ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٣ شعبان المعظم ١٤٤٦ھ / فروری ٢٠٢٥ء شمارہ : ٢
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭
بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+
دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
سیرت ِ مبارکہ ..... مقاصد ِ بعثت، فرائض ِ نبوت حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٠
مقالاتِ حامدیہ ..... کِتَابُ الطِّبْ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ١٩
تربیت ِ اولاد قسط : ٢٣ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٢٥
رحمن کے خاص بندے قسط : ٣٠ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٢٨
شب ِ براء ت ..... فضائل و مسائل حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٣٣
جامعہ مدنیہ جدید میں تقریب تکمیلِ بخاری شریف مولانا محمد حسین صاحب ٣٩
حضرت مولانا عبدالمجید صاحب بازارگئی مولانا محمد معاذ صاحب ٤٣
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٥٧
اخبار الجامعہ ٦١
وفیات ..... خانوادۂ حامد میاں کو صدمہ ٦٣
حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
عَنْ اَبِیْ کَبْشَةَ الاَنْمَارِیِّ اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم یَقُوْلُ ثَلٰث اُقْسِمُ عَلَیْھِنَّ وَ اُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا فَاحْفَظُوْہُ فَاَمَّا الَّذِیْ اُقْسِمُ عَلَیْھِنَّ فَاِنَّہُ مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ وَلاَ ظُلِمَ عَبْد مَظْلِمَةً صَبَرَ عَلَیْھَا اِلَّا زَادَہُ اللّٰہُ بِھَا عِزًّا وَلاَ فَتَحَ عَبْد بَابَ مَسْئَلَةٍ اِلَّا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ بَابَ فَقْرٍ ....... ١
حضرت ابوکبشة الانماری رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ میں اس پر قسم کھاتا ہوں !
اور ایک (اور) بات (بھی) تم کو بتلاتا ہوں اس کو یاد کرلو (یعنی پلے باندھ لو)
وہ بات جو میں قسمیہ بتلاتا ہوں (ان میں پہلی) یہ ہے کہ (اخلاص کے ساتھ بغیر دکھلاوے کے )صدقہ کرنے سے بندہ کا مال کم نہیں ہوتا !
اور (دوسری بات) یہ کہ جس بندہ پر بھی ظلم کیا گیا اور اس نے (معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے) اس پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کو مزید عزت عطا فرمائیں گے !
١ مشکوة المصابیح کتاب الرقاق رقم الحدیث ٥٢٨٧
اور جو بندہ بھی اللہ کے سوا کسی اور سے سوال کا دروازہ کھولے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر( ومحتاجی) کا دروازہ کھول دیں گے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پسندیدہ چیزوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ،
فتنوں اور آزمائشوں سے ہماری حفاظت فرمائے ، آمین !
( شب ِ براء ت کی مسنون دعا )
٭٭٭
حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو میں نے شب ِ برا ء ت سجدہ میں یہ دعا کرتے سنا
اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْکَ
جَلَّ وَجْہُکَ لَآ اُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکْ
'' اے اللہ ! میں پناہ طلب کرتا ہوں آپ کے عفووکرم کے صدقے آپ کی سزا سے اور میں پناہ طلب کرتاہوں آپ کی رضا کے صدقے آپ کی ناراضگی سے اور میں آپ کی ہی پناہ طلب کرتا ہوں آپ کی پکڑ سے ، آپ کی ذات بزرگی والی ہے ، میں آپ کی تعریف کا حق ادا نہیں کرسکتا آپ تو ایسے ہی ہیں جیسے آپ نے خود اپنی تعریف کی ہے ''
صبح کو میں نے آپ سے ان دعائوں کا تذکرہ کیا تو فرمایا کہ ان دعائوں کو یاد کرلو اور دوسروں کو بھی ان کی تعلیم دو کیونکہ جبرئیل علیہ السلام نے مجھے یہ دعائیں سکھائیں اور کہاکہ سجدہ میں یہ مکرر سہ کرر پڑھی جائیں ''
(ما ثبت بالسنة ص ١٧٣)
درسِ حدیث
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ
کا مجلس ِذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' شارع رائیونڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوار مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین (ادارہ)
سچی توبہ کی برکات ! گناہ بھی نیکیوں سے بدل جاتے ہیں !
مایوسی کفر ہے ! توبہ کی قبولیت کب تک ؟
( درسِ حدیث ٧٩ ٢٦ رمضان المبارک ١٤٠٣ھ/ ٨جولائی ١٩٨٣ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِخَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ !
اللہ تعالیٰ نے انسان کے واسطے تلافی کے ذرائع خود تجویز فرمادیے ، مثال کے طور پر ایک آدمی ہے جو ساری زندگی غفلت میں رہا اب اسے اپنے دور پر جو گزار دیا غفلت میں ،حسرت ہوتی ہے ندامت ہوتی ہے لیکن وقت تو دوبارہ لوٹاکر کوئی بھی نہیں لاسکتا ،جو گزرگیا وقت وہ گزرگیا،اب اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے اس کی تلافی کیسے ہو ؟ ؟
تو اللہ تعالیٰ نے اس کا بدل جو بتلایا ہے جس سے اس کی تلافی ہوسکے وہ انسان کا اپنا پچھتانا ہے اور استغفار کرنا ہے کہ میں نے اس طرح وقت ضائع کیا میں نے یہ کیا وہ کیا ............................
تو استغفار اور پچھتانے سے تلافی ہوتی ہے ، قرآنِ پاک میں آتا ہے
( یَاعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ ) ١
١ سُورة الزمر : ٥٣
جن لوگوں نے اِسراف کیا ہے اپنے نفس کے ساتھ، زیادتی کی ہے اپنی جانوں کے ساتھ یعنی گناہ کیے ہیں کیونکہ گناہ اپنے ساتھ خود زیادتی ہے ( لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ ) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ! یہ بشارت ہے یہ حکم بھی ہے ! لہٰذا کوئی آدمی مایوس نہیں ہوسکتا خدا کی رحمت سے ! ! !
مایوسی کفر ہونے کی وجہ :
خدا کی رحمت سے مایوس ہونا کفر ہے ! اور کیوں ہے کفر ؟ اس واسطے کہ ''رحمت'' اللہ کی صفت ہے بِسْمِ اللّٰہِ میں بھی آپ پڑھتے ہیں ( اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) ! الحمد شریف میں بھی پڑھتے ہیں
( اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) تو ''رحمت'' جو ہے وہ خدا کی صفت ہے بخشش کا انکار نہیں کیا جاسکتا وہ بھی کفر ہے کیونکہ وہ '' غَفَّارْ '' ہے وہ '' تَوَّابْ '' ہے ! قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے
( اِسْتَغْفِرْہُ اِنَّہ کَانَ تَوَّابًا ) ١ ( اِنَّہ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ) ٢ توبہت جگہ ہے '' تَوَّابْ '' کا لفظ ''غَفَّارْ '' کا لفظ ( اِسْتَغْفِروْا رَبَّکُمْ اِنَّہ کَانَ غَفَّارًا ) ٣ تو اللہ تعالیٰ سے مایوس ہوجانا اس کی رحمت سے مایوس ہونا یہ رحمت کا انکار ہے یہ کفر ہے تو منع فرمادیا گیا ! !
نبی علیہ السلام کی پسند :
( یَاعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ )
اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں ! ! حضرت ثوبان رضی اللّٰہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا مَا اُحِبُّ اَنَّ لِیَ الدُّنْیَا بِھٰذِہِ الْآیَةِ
اس آیت کے بدلے میں اگر مجھے پوری دنیا مل جائے مجھے یہ پسند نہیں بلکہ یہ آیت زیادہ پسند ہے !
اور جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو تو وہی آیت پسند زیادہ ہوگی جس سے فائدہ مخلوق کو زیادہ ہو تو مخلوق کو مسلمانوں کو فائدہ اس آیت سے زیادہ ہے ! دنیا سے کیا فائدہ ہونا ؟ دنیا تو اپنے اندر اور لگالیتی ہے آدمی کو اور بیکار کردیتی ہے، آخرت سے غافل ہوجاتا ہے
١ سُورة النصر : ٣ ٢ سُورة البقرة : ٣٧ ، ٥٤ ٣ سُورة نوح : ١٠
گناہوں کے درجے :
اب اِسراف جو ہے انسان کا اپنی جان کے ساتھ یعنی گناہ کرنا زیادتی کرنا، اس کے درجے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ یہ کام گناہ ہے پھر کہتے ہیں یہ کام مکروہِ تحریمی ہے ،کہتے ہیں یہ کام حرام ہے ناجائز ہے تو معلوم ہوا کہ گناہ کے درجے ہیں تو اس میں کون سا گناہ ایسا ہے جس کے بارے میں یہ آیت ہے اور کون سا نہیں ہے ؟ تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ فَمَنْ اَشْرَکَ جس نے شرک کیا ہو ؟ ؟ کیونکہ قرآنِ پاک ہی میں آیت ہے ( اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ) اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے شرک سے کم کم جو چیزیں ہیں وہ جس کے لیے چاہے بخش دے معاف کردے ! ! تو صحابی نے سوال کیا فَمَنْ اَشْرَکَ جس نے شرک کیا ہو اس کا کیا ہوگا ؟
تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم خاموش ہوگئے ثُمَّ قَالَ پھر تھوڑی دیر بعد وقفہ سے فرمایا اَلا وَمَنْ اَشْرَکَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ١ وہ بھی اس میں داخل ہیں جنہوں نے شرک کیا تین بار ! آپ نے یہ تاکید سے فرمایا کہ وہ بھی اس میں داخل ہیں کہ جنہوں نے شریک کیا ہو ! !
سچی توبہ کرنے والا :
کیونکہ جب وہ شرک سے توبہ کرلیں تو پھر وہ اس بشارت کے مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پچھلے گناہوں کو بخش دے ! حدیث میں آتا ہے اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہ ٢
جو آدمی گناہ سے توبہ کرلے وہ ایسے ہے جیسے اس نے گناہ ہی نہ کیا ہو ! اللہ تعالیٰ بالکل ہی معاف فرمادیتے ہیں تو پھر ناراضگی کا اثر نہیں رہتا ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ حالات ہی بدل جاتے ہیں اس کے وہ آدمی ہی بدل جاتا ہے !
توبہ کی قبولیت کب تک ؟
آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کے گناہ بخشتے ہی رہتے ہیں جب تک
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٦٠ ٢ ایضًا رقم الحدیث ٢٣٦٣
پردہ نہ پڑے ! دریافت کیا گیا ''پردے ''سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا کہ اَنْ تَمُوْتَ النَّفْسُ وَھِیَ مُشْرِکَة ١ کہ کوئی آدمی اگر شرک کی حالت میں مرگیا تو اب جیسے پردہ پڑگیا اب دروازہ بند ہوگیا اس کے لیے !
سچی توبہ ، پھر ترقی حتی کہ ....... :
ورنہ تو یہی ہے کہ جو آدمی توبہ سچے دل سے کرلے تو اُس کے گناہ بھی نیکیاں بن جاتے ہیں ! ( اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ ) جو توبہ کرلے ایمان قبول کرلے ( وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا) نیک کام کرے یعنی وہ جنہیں اللہ نے اچھا بتایا ہو وہ کام کرے تو ان لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ بدل کر نیکیاں بنادیتے ہیں ( اُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنَاتٍ ) ! تو کہاں تو یہ حالت تھی کہ گناہگار تھا مایوسی میں تھا تو حکم ہوا کہ مایوسی مت اختیار کرو پھر اس کے بعد رحمت کے درجے بڑھنے شروع ہوگئے پھر رحمت ہوتے ہوتے یہ درجہ بھی آیا جو قرآنِ پاک کی دوسری آیت میں ذکر ہورہا ہے کہ جو آدمی دل سے توبہ کرلے اور جما رہے اس کے اوپر تو ان کے جو گناہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بدل کر نیکیاں بنا دیتے ہیں ! یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اس کا اختیار ہے اور اس کی فیاضی ہے اس کی رحمتیں ہیں ، ہمیں یہ بتایا گیا تلقین کی گئی کہ رجوع کرتے رہو خدا کی طرف توبہ کرتے رہو اللہ سے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمائے، ہمارے اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخشے ،ہم سب کو اسلام پر استقامت عطا ء فرمائے، آمین۔اختتامی دعا............................
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ اگست ١٩٩٨ئ)
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ
کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٦١
سیرتِ مبارکہ
مقاصدِ بعثت، فرائضِ نبوت اور تکمیل
٭٭٭
سیّد الملة و مؤرخ الملة حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ ''محمد رسول اللّٰہ'' صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اوراق
٭٭٭
(٢) تعلیمُ کتابِ اللّٰہِ
ہزاروں فتاویٰ اور فیصلے جن سے ملت ِ اسلامیہ کے اہل علم حضرات و فقہاء استدلال کرتے ہیں اور غیر مسلم فضلاء کے لیے شمع بصیرت ہیں وہ ان ہی غیر متمدن اور پسماندہ کاشتکاروں یا چرواہوں کے ارشاد فرمودہ ہیں جن کی پسماندگی کا شاہ ِ ایران مذاق اڑایا کرتا تھا اور خود مکہ کے سردار ان کو حقیر سمجھتے تھے ! یہاں تک کہ ابوجہل کو جان کنی کے وقت صدمہ تھاتو یہ کہ اس کو مدینة کے کسانوں نے مارا ! یا ان کے ارشادات وفرمودات ہیں جو مکة کے معمولی دوکاندار تھے اور تحقیق کی جائے تو ان میں کچھ وہ بھی تھے جو رہزنی کیا کرتے تھے اور کچھ وہ تھے کہ بقول علامہ حالی
تعیش تھا ، غفلت تھی ، دیوانگی تھی
غرض ہر طرح ان کی حالت بری تھی
ان حضرات نے نہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم پائی تھی نہ کسی دار العلوم یا دارالافتاء سے استفادہ کیا تھا ان کی تعلیم گاہ و تربیت گاہ اسی ہادی ٔ اعظم کی خس پوش مسجد تھی جس کو ربُ العرش نے تعلیم کتاب کے لیے مبعوث فرمایا تھا پھر ان میں سے تئیس سالہ دور ِ نبوت کے رفقاء تو چند ہی تھے جن کی تعداد چالیس بھی نہیں تھی مدینہ طیبہ کا دس سالہ دور بھی سب کو نصیب نہیں ہوا ، بہت سے وہ تھے جن کو دو تین سال اور بعض وہ بھی تھے جن کو چند ماہ ہی میسر آئے مگر اخذ واستنباط کی وہ غیر معمولی بصیرت نصیب ہوگئی کہ یونیورسٹیوں اور دار العلوموں کے تعلیم یافتہ فضلاء ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے ! ١
١ جیسے حضرت ابوہریرة ، ابو موسٰی اشعری ، خالد بن ولید ، عمرو بن العاص، عدی بن حاتم رضی اللّٰہ عنہم
٢ جیسے حضرت جریر بن عبداللّٰہ البَجلی
بصیرت کے ساتھ جو وسعت ِذہن میسر آئی وہ بھی پیغمبرانہ تربیت کی برکت تھی یعنی جس طرح وہ خود اَخْذ و اِسْتِنْبَاط سے کام لیتے تھے وہ یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اسی طرح اخذ واستنباط کا حق دوسرے کو بھی ہے وہ جس طرح اپنی رائے کا احترام کرتے تھے ! دوسرے کے فیصلہ کا بھی اسی طرح احترام کرتے تھے چنانچہ جن اجتہادی مسائل میں اختلاف ہے حضرات ِ صحابہ کے دور میں بھی یہ اختلاف تھا اسی لیے ہر ایک فریق کے پاس جس طرح آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی کوئی حدیث ہے، کسی صحابی کا قول، یا فیصلہ بھی وہ اپنے خزینہ ٔیاد داشت میں محفوظ رکھتا ہے مگر باہمی تصادم سے یہ حضرات محفوظ تھے ! اور سبق آموز بات یہ ہے کہ نہ باہمی رشک وحسد تھا، نہ شوقِ تعلی ،نہ جذبہ ٔ برتری ! تحقیق مسئلہ کے وقت کھلے طور پر تنقید اور جرح، مگر وقت ِ نماز آگیا تو جماعت میں سب شریک ! ! بسا اوقات امام وہی بنا جو نشانۂ اختلاف تھا ! ! !
مثال :
ہم فقہ پڑھتے ہیں رات دن کے معاملات میں مسائل ِ فقہ پر عمل کرتے ہیں لیکن اگر ایسا اتفاق ہوجائے کہ امام مثلاً صبح کی نماز میں آیت ِ سجدہ پڑھ لے پھر سجدہ کر ے تو تقریباً ہرایک مقتدی انتشار کا شکار ہوجاتا ہے، کوئی سجدہ میں پہنچ جاتا ہے کوئی رکوع میں امام کا انتظار کرتا ہے لیکن تحویلِ قبلہ کی آیت نازل ہوئی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی مسجد بنی عبُدالاَشہل اور اسی طرح مسجد قُباء میں جماعتیں ہورہی تھیں اسی حالت میں خبردینے والے نے خبر دی تو فوراً پوری پوری صفوں کا رخ شمال کی جانب سے جنوب کی طرف پھر گیا !
مردوں کی جگہ عورتوں کی صف پہنچ گئی مگر یہ سب تبدیلی نہایت خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ اس طرح ہوگئی گویا ان کو پہلے سے اس کی مشق کرائی جاچکی تھی حالانکہ مشق تو کیا مشق کا کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا تھا !
