ماہنامہ انوار مدینہ
جلد : ٣٢ جمادی الثانی ١٤٤٥ھ / جنوری ٢٠٢٤ء شمارہ : ١
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail : jmj786_56@hotmail.com
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
جازکیش نمبر : 923044587751+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923354249302+
موبائل : 923234250027+
دارُالافتاء : 923214790560+
دارُالافتاء کا ای میل ایڈریس
darulifta@jamiamadniajadeed.org
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر
دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ١٨
غارِ ثور میں قیام اور ضروری انتظامات حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ٢٢
میرے حضرت مدنی قسط : ٦ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٣٢
تربیت ِ اولاد قسط : ١٠ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٦
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢١ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣٩
انتخابات میں ووٹ ، ووٹراَور اُمیدوار کی شرعی حیثیت حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ٤٤
ظلم دیکھ کر خاموش رہنے والا ؟ حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ٥٠
عورت کا بغیر محرم یا شوہر کے حج کرنا ! مولانا مفتی محمد زبیر صاحب ٥٣
امیر پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٥٥
اخبار الجامعہ مولانا انعام اللہ صاحب ٦٣
وفیات ٦٤
حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا دستور ہر مذہب کے آدمی کو اپنی اپنی پارٹیوں میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے وہ اس کی ''ذاتی زندگانی'' سے جوکہ زندگی کے ہر کردار کی بنیاد ہوتی ہے آنکھیں بند رکھتا ہے حتی کہ اُس کے مذہب سے بھی آنکھیں چراتا ہے ماسوا مذہبی سیاسی جماعتوں کے جبکہ کوئی بھی شخص اپنی عملی زندگی میں دوسرے کی ''ذاتی زندگی'' کو ہرگز نظر انداز نہیں کرتا، خاندانوں میں آنے والے لڑکیوں کے رشتے ناطے کرتے وقت مذہب سمیت ذاتی زندگی کے ہر پہلو کی پوری طرح کھلی اور خفیہ تحقیقات تک کرائی جاتی ہیں ! اپنی بچیوں کے معاملہ میں ہم جتنے حساس اور فکر مند ہوتے ہیں تو کیا اپنے مذہب ِ اسلام، ملک اور اپنی قوم کے لیے اس سے کہیں زیادہ حساس و محتاط نہیں ہونا چاہیے ؟
قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ان سیاسی پارٹیوں ، فوج، نوکر شاہی، عدلیہ اور دیگر سول اداروں میں بڑی تعداد قادیانیوں کی ہوتی ہے اِن کا کفر ''الحادی اور سازشی'' ہے جو باقی تمام کفار کے مقابلہ میں سب سے زیادہ خطرناک کفر ہے اس لیے کہ یہ کافر ہونے کے باوجود اپنے کو مسلمان کہتے ہیں اور اپنے سوا باقی اربوں مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں ! علماء ِ کرام سے بہت زیادہ نفرت ان کی خاص نشانی ہے ! سیاست کے شہسوار علماء ہی ان کی چالوں کو سمجھ کر اِن کو آڑے ہاتھوں لے سکتے ہیں اسی لیے علماء کے سیاسی عمل اور کردار کی یہ ہمیشہ مخالفت کرتے ہیں اور اُن سے ایسے بدکتے ہیں جیسے حضرت عمر سے شیطان ! ! !
سوشل میڈیا ہو یا کوئی اورموقع علماء کی توہین و تذلیل ،اُن کے شرمناک کارٹون ، فحش جملے بازیاں قادیانیوں ہی کا مزاج ہے جس میں وہ کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے ! ان ہی خباثتوں کے بدلہ میں اُن کو اسرائیل اور برطانیہ وغیرہ میں ٹھکانے اور مراکز فراہم کیے گئے ہیں ،سرمایہ کی فراہمی اور ہر قسم کی امداد بھی کی جاتی ہے !
اب سب سے زیادہ ان کی تعداد عمران خان کی'' پاکستان تحریک ِ انصاف''( پی ٹی آئی) میں ہے ان کی صورت شکل عام مسلمانوں کی طرح ہوتی ہے بظاہر قرآن کو مانتے ہیں نمازیں بھی مسلمانوں کی طرح پڑھتے ہیں مگر ختم ِ نبوت اور حدیث کا انکار کرتے ہیں عام طور پر اپنی گفتگو اِس طرح شروع کرتے ہیں کہ
'' میں تو سیدھا سادہ مسلمان ہوں نماز پڑھتا ہوں روزہ رکھتا ہوں حق حلال کی کمائی سے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں فلاں کافر فلاں مسلمان اس بحث میں نہیں پڑتا ! بس قرآن کو فالو کرتا ہوں ! ! باقی اللہ اللہ خیر سلا '' ! ! !
ان کی ان عیارانہ باتوں سے عام مسلمان ان سے دھوکہ کھاجاتے ہیں اور'' ریاست ِ مدینہ'' جیسے پُرکشش نعرہ پر اُن کے ہم آواز ہوجاتے ہیں اور انجامِ کار دُنیا کے ساتھ آخرت بھی برباد کر بیٹھتے ہیں ! ! !
پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے ٨ فروری ٢٠٢٤ء انتخابات کی حتمی تاریخ قرار دے دی گئی ہے علماء کی قیادت میں جمعیة علماء اسلام بھی میدانِ سیاست میں اُتری ہوئی ہے
ہندو ہوں یا عیسائی اور یہود اپنے اپنے مذہبوں سے اپنی وابستگیوں کو بلا جھجک مضبوط بھی کر رہے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کی اکثریت مذہب ِ اسلام سے وابستہ ہونے کے باوجود اِس کے برملا اظہار سے شرماتے ہیں ! جبکہ مسلمانوں کے خلاف ہر محاذ پر کفار کا ظلم و ستم کسی پر مخفی نہیں ہے ! ایسے میں آنے والے انتخابات میں پاکستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟ ؟ ؟
اس پر ہم اپنی طرف سے مزید کچھ تحریر کرنے کے بجائے والد ماجد حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب سابق امیر مرکزیہ جمعیة علماء اسلام کا ایک مضمون اپنے اداریہ کی زینت بنارہے ہیں جو کہ حضرت اقدس نے آج سے تقریباً پچپن برس قبل رجب ١٣٩٠ھ مطابق ستمبر ١٩٧٠ء کو ماہنامہ انوارِ مدینہ ہی کے لیے بطورِ ''افتتاحیہ'' تحریر فرمایا تھا !
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ ہمارے بہت سے ناواقف اور جذباتی مسلمان بھائیوں کے لیے نصیحت اور راہنمائی ثابت ہوگا اور دنیا وآخرت ہر اعتبار سے سود مند ہوگا ! ! !
ہم تو یہ بھی اُمید رکھتے ہیں اور اپنا دینی فریضہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملک کی جتنی بھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اُن کے قائدین کی نظر سے بھی حضرت اقدس کی یہ تحریر گزر جائے اور وہ اپنی اچھی آخرت کی خاطر چند روزہ قیادت اور عارضی شان و شوکت کو لات مار کرجمعیة علماء اسلام سے وابستہ ہوجائیں اور اپنی قیمتی توانائیاں اور صلاحیتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اعلائے کلمة اللہ میں صرف کردیں تو کیا ہی اچھا ہو ! ! !
دنیا کے ساتھ ساتھ ہم سب کی آخرت بھی سنور جائے گی ان شاء اللّٰہ ........... ملاحظہ فرمائیں
دعا گو محمود میاں غفرلہ
دورِپُر فتن میں علماء کا احترام اور عوام
٭٭٭
اس پُر آشوب دور میں جبکہ ہر فرد اپنی اور اپنی جماعت کی سر بلندی کا خواہاں ہے اور اپنی تعریف میں رطب اللسان ہے یہی نہیں بلکہ دوسروں کی خامیاں نکالنی اور اگر خامیاں نہ ہوں تو بھی ثابت کر دکھانی اپنا فرض ِ وقت سمجھ رہا ہے اوریہ سب کچھ اس لیے کر رہا ہے کہ وہ سیاسی غلبہ حاصل کرسکے اور اپنی جماعت کو دوسری جماعتوں سے بلند مقام پر لے جائے ! !
ہم دیکھتے ہیں کہ علمائِ کرام میں سے جوبھی میدانِ سیاست میں آیا اُس کے ساتھ بھی بغیر اُس کے مقامِ علم وتقوی کی رعایت کیے یہی سلوک کیا جا رہا ہے ! !
اب کیا علماء سیاسیات سے دست کش رہیں یا عوام الناس علماء کو اپنی (عام)سطح پر لا کر اُن کے علمی وقار اور اُن کی زندگی بھر کے علمی تقدس کو نظر انداز کرتے رہیں ؟ ؟
ان حالات میں بجا طور پر ہر ذہن میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ
(١) اگر علماء سیاست میں آ رہے ہیں تو کیا وہ ایسا کرکے غلطی کر رہے ہیں
یا اُن کے نزدیک سیاست میں حصہ لینا ضروری ہے ؟
٭ اس سوال کے جواب کے لیے علمائِ کرام کی تاریخی خدمات سے واقفیت ضروری ہے
اس لیے میں کچھ احوالِ ماضی ذکر کرتا ہوں :
علمائے کرام کی سیاسی زندگی کا سلسلہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ سے جا ملتا ہے کیونکہ اُنہوں نے اپنے دور کے حالات کے مطابق اسلامی اصول سامنے ر کھ کر ایک اقتصادی حل پیش کیا تھا پھر شاہ عبدالعزیز صاحب قدس سرہ کے دور میں انگریزوں نے تجارتی راستہ سے ہندوستان میں داخل ہو کر غداریوں کی بنیاد ڈالی اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا تو اُن کے ایک شاگرد اور جلیل القدر خلیفہ سیّد احمد شہید رحمة اللہ علیہ نے اپنے روحانی متوسلین پر مشتمل جن میں خود حضرت شاہ عبد العزیز صاحب قدس سرہ کے رشتہ دار اور شاگرد بھی شامل تھے ایک مجاہدین کی جماعت تیار کی اُس لشکر نے جو خدمات انجام دیں وہ متعدد کتابوں میں طبع ہو چکی ہیں ، ان حضرات کی تحریک کامیاب نہ ہوسکی تو اِسی خاندانِ وَلِیُ اللّٰہِیْ کے فیض یافتہ حضرات نے شاہِ دہلی سے لڑائی کے وقت انگریزوں کاباقاعدہ مقابلہ کیا ! تھانہ بھون وغیرہ کے نواح میں جنگ بھی ہوئی اس میں انگریزوں کو توپ خانہ لانا پڑا ! ! !
سیّد الطائفہ :
اس جماعت کے سردار حضرت حاجی اِمداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہ تھے اور حضرت حاجی صاحب کے پیر بھائی اور روحانی مربی حضرت حافظ ضامن رحمة اللہ علیہ اس معرکہ میں شہید ہوئے ! اس میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نور اللہ مرقدہما شریک تھے ! حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ ہجرت فرما گئے، حضرت مولانا گنگوہی گرفتار ہوئے ! اور حضرت مولانا نانوتوی چند روز رُوپوش رہے اور بعد میں گرفتاری سے بھی بچ گئے ! !
دارُالعلوم کا قیام و شیخ الہند :
اس کے کچھ عرصہ کے بعد قیامِ دارُالعلوم دیوبند عمل میں آیا اور حریت ِ فکر کا مرکز بنتا چلا گیا، ایک عرصہ دراز کے بعد اسیرِ مالٹا قطب ِدوراں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کے دور میں پھر سے عملی اقدام شروع ہوا ! حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ حضرت نانوتوی قدس سرہ کے شاگرد اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب قدس سرہ کے خلیفہ تھے انہوں نے اپنے اعلیٰ قابلیت کے شاگردوں سے جن میں مولانا عبید اللہ سندھی ،مولانا محمدمیاں صاحب منصور انصاری غازی رحمة اللہ علیہم شامل تھے کام لے کر پورے ہندوستان میں تحریک ِآزادی کی ایک روح پھونک دی ! انہوں نے بڑے بڑے اصحاب ِ رُوحانیت حضرات سے کام لیا جن میں مغربی پاکستان کے حصہ میں حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری قدس سرہ کے دونوں پیر حضرت مولانا تاج محمد صاحب امروٹی اور حضرت مولانا غلام محمد صاحب دین پوری قدس سرہما شامل تھے ! اس تحریک کو عام کرنے کے لیے انہوں نے ہر انگریز دشمن کو ملایا، کسی فرقہ کی قید نہیں رکھی ! بریلوی اور اہلِ حدیث حضرات بھی ان کی تنظیم میں شامل تھے ! !
تحریکِ شیخ الہند ، مولانا یوسف صاحب کی رائے :
یہ مسلمانوں کی اتنی عظیم الشان تنظیم تھی کہ اس کے بارے میں ١٩٦٤ء میں حج کے موقع پر حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ امیر جماعت ِتبلیغ نے ایک خصوصی اجتماع میں جس میں انہوں نے پوری دنیا میں اسلامی کام کی کیفیت ذکر فرمائی ارشاد فرمایا تھا کہ ١
'' مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع و اتحاد تو ہوہی نہیں سکتا جتنا حضرت شیخ الہند کے زمانہ میں تھا ''
١ اَحقر بھی اِن مجالس میں کبھی کبھار حضرت رحمہ اللہ کے ہمراہ ہوتا تھا،اُس وقت میری عمر سات آٹھ سال کی تھی حضرت مولانا یوسف صاحب کا چہرہ اور اُس مجلس کا کچھ خاکہ میرے ذہن میں تاحال محفوظ ہے ! اس سفرِ حج میں میری والدہ محترمہ اور سوا ماہ کی ہمشیرہ عطیہ مرحومہ بھی ہمراہ تھیں ! ان ہی ملاقاتوں کے بعد حضرت اَقدس نے اپنے ہمراہیوں سے فرمایا کہ
''ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا یوسف صاحب زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکیں گے کیونکہ اپنے کام کی لگن اور فکر سے ان کا دل جل چکا ہے ''
چنانچہ اگلے ہی برس مؤرخہ ٣٠ذیقعدہ ١٣٨٤ھ/ ٢ اپریل ١٩٦٥ء کو حضرت رحلت فرما گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجَعُوْنَ
محمود میاں غفرلہ
گوریلا جنگ اور خانقاہیں :
غرض حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کی مساعی جلیلہ اور جذبۂ جہاد و حریت نے ان حضرات کی خانقاہوں کو گوریلا جنگ کا مرکز بنادیا ! پوری تفصیل تو میں لکھنی نہیں چاہتا ...........
حضرت والد محترم مولانا سیّد محمد میاں صاحب مد ظلہ العالی کی تصانیف میں اور حضرت اقدس مولانا سیّد حسین احمد صاحب مدنی رحمة اللہ علیہ کی خود نوشت سوانح حیات میں پوری تفصیل درج ہے۔
سانحہ پر سانحہ :
لیکن ہوا یہ کہ یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی انگریز کو ہی کامیابی ہوئی اور ہندوستان کے بعد مسلمانوں کی ایک اور عظیم الشان حکومت'' خلافتِ ترکیہ عثمانیہ'' کا خاتمہ ہو گیا ! صرف تھوڑے سے علاقہ پر ترک حکومت رہ گئی ! حضرت شیخ الہند گرفتار کر لیے گئے پانچ سال مالٹا میں اسیر رہے ! اسارتِ مالٹا کے زمانہ میں ان کی نیابت حضرت اقدس مولانا شاہ عبد الر حیم صاحب قدس سرہ فرماتے رہے لیکن ابھی یہ حضرت اسارتِ مالٹا سے رہا نہ ہونے پائے تھے کہ حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ طویل علالت کے بعد وصال پاگئے !
حضرت کی وصیت :
ان کے جانشین شاہ عبد القادر رائے پوری قرار پائے وفات کے وقت حضرت شاہ صاحب نے اپنے جانشین حضرت شاہ عبدالقادر صاحب قدس سرہ کو وصیت فرمائی کہ
''جب حضرت شیخ الہند رہا ہو کر تشریف لائیں تو آپ لوگ ان کی خدمت میں دست بستہ حاضر ہو کر عرض کریں کہ ہم حضرت کے ہر اِرشاد کی تعمیل کے لیے حاضر ہیں ''
سوائے علماء کے کسی کو انگریز کے مقابلہ کی جرأت نہ ہوئی :
حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ نے اپنی جماعت کا نام'' جمعیة العلماء ہند ''رکھا تھا آپ نے ہی جامعہ ملیہ بھی شروع کیا تھا ! غرض یہ جماعت اُس وقت سے کام پر لگی اور اُس وقت تک لگی رہی کہ جب تک انگریز اِس سرزمین سے نہیں نکل گیا ! !
علماء کے سوا باقی نواب، سر، جاگیر دار، فوجی، سیاسی، دفتری ملازم وافسران کوئی بھی طبقہ انگریز کے مقابلہ میں کبھی نہیں ا یا ! صرف علماء ہی مسلسل جدو جہد کرتے رہے ! بد نامیاں سر لیں مقدمات میں ماخوذ ہوئے جیلیں کاٹیں ! جلاوطنی کی زندگیاں کالے پانی وغیرہ میں گزاریں ! ١ گولیاں کھائیں ! سولی پر چڑھائے گئے ! ! غرض مسلسل ہمہ قسم کی مصیبتیں جھلیں اور وطن آزاد کرایا ورنہ کوئی بتلائے کہ اور کون سا طبقہ تھا جس نے انگریز کا مقابلہ کیا ؟ ؟ ؟
''مدرسہ'' ایمان و نظریہ کی حفاظت قیام ِ پاکستان :
ایک بہت بڑی فضیلت کی بات اس مقدس طبقہ نے یہ کی کہ تدریسی فرائض انجام دیتا رہا ! تحریر و تقریر سے علومِ نبویہ کی اشاعت کر کے لوگوں کو راہِ ہدایت دکھاتا رہا ! علومِ باطنیہ سے روحانی اور باطنی فیض رسانی کرتا رہا اور جہاد کا مقدس فریضہ انجام دیتا رہا ! !
اگر یہ طبقہ دین کو قائم نہ رکھتا تو آج اس بر صغیر کا یہ حال نہ ہوتا ،نہ لوگوں میں ایمان رہتا نہ خلوص، نہ مساجد آباد ہوتیں نہ خانقاہیں ، نہ مسلمان اسلام سے واقف رہتے اور نہ ہی جذبۂ جہاد وایثار رہتا بلکہ شاید اسلام کے نام پر پاکستان ہی نہ بنایا جا سکتا ! ! !
