Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

دسمبر 2023

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدینہ
جلد : ٣١ جمادی الاوّل ١٤٤٥ھ / دسمبر ٢٠٢٣ء شمارہ : ١٢
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'٭٭٭
' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
جازکیش نمبر : 923044587751+
جامعہ مدنيہ جديد : 924235399051+
خانقاہِ حامديہ : 924235399052+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923354249302+
موبائل : 923234250027+
دارُالافتاء : 923214790560+
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٨
غارِ ثور میں قیام اور ضروری انتظامات حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ١٢
میرے حضرت مدنی قسط : ٥ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ١٩
تربیت ِ اولاد قسط : ٩ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٢٨
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٠ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣١
القدس اور فلسطین کس کا ہے ؟ حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ٣٩
آب ِزم زم ..... فضائل اور برکات قسط : ٤ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب ٤٧
سبق آموز تاریخی حقائق قسط : ٤ حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی ٥٣
ترانہ ٔ ختم نبوت پروفیسر محمد بشیر متین صاحب فطرت ٥٩
ایک خواب ٦١
امیر پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦٢
اخبار الجامعہ ڈاکٹر محمد امجد صاحب ٦٣
وفیات ٦٤
مارچ ٢٠٢٠ء کے اداریہ میں '' بابائے صیہونیت'' ہنری کسنجر کا ایک بیان نقل کرکے اس پر مدیراعلیٰ حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب نے کچھ تحریر کیا تھا آج ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ اس کو ایک بار پھر نظر سے گزارا جائے تاکہ کفار کے زہریلے عزائم اُمت کو جھنجوڑتے رہیں شاید کہ کسی درجہ میں بیداری کا سبب بن جائیں (ادارہ)
حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
'' ملت ِ کفر '' ازل سے ''ملت ِ اسلام'' کے لیے سنگ دل ہی رہی ہے ملت ِاسلام کی شمشیرِبارقہ ١ کی کیمیا اثر شعائیں وقتاً فوقتاً اِن کور چشموں کی دھلائی کی خدمات سر انجام دیتی رہی ہیں اس شمشیرِ مہربان کی بدولت لاعلاج مشرکوں کے پھوڑے، ڈھیٹ صیہونی سرطان اور چاپلوس صلیبی یرقان اپنی حدود سے جب بھی باہر ہوا تو اُس کی تابندہ چمک نے یا تو اس کے تاریک باطن کو روشن کر کے ایسا مسخر کیا کہ وہ معاشرہ کا صحت مند فرد بن گیا بصورت ِ دیگر نیستی کے گڑھے میں سیاہ پتھروں کے بوجھ تلے ہمیشہ کے لیے گھپ اندھیروں کا باسی بن کر رہ گیا ! ! !
مگر پرایوں کی ازلی عیاری کا حصہ بن کر جب سے اپنوں کی غداری نے اس روشن تلوار کو نیاموں کے بجائے اپنی بیٹھکوں اور زینت کدوں کی اُجڑی دلہن بنادیا تب سے کفر کا سرکش طاغوت بھی بے لگام ہوگیا ہے !
اس کی اشتعال انگیزی اور شدت پسندی کی ایک جھلک سابق امریکی یہودی وزیرِ خارجہ کے ایک آتشی بیان میں ملاحظہ فرمائیں :
١ چمکتی تلوار
واشنگٹن (آن لائن) سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجرنے خبردار کیا ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے اور ایران اِس جنگ کا نقطۂ آغاز ہوگا ! جس میں اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ عربوں کو ہلاک کرنا ہوگا ! ! !
اور آدھے مشرقِ وسطیٰ پر قبضہ کرلے گا ! ! اُنہوں نے یہ بات ایک انٹرویو میں کہی
انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکی فوج کو بتادیا ہے کہ ہمیں مشرقِ وسطیٰ میں سات ملکوں پر اُن کی اسٹرٹیجک ١ اہمیت کی وجہ سے قبضہ کرنا ہوگا خاص طور پر ! کیونکہ وہ تیل اور دیگر اقتصادی وسائل رکھتے ہیں ! ! صرف یہی ایک قدم رہ گیا ہے کہ ایران پر حملہ کیا جائے ! ! !
ہنری کسنجر نے کہا کہ جب روس اور چین اپنی حماقت سے قدم اُٹھائیں گے توعالمی جنگ جیتی جا چکی ہوگی اور صرف ایک قوت اسرائیل اور امریکہ جیتیں گے ! ! اسرائیل کو اپنی قوت اور ہتھیاروں کے ساتھ لڑنا ہوگا اور جتنا زیادہ ممکن ہوسکے عربوں کو مارنا ہوگا ! ! اور مشرقِ وسطیٰ کے نصف حصے پر قابض ہوگا ! ! !
اُنہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ میں طبلِ جنگ پہلے ہی بج چکا ہے ! اور صرف کوئی بہرہ ہی ہوگا جو یہ سن نہیں سکتا ! ! اُنہوں نے کہا کہ اگر ان کے نقطۂ نظر سے حالات اچھے گئے تو اسرائیل کے پاس نصف مشرقِ وسطیٰ کا کنٹرول ہوگا ! ! !
ہنری کسنجر نے کہا کہ امریکی اور یورپی نوجوان عوام گزشتہ دس سالوں میں لڑائی میں اچھی تربیت حاصل کر چکے ہیں اور اُنہیں لڑائی میں جانے کا حکم دیا جائے گا تو وہ احکامات کی پیروی کریں گے اور اُنہیں راکھ بنادیں گے (یعنی مسلمانوں کو)۔ سابق امریکی وزیرِخارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے ان اسلامی ممالک سے کئی مقامی باشندوں کو خرید یا کرائے پر حاصل کر رکھا ہے اور وہ ہمارے منصوبوں کے لیے
١ STRATEGIC ( فوجی و عسکری )
کام کر رہے ہیں جیسا کہ ہم ان پر بھاری سرمایہ لگا چکے ہیں یہ ہماری توقعات سے بڑھ کر اچھا کام کر رہے ہیں ! ان'' غداروں '' کی وجہ سے ہم اپنے مقاصد کے حصول کے انتہائی قریب ہیں ! ! !
کسنجر نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل، رُوس اور ایران کے لیے تابوت تیار کرچکے ہیں اور ایران اس تابوت میں آخری کیل ہوگا جب امریکہ انہیں بہتری کے لیے موقع دے گا اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے اختتام پزیر ہوجائیں گے تاکہ امریکہ ایک نئی عالمی کمیونٹی تشکیل دے سکے جہاں سپر پاور کے طور پر صرف ایک حکومت ہوگی ! ! ! کسنجر نے کہا کہ اِس وقت ان کا خواب ہے کہ ان کا ویژن حقیقت بن کر سامنے آئے'' (روزنامہ نوائے وقت لاہور ٦ جنوری ٢٠٢٠ء )
٭٭٭
اس بیان کے ایک ایک لفظ سے انتہا پسندی، عدمِ برداشت اور ''ہم ہی ہم'' کے شدت پسند رُجحانات کی عکاسی خوب خوب واضح ہورہی ہے ! یہ نوے برس سے اُوپر کا بابا ئے یہودو نصاریٰ ظلم وجبر کی ترجمانی کرتے ہوئے ایسے سچ بھی اُگل گیا ہے جو ہمارے لیے نئے نہیں ہیں !
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایران اس جنگ کا نقطۂ آغاز نہیں ہوگا بلکہ اِس کی آڑ میں اس کے آس پڑوس کو نقطۂ آغاز بنائے جانے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں ! ! !
ہم اس اندرونی حقیقت کا بھی اچھی طرح اِدراک رکھتے ہیں کہ مشرقِ وسطی کے سات ممالک پر یہودو نصاریٰ قبضہ کر چکے ہیں ! البتہ اِس کا باضابطہ اعلان کرنا باقی ہے جوکہ کچھ عرصہ بعد متوقع ہے مشرقِ وسطیٰ کے عرب حکمران ان کے پروردہ اور بے دام غلام ہیں ! اس دجالی تحریک میں ایران اِن کا شریک ہے ! ! رُوس وچین بھی کئی دہائیوں سے جاری مسلم اُمہ کے خلاف بپا عالمی بربریت کے خاموش حصہ دار ہیں ! ! ! یہ مسلم دنیا کے خلاف عالمی قبضہ گروپ ہے ایک قبضہ کرتا ہے دوسرا قبضہ چھڑاتا ہے اور مفادات کی شکل میں آمدنی ان سب کے مشترکہ خزانہ میں جمع ہوجاتی ہے افغانستان، عراق، شام، لیبیا، فلسطین ، افریقہ، برما، کشمیر اور بھارت میں ہونیوالی امریکی اور نیٹو کارروائیاں سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر نہیں ہوئیں چین بھی اس کا ویٹو پاور کاحامل ممبر ملک ہے اور اس کی رضا مندی اِن تمام دہشت گرد سرگرمیوں میں شامل ہے ! ! !
فی الوقت بشمول چین عالمی ایجنڈے کی اوّلین ترجیح ''بیت المقدس'' ہے جس پر یہودو نصاریٰ اپنے فوجی تسلط کے بعد اپنا سیاسی تسلط بھی قائم کر چکے ہیں ، اپنے اس عمل کو مزید مستحکم کرنے کے لیے عرب حکمرانوں کو وہ فتح کر چکے ہیں ! !
بر صغیر کی عظیم مزاحمتی مسلم قوت کو کشمیر اور بھارت میں '' مودی'' اور پاکستان میں '' عمران خان'' لاکر افرا تفری گھیراؤ جلاؤ میں اُلجھا دیا گیا ہے ! !
اب مشرقِ وسطی کا میدان صاف ہے ! عمرانیاتِ بیت المقدس سے قیامت کی علامات ِ کبریٰ کے ظہور کا آغاز ہوچکا ہے ! ١ ترکی اور پاکستان خاص اہمیت کے حامل مسلم ممالک ان کا اہم ہدف ہیں ! مگر اُمت سوئی ہوئی ہے ! ! کب جاگے گی ؟ ؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ! !
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغْ
١ عُمْرَانُ بَیْتِ الْمَقْدِسِ خَرَابُ یَثْرِبَ وَ خَرَابُ یَثْرِبَ خُرُوْجُ الْمَلْحَمَةِ وَخُرُوْجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ قُسْطُنْطِیْنِیَِّةِ وَ فَتْحُ الْقُسْطُنْطِیْنِیَِّةِ خُرُوْجُ الدَّجَّالِ ۔ ( سُنن ابوداود کتاب الملاحم رقم الحدیث ٤٢٩٤ )
درسِ حدیث
٭٭٭
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
انبیائِ کرام علیہم السلام کی استغفار کا مطلب !
بار بار توبہ کرنے والا کن میں شمار ہوگا ؟
(درسِ حدیث نمبر٦٠/١٢٣ ٢٣ شعبان المعظم ١٤٠٤ھ/٢٥ مئی ١٩٨٤ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
جنابِ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے استغفار کی تعلیم دی ہے اُس کی فضیلت بتلائی ہے اور اُس کو مزید ذہن نشین کرنے کے لیے استغفارکے کلمات خود اِستعمال فرماکر بتلایا ہے ! حدیث شریف میں آتا ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ایک دن میں ستر مرتبہ استغفارفرمایا کرتے تھے ! تو یہ کیا ہوا ؟ یہ لوگوں کو بتلانا ہوا کہ لوگ اس پرعمل کریں !
دوسری بات ارشاد فرمائی کہ اِنَّہُ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِیْ میرے دل پر ایسے ہوتا ہے جیسے بادل آجائے دُھند جیسی آجائے تومیں استغفار کرتا ہوں ! !
ایک تو اِستغفار کے معنی ہیں اور دُوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم پر جو یہ کیفیت آتی تھی اُس کی کیا وجہ تھی اُس کی توجیہہ کیا تھی ؟ ؟
استغفار کے معنٰی :
استغفار کے معنٰی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف کردے،اگر کوئی گناہگار آدمی ہے
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٢٤
وہ کہتا ہے اَسْتَغْفِرُاللّٰہْ یا کہتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ تو میرے گناہوں کو ڈھانپ لے اپنی رحمت سے، وہ چھپے رہیں اُن کا کسی کو پتہ نہ چلے تیرے سوا ! یہ بھی اُس کا احسان ہوتا ہے کہ آدمی میں عیب ہوتے ہیں اور کسی کو خبر نہیں ہوتی اور پھر اللہ تعالیٰ وہ چھپاکر بالکل ختم کردیتے ہیں معاف فرما دیتے ہیں ،یہ تو ہوا ہم لوگوں کا استغفار، گناہگاروں کا استغفار،نبی کے سوا باقی لوگوں کا استغفا ر کیونکہ صغائر وکبائر سے بچنا یہ سوائے انبیا ئِ کرام کے باقی کسی سے ممکن ہی نہیں کہ خلافِ اُولیٰ کام بھی اُس سے بالکل نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا ! !
ہاں انبیائِ کرام کو اللہ تعالیٰ نے اسی طرح کا بنایا ہے معصوم بنایا ہے اُن کی طبیعت اسی طرح بنائی ہے کہ وہ بچے رہتے ہیں ! ! !
انبیائِ کرام کو بھی استغفا ر کا حکم ہے :
انبیاء ِکرام علیہم السلام کو بھی یہی حکم ہوا کہ آپ استغفار کریں ! تو اِس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جو ہم سے ہمارے منصب کے مناسب بات نہ ہوئی ہو وہ بھی تو ایک ایسی چیز ہو جاتی ہے، آپ کہتے ہیں کسی آدمی سے کہ تم سے مجھے یہ اُمید نہیں تھی کہ تم ایسی بات کرو گے یا ایسی بات کہو گے تو اس طرح کی چیز انبیا ئِ کرام علیہم الصلٰوةوالسلام سے اگر ہو گئی ہے تو استغفار کیا جائے ! حضرت موسٰی علیہ السلام سے ایک آدمی مارا گیا تھا ! ارادہ تو مارنے کا نہیں تھا وہ مُکّا غلط جگہ لگ گیا یا خود بہت قوی تھے تو وہ مر گیا ختم ہو گیا ! تو آپ نے دُعایہی کی رَبِّ اغْفِرْلِیْ اور پھر آیا ہے حضرت موسٰی علیہ السلام کے بارے میں کہ فَغَفَرَلَہ اللہ نے معاف فرمادیاتو خلاف ِشان جو کام ہو جائے وہ بھی مراد ہوتاہے ! !
اعلیٰ درجہ کی استغفار :
اور تمام چیزوں سے بلند ایک قسم ہے استغفار کی جو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کرتے تھے، اُس کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند کریم تو ہمیں اپنی رحمت میں ڈھانپے رکھ یہ اُس کا مطلب ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ کا مطلب ہے خدا وند ِکریم تو مجھ کو اپنی رحمت میں ڈھانپے رکھ اور آخری تعلیمات میں پھر یہ آ رہا ہے (فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ) جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے ارشاد ہو رہا ہے کہ تسبیح کرو خدا کی پاکی بیان کرو، خداکے پاکیزہ ہونے کا اعتراف کرو اور استغفار کرتے رہو اللہ سے !
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ جناب ِرسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نمازمیں جیسے رکوع اور سجدہ ہے اُس میں فرماتے تھے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وہ کہتی ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو میں نے پھر یہ سمجھا کہ یہ جو قرآن میں آیت آئی ہے ( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ) اس سے آپ نے یہ عبارت بنائی، اس حکم کے مطابق یہ عبارت بنائی ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ یَتَأَوَّلُ الْقُرْآنْ ١ قرآنِ پاک کے کلمات سے آپ نے یہ عبارت بنائی !
''غَینْ ''کی وضاحت :
اوروہ جو آپ نے فرمایا کہ میرے دل پرپردہ سا آجاتاہے ''غَین ''آ جاتاہے جیسے دُھند آگئی ہو اور میں استغفار کرتاہوں ! اس میں میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ یہ خاص چیز ہے جو سمجھنی بھی چاہیے، ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ انبیا ئِ کرام علیہم السلام کااور باقی تمام کا بھی اصل مقام یہی ہے کہ خدا کی طرف لگے رہو باقی کسی طرف نہیں ! لیکن اَنبیا ء کرامعلیہم السلامکو حکم ہے کہ مخلوق کی طرف (بھی) لگو اُن کو سمجھاؤ اُن کو دعوت دو ! اور جو تکلیف پہنچائیں تو باوجود اُن تکالیف کے تم اپنی جگہ قائم رہو اور دعوت دیتے رہو ! تو اس طرح کے جو حکم ہیں ا س حکم کی بناء پراَنبیا ء کرام علیہم الصلٰوة والسلام مخلوق کی طرف توجہ کرنے پرمامور تھے ! اور جتنی دیر مخلوق کے ساتھ بیٹھتے ہیں اُٹھتے ہیں معاملات سنتے ہیں فیصلے دیتے ہیں سوچتے ہیں اُن کے معاملات کے بارے میں تو وہ سارے کا سارا وقت جتنا بھی اس کام میں گزرا ہو وہ گویا مخلوق کی طرف توجہ میں (بھی )گزرا تو اِس کا اثر طبیعت پر یہ ہوتا ہے کہ
جیسے یہ نامناسب سا وقت گزرگیا حالانکہ وہ خدا کے حکم میں اور تعمیل میں گزرا ! لیکن اثر ہوتا ہے ! تو اِس کا ذکر فرمانا کہ میرے دل پر غَین جیسا آجاتاہے دُھند جیسی آجاتی ہے تومیں استغفار کرتاہوں ! !
اب یہ استغفار کسی گناہ سے بھی نہیں ہے، یہ استغفار کسی نامناسب کام سے بھی نہیں ہے، یہ استغفار جو ہے
یہ خدا کی رحمت کی طلب ہے ! اس کامطلب صرف اتناہے کہ یہ خدا کی ر حمت کی طلب ہے اور اِس
١ مشکوة المصابیح کتاب الصلٰوة رقم الحدیث ٨٧١
کیفیت کو ہٹانے کی دُعا ہے کہ یہ ہٹ جائے اور جو کیفیت صحیح ہے وہ قائم رہے تو جنابِ سرور کائنات علیہ الصلٰوة والسلام نے استغفار تعلیم فرمایا او راُس کی فضیلت بتلائی ،فضیلتیں آگے آئیں گی ! ایک آدمی اگر توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں بخش دُوں گا اورخدا کا وعدہ سچا ہے ! !