نمازِ صبح کے وقت حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ قرا ء ت کر رہے تھے کہ ایک بدبخت نے خنجر مارا فاروقِ اعظم نے گرتے گرتے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر مصلے پر کھڑا کیا
١ تفسیر مظہری ج١ ص ١٤٤
حملہ آور کو صف ِاوّل کے لوگوں نے پکڑنے کی کوشش کی، تیرہ آدمی زخمی ہوئے تب اس کو گرفتار کر لیا گیا ! مگر یہ انتشار جو کچھ بھی ہوا صرف صف ِاوّل میں امام سے متصل، بعد کی صف والوں کو اتنا پتہ چلا کہ نماز پڑھانے والے فاروقِ اعظم نہیں ہیں کوئی اور شخص نماز پڑھا رہا ہے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے بہت اختصار سے نماز پڑھا کر سلام پھیردیا تب لوگوں کو صورت ِ حال کا علم ہوا ! ! ١
یہ تھا تعلیم الکتاب کا ایک رخ اور حضرات صحابہ پر اس کا اثر ! دوسری صورت ملا حظہ فرمائیے
(١) قرآنِ حکیم میں تَغَیُّر خَلْقِ اللّٰہْ یعنی اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں تبدیلی پیدا کرنے کو شیطانی فعل فرمایا گیا ہے ٢ مگر تَغَیُّر خَلْقِ اللّٰہْ کا لفظ عام ہے جس طرح مردوں کا خصی کرنا تَغَیُّر خَلْقِ اللّٰہْ ہے اور حرام ہے ،ختنہ کرنا بھی تَغَیُّر خَلْقِ اللّٰہْ ہے علیٰ ہذا بدن کے کسی حصہ کے بال منڈوانا یا کٹوانا یااکھاڑنا، ناخن تراشنا یا گدھوانا یا عورتوں کے سر کے بال مصنوعی طور پر بڑھانایا چہرے کے بال نوچنا دانتوں میں مصنوعی طور پر کشادگی پیدا کرنا ان باتوں میں خدا کی بنائی ہوئی صورت میں تبدیلی ہوتی ہے پس جس کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم الکتاب کے لیے مبعوث فرمایا تھا اس نے ان تمام کی تفصیل فرمائی بعض تغیرات کو مستثنیٰ فرمایا ! مثلاً ارشاد فرمایا
اَلْفِطْرَةُ خَمْس : اَلْخِتَانُ ، وَالْاِسْتِحْدَادُ ، وَقَصُّ الشَّارِبِ وَ تَقْلِیْمُ الاَظْفَارِ وَ نَتْفُ الْاِبْطِ ٣
یعنی یہ پانچ چیزیں (اگرچہ ان میں تَغَیُّر خَلْقِ اللّٰہْ ہے مگر یہ تغیر بتقاضاء فطرت ہے، یہ تغیر حرام نہیں ہے بلکہ فطرت ہے) ختنہ کرانا، موئے زیر ناف کو صاف کرنا ،مونچھیں کٹوانا، ناخن کتروانا، بغل کے بال اکھیڑنا
اس کے مقابل دوسرا ارشاد یہ ہوا
خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوْا اللُّحٰی وَ احْفُوا الشَّوَارِبَ ٤
''مشرکین کے خلاف یہ طریقہ اختیار کرو کہ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھوں کو خوب باریک کترواؤ''
١ صحیح البخاری کتاب اصحاب النبی ص ٥٢٣ رقم الحدیث ٣٧٠٠ ٢ سُورة النساء : ١١٩
٣ صحیح البخاری کتاب اللباس باب تقلیم الاظفار رقم الحدیث ٥٨٩١ ص ٨٧٥
٤ صحیح البخاری کتاب اللباس باب تقلیم الاظفار رقم الحدیث ٥٨٩٢ ص ٨٧٥
عورتوں کے متعلق ارشاد ہوا
لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَیِّراتِ خَلْقَ اللّٰہِ ١
''ان عورتوں پر خدا کی لعنت جوگودتی ہیں جو گدواتی ہیں ، جو بال نوچتی ہیں ، جو خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے دانتوں میں کشادگی کراتی ہیں ، جو خدا کی بنائی ہوئی صورت کو بدلتی ہیں ''
خلاصہ یہ کہ تَغَیُّر خَلْقِ اللّٰہْ کی تفسیر وتشریح کہ بعض کو جائز اور مستحسن قرار دیا اور بعض کو ممنوع اور حرام یہ فریضۂ نبوت تھا جس کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے انجام دیا ! !
(٢) ارشاد ِ ربانی ہے ( وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا) (سُورة البقرة : ٢٧٥ )
''اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت (تبادلہ) کو حلال قرار دیا اور رِبٰوا (ایسی زیادتی جو بدل سے زیادہ ہو) کو حرام قرار دیا''
اب قرض کی صورت میں اگر پانچ روپیہ کے بجائے چھ روپیہ وصول کیے جاتے ہیں تو ظاہر ہے یہ ایک روپیہ بدل سے زائد ہے ، رِبٰوا یعنی سود ہے ! ! لیکن اگر ایک تولہ چاندی کو دو تولہ چاندی یا ایک سیر گیہوں کو دو سیر گیہوں کے بدلہ میں فروخت کیا جائے تو کیا یہ بیع جائز ہوگی ؟ ؟
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کو بھی حرام فرمایا اور نہ صرف چاندی اور گیہوں بلکہ اس طرح کی اور چیزوں کے متعلق بھی نہایت سختی کے ساتھ ہدایت فرمائی کہ اگر ہم جنس سے تبادلہ ہے مثلاً سونے کی بیع سونے کی کسی چیز سے ہورہی ہے تو اس میں بھی مساوات اور نقد ہونا ضروری ہے، نہ کم و بیش جائز ہے نہ ادھار ٢
ان دو مثالوں میں سے ایک کا تعلق آرائش بدن سے ہے دوسرے کا تعلق خریدوفروخت سے ہے ! ان کے علاوہ ہزاروں مسائل ہیں جن کا تعلق عبادات، معاملات، معاشرت، اقتصاد، امور خانہ داری آداب مجلس یا ملکی سیاست یا بین الاقوامی تعلقات سے ہے !
١ صحیح البخاری کتاب اللباس باب الموصولة رقم الحدیث ٥٩٤٣ ص ٨٧٩
٢ حدیث میں ایسی چھ چیزیں شمار کی گئی ہیں جن کا تبادلہ اگر ہم جنس سے ہو تو زیادتی اور ادھار حرام ہے تبادلہ برابر سرا بر اور ہاتھ در ہاتھ ہونا چاہیے چاندی ، سونا ، گیہوں ، جو ، کھجور اور نمک ( باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
قرآن حکیم نے ان کے متعلق اصول کی تعلیم دی ہے اور کہیں صرف ارشارہ کردیا ہے ارشادات رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم جو کتب ِ حدیث کے ہزاروں صفحات میں محفوظ ہیں ان کی توضیح اور تشریح کرتے ہیں پھر حضرات ائمہ مجتہدین نے ان سے اصول اخذ کرکے پیش آنے والے معاملات کو ان اصول کے معیار پر جانچ کر احکام مرتب کیے جو کتب ِ فقہ میں منضبط ہیں ۔
ارشاداتِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی تصدیق حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ نے فرمادی ارشاد ہوا
( وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْی یُّوْحٰی ) ( سُورة النجم : ٣ ، ٤ )
''اپنی جاہ اور اپنے نفس کی خواہش پر آپ کچھ نہیں کہتے، آپ جو کچھ فرماتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جو آپ پر نازل کی جاتی ہے '' نیز حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ کا ارشاد ہے
( وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا ) ( سُورة الحشر : ٧ )
''جو کچھ تمہارے سامنے پیش کریں رسول اس کو لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ''
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہ کو یمن کا حاکم اعلیٰ بناکر بھیجا تو آپ نے دریافت فرمایا ''کوئی مقدمہ آپ کے سامنے آئے گا تو آپ کس طرح فیصلہ کریں گے '' ؟ ؟
( بقیہ حاشیہ ص ١٣ )
امام ابوحنفیة رحمة اللّٰہ علیہ نے اس سے یہ اصول اخذ کیا کہ ایسی تمام چیزیں جو وزن کر کے یا صاع یا رطل جیسے پیمانہ سے ناپ کربیچی جائیں اگر ان کا تبادلہ ہم جنس سے کیا جائے تو ان میں مساوات اور ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے لہٰذا چاول، جوار، مکئی وغیرہ کا تبادلہ اگر ہم جنس سے کیا جائے مثلاً چاول کی بیع چاول سے کی جائے تومساوات اور ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے نہ اضافہ جائز ہے نہ ادھار کیونکہ یہاں جنس کا بھی اتحاد ہے اور قدر بھی متحد ہے دونوں وزنی ہیں وزن کر کے بیچی جاتی ہیں ! ! واللّٰہ اعلم
پانچ سیر گیہوں کی قیمت ایک روپیہ بھی لگا سکتے ہیں اور ایک ہزار روپیہ بھی، یہ بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی پر ہے کہ وہ پانچ سیر گیہوں کو ایک روپیہ کے برابر قرار دیں یا ایک ہزار کے برابر لیکن ہم جنس میں یعنی گیہوں کی بیع گیہوں سے ہو تو وہاں پانچ سیر گندم کو دس سیر گندم کے برابر قرار دینا غلط ہوگا ! البتہ جو جنس ایسی ہے کہ وہ کیل یا وزن کر کے نہیں بیچی جاتی، گزوں سے ناپ کر مثلاً شمار کرکے بیچی جاتی ہے جیسے کپڑا وہاں امام ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق یہ جائز ہے کہ ایک گز کپڑے کو ایک ہزار گز کپڑے کے عوض میں بیچا جائے مگر نقد ! !
حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہنے عرض کیا : کتاب اللہ کے مطابق اور اگر کتاب اللہ میں اس معاملہ کے متعلق کوئی صراحت نہیں ہوگی تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے بموجب ! اور اگر سنت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم یعنی آپ کے جو ارشادات یا واقعات میرے علم میں ہیں ان میں اس کی کوئی نظیر نہیں ہوگی تو اپنے اجتہاد سے کام لوں گا ! !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللّٰہ عنہکے سینہ پر دست مبارک رکھ کر فرمایا
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لِمَا یَرْضٰی بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ١
'' الحمد للّٰہ ! اللہ تعالیٰ نے رسول کے رسول (فرستادہ) کو اس کی توفیق فرمائی جس کو اللہ کا رسول پسند کرتا ہے ''
اس ارشاد گرامی نے حضراتِ مجتہدین کے اجتہاد کی تصویب اور تائید فرمادی
(٣) تَعْلِیْمُ الْحِکْمَةْ
( یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ ) '' سکھاتے ہیں ان (علماء امت ) کوکتاب اور حکمت '' ٢
١ مشکوة المصابیح کتاب الاِمَارَةِ وَ الْقَضَاء رقم الحدیث ٣٧٣٧
٢ قرآن حکیم میں یہ الفاظ تین جگہ آئے ہیں سُورة البقرة ، سُورة آلِ عمران اور سُورة الجمعة
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے'' حکمت'' کا ترجمہ سورۂ بقرہ اور آلِ عمران میں ''علم'' کیا ہے اور سورہ جمعہ میں دانش حضرت شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ عنہ نے (علی الترتیب) تین ترجمے کیے ہیں : پکی باتیں ، کام کی بات، عقلمندی
مگر ظاہر ہے یہ سب ترجمے تشریح طلب ہیں ، احقر نے اپنے الفاظ میں ان کی تشریح کردی ہے جہاں تک حضراتِ مفسرین کا تعلق ہے تو ان کے ارشادات یہ ہیں : مَا یُکَمِّلُ نُفُوْسَھُمْ مِنَ الْمَعَارِفِ وَالاَحْکَامِ وَقِیْلَ ھِیَ السُّنَّةُ وَقِیْلَ ھِیَ الْقَضَائُ وَقِیْلَ الْفِقْہُ ( التفسیر المظہری ج ١ ص ١٣١ )
اَلْحِکْمَةُ : اَلْعُلُوْمُ الْحَقَّةُ اَلْمُسْتَحْکَمَةُ الَّتِیْ یَسْتَفِیْدُھَا الْحَکِیْمُ مِنَ الْحَکِیْمِ بِلَا تَوَسُّطِ کِتَابٍ وَلاَ بَیَانٍٍ
( التفسیر المظھری ج ٢ ص ١٦٦ )
اَلْحِکْمَة : اَلشَّرِیْعَةُ الْمُحْکَمَةُ الْمُطَابِقَةُ بِشَرَائِعِ الاَنْبِیَآئِ فِی الاُصُوْلِ الْمَشْھُوْدِ عَلَیْھَا بِالْکُتُبِ السَّمَاوِیَةِ بِالْقُبُوْلِ
( التفسیر المظھری ج٩ ص ٢٧٥ )
اَصَابَةُ الْحَقِّ بِالْعِلْمِ وَالْعَقَلِ قَضِیَّة صَادِقَة ( المفردات فی غریب القرآن )
یعنی کتاب اللہ کی تعلیم کے ساتھ آپ ایسے اصول کی تعلیم بھی دیتے ہیں جن پرقانونی عدل اور دستور وآئین کی حسین اور شاندار عمارت سربفلک کی جاسکے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے خطبات ملا حظہ فرمائیے وہ ایسے ہی اصول کا مجموعہ ہیں ! یہاں خطبات کے علاوہ چند حدیثوں کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے ، ارشاد ہوا
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم اَلْحَلَالُ بَیِّن وَالْحَرَامُ بَیِّن وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَات لَا یَعْلَمُھَا کَثِیْر مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الْمُشْتَبِھَاتِ اِسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہ وَعِرْضِہ وَمَنْ وَقَعَ فِی
الشُّبُھَاتِ کَرَاعٍ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یُّوْقِعَہ ، اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی اَلَا اِنَّ حِمَی اللّٰہِ فِیْ اَرْضِہِ مَحَارِمُہ اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَةً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ ١
''حلال بھی واضح ہے حرام بھی واضح ہے لیکن دونوں کے درمیان کچھ ایسے امور ہیں جن میں کچھ مشابہت حلال کی ہے کچھ مشابہت حرام کی، پس جس نے ایسے مشتبہ امور سے تقویٰ اختیار کیا اور احتیاط برتی اس نے اپنے دین کو بھی اعتراض سے بری کر لیا اور اپنی آبرو بھی بچالی اور جو ان مشتبہ امور میں پڑگیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو اپنے مویشی سرکار کی محفوظ چراگاہ کے پاس چرا رہا ہے قریب ہے کہ وہ مویشی کو اس چراگاہ میں اتار دے ! یادرکھو ہر ایک سرکارکی چراگاہ ہوتی ہے ،یاد رکھو (احکم الحاکمین) اللہ تعالیٰ کی چراگاہ حرام امور ہیں ! یاد رکھو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، وہ ٹھیک رہتا ہے تو بدن ٹھیک رہتا ہے وہ بگڑ جائے توبدن بگڑ جاتا ہے، یاد رکھو یہ گوشت کا ٹکڑا وہ ہے جس کو ''دل'' کہا جاتا ہے''
اس ارشاد ِ گرامی نے بہت سے اصول کی تعلیم دے دی مثلاً یہ کہ ایسے تمام امور جن کے جواز اور عدم جواز
میں کلام ہو، تقویٰ یہ ہے کہ ان کو نہ کیا جائے ! اصطلاحِ فقہ میں ایسے امور کو ''مکروہ'' کہا جاتا ہے جو درجہ بدرجہ تَنْزِیْہِی، تَحْرِیْمِی پھر تَحْرِیْمِی قَرِیْب بِحَرَامٍ ہوتا ہے ٢
١ صحیح البخاری کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٢ ص ١٣
٢ اس اصول کو سامنے رکھ کر فاتحہ، سوئم، چہارم، برسی، شب برأت، بی بی فاطمہ کی صحنک ومحفل میلاد قیام وغیرہ پر نظر ڈالیے
یا مثلاً یہ کہ عقائد وخیالات کی اصلاح سب سے مقدم ہے عقائد خراب ہوتے ہیں تو دل کے جذبات بھی خراب ہوتے ہیں جو عمل کو خراب کردیتے ہیں
(٢) اسی حدیث میں یہ اضافہ بھی ہے ''بس جو شخص مشتبہ کام کو چھوڑ دے وہ غیر مشتبہ حرام کو بدرجہ اولیٰ چھوڑدے گا اور اگر مجرمانہ جرأت کر کے مشتبہ کام کرنے لگے تو وہ عنقریب حرام میں بھی مبتلا ہوجائے گا ! ١
(٣) حضرت ابوسعید خدری رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں
'' ایک روز آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم تشریف فرما تھے ہم بھی مجلس مبارک میں حاضر تھے ارشاد ہوااپنے بعد مجھے تمہارے متعلق جس بات کا خطرہ ہے وہ دنیا کی وہ رونق وزینت ہے جو پوری زیبائش کے ساتھ تمہارے سامنے آئے گی ! !
ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا خیر بھی شر کو لا سکتا ہے (یعنی جب یہ رونق وزینت حلال اور جائز راستہ سے آئے گی تو پھر اس سے خطرہ کیوں ہے ؟ )
راوی بیان کرتے ہیں کہ اس سوال پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے خاص توجہ فرمائی
آپ خاموش ہوگئے اور دیر تک خاموش رہے۔ ہمیں خیال ہوا کہ شاید وحی نازل ہورہی ہے اس کے بعد آپ نے پسینہ پونچھا اور دریافت فرمایا سائل کہاں ہے ؟ گویا اس سوال کو آپ نے معقول قرار دیا پھر فرمایا بیشک خیر شر کو نہیں لاتا (بشرطیکہ خیر کے تقاضوں کو پورا کرتے رہو یعنی دولت کی بنا پر جو حقوق ہوتے ہیں ان کو ادا کرتے رہو) پھر آپ نے مثا ل دیتے ہوئے فرمایا : دیکھو موسم بہار میں جو سبزہ پپدا ہوتا ہے اگر جانور اس کو کھائے چلا جائے تووہ( سبزہ جو نہایت عمدہ ہے اور سراسر خیر ہے) جانور کو مار ڈالتا ہے یا نیم جان کردیتا ہے ! ہاں وہ جانور جو سبزہ کو کھا کر ساتھ ساتھ ہضم بھی کرتا رہے اور سبزہ سے شکم سیر ہونے کے تقاضے کو پورا کرتا رہے
مثلاً یہ کہ یہی مویشی جب سبزہ سے شکم سیر ہوجائے اور اس کی کوکہیں تن جائیں
١ صحیح البخاری کتاب البیوع رقم الحدیث ٥١ ٢٠ ص ٢٧٥
تو گھومے پھرے، دھوپ میں بیٹھے ،پھر فضلہ خارج کرے (اس کے بعد کھائے تو مفید ہوگا) پھر ارشاد ہوا دیکھو یہ مال ہرا بھرا اور شیریں ہے پس وہ اس مسلمان کا بہت اچھا دوست ہے جو مسکینوں ، یتیموں ، مسافروں اور ضرورت مندوں کو فراموش نہ کرے، ان کو بھی آسودہ کرتا رہے اور دیکھو جوشخص بلا استحقاق کے مال لیتا ہے (مثلاً سوال کرکے) تو اس کی مثال ایسی ہے کھاتا رہتا ہے پیٹ نہیں بھرتا'' ١
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللّٰہ'' صلی اللہ عليہ وسلم ص ٥٣٠ تا ٥٤٩ ناشر کتابستان دہلی )
١ صحیح البخاری کتاب الزکوة باب صدقة علی الیتامٰی رقم الحدیث ١٤٦٥ ، ص ١٩٨
قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
کتاب الطب
( قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب )
عنوانات و تزئین ، حاشیہ و نظر ثانی بتغیرِ یسیر : حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب
٭٭٭
مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ دَائً اِلَّا اَنْزَلَ لَہ شِفَائً ١
''اللہ تعالیٰ نے جو بیماری بھی اتاری ہے اس کی دوا بھی اتاری ہے'' !