جو کچھ میں نے یہاں تک عرض کیا یہ تاریخی طور پر ایک مسلمہ حقیقت ہے گو اِس کی طرف توجہ نہ جاتی ہو لیکن توجہ نہ جانے سے حقیقت تو نہیں بدلتی۔
اُوْلٰئِکَ آبَائِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِھِمْ اِذَا جَمَعَتْنَا یَا جَرِیْرُ الْمَجَامِعُ ٢
١ یہ جزائر انڈیمان خلیج بنگال میں واقع ہیں جب ہندوستان پر انگریزنے غاصبانہ قبضہ کیا تو تحریک ِ آزادی کے مجاہدین کو عمر قید کی سزا دے کر ہندوستان سے بہت دُور یہاں ''کالا پانی '' میں اور بعض دیگر مجاہدین کو بحیرۂ رُوم میں واقع ''جزیرہ مالٹا'' میں قیدکردیاکرتے تھے۔ محمود میاں غفرلہ
٢ یہ ہیں میرے آباء اے جریر،جب بہت جماعتیں ایک جگہ جمع ہوں تو کوئی اِن سا مجھے دکھلائے تو سہی !
علماء کا سب سے بڑا دشمن :
ان حضرات کا انگریز سب سے زیادہ دشمن تھا اور چونکہ ہر محکمہ کا افسر انگریز ہی ہوتا تھا یونیورسٹیوں بلکہ کالجوں پر بھی انگریزہی کاتسلط تھالہٰذا ہر جگہ یہ(نام نہاد) پڑھا لکھا طبقہ بھی (حقیقی پڑھے لکھے ) علماء سے نفرت کھانے لگااور یہ کبھی غور نہ کیا کہ انگریز کی (گندی)نظر کی طرح ہم اپنے دین کے پیشواؤں کو کیوں ٹیڑ ھی نگاہوں سے دیکھیں ! ؟ لیکن اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ ١ کے تحت یہ (نام نہاد پڑھا لکھا )طبقہ ذہنی غلامی میں اتنا مبتلا ہواکہ اپنے دشمن کی چال نہ سمجھ سکا اور بجائے آزادی رائے کے ضمیر کی غلامی میں مبتلا ہو کر انگریز ذہنیت کا شکار ہو گیا اور بد قسمتی یہ کہ اب تک بھی وہ خرابی رفع نہیں ہوئی ! ! !
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
آپ کا فیصلہ :
آپ کو گزشتہ صفحات پڑھ کر اندازہ ہوا ہوگا کہ میدانِ سیاست میں بے لوث اوربے حد شدید قربانیاں کس نے دی ہیں اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اِن بزرگوں کے عملی وارث سیاست میں حصہ لینے کے زیادہ حقدار ہیں یاکوئی نواب، جاگیر دار، سر بہادر اور ملازم طبقہ ؟ اگر ان طبقات کوسیاست میں حصہ لینے کا حق ہے توعلماء کو اِن سب سے پہلے حق ہوگا ! ! !
رہا یہ اَمر کہ اِن سب کے لیے سیاست میں حصہ لینا اِس وقت ضروری ہے یا نہیں ؟ ؟ ؟
تو یہ کچھ حضرات کے نزدیک درست نہیں کہ کہیں علم کی توہین نہ ہو اور کہیں علماء پر الزام تراشیاں نہ کی جانے لگیں !
(جبکہ) بعض حضرات کہتے ہیں کہ اِس وقت علماء پر سیاست میں حصہ لینا واجب ہے کیونکہ اسلامی قانون کے نفاذ کی کوشش خود ہر مسلمان پر واجب ہے تو علماء پر اِس سے زیادہ واجب ہوگی ! !
١ یعنی عوام الناس تو بادشاہوں اور بر سر اِقتدار لوگوں کے طریقہ پر چلتے ہیں ۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ صدر محترم آغا محمد یحییٰ خاں اَز سر نوبحالی جمہوریت کرکے نیا آئین بنانا چاہتے ہیں اور جمہوریت میں کثرتِ رائے سے فیصلے ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اسمبلی میں انتخاب کے ذریعہ پہنچنے کی کوششیں کریں وہاں آخر سب مسلمان ہی ہوں گے ان کے سامنے
اسلامی قوانین لانے ضروری ہیں تاکہ وہ جو قانونی ڈھانچہ بنائیں وہ اسلامی ہو، اگر علماء اسمبلی میں نہ ہوئے تو اسلامی قانون سے ناواقف لوگ کیسے اسلامی قانون بنا سکیں گے ؟
اس لیے علماء کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں جانا اور عوام کو ان کی کامیابی کی کوشش میں لگنا عین دین ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اِس وقت اور کوئی کام فضول ہے، انتخاب میں کامیابی کی کوشش سب سے ضروری اور مقدم ہے
ان کے نزدیک جس طرح پاکستان کے وجود میں حصہ لینا ضروری تھا اسی طرح اب قانون سازی میں حصہ لینا ضروری ہے کیونکہ ان حضرات کی اور عوام کی سب کی نیت پاکستان بناتے وقت یہ تھی کہ ہم اسلامی قوانین کی حامل ریاست بنائیں گے اسی لیے یہ نعرہ لگایا جاتا تھا
پاکستان کا مطلب کیا : لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ
بلکہ یہ حضرات یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر کسی باعمل عالم اُمید وار کوکھڑا کیا جائے تو کیا اس کے مقابلہ میں کسی ایسے شخص کا کھڑا ہونا جو علم دین سے واقف ہو نہ اُس کی زندگی مذہبی ہو،جائز بھی ہے یا نہیں ؟
(٢) سیاست میں حصہ لینے کی صورت میں عوام الناس کو اُنہیں اپنے ہی درجہ میں لے آنا صحیح ہے ؟
٭ اس سوال کا جواب بھی مذکورہ بالا پہلے سوال کے جواب سے واضح ہو رہا ہے کہ
علماء عوام پر فوقیت رکھتے ہیں اس لیے برابری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ! !
(٣) اگر علماء کو عام درجہ پر رکھا جائے تو اِس سے کیا نقصانات پیدا ہوں گے ؟ ؟
٭ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب ان کو اپنے برابر کا سمجھے گا تو مساویانہ معاملہ کرے گا جس سے توہین ضرور ہوگی اور ان کے ساتھ توہین آمیز روّیہ رکھنے سے دین کی اہانت ہونے لگتی ہے اس لیے اس سے بھی بچنا چاہیے ! ! !
(٤) جب وہ سیاست میں آجائیں تو ایک ''غیر عالم دین'' اُن کوکیسے اپنے سے بڑا سمجھے اور کیسے اُن کا
علمی مقام قائم رکھے ؟
(٥) پھر علماء میں خود بھی اختلاف ہے ایسی صورت میں کسے حق پر جانیں اور کسے باطل پر ؟ ؟
٭ اس چوتھے اور پانچویں سوال کا جواب یہ ہے کہ علمائِ کرام صحابہ کرام کے نائب ہیں ! !
اس لیے ہم آپ کو صحابہ کرام کے دور میں اختلاف کی کچھ باتیں بتلاتے ہیں ان سے ہر مسلمان کو سبق حاصل کرنا چاہیے ! !
صحابہ کرام میں سخت ترین اختلافی دور سیّدنا علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کا تھا ہمیں اُس دور کو سامنے رکھ کر سبق حاصل کرنا چاہیے اُس دور میں بھی آج کی طرح عوام وخواص اور عالم اور غیر عالم ہوتے تھے وہ سب تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئے :
(الف) کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل گئے !
(ب) کچھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل گئے !
(ج) کچھ بالکل یکسو رہے !
جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اُن کی دلیل یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صحیح خلیفہ ہیں ان کو دارُالخلافہ میں اہلِ حل و عقد ١ نے چنا ہے جب وہ خلیفہ ہوئے تو ان کا ساتھ دینا اوّلین فرض ہے اور جو اِن کی حکم عدولی کرے وہ نافرمان و عاصی ہے ! سر کشی کرے تو باغی ہے ! !
جو حضرت معاویہ رضی اللہ کے ساتھ تھے اُن کی دلیل یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب تک باغیوں سے انتقام نہ لیں ہم اِن کی اطاعت نہ کریں گے قاتلینِ عثمان ان کے ساتھ ہیں انہیں سب سے پہلے ان سے بدلہ لینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ! اب ہم ان کو بھی دمِ عثمان میں شریک سمجھنے پر مجبور ہوں گے لہٰذانہ ہم انہیں خلیفہ تسلیم کریں گے نہ اِن سے بیعت ہوں گے اور نہ ہی ایسی صورت میں انکارِ بیعت وغیرہ کا ہمیں گناہ ہوگا ! ! !
جیسا کہ بین الاقوامی دستور ہے امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے امارت قبول فرمانے
١ سلطنت کا نظام چلانے والے ذمہ دار ماہرین۔ محمود میاں غفرلہ
کے بعد اپنے پسندیدہ گور نرجگہ جگہ مقرر کیے اور گزشتہ دور کے گورنروں کے نام معزول ہوجانے کے حکم نامے تحریر فرمائے جن میں ایک حکم نامہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے معزول ہوجانے کا تھا ! حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے شہادت ِسیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک مسلسل شام کے گورنر چلے آرہے تھے اور ان کی گورنری پر اہلِ شام متفق تھے ! !
انہوں نے مشورہ کے بعد طے کیا کہ امیر المومنین سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کا حکم اُس وقت تک نہ مانا جائے جب تک کہ وہ قاتلینِ عثمان سے بدلہ نہ لے لیں ! ! !
سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا کہ میں دم ِ عثمان کا بدلہ ضرور لوں گا لیکن ذرا ٹھہر کرجب ملکی حالات درست ہو جائیں تب ! ورنہ قاتلینِ عثمان کی جڑیں قبائل میں پھیلی ہوئی ہیں بغاوت کا اندیشہ ہے جس سے حکومت کا استحکام پارہ پارہ ہو جائے گا البتہ استحکام حکومت ہوتے ہی میں بدلہ ضرور لوں گا ! !
اُن کی اس بات کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نہیں مانا اور اختلاف بڑھتا چلا گیا !
دلائل طرفین کے پاس تھے اور ان ہی دلائل کی وجہ سے ہر ایک اپنے موقف پر پوری طرح جما ! !
حضرت علی کا بدلہ :
اور اسی وجہ سے(کہ ہر فریق کے پاس صحیح دلائل تھے) سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہم کا مال مالِ غنیمت کی طرح کہیں بھی قبضہ میں نہیں لیا نہ ہی قیدیوں کو غلام بنایا ! بلکہ ایک دفعہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ ہم میں سے جو قتل ہوتے ہیں شہید ہیں یا نہیں ؟ ؟ تواِرشاد فرمایا کہ شہید ہیں ! !
اُس نے دریافت کیا جو ہمارے مقابلہ میں مارے جا رہے ہیں اُن کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا وہ بھی شہید ہیں ! ١
١ کیونکہ اگر اختلاف دلائلِ صحیحہ کی بنیاد پر ہو تو یہی حکم ہے ورنہ حدیث شریف میں آتا ہے القاتل والمقتول فی النار قاتل اور مقتول دونوں آگ میں جائیں گے ! صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ قاتل کا جہنمی ہونا توسمجھ میں آتا ہے مقتول کیوں جہنمی ہوگا ؟ فرمایا اِنَّہ کَانَ حَرِیْصًا عَلٰی قَتْلِ صَاحِبِہ کیونکہ وہ بھی تو دوسرے کو قتل کرڈالنے کی حرص میں مبتلا تھا یہ بات دوسری ہے کہ اُسے موقع نہ مل سکا اور کامیاب نہ ہوسکا بلکہ خود ہی مارا گیا۔ حامد میاں غفرلہ
خوارج کے اعتراض کا جواب :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ''خوارج'' ١ نے ایک مرتبہ یہی سوال کیا کہ آپ مقابل جماعت کے قیدیوں کو غلام اور باندیاں کیوں نہیں بناتے ؟ انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اَتَسْبُوْنَ اُمَّکُمْ عَائِشَةَ کیا تم اپنی ماں حضرت عائشہ کو قیدی اور لونڈی بنانا چاہتے ہو ؟ ؟
حضرت معاویہ کا رویہ :
اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی روّیہ رہا انہوں نے بھی ایسی حرکات کو جائز نہیں سمجھا اور اختلاف کے باوجود احترام قائم رکھا ! ! بلکہ حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے ''البدایہ والنہایہ '' میں تحریر فرمایا ہے کہ اُس زمانہ میں بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرورت کے وقت حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی مالی اِمداد فرماتے رہے ! !
حضرت معاویہ نے یہ ادب بھی ملحوظ رکھا کہ حضرت علی کی حیات میں اور آپ کے بعد حضرت حسن سے صلح کے وقت تک اپنے نام کے ساتھ امیر المومنین کا لفظ نہیں استعمال کیا صرف امیر (گورنر) کا لفظ استعمال فرماتے رہے ! !
قولِ زریں :
میرا خیال ہے کہ اگر لشکروں میں فسادی لوگ نہ ہوتے تو شاید صفین کے مقام پر لڑائی کی نوبت نہ آتی اور اگر یہ حضراتِ صحابہ نہ ہوتے تو نہ معلوم کتنا خون خرابہ ہوتا اور ساری زندگی لڑائی جاری رہتی ! !
ایک نکتہ پر اتفاق :
اس دور میں اور اس دور کے بعد صحابہ کرام کا آپس میں اس اَمر پر اتفاق رہا ہے کہ سب صحابہ واجب الاحترام ہیں ادھر کے ہوں یا اُدھر کے یا یکسو رہنے والے، سب کے پاس دلائل تھے اور سب پاکیزہ دل تھے فسادیوں کی شرارتوں نے حالات ایسے بنادیے تھے کہ معاملات سلجھائے نہ سلجھتے تھے
١ اہلِ سنت سے خارج ایک باطل فرقہ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی۔ محمود میاں غفرلہ
حتی کہ یہی فسادی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سبب بنے ! اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے قاتلانہ حملہ سے بچ گئے !
عقیدۂ اہلِ سنت :
ایک دفعہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم اُس دور میں نہیں تھے اور ہمارے ہاتھ کسی فریق کے خون میں نہیں رنگے گئے اس لیے اب ہم اپنی زبانیں کیوں کسی فریق کے خون میں رنگیں ! ! ! اور یہی تمام دنیا کے اہل ِسنت والجماعت کا عقیدہ(و عمل) چلا آرہا ہے۔
عوام کیا کریں ؟
ان حالات کو تحریر کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ اگرعلماء میں اختلاف ہو تو وہ دلائل پر مبنی ہوتا ہے اس لیے کسی بھی دوسرے فریق کو عوام اپنی نظر سے گراکر اپنا دین تباہ نہ کریں ! ورنہ اگرعالم کا احترام نہ رہا تو علم دین اور دین دونوں کا احترام دل سے نکل جائے گا اور یہ(عوام کے لیے) بہت بڑی تباہی ہے ! وہ علمائِ کرام جو تقریبًا ڈیڑھ سو سال سے بحالی حکومت ِمسلمہ اور جہاد آزادی میں لگے رہے ہیں اُن کے علمی اور رُوحانی وارث آج بھی موجود ہیں اُنہیں تلاش کریں اُن کے جتنے بھی قریب ہوں گے اُن کی خوبیاں زیادہ نظر آئیں گی ! وہ دین پر استقامت کا نمونہ ہوتے ہیں ایسے حضرات کا دامن نہ چھوڑیں نہ ہی اُن کے مقابل آئیں ! یہ ایسا سنہری موقع ہے کہ جو کچھ آپ کرنا چاہیں گے وہ ہو جائے گا اور ہم سب یقینا یہی چاہتے ہیں کہ یہاں اسلام ہی اسلام ہو اور ہمارا حشر خادمین ِاسلام میں ہو رسولِ خدا صلی اللہ عليہ وسلم کے ساتھ ہو ! ! !
آخرت کا قائد ؟
کون سا مسلمان ایسا ہے جو یہ چاہتا ہو کہ انگریزی قانون باقی رہے یا کوئی بھی قانون خواہ چینی ہو یا روسی یہاں نافذ ہو اور وہ قیامت میں انگریزوں اور روسی یا چینی لیڈروں کے ساتھ اُٹھایا جائے اور آئندہ آنے والی نسلیں اور (اہلِ)اسلام قیامت کے دن اس پر لعنت کریں والعیاذ باللہ !
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے ( یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُ نَاسٍ بِاِمَامِھِمْ ) ١ یعنی جس دن ہم بلائیں گے ہرفرقہ کو اُن کے سرداروں کے ساتھ کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ؟
سوچیے اور بہت سوچیے آخرت کو سامنے رکھ کر سوچیے ! ؟ رسولِ خدا صلی اللہ عليہ وسلم کی نظر سامنے رکھ کر سوچیے ! پھر فیصلہ کیجئے اور جم جائیے ،اللہ کی نصرتیں اور رحمتیں آپ کے ساتھ ہوں گی اللہ تعالیٰ کی بشارتیں ملاحظہ فرمائیں
( اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَةُ اَنْ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِیَائُکُمْ فِی الْحَیٰوةِ وَ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ) ٢
''یہ بات یقینی ہے کہ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھراسی پر قائم رہے اُن پر فرشتے اُترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور نہ غم کھاؤ ! ! اور اُس بہشت کی خوشخبری سنو جس کاتم سے وعدہ تھا، ہم ہیں تمہارے رفیق دنیا میں اور آخرت میں ، وہاں تمہارے لیے وہ ہے جوکچھ تم مانگو ''
(بقلم حضرت اقدس مولانا سیّد) حامد میاں غفرلہ
رجب ١٣٩٠ ھ / ستمبر ١٩٧٠ء
درسِ حدیث
٭٭٭
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php
١ سُورة الاسراء : ٧١ ٢ سُورة حٰم السجدة : ٣٠ ، ٣١
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
اللہ تعالیٰ کی شانِ بے نیازی ! زبانی توبہ کافی نہیں !
عاجزی اور گناہوں پر پشیمانی اللہ تعالیٰ کوپسند ہے !
( درسِ حدیث نمبر٦١/ ٣١٠ )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
مشکوة شریف میں ایک طویل حدیث ہے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جنابِ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
اے میرے بندو ! میں نے اپنے اُو پر ظلم کو حرام قرار دیاہے اور تمہارے اُوپر بھی آپس میں ایک دُوسرے پر ظلم کرنے کو حرام قرار دیاہے فَلَا تُظَالِمُوْا پس ایک دُوسرے پر ظلم نہ کرو !
