Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

فروری 2023

jamiamadnijadeed


ماہنامہ انوا ر مدینہ
جلد : ٣١ رجب المرجب ١٤٤٤ھ / فروری ٢٠٢٣ء شمارہ : ٢

سیّد محمود میاں
مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر ض بدلِ اشتراک پاکستان فی پرچہ 40 روپے ....... سالانہ 500 روپے سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور اِی میل ایڈ ریس www.jamiamadniajadeed.org E-mail: jmj786_56@hotmail.com darulifta@jamiamadniajadeed.org ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور اکائونٹ نمبر ا نوارِ مدینہ 00954-020-100- 7914 2 مسلم کمرشل بنک کریم پارک برانچ راوی روڈ لاہور(آن لائن) جازکیش نمبر : 0304 - 4587751 رابطہ نمبر : 0333 - 4249302
جامعہ مدنیہ جدید : 042 - 35399051

خانقاہ حامدیہ : 042 - 35399052 موبائل : 0333 - 4249301
دارُالافتاء : 0321 - 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز

٤
درسِ حدیث
حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب
٦
تبلیغ کا آغاز
حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب
١١
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مناقب
حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب
١٩
رحمن کے خاص بندے ( قسط : ٨ )
حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری
٢٥
استخارہ ..... متعلقات ومسائل
حضرت مولانا مفتی محمود زُبیر صاحب قاسمی
٢٩
فضیلت کی راتیں ( قسط : ١ )
حضرت مولانا نعیم الدین صاحب
٣٩
اتحاد و اِتفاق کی برکات

٤٧
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندی کی سند ِحدیث ............ اہمیت اور تحقیق
مولانا محمد معاذ صاحب لاہوری
٥٤

تقریب ختم ِبخاری شریف و دستار بندی
٢٠ رجب المرجب ١٤٤٤ھ /١٢فروری ٢٠٢٣ء بروز اتوار جامعہ مدنیہ جدید میں ''ختم بخاری شریف و دَستار بندی ''کی پُر وقار تقریب اِن شاء اللہ بعد نمازِ ظہر دوپہر دو بجے منعقد ہوگی اس مبارک موقع پر شرکت فرماکر برکات سے مستفیض ہوں
اَلداعی اِلی الخیر
سیّد محمود میاں غفرلہ' و اَراکین و خدام جامعہ مدنیہ جدید


حرف آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا
اِذَا کَانَ اُمَرَاؤُکُمْ خِیَارَکُمْ وَ اَغْنَِیاؤُکُمْ سُمَحَائَ کُمْ وَاُمُوْرُکُمْ شُوْرٰی بَیْنَکُمْ فَظَہْرُ الْاَرْضِ خَیْر لَّکُمْ مِنْ بَطْنِہَا وَ اِذَا کَانَ اُمَرَاؤُکُمْ شِرَارَکُمْ وَاَغْنِیَاؤُکُمْ بُخَلَائَ کُمْ وَ اُمُوْرُکُمْ اِلٰی نِسَائِکُمْ فَبَطْنُ الْاَرْضِ خَیْر لَّکُمْ مِنْ ظَہْرِہَا ۔ ١
''جب تک تمہارے حکمران نیکی اور تقویٰ میں سب میں ممتاز رہیں گے اور تمہارے مالدار تم میں سب سے بڑھ کر (قومی اور حاجتمندوں کی ضرورتوں پر) خرچ کرتے ہوں گے تو زندہ رہنا موت سے بہتر ہوگا ! اور جب تمہارے حکمران تم میں سب سے بڑھ کر شریر (اور بدتر) ہوں گے اور تمہارے مالدار (قومی اور حاجتمندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرنے میں) سب سے بڑھ کر بخیل (و کنجوس) ہوجائیں گے اور تمہارے (اکثر اجتماعی اور اِنفرادی) معاملات تمہاری عورتوں کے حوالے ہو جائیں گے تو مرجانا تمہارے لیے زندہ رہنے سے بہتر ہوجائے گا''
١ ترمذی شریف ابواب الفتن رقم الحدیث ٢٢٦٦
اس حدیث شریف کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اچھے حالات میںزندہ رہنا مرنے سے اس لیے بہتر ہوتا ہے کہ ہر انسان کے لیے اچھے کاموں کے مواقع آسانی اور سہولت سے میسر آسکتے ہیں کہ
جن سے آخرت اچھی ہوجائے ! اور برے حالات میں زندہ رہنے میں ایسے خطرات بہت ہو جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے دنیاوی نقصانات کے ساتھ ساتھ آخرت بھی برباد ہوسکتی ہے ! !
موجودہ دورِ پُرفتن میں خطرات اور آزمائشیں زیادہ ہیں اچھائیاں دن بدن کم ہوتی چلی جارہی ہیں تو اس حدیث کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ خود سے موت کی تمنا کرنے لگ جائے بلکہ نیک اور صالحین کو تلاش کرے اور ان سے راہنمائی لیتا رہے اور اُن کے زیرِ سایہ اپنے اُمور انجام دیتا رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ایمان پر خاتمہ نصیب فرمادیں !
حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا
''تم میں کوئی (کسی مصیبت سے تنگ آکر) موت کی تمنا نہ کرے(کیونکہ ) اگر اچھے کام کرنے والا ہے تو اُمید یہی ہے کہ (آئندہ بھی )مزید خیر کے کام ہی کرے گا (جن سے آخرت کے درجے مزید بڑھیں گے ) ! اور اگر بدکار ہے تو شاید برائیوں سے رُک کر توبہ کی توفیق ہوجائے ! ١

١ صحیح البخاری کتاب التمنی رقم الحدیث ٧٢٣٥


حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
'' رمضان ''غم خواری اور صبر کا مہینہ ! سخاو ت کا بلند درجہ''ایثار''
اسلامی معاشرت میں متوسط طبقہ کی کثرت
سب سے طویل عرصہ اسلام سپر پاور رہا ! اسلام، کمیونزم اور دیگر مذاہب
( درسِ حدیث نمبر١٢٤ یکم رمضان المبارک ١٤٠٤ھ/یکم جون ١٩٨٤ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حدیث شریف میں آتاہے کہ جناب رسول اللہ ۖ نے شعبان کی آخری تاریخ کو ایک خطبہ فرمایا ارشاد اس میں فرمایا یٰاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ اَظَلَّکُمْ شَہْرعَظِیْم اے لوگو تم پر ایک بہت بڑا مہینہ سایہ اَ فگن ہے ! وہ مہینہ مبارک ہے ایسامہینہ ہے کہ اس میں ایک رات ہے ( خَیْرمَّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ) اللہ کے نزدیک وہ اتنی افضل ہے کہ ایک ہزار مہینوں سے زیادہ بڑا اُس کا ثواب ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فر ض کیے ہیں جَعَلَ اللّٰہُ صَیَامَہُ فَرِیْضَةً وَقِیَامَ لَیْلِہ تَطَوُّعًا اس کی رات میں قیام کرنا اس میں عبادت کرنا یہ اللہ تعالیٰ نے مستحب بنایا ہے بہتر بنایا ہے ! !
اس خطبے میں ارشاد فرمایاکہ جو آدمی کوئی کام کرے جس سے خدا وند ِکریم کا قرب چاہتا ہو تو پھر وہ ایسے ہو گا جیسے کہ اُس کو رمضان کے علاوہ (کسی ماہ میں)کوئی فرض ادا کرنے پر ثواب ملتا ہے ! جیسے نفل پر ثواب دیا جاتا ہے اور جس نے فرض ادا کیے روزے بھی فرض ہیں نمازیں بھی فرض ہیں اور بہت سے فرائض ہیں اخلاقی فرائض ہیں معاملات کے فرائض ہیں اُس کو فرمایا کاَنَ کَمَنْ اَدَّی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَةً فِیْمَا سِوَاہُ وہ ایسے ہے جیسے کہ اُ س نے ستر فرض ادا کیے یعنی ایک فرض نماز کا ثواب ستر گنا ہے کوئی بھی عمل کیا جائے اُس کا ثواب بہت زیادہ بڑھ کرہوگا !
صبر کا مہینہ :
تو اِرشاد فرمایا وَھُوَشَھْرُالصَّبْرِ یہ صبر کی مشق کا مہینہ ہے اس میںاپنے آپ کو روکنا پڑتا ہے صبر کا مطلب ہے ثابت قدمی دکھانا ،رُکنا ،واقعی اپنے آپ کو روکنا ہوتاہے ! آدمی سب کے سامنے اور بالکل تنہائی میں ایک سارہتا ہے ! رُکا رہتا ہے روزے کے توڑنے کا کوئی کام نہیں کرتا ! ! صبر کا مہینہ ہے ! سردیاں ہوں تو بھوک ! گرمیاں ہوں تو پیا س ! دونوں میں سے کوئی نہ کوئی چیز غالب رہتی ہے لیکن انسان صبر کرتاہے ارشاد فرمایا وَالصَّبْرُ ثَوَابُہُ الْجَنَّةُ اورجو آدمی ثابت قدم رہے صبر کرے تو اُ س کاثواب پھر جنت ہوگی ! !
غمخواری کا مہینہ :
اور یہ مہینہ اس چیز کی مشق کا بھی ہے کہ ایک دُوسرے کی غمخواری کی جائے ! شَھْرُ الْمُوَاسَاةِ
روزی میں اضافہ :
اور فرمایا شَھْر یُّزَادُ فِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ یہ ایسامہینہ ہے کہ اس میں مومن کے رزق میں برکت ہوتی ہے مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے !
روزہ اِفطار کرانے پر اَجر :
اس میں کسی آدمی کو اِفطار کرادینا باعث ِثواب ہے مَنْ فَطَّرَفِیْہِ صَائِمًا کَانَ لَہُ مَغْفِرَةً لِّذُنُوْبِہِ وَعِتْقَ رَقَبَتِہ مِنَ النَّارِ اگرکوئی آدمی کسی کا روزہ کھلوا دیتاہے تو اُ س کے گناہوں کی بخشش او ر جہنم سے گردن کے چھٹکارے کی اُمید ہو سکتی ہے ! ! یعنی اُ س ایک عمل سے اتنا ثواب بڑھ سکتا ہے کہ یہ حال ہو کہ اللہ کے ہاں اُ س کی بخشش ہی کر دی جائے ! !
سب کو اَجر ملتاہے :
وَکَانَ لَہُ مِثْلُ اَجْرِہ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّنْقِصَ مِنْ اَجْرِہ شَئْی جو آدمی کسی آدمی کے آگے (اُس کی طرف سے) کام کر رہا ہے اور دُوسرے کو کھلا رہا ہے پلا رہا ہے، پیسے ایک کے ہیں کام دُوسرے کر رہے ہیں تو اِس کو بھی ثواب ملے گا ! او ر اس میں یہ نہیں ہوگا کہ ثواب بٹ جائے گا، نہیں بلکہ ہر ایک کو برابر برابر ثواب ملے گا اُتنا ہی اللہ کی طرف سے اِس کو بھی عطا ہو گا ! خداکے ہاں دینے میں کوئی چیز خرچ نہیں کرنی پڑتی سب اُس کی مِلک ہے سب اُس کامُلک جیسے اِس کونے سے اُس کونے میں رکھ دی ! خداوند ِکریم کے عطیات جو ہیں بے مثال ہیں بے حساب ہیں ! تواِس میںبھی یہی ہے کہ اَجر میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اَجر بڑھتا جائے گا اِس کوبھی اور دُوسرے کو بھی اُتنا ہی مل جائے گا جتنا پہلے کومِلا ہے ! تیسرے کو بھی اُتنا مِل جائے گا جتنا دُوسرے کومِلا ہے ! !
تھوڑے پر بھی پورا اَجر :
ہم نے عرض کیا کہ ہمارے پاس اتنا کہاں ہوتا ہے لَیْسَ کُلُّنَا نَجِدُ مَا نُفَطِّرُ بِہِ الصَّائِمَ ہم سے سب لوگ اتنا کہاں رکھتے ہیں کہ جو کسی کو روزہ کھلوائیں تو آقائے نامدار ۖنے ارشاد فرمایا کہ یہ ثواب جو ہے جس کو کم چیز میسرہے اُس سے کُھلوا رہا ہے اُس کو بھی ملے گا ! یہ شرط نہیں ہے کہ پیٹ ہی بھرے تو ثواب ملے ،کم ہے اگر کسی کے پاس اور وہ دے رہا ہے کھجور دے رہا ہے ، دُودھ کی لسی دے رہا ہے، پانی پلارہا ہے کسی کو روزہ کھلوانے کے لیے تو اُس کو بھی ثواب ملے گا ! اور پانی وہاں کے علاقے میں توبڑی چیز ہے ! اور ویسے انسان کی حیات کے لیے سب سے بڑی چیز ہے ! پانی اگر کم ہو جائے یا نہ مِل سکے کسی جگہ تو زندہ نہیں رہ سکتا انسان ! تو پانی پربھی اَجرہے کھجور پر بھی اَجر ہے کوئی کسی کو دُودھ پلا دے تو اُس پر اَجرہے اوراُتنا ہی اَجرہے ! کیونکہ ہر آدمی کو یہ (سب) میسر نہیں ہے، کسی کو کھجور یں میسر ہیں ،کسی کو دُودھ میسر ہے، بکری ہے اُس کے پاس اور اُسے کچھ میسر نہیںہے اس کے علاوہ تو وہ کیا کرے گاثواب اُس کاکم رہے گا ؟ نہیںثواب اُس کا کم نہیں رہے گا بلکہ جس کے پاس بالکل نہیں ہے اور وہ کچھ دے رہا ہے تووہ بہت دے رہا ہے ! ! !
ایک آدمی کا قصہ واقعات میں ہے اسی طرح کاکہ وہ ایک سخی کے پاس پہنچ گیا مشہور تھا وہ سخاوت میں ! مگر مالدار اِتنا نہیں تھا ! جبکہ دُوسرا مالدار تھا، کوئی بات ہو ئی تو اُس نے پیسے دے دیے مثلاًدس ہزار روپے دے دیے ! اور اُس سخی سے کہا گیا تو اُس نے چار ہزارروپے، ساڑھے تین ہزار روپے دے دیے ! تو مالدار نے سخی سے کہا میں تم سے آج جیت گیا ہوں میں نے اتنے دیے تم نے اس سے کم دیے، اُس (سخی) نے پوچھا کہ تمہارا کل مال کتنا ہے ؟ اُس نے کہااتنا ہے ! اُس نے کہا کہ یہ اُس کل کا کتنا حصہ ہے ؟ اُس نے کہا بہت تھوڑا سا حصہ ہے ! تو سخی نے کہا کہ آپ نے تو کل مال میں سے بہت تھوڑا سا حصہ دیا ہے ! اُس نے کہا یہ بات ٹھیک ہے ! اس نے کہا میں نے اپنا کُل دے دیا تو اُس نے کہا واقعی تم بڑے ہو جوکُل مال دے ڈالا ! ! !
''ایثار ''سخاوت کا بلند درجہ ہے :
صحابہ کرام کے دور میں جنابِ رسول ۖ کی حیاتِ طیبہ میں جن کو میسر تھا و ہ بھی ایسے رہتے تھے جیسے میسرنہ ہو ! ؟ کیونکہ وہ اُن لوگوں کو ترجیح دیتے تھے جنہیں میسر نہیں ہے ! اس ترجیح دینے میں جنہیں میسر ہوتا تھا وہ بھی ایسے ہی ہو جاتے تھے جیسے میسر ہے ہی نہیں ! ؟ ایک ضرورت مند آیا تو جناب رسول اللہ ۖ نے گھر میں پوچھوایا کہ کچھ ہے کھانے کے لیے ! ؟ تو ہر جگہ سے جواب مِلا کہ کچھ نہیں ہے ! گھر میں کوئی چیز نہیں ہے کھانے کی ! وجہ کیا تھی ؟ وجہ یہ تھی کہ عام ذوق یہی تھا عام رواج یہ تھا سب صحابہ کرام کا کہ جو کچھ موجود ہوتاتھا وہ برابرضرورت مندوں کو دیتے رہتے تھے ! یہ تو صحابہ کرام کا اِیثار ہوا او ر اِیثار تو بہت بڑی چیز ہے ! ایثار تویہ ہے کہ خود ضرورت ہے اپنے لیے ضرورت ہے مگر دُوسرے کو ترجیح دے رہا ہے یہ اِیثار ہوا ! اور ایک ہے سخاوت کہ جس کو میسر ہے وہ برابر خرچ کیے چلا جائے ، دُوسروں کی ضرورت کاخیال رکھے ،کوئی مانگ رہا ہے تو دے دے یہ سخاو ت ہے ! یہ وصف سخاوت جو ہے یہ بھی اسلام میں خاص ہے !
اسلام اور کمیونزم :
تو اِیثار اور سخاوت یہ دونوں مذہبی تعلیم بھی ہوئی اور (اسلامی) معاشرتی انداز بھی ہوا ! ! تو اِس بناء پر جہاں اسلام اور مسلمان ریاستیں رہی ہیں وہاں کمیونزم نہیں آسکا پس بخارا کی تاشقند کی اور آذربائیجان تک کی ایک پٹی ہے جو زد میں آئی ہے ضرور ورنہ آیا ہی نہیں ! !
کمیونزم اور دیگر مذاہب :
رُوس میں آیا ہے تو وہاں یا عیسائیت تھی یا یہودیت تھی یا بت مذہب تھا یا مشرک تھے ! چین میں آیا ہے تو وہاں بھی دُوسرے مذاہب والے تھے ! بلکہ چین میں مساجد آباد ہیں ! وہاں نماز جماعت سے ہوتی ہے مسجد یں بھری ہوئی ہیں ! وہاں انقلا ب نے یہ اَثر نہیں کیا ! اس کے بعد ذر ا حد پار کریں دریائے(آموں) ١ کی تو افغانستان تک نہیں آسکا ! اوراُدھر آذربائیجان وغیرہ کی طرف جنوب میں دیکھیں تو اِیران لگتاہے اِیران میں بھی نہیں آسکے ! کسی علاقے میں جہاں اسلام تھا کمیونزم نہیں آیا کیونکہ کمیونزم جو فوائد پہنچاتا ہے وہ اسلام میں ایک غریب کو(پہلے ہی) حاصل رہتے ہیں
اسلام اور متوسط طبقہ :
اسلام میں درمیانی طبقہ بہت ہوتا ہے بالکل غریب طبقہ بہت کم ہوتاہے ! اور جب تک بالکل غریب طبقہ کی کثرت نہ ہو تو یہ کمیونسٹ انقلاب نہیں آسکتا اورغریب طبقہ کی کثرت یہاں نہیں ہوتی یوں سمجھئے کہ پہلے زمانے میں دو حکومتیں تھیں کسری اور رُوم کی بہت بڑی بڑی جیسے آج امریکہ اور رُوس ہے، اسلام آیا پھیلتا چلا گیا یہ سب ختم ہو گئیں ! ! !
اسلام تیرہ سو سال سپر پاور رہا :
اور اسلام ایسے چھایا کہ تیرہ سو سال تک اسلام ایک سپر پاو ر رہا،اُس کے مقابلے میں کوئی دُوسری سپر پاور نہیں تھی حتی کہ ١٩١٤ ء کادور آتا ہے اُس دور میں آکر برطانیہ اور دُوسروں نے مِل کر ترکی حکومت کو ختم کیا ہے ورنہ یہ سارے علاقے ترکی تک بہت بڑی حکومت تھی( مگر) کمزور ہوتی چلی جارہی تھی پہلے سے اور ١٩١٤ء میں ختم ہو گئی لیکن تھی سب سے بڑی پاور ! ! اور کمزور جو کیا وہ ایک دونے نہیں پورے یورپ کی آٹھ دس حکومتوں نے مِل کر یہ سازش کی تھی ! تو پھر ایسے ہوا ہے کہ
١ دریائے جیحُون
برطانیہ کی حکومت میں گویا سورج غروب نہیں ہوتا تھا پھر برطانیہ ایک سپر پاور ہوگیا،سب سے بڑی طاقت بن گیا ! !
سب سے طویل عرصہ اسلام سپر پاور رہا :
لیکن انداز ہ کیجیے ١٩١٤ ء میں یعنی سوا تیرہ سوسال تک فقط مسلمان جوہیں وہ سپر پاور تھے ! ان کے مقابلے میں کوئی دُوسری طاقت نہیں تھی کہ یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے ایسا نہیں تھا ! اگر اِن کے ہاں عدل نہ ہو تا عدلیہ کام کی نہ ہوتی تو ظلم ہوتا، اقتصادیات ناکارہ ہوں نظام صحیح نہ ہو تو غربت افلاس اور طرح طرح کی خرابیاں آئیں گی تو اِنقلاب آجائے گا حکومت ختم ہو جائے گی ! معلوم ہوا کہ اسلام کے دونوں نظا م بڑے عمدہ ہیں اقتصادی بھی ! اور عدلیہ کا نظام بھی ! !
آقائے نامدار ۖنے ارشاد فرمایا کہ جسے کچھ بھی میسر ہے کچھ بھی کھلارہا ہے گویا ایک غریب آدمی کو بھی عادت ڈلوائی ہے کہ خرچ کرو ! اگر کوئی کہتا ہے کہ جناب میرے پاس کل ایک روپیہ ہے تو اُسے بھی کہا جائے گا کہ تو دس کا سکہ دے پانچ کا سکہ دے یہ خیال نہ کر کہ میں تھوڑا دے رہا ہوں یہ اُمید رکھ کہ اللہ کے ہاں قبول ہو جائے گا بس نیت صحیح رکھ !
آگے فرمایا وَمَنْ اَشْبَعَ صَا ئِمًا سَقَاہُ اللّٰہُ مِنْ حَوْضِیْ شَرْبَةً لَّا یَظْمَأُ حَتّٰی یَدْخُلَ الْجَنَّةَ ١ جو آدمی کسی کو پیٹ بھر کر کھلاد ے تو خاص بات یہ ہو گی کہ میرے حوض سے اُسے ملے گا پینے کے لیے ! اور اُس کو کبھی پیا س نہیں لگے گی حتی کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا ! !
تو آقائے نامدار ۖ نے دُنیا میں رہنا سہنا بھی بتایا او ر آخرت کا اجر بھی بتایا بلکہ توجہ آخرت ہی کی طرف رکھنی بتائی ! دُنیا کو کام کی جگہ بتایا کہ کام کرو تیاری کرو آخرت کی تیاری ! نظر اُس کی طرف رکھو یہ جیسے بھی ہوگزرہی جاتی ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا اور فضل سے نوازے، آمین۔اختتامی دُعا.........................
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جولائی ٢٠٠٢ )
١ مشکوة شریف کتاب الصوم رقم الحدیث ١٩٦٥
تبلیغ کا آغاز
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ ۖ کے چند اَوراق
ض ض ض سب سے پہلے اپنا خاندان : حضرت محمد ۖ کو جب حکم ہوا ( قُمْ فَاَنْذِرْ ) ١ اُٹھو اور لوگوں کو آگاہ کرو (کہ اُن کے موجودہ عمل اور کردار کا مستقبل کیا ہوگا ؟ ) تو آپ نے اِنْذَار اور تَبلیغْ کا سلسلہ اپنے خاندان سے شروع کیا ! خدا کا حکم بھی یہی تھا ! ٢ آپ نے کھانے کا انتظام کیا اور ان رشتہ داروں کو دعوت دی جو آپ کے پر دادا (دوسری پشت کے دادا) ہاشم کی اولاد تھے ان میں وہ بھی تھا جس کا نام عبدالعزیٰ تھا اور ابو لہب کی کنیت سے مشہور تھا ! ٣ یہ آنحضرت ۖ کے والد ماجد کا سب سے بڑا بھائی تھا ! عمر، سرمایہ اور دولت کے لحاظ سے خاندان میں سب سے اُونچا تھا ! عبدالعزیٰ سمیت تقریبًا چالیس آدمی اس دعوت میں آئے، کھانا کھایا، پھر آنحضرت ۖ نے کچھ فرمانا شروع کیا ابھی آپ نے بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ عبدالعزیٰ نے پکار کر کہا :
لَھَدَّ مَا سَحَرَکُمْ صَاحِبُکُمْ ٤''یہ جادو بہت ہی عجیب ہے جو تمہارے دوست نے تم پر کیا ہے'' ! ! ؟
جادو کا نام سن کر کون ٹھہر سکتا تھا، مجمع منتشر ہوگیا ! ابو لہب کی یہ حرکت بہت ہی ہمت شکن تھی ! مگر اُس کے مقابلہ پر تھی جس کی ہمت نے ٹوٹنا نہیں سیکھا تھا ! وہ نئے حوصلہ سے اُٹھا، کچھ وقفہ کے بعد
١ سورۂ مدثر : ٢ ٢ سورۂ شعراء : ٢١٤
٣ لہب کے معنی آگ کی لپٹ کے ہیں ،کہتے ہیں کہ اُس کا رنگ سفید سرخ تھا، چہرہ انگارے کی طرح دہکتا رہتا تھا
اسی لیے یہ کنیت دی گئی گویا وہ آگ کے اَنگارے اور لپٹ کی تصویر ہے
٤ البدایة والنہایة ج٣ ص ٣٩ و مجمع البحار لفظ '' ھَدَّ ''
دوبارہ دعوت کی اور اِس مرتبہ حلقہ وسیع کردیا ! پہلے ہاشم کی اولاد کو دعوت دی تھی اس مرتبہ ہاشم کے والد عبد مناف کی اولاد کو دعوت دی ! اور ابو لہب کی پہلی کی حرکت کا رد ِ عمل یہ ہوا کہ سب ہی آگئے
اور آخر تک جمے رہے ! ! آپ نے بھی اپنی بات پوری فرمادی آپ نے فرمایا :
''میں وہ پیغام پہنچا رہا ہوں کہ عرب کے کسی جواں ہمت نے یہ پیغام نہیں پہنچایا تھا یہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا پیغام ہے ! اُمت ِ عرب اس پیغام سے دنیا میں بھی سربلند ہوگی اور آخرت کی کامیابیاں بھی اس کو نصیب ہوں گی ! یہ پیغام عمل کا پیغام ہے ، انسان کا عمل ہی اُس کو کامیاب کر سکتا ہے ، ایک کا عمل دوسرے کو کامیاب نہیں کر سکتا'' ! ! ! ١
اے معشر قریش ! اپنے آپ کو جس درجہ پر رکھنا چاہتے ہو تو اُس کی قیمت خود ادا کرو ! عذابِ الٰہی سے بچنا چاہتے ہو تو نجات کا سودا تم خود کرو !
اے آلِ عبد مناف ! خدا کے مقابلہ پر میں تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ! (جب تک تم خود عمل نہ کرو میں تمہیں قانونِ قدرت کی گرفت سے نجات نہیں دِلا سکتا)
اے عباس بن عبدالمطلب ٢ ! خدا کے مقابلہ پر میں تمہارے کام نہیں آسکتا ! اے رسولِ خدا کی پھوپھی ''صَفیّہ'' ! میں اللہ کی گرفت سے تمہیں نہیں بچا سکتا ! اے رسول کی بیٹی فاطمہ ! میرے مال میں سے جو کچھ مانگنا چاہو مانگو میں دُوں گا مگر خدا سے بے نیاز ہوکر میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا ! اللہ کے مقابلہ پر میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا'' ! ! ! ٣
تقریر بے حد مؤثر اور بلیغ تھی ! سننے والوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ! مگر دلوں کا پرانا مرض آسانی سے نکلنے والا نہیں تھا ! یہاں بھی عبدالعزیٰ ابو لہب نے اپنی عمر کی بڑائی اور رشتہ کی برتری سے ناجائز فائدہ اُٹھایا ! عجیب بات یہ تھی کہ اِس مجمع میں سب سے زیادہ سن رسیدہ اَبو لہب تھا !
١ البدایة والنہایة ج٣ ص ٣٩ ، ٤٠ ٢ عباس اگرچہ چچا تھے مگر ہم عمر اور ہم جولی تھے، تقریباً دو سال بڑے تھے
٣ بخاری شریف ص ٧٠٢
اور سب سے چھوٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ جن کی عمر تقریبًا بارہ سال تھی، بیمار اور کمزور بھی تھے، پیٹ بڑھا ہوا، آنکھیں آئی ہوئیں ،پنڈلیاں پتلی پتلی، کھڑا ہونا مشکل تھا ! !
آنحضرت ۖ نے تقریر کے بعد مجمع کی طرف سے جواب کا انتظار کیا تو صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ (طفل بیمار) نے آپ کی تصدیق کی اور حمایت کا وعدہ کیا ! آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کے الفاظ کہے ! ابو لہب کو موقع مل گیا اُس نے طنز کرتے ہوئے قہقہہ لگایا ! مجمع کا رُخ بدل گیا پھر منتشر ہوگیا ! ! ١
فاران کی ایک پہاڑی سے صدائِ حق : ٢
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی

عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی
حبوق نبی کی کتاب باب ٣، درس ٣ میں شہادت دی گئی تھی :
''اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے فاران سے آیا ! اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمیں اُس کی حمد سے معمور ہوئی'' ٣
اسی فاران کی ایک پہاڑی کا نام ''صفا'' ہے اس پہاڑی کا وجود اَب بھی باقی ہے، کعبہ شریف سے تقریبًا دو فرلانگ کے فاصلہ پر ہے، اب یہ پہاڑی شہر مکہ کی سطح کے برابر ہوگئی ہے مگر اُس زمانہ میں یہ بلند تھی ! خانہ کعبہ کا حرم (میدان) اس کے دامن میں تھا، عام طور پر قریش کی یہاں نشست رہتی تھی ! ٤

١ البدایة والنہایة ج٣ ص ٤٠ ٢ بائبل میں مکہ کو'' فاران'' کہا گیا ہے ! کتاب پیدائش باب ٢١ میں حضرت ہاجرہ کے بیٹے (اسماعیل) کے متعلق کہا گیا ہے اور وہ فاران کے بیابان میں رہا۔ (فقرہ ٢١)
٣ رحمة للعالمین ج١ ص ١٤٦ : میرے پاس جو اُردو کی بائبل ہے اس میں یہ الفاظ ہیں
''اے خدا ! تو برسوں کے درمیان اپنے نام کو نئے سرے سے رونق بخش، برسوں کے بیچ اسے شہرت دے، قہر کے درمیان رحم کو یاد کر ! خدا تیمان سے اور وہ جو مقدس ہے فاران سے آیا سلاہ اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اُس کی حمد سے معمور ہوگئی'' (حبقوق نبی کی کتاب ص ٨٥٩)
٤ چہار دیواری اُس زمانہ میں نہیں تھی، بیچ میں خانہ کعبہ تھا اس کے چاروں طرف میدان تھا میدان کے کنارے پر رُؤساء ِ مکہ اور خدامانِ کعبہ کے مکانات تھے میدان میں ان رؤسا کی نشستیں رہتی تھیں۔
محمد رسول اللہ ۖ اس پہاڑی پر چڑھے اور قبائلِ قریش کو نام بنام پکارا
یا بنی فہر ! یا نبی عدی وغیرہ وغیرہ
محمد رسول اللہ ۖ :
وہی'' محمد'' جن کا اثرو احترام یہ تھا اور قریش کے عوام و خواص اس درجہ گرویدہ تھے کہ آپ کو ''اَلصَّادِقْ'' اور '' اَلامِینْ'' کہہ کر خوش ہوا کرتے تھے ! انہیں الصادق اور الامین کی آواز کانوں میں پڑی تو لوگ پہاڑی کے دامن میں آکر جمع ہوگئے ! اور جو نہیں آسکتے تھے انہوں نے اپنا کوئی آدمی بھیج دیا ! سب پہنچ گئے تو آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
''اگر میں یہ بتاؤں کہ یہ وادی جو اِس پہاڑ کی آڑ میں ہے یہاں دُشمن کی فوج پہنچ گئی ہے اور وہ عنقریب تم پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا آپ صاحبان میری بات سچ مانیں گے ؟ ؟ '' سب نے جواب دیا :
''بے شک آپ کے متعلق ہمارا تجربہ یہی ہے کہ آپ سچ ہی بولتے ہیں ! ! ١
آنحضرت ۖ نے فرمایا :
''عذاب ِ خدا وندی کا لشکر آنے والا ہے ! اس سے پہلے کہ عذاب کا یہ لشکر آئے میں تمہیں آگاہ کر رہا ہوں'' ! !
آپ نے اسی موضوع پر تقریر فرمائی ! بہت ممکن تھا کہ لوگ اثر لیتے مگر خاندانِ ہاشم کا (وہی عمر رسیدہ عبدالعزیٰ ابو لہب)بھڑکتا ہوا اُٹھا اور یہ کہتا ہوا چل دیا
محمد تیرے ہاتھ ٹوٹیں ، کیا اِس لیے ہمیں یہاں جمع کیا ہے'' ! ! ! ٢
خاندان کا بڑا پورے خاندان کا سر پرست اور مربی مانا جاتا ہے اور قاعدۂ عرب کے مطابق وہ ولی یعنی جوابدہ اور ذمہ دار بھی ہوا کرتا تھا ! چھوٹوں کے حق میں اس کی بات مانی جاتی تھی !
ابولہب کو یہ ولایت اور سرپرستی حاصل تھی کیونکہ وہ آنحضرت ۖ کے والد ماجد کا بڑا بھائی تھا !
١ مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا صحیح البخاری ص ٧٠٢ ٢ صحیح البخاری ص ٧٠٣
اس کے علاوہ مکہ کا با اَثر دولت مند تھا ، مجمع نے جب اتنے بڑے آدمی کو خفا ہوکر جاتے ہوئے (واک آؤٹ کرتے ہوئے ) دیکھا تو مجمع بھی چل دیا ! لیکن ذہنوں میں ایک سوال گھر کرچکا تھا ! اتنا اشتعال و بوکھلاہٹ کیوں ؟ ؟ ؟ داعی حق کی یہی کامیابی تھی ! ! !
(١) کوہِ صفا سے جس نے پکارا وہ وہی ''محمد'' تھا جس کا نام لینا لوگ بے ادبی سمجھتے تھے جس کو ''الصادق'' ''الامین'' کہا کرتے تھے ! جس سے دعائیں کرایا کرتے تھے ! برکتیں حاصل کیا کرتے تھے ! جس نے کچھ عرصہ پہلے اس خوفناک ہنگامہ کو نہایت خوبصورتی سے ختم کیا تھا جو تعمیرِ کعبہ کے وقت حجراَ سود کے سلسلہ میں سر اُٹھا چکا تھا ! کوہِ صفا کی مختصر تقریر میں جن خرابیوں کی طرف آنحضرت ۖ نے ارشارہ کیا ان کا احساس خود قریش کو بھی تھا ! ان ہی کمزوریوں اور خرابیوں کی اصلاح کے لیے چند سال پہلے وہ انجمن بنائی تھی اور وہ عہد نامہ طے کیا تھا جو ''حَلف الفُضول'' کے نام سے مشہور تھا ! !
یہ ابو لہب جو اِس وقت سب سے پہلے مشتعل ہوا آنحضرت ۖ کا وہی عمِ بزرگ ہے جو آنحضرت ۖ کی ولادت پر اتنا خوش ہوا تھا کہ اپنی باندی ثُوَیْبَہ کو فورًا آزاد کردیا ! اسی ثُوَیْبَہ نے سب سے پہلے اس نو نہال محمد (ۖ) کو دُودھ پلایا تھا !
پھر یہ خفگی ،اتنی برا فرو ختگی اور بوکھلاہٹ کیوں ؟
اس کا سبب وہ انقلاب تھا جس کی تصویر اس مختصر جماعت کے آئینہ کردار میں ان کو نظر آرہی تھی جو اِس چند سال کے عرصہ میں (جو تربیت کے لیے مخصوص تھا) محمد رسول اللہ ۖ کے دامن میں تربیت پاکر تاریخ ِعالم کے پلیٹ فارم پر جلوہ گر ہوچکی تھی جو ایک طرف شرک واِلحاد کے مقابلہ میں توحید ، فسق و فجور کے مقابلہ میں مکارمِ اخلاق، حیوانیت اور بہیمیت کے مقابلہ میں انسانیت اور شرافت کی علمبردار تھی تو دوسری جانب راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر کلام الٰہی کی وہ آیتیں بھی گنگنایا کرتی تھی جو مفاد پرستی، دولت و ثروت اور ظالمانہ سرمایہ داری کے خلاف گرج رہی تھیں جس کا کردار یہ تھا کہ اپنی دولت کو راہِ خدا میں لُٹاکر اِن آیتوں کے مفہوم ومقصود کا وہ نقشہ پیش کر رہی تھی جو اِن دولت پرستوں کے لیے بہت ہی وحشت ناک تھا ! جھنجھلاہٹ اور اشتعال کا باعث یہ بھی تھا کہ محمد رسول اللہ ۖ کو سمجھانے کی جتنی کوششیں کیںوہ نا کام ہوچکی تھیں !
ابولہب جیسا سرمایہ پرست جو خزانۂ کعبہ کے غزالہ زرّیں پر بھی ہاتھاماردے !
عاص بن وائل ذخیرہ اندوز جو مزدُور کی مزدُوری برسوں تک ٹلاتا رہے !
ولید بن مُغیرة جیسا حریص جو سب سے بڑا دولتمند ہونے پر بھی صبر نہ کرے اور اس کی طمع اور لالچ کا جہنم ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ پکارتا رہے ! عُتبة بن ربیعة اور مسعود ثقفی جیسے جاگیردار جن کی زندگی کا نصب العین ہی جاگیرداری اور زراَندوزی ہو !
ابوجہل اور عُقبة بن ابی مُعیط جیسے باغی اور طاغی بڑے بڑے کار وبار کے مالک جو مکہ اور مکہ سے گزر کر پورے عرب پر چھائے ہوئے ہوں سُورة ہُمزة میں ان ہی جیسوں کے لیے فرمایا گیا ہے :
''جہنم کی ہلاکت اور بربادی ہر ایسے شخص کے لیے جو دوسروں کے عیب نکالے اور اُن کو نظر حقارت سے دیکھتے ہوئے طعنے دے، جس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے مال بٹور رکھا ہے اور اُس کو بار بار گنتارہتا ہے، سمجھتا ہے کہ اُس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا (اس کی سرمایہ داری پائیدار ہوگی) ہر گز نہیں، بلا شبہ ایسا ہوگا کہ اس کو حُطَمَة میں ڈال دیا جائے گا، تم جانتے ہو حُطَمَة کیا ہے وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کو جھانک لیتی ہے بلند اور دراز ستونوں کی طرح اس آگ کے شعلے ہوں گے ان لوگوں کو اِن آتشیں ستونوں میں گھیر کر بند کردیا جائے گا ''
( ایمان ہو تو نہیں جلاتی ، کفر ہو تو جلا ڈالتی ہے ، شاہ عبدالقادر ، سُورہ ہُمزة )
سُورہ ہُمزة کو بار بار پڑھیے آپ کو سرمایہ داروں کے اس غیر معمولی اشتعال کا سبب معلوم ہوجائے گا ! حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اِبتدائی دور میں اسلام سے مشرف ہوگئے تھے آپ کی مشہور روایت ہے کہ آنحضرت ۖ دیوارِ کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے ، میں سامنے پہنچا تو آپ فرما رہے تھے
ھُمُ الْاَخْسَرُوْنَ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ١ ربِ کعبہ کی قسم قیامت کے روز یہی لوگ خسارہ میں ہوں گے
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے یہ الفاظ سنے تو میں چونک گیا ! مجھے خیال ہوا کہیں میرے بارہ میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ، یہ بد نصیب کون ہیں ؟ فرمایا : جو سب سے زیادہ دولت مند ہیں صرف وہ مستثنیٰ ہیں جو آگے پیچھے دائیں بائیں سب طرف خرچ کرتے رہیں ! ! !
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ ص ٢٤٦ تا ٢٥٣ )
وفیات
٨ جنوری٢٠٢٢ ء کو مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن کے مہتمم حضرت مولانا یوسف صاحب رشیدی مختصر علالت کے بعد میترانوالی میں انتقال فرماگئے ۔
١٠ جنوری کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس حضرت مولانا محمد حسین صاحب کی پھوپھی صاحبہ مختصر علالت کے بعد وفات پاگئیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
١ ترمذی شریف ج١ ص ٧٨ ومسلم شریف ج١ ص ٣٢٠ وغیرہما
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مناقب
( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمة اللہ علیہ)
ض ض ض
حضرت زینب رضی اللہ عنہاآنحضرت ۖ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں بلکہ بعض علماء نے اِن کو آنحضرت ۖ کی سب سے پہلی اولادبتایاہے اورلکھاہے کہ حضر ت قاسم رضی اللہ عنہ کی ولادت ان کی بعدہوئی ! ابن الکلبی کایہی قول ہے اورعلی بن عبدالعزیزالجرجانی نے حضرت قاسم کو بڑا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو چھوٹا بتایا ہے ! ہاں اس پرسب متفق ہیں کہ صاحبزادیوں میں سب سے بڑی حضرت زینب رضی اللہ عنہاتھیں ! ان کی پیدائش ٣٠ میلادنبوی میں ہوئی یعنی جس وقت وہ پیداہوئیں آنحضرت ۖ کی عمر شریف تیس سال تھی ! ( ذکرہ فی الاستیعاب)
سیدعالم ۖ کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ اس حساب سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی زندگی کے اوّلین دس برس بعثت سے پہلے گزرے اورتیرہ سال اُس کے بعد ! مشرکین کی طرف سے سیدعالم ۖ کواورآپ کے اہل وعیال کوجوتکلیفیں پہنچیں اُن سب میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا اوراُن کی بہنیں شریک رہیں ! سن ٧ نبوی میں آنحضرت ۖ اورآپ کے ساتھیوں کو شَعَبِ بن ابی طالب میں مقیدکیاگیا، وہاں تین برس تک قیدر ہے اورفاقوں پرفاقے گزرے، اُن سب مصائب میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اورآنحضرت ۖ کی اولادسب ہی شریک رہے ! ! !
نکاح :
سیدعالم ۖ نے اِن کانکاح حضرت ابوالعاص بن الربیع سے کردیاتھا۔ ابوالعاس اِن کی کنیت ہے۔ اِن کانام کسی نے لقیط اورکسی نے زبیر اور کسی نے ہشیم بتایاہے ( وقیل غیرذٰلک) حضرت ابوالعاص حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت ِخویلدکے بیٹے تھے اس طرح وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہاکے خالہ زادبھائی ہوئے ! مکہ میں اُن کی پوزیشن مالداری اورتجارت وامانت میں بڑی اُونچی تھی ! بعثت سے پہلے بھی سیدعالم ۖ کو اِن سے گہرا تعلق تھا ! بعض علماء نے یہ بھی کہاہے کہ اِنہوں نے سید عالم ۖ سے مواخات کرلی تھی یعنی آپ کواپنابھائی بنالیاتھا۔ (الاصابہ )
حضرت زینب سے اِن کانکاح مکہ میں ہوگیا تھا، اُس وقت تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی زندہ تھیں۔ حضرت ابوالعاص مکہ میں مسلمان نہیں ہوئے بلکہ اِسلام قبول کرنے سے انکار کردیا ! مگرمشرکین ِمکہ کے کہنے پرحضرت زینب رضی اللہ عنہا کوطلاق بھی نہیں دی ! حضوراقدس ۖ نے اُن کی اِس بات پرتعریف فرمائی اورفرمایاکہ ابوالعاص نے بہترین دامادی کاثبوت دیا ! یہ واقعات ابتدائے اسلام کے ہیں اُس وقت احکام نازل نہیںہوئے تھے اس لیے یہ سوال پیدانہیں ہوتاکہ مسلمان عورت کافرکے نکاح میں کیونکر رہتی رہی ! پھرجب حضوراقدس ۖ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تواپنی اہلیہ حضرت سودہ اوراپنی صاحبز ا دیوں حضرت فاطمہ اورحضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہن کوبلالیالیکن حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنے شوہرکے پاس ہی رہیں !
ہجرت :
حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ ہی میں اپنے شوہرکے پاس رہیں حتی کہ اُن کوحالت ِشرک ہی میں چھوڑکر سن ٢ ہجری میں غزوہ ٔبدرکے بعدمدینہ منورہ کوہجرت فرمائی ! حضرت ابوالعاص زمانۂ کفرمیں مشرکینِ مکہ کے ساتھ بدرکے موقع پرمسلمانوں سے لڑنے کے لیے آئے، جنگ میں شریک ہوئے،مسلمانوں کوفتح ہوئی اورحضرت ابوالعاص بن الربیع دیگرمشرکین کے ساتھ قیدکرکے مدینہ لائے گئے ! اُن کوحضرت عبداللہ بن جبیربن النعمان الانصاری رضی اللہ عنہ نے قیدکیاتھا ! بدرسے ہارکر جب مشرکین مکہ اپنے وطن پہنچے توقیدیوں کوچھڑانے کے لیے حضورِاقدس ۖ کی خدمت میں قیدیوں کافدیہ(جان کابدلہ) بھیجا، ہرایک قیدیوں کے عزیزوں نے کچھ ناکچھ بھیجاتھا !
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہرکوچھڑانے کے لیے عمربن الربیع کو مال دے کرروانہ کیا (یہ حضرت ابوالعاص کے بھائی تھے) اُس مال میں ایک ہاربھی تھا جوحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے شادی کے وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کودیاتھا ! اُس ہارکودیکھ کررسول اللہ ۖ کوحضرت خدیجہ یادآگئیں اورآپ پربہت رِقت طاری ہوگئی اور جا نثارصحابہ سے فرمایاکہ تم مناسب سمجھوتوزینب کے قیدی کویوں ہی چھوڑدو،اُس کامال واپس کردو ! ! !
اشاروں پرجان دینے والے صحابہ نے بخوشی منظور کر لیا اورسب نے کہا جی ہم کواِسی طرح منظورہے چنانچہ حضرت ابوالعاص چھوڑدیے گئے لیکن سیدعالم ۖ نے اُن سے یہ شرط طے کرلی کہ زینب کو مکہ جاکرمدینہ کے لیے روانہ کردینا ! چنانچہ اُنہوں نے یہ شرط منظورکی اورپھراُس کوپوراکیا جس کی وجہ سے سیدکونین ۖ نے اُن کی تعریف کی اوریہ فرمایا حَدَّثَنِیْ فَصَدَقَنِیْ وَوَعَدَنِیْ فَوَفّٰی لیِْ (یعنی ابوالعاص نے مجھ سے بات کی اورسچ کہامجھ سے وعدہ کیاجسے پورا کیا)