اور ابوداود میں ہے وَلَا تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ ٢ '' اور حرام چیز سے دوا نہ کرو''
تین چیزوں میں شفاء :
اَلشِّفَائُ فِیْ ثَلاثَةٍ فِیْ شَرْطَةِ مِحْجَمٍ اَوْ شَرْبَةِ عَسَلٍ اَوْ کَیَّةٍ بِنَارٍ
وَاَنَا اَنْھٰی اُمَّتِیْ عَنِ الْکَیِّ ٣
''شفاء تین چیزوں میں ہے سینگی لگانے میں یا شہد پینے میں یا آگ سے داغنے میں ! اور میں اپنی امت کو داغنے(کے علاج )سے منع کرتا ہوں ''
شہد ( عَسَل ) :
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ عليہ وسلم فَقَالَ اَخِیْ تَشْتَکِیْ بَطْنُہ فَقَالَ اِسْقِہ عَسَلًا ثُمَّ اَتَاہُ الثَّانِیَةَ فَقَالَ اِسْقِہ عَسَلًا ثُمَّ اَتَاہُ الثَّالِثَةَ فَقَالَ اِسْقِہ عَسَلًا ثُمَّ اَتَاہُ فَقَالَ قَدْ فَعَلْتُ فَقَالَ صَدَقَ اللّٰہُ وَکَذَبَ بَطْنُ اَخِیْکَ اِسْقِہ عَسَلًا فَسَقَاہُ فَبَرَأَ ٤
''حضرت ابوسعید رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ میرے بھائی کے پیٹ میں تکلیف ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ اسے شہد پلاؤ ! وہ دو بارہ آیا توآپ نے فرمایا کہ
١ صحیح البخاری کتاب الطب رقم الحدیث ٥٦٧٨
٢ مشکوة المصابیح کتاب الطب و الرقی رقم الحدیث ٤٥٣٨ ٣ مشکوة المصابیح ص ٣٨٧
٤ صحیح البخاری کتاب الطب رقم الحدیث ٥٦٨٤ ص ٨٤٨
اسے شہدپلاؤ ! پھرتیسری دفعہ حاضر ہوا آپ نے فرمایا اسے شہد پلاؤ !
وہ پھر آیا کہنے لگاکہ میں نے ارشاد پر عمل پورا کردیا ہے تو آپ نے ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے اور تمہارے بھائی کاپیٹ جھوٹا ہے اسے شہد پلاؤ اس نے پلایا تو وہ اچھا ہوگیا ''
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ( یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِھَا شَرَاب مُّخْتَلِف اَلْوَانُہ فِیْہِ شِفَائ لِّلنَّاسِ ) ١
''شہد کی مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے اس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے''
کلونجی ( اَلْحَبَّةُ السَّوْدَائُ / اَلشَّوْنِیْزُ ) :
فَقَالَ لَنَا (اِبْنُ اَبِیْ عَتِیْقٍ ) عَلَیْکُمْ بِھٰذِہِ الْحُبَیْبَةِ السُّوَیْدَائِ ( السَّوْدَائِ ) فَخُذُوْا مِنْھَا خَمْسًا اَوْ سَبْعًا فَاسْحَقُوْھَا ثُمَّ اَقْطِرُوْھَا فِیْ اَنْفِہ بِقَطَرَاتِ زَیْتٍ فِیْ ھٰذَا الْجَانِبِ وَفِیْ ھٰذَا الْجَانِبِ فَاِنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْنِیْ اَنَّھَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ صلی اللہ عليہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّ ھٰذِہِ الْحَبَّةَ السَّوْدَائَ شِفَائ مِّنْ کُلِّ دَائٍ اِلَّا مِنَ السَّامِ قُلْتُ وَمَا السَّامُ ؟ قَالَ اَلْمَوْتُ ٢
''ہم سے ابنِ ابی عتیق نے کہا کہ سیاہ چھوٹے دانے ضرور استعمال کرو اس کے پانچ دانے لے لو یاسات دانے، انہیں رگڑ لو پھر انہیں زَیْت (روغنِ زیتون ) کے قطروں میں ملا کر اس کی ناک میں ٹپکادو اس طرف اور اس طرف کیونکہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے بتلایا ہے کہ انہوں نے جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ سیاہ دانہ سوائے سَامْ کے ہر بیماری کے لیے
شفاء ہے ! میں سے دریافت کیا ہے کہسَامْ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ موت''
قَالَ ابْنُ شَہَابٍ وَالْحَبَّةُ السَّوْدَائُ اَلشَّوْنِیْزُ ٣
''محمد بن مسلم ابن شہاب زہری رحمہ اللّٰہ نے فرمایاکہ سیاہ دانہ شَوْنِیْز ہے''
١ سُورة النحل : ٦٩ ٢ صحیح البخاری کتاب الطب رقم الحدیث ٥٦٨٧ ص ٨٤٨
٣ صحیح البخاری کتاب الطب رقم الحدیث ٥٦٨٨ ص ٨٤٩
دلیہ (تَلْبِیْنَة) :
عَنْ عَائِشَةَ اَنَّھَا کَانَتْ تَأْمُرُ بِالتَّلْبِیْنِ لِلْمَرِیْضِ وَلِلْمَحْزُوْنِ عَلَی الْھَالِکِ وَکَانَتْ تَقُوْلُ اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّ التَّلْبِیْنَ تُجِمُّ فُؤَادَ الْمَرِیْضِ وَتَذْھَبُ بِبَعْضِ الْحُزْنِ ۔ ١
''حضرت عائشة رضی اللّٰہ عنہاسے منقول ہے کہ وہ بیماری کے لیے دلیہ کا حکم فرمایا کرتی تھیں اور اس کے لیے بھی جو موت کے صدمہ سے غمگین ہو اور فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے سنا ہے فرماتے تھے کہ دلیہ بیمارکے دل کو راحت دیتا ہے اور کچھ بارِ غم ہلکا کرتا ہے (فرحت بخش ہے)''
عُود ہِندی :
عَنْ اُمِّ قَیْسٍ (بِنْتِ مِحْصَنٍ ) قَالَتْ دَخَلْتُ بِاِبْنٍ لِّیْ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم
وَقَدْ اَعْلَقْتُ عَلَیْہِ مِنَ الْعُذْرَةِ فَقَالَ اِتَّقُوا اللّٰہَ عَلَی مَا تَدْغَرْنَ اَوْلَادَکُنَّ
بِھٰذَا الْعِلَاقِ (الاَعْلَاقِ ) عَلَیْکُم بِھٰذَا الْعُوْدِ الْہِنْدِیِّ فَاِنَّ فِیْہِ سَبْعَةَ اَشْفِیَةٍ مِّنْھَا ذَاتُ الْجَنْبِ وَیُسْعَطُ مِنَ الْعُذْرَةِ وَیُلَدُّ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ ٢
''حضرت اُمِّ قَیْسٍ بِنْتِ مِحْصَنْ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچہ کولے کر جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئی اور میں نے اس کا تالو چڑھا رکھا تھا ! آپ نے ارشاد فرمایا اپنے بچوں کے تالوکو ہاتھ سے نچوڑ کر کیوں ٹھیک کرتی ہو ؟ تم یہ عُوْدِ ہِنْدِیْ ضرور استعمال کیا کرو ! کیونکہ اس میں سات بیماریوں کی شفاء ہے اس میں سے ایک نمونیہ ہے ! تالو کی تکلیف میں ناک میں دوا ڈالی جائے اور نمونیہ میں چٹائی جائے ''
١ صحیح البخاری کتاب الطب رقم الحدیث ٥٦٨٩ ٢ ایضًا بابُ اللَّدُود رقم الحدیث ٥٧١٣
وَفِیْ بَابِ الْعُذْرَةِ : یُرِیْدُ الْکُسْتَ وَھُوَ الْعُوْدُ الْہِنْدِیُّ ! '' کُسْت '' عودِ ہندی کو کہتے ہیں
وَفِیْ بَابِ ذَاتِ الْجَنْبِ : یُرِیْدُ الْکُسْتَ یَعْنِی الْقُسْطَ قَالَ (الزُّھْرِیُّ) وَھِیَ لُغَة ( بخاری ص ٨٥٢ )
کُسْتْ یعنی قُسْط اور کاف سے بھی لغت میں مستعمل ہے !
حِجامة :
وَفِیْ بَابِ الْحِجَامَةِ مِنَ الدَّائِ : اِنَّ اَمْثَلَ مَا تَدَاوَیْتُمْ بِہِ الْحَجَامَةُ وَالْقُسْطُ الْبَحْرِیُّ
''بہترین علاج جو تم کرتے ہو سینگی لگوانا اور قُسْطِ بَحْرِیْ ( کااستعما ل کرنا) ہے''
کھمبی ( اَلْکَمْأَةُ ) :
اَلْکَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَائُ ھَا شِفَائ لِّلْعَیْنِ ١
''کھمبی ''مَنْ '' کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے''
چٹائی کی راکھ ( اَلرِّمَادْ ) :
فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ الدَّمَ یَزِیْدُ عَلَی الْمَائِ کَثْرَةً عَمِدَتْ اِلٰی حَصِیْرٍفَاَحْرَقَتْھَا وَاَلْصَقَتْھَا عَلٰی جُرْحِ النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم فَرَقَأَ الدَّمُ ۔ ٢
''جب حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا نے دیکھاپانی سے خون بہنے میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی لے کر جلا ئی اور اسے جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے زخم پرلگایاتو خون رک گیا'' ! !
بخار کا علاج ( اَلْحُمّٰی ) :
مرضِ وفات میں بخار (کی حالت میں )میں فرمایا
ھَرِیْقُوْا عَلَیَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ لَمْ تُحَلَّلْ اَوْکِیَتُھُنَّ لَعَلِّیْ اَعْھَدُ اِلَی النَّاسِ ٣
'' میرے اوپر سات ایسے مشکیزے جنہیں کھولا نہ گیا ہو ڈالو شاید میں لوگوں کے پاس جا سکوں ''
ارشاد فرما یا اَلْحُمّٰی مِنْ فَیْحِ جَھَنَّمَ فَاَبْرِدُوْھَا بِالْمَائِ ٤ ''بخار جہنم کی جھونکار ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کرو''
طاعون میں احتیاط : ارشاد فرمایا
اِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُوْنِ بِاَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوْھَا وَاِذَا وَقَعَ بِاَرْضٍ وَاَنْتُمْ بِھَا
فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْھَا ٥
١ صحیح البخاری کتاب الطب رقم الحدیث ٥٧٠٨ ٢ ایضًا رقم الحدیث ٥٧٢٢
٣ ایضًا رقم الحدیث ٥٧١٤ ٤ ایضًا رقم الحدیث ٥٧٢٥ ٥ ایضًا رقم الحدیث ٥٧٢٨
''جب تم کسی علاقہ میں طاعون کی خبر سنو تو وہاں کی سرزمین میں نہ داخل ہو اور جب کسی سرزمین میں یہ پھیلے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے مت نکلو'' ! !
مہندی ( اَلْحِنَّائَ ) :
عَنْ سَلْمٰی(خَادِمَةِ النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم ) قَالَتْ مَا کَانَ یَکُوْنُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم
قَرْحَة وَّلَا نَکْبَة اِلَّا اَمَرَنِیْ اَنْ اَضَعَ عَلَیْھَا الْحِنَّائَ ١
''حضرت سلمٰی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے(جو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی خادمہ تھیں ) روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے زخم ہوتا یا چوٹ لگتی تو مجھے حکم فرماتے کہ اس پر مہندی لگادوں ''
سینگی لگوانا اور مُسْہِلْ لینا :
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم اِنَّ خَیْرَ مَا تَدَاوَیْتُمْ بِہِ السُّعُوْطُ وَاللَّدُوْدُ وَالْحَجَامَةُ وَالْمَشْیُ ٢
''نبی کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے ارشادفرمایا کہ بہترین دو ا ناک میں ڈالنے والی یا چاٹنے والی ہے اور سینگی لگانی اورمسہل لینا ہے ''
سرمہ ( اَلْکُحْلُ ) :
وَخَیْرُ مَا اکْتَحَلْتُمْ بِہِ الْاِثْمِدُ فَاِنَّہ یَجْلُو الْبَصَرَ وَ یُنْبِتَ الشَّعْرَ ٣
''اور بہترین سرمہ جو تم استعمال کرتے ہو وہ اِثْمِدْ ہے کیونکہ وہ آنکھ کو جِلا دیتا ہے اور بال اُگاتا ہے ''
بڑھاپا ( اَلْھَرَمُ ) : ارشادفرمایا
فَاِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَضَعْ دَائً اِلَّا وَضَعَ لَہ شِفَائً اَوْ قَالَ دَوَائً اِلَّا دَائً وَاحِدًا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم وَمَا ھُوَ ؟ قَالَ اَلْھَرَمُ ٤
١ سُنن الترمذی بَابُ التَّدَاوِی بِالْحِنَّائِ رقم الحدیث ٢٠٥٤ و مشکوة کتاب الطب رقم الحدیث ٤٥٤١
٢ سُنن الترمذی ابواب الطب رقم الحدیث ٢٠٤٨ ٣ ایضًا رقم الحدیث ٢٠٤٨
٤ ایضًا رقم الحدیث ٢٠٣٨
''اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض ایسا نہیں رکھا جس کی شفاء نہ رکھی ہو یا فرمایادوا نہ رکھی ہو سوائے ایک بیماری کے ! ! صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے سچے رسول
وہ کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا بڑھاپا ''
سَنَا مکی :
عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ عليہ وسلم سَأَلَھَا بِمَا تَسْتَمْشِیْنَ قَالَتْ بِالشُّبْرُمِ قَالَ حَارّ جَارّ قَالَتْ ثُمَّ اسْتَمْشَیْتُ بِالسَّنَا فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ عليہ وسلم لَوْ اَنَّ شَیْئًا کَانَ فِیْہِ الشِّفَائُ مِنَ الْمَوْتِ لَکَانَ فِی السَّنَا ١
''حضرت اسماء بنتِ عُمیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ مسہل لینے کے لیے کیا دوا استعمال کرتی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا ''شُبْرَمْ '' ارشاد فرمایا کہ وہ تو گرم ہے اور کھینچ کر رکھ دیتی ہے ! وہ فرما تی ہیں کہ اس کے بعد میں نے ''سَنَا'' سے مسہل لیا توجناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی چیز میں موت سے شفاء ہوتی تو سَنَا میں ہوتی''
٭٭٭
١ سُنن الترمذی بَابُ التَّدَاوِی بِالْحِنَّائِ رقم الحدیث ٢٠٨١ و مشکوة کتاب الطب رقم الحدیث ٤٥٣٧
ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
٭٭٭
نرخ نامہ
٭٭٭
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500
قسط : ٢٣
تربیت ِ اولاد
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا ! اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
سزا دینے میں ظلم و زیادتی نہ ہونے پائے اس کی تدبیر :
حضرت والا سے دریافت کیا گیا ہے کہ نوکر پر زبان سے یا ہاتھ سے سزا دینے میں زیادتی ہوجاتی ہے اور بعد میں پچھتانا پڑتاہے کوئی ایسی تدبیر ارشاد فرمائیں جس سے زیادتی نہ ہو اور سیاست میں بھی فرق نہ آئے ! !
فرمایا بہتر تدبیر یہ ہے کہ زبان سے کچھ کہنے یا ہاتھ بڑھانے سے پہلے یہ سوچ لیا جائے کہ فلاں فلاں لفظ میں کہوں گا یا اتنا ماروں گا پھر اس کا التزام کیاجائے کہ جتنا سوچا ہے اس سے زیادہ نہ ہوجائے !
سب سے بہتر علاج یہ ہے کہ غصہ میں نہ مارا کریں جب غصہ جاتا رہے تو سوچا کریں کہ کتنا قصور ہے اتنی سزا دینی چاہیے یہ تو سلامتی کی بات ہے ورنہ لڑکے قیامت میں بدلہ لیں گے ناحق ستانے کا بڑا گناہ ہے
ایک عورت نے ایک بلی کو ستایا تھا جب وہ مرگئی تو حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے دیکھا کہ وہ عورت جہنم میں ہے اور وہ بلی اس کو نوچتی ہے ! جب بلی کو ستانے سے وہ عورت دوزخ میں گئی تولڑکے تو انسان ہیں ! !