باربار توبہ کرنے والے کا حکم ؟
تو اِستغفار کرنے والا آدمی اللہ کے ہاں استغفار کرنے والو ں میں شمار ہونے لگتاہے ! حدیث شریف میں آتاہے کہ ایک آدمی گناہ کرتاہے پھر توبہ کرلیتا ہے ! پھر گناہ کر لیتاہے پھر توبہ کرلیتا ہے ! ایک صحابی نے پوچھا کہ اس آدمی کو کس میں شمار کیا جائے گا ؟ یہ اُن لوگوں میں ہیں جو بار بار توبہ توڑ رہے ہیں ،مجرم ہیں ، گناہ کاکام کر رہے ہیں یہ اِس فہرست میں جائے گا یا اُس فہرست میں جائے گا جو بار بار توبہ کررہے ہیں ؟ ؟ تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اُن لوگوں میں شمار ہوگا جو بار بار توبہ کررہے ہیں ! اُن میں شمار نہیں ہو گا جوبار بار گناہ کر رہے ہیں وَاِنْ عَادَ فِی الْیَوْمِ سَبْعِیْنَ مَرَّةً ١ چاہے اُس سے گناہ کاکام ستر بار ہو جاتا ہو ، بار بار توبہ ٹوٹ کر ہو جاتاہو ! ! لیکن جب گناہ کا کام ہوا تو فورًا اُس نے استغفار کر لی توپھر ایسا ہے کہ اِس کا شماراللہ کے ہاں باربار توبہ کرنے والوں میں ہوگا ، باربار گناہ کرنے والوں میں شمار نہیں ہو گا ! !
استغفار کی فضیلتیں بھی بہت زیادہ ہیں اور یہ (رمضان المبارک کے)دن بھی استغفار کے ہیں اللہ تعالیٰ سے استغفار بھی کیا جائے دُعا بھی کی جائے، اپنے لیے بھی کی جائے، مُلک کے لیے بھی کی جائے، پوری دُنیا کے مسلمانوں کے لیے کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے ہم سب کو اپنی بارگاہ میں مقبولین میں داخل فرمائے اور اپنی مرضیات کی توفیق عطا فرمائے ، چھوٹے ہوں یا بڑے اورحاکم ہوں یا محکوم اللہ تعالیٰ سب کو(اچھے کاموں کی) توفیق عطا فرمائے،آمین۔اختتامی دُعا.......................
( مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون ٢٠٠٢ء )
٭٭٭
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٣٤٠
سیرتِ مبارکہ
غارِ ثور میں قیام اور ضروری انتظامات
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
غارِ ثور میں قیام اور ضروری انتظامات :
( ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ) ١
''(صرف دو تھے دو میں سے ایک اللہ کے رسول تھے) جبکہ یہ دونوں غار میں تھے اور اللہ کے رسول اپنے صاحب (ساتھی) سے کہہ رہے تھے غمگین نہ ہو ،
یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے''
انبیاء علیہم السلام خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کے متوکل بلکہ آداب ِتوکل کے معلم اور متوکلین کے امام وپیشوا ہوتے ہیں ! اس غیر معمولی توکل اور اعتماد کے نتیجہ میں غیبی تائید اور نصرت ِ خداوندی کی وہ غیر معمولی صورتیں بھی پیش آتی رہتی ہیں جو اِن ہی کے ساتھ مخصوص ہوتی ہیں جن کو معجزہ کہا جاتا ہے ! اس کے باوجود وہ ظاہری اور مادی اسباب کو نظر اَنداز نہیں کرتے کیونکہ وہ صرف خانقاہ نشین درویش نہیں ہوتے ان کی زندگی صرف ان کے لیے نہیں ہوتی وہ نوعِ انسان کے معلم ہوتے ہیں اور ان کی زندگی پوری نوعِ انسان کے لیے سبق ہوتی ہے !
مکان سے نکلتے وقت قدرت نے خاص طرح کی مدد کی مگر آپ نے اور آپ کے رفیقِ خاص نے رُوپوش ہونے اور خفیہ روانگی کا جو نظام قائم کیا تھا وہ اُمت کے لیے بہترین سبق ہے ! اس کی تفصیل خاص طور پر قابلِ مطالعہ ہے
١ سُورة التوبة : ٤٠
دارُالندوة کا وہ اجلاس جس میں آپ کے متعلق غیر معمولی تجویز منظور کی گئی اور مشترک طور پر شہید کرنے کا منصوبہ طے کیا گیا وہ غالباً صبح کے وقت ہوا اِس کی اطلاع بطورِ تائید ِغیبی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو فورًا ہی ہوگئی اور فوراً ہی آپ نے روانگی کی تیاری شروع کردی ! ١
سیّد ہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ روزانہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لایا کرتے تھے صبح یا شام کو ٢ مگر ایک روز ہم نے دیکھا کہ ٹھیک دو پہر کے وقت تشریف لارہے ہیں ، سرمبارک پر کپڑا ڈالے ہوئے ہیں چہرہ مبارک کو بھی کچھ کپڑے سے چھپائے ہوئے ہیں ! !
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خبر دی گئی، فوراً حاضر ہوئے یا رسول اللہ آپ پر میرے ماں باپ قربان یہ ناوقت تشریف آوری کیسی ! ؟ ؟
ارشاد ہوا : کچھ بات کرنی ہے تنہائی ہونی چاہیے کوئی غیر آدمی ہو تو اُسے ہٹادو !
حضرت ابوبکر : غیر کوئی نہیں ، دو لڑکیاں ہیں ، ایک آپ کی خادمہ عائشہ، دوسری اُس کی بہن اسماء !
فرمایا : تمہیں معلوم ہے مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ! ! ٣
١ ابن ِسعد کی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ منصوبہ طے کر کے لوگ منتشر ہوگئے (اجلاس ختم ہوگیا) ! جبرئیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے پاس آئے، یہ خبر سنائی اور کہا کہ آج کی شب اپنے اس بسترے پر آرام نہ فرمائیں ، رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہاں پہنچے( ابن سعد ج ١ ص ١٥٣) اس تفصیل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اجلاس صبح کے وقت ہوا ۔ ٢ بخاری شریف ص ٥٥٢ تا ٥٥٤
٣ یعنی آج یہ سفر اس لیے نہیں ہے کہ دشمنوں نے قتل کا منصوبہ بنا رکھا ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اب تک ہجرت کی اجازت نہیں تھی آج مل گئی ہے اور اگر دارُالندوة کا اجلاس رات کے وقت ہوا تھا تواگرچہ اس کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کو فوراً مل گئی تھی مگر دوپہر تک آپ نے روانگی کا قصد اس لیے نہیں کیا کہ اب تک ہجرت کی اجازت نہیں ملی تھی اب جیسے ہی اجازت ملی آپ نے تیاری شروع کردی واللّٰہ اعلم بالصواب
صدیقِ اکبر ! یہ خادم ساتھ رہے گا آپ پر میرے باپ قربان یا رسول اللہ ! ١
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم : بہت اچھا !
یہ اجازت ایسی بشارت تھی کہ فرطِ مسرت سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا کہ خوشی میں آنسو آجاتے ہیں ! ٢
پھر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا دو سانڈنیاں تیار ہیں ٣ ان میں سے ایک منظور فرمائیے
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم : ضرور مگر قیمت لینی ہوگی ! ٤
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے بڑی تیزی سے سامانِ سفر کی تیاری شروع کردی اور جلدی جلدی میں جو ناشتہ تیار ہوسکتا تھا وہ تیار کر لیا ٥ پھر ہم نے چمڑے کے تھیلے میں ناشتہ بھر دیا ایک مشکیزے میں پانی بھر دیا لیکن تھیلے کا منہ بند کرنے کے لیے کپڑے کی ضرورت تھی اور مشکیزے میں بھی تسمہ نہیں تھا جس سے اس کو اُٹھایا جاسکے ٦ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بڑی ہمشیرہ
١ یہ ہے عشقِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم ! اہل و عیال، مال اور جائیداد وغیرہ کا کوئی تصور سامنے نہیں تھا قلب ِمضطر کی تڑپ صرف یہ ہے اَلصَّحَابَةُ بِاَبِیْ اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (بخاری شریف ص ٥٥٣) آپ کی رفاقت، میرے باپ آپ پر قربان یا رسو ل اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ٢ سیر ت ابن ِہشام ج١ ص٢٩١
٣ یہ پہلے گزر چکا ہے کہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ چار ماہ پہلے یہ سانڈنیاں خرید چکے تھے اور اس خیال سے کہ نہ معلوم کس وقت حکم ہوجائے ان اُونٹنیوں کو چرواہے کے سپرد نہیں کیا تھا بلکہ گھر پر کھڑا کر کے ِان کو چارہ کھلاتے رہے تھے۔
٤ واقدی کی روایت یہ ہے کہ ان دونوں کی قیمت آٹھ سودرہم تھی آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے جو سانڈنی منظور فرمائی وہ حضرت ابوبکر نے قبیلة بنی قشیر سے خریدی تھی اس کا نام قَصواء رکھا گیا، یہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی سواری میں آخر تک رہی اور آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی وفات کے بعد بہت کم زندہ رہی حضرت صدیق اکبر کے دورِ خلافت میں اس کی زندگی کا خاتمہ ہوا۔ (فتح الباری ج٧ ص ١٨٧)
٥ پرانٹھے نہیں صرف اُبلا ہوا یا بھنا ہوا بکری کا گوشت تھا (فتح الباری بحوالہ واقدی ج٧ ص ١٨٨)
٦ لیس فیہا عِصام (سیرت ابن ِہشام ج١ ص ٢٩٢)
(حضرت اسماء رضی اللہ عنہا) نے فوراً اپنے نطاق کے دو حصے کر لیے ١ ایک میں کھانے کا تھیلا باندھ دیا دوسرے میں مشکیزہ باندھ دیا تاکہ اُس کو اُٹھایا جاسکے ! ٢
روانگی :
آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم دولت کدہ سے روانہ ہوکر حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے یہاں پہنچے پھر یہ دونوں مکان کی پشت کی طرف سے کھڑکی سے نکل کر کوہ ِثور کی طرف روانہ ہوگئے جو مکہ معظمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے جس کی چوٹی پر یہ غار ہے جس نے غارِ ثور کے نام سے غیر فانی شہرت حاصل کی ٣ جب آپ روانہ ہوئے تو یہ دُعا زبانِ مبارک پر تھی ٤
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ وَلَمْ اَکُ شَیْئًا اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ھَوْلِ الدُّنْیَا وَ بَوَائِقِ الدَّھْرِ وَ مَصَائِبِ اللَّیَالِیْ وَالْاَیَّامِ ۔ اَللّٰھُمَّ اَصْحِبْنِیْ فِیْ سَفَرِیْ وَاَخْلِفْنِیْ فِیْ اَھْلِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا رَزَقْتَنِیْ وَلَکَ فَذَلْلِنِیْ وَعَلٰی صَالِحِ خُلْقِیْ فَقَوِّمْنِیْ وَاِلَیْکَ رَبِّ فَحَیِّّنِیْ وَ اِلَی النَّاسِ فَلَا تَکِلْنِیْ رَبَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ اَعُوْذُ بِوَجْھِکَ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَکَشَفَ بِہِ الظُّلُمَاتُ وَصَلَحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الاَوَّلِیْنَ وَالْاَخَرِیْنَ اَنْ تَحِلَّ عَلَیَّ غَضَبُکَ وَنَزَلَ بِیْ سَخَطُکَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ فُجَائَ ةِ نِقْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَ جَمِیْعِ سَخَطِکَ لَکَ الْعُقْبٰی عِنْدِیْ خَیْرَ مَا اسْتَطَعْتُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِکَ
١ نطاق خاص قسم کا تہبند ہوتا تھا اس کا عرض تقریباً ڈھائی میٹر (٩٠ اِنچ) ہوتا تھا اس کو بیچ میں سے باند ھ دیا جاتا پھر اُوپر کا حصہ نیچے لٹکا دیا جاتا جس سے یہ دہرا ہوجاتا تھا۔ (مجمع البحار و فتح الباری ج٧ ص ١٨٨)
٢ یہ اِیثار عنداللہ مقبول ہوا چنانچہ آپ کا خطاب ذات النطاقین ہوگیا(کترنوں ، لیروں ، دھجیوں والی) (بخاری شریف ج٢ ص ٨١١) ٣ سیرت ابنِ ہشام ج ١ ص ٢٩١ ، البدایة و النہایة ج ٣ ص ١٧٨ ٤ ایضاً
'' اُس خدا کی حمد جس نے مجھے پیدا کیا درحالانکہ میں کچھ بھی نہیں تھا (مجھے نیست سے ہست کیا) اے اللہ میری مدد فرما دنیا کی دہشت، زمانہ کے ہلاکت انگیز واقعات ، رات اور دنوں (گردش ِ روز و شب) کی مصیبتوں کے مقابلہ پر !
اے اللہ تو میرا ساتھی بن میرے سفر میں اور میرا قائم مقام بن میرے اہل و عیال میں میرے بعد (میری غیبوبت میں تو اُن کا محافظ اور نگراں رہ) ! اور اے اللہ جو تو مجھ کو رزق دے اُس میں برکت عطا فرما اور اے اللہ صرف اپنی ذات کے لیے ہی ایسا کر کہ مجھے اپنا مطیع اور اپنے سامنے عاجز بنائے کسی اور کے سامنے مجھے عاجز اور ذلیل نہ کر !
اے اللہ نہایت صالح اور مناسب اعمال پر میری تربیت فرما، افعالِ خیر کے بہترین سانچے میں مجھے ڈھال دے اور اے میرے رب صرف اپنی طرف کی محبت ہی میرے اندر بھردے اور جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے اے اللہ تو مجھے ان کے حوالے مت کر !
اے کمزوروں کے رب تو ہی میرا رب ہے میں تیری اُس باعزت ذات کی جس کی برکت سے آسمان اور زمین روشن ہیں اور جس سے تمام تاریکیاں فنا ہوجاتی ہیں اور جس کے فضل و کرم سے پہلے لوگوں اور بعد والوں کا سب کا معاملہ درست ہوا پناہ لیتا ہوں اس سے کہ میرے اُوپر تیرا غضب اور تیری ناراضگی نازل ہو میں تیری پناہ لیتا ہوں اس سے کہ تیرا نعام مجھ کو نصیب نہ ہو یااس سے کہ تیرا عتاب دفعتاً مجھ پر نازل ہوجائے اور پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ تیری معافی جو مجھے میسر ہے اُس میں تبدیلی آجائے، اور میں ایسی ہر چیز سے پناہ چاہتا ہوں جو تیری ناراضی کا سبب ہو، انجام کار تیرے ہی لیے ہے ! میں جہاں تک میرے امکان میں ہے خیر اور بھلائی ہی کی کوشش کرتا ہوں (مگر ) تیرے بغیر نہ کوئی طاقت ہے نہ کوئی قوت ہے جو کچھ قوت وطاقت ہے وہ تجھ سے ہی ہے''
ایک روایت یہ بھی ہے آپ نے یہ دعا فرمائی تھی :
اَللّٰھُمَّ اَخْرَجْتَنِیْ مِنْ اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیَّ فَاَسْکِنِّنِیْ فِیْ اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیْکَ ١
''اے اللہ تو نے مجھے اس شہر سے نکالا ہے جو مجھے تمام شہروں میں سب سے محبوب تھا تو اَب میری سکونت اُس شہر میں فرما جو تجھ کو سب سے زیادہ محبوب ہو''
سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ساتھ ساتھ تھے مگر جذبہ ٔ بے تاب قابلِ دید تھا کبھی آگے چلتے کبھی پیچھے، آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے دریافت کیا تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم آگے چلتا ہوں کہ حضور صلی اللہ عليہ وسلم کو کوئی گزند نہ پہنچے ،خیال آتا ہے کہ شاید پیچھے سے تعاقب کرنے والے پہنچ جائیں تو پیچھے ہوجاتا ہوں ! !
رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا تمہیں اپنی جان کا خطرہ نہیں ہے ؟ عرض کیا حضرت وہ تو قربان ہونے کے لیے ہے ہی ! ٢
راستہ طے ہوا غار کے کنارے پہنچے تو عرض کیا : حضرت ذرا توقف فرمائیں حضرت ابوبکر غار کے اندر اُترے صاف کیا پھر آقائے دو جہاں صلی اللہ عليہ وسلم سے عرض کیا تشریف لائیے !
اُن کو کیا فکر جن کا ساتھی اللہ ہو :
سو اُونٹ کا انعام جو قریش کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا معمولی نہیں تھا، مکہ والوں کی بہت سی ٹولیاں انعام کے شوق میں دوڑ پڑیں ، کچھ ٹولیاں اس طرف بھی آئیں ، ایک ٹولی غار کے قریب پہنچی تو وہاں سے کبوتر اُڑے، ٹولی آگے نہیں بڑھی کہ یہاں اگر ہوتے تو کبوتروں کا یہاں کیا کام تھا، غار کے منہ پر جھاڑ تھا ایک ٹولی جھاڑ کے قریب تک پہنچی اُس نے دیکھا کہ جھاڑ پر مکڑی کا جالا تنا ہوا ہے وہ جالا دیکھ کر واپس ہوگئی ٣ ایک ٹولی اُوپر چڑھی اور غار کے کنارے کے اُوپر سے اس طرح گزر گئی کہ سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے پاؤں دیکھے، یہ ٹولی گزرچکی تو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
لَوْ لَا اَحَدُھُمْ نَظَرَ اِلٰی قَدَمَیْہِ لَاَبْصَرَنَا ''اگر ان میں سے کوئی اپنے پیروں پر نظر ڈالتا تو ہمیں دیکھ لیتا''
١ البدایة والنہایة ج٣ ص ٣٠٥ ٢ دلائل النبوت للبیہقی بحوالہ فتح الباری ج ٢ ص ١٨٩
٣ طبقات ابنِ سعد ج ١ ص ١٥٤
اُسْکُتْ یَا اَبَابَکْرٍ اِثْنَانِ اللّٰہُ ثَالِثُھُمَا ١ ''خاموش رہو ابوبکر ! ہم دو ہمارا تیسرا اللہ ہے''
مَاظَنُّکَ یَا اَبَابَکْرٍ بِاثْنَیْنِ اللّٰہُ ثَالِثُھُمَا ٢ '' ایک روایت میں یہ ہے :ابوبکر اُن دو کے متعلق تم کیا گمان رکھتے ہو جن کا تیسرا اللہ ہے''
سرورِ کائنات صلی اللہ عليہ وسلم کی یہ زحمت ِسفر، صدیق اکبر کی رفاقت اور رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم کا یہ اعتماد بارگاہِ رب العزت میں قبول ہوا ! ٣
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٣٤٧ تا ٣٥٢ )
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
١ بخاری شریف ص ٥٥٨ ٢ بخاری شریف ص ٥١٦ و فتح الباری
٣ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ سفر اور غار میں قیام ستمبر کے مہینہ میں ہوا جو سخت گرمی کا مہینہ ہوتا ہے
میرے حضرت مدنی قسط : ٥
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
اَمیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
حضرت مدنی کا ایک یادگار خطبہ نکاح ، چند دلچسپ واقعات :
مجھے اپنی بچیوں میں سب سے پہلا سابقہ اور معرکہ ٔ آراء سابقہ سب سے بڑی دو بچیاں والدہ ہارون، والدہ زبیر کا مولانا یوسف صاحب و مولانا انعام الحسن صاحب کے نکاح سے پڑا
(الف) ہمارے خاندان کا قدیم دستور اصولِ موضوعہ کے طور پر یہ طے شدہ تھا کہ جب کوئی لڑکی پیدا ہو تو اُس کا اَقرب ترین نا محرم گویا شادی کے لیے متعین تھا، یہی وہ واقعہ ہے جس کو مولانا یوسف صاحب کے بعد مؤرخین نے گڑ بڑ کر کے نقل کردیا۔
ہوا یہ تھا کہ جب ہارون کی والدہ پیدا ہوئی تو دایہ نے اس بات کو کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے اس عنوان سے اعلان کیا تھا میری چچی کو مخاطب کر کے کہ آپا تمہیں مبارک باددُوں کہ اللہ نے تمہارے یوسف کے بہو دی یہ منگنا ہوگیا تھا ! والدہ زبیر کے متعلق ذہنوں میں تو سب سے مندرجہ بالا قاعدہ کے موافق طے شدہ تھا لیکن دو ایک سال بعد بھائی اکرام صاحب کا ایک کارڈ آیا کہ والد صاحب کے تعمیل حکم میں لکھ رہا ہوں تمہاری دوسری بچی سے عزیز اِنعام کے نکاح کی تجویز کو فرمایا ہے ! میں نے اس کے جواب میں لکھ دیا تھا کہ پھوپھا میرے بھی بڑے ہیں اس کے بھی بڑے ہیں ، میرے سے کیا پوچھنا ؟ یہ ہوا منگنا مولانا انعام الحسن صاحب کا !