اے میرے بندو ! تم سب کے سب بھٹکنے والے ہوسوائے اُس کے جس کو میں راہ پر لگا ؤں فَاسْتَھْدُوْنِیْ اَھْدِکُمْ پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دُوں گا !
اے میرے بندو ! تم سب کے سب بھوکے ہوسوائے اُس کے کہ جس کا میں پیٹ بھروں فَاسْتَطْعِمُوْنِیْ اُطْعِمْکُمْ پس مجھ سے طلب کرو میں تمہیں کھلاؤں گا !
اے میرے بندو ! تم سب کے سب بے کپڑے ہو سوائے اُس کے کہ جس کو میں کپڑا عنایت کروں فَاسْتَکْسُوْنِیْ اَکْسُکُمْ پس مجھ سے کپڑے طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا !
اے میرے بندو ! تم دن میں بھی گناہ کرتے ہو اور رات میں بھی، اور میری شان یہ ہے کہ میں تمہارے سب کے سب گناہ بخش دیاکرتا ہوں فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْلَکُمْ پس تم مجھ سے مغفرت چاہو میں تمہارے لیے تمہارے گناہ بخش دُوں گا !
اے میرے بندو ! تم اپنے خالق کونہ نفع پہنچا سکتے ہو اور نہ نقصان !
اے میرے بندو ! اگر تم اَوّل و آخر اِنسان و جنات سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں کوئی بڑے سے بڑا متقی ہو تواِس سے میرے مُلک میں کوئی زیادتی نہ ہوگی !
اے میرے بندو ! اگر تم میں اَوّل و آخر انسان و جنات سب ایسے ہو جائیں جو تم میں سب سے زیادہ خراب ہو تو اِس سے میری سلطنت میں کوئی کمی نہ آئے گی !
اے میرے بندو ! اگر تمہارے اَوّل و آخر انسان و جنات کسی جگہ پر کھڑے ہوکر مجھ سے سوال کر دیں اور میں ہر ایک انسان کو وہ دے دُوں جو وہ مانگے توایسا کرنے سے میرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی !
اے میرے بندو ! یہ جو کچھ بھی ہیں تمہارے ہی اعمال ہیں ، یہ میں تمہارے کیے ہوئے تمہارے اُوپر شمار کرتا ہوں پھریہ اعمال پورے کے پورے تمہیں پہنچا دُوں گا !
فَمَنْ وَّجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللّٰہَ پس جواچھا ئی پائے تو اُسے چاہیے کہ اللہ کاشکر کرے !
وَمَنْ وَّجَدَ غَیْرَ ذٰلِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ اِلَّا نَفْسَہ ١ اور جو اِس کے علاوہ (برا خمیازہ)پائے تو اُسے چاہیے کہ اپنے نفس کو ملا مت کرے ! قرآنِ حکیم میں ہے :
( فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَہ o وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَ رَّةٍ شَرًّا یَّرَہ ) ٢
''جو ذرّہ برا بربھی نیکی کرتا ہے وہ اُس کو دیکھ لے گا اور جو ذرّہ برا بربھی برائی کرتا ہے وہ اُس (کے برے انجام) کو دیکھ لے گا''
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٢٦ ٢ سُورة الزلزال : ٧ ، ٨
گویا بُرے کوبرائی کابدلہ اور اچھے کو بھلائی کابدلہ مِل کر رہے گا خواہ دُنیا میں ہوخواہ آخرت میں ! تو اِنسان کو چاہیے کہ معمولی گناہوں سے بھی اجتناب کرے صغیرہ گناہوں کے لیے بھی استغفار کرے ! حق تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے تاکہ کہیں ایسانہ ہوکہ وہ گناہ جس کووہ معمولی اورچھوٹا سمجھتا ہے اُس کی گرفت اور عذاب کا باعث بن جائے ! !
صرف زبانی استغفار کافی نہیں :
یہ بات بار بار کہہ چکا ہوں کہ استغفار صرف زبان سے کافی نہیں ،زبانی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں استغفار تب معتبرہے جب اَوّل گناہوں پر نادم ہو، جرم خواہ کتناہی بڑا کیوں نہ ہومگر جب دل میں ندامت اور شر مندگی ہو گی اور اُس گناہ کے باعث اپنے آپ کو ملا مت کرے گا تو حق تعالیٰ سے اُمید ہے کہ وہ معاف فرمادیں گے ! !
حدیث شریف میں بنی اِسرائیل کا ایک واقعہ مذکور ہے کہ بنی اِسرا ئیل میں ایک شخص تھا جس نے پوری زندگی گناہوں میں گزار دی تھی، بڑے بڑے قتل جیسے جرائم اُس سے صادر ہوئے تھے آخر میں وہ اپنے جرائم اور اپنی سیہ کا ریوں پر نادم ہوا اور ایک راہب کے پاس چلا آیا، اُس کے سامنے اپنا حال بیان کیا تو اُس نے کہا کہ تو بہت بڑا مجرم ہے تیرے جرائم معاف ہونے کے نہیں ! یہ سن کر اُس نے راہب کوبھی قتل کر ڈالا ! ؟ اور ایک اور کے پاس اِسی غرض سے چلاگیا اِس کے حالات سن کر اس کو ایک اور صاحب کے پاس جانے کا مشورہ دیا کہ وہ خدا کانیک بندہ ہے اُس کے سامنے تو بہ کرنا چنانچہ وہ گناہوں پر نادم انسان اُس شخص کی طرف روانہ ہوا ! ابھی اُس نے بہت کم مسافت طے کی تھی کہ موت آپہنچی ! ؟ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ آدمی جب چلنے کے قابل نہ رہا تو سینے کے بل گھسٹنے لگا ! اُس کے پاس رُوح قبض کرنے کے لیے جب فرشتے آئے توفرشتوں میں گفتگو ہوئی !
رحمت کے فرشتے کہتے کہ اِس کی رُوح ہم قبض کریں گے کیونکہ یہ گناہوں پر نادم اور پشیمان تو ہو ہی چکا ہے ! عذاب کے فرشتے کہنے لگے کہ یہ بہت گنا ہگار ہے اس لیے اس کی جان ہم لیں گے !
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کوحکم بھیجا کہ زمین ناپ لو، اگر اِس نے مسافت زیادہ طے کی ہے تو اِس کی جان رحمت کے فرشتے قبض کریں ور نہ عذاب کے فرشتے ! ! اگرچہ اِس نے مسا فت کم طے کی تھی ! مگرحق تعالیٰ کی رحمت سے اس طرف زمین سمیٹی جس طرف وہ جا رہا تھا ! جب زمین کو ناپا گیا تو ایک بالشت وہ زیادہ نکلا جو وہ طے کر چکا تھا ! بس پھر تو رحمت کے فرشتے اس کی رُوح لے گئے ! ١
چونکہ وہ دل میں سخت نادِم تھا شرمسار تھا اس لیے حق تعالیٰ کو اُس کی ندامت اور شرمساری پسند آئی ! شاید ایک بالشت ہی وہ گھسٹا ہوگا ! جوایک بالشت کا فرق ملائکہ کو دکھایا گیا ! اور حق تعالیٰ قریب کو بعید اور بعیدکو قریب کرنے پر قادر ہیں ! !
توعرض یہ کر رہا تھا کہ گناہ جتنے بھی ہوں مگر ندامت پشیمانی استغفار اور عاجزی سے حق تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں ! ! ! ( بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ١٤ جون ١٩٦٨ئ)
تقریب ختم ِبخاری شریف و دستار بندی
٭٭٭
١٥ رجب المرجب ١٤٤٥ھ /٢٨جنوری ٢٠٢٤ء بروز اتوار جامعہ مدنیہ جدید میں ''ختم بخاری شریف و دَستار بندی ''کی پُر وقار تقریب اِن شاء اللہ صبح دس بجے منعقد ہوگی ان شاء اللّٰہ اس مبارک موقع پر شرکت فرماکر برکات سے مستفیض ہوں !
اَلداعی اِلی الخیر
سیّد محمود میاں غفرلہ' و اَراکین و خدام جامعہ مدنیہ جدید
سیرتِ مبارکہ
غارِ ثور میں قیام اور ضروری انتظامات
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
سب کچھ قربان :
( وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَة ) (سُورة الحشر : ٩ )
''اور وہ مقدم رکھتے ہیں اپنے نفسوں پر باوجودیکہ خود اُن کو شدید حاجت اور سخت ضرورت ہوتی ہے''
یہ آیت اگرچہ ہجرت سے کئی سال بعد حضراتِ انصار رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی مگر اِس کی عملی مثال حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ پہلے ہی پیش کرچکے تھے جب آپ نے سفرِ ہجرت کے وقت اپنی پوری پونجی ساتھ لے لی تھی، پانچ چھ ہزار آپ کے پاس نقد تھے، آپ روانہ ہوئے تو آپ نے سب رقم ساتھ لے لی اور اہل و عیال کو خدا کے نام پر چھوڑ دیا ! !
آپ کے بچوں کا ایثار یہ تھا کہ اِس کی نہ اُن کو کوئی ناگواری ہوئی، نہ تہی دستی سے پریشانی، گویا خود ان کی بھی خواہش یہی تھی ! انتہا یہ کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ابوقُحافة کو خبر ہوئی کہ ابوبکر چلے گئے تو بچوں کے پاس آئے اور فرمایا ابوبکر تو چلے ہی گئے، کچھ تمہارے لیے بھی چھوڑ گئے ہیں ؟ ؟
میرا خیال یہ ہے کہ جو کچھ ان کے پاس تھا سب لے گئے، جان سے تو گئے ہی مال بھی لے گئے تمہیں خالی چھوڑ گئے ! تو بڑی صاحبزادی حضرت اسمائ نے فوراً جواب دیا، نہیں داداجی وہ ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں ! ابوقُحافة کچھ مطمئن نہیں ہوئے تو حضرت اسمائ نے اُس جگہ جہاں رقم رہا کرتی تھی کنکریاں تھیلی میں بھر کر رکھ دیں ، دادا کی بصارت جاتی رہی تھی ان کا ہاتھ پکڑ کرلے گئیں اور تھیلی پر ہاتھ رکھ کر بتادیا کہ یہ رقم محفوظ ہے ! !
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ محض دادا کو مطمئن کرنے کے لیے کردیا ورنہ واقعہ یہ تھا کہ جو کچھ تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب لے آئے تھے ہمیں خالی چھوڑ آئے تھے ! ١
حالات سے باخبر رہنے اور دوسری ضروریات کاانتظام :
تین آدمیوں کے خاص خاص کام سپرد کیے گئے تھے ٢
(١) حضرت ابوبکر کے فرزند اَرجمند عبداللہ نوجوان تھے مگر نہایت ہوشیار، بہت تیز ،بات کو تاڑنے والے، پرکھنے والے، ان کے ذمہ یہ تھا کہ مخالفین کے اقدامات پر نظر رکھیں حالات کا جائزہ لیتے رہیں ٣
یہ دن بھر مکہ معظمہ میں کن سوئیں لیتے رہتے ٤ دن چھپے اندھیرا ہوا جاتا تو غار پرپہنچتے تھے تمام رُوئیداد سنادیتے، حالات سے باخبر کردیتے، پھر آخر پہر میں مکہ معظمہ پہنچ جاتے گویا رات بھر یہیں رہے ہیں !
(٢) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فُہیرة ٥ جن کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ روک لیا تھا، ان کے ذمہ یہ تھا کہ تازہ دودھ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے رہیں ، شام کو جب اندھیرا ہوجاتا یہ بکریاں غار پرلے جاتے، دودھ دوہتے اس کو گرم کرتے اور سیّد الکونین صلی اللہ عليہ وسلم اور اپنے آقا (ابوبکر) کی خدمت میں پیش کردیتے پھر بکریوں کو ہکا کر صبح سے پہلے تڑکے میں مکہ پہنچ جاتے ! !
(٣) اُس زمانہ میں سڑکیں نہیں تھیں اس لیے راستوں اور خصوصاً پہاڑی راستوں سے واقف ہونا بھی
١ سیرت ابن ہشام ج١ ص ٢٩٣ ٢ بخاری شریف ص ٥٥٤ ٣ ان کے حالات آئندہ آئیں گے زیرِعنوان متعلقین کی آمد حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ غلام شاب ، ثقف لقن (بخاری شریف ص٥٥٣)
٤ ہر بات پر کان رکھتے رہے ٥ مگر آقائوں کے آقا، بئیرمعونہ کے حادثہ میں اِن کو شہید کردیا گیا، قاتلوں کے سردار عامر بن طفیل نے لوگوں سے دریافت کیا یہ لاش کس کی ہے ؟ میں نے دیکھاکہ اس کو اُٹھاکر آسمان کی طرف لے جایا گیاپھر احتیاط سے نیچے اُتارا گیااور رکھ دیا گیا۔ (بخاری شریف ص ٥٨٧)
ایک خاص فن تھا اس کے ماہر کو ''خِرِّیتْ'' کہا کرتے تھے،قافلہ کے ساتھ خِرِّیتْ ضرور ہوتا تھا اس کی معقول اُجرت ہوتی تھی، حضرت ابوبکر نے قبیلہ بنی دیل کے ایک شخص کو جس کا نام عبداللّٰہ بن اریقد تھا (اور عبداللّٰہ بن اریقط بھی کہلاتا تھا) اس خدمت کے لیے طے کر لیا تھا ، یہ مسلمان نہیں تھا بلکہ مشرکینِ مکہ کا ہم مسلک تھا ، عاص بن وائل سہمی کے خاندان کا حلیف تھا، یہ تو نہیں معلوم کہ اُجرت کیا طے ہوئی تھی البتہ ان دونوں بزرگوں کو اِس پر پورا اطمینان تھا یہاں تک کہ دونوں سانڈنیاں اسی کے حوالے کردی تھیں اور بتادیا تھا کہ تین رات گزرنے کے بعد وہ چوتھے دن صبح سویرے غارِثور پر پہنچ جائے ! ! ١
یہ ''خِرِّیتْ'' وعدہ کے مطابق ٹھیک وقت پر پہنچا اور یہ حضرات سوار ہوکر روانہ ہوگئے ''خِرِّیتْ'' نے سیدھا راستہ چھوڑ کر ساحلِ سمندر کا راستہ اختیار کیا جو چکر کاٹ کر مدینہ پہنچتا تھا ایک ہفتہ بعد ١٢ ربیع الاوّل کو پیر کے دن یہ مقدس قافلہ منزلِ مقصود پر پہنچا ! ٢
باہوش وباتدبیر رفاقت :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اس راستہ سے پہلی دفعہ تشریف لے جارہے تھے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کاروباری ضرورتوں سے شام جاتے رہتے تھے ، قبائل کے شیوخ سے ان کے تعلقات تھے لوگ ان کو پہچانتے تھے اُس وقت جب ایک با وجاہت شریف صورت رفیق کو ساتھ دیکھتے تو پوچھتے تھے یہ کون صاحب ہیں ؟ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا جواب یہ ہوتا تھا ھٰذَا الرَّجُلُ یَھْدِیْنِی الطَّرِیْقَ ٣
''یہ صاحب مجھے راستہ بتاتے ہیں '' غارِ ثور سے روانہ ہوئے تو تمام رات چلتے رہے، اگلے دن دوپہر کا
١ اطمینان کاسبب بظاہر حلف ہی تھا اس کی تفصیل مقدمہ میں ملاحظہ ہو زیر عنوان ''معاہدات''
٢ ابن سعد، ابن ہشام وغیرہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی ولادت پیر (دو شنبہ) کے روز ہوئی۔ پیرہی کو نبوت عطا ہوئی، پیر کے دن ہی مکہ معظمہ سے روانہ ہوئے اور پیر کے دن ہی مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے (مسند احمد ) ابن سعد اور ابن ہشام وغیرہ نے بھی پیر کا دن ہی بیان کیا ہے لیکن تقویم سن عیسوی و سن ہجری کے لحاظ سے یکم ربیع الاوّل پیر کے دن ہوتی ہے تو ١٢ ربیع الاوّل کو پیر کادن نہیں ہوتا، بظاہر تقویمات کا فرق ہے۔ ٣ بخاری شریف ص ٥٥٦ ، ابن سعد ج١ ص ١٥٩
وقت ہوگیا دھوپ تیز ہوگئی اس کھلے ہوئے لق ودَق میدان میں پتھر کی چٹان کے نیچے کچھ سایہ تھا حضرت ابوبکر فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو غنیمت سمجھامیں چٹان پر پہنچا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو ساتھ لے گیا میرے ساتھ ایک ''فَرْوَةْ'' چمڑے کا بستر تھامیں اس کو سایہ میں بچھا دیا اور اپنے آقا ( علیہ السلام )کو اِس پرلٹادیا
پھر میں نے نظر دوڑائی تو ایک چرواہے کو دیکھا جو بکریوں کے چھوٹے سے گلہ کوہکاتے ہوئے اس طرف لارہا تھا اور وہ بھی اس چٹان کے سایہ میں آرام کرنا چاہتا تھا میں اس کے پاس پہنچا اور دریافت کیا، یہ بکریاں کس کی ہیں ؟ تمہارا کون مالک ہے ؟ چرواہے نے ایک شخص کا نام لیا جس کو میں جانتا تھا، میں نے دریافت کیا کہ کیا کوئی بکری دودھ دیتی ہے اور کیا تم دودھ دے سکتے ہو ؟ اس نے اقرار کیا، چنانچہ وہ ایک بکری پکڑکر لے آیا، میں نے کہا پہلے تم بکری کے تھن پونچھ کر صاف کرو، پھر اپنے ہاتھ صاف کرو پھر دودھ نکالو، اس نے میری فرمائش پر عمل کیا اور تھوڑاسا دودھ دوھ کر مجھے دے دیا، میں نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے لیے ایک چھاگل میں پانی رکھ چھوڑا تھا اس کے منہ پر کپڑا رکھا تھا (کہ گردوغبار نہ پڑے) میں نے دودھ میں اتنا پانی ڈالا کہ تلی تک تمام دودھ ٹھنڈا ہوگیا (دودھ کی لسی بنالی) پھر میں نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے نوش فرمایا میرا جی خوش ہوگیا ١
راستہ کی مختصر سرگزشت :
( وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ) ٢ ''اور اللہ آپ کی حفاظت کرے گا لوگوں سے''
آیت کا نزول اگرچہ بعد میں ہوا ہے مگر حفاظت ِخداوندی کا عجیب و غریب ظہور اس سفر میں ہوچکا تھا سُراقة بن مالک بن جُعشُم ٣ کا واقعہ اس کی مثال ہے، یہ قبیلة بنی مدلِج کا ایک شیخ تھا، اعلانچی اس کے یہاں بھی پہنچے تھے اور یہ اعلا ن اس نے بھی سنا تھا جو قریش نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ کے رفیق سفر کے گرفتار کرنے یا قتل کرنے والے کے متعلق کیا تھا، سُراقة خود بیان کرتے ہیں کہ میں قبیلہ میں ایک چوپال میں بیٹھا ہواتھا کہ کچھ آدمیوں نے آکر کہا کہ سمندر کے کنارے جاتے ہوئے کچھ آدمیوں کی پرچھائیاں سی نظر آئی ہیں ، ہمارا خیال ہے کہ محمد ( صلی اللہ عليہ وسلم ) اور اُس کے ساتھی ہیں !