چنانچہ حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے مکہ معظمہ پہنچ جانے پرحضرت زینب رضی اللہ عنہاہجرت کرکے شفیق ِدوجہاں ۖکے پاس مدینہ منورہ آگئیں لیکن ہجرت کے وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کویہ دردناک واقعہ پیش آیاکہ جب وہ ہجرت کے اِرادہ سے نکلیں توہباربن الاسود اور اُس کے ایک ساتھی نے اِن کوتکلیف پہنچانے کااِرادہ کیا۔چنانچہ ایک نے اِن کودھکادے دیاجس کی وجہ سے وہ ایک پتھرپرگرپڑیں اورایسی تکلیف پہنچیں کہ حمل ساقط ہوگیا ! یہ تکلیف تادمِ آخرتک چلتی رہی اوریہی اُن کی وفات کاسبب بنی اوربعض کتب میں یوں لکھاہے کہ حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے اِن کومدینہ منورہ جانے کی اجاز ت دے دی اوراِن کے روانہ ہونے سے قبل ہی شام کو روانہ ہوگئے ! جب وہ ہجرت کے لیے گھرسے نکلیں توہباربن الاسوداوراُس کے ایک ساتھی نے اِن کوجانے سے روکااورگھرمیں واپس کردیا ! اس کے بعدسیدعالم ۖ نے اِن کوہمراہ لانے کے لیے مدینہ منورہ سے آدمی بھیجا جس کے ساتھ وہ مدینہ منورہ تشریف لے آئیں ! حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوجوتکلیف پہنچی اُس کے بارے میں سید عالم ۖ نے فرمایاوہ میری سب سے اچھی بیٹی تھی جومیری محبت میں ستائی گئی !
حضرت ابوالعاص کامسلمان ہونا :
ہدایت اللہ کے قبضہ میں ہے حضرت ابوالعاص کا واقعہ کتناعبرت خیزہے کہ حضورِ اقدس ۖ کے دوست ِخاص بھی ہیں اوردامادبھی ! آنحضرت ۖ کی صاحبزادی گھرمیں ہے مگرمسلمان نہیں ہوتے بیوی سے اس قدرمحبت ہے کہ مشرکینِ مکہ کے زوردینے پرطلاق نہیں دیتے ! بدرمیں قیدہوئے اورقیدسے آزاد ہو کر بیوی کومدینہ منورہ بھیج دیامگرابھی تک اسلام قبول نہیں کیا پھرجب اللہ رب العزت نے ہدایت دی توبڑی خوشی سے اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے ! ! !
جس کاواقعہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے کچھ پہلے اِنہوں نے ایک قافلے کے ساتھ شام کاایک تجارتی سفرکیا قریش کے بہت سے مال آدھے ساجھے پرتجارت کے لیے ساتھ لے گئے جب واپس ہوئے توحضوراقدس ۖ کا ایک دستہ جس کے امیرحضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے آڑے آیا اور اُس دستے نے اس قافلے کامال چھین لیااورکچھ لوگوں کوقیدکیا۔
حضرت ابوالعاص قیدمیں نہ آئے بلکہ بھاگ کرمدینہ منورہ چلے گئے اوررات کوحضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کرپناہ مانگی ! انہوں نے پناہ دے دی ! جب حضوراقدس ۖ فجرکے نمازسے فارغ ہوئے توحضرت زینب نے زورسے پکارکرکہاکہ اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ اَجَرْتُ اَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیْعِ (کہ اے لوگو ! میں نے ابوالعاص کوپناہ دے دی ہے) حضورِ اقدس ۖنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کیا آپ حضرات نے سُنا زینب نے کیاکہا ؟ حاضرین نے کہاجی ہاں ہم نے سنا ! اس منصف ِعادل ۖ پر ہردو عالَم قربان جس نے صحابہ کرام کاجواب سن کر فرمایا اَمَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ مَاعَلِمْتُ بِذٰلِکَ حَتّٰی سَمِعْتُہ کَمَا سَمِعْتُمْ (یعنی قسم اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس وقت سے پہلے مجھے بھی پتہ نہیں تھاکہ ابوالعاص مدینہ میں ہیں اوراُن کوزینب نے پناہ دی ہے، مجھے اس کاعلم اُس وقت ہواہے جبکہ تمہارے کان میں زینب کے اعلان کی آوازپہنچی) اس کے بعدفرمایاکہ ادنیٰ مسلمان بھی کسی کوپناہ دے دے توسب مسلمانوں کو اُس کا پوراکرنالازم ہوجاتاہے ! پھریہ فرماکرآپ حضرت زینب کے پاس پہنچے اوراُن سے فرمایاکہ ابوالعاص کواچھی طرح رکھنااورمیاں بیوی والاتعلق نہ ہونے دیناکیونکہ تم اُن کے لیے ہلال نہیں ہو ! حضرت زینب نے عرض کیاکہ یہ اپنامال لینے کے لیے آئے ہیں ! یہ سن کرسیدعالم ۖ نے اُس دستے کوجمع کیاجنہوں نے اِن کامال چھیناتھااورفرمایاکہ اِس شخص (ابوالعاص) کاجوتعلق ہم سے ہے اُس سے توآپ لوگ واقف ہیں اوراِس کامال تم لوگوں کے ہاتھ لگ گیاہے جوتمہارے لیے اللہ کی طرف سے عنایت ہے کیونکہ دارُالحرب کے غیرمسلم کامال ہے میں چاہتاہوں کہ آپ لوگ اس کے ساتھ احسان کریں اورجومال اِس کا لے لیاہے واپس کردیں لیکن اگرتم ایسانہ کرو تو میں مجبور نہیں کرسکتا اس مال کے تم ہی حق دارہو ! یہ سن کرسب نے عرض کیاکہ ہم اِن کامال واپس کردیتے ہیں اور پھر اِس پر عمل کیا اور جو مال لیاتھا وہ سارااِن کوواپس دے دیا !
اِس مال کولے کروہ مکہ معظمہ پہنچے اورجس جس کا جوحق اُن پرچاہتاتھاوہ سب اداکردیااوراِس کے بعد کلمہ شہادت اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ سچے دل سے پڑھا ! ! اورمکہ والوں سے کہا(میں نے یہاں پہنچنے کی کوشش اس لیے کی اور) مدینہ میں کلمہ پڑھنے کے بجائے یہاں کلمہ اسلام اس لیے پڑھاکہ اگروہیں اسلام قبول کرلیتاتوتم لوگ یہ سمجھتے کہ ہمارامال مارنے کے لیے مسلمان ہوگیاہے ! اب میں نے تمہارے تمام حقوق اداکردیے ہیں اوراسلام قبول کرلیا ہے ! اس کے بعدحضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ آنحضرت ۖ کی خدمت میں مدینہ منورہ چلے گئے اورآنحضرت ۖ نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دوبارہ اِن کانکاح فرما دیا۔(اُسد الغابہ) چھ سال کے بعدحضرت زینب رضی اللہ عنہا حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دوبارہ آئیں اوراِن ہی کے نکاح میں وفات پائی ! حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے ذی الحجہ ١٢ھ میں وفات پائی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَاَرْضَاہُ۔ (الاصابہ)
اولاد :
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بطن ِمبارک سے ایک صاحبزادہ اورایک صاحبز ادی تولدہوئے ! صاحبزادی نام اُمامہ تھااورصاحبزادہ کانام علی تھا ! فتح مکہ کے روزآنحضرت ۖ کے ساتھ سواری پرجوعلی سوارتھے وہ یہی علی بن ابی العاص ہیں ! انہوں نے سن بلوغ کے قریب آنحضرت ۖ کی موجودگی ہی میں وفات پائی ! ان کی بہن حضرت اُمامہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت ۖ کوبہت محبت تھی ایک مرتبہ آپ کے پاس کہیں سے ایک ہارآگیاتھااُس کے متعلق آپ نے فرمایا اسے اپنے گھروالوں میں سے اُس کودوں گاجومجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ! یہ اِرشادسن کر عورتوں نے سمجھ لیاکہ بس ابوبکرکی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کوملے گا لیکن آنحضرت ۖ نے حضرت اُمامہ کے گلے میں ڈال دیا۔ (الاصابہ)
حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعدحضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اِن کی بھانجی حضرت اُمامہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمالیاتھا اُن کواِس کی وصیت حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کی تھی ! پھرجب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعدحضرت نوفل بن مغیرہ رضی اللہ عنہ سے حضرت اُمامہ کانکاح ہوا، اُن سے ایک صاحبزادہ یحییٰ نامی کی ولادت ہوئی ! لیکن بعض علماء نے یہ بھی کہاہے کہ نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں اِن کے بطن ِمبارک سے کوئی اَولادہوئی ، نہ حضرت نوفل رضی اللہ عنہ کے نکاح میں۔(الاصابہ)
آنحضرت ۖ کی نسل شریف صرف حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چلی اورکسی صاحبزادی سے آپ کی نسل نہیںبڑھی قَالَ فِی الْاِصَابَةِ وَانْقَطَعَ نَسْلُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَےْہِ وَسَلَّمَ اِلَّا مِنْ فَاطِمَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا۔
وفات :
حضرت زینب رضی اللہ عنہانے ٨ہجری میں وفات پائی۔آنحضرت ۖ خوداِن کی قبرمیں اُترے، اُس وقت آپ کے چہرے پررنج وغم کے آثارموجودتھے، جب آپ قبرکے اُوپرتشریف لائے توفرمایاکہ مجھے زینب کے ضعف کاخیال آگیا، میں نے اللہ تعالیٰ سے دُعاکی کہ قبرکی تنگی اوراُس کی گھٹن سے زینب کومحفوظ فرمادے، اللہ تعالیٰ نے دُعا قبول فرماکرآسانی فرمادی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَاَرْضَاَھَا
ض ض ض
رحمن کے خاص بندے قسط : ٨
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری ، اُستاذ الحدیث دارُالعلوم دیوبند )
ض ض ض
احادیث ِ طیبہ میں جہنم کی ہولناکیوں کا بیان :
اسی طرح آنحضرت ۖ نے احادیث ِ طیبہ میں نہایت تفصیل اور وضاحت کے ساتھ جہنم اور اُس کے ناقابلِ تصور عذابوں سے اُمت کو متنبہ فرمایا ہے چند احادیث کا خلاصہ ذیل میں درج ہے : ٭ سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ
''یہ آگ جسے آدمی دہکاتا ہے یہ جہنم کی آگ کے ستر اَجزاء میں سے ایک جزء ہے'' لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ دنیا کی آگ ہی جلانے کے لیے کافی ہے ! تو آپ نے ارشاد فرمایا :
فَاِنَّھَا فُضِّلَتْ عَلَیْھَا بِتِسْعَةٍ وَّسِتِّیْنَ جُزْئً کُلُّھَا مِثْلُ حَرِّھَا ۔ ١
''جہنم کی آگ دنیا کی آگ کے مقابلہ میں اُنہتر گنا زیادہ جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ستر گنا میں سے ہر جزء میں یکساں تیش کی صلاحیت ہے'' (اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ )
٭ سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا
اُوْقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَةٍ حَتّٰی احْمَرَّتْ ، ثُمَّ اُوْقِدَ عَلَیْھَا اَلْفَ سَنَةٍ حَتّٰی ابْیَضَّتْ ، ثُمَّ اُوْقِدَ عَلَیْھَا اَلْفَ سَنَةٍ حَتّٰی اسْوَدَّتْ فَھِیَ سَوْدَائُ مُظْلِمَة ۔ ٢
''جہنم کی آگ کو ایک ہزار سال تک دہکایا گیا جس کی وجہ سے وہ سرخ ہوگئی ! پھر ایک ہزار سال تک دہکایا گیا جس کی بناء پر وہ جلتے جلتے سفید ہوگئی ! اس کے بعد پھر ایک ہزار سال دہکایا گیا تو وہ سیاہ ہوگئی ! چنانچہ اب وہ نہایت اندھیری اور سیاہی کے ساتھ دہک رہی ہے ''
١ صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٨٤٣ ٢ سُنن ترمذی رقم الحدیث ٢٥٩١
٭ سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ حضورِ اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا
لَوْ اَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّوْمِ قُطِرَتْ فِیْ دَارِ الدُّنْیَا لَاَفْسَدَتْ عَلٰی اَھْلِ الدُّنْیَا مَعَائِشَھُمْ ، فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُوْنُ طَعَامَہ ۔ ١
''جہنمیوں کی غذا ''زقوم ''(سینڈھا) اتنی بدبودار ہے کہ اگر اس کا ایک قطرہ بھی دنیا میںاُتار دیا جائے تو تمام دنیا والوں کو بدبو کی وجہ سے یہاں رہنا دوبھر ہوجائے تو اندازہ لگائیے کہ جس کی غذا ہی یہ ہوگی اُس کا کیا حال ہوگا ؟ ''
٭ سیدنا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا
لَوْ اَنَّ دَلْوًا مِنْ غَسَّاقٍ یُھْرَاقُ فِی الدُّ نْیَا لَأَنْتَنَ اَھْلَ الدُّ نْیَا ۔ ٢
''(جہنمیوں کو پلایا جانے والا ''غَسَّاقٍ'' (زخموں کی پیپ) اتنی سخت بد بودار ہے کہ) اس کا اگر صرف ایک ڈول بھی دنیا میں ڈال دیا جائے تو ساری دنیا اِس کی بدبو سے سڑ جائے گی''
٭ سیدنا حضرت ابواُمامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ۖ نے قرآنی آیت
( وَیُسْقٰی مِنْ مَّآئٍ صَدِیْدٍ) کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
یُقَرَّبُ اِلٰی فِیْہِ فَیَکْرَھُہ فَاِذَا اُدْنِیَ مِنْہُ شَوَّی وَجْھَہ وَ وَقَعَتْ فَرْوَةُ رَأْسِہ فَاِذَا شَرِبَہ قَطَّعَ اَمْعَائَ ہ حَتّٰی یَخْرُجَ مِنْ دُبُرِہ ۔ ٣
''وہ بدبودار کھولتا ہوا پانی پیپ جہنمیوں کے منہ کے قریب کیا جائے گا جو اُسے بہت ناگوار ہوگا لیکن اسے قریب کرتے ہی اس کا چہرہ بالکل جھلس جائے گا حتی کہ گرمی کی شدت سے اس کے سر کی کھال تک پگھل جائے گی پھرجب وہ جہنمی اس بدبودار اور گرم ترین پانی کو بادلِ ناخواستہ پیے گا تو وہ اس کی سب اَنتڑیاں کاٹ کر پیچھے کے راستے سے باہر نکال دے گا '' اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ
١ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٢٥٨٥ و ابنِ حبان ٩/ ٢٧٨ ٢ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٢٥٨٤
٣ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٢٥٨٣
٭ سیدنا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی اکرم ۖ نے آیت ( وَھُمْ فِیْھَا کَالِحُوْنَ) کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ
تَشْوِیْہِ النَّارُ فَتَقَلَّصُ شَفَتُہُ الْعُلْیَا حَتّٰی تَبْلُغَ وَسَطَ رَأْسِہ وَ تَسْتَرْخِیْ شَفَتُہُ السُّفْلٰی حَتّٰی تَضْرِبَ سُرَّتَہ ۔ ١
''جہنم کی لپٹوں سے جہنمی کا چہرہ اس طرح جھلس جائے گا کہ اُوپر کا ہونٹ آدھے سر تک سمٹ جائے گا اور نیچے کا ہونٹ اس کی ناف تک لٹک جائے گا'' اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ
٭ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا :
ضِرْسُ الْکَافِرِ اَوْ نَابُ الْکَافِرِ مِثْلُ اُحُدٍ ، وَغِلْظُ جِلْدِہ مَسِیْرَةُ ثَلَاثٍ۔ ٢
''کافر جہنمی کی ڈاڑھ اُحد پہاڑ کے برابر ہوگی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت کے بقدر ہوجائے گی (تاکہ بدن بڑا ہونے سے تکلیف میں مزید اضافہ ہوسکے ) اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ
٭ سیدنا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا
اِنَّ الْکَافِرَ لَیُسْحَبُ لِسَانُہُ الْفَرْسَخَ وَ الْفَرْسَخَیْنِ یَتَوَطَّأُہُ النَّاسُ ۔ ٣
''کافر کی زبان جہنم میں ایک فرسخ اور دو فرسخ کے بقدر باہر نکال دی جائے گی حتی کہ دیگر جہنمی اس پر چلا کریں گے'' اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ
٭ سیدنا حضرت عبداللہ بن الحارث بن جزء زبیدی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا
اِنَّ فِی النَّارِ حَیَاتٍ کَاَمْثَالِ اَعْنَاقِ الْبُخْتِ تَلْسَعُ اِحْدَاھُنَّ اللَّسْعَةَ فَیَجِدُ حَرَّھَا سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا، وَ اِنَّ فِی النَّارِ عَقَارِبَ کَاَمْثَالِ الْبِغَالِ الْمُوْکَفَةِ تَلْسَعُ اِحْدَاھُنَّ اللَّسْعَةَ فَیَجِدُ حُمُوَّتَھَا اَرْبَعِیْنَ سَنَةً ۔ ٤
١ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٣١٧٦ ٢ صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٨٥١
