Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

2024 فروری‬

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ رجب المرجب ١٤٤٥ھ / فروری ٢٠٢٤ء شمارہ : ٢
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923354249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923354249302+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560
٭٭٭
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٧
حق پرستوں کا اعترافِ حق حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ١٠
میرے حضرت مدنی قسط : ٧ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٢٢
تربیت ِ اولاد قسط : ١١ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٢٦
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٢ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣١
یہودیوں کا بائیکاٹ کر کے اپنا ایمان بچائیں ! حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ٣٧
جامعہ مدنیہ جدید میں تقریب تکمیلِ بخاری شریف مولانا محمد حسین صاحب ٤٥
نتائج سالانہ امتحان دورہ حدیث شریف ٤٩
حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب اوڈیگرامی مولانا محمد معاذ صاحب ٥٣
امیر پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦٠
اخبار الجامعہ ڈاکٹر محمد امجد صاحب ٦٣
وفیات ٦٤




حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
٨ فروری ٢٠٢٤ء کو پاکستان میں قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی آمد آمد ہے بنگلہ دیش میں انتخابات ہوچکے ہیں پھر ہندوستان اور امریکہ بلکہ یورپ سمیت دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں پے دَر پے انتخابات کا انعقاد ہونے کو ہے !
موجودہ جمہوری نظام میں عوام کو پوری طرح بیوقوف بنا کر ریاست پر قابض مخصوص طبقہ اپنے مذموم مقاصد کی ترکیب و تحلیل کرتا رہتاہے اور بے چارہ عوام طبقہ اپنی خام خیال با چارگی پر جشن ِفتح مناتا ہے ! غلامی خواہ کیسی ہی ہو اُس کی زنجیریں توڑنا ہر غلام کا خواب ہوتا ہے مگر جدید جمہوریت کے مارے جدید غلام تو ایسا خواب بھی نہیں دیکھتے وہ تو مفتوح ہونے کے باوجود فتح کے زعم میں بغیر خواب دیکھے ہی ہوائی تعبیر کی بغلیں بجا رہے ہوتے ہیں ! !
کیسا بڑا المیہ ہے کہ اسلام جیسے بلندوبالا نظام کا حامل طبقہ بھی اپنے آپ کوعالمی سامراج کے ہاتھوں کھلونا بنائے ہوئے ہے ! ؟ جبکہ ایک صد سے بھی بڑھ کر اِن کے اپنے ہم وطن و ہم زبان مخلص علمائِ کرام اِن کو ان اندھیروں سے نکالنے کی تدبیریں کر بھی رہے ہیں اور چیخ چیخ کر اِن کو بتا بھی رہے ہیں مگر یہ ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کو تیار نہیں ہیں جبکہ ان ہی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور ان کو قائد تسلیم کر کے ان کی پیروی کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور ایسا نہ کرنا گناہِ کبیرہ ہے ! !
اسلام کا نظامِ قانون انتہائی سادہ ہے اگر کوئی چاہے تواِس کو اپنانا بہت ہی آسان ہے ! سابق امیر مرکزیہ جمعیت علماء اسلام قطب ِعالم حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ نے بہت آسان منصوبہ ( PLAN ) اس کے نفاذ کا قوم کے سامنے رکھا تھا ! اب انتخابات قریب ہیں اس لیے مناسب ہے کہ اِس بار پھر اِسے پیش کر کے اپنی جانب سے حجت تام کر دی جائے ! !
پاکستان میں آئین ِاسلامی کا نفاذ
اُس کا طریقہ ، اُس کے فوائد
٭٭٭
پاکستان میں اِسلامی آئین کے نفاذ کی نہایت آسان صورت یہ ہے کہ عدلیہ کے متوازی قاضی القضاة اور دیگر قاضی مقررکیے جائیں ! !
قاضی القضاة سپریم کورٹ کے درجہ کے ہوں گے اُس سے نیچے ہائی کورٹ کے درجہ کے اور اُن سے نیچے سیشن جج کے اور اُن سے نیچے مجسٹریٹ درجہ اَوّل کے ہم عہدہ ہوں گے ! !
ہر اُس جگہ جہاں مجسٹریٹ ہوتے ہیں ایک یا دو قاضی مقرر ہوں ! اور حدود ِ مملکت ِپاکستان
میں مدعی کو اِختیار دیا جائے کہ وہ چاہے شرعی فیصلہ لے لے اور اپنا قضیہ قاضی کے سامنے پیش کرے اور چاہے ملکی قانون (تعزیراتِ پاکستان) کے تحت فیصلہ لے ! !
شیعہ حضرات بھی اگر پسند کریں تو اُن کا قاضی بھی مقرر کردیا جائے جو اُن کی فقہ جعفری کے مطابق فیصلے دے جس پر کہ اکثر شیعہ متفق ہیں ! ! !
فوائد :
(١) خدا وند ِقدوس کا دیا ہوا قانون نافذ ہوگا تو رضائِ خدا وندی کے ساتھ وہ برکات حاصل ہوں گی جو اُن تمام ممالک ِ اسلامیہ کو حاصل ہیں کہ جہاں شرعی قوانین جاری ہیں ! !
(٢) لوگوں کو جان و مال اور عزت کاکامل تحفظ حاصل ہوگا ! ! !
(٣) سیاسی فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ پورے پاکستان کے تمام مخلص علماء بشمول جمعیة علماء اِسلام وغیرہ اس بات کے بعد حکومت کے دل سے معاون اور خیر خواہ ہوجائیں گے ! ! !
اس طرح حکومت کو اِستحکام حاصل ہوگا اور نیک نامی کے اعتبار سے یہ وہ کارنامہ ہوگا جو ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا اور جسے قیامِ پاکستان سے اب تک کوئی بھی انجام نہیں دے سکا ! ! !
(حضرت اقدس مولانا سید )حامد میاں غفرلہ




جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)




درسِ حدیث
٭٭٭
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
ندامت و اعتراف ِ گناہ پھر توبہ استغفار
(درسِ حدیث نمبر٦٢/٣٠٨)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَ اَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ !
حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ باری تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف اُن کی توبہ قبول فرمانے کے لیے ہر وقت ہی توجہ فرماتے ہیں ، اس بات کو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کلمات سے تعبیر فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ یَدَہ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیُٔ النَّھَارِ یعنی حق تعالیٰ اپنا دست ِ پاک رات کو بھی کھولے رکھتے ہیں تاکہ جس نے دن میں گناہ کیے ہیں وہ رات کو معاف کرا لے وَیَبْسُطُ یَدَہ بِالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیُٔ اللَّیْلِ اور دن کو بھی اپنا دست رحمت کھولے رکھتے ہیں تاکہ وہ شخص جس نے رات میں گناہ کیے وہ دن کو معاف کرالے، آگے فرمایا حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا ١ کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا(یعنی دست ِ رحمت کھلا رہے گا) یہاں تک کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو ، گویا انسان کے لیے توبہ کا دروازہ ہر دم کھلا رہتا ہے وہ ہر وقت اپنے خالق سے اپنی غلطیاں اور خطائیں معاف کرا سکتا ہے۔
١ مشکٰوة المصابیح باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٢٩
ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور ِ کائنات صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کے توبہ کرنے پر اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں کہ جس کی حالت ِ سفر میں چٹیل اور ویران میدان میں اُونٹنی گم ہوگئی تھی اُس اُونٹنی پر اُس کے کھانے پینے کا سامان بندھا ہوا تھا اور وہ تلاش کرتے کرتے مایوس ہو چکا تھا وہ پریشانی اور مایوسی کے عالم میں کسی درخت کے سایہ تلے لیٹ گیا اتنے میں دیکھا کہ اُونٹنی اُس کے پاس آگئی اور اُس نے اس کی نکیل تھام لی اور انتہائی خوشی میں آکر کہنے لگا اَللّٰہُمَّ اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ ١ اے اللہ ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں ! حالانکہ کہنا یوں چاہیے تھا کہ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ وَاَنَا عَبْدُکَ ، یا اللہ تو میرا رب میں تیرا بندہ ہوں ! مگر شدتِ خوشی میں اُس کے منہ سے غلط کلمات نکلے گویا حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے توبہ بہت بڑا ذریعہ ہے، اپنے گناہوں پر نادم ہونے اور دربارِ خدا وندی میں عجز کا دامن پھیلانے سے خداوند کریم بہت خوش ہوتے ہیں ! !
ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بندہ یہ کہتا ہے کہ خدا وندا ! میرا یہ گناہ معاف کردے تو خدا تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اُس کا کوئی پروردگار ہے جو اُس کو گناہ پر پکڑنے والا اور معاف کرنے والا ہے اس لیے میں نے معاف کر دیا ، اسی طرح جب وہ پھر گناہ کر لیتا ہے اور پھر نادم ہو کر معافی چاہتا ہے تو خدا وند کریم پھر فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اُس کا رب ہے جو اُس کی گرفت بھی کر سکتا ہے معاف بھی کرسکتا ہے اس لیے میں نے اُس کو معاف کردیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں فَلْیَفْعَلْ مَاشَائَ ٢ اب جو چاہے کرتا رہے !
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بار بار ندامت اور پشیمانی کے باعث اب اس پر میری نظرِ رحمت ہوگئی ہے میری رحمت ہر وقت اس کے شاملِ حال رہے گی جس کی وجہ سے یہ گناہ کرے گا ہی نہیں ! !
١ مشکٰوة المصابیح باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٢
٢ مشکٰوة المصابیح باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٣
ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ ١ یعنی جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کر لیتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے تو حق تعالیٰ اُس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں ! گویا بندے کا اعتراف کرنا ضروری ہے اگر کوئی دل سے گناہ کا اعتراف نہ کرے اور زبان سے توبہ توبہ کی رٹ لگائے رکھے تو ایسی توبہ سے کچھ حاصل نہ ہوگا ! گناہ معاف کرانے کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ گناہوں کا اعتراف بھی کرے اپنی غلطیوں کو پیش ِ نظر رکھے اپنی خطاؤں اور کوتاہیوں پر دل سے نادم بھی ہو اور آئندہ گناہ سے کنارہ کش رہنے کا عہد ِمصمم بھی کرے ! !
انسان سراپا تقصیر ہے اس سے کبھی نہ کبھی گناہ ہوہی جاتا ہے اگر گناہ نہ بھی ہو تو خطرہ ہوتا ہے کہ عبادت کرنے میں کوئی نہ کوئی کوتاہی ہوئی ہوگی اس لیے انسان کو ہر دم استغفار کرنا چاہیے ! ! !
اپنا محاسبہ :
انسان کے لیے ضروری ہے کہ ہر وقت اپنا احتساب کرے ! اپنی غلطیاں پکڑتا رہے ! اپنے عیوب پر نظر رکھے ! ایسا آدمی کامیاب اور خدا کے نزدیک پسندیدہ زندگی گزار سکتا ہے ! ! دنیا میں جو جس قدر متقی اور بلند مراتب والے ہوتے ہیں وہ اُتنے ہی زیادہ معافی کی طلب کرتے ہیں ! خود انبیاء علیہم السلام باوجود گناہوں سے پاک ہونے کے دربارِ خدا وندی میں گڑ گڑاتے اور استغفار کرتے، چونکہ توبہ اور استغفار اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اللہ کی خوشنودی کے متلاشی وہی کچھ کرتے ہیں جو اُسے پسند ہو ! اس لیے انبیاء علیہم السلام اور اسی طرح اُمت میں مقرب بندے کثرت سے استغفار کرتے رہے ہیں ! استغفار سے مراتب بلند اور خطائیں معاف ہوتی ہیں ! اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بخشے، آمین
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ فروری ٢٠١٨ ء بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ٣١مئی ١٩٦٨ئ)
٭٭٭
١ مشکٰوة المصابیح باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٣٠




