقِ عادت پر دلالت کررہا ہے ! وَاللّٰہُ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی اَعْلَمْ
١ صحیح مسلم کتاب الفتن وشرائط الساعة ج ٢ ص٣٩٢ ٢ ایضًا ج ٢ ص ٣٩٦
لشکروں کے حصے
٭ حضرت مہدی علیہ السلام کے لشکر کا ایک حصہ بھاگ کھڑا ہوگا !
٭ ایک حصہ شہید ہو جائے گا ! یہ لوگ اللہ کے نزدیک افضل درجہ کے شہداء ہوں گے ! !
اَفْضَلُ الشُّھَدَائِ عِنْدَ اللّٰہِ ( صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٩٢ )
٭ تیسرا حصہ مع جدید رفقاء فتحیاب ہوتا چلا جائے گا ! یہ لشکر قسطنطنیة فتح کرلے گا ! !
جھوٹا شیطانی میڈیا ، ظہورِ دجال ، نزولِ عیسٰی علیہ السلام
ابھی اس معرکہ سے فارغ ہی ہوئے ہوں گے کہ کوئی شیطان یہ خبر پھیلائے گا کہ دجال تم لوگوں کے اہل وعیال میں پہنچ گیا ہے ! یہ لوگ واپس روانہ ہوں گے اورشام کے موجودہ دارالحکومت دمشق پہنچیں گے ! تووہاں دجال نہ ہوگا ! یہ خبر جھوٹی ہوگی ١ لیکن وہیں اتنا پتہ چل جائے گا کہ وہ دنیا میں ظاہر ہوچکا ہے ! ابھی یہ لوگ اسی مقام پر ہوں گے کہ نزولِ مسیح علیہ السلام ہو جائے گا ! ! ٢
امام مہدی پھر عیسٰی علیہم السلام کا دور
حضرت مہدی علیہ السلام کا دورِ حکومت بابرکت ہوگا، عدل وانصاف اپنے کمال پر ہوگا بعض روایات میں آیا ہے کہ ان کا دورِحکومت سات سال اوربعض روایات کے مطابق نوسال ہوگا ٣
پھر حضرت عیسٰی علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوة والسلام کا دور شروع ہوگا ! ! نزولِ عیسٰی علیہ السلام کے موضوع پر مستقل تصانیف موجودہیں ، حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیری رحمة اللّٰہ علیہ نے '' اَلتَّصْرِیْحُ بِمَا تَوَاتَرَ فِیْ نُزُوْلِ الْمَسِیْحِ '' اسی موضوع پر تالیف فرمائی ہے، یہ مجلس تحفظ ختم بنوت ملتان نے شائع کی ہے ! اورمیرا مقصد تمام روایات کو جمع کرنا نہیں ہے بلکہ ایک خاکہ پیش کرنا ہے جو احادیث ِمقدسہ کی روشنی میں سمجھ میں آتا ہے
١ Dis-information زرد صحافت یا بیمار صحافت،اس کے گندے قوانین کی وجہ سے کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے۔ محمود میاں غفرلہ ٢ صحیح مسلم ج ٢ ص٣٩٢ ٣ سُنن ابوداود کتاب المہدی
یاجوج ماجوج ..... اللہ کے وجود کے منکر
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں ظہور یاجوج وماجوج ہوگا یہ کثیر التعداد قوم ہوگی ان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکے گا البتہ بچا جا سکے گا کہ انسان محصور ہو جائے حدیث میں یہی تدبیر بتلائی گئی ہے ١
ان کی تعداد کی کثرت ان احادیث میں آئی ہے جن میں جہنم میں داخل کیے جانے والے لوگوں کا ذکر ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک اور یاجوج ماجوج ایک ہزار ہوں گے ٢
ممکن ہے بخاری شریف وغیرہ کی اس روایت میں اس وقت کے مسلمانوں اور یاجوج ماجوج
کا تناسب مراد ہو اس سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ وہ کافر ہوں گے ! بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ اولاد ےَافِثْ بن نوح علیہ السلام سے ہیں ! ان کے بارے میں تو اتنا ہی بتلانا کافی ہے کہ ان کا وجود مُسَلَّم ہے اورجس وقت ان کے فتنہ کا ظہور ہوگا اس وقت ان کے شرسے بچنے کی تدبیرمحصور ہو جانے کے سوا کچھ نہیں ! ان کی حالت کے بارے میں مسلم شریف میں ص٤٠١۔٤٠٢ پر روایات موجود ہیں !
ان کی ہلاکت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی دعا سے ہوگی ! اسی صفحہ پر مسلم شریف میں ہے کہ
یہ وجودِ باری تعالیٰ کا مذاق اڑاتے ہوں گے ! ! !
اور یہ بھی ہے کہ ان کی موت (ظاہری اسباب میں ) بہت چھوٹے کیڑوں سے ہوگی یُرْسَلُ عَلَیْھِمُ النَّغَفُ ٣
'' نَغَفْ '' ایک قسم کا کیڑا ہوتا ہے جو اونٹ اوربکری کی ناک میں پیدا ہو جاتا ہے اس قسم کے جراثیم ان پر چھاجائیں گے ان کی گردن میں تکلیف ہوگی ! ! !
لیکن دجال کے بارے میں بہت روایات ہیں اوراس کا ظہور اورسارا زور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نزول سے پہلے ہی ہو گا، اس لیے آقائے نامدار علیہ الصلٰوة والسلام نے جو ارشادات فرمائے ہیں وہ ملحوظ رکھنے چاہئیں تاکہ اس کے شرسے ہر صاحب ِایمان بچ سکے !
١ صحیح مسلم ج ٢ ص٤٠١ و ٤٠٢ ٢ صحیح البخاری ج ١ ص ٤٧٢ باب قصة یاجوج وماجوج
٣ صحیح مسلم ج ٢ ص٤٠١
٭ دجال کا ظہور (ایران کے شہر) اِصفہان سے ہوگا ! اس کے ساتھ یہودی ہوں گے ! !
مسلم شریف میں ہے یَتْبَعُ الدَّجَّالَ مِنْ یَّہُوْدِ اِصْبَھَانَ سَبْعُوْنَ اَلْفًا عَلَیْھِمُ الطَّیَالِسَةُ ! ١
دجال کے ساتھ اِصفہان کے ستر ہزار (یعنی بہت بڑی تعداد میں ) یہودی ہوں گے، ان کے لباس میں ان کی خاص وضع کی لمبی ٹوپی ہوگی ! !
٭ اسے لوگوں پر کسی وجہ سے سخت غصہ آئے گا اس وقت اس کا ظہور ہوگا ! !
اِنَّ اَوَّلَ مَا یَبْعَثُہ عَلَی النَّاسِ غَضَب ےُغْضِبُہ ٢
٭ اس کی طاقت پوری شیطانی طاغوتی قوت کا مظہر ہوگی ! مافوق الفطرت اور مافوق العقل چیزیں ظاہر کرے گا ! مُسند احمد میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم تک سب انبیاء کرام اس کی آمد کی خبر دیتے رہے ہیں ! اوراس کے فتنہ سے ڈراتے رہے ہیں ! ٣
٭ عظیم الجُثة ہوگا ! لیکن قد چھوٹا محسوس ہوتا ہوگا ! چلتے وقت ٹانگیں پھیلا کر چلا کرے گا !
ایڑیاں دور رہیں گی ! اور پنجے قریب ہوا کریں گے ! ! ٤
٭ اس کی ایک آنکھ میں عیب ہوگا ! ! داہنی آنکھ انگور کے دانے کی طرح ابھری ہوئی ہوگی ! !