اگر بہت زیادہ غصہ آئے تو کیا کریں ؟
اگر بہت زیادہ غصہ آئے تو اس کو چاہیے کہ اس کے سامنے سے خود ہٹ جائے یا اسے ہٹا دے اور ٹھنڈا پانی پی لے ! اور اگر زیادہ غصہ ہو تو یہ سوچ لے کہ اللہ تعالیٰ کے بھی ہمارے اوپر حقوق ہیں اور ہم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہے جب وہ ہمیں معاف کرتے رہتے ہیں تو ہم کو بھی چاہیے کہ اس شخص کی غلطی سے درگزر کریں ورنہ اگر حق تعالیٰ بھی ہم سے انتقام لینے لگیں تو ہمارا کیا حال ہو ! ؟
سزا دینے میں ظلم و زیادتی ہوگئی تو اس کی تلافی کا طریقہ :
اگر کوئی اپنی زیادتی (اور ظلم) کی تلافی کرنا چاہے تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ سزا دینے کے بعد بچوں کے ساتھ شفقت کرو اور جس پر زیادتی کی ہے اس کے ساتھ احسان کرو یہاں تک کہ وہ خوش ہوجائے ! جیسے میرٹھ کے ایک رئیس نے ایک نوکر کے ایک طمانچہ ماردیاتھا پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس کو ایک روپیہ دیا پھر دوسرے نوکر سے کہا کہ اس سے پوچھنا کہ اب کیا حال ہے ؟ کہنے لگا کہ میں تودعا کر رہا ہوں کہ ایک طمانچہ روز لگ جایا کرے ! بس تلافی کا یہ طریقہ بہت اچھا ہے اس سے بچوں کے اخلاق پر بھی برااثر نہ ہوگا اور ظلم کا دفعیہ بھی ہوجائے گا ! !
نافرمان اولاد :
ایک صاحب نے عرض کیا کہ فلاں صاحب آنا چاہتے تھے مگران کا لڑکا کچھ رقم لے کر بھاگ گیا ہے اس پریشانی کی وجہ سے نہیں آسکے ! فرمایا اگر بالغ ہو گیا ہو تو نکال باہر کریں کس جھگڑے میں پڑے ہیں ، نالائق اولاد کی مثال ایسی ہے جیسے زائد انگلی نکل آتی ہے کہ اگر رکھا جائے تو عیب ہے اگر کاٹا جائے تو تکلیف ! !
اولاد کی پرورش اور علاج معالجہ کے سلسلہ میں پریشان ہونے سے بھی ترقی ہے :
میں نے ایک صاحب کو دیکھا جو عالِم اور ڈپٹی کلکٹر تھے جب ان کی پنشن ہوگئی تو ان کا جی چاہتا تھا کہ الگ بیٹھ کر اللہ اللہ کروں ! خدا کی قدرت کہ ذکرو شغل شروع کرنے کے بعد ان کے دو بیٹے ایک دم سے پاگل ہوگئے، وہ سخت پریشان ہوگئے کیونکہ اب ان کے علاج معالجہ میں مشغول ہونا پڑا وہ خلوت و یکسوی فوت ہوگئی اور بعض دفعہ اللہ اللہ کرنا بھی نصیب نہ ہوتا تھا لیکن عارف کے لیے کوئی پریشانی نہیں کیونکہ عارف اپنے لیے کوئی حالت تجویذ نہیں کرتا جب تک حق تعالیٰ خلوت میں رکھیں خلوت میں رہتا ہے اور جب وہ خلوت سے نکالنا چاہیں نکل جاتا ہے اور اسی میں راضی رہتاہے ! !
میں کہتا ہوں کہ اصل مقصود حق تعالیٰ کی رضامندی ہے اور وہ جس طرح خلوت میں ہوتی ہے بعض دفعہ مخلوق کی خدمت میں ہوتی ہے ! توکیا ان کو مجنون ( یعنی بیمارپاگل اولاد) کی خدمت میں ثواب نہ ملتا ہوگا، ضرور ملتا ہوگا ! اس صورت میں یہ فکر ہی ترقی کا ذریعہ ہے اس وقت بے فکری اور خلوت مفید نہیں بلکہ خلوت میں اللہ اللہ کرنے سے جو ثواب ملتا ہے مجنون (یعنی بیمار پاگل اولاد) کی خدمت میں اس سے زیادہ ثواب ملتا ہے پھر پریشانی کس لیے ؟
پریشانی کی وجہ اور اس کا حل :
یاد رکھیے ! پریشانی کا مدار تجویذ ہے کہ انسان اپنے لیے یااپنے متعلقین کے لیے ایک خیالی پلاؤ پکا لیتا ہے کہ یہ لڑکا زندہ رہے اور تعلیم یافتہ ہو اور اس کی اتنی تنخواہ ہو پھر وہ ہماری خدمت کرے اور یہ مال ہمارے پاس رہے، اس میں اس طرح ترقی ہو اور اتنا نفع ہو، ہم سب اس مرض میں مبتلاہیں کہ دور دراز کی امیدیں پکانے لگتے ہیں پھر جب تجویذ اور امید کے خلاف ہوتا ہے تو پریشانی ورنج میں گرفتار ہوتے ہیں ! اگر پہلے سے کوئی تجویذ نہ ہوتو پریشانی کبھی پاس نہ پھٹکے اسی لیے اہل اللہ سب سے زیادہ آرام وراحت میں ہوتے ہیں ،ان کو کسی واقعہ سے پریشانی اورغم نہیں ہوتا کیونکہ وہاں تجویذ کا نشان ہی نہیں بلکہ تفویض ِکلی ہے (یعنی اللہ کے ہر فیصلہ پر راضی ہوتے ہیں ) (جاری ہے)
قسط : ٣٠
رحمن کے خاص بندے
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
بدکاری پر وعیدیں :
محسن انسانیت ، امام المتقین، سرورِعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ عليہ وسلم نے احادیث ِ شریفہ میں فواحش اور بدکاریوں کے بارے میں شدید وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں جن میں سے چند روایات ذیل میں پیش ہیں :
سیّدنا حضرت ابوہریرة رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لَا یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَمُؤْمِن ١ ''زنا کار زنا کرتے وقت مومن نہیں رہتا ''
اس روایت کی تشریح میں علماء کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ
الف : گناہ کی وجہ سے ایسا شخص مومن کامل نہیں رہتا
ب : بحالت ِ گناہ وہ نورِ ایمانی یعنی معصیت سے بچانے پر آمادہ کرنے والی ایمانی کیفیت سے محروم
ہوجاتا ہے
ج : وہ شخص اگرچہ اُخروی اعتبار سے مومن رہے لیکن دنیا میں اس سے ''مومن'' کا معزز لقب
ہٹا لیا جاتا ہے ٢
د : ایمان کی صورت ِ مثالیہ نکل کر زنا کار پر سایہ فگن ہوجاتی ہے اور عملِ بدکے بعد پھر لوٹ آتی ہے
(ابوداؤد اور ترمذی کی ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے)
خطرناک جرم :
سیّدنا حضرت عبداللّٰہ بن زید کی روایت ہے کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
١ صحیح البخاری ج١ ص ٣٢٦ رقم الحدیث ٢٤٧٥ ، صحیح مسلم ج ١ ص ٥٦ رقم الحدیث ٥٧
الترغیب والترھیب مکمل ص ٥١١ رقم الحدیث ٣٥٨٦ ٢ شرح نووی علی مسلم ج١ ص ٥٦
یَا بَغَایَا الْعَرَبْ ، یَا بَغَایَا الْعَرَبْ ! اِنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ الزِّنَا
وَالشَّھْوَةُ الْخَفِیَّةُ ١
''اے عرب کے بدکارو ! اے عرب کے بدکارو ! مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر اور خطرہ زنا اور پوشیدہ شہوت سے ہے''
یعنی یہ ایسی خطرناک لت ہے جس سے پورا معاشرتی نظام تباہ اور برباد ہوجاتا ہے اور گھر گھر میں فتنہ فساد اور خون خرابہ کی نوبت آجاتی ہے حتی کہ نسلیں تک مشتبہ ہوجاتی ہیں ۔
زانی کی دعا قبول نہیں :
سیّدنا حضرت عثمان بن ابی العاص روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
تُفْتَحُ اَبْوَابُ السَّمَائِ نِصْفَ اللَّیْلِ فَیُنَادِیْ مُنَادٍ ، ھَلْ مِنْ دَاعٍ فَیُسْتَجَابُ لَہ ؟ ھَلْ مِنْ سِائِلٍ فَیُعْطٰی ؟ ھَلْ مِنْ مَکْرُوْبٍ فَیُفَرَّجُ عَنْہُ ؟ فَلَا یَبْقٰی مُسْلِم بِدَعْوَةٍ اِلَّا استَجَابَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَّا زَانِیَةً تَسْعٰی بِفَرْجِھَا اَوْ عَشَّارًا ٢
''آدھی رات کے وقت آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور منادی آواز لگاتا ہے کہ کیا کوئی پکارنے والا ہے جس کی دعا قبول کی جائے ؟ کیا کوئی سائل ہے جسے نوازا جائے ؟ کیا پریشان حال غمزدہ ہے جس کی پریشانی دور کی جائے ؟
پس کوئی دعا مانگنے والا مسلمان باقی نہیں بچتا، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے، سوائے اپنی شرم گاہ کو بدکاری میں لگانے والی زانیہ اور ظالمانہ ٹیکس وصول کرنے والے کے ''(کہ ان کی دعا ایسے مقبول وقت میں بھی قبول نہیں ہوتی)
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ زنا کاری ایسی نحوست ہے جو دعاؤں کی قبولیت میں بڑی رکاوٹ بنی رہتی ہے اور مستجاب مقامات اور مقبول اوقات میں بھی زانی کے لیے قبولیت کے دروازے نہیں کھولے جاتے
١ رواہ الطبرانی، الترغیب والترھیب مکمل ٨١٥ ، رقم الحدیث ٣٦٤٣ بیت الافکار الدولیة
٢ رواہ الطبرانی و احمد ج٤ ص ٢٢ ، الترغیب والترھیب مکمل ص ٥١٨ رقم الحدیث ٣٦٤٤
بڑھاپے میں زنا کی نحوست :
سیدناحضرت ابوہریرة کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
تین آدمیوں سے قیامت میں اللہ تعالیٰ نہ تو گفتگو فرمائیں گے اور نہ انہیں گناہوں سے پاک فرمائیں گے شَیْخ زَانِی ، وَمَلِک کَذَّاب ، وَعَائِل مُسْتَکْبِر ١
(١) بوڑھا زنا کار (٢) جھوٹا بادشاہ (٣) قلاش متکبر
ویسے تو زنا ہر حالت میں حرام ہے خواہ جوانی کی حالت ہو یا بڑھاپے کی ! لیکن خاص طور پر بوڑھے زنا کار پر لعنت کی گئی ہے ! اس کی وجہ سے یہ ہے کہ بڑھاپے میں عموماً جذبات سرد ہوجاتے ہیں اور قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور ساتھ میں عقل وتجربہ اور عمل کے انجام کو جاننے کے اعتبار سے بھی وہ نوجوان کے مقابلہ میں زیادہ باخبر ہوتا ہے اس کے باوجود ایسے شخص سے زنا کا صدور اس کی طبعی خباثت کی دلیل ہے، اسی بنا پر وہ ملعون قرار دیا گیا ہے۔
زنا کار پر برزخی عذاب :
جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا معمول تھا کہ حضراتِ صحابہ رضی اللّٰہ عنہم سے اکثر پوچھا کرتے تھے کہ کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرے حضرت سُمرة بن جندب سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ خود آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنا طویل خواب حضرات ِ صحابہ سے بیان فرمایا کہ رات سوتے ہوئے خواب میں دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے ساتھ لے کر چلے ، راستہ میں کئی ایسے لوگوں پر گزر ہوا جنہیں طرح طرح کے عذاب دیے جارہے تھے (پھر آپ نے فرمایا )
فَأَ تَیْنَا عَلٰی مِثْلِ التَّنُّوْرِ قَالَ وَاَحْسِبُ اَنَّہ کَانَ یَقُوْلُ فَاِذَا فِیْہِ لَغَط وَاَصْوَات قَالَ فَاطَّلَعْنَا فِیْہِ فَاِذَا فِیْہِ رِجَال وَنِسَائ عُرَاة فَاِذَا ھُمْ یَأْتِیْھِمْ لَھَب مِنْ اَسْفَلَ مِنْھُمْ فَاِذَا اَتَاھُمْ ذٰلِکَ اللَّھَبُ ضَوْضَوْا
١ صحیح مسلم ج١ ص ٧١ رقم الحدیث ١٠٧
پھر ہم تنور جیسی جگہ پر آئے، راوی کہتا ہے کہ غالباً آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس تنور کے اندر سے چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ جب ہم نے اس میں جھانکا تو اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں تھیں اور ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آرہی تھی تو جب آگ کی لپٹ آتی تھی تو وہ شور مچاتے تھے''
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے ان بدنصیبوں کے بارے میں جاننا چاہا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ابھی اور آگے چلیں ، پھر سب مناظر دکھانے کے بعد ہر ایک کے بارے میں تعارف کرایا اور ان تنور والوں کے بارے میں کہا :
اَمَّا الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ الْعُرَاةُ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ مِثْلِ بِنَائِ التَّنُّوْرِ، فَاِنَّھُمُ الزِّنَاةُ وَالزَّوَانِیْ .... الخ ١
''اور وہ ننگے مرد و عورت جو تنور جیسی جگہ میں تھے وہ زناکار مرد اور عورتیں تھیں ''
شارحین حدیث لکھتے ہیں کہ زنا کاروں کی یہ فضیحت آمیز اور ذلت ناک سزا ان کے جرم کے
عین مطابق ہے اس لیے کہ
(١)زناکار ، لوگوں سے چھپ کر عموماً جرم کرتا ہے، اس کا تقاضا ہوا کہ اسے ننگا کر کے رسوا کیا جائے
(٢) زنا کار جسم کے نچے حصہ سے گناہ کرتا ہے جس کا تقاضا ہوا کہ تنور میں ڈال کر نیچے سے آگ دہکائی جائے ٢
ایک اور حدیث میں حضرت ابو امامة باہلی نے بھی نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کے طویل خواب کا ذکر فرمایا ہے جس میں مذکور ہے :
ثُمَّ انْطَلِقَ بِیْ فَاِذَا اَنَا بِقَوْمٍ اَشَدَّ شَیْئٍ اِنْتِفَاخًا وَاَنْتَنَہ رِیْحًا کَاَنَّ رِیْحَھُمْ الْمَرَاحِیْضُ، قُلْتُ مَنْ ھٰؤُلَائِ ؟ قَالَ ھٰؤُلَائِ الزَّانُوْنَ ٣
١ صحیح البخاری کتاب التعبیر ج٢ ص ١٠٤٤ رقم الحدیث ٧٠٤٧
٢ کرمانی ، فتح الباری بحوالہ حاشیہ بخاری حضرت نانوتوی ج ٢ ص ١٠٤٤
٣ ابن خزیمة رقم الحدیث ١٩٨٦ ، وابن حبان فی صحیحھما رقم الحدیث ٧٤٤٨
الترغیب والترھیب مکمل ص٥١٨ رقم الحدیث ٣٦٤٨
''پھر مجھے لے جایا گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جو (سڑنے کی وجہ سے) بہت پھول چکے تھے اور ان سے نہایت سخت بدبو آرہی تھی گویا کہ پاخانوں کی بدبو ہو، میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ ''زناکار لوگ'' ہیں
دیکھیے کتنے بھیانک عذاب ہیں جن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کی اور پوری امت کی اس لعنت سے حفاظت فرمائیں ، آمین
زانیو ں کا جہنم میں برا حال :
ایک روایت میں حضرت بُریدة رضی اللّٰہ عنہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں
اَنَّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعَ وَالْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ لَیَلْعَنَ الشَّیْخَ الزَّانِیَ وَاِنَّ فُرُوْجَ الزُّنَاةِ لَیُؤْذِیْ اَھْلَ النَّارِ نَتْنُ رِیْحِھَا۔ ١
''ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں بوڑھے زنا کار پر لعنت کرتی ہیں اور بدکار عورتوں کی شرمگاہوں کی بدبو سے خود جہنمی بھی اذیت میں ہوں گے''
نیز ایک حدیث میں شراب پینے والوں کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ انہیں ''نہرغُوطة'' سے پانی پلایا جائے گا اور اس نہر کی حقیقت یہ بیان کی گئی
نَھْر یَجْرِیْ مِنْ فُرُوْجِ الْمُوْمِسَاتِ یُؤْذِیْ اَھْلَ النَّارِ رِیْحُ فُرُوْجِھِمْ ٢
''یہ ایسی نہر ہے جو زناکار عورتوں کی شرمگاہوں سے نکلی ہے جن کی شرمگاہوں کی بدبو خود اہلِ جہنم کے لیے بھی باعث ِاذیت ہوگی'' اَعَاذَنَا اللّٰہ مِنْہُ
عموماً زناکار عورتیں میک اپ اور خوشبوئوں کا استعمال کر کے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں تو جہنم میں اس کے برعکس ان کو سراپا بدبودار بنایا جائے گا حتی کہ ان سے اٹھنے والی سڑاندسے جہنمی بھی عاجز ہوں گے اور یہ بدبو ان کے لیے مستقل عذاب بن جائے گی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلَکْ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْہُ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن
١ البزار ، الترغیب والترھیب مکمل ص ٥٢٠ رقم الحدیث ٣٦٥٩
٢ مُسند احمد ج ٤ ص١٦٠ ، الترغیب والترھیب ج٣ ص١٧٦
شب ِبرا ء ت ............ فضائل و مسائل
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ، استاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
ماہِ شعبان کی فضیلت :
یوں تو ہردن ہر مہینہ ہر سال ہی محترم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے مگر کچھ دن اور مہینے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے خاص فضیلت عطا کی ہے ان میں سے ایک مہینہ شعبان المعظم کا بھی ہے اس مہینہ کی احادیث ِمبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے حضرت اسامہ بن زید رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا '' شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالیٰ کا '' ١
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو آپ یوں دعا فرماتے : یا اللہ رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمارے لیے برکت فرما اور خیریت کے ساتھ ہم کو رمضان تک پہنچا'' ٢
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ''جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم (شعبان میں ) اتنے زیادہ روزے رکھتے کہ ہم کہتے کہ اب آپ افطار نہ کریں گے اور کبھی آپ افطار کیے جاتے (یعنی روزے ہی نہ رکھتے) یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب آپ روزے نہیں رکھیں گے ! ا ور میں نے آپ کو کسی مہینہ میں شعبان کے مہینے سے زیادہ (نفلی)روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا'' ٣
اس حدیث کے پیش ِنظر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے کیوں رکھتے تھے ؟ تواس کی وجہ بھی حدیث میں موجود ہے چنانچہ ایک حدیث میں آتاہے کہ حضرت اسامہ نے ایک مرتبہ آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم میں آپ کو شعبان میں زیادہ روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ
١ مسند فردوس دیلمی ٢ الدعوات الکبیر ج ٢ ص ١٤٢ ، مشکوٰ ة ص ١٢١ ٣ بخاری و مسلم بحوالہ مشکوة ص ١٧٨
''شعبان ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں اس مہینہ میں اللہ رب العالمین کے حضور میں لوگوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ،میری آرزویہ ہے کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تومیرا شمار روزہ داروں میں ہو'' ١
شب ِبراء ت کی فضیلت :
ماہِ شعبان المعظم میں ایک رات آتی ہے جو بڑی فضیلت والی رات ہے اس رات کے کئی نام ہیں (١) لَیْلَةُ الْبَرَائَ ةِ یعنی دوزخ سے بری ہونے کی رات (٢) لَیْلَةُ الصَّکِّ یعنی دستاویز والی رات (٣) لَیْلَةُ الْمُبَارَکَةِ یعنی برکتوں والی رات ! عرفِ عام میں اسے '' شب ِبرا ء ت'' کہتے ہیں ! شب کے معنی فارسی زبان میں رات کے ہیں اور براء ٰ ت عربی کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں ،یہ شعبان کی پندرہویں شب کو ہوتی ہے احادیث ِمبارکہ میں اس شب کی بڑی فضیلت آئی ہے حدیث میں آتاہے ''اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلۂ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتے ہیں '' ٢ کہتے ہیں کہ عرب میں اس قبیلہ کے پاس تقریباً بیس ہزار بکریاں تھیں ، اندازہ فرمائیے کہ بیس ہزار بکریوں کے کتنے بال ہوں گے ؟ ان کا شمار کرنا بھی انسان کے بس کی بات نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اس رات میں اتنے لوگ دوزخ سے بری کیے جاتے ہیں جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا ! !
