Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

دسمبر 2024

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ جمادی الثانی ١٤٤٦ھ / دسمبر ٢٠٢٤ء شمارہ : ١٢
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر




جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +923334249302




ترسیلِ زر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +923214790560




مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
سیرت ِ مبارکہ .........نکاح سیّدہ فاطمة الزہرائ حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٢
مقالاتِ حامدیہ ... میرا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ عليہ وسلم حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ١٧
تربیت ِ اولاد قسط : ٢١ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٢٦
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب قسط : ٥ ، آخری حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی ٣١
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٩ حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣٨
کرپٹو کرنسی کی ماہیت و حقیقت قسط : ٢ آخری ڈاکٹر مبشر حسین صاحب رحمانی ٤٤
سموگ کیا ہے ؟ ڈاکٹر سید واجد علی شاہ صاحب ٥٨
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦٠
اخبار الجامعہ مولانا انعام اللہ صاحب ٦٢
وفیات ٦٤




حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
موجودہ دور اس اعتبار سے بہت ہولناک ہے کہ ''گناہ'' اور'' بے حیائی'' دستور اور فیشن کے طور پر اختیار کیا جانے لگا ہے ! اگرچہ یہ فتنہ کسی نہ کسی درجہ میں ہر دور میں رہا ہے مگر فی زمانہ یہ فتنہ علماء ، طلباء ، صوفیاء ، بظاہر اتقیاء وصلحاء ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جا رہاہے ماسوا چند کوئی اس سے محفوظ نہ ہے ! ضروری ہے کہ ہم اس سے بچنے کی فکر کریں گناہ کو گناہ جانیں ، حلال کو حلال اور حرام کو حرام ہی رہنے دیں ، خواہشات ِ نفس، شہرت و جاہ، نمود و نمائش ،خود پسندی وخودنمائی کا جن بے قابو ہوا جا تا ہے ! روکنے والا برا ، ساتھ چلنے والا بھلا سجھائی دے رہا ہے ! ! والعیاذ باللّٰہ
اس وقت بہت ضروری ہے کہ ہم حضرت محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی سیرتِ طیبہ کا روزانہ کی بنیاد پر بغور مطالعہ کریں ، اس نیت سے کہ اس پر خود اور اپنے اہل وعیال ، شاگرد ومتوسلین کو بھی عمل کر ائیں گے اور ان سے پہلے خود عمل کریں گے چاہے بظاہر اس میں گھاٹا ہی کیوں نہ معلوم دیتا ہو ! ! !
وہ وظائف جو آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم نے فتنوں سے بچنے کے لیے ارشاد فرمارکھے ہیں ان کو پوری مستقل مزاجی کے ساتھ اختیار کریں اور اپنے متعلقین کو سختی یا نرمی جیسے بھی ممکن ہو اس طرف لائیں ایک دعاء نظر سے گزری ہر مسلمان اس کے ترجمہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگا کرے
بیہقیکی روایت ہے کہ حضرت اُم مَعبد رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم کو یہ دعاء فرماتے ہوئے سنا
اَللّٰہُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ وَ عَمَلِیْ مِنَ الرِّیَائِ وَ لِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ
وَ عَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَةِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْر ١
''اے اللہ میرے دل کو نفاق اور میرے عمل کو ریاء اور میری زبان کو جھوٹ اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک فرما بے شک تو آنکھوں کی خیانت اور دل میں چھپے بھیدوں کو جانتا ہے ''
ایک دوسری حدیث شریف میں حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم نے سکھاتے ہوئے فرمایا کہ کہو
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مِّنْ عَلَانِیَتِیْ وَاجْعَلْ عَلَانِیَتِیْ صَالِحَةً اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الاَھْلِ وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّالِّ وَلَا الْمُضِلِّ ٢
''اے اللہ میرا باطن میرے ظاہر سے اچھا کردے اور میرے ظاہر کو پاکیزہ کردے اے اللہ میں آپ سے پاکیزگی کا سوال کرتا ہوں وہ جو لوگوں کو آپ اہل ، مال ، اولاد (کی شکل میں ) عطا فرماتے ہیں جو نہ (خود)گمراہ ہوں نہ(دوسروں کو) گمراہ کرنے والے ہوں ''
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین ِمتین پر چلنے کی توفیق کے ساتھ استقامت عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے، آمین وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْن
١ مشکوة المصابیح کتاب الدعوات باب جامع الدعاء رقم الحدیث ٢٥٠١
٢ مشکوة المصابیح کتاب الدعوات باب جامع الدعاء رقم الحدیث ٢٥٠٤




درسِ حدیث
٭٭٭
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
٭٭٭
خود کو'' افضل'' دوسروں کو'' حقیر'' سمجھنے کا وبال
( درسِ حدیث نمبر٧٢ ٢١ جون ١٩٦٨ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جناب آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ایک مرتبہ پچھلی امتوں میں سے دو آدمیوں کا واقعہ نقل فرمایا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے جنہیں ایک دوسرے سے بہت تعلق اور محبت تھی ان میں سے ایک تو عبادت میں بڑی کوشش کرتا تھا مُجْتَہِد فِی الْعِبَادَةِ اور دوسرے کے بارے میں فرمایا کہ وہ گنہگار تھا
یہ شخص جو عبادت گزار تھا اس دوسرے کو جو برائی کرتا تھا ہمیشہ نصیحت کرتا کہ اَقْصِرْ عَمَّا اَنْتَ فِیْہِ
یعنی جو کچھ تو کرتا ہے اس میں کمی کردے، برائیوں کو ترک کر دے مگر وہ گنہگار ایسا تھا کہ گناہ چھوڑنے کی کوشش کرتا تھا مگر گناہ چھوٹتا نہیں تھا، وہ برائی کو برائی سمجھتا تھا خود کو خطاکار اور برا خیال کرتا تھا اپنے گناہوں پر اسے ناز اور فخر ہر گز نہ تھا وہ اپنی غلطیوں اور خطاکاریوں کے باعث رنجیدہ ٔخاطر رہتا تھا جب وہ اسے نصیحت کرتا تو یہ جواب میں کہتا کہ خَلِّنِیْ وَرَبِّی مجھ کو میرے رب پر چھوڑ دو ! !
یعنی یہ گناہ مجھ سے چھوٹتا نہیں میرا معاملہ میرے خدا کے سپرد کردو اور مجھے اس طرح نہ ٹوکو ! !
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ یہ نیکیاں کرنے والا اس کے ہاں گیا تو دیکھا کہ وہ ایک گناہ میں مبتلا ہے وہ گناہ بھی ایسا تھا کہ عبادت کرنے والے کو بہت بڑا نظر آیا ! چنانچہ اس نے پھر نصیحت کی اَقْصِرْ عَمَّا اَنْتَ فِیْہِ جو کچھ کرتا ہے اس میں کمی کر ! اس نے پھر وہی جواب دیا کہ خَلِّنِیْ وَرَبِّیْ
اور کہا اَبُعِثْتَ عَلَیَّ رَقِیْبًا یعنی کیا تو مجھ پر نگران مقرر کیا گیا ہے ؟ ؟
اس پر اس عبادت گزار کو بہت غصہ آیا اور کہنے لگا وَاللّٰہِ لَا یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکَ اَبَدًا وَلَا یُدْخِلُکَ الْجَنَّةَ یعنی اللہ کی قسم ! اللہ تجھے ہر گز نہیں بخشے گا اور تجھے ہر گز جنت میں داخل نہیں کرے گا ! ! !
دربار میں پیشی :
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے پاس فرشتہ بھیج دیا اور ان دونوں کی روح قبض کر لی اور پھر دونوں کو اپنی بارگاہ میں جمع کیا اور گنہگار سے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اُدْخُلِ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِیْ
'' جا میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جا''
اور دوسرے سے فرمایا اَتَسْتَطِیْعُ اَنْ تَحْظِرَ عَلٰی عَبْدِیْ رَحْمَتِیْ
یعنی کیا تو یہ کر سکتا ہے کہ میرے بندے سے میری رحمت کو روک دے ؟
اس نے جواب میں اعتراف کیا کہ لَا یَا رَبِّ اے رب نہیں ! اور اعتراف کیا کہ میں تیری رحمت کے دروازے کسی پر بند نہیں کر سکتا مگر اب اس اعتراف نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا اور حق تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اِذْھَبُوا بِہ اِلَی النَّارِ ١ اس کو جہنم میں لے جاؤ ، اسے میں نہیں بخشتا ! !
دو طرح کے نیک :
اس حدیث شریف سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گنہگاروں کے لیے بشارت ہے ! اور نیکو کاروں کے لیے وعید ! مگر ایسا نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ نیکی کرنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں :
ایک تو وہ ہوتے ہیں کہ نیکی کرنے سے ان کے دل میں عجب اور غرور پیدا ہوجاتا ہے وہ اپنی نیکیوں پر گھمنڈ کرنے لگتے ہیں دوسروں کو حقارت آمیز نظر سے دیکھتے ہیں ! !
اور بعض وہ ہوتے ہیں کہ نیکیوں سے ان کے اندر پندار و غرور کا مرض نہیں پیدا ہوتا وہ نیکی کرنے کے باوصف خود کو دوسروں سے کمتر خیال کرتے ہیں ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٤٧
تو وہ نیکو کار جو دوسروں سے خود کو بہتر سمجھے، گناہوں سے پاک خیال کرے اس میں تکبر واَنانیت ہو درحقیقت بہت بڑا گنہگار ہے ،کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے بارے میں متقی اور صالح ہونے کا فیصلہ کرے !
قرآنِ کریم میں ارشاد ہے ( فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ) ١ اپنے آپ کو پاک مت ٹھہراؤ تقدس اور پرہیز گاری کا دعوی نہ کرو کیونکہ وہی خوب جانتا ہے کہ متقی اور پارسا کون ہے ! !
اسی لیے حدیث شریف میں کسی کو جنتی یا جہنمی کہنے کی ممانعت آئی ہے ! ! !
ایک واقعہ :
حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللّٰہ عنہ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم کے صحابی اور رضاعی بھائی تھے، آپ جب مکہ سے ہجرت کر گئے تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے دوسرے صحابہ کی طرح آپ کو بھی ایک انصاری کے ساتھ کر دیا، اس انصاری کے گھر آپ نے نہایت پاکیزہ زندگی گزاری !
جب آپ کی وفات ہوئی تو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم تشریف لائے آپ کو ان سے رضاعی بھائی ہونے کی وجہ سے بہت محبت تھی آپ نے تشریف لاکر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا ! انصار کی عورت نے جن کے یہاں وہ مقیم تھے بہت تعریفی کلمات کہے، ان کی زبان سے نکلا کہ اللہ نے تمہیں قابلِ اکرام مقام پر پہنچایا ! آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے صحابیہ کے اس قول کو پسند نہ کیا اور فرمایا کہ تمہیں یہ کیسے پتہ چلا ؟ یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ کون کہاں ہے ؟ یا انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ بتلا دیتے تھے ٢ اس لیے کسی امتی کو ایسی باتیں کرنی شریعت نے منع کردی ہیں ! ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک ہم جانتے ہیں فلاں شخص نیک ہے، بزرگ ہے یا یہ دیکھا کہ کلمہ پڑھتے ہوئے جان دی ہے تو کہیں گے کہ ایمان پر خاتمہ ہوا ہے ! لیکن اللہ کے یہاں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے اس کا قطعی حال اللہ ہی کو معلوم ہے ہمیں سکوت کا حکم ہے ! حتی کہ اگر کسی کو کشف سے معلوم ہو جائے تو بھی اسے سکوت کرنا چاہیے اسے قطعی بات بھی نہیں سمجھا جا سکتا شریعت ِ مطہرہ کی یہی تعلیم ہے ! !
١ سُورة النجم : ٣٢ ٢ صحیح البخاری کتاب التعبیر رقم الحدیث ٧٠١٨
کافر پر لعنت :
اور کافروں پر کسی کا نام لیے بغیر لعنت کرنی یا بددعا دینی جائز ہے ! مثلاً یہ بددعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ تو کافروں پر لعنت فرما ،اپنا غضب ان پر نازل فرما وغیرہ (جیسے قنوتِ نازلہ میں دعا مانگا کرتے ہیں کسی کا نام لے کر جائز نہیں )
حضرت تھانوی :
مضمونِ حدیث پر یاد آیا حضرت تھانوی اپنے مریدین و معتقدین پر نہی عن المنکر کے سلسلہ میں بہت سختی کرتے تھے آپ فرماتے کہ میں سختی یہ سمجھ کر نہیں کرتا کہ یہ مجھ سے کم ہیں اور میں افضل ہوں ! بلکہ میں خود کو اس چوڑھے کی طرح سمجھتا ہوں جسے بادشاہ کسی پر سختی کا حکم دے دے، چوڑھا اگرچہ اس شخص سے جس پر سختی کرتا ہے اچھا نہیں ہوتا مگر بادشاہ کا حکم ہوتا ہے اس لیے سختی کرتا ہے ! !
پُر اثر نصیحت :
یاد رکھیں نصیحت اس شخص کی مؤثر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو ذلیل نہ سمجھے، جو اپنے آپ کو افضل اور دوسروں کو گٹھیا سمجھ کر نصیحت کرتا ہے اس کی نصیحت چنداں اثر نہیں رکھتی ! انسان کو چاہیے کہ خود کو دوسروں سے کمتر سمجھے، دوسروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھے، بڑے سے بڑے گناہگار سے بھی اپنے آپ کو بر تر نہ سمجھے، ہو سکتا ہے وہ اپنے دل میں بارگاہِ خدا وندی میں گڑ گڑاتا ہو، ندامت کے آنسو بہاتا ہو اور خدا رحمن و رحیم سے اپنی خطائیں بخشواتا ہو اور اس کے آنسو خدا وند ِ کریم کے دربار میں ناصح کی نیکیوں سے زیادہ قیمتی ہوں ! اس لیے کسی بدکار کو برائی سے منع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے برائی سے ضرور روکے، ڈانٹ ڈپٹ بھی کرے مگر اپنے دل میں ڈرتا بھی رہے ! اور اپنے عیوب پر بھی نظر رکھے ! !
اور اگر کوئی کہے کہ مجھے اپنے اندر عیب نظر نہیں آتا تو اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی اندھا ہوجائے ! اسے یہ افسوس کرنا چاہیے کہ میری نظر کو کیا ہو گیا ہے ! ؟ میری عیب دیکھنے والی آنکھ ناکارہ ہوگئی ہے اور اندھا ہوگیا ہوں ! اسے اس مرض سے بہت ڈرنا اور استغفار کرنا چاہیے ! !
مذکورہ حدیث شریف میں جس نیکوکار کا ذکر ہے وہ اسی قسم میں سے تھا وہ اپنے آپ کو افضل وبرتر سمجھتا تھا اس میں تکبر اور بڑائی کا مرض موجود تھا اور یہی غرور و تکبر اس کو لے ڈوبا !
اگر یہ شخص ان نیکوکاروں میں سے ہوتا جو تکبر سے پاک ہوتے ہیں تو کبھی عذاب میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ ایسے لوگ جو خود بھی نیکی کریں اور دوسروں کو بھی نیکیوں پر آمادہ کریں سب سے بہتر اور افضل ہیں ، قرآن میں ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا گیا ہے ( اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) ''یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں '' آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ایسے نیکو کاروں کی بہت تعریف فرمائی ہے !
اس حدیث شریف کے اندازِ بیان ہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیکیوں پر مغرور تھا اور دوسرے ساتھی کو حقیر سمجھتا تھا ،اسی وجہ سے اس نے قسم کھاکر کہا اللہ کی قسم اللہ تجھے ہر گز نہیں بخشے گا اور تجھے ہر گز جنت میں داخل نہیں کرے گا ! ! گویا خدا کی صفت ِ رحمت کو محدود کر نے کا ٹھیکیدار بن گیا ورنہ کبھی ایسا کلمہ نہ کہتا ! خدا کی رحمت سے مایوس ہونا یا کسی کو مایوس کرنا سنگین جرم ہے ! !
کسی کی کھوج میں لگے رہنا ؟
علاوہ ازیں وہ اپنے ساتھی کے عیوب کی تلاش میں رہتا اس میں عیب جوئی اور تجسس کی بیماری بھی تھی، کسی کی عیب جوئی کرنی بد ترین گناہ ہے شریعت ِ مطہرہ نے تجسس اور کھوج لگانے سے سختی سے روکا ہے، عام طور پر عیب جوئی کا مرض اس میں پایا جاتا ہے جو اپنے آپ کو عیبوں سے پاک اور مبرا سمجھتے ہیں !
یاد رکھیں جو شخص رات بھر عبادت کرے اور صبح اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا اور افضل سمجھے اپنی شب بیداری پر فخر کرے اس سے وہ شخص بہت اچھا ہے جو رات بھر سویا رہے اور صبح کو سونے، سستی اور نیکی نہ کرنے پر ندامت اور پشیمانی کا اظہار کرے کیونکہ حق تعالیٰ کو ندامت پسند ہے اور غرور ناپسند !
اہم بات :
ہاں یہ بات ضرورملحوظ رکھیں کہ ان حدیثوں میں عموماً حقوق اللّٰہ مراد ہیں ! حقوق العباد میں جو بندہ کمی زیادتی کرتا ہے تو اسے اس بندہ سے بھی معافی لینی چاہیے اور خدا سے بھی ! !
اللہ تعالیٰ ہمیں بدمعاملگی، بد عملی اور غرور و تکبر سے پناہ میں رکھے اپنی بارگاہ میں گڑ گڑانے کی توفیق بخشے اور صحیح نیکوکار بنائے، آمین وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ اپریل ٢٠١٨ئ بحوالہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور ٢١ جون ١٩٦٨ئ)




قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)




سیرتِ مبارکہ
٭٭٭
نکاح ، سیّدة فاطمة الزہراء رضی اللّٰہ عنہا
سیّد الملت و مؤرخ الملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ ''محمد رسول اللہ'' صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اوراق
٭٭٭
ارشادِ خدا وندی ہے :
( وَاَنکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآئِکُمْ اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ وَاللّٰہُ وَاسِع عَلِیْم ) ( سُورة النور : ٣٢ )
''نکاح کردو ان کا جو تم میں بے نکاح ہوں اور اپنے غلاموں اور باندیوں کا بھی جو اس قابل ہوں ، اگر وہ مفلس ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت والا ہے، خوب جاننے والا ''
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو خاص طور سے ہدایت فرمائی
'' عَلِی تین کام ہیں ان میں تاخیر ہرگز نہ کرنا نماز جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ جب آجائے، بے نکاح جب اس کا کُفْو مل جائے'' ١
ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم پہلے ''غِنَا'' چاہتے ہیں پھر ''نکاح '' ! مگر فرمان خداوندی نے نکاح کو مقدم رکھا اور ''غِنَا ''کا خود وعدہ فرمایا ! ا س کی عجیب وغریب مثال حضرت علی اور سیّدة فاطمة زَہراء رضی اللّٰہ عنہما
کا نکاح ہے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ اپنے والد خواجہ ابو طالب کی وفات کے وقت اگرچہ جوان تھے، تقریباً بیس سال کی عمر تھی مگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کو بچپن ہی سے اپنی تربیت میں لے لیا تھا
اور خواجہ ابو طالب کو ان کی طرف سے بے فکر کردیا تھا ! ! ابو طالب دولت مند نہیں تھے کہ ان کا وارث
١ ترمذی شریف باب ماجاء فی الوقت الاوّل من الفضل ص ٢٤ رقم الحدیث ١٧١
ان کے ترکہ سے دولت مند ہوجائے اس کے علاوہ ہجرت کرنے والے بزرگ وہ تھے کہ دولت مند بھی فقیر ہوگئے تھے ! ١ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھی جو تھا وہ توکل کا سرمایہ تھا اور بس !
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر پندرہ سال کے قریب ہوئی تو رشتے آنے شروع ہوگئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ بھی خواستگاری پیش کردیں مگر حضرت علی کو احساس تھا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ! یہی آپ نے مشورہ دینے والوں سے بھی کہا مگر تہ دستی اور غربت کا عذر کسی نے بھی قابل التفات نہیں سمجھا، مشورہ دینے والوں نے یہی کہا کہ بارگاہِ رسالت میں اس کی ضرورت نہیں کہ تمہارے پاس دولت ہو ! اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم آپ کے مشفق مربی ہیں ، تمہارا گوشہ خاطر معلوم ہوجائے گا تو وہ خود منظور فرمالیں گے ! !
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھ پر مشورہ دینے والوں نے اتنا اصرار کیا کہ بالآخر مجھے تعمیل کرنی پڑی ! میں نے بڑی ہمت سے کام لیا خدمت ِ مبارک میں حاضر ہوا مگر ایک طرف میری شرم و حیا ، دوسری طرف ذاتِ اقدس کا رعب و جلال ، حاضر ہونے کو حاضر ہوگیا مگر زبان بند، طبیعت محجوب، خاموش بیٹھ گیا ! ؟ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی مربیانہ شفقت ہی کارفرما ہوئی خود دریافت فرمایا کیسے آئے ہو کچھ کام ہے ؟ اس کے جواب میں بھی میں خاموش ہی تھا پھر خود ہی فرمایا
فاطمة سے رشتہ کے لیے آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا '' نَعَمْ '' فرمایا پھر کیا دو گے ؟
میں نے عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ! ارشاد ہوا میں نے تمہیں زرہ دی تھی وہ کیا ہوئی ؟ ٢
١ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے مکہ معظمہ میں بھی مواخات (بھائی چارہ) قائم فرمایا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کو اپنے ساتھ شامل کیا اور اَخْ قرار دیا ! مدینہ منورہ میں جو مہاجرین اور انصار کرام میں مواخات (رشتہ ٔ اخوت )قائم فرمایا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی نہیں آتا گویا آپ کی وہی مواخات قائم رہی جو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے مکہ معظمہ میں قائم ہوگئی تھی ! ! مقصد یہ کہ سلسلہ مواخات سے جو سہولت حضرات ِ مہاجرین کو مل گئی تھی کہ رہنے اور کاشت وغیرہ کا انتظام ہوگیا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ سہولت بھی نہیں ملی تھی !
٢ مشورے دیے پھر حاضری اور گفتگو کی ، یہ تمام تفصیل البدایة والنہایة ج٣ ص ٣٤٦ سے ماخوذ ہے
جیسے ہی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشارہ سمجھ میں آیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زرہ بیچنے کی نیت کرلی ! پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ٤٨٠ درہم میں بیچ کر پوری رقم اپنے مربی و سرپرست آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی ! اس میں سے تقریباً ایک تہائی خوشبو پر خرچ ہوئی باقی دوسری ضرورتوں پر ! آپ نے احباب کو طلب فرمایا اور نکاح پڑھ دیا ! !
مکان کا انتظام :
دلہن کو لانے کے لیے مکان کی ضرورت ہوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مکان کرایہ پر لیا دلہن کو وہیں اتارا ! پھر مستقل قیام کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا گیا کہ حضرت حارثہ بن نعمان کے مکان خالی پڑے ہیں ان سے ایک مکان لے لو ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خود داری نے مکان کی فرمائش کرنی مناسب نہیں سمجھی ! کسی طرح حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوگیا تو سرور کائنات صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ سارے مکان آپ کے ہیں حضرت علی جو پسند فرمائیں وہ اس مکان کی خوش بختی ہے، میں اسی مکان کو جس کو آپ لیں گے زیادہ محبوب (اور مبارک سمجھوں گا) بمقابلہ اس کے جو آپ کے کام میں نہیں آئے گا ! ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا صَدَقْتَ بَارَکَ اللّٰہْ (آپ نے سچ فرمایا اللہ آپ کو برکت دے) حضرت حارثہ دوسرے مکان میں منتقل ہوگئے اور حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو اپنے مکان میں لاکر اتارا ! ! !
اللہ تعالیٰ اپنے پاکباز مقربین کو کس طرح محفوظ رکھتا ہے :
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اپنی دلہن (فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ) کو رخصت کرانے کا ارادہ کیا تو میں نے بَنِیْ قَیْنُقَاعْ کے ایک سنار کی شرکت سے ایک کام کرنا چاہا خیال یہ تھا کہ نفع ہوگا تو ولیمہ کر سکوں گا ! ! ١
١ بخاری شریف ص ٢٨٠ کتاب المساقاة رقم الحدیث ٢٣٧٥
صورت یہ تھی کہ غزوۂ بدر کے مالِ غنیمت سے مجھے ایک ناقة (اونٹنی) ملی تھی اور ایک اونٹنی مجھ کو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے عنایت فرمائی تھی جب میرے پاس دو اونٹ ہوگئے تو میں نے قَبِیْلَة بَنِیْ قَیْنُقَاعْ کے ایک سنار سے یہ طے کیا کہ ہم دونوں ان اونٹوں پر جنگل سے اِذْخِرْ لے آیا کریں گے اور اس کو بازار میں بیچ دیا کریں گے یہ معاملہ نفع ہی کا تھا اس میں نقصان کا سوال ہی نہیں تھا ! لیکن خدا کو منظور نہیں تھا کہ امام الاولیاء بے فکری سے ولیمہ کریں ! !
یہ زمانہ وہ تھا کہ اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی حضرت علی اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے عم محترم حضرت حمزة رضی اللّٰہ عنہ جنہوں نے غزوہ ٔ احد میں شہید ہوکر سیّد الشہداء کا خطاب (لسانِ نبوت سے) حاصل کیا وہ جیسے بہادر تھے ایسے ہی منچلے بھی تھے ! قیام گاہ پر کچھ احباب اکٹھے تھے شراب کا دور چل رہا تھا ! کسی نے کہا شراب کے ساتھ اونٹنیوں کے کوہان کے کباب بھی ہونے چاہئیں ! حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ دونوں اونٹنیاں سامنے کھڑی تھیں ! حضرت حمزہ فوراً اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان نکال لیے اور کو کھیں چاک کر کے گردے وغیرہ نکال لیے ! ! احباب کی فرمائش پوری کردی ١ مگر ولیمہ کے متعلق سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا سارا منصوبہ ختم ہوگیا ! ! اسی لیے کہتے ہیں
'' نزدیکاں را بیش بود حیرانی '' ٢
نکاح سے کچھ عرصہ بعد رخصتی :
ایک روایت ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کا نکاح پہلے ہوچکا تھا اور رخصتی نو ماہ بعد ہوئی تھی ٣ بخاری شریف کی مذکورہ بالا روایت سے اسی کی تائید ہوتی ہے
١ بخاری شریف ص ٣٢٠ و ص ٤٣٤ (وغیرہ) ٢ مقرب لوگوں کے لیے حیرانی زیادہ ہوتی ہے
٣ الاستیعاب والبدایة النہایة ج٣ ص ٣٤٦
جہیز :
تاجدار دو عالم شاہ کو نین صلی اللہ عليہ وسلم نے اپنی لخت جگر سَیِّدَةُ نِسَائِ اَھْلِ الْجَنَّةِ فَاطِمَةُ الزَّھْرَائ کو جو جہیز دیا اس کی فہرست یہ ہے ! ! ١
''ایک لحاف ، ایک چمڑے کا گدا جس میں کسی درخت کی چھال بھری ہوئی تھی !
دو چکیاں ! ایک مشکیزہ ! دو مٹی کے گھڑے '' ! !
صلٰوات اللّٰہ علیہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللہ'' صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٢٥ تا ٥٢٩ ناشر کتابستان دہلی )




ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
نرخ نامہ
٭٭٭
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500
١ الاصابة و الترغیب والترہیب باب الترغیب فی الاذکار بعد الصلوت
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے وہ مضامین جو پندرہ بیس برس قبل ماہنامہ انوار مدینہ میں شائع ہوچکے ہیں قارئین کرام کے مطالبہ اور خواہش پر ان کو پھر سے ہر ماہ سلسلہ وار ''خانقاہ حامدیہ '' کے زیر اہتمام اس مؤقر جریدہ میں بطور قندِ مکرر شائع کیا جارہا ہے !
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے (ادارہ)