اَعْوَرُا الْعَیْنِ الْےُمْنٰی کَاَنَّ عَیْنَہ عِنَبَة طَافِیَة ( صحیح مسلم ج ٢ ص ٢٩٩ )
٭ اس کی ایک آنکھ کے ڈھیلے پر گاڑھا ناخنہ ہوگا ! عَلَیْھَا ظَفْرَة غَلِیْظَة ( صحیح مسلم ج٢ ص ٤٠٠ )
٭ اس کے بدن پربہت بال ہوں گے ! جُفَالُ الشَّعْرِ ( صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠٠ )
٭ وہ جوان ہوگا اس کے بال بہت گھنگھریالے ہوں گے ! شَابّ قَطِط ( صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠١ )
١ صحیح مسلم ج ٢ ص٤٠٥ ٢ صحیح مسلم ج ٢ ص٣٩٩ ٣ ابو داود و مسلم ج ٢ ص٤٠٠
٤ ابوداود باب خروج الدجال بندر وں کے پائوں کی وضع بھی اسی طرح کی ہوتی ہے ! محمود میاں غفرلہ
٭ اس سے بہت بڑی بڑی خوارقِ عادات ظاہر ہوں گی ١ پانی نہر بارش باغ جسے وہ جنت کہے گا اورآگ جسے وہ جہنم کہے گا اس کے ساتھ ہوں گی، حقیقت یہ ہوگی کہ اس کا پانی آگ ہوگا اورآگ پانی ہوگی جو مسلمان ایسے موقع پر پھنس جائے تو اسے چاہیے کہ اس کی آگ میں داخل ہو کیونکہ وہ شیریں پانی ہو گا ! پیاس کے وقت اس کی آگ ہی پئے یہ پانی ہوگا ! فرمایا گیا آنکھ بند کرکے سرجھکا کر آگ کو پانی کی طرح پی لے ! ! وَلْیَغْمِضْ ثُمَّ لِیُطَاطِیْ رَأْسَہ فَیَشْرَبُ مِنْہُ ٢
٭ مسلمان کو اس کاکافرہوناصاف نظرآجائے گا مَکْتُوْب بَیْنَ عَیْنَیْہِ '' ک ف ر '' ٣
٭ یہ دنیا بھر میں چکر لگائے گابجز مکة مکرمة اورمدینة منورة کے، دونوں جگہ شہروں میں نہ داخل ہوسکے گا
لَیْسَ مِنْ بَلَدٍ اِلَّاسَیَطَؤُہُ الدَّجَّالُ اِلَّا مَکَّةَ وَالْمَدِیْنَةَ ٤
دجال کے وجود کے یقینی بنانے کے لیے فرمایا گیا کہ مدینة منورة میں نہ طاعون آئے گا نہ دجال ! !
لَا یَدْخُلُھَا الطَّاعُوْنُ وَلَا الدَّجَّالُ ٥
چودہ سو سال میں دیکھ چکے ہیں کہ مدینہ شریف میں طاعون کی وباء کبھی نہیں ہوئی اس لیے اس کے ساتھ دوسری بات کہدجال کا وجود بھی ہوگا اور وہ وہاں نہ داخل ہو سکے گا (ضرور) صحیح ہوگی ! !
٭ یہ مدینة منورة کے باہر ہی شور زمین پر ایک میدان میں ٹھہرے گا یَنْزِلُ بَعْضَ السِّبَاخِ الَّتِیْ بِالْمَدِیْنَةِ ٦
١ جادو کے ذریعہ بھی بہت سی خرابیاں کرے گا السِحْر فی اصطلاح الشرع : اَمْرخَارِق لِّلْعَادَةِ تَصْدُرُ عَنْ نَفْسٍ شَرِیْرَةٍ بِمُزَاوَلَةِ الاَسْبَابِ الْمَمْنُوْعَةِ فِی الشَّرْعِ ( بحوالہ قرآن مجید کے عجائب ص ١٠٧ )
ترجمہ : شریعت کی اصطلاح میں جادو ایسی چیز کو کہتے ہیں جو خلافِ عادت (کرتب اور شرارتیں ہوں جس سے لوگوں کی جانی و مالی بربادی) ہو جو شرارتی لوگوں (جن و انس) سے صادر ہو ایسے اسباب کو اختیار کرتے ہوئے جو شرعاً ناجائز ہیں ۔ محمود میاں غفرلہ
٢ صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠٠ ٣ صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٤٠ ٤ صحیح البخاری ج ١ ص٢٥٣
٥ صحیح البخاری ج ١ ص ٢٥٢ ٦ صحیح البخاری ج ١ ص ٢٥٣
٭ لوگ اس سے بچنے کے لیے پہاڑوں پر بھاگ جائیں گے عرب اس زمانہ میں تھوڑے ہوں گے ١
عربوں کی تعداد آبادی کے لحاظ سے اب بھی زیادہ نہیں ہے پھر شاید جہاد وغیرہ میں شہید ہو کر تعداد اور کم ہو جائے ! !
٭ اس سے بچنے اوردور رہنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ، ارشاد ہوا
مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْیَنْأَ عَنْہُ فَوَ اللّٰہِ اِنَّ الرَّجُلَ لَیَأْتِیْہِ وَھُوَ یَحْسِبُ اَنَّہ مُؤْمِن فَیَتَّبِعُہ مِمَّا یُبْعَثُ بِہ مِنَ الشُّبُھَاتِ ٢
''جو اس کی خبر سنے اسے چاہیے کہ اس سے دوررہے ،خدا کی قسم آدمی اس کے پاس آئے گا اوریہ سمجھتا ہوگا کہ میں پکا مسلمان ہوں مگر اس کے پاس جاتے ہی اس کے پیچھے چلنے لگے گا کیونکہ وہ شبہ میں ڈال دینے والی چیزیں دے کر بھیجا جائے گا '' (جادو وغیرہ کی زبردست قوت اس کے ساتھ ہوگی )
٭ جس کا اس سے سامنا ہو جائے تو سُورة کہف کی ابتدائی آیات پڑھے ٣ یہ آیات اس کے
فتنہ سے تمہاری پناہ ہوں گی ٤ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا وَاَعِذْنَا مِنْ شَرِّہ ۔ آمِینْ
٭ مدینہ شریف سے ہوکر جب یہ ارضِ فلسطین امریکہ کی ذیلی ریاست اسرائیل میں پہنچے گا تو نزولِ عیسٰی
علیہ السلام ہوچکا ہوگا وہ اس کے پیچھے دمشق سے روانہ ہوں گے اسے موجودہ اسرائیل کے مقام ''لُدْ'' کے باہر قتل کردیں گے ! حَتّٰی یُدْرِکَہ بِبَابِ لُدٍّ فَیَقْتُلُہ ٥
٭ دجال اُلوہیت کا مدعی ہوگا ! ! ٦
١ صحیح مسلم باب ذکر الدجال ج ٢ ص٤٠٥ ٢ ابوداود باب خروج الدجال رقم الحدیث ٤٣١٩
٣ سُورۂ کہف پندرھویں پارہ کے دوسرے نصف میں ہے ٤ صحیح مسلم باب ذکر الدجال ج ٢ص ٤٠١
٥ صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠١ یوں ''نیو ورلڈ آرڈر '' کا سردار مارا جائے گا ! مظلوم اور فاتحین سکون کا سانس لیں گے اور سجدۂ شکر بجا لائیں گے ! اور ''گولڈن ورلڈ آرڈر ''کا سورج سیّدنا عیسٰی اور حضرت مہدی علیہم السلام کی زیر ِ قیادت ایک بار پھر سے طلوع ہوگا محمود میاں غفرلہ ٦ صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠٢
٭ اس کے اولاد نہ ہوگی یہ لاولد ہی مارا جائے گا ! عَقِیْم لَا یُوْلَدُ لَہ ١
لفظ '' عقیم'' سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ناقص المادة ہوگا ٢ ! !
زرعی برکات
٭ سیّدنا عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں پیدا وار بہت بڑھ جائے گی، پھل بہت بڑے بڑے ہوں گے
اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کو حکم ہوگا کہ اپنا پھل اگا اوراپنی برکت لوٹا ! ! !
فَیَوْمَئِذٍ تَأْ کُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ وَیَسْتَظِلُّوْنَ بِقَحْفِھَا وَیُبٰرَکُ فِی الرَّسْلِ حَتّٰی اَنَّ اللَّقْحَةَ مِنَ الْاِبِلِ لَتَکْفِی الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ وَاللَّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرَةِ لَتَکْفِی الْقَبِیْلَةَ مِنَ النَّاسِ وَاللَّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ لَتَکْفیِ الْفَخْذَ مِنَ النَّاسِ ٣
اس وقت یہ حال ہو جائے گا کہ ایک انار کا پھل لوگوں کی ایک جماعت کھائی گی ! اس کے چھلکے کا سایہ کرلیا کریں گے ! اوردودھ میں برکت دے دی جائے گی حتی کہ تازہ بیائی اونٹنی کا دودھ کثیر تعداد لوگوں کو کافی ہو جایا کرے گا ! اورتازہ بیاہی گائے کا دودھ لوگوں کے ایک قبیلہ کو کافی ہوا کرے گا ! اور تازہ بیائی بکری کا دودھ لوگوں کے ایک کنبہ کو کافی ہو جایا کرے گا ! ! !
مسلمان ایک بار پھر سپر طاقت
( وَاَنْتُمُ الاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ ) ٤
اوراللہ تعالیٰ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں سب مذاہب ختم کردیں گے سوائے اسلام کے !
وَیُھْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَامَ ۔ ( ابوداود باب خروج الدجال )
یعنی یہ سب کچھ خود بخود بسہولت ہوتا چلا جائے گا ! کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے گی ! ! !
١ صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٩٨ ٢ جرثومے (Sperms) کمزور ہوں گے یا بالکل ہوں گے ہی نہیں
٣ صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠٢ ٤ سُورة الِ عمران : ١٣٩
اسباب کثرت ِ زراعت ؟
بلا شبہ سب کچھ حق تعالیٰ کے اَمْر ہی سے ہوتا ہے ! لیکن کیا اس قدر زیادہ اوربڑی پیداوار کے ظاہری اورمادّی اسباب بھی ہوں گے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا ہوں ! !
کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہو سکتا ہے ایٹمی اسلحہ استعمال میں آئے جس سے زمین کی صلاحیت ایک عرصہ تک مفقود ہو جائے اورپھر اس کی تاثیرات کسی اورسبب سے یا عرصہ گزر جانے سے بِاَمْرِاللّٰہ مُنْقَلِب ہوکر مفید ہوجائیں ! ! !
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر ابتلاء سے اپنی پناہ میں رکھے، اپنے دین ِمتین کی بیش از بیش خدمت لے لے ،ہمارے اوقات میں برکت دے ،ہمیں اپنی رضا وفضل سے دارین میں نوازے اور ہمیں ان کے ساتھ محشور فرمائے جن پر اس نے انعام فرمایا ! !
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ
حامد میاں غفرلہ
١٩ جمادی الاولیٰ ١٤٠١ھ / ٢٦مارچ ١٩٨١ء پنجشنبہ (جمعرات)
جامعة مدنیة لاہور




ظہور مہدی اور نزولِ عیسٰی علیہم الصلٰوة و السلام سے متعلق
قطب الاقطاب حضرت اقدس کی ایک الہامی تحریر کا عکس ملاحظہ فرمائیں




قسط : ٢٢
تربیت ِ اولاد
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
اصلاح و تربیت کے لیے سختی کرنے کی ضرورت اور اس کے طریقے :
بعض اوقات اگر ایک بات کو نرمی سے سمجھا یا جائے تودل پر اس کااتنااثرنہیں ہوتا اورنہ وہ اتنی مدت تک یادرہتی ہے جتنا کہ سختی سے سمجھانے سے نقش کالحجر (پتھر کی لکیر کی طر ح) ہوجاتی ہے !
بعض لوگوں کی سختی کے بغیراصلاح نہیں ہوتی ایسی حالت میں اگرسختی نہ کی جائے توخیانت ہے اگرسختی کرنابداخلاقی ہوتا توحضور صلی اللہ عليہ وسلم سے کبھی صادرنہ ہوتی (حالانکہ بعض مواقع میں حضور صلی اللہ عليہ وسلم سے سختی کرنا ثابت ہے ) ! ! (حسن العزیز)
ضرورت کے وقت بچوں پرسختی نہ کرنا ان کو خطرہ میں ڈالناہے :
مشفق باپ کو اپنے بچہ کے ساتھ مخالفت ہوتی ہے جس وقت کہ بچہ بے راہی (غلط راہ )اختیار کرتا ہے اس وقت باپ اس کا مخالف ہوتاہے اور بچہ کو مارتابھی ہے ! !
مشفق ماں ، بیماربچہ کی مخالفت کرتی ہے کہ جب بچہ اپنی طبیعت کے موافق غذائیں کھاتا ہے مگرماں اس کو نہیں دیتی بلکہ بسااوقات ضد کرنے پراس کو مار تی بھی ہے ! !
وجہ اس کی یہ ہے کہ دونوں مثالوں میں دوقسم کے نقصان جمع ہیں ایک اَہون(یعنی ہلکا) دوسر ا اَشد (یعنی سخت ) ! ماں باپ سخت نقصان سے بچانے کے لیے ہلکے نقصان کو اختیار کرتے ہیں اوریہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جس جگہ دو نقصان جمع ہوں ایک سخت ، دوسرا کم درجہ کا ہو تو اَہون (یعنی کم درجہ والے) کواختیارکرلینا چاہیے مثلاً باپ نے بے ر اہی غلطی پربچہ کوماراتو یہ بھی بچہ کے حق میں ایک درجے کا نقصان ہے اور دوسرا نقصان یعنی بے راہی (وگمراہی)اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ اگر بچہ بے راہی اختیار کرے گا تو اس کا انجام بہت ہی براہوگا مثلاً وہ پڑھتا نہیں یا بری صحبت میں بیٹھتا ہے جس سے آگے چل کراس کو بہت نقصان ہوگااور یہ نقصان پہلے نقصان سے بڑھ کرہے اس لیے باپ نے کم درجہ کے نقصان کواختیارکیا تاکہ بچہ بڑے نقصان سے محفوظ رہے ! !
اسی طرح ماں جوبیما ربچوں کومختلف غذائوں سے روکتی ہے حالانکہ یہ بچہ کے حق میں ایک درجہ کا نقصان ہے مگر ماں اس کواختیار کرتی ہے ! !
وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں بھی دوقسم کے نقصان جمع ہیں ایک سخت دوسرا ہلکا ! ہلکا نقصان توغذا سے روکنا ہے اورسخت نقصان وہ ہے جو غذاکے دینے سے ہوگا ! وہ یہ کہ اگربچہ کو اس کی منشاء کے مو افق غذادی جائے گی تو بیماری بڑھ جائے گی اورہلاکت تک نوبت پہنچے گی اس لیے ماں اَہون الضررین (یعنی کم در جے کے نقصان )کو اختیارکرتی ہے ! !
سزادینے کی مختلف صورتیں اور بچوں کوسزادینے کے بہترین طریقے :
''تعزیر''وہ سزاہے جو تادیب (تنبیہ کرنے کے لیے )دی جائے اور حد کے درجہ سے کم ہو ! اور اس کے مختلف طریقے ہیں :
(١) ملامت کرنا(٢)ڈانٹنا(٣)ہاتھ یا لکڑی وغیرہ سے مارنا(٤)کان کھینچنا (٥)سخت الفاظ کہنا (٦) محبُوس(یعنی قید کردینا) (٧)مالی سزادینا
بچوں کی بہتر سزایہ ہے کہ ان کی چھٹی بند کردی جائے اس کا ان پر کافی اثر ہوتا ہے ! !
میں نے( بچوں کے لیے) دو سزائیں مقررکرر کھی ہیں :
ایک کان پکڑوانا جس کو مراد آباد والے بطخ یا مرغا بنوانا کہتے ہیں !
دوسرے اُٹھنا بیٹھنا ! اس میں دونوں ا صلاحیں ہوجاتی ہیں ، جسمانی بھی کیونکہ اس میں ورزش ہوتی ہے اور نفسانی یعنی اخلاقی بھی کیونکہ اس سے تنبیہ ہوجاتی ہے !
مجھے بچوں کے پٹنے سے سخت تکلیف ہوتی ہے ! بوقت ِضرورت اگرکبھی میں مارتاہوں تورسی سے مارتاہوں اس میں ہڈی ٹوٹنے کاخطرہ نہیں ہوتا !
سختی کرنے کی حدود، سختی مقصود بالذات نہیں :
سختی مقصودبالذات نہیں ، مقصوداصلاح ہے جب معلوم ہوجائے کہ سختی سے نفع نہیں ہوتا تونرمی سے اصلاح کرتارہے مگراس میں ضبط وتحمل کی ضرورت ہے جومشکل ہے کیونکہ یہ توآسان ہے کہ بالکل نہ بولے اور یہ مشکل ہے کہ ناگواری میں تحمل سے بولے خاص طورپرجبکہ دوسرا ٹیڑھا ہوتا چلاجائے اوراپنے گھروالوں کاحال خودہی ہرشخص جانتا ہے کہ نرمی سے اصلاح ہوگی یاسختی سے ! محض سختی کرنے سے کچھ نہیں ہوتا !
میں بھی جولوگوں کے ساتھ ان کی اصلاح کے لیے سختی کرتاہوں اب چھوڑوں گا کیونکہ کچھ نفع نہیں ہوتا ! ایک صاحب نے دریافت فرمایا کہ کیا(ایسی حالت میں گھروالوں کو)مطلق العنان (یعنی بالکل آزاد) چھوڑ دیا جائے ؟ فرمایا نہیں ، نصیحت کرتارہے !
زیادہ سختی کرنے اور مارنے کے نقصانات :
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس شریر بچہ کو بار بار پیٹا جائے، اٹھتے بیٹھتے لات جوتے کا معاملہ رکھا جائے وہ بے حیا ہوجا تاہے پھر وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا ! !
اس سے قطع نظر ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ زیادہ مارنا تعلیم وتربیت کے لیے بھی مفیدنہیں ہو تا بلکہ مضر ہوتا ہے ! ایک تو یہ کہ بچہ کے قویٰ (اعضائ)کمزورہوجاتے ہیں ! دوسرے یہ کہ ڈرکے مارے سارا پڑھا لکھا بھو ل جاتے ہیں ! تیسرے یہ کہ جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتاہے تو بے حیاء بن جاتا ہے پھرپیٹنے سے اس پرکچھ اثر نہیں ہوتا ! اس وقت یہ مرض لا علاج ہو جا تا ہے اورساری عمر کے لیے ایک بری عادت یعنی بے حیا ئی اس کی طبیعت میں داخل ہو جاتی ہے۔
سزا دینے کے غلط طریقے :
ایسی وحشیانہ سزا جس کی برداشت نہ ہو سکے جیسے دھوپ میں کھڑا کر کے تیل چھو ڑنا ، ہنٹروں سے بے درد ہو کرمارنا بڑا گناہ ہے ! کسی آدمی یاجانورکو آگ سے جلانا جائز نہیں !