سیرتِ مبارکہ
حق پرستوں کا اعترافِ حق
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
سرزمین ِ یَثْرِبْ میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا پہلا خطاب :
حُصَینُ بن سَلَام ایک یہودی عالم تھے مطالعہ نہایت وسیع، طبیعت انصاف پسند اور اپنی قوم کے معزز سردار تھے ! جو بشارتیں یہود کی کتابوں میں پڑھی تھیں ان کی بناپر آنے والے نبی کے منتظر تھے یہ اپنے باغ میں کام کر رہے تھے کہ خبر سنی ''اللہ کے نبی تشریف لے آئے'' ١ فوراً کام چھوڑ کر نبی کی زیارت کے لیے دوڑے جیسے ہی چہرہ ٔ مبارک پر نظر پڑی دل نے شہادت دی
اِنَّہُ لَیْسَ بِوَجْہٍ کَذَّابٍ ''جھوٹے آدمی کا چہرہ تو نہیں ہے''
١ بخاری شریف کی روایت ص ٥٥٦ کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ قبا میں نہیں بلکہ مدینہ میں حاضر خدمت ہوئے جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت ابو اَیوب انصاری کے یہاں قیام فرمالیا(مگر بخاری کے اُستاد ابن ِاسحاق نے تصریح کی ہے کہ آپ قبا میں قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں تھے اُس وقت عبداللہ بن سلام حاضر ہوئے۔ ( سیرة ابن ہشام ج١ ص ٣١٠)
اس لیے ہم نے اس واقعہ کو اِس موقع پر ذکر کردیا۔ حضرت ابو اَیوب کے یہاں پہنچنے پر دوسرا واقعہ ہوا۔ بخاری کے راوی صاحبان نے ان دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا تو اشتباہ ہوگیا کہ یہ واقعہ بھی حضرت ابو ایوب کے یہاں قیام کے دوران ہوا مگر حقیقت یہ نہیں ہے ابن ِاسحاق کی روایت جو صرف ایک واسطہ سے ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام مسلمان ہوگئے تو انہوں نے چاہا کہ یہود کی افترا پر دازی اور غلط بیانی کا تجزیہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو کرادیں چنانچہ ابھی عبداللہ بن سلام کے اسلام لانے کی شہرت نہیں ہوئی تھی کہ حضرت عبداللہ بن سلام کے اِصرار پر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے یہود کے نمائندگان کو بلاکر دریافت کیا کہ (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
آپ فرماتے ہیں :
اَنَّہُ کَانَ اَوَّلُ شَییئٍ تَکَلَّمَ بِہِ اَنْ قَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَ صَلُّوْا وَ النَّاسُ نِیَام تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ ۔ ( سُنن ترمذی ج٢ ص ٧١)
''سب سے پہلے جو بات آپ نے فرمائی وہ یہ تھی کہ اے لوگو سلام کا رواج عام کرو (پھیلاؤ) کھانا کھلاؤ اور اُس وقت نماز پڑھو جب لوگ سورہے ہوں اطمینان سے جنت میں داخل ہوجاؤ''
یہی حُصَینُ بن سَلَام ہیں جن کا اسلامی نام عبداللّٰہ بن سلام ہے ان کا سلسلۂ نسب حضرت یوسف علیہ السلام تک پہنچتا ہے ! ١
قباء سے مدینہ منورہ
جمعہ کے روز صبح سویرے مدینہ کے حضرات آراستہ ہوئے ٢ تلواریں سچائیں اور آقائے دوجہان کو اپنے یہاں لانے کے لیے قباء پہنچ گئے ! کچھ دن چڑھا تو تاجدار ِدو عالم صلی اللہ عليہ وسلم ناقہ قصواء پر
(بقیہ حاشیہ ص ١٠) حصین بن سلام کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے بہت تعریف کی اور کہا کہ سید بن سید،اعلم بن اعلم اور ہم میں سب سے بہتر ہیں لیکن جیسے ہی ان یہودی علماء کو معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہوچکے تو فوراً پلٹ گئے اور اسی مجلس میں کہہ دیا کہ یہ بھی جھوٹے ان کے باپ بھی جھوٹے ! یہ بھی بدترین انسان ہیں اور ان کے باپ بھی بدترین انسان تھے ! ( ابن ِہشام وبخاری شریف وغیرہ )
١ الا صابة ٢ مدت ِقیام میں اختلاف ہے چار روز، چودہ روز، اٹھارہ روز اور چوبیس روز تک کی روایتیں ہیں لیکن اس پر اتفاق ہے کہ قبا سے روانگی جمعہ کے روز ہوئی اور تشریف آوری پیر کے روز ہوئی تھی ! اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ قبا اور مدینہ دونوں جگہ نزولِ اجلال ربیع الاوّل کے مہینہ میں ہوا !
تو بظاہر تاریخوں کا تعین اس طرح ہوتا ہے کہ دولت کدہ سے روانگی یکم ربیع الاوّل دو شنبہ کے روز، غارِ ثور سے روانگی ٤ ربیع الاوّل پنجشنبہ، قبا میں تشریف آوری ١٥ ربیع الاوّل پیر کے روز، مدینہ منورہ میں تشریف آوری ٢٦ ربیع الاوّل یوم جمعہ واللّٰہ اعلم بالصواب ۔
سوار ہوئے ١ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو ساتھ بٹھایا (ردیف بنایا) ! ٢ تقریبًا پانچ سو مسلح انصاری کی دو صفیں دائیں بائیں ہوگئیں ٣ راستہ پر زیارت کرنے والے مردوں کا اور کوٹھوں اور چھتوں پر خانہ نشین خواتین کا ہجوم تھا ! جو مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ بھی دیدار کے لیے بیتاب تھے ! لڑکے اوربچے جوشِ مسرت میں نعرہ لگا رہے تھے !
اَللّٰہُ اَکْبَرْ جَآئَ مُحَمَّد اَللّٰہُ اَکْبَرْ جَآئَ مُحَمَّد ٤
یَثْرِبْاور اہلِ یثرب کے لیے اس سے زیادہ مسرت کا دن کون سا ہوسکتا تھا ؟ آج آسمانِ نبوت کا آفتاب زمین ِیثرب پر اُتر رہا ہے آج وہ نبی رونق افروز ہو رہا ہے جس کی بشارتیں کتب ِسابقہ کے صفحات میں اور اہلِ کتاب کی زبانوں پر عرصہ سے تھیں ! آج ہر طرف یہی صدا ہے یہی چرچا ہے
جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ اللہ کے نبی آگئے اللہ کے نبی آگئے ٥
چند مراحل اور اُونٹنی کا قصہ :
قبیلہ ٔبنی سالم تک پہنچے تھے کہ نماز کا وقت ہوگیا آپ نے جمعہ کی نماز یہیں ادا فرمائی ٦ نمازِ جمعہ کے بعد آپ سوار ہونے لگے تو قبیلہ والوں نے مہار تھام لی اور اِصرار کیا کہ آپ یہی قیام فرمائیں اس کے بعد حضرات ِانصار ( رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین ) کاجو قبیلہ بھی آتا رہا ٧ یہی اصرار کرتا رہا کہ غریب خانہ کو دولت خانہ بنائیے ! مکان حاضر ہے ! مال حاضر ہے ! جان حاضر ہے ! لیکن وہ رؤف رحیم جس کا دامن ِشفقت ہرایک کے لیے پھیلا ہوا تھا جس کو کسی کی دل شکنی گوارا نہیں تھی جس طرح اس کا پورا سفر
١ یہ وہی ناقہ ہے جس پر آپ نے سفر ہجرت طے فرمایا تھا۔ (ابن سعد) ٢ بخاری شریف ص ٥٥٦ ، ٥٦٠
٣ فتح الباری ج٧ ص ٦٠١ بحوالہ تاریخ صغیر للبخاری والبدایة و النہایة ج٣ ص ١٩٧ بحوالہ مسند احمد ٤ البدایة والنہایة ج٣ ص ١٩٧ ٥ بخاری شریف ص ٥٥٦
٦ ابن سعد ج ١ ص ١٦٠ ابن سعد نے نمازیوں کی تعداد سو لکھی ہے لیکن تاریخ، بخاری اور مسند احمد کی روایتوں کے بموجب اگر استقبال کے لیے جانے والوں کی تعداد پانچ سو تھی تو ظاہر ہے نمازِ جمعہ میں یہ سب ہی شریک ہوئے ہوں گے ! واللّٰہ اعلم بالصواب
٧ وفاء الوفاء میں اِن قبائل کی تفصیل ہے اور جو گفتگو ہوتی رہی وہ بھی نقل کی گئی ہے۔ (ج١ ص ١٨٤، ١٨٥)
غیبی اشاروں پر ہوا تھا ١ اُس کے اَرحم الرحمین رب نے یہاں بھی ایسی صورت کردی کہ رحمةللعالمین کی طرف سے کسی کی دل شکنی نہ ہو ! آپ نے خود ہی ناقہ کی مہار چھوڑ دی اور اِصرار کرنے والوں سے بھی یہی فرمایا کہ وہ مہار چھوڑ دیں ! یہ ناقہ مامور ہے جہاں بیٹھ جائے گی وہیں قیام ہوگا ٢
١ پہلے گزر چکا ہے کہ صحابہ کرام ہجرت کررہے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے منتظر تھے اورجب من جانب اللہ اِجازت ہوگئی تو آپ فوراً دوپہر ہی میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے یہاں پہنچے اور فرمایا کہ مجھے اجازت ہوگئی ہے فوراً ہی روانگی کاپروگرام بنالیا اور پھر یہ سفر ہی نہیں بلکہ دار ِہجرت کاتعین بھی الہامِ ربانی سے ہوا تھا جیساکہ پہلے گزر چکا ہے۔
٢ ابنِ سعد ج١ ص ١٦٠ و فتح الباری ج٧ ص ١٩٦ علامہ شبلی کویہ بات عجیب سی معلوم ہوئی آپ نے یہ واقعہ حذف کردیا ! میزبانی کے سلسلہ میں جو بحث ہوئی تھی صرف اُس کا ذکر فرمایا کہ قرعہ ڈالا گیا اور آخر یہ دولت ابو اَیوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی اور حاشیہ میں ناقہ کے واقعہ کی تردید کرتے ہوئے مسلم شریف کی ایک حدیث سے استدلال کیا جس میں راوی نے بہت اختصار سے کام لیا ہے اور لطف یہ ہے کہ قرعہ اندازی کا تذکرہ اس روایت میں نہیں ہے ! مزید براں اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم رات کومدینہ پہنچے فَقَدِمْنَا الْمَدِیْنَةَ لَیْلاً علامہ نے اس کو نظر انداز فرمادیا۔علامہ نے مسلم شریف کے باب الہجرة کاحوالہ دیاہے حالانکہ مسلم شریف میں باب الہجرة کوئی نہیں اس کا عنوان حدیث الہجرة ہے ! اور علمائِ محدثین کی اصطلاح میں اس کو حدیث الرجال بھی کہا جاتا ہے ! امام مسلم رحمہ اللہ نے جلد ثانی کے آخرمیں اس کو نقل کیا ہے۔ (ج٣ ص ٤١٩ )
اور واقعہ یہ ہے کہ بسلسلہ قیام چندمرحلے پیش آئے تھے ! مثلاً سب سے پہلے قبیلہ کاانتخاب،پھر قبیلہ میں وہ جگہ جہاں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم مستقل قیام فرمائیں یہاں مکان بنایا جائے یا مسجدبنائی جائے ؟ پھر مکان بننے تک عارضی قیام، عارضی قیام کے بعد کھانے وغیرہ کاانتظام ،اصطبل کا انتخاب جہاں سواری رکھی جائے !
ان تمام مرحلوں پر بحث ہوئی اور ہر ایک جاں نثار نے سعادت حاصل کرنی چاہی، بحث کے بعدمعاملہ طے ہوا، کبھی قرعہ سے کبھی الہامِ ربانی سے کبھی کسی اور صورت سے۔ آئندہ سطور میں یہ تمام مراحل ترتیب وار بیان کیے گئے ہیں ، وللّٰہ الحمد ۔
ناقہ چلتی رہی، یہاں تک کہ قبیلہ ٔ بنی نجار آگیا ! اس قبیلہ میں جب ناقہ اُس جگہ پہنچی جہاں مسلمان نماز پڑھاکرتے تھے تو ناقہ بیٹھ گئی ! آپ نے فرمایا ھٰذَا اِنْ شَائَ اللّٰہُ مَنْزِل ١ یہیں ان شاء اللہ قیام ہوگا (مکان بنے گا) ابھی آپ اُترے نہیں تھے کہ ناقہ کھڑی ہوگئی، کچھ چلی پھر آکر اُسی جگہ بیٹھ گئی اور اپنی گردن زمین پرپھیلادی ! ٢
بنی نجار کویہ سعادت میسر آئی تو بچہ بچہ کے دل کی کلی کھل گئی لڑکیوں نے فورًا ایک شعر موزوں کر لیا
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِیْ نَجَّار یَا حَبَّذَا مُحَمَّد مِنْ جَار
''ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں (یہ ہماری خوش نصیبی ہے ) کیسے اچھے پڑوسی ہیں
(کس قدر عجیب بات ہے )کہ محمد ہمارے پڑوسی ہیں '' ( صلی اللہ عليہ وسلم )
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اَزراہِ شفقت فرمایا ''تمہیں مجھ سے محبت ہے'' ؟ ؟
سب نے بیک زبان ہوکر کہا : اِیْ وَاللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ہاں خداکی قسم یا رسول اللہ ! ارشاد ہوا ٣
اَنَا وَاللّٰہِ اُحِبُّکُمْ اَنَا وَاللّٰہِ اُحِبُّکُمْ اَنَا وَاللّٰہِ اُحِبُّکُمْ
خداکی قسم مجھے بھی تم سے محبت ہے ! خداکی قسم مجھے بھی تم سے محبت ہے ! خداکی قسم مجھے بھی تم سے محبت ہے
قیام اور رشتہ دار :
اب قیام کا مسئلہ پیش ہوا ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ہمارے رشتہ داروں میں کس کا مکان قریب ہے ؟ ٤
١ بخاری شریف ص ٥٥٥ ٢ ابن ہشام ج ١ ص ٢٨٩ ٣ البدایة و النھایة ج ٣ ص ٢٢٠ بحوالہ بیھقی
٤ بخاری شریف ص ٥٥٦ چونکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے نانہیالی رشتہ دار اِسی قبیلہ کے تھے تو آپ نے یہ فرمایا : اَیُّ بُیُوْتِ اَھْلِنَا اَقْرَبُ ''ہمارے رشتہ داروں میں سے کس کا مکان قریب ہے ؟ اس وقت آقائے دوجہان کی زبانِ مبارک سے قرابت ورشتہ داری کا اظہار اُن رشتہ داروں کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا ! جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے آپ نے اس کا اظہار بھی فرمایا !
مگریہ بھی صحیح نہیں کہ ناقہ کا واقعہ پیش نہیں آیا اور آپ نے رشتہ داری کی بناء پر بنو نجار کومنتخب فرمایا !
ور نہ پھر قرعہ اندازی کی بھی ضرورت نہیں تھی ! جس کو علامہ شبلی نے بہت اہمیت دی ہے !
یہ خوش نصیبی حضرت خالد بن زید اَبو اَیوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میسر تھی ١ آپ فوراً بول اُٹھے
اَنَا یَا نَبِیَ اللّٰہِ ھٰذِہِ دَارِیْ وَ ھٰذَا بَابِیْ
میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! یہ میرا مکان ہے یہ میرا دروازہ ہے ! !
عجیب بات یہ ہے کہ حضراتِ انصار نے آپس میں قرعہ ڈالا کہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کاقیام کس کے یہاں ہوگا اس میں بھی حضرت ابو اَیوب رضی اللہ عنہ ہی کا اسمِ گرامی برآمد ہوا تھا ! ٢
قیام کا مسئلہ طے ہوگیا تو ارشاد ہوا فَانْطَلِقْ فَھَیِّیْٔ لَنَا مَقِیْلًا ٣ تشریف لے جائیے ہمارے قیلولہ کاانتظام کردیجیے
حضرت ابواَیوب رضی اللہ عنہ نے اندر جاکر آرام فرمانے کا انتظام کیا پھر اِن کو لے گئے اور آرام کرایا ٤
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمیشہ خوش ہوا کرتے تھے کہ سیّد عالم صلی اللہ عليہ وسلم حضرت ابواَیوب کے یہاں جیسے ہی تشریف لے گئے سب سے پہلا ہدیہ میری والدہ کا تھا جو آپ نے خود بھی تناول فرمایا
١ اصل نام خالد، پسر زید، کنیت اَبو اَیوب یہ اپنی اِس کنیت ہی سے مشہور ہیں ۔
٢ الاصابة ج٢ ص ٩٠ بحوالہ مسند احمد ۔ علامہ شبلی نے اسی روایت کولے کر ناقہ وغیرہ کے تمام واقعات کو حذف کردیا جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں ، حالانکہ اس روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل حضراتِ انصار نے اَز خود کیا تھا اور بہت ممکن ہے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے یہاں رونق اَفروز ہونے سے پہلے کیا ہو کیونکہ روایت میں مدینہ میں تشریف آوری کا ذکر ہے۔ قبیلہ بنو نجار میں رونق افروز ہونے کا ذکر نہیں ہے !
روایت کے الفاظ یہ ہیں رَوٰی اَحْمَدُ مِنْ طَرِیْقِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ اَبِیْ اَیُّوْبَ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صلی اللہ عليہ وسلم الْمَدِیْنَةَ اِقْتَرَعَتِ الْاَنْصَارُ اَیُّھُمْ یُوْوِیْہِ فَقَرَعَھُمْ اَبُوْ اَیُّوْبَ
یعنی حضراتِ انصار نے خود قرعہ اندازی کی کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کوکون مکان دے گا (کس کے یہاں قیام ہوگا) ؟ تو سب کے مقابلہ میں ابو ایوب کا نام قرعہ میں برآمد ہوا
حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ بھی موافقات ِصحابہ کی ایک مثال ہے یعنی صحابہ کرام نے بھی وہی فیصلہ کیا جو پہلے مشیت ِ خداوندی طے کرچکی تھی ! بعد کے اِلہام یا وحی نے اس کی توثیق کردی ! ! واللّٰہ اعلم
٣ بخاری شریف ص ٥٥٦ ٤ فتح الباری ص ٢٠١
اور حاضرین کوبھی اِس میں شریک کیا، میری والدنے روٹیوں پر گھی لگاکر دودھ میں چورا اور ایک بڑے بادیہ میں بھر کر میرے ہاتھ بھیجا ! یہ میری سعادت تھی کہ سب سے پہلا ہدیہ یہی پیش ہوا ! !
میں نے عرض کیا کہ میری والدہ نے یہ ہدیہ بھیجا ہے تو آپ نے دعا فرمائی بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ
(اللہ تعالیٰ تمہیں برکت عطا فرمائے ) ١ پھر حاضرین کو بلاکر سب کے ساتھ یہ ہدیہ تناول فرمایا !
اور ابھی میں دروازہ سے نکلا نہیں تھا کہ حضرت سعد بن عبادہ کے یہاں سے ثرید آگیا آپ نے اسے بھی منظور فرمایا ! پھر اگرچہ آپ مہمان ابو اَیوب رضی اللہ عنہ کے تھے مگر روزانہ تین چار اَنصار کے یہاں سے نمبروار کھانے کا ہدیہ آتا رہتا تھا ٢ دستر خوان مبارک پر چار پانچ کھانے والے ضرور ہوتے تھے کبھی پندرہ سولہ بھی ہوجاتے تھے ! ٣
حضرت ابو اَیوب رضی اللہ عنہ خود بھی کھانا پکواتے، دسترخوان پر اگرچہ شریک ِ طعام نہیں ہوتے تھے مگر جو کھانا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے سے آتا تھا اُس کو کھاتے اور خاص اُس جگہ سے کھاتے جہاں آقائے دوجہان کی اُنگلیوں کے نشان معلوم ہوتے تھے ! ٤
١ یہ وہی زید بن ثابت ہیں جو آگے چل کر کاتب ِ وحی اور جامع قرآن اور بہت بڑے فقیہ اور ماہرِ فرائض ہوئے ، ایسے ذہین کہ سریانی زبان اور سریانی خط پندرہ روز میں سیکھ لیا اُس وقت ان کی عمر صرف گیارہ سال تھی ! والدہ محترمہ کا اسم گرامی نوار تھا دُخترِ مالک یہ بھی نجاریہ تھیں ۔ (الاصابة والاستیعاب)
٢ ابن ِسعد ج١ ص ١٦١ خصوصاً حضرت سعد بن عمادة اور حضرت اَسعد بن زرارة رضی اللہ عنہما کے یہاں سے تو روزانہ طشت بھر کر کھانا آتا تھا ! ( وفاء الوفاء ج١ ص ١٩٠) ٣ ایضاً
٤ علامہ نووی نے اس حدیث سے چندمسئلے اخذ کیے ہیں :
(١) ہر موقع اورہر جگہ پر برتن کا صاف کرنا مستحب نہیں ہے بلکہ اگر بچے ہوئے کو کھانے یا پینے والے ہیں توبرتن میں کچھ چھوڑ دینا مستحب ہے (٢) خصوصاً جب معلوم ہو کہ لوگ اس کو تبرک سمجھ کرکھائیں گے
(٣) یا کھانا کم ہو اور دوسرے کھانے والے موجود ہوں (٤) یا جیسا کہ بعض جگہ ہوتا ہے کہ پورا کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور اہلِ خانہ بعد میں بچا ہواکھانا کھاتے ہیں ، بظاہر حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا یہی طریقہ تھا۔ (نووی علٰی مسلم ج١ ص ١٨٣)
کسی نے حضرت ابواَیوب رضی اللہ عنہ کے یہاں سے تحقیق کرنی چاہی کہ آپ کے یہاں حضور صلی اللہ عليہ وسلم کا قیام ہے آپ مزاج سے واقف ہوگئے ہوں گے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو کون سا کھانا پسند ہے کون سا ناپسند ؟
جواب ملا ،خود سے آپ نے کبھی کسی کھانے کی فرمائش نہیں کی اور جو کھانا پیش کیا گیا کبھی اُس کی برائی نہیں کی ١
ایک روز حضرت ابواَبوب نے خاص طور سے ایک کھانا پکوایا اوراُس میں لہسن بھی ڈالا، وہ کھانا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے سامنے پیش ہوا مگر اس کو آپ نے تناول نہیں فرمایا ٢ جوں کا توں
کھانا واپس آگیا تو حضرت ابو اَیوب گھبراگئے، فوراً خدمت مبارک میں حاضر ہوئے وجہ دریافت کی ؟ فرمایا اس میں لہسن تھا ! حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا لہسن کھانا حرام ہے ؟ ارشاد ہوا حرام تونہیں ہے مگر مجھے اس کی بو سے کراہت ہے ! عرض کیا جس سے حضور والا کو کراہت ہے مجھے بھی اس سے کراہت ہوگئی ! ٣
بالائی منزل میں قیام :
حضرت ابو اَیوب رضی اللہ عنہ کے مکان کی دو منزلیں تھیں آپ نے نیچے کی منزل آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے لیے خالی کردی، خود اُوپر چلے گئے، ایک روز اتفاق سے اُوپر کی منزل میں پانی کا برتن (گھڑ١ یا مٹکا) ٹوٹ گیا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو خدشہ ہوا کہ پانی نیچے ٹپکے گا اور تاجدار ِ دو جہان کو تکلیف ہوگی، گھر میں ایک لحاف تھا فوراً اسی کو پانی پر ڈال دیا کہ پانی جذب ہوجائے، نیچے نہ ٹپکے ! ٤
ایک روز خیال آیا کہ سردارِ دوجہان صلی اللہ عليہ وسلم نیچے ہیں اور ہم اُوپر ! کیسی بے ادبی ہے ؟
١ وفاء الوفاء ج١ ص١٩٠ ایک مرتبہ حضرت سعد بن عبادة رضی اللہ عنہ کے یہاں سے طَفَیْشَل آیا (خاص قسم کا شوربا ہوتاتھا) آپ نے بڑے ذوق سے اِس کو تناول فرمایا اور کچھ نوشِ جان بھی فرمایا پھر ہم بھی اپنے یہاں اس طرح شوربا تیار کیا کرتے تھے ! ٢ یہی آپ کا طریقہ تھا جوکھانا ناپسند ہوتا تھا چھوڑ دیتے تھے مگر عیب نہیں نکالتے تھے۔ (شمائلِ ترمذی وغیرہ) ٣ مسلم شریف ج١ ص ١٨٣
٤ وفاء الوفاء ص ١٨٨ و سیرة ابن ہشام
فورًا ایک کنارے سمٹ گئے اور اسی طرح رات گزار دی ! صبح کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے درخواست کی کہ اُوپر قیام فرمائیں ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا آنے جانے والوں کو اِسی میں آسانی ہے !
حضرت ابواَیوب نے دست بستہ عرض کیا :
لَا اَعْلُوْ سَقِیْفَةً اَنْتَ تَحْتَھَا ١ ''میں تو اس چھت پر چڑھ نہیں سکتا جس کے نیچے حضور والا ہوں ''
رحمت ِعالم صلی اللہ عليہ وسلم نے درخواست منظور فرمائی اور اوپر منتقل ہوگئے سات ماہ اسی مکان میں قیام رہا، جب مسجد اور حجرے تیار ہوگئے تب آپ وہاں تشریف لے گئے ! !
قصواء کا قیام اور حضرت اَسعد کا والہانہ جذبہ :
حضرت اَسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ جو بیعت ِ عقبہ اُولیٰ میں شریک تھے اور تبلیغی وتعلیمی کوششوں میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے فرستادہ معلم (حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ) کے شریک رہے تھے ان کا مکان بہت وسیع تھا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا قیام انہیں کے یہاں رہا تھا ان کے علاوہ اور حضرات بھی جو تشریف لاتے تھے ان کے یہاں قیام فرمایا کرتے تھے ! !
جب انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا قیام حضرت ابو اَیوب کے یہاں طے ہوگیا ہے تو ناقہ کی مہار پکڑی اور اپنے یہاں لے گئے ٢ کہ یہ بھی شرف اور جذبۂ شوق کو تسکین دینے والی ایک سعادت تھی ! !
متعلقین کی آمد :
مدینہ میں آکر آپ نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت اَبو رافع (رضی اللہ عنہما) کو دو اُونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ بھیجا کہ متعلقین کو لے آئیں ٣
صاحبزادیوں میں حضرت رُقیہ حضرت عثمان کے ساتھ حبش میں تھیں ! !
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اُن کے شوہر اَبو العاص بن ربیع نے آنے نہیں دیا !
١ صحیح مسلم ج٢ ص ١٨٣ ٢ طبقات ابن سعد ج١ ص ١٦٠
٣ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ، قِبطی تھے !
بس حضرت زید کے ساتھ اُم المومنین حضرت سودة اور دو صاحبزادیاں اُم کلثوم اور حضرت فاطمہ زہرا آئیں ! ان کے علاوہ حضرت زید اپنی اہلیہ اُمِ ایمن اور اپنے فرزند اُسامہ کو بھی ساتھ لے آئے ! !
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو بھی حضرت زید کے ساتھ بھیجا تھا حضرت ابوبکر کے متعلقین کو وہ اپنے ساتھ لائے ١ حضرت عائشہ بھی ان کے ساتھ آئیں ! ان سب کو حارثہ بن نعمان ٢ کے مکان میں ٹھہرایا گیا ! ! ( طبقات ابن سعد ج١ ص ١٦١)
١ حضرت عبداللہ بن ابی بکر حضرت عائشہ کے سوتیلے (ماں شریک) اور حضرت اسمائ کے حقیقی بھائی تھے غزوۂ فتح مکہ اور غزوۂ حنین میں شریک رہے جب غزوۂ حنین کے بعد طائف پر حملہ کیا گیا تو ان کے ایک تیر لگا اس کا زخم اُوپر سے مندمل ہوگیا مگر اندر اندر پھوڑا بن گیا، تقریبًا دو سال تک یہ پھوڑا رہا ! ! !
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی وفات سے تقریباً سات ماہ بعد شوال ١١ ہجری میں حضرت ابوبکر کے دورِخلافت میں پھوڑے کے پھٹنے سے ان کی وفات ہوگئی ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے کفن کے لیے ایک حُلَّة لایا گیا تھا یعنی یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادروں کا جوڑا مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا کفن سفید سوتی کپڑے کا بنایا گیا ، یہ حُلَّة کام میں نہیں آیا تو حضرت عبداللہ نے اپنے کفن کے لیے نودینار میں خرید لیا تھا لیکن وفات کے وقت وصیت کردی کہ اس کا کفن نہ بنایا جائے کیونکہ اگر اس کپڑے کا کفن اچھا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا کفن اسی کا ہوتا جب آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے لیے اس کو منتخب نہیں کیا گیا تو میں بھی اس کو اپنے لیے پسند نہیں کرتا ، یہ تھا نازک احساس عاشقانِ اتباعِ سنت کا ( الاستیعاب )
٢ حارثة بن نعمان رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی تھے کسی سائل کو دروازہ سے محروم نہیں جانے دیتے تھے اور جو کچھ دیتے وہ خود اپنے ہاتھ سے دیتے تھے، آخر عمر میں بصارت جاتی رہی تھی تو جہاں ان کی نشست رہتی تھی وہاں سے دروازہ تک ایک رسی باندھ لی تھی، دروازہ میں کھجوروں کا ٹوکرا رکھارہتا تھا جب سائل آتا تو یہ رسی پکڑ کر دروازہ تک جاتے اور خود اپنے ہاتھ سے فقیر کو دیتے تھے ! بچوں نے عرض کیا کہ یہ خدمت ہم انجام دے سکتے ہیں ، فرمایا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
نیا دور ، غیر محدود میدانِ عمل :
( قُلْ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا نِ الَّذِیْ لَہ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) ١
''(اے پیغمبر ) تم لوگوں سے کہو اے افرادِ نسل ِانسانی (اے بنی نوعِ انسان) میں تم سب کی طرف خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں وہ خدا کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اُسی کے لیے ہے''
وہ آفتاب جو مشرقِ مکہ سے طلوع ہوا تھا جس کی کرنیں اب تک فاران کی چوٹیوں سے ٹکرارہی تھیں مدینہ کے خط ِ اُستواء پر پہنچا تو وہ آفتاب ِ نیم روز تھا، ویسے بھی دعوت و تبلیغ کے دس سال پورے ہوچکے تھے اور آنے والے سال بھی دس ہی تھے ! ٢
(بقیہ حاشیہ ص ١٩)
مُنَاوَلَةُ الْمِسْکِیْنِ تَقِیْ مِیْتَةَ السُّوْئٍ ( المعجم الکبیر رقم الحدیث ٣٢٢٨ )
یعنی ''مسکین کو خود اپنے ہاتھ سے دینا بری موت سے محفوظ رکھتا ہے '' ! !
ایک مرتبہ حضرت جبرئیل ِ امین علیہ السلام انسانی شکل میں نزول فرما ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو کوئی پیغام پہنچایا حاضرین کو نہ پیغام کی خبر ہوئی نہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی تشریف آوری کی، مگر حضرت حارثہ نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا، یہ صاحب کون تھے جو آپ سے گفتگو فرمارہے تھے ؟
یہ حضرت حارثہ کی مخصوص فضیلت تھی کہ آپ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھ لیا ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو تعجب بھی ہوا ! اور ایک اُمتی کی اِس فضیلت پر مسرت بھی ظاہر فرمائی ! حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں وفات ہوئی رضی اللّٰہ عنہ ( الاستیعاب )
١ سُورة الاعراف : ١٥٨
٢ نبوت کے ابتدائی تین سال میں دعوت اور تبلیغ کا حکم عام نہیں تھا(تفصیل پہلے گزر چکی ہے)
اس کا دائرہ عمل نوعِ انسان کے کسی خاص گروہ یا طبقہ تک تو کبھی محدود نہیں ہوا ١ البتہ ظاہری وسائل وذرائع کی بنیاد پر اِس کا مخاطب اب تک ( اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا ) تھا ٢ اور اب اس کا موقف وہ ہے جو ( وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا ) ٣ کا مطلع اور مظہر ہے۔
سکندر ِ اعظم جیسے فاتح عالم کی تاریخ کا پہلا باب یہ ہوگا کہ اُس نے ایسی زبردست فوجی طاقت کس طرح فراہم کی جو فاتح عالَم بن سکی ؟ اس کی فوج کی خصوصیات کیا تھیں ؟ اور وہ خود کس درجہ کا صاحب ِ شجاعت اور صاحب ِ حوصلہ تھا ؟ لیکن وہ فردِ کامل جو پوری بنی نوعِ انسان کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا گیا تھا اُس کی تاریخ وسیرت کا پہلا باب یہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا اصول تھے،کیا طریقۂ کار تھا اور کون سے اخلاق تھے
جو ( وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ ) کی غرض و غایت کو پورا کرسکے ؟
وَماَ تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٣٦٤ تا ٣٧٤ )
١ جیسا کہ بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کا دائرہ عمل گروہ بنی اسرائیل تھا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل ہی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا
( یَابَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ....... ) (سُورۂ صف : ٥ ، ٦ )
٢ سُورة الانعام : ٩٢ و سُورة الشورٰی : ٧ اُمَّ الْقُرٰی مکہ وَ مَنْ حَوْلَہَا اور جو اِس کے اطرف میں ہیں
٣ سُورة سبا : ٢٨