٣ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٢٥٨ ایک فرسخ ساڑھے پانچ کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے
٤ مُسند امام احمد رقم الحدیث ٥٢٩٢ ، الترغیب والترھیب رقم الحدیث ٥٥٢٣
''جہنم کے اژدھے بختی اُونٹ کی گردن کے برابر موٹے ہوں گے اور اتنے سخت زہریلے ہوں گے کہ ڈسنے کے بعد اُن کے زہر کی ٹیسیں ستر سال تک اُٹھتی رہیں گی اور جہنم کے بچھو خچروں کے برابر ہوں گے جن کے ڈسنے کی ٹیس چالیس سال تک محسوس ہوگی'' اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ
٭ سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا
یُرْسَلُ الْبُکَائُ عَلٰی اَھْلِ النَّارِ فَیَکُوْنَ حَتّٰی تَنْقَطِعَ الدُّمُوْعُ ، ثُمَّ یَبْکُوْنَ الدَّمَ حَتّٰی یَصِیْرَ فِیْ وُجُوھِھِمْ کَھَیْئَةِ الْاُخْدُوْدِ ، لَوْ اُرْسِلَتْ فِیْھَا السُّفُنُ لَجَرَتْ ۔ ١
''جہنمیوں پر رونے کی حالت طاری کردی جائے گی پس روتے روتے ان کے آنسو خشک ہوجائیں گے تو پھر وہ خون کے آنسو اس قدر روئیں گے کہ ان کے چہروںمیں (اتنے بڑے بڑے) گڈھے ہوجائیں گے کہ اگر ان میں کشتیاں چلائی جائیں تو وہ بھی چلنے لگیں'' اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ
٭ سیدنا حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا
اِنَّ اَھْوَنَ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا رَجُل فِیْ اَخْمَصِ قَدَمَیْہِ جَمْرَتَانِ یَغْلِیْ مِنْھُمَا دِمَاغُہ کَمَا یَغْلِیْ الْمِرْجَلُ بِالْقُمْقُمِ ۔ ٢
''جہنم میں سب سے کم تر عذاب والا شخص وہ ہوگا جس کے جوتے میں جہنم کے انگارے رکھ دیے جائیں گے جن کی گرمی سے اس کا دماغ ایسے کھولے گا جیسے دیگچی میں آگ پر پانی کھولتا ہے'' اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ
( باقی صفحہ ٥٣ )
١ سُنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٢٤ ، الترغیب والترھیب ٤/٢٧٠
٢ صحیح البخاری ٢ / ٩٧١ ، الترغیب والترھیب ٣ / ٢٦٦
استخارہ ..... متعلقات ومسائل
( حضرت مولانا مفتی محمود زُبیر صاحب قاسمی ، انڈیا )
ضضض
آب وگل کا یہ خمیر جسے اللہ رب العزت نے آدم کی شکل میں تشکیل دیا اورعلم ودانائی ، عقل وفراست کی بنا پر مخلوقات میں اشر ف اوراپنا نائب مقررکیا جو آج چاند ومریخ پر کمندیں ڈالنے اوراسے آدم کا نشیمن بنانے اوراپنے علم وتحقیق کی بنیاد پر مخلوقات کے حقائق سے واقف ہونے اوران کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے کوشاں وسرگرداں ہے ! بعض دفعہ معلومات کی وسعت اور وسائل کی بہتات کے باوجود اُس کو ایسے اُمور ، واقعات وحادثات کا سامنا ہوتا ہے جس سے اُسے اپنی علمی کم مائیگی اورعقل ودانائی کی محدود یت کا احساس ہونے لگتا ہے اور یہ اپنی تمام صلاحیتوں اور استعدادوں کے باوجود دوسروں کی مدد اور رہنمائی کا محتاج اورمنتظر ہو جاتا ہے ۔ایک ایسے وقت میں جبکہ انسان تذبذب کا شکار اوررہبری کا طلبگار ہوتا ہے اورکسی چیز کے اختیار وانتخاب میں پس وپیش میں پڑ جاتا ہے تو شریعت اُسے واہی تباہی اُمور سے بچاتے ہوئے معقول اور پسندیدہ امر استخارہ کی رہنمائی کرتی ہے مسندُ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی کتاب ''حُجة اللّٰہ البالغة'' میں اس کی مشروعیت کی حکمت ومصلحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ
'' زمانہ جاہلیت میں جب کسی کوسفر، نکاح اور خرید وفروخت جیسے اہم امور پیش آتے تووہ اِسْتِقْسَامْ بِالْاَزْلَامْ کرتے ! یہ عرب میں رائج ایک طریقہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی اہم کام کا ارادہ کرتا اورمستقبل میں اس سے متعلق بہتری یا خسارہ کو معلوم کرنا چاہتا تو وہ خانہ کعبہ کے پاس جاتا اُس کے پاس کچھ تیر ہوتے ، وہ ذمہ داران تیروں کی مدد سے اس شخص کو اِس عمل کے کرنے یا نہ کرنے کی تاکید کرتا ! اس طرح کے کچھ اورطریقے بھی خیروشر کے معلوم کرنے کے لیے اُن کے درمیان رائج تھے ! نبی کریم ۖ نے اس جاہلانہ رسم سے منع فرمایا کیونکہ اس کی نہ تو کوئی اصل تھی اور نہ کوئی بنیاد بلکہ اس میں کچھ بھلائی نکل بھی جاتی تو وہ بھی اتفاق ہوتی تھی اورچونکہ اس کے بعد یہ لوگ اس کو خدائی حکم اورفیصلہ سمجھ کر عمل کرتے یا ترک کرتے تھے جس میںایک گونہ اللہ رب العزت پربہتان بھی تھا ! تو شریعت نے انسان کی فطری ضرورت اورطبعی میلان وخلجان کو ملحوظ رکھتے ہوئے رب ِکائنات سے رہنمائی اور ستفادہ کا ذریعہ استخارہ کی شکل میںاسے عطا کیا''
وکان اھل الجاھلیة اذا عنت لھم حاجة من سفر او نکاح اوبیع استقسموا بالأزلام ، فنھی عنہ النبیۖ لأنہ غیر معتمد علی اصل وانما ھو محض اتفاق ، ولأنہ افتراء علی اللّٰہ بقولھم : أمرنی ربی ونھانی ربی ، فعوضعھم ذالک الاستخارة ۔ (حجة اللّٰہ البالغة ج ٢ ص١٩)
استخارہ کی حکمت :
استخارہ کی حقیقت اوراس کی رُوح یہ ہے کہ جب بندہ کسی امر میں متحیر اور متردّد ہوتا ہے اور کوئی صاف اور واضح پہلو شرعی اورعقلی ، معاشی اوردینی طورپر نظر نہیں آتا اوراس کا علم رہنمائی سے قاصر اور عقل بہتر اورصحیح کے انتخاب سے عاجز ہو جاتی ہے تو یہ بندہ اپنی درماندگی اور بے علمی کا احساس واعتراف کرتے ہوئے اپنے علیمِ کل اور قادرِمطلق مالک سے رہنمائی اورنصرت کا خواستگار ہوتا ہے اور اپنے معاملہ کورحیم وکریم ذات کے حوالہ کردیتا ہے کہ جو آپ کے نزدیک بہتر ہو بس اُسی کا فیصلہ اورانتخاب مجھ بندہ کے لیے کر دیجیے !
استخارہ کی فضیلت :
استخارہ کی فضیلت واہمیت اوربندوں کو اس کی حاجت وضرورت کے پیش نظر حضور اکرم ۖ استخارہ کی تعلیم اسی اہتمام سے فرماتے تھے جس اہتمام سے آپ اُن کو قرآنِ کریم کی سورتوں کی تلقین فرمایا کرتے تھے !
عَنْ جَابِر قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ یُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَةَ فِی الْاُمُوْرِ کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ ۔ ١
''حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ ہمیں اپنے معاملات میں استخارہ اِسی اہتما م سے سکھاتے تھے جس اہتمام سے قرآنِ کریم کی سورتوںکی تعلیم فرماتے تھے''
ایک دوسری حدیث میں حضور اکرم ۖ کا ارشاد ہے کہ
مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ ٢
''استخارہ کرنے والاکبھی ناکام ونامراد نہیں ہوتا''
کیونکہ اس نے اپنے معاملہ کو ایسی ذات کے سپرد کیا ہے جو ماں سے زیادہ شفیق ومہربان اور باپ سے زیاد ہ مصلحتوں اور حکمتوں پر نظر رکھنے والا ہے اور خیر خواہ ہے ! اگر ایسی رحیم وکریم ذات سے بھی جس کی جودوسخا اورشفقت ومحبت کی نہ تو کوئی عدیل ہے اور نہ مثیل ، کوئی استفادہ نہ کرے تو اُس کی حرماں نصیبی میں کیا شبہ باقی رہ جاتا ہے ! جناب نبی کریم ۖ کا ارشاد گرامی ہے :
وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْکُہُ اسْتِخَارَةَ اللّٰہِ ۔ ٣
''آدمی کی بدبختی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے''
استخارہ کا مسنون طریقہ :
استخارہ کا طریقہ جو اَحادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے جو سنت کی برکتوں اور آنحضرت ۖ کی تعلیمات کی نورانیوں سے معمور ہے، ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے ۔
سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے اچھی طرح وضو کرکے دورکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھے پھر خوب اللہ رب العزت کی تعریف و تحمید کرے، اس کے بعد استخارہ کی یہ دُعا پڑھے :
١ صحیح البخاری ج ١ ص١٠٠ ٢ مجمع الزوائد ج ٨ ص٩٦
٣ سُنن ترمذی ج ٢ ص٣٧ ، مُسند احمد رقم الحدیث ١٣٧٦
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ، اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ خَےْر لِّیْ فِیْ دِےْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِیْ فَاقْدِرْہُ لِیْ ویَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرّلِّیْ فِیْ دِےْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَةِ اَمْرِیْ فَاَصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاَصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ۔ ١
''یا اللہ میں آپ سے خیر چاہتا ہوں بوجہ آپ کے علم کے ! اور قدرت طلب کرتا ہوں آپ سے بوجہ آپ کی قدرت کے ! اور مانگتا ہوں میںآپ سے آپ کے بڑے فضل میں سے ! کیونکہ آپ قادر ہیں اورمیں عاجز ہوں اور آپ عالم ہیںاور میں جاہل ہوںاورآپ علام الغیوب ہیں !
یا اللہ اگر آپ کے علم میں یہ کام بہتر ہے میرے لیے دین میں اورمیری معاش میں اور میرے انجام کار میں توتجویز کردیجیے اور آسان کردیجیے اس کو میرے لیے ! پھربرکت دیجیے میرے لیے اس میں ! اور اگر آپ کے علم میں ہو کہ یہ کام برا ہے میرے لیے میرے دین میں اور معاش اور میرے انجام کار میں ،تو ہٹا دیجیے اس کو مجھ سے اورہٹا دیجیے مجھ کو اس سے ! اورنصیب کردیجیے مجھ کو بھلائی جہاں کہیں بھی ہو ! پھر راضی رکھیے مجھ کو اس پر ''
جب ھذا الأمر پرپہنچے تو جس کام کے لیے استخارہ کررہا ہے اُس کا خیال کرے !
فقہاء ومحدثین فرماتے ہیں کہ استخارہ کی دُعا پوری کرنے کے بعد قبلہ رُخ ہوکر باوضو سوجائے ! ٢
علامہ نووی اورامام غزالی نے پہلی رکعت میں سورةالکافرون اوردوسری رکعت میں سورة الا خلاص پڑھنے کی بات بھی کہی ہے ! ٣
١ صحیح البخاری ١/١٠٠ عن جابر ، مُسند احمد رقم الحدیث ٢٢٣٩١ عن ابی ایوب انصاری وفیہ ابن لھیعہ
٢ شامی ج١ ص٣٧١ ٣ عمدة القاری ج٣ص٢٢٥
ملاعلی قاری نے اس کے علاوہ پہلی رکعت میں( وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) ١ اوردوسری رکعت ( وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا ) ٢ پڑھنے کا معمول بھی نقل کیا ہے ! ٣
اگر کسی شخص کو کوئی کام اچانک پیش آجائے اوراُسے اتنی مہلت نہ ہو کہ وہ مذکورہ بالا طریقہ پر استخارہ کرسکے تو وہ صرف دُعاء پر بھی اکتفا کرسکتاہے ! ٤
استخارہ کا نتیجہ :
یہ ایک اہم مسئلہ ہے ، اس سلسلہ میں لوگ عموماً پریشانی اور اُلجھن کا شکاررہتے ہیں کہ استخارہ توکرلیا گیا لیکن ان پہلوئوں میںسے کس پہلو کا انتخاب ہمارے حق میں نافع اورکامیابی کا ضامن ہوگا، اس کو کیسے پہچانا اور جانا جائے اور کن علامات کو پیش نظررکھتے ہوئے انتخاب اور عمل درآمد کیا جائے ؟ اس سلسلہ میں دوطرح کی رائے ملتی ہیں :
(١) ایک یہ ہے کہ نفس ِاستخارہ کافی ہے اور اسی پر اعتماد کرتے ہوئے آدمی جس کسی پہلو کواختیار کرے گا ان شاء اللہ خیر اُسی میں ہوگی کیونکہ استخارہ ایک دُعاء ہے ، بندہ اپنے پروردگار سے استخارہ کے ذریعہ درخواست کرتا ہے کہ اللہ اس کے حق میں خیر اوربھلائی کو مقدر فرمائے توضروراللہ اس کے حق میں بہتری اوراس کے حال کے مناسب اَمر کو اُس کے لیے منتخب اورسہل فرما دیتے ہیں۔
(٢) دوسری بات یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد دل کا میلان اوررُجحان جس پہلو پر ہو اُسی کو اختیار کرناچاہیے، اس رائے کی تائید ایک ضعیف حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو ابن ِسنی نے روایت کیا ہے :
عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ اِذَا ھَمَمْتَ فَاسْتَخِرْ رَبَّکَ سَبْعًا ثُمَّ انْظُرْ اِلَی الَّذِیْ یَسْبِقُ اِلٰی قَلْبِکَ فَاِنَّ الْخَیْرَ فِیْہِ ۔ ٥
١ سُورة القصص : ٦٨ ٢ سُورة الاحزاب : ٣٦ ٣ مرقاة المفاتیح ج٣ص٢٠٦
٤ اصلاحی خطبات ج١٠ ص١٣٩ ٥ معارف السُنن ج ٤ ص٢٧٨
''حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول ۖ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اپنے رب سے سات (متفرق اوقات میں) استخارہ کرلو پھر جس چیز کی طرف تمہارا ذہن متوجہ ہو اُسی کی طرف توجہ کرلو کیونکہ خیر اِسی میں ہے''
علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس رائے کو اختیار کیا ہے ! ١
استخارہ میں خواب دیکھنا ضروری نہیں ! اگر کسی کو خواب آجائے تو یہ اُس کے قلبی رُجحان کے لیے مددگار ثابت ہوگا چنانچہ مشائخ اس سلسلہ میں کہتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں سفید یا سبزرنگ کی چیز دیکھ لے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس معاملہ میں خیر ہے اور اگر کالا یا سرخ رنگ دیکھ لے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ اِس کام سے اجتناب اورپرہیز کرے !
استخارہ کن اُمور میں کیا جائے ؟
استخارہ ایسے معاملوں میں کیا جائے گا جس کے مفید اوردرست پہلو سے انسان واقف نہ ہو ! اگر وہ معاملہ ایسا ہو جس کی بھلائی سے انسان واقف ہو جیسے عبادت اوردیگر احکام شرعیہ یا پھر اُس کی برائی اُس پر واضح ہو مثلاً گناہ کے کام اور منکرات تو ان اُمور میں استخارہ کی حاجت ہے ہی نہیں ! کیونکہ صحیح یا غلط تو واضح اور ظاہر ہے، استخارہ جائز اورمباح چیزوں میں کیا جائے گا نیز ایسے واجبات میں بھی کیا جا سکتا ہے جس میں وقت اور کیفیت کی کوئی قید نہ ہو تو اُن کے وقت اور کیفیت کے سلسلہ میں استخارہ کیا جاسکتاہے ! ٢
دوسری بات یہ ہے کہ ہر جائز اورمباح کام میں بھی استخارہ نہیں کیا جائے گا ! بلکہ ایسے امور میں استخارہ کیا جائے گا جو کبھی کبھار پیش آتے ہیں اور جس کے لیے اہتمام بھی کیا جاتا ہو جیسے سفر ، نکاح وغیرہ لیکن ایسے اُمور جو ہمیشہ لاحق رہتے ہوں اوراُن کے لیے کوئی اہتمام بھی نہ کیا جاتا ہو
١ عمدة القاری٤/٢٢٥ ، مرقاة المفاتیح٣/٢٠٦ ، بذل المجھود ٢/٣٦٦ ، معارف السنن ٤/٢٧٨ ،
بحرالرائق ٢/٥٢ ، شامی ١/٤٦١ ، اعلاء السنن ٧/٤٢ ، معارف الحدیث ٣/٣٦٥
٢ حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص٣٩٨
مثلاًعادةً کھانے اورپینے کی چیزیں ! تواِن اُمور میں استخارہ نہیں کیا جائے گا المراد بالأمر ما یعتنی بشأنہ ویندر وجودہ ۔ ١
نماز اِستخارہ کن اوقات میں پڑھی جائے ؟
احادیث ِشریفہ میں نمازِ استخارہ کے لیے کوئی خاص وقت وارد نہیں ہوا لہٰذا نمازِاستخارہ اُن اوقات کے علاوہ جن میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کسی بھی وقت ادا کی جا سکتی ہے ۔ ٢