میرا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ عليہ وسلم
( قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب )
٭٭٭
باسمہ سبحانہ وتعالٰی
میرا عقیدہ حیاتِ انبیاء علیہم السلام کے بارے میں وہی ہے جو اکابر دیوبند کا رہا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ
(١) ہمارے اکابر دیوبند کے شیخ المشائخ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس اللّٰہ سرہ العزیز کی معروف کتاب
'' فیوض الحرمین'' سے ان کا عقیدہ واضح ہے ! !
(٢) ان کے بعد شیخ الحدیث اوّل روحِ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی
قدس اللّٰہ سرہ العزیز کی تصنیف ''آب ِ حیات'' سے ان کا عقیدہ ظاہر ہے !
(٣) مجدد مأتة حاضرة حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس اللّٰہ سرہ العزیز کا عقیدہ ان کی کتاب
'' زُبْدَةُ الْمَنَاسِکْ '' سے واضح ہے !
یہ سب بزرگ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی ایسی حیات کے قائل تھے جسے دنیوی برزخی کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے (اور جو کچھ کلمات خطاب و توسل زُبْدَةُ الْمَنَاسِکْ میں حضرت گنگوہی نے تحریر فرمائے ہیں وہ شارح ہدایة ابنِ ہمام رحمة اللّٰہ علیہ نے فتح القدیر میں لکھے ہیں ) ١
(٤) حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے بعد حیات النبی صلی اللہ عليہ وسلم کے بارے میں ١٣٢٥ ھ میں حضرت مولانا
خلیل احمد صاحب خلیفہ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی و شیخ الحدیث مظاہر العلوم سہارنپور
شارح ابوداود و مہاجر مدینة منورة رحمة اللّٰہ علیہما نے '' اَلْمُھَنَّدْ '' میں تحریر فرمایا ہے
١ ملاحظہ ہو : فتح القدیر ج ٢ ص ٣٣٦ المقصد الثالث فی زیارة قبر النبی صلی اللہ عليہ وسلم
السوال : مَاقَوْلُکُمْ فِیْ حَیٰوةِ النَّبِیِّ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ فِیْ قَبْرِہِ الشَّرِیْفِ ھَلْ ذٰلِکَ اَمْر مَّخْصُوْص بِہ اَمْ مِثْلُ سَائِرِ الْمُؤْمِنِیْنَ رَحْمَةُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ حَیٰوتُہ بَرْزَخِیَّة
الجواب : عِنْدَنَا وَعِنْدَ مَشَائِخِنَا حَضْرَةُ الرِّسَالَةِ صلی اللہ عليہ وسلم حَیّ فِیْ قَبْرِہِ الشَّرِیْفِ وَحَیٰوتُہ صلی اللہ عليہ وسلم دُنْیَوِیَّة مِنْ غَیْرِ تَکْلِیْفٍ وَھِیَ مُخْتَصَّة بِہ صلی اللہ عليہ وسلم وَبِجَمِیْعِ الاَنْبِیَائِ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وَالشُّھَدَائِ لَا بَرْزَخِیَّة کَمَا ھِیَ حَاصِلَة لِسَائِرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بَلْ لِجَمِیْعِ النَّاسِ کَمَا نَصَّ عَلَیْہِ الْعَلَّامَةُ السُّیُوْطِی فِیْ رِسَالَتِہ
'' اِنْبَائُ الاَذْکِیَائِ بِحَیٰوةِ الاَنْبِیَائِ'' حَیْثُ قَالَ ، قَالَ الشَّیْخُ تَقِیُ الدِّیْنِ السُّبْکِیُّ حَیٰوةُ الاَنْبِیَائِ وَالشُّھَدَائِ فِی الْقَبْرِ کَحَیَاتِھِمْ فِی الدُّنْیَا وَیَشْھَدُ لَہ صَلٰوةُ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ قَبْرِہ فَاِنَّ الصَّلٰوةَ تَسْتَدْعِیْ جَسَدًا حَیًّا اِلٰی اٰخِرِ مَا قَالَ
فَثَبَتَ بِھٰذَا اَنَّ حَیٰوتَہ دُنْیَوِیَّة بَرْزَخِیَّة لِکَوْنِھَا فِیْ عَالَمِ الْبَرْزَخِ
وَلِشَیْخِنَا شَمْسِ الْاِسْلَامِ وَالدِّیْنِ قَاسِمُ الْعُلُوْمِ عَلَی الْمُسْتَفِیْدِیْنَ مُحَمَّدْ قَاسِمُ قَدَّسَ اللّٰہُ سِرَّہُ الْعَزِیْزُ فِیْ ھٰذَا الْمَبْحَثِ رِسَالَة مُسْتَقِلَّة دَقِیْقَةُ الْمَأخَذِ بَدِیْعَةُ الْمَسْلَکِ لَمْ یُرَ مِثْلُھَا قَدْ طُبِعَتْ وَشَاعَتْ فِی النَّاسِ وَاسْمُہَا '' اٰبِ حَیَاتْ '' اَیْ '' مَائُ الْحَیَاتِ '' ١
جس کا ترجمہ یہ ہے
سوال : آپ حضرات جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی قبر میں حیات کے متعلق کیا فرماتے ہیں کیا ؟ آپ کو کوئی خاص حیات حاصل ہے یا عام مسلمانوں کی طرح برزخی حیات ہے ؟ ؟
جواب : ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے (یعنی آپ باشعور ہیں ) البتہ دنیا میں جس طرح مکلف تھے اب مکلف نہیں ہیں ! اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت اور تمام انبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ، حیات کی یہ قسم محض برزخی نہیں ہے
١ عقائد علمائے دیوبند ( اَلْمُھَنَّدْ ) ص ٢٢١ مطبوعہ دارالاشاعت کراچی
جو حاصل ہے تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو جیسا کہ علامہ سیوطی رحمة اللّٰہ علیہ نے اپنے رسالہ '' اِنْبَائُ الاَذْکِیَائِ بِحَیٰوةِ الاَنْبِیَائِ'' میں بتصریح لکھا ہے وہ فرماتے ہیں
علامہ تقی الدین سُبکی نے فرمایا ہے کہ انبیاء و شہداء کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور موسٰی علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے الخ
پس اس سے ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کی حیات دنیوی ہے اور برزخی ہے ١ کیونکہ یہ عالم برزخ میں جاری اور حاصل ہے اور ہمارے شیخ حضرت محمد قاسم صاحب قدس سرہ' کا اس مبحث میں ایک مستقل رسالہ بھی ہے جس کا مأخذ نہایت دقیق ہے اور وہ انوکھے طرز کا بے مثل ہے جو طبع ہوکر لوگوں میں شائع ہوچکا ہے اس کا نام ''آب ِ حیات'' ہے ! ! !
'' اَلْمُھَنَّدْ '' کے مندرجات کی صحت پر علمائِ حرمین بلکہ دنیا بھر کے اساطینِ امت کے دستخط ہیں اور اس کے مضامین کی تصدیقات و تقاریظ تحریر ہیں سب سے پہلے دستخط حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب اسیر مالٹا ،خلیفہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب و جانشین حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نور اللّٰہ قبورہم کے ہیں پھر حضرت نانوتوی قدس سرہ' کے تلمیذ ِ خاص حضرت مولانا سیّد احمد حسن صاحب امروہی کے
اور حضرت مفتی عزیز الرحمن مفتی دارالعلوم دیوبند ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب
رائپوری خلیفۂ حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی، مولانا حکیم محمد حسن صاحب دیوبندی برادر حضرت شیخ الہند، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب وغیرہم علماء بلادِ ہند کی تصدیقات درج ہیں ! !
١ جمہور اہلِ سنت کا حیات النبی کے نام سے جو عقیدہ ہے وہ فقط یہ ہے کہ یہ حیات عالم برزخ میں ہوتی ہے (یعنی روح مبارک کا اپنے مستقر اعلٰی علییّن میں رہتے ہوئے جسم مبارک کے ساتھ ایسا قوی ترین تعلق ہو کہ )اس کے جسمِ مبارک سے قوی ترین تعلق کی بناء پر آپ عالمِ برزخ میں اس جسمِ مادی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور قبر مبارک پر جو سلام پڑھاجائے وہ سنتے ہیں (اگرچہ اس حسّی اور مادی عالم میں وہ ہمیں نماز پڑھتے ہوئے نظر نہ آئیں ) اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی حیات دنیا کی سی ہے ! (مفتی اعظم پاکستان) عبدالواحدغفرلہ مدرس جامعہ مدنیہ جدید ( شعبان ١٤٣١ھ/جولائی ٢٠١٠ئ)
پھر علمائے مکہ مکرمہ کی تصدیقات ہیں پھر علماء و مفتیانِ کرام مدینہ منورہ کی طویل تحریرات وتصدیقات ہیں اور علماء شام میں علامہ شامی رحمة اللّٰہ علیہ کی اولاد میں محمد ابوالخیر ابن عابدین کی تصدیق بھی ہے اور دیگر علماء شام کی بھی، جامعة الازہر اور مصری علماء کی بھی، یہ سب'' اَلْمُھَنَّدْ '' میں ہے ہر شخص دیکھ سکتا ہے
(٥) ان حضرات کے بعد اُستاذنا المحترم شیخ العرب والعجم حضرت مولانا السیّد حسین احمد المدنی
نوراللّٰہ مرقدہ جنہوں نے دارالعلوم دیوبند میں ایک ثلث صدی درسِ حدیث دیا اپنی کتاب ''نقشِ حیات'' میں یہ مضمون تحریر فرماتے ہیں
''(علماء ِدیوبند) وفات ِظاہری کے بعد انبیاء علیہم السلام کی حیات ِ جسمانی اور بقائِ علاقہ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجِسْمِ کے مثبِت ہیں اور بڑے زور شور سے اس پر دلائل قائم کرتے ہوئے متعدد رسائل اس بارہ میں تصنیف فرماکر شائع کرچکے ہیں
رسالہ ''آبِ حیات'' نہایت مبسوط رسالہ خاص اسی مسئلہ کے لیے لکھا گیا ہے
نیز ہَدِیَّةُ الشِّیْعَةْ ، اَجْوِبَۂْ اَرْبَعِینْ حصہ دوم اور دیگر رسائل مطبوعہ
مصنفہ حضرت نانوتوی قدس اللہ سرہ العزیز اس مضمون سے بھرے ہوئے ہیں '' ١
غرض اکابر دیوبند کا جو اہلِ سنت والجماعت حنفی ہیں سب کا یہی عقیدہ چلا آرہا ہے اور یہی میرا عقیدہ ہے !
(٦) جناب شیخ محمد بن عبدالوہاب النجدی کے صاحبزادے جناب شیخ عبد اللّٰہ بن محمد
بنعبد الوہاب لکھتے ہیں
وَالَّذِیْ نَعْتَقِدُہ اَنَّ رُتْبَةَ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صلی اللہ عليہ وسلم اَعْلٰی مَرَاتِبِ الْمَخْلُوْقِیْنَ عَلَی الْاِطْلَاقِ وَاَنَّہ حَیّ فِیْ قَبْرِہ حَیَاةً بَرْزَخِیَّةً اَبْلَغُ مِنْ حَیَاةِ الشُّھَدَائِ الْمَنْصُوْصِ عَلَیْہَا فِی التَّنْزِیْلِ اِذْ ھُوَ اَفْضَلُ مِنْھُمْ بِلَارَیْبٍ وَاَنَّہ یَسْمَعُ سَلَامَ الْمُسَلِّمِ عَلَیْہِ ٢
١ نقش ِحیات ج ١ ص ١٠٣ ٢ رِسَالَةُ الشَّیْخِ عَبْدُ اللّٰہِ ص ٤١
''اور جو ہم اعتقاد رکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم کا مرتبہ تمام مخلوقات سے علی الاطلاق اعلیٰ ترین رتبہ ہے ! اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو اپنی قبر مبارک میں برزخی حیات حاصل ہے جو شہداء کی حیات سے بڑھ کر ہے جسے قرآنِ پاک میں بیان فرمایا گیا ہے کیونکہ آپ شہداء سے بلاشبہ افضل ہیں اور یہ عقیدہ ہے کہ آپ سلام کرنے والے کا سلام سنتے ہیں ''
شیخ عبد اللّٰہ نے'' اَبْلَغُ مِنْ حَیَاةِ الشُّھَدَائِ ''کا جملہ استعمال کیا ہے جیسے کہ سمجھانے کے لیے '' اَلْمُھَنَّدْ '' وغیرہ میں بھی حیات ِ دنیویہ کے الفاظ لکھے گئے ہیں
حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی مدظلہم نے اپنے ایک مضمون میں اس رسالہ کے اقتباسات دیے ہیں پھر یہ مضمون دارالعلوم دیوبند کے پندرہ روزہ عربی رسالہ ''الداعی''میں بالاقساط شائع ہوا ،
مذکورہ بالا عبارت '' الداعی'' ٢٥ جنوری ١٩٧٨ء کے شمارہ سے لی گئی ہے۔ بہرحال یہی وہ مسلک ہے جس پر علمائِ امت کا اتفاق چلا آرہا ہے
نوٹ : یہ امر بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ابنِ تیمیة علی الاطلاق سِماع موتٰی کے قائل تھے اور انتقال یا دفن کے بعد میت کو تلقین کرنے سے بھی منع نہ کرتے تھے ، وہ لکھتے ہیں :
وَقَدْ ثَبَتَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ عليہ وسلم قَالَ لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَتَلْقِیْنُ الْمَیِّتِ سُنَّة مَامُوْربِھَا وَقَدْ ثَبَتَ اَنَّ الْمَقْبُوْرَ یُسْأَلُ وَیُمْتَحَنُ وَاَنَّہ یُؤْمَرُ بِالدُّعَائِ لَہ فَلِھٰذَا قِیْلَ اِنَّ التَّلْقِیْنَ یَنْفَعُہ فَاِنَّ الْمَیِّتَ یَسْمَعُ النِّدَائَ کَمَا ثَبَتَ فِی الصَّحِیْحِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم اَنَّہ قَالَ '' اِنَّہ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ'' وَاَنَّہ قَالَ مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُوْلُ مِنْہُمْ وَاَنَّہ اَمَرَنَا بِالسَّلَامِ عَلَی الْمَوْتٰی فَقَالَ مَا مِنْ رَجُلٍ یَمُرُّ بِقَبْرِ الرَّجُلِ کَانَ یَعْرِفُہ فِی الدُّنْیَا فَیُسَلِّمُ اِلَّا رَدَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ رُوْحَہ حَتّٰی یَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ ١
١ فتاوٰی ابنِِ تیمیة ج١ ص ٢٨٩
''بخاری اور مسلم شریف میں یہ حدیث صحیح آئی ہے کہ جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنے مُر دوں کو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی تلقین کیا کرو لہٰذا میت کی تلقین سنت ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ قبر میں تدفین کے بعد میت سے سوال ہوتا ہے اس کا امتحان ہوتا ہے اور یہ ہے کہ اس کے لیے دعا کے واسطے کہنا چاہیے ، اسی لیے کہا گیا ہے کہ تلقین میت کو فائدہ پہنچاتی ہے کیونکہ میت آواز سنتا ہے جیسا کہ صحیح روایت (بخاری) میں آیا ہے کہ وہ بلاشبہ ان کے جوتوں کی چاپ (اپنی قبر میں سے) سنتا ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں جو کچھ ان (بدر میں تین روز قبل ویران کنویں میں ڈالے گئے مقتول کافروں ) سے کہہ رہا ہوں وہ تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے !
اور آپ نے ہمیں مُردوں کو سلام کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو کوئی آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرتا ہے اور صاحب قبر کو سلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ (قبر میں ) اس پر اس کی روح لوٹا دیتے ہیں حتی کہ وہ اس کے سلام کا جواب دیتا ہے''
لیکن ابنِ تیمیة رحمہ اللّٰہ سِماعِ موتٰی کے اسی حد تک قائل ہیں جتنا حدیث شریف میں بتلایا گیا ہے
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہ
کتبہ
(ا) سیّد حامد میاں غفرلہ ٢٣ ذی الحجہ١٤٠٠ھ / ٢ نومبر ١٩٨٠ء یکشنبہ
(٢) عبد الحمید غفرلہ' مفتی و مدرس جامعہ مدنیہ لاہور و فا ضلِ دار العلوم دیوبند
(٣) محمد کریم اللہ غفرلہ' مدرس جامعہ مدنیہ لاہور و فا ضلِ دار العلوم دیوبند
(٤) ظہور الحق(دامانی) مدرس جامعہ مدنیہ لاہور
(٥) عبد الرشید عفی عنہ مدرس جامعہ مدنیہ لاہور
ضمیہ : بجواب مولانا نصیب اللہ خان صاحب سواتی وارد حال گوجرانوالہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آپ نے جو مسئلہ دریافت فرمایا ہے وہ آج کل پھر اٹھا ہوا ہے ! علمائِ کرام نے دو بحثیں جدا جدا کردی ہیں ایک کا تعلق انبیاء کرام سے ہے اور دوسری کا تعلق غیر انبیاء سے ہے
جنگ ِ بدر کے بعد جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے مُردہ کافروں سے خطاب فرمایا ہے یہ روایت بخاری شریف میں ہے ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس سے سِماعِ موتٰی کے ثبوت پر استدلال فرماتے تھے
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نفی فرماتی تھیں اور ان کا استدلال ( اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی ) ١ سے تھا جب دو صحابیوں کا اختلاف ہوا تو ان میں سے جس کے قول کو بھی کوئی اختیار کرے باطل نہ ہوگا ٹھیک ہوگا !
(دوسری طرف سِماعِ موتٰی کے قائل حضرات( اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی ) سے سِماعِ موتٰی ثابت کرتے ہیں جیسا کہ رسائل میں لکھا گیا ہے !
انبیاء کی خصوصیت :
لیکن انبیائِ کرام کی خصوصیت الگ احادیث سے ثابت ہے مثلًایہ ہے کہ توجہ اِلی اللہ بدرجۂ کمال مع شعور بعد الوفات بھی جاری رہتی ہے ، اَلاَنْبِیَائُ اَحْیَائ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ
انبیاء کرام زندہ ہیں وہ اپنی قبروں میں حالت ِنماز میں (مناجات رب میں ) مصروف رہتے ہیں !
شب ِمعراج حضرت آدم ، حضرت موسٰی ، حضرت ابراہیم اور دیگر انبیاء کرام( علیہم السلام ) کی گفتگو اور بعض کے کام بھی صحیحین میں موجود ہیں یہ روایتیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ انبیاء کرام کا حال وفات کے بعد غیر انبیاء سے مختلف ہوتا ہے ! !
١ سُورة النمل : ٤٢
موت کیا ہے ؟ موت اور نیند میں فرق ! !
''موت'' نام ہے جسم سے روح کا اس طرح منفصِل ہوجانے کا کہ دوبارہ اس کا تعلق بالجسم قیامت سے پہلے ایسا نہ ہوسکے جیسے اس انفصال سے پہلے تھا اگر ایسا تعلق دوبارہ ہوجائے تو اس انفصال کو'' نیند'' کہا جائے گا ورنہ وفات اور موت کہا جائے گا ( اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا
وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّٰی ) ١
اور اس معنی میں وفات ِ انبیاء کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا ورنہ انبیاء کرام کی تدفین جائز نہ ہوتی حالانکہ تدفین کی گئی ہے یہی ( اِنَّکَ مَیِّت ) ٢ اور ( قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ) ٣ میں مراد ہے !
اور ( لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْبَعْضَ یَوْمٍ ) ٤ فرمانے میں حضرت عزیر علیہ الصلٰوة والسلام نے جو محسوس کیا وہی بتلایا اور جو محسوس کیا وہ صحیح تھا کیونکہ موت کے بعد روح کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتا ہے وہاں زمانہ کا پیمانہ یہی ہے ( اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) ٥ (وہاں کا)ایک دن (یہاں کے)ایک ہزار سال کا ہوا تو سوسال ایک دن کا کچھ حصہ ہی ہوں گے ! !
آنسٹائن کی حسابی تحقیق بھی یہ تھی کہ دوسرے کروں پر زمانہ کا اتنا زیادہ فرق ہے کہ اگر کبھی اہلِ زمین دوسرے کروں پر جائیں تو انہیں اپنے دوستوں سے مل کر جانا چاہیے کیونکہ دوسرے کرے میں وہ بہت تھوڑا عرصہ گزار کر جب واپس آئیں گے تو دنیا میں ستر سال گزر چکے ہوں گے اور دوست مرچکے ہوں گے !
اب جس عالم میں حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں وہاں بھی اسی قدر تفاوت زمانہ و کیفیات ہے وہ حمام سے غسل کرکے نکلے تھے واقعہ معراج تک ان کی ایسی ہی حالت تھی کَاَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِیْمَاسٍ ٦
اور یَقْطُرُ رَأْسُہ مَائً ٧ سر سے پانی کے قطرات ٹپکتے جیسے لگ رہے تھے اور دنیا میں دو بارہ آنے
کے وقت بھی یہی حال بتلایا گیا ہے ! ! اس لیے حضرت عزیر علیہ السلام کے اس جواب سے
١ سُورة الزمر : ٤٢ ٢ سُورة الزمر : ٣٠ ٣ سُورة الِ عمران : ١٤٤ ٤ سُورة البقرة : ٢٥٩
٥ سُورة الحج : ٤٧ ٦ صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء رقم الحدیث ٣٣٩٤
٧ صحیح البخاری رقم الحدیث ٥٧١ و ٣٤٤٠
یہ استدلال تو کیا جا سکتا ہے کہ انہیں زمانہ گزرنے کا احساس نہیں ہوا یا اس عالم کے زمانے کا پیمانہ اور ہے (مگر) عدمِ سماع کا استدلال نہیں کیا جاسکتا ! !
میرے پاس وقت نہیں ہوتا اس لیے معذرت کے ساتھ اسی قدر پر اکتفاء کرتا ہوں ! !
عنایت اللہ شاہ صاحب مقلد نہیں ہیں جو غیر مقلد ہو وہ خود کومجتہد مانتا ہے ! ! ممکن ہے کہ وہ خود ہی کسی وقت بدل جائیں ! ! !
والسلام
حامد میاں غفرلہ
٣ صفر١٤٠٢ھ / یکم دسمبر ١٩٨١ء سہ شنبہ




جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی امور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے




قسط : ٢١
تربیت ِ اولاد
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
اولاد کی اصلاح کے لیے صحبت ِصالح کی ضرورت :
اولاد کے لیے ایک وقت مقرر کیجیے کہ فلاں مسجد میں فلاں بزرگ کے پاس جاکر کچھ دیر بیٹھا کریں کس قدر افسوس کی بات ہے کہ فٹ بال کھیلنے کے لیے وقت ہو اور اخلاق کی درستگی کے لیے وقت نہ نکل سکے ! !
اور اگر شہر میں کوئی ایسا شخص نہ ہو تو چھٹی کے زمانے میں کسی بزرگ کی خدمت میں بھیج دیا کرو چھٹی کے زمانہ میں توان کو کچھ کام نہیں ہو تا ،کم بخت دن رات مارے مارے پھرتے ہیں ! (طریق النجاة)
حاصل یہ کہ بچوں کے لیے اللہ والوں کی صحبت کا بھی انتظام کیجیے اور دینی تعلیم کا بھی سلسلہ رکھیے ! !
اور پھر اس پر عمل بھی کرائیے اصلاح کی یہ اجمالی تدبیر ہے اور یہ دستور العمل زندگی بھر کے لیے ہے ! !
شفقت کے مقتضی اور بیٹے کو نصیحت کرنے کا طریقہ :
نصیحت کرنے والا ایک تو استاد ہو تا ہے اور ایک باپ ہوتا ہے ! باپ کی نصیحت میں اور عام لوگوں کی نصیحت میں فرق ہوتا ہے ،استاد تو محض ضابطہ کی خانہ پوری کرتا ہے مگر باپ محض خانہ پوری نہیں کرسکتا وہ نصیحت کرتے ہوئے اس کا خیال رکھتا ہے کہ بیٹے کو ایسے عنوان اور ایسے طرز سے نصیحت کروں جو اس کے دل میں اتر جائے کیونکہ وہ دل سے یہ چاہتاہے کہ بیٹے کی اصلاح ہوجائے اور اس میں کوئی کمی نہ رہ جائے ! اور اگر وہ کوئی مشکل کام بھی بتلاتا ہے تو اس کا طریقہ ایسا اختیار کرتا ہے جس سے بیٹے کو عمل کرنا آسان ہوجائے ! اور ان سب رعایتوں کی وجہ وہی شفقت ہے ! شفقت ہی سے تمام پہلوؤں کی رعایت کی جاسکتی ہے اور اسی لیے باپ کا کلام نصیحت کے وقت کبھی بے ترتیب اور بے جوڑ بھی ہو جاتا ہے ! !
مثلاً باپ بیٹے کو کھانا کھاتے وقت نصیحت کرے کہ بری صحبت میں نہ بیٹھا کرے اور اس مضمون پر وہ مفصل گفتگو کررہا ہو ، اسی درمیان میں اس نے دیکھا کہ بیٹے نے ایک بڑا سالقمہ کھانے کولیا ہے تو وہ فوراً پہلی نصیحت کو ختم کرکے کہے گا کہ یہ کیا حرکت ہے لقمہ بڑا نہیں لیا کرتے ! اس کے بعدپھر پہلی بات پرگفتگو شروع کرد ے گا اب جس کو شفقت کی اطلاع نہ ہو وہ کہے گا کہ یہ کیسا بے ترتیب (بے جوڑ) کلام ہے ، بری صحبت سے منع کرنے میں لقمہ کا کیاذکر ؟ مگرجو شخص کسی کا باپ بناہے وہ جانتا ہے کہ یہ بے جوڑکلام مرتب کلام سے افضل ہے ! شفقت کا مقتضیٰ یہی ہے کہ ایک بات کرتے ہوئے اگر دوسری بات کی ضرورت ہو تو رابطہ (جوڑ)کا لحاظ نہ کرے دوسری بات کو بیچ میں کرکے پھر پہلی بات کو پورا کرے ! ! (سبیل النجاح ملحقہ دین ودنیا)
اولاد کی پرورش کرنے اور نان ونفقہ دینے کا شرعی ضابطہ :
اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی،دوحال سے خالی نہیں
ایک صورت تویہ ہے کہ وہ مالدار ہوں یعنی کسی طریقہ سے وہ مال کے مالک ہوگئے ہوں خواہ بطورِ ہبہ کے یا بطورِ میراث کے ! سو اس حالت میں تو ان کا نان ونفقہ خود ان کے مال میں واجب ہے ، والدین کے ذمہ میں صرف انتظام کرنا ہے !
دوسری صورت یہ ہے کہ وہ مالدار نہ ہوں ! پھر اس مالدار نہ ہونے کی حالت میں دو صورتیں ہیں
ایک صورت یہ کہ وہ بالغ (پندرہ سال کے) ہوں ! دوسری صورت یہ کہ وہ نابالغ ہوں !
بالغ ہونے کی صورت میں دو احتمال ہیں :
ایک احتمال یہ ہے کہ وہ اپنے لیے محنت ومزدوری نوکری چاکری کرسکتے ہیں (یعنی خود کھا کما سکتے ہوں )
اس صورت میں بھی خود ان کا نان ونفقہ ان ہی کے ذمہ ہے ، ماں باپ کے ذمہ نہیں ! !
دوسرا احتمال یہ ہے کہ وہ کھانے کمانے پر قادر نہیں ! اس صورت میں ان کا حکم نابالغ کی طرح ہے جو آگے آرہا ہے ! یہ دونوں احتمال تو بالغ ہونے کی صورت میں تھے
اور نابالغ ہونے کی صورت میں دو صورتیں ہیں :
ایک صورت یہ کہ باپ زندہ ہو ، دوسری صورت یہ ہے کہ باپ زندہ نہ ہو !
اگر باپ زندہ ہو تو صرف باپ کے ذمہ نان ونفقہ ہے ماں کے ذمہ کچھ بھی نہیں البتہ دودھ پلانا فتویٰ کی رو سے ماں کے ذمہ واجب ہے اور بروئے حکم وقضاء جبرنہ ہوگا ! اگر بچہ کسی اور کا دودھ نہ پئے اس وقت ماں پر جبر بھی کیا جائے گا ! اور اگر باپ زندہ نہ ہو تو ماں کے ذمہ (نفقہ)واجب ہے !
اور (اگر ایسی صورت میں یعنی جبکہ باپ زندہ نہ ہو)بچہ کے اقارب ذی رحم(رشتہ دار)زندہ ہوں تو سب پر تقسیم ہو گا ! ان سب صورتوں کی دلیل دُرمختارکی عبارت ہے (امدادالفتاوٰی)
لڑکے اورلڑکی کی شادی کر نابا پ کے ذمہ واجب ہے یا نہیں ،تا خیر کرنے سے کتنا گنا ہ ہو گا ؟
سوا ل : لڑکیوں کی شادی کرنے کاکوئی تاکید ی حکم خاص طورپرہے یا نہیں ؟ اور تاخیر کی صورت میں کوئی گنا ہ لازم آتاہے یا نہیں ؟ اگر لازم آتاہے تو کس قدر ؟ نص ِقرآنی وحدیث سے علیحدہ علیحدہ جواب دیں !
جواب : شادی کا تاکیدی حکم قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی عام طور سے ہے جو کہ لڑکا لڑکی دونوں کو شامل ہے ! اور لڑکیوں کے لیے خصوصیت سے بھی قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ( اَنْکِحُوا لْاَیَامٰی مِنْکُمْ ) یہ امر کا صیغہ ہے جس کا مدلول وجوب ہے اور اَیامی جمع اَیم کی ہے شارح حدیث نے تشریح کی ہے
اَلْاَیِّمُ مَنْ لَّازَوْجَ لَھَا بِکْرًا کَانَتْ اَوْ ثَیِّبًا وَیُسَمَّی الرَّجُلُ الَّذِیْ لاَ زَوْجَةَ لَہ اَیِّمًا اَیْضًا
قرآن پاک کی آیت کاترجمہ یہ ہے کہ تم لوگ اَیَامٰی کانکاح کردیا کرو اور اَیَامٰی اَیِّمْ کی جمع ہے جس کامطلب یہ ہے کہ ایسی لڑکی جس کا شوہر نہ ہو خواہ باکِرة ہو یا ثَیِّبة یعنی کنواری ہو یا بیاہی !
اسی طرح اَیِّمْ اس مرد کو بھی کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو !
اب رہ گئی حدیث تو مشکوة المصابیح باب تعجیل الصلٰوة میں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے
اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ عليہ وسلم قَالَ یَا عَلِیُّ ثَلَاث لَا تُؤَخِّرْھَا الصَّلٰوةُ اِذَا اَتَتْ ، وَالْجَنَازَةُ اِذَا حَضَرَتْ وَالْاَیِّمُ اِذَا وَجَدَتَّ لَھَا کُفْؤًا ١
''حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو : ایک تونماز جب اس کاوقت آجائے ! دوسرے جنازہ میں جب وہ تیار ہوجائے !
تیسرے بے نکاح لڑکے اور لڑکی کی شادی میں جبکہ جوڑ مل جائے''
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم مَنْ وَّلَد لَہ وَلَد فَلْیُحْسِنِ اسْمَہ وَاَدَّبَہ فَاِذَا بَلَغَ فَلْیُزَوِّجْہُ فَاِنْ بَلَغَ وَلَمْ یُزَوِّجْہُ فَاَصَابَ اِثْمًا فَاِنَّمَا اِثْمُہ عَلٰی اَبِیْہِ ٢
''حضور صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کی اولاد (لڑکا یا لڑ کی) ہو اس کو چاہیے اچھا نام رکھے اور اس کی تعلیم و تربیت کرے جب بالغ ہوجائے تو نکاح کرے، بالغ ہونے کے بعد اگر نکاح نہیں کیا اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوگئے تو اس کا گناہ باپ پر ہوگا''
١ سُنن الترمذی رقم الحدیث ١٧١ ، ١٠٧٥ و مشکٰوة المصابیح رقم الحدیث ٦٠٥
٢ مشکٰوة المصابیح کتاب النکاح باب الولی فی النکاح رقم الحدیث ٣١٣٨
ان روایات سے اس علم کامؤکدہ ہونامعلوم ہوا اور مؤکدہ ضروری کا ترک کرنا موجب ِمواخذہ (عذاب کاباعث ) ہوتا ہے ! ! اور ان حدیثوں سے گناہوں کی مقدار بھی معلوم ہوگئی کہ تاخیر کی صورت میں جس گناہ میں یہ اولاد مبتلا ہوگی خواہ نگاہ کاگناہ ہو یا کان کا گناہ ہو یازبان کا یا دل کا ،اتناہی گناہ اس صاحب ِاولاد یعنی باپ کو ہوگا
واللّٰہ اعلم ( امدادالفتاویٰ) (جاری ہے)
٭٭٭




مقالاتِ حامدیة
قرآنیات

٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر
حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب نور اللہ مرقدہ
خلیفہ و مجاز شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
بانی جامعہ مدنیہ جدید و جامعہ مدنیہ قدیم و خانقاہِ حامدیہ
و سابق امیرِ مرکزیہ جمعیة علماء اسلام
٭٭٭
تخریج ، نظرثانی و عنوانات
حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم
رئیس و شیخ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید و سجادہ نشین خانقاہِ حامدیہ
( قیمت : 500 )
مکتبہ الحامد