میرے حضرت مدنی قسط : ٧
٭٭٭
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
اَمیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
مودودیت سے متعلق مسلسل تین شب اور دو دن علمی مذاکرہ :
ایک دفعہ حضرت قدس سرہ رمضان ٹانڈہ گزار کر تشریف لائے اتفاق سے حضرت رائے پوری ثانی بھی سہارنپور تشریف رکھتے تھے حضرت نے حسب ِ معمول تار دیا اور میں صبح کو دس بجے اسٹیشن پر حاضر ہوا اور حضرت رائے پوری میرے ساتھ اسٹیشن تشریف لے گئے،یہ حضرت رائے پوری کی مستقل عادت تھی کہ جب ان کے قیامِ سہارنپور میں حضرت مدنی تشریف لاتے اور میں اسٹیشن پر جاتا تو حضرت ضرور تشریف لے جاتے ! حضرت مدنی قدس سرہ حضرت رائے پوری سے مل کر بہت ہی خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ تم دونوں کی مجھے بڑی ضرورت ہورہی تھی میں تم دونوں سے ایک اہم مشورہ کرنے کااِرادہ کررہا تھا اس وقت مستورات ساتھ ہیں سامان بھی ہے، میں ان سب کو دیوبند پہنچا کراگلی گاڑی سے واپس آجاؤں گا ! حضرت کا قیام یہاں کب تک ہے قبل اس کے کہ حضرت رائے پوری کچھ ارشاد فرماویں ،مجھ گستاخ کو پیش قدمی کی عادت ہمیشہ رہی میں نے عرض کیاکہ حضرت کااِرادہ آج ہی جانے کاتھا جنابِ والا کی خبرسن کرملتوی کیاتھا اورشام کوواپسی کا ارادہ ہے، مگر اب جب بھی حضرت والا تشریف لاویں ان حضرت کا قیام یہاں ضرور رہے گا ، آپ فورًا واپسی کا ارادہ ہرگز نہ فرماویں ، جب سہولت ہوبہت اطمینان سے کل یا پرسوں تشریف لے آویں حضرت تشریف رکھیں گے ! حضرت مدنی قدس سرہ نے ارشاد فرمایا کہ بالکل نہیں ، میں حضرت کا حرج بالکل نہیں کرنا چاہتا، سامان اور مستورات وغیرہ کو پہنچا کر ابھی واپس آتاہوں !
میں نے عرض کیاکہ حضرت بالکل نہیں ، ان حضرت کو نہ توبخاری کا سبق پڑھانا ہے اور نہ موطأ کی شرح لکھنی ، ان کوتونور پھیلانا ہے، رائے پور کی جگہ دو تین دن سہارنپور بیٹھ کرنور پھیلادیں گے ! دونوں حضرات بہت ہنسے اور میرے حضرت رائے پوری قدس سرہ نے بہت زور سے میری بات کی تائیدکی کہ ہاں حضرت انہوں نے صحیح فرمایا میں توبے کار ہوں ، نہ مجھے یہاں کوئی کام اورنہ وہاں ، میں جب تک حضرت تشریف لاویں گے خوشی سے انتظار کروں گا ! مگرحضرت مدنی قدس سرہ دوسری گاڑی سے فورًا تشریف لے آئے، ظہر کی نماز کے بعد مدرسہ کے قدیم مہمان خانے میں جو اَب کتب خانہ کاجزو بن گیا، شرقی دیوار کی طرف دونوں اکابر تشریف فرما تھے دیوار کے قریب تکیے رکھے ہوئے تھے اور سامنے خادمانہ دو زانو بیٹھنے سے میں عرصہ سے معذور ہوں چوزانوبیٹھا ہواتھا !
حضرت مدنی نے فرمایا کہ مودودیوں کی کتابوں کے براہ ِ راست دیکھنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کچھ تراشے لوگ بھیجتے رہے اور کچھ احوال خطوط سے معلوم ہوتے رہے، ان ہی پرمیں رائے قائم کرتا رہا، تم دونوں کاموقف اس سلسلہ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں !
حضرت رائے پوری قدس سرہ کا دستور تودیکھنے والے سینکڑوں موجود ہیں ، ان کاایک عام ارشاد تھا کہ میں تو ان حضرت (یعنی یہ ناکارہ) کے پیچھے ہوں ، جویہ حضرت فرماویں گے وہی میری رائے ہے ! میں نے عرض کیاکہ حضرت آپ دونوں کی جوتیوں کی خاک اپنے سرپر ڈالنا باعث ِ نجات اور فخر اور موجب ِعزت سمجھتا ہوں لیکن مودودیوں کے بارے میں اگر آپ کوئی حکم متفقہ میری رائے کے خلاف دیں گے توبہت ادب سے عرض کروں گا کہ تعمیل ِحکم سے معذور ہوں ! !
حضرت مدنی قدس سرہ نے فرمایا کہ یہ ہے ہمارے جوتوں کی خاک کی حقیقت ! حضرت رائے پوری خوب ہنسے ! میں نے عرض کیا کہ حضرت تقریبًا میں پانچ سو کے قریب کتابیں امسال دیکھ چکا ہوں جو زبردستی مجھے دکھلائی گئیں اور ان پر میرے اشکالات ایک جگہ نوٹ ہیں ، چنانچہ تالیفات کے سلسلہ میں اس کا ذکر گزر بھی چکا ہے، حضرت اطمینان سے تشریف لاویں تو میں اصل کتابوں کی عبارتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا جن پرمجھے اشکالات ہیں ! !
حضرت نے فرمایا کہ اچھا میں دو دن بعددو شب قیام کے لیے آؤں گا اس کے بعد کوئی رائے قائم کروں گا ! مجلس ختم ہوگئی اور دونوں حضرات شام کو اپنے اپنے گھرچلے گئے، دودن بعد حضرت قدس سرہ ،مولانا اعزاز علی صاحب کو لے کر تشریف لائے اور دودن مستقل قیام فرمایا، مہمان خانہ قدیم وہ کمرہ جو دارُالافتاء کے نیچے ہے اور اب کتب خانہ کا جزو ہے اور مدرسہ کے زینہ کے منتہا پر اِس جانب کو اڑ بھی لگے ہوئے تھے، غالباً اب نہیں رہے۔ صبح کو چائے کے بعد میں اور حضرت قدس سرہ اور مولانا اعزاز علی صاحب زینے والے کو اڑوں کی زنجیر لگا کر اس کمرہ میں بیٹھ جاتے تھے، حضرت کئی کئی ورق اوّل سے آخر تک مسلسل پڑھنے کے بعد نشان لگاکر مولانا اعزاز علی صاحب کو دیتے کہ یہاں سے یہاں تک عبارت نقل کردو، کبھی کبھی قاری سعید صاحب مرحوم کو بھی نقل کی یا کسی افتاء کی کتاب کی مراجعت کے لیے بلالیا جاتا !
تین شب دو دن مسلسل ان دونوں حضرات کا یہاں قیام رہا اور شہر میں جیسا عوام کی عادت ہوا کرتی ہے خوب قیاس آرائیاں ہوئیں کہ یہ کیا اہم مسئلہ درپیش ہورہا ہے ؟ عام طور سے لوگ سیاسی مسائل کے اوپر رائے زنیاں کرتے، مگر اُونچے لوگ اس کی تردید کردیتے کہ سیاست میں شیخ الحدیث اور مفتی کی کیا ضرورت ہے ؟ کوئی علمی مسئلہ ہوگا، سامنے جنگلے پر سے لوگ کھڑے ہوکر کئی کئی گھنٹے گھورتے رہتے، بعض سیاسی اُونچے لوگ آتے اور اپنے علوِ شان کی بناپر کو١ڑکھلوانا چاہتے، آوازیں دیتے تو میں اپنی جگہ سے اُٹھتا نہیں ، اشارے سے انکار کردیتا، حضرت کچھ آڑ میں ہوتے تھے اور کچھ آگے کو ہوتے تھے، پورے نظرنہیں آتے تھے نیچے مدرسہ والوں سے کہہ رکھا تھا کہ جو آوے اُس سے کہہ دیجیو کہ بارہ بجے سے پہلے ملاقات نہیں ہوگی یا پھر عصر کے بعد، عصر سے مغرب تک مجلس ِعامہ رہتی اور مغرب سے عشاء تک سیاسی لیڈروں کے حضرت سے تخلیہ کی ملاقاتیں اور کھانا عشاء کے بعد پھر میں ہمرکاب مہمان خانہ میں پہنچ جاتا !
ایک دو گھنٹہ تو حضرت کتابیں دیکھتے پھر ارشاد فرماتے بھائی ! ہمیں تو نیند آگئی، نشان رکھ کے چلے جاؤ اور مولانا اعزاز علی صاحب کو اِس عشاء کے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں کچھ حضرت والا بتادیتے وہ ان کو نقل کرتے رہتے، بات پر بات یاد آجاتی ہے۔ (آپ بیتی ص ٤٠٦ تا ٤٠٨)
تین راتیں ہوگئیں سوئے ہوئے :
میرے حضرت مدنی کا ایک بڑا عجیب دستور میرے ساتھ سالہا سال یہ رہا اکثر مہینے دو مہینے میں ایک پھیرا کبھی تو سونے کے مدمیں ہوتا اور کبھی کوئی اہم مضمون لکھنے کے واسطے حضرت تشریف لاتے اور فرماتے تین راتیں ہوگئیں سوئے ہوئے ،نیند کا بڑا خمار ہے، دیوبند میں سونے کی جگہ بالکل نہیں ، میں نے سوچا تیرے یہاں سوؤں گا ! میں عرض کرتا ضرور، میں کچے گھر میں گرمی میں باہر اور سردی میں اندر کمرے میں چار پائی بچھا کر حضرت کو لٹا کر کسی تیل ملنے والے کو سرہانے بٹھاکر اور باہر کا قفل لگا کر تالی اپنے ساتھ لے کر اُوپر چلا جاتا، لوگ مولوی نصیر سے مطالبہ کرتے قفل کھول دو، وہ کہتے کہ تالی تو میرے پاس نہیں وہ تو اُوپر ہے ! اُوپر ہر شخص کے جانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی، لیکن اُونچے لوگ جن کے نام لکھنا تو مناسب نہیں سمجھتا اُوپر پہنچ جاتے اور مجھ پر اصرار فرماتے کہ ضروری کام ہے کواڑ کھول دو !
میں اوّل تو ذرا متانت سے عرض کرتا کہ حضرت کئی روز کے جاگے ہوئے ہیں سونے ہی کے لیے تشریف لائے ہیں ایسی حالت میں جناب کو تو خود ہی چاہیے مگر بعض بڑے آدمی ذرااپنی علوِشان کی وجہ سے اس جواب کو بھی اپنی توہین سمجھتے تو میں کہتا کہ آپ کو تو حضرت کا یہاں تشریف لانا معلوم نہیں تھا، آپ یوں سمجھئے کہ دیوبندہیں ، کارلے کر دیوبند تشریف لے جائیے اور وہاں جاکر جب یہ معلوم ہوکہ سہارنپور گئے ہوئے ہیں تو واپس آکر مجھ سے کواڑ کھلوائیے، اتنے وقت ہوہی جائے گا، بعض لوگ تو نصیرہی کے پاس سے واپس ہوجاتے تھے اور بعضے اُوپر جاکر میرے پہلے یا دوسرے جواب پر خواستہ یا ناخواستہ واپس آجاتے لیکن بعضے لیڈر اِس پر بھی زور دکھلاتے تو پھر میں بھی زور دکھلاتا، میں کہتا کواڑ تو نہیں کھلیں گے، آپ کاجب تک جی چاہے تشریف رکھیے ، میرا بھی حرج ہوگا مناسب یہ ہے کہ باہر بوریے پر تشریف رکھیے مجھے بڑا لطف آتا جب عتابات اور گالیاں سنتا ۔ (آپ بیتی ص ٤٠٨، ٤٠٩)
(جاری ہے)