ایک دوسری حدیث میں آتاہے کہ ''جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو(اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ کیا کوئی بخشش کا طلبگارہے کہ میں اس کو بخش دوں ، کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ میں اسے رزق دوں ،کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ میں اسے (تکلیف) سے نجات دوں ، کیا کوئی ایسا ہے ،کیا کوئی ایسا ہے ؟ غرض تمام رات اسی طرح دربار رہتا ہے اور عام بخشش کی بارش ہوتی رہتی ہے حتی کہ فجر ہو جاتی ہے (اور دربار برخاست ہوجاتاہے) '' ٣
١ نسائی ج ١ ص ٢٥١ ٢ ترمذی ج ١ ص ١٥٦ و اِبن ما جہ ص ١٠٠ ٣ شعب الایمان ج ٣ ص ٣٨٣
شب ِبرا ء ت میں کیا ہوتا ہے ؟
حضور ١نور صلی اللہ عليہ وسلم اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں
''تمہیں معلوم ہے شعبان کی اس (پندرہویں )شب میں کیا ہوتا ہے ؟ انہوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کیا ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس رات میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے پیدا ہونے والے ہیں وہ سب لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات میں سب بندوں کے اعمال(سارے سال کے) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی (مقررہ) روزی اترتی ہے'' ١
ایک اعتراض اور اس کا جواب :
یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ روزی وغیرہ تو پہلے سے لوحِ محفوظ میں لکھی جا چکی ہے پھر اس کا کیامطلب کہ اس شب میں انسان کو ملنے والی روزی لکھ دی جاتی ہے ؟
اس اعتراض کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ اس شب مذکورہ کاموں کی فہرست لوحِ محفوظ سے علیحدہ کرکے ان فرشتوں کے سپرد کردی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ کام ہیں ! الغرض اس رات میں پورے سال کا حال قلم بند ہوتا ہے، رزق ،بیماری ،تنگی ،راحت وآرام، دکھ،تکلیف حتی کہ ہروہ شخص جو اس سال پیدا ہونے یا مرنے والا ہو اس کا وقت بھی اسی شب میں لکھا جاتا ہے ! !
ایک روایت میں ہے حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ اس مہینے کی پندرہویں شب میں مَلکُ الموت (عزرائیل علیہ السلام) کو ایک رجسٹر دیا جاتا ہے اورحکم دیا جاتاہے کہ پورے سال میں مرنے والوں کے نام اس رجسٹر سے نقل کرلو ! کوئی آدمی کھیتی باڑی کرتاہے، کوئی نکاح کرتا ہے ، کوئی کوٹھی اور بلڈنگ بنوانے میں مشغول ہے مگر اس کویہ بھی معلوم نہیں کہ میرا نام مردوں کی فہرست میں لکھا جا چکا ہے ! ! ٢
١ الدعوات الکبیر ٢/ ١٤٦ ، مشکوة ١/ ١١٥ ٢ لطائف المعارف ص ١٤٨ ، مصنف عبدالرزاق ٤/ ٣١٧
حضور علیہ الصلٰوة والسلام کا پندرہویں شب میں معمول :
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ
''ایک رات رسول اکرم صلی اللہ عليہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور لباس تبدیل فرمانے لگے لیکن پورا لباس اتارا نہ تھا کہ پھر کھڑے ہو گئے اور لباس زیب ِتن فرمایا ،اس پر مجھے سخت رشک آیا اور گمان ہوا کہ آپ میری کسی سوکن کے یہاں جا رہے ہیں ! آپ کی روانگی کے بعد میں بھی پیچھے پیچھے چلی، یہاں تک کہ میں نے آپ کو ''بقیعِ غرقد''(جنت البقیع)میں اس حالت میں دیکھا کہ آپ مسلمان مردوزن اور شہداء کے لیے مغفرت طلب فرمارہے ہیں ! یہ دیکھ کر میں نے دل میں کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ اللہ کے کام میں مشغول ہوں اور میں دنیاوی کام میں لگی ہوئی ہوں اس کے بعد میں لوٹ کر اپنے حجرہ میں آئی،میں لمبے لمبے سانس لے رہی تھی کہ اتنے میں آپ تشریف فرماہوئے اور فرمایاعائشہ کیا بات ہے سانس کیوں پھول رہا ہے ؟ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ تشریف لا کر لباس تبدیل فرمانے لگے،ابھی لباس اتارنے بھی نہ پائے تھے کہ دوبارہ لباس زیبِ تن کیا، اس پر مجھے رشک آیا اور خیال ہوا کہ آپ کسی اور زوجہ کے گھر تشریف لے جارہے ہیں تاآنکہ میں نے آپ کو قبرستان میں دعا میں مشغول دیکھا ، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا ا ے عائشہ ! کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر کوئی ظلم وزیادتی کرے گا ؟ ؟
واقعہ یہ ہے کہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے انہوں نے کہا کہ آج شعبان کی پندرہویں شب ہے جس میں قبیلۂ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں اور مشرک ،کینہ ور ،قطع تعلقی کرنے والے ، بدسلوک، غرور سے زمین پر لباس گھسیٹ کر چلنے والے، والدین کے نافرمان اورعادی شراب خور کی طرف اس شب نظر کرم نہیں فرماتے اس کے بعد آپ نے لباس اتارا اور فرمایا اے عائشہ شب بیداری کی اجازت ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں میرے ماں باپ آپ پر قربان بصد ِشوق،چنانچہ آپ کھڑے ہوگئے او ر عبادت کرنے لگے، دوران نماز ایک بڑا لمبا سجدہ کیا جس پر مجھے آپ کی قبضِ روح کا گمان ہوا، میں اٹھ کر آپ کو دیکھنے بھالنے لگی،میں نے آپ کے تلووں کو ہاتھ لگایا تو ان میں حرکت تھی، اس پر مجھے خوشی ہوئی، میں نے آپ کوسجدہ میں یہ دعا کرتے سنا
اَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَاَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْکَ
جَلَّ وَجْہُکَ لَآ اُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکْ
صبح کو میں نے آپ سے ان دعائوں کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان دعائوں کو یاد کرلو اور دوسروں کو بھی ان کی تعلیم دو کیونکہ جبرئیل علیہ الصلوة السلام نے مجھے یہ دعائیں سکھائیں اور کہاکہ سجدہ میں یہ مکرر سہ کرر پڑھی جائیں '' ( ماثبت بالسنة ص ١٧٣ )
شب ِبراء ت میں کن لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی ؟
بہت سی حدیثوں میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ کچھ بد نصیب لوگ ایسے ہیں کہ اس برکت والی رات میں بھی رحمت ِخداوندی سے محروم رہتے ہیں اور ان پر نظر عنایت نہیں ہوتی ! ذیل میں ایسے بدقسمت لوگوں کی فہرست پیش کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو : (١) مشرک(٢)جادوگر (٣)کاہن ونجومی(٤ ) بغض اور کینہ رکھنے والا (٥)جلاد(٦)ظلم سے ٹیکس وصول کرنے والا (٧)باجا بجانے والا اور ان میں مصروف رہنے والا (٨) جوا کھیلنے والا (٩) ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا (١٠) زانی مرد وعورت(١١) والدین کا نافرمان (١٢) شراب پینے والا اور اس کا عادی (١٣) رشتہ داروں اور مسلمان بھائی سے ناحق قطع تعلقی کرنے والا
یہ وہ بدقسمت لوگ ہیں جن کی اس بابرکت رات میں بھی بخشش نہیں ہوتی اور رحمت ِخداوندی سے محروم رہتے ہیں اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنے گریبان میں منہ ڈالے اور غور وفکر کرے کہ کہیں ان عیبوں میں سے میرے اندر کوئی عیب اور برائی تو نہیں ! ؟ اگر ہو تو اس سے توبہ کرے اور حق تعالیٰ کی طرف رجوع کرے ،یہ خیال نہ کرے کہ میرے اتنے اور ایسے گناہ کیسے معاف ہوں گے، یہ شیطانی خیال ہے ! !
پندرہویں شعبان کے روزہ کا حکم :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیتے تھے،خاص طورپر پندرہویں شب کے روزے کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ''جب شعبان کی پندرہویں شب آئے تو رات کو قیام کرو (یعنی نمازیں پڑھو) اور (اگلے)دن کا روزہ رکھو'' ( ابن ماجة )
شب ِبراء ت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کن کاموں سے بچنا چاہیے ؟
(١) اس رات میں قیام کرنا یعنی نوافل پڑھنا مستحب ہے (٢) قبرستان جانا اور مسلمان مرد وزن کے لیے ایصالِ ثواب کرنا مستحب ہے (٣) اگلے دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے ! !
اِس شب میں صلٰوة التسبیح پڑھیں ،تہجد پڑھیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ عشاء اور فجر کی نماز ضرور جماعت کے ساتھ ادا کریں ،ایسا نہ ہو کہ نفلوں میں تو لگے رہیں اور فرائض چھوٹ جائیں ! !
حضور علیہ الصلٰوة والسلام اکیلے قبرستان گئے تھے اس لیے اکیلے جائیں اور صرف مرد جائیں عورتیں نہ جائیں ،عورتوں کا قبرستان جانا جائز نہیں ! !
بہترہے کہ شعبان کی ١٣، ١٤ اور ١٥ تینوں دن کے روزے رکھ لیے جائیں انہیں اَیَّامِ بِیْضکہتے ہیں اور ان دنوں میں روزہ رکھنے کا بہت ثواب ہے ! !
اس شب میں آتش بازی ہرگزنہ کی جائے اس کاسخت گناہ ہے اور یہ ہندوئوں کا کام ہے نہ کہ مسلمانوں کا، چراغاں نہ کیا جائے کیونکہ اوّل تو یہ شریعت سے ثابت نہیں دوسرے اس میں اسراف ہے، بہت سے لوگ اس شب میں بجائے عبادت کے حلوے مانڈے میں مصروف ہوجاتے ہیں ، شریعت سے اس شب حلوہ وغیرہ پکانے کا کوئی ثبوت نہیں ، بہت سے لوگ مسجد میں اکٹھے ہو کر شوروغوغا کرتے ہیں اس سے بچا جائے اس کا سخت گناہ ہے، بہتر یہ ہے کہ نفلی عبادت خفیہ کی جائے کہ دوسرے کو پتہ نہ چلے ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام اس شب میں اس طرح مسجد میں اکٹھے نہیں ہوتے تھے سب اپنے گھر و ں میں ہی عبادت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
٭٭٭
جامعہ مدنیہ جدید میں تقریب تکمیلِ بخاری شریف
( مولانا محمد حسین صاحب ،مدرس جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
باسمہ سبحانہ
''صُفہ ''اسلام کا پہلا مدرسہ ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے ہجرت کے بعد قائم فرمایا اور اصحابِ صُفہ اس کے پہلے طلبائِ علوم تھے اور حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم اس کے پہلے مُعلِّم تھے ''جامعہ مدنیہ جدید '' کے دارالحدیث سے بلند ہونے والی صدا قَالَ اللّٰہُ وَقَالَ الرَّسُوْلُ اسی سلسلے کی ایک کرن ہے ! جامعہ مدنیہ جدید صرف ایک علمی ادارہ نہیں بلکہ کلمہ حق کی بلندی کے لیے ایک اصلاحی اسلامی تحریک بھی ہے ! ادارہ ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر قرآن و حدیث کے علوم اور ائمہ کرام کے فقہی اصولوں کی اشاعت کے ذریعے علم کی روشنی پھیلا رہا ہے !
جامعہ مدنیہ جدید کے قیام کا مقصد قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت، فقہی اصولوں کا تعارف ، مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تہذیب سے آراستہ کرنا، زندگی کے تمام شعبوں میں ایسے ماہر علماء اور مفکرین تیار کرنا جو علیٰ وجہ البصیرت دعوت و تبلیغ اور تحقیق کا کام کر سکیں !
جامعہ مدنیہ جدید روزِ اوّل سے ہی تعلیمی، تبلیغی اور تربیتی بنیادوں پر قائم ہے جامعہ سے متصل خانقاہِ حامدیہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ باطنی و اخلاقی اصلاح و تربیت کا بھی بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لیے باقاعدہ خانقاہی نظام قائم ہے ! اس کے علاوہ جدید علوم سے بھرپوراستفادہ کے لیے بھی مختلف شعبہ جات قائم ہیں جو جامعہ مدنیہ جدید کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم کی زیر نگرانی و سربراہی میں خوب کام کر رہے ہیں ، والحمد للّٰہ !
تکمیل بخاری شریف کی اکسٹھویں تقریب١٥رجب١٤٤٦ھ/١٦جنوری٢٠٢٥ء بروز جمعرات جامعہ کی مسجد ِ حامد، شارع رائیونڈ لاہور میں منعقد ہوئی ،بانی ٔ جامعہ مدنیہ جدید قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللّٰہ علیہ کی خواہش اور ارادے کی مرحلہ وار تکمیل کا عمل تیزی سے جاری ہے ، صرف بیس برس میں جامعہ سے ایک ہزار چار سو چھیاسی(١٤٨٦) علماء سند ِفضیلت حاصل کرکے ملک و بیرون ملک مختلف علاقوں میں دینی خدمات میں مصروف ہیں ، والحمد للّٰہ !
آج حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم کی زیر صدارت دورۂ حدیث شریف کے طلباء کو بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھانے کے لیے محفل منعقد کی گئی۔
مسجد ِ حامد کے وسیع ہال میں طلبہ ٔ دورہ حدیث سروں پر عمامے باندھے صحیح بخاری شریف اپنے سامنے تپائیوں پر سجائے اسٹیج کے سامنے موجود تھے اور اسٹیج کے دائیں اور بائیں اساتذہ اور مشائخ کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا، مسجد کا وسیع و عریض ہال طلباء اور مہمانوں کے اژدحام کی وجہ سے اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تنگ پڑ گیا، اساتذۂ کرام کی زیر نگرانی نظم و ضبط دیدنی تھا، چاق و چوبند طلباء کی ایک جماعت مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے مسجد کے مرکزی دروازہ پر موجود تھی، گاڑیوں کی سلیقے سے پارکنگ کروانے کے لیے طلباء کی ایک فعال جماعت موجود تھی اور مسجد کے داخلی دروازہ پر جامعہ کے شعبہ مالیات کا اسٹال موجود تھا، مسجد کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمة اللّٰہ علیہ اور بانی جامعہ قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سیّدحامد میاں صاحب رحمة اللّٰہ علیہ کے ملفوظات سے مزین فلیکس اور بیرونی دیواروں پر طلباء کی طرف سے معزز مہمانوں کے لیے استقبالیہ فلیکس آویزاں تھے ! !
تقریب کا باقاعدہ آغاز دوپہر گیارہ بجے تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، تلاوت قرآن کی سعادت کراچی سے آئے ہوئے حافظ قاری فرید احمد صاحب شریفی مدظلہم نے حاصل کی، بعد ازاں حمدو نعت ِرسول مقبول صلی اللہ عليہ وسلم جامعہ کے سابقہ طالب علم شیراز احمد صاحب نے پیش کی ، جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولوی عمر فاروق صاحب نے جامعہ مدنیہ جدید اور بانی ٔ جامعہ سے متعلق اشعار پیش کیے، دورۂ حدیث کے فاضل مولوی عمار عارف صاحب نے انگریزی زبان اور فاضل مولوی عبیداللہ گادھی نے عربی اور فاضل مولوی شعیب علی نے اردو میں مدرسہ کی اہمیت وضرورت پر تقاریر کیں ! !
جمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کے امیر دار العلوم مدنیہ کے مہتمم شیخ الحدیث حضرت مولانا محب النبی صاحب بھی تمام وقت اسٹیج پر رونق افروز رہے۔
فاضل جامعہ مدنیہ استاذ الحدیث حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب مدظلہم نے نہایت جامع بیان فرمایا !