بعض لوگوں کا دستور ہے کہ لڑکوں سے دوسرے لڑکوں کے چپت لگواتے ہیں مگرمیں اس سے منع کرتا ہوں یہ بہت غلط طریقہ ہے کہ اس سے آپس میں عداوت(دشمنی)ہوجاتی ہے !
ماں باپ کا ظلم اور زیادتی :
غضب یہ ہے کہ بعض دفعہ چھوٹوں پر بھی بری طرح غصہ کیا جاتا ہے اور وہ بالکل بے بس ہوتے ہیں ان کی طرف کچھ بھی بدلہ نہیں ہوسکتا ، بچوں پر جو ظلم ماں باپ کی طرف سے ہوتا ہے وہ اسی کا ہے بعضے ماں باپ ایسے قصائی ہوتے ہیں کہ بچہ کو اس طرح مارتے ہیں جیسے کوئی جانورکو مار تا ہے بلکہ جیسے کوئی چھت کو کوٹتا ہے اور گر کوئی منع کرے تو کہتے ہیں کہ ہمیں اختیار ہے ہم اس کے باپ ہیں ! یاد رکھیے باپ ہونے سے مِلک رقبہ ( یعنی اس کی جان کی ملکیت) حاصل نہیں ہوتی ورنہ یہ بھی ہوتا کہ باپ بیٹے کو بیچ لیا کرتا ! !
باپ کا رتبہ حق تعالیٰ نے بڑا کیا ہے اس واسطے نہیں کہ چھوٹے اس کے مِلک ہوں اور اس سے چھوٹوں کو تکلیف پہنچے بلکہ اس واسطے کہ چھوٹوں کی پرورش کرے اور ان کو آرام دے ! ہاں کبھی اس آرام دینے کی ضرورت سے سزا اور تنبیہ کرنے کی بھی ضرورت پیش آتی ہے اور اس کی اجازت ہے !
سزا میں کتنی مار مار سکتے ہیں :
تنبیہ کرنے اور سزا دینے کی ضرورت پڑتی ہے اوراس کی اجازت ہے اور اَلضَّرُوْرَةُ تَتَقَدَّرُ بِقَدْرِالضَّرُوْرَةِ(یعنی ضروری بقدرِضرورت ہی ضروری ہوتاہے)کے قاعدے سے اتنی ہی تادیب (سزا) دینے کی اجازت ہوسکتی ہے جو پرورش اور تربیت میں مفید ہو، نہ اتنی جو کہ درجہ ایلام (سخت تکلیف اور مصیبت) تک پہنچ جائے ! اور ماں باپ سے ایسی زیادتی گناہ ہونے کے علاوہ انسانیت اور فطرت کے بھی خلاف ہے ! ماں باپ کو تو حق تعالیٰ نے محض رحمت بنایا ہے ان سے ایسی زیادتی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص انسانیت سے بھی خارج ہے ! !
ضربِ فاحش(سخت مار) سے فقہاء نے صراحتاً منع فرمایا ہے ! اور جس مار سے کھال پر نشان پڑجائیں اس کو بھی فقہاء نے ضربِ فاحش میں داخل کیا ہے ! اور جس مار سے ہڈی ٹوٹ جائے یا کھال پھٹ جائے وہ بدرجۂ اَولیٰ منع ہے ! لیکن ضربِ فاحش سے خود استاد یا باپ کو تعزیر (یعنی سزا) دی جائے گی ! !
غصہ میں ہرگز نہیں مارنا چاہیے :
غصہ کو جہاں تک ہوسکے روکو، غصہ کی حالت میں حواس درست نہیں رہتے اس وقت کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے،غصہ کے وقت طبیعت بھڑک اٹھتی ہے او راس کی برائیاں اور نقصانات پیش ِنظر نہیں رہ جاتے ! تجربہ کر کے دیکھا گیا ہے کہ غصہ کو روکنا ہمیشہ اچھا ہوا ہے اور جب غصہ کو جاری کیا گیا ہے تو ہمیشہ اس کا انجام برا ہوا ہے ! جب غصہ آجائے توہرگز کسی قول وفعل میں جلدی نہ کرے ! حدیثوں میں بھی غصہ کے وقت فیصلہ کرنے کی ممانعت آئی ہے !
غصہ میں بچوں کو ہرگز نہ مارا جائے بلکہ غصہ ٹھنڈا ہوجانے کے بعد سوچ سمجھ کر سزادی جائے ! میں بھی غصہ کے وقت کوئی فیصلہ نہیں کرتا، غصہ ختم ہوجانے کے بعد جب تک تین چار بار غور نہیں کر لیتا کہ واقعی یہ سزا کا مستحق بھی ہے اس وقت تک سزا نہیں دیتا ! ! (جاری ہے)




گرین گولڈ : مستقبل کی تخیلاتی معیشت کی بنیاد
( ڈاکٹر مبشر حسین صاحب رحمانی )
٭٭٭
٭٭٭تخیلاتی وتصوراتی اور غیر حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو فروغ دینے اور حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو بتدریج ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پر کئی جہتوں سے کوششیں ہورہی ہیں اس تناظر میں ایک طرف تو ''قدر'' کی تعریف ہی تبدیل کرنے کی کوششیں اپنے بامِ عروج پر ہیں تو دوسری طرف ایسی نت نئی مالیاتی پروڈکٹس اور سروسز عالمی مالیاتی نظام میں متعارف کروائی جارہی ہیں جن کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں !
اس پر بس نہیں کیا جا رہا بلکہ ڈی سینٹر لائزڈ فنانس (Decentralized Finance)
یعنی ڈی فائی(DeFi) کے نام پر ایک متبادل عالمی مالیاتی نظام کو نئے سرے سے مرتب کیا گیا ہے جس کے تحت ایسی فنانشیل پروڈکٹس وسروسز کی ترویج و اشاعت تدریجاً کی جارہی ہے جن کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں مثلاً فلیش لون، اسٹکینگ/ لینڈنگ، ڈی سینٹر لائزڈ ایپلی کیشنز وغیرہ نیز ''عالمی ماحولیاتی آلودگی سے تدارک'' کا لبادہ اوڑھے گرین گولڈ کے نظریے کو پیش کیا گیا ہے جس کے تحت سونے کو زیر زمین ہی رہنے دیا جائے اور سونے کو نکالنے کے لیے کان کئی نہ کی جائے ! گرین گولڈ نظریے کو عملاً نافذ کرنے کے لیے پہلے علمی وعقلی دلائل سے عوام الناس کے اندر رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے اور پھر مستقبل میں یہ احتمال ہے کہ ایک منظم طریقے سے اس نظریہ اور اس کی عملی شکلیں معاشرے میں رواج دینے کی کوششیں کی جائیں گی۔
دنیا کے مشہور سرمایہ کار اور امیرترین شخصوں میں سے ایک وارن بافیٹ نے ١٩٩٨ء میں ہاورڈیونیورسٹی امریکہ میں اپنی تقریر میں کہا :
“[Gold] gets dug out of the ground in Africa , or someplace . Then we melt it down, dig another hole, bury it again and pay people to stand around guarding it
It has no utility ” ( Forbez Magazine )
'']سونا[ افرقہ میں یا کسی جگہ زمین سے کھودا جاتا ہے پھر ہم اسے پگھلاتے ہیں ، ایک اور گڑھا کھود تے ہیں اسے دوبارہ فن کرتے ہیں اور لوگوں کو اس کی حفاظت کے لیے کھڑے ہونے کے لیے ادائیگی کرتے ہیں اس کی کوئی افادیت نہیں ہے''
یہ بیان غیر حقیقی معیشت کو پروان چڑھانے والی سوچ کی عکاسی کرتا ہے یہ وہ طرزِ فکر ہے جس کے تحت عالمی معاشی نظام کی جڑیں کھوکلی ہوتی ہیں ، ایک ایسی معیشت کو تقویت دی جاتی ہے جوکہ عالمی مالیاتی بحرانوں کا پیش خیمہ بنتی ہے اور کساد بازاری کی بنیادی وجہ ہے۔ پوری دنیا کی معیشت پر جن لوگوں کا اثر و وسوخ ہے ان میں سے بیشتر اسی طرزِ فکر کے حامی ہیں اس کے ذریعے عالمی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں اور ایسے ہتھکنڈے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے عالمی معیشت پر ان کی گرفت مضبوط رہے
''گرین گولڈ'' سے مراد سونے کی وہ شکل ہے جس کو زمین سے کان کنی کر کے نکالا نہ گیا ہو پھر زمین کے اندر ہی رہنے دیا جائے اور محض تخمینہ کے ذریعے سونے کے زیر زمین ذخائر کا اندازہ لگا کر اس فرضی سونے کے تخمینے کی حقیقی دنیا میں خرید و فروخت شروع کردی جائے مثلاً کسی جگہ سونے کے ذخائر کی موجودگی کے شواہد ملنے کے بعد جدید سائنسی طریقے سے تخمینہ لگا کر سونے کے ذخائر کا اندازہ لگالیاجائے پھر اس سونے کی قیمت بازاری ریٹ کے حساب سے لگا کر اس زیرِزمین سونے کی خریدوفروخت کی جائے !