البتہ علامہ ابن عابدین شامی نے شرح الشریعہ کے حوالے سے مشائخ سے سنی ہوئی یہ بات نقل کی ہے کہ '' اس کے پڑھنے کے بعد باوضو سوجائے'' اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نمازِ استخارہ سونے سے قبل ادا کرنا مجرب اور نافع ہے وفی شرح الشریعة ، المسموع من المشائخ ان ینام علی طھارة مستقبل القبلة بعد قراء ة الدعاء المذکور۔ ٣
استخارہ میں تکرار :
اگر کسی کو ایک دفعہ استخارہ کرنے سے کسی ایک پہلوپر دِلی رُجحان حاصل نہ ہو تو ایسا شخص رُجحان حاصل ہونے تک استخارہ کرتا رہے ! چنانچہ علامہ عینی نے امام نووی کی کتابُ الاذکار سے اُن کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انسان تین دفعہ استخارہ کرے کیونکہ حضور ۖ سے تین دفعہ دُعائیں کرنا ثابت ہے ۔ ٤
بعض حضرات ِعلماء نے حضرت انس سے مروی روایت کی بناء پر سات دفعہ استخارہ کرنے کو پسند کیا ہے ! وینبغی ان یکررھا سبعًا لماروی ابن السنی عن انس ۔ ٥
لہٰذا اگر کسی کو دِلی میلان حاصل نہ ہوتو وہ تین دفعہ استخارہ کرے، اگر پھر بھی حاصل نہ ہو تو سات دفعہ کرلے اور سات دفعہ کرنا بہتر ہے کیونکہ سات میںتین داخل ہے لیکن اگر کوئی تین ہی دفعہ کرے تو اس کو سات تو نہیں مل سکتا لہٰذا ایسے انداز پر عمل کرنا جس میں دونوں صورتیں مل جائیںاور دونوں طرح کی
١ بذل المجہود شرح ابی داؤد ج٢ص٣٦٦ ٢ مرقاة ج٣ص٢٠٦ ، عمدة القاری ج٤ ص٢٢٤
٣ شامی ١/٣٤١ ، معارف السنن ٣/٢٧٨ ٤ عمدة القاری ٣/٢٢٥ ٥ بذل المجہود ٢/٣٤٤
آراء پر عمل ہو جائے زیادہ مناسب ہے ! بلکہ بہتر یہ ہے کہ اگر اس کام میں تاخیر کی گنجائش ہو تو جب تک دل کا جھکائو کسی ایک پہلو پر نہ ہوجائے استخارہ کرتا رہے ! ١
نتیجہ ٔ اِستخارہ کا شرعی حکم :
استخارہ کرنے کے بعد جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اُس پر عمل کرنا نہ تو واجب ہے اور نہ ہی سنت ! لیکن اگر کسی ایک جانب پورا رُجحان ہو جائے اور اس میں اپنی ذاتی خواہش کا کوئی دخل نہ ہو تو اِس صورت میں اس چیز کو اختیار کرلے کیونکہ اللہ نے ہمارے حق میں جو چیز متعین ومقدر کی ہوگی وہ ہمارے حق میں ضرور بہتر ہوگی ! ٢
کسی شخص کا دُوسرے کے لیے استخارہ کرنا :
بندہ اپنی ناقص تلاش وجستجو کے بعد لکھتا ہے کہ اَحادیث میں کسی اور سے استخارہ کروانے کا کہیں ذکرنہیں ملتا ! اس سلسلہ میں بندہ نے جن اکابر علماء سے رجوع کیا اُن حضرات نے بھی کسی کتاب میں اس مسئلہ کے موجود ہونے سے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار فرمایا البتہ بعض حضرات ِعلماء کا خیال یہ ہے کہ اس کی اجازت ہونی چاہیے، دلیل یہ ہے کہ استخارہ میں بندہ اللہ رب العزت سے خیر اور بھلائی کا خواستگار ہوتا ہے جو کہ ایک دُعا ہے ! اور دُعاء کی درخواست کسی سے بھی کی جاسکتی ہے جیسا کہ نبی کریم ۖ نے حضرت عمر سے فرمایا تھا !
درحقیقت استخارہ طلبِ خیر ہی کا نام ہے اوردُعا جس طرح خود کرسکتا ہے اسی طرح دوسروں سے بھی کروا سکتا ہے لیکن جب ہم استخارہ سے متعلق احادیث پر نظرڈالتے ہیں تو آنحضرت ۖ خود استخارہ کے ضرورتمند کو اِس بات کا حکم فرمارہے ہیں کہ وہ استخارہ کرے چنانچہ حضرت ابو اَیوب انصاری کو آپ نے بذاتِ خود استخارہ کرنے کی بات کہی ہے ! ٣
١ عمدة القاری ج٤ ص٢٢٥ ٢ امداد الفتاوٰی ج١ ص٥٩٩ ، ٦٠١ ٣ مُسند احمد رقم الحدیث ٢٢٤٩١
نیز حضراتِ صحابہ میں سے کسی نے حضور ۖ سے یہ کہا ہو کہ آپ ہمارے لیے استخارہ فرمادیں ! اس کا بھی بندہ کو کوئی ثبوت نہیں مل سکا اورنہ فقہاء نے ہی اس طرح کی بات کی کہ کوئی غیر کسی کے لیے استخارہ کررہا ہوتو اُس وقت وہ متکلم کے صیغوں کی جگہ کیا کہے ؟
اس سے کم از کم یہ معلوم ہوتا ہے کہ استخارہ عن الغیر (کسی دوسرے کا استخارہ کرنے) کا اسلاف میں کوئی وجود نہ تھا ! یا یہ کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے معاملہ سے متعلق ہوتے تھے، اس صورت میں درحقیقت یہ استخارہ عن الغیر (کسی دوسرے کا استخارہ کرنا)نہیں بلکہ استخارہ عن النفس (خود ضرورت مند کا استخارہ) ہو جائے گا ! لہٰذا بعض حضراتِ علماء نے یہ نقطۂ نظر بھی بیان کیا ہے کہ استخارہ عن الغیر درحقیقت استخارہ عن النفسہے کیونکہ وہ شخص اس معاملہ کو کسی اعتبار سے اپنے سے جوڑ کر ہی استخارہ کرتا ہے ! لہٰذا وہ اسی کی ذات کے لیے استخارہ ہوا، مثلاً والدین جب اپنی اولاد کی شادی کے سلسلہ میں استخارہ کریں گے تو ان کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ مدِمقابل ہماری اولاد کے لیے مناسب ہوگا کہ نہیں ؟ ہمیں اس معاملہ میں کیا روّیہ اختیار کرنا چاہیے ؟ اس کو قبول کرنا ہمارے حق میں بہتر ہوگا یارَد کرنا ! اس معاملہ میں خود اُن کی ذات تردّد کا شکار ہے اور استخارہ تردّدکے لیے ہے ! دوسرے نقطۂ نظر کے اعتبار سے استخارہ کرنے والا کسی نہ کسی درجہ میں بذاتِ خود اس معاملہ سے متعلق اوراس میں متردّد ہو، ایسا نہ ہوکہ کسی ایسے شخص سے جس کااس معاملہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، استخارہ کروائے !
موجودہ حالا ت کے تناظر میںاس سلسلہ میں ایک مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ،وہ یہ ہے کہ بعض لوگ فون یا دیگر مواصلاتی ذرائع سے کسی بزرگ یا مذہبی شخصیت سے اپنے کام کے متعلق استخارہ کی درخواست کرتے ہیںاور وہ بزرگ یا صاحب اس مسئلہ اورکام کو سننے کے فوراً بعد ہی اپنا جواب مرحمت فرمادیتے ہیں جیسا کہQTV پاکستان میں یہ طریقہ رائج ہے، اس کی دوکیفیتیں ہو سکتی ہیں :
(ا) ایک تو یہ کہ بغیر کسی طلب ِخیر کی دُعا اور توجہ اِلی اللہ فوراً ہی جواب دے دیا جائے، تو اس صورت کو استخارہ نہیں کہا جائے گا ! کیونکہ استخارہ اللہ سے اپنے حق میں بھلائی اورخیر کے مقدر کرنے کو مانگنے کا نام ہے ! اور یہاں اللہ سے مانگنا پایا ہی نہیں گیا تو اس کو استخارہ کیسے کہا جائے گا ! بلکہ اگر کوئی شخص اس عمل کے بعد یہ عقیدہ اوراعتقاد رکھے کہ میرے معاملہ میں انتخاب اورفیصلہ اللہ نے کیا ہے تویہ اِفْتِرَاء عَلَی اللّٰہْ (اللہ پر بہتان باندھنا )ہونے کی وجہ سے ناجائز اورحرام ہوگا ! چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں اہلِ عرب اللہ ربُ العزت سے خیر اوربھلائی مانگے بغیر اپنے آبائو اجداد کے متعین کردہ خیر وشر کے چند معیارات کی بنیاد پر اس معاملہ کا فیصلہ کرلیتے اور اس کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے کہ مجھے میرے رب نے یہ کرنے یانہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (حجة اللہ البا لغہ ج٢ ص١٩)
(٢) دوسری کیفیت یہ ہوسکتی ہے کہ جواب تو فوراً ہی دیا جاتاہو لیکن سائل کو کسی ایک متعینہ صورت کے منتخب کرنے کے متعلق جواب دینے سے قبل اللہ سے خیر اوربھلائی کی دُعا مانگ لی جاتی ہو، یہ صورت پہلی صورت کے مقابلہ میں کسی حد تک درست تو ہے لیکن اس میں دو طرح کی خرابیاں ہیں :
(الف) ایک تو یہ کہ آپ کے دل کا نفسانی دبائو سے بچتے ہوئے کسی ایک طرف مائل ہونا جواب دینے کے لیے ضروری ہے ! اور ایسا ہر دفعہ اورہرسوال کے جواب میں ہونا ضروری نہیں ہے،ورنہ تین دفعہ اورسات دفعہ استخارہ کی بات کیوں آتی؟جبکہ کوئی بھی معاملہ استخارہ کے بعد ایک ہی لمحہ میں حل ہو جاتا؟
(ب) دُوسری بات یہ ہے کہ یہ حضور ۖ کی تعلیمات اورآپ سے منقول استخارہ کے طریقہ کے مطابق نہیں ہے ! اس رواج کے عام ہونے کی وجہ سے ایک خرابی یہ بھی پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ بذاتِ خود استخارہ کرنے کے بجائے دوسروں سے استخارہ کروانے کو ہی شرعی طریقہ سمجھنے لگے ہیںجبکہ حضور ۖ کی تعلیمات اورصحابہ کرام کا معمول خود ضرورت مند شخص کے استخارہ کا تھا !
بہرحال مناسب اورمسنون عمل یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے ! اگر کوئی معاملہ بہت اہم ہو اور کسی پہلو پر میلان بھی نہ ہو رہا ہو یا نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو پھر ایسے لوگوں سے جو اُس معاملہ سے کسی نہ کسی حد تک متعلق ہوں اوراُن کی بزرگی وشرافت بھی مسلَّم ہو ،استخارہ کروایا جا سکتا ہے اوران حضرات کو بھی چاہیے کہ استخارہ اس طریقہ پر کریں جس کی آنحضرت ۖ نے اُمت کو تعلیم دی ہے
( بشکریہ ماہنامہ ندائے شاہی ، مراد باد اِنڈیا )
فضیلت کی راتیں قسط : ١
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
ض ض ض
موجودہ دور میںلوگ تقریبًا ہر چیز ہی میں افراط و تفریط کا شکار ہیں ! خواہ اُس چیز کا تعلق دین سے ہو یا دُنیا سے، عقائد سے ہو یا اعمال سے ،کچھ لوگ اُس کو بڑھا کر اُس کے اصل مرتبہ و مقام سے بھی آگے لے جاتے ہیں اور کچھ لوگ اُسے اُس کا جائز مقام دینے کوبھی تیار نہیں ہوتے ! ان ہی افراط و تفریط کاشکار چیزوں میں سے چند مخصوص راتیں بھی ہیں کچھ لوگ تو اِن راتوں کی فضیلت کا اس قدر زیادہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ سب کچھ اِن ہی کو سمجھ بیٹھے ہیں اور کچھ لوگ سر ے سے اِن کی فضیلت ہی کے منکر ہیں اور تحریرًاو تقریرًا اِن کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں، شریعت ِ مقدسہ میں افراط و تفریط سے ہٹ کر درمیانی راہ بتلائی گئی ہے اگر اُس پر چلا جائے تو منزل پر پہنچا جا سکتا ہے اور مقصود کو پایا جا سکتا ہے !
راقم الحروف سے بعض احباب نے اس بات کا تقاضا کیا کہ ایک رسالہ ترتیب دیا جائے جس میں ان راتوں کے متعلق افراط و تفریط سے بچتے ہوئے جو فضائل آئے ہیں اُن کا تذکرہ کیا جائے اور ان کے متعلق اسلاف کا جو عمل متوارث ہے اُسے بیان کیا جائے نیز جو لوگ ان کے متعلق افراط و تفریط کاشکار ہیں اُن کی غلط فہمیاں دُور کی جائیں، خود راقم کابھی عرصہ سے یہ خیال تھا احباب کے تقاضے سے اس کام کا مزید داعیہ پیدا ہوا چنانچہ اللہ کا نام لے کر یہ کام شروع کر دیا گیا ! اس میں ہمارا اسلوب یہ ہوگا کہ
٭ اوّلاً تو اِن راتوں کے متعلق قرآن و احادیثِ مبارکہ میں جو فضائل آئے ہیں وہ ذکر کیے جائیں گے
٭ ثانیًا اِن راتوں میں اسلاف کا معمول ذکر کر کے جو منکرات اِن میں کیے جاتے ہیں اُنکی تردید کی جائے گی
٭ ثالثًا منکرین کے شکوک و شبہات کاجواب دیا جائے گا وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیقْ
حقیقت میں اگر دیکھا جائے تواپنی جگہ ہر رات محترم اور فضیلت کی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ احادیث ِ مبارکہ میں رات کے قیام اوراُس میں دعا کرنے کی بڑی اہمیت بتلائی گئی ہے چنانچہ
٭ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا
یُحْشَرُالنَّاسُ فِیْ صَعِیْدٍ وَّاحِدٍ یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ فَیُنَادِیْ مُنَادٍ فَیَقُوْلُ اَیْنَ الَّذِیْنَ کَانَتْ ( تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ) فَیَقُوْمُوْنَ وَھُمْ قَلِیْل یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ثُمَّ یُؤْمَرُ بِسَائِرِالنَّاسِ اِلَی الْحِسَابِ ۔ ١
''قیامت کے دن سب لوگ (زندہ کیے جانے کے بعد) ایک وسیع اور ہموار میدان میں اکٹھے کیے جائیں گے پھر اللہ کا منادی پکارے گا کہ کہاں ہیں وہ بندے جن کے پہلو راتوں کوبستروں سے الگ رہتے تھے (یعنی اپنے بستر چھوڑ کر جو راتوں کو تہجد پڑھتے تھے) پس وہ اِس پکار پر کھڑے ہو جائیں گے اور اُن کی تعداد زیادہ نہ ہوگی پھر وہ اللہ کے حکم سے بغیر حساب وکتاب کے جنت میں چلے جائیں گے اس کے بعد باقی تمام لوگوں کے لیے حکم ہوگا کہ وہ حساب کے لیے حاضر ہوں '' ٭ حضرت عمرو بن عَبْسَہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا
اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَکُوْنَ مِمَّنْ یَّذْکُرُ اللّٰہَ فِیْ تِلْکَ السَّاعَةِ فَکُنْ۔ ٢
''اللہ تعالیٰ بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری درمیانی حصے میں ہوتے ہیں ! پس اگر تم سے ہو سکے تو تم اُن بندوں میں سے ہو جاؤ جو اِس مبارک وقت میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم اُن میں سے ہوجاؤ ''
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ ۖ کا ارشاد ہے
یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کُلَّ لَیْلَةٍ اِلَی السَّمَآئِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُ یَقُوْلُ مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیْبَ لَہ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَاُعْطِیَہ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرَ لَہ ۔ ٣
١ شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث ٢٩٧٤ ٢ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٣٥٧٩
٣ صحیح البخاری کتاب التھجد رقم الحدیث ١١٤٥
''ہمارے مالک اور رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اُس کی دعا قبول کروں ! کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اُس کو عطا کروں ! کون ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش چاہے میں اُس کو بخش دوں ! ''
ان حادیث ِ مبارکہ کی طرف نظر کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ہر رات ہی اہمیت کی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ بارگاہِ خداوندی کے حاضر باش اور لذتِ عبادت و مناجات سے آشنا شب زندہ دار لوگ بِلا تفریق تمام راتوں کو اپنی عبادات سے معمور رکھتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیے کہ مقصود ِ اصلی مالک کی رضا ہو اور وہ ہر رات اپنی رضا سے نوازنے کے لیے ندا کر وا رہا ہے کسی نے خوب کہا مَنْ لَّمْ یَعْرِفْ قَدْرَ لَیْلَةٍ لَمْ یَعْرِفْ لَیْلَةَ الْقَدْرِ جس نے ''رات'' کی قدر نہ جانی اُسے'' لَیْلَةَ الْقَدْرِ'' کی کیا قدر معلوم ہوگی ! ! !
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمةاللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
بوستان میں حکایت ہے کہ کسی شہزادہ کا ایک ''لعل'' شب کے وقت کسی جگہ گر گیا تھا اُس نے حکم دیا کہ اُس مقام کی تمام کنکریاں اُٹھا کر جمع کریں اِس کا سبب پوچھا تو کہا کہ اگر کنکریاں چھانٹ کر جمع کی جاتیں تو ممکن تھا کہ ''لعل'' اُن میں نہ آتا اور جب ساری کنکریاں اُٹھائی گئی ہیں تو لعل ضرور آگیا ہے، کسی نے اِسی جملہ کا ترجمہ خوب کیا ہے
اے خواجہ چہ پرسی ز شب ِقدر نشانی