تربیت ِ اولاد قسط : ١١
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
عقیقہ کا بیان :
٭ عقیقہ کر دینے سے بچے کی سب اَلا بَلا دُور ہو جاتی ہے اور آفتوں سے حفاظت رہتی ہے !
٭ جس سے کوئی لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو بہتر ہے کہ ساتویں دن اُس کا نام رکھ دے اور عقیقہ کردے !
٭ عقیقہ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر لڑکا ہو تو دو بکری اور اگر لڑکی ہو تو ایک بکری یا بڑے جانور میں لڑکے کے واسطے دو حصے اور لڑکی کے واسطے ایک حصہ کردے ! اور سر کے بال مونڈ دے اور بال کے برابر چاندی تول کر خیرات کردے ! اور بچہ کے سر میں اگر دل چاہے تو زعفران لگادے !
٭ کسی کو زیادہ توفیق نہیں اس لیے اُس نے لڑکے کی طرف سے ایک ہی بکری کا عقیقہ کیا تو اِس کا بھی کچھ حرج نہیں ! اور اگر بالکل عقیقہ ہی نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں !
٭ اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرے تو جب کرے ساتویں دن ہونے کا خیال کرنا بہتر ہے ! اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اُس سے ایک دن پہلے عقیقہ کردے یعنی اگر جمعہ ہو تو جمعرات کو عقیقہ کر دے اور اگر جمعرات کو پیدا ہو تو بدھ کو کرے چاہے جب کرے حساب سے وہ ساتواں دن پڑے گا !
٭ جس جانور کی قربانی جائز نہیں اُس کا عقیقہ بھی درست نہیں اور جس جانور کی قربانی درست ہے اُس کا عقیقہ بھی درست ہے !
٭ عقیقہ کا گوشت چاہے کچا تقسیم کردے چاہے پکاکر بانٹے چاہے دعوت کرکے کھلادے سب درُست ہے اور عقیقہ کا گوشت باپ، دادا، نانا،نانی وغیرہ سب کو کھلانا درست ہے ! ١
عقیقہ کی مشروعیت اور اُس کی حکمت :
اہل ِ عرب اپنی اولاد کا عقیقہ کیا کرتے تھے ! عقیقہ میں بہت سی مصلحتیں تھیں اس لیے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کو برقرار رکھا خود بھی اس پر عمل کیا اور دُوسروں کو بھی اس کی ترغیب دی !
٭ عقیقہ کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ اولاد کے نسب کی اشاعت ہوتی ہے !
٭ نیز اس میں سخاوت کے معنٰی پائے جاتے ہیں !
٭ نصرانیوں میں جب کسی کے بچہ ہوتا تھا تو زَرد پانی سے رنگا کرتے تھے کہ اس کی وجہ سے بچہ نصرانی ہوجاتا ہے ! پس مناسب معلوم ہوا کہ ملت ِ حنیفیہ یعنی دین ِ محمدی میں اُن کے اس فعل کے مقابلہ میں کوئی فعل پایا جائے جس سے اس لڑکے کا حنیفی اور ملت ِ ابراہیمی کا تابع ہونا معلوم ہو ! ٢
ساتویں روز سے پہلے عقیقہ نہ ہونے کی وجہ :
عقیقہ ساتویں روز کی تخصیص اس لیے ہے کہ ولادت اور عقیقہ میں کچھ فاصلہ ہونا ضروری ہے کیونکہ پورا خاندان زچہ بچہ کی خبرگیری میں مصروف رہتے ہیں پس ایسے وقت میں یہ مناسب نہیں ہے کہ اُن کو عقیقہ کا حکم دے کر اُن کا کام اور زیادہ کردیا جائے ! نیز بہت سے لوگوں کو اُسی وقت بکرے دستیاب نہیں ہو سکتے بلکہ تلاش کرنے کی حاجت ہوتی ہے اگر پہلے ہی روز عقیقہ مسنون کیا جائے تو لوگوں کو دِقت (پریشانی) ہو لہٰذا سات روز کا فاصلہ ایک کافی مدت ہے ! اور ساتویں روز نام رکھنے کی وجہ
١ بہشتی زیور ٣/١٦٤ ٢ المصالح العقلیة
یہ ہے کہ اس سے پہلے لڑکے کا نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ نام رکھنے میں بھی مہلت چاہیے تاکہ خوب غور و فکر کے بعد اچھا نام رکھا جائے ایسا نہ ہو کہ عجلت کی وجہ سے کوئی خراب نام مقرر کردیں ! ١
لڑکے میں دو بکرے اور لڑکی میں ایک بکرا ہونے کی حکمت :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاة یعنی لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ میں دینی چاہیے ! اس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکوں کا نفع زیادہ ہے لہٰذا (لڑکے کے لیے) دو کا ذبح کرنا زیادتی اور اُس کی عظمت کے مناسب ہے۔
ابن ِ قیم لکھتے ہیں کہ لڑکے کے لیے دو اور لڑکی کے لیے ایک بکری سے عقیقہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لڑکے کو لڑکی پر فضیلت ہے ! اور جب لڑکے کے وجود سے والد پر نعمت کا کمال اور سرور و خوشی زیادہ ہوتی ہے تو اِس پر مزید شکر واجب ہے کیونکہ جب نعمت زیادہ ملتی ہے تو زیادہ شکر کرنا لازم ہے ! ٢
مسئلہ : لڑکے کے لیے دو بکریاں اور لڑکی کے لیے ایک ! اور اگر بڑے جانور میں حصہ لے تو لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ لے ! اگر کسی کو زیادہ توفیق نہیں اس لیے اُس نے لڑکے کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کی تو بھی جائز ہے۔ ٣
بچہ کے سر کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرنا :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ اے فاطمہ اس کے سر کے بالوں کو منڈوادو اَور ہم وزن اس کے بالوں کے (یعنی بالوں کے وزن کے مطابق) چاندی خیرات کردو ! !
چاندی خیرات کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بچہ کا حالت ِ جنین سے منتقل ہوکر طفولیت کی طرف آنا (یعنی ماں کے پیٹ سے باہر آکر دُودھ پینے والا بچہ ہوجانا) اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے تو اِس پر شکر کرنا واجب ہے !
١ المصالح العقلیة ٢/٢٤٨ ٢ المصالح العقلیة ص ٢٥٠ ٣ اصلاح الرسوم
اور بہترین شکر یہ ہے کہ اس کے بدلہ میں کچھ دیا جائے اور جنین (وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے ) کے بال جنین کا بقیہ نشان تھے ،ان (بالوں ) کا دُور ہونا دُودھ پیتے بچہ کے نشان کے استقبال کی نشانی ہے اس لیے واجب ہوا کہ ان کے بدلہ میں چاندی دی جائے !
اور چاندی کی خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ سونا بہت گراں ہوتا ہے مالداروں کے سوا اور کسی کو بھی دستیاب نہیں ہوتا اور دُوسری چیزیں بہت کم قیمت کی ہیں چاندی درمیانی ہے اس لیے چاندی صدقہ کرنے کا حکم ہوا۔ ١
تنبیہ : بعض عوام یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں نہ توڑی جائیں اور سری حجام کو دیں یہ باتیں واجب نہیں ، کبھی کبھی اس کے خلاف بھی کرنا چاہیے تاکہ عوام ضروری نہ سمجھیں ۔ ٢
٭ بعض عوام کا عقیدہ ہے کہ عقیقہ کے جانور کا گوشت باپ دادا نانا نانی کو نہ کھانا چاہیے ! شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ۔ ٣
عین ذبح کے وقت بچہ کے سر کے بال مونڈنا ضروری نہیں :
ایک یہ بھی رسم ہے کہ جس وقت بچہ کے سر پر اُسترہ رکھا جائے تو فورًا اُسی وقت بکرا ذبح ہو یہ بھی محض لغو ہے ! شریعت میں چاہے سر مونڈنے کے کچھ دیر بعد ذبح کرے یا ذبح کرکے سر منڈائے سب درُست ہے غرضیکہ اس دن یہ دونوں کام ہوجانے چاہئیں ! ! ٤
عقیقہ کے موقع پر بال مونڈتے وقت لین دین کی رسم :
برادری اور خاندان کے لوگ جمع ہوکرسر مونڈنے کے بعد کٹوری (یا کسی برتن، تھالی، جھولی وغیرہ) میں بطورِ نیوتہ کے کچھ نقد (روپیہ پیسہ) ڈالتے ہیں جو نائی کا حق سمجھا جاتا ہے ! اور عرفًا یہ اُس گھر والے کے ذمہ فرض سمجھا جاتا ہے کہ ان دینے والوں کے یہاں کوئی کام پڑے تب اَدا کیا جائے جس کا ایسے ہی موقع پر اَدا کرنا ضروری ہے (اور اس میں ایسا التزام کہ) اگر پاس نہ ہو تو قرض لو ، گو سُود ہی ملے جو سراسر شریعت کے خلاف ہے ! ! اس کے سوا اور بھی اس میں کئی خرابیاں ہیں
١ اغلاط العوام ٢ ایضاً ٣ ایضاً ٤ بہشتی زیور ٢/١٣
مثلاً دینے والے کی نیت خراب ہونا کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ بعض وقت گنجائش نہیں ہوتی اور دینا گراں گزرتا ہے مگر صرف اسی وجہ سے کہ نہ دینے میں شرمندگی ہوگی لوگ بدنام کریں گے طعنہ دیں گے مجبور ہوکر دینا پڑتا ہے اس کو ریا و نمود کہتے ہیں اور شہرت و نمود (دکھلاوے) کے لیے مال خرچ کرنا حرام ہے !
اسی طرح لینے والے کی خرابی یہ ہے کہ یہ دینا فقط تبرع و احسان ہے اور احسان میں جبر زبردستی کرنا حرام ہے ! اور یہ بھی زبردستی ہے کہ اگر نہ دے تو مطعون ہو (یعنی لوگ طعنہ دیں ) بدنام ہو خاندان بھر میں نکوبنے ! اور اگر کوئی خوشی سے دے تب بھی شہرت اور ناموری کی نیت ہونا یقینی ہے جس کی ممانعت قرآن و حدیث میں صاف مذکور ہے۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ اگر دینا ہی منظور ہو تو کسی دُوسرے موقع پر خفیہ طور پر دے دیا جائے۔ ( بہشتی زیور ٦/١٣ )
سُسرال والوں کی طرف سے جوڑے وغیرہ دینے کی رسم :
بچہ کو ننھیال کی طرف سے کچھ نقد و پارچہ (جوڑے اور غلہ) دیا جاتا ہے جس کو عرف میں ''بھات'' کہتے ہیں ! بڑی خرابی اس میں یہ ہے کہ خواہ اِس موقع پر ننھیال والوں کے پاس ہو یا نہ ہو ہزار جتن کرو سود ہی لو، کوئی چیز گروی رکھو غرض کچھ بھی ہو مگر یہاں کا سامان ضرور ہو ! اَب فرمائیے جب ایک غیر ضروری کام بلکہ معصیت (گناہ) کا ایسا اہتمام ہو کہ فرائض واجبات کا بھی وہ اہتمام نہ ہو یہ حدودِ شرعیہ سے تعدی (زیادتی) ہے یا نہیں ؟
اور ایک بڑی خرابی اس میں یہ ہے کہ اس میں نیت بھی وہی شہرت اور تفاخر (اور بدنامی سے بچنے) کی ہوتی ہے جس کا حرام ہونا بار بار ذکر ہوچکا ہے !
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اپنے عزیزوں رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا عبادت ہے ! ! ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ صلہ رحمی اور سلوک کرنا منظور ہوتا رسم کی پابندی کے بغیر جب اُن کو حاجت ہوتی تب اُن کی خدمت کرتے اَب تو عزیزوں پر خواہ فاقے گزرجائیں خبر بھی نہیں لیتے (اور ایسے مواقع میں ) اپنے نام و نمود کے لیے صلۂ رحمی کی تاویل سوجھنے لگی ! (اصلاح الرسوم ص ٤٧) (جاری ہے)
٭٭٭




رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٢
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارُالعلوم دیوبند )
٭٭٭
مسلمان کی آبروریزی برداشت نہیں :
ایک دوسری جگہ اسی ضمن میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل فرمائی کہ
''حضور اقدس صلی اللہ عليہ وسلم کاارشاد ہے کہ جوشخص کسی مسلمان کی مدد سے ایسے وقت میں دست برداری کرتا ہے جس وقت اُس کی اہانت کی جارہی ہو، اُس کی آبروریزی کی جارہی ہو تو حق تعالیٰ شانہ ایسے وقت میں اِس کو بے یارو مددگار چھوڑیں گے جس وقت یہ خود مدد کا ضرورت مند ہوگا ! اور جو کسی مسلمان کی مدد ایسے وقت میں کرے گا جبکہ اُس کی آبرو ریزی کی جارہی ہو اُس کی اہانت کی جارہی ہو تو حق تعالیٰ شانہ اِس شخص کی ایسے وقت میں مدد فرمائیں گے جس وقت کہ اِس کومدد کی ضرورت ہو'' ١
ذرا غور فرمائیں ! مذکورہ روایت میں کیسی سخت تنبیہ کی گئی ہے !
سیّدنا حضرت معاذ بن جبل کی نہایت قیمتی نصیحتیں :
عام طور پر اختلاف کے وقت فریق ِمخالف کو ذلیل کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں اور اگر اعتراض کی کوئی بات ہاتھ لگ جائے تو اس کا بتنگڑ بنادیا جاتا ہے اور اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے ہر شخص انجام سے بے پروا ہوکر جو چاہے بات چلا دیتا ہے، اس کی وجہ سے اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوجاتی ہے اور بدگمانیاں عام ہوجاتی ہیں !
١ مشکوة المصابیح کتاب الاداب باب الشفقة والرحمة علی الخلق ص ٤٢٤ ، سُنن ابوداود کتاب الادب ج٢ ص ٦٦٩ رقم الحدیث : ٤٨٨٤ ، الاعتدال فی مراتب الرجال ص١٤٨
حضرت شیخ الحدیث نے اس صورتِ حال کو سامنے رکھ کر صحابی ٔ رسول سیّدنا حضرت معاذ بن جبل کی چندقیمتی نصیحتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان نصیحتوں کا ہر ہر لفظ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں :
''لیکن اس بارے میں حضرت معاذ کی وصیت سامنے رکھو، انہوں نے ایک ضابطہ بیان فرمایا ہے اور اللہ اُن پر رحمت کرے کس قدر نفیس بات کہی ہے ارشاد فرماتے ہیں :
وَاُحَذِّرُکُمْ زَیْغَةَ الْحَکِیْمِ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ یَقُوْلُ کَلِمَةَ الضَّلَالَةِ عَلٰی لِسَانِ الْحَکِیْمِ وَقَدْ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُ کَلِمَةَ الْحَقِّ ۔
قُلْتُ لِمُعَاذٍ : مَا یُدْرِیْنِیْ رَحِمَکَ اللّٰہُ اَنَّ الْحَکِیْمَ قَدْ یَقُوْلُ کَلِمَةَ الضَّلَالَةِ ، وَاَنَّ الْمُنَافِقَ قَدْ یَقُوْلُ کَلِمَةَ الْحَقِّ ؟
قَالَ بَلٰی ! اِجْتَنِبْ مِنْ کَلَامِ الْحَکِیْمِ الْمُشْتَھِرَاتِ الَّتِیْ یُقَالُ : مَا ھٰذِہِ ؟ وَلَا یَثْنِیَنَّکَ ذٰلِکَ عَنْہ فَاِنَّہُ لَعَلَّہُ اَنْ یُّرَاجِعَ وَ تَلَقَّ الْحَقَّ اِذَا سَمِعْتَہُ ، فَاِنَّ عَلَی الْحَقِّ نُوْرًا۔ ١
''میں تمہیں حکیم کی کجی سے ڈراتا ہوں کہ شیطان کبھی ناحق بات حکیم کی زبان سے کہہ دیتا ہے اور کبھی منافق بھی حق بات کہہ دیتا ہے ! شاگرد نے عرض کیا : اللہ آپ پر رحم کرے جب ایسا ہے تو مجھے کس طرح معلوم ہوگا کہ حق کیا ہے اور گمراہی کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ ہاں ! حکیم کی ایسی باتوں سے پرہیز کرو جن کے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ کیا ہوگیا ، یہ کیسے کہہ دیا ؟
اور اس کا خیال رکھنا کہ حکیم کی یہ باتیں تجھے اس سے رُوگردان نہ کردیں ، بہت ممکن ہے کہ وہ رُجوع کرلے۔ اور حق بات کو سن کر اُسے قبول کرو کیونکہ حق بات میں ایک قسم کا نور ہوتا ہے''
اب غور کرو کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس ضابطہ اور نصیحت میں کتنے اہم اُمور ارشاد فرمائے ہیں :
١ سُنن ابی داود کتاب السنة باب فی لزوم السنة ج ٢ ص ٦٣٣ رقم الحدیث ٤٦١١
(١) ہر حق بات کہنے والا حکیم نہیں ، کبھی منافق بھی حق بات کہہ دیتا ہے اس لیے محض ایک بات کسی کی سن کر اُس کا معتقد نہ ہونا چاہیے ! ہماری عادت یہ ہے کہ ایک تقریر کسی کی سنی یاایک مضمون کسی کا پڑھا فورًا اُس کے معتقد ہوگئے، ساتویں آسمان پر اُس کو پہنچادیا.... الخ
(٢) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ حکیم سے بھی کجی کی بات ہوجاتی ہے اس لیے محض ایک آدھ بات کی وجہ سے غیر معتقد نہیں ہوجانا چاہیے ! بلکہ دونوں کے مجموعہ سے یہ اصول معلوم ہوا کہ اوّل تو آدمی کی حالت کا پورا غور وتعمق سے مطالعہ کرنا چاہیے اگر وہ اکثر وبیشتر اُمور میں شریعت ِ مطہرہ کا متبع ہے اور سنت ِنبویہ کا دلدادہ ہے تو بے شک وہ قابلِ اتباع ہے قابلِ اقتداء ہے پھر اگر کسی کو اپنی پوری ذمہ دارانہ تحقیق سے کوئی بات اس کے خلاف معلوم ہو تو اس بات کو نہ لینا چاہیے ! لیکن اس کی وجہ سے اس حکیم سے علیحدگی اختیار نہ کرنی چاہیے کیونکہ اس بات کا احتمال ہے کہ وہ تو رجوع کرے اور تم ہمیشہ کے لیے اُس سے چھوٹ ہی جاؤگے ! یہ اجمال ہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا، تفصیل میں غور کے بعد بہت سی گنجائش ہے !
اب موجودہ صورت کو جانچو، ہمارا طرزِ عمل کیا ہے ؟ ایک بات اپنے ذہن میں صحیح سمجھ لی، کیسی ہی معمولی سی بات ہو، کتنی ہی جزوی چیز ہو پھر کسی کا مضمون کسی کی تقریر اُس کے موافق دیکھ لی یا سن لی تو اُس کی تعریفوں کے پل باندھ دیے جاتے ہیں ، اس کو سراہا جاتا ہے اس کی جا وبے جا حمایت کی جاتی ہے ، اس میں جو خلاف ِشرع واقعی باتیں ہوں اُن کو معمولی سمجھا جاتا ہے جو سب سے زیادہ سخت چیز ہے یعنی چاہیے تویہ تھا کہ جو بات حق ہے اُس کو حق کہا جائے ،جو غلط ہے اُس کو غلط کہا جائے، یا کم از کم سکوت کیا جائے ! لیکن ہمارا عمل یہ ہے کہ اس شخص کی حمایت میں اِن شرعی اُمور ہی کو سرے سے لغو بتادیاجاتا ہے جن کی وہ خلاف ورزی کرتا ہے .............. الخ
............اس کے بالمقابل اگرکسی کی کوئی معمولی سی بات اپنی رائے کے خلاف سن لی یادیکھ لی تو اس کا ہر فعل عیب ہے جو واقعی خوبیاں اس میں ہیں وہ بھی سراسرمذمت کے قابل سمجھی جاتی ہیں حالانکہ شرع اور عقل و فہم کے نزدیک ہر چیز کا ایک مرتبہ ہے جس سے نہ گھٹانا چاہیے اور نہ بڑھانا !
نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کا پاک ارشاد ہے :
اَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ ( کَذَا فی الجامع بروایة مسلم وابی داود عن عائشة رقم لہ بالصحة ) ۔ ١
'' لوگوں کو اُن کے مرتبہ میں رکھا کرو (یعنی نہ مرتبہ سے بڑھاؤ نہ گھٹاؤ)
لیکن ہم لوگوں کا عام برتاؤ آج کل یہ ہے کہ ہر چیز میں افراط و تفریط ہے اعتدال کا ذکر نہیں '' ٢
اور بذ ل المجہود شرح ابوداود میں حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی نے قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی تقریر کے حوالہ سے مذکورہ بالا روایت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
''اس میں غلطی کے باوجود صاحب حکمت عالم دین سے الگ نہ ہونے کی جوہدایت دی گئی ہے اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں :
اوّل یہ کہ اگر تم اس کے ساتھ جڑے رہوگے توممکن ہے کہ تمہارے اثر سے اور تم سے شرما کر وہ آئندہ حق کو قبول کرلے (اور بالکل راہِ راست پر آجائے)
اور دوسرے معنی یہ کہ اُس سے الگ مت ہو بلکہ یہ توقع رکھوکہ وہ آئندہ غلط بات سے رُجوع کرکے حق بات کا برملا اعلان کرے گا'' ٣
کسی کے قول کی تردید کا حق کس کو ہے ؟
یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اگر کسی سے مخالفت ہوجائے تو ہرکس وناکس اہلیت کا لحاظ رکھے بغیر زبان درازی پر اُتر آتا ہے اس کے متعلق تنبیہ فرماتے ہوئے حضرت شیخ تحریر فرماتے ہیں :
''کسی عالم کے قول کو رَد کرنے کا حق ضرور حاصل ہے، اس کی تردید ضرور کی جاسکتی ہے، مگر جب ہی جب اُس کے قول کے بالمقابل تردید کا شرعی سامان موجود ہو ! اس کے قول کے خلاف نصوصِ شرعیہ موجود ہوں ! اور رَد کرنے والا
١ سُنن ابی داود کتاب الادب باب فی تنزیل الناس منازلھم ج ٢ ص٦٦٥ رقم الحدیث ٤٨٤٢
٢ الاعتدال فی مراتب الرجال ص ١٧ تا ١٩ ٣ بذ ل المجہود شرح ابوداود
نصوص سے استدلال کی صلاحیت رکھتا ہو ! یہ میرا مقصود ہر گز نہیں ہے کہ عالم جو بھی کہہ دے وہ صحیح ہے اور اُس کے کسی قول پر رَد اور اِنکار نہ کیا جائے ! نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کے سوا کوئی شخص بھی ایسانہیں ہے جس کے قول پر رَد نہ کیا جاسکے یا اس کے اقوال و افعال میں غلطی کااحتمال نہ ہو ! بے شک ہے اور ضرور ہے، لیکن رَد کرنے کے واسطے اور غلطی پکڑنے کے واسطے بھی شریعت ِ مطہرہ میں حدود قائم ہیں اس کے درجات ہیں ، اُس کے قواعد اور آداب ہیں ، تاوقتیکہ ان سے واقفیت نہ ہو تو رَد کرنے کا حق بھی کسی کو نہیں ہے'' ( الاعتدال فی مراتب الرجال ص ١٦٩ ، ١٧٠ )
اختلاف کے وقت عام لوگ کیا کریں ؟
جب اختلافات عام ہوں تو جولوگ قدرت رکھتے ہیں وہ دیانتداری اور اخلاص کے ساتھ اختلافات کو مٹانے کی کوشش کریں اور جو لوگ قدرت نہ رکھیں اُن کے لیے بہتر یہی ہے کہ یکسو ہوجائیں ، بس اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی اختلاف میں نہ پڑیں اس بارے میں حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں :
''اس کی صورت یہ ہے کہ سمجھدار اور پکے لوگ جوحالات سے بھی واقف ہوں اور اہلِ علم بھی ہوں کہ ہربات کا شرعی درجہ سمجھ سکیں متحمل مزاج بھی ہوجائیں طویل طویل گفتگو کریں مفصل اور پکے صحیح حالات سنائیں اور ان کی سنیں ، اِن شاء اللہ کسی وقت میں اختلاف رفع ہوجائے گا اور جو یہ نہ کر سکتے ہوں وہ اُن کو معذور سمجھیں اور اپنی تقصیر پر میری طرح افسوس کریں لیکن گالیاں دینایہ عام مؤمنوں کوبھی جائز نہیں ، نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی صحیح حدیث کو ابھی نقل کیاگیاہے کہ :
سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْق (مؤمن کو گالیاں دینا فسق ہے) اس حدیث کو حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت ابوہریرہ، حضرت سعد ، حضرت عبداللہ بن مغفل ، حضرت عمرو بن نعمان اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نقل فرمایا ہے، اتنے جلیل القدر اور اکابر صحابہ نے نقل کیا ہے پھرچہ جائیکہ اولیاء اللہ کوگالیاں دینا برا بھلا کہنا کہ اِس میں اپنا ہی کچھ بگاڑتا ہے کسی کا کیا نقصان ہے '' ١
اور پھر حضرت شیخ الحدیث خلاصہ کے طور پر تحریر فرماتے ہیں :
''الغرض جہاں قدرت ہو وہاں نکیر کرنا نہایت ضروری ہے اسی طرح دوسری جانب جہاں قدرت نہ ہو ، نکیر پر کوئی فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہو، کسی دینی مضرت اور نقصان کا خیال ہو، وہاں خوا مخواہ خم ٹھوک کر نہ کھڑے ہونا بلکہ اس مجمع سے یکسوئی اختیار کرنا اور لوگ تمہاری یکسوئی پر برابھلاکہیں ،گالیاں دیں ، طعن و تشنیع کریں اس کو برداشت کرنا، ہمت ہو تو ان کے لیے دعائِ خیر کرنا
اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (اے اللہ میری قوم کوہدایت فرمایا کہ یہ لوگ نہیں جانتے) نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کاکس قدر پاک اور اُونچا اُسوہ ہے لیکن یہ نہ ہوسکے تب بھی ایسے مواقع میں جھگڑے سے علیحدہ رہنا، اصلاح کی فکر میں نہ لگنا، اپنے کو سنبھالے رہنا بہت غنیمت ہے'' ٢
یہ چندجواہر پارے برائے اصلاح نقل کیے گئے ہیں ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حدود پر قائم رہ کرزندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہر قسم کے شرور و فتن سے محفوظ رکھیں ، آمین ! (جاری ہے)
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php
١ الاعتدال فی مراتب الرجال ص٢٢ ٢ الاعتدال فی مراتب الرجال ص٢٥٢