چچا جان نور اللہ مرقدہ ہر سال مدرسہ مظاہر علوم کے سالانہ جلسے میں شنبہ کی شام کو تشریف لایا کرتے تھے حسب ِ معمول مؤرخہ ٢ محرم ١٣٥٤ھ مغرب کے قریب تشریف لائے اور فرمایا کہ ہمارے یہاں میوات میں جلسوں میں نکاحوں کا دستور پڑ گیا کل کے جلسے میں حضرت مدنی سے یوسف و اِنعام کا نکاح پڑھوا دُوں ! میں نے کہا شوق سے ضرور پڑھوا دیجیے مجھ سے کیا پوچھنا ! عشاء کی نماز کے کچھ دیر بعد میں نے اہلیہ مرحومہ اور دونوں بچیوں کے کان میں ڈال دیا کہ چچا جان کا ارادہ یہ ہے کہ کل کے جلسہ میں دونوں بچیوں کا نکاح پڑھوادیں ! میری اہلیہ مرحومہ نے اس کے لفظ مجھے خوب یاد ہیں یہ کہا کہ
'' تم دو چار دن پہلے کہتے تو میں ایک جوڑا تو ان کے لیے سلوادیتی ''مجھے اپنا جواب بھی خوب یاد ہے اور میرے جواب پر مرحومہ کا سکوت بھی ! ''اچھا مجھے خبر نہیں تھی، یہ ننگی پھر رہی ہیں میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ کپڑے پہنے پھرتی ہیں '' !
میرے جواب پر مرحومہ بالکل ساکت ہوگئی، جامع مسجد آتے ہوئے حضرت مدنی سے میں نے عرض کردیا کہ یوسف و اِنعام کا نکاح پڑھنے کے لیے چچا جان فرما رہے ہیں ۔ حضرت نے بہت ہی اظہارِ مسرت فرمایا ، کہا ضرور پڑھوں گا ضرور پڑھوں گا ! اور جامع مسجد میں پہنچنے کے بعد بیٹھتے ہی فرمایا کہ مہر کیا ہوگا ؟ میں نے عرض کیا کہ ہمارے یہاں مہر مثل ڈھائی ہزار ہے، حضرت جی کو غصہ آگیا، فرمایا کہ میں مہر فاطمی سے زیادہ پر ہرگز نہیں پڑھوں گا ! میں عرض کیا کہ یہ تو شرعی چیز ہے، فقہاء کے نزدیک مہر مثل سے کم پر سکوت کافی نہیں بالتصریح اجازت کی ضرورت ہے، تھوڑی دیر میرا اور حضرت کا جامع مسجد کے در میں بیٹھے بیٹھے مناظرہ ہوا ! میرے چچا جان نور اللہ مرقدہ اند رسے تو میرے ساتھ مگر حضرت جی کے غصے کی وجہ سے چپ تھے اور میں خوب ڈانٹیں سن رہا تھا ! میری اہلیہ مرحومہ کے والد مولانا رء وف الحسن صاحب جو قریب ہی بیٹھے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا جیسے حضرت فرما رہے ہیں مان لو ! میں نے کہا یہ تو شرعی چیز ہے میرے چچا جان نے فرمایا بچیوں میں سے کون سی انکار کردے گی اور یہ نکاح نکاحِ موقوف بن جائے گا اور جب تم گھر جاکر اظہار کردو گے تو تکمیل ہوجائے گی ! حضرت قدس سرہ منبر پر تشریف لے گئے اور سادہ نکاحوں کی فضیلت، برکت پر لمبا چوڑا وعظ شروع کیا اور حضرت کی محبوب ترین گورنمنٹ برطانیہ کا ذکر تو کسی جگہ چھوٹتا ہی نہیں تھا، اس نکاح کے وعظ میں بھی وہ بار بار آتا ہی رہا ! ! !
حضرت مولانا حکیم جمیل الدین نگینوی ثم الدہلوی جو حضرت گنگوہی کے شاگرد اور ہمارے سارے اکابر کے محبوب تھے اس جلسے میں تشریف فرما تھے مجھ سے فرمایا کہ میں ساڑھے دس بجے کی گاڑی سے جانا ضروری سمجھتا ہوں اور مولانا کی طبیعت خوب زوروں پر چل رہی ہے، اگرنکاح مولانا پہلے پڑھ دیں تو میری اور ساتھیوں کی تمنا یہ ہے کہ اِس میں شرکت کرتے جاویں ۔ میں نے حضرت کی خدمت میں منبر پر پرچہ بھیج دیا کہ بعض مہمانوں کو اس گاڑی سے جانے کی ضرورت ہے ان کی درخواست ہے کہ نکاح پہلے پڑھ دیں ! حضرت قدس سرہ کو یہ خیال ہوگیا کہ بعض لیگی حضرات میری تقریر سننا پسند نہیں کرتے اس لیے اوّل تو خوب منبر پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اصل غلطی تو مجھے منبر پر کھڑا کرنا ہے اور اس بے ایمان حکومت کو کہے بغیر میں رہ نہیں سکتا جس کو سننا ہو سنے ،جس کو میری تقریر سننا گوارا نہ ہو وہ چلا جائے لیکن معاً دونوں لڑکوں یوسف واِنعام کو منبر کے پاس کھڑے کر کے خطبہ پڑھ کر نکاح پڑھ دیا اور پھر اپنے وعظ میں مشغول ہوگئے !
جلسے کے بعد فرمانے لگے فلاں لیگی صاحب کو میری تقریر سے گرانی ہورہی ہوگی ! میں نے کہا نہیں حضور ! جناب الحاج حکیم جمیل الدین صاحب کو جانے کا تقاضا ہورہا تھا اور ان ہی کے تقاضے پر میں نے پرچہ بھیجا تھا مگر آپ تو رستے چلتے لیگیوں کے سر ہوتے پھر تے ہیں ! حضرت نے فرمایا کہ پھر پرچے میں یوں کیوں نہ لکھا کہ حکیم جمیل الدین صاحب جانا چاہتے ہیں ؟
نکاح تو ہوگیا، مگر وہ گالیاں مجھ پرپڑیں کہ یاد رہیں گی ! لڑکوں سے تو لوگ واقف نہیں تھے اور میری لڑکیاں ہونے کا اعلان آ ہی گیا تھا، لڑکے دونوں حسین و جمیل اَمرد اور مدنی رومال دونوں کے سروں پر جو میں نے ہی رکھے تھے جلسے میں جاتے ہوئے دے دیے تھے دو تین فقرے نقل کراتا ہوں ، فقرے تو بہت سے سنے !
(١) ان مولویوں کا بھی کچھ تک نہیں ، دو خوبصورت لونڈے دیکھے تھے تولونڈیاں ہی حوالے کردیں !
(٢) بمبئی کے سیٹھوں کے لونڈے جلسے میں آئے تھے پیسے والا دیکھ کر لڑکیاں ہی دے دیں !
(٣) پہلے سے جانتے ہوں گے ویسے رستے چلتے کیا حوالہ کردیتے، ارے نہیں ، مولویوں کا کچھ تک نہیں
(٤) ہمارے محلہ کے ایک بڑے متمول رئیس اعظم، دیندار، متشرع بزرگ نے اپنے گھر جاکر بڑی ہی خوشی اور مسرت سے میری بچیوں کے نکاح کا تذکرہ کیا، ان کی اہلیہ مرحومہ خوب خفا ہوئیں ، اللہ تعالیٰ دونوں ہی کی مغفرت فرمائے، کہنے لگیں گھر میں تو جو ہے قلابازیاں کھاویں ، کھانے کے واسطے کچھ ہے نہیں ، ہر وقت ہمارے دروازہ پر قرض کے واسطے آدمی کھڑا رہتا ہے، وہ یوں نہ کرتا تو اور کیا کرتا ؟ تم مجھے سناؤ، اللہ کے فضل سے اللہ میاں نے بہت کچھ دے رکھا ہے، مال و دولت دے رکھی ہے خدا نہ کرے کہ میں اپنے بچوں کا نکاح فقیروں کی طرح کروں !
اس کے بعد چونکہ خاندان کی ساری روایات کے خلاف تھا اور اب تک کوئی نکاح اس طرح نہیں ہوا تھا اس لیے کاندھلہ میں بھی اس نکاح پر چہ می گوئیاں تو بہت ہوئیں ! ایک صاحب کا فقرہ مجھے پہنچا کہ زکریا نے اپنی بھی ناک کاٹ دی اور ہم سب کی بھی ،بھلا نکاح یوں ہوا کرتے ہیں ! !
میں نے اس کا جواب اہتمام سے بھیجا کہ میری تو کٹی نہیں اور میں نے قاصدسے کہا کہ تو بھی ہاتھ لگا کر دیکھ لے اور کہہ دیجیے کہ میں دیکھ کر آیا ہوں ، اس کی تو کٹی نہیں اور کسی کی مجھے خبر نہیں ! تایا سعید مرحوم کیرانوی سابق ناظم مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ جن کے ساتھ ہمارے خاندانی تعلقات بھی قدیم ،حکیم یامین صاحب مہاجر مکی کے نکاح کے سلسلہ میں بھی ان کا ذکر خیر گزر چکا، جب اِن کو ان دو نکاحوں کی خبر ہوئی تو انہوں نے کاندھلہ میں فرمایا کہ اس نے بہت بری رسم جاری کردی، بھلا شادیاں اس طرح ہوا کرتی ہیں خیر نہ خبر ! یہ تو اَعزہ کی مسرتوں کا زمانہ ہوتا ہے مسرت انگیز خبروں کا پہلے سے ذکر تذکرہ ہوناچاہیے، خوشی کی لہر دوڑے، زکریا کو اِس کی سزا ملنی چاہیے !
میں نے بڑے اہتمام سے تایا مرحوم کے پاس اس کا جواب بھیجا کہ جناب کی تجویز بہت مناسب ہے، ضرور اِس سیہ کار کو سزا ملنی چاہیے اور سزا جرم کے مناسب ہوا کرتی ہے، چونکہ اس سیہ کار نے اعزہ میں سے کسی کو اپنی بچیوں کے نکاح میں نہیں بلایا اس کی سزا یہ ہے کہ اعزہ میں سے کوئی بھی کبھی مجھے اپنی تقریب میں نہ بلائے تایا ! سعید مرحوم نے پیام بھیجا اس کو تو سزا نہیں کہتے یہ تو تیری عین منشاء کے مطابق ہوگیا، اس کی سزا یہ ہے کہ ہر شخص تجھے اپنی ہر تقریب میں دو مرتبہ بلائے ایک مرتبہ اپنی تقریب میں اور دوسری دفعہ سزا میں ، گھر کے مردوں پر تو گرانی خوب سنی، لیکن عتاب تایا سعید مرحوم کے علاوہ کسی کا نہیں پہنچا !
البتہ گھر کی مستورات کی طرف سے خوشیوں کے مسرتوں کے دعائوں کے پیامات پہنچے اللہ تمہیں بہت ہی جزائے خیردے، بہت ہی اچھا راستہ نکال دیا، اللہ کرے یہ چل پڑے ! شادیاں تو مصیبت بن گئیں سودی قرض تک سے بھی اب تو پرہیز نہ رہا، جس کی عام طور سے لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوتی مگر بھائی زکریا سچی بات ہے کہ بعض بعض گھروں میں تو شادی کی لعنت سے سود تک بھی گھر میں گھس گیا اللہ تمہیں جزائے خیردے، اللہ یوں کرے اللہ یوں کرے، فلاں فلاں کے نکاح بھی اسی طرح جلد کرادو ! ١
دُلہا شرمایا کرتے ہیں چپ رہو :
اس ناکارہ کی دوسری شادی کا مسئلہ بھی بہت ہی معرکہ ٔ آراء ہے حوادث کے ذیل میں گزرچکا کہ میں نے اپنی پہلی اہلیہ مرحومہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی سے بہت ہی شدت سے انکار کردیا تھا اور بلا مبالغہ بیس پچیس جگہوں سے بہت ہی تقاضے ہوئے اور جن میں بعض کے متعلق حضرت مدنی نے بھی سفارش فرمائی ! ایک کے متعلق تو حضرت اقدس رائے پوری قدس سرہ بہت ہی اہتمام سے تشریف لائے، مگر میں اپنی معذوریوں اور اس وجہ سے کہ ادائے حقوق نہیں کرسکتا شدت سے انکار کرتا رہا، لیکن چچا جان نور اللہ مرقدہ نے ہمشیرہ مولوی یوسف مرحوم کے متعلق فرمایا تو پھر مجھے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور میں نے عرض کیا کہ پھر نکاح پڑھتے جائیے، انہوں نے کہا کہ تغیر زوج کے واسطے استیمار کی ضرورت ہے ! میں دو تین دن میں خط لکھ دوں گا اس پر چلے آنا ،حضرت اقدس رائے پوری نور اللہ مرقدہ کی تشریف آوری بار بار ہوتی رہتی تھی، مجھے تو اپنا ذکر کرنا بالکل یاد نہیں ، لیکن معلوم نہیں
١ آپ بیتی ص ٣٠٥، ٣٠٩
حضرت کو کس طرح سے علم ہوگیا۔ حضرت کے متعدد اعزہ اس زمانہ میں یہاں پڑھتے تھے۔ حضرت قدس سرہ کو چچا جان کی ابتدائی گفتگو کا علم ہوچکا تھا، انہوں نے مجھ سے بہت اصرار سے ارشاد فرمایا کہ میں ضرور چلوں گا ! میں نے عرض کیا کہ میں لے کر نہیں جاؤں گا ! !
حضرت نے بار بار اصرار فرمایا میں نے عرض کیا حضرت ہم لوگوں کو بارات وغیرہ کے قصے سے اور زیادہ احتیاط برتنی چاہیے کہ بہت ہی توغل حد سے زیادہ اسراف ہونے لگا ہے ! حضرت نے ارشاد فرمایا کہ میں باراتی بن کر تھوڑا ہی جاؤں گا حضرت کا خادم بن کر جاؤں گا ! میں نے پھر بھی قبول نہیں کیا، مگر حضرت قدس سرہ کے بھانجے مولوی عبدالرحمن شاہ پوری بھی یہاں پڑھتے تھے، میرے یہاں رہتے تھے، حضرت نے ان کو تاکید فرمائی اور کرایہ بھی دیا کہ بہت اہتمام سے خبر رکھیں اور جس دن حضرت دہلوی کا خط بلانے کا آجاوے، فوراً اگر سواری نہ ملے تو مستقل تانگہ بہٹ کا کرکے مجھے اطلاع کریں مجھے اس کی خبربھی نہیں ہوئی !
چچا جان کا والا نامہ آنے پر میں نے تجویز کیا کہ کل کو دس بجے کی گاڑی سے چلا جاؤں کسی کو لے جانے کاارادہ نہیں تھا، نہ کسی باراتی کو، نہ کسی خادم کو، مگرعلی الصباح ٧ ربیع الثانی ١٣٥٦ھ مطابق ١٧ جون ١٩٣٧ھ پنجشنبہ کو حضرت اقدس رائے پوری نور اللہ مرقدہ قدس سرہ اعلی اللہ مراتبہ اللہ بہت ہی بلند درجہ عطا فرماوے، تشریف لے آئے ! میں نے عرض کیا کہ میں اس گاڑی سے روانگی ملتوی کردوں حضرت قدس سرہ نے فرمایا کہ مجھے بھی واپسی کا تقاضا نہیں ، دو چار دن ٹھہرنے میں اشکال نہیں ، لیکن چچا جان یہ تحریر فرماچکے تھے کہ دس بجے کی گاڑی سے آجانا، اسٹیشن پر سواری مل جاوے گی !
یہ ناکارہ حضرت اقدس رائے پوری قدس سرہ اور ان کے چند خدام حافظ عبدالعزیز صاحب، بھائی الطاف وغیرہ کے ساتھ ریل پر پہنچا اور اسی گاڑی سے جس سے ہم لوگ سوار ہونے کا ارادہ کر رہے تھے یعنی دس بجے کی گاڑی سے حضرت اقدس مدنی نور اللہ مرقدہ ٹانڈہ سے تشریف لارہے تھے، اسٹیشن پر ملاقات ہوئی حضرت مدنی قدس سرہ یہ سمجھے کہ حضرت کی آمد کی اطلاع مجھے ہوگئی اور میرا مستقل معمول تھا کہ جب حضرت کی آمد کی اطلاع ہوتی تو اسٹیشن پر ضرور حاضر ہوتا اور اگر حضرت رائے پوری کا سہارنپور میں قیام ہوتا تو حضرت بھی اسٹیشن پر ضرور تشریف لے جاتے !