ہر شب شب ِ قدر ست گر قدر بدانی ١
تا ہم اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ذوقِ عبادت اور لذتِ مناجات سے نا آشنا اور کوتاہ ہمت ہیں ایسے لوگوں کے لیے غنیمت ہے کہ وہ چند مخصوص راتوں ہی میں صحیح طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اُسے راضی کرلیں ! اسی جذبے کے تحت مخصوص راتوں کے فضائل قلم بند کیے جارہے ہیں اللہ تعالیٰ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین !
١ فضائل صوم و صلٰوة ص ٣٧٩
وہ چند مخصوص راتیں جن کی فضیلت قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہے درجِ ذیل ہیں
(١) شب ِ معراج (٤) ذی الحجہ کی ابتدا ئی دس راتیں
(٢) شب ِ براء ت (٥) عید الفطر اور عید الاضحی کی راتیں
(٣) شب ِقدر (٦) شب ِ جمعہ
شب ِ معراج :
مشہور قول کے مطابق بعثت ِ نبوی کے گیارہویں سال رجب المرجب کی ستائیسویں شب آنحضرت ۖ کے ساتھ واقعہ معراج پیش آیا جس کی تفصیل احادیث و سیر کی کتابوں میں مذکور ہے، اس شب آنحضرت ۖ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تشریف لے گئے وہاں آپ نے تمام انبیائِ کرام کی نماز میں امامت فرمائی پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں اور جنت و جہنم کی سیر کرتے ہوئے آپ بارگاہِ الٰہی میں تشریف لے گئے اور زیارتِ خداوندی نیز ذاتِ باری تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کیا ! اسی موقع پر آپ کو دن و رات میں پانچ نمازیں ادا کرنے کا حکم ہوا آپ بارگاہِ الٰہی سے یہ عطیہ اُمت کے پاس لائے، اس لحاظ سے یہ شب انتہائی افضل و مبارک شب ہوئی ! لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ افضلیت و شرف صرف اُسی ایک شب کو حاصل ہوا جس میں واقعہ معراج پیش آیا تھا نہ کہ ہر سال کے رجب کی ستائیسویں شب کو،لہٰذا ہر سال کے رجب کی ستائیسویں شب کو افضل سمجھنا صحیح نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صحیح یا حسن یااَقل درجہ کی ضعیف حدیث میں رجب کی ستائیسویں شب کی فضیلت یا اُس کے متعلق کوئی خاص عمل نہیں آیا ١ نہ ہی اسلاف سے اِس شب میں کوئی خاص عمل متوارث ہے اس لیے چاہیے تو یہ کہ اپنی طرف سے اس شب میں کسی بھی قسم کا کوئی خاص عمل نہ اپنا یا جائے لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت سے لوگ اس شب کی فضیلت کا اعتقاد
١ رجب المرجب کی ستائیسویں شب کے متعلق جو اَحادیث آئی ہیں اُن روایات کی جانچ پر کھ علامہ ابن حجر عسقلانی نے '' تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب'' میں اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے ''ماثبت بالسنة '' میں کی ہے اہلِ علم حضرات وہاں ملا حظہ فرمائیں ۔
رکھتے ہوئے خاص قسم کے اعمال کرتے ہیں، ذیل میں اُن اعمال کو ذکر کر کے اُن کا مختصر تجزیہ پیش کیا جاتا ہے
رجبی کا بیان :
حضرت مولانا مفتی سیّد عبد الکریم گمتھلوی خلیفہ مجاز حضرت تھانوی رحمہما اللہ تحریر فرماتے ہیں :
''رجب کی ستائیسویں رات کو معراج شریف کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور دھوم دھام سے جلسے ہوتے ہیں جن میں فضول خرچی اور بے جا زینت اور ضرورت سے کہیں بڑھ کر روشنی وغیرہ ہوتی ہے، شریعت میں اِس ہئیت ِ متعارفہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ فضول خرچی وغیرہ کی صاف طور پر ممانعت اور سخت مذمت وارد ہوئی ہے اور اگر کوئی مجمع اِن خرافات سے پورا پر ہیز رکھ کر کیا جاوے تب بھی کم از کم دن کی تعین کا تو گناہ ہے ہی کیونکہ اس تذکرہ کے واسطے شریعت نے کوئی دن معین نہیں فرمایا !
دوسرے قاعدہ ہے کہ اگر کسی غیر ضروری فعل سے دوسرے لوگوں کے عقائد بگڑنے کا اندیشہ ہو تو اُس فعل کوبالکل ترک کردیا جائے گا ! اس واسطے ترکِ منکرات کے باوجود بھی ایسی مجلسوں کی اجازت نہیں ہو سکتی جیسا کہ ہم ربیع الاوّل کے بیان میں مفصل لکھ چکے ہیں ! اور بعض لوگ جو کہہ دیا کرتے ہیں کہ فضیلت کے ایام کا دھیان نہیں رہتا اور نہ فضیلت ذہن نشین ہوتی ہے جب تک کہ موقع پر اِس کی تفصیل نہ کی جاوے اِس واسطے جن دنوں میں کوئی فضیلت ہو اُن کا بیان خاص خاص موقعوں پر مفصل سنانے کی ضرورت ہے تاکہ بے خبر لوگوں کو پتہ لگ جائے اور جو پیشتر سے واقف ہیں اُن کو یاد دہانی ہو جاوے !
سو اِس کا ایک جواب تو وہی ہے جو ابھی مذکور ہوا یعنی اگر اِس یادہانی سے کسی خرابی کا اندیشہ نہ ہوتا اور کوئی اَمرِ منکر بھی شامل نہ ہوتا تو اِس میں فی نفسہ مضائقہ نہ تھا لیکن جب خرابی ٔ عقائد کی نوبت آگئی تو منع کرنا لازم ہے !
دوسرا جواب یہ ہے کہ یاد دہانی کے واسطے نہ کسی دن کو خاص کرنے کی ضرورت نہ کسی ہئیت ِ خاصہ کی حاجت ہے نہ اہتمام ِ مجمع کی، جب موقع ہو اہلِ علم اپنے طور پر وعظ وغیرہ میں ذکر کردیں جیسا کہ شب ِ قدر وغیرہ کے متعلق معمول ہے !
غرض یہ کہ ذکرمعراج شریف تو باعث ِ ثواب ہے اور اِس سے حضور ۖ کی عظمت اور محبت بڑھتی ہے اور واقعہ معراج سے جو احکام معلوم ہوتے ہیں اور اُس میں جوجو حکمتیں ہیں اگر اُن کا بیان بھی کیا جاوے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے لیکن اس کے واسطے خاص ماہِ رجب کی تخصیص کرنا بلکہ ستائیسویں شب کو لازم قرار دینا حدودِ شرعیہ سے تجاوز اور بد عت ہے وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة وَّکُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ اور اگر اس میں ریائ، تفاخر، اسراف وغیرہ شامل ہوجائیں تو '' کر یلا اور نیم چڑھا '' کا مصداق بن جاتا ہے ،خوب سمجھ لو حق تعالیٰ فہمِ سلیم اور اتباعِ سنت کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین '' (بارہ مہینوں کے فضائل و احکام ص ٢٧،٢٨)
ہزاری روزے کا بیان :
عام لوگ رجب کی ستائیسویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا ثواب ایک ہزار روزے کے برابر سمجھتے ہیں اسی واسطے اِس کو ہزاری روزہ کہتے ہیںمگر یہ فضیلت ثابت نہیں کیونکہ اکثر روایات تواِس بارے میں موضوع ہیں اور بعض جو موضوع نہیں وہ بھی بہت ضعیف ہیں اس لیے اِس روزہ کے متعلق سنت ہونے کااعتقاد نہ رکھا جائے ! حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ایسا ہواکہ بعض لوگ ستائیس رجب کو روزہ رکھنے لگے جب آپ کو اِس کا علم ہواتو آپ نے اُن سے زبر دستی روزے کھلوائے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ
عَنْ خَرْشَةَ بْنِ الْحُرِّ قَالَ رَاَیْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَضْرِبُ اَکُفَّ الرِّجَالٍ فِیْ صَوْمِ رَجَبٍ حَتّٰی یَضَعُوْھَا فِی الطَّعَامِ وَ یَقُوْلُ رَجَبْ وَمَا رَجَبْ ؟ شَھْر یُعَظِّمُہُ الْجَاھِلِیَّةُ فَلَمَّاجَآئَ الْاِسْلاَمُ تُرِکَ۔ ١
١ رواہ ابن ابی شیبة و الطبرانی فی الاوسط بحوالہ ماثبت بالسنة ص ٣٤٠
''حضرت خرشہ بن حُررحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ وہ رجب کے روزہ داروں کو پکڑ کر کھانا کھلاتے تھے اور فرماتے تھے یہ رجب، یہ رجب کیا چیز ہے ؟ سنو ! رجب وہ مہینہ ہے جسے ایامِ جاہلیت میں معظم مانا جاتا تھا لیکن اسلام نے آکر اِس کو ترک کردیا ''
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اِس قول و عمل کی موجودگی میں بہتریہی ہے کہ ستائیسویں رجب کو روزہ نہ رکھا جائے کیونکہ اگر اس کی فضیلت ثابت ہوتی یایہ مسنون ہوتا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس سے منع نہ فرماتے بلکہ خود رکھتے اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے ! ! !
رجب کی ستائیسویں شب میں چراغاں کر نا :
بہت سے لوگ رجب کی ستائیسویں شب کو چراغاں کرتے ہیں چنانچہ کچھ تو چھتوں پر موم بتیاں جلاتے ہیں اور کچھ بجلی کی چھوٹی بتیاں روشن کرتے ہیں اس کام میں جہاں اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے وہیں عقائد بھی خراب ہوتے ہیں !
ایک خاتون سے میں نے پوچھا کہ خالہ آپ یہ موم بتیاں کیوں جلاتی ہیں ؟ وہ بولیں کہ ''اس رات ہمارے نبی کی سواری گزرتی ہے'' ! ! غور کا مقام ہے کہ لوگوں کے عقائد و اعمال میں کہاں تک خرابی آچکی ہے ! ہمیں چاہیے کہ ہم تمام ایسے کام چھوڑ دیں جو شریعت سے ثابت نہیں کیونکہ ایسے کام کرنے سے ثواب ملنا تو بہت دُور رہا اُلٹا گناہ ہوتا ہے ! ! !
تنبیہ :
یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ہم لوگوں نے تو قطعی اور یقینی طور پر رجب کی ستائیسویں شب ہی کو شب ِ معراج تصور کر رکھا ہے حالانکہ شب ِ معراج کے مہینہ کی تعیین میں علماء کے پانچ اقوال ملتے ہیں :
(١) بعض کے نزدیک شب معراج ربیع الاوّل میں ہوئی ہے (٢) بعض کے نزدیک ربیع الثانی میں ہوئی ہے (٣) بعض کے نزدیک رجب میں ہوئی ہے(٤) بعض کے نزدیک رمضان المبارک میں ہوئی ہے (٥) بعض کے نزدیک شوال میں ہوئی ہے چنانچہ علامہ سیّد محمد زرقانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :
( وَلَمَّا کَانَ فِیْ شَھْرِ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ) اَواِلْاٰخِرِ اَوْ رَجَبٍ اَوْ رَمَضَانَ اَوْ شَوَّالٍ اَقْوَال خَمْسَة ۔ ( اُسْرِیَ بِرُوْحِہ وَجَسَدِہ یَقْظَةً ) ١
''جب ربیع الاوّل کا مہینہ ہوا،یا ربیع الآخر کا، یا رجب کا، یا رمضان کا،یا شوال کا اس سلسلہ میں یہ پانچ اقوال ہیںتو آپ کو رُوح مع الجسم بیداری کی حالت میں معراج کرائی گئی''
ایسی صورت میں قطعی و یقینی طور پر یہ سمجھ لینا کہ شب ِ معراج رجب المرجب کی ستائیسویں شب ہی ہے انتہائی غلط ہے ! اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ واقعہ معراج مشہور قول کے مطابق بعثت کے گیارہویں سال پیش آیا ہے اس کے بعد آنحضرت ۖ تقریبًا بارہ سال حیات رہے ہیں ،کیا آپ نے اِن بارہ سالوں میں اِس شب میں کوئی خاص عمل کیا ہے یا لوگوں کو ترغیب دی ہے ؟ ؟ !
احادیث وسیر کی کتابوں پر نظر ڈالیے آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ سب کتب اِس سلسلہ میں خاموش ہیں ! اسی طرح صحابہ کرام کے سو سالہ دور پر نظر ڈالیے وہاں بھی اس شب کے متعلق کچھ نظر نہیں آتا ! آگے تابعین و تبع تابعین کا دور بھی اس سے خالی نظر آتا ہے ! ! !
الغرض قصہ مختصر یہ ہے کہ چونکہ اِس شب کی بابت احادیث ِ مبارکہ میں نہ کوئی خاص نماز آئی اور نہ روزہ رکھنا اور چراغاں کرنا اس لیے ہمیں اس شب کی فضیلت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اِن اُمور کی انجام دہی سے گریز کرنا چاہیے اور سلف ِ صالحین کے طریقہ کو اپنا نا چاہیے کہ اسی میں فلاح اور نجات ہے۔ (جاری ہے)