دوسرے الفاظ میں سونے کے ذخائر کا کمپیوٹر کے کھاتوں میں اندراج کردیا جائے اور پھر اس کی خریدوفروخت کی جائے مثلاً اگر دوسو ٹن زیرِزمین سونے کے ذخائر کا تخمینہ لگایا گیا تو اس زیرِزمین سونے کا اندراج کمپیوٹر کے کھاتوں میں کردیا جائے اور پھر عالمی مارکیٹ میں حقیقی سونے کی مارکیٹ قیمت کے حساب سے اس زیرِزمین سونے کی تجارت شروع ہوجائے !
آسان الفاظ میں زیرِ زمین موجود سونے کے ذخائر کا محض تخمینہ لگا کر سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے اس طرح کی سونے کی سرمایہ کاری کو ''صاف ''اور ''گرین'' سرمایہ کاری کا عنوان دیا گیا ہے ! !
اس طریقے سے گرین گولڈ کے محض کمپیوٹر کھاتوں میں اندراج کی خرید وفروخت سے کئی سنگین مسائل جنم لیں گے مثلاً اس بات کو کیسے ملحوظ رکھا جائے گا کہ کاغذوں اور کمپیوٹر پر اتنی ہی زیرِ زمین سونے کی مقدار کا اندراج کیا گیا جس کا تخمینہ لگایا گیا تھا ؟ کاغذوں اور کمپیوٹر پر اندراج ہی تو کرنا ہے تخمینہ لگائی گئی مقدار کے بجائے زیادہ اندراج کردیا جائے اور پھر اس کی خرید و فروخت شروع کردی جائے پھر تو دیگر سیاروں مثلاً مریخ پر ممکنہ طور پر موجود سونے کے ذخائر کو نکالے بغیر ان کی تجارت کرنے کی راہیں ہموار کی جائیں گی اور اس کی ملکیت پھر ان ہی ممالک کے پاس ہوگی جن کاا سپیس پروگرام ہے۔ پھر سونے کے ذخائر کی تلاش کی کلفت اٹھانے کی بھی کیا ضرورت ہے، بس جس کا دل چاہے سونے کی فرضی مقدار سوچ لے، کمپیوٹر کھاتوں میں جتنے چاہے سونے کے ذخائر کا اندراج کردے اور پھر خریدوفروخت شروع ! اس سوچ کی ایک نظیر مروجہ فلیش لون ہے جس میں اثاثوں کی غیر موجودگی میں اس فرضی اثاثے کا قرضہ فراہم کیا جاتا ہے اور یہی کچھ گرین گولڈ کے تناظر میں بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔
دیکھیے بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت انٹرنیٹ پر حقیقی سونے کی مروجہ خریدوفروخت بذریعہ مارکیٹ ہوتی ہے مثلاً لندن کی اووردی کاؤنٹر مارکیٹ( London OTC Market) امریکی فیوچر مارکیٹ( COMEX ) چائنیز مثلاً شنگھائی گولڈ ایکسچینج(SGE) شنگھائی فیوچرز مارکیٹ(SGFE)، نیویارک مرکن ٹائل ایکسچینج (NYMEX) وغیرہ شامل ہیں اور دوسری صورت گولڈ بُلین کی صورت میں سونے کی خریداری ہے، سونے کی خریدوفروخت کموڈیٹی مارکیٹ کے ذریعے عمومی طور پر انجام دی جاتی ہے اور علمائے کرام کے مطابق کموڈیٹی ٹریڈنگ (سونا چاندی اور دیگر اشیاء اجناس کی آن لائن تجارت) مختلف وجوہات مثلاً مَبیع قبل القبض اور بعض صورتوں میں مبیع ، معدوم ہونے کی بناء پر ناجائز ہے ! قارئین غور فرمائیں کہ حقیقی سونا موجود ہے مگر چونکہ سونا بیچنے والے کے پاس سونا بیچتے وقت اس حقیقی سونے کی ملکیت اور قبضہ نہ آیا لہٰذا اس حقیقی سونے کی خریدوفروخت بھی ناجائز ٹھہری چہ جائیکہ گرین گولڈ جس میں تو سونا سرے سے موجود ہی نہیں ، محض تخمینہ اور سونے کے ذخائر کے فرضی نمبروں کا کھاتے میں اندراج کی خریدوفروخت ہے لہٰذا مفتیانِ کرام کے مطابق گرین گولڈ کی تجارت بدرجہ اَولیٰ ناجائز ہے !
گرین گولڈ نظریہ کے حامی سونے کی کان کنی سے پیدا ہونے والے نقصانات گنواتے ہیں مثلاً سونے کی کان کنی ماحولیات پر اثر جیسے دیاؤں پر اثر، زمین کے قدرتی مناظر( Landscape )کا خراب ہونا، آب وہوا ( Climate) پر اثر، جنگلاتی حیات(Flora and Fauna) پر اثر، جانوروں کی رہائش گاہ پر اثر اور بائیو ڈائیور سٹی یا حیاتیاتی تنوع(Bio-diversity) شامل ہیں ۔
گرین گولڈ نظریہ کے حامی افراد کی باتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سونے کی کان کنی کے ماحولیات پر سنگین نتائج مرتب ہوتے ہیں جبکہ یہ حضرات سائنسی تجزیہ سے مستند اعداد وشمار پیش نہیں کرتے کہ کون کون سے عوامل کتنے فیصد ماحولیاتی آلودگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور اس میں سونے کی کان کنی کا کتنا تناسب ہے ؟ ؟
ہماری رائے میں سونے کی کان کنی پر پابندی کی بجائے ماحولیاتی آلودگی کے بڑے اسباب کا تدارک کیا جائے مثلاً ترقی یافتہ ممالک کا صنعتوں میں کیمیائی مادوں کا بے دریغ استعمال، جنگلات کا کٹاؤ، انٹرنیٹ کو چلانے والے ڈیٹا سینٹرز ودیگر ماحولیات پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا تدارک شامل ہے امریکہ کی ماحولیاتی آلودگی کے تحفظ کی تنظیم(Environmental Protection Agency-EPA) کے 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق چونتیس فیصد پاور کی صنعت (بجلی کی پیدا وار اور ٹھنڈے ممالک میں حرارت کی پیداوار) ،چوبیس فیصد مختلف صنعتوں ، بائیس فیصد زراعت، پندرہ فیصد ٹرانسپورٹ اور چھ فیصد بلڈنگ سے گرین ہاؤس گیس (جوکہ سطح زمین پر درجہ حرارت بڑھنے کا سبب بنتی ہیں ) کا اخراج ہوا ہے ! !
یورپی کمیشن کی 2023ء کی گرین ہاؤس گیس کے اخراج کی رپورٹ ان اعداد و شمار کی تائید کرتی ہے اور اس میں مہیا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیس کا اخراج پاور کی صنعت (بجلی وحرارت کی پیداوار)، ٹرانسپورٹ، بلڈنگ، زراعت، فضلہ اور معدنی وسائل کے ڈھونڈنے میں ہوتا ہے ! !
اہم بات یہ ہے کہ ورلڈ گولڈ کونسل کے مہیا کیے گئے اعداد اور شمار کے مطابق سونے کی صنعت (کان کنی وغیرہ) کا گرین ہاؤس گیس اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم کا حصہ ہے لہٰذا یہ تاثر دینا کہ سونے کی کان کنی ہی ماحولیاتی آلودگی کا اصل اور بڑا سبب ہے یہ بات درست نہیں ہے ! !
گرین گولڈ نظریہ کے حامی گرین گولڈ کی تجارت کے کئی فوائد گنواتے ہیں مثلاً ایسا کرنے سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوگا، ''گرین گولڈ'' بطور ''نیا اثاثہ'' سستا بھی ہوگا، اس میں کان کنی کا خرچہ بھی بچے گا، مائننگ کمپنیوں کو مزدوری بھی ادا نہیں کرنی پڑے گی، رائلٹی بھی نہیں دینی پڑے گی اور بھاری مشینری کے اخراجات سے بھی نجات ملے گی ! !