حضرت مدنی نے ہم دونوں کو اسٹیشن پر دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اچھا میری اطلاع کس طرح ہوئی ؟ میں نے تو تار نہیں دیا تھا اس لیے کہ وقت تنگ رہ گیا تھا۔ حضرت مدنی قدس سرہ کا اپنی آمد پر تار دینے کا بڑا اہتمام تھا حضرت کے ارشاد پر قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں حضرت رائے پوری نے ارشاد فرمایا : حضرت کی آمد کی اطلاع نہیں تھی، ان حضرت کا نکاح ہو رہا ہے، حضرت مدنی قدس سرہ نے عتاب آمیز لہجہ میں فرمایا ''اور ہمیں خبر بھی نہیں کی '' حضرت رائے پوری قدس سرہ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت میں بھی زبردسی ساتھ ہوں ، انہوں نے مجھے بھی خبر نہیں کی اور ساتھ لے جانے سے صاف صاف انکار کردیا کہ میں نہیں لے جاتا ! میں نے تو جاسوس مقرر رکھا تھا کہ جب حضرت دہلوی کا خط آئے تو مجھے فوراً اطلاع ہوجاوے، کل شام مجھے اطلاع ہوئی صبح ہی حاضر ہوگیا !
حضرت مدنی قدس سرہ نے حضرت رائے پوری کے ہاتھ چچا جان کے پاس پیام بھیجا کہ مولوی الیاس سے کہہ دیں کہ نکاح میں پڑھوں گا، میرے بغیر نکاح نہ ہوگا، میں تو اسی گاڑی سے چلتا مگر مستورات بھی ساتھ ہیں ، سامان بھی ساتھ ہے ان کو اُتار کر اگلی گاڑی سے آجاؤں گا، میں نے اوّل تو رد کیا کہ حضرت تکلیف نہ فرماویں ، ایک ڈانٹ اور پڑی ! میں آپ سے نہیں کہہ رہا ہوں میں مولوی الیاس کے پاس پیام بھیج رہا ہوں کہ نکاح میں پڑھوں گا، اس پر میں نے عرض کیا کہ حضرت پھر حرج نہ فرماویں جب حضرت کو سہولت ہو تشریف لے آویں ۔ حضرت رائے پوری کو بھی دو چار دن نظام الدین کے قیام میں دِقت نہ ہوگی اور یہ ناکارہ بھی انتظار کرے گا، حضرت نے فرمایا اس کی ضرورت نہیں ، میں شام کو آجاؤں گا !
یہ قصہ مجھے اسی طرح بہت ہی خوب یاد ہے کوئی اس میں تردّد کسی قسم کا نہیں ، حضرت رائے پوری کو مولوی عبدالرحمن شاہ پوری کا جاکر اطلاع کرنا اور حضرت اقدس مدنی کا دس بجے کی گاڑی سے اسٹیشن پر ملنا اور مجھے ڈانٹ ، یہ سب باتیں خوب یاد ہیں ، مگر میرے روزنامچے میں تھوڑا سا تغیر ملا جس کا کوئی جوڑ سمجھ میں نہیں آتا اور مجھے نظر نہیں آتا جس سے اندازِ تحریر سے کچھ جوڑ پیدا ہوتا۔ میرے رجسٹر میں حضرت مدنی کا شب پنجشنبہ میں سہارنپور آنا لکھا ہے اور صبح کوپانچ بجے کی گاڑی سے دیوبند تشریف لے جانا اور حضرت رائے پوری نور اللہ مرقدہ کے متعلق لاہور سے کلکتہ میل سے آنا اور اسی پانچ بجے کی گاڑی سے بندہ کے ساتھ جانا لکھا ہے !
حضرت رائے پوری کا تین بجے آکر پانچ بجے جانا عقل میں نہیں آتا معلوم نہیں کہ لکھنے میں کیا اشتباہ ہوا ؟ اس بات میں رجسٹر اور یاد دونوں برابر ہیں کہ دیوبند تک حضرت مدنی ساتھ تشریف لے گئے اور دیوبند اُتر کر شام کی گاڑی سے دہلی تشریف لے گئے اور یہ ناکارہ اور حضرت رائے پوری دونوں اسی گاڑی سے سیدھے دہلی چلے گئے۔ رجسٹر میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت میرٹھی مظفر نگر سے اسی گاڑی سے میرٹھ تشریف لے گئے اور شام کو وہ بھی دہلی پہنچ گئے، سہارنپور سے دیوبند تک حضرت مدنی قدس سرہ بہت ہی مسرت کے ساتھ تفریح فرماتے رہے اور اپنی اٹیچی کھول کر عطر اگر کی بند شیشی نکالی اور کھول کر تیل کی طرح سے ہاتھ کی ہتھیلی پر سارا اُلٹ کر اِس سیہ کار کے میلے کھدر کے کرتے پر مل دی ! !
میں حضرت مدنی قدس سرہ کی حیات تک ان کے خوف کے مارے ہمیشہ کھدر کا کرتا پہنتا تھا اس لیے کہ اس سیاہ کار پر حضرت مدنی کا یہ شفقت و کرم بھی تھا بغیر کھدر کا کرتا اگرمیرے بدن پردیکھتے تو فوراً بلا تکلف پھاڑ دیتے تھے ! میں نے عرض کیا کہ حضرت کھدر کے میلے کرتے پر یہ بڑھیا عطر کیوں ضائع فرمارہے ہیں ؟ حضرت قدس سرہ نے ارشاد فرمایا کہ کھدر پر عطر خوب مہکتا ہے میں نے عرض کیا ع
کَمَا ضَاعَ عِقْد عَلٰی خَالِصَةٍ
حضرت ہنس پڑے، حضرت اپنے دونوں مبارک ہاتھوں سے عطر ملتے جاتے تھے اور بار بار فرماتے تھے کہ نائی دولہا کے عطر ملا کرتا ہے، ساری شیشی ختم کردی اور شام کی گاڑی سے دہلی پہنچ گئے !
ایک غلط فہمی سے شب کو عبدالرب میں قیام ہوا اور اگلے روز جمعہ کو علی الصباح نظام الدین تشریف لے گئے اور بعد نمازِ جمعہ اس سیاہ کار کا نکاح بہ مہر فاطمی پڑھا، زکریا نے عرض کیا کہ مہر فاطمی مجمل ہے اور مختلف فیہ بھی ہے، سکہ رائج الوقت سے اس کی تعیین فرمائی جائے !
حضرت نے نہایت تبسم سے اور زور سے فرمایا کہ دولہا شرمایا کرتے ہیں چپ رہو ! میں عرض کیا کہ دین میں حیا جائز نہیں ہے یہ مسئلہ کی بات ہے ! حضرت نے فرمایا کہ پانچ سو درہم ! میں نے کہا کہ یہ بھی مختلف فیہ ہے، سکہ رائج الوقت بتلائیے ! فرمایا کہ تقریباً ایک سو تینتیس (١٣٣) روپے ہوتے ہیں زکریا کے اس مناظرہ کو خواجہ حسن نظامی مرحوم نے اپنے کسی رسالہ میں جو اُس وقت نکلتا تھا تفصیل سے لکھا ہے حضرت مدنی قدس سرہ تو اُسی وقت شام کو پانچ بجے واپس تشریف لے آئے اور ان ہی کے ساتھ حضرت مدنی قدس سرہ کو دہلی کے اسٹیشن پر چھ ماہ تک دہلی میں عدم داخلہ کا نوٹس دیا گیا اور زکریا مع اہلیہ یعنی والدہ طلحہ اور حضرت رائے پوری مع خدام وعزیزان مولوی یوسف واِنعام بارہ نفر اتوار کی صبح چار بجے کی گاڑی سے چل کر ساڑھے آٹھ بجے سہارنپور پہنچے اور ہم سب کا کرایہ حضرت اقدس رائے پوری نے دیا اور حضرت مدنی نے اپنی طرف سے زکریا کے ولیمہ کا اعلان فرمایا جس کو رائو یعقوب علی خاں نے عملی جامہ پہنایا اور حضرت میرٹھی بلا طلب نوبجے کی گاڑی سے ولیمہ میں شرکت کے لیے تشریف لائے زکریا نے درخواست کی تھی کہ ولیمہ میں شرکت نہ فرماویں ! ١ (جاری ہے)
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1
١ آپ بیتی ص ٣١٣ تا ٣١٧
تربیت ِ اولاد قسط : ٩
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
بچہ کی پیدائش کے موقع پر رسمی طورپر لین دین :
بچہ پیداہونے کے بعدگھر والوں کے ساتھ خاندان کی عورتیں بطور ِ نیوتے کے (رسمی طور پر ) کچھ جمع کر کے دیتی ہیں ! غور کرنے کی بات ہے کہ اِن دینے والوں کا مقصود اَور نیت کیا ہے جس وقت یہ رسم ایجاد ہوئی ہوگی اُس وقت کی تو خبر نہیں کیا مصلحت ہو، شاید خوشی کی وجہ سے ہو سب عزیزوں کا دِل خوش ہو ! مگر اَب تو یقینی بات ہے کہ خوش ہو یا نہ ہو، دل چاہے یا نہ چاہے، دینا ہی پڑتا ہے ! خاندان کی بعض عورتیں نہایت مفلس اور غریب ہوتی ہیں اُن کو بھی اِصرار کے ساتھ بلایا جاتا ہے اگر نہ جائیں تو عمر بھر شکایت کرتی ہیں اور اگر جائیں تو دینے کے واسطے انتظام کر کے لے جائیں ورنہ سخت ذلت اور شرمندگی ہو گی ! !
غرض جاؤ اور جبرًا قہرً ادے کر آؤ ! یہ کتنا صریح ظلم ہے کہ گھر بُلاکر لُوٹا جاتا ہے، خوشی کی جگہ بعضوں کو تو پورا جبر گزر تا ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ یہ ٹیکس نہ اَدا کیا جائے، سرکاری مال گزاری میں اکثر مہینوں کی دیر ہوجاتی ہے مگر اِس میں منٹ کا توقف نہیں ہوتا بلکہ معیاد سے پہلے انتظام کر لینا واجب ہے !
اب فرمائیے کہ اِس طرح اور اِس نیت سے مال خرچ کرنا اور گھر والوں کے لینے دینے کا ذریعہ بننا کہاں جائز ہے ؟ کیونکہ دینے والے کی نیت تو محض اپنی بڑائی اور نیک نامی ہے جس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص شہرت کا کپڑا پہنے گا قیامت میں اللہ تعالیٰ اُس کو ذِلت کا لباس پہنائیں گے یعنی جو کپڑا خاص شہرت کی نیت سے پہنا جائے اُس پر عذاب ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی کام شہرت وناموری کی نیت سے جائز نہیں اور یہاں تو خاص یہی نیت ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کہیں گے کہ فلاں نے اتنا دیا ورنہ طعنہ دیں گے کہ اتنے کنجوس ہیں ایسے آنے کی کیا ضرورت تھی، دینے والے کو تو یہ گناہ ہوا ! !
اب لینے والے کو سنیے ! حدیث شریف میں آیا ہے کہ مسلمان کا مال اُس کی دلی خوشی کے بغیر حلال نہیں ! سو جب کسی شخص نے جبرًا کراہت سے دیا تو لینے والے کو لینے کا گناہ ہوا ! اگر دینے والا با وسعت ہے (صاحب ِ حیثیت ہے ) اور اِس پر جبر بھی نہیں ہوا مگر غرض تو اُس کی بھی وہی شیخی اور فخر کرنا ہے جس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اُن لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے جو فخر کے لیے کھانا کھلائیں ، غرض ایسے شخص کا کھانا یا اُس کی چیز لینا بھی ممنوع ہے کیونکہ اُس کی معصیت کی اَعانت(مدد) ہے اور معصیت کی اَعانت کرنا خود معصیت ہے ! غرض لینے ولا بھی گناہ سے نہ بچا ! !
ا ب گھر والوں کو لیجیے کہ وہی لوگ بُلابُلا کر اُن گناہوں کا سبب ہوئے تو وہ بھی گناہ گار ہوئے غرض کہ اچھا نیوتہ ہوا کہ سب کو گناہ میں ملوث کردیا ! اور نیوتہ کی رسم تو اکثر تقریبوں میں ادا کی جاتی ہے اس میں مذکورہ خرابیوں کے علاوہ ایک خرابی اور بھی ہے وہ یہ کہ جو نیوتہ آتا ہے وہ سب باقاعدہ اَلْمَعْرُوْفُ کَالْمَشْرُوْطِ اپنے ذمہ قرض ہوجاتا ہے اور قرض کا بِلا ضرورت لینا منع ہے ! پھر قرض کا یہ حکم ہے کہ جب کبھی اپنے پاس ہوا اَدا کرنا ضروری ہے اور یہاں یہ انتظار کرنا پڑتا ہے کہ اس کے یہاں جب کوئی کام ہو تب اَدا کیا جائے ! اگر کوئی شخص نیوتہ کا بدلہ ایک آدھ ہی دن کے بعد دینے لگے تو ہر گز کوئی قبول نہ کرے، یہ دُوسرا گناہ ہوا !
اور قرض کا حکم یہ ہے کہ گنجائش ہو اَدا کرو، پاس میں نہ ہو تو نہ دو جب ہوگا دے دیا جائے گا ! اور یہاں حال یہ ہے کہ گنجائش ہو یا نہ ہو مگر اُس وقت ادا کرنا واجب ہے ! غرض تینوں حالتوں میں شریعت کی مخالفت کی جاتی ہے اس لیے یہ مروج رسم جائز نہیں رہی ! (بہشتی زیور)
زبردستی اور عجیب قسم کا قرض :
اور عجیب بات یہ ہے کہ قرض کا قاعدہ یہ ہے کہ آدمی حاجت کے وقت ادا کردیتا ہے اور یہ عجیب قسم کا قرض ہے کہ خواہ حاجت ہو یا نہ ہو مقروض بنو ! اور پھر جس وقت ادا کرنا چاہو اَدا نہ کر سکو ! اگر کوئی شخص اگلے دن نیوتہ (بیہواری لین دین) کا روپیہ اداکرنے کے لیے جائے تو ہر گز نہ لیں ! اور یہ کہیں کہ ہم نے کیا آج کے لینے کے لیے واسطہ دیا تھا ؟ ہمارے یہاں جب کوئی تقریب ہوگی اُس وقت دینا ! سواَحادیث میں قرض کے باب میں سخت وعید آئی ہے اس سے مراد وہی قرض ہے جو بِلاحاجت ہو،خواہ مخواہ بے ضرورت مقروض ہونا بے شک شارع علیہ السلام کی مرضی کے خلاف ہے ! پھر ایک شخص حق ِواجب سے سبکدوش ہونا چاہتا ہے اور اُس کو کوئی شخص گرانبار رکھنے کی کوشش کرے تو یہ اور بھی مذموم ہے ! سو اِس نیوتہ کی رسم میں دونوں خرابیاں ہیں ایک لینے والے کے واسطے دُوسری دینے والے واسطے ! (جاری ہے)
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٠
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
دین کسی خاص شعبہ میں منحصر نہیں :
شریعت ِ اسلامیہ مختلف شعبوں پر مشتمل ہے اور ہر شعبہ کی اپنی جگہ مستقل اہمیت ہے جن میں سے کسی بھی شعبہ کی تنقیص روا نہیں ، دین کا کام تقسیم کار کے اصول پر چلتا ہے یعنی مختلف افراد ، جماعتیں اور تنظیمیں الگ الگ شعبوں سے وابستہ ہوکر دین کی خدمت میں بجا لائیں ، لیکن نہ تو دین کو اپنے شعبہ میں منحصر سمجھیں اور نہ ہی دوسرے شعبوں سے وابستہ لوگوں کی تحقیر و تنقیص کریں بلکہ سب لوگ ایک دوسرے کی خیر خواہی اور قدر دانی کے ساتھ دین کی سر بلندی کے مشترکہ اور متفقہ مقصد کو سامنے رکھ کر خدمات انجام دیں تو بلا شبہ دین کو عزت ملے گی اور کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی !
اس کے برخلاف اگر اس معاملہ میں افراط و تفریط کا ماحول بن جائے یعنی جو شخص جس شعبہ سے وابستہ ہو، وہ اُسی کو سب کچھ سمجھے اور دوسرے شعبوں سے بالکل نظریں پھیر لے تو اِس سے نہ صرف یہ کہ کام کرنے والوں میں محاذ آرائی اور تنافس وتقابل کے جذبات اُبھریں گے بلکہ دین کا بڑا نقصان ہوگا جس کا بار بار مشاہدہ کیا جاچکا ہے ! اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا ذہن کشادہ رکھے اور وسعت ظرفی کے ساتھ دینی خدمات انجام دے ! اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے مفسر قرآن مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ
''ہماری دینی جماعتیں جو تعلیم دین یااِرشاد وتلقین یا دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے قائم ہیں اور اپنی اپنی جگہ مفید خدمات بھی انجام دے رہی ہیں اُن میں بہت سے علماء وصلحاء اور مخلصین کام کر رہے ہیں ، اگر یہی متحد ہوکر تقسیم کار کے ذریعہ دین میں پیدا ہونے والے تمام رخنوں کے اِنسداد کی فکر اور امکانی حدتک باہم تعاون کرنے لگیں اور اقامت ِدین کے مشترک مقصد کی خاطر ہر جماعت دوسری کو اَپنا دست وبازو سمجھے اور دوسروں کے کام ایسی ہی قدر کریں جیسی اپنے کام کی کرتے ہیں تو یہ مختلف جماعتیں اپنے اپنے نظام میں الگ رہتے ہوئے بھی اسلام کی ایک عظیم الشان طاقت بن سکتی ہیں اور تقسیمِ عمل کے ذریعہ اکثر دینی ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہیں ! !
مگر عموماً یہ ہو رہا ہے کہ ہرجماعت نے اپنی سعی و عمل کا ایک دائرہ اور نظام ِ عمل بنایا ہے، عملی طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدمت ِ دین کو اِسی میں منحصر سمجھ رہے ہیں گو زبان سے نہ کہیں ! دوسری جماعتوں سے اگر جنگ و جدل بھی نہیں تو بے قدری ضرور دیکھی جاتی ہے اس کے نتیجہ میں ان جماعتوں میں بھی ایک قسم کا تشتت پایا جاتا ہے !
غور کرنے سے اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقصد سب کا اگرچہ دین کی اشاعت ، حفاظت اور مسلمان کی علمی، عملی، اخلاقی اصلاح ہی ہے لیکن اس مقصد کے حاصل کرنے کے لیے کسی نے ایک دارُالعلوم قائم کرکے تعلیم دین کی اہم خدمت انجام دی !
کسی نے ایک تبلیغی جماعت بناکر رُشدو ہدایت کا فرض ادا کیا !
کسی نے کوئی انجمن بناکر احکامِ دین کی نشرواشاعت کا تحریری انتظام کیا !