یہودیوں کا بائیکاٹ کر کے اپنا ایمان بچائیں !
( شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم )
(درس حدیث ٢٦٧ : ٢٠ ربیع الثانی ١٤٤٥ھ /٥ نومبر ٢٠٢٣ ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
گزشتہ ہفتے اور اُس سے بھی پہلے فلسطین کے معاملات کے بارے میں گفتگو ہوئی تھی اور اُس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ موجودہ حالات میں فلسطین میں مجاہدین کے ساتھ اور وہاں کی عوام کے ساتھ عورتوں اور بچوں کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے وہ ہم میں کسی سے مخفی نہیں ہے ! اور اس کے بارے میں عالمِ اسلام کی جو بے حسی ہے وہ بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ! جبکہ جہاد وہاں فرضِ عین ہوچکا ہے ! اور ظلم کا سلسلہ مسلسل جاری ہے لہٰذا اُن کی مدد کرنا بقدرِ استطاعت وہ فرض عین ہوچکی ہے ! آپ اور ہم جا کر لڑ نہیں سکتے، رُکاوٹیں ہیں لیکن یہاں بیٹھ کر جو کر سکتے ہیں وہ فرضِ عین ہے ! وہ نہیں کریں گے تو گناہِ کبیرہ ہوگا ایسے ہی جیسے فرض نماز چھوڑنے کا گناہ ہے فرض روزے چھوڑنے کا گناہ ہے ! حدیث شریف میں آتا ہے مَنْ مَّشٰی مَعَ ظَالِمٍ لِیُقَوِّیَہُ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ ظَالِم فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ ١
١ مشکوة المصابیح کتاب الاداب رقم الحدیث ٥١٣٥
حضرت اَوس بن شرحبیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے سن کر کہ جو آدمی کسی ظالم کے ساتھ چلے یعنی اُس کا ساتھ دیتا رہے اور اس لیے چل رہا ہے کہ اُس کو تقویت دے اور وہ جانتا ہے یہ بات کہ یہ ظالم ہے اور جانتا ہے یہ بات کہ میں یہ جو کام کر رہا ہوں اس سے اُس کو تقویت پہنچے گی تو ارشاد فرمایا کہ وہ اسلام سے نکل گیا فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ
یہ بہت بڑی وعید ہے بہت واضح رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا فتویٰ ہے !
تو اسرائیل کا ظلم اور اُس کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ کا ظلم اور مغرب اور یورپ کا ظلم اور عربوں کا ظلم یہ کسی سے چھپا ہوا ہے ؟ سب کو معلوم ہے اور خود یہ ظالم بھی جانتا ہے کہ میں ظلم کر رہا ہوں ! بعض ظالم ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کسی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ ہم ظلم نہیں کر رہے مگر یہ ایسے ظالم ہیں کہ جانتے ہیں کہ ظلم کر رہے ہیں کیونکہ ایسی سرزمین جو وہاں کے فلسطینیوں کی ہے عربوں کی ہے اور صدیوں سے ہے ہزاروں سالوں سے ہے ! اس پر دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو لاکربیٹھانا جن کا واسطہ ہی کوئی نہیں اس سرزمین سے تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے ؟ یہ جبر سے کسی کی ملکیت پر قبضہ کرنا نہیں ہے ؟ اسے امریکہ اور برطانیہ اور مغربی ممالک اور منافق عربوں نے مل کر بیٹھایا ، جمایا اور آج تک ان کی مدد کر رہے ہیں پشت پناہ بنے ہوئے ہیں ان کے !
مسلمانوں کا عمل :
اب مسلمان کیا کر رہے ہیں ؟ میکڈونلڈ کی چیزیں کھا رہے ہیں خرید وفروخت کر رہے ہیں ان کی چیزوں کی ! یہ کس کا ہے میکڈونلڈ ؟ یہودیوں کا ! کے ایف سی کی مصنوعات لیتے ہیں کھاتے ہیں پیتے ہیں ،کس کا ہے ؟ یہودیوں کا ! کوکاکولا ،پیپسی کولا ، آر سی کولا یہ جتنے ''کولے'' ہیں جتنے ''سیون اَپ'' ہیں سب یہودیوں کے ہیں ان کو فائدہ پہنچ رہا ہے وہ اس پیسے کو کھلم کھلا دے رہے ہیں اسرائیل کو، مدد کر رہے ہیں اس کی اور وہ ان سے ہتھیار خرید کر آپ کے مسلمان معصوم بچوں کا قتل کررہے ہیں خون بہا رہے ہیں !
جہاد میں حصہ کیسے ڈالیں ؟
تو مسلمانوں پر یہ بھی فرضِ عین ہوچکا ہے کہ یہ ان چیزوں کا مقاطعہ کریں کیونکہ یہ جہاد کا حصہ ہے جہاد میں یہ بھی شامل ہے ،جہاد میں یہی نہیں ہے کہ وہ بندوق چلائے ! بندوق تو ہم چلا نہیں سکتے ! لہٰذا ہم باقی کام بھی نہ کریں یہ مطلب نہیں ہے ، بلکہ جو کر سکتے ہو وہ کرو ! جو بس میں ہے وہ کرو ! لہٰذا ہمارے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے دسترخوانوں پر دعوتوں میں شادی بیاہوں میں پیپسی اور کوکاکولا رکھتے ہیں اس کا کیا فائدہ ہے بالکل گناہ اور حرام ہے جبکہ پانی موجود ہوتا ہے پانی رکھو ! ہمارے گھر میں ہمارے مہمان خانے میں مدرسے میں خانقاہ میں آج سے نہیں کئی سالوں سے الحمدللہ یہ معمول ہے کہ دسترخواں پر کوئی مشروب اس قسم کا نہیں رکھا جاتا ! جبکہ دستر خوان پر مالدار بھی غریب بھی درمیانے بھی سب ہوتے ہیں لیکن پیپسی کولا آر سی کولا سیون اَپ یہ ہمارے دسترخواں پر ہوتا ہی نہیں ہے ! !
عام پانی ہوگا سادہ پانی برف والا پینا ہے برف والا رکھ دیا جاتا ہے کم ٹھنڈا ہے وہ رکھ دیں گے ! پانی ہی تو ہے اصل ، اصل نعمت اللہ کی پانی ہے ! کوکاکولا پیپسی کولا یہ کوئی نعمت نہیں ہے انعام نہیں ہے یہ فضول خرچی اور اِسراف ہے ! !
( اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ ) ١ فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں
( لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ) ٢ اسراف نہیں کرنا کیونکہ وہ مسرفین کو پسند نہیں فرماتا
لہٰذا مکڈونلڈ سے ،کے ایف سی سے اور اسی طرح یہودیوں کے بہت سارے(ہوٹل اور مصنوعات ) ہیں جن کے مجھے نام نہیں آتے اور آپ کو آتے ہیں جو میری باتیں سنتے ہیں انہیں پتا ہے وہ شیطان کے بھائی ہیں ! قرآن کے فرمان کے مطابق اپنے کو پچائیں اس نحوست سے یہ عمل آخرت اور قبر دونوں برباد کر دے گا ! اور مظلوموں کی آہ الگ پڑے گی مظلوموں کا صبر الگ پڑے گا سب پر ! یہ نہیں کہ ہم نے کلمہ پڑھ لیا بس سب کچھ ٹھیک ہے ، ہم نمازیں پڑھ رہے ہیں ہم حج کر رہے ہیں عمرے کر رہے ہیں لہٰذا یہ سب چیز ٹھیک ہے بالکل ٹھیک نہیں ہے، ان چیزوں کو لینا، اپنانا اور انہیں فائدہ پہنچانا جبکہ ہمیں پتا ہے کہ انہیں فائدہ پہنچ رہا ہے اور وہ اس سے ہتھیار ہی خرید رہے ہیں وہ چیزیں خرید رہے ہیں جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے تو ہم سب پر لازمی ہے کہ اِس سے بچیں ! خود اِرشاد ہے نبی علیہ السلام کا (جو شروع میں گزر چکا ہے ) مَنْ مَّشٰی مَعَ ظَالِمٍ لِیُقَوِّیَہُ وَہُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ ظَالِم فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ
یہ اسلام سے نکل گیا تو اس لیے بھائی مسلمانوں کو چاہیے اپنی شادی بیاہوں اور تقریبات میں مکمل مقاطعہ کریں ، بائیکاٹ کریں ان چیزوں کا، بالکل استعمال نہ کریں ،یہ آپ کا جہاد میں حصہ ہوگا کیونکہ اتنی استطاعت ہم میں سے ہر ایک میں موجود ہے کہ وہ یہ کام کرسکتا ہے یہ اسے کرنا چاہیے ! !
کسی دعوت میں جائیں اور کوئی آپ کو بوتل پلارہا ہے پھر بھی نہ پئیں جیسے قادیانیوں کی اور شیزان وغیرہ کی
١ سُورة بنی اسرائیل : ٢٧ ٢ سُورة الاعراف : ٣١
ایسے یہ بھی نہ پئیں جیسے وہ مدد کرنا حرام ہے ایسے یہ بھی حرام ہے ! !
مجھے تقریباً الحمدللہ پچپن سال ہوگئے ہوں گے میں نے پیپسی کولا، آر سی کولا اور یہ کوکاکولا چکھی بھی نہیں ہے ! اس سے پہلے کبھی پی ہے میں نے پھر اس کے بعد اس سے مجھے نفرت ہوگئی میں نے یہ چکھی بھی نہیں ہے آدھی صدی سے بھی زیادہ ہوگیا اس کو چھوڑے ہوئے ! چائے بھی مت پئیں جو یہودی کمپنیاں بنا رہی ہیں ، چائے بھی میں نہیں پی رہا ہوں الحمدللہ، چائے کو چھوڑے ہوئے پینتالیس سے پچاس سال ہوگئے ہیں چکھی بھی نہیں میں نے چائے ! سبز چائے کبھی کبھی وہ بھی سال میں گنتی کی، اگر گنیں گے تو زیادہ سے زیادہ چھ سے سات دفعہ ہوگی جو میں پی لیتا ہوں دس دفعہ ہوگی یعنی ہر مہینہ میں ایک دفعہ بھی نہیں بنتی ہے ، وہ پیتا ہوں جو اپنی ہو یا کسی مسلمان ملک کی ہو یا پشاور سے آئی ہوئی ہو سبز پتی ہماری اپنی، یہودیوں کی نہیں لیتے ہم ! ! الحمدللہ آپ کو کیا ہوا ؟ کیا یہ نہیں کر سکتے ؟ کوئی بڑا کارنامہ تو نہیں ہے جو ہم نے کیا ایک ارادہ کرنا ہے پختہ ارادہ کرنا ہے کہ میں یہ نہیں کروں گا بس ! !
اندر کی قوت :
اللہ نے ہر انسان کے اندر ایک طاقت رکھی ہے اس کا نام ہے'' قوتِ ارادی'' اِرادہ کی قوت استعمال کرے کہ میں نے یہ نہیں کرنا پھر آپ کی اللہ مدد کرے گا اور آسان ہوجائے گا اتنا آسان ہوجائے گا کہ آپ کو بعد میں خیال آئے گا تو ندامت ہوگی کہ اتنا آسان کام میں نہیں کر سکا ! !
اتنا آسان کام میں نے آج تک نہیں کیا اور اتنے بڑے ظلم میں میں شریک رہا ! یہ سارے احساس پیدا ہوں گے یہ جاگ جائیں گے لیکن اگر یہ چیزیں لیتے رہیں گے تو ایمان کمزور ہوگا یہ احساسات بھی نہیں جاگیں گے جب ایمان میں جِلا آئے گی تو یہ احساسات جاگیں گے بیدار ہوں گے پھر یہ دوسروں کو بیدار کریں گے ! !
بچت والا کام کرلو :
تو بھائی کچھ تو کرو اتنا ہی کر لو ! بچت ہی تو ہو رہی ہے تمہاری ،پیسے انہیں نہیں جا رہے تمہاری جیب میں ہیں اُس کا دودھ لے کر بچوں کو پلا دو بادام لے کر کھلاؤ خود کھا لو اَخروٹ لو بادام لو کام کی چیز بناؤ !
قوت ِ ارادی ، ملائکہ اور شیاطین :
پیپسی کولا سے کیا ہوگا نہ طاقت آتی ہے نہ صحت ،کچھ بھی نہیں ہوتا ایک منہ کا مزا ذائقہ بس اور وہ جا کر آنتوں کو برباد کرتی ہے یہ تیزاب ہے ! ! تو اِن اشتہاروں پر مت جاؤ اشتہاری مت بنو کہ اچھے اچھے اشتہارات دیکھے اور بس بہہ گئے اس سیلاب میں ! بھاری مضبوط پتھر بنو کہ بڑے سے بڑا سیلاب آکر گزر جائے پتھر اپنی جگہ مضبوط قائم رہے خس و خاشاک بہہ جاتے ہیں !
اب ہم خس وخاشاک بنے ہوئے ہیں پانی کا ہلکا سا ریلہ ہمیں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پھینکتا ہے مضبوط پتھر بنو پہاڑ بنو چٹان بن جاؤ بڑے سے بڑے سیلاب تمہیں ہلا نہ سکیں ! اپنے اندر قوت ِارادی پیدا کرو اس کو استعمال کرو اللہ نے طاقت دی ہے ہر مسلمان میں ، یہ قوت تو ہر اِنسان میں ہے ، کافر بھی اسی کو استعمال کر رہا ہے کیا یہ قوت ِارادی نہیں ہے یہودیوں کی کہ ہم نے مسلمانوں کو نہیں چھوڑنا کچل کے رکھ دو ! ؟ اب ان کو ترس ہی نہیں آرہا اتنا خون ہورہا ہے قوت ِارادی ہے اور شیطان ساتھ ہے اُن کے وہ انہیں جما رہا ہے !
اس کام پر آپ لگیں گے تو آپ کے ساتھ ملائکہ آپ کو جمائیں گے ! ان کو شیطان جما رہا ہے اس چیز پر، ٹھیک ہے کرتے جاؤ کرتے جاؤ امریکہ کو شیطان جما رہا ہے برطانیہ کو شیطان جما رہا ہے ہندوستان کو شیطان جما رہا ہے، ان کے قَرِیْن شیاطین ہیں !
آپ کے دوست ملائکہ ہوں گے ! تو ہم بہت کام کر سکتے ہیں جب جانے کا موقع آئے گا راستہ کھلا تو پھر اِن شاء اللہ وہاں جا کر بھی دیکھیں گے، لڑیں گے، جو بھی جس کی صلاحیت ہے وہ اُس کو کام میں لائے گا استعمال کرے گا، لیکن یہ تو خرچ نہ کرنے کی بات ہے تمہارا پیسہ بچ رہا ہے میں تو ایسی بات کہہ ہی نہیں رہا کہ جس میں پیسہ خرچ ہورہا ہے ،نہ میں چندہ مانگ رہا ہوں آپ سے کہ ہمیں چندہ دے دو، فلسطینیوں کو دے دو ،حالانکہ دے رہے ہیں اور ہم مانگ رہے ہیں لیکن اس بات میں کہ بھائی ان کی چیزیں مت خریدو، خرچ کا مطالبہ بھی نہیں ہے ،آپ کے ملک میں جو نعمتیں ہیں ان کے مقابلہ میں یہ پیپسی کی کیا اوقات ہے کچھ بھی نہیں ! ان نعمتوں کو کھاؤ پیو انہیں استعمال کرو ،اُن کی چیزوں کو چھوڑ دو، یہ یہودی غاصب ہیں امریکہ غاصب برطانیہ غاصب ! ان یہودیوں کو ساری دنیا سے لاکر فلسطین میں جمع کیا کوئی ایک وطن ان کا کبھی بھی نہیں ہوا ! روس سے لاکر انہیں وہاں بٹھایا امریکہ سے لاکر وہاں بٹھایا جرمنی سے بٹھایا فرانس سے بٹھایا لاکر انہیں ، ایران سے لاکر بٹھایا ! اب بھی اسرائیل کے بعد سب سے بڑی تعداد اصفہان ایران میں ہے یہودیوں کی ! ان کا مرکز ہے ایک اسرائیل دوسرا اِیران کا اصفہان ! اور اوّل خروج جو ہوگا دجال کا تو اصفہان کی بہت بڑی تعداد فوج کی یہودیوں کی اُس کے ساتھ نکلے گی ! یہ حدیث میں آتا ہے ! !
میں آپ کو کیا کہوں میرے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں کہنے کے لیے جو کہہ سکتا تھا وہ کہہ دیا میں خود عمل میں کوتاہ ہوں تو میری بات میں اتنی طاقت بھی نہیں آتی ، اللہ کرے کہ ہمارا ایمان مضبوط ہو ہم عمل میں مضبوط ہوں پھر ہماری بات میں بھی طاقت ہوگی اس کا اثر بھی ہوگا ! ! اس لیے اپنے ایمان کو جانچنا چاہیے اور ایسے اعمال کرنے چاہئیں جن کا تعلق ایمانیات سے ہے جب ایمانیات سے ہوگا تو ایمان مضبوط ہوگا ان شاء اللہ ! اور آسان سا نسخہ ہے کہ ان کا مقاطعہ کرو ان کا بائیکاٹ کردو اس سے ایمانیات کی تقویت ہونی شروع جائے گی ان شاء اللہ العزیز !
دھوکے سے بچنا !
اور اِس دھوکے میں مت آؤ کہ آخر یہودی بھی تو مخلوق ہیں جیسے عیسائی رہ رہے ہیں ، ایک ملک میں چائنہ والے رہ رہے ہیں ، ہندو رہ رہے ہیں ان کی سلطنت ہے ملک ہے ایک ریاست ہے ان کی بھی ! بھائی اگر ہے تو وہ وہاں رہیں ہم نے کب روکا ؟ مگر یہ تو ان کی ہے ہی نہیں ،اگر اتنے ہی لاڈلے ہیں تو انہیں امریکہ ، برطانیہ اور ان ملکوں میں واپس لے جائیں جہاں سے انہیں لائے تھے ! وہاں نہیں لے جاتے تو اتنا بڑا امریکہ ہے وہاں دے ان کو جگہ کہ یہ علاقہ یہودیوں کے لیے خاص کر دیا وہاں یہودیوں کو لے جاؤ بساؤ ! روس کی اتنی بڑی سرزمین آدھا ایشا آدھے سے زیادہ ایشا پر تو صرف روس ہے پھیلا ہوا، روس میں انہیں جگہ دے دو وہاں رکھو انہیں ،چین میں دے دو وہاں رکھو انہیں ، برازیل میں دے دو اتنا بڑا ملک ہے برازیل ،جنوبی امریکہ میں کئی ملک ہیں جو ریاستیں ہیں بڑی بڑی وہاں پر آبادی ہی نہیں ہے چار چار ایکڑوں پر ایک مکان ہے جس میں دو دو افراد رہ رہے ہیں ! ایک مر گیا تو اکیلی بڑھیا ہی رہ رہی ہے وہ بڑھیا مر گئی تو بوڑھا ہی رہ رہا ہے اتنے بڑے مکان میں ! بچے تو ہوتے نہیں کتے ہوتے ہیں ، کتے پال رہے ہیں کتا ہے یا بڑی بی ہے ! کتا ہے یا بڑے میاں ہیں ! یا دونوں ہیں اور کتا ہے بس ! کیوں رہ رہے ہیں چار ایکڑ پانچ ایکڑ میں ؟ کینڈا کتنا بڑا ہے کینڈا میں لے جا کر رکھو ! اور آسٹریلیا تو پورا براعظم ہے یہ یہاں سے جنوب مشرق کی طرف ہے وہاں کیوں نہیں رکھتے لے جاکر ؟ خالی پڑا ہوا ہے ، کئی کئی سو میل آبادی ہی نہیں ہے وہاں ! !
لیکن مسلمانوں کے یہ سب دشمن ہیں یہ مسلمانوں کی دشمنی میں لائے ہیں !
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطاء فرمائے ہمارا ایمان مضبوط فرمائے اور ایمانی غیرت پیدا فرمادے اگر مری ہوئی ہے تو اُسے زندہ کر دے اور ہمیں اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت کی رُسوائی اور پکڑ اور گرفت اور اپنے عذاب اور قہر سے بچا لے کیونکہ وعید آئی ہے جو ہم پہلے بتا چکے ہیں حدیث میں کہ تمہیں یہ کرنا پڑے گا ، نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر عذاب بھیجے گے اور عذاب عام ہوجائے گا بہت بڑا عذاب بھیج دیں گے اللہ تعالیٰ !
اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ عِنْدِہ رَوَاہُ التِّرْمِذِی اپنے طرف سے عذاب بھیج دیں گے اللہ تعالیٰ ! ایک جگہ آتا ہے یُوْشِکُ اَنْ یَّعُمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابِہ کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی پکڑ میں گھیر لیں عام کردیں گے کوئی نہیں بچے گا ایسی پکڑ آسکتی ہے خدانخواستہ ، اللہ تعالیٰ تو کہیں سے بھی گرفت کر لے اور کہیں سے بھی باہر نکال کر اِنسان کو بچا لے ! اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور استقامت عطاء فرمائے، ہم سب کاخاتمہ ایمان پر فرمائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی شفاعت اور اُن کا ساتھ نصیب فرمائے آمین !
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ




جامعہ مدنیہ جدید میں تقریب تکمیلِ بخاری شریف
( مولانا محمد حسین صاحب ،مدرس جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
''صُفة ''اسلام کا پہلا مدرسہ ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے ہجرت کے بعد قائم فرمایا اور اصحابِ صُفة اس کے پہلے طلبائِ علوم تھے اور حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم اس کے پہلے معلم تھے ''جامعہ مدنیہ جدید '' کے دارُالحدیث سے بلند ہونے والی صدا قَالَ اللّٰہُ وَقَالَ الرَّسُوْلُ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جامعہ مدنیہ جدید صرف ایک علمی ادارہ نہیں بلکہ کلمہ حق کی بلندی کے لیے ایک اصلاحی اسلامی تحریک بھی ہے ! ادارہ ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر قرآن و حدیث کے علوم اور ائمہ کرام کے فقہی اصولوں کی اشاعت کے ذریعے علم کی روشنی پھیلا رہا ہے ! جامعہ مدنیہ جدید کے قیام کا مقصد قرآن و حدیث کے علوم کی اشاعت، فقہی اصولوں کا تعارف ، مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تہذیب سے آراستہ کرنا، زندگی کے تمام شعبوں میں ایسے ماہر علماء اور مفکرین تیار کرنا جو علیٰ وجہ البصیرت دعوت و تبلیغ اور تحقیق کا کام کر سکیں ! جامعہ مدنیہ جدید روزِ اوّل سے ہی تعلیمی، تبلیغی اور تربیتی بنیادوں پر قائم ہے جامعہ سے متصل قطب عالم حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ کی قائم کردہ خانقاہِ حامدیہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ باطنی و اخلاقی اصلاح و تربیت کا بھی بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے جس کے لیے اپنے اکابر کے طرز پرباقاعدہ خانقاہی نظام قائم ہے ! اس کے علاوہ جدید علوم سے بھرپوراِستفادہ کے لیے بھی مختلف شعبہ جات قائم ہیں جو جامعہ مدنیہ جدید کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم کی زیر نگرانی و سربراہی میں خوب کام کر رہے ہیں والحمد للہ !
تکمیل ِبخاری شریف کی تقریب ١٦ رجب١٤٤٥ھ/ ٢٨ جنوری ٢٠٢٤ء بروز اتوار جامعہ کی مسجد ِ حامد شارعِ رائیونڈ لاہور میں منعقد ہوئی ،بانی ٔ جامعہ مدنیہ جدید قطب ِ عالم شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی حسب ِخواہش اور اِرادے کی مرحلہ وار تکمیل کا عمل تیزی سے جاری ہے ، صرف اُنیس برس میں جامعہ مدنیہ جدید سے ایک ہزار چار سو چھبیس(١٤٢٦) علماء سند ِفضیلت حاصل کرکے ملک و بیرون ملک مختلف علاقوں میں دینی خدمات میں مصروف ہیں ، والحمد للہ !
آج حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب دامت برکاتہم کی زیر صدارت دورۂ حدیث شریف کے طلباء کو بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھانے کے لیے محفل منعقد کی گئی ! مسجد ِ حامد کے وسیع صحن میں طلبہ ٔ دورہ حدیث سروں پر عمامے باندھے صحیح بخاری شریف اپنے سامنے تپائیوں پر سجائے اسٹیج کے سامنے موجود تھے اور اسٹیج کے دائیں اور بائیں اساتذہ اور مشائخ کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا، مسجد کا وسیع و عریض صحن طلباء اور مہمانوں کے اِژدحام کی وجہ سے اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تنگ پڑ گیا، اساتذۂ کرام کی زیر نگرانی نظم و ضبط دیدنی تھا، چاق و چوبند طلباء کی ایک جماعت مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے مسجد کے مرکزی دروازہ پر موجود تھی، گاڑیوں کی سلیقے سے پارکنگ کروانے کے لیے طلباء کی ایک فعال جماعت موجود تھی اور مسجد کے داخلی دروازہ پر جامعہ کے شعبہ مالیات کا اسٹال موجود تھا، مسجد کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ اور بانی جامعہ قطب ِ عالم حضرت اقدس مولانا سیّدحامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے ملفوظات سے مزین فلیکس اور بیرونی دیواروں پر طلباء کی طرف سے معزز مہمانوں کے لیے استقبالیہ فلیکس آویزاں تھے !
تقریب کا باقاعدہ آغاز صبح دس بجے تلاوتِ کلام ِ پاک سے ہوا، تلاوت قرآن کی سعادت جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ قاری محمود الحسن صاحب اور محمد میاں بن مولانا سیّد مسعود میاں صاحب نے حاصل کی بعد ازاں حمدو نعت ِرسولِ مقبول صلی اللہ عليہ وسلم جامعہ کے طلباء کرام ظہیر احمد، ظہور احمد، احسن جاوید اور قدیم فاضل دنیال احمد اور تشریف لائے ہوئے مہمان فیصل بلال حسان نے پیش کیں اور جامعہ مدنیہ جدید کے قدیم فاضل غلام اللہ میواتی اور عمرفاروق صاحبان نے جامعہ مدنیہ جدید اور بانی ٔ جامعہ کے بارے میں خوب خوب اشعار پیش کیے۔
معہد الخلیل کراچی سے تشریف لائے ہوئے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب مدظلہم نے مفصل اور جامع بیان فرمایا !
حضرت مولانا نصیر احمد صاحب احرار ناظمِ اعلیٰ جمعیة علماء اسلام صوبہ پنجاب نے خانوادۂ مولاناحامد میاں کی دینی اور علمی خدمات پر روشنی ڈالی !
دارُالعلوم رحیمیہ ملتان کے اُستاذ الحدیث و ناظم تعلیمات حضرت مولانا عبدالستار صاحب مدظلہم (خلیفہ مجاز حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم) نے بھی بیان فرمایا !
مدرسہ احسان القرآن والعلوم النبویة چوبرجی لاہور کے مہتمم حضرت مولانا انیس احمد صاحب مظاہری اور جامعہ ربانیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا حافظ اجمل صاحب نے طلباء کو قیمتی نصائح کیں ۔
اُستاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب دامت برکاتہم نے اصلاحی بیان فرمایا !
اور آخر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے طلباء کو بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھائی اور سیر حاصل تقریر فرمائی !
دورۂ حدیث سے فارغ التحصیل طلبائِ کرام کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم اور تمام اساتذۂ کرام نے دستارِ فضیلت پہنائیں اس موقع پر طلباء اور ان کے والدین کی خوشی دیدنی تھی ! جامعہ کی طرف سے دستارِ فضیلت حاصل کرنے والے طلباء کو دُروعِ اعزازیة ١ اور کتب کے تحفہ سے بھی نوازا گیا ! !
نیز جامعہ کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے اوّل ، دوم ، سوم اور صاحب ِ ترتیب طلباء کو بطورِ خاص نقد انعامات سے نوازا والحمد للہ ! !
بعد ازاں راقم الحروف نے جامعہ مدنیہ جدید کا مختصر تعارف پیش کیا اور احباب کو توجہ دلائی گئی کہ جامعہ مدنیہ جدید و مسجد ِ حامد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ، اس ادارہ میں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانے پر جاری ہیں ، جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اہلِ خیر حضرات کی
١ Honorary Shield
دعاؤں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجئے اور اپنے عزیز و اَقارب کو بھی ترغیب دیجئے تاکہ صدقہ جاریہ کا سامان ہو۔
جامعہ مدنیہ جدید میں مختلف شعبے کام کر رہے ہیں : شعبہ حفظ و ناظرہ ، تجویدوقرأت، درسِ نظامی، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الفقہ ، دارُ الافتائ، شعبہ عصری علوم (سکول)،شعبہ کمپیوٹر (ابتدائی کمپیوٹر ڈولپمنٹ ، ربوٹکس اینڈ آٹومیشن)،شعبہ نشر و اشاعت (ماہنامہ انوارِ مدینہ و مکتبة الحامد ) ، خانقاہِ حامدیہ ، الحامد ٹرسٹ ، مستشفیٰ الحامد(ڈسپنسری)، مکتبۂ جبریل اورشعبہ برقیات۔
انتظامیہ کی طرف سے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا گیا، بعد ازاں حضرت مولانا سیّد رشید میاں صاحب مدظلہم کی دُعا پر مجلس کا بخیر و خو بی اختتام ہوا ! !
تقریب کے اختتام پر آنے والے مہمانانِ گرامی کے لیے ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا
اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ،آمین۔
اس تقریب کی مکمل رُوداد جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر سن سکتے ہیں
www.jamiamadaniajadeed.org




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
whatsapp : +92 321 4790560




نتائج سالانہ امتحان دورہ حدیث شریف(١٤٤٥ھ/٢٠٢٤ئ)
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور )
٭٭٭
نمبر شمار اسم الطالب اسم الاب المدیریة حاصل کردہ نمبر تقدیر
1 ابراھیم محمد یٰسین خانیوال 422 جیدجدًا
2 احتشام الحق حبیب الحق لوئر دیر 366 جید جدًا
3 احسان الٰہی محمد اسلم لاہور 463 جید جدًا
4 احسن جاوید جاوید اختر ہری پور 460 جید جدًا
5 احمد اللّٰہ درویش خان کوہستان 546 ممتاز
6 اکرام اللّٰہ جمعہ خان لورالائی 329 جید
7 انیس خالد محمد ہارون رشید قصور 399 جید جدًا
8 آفتاب احمد چھٹمل لاہور 381 جید جدًا
9 آفتاب احمد یورمس چترال 319 جید
10 بلال بشیر محمد بشیر مہمند 497 ممتاز
11 جاوید اللّٰہ ژانہ ٹیپ چترال 390 جید جدًا
12 حافظ علی ارشد محمد ارشد نارووال 578 ممتاز
13 حافظ محمد فیصل محمد اسلم قصور 357 جید جدًا
14 راجہ محمد اسماعیل محمد نسیم گجرات 370 جید جدًا
15 رفاقت علی لیاقت علی قصور 288 مقبول
16 ریحان احمد عباسی وحید اختر عباسی ہری پور 436 جید جدًا
17 زبیر احمد خلیل احمد قصور 296 جید
18 سہیل احمد خلیل احمد گجرانوالہ 383 جید جدًا
19 شمس الرحمن مومین محمد ٹانک 235 مقبول
20 ضیاء المرسلین نصیر احمد ضیائ شیخوپورہ 378 جید جدًا
21 طارق محمود محمد اشرف قصور 362 جید جدًا
22 طاہر خان زاہد خان لاہور 419 جید جدًا
23 طاہر محمود طارق محمود بہاول نگر 452 جید جدًا
24 ظہور احمد محمد مسکین اعوان نیلم 264 مقبول
25 عبد اللّٰہ شیر احمد ہرات 480 ممتاز
26 عبدالباسط عبدالحافظ چترال 417 جید جدًا
27 عبدالرحمن امتیاز علی قصور 235 مقبول
28 عبدالرحمن کمال دین قصور 274 مقبول
29 عبداللطیف شریف اللّٰہ اپر دیر 436 جید جدًا
30 عبدالقیوم حافظ اللّٰہ دتہ وہاڑی 336 جید
31 عبدالوارث محمد فقیر سوات 249 مقبول
32 عبید اللّٰہ قاری اللّٰہ بخش لاہور 413 جید جدًا
33 عبید اللّٰہ مولانا محمد یونس لاہور 377 جید جدًا
34 عبید اللّٰہ میر محبت خان سبی 373 جید جدًا
35 عتیق رضا عبداللطیف قصور 320 جید
36 عطاء اللّٰہ امان اللّٰہ خان اپر دیر 316 جید
37 عمر فاروق محمود احمد لاہور 359 جید جدًا
38 غلام نبی اکبر دین ہری پور 269 مقبول
39 فرحان احمد عرفان احمد قصور 268 مقبول
40 فرحان علی عبدالرؤف لاہور 410 جید جدًا
41 فیصل عظیم محمد مشتاق قصور 333 جید
42 محب اللّٰہ لطیف الرحمن بنوں 461 جید جدًا
43 محمد ابرار محمد امجد قصور 340 جید
44 محمد ابوبکر صدیق محمد رمضان مظفرگڑھ 322 جید
45 محمد ارسلان خان سردار خان نارووال 310 جید
56 محمد اُسامہ محمد اسلم لاہور 298 جید
47 محمد اکرام صدیق راؤ محمد صدیق راؤ مظفرگڑھ 403 جید جدًا
48 محمد بلال لال خان لاہور 572 ممتاز
49 محمد جنید مبارک علی قصور 327 جید
50 محمد حذیفہ حافظ اللّٰہ بخش بہاولپور 266 مقبول
51 محمد خلیل احمد ملک احمد بخش مظفرگڑھ 337 جید
52 محمد زبیر محمد وکیل خانیوال 395 جید جدًا
53 محمد زبیر اسلم محمد اسلم جھنگ 337 جید
54 محمد زین العابدین محمد یونس سیالکوٹ 296 جید
55 محمد شبیر محمد حنیف اوکاڑہ 303 جید
56 محمد عاقب محمد رفیق لاہور 338 جید
57 محمد عامر محمد صلاح الدین رائیونڈ 331 جید
58 محمد عامر ممتاز احمد بہاولپور 270 مقبول
59 محمد عبدالصمد محمد جاوید احمد خان مالاکنڈ 319 جید
60 محمد علی شان حاجی عبدالغفور مظفرگڑھ 320 جید
61 محمد عمیر رحمت علی گجرانوالہ 310 جید
62 محمد فراست مقبول الرحمن مانسہرہ 578 ممتاز
633 محمد فیصل رانا رب نواز ملتان 364 جید جدًا
64 محمد کامران شہرہ خان چکوال 284 مقبول
65 محمد کامران عبدالمجید قصور 319 جید
66 محمد نعمان ظفر ظفر اقبال ملتان 264 مقبول
67 محمد نعیم رانا محمد سلطان شیخوپورہ 338 جید
68 محمد یٰسین محمد حسین بہاولنگر 473 جید جدًا
69 مدثرخان طور خان دیراپر 329 جید
70 معاذ خان محمد یونس خان مالاکنڈ 320 جید
71 معراج الدین دولت یار بدخشان 447 جید جدًا
72 نجم الثاقب محمد ارشد لاہور 310 جید




قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)




سلسلہ مضامین سند ِحدیث
حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب اوڈیگرامی
( مولانا محمد معاذ صاحب، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب فاروقی اوڈیگرامی رحمہ اللہ کی ولادت ١٩٠١ء میں سوات کے علاقہ اوڈیگرام میں ہوئی، آپ نسباً فاروقی تھے اسی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ فاروقی نسبت ضرور لکھتے تھے، آپ کی شہرت اپنے علاقہ میں ''میرہ مولوی صاحب ''کے نام سے تھی !
حضرت مولانا مغفور اللہ باباجی مدظلہم آپ کا حلیہ مبارک یوں بیان فرماتے ہیں :
شکل و صورت کے اعتبار سے میانہ قد، گھنی ڈاڑھی اور گندم گو رنگ والے تھے جبکہ مزاج میں نہایت سادگی اور جلالت تھی، رہن سہن، اخلاق و کردار، عبادت و زُہد میں اسلاف کا نمونہ تھے، ہمیشہ سفید لباس پہنا کرتے تھے ! ١
مولانا عبد الحلیم اوڈیگرامی نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، درسِ نظامی کی تعلیم کے لیے اپنے بھائی مولانا عبدالرحمن قاضی بابا کے ساتھ ہندوستان کا سفر کیا، یہاں آپ نے کن کن مدارس میں تعلیم حاصل کی ؟ اس کی تفصیل مفقود ہے البتہ اتنی بات طے ہے کہ آپ نے دورۂ حدیث مدرسہ عبدالرب دہلی میں اُستاذ الاساتذہ مولانا عبدالعلی میرٹھی اور مولانا محمد شفیع محدث دیوبندی کی خدمت میں رہ کر پڑھا !
راقم نے مدرسہ عبدالرب دہلی رابطہ کرکے آپ کا تعلیمی ریکارڈ معلوم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی مگر سالِ فراغت اور معلومات مکمل فراہم نہ ہوسکنے کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ ہوسکی، آپ کی تعلیمی تفصیلات اور سند ِفراغت کے متعلق معلومات کے لیے اہلِ خانہ سے بھی رابطہ کیا گیا، مگر ان حضرات کے پاس بھی یہ دستاویز محفوظ نہیں !
١ تحفة الملہم لحل ما فی مسلم ج ١ ص ٣٠
دورۂ حدیث میں آپ نے کون سی کتاب کس استاذ سے پڑھی ؟ اس کی تفصیل بھی معلوم نہ ہوسکی ! البتہ اُستاذِ محترم مولانا رشید احمد صاحب قادری مدظلہم کو آپ نے روایت ِحدیث کا جو قلمی اجازت نامہ عنایت فرمایا تھا اُس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مولانا عبدالعلی میرٹھی رحمہ اللہ سے حدیث کی کون کون سی کتب پڑھی تھیں ، یہ اجازت نامہ آپ کی عربی ادب اور سجع بندی سے واقفیت کا عمدہ نمونہ ہے، ذیل میں تبرکاً اُس اجازت نامے کو نقل کیا جاتا ہے
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
بسم اللّٰہ بدیع السموت و الارضین و الصلٰوة والسلام علی سیّدنا رسول الثقلین وعلی اھل بیتہ الطاھرین و اصحابہ الواصلین ۔ و بعد فان المولوی رشید احمد متوطن کوتکی قد قرا علی صحیح الامام مسلم و سنن ابی داود و النسائی و شیئا من سنن ابن ماجہ و موطا امام مالک کاملا و غیرہ من الکتب فی العلوم و الفنون۔ فاجزتہ لتدریس تلک الکتب و اجزتہ فی جمیع العلوم و الفنون و انی عرضت تلک الکتب و صحیح الامام البخاری وغیرہ علی مولانا المولوی الذکی عبدالعلی بدھلی۔ وصلی اللّٰہ علی سیّدنا محمد وعلی آلہ و صحبہ اجمعین ۔
العبد عبدالحلیم فاروقی
اس اجازت نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مدرسہ عبدالرب دہلی میں مولانا عبدالعلی میرٹھی سے، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابی داود، سنن ابن ماجہ اور موطا امام مالک مکمل پڑھیں ، دیگر کتب جامع ترمذی، شمائل ترمذی، موطا امام محمد وغیرہ یقینا آپ نے مولانا محمد شفیع محدث دیوبندی سے پڑھی ہوں گی، آپ کی ولادت کے حساب سے جو قریب قریب فراغت کا عرصہ بن رہا ہے، اس زمانہ میں مولانا عبدالعلی میرٹھی کے ساتھ آپ ہی حدیث پڑھاتے تھے، و اللہ اعلم !
تدریس :
حصول علم سے فراغت کے بعد آپ نے اوڈیگرام ہی میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا، جلد ہی آپ کا درس مشہور ہوگیا، دُور دُور سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور علمی تشنگی بجھا کر اپنے اپنے علاقوں کو سیراب کرتے، آپ کا تدریسی دور عروج پر تھا اُسی دوران ١٩٤٤ء میں والی ٔ سوات میاں گل عبدالودود صاحب نے دینی تعلیم کے فروغ کے لیے سیدو شریف میں ایک دارُالعلوم کی داغ بیل ڈالی، ادارہ کی ترقی کے لیے بادشاہ صاحب کے بہی خواہوں نے یہ مشورہ دیا کہ اگر آپ مدرسہ کی ترقی چاہتے ہیں تو دیگر علمائِ کرام کے ساتھ اوڈیگرام سے مولانا عبدالحلیم صاحب کو بھی مدعو کریں ، آپ نے بادشاہ صاحب کی پُر خلوص دعوت کو قبول فرمایا اور سیدو شریف مدرسہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا ! !
ذوقِ تدریس :
مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی کو پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق تھا، آپ کے تمام اوقات تعلیم و تعلّم سے پُر تھے، فجر بعد دارُالعلوم کے لیے پیدل روانہ ہوتے تو راستے میں طلبہ سبق پڑھتے جاتے، اسی طرح واپسی پر بھی آپ پڑھاتے ہوئے ہی تشریف لاتے، گھر والے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کرتے تو آپ فرماتے : ''ہائے تمہیں کیا معلوم ؟ دین کے سبق کا مزہ تو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہے'' ١
مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی نے سیدو شریف مدرسہ میں قریباً بیس سال تدریس کی، اس دوران آپ نے فنون کی اعلیٰ کتب کے ساتھ ساتھ علومِ قرآن و حدیث کا درس بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ دیا ! آپ کے زیرِ درس کتابوں میں مطول، مختصر المعانی، دیوانِ حماسہ، قاضی مبارک، مقاماتِ حریری، جلالین، صحیح مسلم، سنن ابی داود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، موطا امام مالک وغیرہ شامل ہیں جبکہ حیاتِ مستعار کے آخری سالوں میں بخاری شریف کا ایک حصہ بھی آپ سے متعلق رہا۔ سنن نسائی وغیرہ سے متعلق اُستاذیم مولانا رشید احمد صاحب قادری مدظلہم کا فرمانا ہے کہ
''اُستاذِ محترم سال کے آخر میں یہ کتب سرداًپڑھایا کرتے تھے، بسم اللہ کے بعد فرماتے کہ پڑھتے جائو رُکنا کہیں نہیں '' ١
١ التنسیق ، تذکرہ اکابر و مشائخ دارُالعلوم مارچ ٢٠١٩ء ص ٧١
اصلاح و اِرشاد :
درس و تدریس کے ساتھ آپ عوام کی اصلاح میں بھی مشغول رہتے، جمعہ، عیدین اور تراویح آپ جامع مسجد اوڈیگرام میں پڑھاتے، نماز کے بعد عوام حلقہ بنا کر آپ کے گرد بیٹھ جاتی، اس مجمع میں عوام کے ساتھ علما ئِ کرام بھی موجود ہوتے، آپ پوچھے جانے والے مسائل کا تشفی بخش جواب دیتے، ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق اس سرچشمہ علوم سے سیراب ہوتا ! !
فتاویٰ ودودیہ :
ریاست سوات کی طرف سے عوام کو پیش آمدہ عمومی مسائل میں مفتیٰ بہ اقوال کا ایک مجموعہ تیار کروایا گیا جو فتاویٰ ودودیہ کے نام سے مشہور ہے، یہ فتاویٰ بانی ریاست سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب سے منسوب تھا جو اِس کے اصل محرک تھے، اس کے مرتب حقیقی مولانا عبدالمجید بازارگئی بابا کے صاحبزادے مولانا ابراہیم صاحب تھے اورحضرت مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی اس فتاویٰ کمیٹی کے رُکن رکین تھے۔ یہ مجموعہ دو جلدوں پر مشتمل ہے اس کا مختصر تعارف کرواتے ہوئے حضرت مولانا خلیل الرحمن صاحب حقانی مدظلہم لکھتے ہیں :
'' اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے مختلف علاقوں کی پشتو زبانوں میں سے بابوزئی کی پشتو کا انتخاب کیا گیا جو انتہائی نرم اور آسان زبان تھی۔اولاً اس کتاب کی جلد ثانی منظر عام پر آئی جو قضاء اور معاملات پر مشتمل تھی، جب اس جلد کو مختلف علاقوں کے علماء کے سامنے پیش کیا گیا تو اس عظیم خدمت پر علما ئِ کرام نے بادشاہ صاحب کا شکریہ ادا کیا، یہ حصہ ریاست کے لیے دستور اور آئین کی مانند رہا ! اس کے بعد بادشاہ صاحب نے مولانا ابراہیم صاحب سے عبادات کے بارے میں جلد اوّل لکھنے کی درخواست کی'' ١
١ التنسیق ، تذکرہ اکابر و مشائخ دارُالعلوم مارچ ٢٠١٩ء ص ٩٥
فتاوی ودودیہ کی بادشاہ صاحب کی نظر میں کس قدر اہمیت تھی، ملاحظہ فرمائیں :
''بادشاہ صاحب نے اپنے ذاتی خرچ سے فتاوی ودودیہ کی مفت تقسیم کا سلسلہ شروع فرمایا اور ہزاروں کی تعداد میں خواندہ عوام و خواص میں فتاویٰ ودودیہ کے نسخے تقسیم کیے اور جب تک بقید ِحیات رہے اس سلسلے کو جاری رکھا'' ١
جلالت ِعلمی :
حضرت مولانا مغفور اللہ باباجی مدظلہم آپ کی جلالت ِعلمی پر یوں روشنی ڈالتے ہیں :
''تمام علوم و فنون میں حد درجہ پختگی و مہارت حاصل تھی، خصوصاً علوم عربیہ، علم ادب و بلاغت میں بے مثال تھے، مطول پر زُبد الحواشی کے نام سے بہترین حاشیہ لکھا ہے جو علماء و طلبہ میں انتہائی مقبول ہے اسی طرح مختصر المعانی اور قاضی مبارک پر بھی آپ کا حاشیہ مطبوعہ ہے''
مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی سیدو شریف مدرسہ کے نائب شیخ الحدیث تھے، مسلم شریف وغیرہ کتب حدیث آپ سے متعلق رہتی تھیں ، سیدو شریف مدرسہ کی طرف سے فارغ التحصیل علما ء کو دو اَسناد جاری کی جاتی تھیں ، ایک پر سیدو مدرسہ کی کچھ تاریخ، طالب علم کے بارے میں اساتذہ کی رائے اور مدرسہ میں پڑھی گئی کتب درج ہوتی تھیں ، دوسری سند روایت ِحدیث کا اجازت نامہ ہوتا تھا جس میں شیوخ الحدیث کی بعض اہم اَسناد کی وضاحت کے ساتھ ان کی طرف سے روایت ِحدیث کی اجازت درج ہوتی تھی، ہمارے پیش نظر اُستاذِ محترم مولانا رشید احمد صاحب قادری مدظلہم کو دیا گیا اجازت نامہ ہے، یہ اجازت نامہ اس سے علیحدہ ہے جو اوڈیگرام بابا نے ان کو خود تحریر کرکے دیا، اس اجازت نامے میں مولانا خان بہادر مارتونگ بابا اور مولانا عبدالحلیم اوڈیگرام بابا سے تلمذ اور ان کی اہم اَسناد کا تذکرہ ہے، ہم اس اجازت نامے کا تمہیدی حصہ اور اوڈیگرام بابا سے متعلق حصہ یہاں درج کرتے ہیں :
١ التنسیق ، تذکرہ اکابر و مشائخ دارُالعلوم مارچ ٢٠١٩ء ص ٩٦
٢ تحفة المفھم لحل مافی مسلم ج ١ ص ٣٠
اجازة الاحادیث النبوی
من اساتذة الکرام دارالعلوم حقانیہ سیدو شریف سوات
الحمد للّٰہ نحمدہ و نستعینہ و نومن بہ و نتوکل علیہ و نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ و نشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ اما بعد فیقول العبد الفقیر المحتاج الی رحم القدیر رشید احمد بن مولوی فضل جمیل۔۔۔۔۔۔۔ و ایضا حصل لی الاجازة من حضرت مولانا استاذ الکل المشھور مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی السواتی و حصل لہ الاجازة من حضرت مولانا علامہ عبدالعلی میرٹھی ثم الدھلوی
و حصل لہ الاجازة من حضرت مولانا تاج الاولیاء صاحب القوة القدسی علامہ الفنون العقلی و النقلی المحدث الحافظ الحاج محمد قاسم النانوتوی و حصل لہ الاجازة من حضرت رئیس الفقھاء و المحدثین مولانا احمد علی السھارنفوری و الزاھد المتقی المحدث مولانا قطب الدین الدھلوی وحصل لہما الاجازة من حضرت العلام شیخ المشھور بین الآفاق مولانا محمد اسحاق الدھلوی غفر اللّٰہ لہ و لھم و لنا اجمعین ۔
مولانا عبدالعلی میرٹھی کی اسناد سے متعلق یہ عبارت عموماً مدرسہ عبدالرب دہلی سے دی جانے والی سند ِفراغت پر درج ہوتی تھی، معلوم ہوتا ہے یہ عبارت وہیں سے لی گئی ہے، مولانا عبدالعلی میرٹھی کی مندرجہ بالا اور دیگر اَسناد پر ہم اپنے مقالہ ''مولانا عبدالعلی میرٹھی ''میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں ، وہاں ملاحظہ کرلیا جائے !
علمی فیض :
مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی کا علمی فیض ان کے بہت سے تلامذہ سے چلا مگر جتنا عام مولانا مغفورُ اللہ باباجی مدظلہم سے ہوا اِس کی نظیر نہیں ، مولانا مغفورُ اللہ باباجی مدظلہم قریباً چالیس برس سے متجاوز درسِ مسلم قائم کیے ہوئے ہیں ، اس عرصہ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پچیس تیس ہزار اَفراد نے آپ سے مسلم شریف پڑھی ہوگی، آپ سے مسلم شریف پڑھنے والے اکثر علماء مسند ِحدیث کی رونق بن کر اب خود مسلم شریف پڑھارہے ہیں ۔ہماری سند دو طرق سے مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی سے متصل ہوتی ہے :
اوّل : اُستاذِ محترم مولانا مفتی محمد عقیل صاحب مدظلہم، بندہ نے ان سے مسلم شریف پڑھی، انہوں نے مسلم شریف مولانا مغفورُ اللہ باباجی مدظلہ سے پڑھی، مغفورُ اللہ باباجی مدظلہ نے مسلم شریف جلد اوّل میں سے مقدمہ اور کتاب الایمان مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی سے پڑھا !
دوم : مولانا رشید احمد قادری مدظلہم، بندہ نے ان سے پڑھی جانے والی کتب میں سنن نسائی جلد ثانی کا معتد بہ حصہ اور موطا امام مالک سنی ہے، قادری صاحب نے دیگر کتب کے ساتھ یہ دونوں کتابیں مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی سے پڑھیں ۔
وفات :
مولانا عبدالحلیم اوڈیگرامی عمر کے آخری حصہ میں زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے، حج سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ١٧ ربیع الثانی ١٣٨٥ھ /١٥اگست ١٩٦٥ ء بروز اتوار آپ کا انتقال ہوا، آپ کی نمازِ جنازہ بانی ریاست سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب نے پڑھائی، جنازہ میں حضرت مولانا مارتونگ بابا ،علمائ، طلبہ اور عوام کے جمِ غفیر نے شرکت فرمائی ! اللہ تعالیٰ کی آپ پر کروڑوں رحمتیں ہوں ! !