غور فرمائیے کہ ''اثاثہ'' کی تعریف ہی تبدیل کردی گئی ہے اور ایک موہوم، فرضی اور معدوم چیز کو اثاثہ گردانا جا رہا ہے ! پھر یہ بات پیش کی گئی ہے کہ اس سے سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں گے ! درحقیقت یہ سرمایہ کاری کے مواقع نہیں بڑھ رہے بلکہ غیر حقیقی معیشت کو فروغ دے کر لوگوں سے پیسے بٹورنے کے جدید طریقے ہیں ! !
ایک اہم غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں سونے کی کانیں دریافت ہوتی ہیں اور کان کنی کی جاتی ہے تو وہاں کی مقامی آبادی کو سونے کی کان کنی کرنے والی کمپنیاں اور حکومتیں رائلٹی کی مد میں بھاری معاوضہ ادا کرتی ہیں ۔ گرین گولڈ کی صورت میں جس جگہ سونے کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جائے گا وہاں سے سونا نکالانہیں جائے گا اور بغیر اس اثاثے کے یعنی سونے کے حصول کے کون رائلٹی ادا کرے گا ؟ اگر بالفرض محال کوئی کمپنی ادا کرے گی تو پھر وہ کمپنی کئی گنا کمائے گی بھی اور بغیر کسی حقیقی اثاثوں کی ملکیت کے ! !
سونے کی کان کنی اس وجہ سے بھی ضروری ہے کیونکہ جب سرمایہ کاروں کو سونے میں سرمایہ کاری اور تجارت کرنا ہوتی ہے تو سونے تک ان کی رسائی بھی لازمی ہونی چاہیے۔ سونے کی تجارت بغیر سونے تک حقیقی رسائی کے ممکن نہیں اور انسانی معاشرے کی بھلائی کے لیے اسلام نے حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کے اصول وضع کیے ہیں ! !
تاریخی طور پر سونے کو ''قدر کو محفوظ'' کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام کو نبی علیہ السلام نے ایک دینار دے کر بھیجا کہ ایک جانور قربانی کے لیے خریدیں جس پر آپ نے قربانی کے لیے ایک بکری خریدی (بحوالہ : تقریر ترمذی از حضرت مفتی محمدتقی عثمانی ، حصہ معاملات جلد اوّل ص ١٨٧ )
جمہور مفتیان کرام کی تحقیق کے مطابق ایک دینار (سونے) کی مقدار چار اعشاریہ تین سات چار گرام (4.374 gm) ہے ۔ (بحوالہ :''اوزان شرعیہ'' ازمفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب )
آج بھی ایک دینا ر کی قیمت تقریباًایک لاکھ پاکستانی روپے بنتی ہے جس سے ایک بکری لی جاسکتی ہے یعنی چودہ سو سال گزرنے کے باوجود سونے نے اپنی قدر کو قائم رکھا ہوا ہے۔ اب بھلا ''گرین گولڈ'' کے فرضی اندراج سے قدر کو کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے ؟ ؟
''گرین گولڈ'' سے انسانیت کو فائدہ کے بجائے نقصان زیادہ ہے۔ سونے کی کان کنی سے کئی صنعتیں جڑی ہیں اور بلا مبالغہ لاکھوں مزدوروں ، انجینئرز، سائنسدان، ہیوی مشین آپریٹرز، جیولوجسٹ، کیمیکل انجینئرز وغیرہ کی نوکریاں وابستہ ہیں ۔ گرین گولڈ سے ان تمام لوگوں کی حق تلفی ہوگی ان کے گھرانوں کی روزی روٹی بند ہوگی اور یہ مزدوروں کے حقوق پر سرمایہ دارانہ ذہنیت کی ایک کاری ضرب ہے اور اس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں کے حقوق غصب کرنا چاہتا ہے ! !
سائنس اور معاشی علوم کا مقصد انسانیت کی فلاح اور بہتری ہے۔ گرین گولڈ کو ''عالمی ماحولیاتی آلودگی سے تدارک'' کالبادہ اوڑھے پیش کرنے سے محض چند لوگوں کو فائدہ پہنچے گا اور بہت زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچے گا ! انسانیت کی فلاح وبہبود کی خاطر ہمیں گرین گولڈ کے نظریہ کے بجائے حقیقی سونے کی خریدو فروخت پر انحصار کرنا چاہیے ! !
دیکھیے سونا ایک قیمتی دھات ہے جس کی اپنی ذاتی قدر ہے قیمتی اثاثہ ہے اور تاریخی طور پر اس کو بطورِ آلہ مبادلہ استعمال کیا گیا، سونے کے دیگر اہم استعمال بھی ہیں مثلاً الیکٹرانک آلات اور خاص طور پر موبائل فون، دندان سازی اور کمپیوٹر ہارڈویئر میں استعمال ہوتا ہے نیز سونے کے زیورات کے ذریعے تزئین وآرائش حاصل کی جاتی ہے، سونے کی کان کنی سے کئی دیگر صنعتیں بالواسطہ اور بلا واسطہ متعلق ہیں سونے کی کان کنی سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے لوگوں کو نوکریاں ملی ہیں اور معیشت کا پہیہ چلتا ہے ! ! ورلڈ گولڈ کونسل کے 2024 ء کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً بیالیس فیصد سونے کا استعمال جیولری بنانے میں ، پچیس فیصد بار اور سکے بنانے میں ، چھ فیصد ٹیکنالوجی میں اور بائیس فیصد سونا مختلف ممالک کے سینٹر بینک نے اپنے ذخائر میں خرید کر رکھا ! !
ستم ظریفی یہ ہے کہ جن مماک میں سونے کے ذخائر ہیں ان میں سے کچھ پر مغربی استعماری قوتوں کے تسلط کی وجہ سے یہ ممالک شدید ترین بدحالی اور معاشی کمزوری کا شکار ہیں ! کچھ امیر ممالک اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان ممالک کو غریب سے غریب تر کرنے پرتلے ہوئے ہیں اور ان کے معدنی وسائل پر مکمل قبضہ کرلیا ہے ! !
لہٰذا جو لوگ گرین گولڈ کے نظریے کے حامی ہیں وہ در اصل عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ایک طرف تو سونے کے بیکار پڑے رہنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف یہی لوگ اپنے لیے سونے کے ابنار اکھٹا کرتے نہیں تھکتے ! !
جب ''گرین گولڈ'' کے حامی یہ کہتے ہیں کہ سونے کی کوئی ذاتی قدر نہیں ا س کا کوئی فائدہ نہیں ، بس بیکار یوں ہی تجوریوں میں پڑا ہوا ہے اور سونے کی کان کنی نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ سونا تو ویسے ہی حکومتی اور سونے کی کمپنیوں کے والٹس( Vaults) یعنی تجوریوں میں پڑا رہتا ہے تو بنیادی طور پر پوری دنیا کوایک ایسے نظام کی طرف لے جارہے ہیں جس کی بنیاد تصوراتی وتخیلاتی معیشت ہے اور حقیقی معیشت سے اس کا دور کا کوئی تعلق نہیں ! !
دیکھیے 2007-2008 ء کے عالمی مالیاتی بحران کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہم نے ''ورلڈ اکنامک فورم'' پر جو مقالہ پیش کیا اس میں چار بنیادی عوامل کو پیش کیا جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی بحران پیدا ہوا :
اوّل : یہ کہ نقدی کو اس کے بنیادی مقصد یعنی ذریعہ تبادلہ سے ہٹانا اور اسے خود تجارت کا آلہ بنانا !
دوم : ڈیریویٹیو( Derivative)کا بہت زیادہ سرائیت کر جانا !
سوم : قرضوں کی فروخت
چہارم : اسٹاک اشیاء اور کرنسیوں میں شارٹ سیل ( Short Sales) اور بلینک سیل (Blank Sales )
''گرین گولڈ'' بھی در اصل عالمی معاشی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ اس سے بھی سٹے بازی اور غیر حقیقی معیشت کو فروغ ملے گا ! !
کتنی عجیب بات ہے کہ پوری دنیا کو معاشی طور پر کنٹرول کرنے والے گرین گولڈ کی ترغیب دے رہے ہیں جبکہ ان کی جان سونے میں اٹکی ہوئی ہے یعنی ایک طرف تو سونے کی کان کنی کی خامیاں گرانتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف فیڈرل ریز وامریکہ، بینک آف انگلینڈ برطانیہ اور آئی ایم ایف نے سونے کے ذخائر کے ابنار لگار رکھے ہیں ! !