قسط : ٥ ، آخری
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب
( حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رحمة اللہ علیہ )
٭٭٭
اب ہم حضراتِ منکرین کے ان دلائل کی طر ف متوجہ ہوتے ہیں جو اس بارے میں ان کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں :
مبحث ہفتم
٭٭٭
منکرین کے دلائل یا شبہات :
ابتدائی تمہیدی سطروں میں عرض کیا جا چکا ہے کہ اس مسئلہ میں منکرین کو چند آیات سے بھی مغالطہ لگا ہے اور اس لیے وہ اپنی غلط فہمی سے اس انکار کو قرآن پاک کی طرف منسوب کرتے ہیں ان آیات پر ہم کو تفصیل سے کلام کرنا ہے لیکن اس سے پہلے ان کے ایک دو اصولی شبہوں کا جواب دے دینا مناسب معلوم ہوتا ہے جن کو وہ خود بھی پہلے نمبر پر پیش کیا کرتے ہیں
پہلا شبہ : یہ ہے کہ قرآن مجید میں کہیں ایصالِ ثواب کی تعلیم نہیں دی گئی اور جس چیز کے متعلق قرآن خاموش ہے اور اس کا تعلق عقائد یا عبادات سے کہا جاتا ہے تو پھر وہ چیز دین میں ( لَمْ یَکُنْ شَیْأً مَّذْکُوْرًا ) کا حکم رکھتی ہے اور بالکل بے اصل چیز ہے ١
حیرت ہے کہ اتنا بڑا اور اتنا اہم دعویٰ کتنی سادگی اور بے پرواہی سے کر دیا گیا ہے خیال ایسا ہوتا ہے کہ شاید اس عبارت کے حوالہ قلم کرتے وقت صاحب مضمون سے الفاظ کے لیے انتخاب میں غیر ارادی طور پر چوک ہو گئی ہے ورنہ غالباً ان کا مقصد اتنا عام دعویٰ کرنا نہ ہوگا جس سے دین کی ساری عمارت ہی درہم برہم ہو جاتی ہو !
١ انکارِ ایصال ثواب پر رجب شعبان١٣٦٢ھ کے ''الفرقان'' میں صوبہ بہار کے ایک صاحب کا مضمون شائع ہوا تھا یہ اسی کا اقتباس ہے ! سُورة القیامة : ١
اور چیزوں کو جانے دیجیے جیسے صرف نماز ہی کو لے لیجئے جو دین کا رُکن رکین اور افضل ِعبادات ہے سب جانتے ہیں کہ قرآن میں تو صراحتاً یا اشارةً یہ بھی مذکور نہیں ہے کہ فجر میں اتنی رکعت پڑھی جائیں ، ظہر میں اتنی ،عصر میں اتنی اور مغرب و عشاء میں اتنی اتنی نیز قرآن اس سے بھی خاموش ہے کہ ایک ایک وقت کی نماز میں کتنے رکوع ہوں ،کتنے سجدے ،کتنے قعدے اور پھر کہاں کہاں کیا کیا پڑھا جائے ؟ ؟ اور ظاہر ہے کہ ان سب سوالات کا تعلق اعلیٰ درجہ کی عبادت نماز ہی سے ہے اور قرآن ان تمام امور سے خاموش ہے (ہاں احادیث اور اسوۂ رسول سے یہ سب چیزیں معلوم ہوتی ہیں اور اسی پر ساری امت کے عمل کی بنیاد ہے) تو اگر نئی روشنی کے اجتہاد کے اس دعوے کو تسلیم کر لیا جائے کہ
'' جس چیز کے متعلق قرآن خاموش ہے اور اس کا تعلق عقائد یا عبادات سے ہے تو پھر وہ چیز دین میں ( لَمْ یَکُنْ شَیْأً مَّذْکُوْرًا ) اور بالکل بے اصل ہے''
تو نماز تک کی کوئی متعین شکل نہیں ہو سکتی ہے العیاذ باللّٰہ !
جیسا کہ عرض کیا گیا بہت ممکن ہے کہ جن صاحب نے مسئلہ ایصال ثواب پر کلام کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں ان کی مراد اتنی عام نہ ہو لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہ گمراہی سخت جاہلانہ ہونے کے باوجود آج کل عام ہے اور کتنے ہی بی اے ایم اے پاس قسم کے نئی روشنی کے مجتہدین ہیں ١ جو اس قسم کے مضامین پڑھ پڑھ کر ہی دین کے ساتھ تلاعب کرتے رہتے ہیں اگر اس قسم کی علمی بدتمیزی کے عبرت ناک مثال دیکھنی ہو تو پنجاب کے ایک منکر حدیث صاحب کا صرف ایک رسالہ'' صلٰوة المرسلین ''دیکھنا کافی ہوگا جو کئی سال ہوئے ان صاحب نے ''نظامی پریس بدایوں '' میں چھپوا کر شائع کیا تھا جس میں مسلمانوں کی نماز کو غیر قرآنی بلکہ قطعاً خلاف ِقرآن ثابت کرنے کے بعد اپنی طرف سے نماز کا ایک نیا طریقہ اس دعوے کے ساتھ پیش کیا تھا کہ یہی قرآنی نماز ہے اور انبیا و مرسلین بس ایسی ہی نماز پڑھا کرتے تھے !
بہرحال اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ عقائد و عبادات کے متعلق جو چیز قرآن میں مذکور نہ ہو وہ دین میں بے اصل ہے تو سارا دن ایک متعین دستورِ حیات ہونے کے بجائے آوارگانِ عصر کی آرزئوں کے مطابق محض ایک مبہم فلسفہ ہو کر رہ جائے گاجس کی نہ نماز متعین ہوگی نہ روزہ نہ کچھ اور ! مجھے معلوم ہے کہ جن صاحب کی عبارت اوپر منقول ہوئی ہے وہ خود اس خیال کے نہیں ہیں بلکہ نماز وغیرہ کے جو ارکان اور تفصیلات صاحب ِنبوت صلی اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہیں وہ ان سب کو واجب الاتباع جانتے ہیں پس ان سے عرض کرنا یہ ہے کہ جب نماز کے ارکان اور اس کے متعلق دیگر ضروری چیزوں سے قرآن مجید کے خاموش ہونے کے باوجود ارشاداتِ نبوی اور اسوۂ نبوی سے ہم یہ چیزیں لیتے ہیں اور ان کو حجت ِدین سمجھتے ہوئے واجب العمل جانتے ہیں تو پھر اسی سرچشمہ سے اگر ایصالِ ثواب جیسے مسائل معلوم ہوں حالانکہ ان کی اہمیت کو نماز اور اس کے متعلقات کی اہمیت سے کوئی نسبت نہیں ہے تو پھر وہ کیوں قابلِ اتباع نہ ہوں گے ؟ !
علیٰ ہذا یہ حضرات اس سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ بہت سی حرام غذائوں کی حرمت کے بیان سے قرآن خاموش ہے حتی کہ کتے کی حرمت بھی قرآن شریف میں کہیں صاف بیان نہیں کی گئی ہے ! ! اور یہ سب چیزیں صاحب ِنبوت صلی اللہ عليہ وسلم ہی کے ارشادات اور آپ کے اسوہ ہی سے معلوم ہوتی ہیں اور اس بارے میں جو کچھ آپ سے ثابت ہو جائے وہ سب واجب الاتباع ہے تو ایصالِ ثواب جیسے مسائل میں قرآن مجید اگر خاموش ہو لیکن سنت ِنبوی ناطق ہو تو کیوں وہ احکامِ نبوی واجب الاتباع نہ ہوں گے ! اگر صحیح غور و فکر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں کوئی اور درمیانی راہ نہیں ہے صرف دو ہی راہیں ہیں :
ایک یہ کہ مَا جَآئَ مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ یعنی وحی الٰہی کو صرف قرآن میں منحصر مانا جائے اور صاف کہہ دیا جائے کہ جو چیز قرآن میں نہیں ہے وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہے اس اصول پر تو ہر اس چیز کے امر دینی سے انکار ہی کرنا صحیح ہوگا جو قرآن میں بیان نہ کی گئی ہو خواہ وہ کسی باب کی ہو ! !
اور دوسری رائے یہ ہے کہ مَا جَآئَ مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ کو قرآن میں منحصر نہ سمجھا جائے بلکہ مانا جائے کہ اللہ کے رسول پر قرآن کے علاوہ بھی وحی ہوتی تھی اور اس لیے دین کے کسی شعبہ میں بھی اگر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے کوئی حکم اور کوئی بات قابلِ وثوق طریقہ سے ثابت ہو جائے تو اس کو واجب الاتباع مان کر اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے خواہ وہ عقائد سے متعلق ہو یا عبادات سے ،معاملات سے متعلق ہو یا حلال و حرام سے، قرآن اس سے خاموش ہو یا اس کے بارے میں ناطق !
بہرحال یہ مان لینے کے بعد کہ دین کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم صرف اوامر الٰہیہ کے ترجمان تھے اور قرآن مجید کے علاوہ بھی آپ پر وحی ہوتی تھی( جس کو وحی غیر متلوع کہتے ہیں اور اسی وحی سے نماز وغیرہ کی تفصیلات متعین ہوئی ہیں ) اس قسم کے نظریات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ
'' قرآن جن چیزوں سے خاموش ہو اور ان کا تعلق عقائد یا عبادات سے ہو تو وہ دین میں سرے سے بے اصل اور ( لَمْ یَکُنْ شَیْأً مَّذْکُوْرًا ) ہیں ''
پس اگر ایصالِ ثواب کی تعلیم سے قرآن مجید خاموش بھی ہے لیکن سنت ِنبوی سے صرف صحیح اسانید ہی کے ساتھ نہیں بلکہ'' بہ توا تر قدرِ مشترک'' وہ ثابت ہے پھر امت کے عملی تواتر اور ائمہ دین کے تمام طبقات فقہا ء و مجتہدین، محدثین و مفسرین کے اجماع و اتفاق نے اس کے ثبوت کو اور بھی زیادہ قطعی اور یقینی کر دیا ہے تو یقینا وہ حق ہے وَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَالُ
دوسرا شبہ : دوسرا شبہ اسی قسم کا یہ کیا جاتا ہے کہ
'' اگر ایصالِ ثواب کا نظریہ صحیح ہوتا تو عہد نبوی اور عہد صحابہ میں اس پر عام طور سے عمل کیا جاتا حالانکہ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس زمانہ میں ایصالِ ثواب کا معمول ہو اور لوگ عام طور پر ایسا کرتے ہوں ''
اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں اموات کی طرف سے اور ان کی نفع رسانی کے لیے صدقہ و خیرات کرنے ، قربانی کرنے ، غلام آزاد کرنے حتی کہ روزہ نماز اور حج کرنے کے متعدد واقعات ہماری پیش کردہ روایات سے معلوم ہو چکے ہیں اور نفسِ مسئلہ کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی بلکہ کافی سے زائد ہے ! !
علاوہ ازیں صحابہ کرام سے اس قسم کی کسی چیز کا عام طور سے منقول نہ ہونا اس بات کی ہرگز دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ کبھی اس کو کرتے ہی نہ تھے ! اصل بات یہ ہے کہ جن امور میں اعلان و اظہار اور تداعی مطلوب ہو جیسا کہ مثلاً فرض نمازوں کا جماعت سے مسجدوں میں پڑھنا ،رمضان کے روزے رکھنا، حج کرنا، قربانی کرنا وغیرہ وغیرہ سو یہ سارے کام چونکہ علی الاعلان کرنے کے ہیں اس لیے ایک دوسرے کو ان کا علم ہونا اور پھر نقل کیا جانا قرینِ قیاس ہے لیکن جن کاموں کی یہ حیثیت نہیں مثلاً غریب پڑوسیوں اور غریب عزیزوں قریبوں کے ساتھ کچھ سلوک کرنا یتیموں اور بیوائوں کی خبر لینا وغیرہ وغیرہ جن میں اخفا ہی بہتر ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ ان کاموں کا اظہارو اشتہار چونکہ مناسب نہیں اس لیے دوسروں کے علم میں وہ بہت کم آ سکیں گے اور اس واسطے ان کی نقل و روایت بھی نہ ہو سکے گی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عام طرز یہ تھا کہ اس قسم کے کاموں میں وہ اخفا کو پسند فرماتے تھے یہی وجہ ہے کہ اجتماعی قسم کے دینی کاموں کے علاوہ اس قسم کی انفرادی نیکیاں ان سے بہت زیادہ منقول نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ ایصالِ ثواب بھی ایسی ہی چیز ہے کہ اس کا اعلان و اظہار مناسب نہیں ! یہ اللہ کے زندہ بندوں کی طرف سے کسی مردہ بندے کے ساتھ حسن سلوک ہی تو ہے اور وہ بھی ایسا کہ نہ اس کو اللہ نے فرض کیا ہے نہ واجب !
بہرحال یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے کرنے کا ثبوت بہت زیادہ نہیں ملتا اور یہ ''ایصالِ ثواب ''ہی کی خصوصیت نہیں ہے امواتِ مومنین و مومنات کے لیے دعا ئے استغفار جو نص ِ قرآن سے ثابت ہے بالخصوص والدین کے لیے دعائے رحمت و مغفرت کا حال بھی یہی ہے کہ صحابہ کرام سے اس کا بطریق ِعموم معلوم ہونا روایات سے ثابت نہیں کیا جا سکتا ! اگر اس میں شک ہو تو کیا ہمارے مخاطبین کتب ِاحادیث و آثار سے عام صحابہ کے متعلق دکھلا سکتے ہیں کہ وہ اپنے والدین اور عام مومنین و مومنات کے لیے کس طرح مغفرت و رحمت کی دعائیں اللہ تعالیٰ سے کیا کرتے تھے ؟ تقریباً ایک لاکھ صحابیوں میں سے صرف ایک سو صحابیوں ہی سے اس کا ثبوت پیش کر دیا جائے یقینا روایات سے اس کا ثبوت نہیں دیا جا سکتا ہے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح ہوگا کہ قرآن پاک میں صریح حکم ہونے کے باوجود عام صحابہ اس پر عمل نہیں کیا کرتے تھے ؟ ؟
بہرحال اصل حقیقت یہی ہے کہ جس چیز کو اللہ نے فرض و واجب نہیں کیا اور جس عمل میں بجائے اعلان و اظہار کے اخفا اولیٰ و احسن ہو اس کے متعلق قرین ِ قیاس یہی ہے کہ اس کا عملی ثبوت کم ملے ! پس ہمارے ذخیرۂ احادیث و روایات میں ''ایصالِ ثواب'' کے واقعات اگر کم ملتے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا اور یہ ثابت کرنا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ''ایصالِ ثواب'' رائج ہی نہ تھا ، بہت ہی ادنیٰ درجہ کی علمی غلطی ہے !
ہاں حقیقت دین سے ناواقف طبقوں میں آج کل جس طرح اعلان و تداعی کے ساتھ اجتماعی طور پر اس ایصالِ ثواب کے نام سے بہت سی رسمیں ادا کی جاتی ہیں اور اس کو جو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے کہ اپنے فرائض نماز روزہ وغیرہ کا بھی اتنا اہتمام نہیں کہ جتنا ایصالِ ثواب کی ان رسموں کی ادائیگی کا تو اس کے متعلق یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ اگر عہد صحابہ و تابعین میں ایسا ہوتا تو ضرور منقول ہوتا کیونکہ اعلان و تداعی کے ساتھ اجتماعی طور پر جو کام کیے جائیں ان کا منقول ہو کر ہم تک پہنچنا عقلاً و عادتاًضروری ہے لیکن ہماری بحث صرف اصولی مسئلہ میں ہے مروجہ تیجہ دسواں وغیرہ جیسی لغو اور جاہلانہ رسموں کے غلط بلکہ بدعت و معصیت ہونے میں کوئی صاحب ِعلم شک کر سکتا ہے ؟ ؟
الحاصل عہد نبوی اور قرنِ صحابہ میں ایصالِ ثواب کے عملی واقعات کا ثبوت جو کم ملتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ صحابہ کرام ایصالِ ثواب اور اموات کی نفع رسانی کے لیے کوئی عمل کیا ہی نہیں کرتے تھے ! بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ کام چونکہ ان ہی نیکیوں میں سے ہے جن کو چھپا کر کرنا چاہیے اور اعلان و اظہار اس کے لیے مناسب نہیں ہے ! اس لیے صحابہ کرام نے اس کو اعلان واظہار کے ساتھ نہیں کیا اور اس لیے اس کے واقعات ہم تک کم پہنچے بلکہ غور کرنے کی بات ہے کہ یہ جو چند متفرق واقعات احادیث سے معلوم بھی ہوتے ہیں وہ بھی اس وجہ سے نقل وروایت میں آگئے ہیں کہ کسی صحابی نے مثلاً آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا یا اسی طرح کسی صحابی سے سوال کیا گیا اور انہوں نے جواب دے دیا یا کوئی اور ایسا ہی محرک پیش آگیا تو اظہار کر دیا گیا ! !
بہرحال جو واقعات اور جو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے ارشادات اس سلسلے میں کتب ِاحادیث میں درج ہو گئے ہیں وہ بھی سوالات کی کھود کرید یا کسی اور محرک کی وجہ سے ظاہر ہو گئے ہیں ورنہ شاید ان پر بھی پردہ پڑا رہتا
مثلاً حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا اپنی والدہ کی طرف سے کنواں اور باغ وقف کرنا یا بعض اور صحابہ کا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے صدقہ عن المیت اور حج عن المیت وغیرہ کے متعلق سوال کرنا اور اس پر عمل کرنا یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو قربانی کرتا دیکھ کر کسی شخص کا ان سے دریافت کرنا کہ یہ دو قربانی آپ کس لیے کرتے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بتلانا کہ دوسری قربانی میں جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف سے کرتا ہوں ! تو ظاہر ہے کہ یہ ساری چیزیں سوال کرنے والوں کی کھود کرید نے ظاہر کیں ! ! الغرض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے حالات سے یہ بہت ہی مستبعد ہے کہ وہ اموات کے لیے کوئی نیک کام کریں اور دوسروں کو جتلائیں کہ یہ ہم فلاں کو ثواب پہنچانے کے لیے کر رہے ہیں بہرحال ایصالِ ثواب کے عملی واقعات کے زیادہ منقول نہ ہونے کی اصل وجہ یہی ہے، نہ یہ کہ اس باب میں وہ کچھ کرتے ہی نہ تھے واللّٰہ اعلم




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ
کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1




رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٩
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
بدکاری سے اجتناب :
رحمن کے خاص بندوں کی ایک اہم پہچان یہ ہے کہ وہ بڑے پاکباز اور عفت مآب ہوتے ہیں اور زنا اور بدکاری سے دور اور نفور رہتے ہیں چنانچہ ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا
( وَلَا یَزْنُوْنَ ) ( سُورة الفرقان : ٦٨ ) '' یعنی وہ زنا نہیں کرتے''
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ''زنا'' ایسا گھناؤنا جرم ہے جو متفقہ طور پر ہر مہذب سماج کی نظر میں بدترین عیب قرار دیا گیا ہے ! یہ ایسا گناہ ہے جو دنیا میں فتنہ و فساد کا سب سے بڑا سبب ہے ! یہ انسانیت کی پیشانی پر سب سے بڑا داغ ہے اور لوگوں کی عزت وشرافت کی پامالی کی سب سے بڑی وجہ ہے ! کوئی بھی شریف انسان کبھی بھی اس جرم کو گوارا نہیں کرسکتا اور جس معاشرہ میں بدکاری عام ہوجاتی ہے وہاں سے انسانی اقدار کا جنازہ نکل جاتا ہے اور حیوانیت پھیل جاتی ہے ! !
اس لیے اسلام نے انسانیت کے تحفظ و بقاء اور معاشرہ میں امن و سکون کے استحکام کے لیے بدکاری کے تمام راستوں کو بند کرنے پرزور دیا ہے اور عفت وعصمت کی حفاظت کی نہایت تاکید کی ہے
عفت وعصمت کی حفاظت پر بشارتیں :
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مومنون میں فلاح یاب اہلِ ایمان کی صفات کے ضمن میں ارشاد فرمایا
( وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْھِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْمَامَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ) ( المومنون : ٥ -٧ )
''اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں اور باندیوں پر کہ ان پر کچھ ملامت نہیں اور جو اس کے علاوہ طلب کرے تو وہی لوگ حد سے گزرنے والے ہیں ''
پھر اخیر میں ان صفات کو اپنانے والوں کے لیے یہ بشارت سنائی :
( اُولٰئِکَ ھُمُ الْوَارِثُوْنَ اَلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) ١
''یہی لوگ وارث ہیں جو فردوس (جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ) کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے''
اور سورۂ احزاب میں مسلمان مردوں اور عورتوں کی صفات میں ''شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کی صفت'' کو شامل کیا گیا اور اخیر میں فرمایا گیا :
( اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا ) ٢ ''اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے''
اسی طرح سورۂ معارج میں بھی سورۂ مومنون والی صفات بیان کرکے یہ مژدہ جاں فزا سنایا گیا
( اُولٰئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ ) ٣ ''وہی باغوں میں ہوں گے عزت سے''
اور سورۂ تحریم میں ایمان والی عورتوں کی قدر دانی اور تعریف فرماتے ہوئے حضرت مریم بتول( طاہرہ طیبہ ) کا جب ذکر فرمایا گیا تو سب سے پہلے ان کی عفت مآبی کو بیان فرمایا چنانچہ ارشاد ہوا :
( وَمَرْیَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَکُتُبِہ وَکَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ ) ( سُورة التحریم : ١٢ )
''اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی پھر ہم نے اس میں پھونک دی ایک اپنی روح اور وہ اپنے پروردگار کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرتی رہی اور وہ فرماں برداروں میں سے تھی''
ان آیتوں کو پڑھنے سے یقینا یہ ذہن بنتا ہے کہ انسان کو وقتی حرام لذت میں پڑکر آخرت کی ان عظیم نعمتوں سے اپنے کو ہرگز محروم نہ کرنا چاہیے اور یقینا عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جائے اوراگر کبھی اس بارے میں کوتاہی ہوجائے تو فوراً سچی توبہ کرے اور ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی کا طالب ہو تو اس کو ضرور بخشش سے نوازا جائے گا ! !
١ سُورة المومنون : ١٠ ، ١١ ٢ سُورة الاحزاب : ٣٥ ٣ سُورة المعارج : ٣٥
احادیث ِشریفہ میں عفت مآبی پر انعام کا وعدہ :
اسی طرح محسن انسانیت سید الاوّلین والآخرین سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ عليہ وسلم نے موقع بموقع امت کو شرم و حیا اختیار کرنے اور فواحش ومنکرات سے پوری طرح بچنے کی تعلیم دی اور عفت مآبی پر عظیم الشان انعامات کے وعدے فرمائے چند احادیث ِ شریفہ ملاحظہ فرمائیں :
(١) سیّدنا حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
''جو شخص مجھ سے چھ باتوں کی ضمانت لے لے، میں اس کے لیے جنت کی ضمانت لیتا ہوں '' ! !
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ''یا رسول اللہ ! وہ چھ باتیں کیا ہیں '' ؟
تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
مَنْ اِذَا حَدَّثَ صَدَقَ ، وَاِذَا وَعَدَ اَنْجَزَ ، وَاِذَا أْتُمِنَ اَدَّیٰ ، وَمَنْ غَضَّ بَصَرَہ وَحَفِظَ فَرَجَہ وَکَفَّ یَدَہ اَوْقَالَ نَفْسَہ ۔ ١
(١) جو جب بات کرے تو سچ کہے (٢) جب وعدہ کرے تو پورا کرے (٣) جب امین بنایا جائے تو ادا کرے (٤) جو اپنی نگاہ نیچی رکھے (٥) جو اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے (٦) اور جو اپنے ہاتھ یا اپنی ذات کو (دوسروں کو اذیت دینے سے) روکے رکھے''
(٢) سیّد حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
یَا شَبَابَ قُرَیْشٍ اِحْفَظُوْا فُرُوْجَکُمْ وَلَا تَزْنُوْا اَلَا مَنْ حَفِظَ فَرَجَہ فَلَہُ الْجَنَّةُ ٢
''اے قریش کے جوانو ! اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھو اور زنا نہ کرو ! اچھی طرح سمجھ لو کہ جو شخص اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھ لے اس کے لیے جنت ہے''
(٣) ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا
یَا فِتْیَانَ قُرَیْشٍ ! لَا تَزْنُوْا فَاِنَّہ مَنْ سَلِمَ اللّٰہُ لَہ شَبَابَہ دَخَلَ الْجَنَّةَ ٣
١ شعب الایمان ج ٤ ص ٣٦٥ ٢ ایضًا ٣ ایضًا
''اے قریش کے جوانو ! زنا نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کی جوانی سلامت رکھے وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا''
(٤) سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
مَنْ حَفِظَ مَابَیْنَ لِحْیَیْہِ وَبَیْنَ رِجْلَیْہِ دَخَلَ الْجَنَّةَ ( شعب الایمان ج٤ص٣٦٠ )
''جو شخص اس چیز کو محفوظ کر لے جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اور اس چیز کو محفوظ کرے جو دوپیروں کے درمیان ہے (یعنی شرم گاہ) وہ جنت میں داخل ہوگیا''
اسی طرح بخاری شریف میں سیّدنا حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مذکورہ دو چیزوں کی مجھ سے ضمانت لے لے میں اس کے لیے جنت کی ضمانت لیتا ہوں ١
(٥) سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے سات ایسے خوش نصیب لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جنہیں میدانِ محشر میں عرشِ خداوندی کے سایہ میں بٹھایا جائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کے بارے میں آپ نے فرمایا
رَجُل دَعَتْہُ اِمْرَأَة ذَاتُ مَنْصَبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ ٢
'' ایسا شخص جسے کوئی عزت دار اور خوبصورت عورت بدکاری کے لیے بلائے
اور وہ کہہ دے کہ مجھے اللہ سے ڈر لگ رہا ہے''
الغرض جو شخص قدرت اور نفسانی تقاضے کے باوجود برائی سے محفوظ رہے اس کے لیے آخرت میں بے حدوحساب اجر و ثواب اور اعزاز واکرام مقرر ہے ، ان شاء اللّٰہ تعالٰی
زنا سے کیسے بچیں ؟ ایک لمحہ فکریہ :
سیّدنا حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نوجوان نے آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ
١ صحیح البخاری کتاب الرقاق رقم الحدیث ٦٤٧٤ ٢ صحیح مسلم ج ١ ص ٣٣١
''یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے زنا کی اجازت دے سکتے ہیں '' ؟
اس کی یہ جسارت دیکھ کر مجلس میں بیٹھے لوگ شور مچانے لگے اور کہنے لگے کہ
'' اسے اٹھاؤ ، اسے اٹھاؤ '' (یہ کیا بک رہا ہے )
مگر نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ
''نہیں اسے بیٹھے رہنے دو ! اور مجھ سے قریب کرو''
جب وہ قریب ہوگیا تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے پوچھا کہ
''کیا یہ کام تم اپنی ماں کے ساتھ اچھا سمجھتے ہو'' ؟
تو اس نے کہا ''نہیں ! میں آپ پر قربان'' تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا
''اسی طرح لوگ بھی اپنی ماں کے ساتھ اسے اچھا نہیں سمجھتے ''
پھر آپ نے پوچھا کہ
''اگر کوئی تمہاری بیٹی کے ساتھ ایسا کرے تو کیا تمہیں اچھا لگے گا'' ؟
تو اس نے کہا ''ہرگز نہیں یا رسول اللہ '' !
تو آپ نے ارشاد فرمایا
''اسی طرح لوگ اپنی بیٹی کے ساتھ اسے اچھا نہیں سمجھتے''
پھر آپ اس کی بہن پھوپھی اور خالہ وغیرہ کا ذکر کر کے اسی طرح سمجھایا تو اس کی سمجھ میں آگیا
اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے لیے دعا فرمائیے !
تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس کے سرپر ہاتھ رکھ کر یہ دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہ وَطَھِّرْ قَلْبَہ وَحَصِّنْ فَرْجَہ
اے اللہ اس کے گناہ معاف فرما، اس کا دل پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما
راوی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان کا یہ حال ہوگیا تھا کہ اس کی نگاہ کسی برائی کی طرف اٹھتی ہی نہ تھی ! ١
واقعہ میں پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے بدکاری سے بچنے کی ایک ایسی عمدہ تدبیر امت کو بتلائی ہے کہ جو بھی برائی کرنے والا ایک لمحہ کے لیے بھی اس بارے میں سوچ لے تو وہ اپنے غلط ارادے سے باز آسکتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ جس عورت سے بدکاری کا ارادہ ہوگا وہ کسی کی بہن، بیٹی یا ماں ضرور ہوگی اور جس طرح آدمی خود اپنی ماں بہنوں کے ساتھ یہ جرم گوارا نہیں کرتا، اسے سوچنا چاہیے کہ دوسرے لوگ اسے کیوں کر گوارہ کریں گے ؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کامل عفت مآبی سے سرفراز فرمائیں اور امت کے ہر فرد کو بدکاری کے قریب جانے سے محفوظ رکھیں ، آمین۔ (جاری ہے)
١ شعب الایمان ج ٤ ص٣٦٢