فاضل و استاذ الحدیث جامعہ مدنیہ حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مدظلہم نے علم حدیث کی اہمیت پر بیان فرمایا
بعد ازاں استاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتہم کا اصلاحی بیان ہوا حضرت مولانا حافظ نصیر احمد صاحب احرار مدظلہم جنرل سیکرٹری جمعیة علماء اسلام پنجاب نے بانی جامعہ کی دینی اور علمی خدمات پر روشنی ڈالی ! بعد ازاں شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے طلباء کو بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھائی اور سیر حاصل تقریر فرمائی ! !
اس سال دورۂ حدیث سے فارغ التحصیل ہونے والے ساٹھ طلبائِ کرام کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم اور تمام اساتذۂ کرام نے دستارِ فضیلت پہنائیں اس موقع پر طلباء اور ان کے والدین کی خوشی دیدنی تھی جامعہ مدنیہ جدیدکی طرف سے دستارِ فضیلت حاصل کرنے والے تمام طلباء کو قیمتی کتب تحفہ میں دی گئیں اور اعزازی لوح (شیلڈ )سے بھی نوازا گیا نیز اسباق کی حاضری میں صاحب ِ ترتیب طلباء کو حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے خصوصی انعامات سے نوازا !
اس بابرکت موقع پر حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے کئی طلباء کا نکاح بھی پڑھایا !
بعد ازاں راقم الحروف نے جامعہ مدنیہ جدید کا مختصر تعارف پیش کیا اور احباب کو توجہ دلائی گئی کہ جامعہ مدنیہ جدید و مسجد ِ حامد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ، اس ادارہ میں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانے پر جاری ہیں ، جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اہلِ خیر حضرات کی دعاؤں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی ترغیب دیجیے تاکہ صدقہ جاریہ کا سامان ہو !
جامعہ مدنیہ جدید میں مختلف شعبے کام کر رہے ہیں : شعبہ حفظ و ناظرہ( بنین وبنات )، تجوید و قرا ء ت ، درسِ نظامی، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الفقہ ، دارالافتائ، شعبہ عصری علوم (سکول)،شعبہ کمپیوٹر (ابتدائی کمپیوٹر ڈولپمنٹ ، ربوٹکس اینڈ آٹومیشن) ، شعبہ نشر و اشاعت
(ماہنامہ انوارِمدینہ و مکتبة الحامد ) ، الحامد ٹرسٹ ، مستشفیٰ الحامد(ڈسپنسری) اورشعبہ برقیات ! !
انتظامیہ کی طرف سے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا گیا، بعد ازاں شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم کی رِقت آمیز دعا پر مجلس کا بخیر و خو بی اختتام ہوا ! !
تقریب کے اختتام پر آنے والے مہمانانِ گرامی کے لیے ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا
اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ،آمین !
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی امور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے
حضرت مولانا عبدالمجید بازار گئی رحمة اللہ علیہ
( مولانا محمد معاذ صاحب لاہوری، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
حضرت مولانا عبدالمجید بازار گئی کی ولادت ١٢٩٧ھ/١٨٨٠ء میں بمقام بامپوخہ بازار گئی علاقہ سالار زئی ضلع بونیر میں ہوئی، آپ کے والد ماجد کا نام سید احمد تھا آپ کا تعلق پٹھانوں کے مشہور قبیلہ یوسف زئی سے ہے ۔
بازار گئی بابا کی عمر چھ سال تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہوا ، آپ کے ماموؤں نے آپ کے گھریلوں معاملات کی ذمہ داری لی تو آپ تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔
حضرت بازار گئی بابا کے بڑے بھائی عبدالخالق صاحب تو رسک ضلع بونیر میں تعلیم حاصل کررہے تھے، صوبہ سرحد میں اس وقت شخصی مدارس تھے، علماء جس جگہ تشریف فرما ہوتے وہی مسجد ان کا مدرسہ قرار پاتی، تعلیم کی صورتحال بھی فنون کے اعتبار سے تھی کوئی علاقہ فقہ واصولِ فقہ میں مشہور ہے تو کوئی منطق و فلسفہ میں یگانہ روزگار اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ،اسی طرح کے ایک مدرسہ میں آپ کے بھائی فقہ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے،تو رسک اور اس کے بعدانغاپور کے مدرسوں میں بازار گئی بابا نے اپنے ان ہی بھائی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد آپ مختلف علاقوں چندہ خورہ ( سوات) ہشت نگر ،چکیسر وغیرہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے ١
حضرت بازار گئی بابا کی یہاں تک کی تعلیمی معلومات اتفاقی ہیں ، اس کے بعد تذکروں میں آپ کی تکمیلی تعلیم کے بارے میں سخت الجھاؤ ہے، اس بارے میں مرکزی موقف دو ہیں
١ حضرت مولانا عبدالمجید بازار گئی مولوی صاحب اور ان کے خاندان کے حالاتِ زندگی، مصنف : مولانا عتیق الرحمن بازار گئی بونیری (صاحبزادہ) فارغ التحصیل دارالعلوم اسلامیہ سیدوشریف طبع مارچ ٢٠٠٩ء مطبع فاران پرنٹنگ پریس سیدو روڈ مکان باغ مینگورہ ضلع سوات، صفحہ ٢٤
(١) آپ نے دورۂ حدیث دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے زمانہ صدارت میں کیا
(٢ ) آپ نے علوم و فنون کی تکمیل مدرسہ عالیہ فتح پوری دہلی میں کی اور دورۂ حدیث حضرت مولانا
سیف الرحمن صاحب کابلی سے مکمل کیا ۔
یہاں ہم ہر دو مؤقف اور ان سے متعلق معروضات پیش کرتے ہیں
(١) حضرت بازار گئی بابا کے صاحبزادے مولانا عتیق الرحمن صاحب آپ کی تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں
'' وہاں (شانگلہ ) سے فارغ ہو کر سیدھا دیوبند چلا گیا اور وہاں حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب سے دورۂ حدیث پڑھا اور سند حاصل کی ، دیوبند سے فراغت کے بعد گھر واپس آیا ١
الفاظ کے اختلاف کے ساتھ تقریباً یہی بات مولانا خلیل الرحمن حقانی کاکوری زید مجد ہم نے '' التنسیق '' کے خاص نمبر میں ٢ اور حضرت مولانا مغفور اللہ بابا جی مدظلہم نے صحیح مسلم کی اپنی درسی تقریر میں فرمائی ہے فرق اتنا ہے کہ مولانا مغفور اللہ صاحب نے دیوبند میں دورۂ حدیث پڑھنے کا زمانہ بھی متعین کیا ہے مولانا مغفور اللہ صاحب مدظلہم کی عبارت یہ ہے
''علم حدیث کے لیے برصغیر کی مشہور علمی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا وہاں پہنچ کر شیخ الہند حضرت علامہ محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ سے دورہ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی ،یہ ١٣٠٥ھ (١٨٨٨ئ) کا زمانہ تھا '' ٣
(٢) حضرت بازار گئی بابا کی فراغت سے متعلق دوسرا مؤقف خود بازار گئی بابا رحمہ اللہ ہی کا تحریر کردہ ہے
١ مولانا عبدالمجید بازار گئی مولوی صاحب اور ان کے خاندان کے حالاتِ زندگی صفحہ ٢٥ ٢ مجلہ'' التنسیق'' تذکرہ اکابر و مشائخ دارالعلوم اشاعت خصوصی بابت مارچ ٢٠١٩ء مضمون نگار مولانا خلیل الرحمن کاکوری صفحہ ٧٨
٣ تحفة الفہم لحل ما فی مسلم جلد اوّل افادات شیخ الحدیث مولانا مغفور اللہ بابا جی مطبع : مؤتمر المصنفین جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑا خٹک ضلع نوشہرہ پاکستان صفحہ ٣٢
آپ نے اپنے حالات محترم مولانا قاری فیوض الرحمن جدون مدظلہم کو خود تحریر فرما کر دئیے تھے جسے قاری صاحب نے اپنی کتاب ''علماء کی کہانی خود ان کی زبانی '' میں مَن و عَن شامل کیا تھا بازار گئی بابا اپنی اعلیٰ تعلیم اور فراغت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :
''اعلیٰ تعلیم مدرسہ فتح پوری میں حاصل کی اس کے علاوہ چکیسر اوربرسوات متفرق درس گاہوں میں حاصل کی اور دہلی میں بھی اساتذہ خاص کر مولانا سیف الرحمن صاحب صدر مدرس فتح پوری اور مولانا قطب الدین صاحب سے فیض یاب ہوا اور گو ناگر مولوی صاحب اور مولانا پُردل صاحب مدرس نعمانیہ دہلی وغیرہ سے فیض یاب ہوئے
مولانا سیف الرحمن ایک جامع عالم اور کابل میں امان اللہ خان نے بخارا کا سفیر بنایا تھا، مولانا قطب الدین صاحب اور مولانا پُردل صاحب جامع عالم البتہ منطق میں خاص مہارت رکھتے تھے، فراغت مدرسہ فتح پوری سے ہوئی ہے اور سند بھی وہاں حاصل کی '' ١
تجزیہ :
مولانا عبدالمجید بازارگئی کے دورۂ حدیث سے متعلق پہلامؤقف بالکل غلط ہے ،ذیل میں اس کی چند وجوہات ذکر کی جاتی ہیں :
(١) مولانا مغفور اللہ صاحب مدظلہم کے تحریر کردہ سال کو اگر درست مان لیا جائے تو اس وقت بازار گئی بابا کی عمر صرف آٹھ سال تھی ، آٹھ سال کی عمر میں تعلیم مکمل کر کے دورۂ حدیث مکمل کر لینا ناممکن ہے !
(٢ ) فہرست فضلاء دیوبند اور حضرت شیخ الہند کے زمانہ ٔصدارت کی سالانہ رودادیں راقم نے خود ملاحظہ کی ہیں ، اس میں ١٣٢٢ھ کے ایک سال میں مولانا عبدالمجید صاحب پشاوری کا ذکر تو ہے لیکن یہ بازار گئی بابا نہیں دوسرے مولانا عبد المجید ہیں جو موضع کالا گائوں صوابی کے رہائشی تھے ! ٢
١ ''علماء کی کہانی خود ان کی زبانی'' از ڈاکٹر قاری فیوض الرحمن جدون مطبع ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان ١٤٣٦ھ ص ٦٦
٢ تذکرہ علماء صوابی ، مصنف مولانا ضیاء اللہ جدون ، طبع ٢٠١٥ ء مطبع نواز خان جدون ریسرچ سنٹر گدون صوابی ٣٩٧
اس لیے بازار گئی بابا کی فراغت کا مدرسہ، مدرسہ عالیہ فتح پوری ہی ہے جو خود آپ ہی نے تحریر فرمایا ہے البتہ آپ کے تلامذہ کی خدمت میں جب حضرت شیخ الہند سے روایت کے متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے اجازت محضہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ سیدو شریف مدرسہ سے مجلہ '' التنسیق '' کا اپریل ٢٠١٩ء میں تذکرہ اکابر و مشائخ دارالعلوم طبع ہوا تھا اس میں آپ کی دونوں سندوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بہرحال شیخ الہند سے اجازت کا امکان ممکن ہے کیونکہ آپ کے استاذ گرامی مولانا سیف الرحمن کابلی حضرت شیخ الہند کی تحریک کے سرگرم رکن تھے ،تحریک سے متعلقہ امور کے مشورہ کے لیے فتح پوری کی مسجد میں حضرت شیخ الہند مولانا سیف الرحمان کابلی اور مولانا عبید اللہ سندھی جمع ہوتے تھے تو عین ممکن ہے کہ بازار گئی بابا نے اس وقت حضرت شیخ الہند سے اجازت حدیث حاصل کر لی ہو یا مولانا سیف الرحمن صاحب نے تبرکاً کچھ احادیث (شیخ الہند سے ) پڑھوادی ہوں حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی اپنی کتاب تحریک شیخ الہند میں لکھتے ہیں : اس سلسلے میں مولانا(شیخ الہند) دہلی بھی گئے اور فتح پوری مسجد دہلی کے مولوی سیف الرحمن اور عبید اللہ سے مشورہ کیا'' ١
مولانا عبدالمجید بازار گئی کی تعلیم سے فراغت کس سال ہوئی ؟ اس کی تحریری دستاویز تو نہیں ملی البتہ آپ نے فتح پوری میں جن اساتذہ سے استفادہ لکھا ہے اسے اور مولانا خان بہادر مار تونگی کی تحریر کا موازنہ کیا جائے تو آپ کا سال فراغت یا کم از کم فراغت کا زمانہ متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگا ! یہ بات پیش نظر رہے کہ مولانا مار تونگی اس وقت خود مدرسہ فتح پوری کے وسطی درجات کے طالب علم تھے یہ زمانہ ١٣٣٠ھ تا ١٣٣٣ھ تک ہے ذیل میں ہم مار تونگ بابا کے طویل انٹرویو کے وہ اقتباسات نقل کرتے ہیں جس سے زمانہ تعلیم اور مذکورہ اساتذہ میں تطبیق ہو جائے گی !