آپ کو یہ جان کرحیرانگی ہوگی کہ برطانیہ کے ''بینک آف انگلینڈ'' کے پاس والٹس Vaults میں ساڑھے پانچ ہزار ٹن (تقریباً پچاس لاکھ کلو گرام) سونے کے بُلین موجود ہیں جن کی آج کل کے حساب سے مارکیٹ ویلیو تقریباً ایک سواسی بلین امریکی ڈالر سے زائد کی ہے اور یہ مقدار پوری دنیا کے سونے کے ذخائر کی پانچ فیصد بنتی ہے جس کی آج تک کان کنی کی گئی ہے ( مارک کارنی، ویلیو(ز) سگنل، ٢٠٢٢ء )
اگر سونے میں اتنی ہی خامیاں ہیں تو کیوں فیڈرل ریز وامریکہ، بینک آف انگلینڈ برطانیہ اور آئی ایم ایف ودیگر ترقی یافتہ ممالک اپنے تمام سونے کے ذخائر سے نجات حاصل نہیں کر لیتے ؟ کیوں خود بھی عملی طور پر سونے سے نجات حاصل کر کے صرف اور صرف گرین گولڈ پر انحصار نہیں کر لیتے ؟ کیوں آپ اپنے سارے گولڈ کے اثاثے غریب ممالک میں تقسیم نہیں کردیتے ؟ ؟ ؟
آپ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ سونے کی قدر کا آپ کو بخوبی ادراک ہے ! آپ کا مطمح نظر تو صرف لوگوں میں حقیقی سونے کی اہمیت کم کر کے گرین گولڈ کے عنوان سے تخیلاتی وتصوراتی اور غیر حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کو فروغ دینا اور لوگوں سے دولت سمیٹنا ہے ! !
٭٭٭




امیرجمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
١٥ دسمبر بروز اتوار امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم قاری منور صاحب کی دعوت پر ورکرز کنونشن میں شرکت کے لیے سہ پہر تین بجے جامعہ سے روانہ ہوئے رات تقریباً ساڑھے آٹھ بجے لیہ سرکٹ ہاؤس پہنچے،جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولانا عمر صاحب اور ان کے ساتھیوں نے استقبال کیا، بعد ازاں آپ نے گارڈن میرج ہال میں بہت مختصر بیان فرماکر دعاء خیر فرمائی ، رات کا قیام قاری عبدالغفور صاحب رحیمی کے اصرار پر مدرسہ جامعہ رحیمیہ تعلیم القرآن کوٹ سلطان لیہ میں فرمایا، صبح ناشتہ کے بعد مدرسہ کے اساتذہ کرام اور جمعیة کے ذمہ داران سے ملاقات ہوئی ،بعد ازاں قاری عبدالغفور صاحب رحیمی کی خواہش پر مدرسہ کے اساتذہ کرام اور طلباء سے گفتگو فرمائی اس کے بعد حضرت صاحب نے مدرسہ کے مہتمم صاحب اور جمعیة کے ذمہ داران سے اجازت چاہی اور اگلے تقریب میں شرکت کے لیے اوکاڑہ روانہ ہوئے اور مغرب کے قریب اوکاڑہ شہر پہنچ گئے !
یہاں سابق امیر پنجاب حضرت مولانا سیّد امیر حسین شاہ صاحب گیلانی رحمة اللہ علیہ کے صاحبزادے سیّد احسان صاحب گیلانی، ڈاکٹرعثمان گیلانی و ڈاکٹر فہد گیلانی اور خاندان کے دوسرے حضرات کے اصرار پر ان کی رہائشگاہ اظہر ریزیڈنسیز اوکاڑہ میں تھوڑی دیر قیام فرمایا، اس موقع پر حضرت صاحب نے ان کے بیٹوں کی درخواست پر دنیا وآخرت میں کامیابی کے لیے انتہائی انمول نصیحتیں فرمائیں اور جماعتی زندگی کی برکات پر روشنی ڈالی بعد ازاں حضرت صاحب نے اجازت چاہی عشاء کے قریب بستی رحیم بخش رینالہ خورد ضلع اوکاڑہ تشریف لے گئے، سیّد شمس الحق صاحب گیلانی اور احتشام الحق صاحب گیلانی اور حافظ محمد طارق مسعود صاحب امیر جمعیة علماء اسلام ضلع ساہیوال ومہتمم جامعہ علوم شرعیہ نے حضرت صاحب سے ملاقات کی۔
بعد ازاں مہتمم مدرسہ عربیہ دار القرآن قاری شفقت صاحب ، حضرت صاحب کو جلسہ گاہ کی طرف لے گئے حضرت صاحب نے جماعتی اہمیت اور رجوع اِلی اللہ پر نہایت مدلل بیان فرمایا ،بیان کے بعد حضرت قاری شفقت صاحب اور دوسرے صاحبان سے اجازت چاہی اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے رات ساڑھے گیارہ بجے جامعہ مدنیہ جدید پہنچے ، والحمد للّٰہ ۔
١٧ دسمبر بروز منگل جامعہ کے فاضل مولانا مصعب صاحب وہاڑی سے اپنے رفقاء کے ہمراہ خانقاہِ حامدیہ تشریف لائے اور حضرت صاحب سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی اور بعد نمازِ مغرب خانقاہ ِ حامدیہ میں کھانا تناول فرماکر واپس تشریف لے گئے۔
٢٠ دسمبر بروز جمعہ بعد نمازِ مغرب حضرت صاحب جامعہ مدنیہ جدید کے ناظم ڈاکٹر محمد امجد صاحب کی بیٹی کی رخصتی کی تقریب میں شرکت کے لیے مغل اعظم بینکوئٹ گارڈن ٹائون تشریف لے گئے
٢١ دسمبر بروز ہفتہ منتظمین ِآس اکیڈیمی کی دعوتِ خاص پر دو روزہ نقشبندی اجتماع میں شرکت کے لیے اڈا پلاٹ رائے ونڈ روڈ لاہور تشریف لے گئے، آپ نے اسلام میں سیاست کی اہمیت کے موضوع پر بیان فرمایا ۔
٢١ دسمبر بروز ہفتہ فاضلینِ جامعہ مدنیہ جدید جناب مولانا کلیم اللہ اور مولانا ساجد صاحبان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوئٹہ سے حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے خانقاہ حامدیہ تشریف لائے۔ بعد نمازِ عصر حضرت صاحب سے ملاقات کی اور خیریت دریافت کی، بعد ازاں حضرت صاحب نے اگلی صبح فاضلین جامعہ کو ناشتہ پر بلایا۔




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat




اخبار الجامعہ
(مولاناانعام اللہ صاحب، ناظم جامعہ مدنیہ جدید شارع رائیونڈ لاہور)
٭٭٭
روداد سفر کوئٹہ حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب : ( بقلم : مولانا ساجد فیض صاحب)
٤دسمبر بروز بدھ استاذ محترم حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب اور مولانا عکاشہ میاں صاحب رات دس بجے کوئٹہ پہنچے ،ہوائی اڈے پر راقم الحروف ساجد فیض ،مولانا کلیم اللہ صاحب نقشبندی ، مفتی روزی خان صاحب، مفتی خلیل اللہ صاحب اور جامعہ مدنیہ جدید کے فضلاء ومتعلقین نے شاندار استقبال کیا،ہوائی اڈے سے فارغ ہوکر رات کے کھانے کے لیے ڈاکٹر اویس صاحب کی رہائش گاہ پر حاضر ہوئے جو حضرت کے پرانے متعلقین میں سے ہیں ڈاکٹر صاحب کے ہاں نہایت عمدہ اور پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا کھانے سے فارغ ہوکر تھوڑی دیر اہل خانہ سے ملاقات کے بعد اپنی قیام گاہ کی طرف روانہ ہوئے رات جوکہ کوئٹہ کے مشہور شاہراہ سریاب روڈ پر لالاخان اسکیم میں واقع تھی اور اس کا انتظام لالاخان اسکیم کے مالک حاجی لالہ خان صاحب بادیزئی کے صاحبزادے مفتی روزی خان صاحب نے کیا تھا جو انتہائی پرسکون اور پرسہولت قیام گاہ تھی اور حضرت کا قیام آخری دن تک یہیں رہا۔
٥دسمبر بروز جمعرات حضرت صاحب ظہر کی نماز پڑھ کر حضرت مولانا پیر کلیم اللہ صاحب نقشبندی کے تین روزہ نقشبندی اجتماع اور دستاربندی حفاظ کرام کی تقریب میں شرکت کے لیے ان کے علاقہ پرانا مجک ضلع قلعہ عبداللہ جو کہ کوئٹہ سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے روانہ ہوئے مغرب کے قریب وہاں پہنچے تقریب میں بیان ،پچوں کی دستاربندی اور عشائیہ سے فارغ ہونے پر دوبارہ کوئٹہ کی طرف سفر کرکے قیام گاہ پہنچے ۔