امیرِ پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٩ جنوری کو اَمیرِپنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب ، حضرت مولانا مفتی مظہر صاحب اسعدی کی دعوت پر سالانہ تقریب تقسیمِ اسناد کانفرنس میں شرکت کے لیے صبح گیارہ بجے بہاولپور کے لیے روانہ ہوئے، مغرب کے قریب بہاولپور پہنچے بعد نمازِ مغرب حضرت صاحب تقریب میں شرکت کے لیے مدرسہ سیّدنا اسعد بن زُرارہ تشریف لے گئے جہاں آپ نے طلباء میں انعامات تقسیم کیے اور معززین سے اسلام میں سیاست کی اہمیت کے موضوع پر پُر مغز گفتگو فرمائی۔
اگلی صبح ناشتہ کے بعد حضرت صاحب کے شاگرد مولانا محمد اسماعیل صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے مخطوطات پیش کیے جن کو دیکھ کر حضرت صاحب نے انتہائی خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا اور بہت ساری دعائیں دیں ، بعد اَزاں حضرت صاحب نے حضرت مفتی صاحب سے اجازت چاہی اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے، شام پانچ بجے بخیر و عافیت جامعہ پہنچ گئے والحمد للہ !
١١ جنوری کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب ، مہتمم معہد الخلیل الاسلامی حضرت مولانا محمد الیاس صاحب مدنی مدظلہم کی دعوت پر تکمیل بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز لاہور سے کراچی تشریف لے گئے۔ کراچی پہنچنے کے بعد ہوائی اڈے پر حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب مدظلہم سرپرست ادارہ اور حضرت مولانا محمد صاحب مدنی نائب مہتمم حضرت صاحب کا استقبال کیا ۔
بعد اَزاں حضرت صاحب حاجی نذیرصاحب کی پُر زور دعوت پر طارق روڈ اُن کے گاڑیوں کے شو رُوم تشریف لے گئے وہاں حضرت نے مغرب کی نماز ادا کی، حضرت کے ہمراہ کراچی کے میزبانان گرامی بھی تھے، یہاں سے رُخصت ہوکر حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب کی قیام گاہ تشریف لے گئے رات کا کھانا وہیں تناول فرمایا اس موقع پر مقامی علماء اور مجلس تحفظِ ختم نبوت کے اَمیر مولانا محمد اعجاز صاحب بھی موجود تھے، رات کا قیام یہاں ہی ہوا۔
اگلے روز صبح ناشتہ کے بعد مولانا قاری تنویر احمد صاحب شریفی اور حافظ فرید احمد صاحب شریفی کی دعوت پر حضرت صاحب پاکستان چوک مسجد سٹی اسٹیشن جمعہ پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے، نمازِجمعہ کے بعد وہاں کے مقامی علمائِ کرام اور متعلقین نے حضرت سے ملاقات کی، یہاں سے رُخصت ہوکر اپنے برادرِ نسبتی فیض الاسلام صاحب کے ہاں جانا ہوا اور وہیں رات کا قیام فرمایا۔
اگلے روز حضرت صاحب دوپہر کے کھانے پر حاجی نذیر صاحب کے ہاں تشریف لے گئے پھر وہاں سے حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب کی معیت میں ختم نبوت کے دفتر تشریف لے گئے، حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب کے ہاں عشائیہ کے بعد حضرت صاحب قیام کے لیے فیض الاسلام صاحب کے ہاں تشریف لے گئے ۔
اگلے روز پھر حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب کے ہاں تشریف لے گئے جہاں کچھ دیر آرام فرمایا، حضرت سے ملاقات کے لیے حافظ فرید احمد صاحب اور دانش بھائی اور حاجی نذیر صاحب تشریف لائے جہاں دوپہر سے شام تک ان حضرات نے حضرت صاحب کے ساتھ وقت گزارا اور مختلف اُمور پر تبادلہ خیال ہوا۔ عشائیہ کے بعد معہد الخلیل الاسلامی میں ختم بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے جہاں آپ نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا سبق پڑھایا اور بیان فرمایا۔ تقریب کے اختتام پر مقامی حضرات سے اجازت چاہی اور واپس فیض الاسلام صاحب کے ہاں رات کا قیام وطعام فرمایا۔
١٥ جنوری کی دوپہر حضرت صاحب بذریعہ ہوائی جہاز لاہور کے لیے روانہ ہوئے، کراچی کے ہوائی اڈے پر حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب مدظلہم رُخصت کرنے کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے، شام مغرب بعد بخیروعافیت جامعہ مدنیہ جدید پہنچے، والحمد للہ !
٢٣ جنوری کو اَمیرِ پنجاب جمعیة علماء اسلام شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب ، مولانا محمد صابر صاحب کی دعوت پر انتخابی مہم کے سلسلہ میں حویلی پنے خان قصور تشریف لے گئے جہاں آپ نے جمعیة علماء اسلام کے مقاصد کے موضوع پر بیان فرمایا۔
٢٤ جنوری کو اَمیر پنجاب جمعیة علماء اسلام، قائد جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم العالی کے بھانجے مفتی عامر محمود صاحب کی دعوت پر مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں تکمیل ِ بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کی غرض سے دوپہر دو بجے جامعہ سے ملتان کے لیے روانہ ہوئے، عشاء کے قریب ملتان پہنچے جہاں حافظ احسان سعید صاحب نے حضرت صاحب کا استقبال کیا بعد اَزاں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا ناصرالدین صاحب خاکوانی مدظلہم کی رہائشگاہ پر اُن سے ملاقات کی ، رات کا قیام بھائی نعمان سعید صاحب کی رہائشگاہ پر رہا۔
اگلے روز ظہر کے قریب حضرت صاحب مدرسہ قاسم العلوم جلسہ گاہ پہنچے، بعد ظہر حضرت صاحب نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دے کر فرقہ ٔ باطلہ کے موضوع پر بیان فرمایا چونکہ حضرت صاحب نے لاہور میں ایک اور تقریب میں شرکت کرنی تھی اس لیے مفتی عامر محمود صاحب اور دوسرے احباب سے اجازت لی اور تین بجے لاہور کے لیے روانہ ہوئے اور رات آٹھ بجے مدرسہ احسان القرآن والعلوم النبویة چوبرجی پہنچے جہاں حضرت صاحب نے حاضرین سے مختصر بیان فرمایا۔
٢٩ جنوری کو اَمیرِ پنجاب جامعہ مدنیہ جدید کے فاضل مولانا محمد آصف صاحب کی والدہ کی تعزیت کے لیے بعد ظہر گجرانوالہ تشریف لے گئے جہاں آپ نے مولانا محمد آصف صاحب اور اُن کے بھائیوں سے تعزیت کی بعد ازاں مولانا محمد آصف صاحب کی خواہش پر اُن کی والدہ صاحبہ کی قبر پر دعا کے لیے تشریف لے گئے۔




اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭٭٭
٨ رجب المرجب ١٤٤٥ھ/٢٠جنوری٢٠٢٤ء کوجامعہ مدنیہ جدید میں وفاقی و غیر وفاقی درجات کے سالانہ امتحانات کا اِنعقاد ہوا اور١٧ رجب المرجب ١٤٤٥ھ/٢٩ جنوری ٢٠٢٤ء سے جامعہ میں سالانہ تعطیلات ہو ئیں ۔
١٦ رجب المرجب ١٤٤٥ھ /٢٨ جنوری ٢٠٢٤ء بروز اتوار جامعہ میں '' ختم بخاری شریف و دَستار بندی ''کی پُر وقار تقریب صبح دس بجے شروع ہوکر عصر کے قریب اختتام پزیر ہوئی والحمد للہ !
١٨ رجب ١٤٤٥ھ/٣٠ جنوری ٢٠٢٤ء کو اِمتحانی مرکزجامعہ مدنیہ جدید میں وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات منعقد ہوئے بشمول جامعہ مدنیہ جدید کل 220 طلباء نے شرکت کی ۔
٢٩ رجب ١٤٤٥ھ /١٠ فروری ٢٠٢٤ء بروز منگل سے حسب ِسابق جامعہ مدنیہ جدید میں حضرت مولانا مفتی محمدحسن صاحب مدظلہم دورۂ صرف ونحو کا آغاز کریں گے ان شاء اللہ !
٢٩ رجب ١٤٤٥ھ /١٠ فروری ٢٠٢٤ء سے جامعہ مدنیہ جدید میں علماء و طلباء کے لیے جامعہ کے فاضل مولانا ذیشان صاحب چشتی کی زیر نگرانی''15 روزہ کمپیوٹر کورس'' کا آغاز ہوگا ان شاء اللہ !




شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1




وفیات
٭٭٭
٭ ١٣ رجب ١٤٤٥ھ/٢٥ جنوری ٢٠٢٤ء کو حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب درخواستی رحمة اللہ علیہ کی صاحبزادی، مولانا عبدالحمید صاحب بہلوی کی اہلیہ ، مولانا سیف الرحمن صاحب بہلوی کی والدہ طویل علالت کے بعد خانپور میں انتقال فرماگئیں ۔
٭ ٢٧ جنوری کو فاضل جامعہ مدنیہ جدید مولانا محمد آصف صاحب کی والدہ صاحبہ مختصر علالت کے بعد گجرانوالہ میں وفات پاگئیں ۔
٭ ٢٧ جنوری کو جمعیة علماء اسلام کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا امجد خان صاحب کے خسر مولانا شمس الورٰی صاحب انتقال فرماگئے۔
٭ ٢٦ جنوری کو ٹبہ پاجیاں کے محمد اَنور صاحب کے والد صاحب بوجہ عارضۂ قلب وفات پا گئے
٭ ٢ جنوری کو کریم پارک کے رہائشی جناب حاجی اختر صاحب بوجہ عارضۂ قلب وفات پاگئے
٭ ٣ جنوری کو سابق ناظم میاں راشد اقبال صاحب مختصر علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے
٭ ١٢ جنوری کو جامعہ مدنیہ کے پڑوسی اعزازیہ دواخانہ کے مالک حاجی حکیم محمد اسلم صاحب جنجوعہ طویل علالت کے بعد وفات پاگئے۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔



جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ 923454036960+

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.