١ الزرقانی شرح المواہب اللدنیة ج ١ ص ٣٥٥
اتحاد و اِتفاق کی برکات
اتفاق اور اتحاد کی اہمیت و سود مندی پوری دنیا کے نزدیک مسلَّم ہے ! اسلام جو دین ِ فطرت ہے اس نے اتفاق پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور اس درجہ زور دیا جس کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب اور کتاب میں نہیں مل سکتی ! نہ صرف زور دیا بلکہ اس کے خلاف تمام محرکات وعوامل سے بھی روک دیا اور ایسی صورتیں پیدا کیں کہ جمعیت ِمسلمین کبھی انتشار سے ہمکنار نہ ہوسکے ! اسے مذہبی معاملہ اور اساسِ دین کی حیثیت عطا کی اور اس کے خلاف اقدام کو گناہ بتایا ! حکم دیا جارہا ہے :
( وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوُا ) ١
''تم سب مل کر اللہ کی رسی مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اور باہم تفرق پیدا نہ ہونے دو''
قرآنِ کریم کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ وہ جو حکم دیتا ہے اُس کی علت بھی بیان کردیتا ہے
( وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ) ٢
''مسلمانو ! باہم متحد رہو، باہم جھگڑے پیدا نہ کرو ورنہ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کمزور اور بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی''
اس سے زیادہ خوبی اور حقیقت طرازی کے ساتھ اتحاد کی سود مندی پر اور کیا کہا جاسکتا تھا ! کہا ہے اور وہ کہا ہے جس کے مظاہر ساری دنیا کے سامنے ہیں اور جن کی صداقتوں سے دنیا کا کوئی انسان بھی جرأتِ انکار نہیں کر سکتا ! کون نہیں جانتا کہ کسی قسم کی کمزوری اُس کا اِفتراق ہے اور اس کی طاقت اس کا اتحاد ہے ! اور جب کسی قوم میں اِفتراق اور تشدد پیدا ہوتا ہے تو اُس کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے ، بھرم کھل جاتا ہے اور ہمتیں پست ہوجاتی ہیں ! ! ! صحابہ کرام سے فرمایا گیا :
( وَلَا تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللّٰہِ عَلَیْکُمُ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَانًا وَّ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ الناَّرِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَا ) ٣
١ سُورہ آلِ عمران : ١٠٣ ٢ سُورة الانفال : ٤٦ ٣ سُورہ آلِ عمران : ١٠٣
''باہم تفرق اور پھوٹ پیدا نہ کرو اور اللہ کے اُس احسان کو یاد کرو کہ اسلام لانے سے پیشتر تمہاری حالت کتنی بدتر تھی، تمہارے اندر کتنا افتراق پھیلا ہوا تھا ،تم پر شدید باہمی عداوتیں مسلط تھیں ! خدا نے تم پر بڑا فضل کیا تمہارے دلوں میں محبت پیدا کردی اور تم باہمی عداوتیں بھول کر بھائی بھائی بن گئے حالانکہ تمہاری یہ حالت تھی کہ گویا تم آگ کے کنارے کھڑے ہوئے تھے، خدا ہی نے تمہیں اس میں گرنے سے بچا لیا''
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ( وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِّیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا) ١
''مسلمانو ! دیکھو کہیں تم بھی اُن قوموں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے ہماری ہدایت کے باوجود باہم نفرت اور جھگڑے پیدا کیے''
نا اتفاقی وہ بری چیز ہے کہ یہی نہیں کہ دُنیا میں اس کی وجہ سے تباہی آئے گی بلکہ قیامت میں بھی اس پر عذاب دیا جائے گا ! افسوس مسلمان خود کو بالکل بھول چکے ہیں ان کے لیے اپنوں کی اطاعت ننگ وعارہے اور غیرں کی اطاعت کو طرۂ افتخار سمجھتے ہیں ! نا اتفاقی کا یہ عالم ہے کہ قوم میں افتراق، خاندانوں میں افتراق، گھر میں افتراق، ہر شخص اپنی کہتا اور اپنی چاہتا ہے ! بیٹا باپ کی نہیں سنتا، بیوی شوہر کی نہیں مانتی، قوم لیڈر کی نہیں مانتی ! اگر قوم کا لیڈر آواز بلند کرتا ہے اپنی قوم کے لیے تو خود قوم ہی میں اُس کا مضحکہ اُڑانے کو تیار ہوجاتے ہیں ! ! ! حضور نبی کریم ۖ نے مسلمانوں کو پہلے ہی روز بتادیا تھا کہ تم میں سے ہرگز اُس وقت تک کوئی مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے ! کامل مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ! اللہ تعالیٰ اُسی بندے کی مدد کرے گا قرآنِ حکیم نے زور دیا ہے کہ خدا کی رسی مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو !
١ سُورہ آلِ عمران : ١٠٥
لیکن یہاں کیا ہورہا ہے ؟ ایک دوسرے کی آبرو کے درپے ہے ! ہر شخص اپنی غرض اور اپنے ہی مفاد کا بندہ بنا ہوا ہے ! بدگوئی اور تحقیر مسلم عام ہے ! کتنی جماعتیں بنی ہوئی ہیں پھر ان تمام جماعتوں میں بھی باہم افتراق ہے ! ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی پگڑی اُچھالنے کے لیے تہیہ کیے ہوئے ہے کسی کو خدا کا خوف نہیں (کسی ہندو جلسہ میں کسی ہندو لیڈر کی تحقیر نہ کی جائے گی، لیکن مسلم جرائد میں غیر ممکن ہے کہ کسی لیڈر کے خلاف زہر چکانی نہ ہو ! یہاں جب کوئی جلسہ ہوگا تو پہلے کسی مسلم لیڈر کے خلاف برسیں گے) ! ! !
کبھی مسلمان کی شان (اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ ) تھی لیکن اب تو ہم کیا ، دنیا دیکھ رہی ہے کہ بالخصوص مسلمان رُحَمَآئُ عَلَی الْکُفَّارِ وَاَشِدَّآئُ بَیْنَھُمْ بن کر رہ گئے ہیں ! یاد رکھیے زمانہ بے حد نازک ہے حالات بڑی نزاکت اختیار کر چکے ہیں !
اُخوتِ مسلمین کا شاندار نظام :
قرآنِ کے نزول سے پیشر انسانیت صد ہزار مصائب میں مبتلا تھی اور رنگ و نسل، خاندان ودولت کے بے شمار اِختلافات موجود تھے ! قرآنِ حکیم نے بالکل نئی اور جدید قوم پیدا کی جس کی بنیادیں توحید و رسالت کی اساس پر اُستوار کیں اور اس کا کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہْ قرار دیا ! اس اسلامی قومیت میں ہر قوم اور ہر مذہب کا آدمی شامل ہوسکتا ہے اس کے اندر بہت سی خوبیاں اور دلفریبیاں ہیں ! اس پوری قوم کا ایک خدا ، ایک رسول ، ایک کلمہ اور ایک ہی کعبہ ہے ! اس میں شامل شاہ و گداء ، آقا وغلام ، حاکم ومحکوم سب بھائی بھائی بن جاتے ہیں، باہم شادیاں ہوسکتی ہیں، ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو کا تحفظ فرض اور اُس پر حملہ حرام ہے ! اور اقوام کی طرح اس میں رنگ و نسل اور دولت کے مدراج کے اعتبار سے کسی کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہوتا ! یہاں امتیار ہوتا ہے تو وہ عمل واِتقاء کا امتیاز ہوتا ہے جو جس درجہ متقی ہوتا ہے اُسی قدر اُس کی عزت ہوتی ہے ( اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ)اس میں شامل ہوکر غلام بھی آقائی و اِمامت کر سکتے ہیں اور تخت ِ شاہی تک پہنچ سکتے ہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ ایک حبشی زادہ نے زندگی غلامی کی آغوش میں بسر کی ! اسلام میں بھی کوئی دولت پاس نہ تھی، اولاد بھی زیادہ نہ تھی، عام طور سے ایک بہت معمولی انسان تھے، کسی قبیلہ اور خاندان کی پشت پناہی بھی حاصل نہ تھی، اس کے باوجود عمل واِتقاء کی وجہ سے یہ عالم تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی اور عظیم الصولت خلیفہ اِنہیں آقا کہہ کر پکارتے رہے ! تمام مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا بنے رہے ! ! !
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بھی غلام تھے، رُومی تھے، غریب آدمی تھے، لوہاری پیشہ تھا ، کوئی عزت نہ تھی، اسلامی برادری میں شامل کیا ہوئے دُنیا بدل گئی ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوتے ہیں ،بڑے بڑے صحابہ موجود ہیں لیکن مسلمانوں کی امامت کے لیے نامزد ہوتے ہیں، کون ؟ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ !
بعد کی صدیوں میں اسلامی غلاموں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں اور نہایت طن طنہ و دینداری کے ساتھ فرمانروائی کی ! چونکہ دین ِاسلام میں ہر طبقہ اور ہر پیشہ ودرجہ کے انسان شامل ہوسکتے تھے، شرافت وذلت کی کوئی پابندی نہ تھی ! اس لیے کسی کے حسب پر طعن، کسی کے پیشہ پر تشنیع اور کسی کی تحقیر حرام قرار دی گئی ! یہ ضرور ہے کہ اُونچے اور بلند خاندانوں میں نمایاں طور پر شریفانہ خصائل فطری ہوتے ہیں اور ادنیٰ خاندانوں کے افراد میں خاندانی کمزوریاں پائی جاتی ہیں ! یہ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں ہوسکتا ! لیکن اسلامی قومیت کے تو اُصول ہی نرالے ہیں اس میں شامل ہوکر اِنسان اپنی مرضی، اپنے طریق اور اپنی رسوم کا تو پابند ہی نہ تھا یہاں تو قرآن کو اپنا دستورالعمل بنانا پڑتا تھا، ہر قدم قرآن کی روشنی میں اُٹھانا پڑتا تھا، اس طرح خاندانی رذائل کسی میں باقی ہی نہ رہتے تھے ! ! !
ادنیٰ خاندانوں میں بالعموم تنگدلی، بد تمیزی اور سفلہ پن پایا جاتا ہے ! گالیاں بکتے ہیں، زبان ٹھیک نہیں ہوتی، صفائی کا کوئی معیار نہیں ہوتا، گفتگو کے آداب نہیں جانتے، نشست وبرخاست کے آئین سے ناواقف ہوتے ہیں، مروّت نہیں پائی جاتی ! ''اسلام'' عیسائیت، ہندو ئیت اور دیگر مذاہب کی طرح چند اصول وعقائد کا مجموعہ تو ہے نہیں، قرآن تو پورا ضابطہ ٔ حیات ہے، اگرچہ یہ مختصر اور اصولی کتاب ہے مگر انتہائی حدتک جامع ہے اس میں سب و شتم اور گالی گلوچ حرام ہے ! ! !
گفتگو کے آداب بھی بتادیے گئے ( قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا) (قُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ) ( قَوْلًا کَرِیْمًا) نشست وبرخاست کے طریقے بھی یہی ہیں، تنگدلی اور بخل حرام ہے، صفائی اور پاکیزگی فرض ہے ! قرآن پر جو مسلمان بھی عمل کرے وہ کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو، انتہائی مہذب بن سکتا ہے اس لیے کہ یہاں محاسن وآداب کی ترغیب اور حکم کے ساتھ ہی ان سے غفلت برتنے اور بد تمیزی سے کام لینے پر سخت سے سخت عذاب کی وعید موجود ہے !
اور آج مسلمانوں میں خدا کا خوف باقی نہیں رہا اس لیے ادنیٰ خاندانوں میں خاندانی عیوب باقی رہ جاتے ہیں اور ادنیٰ تو ادنیٰ اب تو بڑے خاندان بھی اس سے نہیں بچے ! اسلاف خدا کے خوف سے لرزتے رہتے تھے ! قرآن پر پورا عمل کرتے تھے اس لیے ان میں رذائل باقی نہیں رہتے تھے ! عربوں میں غلاموں سے بدتر اور کون سی مخلوق تھی اور غلاموں ہی پر کیا موقوف تھا، خود عرب کے بڑے بڑے خاندان بھی رذائل میں لتھڑے ہوئے تھے ! حضرت بلال ،حضرت صہیب اور حضرت عمار غلام تھے، اصحابِ صفہ میں بھی انتہائی مفلس اور ادنیٰ درجہ کے افراد شامل تھے لیکن جب اسلامی برادری میں شامل ہوئے اور قرآن پر جو عمل کیا تو فرشتے بن گئے ! ! !
آج تمام صحابہ کرام کی سیرتیں موجود ہیں، انہیں پڑھیے، عہد ِ حاضر کا کوئی مہذب سے مہذب انسان بھی ان کے اخلاق کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا ! جو سیر چشمی ،مروّت ،پابندی ٔ عہد ، وضعداری، شرافتیں اور خوبیاں ان میں موجود تھیں جو دَر د و تقدس ان کے اندر موجود تھا وہ کسی اور میں کہاں ؟ قرآنِ حکیم آج بھی موجود ہے، جب اور جو اِس پر عمل کرے گا فائدے میں رہے گا ! ! !
مصالحت ِمسلمین اور قرآن :
یہ قومیت آج تک قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گی ! قرآنِ پاک نے بتایا تھا
( اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَة فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ) ''مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں ! اگر اتفاق سے ان میں کوئی جھگڑا پیدا ہوجائے تو صلح کرادیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاتے رہو''
افسوس یہ ہے کہ اس دیس میں پہنچ کر مسلمان برادرانہ محبت ہی سے بیگانہ ہوگئے ! آج بھائی بھائی کہنے اور بتانے میں کوئی خاص کشش باقی نہیں رہی کہ مسلم بھائیوں میں اتفاق کم ہی نظر آتا ہے ! ! عرب جاہل تھے، بد اعمال تھے، سب کچھ تھے مگر اُن کے نزدیک جو بھائی تھا وہ کوئی نہ تھا ! حقیقی بھائی تو ایک طرف رشتہ کے بھائیوں کو بھی انتہائی اہمیت دی جاتی تھی اور ایک بھائی دوسرے بھائی کے لیے ہمہ وقت کٹنے اور مرنے اور قربان ہونے کو تیار رہتا تھا اور اس سے عاشقانہ محبت رکھتا تھا ! کتنے ہی برے تھے مگر بھائیوں کو سب سے افضل سمجھتے تھے، سگے اور سوتیلے کی بھی عرب میں کوئی تخصیص نہ تھی کیونکہ یہ رشتہ اصولاً ہی بہت اہم ہے اور عربوں میں اسے بے حد اہمیت حاصل تھی، اس لیے قرآن نے انہیں بتایا کہ بھائی وہی نہیں جو باپ کے صلب یا ماں کے بطن سے ہو، تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور جو محبت وقربانی تم ایک حقیقی بھائی کے ساتھ کرتے ہو وہی ہر مسلمان کے ساتھ روا رکھو ! اور وہی حقوق سمجھو اور ان میں کوئی جھگڑا کبھی پیدا ہوجائے تو سب مل کر صلح کرادیا کرو ! اس لیے کہ بھائی قوت ِ بازو ہیں اور ان کی لڑائی اپنی لڑائی اور اُن کی کمزوری اپنی کمزوری ہے اور اسلامی ضعف ہے ! ! آیت کا اگلا ٹکڑا ( وَاتَّقُوا اللّٰہَ ) واضح کر رہا ہے کہ اِس معاملہ میں خدا سے ڈرتے رہو ! اگر ایسا نہ کروگے تو عتاب ِایزدی کا شکار ہو جاؤگے ، اگر صلح کرا دو گے جھگڑا مٹادو گے تو تمہیں سب کو فلاح حاصل ہوگی ! کیونکہ اس طرح مسلمانوں میں افتراق کی لعنت پھیلنے نہ پائے گی ! ! !
انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ آج صلح کرانے کا دستور ہی اُٹھ گیا ہے عداوتیں عام ہوگئی ہیں مسلمانوں میں باہم صلح کرادینا تو در کنار ، دو بھائیوں اور دو خاندانوں میں بھی کوئی مصلحت کی سعی نہیں کراتا ! مزید افسوس اس امر کا ہے کہ ضعف ِ ایمانی کی بدولت مسلمانوں کو صلح کرانے کا احساس تک نہیں ہوتا، کوئی پروا بھی نہیں کرتا ! لڑنے والوں کی کدورت بڑھانے اور جلتی آگ پر تیل ڈالنے والے تو بہت ہیں اور ہزاروں مل جائیں گے، صلح کرانے والا کوئی نہ ہوگا !
غیر مسلموں میں اسلام کی یہ خُو موجود ہے ! اُن لوگوں میں اتفاق ہے، بھائی بھائی مل کر ہزاروں لاکھوں کا کار وبار کر رہے ہیں اور کبھی ان میں نفاق پیدا نہیں ہوتا ! خاندان کا خاندان مل کر رہتا ہے، ان کے بھائیوں اور خاندانوں میں افتراق بھی پیدا ہوتا ہے تو لوگ درمیان میں پڑ کر صلح کرادیتے ہیں ! اور وہ یہ گوارا نہیں کرتے کہ دو بھائی یا دو خاندان لڑتے رہیں ،مسلمان تو اسلامی تعلیم کو ترک کرتے جارہے ہیں اور اغیار قرآنی تعلیم پر عامل ہیں ! باہمی محبت، باہمی تعاون، برادر نوازی، اتفاق اور تجارت کا شوق جو اِسلامی چیزیں تھیں سب اَغیار میں موجود ہیں اور وہ ان ہی پر کابند ہوکر ترقی کر رہے ہیں اور عیشِ حیات اُٹھا رہے ہیں اور مسلمان انہیں چھوڑ کر ذلیل و خوار ہورہے ہیں ! وہ جب تک قرآن پر عمل شروع نہ کریں گے ،کبھی ترقی نہ کر سکیں گے ۔ (مطبوعہ ماہنامہ انوار مدینہ نومبر ١٩٩٢ئ)