کسی نے فتویٰ کے ذریعہ خلق ِ خدا کو ضروری احکام بتانے کے لیے دارُالافتاء قائم کیا !
کسی نے اسلام کے خلاف ملحدانہ تلبیسات کے جواب کے لیے تصنیفات کا یاہفتہ واری یا ماہواری رسالہ واَخبار کا سلسلہ جاری کیا، یہ سب کام اگرچہ صورت میں مختلف ہیں مگر درحقیقت ایک ہی مقصد کے اجزاء ہیں !
ان مختلف محاذوں پر جو مختلف جماعتیں کام کریں گی، یہ ضرور ہے کہ ہر ایک کا نظامِ عمل مختلف ہوگا، اس لیے ہر جماعت نے بجا طور پر سہولت کے لیے اپنے اپنے مذاق اور ماحول کے مطابق ایک نظامِ عمل اور اُس کے اصول و قواعد بنا رکھے ہیں اور ہر جماعت اُن کی پابند ہے ! یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد تو منصوص، قطعی اور قرآن و سنت سے ثابت ہے اس سے انحراف کرنا قرآ ن و سنت کی حدود سے نکلنا ہے لیکن یہ اپنا بنایا ہوا نظامِ عمل اور اُس کے تنظیمی اصول وقواعد نہ منصوص ہیں نہ اِن کا اتباع اَزرُوئے شرع ہر ایک کے لیے ضروری ہے، بلکہ جماعت کے ذمہ داروں نے سہولت ِ عمل کے لیے ان کو اختیار کر لیا ہے، ان میں حسب ِ ضرورت تبدیلیاں وہ خود بھی کرتے رہتے ہیں اور حالات اور ماحول بدلنے پر اُس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا نظامِ عمل بنا لینا بھی کسی کے نزدیک ناجائز یا مکروہ نہیں ہوتا، مگر اِس میں عملی غلو تقریباً ہر جماعت میں یہ پایا جاتا ہے کہ اپنے مجوزہ نظامِ عمل کو مقصد ومنصوص کا درجہ دے دیا گیا ! جو شخص اس نظامِ عمل میں شریک نہیں اگرچہ مقصد کا کتنا ہی عظیم کام کر رہا ہو ،اُس کو اپنا بھائی اپنا شریک کار نہیں سمجھا جاتا ! اور اگر کوئی شخص اس نظامِ عمل میں شریک تھا، پھر کسی وجہ سے اس میں شریک نہ رہا، تو عملاً اُسے اصل مقصد اور دین سے منحرف سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا ہے جو دین سے انحراف کرنے والوں کے ساتھ ہونا چاہیے اگرچہ وہ اصل مقصد یعنی اقامت ِ دین کی خدمت پہلے سے بھی زیادہ کرنے لگے ! اس غلو کے نتیجہ میں وہی تحزب وتعصب اور گروہ بندی کی آفتیں اچھے خاصے دیندار لوگوں میں پیدا ہوجاتی ہیں جو جاہلی عصبیتوں میں مبتلا لوگوں میں پائی جاتی ہیں '' ١
١ وحدتِ اُمت ص٢٢۔ ٢٤ بحوالہ ''غلو فی الدین'' ص٣٠٨۔ ٣١٠ اَز مولانا مفتی شعیب اللہ خاں صاحب مدظلہم
صرف اپنے ہی کام کو دین کا کام سمجھنا غلطی ہے :
برکة العصر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ اس بے احتیاطی پر تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ
''محض اس وجہ سے کہ ہم ایک کام میں لگے ہوئے ہیں یا ہمارے نزدیک ایک کام اہم ہے، باقی ساری عبادات پر اور دوسرے سارے دینی کاموں پر پانی پھیر دینا سخت نا انصافی ہے ! میرا مقصود یہ نہیں کہ اِس کی ترغیب نہ دی جائے یا دوسروں کو اِس طرف متوجہ نہ کیا جائے، میرا مقصود یہ ہے کہ اِس میں اتنا غلو نہ کیا جائے جو حدود سے متجاوز ہوجائے کہ نہ اِس کے مقابلہ میں کوئی فرض رہے نہ واجب، نہ عذر رہے نہ معذرت ! جو لوگ اس کے سلسلہ میں منسلک نہ ہوں وہ جہنمی بنا دیے جائیں ، وہ بے ایمان اور کافروں میں شمار کردیے جائیں جیسے کہ بہت سی تقریروں اور تحریروں میں دیکھا جاتا ہے ! اور بہت زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اُونچے درجہ کے اکابر اور ذمہ دار حضرات کی زبان سے بھی ایسے لفظ نکل جاتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ''جو شخص کسی کے بارے میں ایسی بات کو شائع کرے جس سے وہ بری ہے تو حق تعالیٰ شانہ اُس کو قیامت کے دن جہنم میں پگھلائیں گے یہاں تک کہ اپنی بات کو سچا ثابت کرے'' ١
دعوت و تبلیغ کا کوئی خاص طریقہ لازم نہیں :
دین کی دعوت واشاعت بلا شبہ مقصودہے لیکن اس کا کوئی خاص طریقہ شرعاً متعین نہیں کیا گیا بلکہ ضرورت، تقاضا اور زمانہ کے اعتبار سے اِس کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں مثلاً جہاد، وعظ و خطابت،
١ دُرمنثور، سُنن ابی داود کتاب القضاء رقم الحدیث : ٣٥٩٧ ، مُسند احمد ج ٢ص٧٠ ، المستدرک للحاکم ج ٢ ص٢٧ ، الاعتدال فی مراتب الرجال ص ٦٨ ، ٦٩ )
درس و تدریس، تصوف واِحسان اور افتاء وتصنیف وغیرہ ! ان سب پر جزوی یا کلی طور پر دعوت کا مفہوم صادق آتا ہے۔ اب اگر کوئی دعوت و تبلیغ کے مفہوم کو صرف اپنے بنائے ہوئے طریقۂ کار تک محدود کرلے تو یہ غلو اور زیادتی کی بات ہوگی جو شرعاً قابلِ قبول نہیں ہے چنانچہ مفکر اسلام حضرت مولانا سیّد ابوالحسن علی میاں ندوی رحمة اللہ علیہ اس غلو پرتنبیہ کرتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
''اب دعوت اِلی اللہ کی مثال لیجیے ! اللہ کی طرف اور اُس کے دین کی طرف لوگوں کو بلانا فرض ہے انفرادی ہو یا اجتماعی، تقریر سے ہو یا تحریر سے ،علانیہ ہو یا خلوت میں ، اس میں کوئی شکل متعین نہیں .... لہٰذا دعوت ِدین کا کام کرنے والے ہر فرد و جماعت کو اِختیار ہے کہ وہ جس ماحول میں اپنے لیے جو طریقہ صحیح جانے وہ مقرر کرے اور اپنی سعی وجہد کا جو طرز مناسب اور مفید سمجھے وہ اختیار کرے، اس میں کسی کو جائز یا نا جائز کہنے یا کوئی روک لگانے کا حق حاصل نہیں ہے جب تک کہ اِس میں کوئی ایسا عنصر شامل نہ ہوجائے جو شرعی طور پر منکر یا مقاصدِدینیہ کے لیے مضر ہو !
بعض عوامی حلقوں میں اس وقت ان دونوں حصوں کو خلط ملط کردیا جاتا ہے منصوص کو غیر منصوص کا درجہ دیا جاتا ہے اور غیر منصوص کو منصوص کے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے ! اس کے نتیجے میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور مختلف اداروں اور دعوتوں میں اکثر تنازعہ کی شکل پیدا ہوجاتی ہے ! اگر ہم ان چیزوں کے فرق کو سمجھ لیں تو بہت سی مشکلات حل ہوجائیں گی، سینکڑوں تنازعوں کا سدباب ہوجائے گا اور بہت سی ذہنی اُلجھنیں ختم ہوجائیں گی !
دعوت اِلی اللہ کی مخصوص شکل اور طرز کی افادیت وتاثیر کی وضاحت کی جاسکتی ہے لیکن کسی کو اپنے تجربے یا مطالعہ کا اس طرح پابند نہیں کیا جاسکتا جیسے احکامِ قطعیہ اور نصوصِ قرآنیہ کا ! دین کی خدمت کرنے والی کوئی جماعت اگر کسی خاص طریقۂ کار کو اِختیار کرتی ہے (بشرطیکہ وہ دین کے اصول اور سلف ِصالحین کے متفقہ مسلک اور طرزِ عمل کے مخالف نہ ہو) تو وہ اپنے فیصلے میں حق بجانب ہے ! ہم اپنے مخصوص طرز ِکارکو دوسری دعوتوں او ر دین کی خدمت کرنے والے دوسرے حلقوں کے سامنے بہتر سے بہترطریقے پر پیش کرسکتے ہیں لیکن اگر صرف طرزِ کار کے فرق کی وجہ سے ہم ان کو غلط کار سمجھیں یا ان کی دینی مساعی اور مشاغل کی نفی کریں جن کو اُنہوں نے اپنے تجربہ ، مطالعہ اور زمانہ کے تقاضوں کے پیش ِنظر اختیار کیا ہے اور ان کی افادیت، واقعات اوربرسوں کے تجربے سے ان پر واضح ہوچکی ہے اور کتاب و سنت اور سیرتِ نبوی اور حکمت ِدین کے وسیع دائرے میں اس کے لیے ان کے پاس شاہد اور دلائل پائے جاتے ہیں تو یہ ہماری غلطی اور زیادتی ہے !
کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک طبقہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ یہی طریقہ کار اور یہی طرز دین کی خدمت اور احیاء کے لیے ہمیشہ کے واسطے اور ہر جگہ کے لیے ضروری ہے اور اِس کے علاوہ سب غلط ہے جب تک اس مخصوص طریقے پر کام نہ ہو تو سمجھا جاتا ہے کہ ساری جدوجہد رائیگاں گئی اور جو کچھ ہوا سب فضول ہوا، یہ بے اعتدالی ہے اور یہ رویہ خطرناک ہے'' ( خطبات ِعلی میاں ج٥ ص ٤٤١۔ ٤٤٨)
ایک چشم کُشا فتویٰ :
فقیہ الامت مفتی اعظم دارُ العلوم دیوبند حضرت اقدس مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی اپنے ایک چشم کُشا فتوے میں تحریر فرماتے ہیں کہ
''حضورِ اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کا لایا ہوا دین سیکھنا، اُس پر عمل کرنا ،اُس کو دوسروں تک پہنچانا نہایت اہم اور ضروری ہے ! اُمت نے اس کی اہمیت کو محسوس کیا ہے البتہ طریقہ اس کا یکساں اختیار نہیں کیا ،کسی ایک طریقہ کو سب کے لیے لازم نہیں قرار دیا، وعظ و تقریر، تصنیف و تالیف ، ارشاد و تلقین حسب ِاستعداد مناسب طرق سے کام لیا گیا ! جس طرح مدارس کا نصاب و نظم ہے کہ وہ نہایت مفیدہے اور اُس کو برقرار رکھنا ضروری ہے مگر قرونِ اولیٰ میں یہ طریقہ موجود نہیں تھا، محض اس بناء پر اس کو غلط نہیں کہا جائے گا اور متقدمین پر یہ الزام نہیں ہوگا کہ اُنہوں نے اس کو کیوں اختیار نہیں کیا ...... لیکن جو شخص مدرسہ میں داخل نہ ہو اُس کو مطعون وملعون نہیں قرار دیا جائے گا، بہت سے بہت یہ کہا جائے گا کہ وہ اس نصاب کے فوائد سے بے بہرہ ہے ! !
اس دور میں بے علمی وبے عملی عام ہے، مدارس میں پڑھنے والوں کی تعداد قلیل ہے تو عوام تک دین پہنچانے اور اُن کے دین کو پختہ کرنے کا ذریعہ موجودہ تبلیغی جماعت ہے جوکہ بے حد مفید ہے اور اِس کا مشاہدہ ہے ! لیکن جو شخص دوسرے طریقہ سے دین حاصل کرے اور دوسروں تک پہنچائے اس کو مطعون اور ملعون کرنا ہرگز جائز نہیں '' (فتاویٰ محمودیہ ج٤ ص٢١٤)
دین کو بقا ہے، اداروں کو نہیں :
یہاں یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ تا قیامت دین کی بقا اور حفاظت کا اللہ کی طرف سے وعدہ ہے اس لیے مجموعی حیثیت سے اِن شاء اللہ دین اپنی اصلی شکل و صورت میں زندہ اور باقی رہے گا ! اور کسی مٹانے والے کے مٹانے سے ہرگز مٹ نہیں پائے گا جیسا کہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کا ارشاد ہے :
لَا یَزَالُ مِنْ اُمَّتِیْ اُمَّة قَائِمَة بِاَمْرِ اللّٰہ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَھُمْ حَتّٰی یَأْتِیَھُمْ اَمْرُاللّٰہِ۔ ١
١ صحیح البخاری کتاب المناقب ج١ ص٥١٤ رقم الحدیث ٣٦٤١
''میری اُمت میں ایک جماعت اللہ کے حکم پرقائم رہے گی جس کی مخالفت کرنے والے اور ذلیل کرنے والے اُس جماعت کو نقصان نہ پہنچا پائیں گے یہاں تک کہ اِسی حالت پر رہتے ہوئے اللہ کا حکم (قیامت) قریب آجائے''
تاہم ایک غیر متعین جماعت کے تا قیامت حق پر قائم رہنے کی بشارت کے باوجود متعین طور پرکسی دینی ادارے، تنظیم اور جماعت کی حفاظت اور بقا کاکوئی وعدہ منصوص نہیں ہے چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ کتنے ہی عظیم الشان ادارے وجود میں آئے لیکن مرورِ زمانہ کے بعد اپنے وقت پر تاریخ کا حصہ بن گئے ! اس لیے کسی بھی ادارے سے وابستہ افراد اِس غلط فہمی میں ہرگز نہ رہیں کہ اُن کا ادارہ دائمی حیثیت رکھتا ہے البتہ یہ ضروری ہے کہ جو اِدارے جس قدر شرعی اصول وحدود پر قائم رہیں گے اُتنی ہی ان کی افادیت بڑھتی چلی جائے گی اور جس قدر شرعی حدود سے انحراف ہوگا اُتنا ہی ان اداروں کا دائرہ محدودسے محدود تر ہوتا چلا جائے گا اور ممکن ہے کہ اُن کا نام و نشان ہی مٹ جائے جیسا کہ اِس آیت سے مستفاد ہوتا ہے ارشادِ خداوندی ہے :
( وَاِنْ تَتَوَلَّوْ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ ) (سُورۂ محمد : ٣٨)
''اگر تم پھر جاؤگے تو تمہارے بجائے اور لوگوں کو بدل دے گا پھر وہ تمہاری طرح نہ ہوں گے''
لہٰذا جو لوگ بھی اپنے اداروں اور جماعتوں کی بقا کا انتظام کرنا چاہتے ہیں اُنہیں نفسانیت سے اُوپر اُٹھ کر ہر سطح پر شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے ہرممکن طور پر اجتماعیت قائم رکھنا لازم ہے اس کے بغیر ترقی نصیب نہیں ہوسکتی اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہِ حق پراستقامت عطا فرمائیں ، آمین۔ (جاری ہے)
القدس اور فلسطین کس کا ہے ؟
( شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم )
( خطبہ جمعہ ٢٨٣ : ٢٦ ربیع الاوّل ١٤٤٥ھ / ١٣ اکتوبر ٢٠٢٣ ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آپ حضرات کے علم میں ہے کہ اِس وقت فلسطین میں مسلمانوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور آج سے نہیں اس عمل کو تقریباً سو سال ہونے والے ہیں جبکہ یہ سارا خطہ فلسطین اور بیت المقدس کا ہمیشہ سے اور ہر اعتبار سے مسلمانوں کا خطہ ہے اور بلاشرکت ِغیر اُن کا حق ہے، تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے بھی اور جو عالمی قوانین ہیں ان کے اعتبار سے بھی اور دینی اور مذہبی اعتبار سے بھی یہ صرف اور صرف مسلمانوں کا ہے ! جس طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ مسلمانوں کا ہے اسی طرح یہ بھی مسلمانوں کا ہے ! لیکن مسلمانوں کی دین سے دُوری اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت نے مسلمانوں کے لیے بہت سی مشکلات اور مسائل پیدا کر دیے ہیں اس معاملہ کا حل ہونا اتنا مشکل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کی دین سے بے تعلقی کی وجہ سے یہ مشکل ہوگیا ! عیسائیوں کا اور یہودیوں کا نشرواشاعت کے ذرائع پر قابو ہے ان کا غلبہ تسلط ہے ان کا کنٹرول ہے اس میں وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کردیتے ہیں اور ساری حقیقت گڈمڈ کر دیتے ہیں اور جو مسلمان دین سے دُور ہیں وہ پھر اسی میں بہہ پڑتے ہیں ،بعض کہتے ہیں صحیح ہیں بعض کہتے ہیں غلط ہیں ! مطلب یہ کہ اِن میں مضبوطی اور پختگی ختم ہوگئی یا تو ان کے پیچھے چلنے لگ گئے ہیں ! یا پھر کھڑے ہیں کہ کریں تو کیا کریں ؟
علم اور علماء بیزار :
علماء کی بات تو سنتے نہیں ہیں منبر سے تعلق کم سے کم کر لیا ! پروفیسر ،کالج ،یونیورسٹی سے خود کو جوڑ لیا ،ان میں اُنہیں کے آلہ کار تمہارے اُستاد ہیں ! جو پروفیسر ہے وہ بھی انہیں کا شاگرد ! جو پروفیسرنی ہے وہ بھی انہیں کی شاگرد ! جو اُستانی ہے جو اُستاد ہے وہ انہیں کے شاگرد اوروہی زہر آپ کے ذہنوں میں گھول دیتے ہیں ! !
اور آپ مسجد اور منبر سے نہیں جڑتے جو اصل درس گاہ ہے آپ کی ! جو اصل مدرسہ ہے آپ کا !
اسی کا وبال ہے یہ کہ آج ہم ذلت اور رُسوائی سے دوچار ہیں ! ؟ ہمارے پاس اس وقت بیان کرنے کا وقت تھوڑا ہوتا ہے میں مختصر آپ کو حقائق بتاؤں گا !
یہ سارا خطہ شام کا اور فلسطین کا اسلام کے آنے سے پہلے عیسائیوں کے قبضے میں تھا ،عیسائیوں کے زیرِتسلط تھا ! جب اسلام آیا اور نبی علیہ السلام تشریف لائے تو دو سپر طاقتیں تھیں دنیا میں !