١ بخاری شریف ص ٥٥٦ وص ٣٣٠ وغیرہ ٢ سُورة المائدة : ٦٧ ٣ بخاری شریف ص ٥٥٦
سُراقة کہتے ہیں کہ میرے ذہن میں بھی یہی آیا کہ ان کا خیال صحیح ہے مگر اس شوق میں کہ سارا اِنعام تنہا میں حاصل کرلوں میں نے ان کی بات ٹال دی ! میں نے کہا کہ محمد یہاں کہاں ؟ فلاں فلاں آدمی ہمارے سامنے گزرے ہیں یہ وہ لوگ ہوں گے ! خبردینے والوں نے میری بات مان لی، کسی اور نے کچھ خیال نہیں کیا، میں تھوڑی دیر وہاں بیٹھا رہا پھر خاموشی سے اُٹھااپنے مکان میں گیا باندی سے کہا میری گھوڑی ٹیلے کے پیچھے چر رہی ہے اُس کو لے آ اور تیار کردے میں نے بھی ضروری سامان ٹھیک کرلیا پھرمیں نے نیزہ لیا اور اِس خیال سے کہ لوگ نیزہ نہ دیکھ لیں اس کی بھال ہاتھ میں لی اور پھولی زمین پر ڈال کرکھینچتا ہوا چلا اور مکان کی پشت کی طرف سے نکل کر گھوڑی پر سوار ہوگیا، وہ کبھی دُلکی اور کبھی پوئیا دوڑتی ہوئی مجھے لے چلی، یہاں تک کہ میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے قریب پہنچ گیا ! اچانک گھوڑی کے ٹھوکر لگی اور میں زمین پر آرہا ! میں فوراً اُٹھا میرے ترکش میں فال معلوم کرنے والے تیر تھے میں نے ان کو نکالا اور میں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ میں ان کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں ؟ اتفاق سے میری مرضی کے خلاف فال نکلی ! مگر میں نے اس کا خیال نہیں کیا، میں نے فال کے فیصلہ سے بغاوت کی ! پھر گھوڑے پر سوار ہوا اور اس کو تیز دوڑا دیا اور اتنے قریب پہنچ گیا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی تلاوت کی آواز میرے کانوں میں آنے لگی ! !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تلاوتِ کلام اللہ میں مشغول تھے آپ کسی اور طرف دھیان قطعاً نہیں دے رہے تھے ! البتہ ابوبکر رضی اللہ عنہ دائیں بائیں سب طرف دیکھتے ہوئے چل رہے تھے ! جب میں اتنے قریب پہنچ گیا تو دفعتا میری گھوڑی کے پاؤں تک زمین میں دھنس گئے اور میں نیچے گر گیا ! میں اُٹھا، میں نے گھوڑے کو اُٹھایا اُس کو ڈانٹا اُس کے پیر زمین سے بڑی مشکل سے نکلے، ساتھ ساتھ پیروں کی جگہ سے دھوئیں کی طرح غبارا نکلا جو آسمان کی طرف چڑھ رہاتھا ! اب میں نے پھرفال نکالی اس مرتبہ بھی فال میری مرضی کے خلاف ہی نکلی، تو میں نے ہمت ہار دی فال کی مخالفت نہیں کی اور میرے دل میں یہ بات جم گئی کہ محمد رسول اللہ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) ضرور کامیاب ہوں گے ! ! ! میں نے وہیں سے پکارا
'' میں آپ صاحبان سے امن چاہتا ہوں ''
یہ حضرات ٹھہرے، میں نے ان کے قریب جاکرقریش کی تمام باتیں جو اَب تک کر چکے تھے اور جو وہ آئندہ کرنے والے تھے اُن کو سنادیں !
میں نے آپ کی خدمت میں کچھ ناشتہ اور کچھ سامان پیش کرنا چاہا مگر میری پیشکش ان حضرات نے منظور نہیں فرمائی !
میں نے یہ بھی عرض کیاکہ میرے اُونٹ آپ کو راستہ میں ملیں گے ان کے ساتھ چرواہے بھی ہیں میں اپنا تیر دیے دیتا ہوں یہ ان کو دکھادیں اور جتنے دودھ کی ضرورت ہو آپ اُن سے لے لیں ! ! مگر ان حضرات نے میری کوئی پیشکش منظور نہیں فرمائی ! ! صرف ایک فرمائش کی کہ کسی کو ہماری خبر نہ کرنا، میں نے وعدہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی درخواست کی کہ میرے لیے امن کا پروانہ لکھ دیں ! ! ١
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے عامر بن فہیرة رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا، انہوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر پروانہ ٔاَمن لکھ کرسُراقة کو دے دیا، پھر یہ حضرات مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے اور سراقہ مکہ کی طرف واپس ہوا !
سُراقة نے اپنا وعدہ پورا کیا، راستہ میں جو ملتے رہے اُن کو اطمینان دلاکر واپس کرتا رہا کہ میں دُور تک دیکھ آیا ہوں اس طرف کوئی نہیں ہے ! اس طرح بقول حضرت انس سُراقة بن مالک بن جُعشُم کی مختصر رُوئیداد یہ ہے کہ صبح کے وقت حملہ آور، شام کے وقت محافظ ! ٢
حضرت زبیر سے ملاقات اور پیشکش :
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عجیب کرشمہ ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنا نِطَاقْ چاک کرکے اس میں ناشتہ دان اور مشکیزہ باندھا تھا ان کے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں خلعت پیش کیا ، جس کی تفصیل یہ ہے :
١ ابن ابی شیبہ بحوالہ فتح الباری ج٧ ص ١٩٢ ٢ بخاری شریف ص ٥٥٦
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھ کچھ اور تاجر بسلسلۂ تجارت شام گئے تھے وہاں سے واپس ہورہے تھے کہ راستہ میں ان مقدس مہاجرین سے ملاقات ہوگئی ! ! حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے سفید کپڑے کا جوڑا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور ایک جوڑا صدیقِ اکبر کو پہنایا ٣
ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس قافلہ میں حضرت عمر، حضرت طلحہ اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے، واپسی کے وقت حضرت زبیررضی اللہ عنہ آگے آگئے تھے، جب مدینہ کے قریب پہنچے تو باقی حضرات سے ملاقات ہوئی وہاں طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان دونوں حضرات کی خدمت میں جوڑے پیش کیے ! ٢
یَثرب میں ورودِ مسعود :
( وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبَارَکًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ )( سُورة المومنون : ٢٩ )
''کہو اے پروردگار ! مجھے برکت کے ساتھ اُتار اور تو بہتر اُتارنے والا ہے ''
تذکرہ سیّدنا نوح علیہ السلام کے ضمن میں اس دعاء کی تلقین مکہ معظمہ میں ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اس کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ آج آپ کے حق میں اس کی مقبولیت ظاہر ہورہی ہے جبکہ معصوم بچیوں کے معصوم جذبات اِس ترانہ سے آپ کااستقبال کر رہے ہیں ! ! !
طَلَعَ البَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاع
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعِ
ثَنِیَّاتُ الْوَدَاعِِ ٣ سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا
ہم پر اللہ کا شکر واجب ہوگیا جب تک کوئی دعا کرنے والادعا کرے (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے)
١ بخاری شریف ص٥٥٤ ٢ فتح الباری ج٧ ص ١٩٣
٣ ثَنِیَّة گھاٹی اور وَدَاع کے معنی ہیں رُخصت کرنا ، چونکہ لمبا سفر کرنے والوں کو رُخصت کرنے کے لیے اہلِ یثرب یہاں تک آیا کرتے تھے اس لیے یہ نام پڑ گیا ( معجم البلدان )
مدینہ میں روانگی کی خبر :
ڈاک کاسلسلہ اُس وقت نہیں تھا مگر آنے جانے والوں کے منہ زبانی خبریں پہنچ جاتی تھیں مشتاقانِ دیدار کو یہ معلوم ہوچکاتھا کہ اُن کا محبوب آقا مکہ معظمہ سے نکل چکا ہے ! اب انتظار کے دن اور گھڑیاں گنی جارہی تھیں ، طلوعِ آفتا ب سے بہت پہلے پوپھٹنے کے وقت لوگ اُٹھتے اور مدینہ کے باہر
''حَرَّہْ '' پہنچ کر آفتاب ِ رسالت کے طلوع ہونے کاانتظارکرنے لگتے ! سی انتظار میں دوپہر ہوجاتی، مسافروں کی آمد کا وقت ختم ہوجاتا تومرجھائے دلوں کو بے تاب سینوں میں دبائے ہوئے واپس ہوجاتے، ایک روز اِسی پژمردگی اور افسردگی کے ساتھ واپس ہوئے تھے کہ ایک آواز نے عورتوں اور بچوں تک کو وارفتہ مسرت بنادیا ! !
ایک یہودی اپنی کسی ضرورت سے ایک پرانے قلعہ کی اُونچی اٹاری ١ پر چڑھا تھا اُس کی نظر چند سفیدپوش سواروں پر پڑی جو اِس طرف چلے آرہے تھے اُس کے دل نے گواہی دی کہ انتظار کرنے والوں کی مراد پوری ہوگئی، یہ خود بے تاب نہیں تھا مگر انتظار کرنے والوں کی بے تابی کااِس پر یہ اثر تھا کہ خود قابو میں نہ رہا اور زور سے چیخ اُٹھا ! ! !
یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ ھَذَا جَدُّکُمْ الَّذِیْ تَنْتَظِرُوْنَہُ ٢
''اہلِ عرب ! یہ ٹھیک تمہارے وہی مہمان آگئے جن کا تمہیں انتظار ہے''
اہلِ قبا کی خوش نصیبی تھی کہ یہ آواز اُن کے کانوں میں پڑی اب کوئی کیا بتائے جانبازوں ، جانثاروں اور فدا کاروں کا کیا حال تھا ؟ وہ کس بے تابی سے دوڑے اورحَرَّہْ پہنچ کر کس طرح رحمة للعالمین ( صلی اللہ عليہ وسلم ) کے زیرِ پا اپنی آنکھیں بچھائیں نظر اشتیاق کو فرشِ راہ بنایا !
قبیلة بنی عَمرو بن عوف (جو اَوس کا بطن تھا ) یہاں آباد تھا ٣ یہ خوش نصیب اسی قبیلہ کے لوگ تھے جنہوں نے یہودی کی آواز سنی اور دوڑے ٤
١ بالا خانہ ٢ بخاری شریف ص ٥٥٥ ٣ فتح الباری ج٧ ص ١٩٤ ٤ طبقات ابن سعد ج١ ص ١٥٨
عرب کا دستور تھا کہ معزز مہمانوں کا استقبال ہتھیاروں سے آراستہ ہوکر کیا کرتے تھے ! اس بے تابی میں انہوں نے اپنی اس آن کو نہیں چھوڑا، پہلے ہتھیاروں کی طرف لپکے پھر استقبال کو دوڑے ! ! ١
حَرَّةسے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے داہنی طرف رُخ کیا ٢ اور پھر پورے مجمع کے ساتھ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں رونق افروز ہوگئے ! لوگ آنے شروع ہوئے وہ اپنے قاعدہ سے سلام کرتے تھے اور بیٹھ جاتے تھے سیّدالکونین صلی اللہ عليہ وسلم خاموش تشریف فرماتھے۔ رفیقِ سفر (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کھڑے تھے اور آنے والوں کا استقبال کر رہے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو پہلے نہیں دیکھا تھا وہ صدیقِ اکبر ہی کو سلام کر رہے تھے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم پر دھوپ آگئی تو صدیقِ اکبر نے سرِمبارک پر اپنی چادر سے سایہ کر لیا تب لوگ پہچان سکے کہ خادم کون ہے اور مخدوم کون ؟ ٣
آرام گاہ اور نشست گاہ :
کلثوم بن ھدم قبیلہ کے بڑے آدمی تھے یہ شرف ان کو حاصل ہوا کہ آپ نے قیام ان کے یہاں فرمایا ٤ دوسرے صاحب سعد بن خَیثَمة تھے ان کا مکان خالی تھا ان کے متعلقین نہیں تھے مکہ مکرمہ سے جو صحابہ اس طرح کے آتے تھے وہ بھی ان ہی کے یہاں ٹھہرتے اس لیے اس مکان کو ''بَیْتُ العُزَّابْ '' کہاجانے لگا ! ٥ یہ مکان آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی نشست کے لیے طے کیا گیا ٦
١ فثار المسلمون الی السلاح بخاری شریف ص ٥٥٥ ٢ بخاری شریف ص ٥٥٥ ٣ ایضاً ص ٥٥٥
٤ اکثر صحابہ جوآنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے مدینہ آچکے وہ بھی ان ہی کے یہاں اُترتے تھے چنانچہ حضرت ابوعبیدة بن الجراح ، حضرت مقداد بن اسود ، حضرت خباب ، حضرت سہیل ، حضرت صفوان ، حضرت عیاض ، حضرت عبداللّٰہ بن مخرمة ، حضرت وہب بن سعد ، حضرت معمر بن ابی سرح ، حضرت عمیر بن عوف رضی اللّٰہ عنہم اب تک ان ہی کے مہمان تھے
( ابن سعد تذکرہ کلثوم بن ھدم ) ٥ عُزَّابْ ، عَازِبْ کی جمع ہے اُس شخص کو کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو
٦ ابن ِسعد ج١ ص ١٥٨ و ابن ِہشام ج١ ص ٢٩٦
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی تشریف آوری سے چند ماہ بعد ان کی وفات ہوگئی (رضی اللّٰہ عنہ) محمد الحسن بن زبالة نے اخبار المدینة میں وثوق سے بیان کیا ہے کہ کلثوم بن ھدم اِس وقت تک مشرک ہی تھے مسلمان نہیں ہوئے تھے (فتح الباری ج٧ ص ١٩٤ ، و فاء الوفاء ج٧ ص ١٧٤) اگر یہ صحیح ہے تو اس سے اہلِ مدینہ کی معاشرت کا پتہ چلتا ہے کہ مذہبوں کے فرق کے باوجود آپس میں تعاون مکمل تھا ! ! !
تلقین وتذکیر بھی یہیں فرمایا کرتے تھے ! سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سُنْح میں قیام فرمایا ١
یہ پیر کا دن تھا جس روز آفتاب ِرسالت صلی اللہ عليہ وسلم مدینہ کے خط استواء پرپہنچا۔ ٢
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جن کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اَمانتیں پہنچانے کے لیے مکہ معظمہ چھوڑا تھا تین دن بعد وہ بھی تشریف لے آئے اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے ساتھ قیام کیا ! ٣
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٣٥٣ تا ٣٦٣ )
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)
١ خبیب بن یساف خزرجی یا خارجة بن زید خزرجی کے یہاں ( ابن ِہشام ج١ ص ٢٩٦ )
٢ تاریخوں میں بہت اختلاف ہے، اگر مکہ معظمہ سے روانگی یکم ربیع الاوّل کو پیرکے دن ہوئی تھی جیسا کہ راقم الحروف نے لکھا ہے تواُس پیر کو ربیع الاوّل کی پندرہ ہوگی، ابن شہاب زہری سے خبر المدینة میں یہی روایت نقل ہے کہ نصف ربیع الاوّل کو تشریف آوری ہوئی ، عند الزبیر فی خبر المدینة عن ابن شہاب (زہری) فی نصف ربیع الاول
( فتح الباری ج٧ ص ١٩٤ ) ٣ ابنِ ہشام ج١ ص ٢٩٦
قسط : ٦
میرے حضرت مدنی
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
اَمیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
حضرت تھانوی کی حضرت مدنی سے دلی عقیدت :
جب یکم محرم ١٣٥١ھ میں سول نافرمانی اور قانون شکنی کے جرم میں مظفرنگر کے اسٹیشن پر سے حضرت مدنی کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا اور حضرت تھانوی قدس سرہ کو اِس کی اطلاع ملی تو ظہر سے عصر تک کی مجلس میں حضرت مدنی کی گرفتاری پر نہایت ہی رنج و غم اور قلق کا اظہار فرماتے رہے اور یہ بھی فرمایا کہ مجھ اِس کا احساس نہیں تھا کہ مجھے مولانا حسین احمد صاحب سے اتنا تعلق ہے ! اور جب کسی شخص نے حاضرین ِ مجلس میں سے یہ عرض کیا کہ حضرت ! گورنمنٹ نے کوئی ظلم توکیا نہیں اس نے تو صرف دہلی کے داخلے پربندش لگائی تھی وہ تو خود ہی قانون شکنی کرنے کے لیے تشریف لے گئے ! تو حضرت تھانوی قدس سرہ نے فرمایا تھا کہ آپ اس فقرے سے مجھے تسلی دینا چاہتے ہیں ؟ حضرت امام حسین بھی یزید کے مقابلے کے لیے خود ہی تشریف لے گئے تھے ! یزید نے ان کو جبراً تو قتل نہیں کیا تھا لیکن حضرت امام حسین کا غم تو ساری دنیاآج تک نہیں بھولی، میں بھی کہاں سے کہاں چلا گیا ! ! ١
١ آپ بیتی ص٣٨١ ، ٣٨٢
الکوکب الدری کے مطالعہ کا اہتمام :
میرے حضرت مدنی قدس سرہ کوترمذی کے سبق میں الکوکب الدری کے دیکھنے کا بہت اہتمام تھا اور طلبہ کو ترغیب بھی فرمایا کرتے تھے ! ! اور کبھی کبھی مستقل سفر دیوبند سے سہارنپور کا اوجز وکوکب کے سلسلے میں فرمایا کرتے تھے ! ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ آپ نے کوکب کا حاشیہ لکھا ہے یا اَوجز کا اشتہار دیا۔ ہر جگہ دو تین لفظ لکھ کر لکھ دیتے ہیں والبسط فی الاوجز ایک دفعہ کوکب کو دیکھو اور ایک دفعہ اوجز دیکھو۔ حضرت اکثر بہت ہی شفقت سے کوکب اور اَوجز کے مضامین پر اصل ماخذ کا بھی مطالبہ فرمایا کرتے تھے، یہ آپ نے کہاں سے لکھ دیا اس کا ماخذ دکھلائیے ؟ اس کے متعلق بعض واقعات تالیفات میں گزر گئے ایک اہم واقعہ تو جزء الاستحاضہ میں گزر گیا۔
ایک مرتبہ حضرت قدس سرہ نے میری دیوبند حاضری پریہ ارشاد فرمایا کہ تم نے اَوجز کے کتاب الحج میں ایک ایسی اچھی بات لکھی ہے جس سے بہت ہی دل خوش ہوا اور امام بخاری کے بہت سے اعتراضات تمہاری تقریر سے اُٹھ گئے ! حضرت سبق کو تشریف لے جارہے تھے اور میرا حضرت کے ارشاد پر ندامت سے کچھ ایسا سر جھکا کہ تفصیل نہ پوچھ سکا کہ میری کون سی تحریر تھی جس سے امام بخاری کے جملہ اعتراضات ختم ہوگئے بعد میں بھی کئی مرتبہ خیال آیا مگر حیا کی وجہ سے نہ پوچھ سکا ! ١
لامع الدراری کی تصنیف میں حضرت مدنی کا کردار :
لامع الدراری بھی دراصل حضرت کے شدیداِصرار پر لکھی گئی، کوکب کے بعد سے حضرت اس کی طباعت کا بہت ہی اصرار فرمارہے تھے اور میں اَوجز کی کی تکمیل کا عذر کردیتا ! !