بقیہ : رحمن کے خاص بندے
٭ اور مصنف بن اَبی شیبہ میں مغیث بن سمی سے موقوفًا روایت ہے کہ ''جب جہنمی کوجہنم میں داخل کیا جائے گا تو اُس سے کہا جائے گا کہ ''ٹھہرو ! ابھی تمہیں ایک تحفہ دیا جائے گا پھر اس کے سامنے زہریلے سانپوں کے زہر پر مشتمل ایک مشروب لایا جائے گا جس کے زہر کی شدت اس قدر زیادہ ہوگی کہ اُس کومنہ سے قریب کرتے ہی اس کا گوشت اور ہڈیاں تتر بتر ہوجائیں گی'' ١
اس لیے ہمیں اللہ کے عذاب سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے اور ہمیشہ اس کی فکر رہنی چاہیے کہ ہم اپنی بدعملی کی وجہ سے خدا نخواستہ مستحق ِعذاب نہ ہوجائیں ! اللہ تعالیٰ ہر اُمتی کو اپنے عذاب سے محفوظ رکھیں اور دنیا وآخرت میں عافیت سے مالا مال فرمائیں، آمین ! (جاری ہے)
١ مصنف ابن ابی شیبة کتاب ذکر النار رقم الحدیث ٣٤١١٢
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی دیوبندی کی سند ِحدیث
اہمیت اور تحقیق
( مولانا محمد معاذ صاحب لاہوری، فاضل جامعہ مدنیہ لاہور )
ض ض ض
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی دیوبندی رحمة اللہ علیہ دارُالعلوم دیوبند کے اوّلین مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ اُستاذ الحدیث ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے، جو حضرات سند ِ حدیث بیان کرنے کے دیوبندی مزاج سے واقف ہیں وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ سند ِحدیث بیان کرتے ہوئے مشائخ ِدیوبند اور فضلائِ دیوبند کا یہ معمول رہا ہے کہ جب ان سے دورۂ حدیث کے اساتذہ کی تفصیل پوچھی جاتی ہے تو جواب میں صرف صدر مدرس کا نام لیا جاتا ہے کہ حضرت شیخ الہند کے شاگرد ہیں، علامہ کشمیری کے شاگرد ہیں یا حضرت مدنی کے شاگرد ہیں۔ اس جملے کا مطلب اکثر حضرات یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دیوبند میں صدر مدرس تمام کتب حدیث پڑھاتے تھے حالانکہ دارُالعلوم دیوبند میں یہ صورت تو پیش آئی کہ صدر مدرس کے پاس دورۂ حدیث کی تین یا چار کتب ہوں لیکن تمام کتب ایک ہی اُستاذ کے پاس ہوں یہ خلاف واقعہ ہے۔
اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے دارُالعلوم دیوبند میں ایک دو سال نہیں بلکہ قریباً پچیس سال حدیث شریف پڑھائی ہے آپ کے زیرِ درس کتب ِحدیث میں سنن نسائی، موطا امام مالک، موطا امام محمد، شرح معانی الآثار طحاوی اور مشکو ةالمصابیح کا نام کثرت سے ملتا ہے جبکہ ایک سال سنن ابی داود پڑھانے کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت مفتی صاحب کے زیرِ درس کتب ِحدیث اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں کہ آپ کی زندگی اور بعد کے اَدوار میں بھی ان کتابوں کی دیوبندی سندوں میں مدارُ الاسناد آپ ہی ہیں ! ذیل میں ہم اپنی معلومات کی حد تک مندرجہ بالا کتب کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کب تک یہ کتب براہِ راست حضرت مفتی صاحب کے زیرِ درس رہیں اس کے علاوہ اُن مشہور فضلاء کے نام بھی درج کیے جاتے ہیں جنہوں نے دیوبند ہی میں حضرت مفتی صاحب کی سند سے یہ کتب پڑھائیں
سُنن نسائی :
ایک محتاط اندازے کے مطابق حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب نے سنن نسائی درج ذیل سالوں میں پڑھائی : ١٣٢٣، ١٣٢٥ ، ١٣٢٧ ، ١٣٢٨ ، ١٣٢٩ ، ١٣٣٠ ہجری اس سے آگے عموماً اُن حضرات نے سنن ِنسائی پڑھائی جو حضرت مفتی صاحب کے شاگرد ہیں، ذیل میں ان سالوں کی تفصیل پیش خدمت ہے جن میں مفتی صاحب کے تلامذہ نے سنن نسائی پڑھائی :
٭ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی : سن ِفراغت : ١٣٢٥ھ
١٣٣٧، ١٣٣٨ اور ١٣٣٩ ہجری میں سنن ِنسائی پڑھائی !
٭ حضرت مولانا محمد رسول خان صاحب ہزاروی : سن ِفراغت : ١٣٢٣ھ
١٣٤٣ ،١٣٥١، ١٣٥٢ اور ١٣٥٣ ہجری میں سنن ِنسائی پڑھائی !
٭ حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی : سن ِفراغت : ١٣٢٧ھ
١٣٤٨ اور ١٣٤٩ ہجری میں سنن نسائی پڑھائی !
٭ حضرت مولانا مفتی ریاض الدین صاحب بجنوری : سن ِفراغت : ١٣٣٠ھ
١٣٥٤ ھ سے ١٣٦٠ ھ تک مسلسل جبکہ ١٣٦١ ھ کے ماسوا ١٣٦٢ھ میں بھی سنن ِنسائی پڑھائی !
٭ حضرت مولانا عبدالشکور صاحب دیوبندی عثمانی : سن ِفراغت : ١٣٢٩ھ
١٣٦٣ اور ١٣٦٤ ہجری میں سنن نسائی پڑھائی !
موطا امام مالک و موطا امام محمد :
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ نے موطا امام مالک اور موطا امام محمد درج ذیل سالوں میں پڑھائیں :
١٣٢٣ ، ١٣٢٥ ، ١٣٢٧ ، ١٣٣٢ ، ١٣٣٣ ، ١٣٣٤ ، ١٣٣٥ ، ١٣٣٦ ، ١٣٣٧ ہجری
١٣٤٥ ھ تک موطا امام مالک اور موطا امام محمد حضرت مفتی صاحب ہی کے پاس رہیں ! ١٣٤٥ ھ کے بعد آپ جامعہ تعلیم الدین ڈھابیل سورت تشریف لے گئے تھے !
حضرت مفتی صاحب کی سند سے جن حضرات نے دارُالعلوم دیوبند میں موطا امام مالک اور موطا امام محمد پڑھائیں دریافت ریکارڈ کی موجودگی میں اس کی تفصیل یہ ہے :
٭ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب : سن ِفراغت : ١٣٣٦ھ
١٣٤٩ ھ میں موطا امام مالک،١٣٥٢ھ میں موطا امام محمد، ١٣٥٣ھ میں موطا امام مالک و موطا امام محمد، ١٣٥٤ھ میں موطا امام مالک،١٣٥٥ھ میں موطا امام محمد،١٣٥٦ھ میں موطا امام مالک ، ١٣٥٧ھ میں موطا امام مالک،١٣٥٩ھ میں موطا امام مالک،١٣٦٠ھ موطا امام مالک
٭ حضرت مولانا سید عبدالحق صاحب نافع گل کاکا خیل : سن ِفراغت : ١٣٤٠ھ
١٣٥٥ھ میںموطا امام مالک، ١٣٥٦ھ میں موطا امام محمد،١٣٥٧ھ میںموطا امام محمد،١٣٥٨ھ میں موطا امام مالک و موطا امام محمد،١٣٦٥ھ میں موطا امام محمد،١٣٦٦ھ میںموطا امام مالک
٭ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی : سن ِفراغت : ١٣٣٧ھ
١٣٦١ میںموطا امام مالک،١٣٦٧ میں موطا امام محمد،١٣٦٨ھ میں موطا امام مالک و موطا امام محمد
٭ حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب کیمل پوری : سن ِفراغت : ١٣٤١ھ
١٣٦٢ھ میںموطا امام محمد
٭ حضرت مولانا عبدالخالق صاحب ملتانی : سن ِفراغت : ١٣٤٢ھ
١٣٦٥ھ میںموطا امام مالک و موطا امام محمد،١٣٦٦ھ میں موطا امام محمد
٭ حضرت مولانا ظہور احمد صاحب دیوبندی : سن ِفراغت : ١٣٣٧ھ
١٣٦١ھ میںموطا امام محمد، ١٣٧١ھ،١٣٧٣ھ اور١٣٧٧ھ میں موطا امام مالک
٭ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب : سن ِفراغت : ١٣٣٧ھ
حضرت نے ١٣٨٠ھ میں موطا امام مالک و موطا امام محمد پڑھائی ، ١٣٨٢ ھ میں موطا امام مالک پڑھائی، اس کے علاوہ دیگر سالوں میں بھی موطا امام مالک و موطا امام محمد پڑھائی ہیں !
شرح معانی الآثار طحاوی :
قبل اس کے کہ شرح معانی ا لآثار طحاوی شریف کی تفصیل ذکر کی جائے اس سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب کے زمانہ ٔطالب ِعلمی میں طحاوی شریف پڑھائی ہی نہیں جاتی تھی ! حضرت مولانا نورالحسن راشد صاحب کاندھلوی مدظلہم کی تحقیق کے مطابق طحاوی شریف پہلی مرتبہ ١٣٠٢ہجری میں چھپی جبکہ مفتی صاحب کا طالب ِعلمی کا دور١٢٩٨ھ تک کا ہے !
حضرت مفتی صاحب نے طحاوی شریف دستیاب معلومات کے مطابق درج ذیل سالوں میں پڑھائی : ١٣٢٣ ، ١٣٢٧ ، ١٣٣٢ھ سے لے کر ١٣٤٠ ھ تک مسلسل اور ١٣٤٥ھ میں طحاوی شریف پڑھائی ، درمیان کے سالوں میں بھی طحاوی شریف کی تدریس ممکن ہے مگر اِس کی صراحت نہیں ملی
حضرت مفتی صاحب کے تلامذہ میں درج ذیل حضرات نے دارُالعلوم دیوبند میں طحاوی شریف پڑھائی :
٭ حضرت مولانا محمد رسول خان ہزاروی : سن ِفراغت : ١٣٢٣ھ
١٣٤٢ ھ اور ١٣٥١ھ میںطحاوی شریف پڑھائی
٭ حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی : سن ِفراغت : ١٣٢٧ھ
١٣٤٩ھ،١٣٥٢ھ،١٣٥٣ھ،١٣٦٧ھ،١٣٦٨ھ میںطحاوی شریف پڑھائی
٭ حضرت مولانا سید عبدالحق نافع گل صاحب کاکا خیل : سن ِفراغت : ١٣٤٠ھ
١٣٥٥ھ، ١٣٦٢ھ میں( مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی رُخصت کے بعد ) طحاوی شریف پڑھائی
٭ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب : سن ِفراغت : ١٣٣٦ھ
١٣٥٩ھ سے١٣٦٢ھ کے ربیع الاوّل تک مسلسل طحاوی شریف پڑھائی
٭ حضرت مولانا سید مبارک علی صاحب نگینوی : سن ِفراغت : ١٣٢٥ھ
١٣٧٢ ھ اور ١٣٧٥ھ میںطحاوی شریف پڑھائی
سُنن ابی داود :
حضرت مفتی صاحب کے تذکرے میں سنن ابی داود ایک ہی مرتبہ ١٣٢٧ھ میں پڑھانا ملتا ہے اس جماعت میں حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی شامل تھے، حضرت علامہ بلیاوی نے بھی زندگی میں ایک مرتبہ١٣٤٧ ھ کے سال میں ابوداؤد شریف پڑھائی ! اس سال ابوداود شریف پڑھنے والوں میں حضرت مولانا فخرالحسن صاحب مراد آبادی شامل تھے جنہوں نے دارُالعلوم دیوبند میں متعدد سال ابوداود شریف پڑھائی !
آمدم بر سر مطلب :
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد حضرت مفتی صاحب کی سند کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے، اگلا مرحلہ اس تحقیق کا ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے دارُالعلوم دیوبند میں کون کون سی کتب پڑھی ہیں، اس سلسلے میں تذکرہ نگاروں نے زیادہ تر تاریخ دارُالعلوم دیوبند کی عبارت'' ١٢٩٥ھ میں بخاری، مسلم اور شرح عقائد پڑھ کر دارُالعلوم سے فراغت حاصل کی ''سے استفادہ کیا ہے ۔ اس کے علاوہ رجسٹر فضلا ء میں اسی سال آپ کو دارُالعلوم دیوبند کا فاضل قرار دیا گیا ہے، اس عبارت سے بہت سے حضرات نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مفتی صاحب کی فراغت ١٢٩٥ ھ ہی کی ہے اور آپ نے کتب ِحدیث میں سے صرف دو کتابیں ہی پڑھی ہیں ! !
اس سلسلے میں عرض ہے کہ دارُالعلوم دیوبند میں ڈیڑھ صدی تک کتب بندی رائج تھی نہ کہ درجہ بندی ! اُستاذ طالب علم کے مناسب حال کتب تجویز کردیتا یا طالب علم خود لکھ دیتا کہ اِس سال یہ یہ کتابیں پڑھنی ہیں ، اس وجہ سے دیوبند کے قدیم طلبہ کتب ِحدیث دیگر کتب ِفنون کے ساتھ دو یا تین سالوں میں پڑھتے تھے جیساکہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا سید حسین احمدمدنی، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی، حضرت مولانا محمد شفیع محدث دیوبندی (صدرمدرس مدرسہ عبدالرب دہلی)، حضرت مولانا سید میاں اصغر حسین دیوبندی اور حضرت مولانا مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمہم اللہ کے تعلیمی ریکارڈ سے واضح ہے !
اب رہی بات یہ کہ طالب ِعلم کا فضلاء کی لسٹ میں نام کب آئے گا ؟ تو جس سال بخاری شریف پڑھی ہوتی اُس سال فضلاء کی لسٹ میں نام آجاتا ! یہی وجہ ہے کہ مفتی صاحب کی تعلیمی کیفیت تاریخ دارُالعلوم دیوبند میں بھی ١٢٩٥ھ تک ہی لکھی ہے۔ مفتی صاحب پر علی گڑھ سے ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا گیا اس میں بھی رُودادوں کی مدد سے سالِ مذکور تک ہی کی تعلیمی کیفیت لکھی ہے اور رجسٹر فضلا ء ہی کی وجہ سے فتاوی دارُالعلوم، دارُالعلوم کی تاریخی شخصیات اور دیگر کتب کی روایت کہ'' مفتی صاحب کی فراغت ١٢٩٨ھ ہے '' کو رَد کیا گیا ہے !
راقم الحروف کو یہ بات عجیب لگتی تھی کہ مفتی صاحب نے کتب ِحدیث دارُالعلوم دیوبند میں مکمل نہ پڑھی ہوں ! حضرت مدنی وغیرہ کی تعلیمی کیفیت دیکھی تو یہ یقین اور پختہ ہوگیا کہ رجسٹر فضلا ء میں نام کی وجہ سے محققین نے بعد کے سالوں کو قابلِ تحقیق ہی نہ سمجھا، راقم اس تحقیق کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ندوہ لائبریری مری روڈ حاضر ہوا، وہاں دارُالعلوم دیوبند کی اَسی سالہ رُودادیں موجود ہیں، لیکن یہ سفر انجام تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ لائبریری میں١٢٩٦ھ سے ١٢٩٩ھ تک کی رُودادیں موجود نہیں تھیں !
اب معاملہ کا حل محافظ خانہ دارُالعلوم دیوبند ہی کے پاس تھا چنانچہ اُن سے بذریعہ ای میل رابطہ کیا گیا وہاں سے جو جواب آیا اُس سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں :
٭ قدیم طلبہ دورۂ حدیث کی کتابیں متعدد سالوں میں پڑھتے تھے !
٭ حضرت مفتی صاحب نے طحاوی کے علاوہ تمام کتب ِحدیث دارُالعلوم دیوبند ہی میں پڑھی ہیں ! طحاوی اُس وقت تک مدارس میں آئی ہی نہیں تھی !
ذیل میں دارُالعلوم دیوبند سے ہوئی مکاتبت اور اُن کا جواب درج کیا جاتا ہے :
مکرمی ناظمِ تعلیمات صاحب زید شرفکم دارُالعلوم دیوبند
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ کی تعلیمی کیفیت ١٢٩٥ھ تک کی رُودادوں میں ملتی ہے، سالِ مذکور میں مفتی صاحب نے کتب ِحدیث میں بخاری اور مسلم پڑھیں، دارُالعلوم کے قدیم طالب علم عموماً کتب ِحدیث دو یا تین سالوں میں مکمل کرتے تھے ! جس طرح حضرت مدنی اور حضرت کشمیری کے تذکروں میں صراحت ملتی ہے اور رجسٹر فضلاء میں نام اُس سال لکھا جاتا تھا جس سال بخاری پڑھی ہو !
معلوم یہ کرنا تھا کہ مفتی صاحب نے حدیث کی بقیہ کتب ترمذی، ابوداود، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک اور موطا امام محمد دیوبند میں پڑھیں یا نہیں ؟ ؟ ؟
پاکستان میں ایک لائبریری میں دیوبند کی رُودادیں موجود ہیں راقم سفر کرکے وہاں حاضر بھی ہوا مگر١٢٩٥ھ سے آگے١٢٩٦ھ، ١٢٩٧ھ اور ١٢٩٨ھ کی رُودادیں وہاں موجود نہیں ہیں ! جناب اگر کتب ِحدیث کی بابت یہ معلومات طالب ِعلم کی انفرادی معلومات سے عنایت فرمادیں تو نوازش ہوگی ۔جناب کو اس جتن میں ڈالنے کی غرض سندِ حدیث ہے ! مفتی صاحب کا شمار دارُالعلوم دیوبند کے کبار محدثین میں ہوتا ہے ، عموماً سنن نسائی، موطا امام مالک اور موطا امام محمد
مفتی صاحب ہی سے متعلق رہتی تھیں، جناب اگر اس بات کی وضاحت فرما دیں کہ مفتی صاحب نے یہ کتب دیوبند میں ان ان سالوں میں پڑھی ہیں تو نوازش ہوگی
عرض گزار محمد معاذ لاہوری
(فاضل) جامعہ مدنیہ
کریم پارک لاہور پاکستان
اس عرضی کا دیوبند سے درج ذیل جواب دیا گیا :
حضرت والا زید مجدکم ........... السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ
عرض خدمت ہے کہ منسلکہ درخواست میں مطلوب ممکنہ معلومات حسب ِذیل ہیں ریکارڈ کے مطابق حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمہ اللہ نے حدیث شریف کی مندرجہ ذیل کتابیں درج ذیل سنین میں پڑھی ہیں :
١٢٩٥ھ : بخاری شریف، مسلم شریف ١٢٩٦ھ : ابوداود شریف
١٢٩٧ھ : ابن ماجہ شریف، شمائلِ ترمذی شریف، نسائی شریف، ترمذی شریف، مسلم شریف، بخاری شریف ١٢٩٨ھ : موطا امام مالک، موطا امام محمد
والسلام
عبدالسلام قاسمی محافظ خانہ دارُالعلوم دیوبند
١٧ذوالحجہ ١٤٤٣ھ/ ١٧جولائی ٢٠٢٢ء
اب رہی یہ بات کہ حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ کے اساتذہ ٔحدیث دارُالعلوم دیوبند میں کون کون ہیں ؟ اس سلسلے میں کوئی صراحت نہیں ملی البتہ مفتی صاحب کے قریب ترین فاضل حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی تھے جنہوں نے اپنے اساتذۂ حدیث صراحت سے لکھے تھے، مگر یہ تفصیل موجود نہیں تھی کہ کون سی کتاب کس سال پڑھی ؟ اس کے لیے ایک مرتبہ پھر دارُالعلوم دیوبند رابطہ کیا گیا، وہاں سے حضرت تھانوی کی تعلیمی تفصیل کے ساتھ ساتھ رُوداد١٢٩٥ھ سے اُس سال کے اسباق کا نقشہ بھی بھیجا گیا ! حضرت تھانوی کی دریافت معلومات اور١٢٩٥ھ کا نقشۂ اسباق حضرت مفتی صاحب کے اساتذہ متعین کرنے میں معاون ثابت ہوا، حضرت تھانوی کی تعلیمی کیفیت سے متعلق دارُالعلوم دیوبند سے درج ذیل مکاتبت ہوئی :
مکرمی جناب ناظم صاحب محافظ خانہ دارُالعلوم دیوبند
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ
جناب نے کچھ عرصہ قبل حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی دیوبندی کی کتب حدیث کی تعلیمی تفصیل عنایت فرمائی تھی، فجزاہ اللّٰہ عنی خیر الجزاء اس سے اگلا مرحلہ مفتی صاحب کے اساتذہ کی تحقیق کا تھا، اساتذہ کی تفصیل کو حضرت تھانوی کی بتائی ہوئی ترتیب پر قیاس کیا گیا تھا سنن نسائی اور ابن ماجہ کے علاوہ، عرضی کے ساتھ لف صفحہ راقم ہی کے مضمون کا ہے جس میں ہر کتاب کے ساتھ اُستاذ کا نام اور حاشیہ میں اس کا قریبی حوالہ پیش کیا گیا ہے، فی الوقت عرضی کا مقصد یہ ہے کہ جناب اگر رُودادوں کی مدد سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتب پڑھنے کی تفصیلات مہیا فرمادیں تو ہمیں اساتذہ قیاس کرنے میں مزید شرح صدر ہوجائے گا حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا سالِ فراغت فہرست فضلاء کے مطابق ١٢٩٩ھ ہے ١٣٠٠ھ کی رُوداد بندہ نے خود ملاحظہ کی تھی اس میں حضرت تھانوی کا تذکرہ نہیں ہے جبکہ ١٢٩٦،١٢٩٧،١٢٩٨اور١٢٩٩ ہجری کی رُودادیں جس لائبریری میں بندہ رُودادیں دیکھنے جاتا ہے وہاں موجود نہیں ہیں !
عرض ہے کہ اِن رُودادوں میں سے حضرت تھانوی کی کتب ِحدیث کی تفصیلات عنایت فرمادیں یا اگر محافظ خانہ کے ریکارڈ میں مفتی عزیز الرحمن صاحب کے اساتذہ مفصلاً لکھے ہوئے ہوں تو وہ تفصیل عنایت فرما دی جائے ! اُمید ہے جناب حسب ِسابق شفقت فرمائیں گے !
محتاجِ دعا محمد معاذ لاہوری عفی عنہ
(فاضل)جامعہ مدنیہ
کریم پارک لاہور پاکستان
اس عرضی کا جواب یہ آیا :
حضرت والا زید مجدکم.................. السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ
منسلکہ درخواست میں مطلوبہ معلومات کے سلسلے میں عرض یہ ہے کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے دورہ حدیث شریف کی کتب درج ذیل سالوں میں پڑھی ہیں :
١٢٩٦ھ : شمائل ترمذی ١٢٩٧ھ : ترمذی شریف ١٢٩٨ھ : مسلم شریف
١٢٩٩ھ : بخاری شریف، ابن ماجہ شریف، موطا امام محمد، ابوداود شریف، موطا امام مالک ، نسائی شریف
نوٹ : مذکورہ سنین کے اسباق کی تفصیلات دستیاب نہیں البتہ رُوداد دارُالعلوم ١٢٩٥ ھ میں اَساتذہ کرام کے اسباق کی تفصیلات درج ہیں، اس کا عکس ہمرشتہ ہے
والسلام
عبدالسلام قاسمی محافظ خانہ دارُالعلوم دیوبند
٢جمادی الاولیٰ١٤٤٤ ھ/٢٧نومبر٢٠٢٢ء
ان وضاحتوں کے بعد ہم کہتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب نے کتب ِحدیث درج ذیل اساتذہ سے پڑھیں :
٭ صحیح بخاری : حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ١
٭ صحیح مسلم : حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی ٢
٭ جامع ترمذی، شمائلِ ترمذی : حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی ٣
٭ سنن ابی داود : حضرت مولانا ملا محمود دیوبندی ٤
٭ موطا امام مالک : حضرت مولانا ملا محمود دیوبندی
١ رُوداد دارُالعلوم دیوبند ١٢٩٥ھ ص٢ ٢ رُوداد دارالعلوم دیوبند ١٢٩٥ھ ص٢ ٣ ماخوذ اَز احد عشر کوکبا
٤ ١٢٩٥ھ اور١٢٩٩ھ کی رُودادوں میں سنن ابی داود ، ملا محمود دیوبندی ہی کے پاس لکھی ہے۔
٭ موطا امام محمد : حضرت مولانا ملا محمود دیوبندی ١
٭ سنن نسائی : حضرت مولانا عبدالعلی میرٹھی
٭ سنن ابن ماجہ : حضرت مولانا عبدالعلی میرٹھی ٢
٭ مشکوة شریف : شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ٣
اس تمام تفصیل کو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اِن کتابوں میں اُس سند کو بیان کیا جائے جو اصل قراء تی سند ہے وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلاَغْ ۔




شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat

١ ١٢٩٥ھ اور١٢٩٩ھ کی رُودادوں میں موطا امام مالک و موطا امام محمد ملا محمود دیوبندی رحمہ اللہ ہی کے پاس لکھی ہیں
٢ ندائے شاہی، شاہی نمبر ص ٣٠٦ پر رُوداد دارُالعلوم دیوبند کے حوالے سے نقل ہے : '' حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی (حج سے)واپسی کے بعد آپ (مولانا عبدالعلی میرٹھی)کو مدرس پنجم بنایا گیا اور اس عہدہ پر جمادی الاخرہ١٢٩٨ھ تک فائز رہ کر نسائی شریف ، ابن ماجہ شریف وغیرہ کا درس دیا۔ ملخص رُوداد : ١٢٩٤ھ تا ١٢٩٨ھ )
٣ حیات ِشیخ الہند ص ٢٢پر مرقوم ہے : ١٢٩٣ھ میں آپ ( شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ) مشکوة شریف پڑھاتے تھے۔
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میںایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
+92 - 333 - 4249302 +92 - 333 - 4249301
+92 - 335 - 4249302 +92 - 345 - 4036960

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.