ایک کو کہا جاتا تھا رُوم یہ عیسائیوں کا ملک تھا ان کا بادشاہ ہرقل تھا ،بہت بڑی طاقت تھی یورپ پر اُن کا قبضہ تھا اور مصر شام وغیرہ سب ان کے پاس تھے ! !
اور یہ جو اِیران ہے یہ فَارْس جسے کہتے ہیں ١ اس کا بادشاہ کسریٰ تھادوسری سپر طاقت یہ تھی ! ان میں آپس میں لڑائی جھگڑے چلتے تھے جیسے سپر طاقتیں لڑتی رہتی ہیں ، مسلمان اور عربوں کی کوئی بڑی سیاسی قوت نہیں تھی بس ایک چھوٹی سی جگہ تک محدود تھے باقی اصل میں اُن کی چلتی تھی ! یمن کا خطہ ان اِیرانیوں کے زیرِ تسلط تھا !
پہلا بڑا معرکہ :
جب اسلام آیا تو مسلمانوں سے رُوم کے عیسائیوں نے چھیڑ چھاڑ کی ! انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ نبی علیہ السلام کی قیادت میں جو ایک سیاسی ، مذہبی اور دینی انقلاب آرہا ہے یہ کہیں ہمارے لیے مسائل پیدا نہ کر دے تو انہوں نے سوچا کہ اِن کو ابھی کچل دیں چنانچہ خود بنفس ِنفیس رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم اپنی قیادت میں لشکر لے کر شام کی طرف گئے اور غزوۂ تبوک واقع ہوا آپ کی وفات سے ایک دو سال پہلے ! اور ان کے مقابلہ کے لیے خود ( بجسدِ خبیث)رُومیوں کا بادشاہ سپر طاقت کا بادشاہ اِن کے مقابلے میں آیا لیکن اللہ نے ان پر ایسی دہشت طاری کی کہ وہ مقابلے پر نہیں آسکے اور مسلمان سرخرو ہوکر واپس لوٹے !
١ '' ر'' کے سکون کے ساتھ یہ ایران کا پرانا نام ہے ١١ مارچ ١٩٣٥ء کو بدل کر ''ایران'' کردیا گیا۔
پھر نبی علیہ السلام دنیا سے تشریف لے گئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے پھر بھی چلتے رہے ان سے سیاسی اور جہادی معاملات ! آپ کا دورِ خلافت پونے دو سال رہا صرف ! !
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے جہاد بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا اسلام بہت بڑی سیاسی قوت بن چکا تھا فوجی قوت بھی بن گیا لیکن ان کے مقابلے کے اب بھی نہیں تھے، ان کے مقابلے میں قوت بہت تھوڑی تھی لیکن ایمان تھا الحمدللہ ایمان اور اللہ کی مدد اور نصرت ! !
سن ١٦ ہجری ، فلسطین و شام کی فتح :
نبی علیہ السلام کو ہجرت کیے ہوئے صرف پندرہ سولہ سال ہوئے تھے اس عرصہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور تھا حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں جہاد ہوا اور اُنہوں نے سارا خطہ فتح کر لیا پورا بیت المقدس اور فلسطین یہ سب ان رُومیوں سے چھین لیا اور انہیں پسپا کر کے شکست ِفاش دی ، پوری سپر طاقت سرنگوں ہوگئی اسلام کے آگے ! پاؤں تلے روند دیا اسلام نے سپر طاقت کو ! عیسوی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ چھ سو چھتیس سن عیسوی(٦٣٦ئ) تھا ! اس کے بعد چار سو سال مسلسل یہ خطہ مسلمانوں کے قبضے میں رہا، یعنی چار صدیاں !
مسلمانوں کی پسپائی :
پھر ایسا ہوا کہ ٤٩٢ ہجری میں یعنی ایک ہزار ننانوے عیسوی(١٠٩٩ئ) میں عیسائیوں نے پھر اس پر قبضہ کر لیا ! صرف اٹھاسی (٨٨) سال عیسائی اس پر قابض رہے !
صلاح الدین ایوبی ، قبضہ واپس :
اٹھاسی سال کے بعد پانچ سو تراسی (٥٨٣)ہجری میں جو گیارہ سو ستاسی (١١٨٧ئ) عیسوی بنتا ہے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ اسلام کے بہت بڑے جرنیل تھے اللہ نے ان کو ہمت دی انہوں نے حملہ کیا اور حملہ کر کے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں سے آزاد کرا دیا ! اس کے بعد پورے آٹھ سو سال مسلمان اس پر قابض رہے ! چار سو سال پہلے والے اور آٹھ سو سال آخر والے ، کُل بارہ سو سال مسلمان بلا شرکت ِ غیر اس پر قابض رہے ! !
نبی علیہ السلام کے دور سے لے کر اَب تک کا دور ساڑھے چودہ سو سال ہے اس ساڑھے چودہ سو سال کے عرصہ میں مسلمانوں کا اقتدار بارہ سوسال رہا اور عیسائیوں کا اقتدار صرف اٹھاسی سال ! تو اس پر صرف اور صرف مسلمانوں کا حق ہے ! !
زوال :
پھر آج سے سو سال پہلے مسلمانوں ہی کی اپنی بدقسمتی اپنے جھگڑوں اپنی لڑائیوں اپنے اندر منافقین اور بغاوتوں کی وجہ سے مسلمانوں کی خلافت ختم ہوگئی اور عیسائیوں کو موقع مل گیا ،برطانیہ کے جرنل ایڈمن نے ١٩٢٤ء میں پھر برطانیہ کی قیادت میں اس پر حملہ کیا اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیا !
یہودی صفر :
اس سارے قصے میں یہودیوں کا تو کوئی کردار نہیں ہے اس وقت بھی دنیا کی آبادی دس ارب سے اُوپر ہے جبکہ ساری دنیا میں یہودی مشکل سے ایک کروڑ یا ڈیڑھ کروڑ بنتے ہیں ! ! ان ایک کروڑ یا ڈیڑھ کروڑ یہودیوں کو نمٹنے کے لیے اگر اَمریکہ، برطانیہ اور منافق مسلم حکمران راستے سے ہٹ جائیں اور آزاد چھوڑ دیں تو میں رُسوخ سے کہتا ہوں کہ صرف یہ رائیونڈ اور پاجیاں کے جوان کافی ہیں پورا اِسرائیل فتح کرنے کے لیے ، اِنْ شَائَ اللّٰہ ! ! باقی کسی ملک کی ضرورت نہیں ہے، ہاتھوں میں صرف بندوقیں دے دو ، دستی بم دے دواور خنجر ایک ایک دے دو پھر ایمان کی قوت سے پوری بزدل اسرائیل فوج کو شکست دیں گے اِنْ شَائَ اللّٰہ ! !
یہودی یہاں کیسے آئے ؟
اب سو سال پہلے سے برطانیہ کا ناجائز قبضہ آج تک چل رہا ہے اس پر ! یہودیوں کو انہوں نے دنیا سے اکٹھے کر کے یہاں آباد کیا اس لیے کہ یہودی اتنے گندے اور شرارتی ہیں کہ فرانس جیسے گندوں نے انہیں اپنے ہاں آباد کرنے سے انکار کیا، امریکہ جیسے گندوں نے اپنے ہاں آباد کرنے سے انکار کیا،خود برطانیہ جیسے گندے نے اپنے ہاں آباد کرنے سے انکار کیا،جرمنی نے انکار کیا ، بیلجیم نے انکار کیا،پورا یورپ اِن کو پسند نہیں کرتا، روس نے نفرت کی اس نے انکار کر دیا کیونکہ سب جانتے تھے کہ جس نے انہیں رکھا یہ اُسی کو ڈستے ہیں ان کی فطرت ہے لہٰذا ہم ان کو اپنے ملکوں میں نہیں رکھیں گے ! !
یہاں کیوں آباد کیا گیا ؟
برطانیہ نے یہ سوچ کر کہ یہ جگہ ہم نے قبضہ میں لی ہے ہماری تو ہے بھی نہیں مسلمانوں کی ہے تویہ مسلمانوں کے لیے دردِسر بنے رہیں تو ہمارا فائدہ ہے ! انہوں نے انہیں یہاں لاکر جمع کیا آج امریکہ اور برطانیہ کی چھتری کے نیچے یہ غنڈے بدمعاش رہ رہے ہیں اور بدمعاشی دنیا میں کر رہے ہیں !
یہ تاریخی حقائق آپ کو بتا رہا ہوں میں ، یہ یہودی تو بغل بچہ ہے امریکہ اور برطانیہ کا، اس کی اپنی کوئی اوقات ہی نہیں ہے ! آج یہ اپنی چھتری ہٹا دیں تو یہ پاجیاں اور رائیونڈ کے نوجوان اسے ختم کردیں گے !
مسلمان حکمران :
مسلمانوں کے اکثر حکمران سب بزدل اور منافق ہو چکے ہیں ، اندر سے ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اس لیے اسرائیل آج مسئلہ بنا ہوا ہے ورنہ ہمارے اور آپ کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تویہ اوّل بھی ہمارا تھا بیت المقدس آخر بھی ہمارا ہے ،بیچ میں بھی یہ ہمارا تھا جیسے حرمین شریفین ہمارے لیے مقدس ہیں اور ہمارے ہیں ایسے ہی بیت المقدس بھی ہمارا ہے ! نہ عیسائیوں کا ہے نہ یہودیوں کا !
یومِ طوفانِ اقصیٰ :
اب آج جمعیت علماء اسلام نے مطالبہ کیا ہے کہ جمعہ کے دن یومِ قدس یوم طوفانِ اقصیٰ منانا چاہیے اور حماس کی تائید کرنی چاہیے اور اس جہاد کی مدد اور تائید جس طرح بھی ممکن ہو وہ کرنی چاہیے، پیسے سے ہو، جان سے ہو ،مال سے ہو، دعاؤں سے ہو اِس کی مدد کرنی چاہیے آپ اس کے لیے تیار ہیں یا نہیں ؟
اعلانِ جہاد :
ہماری حکومت کو چاہیے کہ اس کے خلاف باقاعدہ اعلان جہاد کرے ،آپ اس کی تائید کرتے ہیں ؟ سعودی عرب جہاد نہیں کرتا اس کو چھوڑ دیں دبئی مسقط نہیں کرتے امارات نہیں کرتے بس انہیں اتنا کہیں کہ بس ہمیں راستہ دو ، ہمارے ہاں سے جوان جائیں گے اوربیت المقدس فتح کرکے دکھائیں گے اِنْ شَائَ اللّٰہ ! !
آج کا یہ دن جمعیت علماء اسلام کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ''طوفانِ اقصٰی'' کی حمایت کے طور پر منایا جا رہا ہے ، آپ بتلائیے پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا یوم ِقدس منانے کا ؟ نہیں ! مسلم لیگ نے مطالبہ کیا ؟ نہیں ! پی ٹی آئی نے کیا ؟ نہیں ! ایم کیو ایم نے کیا ؟ نہیں ! توآپ کہاں پھر رہے ہیں ؟ ؟ اس مجمع میں میرے کئی بھائی ایسے بھی ہوں گے جو اور جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر میری بات پر ہاتھ اُٹھا رہے ہیں ! ! ؟ اگر اِن پارٹیوں میں سے کسی نے کہا کہ بیت المقدس کا ساتھ نہیں دینا تو کیا اُس وقت بھی ہاتھ اُٹھائیں گے ؟ یہ سب پارٹیاں ہمیں کفر اور گمراہی کی طرف لے کر جارہی ہیں یہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہیں ! ! !
یہودی عورتیں اور بچے :
اسلام میں یہ اصول ہے کہ عورتوں اور بچوں کو نہیں مارا جائے گا لیکن اُس عورت کو جو لڑائی میں شریک ہو یا اُن کی سیاسی قیادت کررہی ہو سیاسی ماہر ہو معاملات سمجھتی ہو ،وہ بچہ جو لڑائی میں شریک ہورہا ہے اُن کے ساتھ، درخت پر اس کو باندھ دیا اور وہ بندوق لے کر مار رہا ہے ،اُسے فوجی سمجھا جائے گا یا عام شہری سمجھا جائے گا ؟ ظاہر ہے انہیں فوجی سمجھا جائے گا ! انہیں گرفتار کیا جائے گا قتل کرنا پڑے توقتل کیا جائے گا جو بھی شکل ہوگی ان کے شر سے بچنے کے لیے وہ اختیار کی جائے گی !
اسرائیلی یہودی عام شہری نہیں :
آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ اسرائیل کا قانون ہے کہ ہر بچہ اور بچی فوجی تربیت لے گا اور لیتا ہے اور لے رہا ہے ! وہ ہر ایک کو فوجی تربیت دے رہے ہیں ، جب وہ جوان ہوجاتے ہیں تو پھر ان پر لازم ہوتا ہے کہ ڈیڑھ دو سال فوج کے ساتھ خدمات انجام دیں یہ ہر شہری پر لازم ہے ! اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کا ہر شہری چاہے عورت ہو یا مرد وہ فوجی ہے وہ عام شہری نہیں ہے !
مشورہ :
اس لیے میں یہ مشورہ دیتا ہوں فلسطینیوں کو یہ جو تم نے اعلان کیا ہے کہ عورت اور بچوں کو نہیں ماریں گے یہ تمہارا اعلان غلط ہے فقہی اصول اور اسلام کے مارشل قوانین سے ہٹ کر ہے، اس پر نظر ثانی کریں اور علماء سے رائے لیں جو بڑے بڑے مفتیانِ کرام ہیں اُن سے رائے لیں اُن کا فتویٰ اگر آئے تو پھر ٹھیک ہے پھر ہم بھی فتوے کے تابع ہیں ! ورنہ جو میں عرض کر رہا ہوں پھر اس کے مطابق عورت مرد سب کو نشانہ بنانا چاہیے کسی کو نہیں چھوڑنا چاہیے صرف وہ عورت مرد اور بچے جو ہاتھ کھڑے کر دیں اور اعلان کر دیں کہ میں لڑائی میں شریک نہیں ہوں اُسے گرفتار کر لو اُسے مارنا پھر ٹھیک نہیں ہے یہ اسلام کا قانون ہے ! !
اپنی شناخت کا واحد راستہ :
بہرحال حالات انتہائی خطرناک ہورہے ہیں ، آگے کو اور خطرناک ہوں گے ! اگر آپ نے بزدلی دکھائی تو پھر آپ کا نام و نشان کائنات سے مٹ جائے گا ! اگر اپنی شناخت باقی رکھنی چاہتے ہو تو مذہب سے جوڑ لو دین سے جوڑ لو اپنے کو ،پیپلز پارٹی کو چھوڑ دو، مسلم لیگ کو چھوڑ دو، میری بھی دوستیاں ہیں پیپلز پارٹی والوں سے مسلم لیگ والوں سے یہ ایم کیو ایم والے بھی اور یہ پی ٹی آئی والے بھی سب دوست لیکن میں میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے دین ،ایمان اور آخرت کو بچاؤ انہیں چھوڑو، جمعیت علماء اسلام سے وابستہ ہو جاؤ ! ! آج جمعیت علماء اسلام کا جو القدس کے بارے میں اعلان ہے آپ سب جب اس کی تائید کرتے ہیں تو اس جماعت کا ساتھ کیوں نہیں دیتے ہر چیز میں ؟ آج سے عہد کرو سوچو ! ؟ برادریوں کے پیچھے مت چلو کہ میری برادری کس کو ووٹ ڈال رہی ہے یہ پنجاب کے برادری سسٹم نے ہمیں جہنم کے راستے پر ڈال دیا ہے ! اس کو چھوڑ دو ! آخرت میں کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا، سب دھرا رہ جائے گا ، آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی برادری کا رُخ بھی موڑ کر انہیں اِدھر لائیں گے کہ تم سب اِدھر آؤ جمعیت میں ! !
قنوتِ نازلہ :
قنوت ِنازلہ ایک دعا ہے جب ایسی مصیبت آئے جس میں دشمن کی طرف سے خطرہ ہو وہ پڑھنے کا معمول بنائیں وہ خانقاہ نے طبع کرائی ہے دفتر سے لے سکتے ہیں اس کا ورقہ ،اس کو لے جا کر اگر مسجد میں امام صاحب نماز میں پڑھیں تو سب سے اچھی بات ہے ورنہ ہر نماز کے بعد گھر میں عورتیں مرد ایک مرتبہ اسے پڑھ لیں اور ہر نماز نہیں تو کسی ایک نماز کے بعد گھر میں اسے ضرور پڑھیں روزانہ ! یہ معمول آج سے شروع کریں ،خانقاہ حامدیہ کی طرف سے وہ چھاپا گیا ہے !
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ہماری آپ کی سب کی مدد فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے مسلمانوں میں اتفاق اور اتحاد عطا فرمائے اور آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی شفاعت اور ان کا ساتھ نصیب فرمائے ، آمین وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)
قسط : ٤ ، آخری
آب ِزم زم
فضائل ، خصوصیات اور برکات
( حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب، فاضل و مدرس جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
زمزم پیتے وقت علامہ ابن حجر کی دُعا :
علامہ ابن حجر عسقلانی( م : ٨٥٢ھ) فرماتے ہیں کہ جب میں حدیث شریف کا ابتدائی طالب علم تھا تو اُس وقت میں نے آب ِ زمزم پیتے وقت اللہ تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ حدیث شریف کے فن میں مجھے امام ذہبی جیسا مقام عطا فرماپھر اُس دعا کے تقریباً بیس برس کے بعد جب میں نے دو بارہ حج کیا تو اُس وقت میں نے اپنے آپ کو حافظ ذہبی کے مقام و مرتبہ سے بڑے مرتبہ کا حامل پایا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی مجھے اِس سے بھی بڑا مرتبہ حدیث شریف میں عطا فرما لہٰذا اللہ سے قوی اُمید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے اِس سے بھی بڑا مرتبہ ٔ حدیث اپنے فضل سے عطا فرمادے گا ! ١
علامہ ابن حجر عسقلانی کے شاگردِ رشید حافظ سخاوی کا قول ہے اللہ تعالیٰ نے اُستاذ ِ محترم کو حافظ ذہبی سے بڑا مقام و مرتبہ فن ِ حدیث میں عطا فرمادیا ہے !