ایک مرتبہ بہت ہی قلق سے فرمایا کہ میرے سامنے طبع ہوجاتی تو میں بھی متمتع ہوتا، میرے بعدطبع کروگے توہمیں کیا فائدہ ہوگا ؟ بہت ہی قلق اوررنج ہے کہ ایسا ہی ہوا ! حضرت کے مرض الوصال اور شدت ِ علالت میں بہت ہی زور باندھ کر چار صفحے اس کے چھاپے تھے جو حضرت کی خدمت میں
١ آپ بیتی ص ٤٠٤
مستقل آدمی کے ہاتھ بھیجے تھے جو وصال کے وقت بھی حضرت کے سرہانے رکھے رہے مگرمیرا مقدر کہ حضرت قدس سرہ کی زندگی میں کم اَز کم ایک ہی جلد طبع ہوجاتی تو بے حد مسرت ہوتی لیکن مقدرات کا علاج کسی کے پاس نہیں ! اللہ جل شانہ لامع الدراری کااَجروثواب حضرت کومرحمت فرماوے کہ حضرت ہی کے حکم سے لکھی گئی ! ! ١
حضرت مدنی اور حضرت شیخ کاباہم علمی رابطہ :
حضرت قدس سرہ سے علمی گفتگو بھی خوب ہوتی اور منظرے بھی خوب ہوتے تھے، بہت سے مضامین کو اِس ناکارہ نے ''افاداتِ حسینیہ'' کے نام سے جمع بھی کر رکھا ہے جس کا تذکرہ تالیفات میں گزر چکا ہے ! خطبات کی تالیف میں جو حضرت کثرت سے لکھا کرتے تھے اکثر کسی طالب علم کے ہاتھ پرچہ بھیج دیتے کہ فلاں فلاں حدیث کے حوالے بھیج دو، میں بڑے اہتمام سے اُسی وقت لکھ کر بھیجا کرتا تھا ! ٢
اب تو حدیث بھیج دی اب کیا کسر ہے ؟
حضرت مدنی قدس سرہ دستی پنکھے کے بہت مخالف تھے ،کچے گھر میں جب کوئی جھلنے کھڑا ہوتا تو ڈانٹ سنتا، میں خوشامد کرتا تو مجھ پر بھی ڈانٹ پڑجاتی۔ ایک مرتبہ حضرت نے بہت زور سے فرمایا کہ کسی حدیث میں اس کا ثبوت ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو بجلی کے پنکھے کا بھی ثبوت نہیں ملا جو حضرت کے کمرے میں لگا ہوا تھا ،حضرت ہنس پڑے ! اس کے بعد میں نے ایک حدیث حضرت بلال کے مسجد میں جماعت کو پنکھا کرنے کی نقل کرکے بھیجی اور جب اگلی مرتبہ حضرت تشریف لائے تو میں نے ایک لڑکے سے کہا کہ حضرت کو پنکھا کر، اب تو حدیث بھیج دی اب کیا کسر ہے ؟ حضرت نے فرمایا کہ غیر معروف کتاب کی حدیث بھیجی ہے میں نے عرض کیا کہ کیا ساری احادیث معرو ف ہی کتابوں میں ہیں ٣
١ آپ بیتی ص ٤٠٤ ٢ ایضاً ص ٤٠٥ ٣ ایضاً ص ٤٠٥
بدن دبانے کا ثبوت :
اسی طرح ارشاد فرمایا کہ یہ بدن دبانے کا ثبوت کہاں ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ مباحات میں ہر ایک کے لیے حدیث تلاش کرنا بڑا مشکل ہے، باقی اس کی حدیث تو میں تلاش کرکے بھیج دوں گا چنانچہ دوسرے دن ایک طالب علم کے ہاتھ بھیج دی ! ١
اَخیر شب میں مطالعہ اور علمی کام کا معمول :
اس ناکارہ کا دستور رات کو کام میں مشغول رہنے کا خوب رہا اور ساری رات جاگنا معمولی بات تھی ! حضرت قدس سرہ بار بار فرمایا کرتے تھے کہ تمہاری اس چیز پر بڑا رشک آتا ہے میری تویہ مصیبت ہے کہ جہاں عشاء کے بعد کتاب ہاتھ میں لی نیند کا اِس قدر غلبہ ہوجاتا ہے کہ بیٹھنا مشکل ہوتا ہے ! اَخیر شب میں کتاب دیکھنے کی حضرت کی خصوصی عادت تھی اور یہ ناکارہ اس سے عاجز تھا تھوڑی دیر سوکر ایک دوبجے اُٹھ کر صبح تک کتاب دیکھنا حضرت کے یہاں بہت معمولی چیز تھی ! !
بسا اوقات اس کی نوبت آئی کہ حضرت تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ ایک مضمون لکھنا ہے اس کے ماخذ نشان رکھ کر میرے سرہانے رکھ دو اِس وقت شروع رات میں دیکھنا میرے بس کا نہیں ، اُٹھ کر دیکھوں گا ! میں جن کتابوں میں فورًا ملتا وہ حضرت کے سرہانے رکھ دیتا ! !
ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ معاہدات یہودکی ضرورت ہے، اس کی روایات جہاں جہاں ہوں اور اس قسم کے جہاں مضامین ہوں نشانات لگاکر رکھ لینا ،کل رات کو یہاں سوؤں گا حوالہ نقل کرکے لے جاؤں گا ! ٢
١ آپ بیتی ص ٤٠٥ ٢ ایضاً ص ٤٠٥، ٤٠٦
قسط : ١٠
تربیت ِ اولاد
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
چھوٹے بچوں کی پرورِش سے متعلق ضروری ہدایات وآداب مفید احتیاط اَور تدبیریں :
٭ بچہ کے لیے سب سے بہتر ماں کا دُودھ ہے بشرطیکہ مسان سوکھے کا مرض نہ ہو، اگر مسان کا مرض ہو تو سب سے زیادہ نقصان دہ ماں کا دُودھ ہے ! تندرست ماں اگر خالی پستان بھی بچہ کے منہ میں دے تو بچہ کو فائدہ پہنچتا ہے ! اگر یہ عادت بنالیں کہ ہر دفعہ دُودھ پلانے سے پہلے ایک اُنگلی شہد چٹا دیا کریں تو بہت مفید ہے !
٭ اگر بچہ کو اَنا (دُوسری عورت) کا دُودھ پلانا ہو تو ایسی عورت تجویز کرنا چاہیے جس کا دُودھ اچھا ہو اور وہ عورت جوان ہو اَور اُس کا دُودھ تازہ ہو یعنی اُس کا بچہ چھ سات مہینے سے زیادہ کا نہ ہو۔ اور اُس کی عادتیں اچھی ہوں وہ دیندار ہو، احمق بے وقوف بے شرم بدچلن کنجوس لالچی نہ ہو ! دُودھ پلانے والی عورت کوئی نقصان دہ چیز نہ کھائے !
٭ جب بچہ سات دن کا ہوجائے تو گہوارہ(جھولے ) میں جُھلانا اور گیت سنانا اُس کو بہت مفید ہے گود میں لیں یا گہوارہ میں لٹائیں بچہ کا سر اُونچا رکھیں ! جھولے کی زیادہ عادت بچہ کو نہ ڈالیں کیونکہ جھولا ہر جگہ نہیں ملتا اور بہت گود میں بھی نہ رکھیں اس سے بچہ کمزور ہوجاتا ہے !
٭ بچہ کو الگ سُلائیں اور حفاظت کے واسطے دونوں طرف کی پٹیوں سے دو چار پائیاں ملاکر بچھادیں یا اُس کی دونوں کروٹ دو تکیے رکھ د یں تاکہ گر نہ پڑے ! اورپاس سُلانے میں ڈر یہ ہے کہ شاید سوتے میں کہیں کروٹ کے نیچے نہ دب جائے، ہاتھ پاؤں نازک تو ہوتے ہی ہیں اگر صدمہ پہنچ جائے تو کوئی تعجب نہیں ! ایک جگہ اسی طرح ایک بچہ رات کو دب گیا صبح کو مرا ہوا ملا !
٭ چھوٹے بچہ کو عادت ڈالیں کہ وہ سب کے پاس آیا جا یا کرے ! ایک آدمی کے پاس زیادہ جانے سے اگر وہ آدمی خدا نخواستہ مرجائے یا کہیں چلا جائے تو بچہ کے لیے مصیبت ہوجاتی ہے !
٭ روزانہ بچہ کا ہاتھ منہ گلا کان گیلے کپڑے سے خوب صاف کردیا کریں میل جمنے سے گوشت گل کر زخم پڑ جاتے ہیں !
٭ جب بچہ پیشاب پاخانہ کرے توفورًا پانی سے صاف کر دیا کریں ! خالی کپڑے وغیرہ سے پوچھنے پر بس نہ کیا کریں اس سے بچہ کے بدن میں خارش اور سو زش (جلن) پیدا ہوجاتی ہے ! اگر موسم ٹھنڈا ہو تو پانی ہلکا گرم کریں ۔
٭ جب دُودھ چھڑانے کے دن قریب آئیں اور بچہ کچھ کھانے لگے تو اس کا خیال رکھیں کہ کوئی سخت چیز ہر گز نہ چبانے دیں اس سے ڈر ہے کہ دانت مشکل سے نکلیں اور ہمیشہ کے لیے دانت کمزور رہیں ! ایسی حالت میں نہ غذا پیٹ بھر کر کھلائیں نہ پانی زیادہ پلائیں اس سے معدہ ہمیشہ کے لیے کمزور ہوجاتا ہے ! اگر ذرا بھی پیٹ پھولا دیکھیں تو غذا بند کردیں اور جس طرح ہوسکے بچہ کو سُلادیں اس سے غذا جلدی ہضم ہوجاتی ہے !
٭ جب بچہ کھانے لگے ،اَنا(کھلانے والی عورت) پر بچے کا کھانانہ چھوڑیں بلکہ خود اپنے یا اپنے کسی سلیقہ دار معتبر آدمی کے سامنے کھانا کھلایا کریں تاکہ بے اندازہ (ضرورت سے زیادہ) کھا کر بیمار نہ ہو جائے
٭ جب کچھ سمجھدار ہو جائے تواُس کو اپنے ہاتھ سے کھانے کی عادت ڈالیں اور کھانے سے پہلے ہاتھ دُھلوا دیا کریں ! اور دائیں ہاتھ سے کھاناسکھلائیں اور اِس کو کم کھانے کی عادت (ڈلوائیں ) تاکہ بیماری اور لالچ سے بچا رہے !
٭ بچوں کو کسی خاص غذا کی عادت نہ ڈالو بلکہ موسمی چیزیں سب کھلاتے رہو تاکہ عادت رہے البتہ بار بار نہ کھلاؤ ! جب تک ایک چیز ہضم نہ ہوجائے دُوسری نہ دو ! اور کوئی چیز اتنی نہ کھلاؤ کہ ہضم نہ ہوسکے ! اور کھٹائی زیادہ نہ کھانے دو ،خاص طور پر لڑکیوں اور بچوں کو تاکید رکھو کہ کھانا کھانے اور پینے میں نہ ہنسیں اور نہ کوئی ایسی حرکت کریں جس سے لقمہ یا پانی ناک کی طرف چڑھ جائے ! اور جس قدر میسر ہو بچوں کو اچھی غذا دو، اس عمر میں جو کچھ طاقت بدن میں آجائے گی تمام عمر کام آئے گی خاص کر جاڑوں میں میوہ یا تیل کے لڈو کھلایا کرو، ناریل اور مصری کھانے سے طاقت بھی آتی ہے اور چنونے پیدا نہیں ہوتے اور سوتے میں پیشاب زیادہ نہیں آتا !
٭ بچہ کو تاکید کریں کہ اگر کوئی اُس کو کھانے پینے کی چیز دے تو گھر لاکر ماں باپ کے سامنے رکھ دے خود ہی نہ کھالے !
٭ بچہ کو عادت ڈالیں کہ اپنے بڑوں کے علاوہ اور کسی سے کوئی چیز نہ مانگے اور نہ بغیر اِجازت کے کسی کی دی ہوئی چیز لے !
٭ بچہ کو بہت تنگ کپڑئے نہ پہنائیں اور بہت گوٹہ کناری بھی نہ لگائیں البتہ عید بقر عید میں مضائقہ نہیں
٭ بچہ کو بہت لاڈ پیار نہ کریں ورنہ برباد ہوجائے گا ! (جاری ہے)
٭٭٭
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢١
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
اختلاف میں میانہ روی :
اجتماعی زندگی میں آراء کا اختلاف کوئی حیرت انگیز امر نہیں ہے کیونکہ ہر آدمی کی ذہنی صلاحیت اور سوچنے کا انداز الگ ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں ہر شخص دوسرے سے پوری طرح اتفاق ہی کرے بلکہ فکرونظر میں اختلاف ہوا ہے اور ہوتا رہے گا اور اس طرح کے اختلاف کو گوارا کیا گیا ہے اور گوارا کیا جانا چاہیے !
خاص طور پر جس اختلاف کی بنیاد محض طریقۂ کار کے اختلاف پر ہو تو اس میں تو وسعت کی بہت گنجائش ہوتی ہے اس کے دائرہ کوتنگ کرکے اختلاف کو ایک محاذ آرائی اور فتنہ کی شکل دے دینا اور اصلاح کے خوبصورت عنوان سے اجتماعیت کو تار تار کردینا ہرگز پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتامثلاً کسی تعلیمی ادارے میں نصاب کی تعیین یا گھنٹوں کی ترتیب یا اوقات کی تبدیلی کے بارے میں اختلاف رائے ہوجائے تو اسے ضد اور اَنا کا موضوع نہ بنایا جائے بلکہ ہر فریق کی طرف سے حتی الامکان معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے اور کسی رائے پر اصرار کے بجائے اجتماعیت کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ادارہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا اور جو لوگ بھی اس کا سبب بنیں گے وہی عنداللہ وعندالناس اس نقصان کے ذمہ دار قرار پائیں گے۔
ہمارے معاشرہ کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ جہاں کسی رائے کا اختلاف ہوا بس آرپار کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے اور پھر اِس لڑائی میں وہ راہ چلتے لوگ بھی پورے شدومد کے ساتھ شامل ہوجاتے ہیں جن کااصل معاملہ سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتااور دیکھتے ہی دیکھتے دو فریق بن جاتے ہیں اور جو فریق جس کی حمایت کرتاہے اس کی ساری غلطیوں کو نظر انداز کردیتا ہے اور جس کی مخالفت میں آگے بڑھتا ہے تو اس کی ساری خوبیوں کو منٹوں میں خاک میں ملادیتا ہے !