حضرت مولانا عبدالمجید بازار گئی نے مدرسہ عالیہ فتح پوری میں تین اساتذہ سے استفادہ لکھا ہے
١ ''تحریک شیخ الہند '' انگریز سرکار کی زبان میں ریشمی خطوط سازش کیس ، مرتبہ حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی
ناشر الجمعیة بک ڈپو گلی قاسم جان دہلی صفحہ ٢٠٢
(١) حضرت مولانا سیف الرحمن صاحب کابلی (٢) حضرت مولانا قطب الدین صاحب غورغشتوی
(٣) حضرت مولانا پُردل صاحب قندھاری (مدرس جامعہ نعمانیہ)
مولانا سیف الرحمن کابلی :
مدرسہ عالیہ فتح پوری آمد سے قبل مولانا سیف الرحمان کابلی ضلع ٹونک کے مدرسہ ناصریہ جامع مسجدقافلہ میں صدر مدرس تھے، یہیں سے آپ کو مدرسہ فتح پوری دہلی آنے کی دعوت دی گئی جسے آپ نے قبول کیا، مولانا مارتونگی بھی آپ کے فتح پوری آمد کے بعد یہیں تشریف لے آئے تھے، مولانا مارتونگی لکھتے ہیں ''یہ ١٣٣٠ھ کی بات ہے '' ١
گویا مولانا سیف الرحمن کابلی کی دہلی تشریف آوری ١٣٣٠ھ کے لگ بھگ کی ہے، اسی طرح آپ کی فتح پوری سے واپسی ١٣٣٣ھ کی ہے جس کی مختصر وضاحت یہ ہے
شعبان ١٣٣٣ھ / جون ١٩١٥ء میں تعلیمی سال مکمل ہوا حضرت شیخ الہندنے اپنی تحریک کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا مولانا سیف الرحمن کابلی ان دنوں مدرسہ عالیہ فتح پوری کے صدر مدرس تھے جبکہ مولانا عبید اللہ سندھی مدرسہ کے ایک کمرہ میں تعلیم اور تکمیل کے طلبہ کو حجة اللّٰہ البالغة پڑھاتے تھے ٢ تعلیمی سال کی تکمیل پر ان دونوں حضرات کی تشکیل ہوئی ،مولانا سیف الرحمن کابلی کو آزاد قبائل میں شمع آزادی روشن کرنے کے لیے روانہ کیا گیا، مورخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں دیوبندی اس تاریخی واقعہ کو یوں درج کرتے ہیں
''جون ١٩١٥ء میں مولوی سیف الرحمن جو فتح پوری مسجد میں استاد تھے اچانک غائب ہو گئے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شمال مغربی سرحد کو عبور کر کے آزاد علاقے میں پہنچ گئے ہیں وہ فوراً حاجی صاحب ترنگ زئی سے وابستہ ہو گئے'' ٣
١ ''مارتونگ بابا کی کہانی خود ان کی زبانی'' مؤلف : فضل ربی راہی دوسری اشاعت ٢٠٠٧ء ملنے کا پتہ : شعیب سنز
پبلشرز اینڈ بک سیلرز جی ٹی روڈ مینگورہ سوات صفحہ ٢١
٢ مارتونگ بابا کی کہانی ان کی اپنی زبانی صفحہ ٢٤ ٣ تحریک شیخ الہند صفحہ ١٧٠
اس حوالے سے معلوم ہوا کہ مولانا سیف الرحمن کابلی کا فتح پوری کی صدر مدرسی کا زمانہ تین سال ہے مولانا عبدالمجید بازار گئی بابا بھی اس موقع پر اپنے استاذ کے ساتھ تحریک میں شامل ہوئے تھے اس لیے آپ کی فراغت کا سال بھی قریباً ١٣٣٣ھ ہی بنتاہے۔
آپ کے باقی دو اساتذہ میں مولانا قطب الدین غورغشتوی بھی تین ہی سال مدرسہ فتح پوری میں رہے جبکہ مولانا پُر دل قندھاری کچھ عرصہ مدرسہ فتح پوری میں رہ کر مولانا سیف الرحمن کابلی کے ہوتے ہوئے ہی مدرسہ نعمانیہ دہلی واپس چلے گئے تھے ١
مولانا عبدالمجید بازار گئی بابا نے مدرسہ عالیہ فتح پوری میں فنون کی انتہائی تعلیم کے ساتھ ساتھ دورۂ حدیث بھی کیا مدرسہ عالیہ میں دورۂ حدیث شریف تنہا مولانا سیف الرحمن کابلی ہی پڑھاتے تھے مولانا خان بہادر مار تونگی فرماتے ہیں
'' مولانا سیف الرحمن اور مولانا قطب الدین صاحب ہر دو حضرات نے دورۂ حدیث قطب الارشاد مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی سے پڑھا تھا اور حضرت مولانا سیف الرحمن اس زمانہ میں مشاہیر محدثین میں سے تھے لہٰذا دورۂ حدیث کی کتابیں آپ ہی پڑھاتے (تھے ) ٢
مولانا سیف الرحمن کابلی سے سند ملنے کا مولانا بازار گئی نے خود لکھا ہے، ہمیں سند تو دستیاب نہ ہو سکی البتہ مولانا سیف الرحمن کابلی کا ایک مطبوعہ اجازت نامہ دستیاب ہوا ہے، یہ اجازت نامہ بظاہر آپ کے زمانہ قیام کابل کا لگتا ہے۔
مولانا سیف الرحمن کا یہ ایک ورقی اجازت نامہ کافی تفصیلی ہے اس میں مولانا کا اپنا تعارف ، طالب علم کا نام ، اجازتِ حدیث اور اپنی سندِ حدیث کے علاوہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی سے اوپر مصنفینِ صحاح تک صحاحِ ستہ کی اسناد درج ہیں ۔
١ مارتونگ بابا کی کہانی ان کی اپنی زبانی ( ملخص ) صفحہ ٢٠ تا ٢٥
٢ مارتونگ بابا کی کہانی ان کی اپنی زبانی صفحہ ٢٢
ہم یہاں پر اجازت سے متعلق اور ان کی سند حدیث سے متعلق حصہ نقل کرتے ہیں ، تفصیلی اجازت نامہ الثمر الینبع فی اجازات الصنیع ١ اور الاجازات الہندیة و تراجم علمائہا میں درج ہے ٢
مولا نا سیف الرحمن کابلی کے تعارف ، طالب علم کا نام اور اجازت سے متعلقہ عبارت یہ ہے
فیقول العبد الراجی الیٰ رحمة الرحمٰن المدعو سیف الرحمٰن ابن مرحوم غلام جان خان ابن مرحوم عبدالمؤمن خان الافغانی الدرانی العلیکوزائی نسبا والفشاوری الدوابی المنہروی مولدا والقندھاری الارغندی جدا والکابلی المہاجری مسکنا انہ قد قرأ علی واستمع عندی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الامہات الست المعروفة عند المحدثین بالاسانید المتصلة الٰی حضرات المصنفین رضوان اللّہ علیہم اجمعین ۔
وانی وان لم اکن اہلا لذلک ولا ممن یخوض فی تلک المسالک لاکن لما رأیت ان الاسناد من الدین وانہ من أثار السلف الصالحین اردّت ان اقتدیٰٔ بہدیہم واتشبہ بسیرتہم لأن من تشبہ بقوم فہو منہم فاجتُبہ الی مسئولہ واسعفتہ بمطلوبہ واجزتہ ان یروی عنی الامہات الست المعروفة عن المحدثین
آگے چل کر آپ اپنی سند لکھتے ہیں
وانی مصلتُ القراء ة والسماع والاجازة والخلافة للصحاح المذکورة عن الشیخ المفسر المحدث الفقیہ الحنفی مولانا رشید احمد السہارنفوری الجنجوہی وہو حصّل القراء ة والاجازة عن الشیخ عبدالغنی مجدّدی المہاجر المکی ۔ ( الاجازات الہندیة و تراجم علمائہا ج ٢ ص ١٠٠٦ )
١ الثمر الینبع فی اجازات الصنیع مؤلفة : ابو زکریا صالح بن سلیمان الحجی ، ثبت شیخ سلیمان
بن عبدالرحمٰن الصنیع مطبع : مرکز الملک الفیصل للبحوث والدراسات الاسلامیة سعودیة ریاض
طبع : ٢٠١٠ ء ص ٣٨٨
٢ الاجازات الہندیة و تراجم علمائہا مرتبة : شیخ عمر بن محمد سراج حبیب اللّٰہ
مطبع : مکتبة نظام یعقوبی بحرین طبع اوّل ٢٠٢٢ء ج ٢ ص ١٠٠٦
مولانا عبدالمجید بازار گئی کی فراغت کا زمانہ تحریک شیخ الہند کے عروج کا زمانہ تھا آپ تحریک شیخ الہند میں اپنے استاد مولانا سیف الرحمن کابلی کی سربراہی میں شریک ہوئے تھے آپ کی حیات کے اس اہم ترین واقعہ میں بھی شدید تاریخی الجھاؤ ہے جس سے زمانہ اور واقعات کا رخ یکسر بدل جاتا ہے۔
بازار گئی بابا کے تمام تذکرہ نگار اس عنوان پر متفق ہیں کہ آپ مدرسہ عالیہ فتح پوری سے تحریک شیخ الہند میں شامل ہوئے اور بونیر سے مجاہدین جمع کر کے حاجی صاحب ترنگ زئی کے لشکر میں شریک ہوئے مگر اس بات کو ذکر کرنے کے لیے جوواقعاتی انداز اختیار کیا گیا ہے وہ تاریخی طور پر یکسر غلط ہے آپ کے صاحبزادے مولانا عتیق الرحمن مدظلہم نے اسے تفصیلاً لکھا ہے ہم اس کا خلاصہ نکات کی صورت میں درج کرتے ہیں :
٭ مولانا عبدالمجید بازار گئی گاؤں میں کچھ سال تدریس کے بعد اپنے بھائی مولانا عبدالرحیم اور بیٹے مولانا ابراہیم ( صاحب فتاویٰ ودودیہ ) سے ملنے کے لیے رنگون گئے راستہ میں دہلی رکے مدرسہ عالیہ فتح پوری جانا ہوا وہاں کے مہتمم صاحب نے تدریس کے لیے اصرار کیا مدرسہ نے پیشگی تنخواہ بھی دی آپ نے رنگون سے واپسی پر تدریس کی حامی بھر لی، رنگون سے آپ نے مولانا ابراہیم صاحب کو ساتھ لیا اور ان کو اپنے ساتھ فتح پوری میں تعلیم دینے لگے۔
٭ دہلی سے آپ چٹا گانگ بنگلہ دیش تشریف لے گئے اور چند سال وہاں تدریس کر کے دوبارہ فتح پور آگئے
آپ کا دوبارہ فتح پوری قیام کے زمانے میں ترکی حکومت پر انگریزوں نے قبضہ کیا،یہاں سے آپ مولانا سیف الرحمن کابلی اور مولانا عبید اللہ سندھی جہاد کے لیے روانہ ہوئے ( یہ تحریک شیخ الہند کا دور تھا )
واقعات کی ان سطور میں الجھاؤ ہی الجھاؤ ہے ،اس کے سلجھاؤ سے قبل یہ بات ذہن نشین ہونی ضروری ہے کہ مذکورہ بالا تمام واقعات ہوئے ضرور ہیں مگر تقدیم و تاخیر کے ساتھ ! ذیل میں ہم نکات سے متعلق عرض کر کے واقعاتی و زمانی ترتیب قائم کرنے کی کوشش کریں گے ، ہم لکھ چکے ہیں کہ
٭ حضرت مولانا سیف الرحمن صاحب کابلی اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب سندھی جس زمانے میں قبائل اور افغانستان کی طرف مہاجر ہوئے ،یہ زمانہ جون ١٩١٥ء کا ہے ! ( تحریک شیخ الہند صفحہ ١٧٠)
٭ بازار گئی بابا کے تعلیمی تذکرہ میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ ١٣٣٠ھ تا ١٣٣٣ھ (١٩١٢ء تا ١٩١٥ء ) آپ مدرسہ فتح پوری میں بغرض تعلیم مقیم تھے !
ان نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے بازار گئی بابا کا اس زمانہ میں بغرض تدریس مدرسہ عالیہ فتح پوری میں قیام اور وہ بھی متعدد سال ناممکن ہے ۔
مولانا عتیق الرحمن صاحب کی عبارات کو دیکھا جائے تو بازار گئی بابا کی بازار گئی میں تدریس، فتح پوری میں اوّل مرتبہ تدریس ،بنگال کی چند سالہ تدریس ،پھر فتح پوری دوسری مرتبہ آمد اور پھر تحریک شیخ الہند میں شمولیت ان تمام مقامات کی سکونت میں جمع قلت پر بھی عمل کیا جائے تو یہ نو سال کا زمانہ بنتا ہے اس اعتبار سے آپ کا فتح پوری کا پہلا قیام کم از کم ١٩٠٧ء کے زمانہ میں بنتا ہے اس کے ساتھ ساتھ مولانا عتیق صاحب کا دعویٰ ہے کہ بازار گئی بابا گاؤں سے مولانا ابراہیم صاحب سے ملاقات کے لیے نکلے تھے جو رنگون میں زیر تعلیم تھے جبکہ آپ خود ہی مولانا ابراہیم صاحب کی تاریخ پیدائش ١٩١٤ء اور عمر چھ سال رنگون بغرض تعلیم جانا لکھتے ہیں ! ! !
یہ تاریخی اعتبار سے ایسی غلطی ہے جو تاریخ کے معمولی سے طالب علم سے بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتی ! معلوم نہیں یہاں واقعات اور تواریخ کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا ؟
اس سلسلے میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ درست حوالہ جاتی بات وہی ہے جس کو ہم درج کر چکے ہیں کہ تحریک ١٩١٥ء میں شروع ہوئی اور آپ اس وقت بحیثیت طالب علم مدرسہ عالیہ فتح پوری میں پڑھ رہے تھے رہا آپ کا مولانا ابراہیم صاحب سے ملاقات کے لیے رنگون جانا اور مدرسہ فتح پوری میں تدریس، یہ بعد کے دور کا واقعہ ہے یہاں ایک اور واقعہ کی تصحیح ضروری ہے واقعہ یہ ہے
مولانا عتیق الرحمن صاحب لکھتے ہیں :
''مسجد فتح پوری کے محراب میں مولانا سیف الرحمن مہتمم مدرسہ فتح پوری، مولانا سندھی صاحب اور بابا جی صاحب خفیہ مشورے کرنے لگے تاکہ کسی کو ان باتوں کی خبر نہ ہو'' ( مولانا عبدالمجید بازار گئی اور ان کے خاندان کے حالات ِزندگی ص ٣٥)
اس حوالے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عبدالمجید بازار گئی تحریک کی قابلِ ذکر اور اہم ترین شخصیت تھے اسی وجہ سے ان حضرات کے ساتھ خفیہ مشورے میں شامل رہے اگر ایسی بات ہوتی تو مؤرخِ ملت مولانا سید محمد میاں دیوبندی نے انڈین آفس انگلینڈ کے ریکارڈ سے جو تحریک شیخ الہند کتاب مرتب کی ہے اس میں اس اہم ترین موقع پر آپ کا تذکرہ ہونا ضروری تھا جبکہ مولانا سید محمد میاں صاحب فتح پوری کے واقعہ کو یوں نقل کرتے ہیں :
'' اس سلسلے میں مولانا ( محمود حسن دیوبندی شیخ الہند ) دہلی بھی گئے اور فتح پوری مسجد دہلی کے مولوی سیف الرحمن اور عبید اللہ سے مشورے کیے '' (تحریک شیخ الہند ص ٢٠٢)
درست بات یہی ہے کہ جس واقعہ کو مولانا عتیق الرحمن نقل کر رہے ہیں اس میں تیسری شخصیت حضرت شیخ الہند کی ہے جو تحریک کے سربراہ تھے جبکہ مولانا عبدالمجید بازار گئی بحیثیت متعلّم وہاں مقیم تھے آپ بعد میں اپنے استاد گرامی کے ساتھ بونیر کے مجاہدین کو لے کر حاجی صاحب ترنگ زئی کے لشکر میں شامل ہوئے اور تحریک کی ناکامی کے بعد بازار گئی ہی میں تدریس کرنے لگے۔
تحریک شیخ الہند کی ناکامی کے بعد آپ نے گاؤں ہی میں تدریس شروع کی ،کچھ ہی عرصے میں آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی، ابتداء ً آپ کی شہرت ریاضی، جیومیٹری، منطق و فلسفہ کی حد تک رہی قرب و جوار کے علاقوں باجوڑ دیر کوہستان بلوچستان بلکہ افغانستان تک کے لوگ آپ کے درس میں شامل ہوتے تھے طلبہ کا قیام علاقے کی مساجد میں ہوتا تھا درس کے وقت سب جمع ہوتے اور شام کو مساجد میں چلے جاتے ،طلبہ کے طعام کا بندوبست علاقے کی عوام کرتے تھے۔
کچھ عرصہ بازار گئی میں تدریس کے بعد آپ اپنے صاحبزادے مولانا ابراہیم صاحب سے ملاقات کے لیے نکلے جو ان دنوں رنگون میں اپنے چچا مولوی عبدالرحیم صاحب کے ساتھ زیر تعلیم تھے راستہ میں آپ دہلی رکے ، مادر علمی مدرسہ عالیہ فتح پوری بھی تشریف لے گئے یہ زمانہ کون سا ہے ؟ اب تک اس کی تعین نہیں ہو سکی البتہ اس قول کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مولانا ابراہیم صاحب چھ سال کی عمر میں بغرض تعلیم رنگون چلے گئے تھے جبکہ ان کی پیدائش ١٩١٤ء ہو تو یہ زمانہ ١٩٢٣ ء ، ١٩٢٤ء کا بنتا ہے، خیر مدرسہ والوں کی اس پیشکش کو آپ نے رنگون سے واپسی پر قبول کر لیا چنانچہ رنگون سے واپسی پر آپ فتح پوری میں تدریس میں مشغول ہو گئے اس کے بعد آپ کی تدریس کی مختصر سرگزشت خود ان ہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں
''پھر نوا ں کھالی بنگال میں مدرسہ کرامتیة میں مدرس ہوئے جو مولانا حسین احمد مدنی نے نواں کھالی کو مولانا عزیرگل بھیج کر دونوں وہاں مدرس رہے اور مردان میں بھی مدرس رہا،کاٹلنگ ( ضلع مردان ) میں بھی مدرس رہا اور وہاں تمام فنون کے کتب متفرق متفرق پڑھائے اور حالاً دارالعلوم اسلامیہ سیدو شریف میں ٢٦سال سے متفرق فنون پڑھاتا ہوں حالاً بخاری شریف ، شرح چغمینی ، بیضاوی شریف ، صدرا ، بست باب ، اُقْلَیْدَسْ وغیرہ وغیرہ پڑھاتا ہوں تمام فنون سے خصوصی ذوق ہے ١
مولانا عبدالمجید بازار گئی بنگال میں مولانا عزیر گل رحمہ اللہ کے ساتھ تدریس کو ذکر فرما رہے ہیں یہ زمانہ ١٣٤٥ھ کا ہے کیونکہ ربیع الاوّل ١٣٤٥ھ میں مولانا عزیر گل نے مولانا نافع گل کو ایک خط تحریر فرمایا تھا جو نواکھالی بنگال سے تھا جبکہ اس خط سے پچھلا خط محرم ١٣٤٥ھ میں راندیر سورت سے لکھا گیا تھا ٢
دارالعلوم اسلامیہ حقانیہ سیدو شریف آمد :
١٩٤٤ء میں بانی ریاست سوات میاں گل عبدالودود نے ریاست کی علمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دارالعلوم کا خاکہ بنایا، بادشاہ صاحب کے بہی خواہوں نے اس مدرسہ کی ترقی کے لیے مشورہ دیا کہ مارتونگ سے مولانا خان بہادر مار تونگی کو، ہوڈیگرام سے مولانا عبدالحلیم ہوڈیگرامی کو ، بازار گئی سے مولانا عبدالمجید بازار گئی کو اور چکسیر سے مولانا محمد نظیر چکسیری کو بلوایا جائے یہ حضرات اپنے اپنے علاقوں میں انفرادی درس قائم کیے ہوئے تھے اورسب ہی مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔
١ علماء کی کہانی خود ان کی زبانی صفحہ ٦٧
٢ روایت عزیز القدر سید سلیمان کا کا خیل سلمہ حفید مولانا نافع گل صاحب کا کا خیل
بادشاہ صاحب نے ان سب حضرات کو سیدو شریف بلایا اور تعلیم کا نظام ان حضرات کے سپرد کر دیا ،بادشاہ صاحب علم دوست آدمی تھے ان کے والد کو خود دینی علوم حاصل کرنے کا شوق دامن گیر ہوا تواس کے لیے بازار گئی بابا ہی کے عالی مرتبت فرزند مولانا ابراہیم صاحب کو اجمیر شریف کے مدرسہ سے بلوایا گیا ، بادشاہ صاحب نے ان سے علوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی اور قضا کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پشتو زبان میں عام فہم مسائل کی کتاب '' فتاوٰی ودُودیة '' لکھوائی ،دو تین سال بعد ١٩٧٠ء میں مولانا ابراہیم صاحب کا انتقال ہو ا تو مولانا عبدالمجید بازار گئی کی ڈیوٹی بادشاہ صاحب کی تعلیم وتربیت پر لگی ،صبح آٹھ سے بارہ بجے تک تو مستقل سبق کا وقت ہوتا تھا اس کے بعد جب بھی بادشاہ صاحب کو ضرورت محسوس ہوتی آپ سے فون پر مسائل دریافت کرلیتے تھے ،بادشاہ صاحب کی تعلیم کی ذمہ داری سے جو مختصر وقت بچتا آپ اپنے چھوٹے صاحبزادے مولانا عتیق الرحمن مدظلہم کی تعلیم وتربیت میں صرف کرتے۔
شعبہ تعلیم میں آپ واپس کب منتقل ہوئے اس کے متعلق کوئی صریح معلومات تو نہیں ملیں البتہ اندازہ ہے کہ مولانا عبدالحلیم ہوڈیگرامی کے انتقال ١٩٦٥ء کے بعد ان کے اسباق صحیح مسلم، سنن ابی داؤد وغیرہ آپ کے پاس منتقل ہوئے تھے اس وقت سے ریٹائرمنٹ تک آپ شعبہ تعلیم ہی میں رہے ١٩٧٠ء میں حضرت مولانا خان بہادر مار تونگی کی ریٹائرمنٹ کے بعد آپ سیدو شریف مدرسے کے صدر مدرس رہے ، اس منصب پر رہتے ہوئے آپ نے بخاری شریف اور دیگر کتب کی تدریس کی۔ آپ سیدو شریف مدرسہ کے دو سال صدر مدرس رہے جبکہ اس کے بعد بھی کئی سال تک آپ مسلسل تدریس سے وابستہ رہے ۔
علمی سلسلہ :
مولانا عبدالمجید بازارگئی کا علمی فیض ہر اعتبار سے چہار دانگ عالم میں عام ہوا بالخصوص آپ کی سند حدیث صحیح مسلم کے ذریعے جس قدر عام ہوئی شاید بخاری شریف کی سند بھی اتنی عام نہیں ہوئی، حضرت مولانا مغفور اللہ صاحب مدظلہم نے مولانا عبدالحلیم ہوڈیگرامی کے انتقال کے بعد صحیح مسلم کتاب الطہارة آپ سے پڑھی ، مولانا مغفور اللہ صاحب مدظلہم ١٤٠٣ھ سے اب ١٤٤٦ھ تک مسلسل مسلم شریف پڑھا رہے ہیں ، دارالعلوم حقانیہ میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں علماء آپ سے براہِ راست مسلم شریف پڑھتے ہیں ۔اسی طرح آپ کا بالواسطہ سلسلہ سند بھی بہت سے مدارس میں چل رہا ہے راقم کا سلسلہ سند بھی مسلم شریف ہی کے ذریعے آپ سے متصل ہے سلسلہ سند یہ ہے
مولانا مفتی محمد عقیل عن مولانا مغفور اللّٰہ باباجی عن مولانا عبدالمجید بازارگئی
حضرت مولانا عبدالمجید بازار گئی تقریباً ١٩٨٠ء کے بعد سیدو شریف سے بازار گئی واپس تشریف لے آئے درس و تدریس کا سلسلہ یہاں بھی چلتا رہا آپ نے اپنی ذاتی زمین میں ایک مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ سالار زئی کی بنیاد رکھی جو آپ کی حیات ہی میں علاقہ کا بہترین مدرسہ شمار ہوتا تھاآپ کی وفات ١٩٩٠ء میں ١١٠ سال کی عمر میں ہوئی آپ کی وفات کا واقعہ بھی عجیب ہے
حضرت بازار گئی بابا کے حفید اور مولانا عتیق الرحمن صاحب کے صاحبزادے رشید احمد صاحب کی روایت ہے کہ جس رات وفات ہوئی، دن کو مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میری قبر فلاں جگہ بنانا، میری وفات کا وقت قریب ہے ، تمہارے والد عتیق الرحمن مردان سفر پر ہیں ان کو تنگ نہ کرنا، مولانا عتیق الرحمن صاحب کا فرمانا ہے کہ صاحبزادے نے مجھے یہ بات بتائی، میں رات بابا جی سے ملنے گیا تو مجھے پہچانا اور سفری حالات سنے ، میں مطمئن ہو کر کمرے سے آگیا مگر رات کے آخری پہر آپ کا انتقال ہو گیا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
مولانا عبدالمجید بازار گئی بابا کی وفات٢١ جنوری ١٩٩٠ئ/ ٢٢ جمادی الاخر ١٤١٠ھ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ہوئی ، اگلے دن آپ کے شاگرد رشید اور رفیق حضرت مولانا رحیم اللہ صاحب کوہستانی کی امامت میں ایک جم غفیر نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی آپ کی تدفین مقبرہ شوان بازار گئی میں ہوئی
رحمہ اللّٰہ رحمةً واسعةً
٭٭٭
مقالاتِ حامدیة
قرآنیات
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر
حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ
خلیفہ و مجاز شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
بانی جامعہ مدنیہ جدید و جامعہ مدنیہ قدیم و خانقاہِ حامدیہ
و سابق امیرِ مرکزیہ جمعیة علماء اسلام
تخریج ، نظرثانی و عنوانات
حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم
رئیس و شیخ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید و سجادہ نشین خانقاہِ حامدیہ
٭
( قیمت : 500 )
'' خانقاہِ حامدیہ '' متصل جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد ١٩کلومیٹر شارع رائیونڈ لاہور پاکستان
رابطہ نمبر : + 92 333 4249302 _ + 92 323 4250027
آن لائن رقم بھیجنے کے لیے
JazzCash Number + 92 304-4587751
امیرجمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
سفر روداد جنوبی پنجاب :
( بقلم مولاناانعام اللہ صاحب، ناظم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٥ جنوری بروز بدھ امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم حافظ طارق مسعود صاحب مدظلہم مہتمم جامعہ علوم الشریعہ ساہیوال کی دعوت پر ختم بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کے لیے دوپہر ایک بجے جامعہ مدنیہ جدید سے روانہ ہوئے عصر کے قریب جامعہ علوم الشریعہ پہنچے جہاں حضرت صاحب کا بھرپور استقبال کیا گیا وقت کی تنگی کی وجہ سے حضرت صاحب فوراًاسٹیج پر تشریف لے گئے، آپ نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیتے ہوئے حدیث کی اہمیت کے موضوع پر بیان فرمایا !