زمزم پیتے وقت علامہ ابن ِالہام کی دُعا :
امام فقیہ، اُصولی، محدث ،کمال ابن الہام محمد بن عبدالواحد (م: ٨٦١ھ) نے اپنے شیخ حافظ ابن حجر کے آب ِزمزم پیتے وقت کی دُعا کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا :
''بندۂ ضعیف اپنے رب سے استقامت اور حسنِ خاتمہ کی اُمید رکھتا ہے '' ٢
١ جزء فی حدیث مائِ زمزم للحافظ ابن حجر ص ١٩١ ٢ فتح القدیر شرح الہدایة ج٢ ص ٤٠٠
زمزم پیتے وقت امام سیوطی کی دُعا :
امام ابوبکر السیوطی (م : ٩١١ھ) نے فرمایا کہ جب میں حج کے لیے گیا تو میں نے آب ِزمزم چند اُمور کی نیت سے پیا جس میں سے پہلی نیت یہ تھی کہ مجھے فقہ میں شیخ سراج الدین البلقینی یعنی عمر بن رسلان المجتہد الحافظ کا مقام حاصل ہوجائے ! دوسری نیت یہ کی کہ حدیث شریف میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا مقام حاصل ہوجائے ! ١
علامہ ظفر احمد عثمانی کی دُعا ونیت :
علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ (م: ١٣٩٤ھ) فرماتے ہیں اپنے پہلے حج کے موقع پر میں نے دین و دنیا سے متعلق کئی اُمور کے لیے آبِ زمزم پیا (بعد اَزاں ) ان میں سے اکثر کام میرے پورے ہوگئے ! پھر دوسرے حج کے موقع پر بھی اسی طرح کئی اُمور کی نیت سے آبِ زمزم پیا تو ان میں سے بھی بہت سارے کام بفضلہ تعالیٰ پورے ہوگئے ! پھر تیسرے حج کے موقع پربھی اسی طرح بہت سے اُمور کی نیت کر کے آب ِ زمزم پیا اب اللہ تعالیٰ سے قوی اُمیدہے کہ وہ اُمور بھی حاصل ہوجائیں گے !
علامہ ظفر احمد عثمانی مزید فرماتے ہیں :میری زبان میں شدید لکنت تھی جس کی وجہ سے مدارس میں تدریس کے وقت اور منابر پر خطبہ اور وعظ کے وقت شدید مشکل پیش آتی تھی ،پہلے ہی حج کے موقع پر آبِ زمزم پینے کے بعد وہ لکنت ِ شدیدہ زائل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے درس و خطابت پر قدرت ِ تامہ عطا فرمادی وللّٰہ الحمد حق حمدہ والصلٰوة والسلام علی نبیہ سیّدنا محمد والہ واصحابہ اجمعین ۔ ٢
آبِ زمزم سے شفا حاصل کرنے والوں کے چند واقعات
حلق میں پھنسی ہوئی سوئی سے شفا :
فاکہی نے اپنی کتاب ''اخبار ِ مکہ'' میں نقل کیا ہے کہ مجھ سے احمد بن محمد بن حمزہ بن واصل نے والد سے یا مکہ مکرمہ میں رہنے والے کسی شخص کی طرف سے نقل کیا کہ اُس نے مسجد ِ حرام میں باب الصفائ
١ حسن المحاضرة ج ١ ص ٣٣٨ ٢ اعلاء السنن ج ١٠ ص ٢٠٨
کے قریب ایک شخص کو دیکھا جس پر لوگ جمع تھے میں نے قریب ہوکر دیکھا توکیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص ہے جس کا منہ لکڑی سے بندھا ہوا ہے ! میں نے دریافت کیا کہ اسے کیا ہواہے ؟ تو لوگوں نے کہا کہ اِس شخص نے ستو پیے تھے اُس ستو میں سوئی پڑی ہوئی تھی جو اِس کے حلق میں جاکر پھنس گئی اب اس کی یہ حالت ہے کہ یہ منہ بند نہیں کرسکتا گویا موت کے عذاب میں مبتلا ہے !
اسی دوران ایک شخص آیا اُس نے کہا چلوزمزم کے کنویں پر چلو اور اِس مصیبت سے نجات کی نیت کرکے زمزم پیو اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی دُعا کرو ! اس کے کہنے پریہ شخص اُٹھا اور زمزم کے کنویں پر جاکر کوشش کر کے زمزم پیتا رہا یہاں تک کہ محسوس ہوا کہ آب ِزمزم نے کسی چیز کو دُور کردیا اور ہٹا دیا ہے ! پھر یہ شخص واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں وہاں سے اپنی کسی ضرورت کے لیے چلا گیا چند دنوں کے بعد دوبارہ اسی شخص سے ملاقات ہوئی تو وہ بالکل صحیح اور تندرست تھا میں نے اُس سے دریافت کیا کہ تمہیں کس طرح شفا حاصل ہوئی ؟ تو اُس نے بتایا میں آبِ زمزم پی کر اسی حالت میں واپس آکر ستون کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھ گیا، نیند کا مجھ پر غلبہ ہوا اور میں سوگیا جب نیند سے بیدار ہوا تو سوئی کا احساس تک نہیں تھا ! ١
حضرت امام احمد بن حنبل آب ِزمزم سے شفا حاصل کیا کرتے تھے :
حضرت امام احمد بن حنبل (م : ٢٤١ھ) کے صاحبزادے عبداللہ بیان فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب اکثر آب ِ زمزم پی کر شفا حاصل کیا کرتے تھے اور اُسے اپنے چہرہ اور ہاتھوں پر ملتے تھے ! ٢
فالج سے شفاء بذریعہ آب ِزمزم :
نشر الآس فی فضائل زمزم وسقایة العباس کے مصنف خلیفہ بن ابی الفرج الزمزمی نقل کرتے ہیں کہ ابن قتیبة عبداللّٰہ بن مسلم الدینوری (م :٢٧٦ھ) یا ان کے صاحبزادے احمد بن عبداللّٰہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک جماعت کے ساتھ حج کے لیے گیا ہمارے قافلہ میں ایک صاحب مرضِ فالج میں مبتلا تھے ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ بالکل صحیح و تندرست حالت میں بیت اللہ کا
١ اخبار مکة للفاکہی ج٢ ص ٣٥ ٢ سیر اعلام النبلاء للذہبی ج ١١ ص ٢١٢
طواف کر رہے ہیں ! میں نے بڑے تعجب سے ان سے دریافت کیا آپ کیسے اتنی جلدی تندرست ہوگئے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں آبِ زمزم کے کنویں پر آیا اور آب ِزمزم لے کر اپنی اس دواة میں ڈالا جو پہلے سے میرے پاس ماجود تھی اور ایک پلیٹ یا برتن لے کر میں نے بسم اللہ لکھ کر سورۂ حشر کی آخری آیات ( ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ ) آخر سورة لکھیں اور سورة الاسراء کی آیت نمبر٨٢ ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَاھُوَ شِفَآئ وَّرَحْمَة لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلاَّ خَسَارًا) لکھی اور پھر یہ دعاء کی یا اللہ بے شک آپ کے نبی پاک صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے مَآئُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہ کہ زمزم جس مقصد کے لیے بھی پیا جائے وہ مقصد اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے پورا فرمادیتے ہیں اور قرآنِ پاک آپ کا پاک کلام ہے لہٰذا مجھے شفا عطاء فرمادیں ۔
یہ دعا کرنے کے بعد اس لکھے ہوئے کو آبِ زمزم میں حل کیا اور پی گیا اس عمل کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی علاج و معالج کے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے شفاء عطا فرمادی اور فالج سے مجھے نجات حاصل ہوگئی ! ١
امام ابن ِقیم کا زمزم سے شفاء حاصل کرنا :
امام ابن ِقیم محمد بن ابی بکر (م:ا٧٥ھ) فرماتے ہیں : میں نے اور کئی دیگر حضرات نے بارہا آب ِ زمزم سے شفا حاصل کرنے کا تجربہ کیا اور میں نے بہت سے امراض سے شفا حاصل کرنے کے لیے اسے استعمال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اچھا کردیا ! ٢
اور ایک بار میں مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگیا میرے پاس نہ تو کوئی معالج تھا اور نہ ہی کوئی دوا لہٰذا میں نے آب ِ زمزم سے علاج شروع کیا اس طرح کہ آبِ زمزم کا ایک گھونٹ لیتا اور اس پر چندبار آیت
( اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ )پڑھتا اور دم کرتا پھر پی لیتا اس عمل سے میں بالکل صحت یاب ہوگیا پھر میں بہت سے امراض میں اسی عمل پر اعتماد کرتا رہا اور انتہائی نفع حاصل کرتا رہا ! ٣
١ نشر الآس فی فضائل زمزم وسقایة العباس ٢ زادُ المعاد ج٤ ص ٣٩٣ ٣ زادُ المعاد ج٤ ص ١٧٨
امام زین الدین عراقی کا زَمزم سے شفا حاصل کرنا :
امام تقی الدین فاسی نے شفاء الغرام میں اپنے شیخ حافظ زین الدین العراقی عبدالرحیم بن الحسین ( م : ٨٠٦ھ) کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے چند امراض کے لیے زمزم پیا جس میں پیٹ کا ایک خاص مرض بھی تھا تو اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی دوا کے اس مرض سے شفا عطا فرمادی ! ١
امراضِ چشم کا علاج بذریعہ آب ِزمزم :
(الف) امام تقی الدین الفاسی (م :٨٣٢ھ) نے ذکر کیا کہ امام احمد بن عبداللّٰہ الشریفی جوکہ مکہ مکرمہ میں مسجد ِ حرام کے فراش تھے ان کی بینائی زائل ہوگئی انہوں نے زمزم اِسی نیت سے پیا توہمارے شیخ علامہ تقی الدین عبدالرحمٰن بن ابی الخیر الفاسی نے فرمایا کہ اس کی بینائی ٹھیک ہوگئی ! ٢
(ب) حافظ جار اللّٰہ بن محمد بن عبدالعزیز بن عمر (م :٩٥٤ھ) نے اپنی کتاب نعمة الرحمٰن فیما یعین علی حفظ القرآن میں اپنے دادا شیخ نجم الدین بن عمر بن محمد (م :٨٨٥ھ) جو اتحاد الوری باخبار اُم القرٰی کے مصنف ہیں ان سے نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا وہ بیان کرتے تھے جب ان کی آنکھوں میں پانی اُتر آیا اور انہیں نظر آنا بند ہوگیا اور وہ کسی چیز کو بھی نہیں دیکھ سکتے تھے اُس وقت وہ مکہ مکرمہ میں تھے اور مسجد ِحرام میں جانے کے لیے انہیں رہبر کی ضرورت پیش آتی تھی تو اُس وقت میں نے آب ِ زمزم شفا کی نیت سے پیا اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے جو اِس بارے میں آئی ہے اور میں نے آبِ زمزم آنکھوں میں ڈالنا شروع کیا تو بہت جلد اِس مرض سے مجھے افاقہ ہوگیا جبکہ اطباء اِس مرض میں آنکھوں میں پانی ڈالنے سے منع کرتے ہیں ۔
(ج) یہی حافظ جار اللّٰہ بن محمد بن عبدالعزیز اپنے بارے میں اپنی مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ مجھے بھی ٩١٠ھ میں ایسا ہی مرض لاحق ہوا کہ میری آنکھ کی پتلی پر ایک دانہ نکل آیا جس نے مجھے مطالعہ وغیرہ سے روک دیا اور ایامِ حج میں رات کو مسجد ِحرام جانے سے بھی روک دیا، میں صبح کی نماز مطاف شریف میں پڑھ کر زمزم کے کنویں پر چلا جاتا اور خوب زمزم پیتا اور حجر اسود کے سامنے حوض پر
١ شفاء الغرام ج١ ص ٢٥٥ ٢ شفاء الغرام ج١ ص ٢٥٥
اپنے چہرہ کو داخل کر کے آنکھ کھول دیتا اور اللہ تعالیٰ سے صحت کی دعا کرتا اُس وقت میں کبیدہ ٔخاطرتھا اللہ نے مجھے اِس سے عافیت عطا فرما دی ! !
مرضِ استسقاء سے شفاء بذریعہ آب ِ زمزم :
امام تقی الدین الفاسی نے نقل کیا ہے کہ الفقیہ العلامہ المدرس المفتی ابوبکر بن عمر بن منصور الاصبحی جو شنینی کے نام سے مشہور ہیں اور بلادِ یمن کے مشہورعلماء میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ وہ مکہ مکرمہ میں استسقاء کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے شفاء کی نیت سے زمزم پیا وہ آبِ زمزم کی برکت سے شفا یاب ہوگئے !
اس واقعہ کی تفصیل ان کے صاحبزادے عفیف الدین اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میرے والد جب مکہ مکرمہ میں مرضِ استسقاء میں مبتلاہوئے تو طبیب کی تلاش میں نکلے وہ جس طبیب کی نیت کرکے نکلے تھے اُس طبیب نے خاطر خواہ جواب نہ دیا (غالباً)لا علاج قرار دے دیا ہوگا) تو ان کا دل ٹوٹ گیا تب اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں آبِ زمزم سے شفا حاصل کرنے کا داعیہ پیدا کردیا حدیث مَآئُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَہ کی وجہ سے، لہٰذا اُنہوں نے کنویں سے ڈول نکالا اور خوب سیر ہوکر پیا آبِ زمزم پیتے ہی انہیں قضائِ حاجت کا شدید تقاضا ہوا اور پیٹ میں کسی چیز کے ٹوٹنے یا کٹنے کا احساس ہوا قضائِ حاجت کے بعد دوبارہ زمزم کے کنویں پر گئے دوبارہ پھر سیر ہوکر پیا پھر قضائِ حاجت کا تقاضا ہوا جس سے پیٹ بالکل صاف ہوگیا اور مرض سے بھی صحت یاب ہوگئے۔
ان ہی دنوں والد صاحب ایک بار مکہ مکرمہ اپنے کپڑے دھورہے تھے اور کپڑوں کو پاؤں سے مل رہے تھے کہ وہی طبیب جس نے علاج کرنے سے انکار کردیا تھا اُس نے انہیں دیکھ کر بڑی حیرت سے پوچھا تو وہی شخص نہیں ہے جو مرضِ استسقاء میں مبتلاء تھا ؟ تو والد صاحب نے جواب دیا کہ ہاں میں ہی وہ شخص ہوں ! اس پر اُس حکیم نے پوچھا کس چیز سے علاج کیا ہے ؟ والد صاحب نے جواب دیا آب ِزمزم سے ! اس پر حکیم نے کہا اللہ تعالیٰ نے تجھ پراپنی مہربانی کی ہے اسی حکیم نے جب والد صاحب کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو کہا تھا کہ یہ شخص تین دن بھی زندہ نہیں رہ سکتا ! ! !
قسط : ٤ ، آخری
سبق آموز تاریخی حقائق
حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے زُہد و قناعت،
فضل و کمال اور خدا ترسی کے بعض گوشے
انتخاب : حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی (مرتب فتاویٰ دارُالعلوم دیوبند)
عنوانات : حضرت مولانا تنویر احمد صاحب شریفی، مجلس یادگار شیخ الاسلام پاکستان کراچی
٭٭٭
حقدار کو حق ادا کردیا :
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے :
''حضرت جب تحصیلِ علم سے فارغ ہوکر گھر پر آئے تو املاک کا جائزہ لیا اور تمام املاک کو مشتبہ اور بعض کو مغصوبہ پایا والد کو بہت سمجھایا کہ یہ کمائی ناجائز اور مشتبہ ہے قیامت کے مواخذے کا تقاضا ہے کہ حقیقی حقداروں تک اُن کے حصے پہنچا دیے جائیں پھر اِن زمینوں کے غلے کے استعمال میں احتیاط شروع فرمائی اور والد کو بار بار سمجھاتے رہے، یہی نہیں بلکہ مفصل فرائض نکلوائے اور اُوپر کی بعید بعید پشتوں کے حقوق اور حصے نکلوائے '' ١
اللہ اکبر ! یہ جذبہ ٔ دینی ! آج کل کتنوں کو اِس پر یقین لانے میں دیر ہوگی مگر ''سوانح قاسمی '' میں فرائض کی تحریر کا عکس موجود ہے، سوچیے تو سہی کتاب و سنت پر کیسا ایمان تھا ؟ کیا بیسویں صدی میں یہ صحابۂ کرام کی سی زندگی اختیار کرنا آسان بات ہے ؟ اللہ جانتا ہے خدا کے اس بندے نے وہی کام کیا جو ایک پکے مسلمان کو کرنا چاہیے !
١ سوانح قاسمی ج١ ص ٤٩٦
موجودہ دور کے وہ مسلمان جو مختلف حیلوں سے حقداروں کو محروم کرنے کی سعی کرتے ہیں اسے پڑھ کر عبرت وبصیرت حاصل کریں اور اپنے حیلوں سے توبہ کرکے پکے مسلمان بننے کی سعیِ بلیغ کریں ! علمائِ کرام، خانقاہی پیروں اور دیگر مسلمانوں کو اِس واقعے کی روشنی میں اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے !
شب ِعروسی کا قصہ :
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی شب ِعروسی کا قصہ سننے کے لائق ہے جس کی راوی حضرت کی اہلیہ ہیں جنہوں نے اپنے گھر والوں کو کہہ کر سنایا تھا بلکہ تعلیم و تربیت فرمائی تھی ! سنیے حضرت کی اہلیہ محترمہ فرماتی ہیں :
''حضرت جب شب ِ اوّل میں تشریف لائے تو آتے ہی نوافل شروع فرمادیے، نوافل سے فارغ ہونے کے بعد میرے پاس تشریف لائے اور متانت وسنجیدگی سے فرمانے لگے جب تم کو اللہ نے میرے ساتھ وابستہ کردیا ہے تو نبھاؤ کی ضرورت ہے، مگر بصورتِ موجودہ نبھاؤ میں دُشواری ہے کہ تم امیر اور میں غریب ونادار ہوں ! صورتیں اب دو ہی ہیں : یا میں بھی تونگر بنوں یا تم میری طرح نادار بن جاؤ ! پھر فرمایا میرا اَمیر بننا تو دُشوار ہے اس لیے آسان صورت دوسری ہوسکتی ہے کہ میری طرح ہوجاؤ'' ١
پھر اپنا شوہری حق اور اُن کا بیوی کا حق جتلاکر پوچھا ''جو کوئی تمہارے حق میں اچھا حکم دوں تو مانوگی ؟ ''
اہلیہ پہلے پہلی شب ہونے کی وجہ سے خاموش رہیں ، اصرار پر فرمایا ضرور مانوں گی ! یہ سب قول و قرار لے کر فرمایا : ''اچھا سب زیور اُتار کرمجھے دے دو''
زیور دے دیا گیا، پھر کپڑوں اور جہیز کے سامانوں پر اختیار کا مطالبہ ہوا !