یہ بے احتیاطی بڑے بڑے فتنوں کو جنم دیتی ہے جس کی زد میں آکر بڑے بڑے شان و شوکت والے ادارے بھی عبرت کا نمونہ بن جاتے ہیں اور دلوں میں بغض وعداوت کاایسا طوفان اُٹھتا ہے جو ذخیرہ ٔ حسنات کو جلاکر خاکستر کردیتا ہے، اس لیے ایسے مواقع پر شریعت ِمطہرہ ہمارے لیے کیا رہنمائی کرتی ہے اُسے پیش ِ نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
ایک جامع ترین کتاب :
اس موضوع پر اُردوزبان میں ایک جامع ترین کتاب برکة العصر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ نے ''الاعتدال فی مراتب الرجال'' کے نام سے تالیف فرمائی جس کا ایک ایک لفظ روشن ہے اور فکرو عمل میں اعتدال کی دعوت دینے والا ہے۔
یہ کتاب اُس وقت لکھی گئی جب تقسیمِ بند کی تحریک چل رہی تھی اور لیگ اور کانگریس کا اختلاف شباب پر تھا ! اخبارات، اشتہارات اور پمفلٹوں کاایک سیل رواں تھا جو ذہنوں کو پراگندہ کر رہا تھا اُس گرم ماحول میں حضرت شیخ الحدیث نے اپنے ایک کرم فرما کے تیکھے سوالوں کا مدلل جواب دیتے ہوئے یہ رسالہ تحریر فرمایا جس میں آیاتِ قرآنیہ ،اَحادیث نبویہ اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں اعتدال کا راستہ اپنانے کی تلقین فرمائی۔
یہ رسالہ ایک عرصہ تک مخطوطہ کی شکل میں رہا، حضرت شیخ کو اِسے شائع کرنے میں قدرے تردّد تھا لیکن بعد میں عارف باللہ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری نور اللہ مرقدہ اورداعی اِلی اللہ حضرت مولانا شاہ محمد الیاس صاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کے اصرار پراِس کو شائع فرمایا۔
یہ رسالہ اگرچہ زیادہ ضمیم نہیں ہے لیکن اس میں ٣٦٢ مرفوع احادیث اور تقریبًا سو آثارِ صحابہ وتابعین جمع کردیے گئے ہیں ۔ یہ رسالہ بلا شبہ اس قابل ہے کہ ہر وقت ہمارے مطالعہ میں رہے اور ہم اس میں تحریر کردہ ہدایات کو اَپنانے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اپنی ذات کو کسی بھی فتنہ کو ہوا دینے میں استعمال نہ ہونے دیں ۔
راقم مرتب نے اپنی یاد دھیانی کے لیے اس مبارک اور نافع کتاب کے چند حوالے نوٹ کیے تھے مناسب معلوم ہوتاہے کہ وہ قارئین کی نظر سے بھی گزر جائیں ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
اختلاف میں حدود سے تجاوز نہ ہو :
حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں :
''علاوہ ازیں ایک چیز اور بھی نہایت قابلِ اہتمام ہے، غور سے سنو کہ اختلافِ رائے خواہ ممدوح ہویامذموم، کسی اختلاف میں بھی حدود سے تجاوز کر جانا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے بڑھ کر معاملہ کرنا اسلامی تعلیم کے منافی ہے''
قرآنِ پاک کا ارشاد ہے :
( وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا )
''ایسا نہ ہوکہ تم کو کسی قوم سے جن کو اِس سبب سے بغض ہے کہ انہوں نے تم کو مسجد ِ حرام میں جانے سے روک دیا ہے، وہ بغض تمہارے لیے اس کا باعث بن جائے کہ تم حد سے نکل جاؤ ''
غور کرو کہ یہاں کفار کی مخالفت کیسی سخت اور مذموم تھی لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو اُن کی مخالفت میں بھی حد سے تجاوز کرنے کی ممانعت کردی گئی ! میں یہ نہیں کہتا کہ اختلاف ِ رائے نہیں ہوتا یا اختلاف ِ مسائل نہیں ہوتا یا آپس کا نزاع نہیں ہوتا، یہ سب چیزیں ہمیشہ سے ہوتی آئی ہیں اور ہوتی رہیں گی، مخالفتیں ممدوح بھی ہوتی ہیں اور مذموم بھی، مگر کون سی چیز ہمارے لیے ایسی ہے جس کے بارے میں ہمارے پاس اسلاف کی رائے ، ان کا فعل ،ان کا عمل مشعل ِہدایت نہیں ہے، آپس کی مخالفت کے قصے دیکھنا ہو تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اختلافات دیکھو کہ وہ آپس میں لڑکر اِس تعلیم کو بھی پورا فرماگئے ہیں '' ٢
١ سُورة المائدة : ٢ ٢ الاعتدال فی مراتب الرجال ص ٢٣٩ ، ٢٤٠
فریق ِمخالف کو خود غرض قرار دینا سخت غیر ذمہ داری ہے :
ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں :
''اس لیے ہر اُس شخص کوجواپنی رائے کے خلاف رائے رکھتاہو، خود غرض بتادینا یا حب ِجاہ اور حب ِ مال کا مجرم وملزم بنادینا بڑی سخت غیر ذمہ داری ہے ! ! کیا یہ ممکن نہیں کہ اُس کے نزدیک دین کے لحاظ سے یا مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے واسطے یہی صورت مناسب اور ضروری ہے جو وہ اختیار کر رہاہے ؟ ؟
ماناکہ تمہارے نزدیک وہ خطرناک صورت ہے اور نہایت نقصان دہ لیکن اوّل تمہارے پاس بھی وحی نہیں ہے کہ جو راستہ تمہارا ہے وہی حق ہے، خطا اور صواب کااحتمال ہر جانب ہے۔
دوسرے اگر مان بھی لیا جائے کہ یہی راسہ متعین ہے تو بھی یہ ضروری نہیں کہ دوسرے شخص نے غلط راستہ بد دیانتی اور خود غرضی سے ہی اختیار کیا ہے ! خطاء اجتہادی سے بھی ممکن ہے اس لیے تم پر ضروری ہے کہ اس کو سمجھاؤ اور ان اخلاقِ اسلامی سے جو ایک مسلمان کی شایانِ شان ہیں اس کو اپنا ہم نوا بناؤ ،نہ یہ کہ جھوٹے سچے عیوب اُس پر چسپاں کرو اور ہر وقت بہتان وغیبت میں مبتلا رہو اور اس کے درپے آزار رہو۔ اللہ جل جلالہ کا ارشاد ہے :
( وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا) ١
''اور جو لوگ مومن مرد اور مومن عورتوں کو بدون اس کے کہ اُنہوں نے کوئی ایسا کام کیا ہو(جس سے وہ شرعاً ستانے کے مستحق بن جائیں ) ایذا دیتے ہیں وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا اِرتکاب کرتے ہیں '' ٢
١ سُورة الاحزاب : ٥٨ ٢ الاعتدال فی مراتب الرجال ص ١٥١
زبان قابو میں رکھیں !
اختلاف کے وقت عام طور پر زبانیں بے قابو ہوجاتی ہیں اس پر متنبہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''درحقیقت لوگوں کی زبانیں قابو میں نہیں ہیں ، جس شخص کے متعلق جو چاہے بے تکلف حکم لگادیتے ہیں حالانکہ زبان کی حفاظت بہت ہی زیادہ اہم ہے ! ایک صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیاکہ مجھے کوئی ایسی چیز بتادیجیے جس کو مضبوط پکڑ لوں حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا اس کا مالک بنا رہ '' ١
ایک دوسرے صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا کہ کس چیز سے بچوں ؟ حضورِ اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ''زبان سے'' ٢
حدیث میں آیا ہے جولوگ آدمیوں کا مذاق اُڑاتے ہیں اُن کے لیے قیامت میں جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا ان میں سے ہر ایک کو آوازیں دی جائیں گی کہ جلدی آجا جلدی آجا، جب وہ اُس تکلیف اور مصیبت کی وجہ سے جس میں وہ مبتلا ہوگا بڑی دِقت سے دروازے کے قریب پہنچے گا وہ دروازہ فورًا بند کر لیا جائے ! اور دوسری طرف ایک دروازہ کھل جائے گا اور وہاں سے اسی طرح بلانے کی آوازیں آئیں گی اور جب وہ بڑی مشقت سے اُس دروازہ کے قریب پہنچے گا تو وہ بھی بند ہوجائے گا ! اور تیسرا دروازہ اسی طرح کھلے گا ،یہی معاملہ اس کے ساتھ رہے گا حتی کہ وہ مایوس ہوکر اُس کھلے ہوئے دروازہ کی طرف جانے کی ہمت بھی نہ کرے گا ! ٣
یہ بدلہ ہے اُس کے مسلمان کے ساتھ ٹھٹول اور مذاق کرنے کا کہ اِس کے ساتھ بھی مذاق کا معاملہ کیا جائے گا ! جو لوگ معمولی سی مخالفت پر مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے ہیں اُن کے کارٹون شائع کرتے ہیں اُن کی ہجو میں میں قصائد لکھتے ہیں وہ کبھی خلوت میں بیٹھ کر اپنے حشر کا بھی غور کریں ! ٤ (جاری ہے)
٭٭٭
١ المعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث ٣٣٤٨ ، ٣٣٤٩ ٢ الترغیب و الترہیب ٣/ ٣٣٨
٣ شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث ٦٧٥٧ ٤ الاعتدال فی مراتب الرجال ص ١٥٢ ، ١٥٣
انتخابات میں ووٹ، ووٹراَور اُمیدوار کی شرعی حیثیت
( حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب،مفتی اعظم پاکستان )
٭٭٭
اسمبلی، کونسل یا کسی دُوسرے اِداروں کے اِنتخابات میں کسی شخص کو کس صورت میں اُمیدوار ہونا چاہیے نیز کسی اُمید وار کے حق میں ووٹر کو اپنا ووٹ کس طرح استعمال کرنا چاہیے ؟ عام طور پر لوگ اس کو ذاتی اور نجی معاملہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ خالص دینی معاملہ ہے پیشِ نظر مضمون میں ان دونوں طبقوں کے شرعی فرائض کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ (ادارہ)
آج کی دُنیا میں اسمبلیوں ، کونسلوں ، میونسپل وارڈوں اور دُوسری مجالس اور جماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے کہ زور وزَر اور غنڈہ گردی کے سارے طاغوتی وسائل کا استعمال کر کے یہ چند روزہ موہوم اعزاز حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے عالم سوز نتائج ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور مُلک و ملت کے ہمدرد و سمجھدار اِنسان اپنے مقدور بھر اِس کی اصلاح کی فکر میں بھی ہیں لیکن عام طور پر اس کو ایک ہارجیت کا کھیل اور خالص دُنیاوی دھندہ سمجھ کر ووٹ لیے اور دیے جاتے ہیں ، پڑھے لکھے دیندار مسلمانوں کو بھی اس طرف توجہ نہیں ہوتی کہ یہ کھیل صرف ہماری دُنیا کے نفع نقصان اور آبادی یا بربادی تک نہیں رہتا بلکہ اس کے پیچھے کچھ طاعت و معصیت اور گناہ و ثواب بھی ہے ! جس کے اثرات اس دُنیا کے بعد بھی یا ہمارے گلے کاہار عذابِ جہنم بنیں گے یا پھر درجاتِ جنت اور نجاتِ آخرت کا سبب بنیں گے ! اور اگرچہ آج کل اس اکھاڑہ کے پہلوان اور اس میدان کے مرد عام طور پر وہی لوگ ہیں جو فکرِ آخرت اور خدا ورسول کی اِطاعت و معصیت سے مطلقاً آزاد ہیں اور اِس حالت میں اُن کے سامنے قرآن و حدیث کے اَحکام پیش کرنا ایک بے معنٰی و عبث فعل معلوم ہوتا ہے لیکن اسلام کا ایک یہ بھی معجزہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری جماعت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوتی، ہر زمانہ اور ہر جگہ کچھ لوگ حق پر بھی قائم رہتے ہیں جن کو اپنے ہر کام میں حلال و حرام کی فکر اور خدا اور رسول کی رضاجوئی پیشِ نظر رہتی ہے نیز قرآن کریم کا یہ بھی اِرشاد ہے ( وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) '' آپ نصیحت کی بات کہتے ہیں کیونکہ نصیحت مسلمانوں کو نفع دیتی ہے''
اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اِنتخابات میں اُمیدواری اور ووٹ کی شرعی حیثیت اور اُن کی اہمیت کو قرآن اور سنت کی رُو سے واضح کر دیا جائے شاید کچھ بندگانِ خدا کو تنبیہ ہو اور کسی وقت یہ غلط کھیل صحیح بن جائے ! ! !
اُمیدواری کسی مجلس ممبری کے انتخابات کے لیے جواُمیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہو وہ گویا پوری ملت کے سامنے دوچیزوں کا مدعی ہے ایک یہ کہ وہ اِس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے جس کا اُمیدوار ہے دُوسرے یہ کہ وہ دیانت و اَمانت داری سے اس کام کو اَنجام دے گا !
اب اگر واقعی میں وہ اپنے اس دعویٰ میں سچا ہے یعنی قابلیت بھی رکھتا ہے اور امانت و دیانت کے ساتھ قوم کی خدمت کے جذبہ سے اس میدان میں آیا ہے تو اس کا یہ عمل کسی حد تک درست ہے ! اور بہتر طریق اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص خود مدعی بن کر کھڑا نہ ہو بلکہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اُس کو اس کام کا اہل سمجھ کر نامزد کر دے ! اور جس شخص میں اس کام کی صلاحیت ہی نہیں وہ اگر اُمیدوار ہو کر کھڑا ہو تو قوم کا غدار و خائن ہے ! اس کا ممبری میں کامیاب ہونا ملک و ملت کے لیے خرابی کا سبب تو بعد میں بنے گا پہلے تو وہ خود غدار و خیانت کا مجرم ہو کر عذاب ِجہنم کا مستحق بن جائے گا ! !
اب ہر وہ شخص جو کسی مجلس کی ممبری کے لیے کھڑا ہوتا ہے اگر اُس کو کچھ آخرت کی بھی فکر ہے تو اِس میدان میں آنے سے پہلے خود اپنا جائزہ لے لے اور یہ سمجھ لے کہ اِس ممبری سے پہلے تو اُس کی ذمہ داری صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال ہی تک محدود تھی لیکن بنصِ حدیث ہر شخص اپنے اہل و عیال کا بھی ذمہ دار ہے ! اور اب کسی مجلس کی ممبری کے بعد جتنی خلقِ خدا کا تعلق اِس مجلس سے وابستہ ہے اُن سب کی ذمہ داری کا بوجھ اِس کی گردن پر آتا ہے اور وہ دُنیا و آخرت میں اِس ذمہ داری کا مسئول اور جوابدہ ہے۔
ووٹ اور ووٹر :
کسی اُمیدوار ممبری کو ووٹ دینے کی اَزرُوئے قرآن و حدیث چند حیثیتیں ہیں :
٭ ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپنا ووٹ دے رہا ہے اُس کے متعلق اُس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ شخص اِس کام کی قابلیت بھی رکھتا ہے اور دیانت اور اَمانت بھی ! اور اگر واقعی میں اُس شخص کے اندر یہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اُس کو ووٹ دیتا ہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے جو سخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دُنیا و آخرت ہے ! !
صحیح بخاری کی حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے شہادتِ کاذبہ کو شرک کے ساتھ کبائر میں شمار فرمایا ہے اور ایک دوسری حدیث میں جھوٹی شہادت کو اَکبر کبائر فرمایا ہے۔ (بخاری و مسلم)
جس حلقہ میں چند اُمیدوار کھڑے ہوں اور ووٹر کو یہ معلوم ہے کہ قابلیت اور دیانت کے اعتبار سے فلاں آدمی قابلِ ترجیح ہے تو اُس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو ووٹ دینا اِس اَکبر کبائر میں اپنے آپ کو مبتلا کرنا ہے ! ! اب ووٹ دینے والا اپنی آخرت اور انجام کو دیکھ کر ووٹ دے ،محض رسمی مروّت یا کسی طمع و خوف کی وجہ سے اپنے آپ کو اِس وبال میں مبتلا نہ کرے ! !
٭ دُوسری حیثیت ووٹ کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اُس کی نمائندگی کی سفارش کرتا ہے، اس سفارش کے بارے میں قرآنِ کریم کا یہ اِرشاد ہر ووٹر کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے :
( وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّکُنْ لَّہ نَصِیْب مِّنْھَا وَمَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّکُنْ لَّہ کِفْل مِّنْھَا ) ( سُورة النساء : ٨٥ )
''جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اُس میں اِس کو بھی حصہ ملتا ہے ! اور بر ی سفارش کرتا ہے تو اُس کی برائی میں اس کا بھی حصہ لگتا ہے''
اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانتدار آدمی کی سفارش کرے جو خلقِ خدا کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے ! اور بری سفارش یہ ہے کہ نااہل ،نالائق، فاسق، ظالم کی سفارش کر کے اُس کو خلق ِخدا پر مسلط کرے !
اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والا اُمیدوار اپنے پنج سالہ دور میں جو نیک یا بدعمل کرے گا ہم بھی اُس کے شریک سمجھے جائیں گے ! !
٭ تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ والا اس اُمیدوار کو اپنا نمائندہ اور وکیل بناتا ہے ! لیکن اگر یہ وکالت اُس کی کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اُس کا نفع نقصان صرف اُس کی ذات کو پہنچتا تو اُس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا مگر یہاں ایسا نہیں کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جن میں اُس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے ! اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اِس کی گردن پر رہا ! !
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے : ایک شہادت، دُوسرے سفارش، تیسرے حقوقِ مشترکہ میں وکالت ! تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجبِ ثواب ِعظیم ہے اور اُس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں اسی طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اِس کے نامہ اَعمال میں لکھے جائیں گے ! ! !
ضروری تنبیہ :
مذکور الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے اسی طرح ایک اچھے نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثوابِ عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے ! قرآنِ کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرمایا ہے ! ! ارشادِ باری ہے ( کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ )
اور دُوسری جگہ ارشاد ہے ( کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ ) ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں ، اللہ کے لیے ادائیگی شہادت کے واسطے کھڑے ہو جائیں ! تیسری جگہ سورۂ طلاق میں اِرشاد ہے ( وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَةَ لِلّٰہِ ) یعنی اللہ کے لیے سچی شہادت کو قائم کرو ! ایک آیت میں یہ اِرشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے ( وَلَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَةَ وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہ آثِم قَلْبُہ ) ١ یعنی شہادت کو نہ چھپائو اور جو چھپائے گا اُس کا دل گناہگار ہے ! ! !
ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کر دیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چرائیں ، ضرور ادا کریں ! آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آ رہی ہیں اُن کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدہ میں آ رہا ہے کہ ووٹ عموماً اُن لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لیے جاتے ہیں اور اُن لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں وہ ظاہر ہے کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے ! اس لیے جس حلقہ میں کوئی بھی اُمیدوار قابل اور نیک معلوم ہو اُسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے ! ! !
اور اگر کسی حلقہ میں کوئی بھی اُمیدوار صحیح معنٰی میں قابل اور دیانتدار نہ معلوم ہو مگر اُن میں سے کوئی ایک صلاحیت کار اور خدا ترسی کے اُصول پر دوسروں کی نسبت غنیمت ہو تو تقلیل ِ شر اور تقلیل ِظلم کی نیت سے اُس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے ! جیسا کہ نجاست کے پورے اِزالہ پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اِختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ ظلم کو فقہاء رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے وَاللّٰہُ سُبْحَانَہ وَ تَعَالٰی اَعْلَمُ
خلاصہ یہ ہے کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم اَز کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے ! اور اُس میں جھوٹ بولنا بھی حرام ! اُس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام ! اُس میں محض ایک سیاسی ہار جیت اور دُنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے ! ! !
آپ جس اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں شرعًا آپ اُس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریہ اور علم و عمل اور دیانتداری کی رُو سے اِس کا م کا اہل اور دُوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے جس کام کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں !
١ سُورة البقرة : ٢٨٣
اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں :
(١) آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعہ جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اِس سلسلہ میں جتنے اچھے یا برے اِقدامات کرے گا اُن کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی ! آپ بھی اُس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے ! !
(٢) اس معاملہ میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اُس کا اَثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب و عذاب بھی محدود ! قومی اور مُلکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے ، اُس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے ! اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے ! !
(٣) سچی شہادت کا چھپانا اَزرُوئے قرآن حرام ہے ! !
(٤) جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اُس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے ! !
(٥) ووٹ کو پیسوں کے معاوضہ میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اِسلام اور ملک سے بغاوت ہے ! دوسروں کی دُنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کر دینا کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی ! ! رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دُنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے ! ! وَاللّٰہُ سُبْحَانَہ وَ تَعَالٰی اَعْلَمُ
ظلم دیکھ کر خاموش رہنے والا ؟
( شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم )
(درس حدیث ٢٦٦ : ١٣ ربیع الثانی ١٤٤٥ھ /٢٩ اکتوبر ٢٠٢٣ ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت عُرس بن عَمِیرة رضی اللہ عنہ نبی علیہ السلام سے یہ بات نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اِذَا عُمِلَتِ الْخَطِیْئَةُ فِی الْاَرْضِ مَنْ شَھِدَھَا فَکَرِہَھَا کَانَ کَمَنْ غَابَ عَنْھَا
کہ جب زمین پر کوئی برا کام کیا جائے خراب کام ظلم زیادتی تو جہاں یہ کام ہورہا ہے وہاں جو آدمی موجودہیں اُنہیں وہ روکنا چاہیے اَمر بالمعروف نہی عن المنکر دونوں ضروری ہیں لیکن وہ نہیں روک سکتا ظالموں کی طاقت اتنی ہے اور یہ کمزور ہے روکنے کی طاقت نہیں ہے لیکن یہ اُس کو دل سے ناپسند کر رہا ہے اور کہتا ہے، سمجھتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ ظلم اور زیادتی ہے یہ نہیں ہونی چاہیے تو یہ ایسے ہے جیسے وہ اُس گناہ میں یا اُس خطا میں شریک ہی نہیں ہے وہاں موجود نہیں ہے ! !
بعض جگہ کسی انسان پر کہیں زیادتی ہورہی ہوتی ہے (دوسرا آدمی اس کو زیادتی بھی) سمجھ رہا ہے (اور مدد کی ) کوشش بھی کر تا ہے اور نہیں کر پا رہا تو ارشاد فرمایا یہ ایسے ہے جیسے اُس گناہ کے کام میں شریک نہیں ہے موجود نہیں ہے اِس پر اُس گناہ کا وبال نہیں ہوگا
(مزید ارشاد فرمایا) وََمَنْ غَابَ عَنْھَا فَرَضِیَھَا کَانَ کَمَنْ شَھِدَھَا اور جو وہاں موجود نہیں ہے گناہ ہو رہا ہے ظلم ہورہا ہے جیسے کہ دنیا کے بعض خطوں میں چل رہا ہے آپ کے سامنے ہے فلسطین میں ، شام میں ، یمن میں ، کشمیر میں ، ہندوستان میں جگہ جگہ ، تو جہاں جہاں یہ مظالم ہورہے ہیں وہاں یہ شخص موجود نہیں ہے لیکن خوش ہے کہ اچھا ہورہا ہے ٹھیک ہے اور ٹھکائی ہونی چاہیے اور پٹائی ہونی چاہیے ان کی، جیسے کہ ہمارے منافق حکمران اور منافق جرنیل امریکہ کی بولی بول رہے ہیں فلسطین کے معاملہ پر بیت المقدس کے معاملے پر حالانکہ وہاں موجود نہیں ہیں ، کوئی دو ہزار میل دُور، کوئی تین ہزار میل دُور، کوئی ایک ہزارمیل دُور، کوئی آٹھ ہزار میل دُور ، اسی طرح ملحد جماعتیں ، توجو کافر ہیں وہ تو ہیں ہی کافر لیکن جو اِس طرح کے اتحادی ہیں (کفار کے) وہ بھی ایسی چیزوں پر خوش ہوتے ہیں ، پاکستان میں بھی ایسے منافق بہت ہیں ! جگہ جگہ ہیں سب جگہ ہیں ! !
لیکن خوش ہے(اس ظلم پر) تواِس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ موجود نہیں ہے لیکن اگر موجود ہوتا وہاں تو مدد کرتا تو یہ اُس آدمی کی مانند ہے جو وہاں موجود ہو اور اُس جرم میں شریک ہو تویہ بھی اُن گناہگاروں کی فہرست میں ہے ! !
بڑا واضح نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے یہ ہمارے حکمرانوں کو پاکستان کے ہوں بنگلہ دیش میں ہوں عرب کے ہیں اُن کے لیے واضح پیغام ہے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا کہ یہ کفر کے ساتھ ہیں کیونکہ جب کچھ کرسکتے ہیں پھر بھی کر نہیں رہے تو مطلب یہ ہے کہ یہ راضی ہیں اس پر ، یہ اس پر خوش ہیں ، مسلمان عورتوں اور بچوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں ، شہادتیں ہورہی ہیں ،ان کی پوری پوری بستیاں برباد ہوگئیں اور آگ بن گئیں تو یہ شریک ہیں اس میں ! !
خاموش ظالموں کا کیا کرنا چاہیے ؟
جب شریک ہیں تو کیا کرنا چاہیے ان کا ؟ تو پھر اِن حکومتوں کا جو اُس کے قریب ہیں تختہ اُلٹ دو سب سے پہلے ! پچھلی دفعہ بھی ہم نے بتا یا تھا جو اُس کے قریب ممالک ہیں اُردن ہے، لبنان ہے، شام ہے ، سعودی عرب اس کے قریب ہے تو اِن کا تختہ وہ(قوتیں ) اُلٹیں جو اُلٹ کر حالات کو قابو میں کرکے پھر اُن کی مدد کر سکیں ورنہ نہیں ! اگر تختہ اُلٹ دیں گے پھر حالات قابو میں ہی نہ آئیں اور وہاں آپس ہی کی لڑائی شروع ہوگئی ، آپس ہی کی خانہ جنگیاں تو اب حالات جتنے خراب ہیں پھر اس سے بھی زیادہ خراب ہوجائیں گے ! !
پاکستان کے بہت سے لوگ ہیں اور سب جگہ ہیں وہ تڑپ رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کچھ کریں ہم جائیں افغانستان میں ہیں تڑپ رہے ہیں کہ ہم جائیں مدد کریں لیکن نہیں کرسکتے ارشاد فرمایا وہ ایسے ہیں جیسے وہ اس گناہ میں شریک نہیں ہیں وہ اس سے بچے ہوئے ہیں اللہ انہیں اس وبال سے بچائے رکھے گا !
تویہ مختصر سی حدیث ہے ،بشارت بھی ہے اور بہت بڑی وعید بھی ہے، مخلصین کے لیے بشارت ہے اور منافقین اور ملحدین کے لیے اس میں بہت بڑی تباہی کا پیغام ہے ! رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم فرما رہے ہیں یہ ابو داؤد شریف کی حدیث ہے ۔
تو اللہ کرے اُن کی مدد ہو اُن کی حفاظت ہو جو مجاہدین وہاں بر سرِپیکار ہیں اللہ اُن پر سکینہ نازل کرے اُن کو استقامت دے اور ایسے راستے پیدا کریں کہ مسلمان جو لڑنا چاہتے ہیں جہاد میں خفیہ راستوں سے یا کھلے راستوں سے، ان کے لیے اللہ آسانی کرے کہ وہاں پہنچنا شروع ہوں اور اپنے مسلمان بہن بھائیوں کی مدد کریں !
اللہ تعالیٰ ہمیں جو ہماری کوتاہیاں ہیں اُن پر اپنی پکڑ سے بچائے اور ہم سب میں اتحاد و اتفاق عطافرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی شفاعت اور اُن کا ساتھ نصیب فرمائے وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1
عورت کا بغیر محرم یا شوہر کے حج کرنا !
( حضرت مولانا محمد مفتی زبیر حسن صاحب )
٭٭٭
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اس سال اسلامی نظریا تی کونسل کی سفارشات کے مطابق خواتین اپنے محرم یا شوہر کے بغیر حج ادا کر سکتی ہیں اگر درجِ ذیل شرائط پائی جائیں :
(١) انہیں والدین یا شوہر کی اجازت حاصل ہو
(٢) وہ کسی قابلِ اعتماد خواتین کے گروپ میں شامل ہوں
(٣) سفر حج کے دوران فساد یا خطرے کا اندیشہ نہ ہو
اب سوال یہ ہے کہ عورت بغیر کسی محرم یا شوہرکے اکیلے حج ادا کر سکتی ہے یا نہیں ؟
اَلْجَوَاب
بِسْمِ اللّٰہِ حاَمدًا وَّمُصَلِّیًا
عورت کے سفر کے بارے میں فقہاء یہ ضابطہ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر عورت کسی ضرورت کی وجہ سے مسافت ِشرعی (٤٨میل/٢٤.٧٧کلو میٹر) سے کم سفر کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کے لیے بغیر محرم یا شوہر کے سفر کرنے کی گنجائش ہے !
اور اگرمسافت ِشرعی کے برابر یا اس سے طویل سفرپر جا نا چاہتی ہو تواس کے لیے بغیر محرم یا شوہر کے سفر کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ حج و عمرہ کا سفر ہی کیوں نہ ہو ! احادیث ِمبارکہ میں اس کی تاکید آئی ہے لہٰذا مذکورہ شرعی اصول کے مطابق کسی بھی عورت(شرعی مسافرہ) کے لیے محرم یا شوہر کے بغیر حج کے سفر پر جانا جائز نہیں !
لیکن اگر عورت چلی گئی تو حج کا فریضہ ادا ہو جائے گا مگر شرعی اصول کی رعایت نہ رکھنے کا گناہ ہو گا !
البتہ بعض فقہاء کے نزدیک ایسی خاتون جو زیادہ عمر رسیدہ ہو اور اس کے بارے
میں فتنے کا خوف نہ ہو اور قابلِ اعتماد عورتوں کے قافلے کے ساتھ ہو تواُس کے لیے بغیر محرم یا شوہر کے بھی سفر کرنے کی گنجائش ہے !
چنانچہ صحیح مسلم میں ہے :
عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم لا یحل لامرأة تؤمن باللّٰہ والیوم الآخران تسافرسفرا یکون ثلاثة ایام فصاعدا الا ومعھا ابوھا او ابنھا او زوجھا او اخوھا او ذومحرم منھا۔ ( رقم الحدیث : ٣٢٧٠ )
بدائع الصنائع میں ہے :
ثم المحرم او الزوج : انما یشترط اذا کان بین المرأة وبین مکة ثلاثة ایام فصاعدا فان کان أقل من ذلک حجت بغیر محرم لأن المحرم یشترط للسفر وما دون ثلاثة ایام لیس بسفر ، فلا یشترط فیہ المحرم کما لا یشترط للخروج من محلة الی محلة۔........... ثم صفة المحرم أن یکون ممن لا یجوز لہ نکاحھا علی التأبید اما بالقرابة او الرضاع او الصھریة لان الحرمة المؤبدة تزیل التھمة فی الخلوة ۔ (ج٢ / ص٣٠٠ )
فیض البار ی میں ہے :
وفی کتب الحنفیة عامة عدم جواز السفر الا مع محرم قلت : ویجوز عندی مع غیر محرم ایضا بشرط الاعتماد والامن من الفتنة ، وقد وجدت لہ مادة کثیرة فی الاحادیث ، اما فی الفقہ فھو مسائل الفتن ۔ (ج ٢ / ص ٣٩٧ )
امیرِ پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٢٦ نومبر کو امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب جماعتی سلسلہ میں رحیم یار خان ، صادق آباد اور سندھ کے ایک ہفتہ کے دورہ پر تشریف لے گئے ۔
حضرت مہتمم صاحب جامعہ مدنیہ (قدیم) کے اجتماع فضلائِ کرام میں شرکت کی غرض سے کریم پارک تشریف لے گئے جہاں آپ نے اجتماع کی پہلی نشست کے اختتام پر مختصر بیان اور اختتامی دعا بھی فرمائی پھر رحیم یار خان کے سفر پر روانہ ہوئے ،شام سات بجے اقبال آبادانٹرچینج پر پہنچے جہاں حضرت کا استقبال جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولانا خدا بخش سومرو، طاہر سعید لغاری، خالد فاروق لغاری، طیب سعید لغاری، سیّد شاہ مولانا سعد اللہ صاحب نے کیا۔ کھانے کے بعد حال احوال اور چائے کی حلت و اَباحت پر خوب دلنشین مجلس جمی ،نمازِ عشاء ادا کرنے کے بعد حضرت نے آرام فرمایا،رات کا قیام مولانا بلال صاحب لغاری کے ہاں فرمایا۔
٢٧ نومبر کی صبح ناشتے کے بعد خالد فاروق صاحب لغاری کی دعوت پر بنگش برادری کے ساتھ حضرت نے مختصر گفتگو فرمائی پھر حضرت مولانا یوسف صاحب کی عیادت کے لیے جامعہ عثمانیہ تشریف لے گئے حضرت نے مولانا یوسف صاحب کے بھائی کی تعزیت بھی کی۔
پھر خواجہ فریدیونیورسٹی تشریف لے گئے جہاں وائس چانسلر یونیورسٹی جناب ماجدرشید صاحب نے باکمال استقبال کیا وائس چانسلر صاحب کے ساتھ اہم نشست ہوئی ،طلباء وطالبات آڈیٹوریم ہال میں منتظر تھے، ہال میں طلباء نے بھرپور استقبال کیا پھولوں کا گلدستہ پیش کیا حضرت نے طلبہ وطالبات سے ''سائنس وعقل انسان کے خادم ہیں ''کے موضوع پر جامع گفتگو فرمائی ! !
بعد ازاں دوپہر ڈیڑھ بجے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور رحیم یار خان کیمپس تشریف لے گئے جہاں ہارون صاحب لغاری وڈائریکٹر صاحب نے استقبال کیا ،نماز ِ ظہر کی ادائیگی کے بعد حضرت نے طلباء وطالبات سے پُرمغز گفتگو فرمائی کہ
''ہم آزاد پیدا ہوئے اور ہم آزاد ہیں ، اسلام اور مسلمان قیادت کے لیے آئے ہیں آپ مستقبل کے قائد ہیں آپ کو کسی سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کا مذہب مکمل ضابطہ حیات ہے ! نیز یہ کہ اَنبیاء قائد ہوتے ہیں اسلام کی اتباع قیادت ہی سکھاتی ہے''
اس کے بعد حضرت جامعہ خاتم النبیین تشریف لے گئے جہاں حضرت مولانا رشید احمد صاحب لدھیانوی کے مرحوم صاحبزادے مولانا نعمان صاحب لدھیانوی کی تعزیت کی اور جامعہ میں مختصر بیان فرمایا ۔
بعد اَزاں حضرت خضریٰ مسجد تشریف لے گئے جہاں آپ کا مقامی جمعیت کے احباب نے استقبال کیا آپ نے ''تزکیہ نفس'' کے موضوع پر خطاب فرمایا۔
بھائی خالدفاروق صاحب لغاری نے پُرتکلف عشائیہ دیا ، بعد ازاں صادق آبادتشریف لے گئے رات کاقیام چوہدری خلیل صاحب کے ہاں فرمایا۔
٢٨ نومبر بروز منگل صبح کا ناشتہ چوہدری خلیل صاحب کے گھر پر فرمایا،بعد اَزاں ماڈل ایونیو شبانِ ختم نبوت صادق آباد کے ذمہ دار حافظ محمد عدنان صاحب کی زیرِ تعمیر مسجد میں دعا فرمائی۔
یہاں سے جامعہ کے فاضل مولانانزاکت علی صاحب سومرو کے مدرسہ صراط ِمستقیم میں تشریف لے گئے جہاں آپ نے مختصر بیان اور دعا خیر فرمائی، یہاں سے بارہ بجے شبانِ ختم نبوت کے زیر اہتمام ختم نبوت واِصلاحِ معاشرہ کانفرنس بمقام سراج میرج ہال تشریف لے گئے جہاں حضرت نے مفصل پُراَثر بیان فرمایا کہ'' صادقین'' کے ساتھ جڑ جائیں ! عفیفۂ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عفت کا واقعہ سناتے وقت عجیب پُرکیف ماحول طاری ہوا کہ ہر آنکھ اشکبار اور دل بے قرار تھا ! !