بیان کے بعد فضلاء کرام کی دستار بندی فرمائی اور امت ِ مسلمہ اور پوری انسانیت کے لیے
دعائے خیر فرمائی، اس کے بعد حافظ طارق مسعود صاحب مدظلہم کی رہائشگاہ پر رات کا کھانا تناول فرمایا اس موقع پر جمعیة علماء اسلام پنجاب کے جنرل سیکرٹری حضرت مولاناحافظ نصیر احمد صاحب احرار بھی موجود تھے بعد ازاں حافظ طارق مسعود صاحب مدظلہم نے امیر پنجاب کی جامعہ میں تشریف آوری پر انتہائی خوشی اور محبت کااظہار فرمایا۔ حضرت صاحب نے جامعہ علوم الشریعہ کے مہتمم صاحب سے اجازت چاہی اور حضرت مولانا حافظ نصیر احمد صاحب احرار کے ہمراہ چیچہ وطنی کے لیے روانہ ہوئے رات نو بجے مدرسہ الشیخ زکریا للبنات پہنچے دھند کی وجہ سے کافی دیر ہوچکی تھی اس لیے حضرت صاحب نے بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھائی اور عاجزی کے موضوع پر انتہائی پر اثر بیان فرمایا !
رات کا قیام جامعہ سراج کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ظفر اقبال صاحب کے اصرار کے پر ان کی رہائشگاہ پر فرمایا ،صبح ناشتے کے بعد حضرت صاحب نے حضرت مفتی صاحب سے اجازت طلب کی اور وہاڑی میں سالانہ تکمیلِ قرآن کریم کی تقریب میں شرکت کے لیے چیچہ وطنی سے روانہ ہوئے دوپہر گیارہ بجے وہاڑی پہنچے جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل اور حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم کے خلیفہ مجاز مولانا مصعب صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حضرت صاحب کا شاندار استقبال کیا
جامع مسجد نور میں حضرت صاحب نے اپنے بیان میں موجودہ حالات میں سیاست اور مذہب کی اہمیت کے موضوع پر خصوصی خطاب فرمایا ، دعا سے پہلے حفظِ قرآن کے طلباء کرام کے سر پر دست ِ شفقت رکھا،بیان کے بعد جمعیة علماء اسلام کے مقامی حضرات نے حضرت صاحب سے ملاقات کی اور ١٤ جنوری استحکامِ پاکستان جلسے کے حوالے سے کوششوں اور ملاقاتوں کی کار گزاری سنائی جس پر امیر پنجاب نے اطمینان کا اظہار فرمایا اور ان کی محنت کو سراہا۔ نمازِ ظہر کے بعد امیر پنجاب نے اجازت چاہی اور واپس لاہور کے لیے روانہ ہوئے رات آٹھ بجے بخیروعافیت جامعہ پہنچے، والحمد للّٰہ
٩ جنوری بروز جمعرات امیر پنجاب، مفتی محمدبن مولاناعبدالرحمن کی دعوت پر سالانہ جلسہ جامعہ عربیہ حفظ القرآن کی تقریب میں شرکت کے لیے دوپہر ایک بجے جامعہ مدنیہ جدید سے کہروڑ پکا کے لیے روانہ ہوئے نماز مغرب کے وقت کہروڑ پکا شہر میں داخل ہوئے، جمعیة کے جیالوں نے میلسی چوک کہروڑ پکا پر امیر پنجاب کا پرتپاک استقبال کیا اور قافلے کی صورت میں جامعہ عربیہ حفظ القرآن تشریف لے گئے جہاں قرب وجوار سے آئے ہوئے علماء کرام نے امیر پنجاب سے ملاقاتیں کیں ، مختصر قیام کے بعد سیٹھ ریاض بشیر صاحب کی رہائشگاہ پر عشائیہ کے لیے تشریف لے گئے۔
بعد ازاں کھانے سے پہلے مختصر پریس کانفرنس ہوئی امیر پنجاب نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہایت خوبصورت انداز میں دیے، رات کا قیام جامعہ عربیہ حفظ القرآن میں کیا۔
اگلے روز صبح ناشتہ کے بعد مدرسہ باب العلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانامنیر احمد صاحب منور مدظلہم نے حضرت صاحب سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی اور مختلف امور پر گفتگو فرمائی ۔ امیر پنجاب نے کہروڑ پکا کی جامع مسجد میں جمعہ کا بیان فرمایا چونکہ جلسے کی تقریب شروع ہوچکی تھی اس لیے حضرت صاحب جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے امیر پنجاب نے جلسہ کے شرکاء سے امت مسلمہ کو درپیش مسائل سے روشناس کرایا، خطاب کے بعد سفرلمبا ہونے کی وجہ سے امیر پنجاب نے مفتی محمد بن عبدالرحمن صاحب سے اجازت چاہی اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔
بعد ازاں جمعیة علماء اسلام وہاڑی کے صدرمولانا طارق محمد صدیق صاحب نے امیر پنجاب سے دنیا پور کے مقام پر ملاقات کی اور ١٤ جنوری جلسے میں شرکت کی خصوصی دعوت دی۔
مختصر ملاقات کے بعد امیر پنجاب لاہور کے لیے روانہ ہوئے دھند کی وجہ سے رات مدرسہ فیض عام سمندری میں گزاری اور اگلی صبح ساڑھے گیارہ بجے بخیرو عافیت واپس جامعہ پہنچے، والحمد للّٰہ
سفر روداد ملتان و پشاور :
(بقلم مولانا عکاشہ میاں صاحب)
٭٭٭
١٣ جنوری کو امیر پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم صبح ساڑھے نو بجے جامعہ مدنیہ جدید سے ملتان کے لیے روانہ ہوئے ،دوپہر بعد نمازِ ظہر حضرت صاحب جامعہ قاسم العلوم ملتان پہنچے جہاں حضرت نے بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھائی اور طلباء وعوام الناس سے خطاب فرمایا، بعد ازاں حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے ملاقات فرمائی اور بعد نمازِ عصر ملتان سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے ،رات بعد نماز ِ عشاء بخیروعافیت جامعہ مدنیہ جدید پہنچے والحمد للّٰہ۔
١٧ جنوری کو امیر پنجاب دوپہر بعد نماز ظہر لاہو ر سے پشاور کے لیے روانہ ہوئے جہاں قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم کے بھانجے مولانا عادل محمود صاحب کے ولیمہ میں شرکت فرمائی، بعد ازاں حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم ،حضرت صاحب کو اپنے ساتھ مفتی محمود مرکز پشاور لے گئے جہاں کئی گھنٹے کی نشست ہوئی ،مولانا لطف الرحمن صاحب اور سابق وزیر مذہبی امور مولانا اسعد محمود صاحب بھی موجود تھے رات کا قیام حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم کی خواہش پر وہیں فرمایا ۔
اگلے روز صبح ساڑھے گیارہ بجے حضرت صاحب پشاور سے سخاکوٹ کے لیے روانہ ہوئے سخاکوٹ پہنچ کر ظہر کی نماز ادا کی، نماز کے بعد اسیر مالٹا حضرت مولانا عزیز گل صاحب کا کا خیل رحمہ اللہ کے مزار پر حاضری دیتے ہوئے مانسہرہ کی طرف سفر جاری رکھا، مغرب کی نماز مانسہرہ میں ادا کی مانسہرہ میں حضرت صاحب کا استقبال حضرت مولانا مفتی ناصر محمود صاحب ڈپٹی جنرل سیکرٹری جمعیة علماء اسلام خیبر پختونخوا اور ان کے رفقاء نے کیا حضرت صاحب نے رات کا کھانا جامعہ معہد القرآن مانسہرہ میں تناول فرمایا اور رات کا قیام بھی مانسہرہ میں ہی فرمایا ۔
١٩ جنوری کو امیر پنجاب جامعہ عربیہ سراج العلوم(جدید) مانسہرہ کے مہتمم حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب مدظلہم کی دعوت پر جامعہ کی سالانہ دستار بندی کی تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے جہاں آپ نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا سبق پڑھایا ، دوپہر مانسہرہ سے روانہ ہوکر اسلام آباد اپنے میزبان بھائی خالد خان صاحب کے گھر پہنچے اور ان کے گھر قیام وطعام فرمایا اگلے روز صبح اسلام آباد سے لاہور کے لیے سفر شروع فرمایا اور دوپہر بخیروعافیت جامعہ پہنچے، والحمد للّٰہ
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭٭٭
١٥ رجب المرجب ١٤٤٦ھ /١٦ جنوری ٢٠٢٥ء بروز جمعرات جامعہ میں '' ختم بخاری شریف و دستار بندی ''کی پر وقار تقریب صبح گیارہ بجے شروع ہوکر عصر کے قریب اختتام پزیر ہوئی والحمد للّٰہ !
١٧ رجب المرجب ١٤٤٦ھ/١٨جنوری٢٠٢٥ء کوجامعہ مدنیہ جدید میں سالانہ امتحانات کا انعقاد ہوا اور٢٣ رجب المرجب ١٤٤٦ھ/٢٤ جنوری ٢٠٢٥ء سے جامعہ میں سالانہ تعطیلات ہو ئیں ۔
یکم شعبان المعظم١٤٤٦ھ / یکم فروری ٢٠٢٥ء کو امتحانی مرکز جامعہ مدنیہ جدید میں وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات منعقد ہوں گے بشمول جامعہ مدنیہ جدید کل180 طلباء شرکت کریں گے
٨ شعبان المعظم ١٤٤٦ھ /٨ فروری ٢٠٢٥ء بروز ہفتہ سے حسب ِسابق جامعہ مدنیہ جدید میں حضرت مولانا مفتی محمدحسن صاحب مدظلہم دورۂ صرف ونحو کا آغاز کریں گے ان شاء اللہ !
٨ شعبان المعظم ١٤٤٦ھ /٨ فروری ٢٠٢٥ء سے جامعہ مدنیہ جدید میں علماء و طلباء کے لیے جامعہ کے فاضل مولانا ذیشان صاحب چشتی کی زیر نگرانی''15 روزہ کمپیوٹر کورس'' کا آغاز ہوگا ان شاء اللہ !
دارالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
whatsapp : +92 321 4790560
وفیات
٭٭٭
خانوادۂ حامد میاں کو صدمہ
٭٭٭
سیّد الملة و مؤرخ الملة حضرت اقدس مولانا سیّد محمد میاں صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے،
بانی جامعہ مدنیہ جدید و سابق امیر مرکزیہ جمعیة علماء اسلام قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے بھائی، امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم کے چچا جناب سید شاہد میاں صاحب ١٧ رجب المرجب ١٤٤٦ھ / ١٨ جنوری ٢٠٢٥ء بروز ہفتہ دہلی ہندوستان میں نماز عصر کے دوران سجدہ کی حالت میں بعارضہ قلب انتقال فرما گئے ،
اگلے روز دس گیارہ بجے کے درمیان ان کی تدفین عمل میں آئی ! مرحوم نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ اور چار صاحبزادیاں چھوڑیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ، آمین
اہلِ ادارہ ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں ! !
٭ ٣١ دسمبر٢٠٢٤ء کو جمعیة علماء اسلام ضلع تلہ گنگ کے سرپرست حضرت مولانا الطاف الرحمن صاحب
مختصر علالت کے بعد انتقال فرما گئے اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی علمی ، دینی و اصلاحی خدمات کو قبول فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ، آمین
٭ ٣ جنوری ٢٠٢٥ء بروز جمعہ بعد نماز عشاء جامعہ مدنیہ جدید کے ناظم ڈاکٹر محمد امجد صاحب کے
ماموں زاد بھائی حافظ محمد سلیمان صاحب بوجہ عارضہ قلب اچانک وفات پاگئے
٭ ٩ جنوری کو جمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کے رکن جناب جمال عبدالناصر صاحب کی خالہ صاحبہ
وفات پاگئیں
٭ ١٠ جنوری کو مہتمم دارالعلوم مدنیہ و امیرمجلس تحفظ ختم نبوت بہاولپور حضرت مولانا عطاء الرحمن صاحب
انتقال فرماگئے
٭ ١٢ جنوری کو فاضل و سابق مدرس جامعہ مدنیہ مولانا حکیم محمد امین صاحب کے بڑے بھائی
حافظ محمد یونس صاحب اچانک وفات پاگئے
٭ ١٥ جنوری کو فاضل جامعہ مدنیہ مولانا شاہد ریاض صاحب کی خالہ صاحبہ کراچی میں انتقال فرماگئیں
٭ ٢٤ جنوری کو جامعہ مدنیہ جدید کے معاون ناظم مولانا عامر اخلاق صاحب کے خلیہ خسر قاضی دلشاد صاحب
راولپنڈی میں وفات پاگئے
٭ ٢٥ جنوری کو محترم میاں فرحان یونس صاحب کے والدحاجی محمد یونس صاحب لاہو ر میں وفات پا گئے
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین ! جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین !
جامعہ مدنیہ جدید کی ڈاکومنٹری
DOCUMENTARY OF JAMIA MADNIA JADEED
٭٭٭
جامعہ مدنیہ جدید کی صرف آٹھ منٹ پر مشتمل مختصر مگر جامع ڈاکومنٹری تیار کی جاچکی ہے جس میں جامعہ کا مختصر تعارف اور ترقیاتی و تعمیراتی منصوبہ جات دکھائے گئے ہیں قارئین کرام درجِ ذیل لنک پر ملاحظہ فرمائیں
https://www.youtube.com/watch?v=t8WJgaZGMFI&t=3s
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہِ حامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.