اہلیہ کی طرف سے کہا گیا : ''آپ کو کلی اختیار ہے'' ٢
١ سوانح قاسمی ج١ ص ٥٠٨ ٢ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٠
آپ سمجھتے ہوں گے یہ رفیقہ ٔ حیات کا بس امتحان تھا یا ہنسی مذاق ؟ ! مگر دل تھام کر سنیے، حضرت رحمہ اللہ نے کیا کیا :
''علی الصباح تمام زیورات، تمام جوڑے کپڑوں کے اور سارے برتن جو ہزاروں روپے کا سامان تھا سب کا سب چندہ ٔ سلطانی (ترکی امدادی فنڈ) میں دے دیا '' ١
تمام لوگ آنکھ کھول کردیکھیں یہ سب کیا ہورہا ہے ؟ یہاں پہنچ کر قلم تھرا جاتا ہے کہ اس ذات ِ گرامی کو کیا کہوں ، ولی کہوں ، قطب کہوں یا کیا ؟ مگر اپنا ذوق کہتا ہے کہ کچھ نہیں ، بس صحابہ کے ہوبہو نمونہ تھے اور اپنے جد ِامجد حضرت سیّدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے قابلِ فخر پوتے !
ہمیں رب العزت کے لطف و کرم سے پوری توقع ہے کہ میدانِ حشر میں ان شاء اللہ حضرت صدیق اکبر کے ساتھ ہوں گے، حضرت کے علمی اور رُوحانی پوتوں اور دوسرے مسلمانوں کے لیے ان واقعات میں ایک اہم سبق ہے، کاش قبول کریں !
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی اہلیہ رُخصت ہوکر گھر گئیں تو گھر والے ان کو دیکھ کر متحیر رہ گئے پھر سب نیا بنوادیا گیا، مگر جیسا کہ خود ان ہی کی زبانی روایت نقل کی گئی ہے کہ دو بارہ جب مولانا کے یہاں آئی تو پھر وعظ و نصیحت فرماکر اور ان کو راضی کر کے ''مختار ِ کل'' بن گئے اور ''صبح ہی یہ ہزاروں روپے کا سامان پھر سلطانی چندے میں دے ڈالا'' ٢
اللہ اللہ ! یہ جذبۂ حق کہ یہ ساری چیزیں کیوں گھر میں پڑی رہیں ؟ ان سے ثواب کیوں نہ کمایا جائے ؟ زیب و زینت اور آرائش و نمائش یہ تو اِسی زندگی تک محدود ہیں ان سے صرف خیالی راحت حاصل ہوتی ہے پھر اِن سے دائمی اور اَبدی زینت کا سامان کیوں نہ کردیا جائے ؟
چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ جب کسی معتقد نے ''ایک چادر بیش قیمت اور ایک عدد زیور طلائی بی بی صاحبہ (یعنی اہلیہ محترمہ) کی مِلک کرکے بھیجا تو اہلیہ سے فرمایا :
١ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١١ ٢ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٣
''فی الحقیقت چادر اور زیور سے دل خوش ضرور ہوتا ہے لیکن چند روز کے استعمال سے یہ دونوں ہی چیزیں خراب ہوجائیں گی،جو کام اس ریشمین چادر سے نکلے گا وہی لٹھے کی سفید چادر سے بھی نکل سکتا ہے، کسی مستحق کو دے دو ! خداوند تعالیٰ ان کے عوض عاقبت میں پائیدار لباس اور زیور عطا فرمائیں گے '' ١
اب لوگ دوسروں کو تو نصیحت کرتے ہیں مگر خود اپنے گھر سے صدقہ کریں ، غیر ممکن ! آج بڑے بڑے دیندار اور بظاہر خدا ترس بزرگوں کی ''خانہ تلاشی'' لیجیے، وہاں دنیا ہی دنیا ملے گی، دین کا نام تک نہ ہوگا ! یقین نہ آئے تو ایک خفیہ کمیٹی مقرر کر کے رپورٹ مرتب کرالیجیے ! آج ہے کوئی پیر، پیرزادہ، ہے کوئی عالم اور دیندار مسلمان جو اپنی بیوی کا زیور راہِ خدا میں دے دے اور اپنے دل کو خوش اور مطمئن دیکھ سکے اور بیوی کی حد تک تو دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ کسی قیمت پر بھی بہ رضا و رغبت تیار نہیں ہوسکتی اِلا ماشاء اللہ ! مگر اللہ اکبر ! یہ صحابۂ کرام کی سی زندگی گزارنے والا عالم ہے جو خود اپنی ہی حدتک تیار نہیں بلکہ اُس کی بیوی بھی اسی رضا و رغبت کے ساتھ راہِ خدا میں دینے کو آمادہ ہے ! ! سوانح میں یہ عبارت موجود ہے :
''بی بی صاحبہ نے فوراً چادر ریشمین اور طلائی زیور دونوں کو دے اور دل پر میل نہ آیا'' ٢
چنانچہ حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کا دستور تھا :
''مولانا نانوتوی کے معتقد آپ کی بیوی کے لیے قیمتی لباس اور زیور بناکر بھیجتے مگر مولانا بجائے بی بی صاحبہ کے مساکین کو دے دیا کرتے اور بی بی صاحبہ کو خبر بھی نہ کرتے'' ٣
رب العالمین بال بال مغفرت فرمائے، بیسویں صدی میں وہ کام اورنمونہ قائم فرماگئے جو عہد ِنبوت میں نظر آتے ہیں ! ہمارے اس دور میں صحابۂ کرام کا ''نقش ِقدم''بھلادیا گیا ہے۔ اے کاش ! یہ دینی جذبات پھرمسلمانوں میں اُبھرتے اور زبان سے زیادہ لوگ دل کے اچھے ہوتے ! !
١ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٥ ٢ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٦ ٣ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٨
علمائے کرام کی بیویاں متوجہ ہوں :
حضرت مولانا محمدقاسم صاحب رحمةاللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ کا ایک واقعہ بھی سننے کے لائق ہے وہی فرماتی تھیں کہ مولانا کا دستور تھا کہ عشاء کے بعد دودھ استعمال فرماتے تھے چنانچہ جوں ہی آپ تشریف لاتے میں دودھ کا پیالہ لے کر حاضر ہوتی مگر
''کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ حضرت نے نوافل میں پوری شب گزار دی اور میں بھی پوری شب پیالہ لیے کھڑی کی کھڑی رہ گئی'' ١
اللہ اللہ ! بیوی ہو تو ایسی ! آج اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے، علمائے کرام کی بیویاں اس سچے واقعے کوپڑھیں اور سوچیں یہ اطاعت کا جذبہ کیا ان میں بھی ہے ؟ ہمارے اسلاف نے جہاں اوروں پر اثر ڈالا وہاں سے زیادہ اپنی ''بیوی'' پر بھی اثر ڈالا خود حضرت نانوتوی ہی کی اہلیہ محترمہ کا واقعہ نقل کیا ہے
''اذان کی حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ پر کام چھوڑ کر اس طرح اُٹھ جاتی تھیں کہ گویا اس کام سے کبھی کوئی واسطہ ہی نہ تھا، بالکل ہر چیز سے بیگانہ بن جاتیں '' ٢
کاش ! مسلمانوں کی تمام عورتوں میں دین کا یہ شغف پیدا ہوجاتا پھر مسلمانوں کے اعمال واخلاق میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک انقلابِ عظیم پیدا ہوجاتا اور مسلمان پوری دنیا پر چھا جاتے ! ہمارے علمائے کرام اس واقعے کو خصوصی طور پر اپنے گھروں کے متعلقین کو سنائیں اور اپنے گھروں میں دینی ماحول پیدا کرنے کی سعی کریں ! ! !
ذکر کی پابندی :
فرائض وسنن وغیرہ تو پابندی سے ادا کرتی ہی تھیں ، حیرت تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ دوامی التزام یہ بھی تھا :
''بعد نمازِصبح سر پر اور منہ پر اپنا دوپٹہ ڈال کر ہلکی ضرب سے ذکر کیا کرتی تھیں آندھی ہو، مینہ ہو، سردی ہو، گرمی ہو، اس میں بال برابر فرق نہیں آتاتھا'' ٣
١ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٩ ٢ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٩ ٣ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٩
آہ ! اب ایسی عورتیں ختم ہوگئی ہیں ، گنے چنے گھروں میں کچھ پرانی قسم کی جو بوڑھی عورتیں رہ گئی ہیں اُن کے سوا اَب یہ دینی جذبہ کہاں باقی رہا ؟ اب تو ناول خوانی کا دور ہے یا پھر سینما دیکھنے کا ! رات سینما کے گیٹ پر کھڑے ہو جائیے اور دیکھ لیجیے کہ بڑے بڑے شریف گھرانوں کی بہو بیٹیاں موٹر پر، رکشا پر اور دوسری سواریوں پر آتی ہیں اور سینما گھر میں داخل ہورہی ہیں ! نماز، روزے کو ایک فرسودہ رسم سے زیادہ وقعت نہیں !
حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کی رفیقۂ حیات کا قلب اتنا صاف تھا کہ آپ کے سامنے جب حدیثیں بیان کی جاتیں یا دین کی دوسری باتیں کہی جاتی تھیں تو آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش شروع ہوجاتی ! حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کا بیان ہے :
''میں نے جب حدیث شروع کی اور مشکوٰة میرے والد صاحب کے یہاں شروع ہوئی پھر دوسرے سال مسلم شریف تھی ان ہی کے یہاں ہوئی تو میں سبق پڑھ کر گھر آکر سبق کی تقریر دادی صاحبہ کو سنایا کرتا تھا، جب تک میں تقریر کرتا رہتا تھا ان کی آنکھوں سے آنسو مسلسل جاری رہتے'' ١
کہاں ہیں وہ عورتیں جو اپنے کو مسلمان کہتی ہیں ؟ اس بصیرت افروز واقعہ کو پڑھیں اور اپنے ایمان کا جائزہ لیں پھر اعمال و اخلاق اور عقائد و معاملات کو کتاب و سنت کی ترازو پر تو لیں اور اپنے متعلق فیصلہ کریں ! آہ ! جن گودوں میں ہماری پرورش ہوتی ہے وہی جب خشیت ِالٰہی اور دین کی محبت سے خالی ہوں گی تو ہماری زندگی پر کیا اثر پڑے گا ؟ ؟
( قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا) والی آیت سامنے رکھیں اور انصاف کیا جائے کہ دیندار مسلمان اس آیت پر کس حدتک عمل کرتے ہیں ! صرف اپنا وظیفہ کا فی نہ ہوگا جب شریکِ حیات کی زندگی بدعتوں اور مشرکانہ عقائد میں مبتلا ہوں ! ( ماہنا مہ دارُالعلوم دیوبند اگست تا نومبر ١٩٥٥ئ)
٭٭٭
١ سوانح قاسمی ج١ ص ٥١٩
ترانہ ٔ ختم ِ نبوت
( پروفیسرمحمد بشیر متین صاحب فطرت ، گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائینز لاہور )
٭٭٭
ہم ختم نبوت کی شمعیں ہر سمت جلاتے جائیں گے
ہر نقشِ ظلمتِ کفر کو یوں ہم بزمِ جہاں سے مٹائیں گے
شیطان کے چیلوں کو ایسے تنگی کا ناچ نچائیں گے
ہم ہر متنبیِ سرکش کو عبرت کا باب بنائیں گے
بوبکر و خالد کے خادم ، تاریخ ِسلف دوہرائیں گے
آماج گہِ آشوب و فتن کی اینٹ سے اینٹ بجائیں گے
باطل کے سنگین قلعوں کو ہم خاک میں ایسے ملائیں گے
اَبنائے مسیلمہ و اَسود کے ہوش و حواس اُڑ جائیں گے
تکمیل ایوانِ رسالت کی جب ختم ِرُسل سے عبارت ہے
طرّار تجاوز کار بھلا خمیازہ کیوں نہ اُٹھائیں گے
یوں سر بگریباں کر دیں گے ہم فتنہ گرانِ عالَم کو
کردار کے آئینے میں وہ منہ دیکھتے خود شرمائیں گے
برہانِ کتاب و سنت کا ، اِدراک اگر ہم عام کریں
شیطان کی دسیسہ کاری کے سب پیچ و خم کھل جائیں گے
تزو یر و دَ عاوِی سب اُن کے دراَصل ہیں مکڑی کے جالے
اَفکار و دلائل سے اُن کے ،ہم آئینہ اُن کو دکھائیں گے
ایوانِ نبوت کی عظمت پر ، حرف نہ آنے دیں گے ہم
یوں ختم نبوت کا پرچم آفاق میں ہم لہرائیں گے
ہر گوشۂ عالم میں کیا کیا سرگرم ہیں اہلِ حرص و ہوا
ایجنٹ یہود و نصارٰی کے کب تک یوں خیر منائیں گے
فیروز و وحشی کے پیرو، کیوں مست خیال و خواب میں ہیں
طاغوت کے رقصِ بسمل کا نظارہ وہ کب دکھلائیں گے
ہر ایک مقنِع کے رُخ سے ہم نوچیں گے ایک ایک نقاب
بہروپیوں کے ہر رُوپ کا ہم اَحوال تمام سنائیں گے
یہ سبزہ ٔ بیگانہ ہی متین آرائش ِ باغ میں حائل ہے
اِن حشو و زَوائد کو آخر کب آپ ٹھکانے لگائیں گے
ایک خواب
٭٭٭
السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ ! میں جامعہ مدنیہ جدید کا ایک ادنیٰ سا فاضل ہوں اور اِس وقت میں اللہ کے راستے میں تبلیغ میں ایک سال میں چل رہا ہوں اور ہماری تشکیل خانیوال سے آگے ملتان کی طرف دیہاتوں میں ہے ، یہاں الحمد للہ اپنے ساتھیوں کو متوجہ کیا اور یہاں پر فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کے لیے اعمال اور دعائیں مستقل ہورہی ہے !
ظاہر بات ہے کہ ہر مسلمان میں غزہ اور فلسطین کے لیے ایک درد ہے مسلمان کے دل میں اور ہم رات کو سوئے ہوئے ہیں اور میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک خاتون ہے وہ مسجد کی طرف آرہی ہوتی ہے اور ہمارے چند ساتھی جو ہیں اپنی جماعت کے وہ دروازے کی طرف چلے گئے کہ یہ خاتون کیا کہہ رہی ہے ! ؟
اسی دوران میں بھی دروازے کے قریب چلا گیا تو خاتون یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ میں نے خواب دیکھا اور مجھے خواب میں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں کو میرا سلام کہنا یعنی انہوں نے میرا نام لیا اس کے بعد مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ عورت کیا کہنا چاہ رہی ہے !
اس کے بعد خواب کے اندر بھی میرے ذہن میں یہ تھا اور خواب کے بعد بھی کہ وہ خاتون یہ کہنا چاہ رہی ہے وہ یہ کہہ رہی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے جماعت والے ساتھیوں سے بھی کہہ دو اور اپنے یار دوستوں سے بھی کہہ دو کہ روزانہ ( لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) کا ورد کریں اور فلسطین بھائیوں کے حق میں دعا اور اسرائیل اور دوسرے اُن کے حمایتوں کے حق میں بددعا کریں ! تو آپ حضرات سے جتنا ہوسکے روزانہ کے اعتبار سے ایک تسبیح پڑھیں سو کی تعداد میں یا تین سو تیرہ اَصحاب ِ بدر کی تعداد میں پڑھیں ان شاء اللہ ہم بھی آپ کے لیے دعا گو رہیں گے اور آپ بھی ہمارے لیے دعا گو رہیں
والسلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ
(٢ جمادی الاوّل ١٤٤٥ھ/١٧ نومبر ٢٠٢٣ئ)
امیرِ پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
١١ نومبر کو ابن ِ اہلِ سنت ،سرپرست جمعیة علماء اسلام ،مشیر گوجرانوالہ مولانا عزیز الرحمن شاہد صاحب اپنے رُفقاء کی معیت میں امیر پنجاب حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم سے ملاقات کی جماعتی اُمور اور دیگر معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
٢٦ نومبر کو امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ،جامعہ مدنیہ جدید کے ناظم مولانا انعام اللہ صاحب کے ہمراہ جماعتی سلسلہ میں رحیم یار خان ، صادق آباد سندھ کے ایک ہفتہ کے دورہ پر تشریف لے گئے ۔
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭٭٭
یکم نومبر کو بعد نمازِ ظہر بھائی ولید صاحب کی دعوت پر شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب ارفع کریم ٹاور لاہور تشریف لے گئے جہاں آپ نے فلسطین کے تاریخی پس منظر کے موضوع پر بیان فرمایا۔
٦ نومبر کو فاضل جامعہ مولانا اشرف علی صاحب کے ماموں یوسف صاحب جیلانی اور ان کے بھتیجے عیسیٰ ایران سے جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور حضرت صاحب سے ملاقات کی بعد ازاں رات کا کھانا حضرت کی رہائشگاہ پر تناول فرمایا۔
سالانہ تبلیغی اجتماع کے موقع پر جامعہ مدنیہ جدید میں بیرونِ ملک اور ملک بھر سے آئے ہوئے شرکاء کی کثرت سے آمدو رفت رہی ۔
٢٥ نومبر کو حضرت صاحب، فاضل ِجامعہ مولانا عبدالباری صاحب کی دعوت پر ''اہمیت قرآن کانفرنس ''میں شرکت کے لیے مرکزی مسجد سرہالی کلاں ضلع قصور تشریف لے گئے جہاں آپ نے قرآنِ مجید کی فضیلت پر بیان فرمایا۔
٢٦ نومبر کو حضرت مہتمم صاحب جامعہ مدنیہ لاہور کے اجتماع فضلائِ کرام میں شرکت کی غرض سے جامعہ مدنیہ کریم پارک تشریف لے گئے جہاں آپ نے اجتماع کی پہلی نشست کے اختتام پر مختصر بیان فرمایا اور اختتامی دعا بھی فرمائی۔
وفیات
٭ ٢٩ اکتوبر ٢٠٢٣ء کوحضرت مولانا طارق جمیل صاحب کے جوان سال بیٹے مولانا عاصم جمیل صاحب وفات پاگئے۔
٭ گذشتہ ماہ حضرت خواجہ محمد نعمان جان صاحب سراجی نقشبندی مجددی موسیٰ زئی ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال فرماگئے۔
٭ ١٨ نومبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے ماہنامہ انوار مدینہ کے سرکولیشن منیجر مولانا محمد صدیق صاحب بلتستانی کے پھوپھا حاجی غلام رسول صاحب مختصر علالت کے بعد سکردو بلتستان میں وفات پاگئے۔
٭ ١٩ نومبر کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس مولانا منیر احمد صاحب کی والدہ صاحبہ طویل علالت کے بعد پتوکی میں انتقال فرما گئیں ۔
٭ ٢٤ نومبر کو امیر جمعیة علماء اسلام تحصیل شالامار لاہور حضرت مولانا محمد امجد سعید صاحب کے والد محترم سعید صاحب انتقال فرماگئے۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ 923454036960+

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.