بعد اَزاں شوکت داؤد کالونی میں بھائی ریحان صاحب کی دعوت پر اُن کے گھر دعاء کے لیے تشریف لے گئے جہاں شبانِ ختم نبوت کی کارکن بہنیں منتظر تھیں ، حضرت صاحب نے ان کو کام کرنے سے متعلق قیمتی نصائح فرمائیں ۔
بعد اَزاں محترم قاری شاہدمحمود صاحب رحیمی امیرجمعیت علمائِ اسلام تحصیل صادق آباد کے مدرسہ میں دعا ئے خیر کے لیے تشریف لے گئے ۔
پھر جامعہ دارُالعلوم محمودیہ میں جمعیة علماء اسلام کے تحت منعقد طوفانِ اقصیٰ کنونشن میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے جہاں آپ نے سامعین سے جامع بیان فرمایا اور نمازِ عصر ادا کی ۔
بعد ازاں مولانااظہر الیاس صاحب کی دعوت پر جامعہ مدرسہ عربیہ شاخ رائیونڈ تشریف لے گئے جہاں اساتذہ و طلبا ء کو حضرت نے'' کبائر سے اجتناب ''کے موضوع پر بیان فرمایا ۔
مغرب کی نماز بستی بندور عباسیاں میں ادا کی جہاں حافظ محمد سلیمان صاحب و فاضل جامعہ مدنیہ جدید مولانا اعجاز الحق صاحب نے حضرت کا والہانہ استقبال کیا بعدنمازِ مغرب مسجد انوارِ محمدی میں حضرت نے مجلس ِذکر کروائی اور ''ذکر اللہ '' کے عنوان سے اصلاحی بیان فرمایا،رات کا قیام و طعام بستی بندور عباسیاں ہی میں فرمایا۔
٢٩ نومبر بروز بدھ ناشتہ کے بعد مولانا عبدالصبور صاحب کے اصرار پر حضرت صاحب جامعہ فاروق اعظم بندورعباسیاں تشریف لے گئے اور مدرسہ کے لیے دعائے خیر فرمائی ۔
اس کے بعد سندھ کا سفر شروع کیا،گیارہ بجے حضرت صاحب دارُالعلوم اَسعدیہ کوٹ سبزل پہنچے جہاں آپ نے طلباء سے مختصر خطاب فرمایا۔حضرت صاحب دوپہر بارہ بجے حضرت مولانا سید ابوبکر شاہ صاحب جیلانی اور جناب سید اَحسن شاہ صاحب جیلانی کی دعوت پر جامعہ عربیہ حسینیہ اشرف العلوم حمادیہ علماء کنونشن میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے جہاں علمائے کرام اور عوام نے حضرت صاحب کا پُرتپاک استقبال کیا حضرت نے علماء کنونشن اوباڑو گھوٹکی کے حاضرین سے'' جمعیة علماء اسلام اور تبلیغی جماعت دونوں عوامی جماعتیں ہیں '' کے موضوع پر مفصل خطاب فرمایا ۔
بعد اَزاں حضرت مولانا عبداللہ صاحب و حضرت مولانانعیم اللہ صاحب لغاری صدر جے ٹی آئی سندھ کی دعوت پر جامعہ علوم الاسلامیہ ڈھرکی تشریف لے گئے جہاں کثیر تعداد میں تشریف لائے ہوئے علمائے کرام سے حضرت صاحب نے انتہائی جامع خطاب فرمایا ۔
نمازِعصر ادا کرکے کوٹ سبزل روانہ ہوئے جہاں آپ نے نمازِ مغرب کے بعد جامع مسجد محمد رسول اللہ مرکز شبانِ ختم نبوت میں اصلاحی بیان فرمایا، میزبان جناب غلام اللہ شیخ صاحب نے پُر تکلف عشائیہ دیا ۔
عشائیہ کے بعد حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کے رفیق محترم حافظ غلام حسین صاحب نائب امیر جمعیة علماء اسلام ضلع رحیم یار خان کے پاس مدرسہ سراجیہ تشریف لے گئے جہاں حضرت نے بعض احباب میں باہمی صلح کروائی اور دعائے خیر فرمائی بعد اَزاں رات کا قیام بندور عباسیاں صادق آباد میں ہی فرمایا ۔
٣٠ نومبر بروز جمعرات صبح ناشتے کے بعد میزبان حافظ سلیمان صاحب سے رُخصت لی اور لاڑکانہ شہید ِاسلام کانفرنس میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے،راستے میں بستی یوسف ڈھڈی میں حافظ طارق صاحب ڈھڈی کی دعوت پر ان کے مدرسہ سیدناابوبکر صدیق میں ختم ِنبوت کانفرنس میں شرکت کی اور مختصر بیان فرمایا،بعد اَزاں مولانا عزیر گل عالمانی سابق اُمیدوار صوبائی نشست پنجاب کے بھائی کی تعزیت کے لیے اُن کے مدرسہ تشریف لے گئے، وہاں سے جنرل سیکرٹری جے یو آئی صادق آباد جناب حافظ سعیدمصطفی صاحب چدھڑ کے مدرسہ عربیہ میں دعائے خیر کے لیے تشریف لے گئے، چوک چدھڑ میں حافظ عبدالمجید صاحب کی زیرِ تعمیر مسجد میں دعا کروائی اور سندھ کی طرف سفر شروع کیا۔
نمازِ عصر لکھی موڑ پر اداکی قائد ِسندھ حضرت مولانا راشد محمود صاحب سومرو کی دعوت پر حضرت صاحب ''شہید ِ اسلام اور طوفان الاقصیٰ کانفرنس'' میں شرکت کے لیے لاڑکانہ شہر تشریف لے گئے ،لاڑکانہ میں قائد ِسندھ کی طرف سے حضرت کے استقبال کے لیے احباب موجود تھے جنہوں نے حضرت کا پُرجوش استقبال کیا اور حضرت نے سمبا را ہوٹل میں کچھ لمحے آرام فرمایا اور کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے۔
قائد ِسندھ مولانا راشد صاحب سومرو نے حضرت صاحب کا کانفرنس میں تشریف آوری پر شکریہ ادا کیا اس موقع پر حضرت نے سٹیج پر موجود قائد ِجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم سے مختصر ملاقات کی اور رُخصت لی پھر رات ہی کو واپسی کا سفر شروع کیا۔
بعد اَزاں حضرت بھائی زاہد حسین صاحب گھوٹو کی پُرخلوص دعوت پر گھوٹکی تشریف لائے اور ان ہی کے گھر رات کا قیام فرمایا۔
یکم دسمبر بروز جمعہ بھائی زاہد حسین صاحب کی طرف سے پُرتکلف ناشتے کا اہتمام کیا گیاتھا مقامی علمائِ کرام حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے مختلف اُمور پر باہمی تبادلہ خیال ہوا، سندھ کی ثقافتی ٹوپی اور اجرک حضرت صاحب کو پہنائی گئی حضرت پُرخلوص تحفے پربہت خوش ہوئے بعد ازاں حضرت نے مقامی احباب سے اجازت چاہی اور حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب لغاری امیر جمعیة علماء اسلام ضلع گھوٹکی کی دعوت پر حضرت صاحب نمازِجمعہ کے بیان کے لیے جامعہ اَنوارُ العلوم قاسمیہ میرپور ماتھیلو تشریف لے گئے جہاں آپ نے دینی تعلیم کی اہمیت اور دنیاوی تعلیم کی بے برکتی کے موضوع پر بیان فرمایا۔
نمازِ جمعہ کے بعد حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب سے رُخصت لے کر واپس پنجاب کے لیے روانہ ہوئے، نمازِ عصر قاری مجیب الرحمن صاحب کے یہاں جامعہ فرقانیہ صادق آباد بائی پاس پر ادا کی جہاں حضرت نے جامعہ کی تعمیر و ترقی کے لیے دعا ئے خیر فرمائی اور اگلی منزل ظاہر پیر کے لیے روانہ ہوئے جہاں حضرت مولانا منظور احمد صاحب نعمانی مدظلہم کی عیادت کے لیے جامعہ عربیہ احیاء العلوم مغرب کے بعد تشریف لائے، مولانا زاہد مسعود صاحب نعمانی اور دیگر علمائِ کرام اور طلبائِ کرام نے حضرت کااستقبال کیا، نمازِ عشاء ادا فرمائی رات کا قیام جامعہ ہی میں فرمایا۔
٢ دسمبر صبح ناشتے کے بعد حضرت صاحب نے حضرت مولانا منظور احمد صاحب نعمانی مدظلہم کی عیادت کی اور اُن کے صاحبزادے مولانا زاہد مسعود صاحب نعمانی نے حضرت صاحب کو جامعہ کے احوال سے آگاہ فرمایا اور جمعیة علماء اسلام ظاہر پیر کی کار گزاری پیش کی، بعد ازاں ساڑھے گیارہ بجے حضرت صاحب نے مولانا زاہد مسعود صاحب نعمانی اور دیگر احباب سے اجازت چاہی اور طوفان الاقصیٰ کانفرنس میں شرکت کے لیے بہاولپور روانہ ہوئے ۔
دوپہر دوبجے بہاولپور پہنچے قاری غلام یٰسین صاحب صدیقی مہتمم جامعہ جامعہ صدیقیہ للبنین وللبنات نور محل روڈ گلشن حبیب بہاولپور تشریف لے گئے اور جامعہ کے مہتمم قاری غلام یٰسین صاحب صدیقی نے جامعہ تشریف آوری پر حضرت صاحب کا شکریہ ادا کیا، کچھ دیر قیام کے بعد حضرت صاحب قاری غلام یٰسین صاحب صدیقی کی معیت میں سرکٹ ہاؤس بہاولپور تشریف لے گئے جہاں آپ کی ملاقات قائد ملت ِاسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب اور حضرت مولانا عبدالغفور صاحب حیدری سے ہوئی ! بعدنمازِ عصر حضرت صاحب ہاکی اسٹیڈیم میں کانفرنس کی صدارت کے لیے تشریف لے گئے، حضرت صاحب نے کانفرنس کے شرکاء سے اتحاد واتفاق کی برکت پر جامع خطاب فرمایا ! !
کانفرنس میں شرکت کے بعد حضرت صاحب سردرد کی پرانی بیماری کی وجہ سے قبل از مغرب ہی وہاڑی کے لیے روانہ ہوگئے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا ظفر احمد صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ کی تعزیت کے لیے جامعہ خالد بن ولید وہاڑی تشریف لے گئے جہاں آپ نے حضرت کے صاحبزادے سے تعزیت کی !
جامعہ کے فاضل اور حضرت کے خلیفہ مولانا مصعب صاحب اپنے ساتھیوں سمیت جامعہ خالد بن ولید میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ادارے معہد القرآن جامع مسجد نور ایف بلاک لے گئے بعد ازاں حضرت صاحب کے خلیفہ مولانا عبدالستار صاحب ملتان سے خصوصی ملاقات کے لیے تشریف لائے اور حضرت صاحب سے ملاقات کرکے خوب مستفید ہوئے !
٣ دسمبر بروز اتوار ناشتہ کے بعد حضرت صاحب نے ادارہ معہد القرآن کے حفاظ کرام کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت فرماکر قرآن و حدیث کے عنوان پر بیان فرمایا بعد ازاں طلباء کرام کی رومال پوشی بھی فرمائی۔ اس موقع پر جمعیةعلماء اسلام وہاڑی کے عہدہ داران بھی تشریف لائے جن میں جنرل سیکریٹری رانا تصور صاحب ایڈووکیٹ ،تحصیل ناظم مولانا عمرفاروق صاحب، نائب صدر ضلع وہاڑی مولانا قربان صاحب اور سابق ضلعی امیر مولانا جمشید اقبال صاحب ،سابق جنرل سیکریٹری بھائی چوہدری مقصود صاحب، سابق سیکرٹری نشرواشاعت ڈاکٹر عبدالخالق صاحب نے حضرت صاحب سے خصوصی ملاقات کی اور حضرت صاحب نے ان ذمہ داران کو قیمتی نصائح سے نوازا۔ بعد ازاں حضرت صاحب نے مولانا مصعب صاحب سے اجازت چاہی اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے اور شام ساڑھے پانچ بجے بحمد للہ بخیرو عافیت جامعہ مدنیہ جدید پہنچ گئے۔
٤ دسمبر بروز پیر حضرت مہتمم صاحب ،قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم کے ہمراہ مسلم لیگ ''ن'' کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب سے ملاقات کے لیے ماڈل ٹاؤن تشریف لے گئے۔
١١ دسمبر جامعہ مدنیہ جدید میں جمعیة علماء اسلام پنجاب کے ذمہ داران کا اجلاس ہوا جس کی صدارت امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب نے کی اجلاس میں ناظم پنجاب جناب نصیر احرار صاحب ، حافظ غضنفر صاحب اور جناب راؤ عبدالقیوم صاحب ،جناب مدثر عزیز صاحب تونسہ شریف والے بھی موجود تھے۔
١١دسمبر بروز پیرحافظ سلیم صاحب کی دعوت پر حضرت صاحب تربیتی کنونشن جمعیة علماء اسلام کی تقریب میں شرکت کے لیے بستی شموآباد ضلع قصور تشریف لے گئے۔
١٥دسمبر کو امیرِپنجاب جامعہ مدنیہ جدید سے روانہ ہوئے اور رات نو بجے ڈیرہ غازی خان پہنچے ،سمینہ چوک سے تحصیل امیر ڈاکٹر محمد یونس صاحب راج ، حافظ عبداللہ صاحب بھٹی اور جماعتی ساتھیوں نے وصول کیا، خیابانِ سرور حافظ انعام اللہ صاحب بھٹی کی رہائشگاہ پر عشائیہ اور رات کے قیام کا اہتمام کیا گیا تھا ،اس موقع پر حافظ انعام اللہ صاحب بھٹی ،ناظم ِ عمومی جمعیة علماء اسلام ضلع ڈیرہ غازی خان مولانا انیس اللہ صاحب نفیسی اور دیگرساتھیوں نے پُرتپاک استقبال کیا ،کھانے کے دوران حضرت امیر پنجاب نے جماعتی ،سیاسی اور علاقائی صورت ِ حال کا جائزہ لیتے رہے رات گیارہ بجے عشاء کی نماز پڑھی گئی اس کے بعد حضرت آرام کے لیے تشریف لے گئے
١٦ دسمبر کو دوپہر بارہ بجے مقامی اور ضلع بھر سے علمائِ کرام تشریف لاتے گئے جن میں مولانا قاری جمال عبدالناصر صاحب نائب امیر جمعیة علماء اسلام ڈیرہ غازی خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور مختلف عنوانات پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ،علمائِ کرام حضرت اَمیرپنجاب کی گفتگو سے متاثر ہوئے ،چونکہ پہلا دورہ تھا اس لیے حضراتِ علماء کرام بھی ملاقات کے مشتاق تھے جمعیة علماء اسلام ڈیرہ غازی خان کے لیے یہ اعزاز تھا۔
دوپہر سوا بارہ بجے طوفانِ اقصیٰ کنونشن کے لیے آرٹ کونسل روانگی ہوئی ساڑھے بارہ بجے آرٹ کونسل میں انصا الاسلام اور تحصیل واِضلاع کے ذمہ داران نے پُرتپاک استقبال کیا۔ امیر ضلع ڈیرہ غازی خان مولانا اقبال رشید صاحب نے سپاس نامہ پیش کیا بعد اَزاں ایک بجے حضرت امیر پنجاب کا خطاب شروع ہوا جس میں جمعیة علمائِ اسلام اور دیگر سیاسی جماعتوں میں فرق، جمعیة کے رضاکاروں کی ذمہ داری، اخلاص وتقویٰ ،سیاست کا معنی ومفہوم اور دوسرے اہم پہلوؤں پر طویل گفتگو کی ،بیان میں ایک جملہ فرمایا کہ ''سیاست سے علمائِ کرام کی دُوری رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے فرمان سے بے وفائی ہے'' اس جملے سے ڈیرھ گھنٹے کی پُر اَثر گفتگو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ڈھائی بجے اختتامی دعا ہوئی، کنونشن میں ساڑھے چار سو کے قریب علماء وخواص اور دیگر جماعتوں کے مہمان مدعو تھے، کنونشن کے اختتام پر ضلعی امیر مولانا اقبال رشید صاحب، حافظ انعام اللہ صاحب بھٹی، ڈاکٹر محمد یونس صاحب راج اور دیگر عمائدین و علماء کرام نے حضرت امیرِ پنجاب کولاہور کے لیے الوداع کیا، رات نو بجے بخیر و عافیت جامعہ مدنیہ جدید پہنچ گئے، والحمد للہ !
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭٭٭
٣ دسمبر بروز اتوار کراچی کے الحاج نذ یر احمد صاحب مع برادران حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے جامعہ مدنیہ جدیدتشریف لائے رات کا کھانا حضرت صاحب کی رہائشگاہ پر تناول فرمایا
٤ دسمبر کو بعد نمازِ مغرب منجد ابوعبیدة بن محمد رضوان ابوبکر فلسطین سیکرٹری برائے یروشلم کمیٹی ، انٹرنیشنل یونین آف سکالرز جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب سے ملاقات کی، خطہ بالخصوص فلسطین کے حالات پر گفتگو ہوئی اور رات کا کھانا بھی تناول فرمایابعد اَزاں واپس تشریف لے گئے اس موقع پر حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب مدظلہم و دیگر اساتذہ کرام بھی موجود تھے ۔
١٣ دسمبر بروز بدھ بعد نمازِ عشاء شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ،مولانا نوید صاحب کی دعوت پرتکمیل ِ قرآن کی تقریب میں شرکت لیے کوٹ رادھا کشن کی مضافات میں تشریف لے گئے جہاں آپ نے قرآنِ پاک کی عظمت واہمیت پر بیان فرمایا۔
٢٣ دسمبر کو اَمیرِ پنجاب جمعیة علماء اسلام حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ، سینئر صحافی اشفاق اللہ خان صاحب کی دعوت پر عشائیہ میں تشریف لے گئے۔ حافظ نصیر احمد صاحب احرار ، حافظ غضنفر عزیز صاحب ،مولانا عکاشہ میاں ، پروفیسر ابوبکر صاحب چودھری،حافظ زین العابدین صاحب بھی موجود تھے ۔
٢٣ دسمبر بعد نمازِ مغرب مولانا عدنان صاحب کاکا خیل حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات کی غرض سے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب سے خصوصی ملاقات کی اور رات ساڑھے دس واپس تشریف لے گئے ۔
وفیات
٭٭٭
خانوادہ ٔ مدنی کو صدمہ
٭ ٦جمادی الثانی ١٤٤٥ھ/٢٠ دسمبر ٢٠٢٣ء کو شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ، اَمیر الہند حضرت مولاناسید اَرشد صاحب مدنی مدظلہم کی ہمشیرہ صاحبہ طویل علالت کے بعد دیوبند میں انتقال فرماگئیں ۔
٭ ٢٧ نومبر کو جامعہ مدنیہ جدید کی مخلص خیر خواہ محترمہ عظمی مجاہد صاحبہ کے بھائی عکاس منظور صاحب مختصر علالت کے بعد امریکہ میں وفات پاگئے۔
٭ ٧ دسمبر کو جامعہ مدنیہ کے قدیم پڑوسی جناب محمد شاہد بٹ صاحب مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے
٭ ١٣ دسمبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے مخلص خیر خواہ جناب بشارت علی صاحب کی والدہ صاحبہ مختصر علالت کے بعد وفات پاگئیں ۔
٭ ١٤ دسمبر کو جمعیة علماء اسلام کے سینئر مرکزی رہنما قاری شیر افضل خان صاحب انتقال فرماگئے۔
٭ ٢٩جمادی الاوّل ١٤٤٥ھ/١٤ دسمبر ٢٠٢٣ء کو حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب کے خلیفہ و مجاز فاضل ِجامعہ مدنیہ جدید مولانا محمد شاہد صاحب کی اہلیہ صاحبہ طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرماگئیں ۔
٭ جامعہ مدنیہ جدید کے ڈرائیور عبداللہ کی بڑی اہلیہ مختصر علالت کے بعد اوکاڑہ میں وفات پاگئیں ۔
٭ ٢٧ دسمبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا خالد محمود صاحب مدظلہم کے خسر صاحب طویل علالت کے بعد سیالکوٹ میں انتقال فرماگئے ۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ +923454036960
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.