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat




قسط : ٢ ، آخری
کرپٹو کرنسی کی ماہیت و حقیقت
( ڈاکٹر مبشر حسین صاحب رحمانی )
٭٭٭
کرپٹوکرنسی کی ماہیت سمجھنے کے لیے کچھ مثالیں :
مثال نمبر ١
ٹرانزیکشن کی ایک تعریف یہ ہے کہ
'' ٹرانزیکشن فریقین کے درمیان اثاثوں کی منتقلی کی ریگارڈنگ ہے '' ١
ٹرانزیکشن کی اس سادہ سی تعریف میں تین اہم پہلو ہیں :
اوّل : '' فریقین'' ، دوم : '' اثاثے '' اور سوم : '' منتقلی ''
ٹرانزیکشن (لین دین) کی ریکارڈنگ کسی بھی روایتی طریقے جیسے کہ فزیکل رجسٹر اور کاپیاں
یا ڈیجیٹل طور پر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے کی جاسکتی ہے ! اب ہم چند سوالات پوچھتے ہیں
(١) اگر کوئی منتقلی نہیں ہوئی تو کیا ٹرانزیکشن (لین دین) ہوگئی ؟
(٢) اگر کوئی اثاثہ (مبیع یا فروخت کی چیز) موجود نہیں ہے تو کیا ٹرانزیکشن (لین دین) ہوگئی ؟
(٣) اگر کوئی فریق شامل نہیں ہے تو کیا ٹرانزیکشن (لین دین) ہوگئی ؟
اسلامی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے حضرات علماء کرام نے خریدوفروخت کی کچھ بنیادی شرائط بتائی ہیں ذیل میں ہم ایسی ہی کچھ شرائط کا کتاب An Introduction to Islamic Finance سے ذکر کرتے ہیں
1 : D. Yaga, P. Mell, N. Roby, and K. Scarfone, Blockchain Technology Overview, NIST Interagency/Internal Report (NISTIR), National Institute of Standards and Technology, Gaithersburg, MD, 2018.
https://csrc.nist.gov/csrc/media/publications/nistir/8202/draft/documents/nistir8202-draft.pdf
پہلی شرط : مبیع یعنی بیچی جانے والی چیز بیع کے وقت وجود میں آچکی ہو !
دوسری شرط : مبیع یعنی بیچی جانے والی چیز بیع کے وقت فروخت کرنے والے کی ملکیت میں ہو !
تیسری شرط : مبیع یعنی بیچی جانے والی چیز بیع کے وقت فروخت کرنے والے کے حسی یا معنوی قبضے میں ہو
چوتھی شرط : بیع غیر مشروط اور فوری طور پر نافذالعمل ہو !
پانچویں شرط : بیچی جانے والی چیز ایسی ہو جس کی کوئی قیمت ہو !
چھٹی شرط : بیچی جانے والی چیز ایسی نہ ہو جس کا حرام مقصد کے علاوہ کوئی اور استعمال ہی نہ ہو
جیسے خنزیر یا شراب وغیرہ
ساتویں شرط : جس چیز کی بیع ہو رہی ہو وہ واضح طور پر معلوم ہونی چاہیے اور خریدار کو اس کی شناخت
کرائی جانی چاہیے
آٹھویں شرط : بیچی جانے والی چیز پر خریدار کا قبضہ کرایا جانا یقینی ہو ! یہ قبضہ محض اتفاق پر مبنی یا کسی
شرط کے پائے جانے پر موقوف نہیں ہونا چاہیے !
نویں شرط : قیمت کا تعین بھی بیع کے صحیح ہونے کے لیے ضروری شرط ہے ! اگر قیمت متعین نہیں ہے
تو بیع صحیح نہیں ہوگی !
دسویں شرط : بیع میں کوئی شرط نہیں ہونی چاہیے ١
اب مندرجہ بالا تین سوالات اور شریعت میں خرید و فروخت کے مندرجہ بالا بنیادی شرائط کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے بٹ کوائن(Bit Coin) کا تجزیہ کرتے ہیں
٣ جنوری ٢٠٠٩ء کو ساتوشی ناکاموٹو نے ایک نئے کھاتے (بٹ کوائن لیجر) کی شروعات کی جس میں ایک ایڈریس کے سامنے پچاس بٹ کوائن کا محض اندراج کیا ، یہ پہلی ٹرانزیکشن تھی جو کبھی ہوئی تھی اور بٹ کوائن لیجر میں درج کی گئی تھی ! اس پہلی ٹرانزیکشن کے بارے میں ہم ٹرانزیکشن آئی ڈی کے
1 : Mufti Muhammad Taqi Usmani, An Introduction to Islamic Finance
Accessed : 31st Jan 2024.
بارے میں جانتے ہیں ، ہم تاریخ اور وقت کے بارے میں جانتے ہیں اور بٹ کوائن کی کتنی تعداد اس ٹرانزیکشن میں لکھی گئی اس بارے میں بھی جانتے ہیں ، یہ بالکل واضح ہے کہ پچاس بٹ کوائن کا اندراج ( مائننگ کے عمل کے نتیجے میں ) ایک ایڈریس پر ہوا جو کہ ساتوشی ناکاموٹو کا تھا، اس وقت ان پچاس بٹ کوائن کی کوئی ذاتی یا خارجی قدر نہیں تھی ! ! یہ صرف ایک سادہ سی ٹرانزیکشن تھی جسے کھاتے (لیجر) میں اندراج کیا گیا تھا جس میں کوئی اثاثہ موجود نہیں تھا، کوئی اثاثہ منتقل نہیں کیا گیا تھا اور کوئی فریق شامل نہیں تھا ! ! !
مفتیانِ کرام کے مطابق بٹ کوائن کی یہ سادہ سی ٹرانزیکشن شریعت میں خریدوفروخت کی کئی بنیادی شرائط (شرط نمبر ١ ، ٢ ، ٣ اور ٥) کی بیک وقت خلاف ورزی کررہی ہے لہٰذا بٹ کوائن کی خریدوفروخت محض مبیع کے بغیر ٹرانزیکشن کی خریدوفروخت ہے !
ہمیں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ محض کھاتے (لیجر)میں پیسے کا اندراج پیسہ نہیں ہے ! بٹ کوائن کسی بھی اثاثے کی نمائندگی نہیں کرتا ہے ، لہٰذا بٹ کوائن کے تناظر میں مبیع کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا جس پر ملکیت اور قبضہ ہوسکے اور نتیجتاً بٹ کوائن کی ملکیت اور قبضے کا تعین ٹرانزیکشن کرنے یا محض کھاتے میں اندراج کرنے سے ثابت نہیں کیا جاسکتا !
مثال نمبر ٢ :
بٹ کوائن کی صحیح نوعیت کو سمجھنے کے لیے ایک اور مثال لیتے ہیں !
ایک شخص '' الف '' ایک نئی کرپٹو کرنسی کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کا نام '' کراچی کوائن'' KHC رکھتا ہے کیونکہ یہ ایک تصوراتی کرنسی ہے لہٰذا اس کی کوئی ذاتی قدر نہیں ہے نیز شروع میں لوگ اس کرپٹو کرنسی کی قدر تسلیم نہیں کرتے ! ''الف'' اس فرضی کرپٹو کرنسی کا موجِدہے لہٰذا وہ اس کرپٹو کرنسی کے کھاتے کی شروعات کھاتے میں اندراج کے ذریعے کرتا ہے ! !
Table No.1
٭٭٭
Date Values in US KHC Amount Details Tx ID
10 Jan 2024 0 $ 25 KHC 25 KHC الف 001
12 Jan 2024 0 $ 50 KHC 50 KHC ب 002
15 Jan 2024 0 $ 0 KHC 10 KHC ج 003
کھاتے میں درج کچھ ٹرانزیکشن جو کہ مختلف اشخاص کے پاس کراچی کوائن کی ملکیت کو دکھا رہی ہیں
جیسا کہ قارئین ٹیبل نمبر ١ میں دیکھ سکتے ہیں کہ '' الف '' نے کھاتے میں صرف کچھ ٹرانزیکشن کا اندراج کیا ہے جس میں مختلف اشخاص کے پاس کراچی کوائن کی ملکیت کو دکھایا ہے !
اب '' ب '' تیس کراچی کوائن ''ج'' کو منتقل کرتا ہے، کھاتے کی نئی حالت ٹیبل نمبر ٢ میں دیکھی جاسکتی ہے
Table No.2
٭٭٭
Date Values in US KHC Amount Details Tx ID
10 Jan 2024 0 $ 25 KHC 25 KHC 001
12 Jan 2024 0 $ 50 KHC 50 KHC 002
15 Jan 2024 0 $ 0 KHC 10 KHC 003
17 Jan 2024 ''ب'' نے ٣٠ کراچی کوائن ''ج'' کو منتقل کیے 004
17 Jan 2024 0 $ 20 KHC '' ب '' کے پاس اب 004
17 Jan 2024 0 $ 30 KHC ''ج'' کے پاس اب 004
کھاتے میں درج کچھ ٹرانزیکشن جو کہ مختلف اشخاص کے پاس کراچی کوائن کی ملکیت کو دکھا رہی ہیں
اب ''ج'' یہ کہتا ہے کہ میں تیس کراچی کوائن کا مالک ہوں ، یہ تیس کراچی کوائن مجھے ڈیجیٹل طور پر منتقل کیے گئے تھے ، کیا کوئی اس کو تسلیم کرے گا ؟
نہیں ، عقلِ سلیم یہ کہتی ہے کہ اس طرح کی ملکیت قابلِ قبول نہیں ہوگی ، کیونکہ یہ صرف کھاتے میں ٹرانزیکشن کا اندراج ہے اور مبیع سرے سے موجود ہی نہیں ہے ! اصل میں یہ تیس کراچی کوائن جو کہ ''ج'' کی ملکیت ہیں یہ صرف کھاتے میں فرضی نمبروں کا اندراج ہے ۔ ان تیس کراچی کوائن کا سافٹ وئیر کی طرح کوئی ڈیجیٹل وجود بھی نہیں ہے ! اب اگر کچھ وقت گزرنے کے بعد لوگ ان کراچی کوائن کی خریدوفروخت کرنا شروع کردیں اور یہ یقین کرنا شروع کردیں کہ ان کراچی کوائن کی کوئی '' قدر '' ہے ، یہ سمجھنا بالکل بے بنیاد ہوگا اور اسی طریقے سے تخیلاتی معیشت کو بنایا جاتا ہے ! ! !
جب لوگ دیکھتے ہیں کہ کراچی کوائن KHCکی خریدوفروخت مارکیٹ میں ہو رہی ہے اور لوگ ان کراچی کوائن KHCکو ٹریڈ کرنے کے بعد بہت زیادہ رقم کما رہے ہیں تو وہ سوچنے لگتے ہیں کہ یہ کراچی کوائن KHC ڈیجیٹل طور پر موجود ہیں ، اور یہ ڈیجیٹل اثاثے ہیں ! نیز وہ یہ بھی یقین کرنے لگتے ہیں کہ کراچی کوائن کسی کی ملکیت میں بھی آسکتے ہیں اور انہیں منتقل بھی کیا جا سکتا ہے ۔ بس یہیں ان سے غلطی ہوئی ہے درحقیقت کراچی کوائن KHC کی تجارت مبیع کے بغیر لین دین کی تجارت کی طرح ہے اور بٹ کوائن کے معاملے میں بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے ! ! !
ٹیبل نمبر ٢ میں ہم ٹرانزیکشن ID 004(Tx)سے ٹرانزیکشن ID 004(Tx) تک پیچھے جاسکتے ہیں اور حساب لگا سکتے ہیں کہ '' ج '' کو یہ ٣٠ کراچی کوائن کب اور کہاں سے موصول ہوئے ۔ منی ٹریل واضح ہے ، یہ شخص '' ب '' تھا جس نے شخص '' ج '' کو ٣٠ کراچی کوائن منتقل کیے اور شخص '' ب '' کے پاس اصل پچاس کراچی کوائن تھے اور جو اِن پچاس کراچی کوائن کا مالک بنا ،کھاتے میں ان فرضی نمبروں کے اندراج سے اور ان پچاس کراچی کوائن کے پیچھے کوئی اثاثہ نہیں تھا ۔ اب یہ ایک ستم ظریفی ہوگی کہ اگر ہم اس '' ٹرانزیکشن کی زنجیر '' کو کراچی کوائن کہنا شروع کردیں اور یہ یقین کرنا شروع کردیں کہ یہ کراچی کوائن ڈیجیٹل طور پر موجود ہیں اور بٹ کوائن کے اندر بھی بالکل ایسا ہی معاملہ ہوا تھا ۔
مثال نمبر ٣ :
'' الف '' ہزار روپے قرض لیتا ہے '' ب '' سے ، پھر الف ایک تحریر ب کو لکھتا ہے کہ میں آپ کو ایک ماہ میں یہ ہزار روپے واپس کردوں گا، پھر اس پر اپنے دستخط کرتا ہے، یہ قرض کی رسید بن جاتی ہے ! اب اگر لوگ اس قرض کی رسید بیچنا شروع کر دیں ؟ یاد رکھیں کہ یہ صرف قرض کی '' رسید '' ہے ہم سب جانتے ہیں کہ شریعت میں قرض کی فروخت ممنوع ہے ! ١
1 : Justice Mufti Muhammad Taqi Usmani, Causes and Remedies of the Recent Financial Crisis from An Islamic Perspective, Turath Publishing, 2014.
اب تصور کریں کہ گر کوئی شخص ایک خالی کاغذ لے اور اس پر اپنے دستخط کرے جبکہ کسی طرح کا بھی مبیع موجود نہ ہو، بغیر کسی مبیع کے اس خالی دستخط کی کیا اہمیت ہے ؟
امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی، ڈیپارٹمنٹ آف کامرس کے ڈیجیٹل دستخط کے معیار کے مطابق ڈیجیٹل دستخط کی تعریف یوں ہو گی :
ڈیجیٹل دستخط تحریری دستخط کا ایک الیکٹرانک مساوی ہے ! ڈیجیٹل دستخط کا استعمال اس بات کی یقین دہانی کے لیے کیا جا سکتا ہے کہ دعوی کرنے والے نے معلومات پر دستخط کیے ہیں ١
بٹ کوائن کے تناظر میں بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے، یعنی کوئی مال، کوئی قرض، کوئی خدمت، کوئی حق اور کوئی اثاثہ نہیں ہے جو بیچا جا رہا ہے ۔ نتیجتاً ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے بٹ کوائن میں '' مبیع '' سمجھا جاسکے ! بٹ کوائن کے تناظر میں یہ صرف ڈیجیٹل دستخطوں کی زنجیر ہے جس کو فروخت کیا جارہا ہے اور یہ وہی بات ہے جو کہ بٹ کوائن کے موجِد ساتوشی ناکاموٹو میں بٹ کوائن کے وائٹ پیپر میں درج کی ہے !
ہم الیکٹرانک کوائن کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ڈیجیٹل دستخطوں کی زنجیر ہے، ہر مالک پچھلے لین دین کے ہیش اور اگلے مالک کی پبلک کی پر ڈیجیٹل طور پر دستخط کرکے اور کوائن کے آخر میں ان کو شامل کرکے کوائن اگلے کو منتقل کرتا ہے۔ ایک وصول کنندہ ملکیت کی چین کی تصدیق کے لیے دستخطوں کی تصدیق کر سکتا ہے ۔ ٢
مندرجہ بالا تین مثالیں بٹ کوائن کی صحیح تکنیکی نوعیت کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں ان مثالوں سے یہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کیوں عام لوگ بٹ کوائن کی نوعیت سے الجھ جاتے ہیں اور یہ ماننا شروع کر دیتے ہیں کہ بٹ کوائن ڈیجیٹل طور پر موجود ہے ۔ ہم نے تکنیکی اور سائنسی طور پر ثابت کیا ہے کہ بٹ کوائن ڈیجیٹل طور پر بھی موجود نہیں ہے ! !
1 - NIST Digital Signature Standard, U.S. Department of Commerce, 3rd February 2023. Link: https://csrc.nist.gov/projects/digital-signatures
2 : Satoshi Nakamoto, Bitcoin: A Peer-to-Peer Electronic Cash System. Accessed: Apr 2023. [Online]. Available: https://bitcoin.org/bitcoin.pdf
نئی کرپٹو کرنسی بننے کا عمل (کرپٹو کرنسی مائننگ) :
نئی کرپٹو کرنسی (بٹ کوائن)مائننگ کے عمل سے وجود میں آتی ہے۔ مائننگ کے عمل میں مائنرز کے درمیان مسابقت ہوتی ہے ، کوئی اسے دریافت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور بیشتر ناکام ! ! مائننگ کے عمل میں بہت غیر یقینی صورتِ حال ہوتی ہے یعنی اس بات کی گارنٹی نہیں ہوتی کہ کوئی مائنر اپنے وسائل لگا کر مائننگ کے عمل میں کامیاب بھی ہوجائے گا یعنی مائنر اپنے وسائل (کمپیوٹر اور بجلی) کو خرچ کرتا ہے لیکن اسے اس کا صلہ ملنا یقینی نہیں ہوتا ۔ عام کرپٹو کرنسی صارف کے لیے مائننگ کے عمل میں کامیاب ہونے کا کھربوں احتمالات میں سے ایک احتمال ہوتا ہے نیز کرپٹو کرنسی مائننگ کے ذیل میں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ کرپٹو کرنسی کے اندر ٹرانزیکشن (عقود) کا نفاذ دوسروں پر وقوف ہے اور اس کے بغیر ٹرانزیکشن مکمل نہیں ہوتی ۔
جب کوئی صارف لیجر میں ٹرانزیکشن شامل کرنا چاہتا ہے تو ٹرانزیکشن ڈیٹا کو انکریپٹڈ (خفیہ) کیا جاتا ہے اور نیٹ ورک پر دوسرے کمپیوٹرز کے ذریعے کرپٹوگرافک الگورتھم کا استعمال کرتے ہوئے تصدیق کی جاتی ہے ، اگر کمپیوٹرز کی اکثریت کے درمیان اتفاقِ رائے ہے کہ ٹرانزیکشن درست ہے تو ڈیٹا کا ایک نیا بلاک چین میں شامل کیا جاتا ہے اور نیٹ ورک پر موجود سبھی لوگوں کے ذریعے شیئر کیا جاتا ہے ! ! ١
ایک اور اہم مسئلہ میم پول( Mempool) سے ٹرانزیکشن کے انتخاب سے متعلق ہے ! مائنرز درحقیقت میم پول سے ٹرانزیکشن کا انتخاب کرتے ہیں اور انہیں بلاک کی شکل میں جمع کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرانزیکشن کا انتخاب مائنرز کی مرضی پر منحصر ہے چونکہ ٹرانزیکشنز کو منتخب کرنے کے پیچھے انعام ہوتا ہے اس لیے عام طور پر وہ ٹرانزیکشنز منتخب کی جاتی ہیں جن کی ٹرانزیکشن فیس زیادہ
1 : Sarah Underwood, Blockchain beyond bitcoin, Communications of the ACM, Volume 59, Issue 11, pp 1517, 2016.
ہوتی ہے اس کے نتیجے میں کچھ ٹرانزیکشن کو دوسروں پر ترجیح دی جاتی ہے اور کم فیس والی ٹرانزیکشن زیادہ وقت تک انتظار کرتی ہیں ۔ ١
مائنرزبلاکس میں ان ٹرانزیکشن کو ترجیح دینے کی کوشش کرتے ہیں جن کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے اور انہیں وہیل ٹرانزیکشنز کہتے ہیں ۔ کیا آپ ایک ایسے مالیاتی نظام کا تصور کر سکتے ہیں جس میں ٹرانزیکشن کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاتا ہو ؟ جی ہاں ، یہ بٹ کوائن کے بنیادی ڈیزائن میں ہے ۔
مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹرانزیکشن کی توثیق کا انحصار دوسرے شرکاء پر ہوتا ہے ! کیا آپ نے کبھی کسی تجارتی ٹرانزیکشن (لین دین) کے بارے میں سوچا ہے جس میں آپ کو لازمی دنیا بھر کے ہزاروں لوگوں سے اس کی توثیق کرنی ہوگی ؟ کیا یہ حیران کن اور غیر معقول نہیں ہے ؟ ! مگر اس کے باوجود یہ بٹ کوائن کی اصل ماہیت ہے لہٰذا علمائے کرام کے مطابق بٹ کوائن کے مائننگ کے عمل میں شرعی طور پر دو بنیادی نقائص پائے جاتے ہیں
٭ بٹ کوائن میں ٹرانزیکشن کی توثیق کا انحصار دوسرے شرکا ء پر ہوتا ہے اور اس کے بغیر ٹرانزیکشن مکمل نہیں سمجھی جاتی ! آسان الفاظ میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو ٹرانزیکشن (بٹ کوائن) بھیجتا ہے تو یہ سادہ ٹرانزیکشن اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ بٹ کوائن نیٹ ورک میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت اس ٹرانزیکشن کی توثیق نہیں کر لیتی ! ! ٹرانزیکشن کی توثیق کا یہ عمل شرعی طور پر درست نہیں ! ! !
٭ کرپٹو کرنسی مائننگ کے عمل میں کافی غیر یقینی صورت حال ہے یعنی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ مائنر اپنے وسائل کی سرمایہ کاری کرکے مائننگ کے عمل میں کامیاب ہوگا ! یہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ مائننگ کے عمل میں غیر یقینی یعنی '' غرر ' ' ہے جوکہ شرعی اصولوں کے خلاف ہے ! !
1 : I. Malakhov, A. Marin, S. Rossi and D. S. Menasch, Confirmed or Dropped? Reliability Analysis of Transactions in PoW Blockchains, in IEEE Transactions on Network Science and Engineering, in Print, 2024.
عالمی معاشی ماہرین کی کرپٹو کرنسی سے متعلق آراء :
کرپٹو کرنسی پر مالیاتی ماہرین اور ماہرینِ اقتصادیات کی طرف سے لکھے گئے سائنسی مضامین کی بہتات ہے جنہوں نے کرپٹو کرنسی پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ ہم یہاں چند نمائندہ حوالہ جات پیش کرتے ہیں تاکہ ہمارے قارئین سمجھ سکیں کہ سنجیدہ مالیاتی ماہرین اور ماہرین اقتصادیات بھی بٹ کوائن کو زر ، ڈیجیٹل کرنسی یا ڈیجیٹل اثاثہ نہیں سمجھتے ۔
یورپی یونین کی اقتصادی اور مالیاتی امور کی کمیٹی یہ کہتی ہے : ١
ڈیجیٹل کرنسیوں کو بطور آلہ مبادلہ(Medium of Exchange )استعمال نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کیا جاسکتا ہے ! !
کرپٹو کرنسیوں کو بطور قدر شمار کرنے کے Unit of Account استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے ! !
کرپٹو کرنسیاں ، کرنسی کے بنیادی اوصاف پر پورا نہیں اترتیں ! !
یورپی سپروائزری اتھارٹیز صارفین کو خبردار کرتی ہیں کہ بہت سے کرپٹو اثاثے انتہائی رسکی اور سٹے بازی یعنی قیاس آرائی پر مبنی ہیں ! یہ زیادہ تر ریٹیل صارفین کے لیے بطور سرمایہ کاری یا ادائیگی یا تبادلہ کے لیے موزوں نہیں ہیں ! ٢
''کیون ڈیوس'' جو یونیورسٹی آف میلبورن آسٹریلیا میں فنانس کے پروفیسر ہیں ، سمجھتے ہیں کہ کرپٹو جوا ہے جس کا کوئی سماجی فائدہ نہیں ہے اور یہاں تک کہ کرپٹو کرنسی کے لیے '' سرمایہ کاری '' یا '' کرپٹو اثاثے '' کی اصطلاحات استعمال کرنے سے ہچکچاتے ہیں انہوں نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا :
1 : GERBA, E. and RUBIO, M., Virtual Money: How Much do Cryptocurrencies Alter the Fundamental Functions of Money?, Study for the Committee on Economic and Monetary Affairs, Policy Department for Economic, Scientific and Quality of Life Policies, European Parliament, Luxembourg, 2019.
2:https://www.eba.europa.eu/eu-financial-regulators-warn-consumers-risks-crypto-assets
''دوسری اصطلاح '' اثاثہ '' کا مطلب یہ ہے کہ وہ شے یا تو جاری کنندہ کی ذمہ داری ہے یا مادی یا غیر مادی اثاثہ کی ملکیت کی نمائندگی کرتی ہے جس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ مستقبل کی آمدنی یا سروسز آف ویلیو پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
کرپٹو آئٹم کی واحد ممکنہ قیمت یہ ہے کہ کوئی دوسرا جواری انہیں زیادہ قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے ١
ایک سائنسی تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ
''بٹ کوائن کسی دوسرے بڑے اثاثہ کی کلاس کے برعکس ہے ! بٹ کوائن اپنے متعارف ہونے کے بعد سے بہت غیر مستحکم رہا ہے، خاص طور پراس کا اتار چڑھاؤ فیصلہ کن طور پر سونے، امریکی ڈالر یا اسٹاک مارکیٹوں کے اتار چڑھائو سے زیادہ ہے (جس کی نمائندگی MSCI ورلڈ انڈیکس کرتا ہے) !
بٹ کوائن سونا( Gold) اور امریکی ڈالر( US Dollar )اور دیگر اثاثوں سے کسی طرح بھی مماثلت نہیں رکھتا !
بٹ کوائن کا بہت زیادہ نفع دینا اور اتار چڑھاؤ سونے یا امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایک انتہائی قیاس آرائی (سٹے بازی)پر مبنی اثاثہ سے مشابہت رکھتا ہے ٢
1 : Kevin Davis, Why crypto is gambling and not investing, Financial Review, Jan 2022.
2 : Dirk G. Baur, Tohmas Dimpfl, and Konstantin Kuck, Bitcoin, gold and the US dollar A replication and extension, Finance Research Letters Volume 25, June 2018, Pages 103-110.
ایک حالیہ سائنسی تحقیق میں ثابت کیا گیاہے کہ ان تمام بٹ کوائن میں سے جو کہ آج کل سرکولیشن
میں ہیں ایک فیصد سے بھی کم یعنی 0.01 فیصد ایڈریس 58.2 (اٹھاون اعشاریہ دو فیصد) بٹ کوائن رکھتے ہیں ١
لہٰذا بٹ کوائن بھیPareto Distribution کی پیروی کرتا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ کسی بھی ملک کے معاشی نظام میں ٢٠ فیصد لوگ ٨٠ فیصد دولت کو کنٹرول کرتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مجموعی طور پرکرپٹو کرنسی اعداد وشمار کے مطابق اس سے بھی بری ہے ۔ انہی محققین نے آٹھ مختلف کرپٹو کرنسیوں میں دولت کی تقسیم کا بھی تجزیہ کیا ، یعنی ایک فیصد لوگوں (ایڈریس) کے پاس کل کتنے مقدار کی کرپٹو کرنسی ملکیت میں ہیں ۔
محققین نے '' بٹ کوائن بیلنس کے حساب سے سب سے بڑا والٹ'' ، '' صارف کی ٹرانزیکشن کی سرگرمیاں '' اور '' مختلف اقسام کے بٹ کوائن استعمال کرنے والوں (مائنرز ، ایکسچینج ، ریٹیلر، وغیرہ) میں دولت کی تقسیم '' پر ایک بہترین تکنیکی تحقیق کی ہے ! ٢
ایک اور تحقیق میں محققین نے ثابت کیا ہے کہ بٹ کوائن کے ایک فیصد سے بھی کم صارفین ٩٥ فیصد سے زیادہ مارکیٹ والیم (حجم)میں حصہ ڈالتے ہیں ! ٣
1 : Ashish Rajendra Sai, Jim Buckley, Andrew Le Gear, Characterizing Wealth Inequality in Cryptocurrencies, Frontiers in Blockchian, Vol 4 - 2021.
2 : Hossein Jahanshahloo, Felix Irresberger, Andrew Urquhart, Bitcoin under the microscope, The British Accounting Review, 2023.
3 : Anqi Liu, Hossein Jahanshahloo, Jing Chen & Arman Eshraghi, Trading patterns in the bitcoin market, The European Journal of Finance, 2023
ایک سائنسی تحقیق بٹ کوائن کے استعمال اور اس کا دیگر اثاثوں سے مقابلے کے تناظر میں لکھی گئی ہے محققین کی تحقیق کا خلاصہ ہے کہ
''بٹ کوائن کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے روایتی اثاثہ جات کے ساتھ جیسے اسٹاک ، بانڈز اور کموڈٹیز ، چاہے وہ عام اوقات ہوں یا مالیاتی بحران کے دن ہوں بٹ کوائن ٹرانزیکشن کے اعداد و شمار کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ بٹ کوائن بنیادی طور پر ایک قیاس آرائی (سٹے بازی) پر مبنی سرمایہ کاری کے طور پر استعمال ہوتے ہیں نہ کہ متبادل کرنسی اور بطور آلہ مبادلہ '' ١
مجموعی طور پر ان محققین نے بٹ کوائن کا موازنہ پانچ اثاثوں کی کلاسوں یعنی ایکویٹی (S&P500
اور S&P600) ، قیمتی دھات (گولڈ اور سلور سپاٹ) ، چھ مختلف کرنسی جوڑے
(EUR/USD AUD/USD، JPY/USD، GBP/USD، CNY/USD، HUF/USD )
توانائی (WTIکروڈآئل انڈیکس ،HH نیچرل گیس انڈیکس)، اور بانڈ (بلومبرگ یو ایس کارپوریٹ بانڈ انڈیکس، بلومبرگ یو ایس ٹریژری بانڈ انڈیکس، بلومبرگ USD ہائی یلڈ کارپوریٹ بانڈ انڈیکس) سے کیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بٹ کوائن تمام روایتی اثاثوں کی کلاسوں سے مختلف ہے ۔
ان ہی محققین نے تحریر کیا ہے کہ تقریباً دو سے پانچ فیصد لوگوں نے بٹ کوائن کو چیزوں اور اشیا کی خریداری کے لیے استعمال کیا جبکہ ٩٥ فیصد لوگوں نے اس کو بطور سرمایہ کاری کے استعمال کیاان کی تحقیق کا خلاصہ یہ تھا :
1 : Dirk G. Baur, KiHoon Hong, Adrian D. Lee, Bitcoin: Medium of exchange or speculative assets Journal of International Financial Markets, Institutions and Money, Volume 54, 2018
''ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بہت کم ایسے صارفین ہیں جو بٹ کوائن کو خالصتاً بطور آلہ مبادلہ استعمال کرتے ہیں اور صارفین کی بہت بڑی تعداد بٹ کوائن کو سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتے ہیں ''
خلاصہ کلام :
سائنسدان اور محققین کرپٹو کرنسی کی ماہیت کے بارے میں واضح سمجھ رکھتے ہیں اسی طریقے سے علمائے کرام کی اکثریت اور مستند دارالافتا ء کا بہت ہی واضح موقف ہے کہ کرپٹو کرنسی کی اپنی ذاتی خرید وفروخت یا اس کے ذریعے سے دیگر اثاثہ جات کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے ۔
علمائے کرام کے مطابق یہ فرضی و تخیلاتی نمبر شرعی طور پر '' مال '' بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اس مضمون میں ہم نے علمائے کرام کے موقف کو مزید تقویت دینے کے لیے سائنسی حوالہ جات فراہم کیے ہیں ! وہ دن گئے جب کرپٹو کرنسی کے بارے میں تکنیکی تفصیلات چھپائی جا سکتی تھیں اب کوئی بھی کرپٹو کرنسی کی اصل ماہیت کو سمجھنے کے لیے اصل سائنسی ماخذ کو پڑھ سکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے جیسا کہ ہمارے معزز علمائے کرام پہنچے ہیں یعنی کرپٹو کرنسی محض '' کھاتے (لیجر) میں فرضی نمبروں کے اندراج کی تجارت ہے '' یا مزید واضح طور پر '' مبیع کے بغیر ٹرانزیکشن کی خریدوفروخت ہے''
٭