٦دسمبر بروزجمعہ حضرت صاحب قیام گاہ میں رہے جمعہ پڑھانے کے لیے راقم الحروف ساجد فیض کے ہمراہ جامعہ محمدیہ مسجد ابراہیم ناشناس کالونی قمبرانی روڈ کوئٹہ تشریف لے گئے ، نماز جمعہ سے فارغ ہو کرمقامی حضرات اور نوشکی اور مستونگ سے آئے ہوئے جامعہ مدنیہ جدید کے فضلا ء نے حضرت صاحب ملاقات کی بعد از اں سابق سینیٹر حافظ حسین احمد صاحب کی عیادت کے لیے ان کی رہائشگاہ تشریف لے گئے اور اس کے بعد سابق ایم پی اے حاجی عبدالواحد آغا صاحب سے ملاقات کے لیے ان کی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے ،کچھ دیر بعد واپس قیام گاہ پہنچے، شام کو قیام گاہ پر راقم الحروف ساجد فیض ، مفتی روزی خان صاحب اور ان کے برادر جناب عبد الباری خان صاحب نے نہایت عمدہ اور پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں امیر جمعیة علماء اسلام بلوچستان حضرت مولانا عبدالواسع صاحب مدظلہم ، حضرت مولانا سہیل عرفان صاحب مدظلہم ،حاجی لالہ خان صاحب اور دیگر مہمان شریک ہوئے ، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر حضرت مولانا عبد الواسع صاحب اور حاجی لالہ خان صاحب سے خصوصی گفتگو رہی اس کے بعد ان سے اجازت چاہی اور آرام کی ترتیب بنی ۔
٧دسمبر بروز ہفتہ حضرت صاحب صبح ناشتے کی دعوت پر بھائی امان اللہ صاحب کی رہائش گاہ کوئٹہ کینٹ تشریف لے گئے ظہر کے بعد کوئٹہ کے مشہور عالم دین شیخ عبد الباقی صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات کے لیے ان کے ادارے جامعہ مفتاح العلوم تشریف لے گئے اس کے بعد صوبہ بلوچستان کی بزرگ شخصیت استاذ العلماء شیخ التفسیر حضرت مولانا شیخ عبد الستار شاہ صاحب کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے بعد نمازِ عصر کوئٹہ بلکہ بلوچستان کے معروف ادارے جامعة امدادیة تشریف لے گئے اور مہتمم جامعہ ومسئول وفاق المدارس العربیہ بلوچستان حضرت مولانا قاری نورالدین صاحب مدظلہم سے ملاقات ہوئی ،بعد نماز مغرب مرکز شبان ختم نبوت بلوچستان مسجد ابراہیم کلی دیبہ میں منعقد ختم نبوت علماء جوڑ میں شرکت کی اور امیر شبان ختم نبوت بلوچستان حضرت مفتی خلیل اللہ صاحب کے ہاں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا، کھانے سے فارغ ہوکر کوئٹہ کے مشہور ٹک ٹاکر فیض محمد صاحب خلجی نے کچھ دیر مجلس سجائی اور سب کے چہروں پر مسکراہٹوں کی بہار کھلا کر رخصت کیا۔
٨دسمبر بروز اتوار حضرت صاحب ظہر تک قیام گاہ میں رہے بعد ظہر راقم الحروف ساجد فیض کے ادارہ کی تقریب شال پوشی بنات و دستاربندی حفاظ کرام میں شرکت فرمائی ، حضرت صاحب نے بیان فرمایا اور حفاظ کرام کی دستاربندی بھی فرمائی ،یہاں سے فارغ ہو کر طوغی روڈ عید گاہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں مولانا احمد علی صاحب اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے عشائیہ کا اہتمام کیا گیا تھا کھانے سے فارغ ہوکر واپس قیام گاہ تشریف لے آئے۔
٩ دسمبر بروز پیر مولانا مفتی خلیل اللہ صاحب کی جانب سے ناشتے کا اہتمام کیا گیا تھا ناشتے سے فارغ ہونے پر مفتی خلیل اللہ صاحب کے ادارے جامعة الحسین میں دورہ حدیث شریف کے طلبا ء کو اجازتِ حدیث اور بیان کے لیے تشریف لے گئے بعد از اں دوبارہ قیام گاہ تشریف لے آئے اور باقی دن وہیں قیام فرما رہے ، بعد نمازِ مغرب شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالباقی صاحب مدظلہم کے ادارے جامعة مفتاح العلوم نیو اڈا تشریف لے گئے طلبا ء میں بیان فرمایا اور اجازتِ حدیث بھی دی بیان سے فراغت پر شیخ الحدیث صاحب کی رہائش گاہ پر محبتوں بھرے عشائیہ میں تشریف لے گئے واپسی پر لالہ خان اسکیم کے پاس لالہ خان سپر اسٹور میں مفتی روزی خان صاحب اور ان کے برادر جناب عبدالباری خان صاحب کی دعوت پر دعا کے لیے تشریف لے گئے ، رات قیام گاہ میں تمام متعلقین ، جامعہ مدنیہ جدید کے فضلاء اور اس کے علاوہ راقم الحروف ساجد فیض کے ادارے کے تمام اساتذہ حاضر ہوئے اور حضرت سے کافی دیر تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا، حضرت صاحب کی محبتوں اور علمی موتیوں کو اپنی جھولیوں میں سمیٹتے ہوئے حضرت صاحب سے اجازت چاہی ۔
١٠دسمبر بروز منگل صبح آٹھ بجے رہائش گاہ سے ہوائی اڈے کے لیے لاہور روانہ ہوئے والحمد للّٰہ
٭٭٭
٢٦ دسمبر بروز جمعرات حضرت صاحب جمعیة علماء اسلام ضلع گجرات کے جنرل سیکرٹری مولانا عمر فاروق صاحب گجر کی دعوت پر تحفظِ مدارسِ دینیہ ورکرز کنونشن کی تقریب میں شرکت کے لیے جامعہ مدنیہ جدید سے سہ پہر ڈیڑھ بجے روانہ ہوئے مغرب کی نماز جامعہ حنفیة صدیقیة تجوید القرآن تحصیل کھاریاں میں ادا کی ، رات کا کھانا زین الحسن سٹی کی رہائشگاہ پر تناول فرمایا۔ عشاء کے قریب جامع مسجد ابراہیم پنجن کسانہ ضلع گجرات تشریف لے گئے جہاں آپ نے جماعتی مقاصد اور اہمیت کے موضوع پر بیان فرمایا۔
چونکہ حضرت صاحب نے ایک اور تقریب میں شرکت کرنی تھی اس لیے جنرل سیکرٹری مولانا عمرفاروق صاحب گجر سے اجازت چاہی اور اگلی تقریب کے لیے سرگودھا روانہ ہوئے رات ساڑھے گیارہ بجے سرگودھا شہر پہنچے ، جامعہ مدنیہ جدید کے فضلاء نے شاندار استقبال کیا اور قافلے کی صورت میں تقریب میں شرکت لیے روانہ ہوئے ، تقریب میں طوالت بہت زیادہ تھی اس لیے کچھ دیرآرام کے لیے جامعہ مدنیہ جدید میں دورہ ٔ حدیث کے طالب علم تیمو ر صاحب کے گھر تشریف لے گئے بعد ازاں آپ نے رات ایک بجے تکمیل مشکوة شریف کا آخری سبق پڑھاکر طلباء کرام اور سامعین سے اسلام میں سیاست کی اہمیت کے موضوع پر نہایت مدلل بیان فرمایا ،بیان کے بعد حضرت صاحب نے مشکوة شریف کے طلباء کرام کی دستار بندی کی اور پوری امت کے لیے دعاء خیر فرمائی۔
٢٧ دسمبر بروز جمعہ جامعہ مدنیہ جدید کے طالب علم تیمور صاحب کے والد عبدالحمید صاحب کے ساتھ ناشتہ تناول فرمایا نمازِ جمعہ مقامی مسجد میں ادا کی ، نماز جمعہ کے بعد ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کی دعوت پر ہلال احمر تھیلیسمیا اینڈ ھیمو فیلیا بلڈ سنٹر سرگودھا تشریف لے گئے ڈاکٹر شاہد صاحب اور ان کے ساتھیوں نے خوش آمدید کہا بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے حضرت صاحب کو سنٹر کے مختلف شعبہ جات کا دورہ کرایا۔ حضرت صاحب نے سنٹر کے مختلف شعبہ جات کو دیکھ کر انتہائی خوشی کااظہار فرمایا اور ڈاکٹر صاحب کی کاوش اور محنت کو بہت سراہا حضرت صاحب نے عبدالحمید صاحب و دیگر حضرات سے اجازت چاہی اور وہاں سے رخصت ہوئے ۔
بعد ازاں ماسٹر عمران صاحب کے اصرار پر مختصر وقت کے لیے ان کے گھر سلانوالی تشریف لے گئے مختصر قیام کے بعد حضرت صاحب ،ماسٹر عمران صاحب اور اہلِ محلہ سے اجازت لے کر لاہور کے لیے روانہ ہوئے، رات نو بجے بخیر و عافیت جامعہ پہنچے ، والحمد للّٰہ




جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقۂ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہِ حامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ 923454036960+

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.