استفتاء
٭٭٭
اس وقت نیٹ پر کئی ناموں سے ڈیجیٹل کرنسیاں رائج ہیں پوچھنا یہ ہے کہ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اور ان کے ذریعے کاروبار کرنے کا کیا حکم ہے ؟
برائے مہربانی شرعی اعتبار سے رہنمائی فرمائیں




سموگ کیا ہے ؟
اس کے نقصانات کیا ہیں اور اس سے بچوں کو کیسے محفوظ رکھیں ؟
ڈاکٹر سید واجد علی شاہ صاحب
سابق سینئر نائب امیر جمعیة علماء اسلام ضلع لودھراں
٭٭٭
سموگ(SMOG)ایک انگریزی اصطلاح ہے جو سموک (دھواں )اور فوگ (دھند)کے امتزاج سے بنی ہے یہ ہوا میں موجود آلودہ ذرات، دھوئیں ، کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور دیگر کیمیائی مادوں کے ملنے سے بنتی ہے جو زیادہ تر گاڑیوں کے دھوئیں ، صنعتوں کی آلودگی اور کوڑا کرکٹ جلانے سے پیدا ہوتے ہیں سموگ کی وجہ سے فضا میں موجود آکسیجن کم ہوتی ہے اور سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے !
سموگ کے نقصانات :
سموگ انسانی صحت، ماحول اور معیشت پر منفی اثرات ڈالتی ہے اس کے چند اہم نقصانات درج ذیل ہیں :
(١) سانس کی بیماریوں میں اضافہ :
سموگ میں موجود زہریلے مادے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جس سے دمہ، برونکائٹس اور سانس لینے میں دشواری جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں خاص طور پر بچوں اور بزرگوں میں !
(٢) آنکھوں اور جلد پر مضر اثرات :
سموگ کی وجہ سے آنکھوں میں جلن، آنسو آنے اور جلد کی خرابی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں حساس جلد والے افراد کے لیے یہ مسائل زیادہ شدت اختیار کر سکتے ہیں !
(٣) دل کی بیماریوں کا خطرہ :
ہوا میں موجود کاربن مونو آکسائیڈ اور دیگر زہریلے ذرات خون میں شامل ہو کر دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی پیدا کر سکتے ہیں جس سے دل کی بیماریوں اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے !
(٤) بچوں کی صحت پر اثرات :
سموگ بچوں کی سانس کی نالیوں کو متاثر کرتی ہے جس سے ان کی جسمانی نشوونما اور دماغی صلاحیتوں پر منفی اثر پڑتا ہے !
(٥) ماحول پر منفی اثرات :
سموگ کی وجہ سے سورج کی روشنی زمین تک کم پہنچتی ہے جس سے درختوں اور فصلوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اس کے علاوہ یہ جنگلی حیات اور آبی حیات کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے
سموگ کے اثرات سے بچوں کو بچانے کے لیے چند اہم احتیاطی تدابیر :
(١) باہر کھیلنے سے گریز :
سموگ کے دوران بچوں کو باہر کھیلنے اور زیادہ وقت گزارنے سے روکیں ، خاص طور پر صبح اور شام کے وقت جب سموگ زیادہ ہوتا ہے !
(٢) ماسک کا استعمال :
اگر بچوں کو باہر جانا ضروری ہو تو انہیں ماسک پہنائیں تاکہ وہ ہوا میں موجود مضر ذرات کو کم سے کم سانس میں لے سکیں !
(٣) گھر کے اندر رہنا :
سموگ کی شدت زیادہ ہونے پر بچوں کو زیادہ تر گھر کے اندر ہی رکھیں اس دوران کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں تاکہ آلودہ ہوا گھر میں داخل نہ ہو سکے !
(٤) ایئر پیوریفائر کا استعمال :
اگر ممکن ہو تو گھر کے اندر ایئر پیوریفائر استعمال کریں خاص کر بچوں کے کمروں میں تاکہ ہوا میں موجود نقصان دہ ذرات کو کم کیا جا سکے !
(٥) پانی اور خوراک کا خیال :
بچوں کو زیادہ پانی پلائیں تاکہ ان کا جسم ہائیڈریٹڈ رہے اور سموگ کے اثرات سے بچائو میں مدد مل سکے انہیں پھل اور سبزیاں کھلائیں جو ان کے جسم کی قوت مدافعت کو بڑھا سکیں (باقی صفحہ ٦١)




امیرجمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٦ نومبر بروز بدھ حضرت مولانا عبدالغفور صاحب حیدری مدظلہم العالی مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیة علماء اسلام وممبر قومی اسمبلی ،امیر پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم سے ملاقات کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے ،حضرت صاحب نے ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا بعد ازاں کافی دیر تک ملکی سیاسی اور جماعتی صورتحال پر گفتگو ہوتی رہی۔
٦ نومبر بروز بدھ بعد نمازِ عصر جمعیة لاء فار مز پنجاب کے وکلاء صاحبان جن میں سپریم کورٹ کے وکیل شیخ زکریا صاحب ایڈووکیٹ اور حافظ احسان الحق صاحب کھوکھر ایڈووکیٹ جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے ، حضرت صاحب سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات ہوئی ملاقات کے دوران پاکستان کی معاشی اقتصادی اور سیاسی صورتحال پر گفتگو ہوتی رہی۔
٧نومبر بروز جمعرات حضرت مولانا مفتی عامر محمود صاحب نائب مہتمم جامعہ قاسم العلوم ملتان جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور حضرت صاحب سے ملاقات کی اور ملاقات کے دوران صوبہ پنجاب میں جمعیة علماء اسلام کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی بعد ازاں خانقاہِ حامدیہ میں رات کا کھانا تناول فرماکر واپس تشریف لے گئے۔
معروف قانون دان اور سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس میں اہل حق کے نمائندہ جناب حافظ احسان الحق صاحب ایڈووکیٹ اور جناب محمد زکریا شیخ صاحب ایڈووکیٹ کی جامعہ مدنیہ جدید میں حضرت صاحب سے ملاقات ہوئی حافظ احسان الحق صاحب ایڈووکیٹ نے مبارک ثانی کیس کی روداد بیان فرمانے کے ساتھ ساتھ قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ حضرت صاحب نے مبارک ثانی کیس میں کامیابی اور اہلِ حق کی نمائندگی پر مبارک باد پیش کی اور دعاؤں سے نوازا ! !
اسی روز ڈھاکہ بنگلہ دیش کے مہمانانِ گرامی حضرت مولانا محمد عبدالسلام صاحب مدظلہم اور حضرت مولانا مفتی محمد عماد الدین صاحب مدظلہم، حضرت کی دعوت پر شام کے کھانے پر تشریف لائے اس موقع پر جمعیة علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری حضرت مولانا حافظ نصیر احمد صاحب احرار بھی موجود تھے۔
٩ نومبر بروز ہفتہ بعد نماز مغرب امام اہلِ سنت حضرت مولانا سرفراز احمد صاحب صفدر کے صاحبزادے مولانا عزیزالرحمن صاحب شاہد گجرانوالہ سے حضرت صاحب سے ملاقات کے لیے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے، ملاقات میں گجرانوالہ میں جمعیة علماء اسلام کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔
١٧ نومبر بروز اتوار بعد نمازِ ظہر حضرت صاحب ، جمعیة علماء اسلام تحصیل رائیونڈ کی دعوت پر مجلس عمومی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جامعہ خورشید العلوم موضع مَل سند ر روڈ رائیونڈ تشریف لے گئے جہاں آپ نے مختصر نصیحتیں فرماکر دعائے خیر فرمائی۔




بقیہ : سموگ کیا ہے ؟
٭٭٭
(٦) احتیاطی دوائیں :
اگر بچے کو دمے یا سانس کے کسی مسئلے کا سامنا ہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور ضروری ادویات استعمال کریں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال سے بچا جا سکے !
(٧) پانی سے کلی کروانا :
بچوں کو باہر سے واپس آکر ہاتھ، منہ اور ناک کو اچھی طرح دھونا سکھائیں تاکہ سموگ کے اثرات کم کیے جا سکیں !
(٨) سموگ کی صورتحال کو مانیٹر کریں :
موسمی اور فضائی معیار کی خبروں پر نظر رکھیں اور جب سموگ کی سطح زیادہ ہو تو باہر جانے سے گریز کریں ! ان ہدایات پر عمل کر کے خود کو بھی اور بچوں کوبھی سموگ کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے اپنی اور بچوں کی صحت کے لیے ہومیوپیتھک ادویات علامات کے مطابق استعمال کریں اور مستقل شفایاب ہوں ! ! !




اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد شارع رائیونڈ لاہور )
٭٭٭
سالانہ تبلیغی اجتماع پر ملک بھر سے علماء کرام اور فاضلین جامعہ مدنیہ جدید اور عوام جوق درجوق جامعہ مدنیہ جدید آئے اور خانقاہِ حامدیہ میں وقتاً فوقتاً حضرت صاحب سے ملاقات سے مستفید ہوتے رہے
١٠ نومبر بعد نمازِ ظہر حضرت صاحب اپنے بھانجے عَمَّادُ الاسلام کا نکاح پڑھانے کے لیے لاہور چھاؤنی تشریف لے گئے۔
١١ نومبر کو حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب اور بھائی عتیق صاحب بعد نماز مغرب حضرت امیر صاحب کی دعوت پر خانقاہِ حامدیہ تشریف لائے اور شام کا کھانا حضرت صاحب کے ساتھ تناول فرمایا،بعد ازاں مہانوں کو رخصت کر کے حضرت اپنے بھانجے عَمَّادُ الاسلام کے ولیمہ میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے رات سوا گیارہ بجے واپس جامعہ تشریف لے آئے، والحمدللہ !
١٧ نومبر بعد نماز عشاء حضرت صاحب ، فاضل جامعہ مولانا ارسلان صاحب کی دعوت پر سیرت مصطفی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے بستی کماس تحصیل رائیونڈ تشریف لے گئے جہاں آپ نے اسلام کی افادیت اور وحدانیت پر مدلل گفتگو فرمائی۔
٢٠ نومبر کو ڈھاکہ بنگلا دیش کے حضرت مولانا ضیاء بن قاسم صاحب القاسمی مدظلہم تشریف لائے اور حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب کو بنگلہ دیش کے دورے کی دعوت دی۔
٢١ نومبربروز جمعرات بعد نمازِ ظہر حضرت صاحب گوجرانوالہ، وزیر آباد، سیالکوٹ کے علماء کرام اور ذمہ داران کی درخواست پر دو روزہ دورے پر روانہ ہوئے نمازِ عصر راستے میں اداکی، کگھڑ منڈی میں مولانا خالد محمود صاحب سرفرازی نے استقبال فرمایا نمازِ مغرب وزیر آباد میں ادا کی بعداز نماز مغرب حضرت صاحب نے وکلاء اور تاجر برادری سے خطاب فرمایا
بعد ازاں مولانا رفیق عابد صاحب علوی کے ہاں کوٹ خضریٰ میں کھانا تناول فرمایا بعد نماز عشاء کگھڑ کی طرف روانہ ہوئے رات کو پرانے تبلیغی مرکز جامع مسجد نور میں علماء کرام وعوام الناس سے تفصیلی خطاب ارشاد فرمایا اور اپنے دست مبارک سے حفاظ کرام میں اسناد تقسیم فرمائیں ۔
جلسہ کے بعد حضرت مولانا حمادصاحب اور ابن امام اہل سنت حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب شاہد صاحب اور علماء کرام نے حضرت سے لب ِ سڑک مختصر ملاقات کی اس کے بعد سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے علماء کرام سے ٹریفک کی خراب صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے باقی تقریبات والوں سے معذرت فرماکر اسی رات واپس تشریف لے آئے۔
محترم الحاج شفیق صاحب صدیق جو ایک ماہ سے خانقاہ حامدیہ میں مقیم تھے اور بڑی پابندی سے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم کے درسِ بخاری شریف میں برکت حاصل کرنے کی نیت سے حاضر باش رہے مورخہ ٢١ نومبر کو واپس برطانیہ تشریف لے گئے۔




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560




وفیات
٭٭٭
٭ ٣١ اکتوبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے ناظمِ مطبخ حافظ محمد عظیم صاحب کی خوشدامن صاحبہ طویل علالت
کے بعد کراچی میں وفات پاگئیں
٭ ٩ نومبر کو حضرت مولانا قاری قیام الدین صاحب کا دس سالہ نواسہ ، فاضلِ جامعہ مدنیہ
مولانا محمد ناصر خان صاحب کا بیٹا بوجہ سرطان طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگیا
٭ ١٧ نومبر کو مکی مسجد انارکلی کے سابق امام و خطیب ، فاضل جامعہ مدنیہ حضرت مولانا قاری نذیر احمد صاحب
کے صاحبزادے قاری محمدزہیر صاحب طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرماگئے
٭ ٢٧ نومبر کو امیر جمعیة علماء اسلام ضلع مری حضرت مولانا قاری سیف اللہ صاحب کے بڑے بھائی
حاجی محمد ظہراب صاحب عباسی انتقال فرماگئے۔
٭ ٢٨ نومبر کو فاضل جامعہ مدنیہ جدید مولانا محمد ساجد جان صاحب کے والد صاحب انتقال فرماگئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔




جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079142) MCB کریم پارک برانچ لاہور

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.