Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

اگست‬ 2024

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ صفر المظفر ١٤٤٦ھ / اگست ٢٠٢٤ء شمارہ : ٨
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر




جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560




مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٦
سیرت ِمبارکہ کے اشارات اور تحریکاتِ دور حاضر کے نظریات میں بنیادی فرق حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٢
مقالاتِ حامدیہ ... پردہ کا حکم قرآنِ پاک میں حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٢٤
میرے حضرت مدنی قسط : ١٣ ، آخری حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٢٩
تربیت ِ اولاد قسط : ١٧ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٦
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٦ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٤٠
تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب قسط : ١ حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی ٤٨
ماہِ صفر اور نحوست سے متعلق نبوی ہدایات ٥٥
ربیع الاوّل ، اُسوہ ٔ رسول اور ہمارا طرزِعمل مولانا نورالحق فیض صاحب زوبی ٥٧
امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦٠
عالمی خبریں ٦١
وفیات ٦٣




حرفِ آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
برصغیر جو کہ تقسیم کے بعد اب پاکستان ، بنگلہ دیش ، ہندوستان ، جزائر ِ مالدیپ ، سری لنکا ، بھوٹان اور نیپال کے چھوٹے بڑے سات ممالک پر مشتمل ہے تاحال اُن ہی حالات سے دوچار ہے جن سے تقسیم ِہند سے قبل دوچار تھا ! بلکہ ستتر برس گزرنے پر پہلے سے بھی بدتر صورتِ حال ہوچکی ہے ہر شخص اپنے اپنے ملکی ماحول میں ان کے اسباب بیان کرتا ہے ان کا علاج بھی تجویز کرتا ہے بعض تجویزوں پر عمل بھی کرلیا جاتا ہے مگر بہتری کی کوئی صورت سامنے نہیں آتی ! !
بغور دیکھا جائے تو باوجود تقسیم ہوجانے کے پورا برصغیر ایک بدن کی مانند ہے ! اس کو سیراب کرنے والے سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی چشمہ میں فرنگی ایسا سرطان چھوڑ گیا ہے جو ہر کسی کو نظر نہیں آتا اس سرطان نے پورے برصغیر کو اپنے شکنجہ میں کس رکھا ہے وہی کل پرزا حرکت کرسکتا ہے جس پر وہ اپنی پکڑ ڈھیلی کرلیتا ہے ! !
برصغیر ایک جسم کی مانند ہے ہم اس پورے جسم کے علاج کے بجائے اپنی توجہ اس کے مختلف اعضاء پاکستان ، بنگلہ دیش ، ہندوستان وغیرہ پر مرکوز کیے اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں جبکہ اصل مرض ''فرنگی سرطان '' ہے جس کا مقابلہ سب مل کر سکتے ہیں ! !
لہٰذا برصغیر کے چھوٹے بڑے سات ممالک میں وہ فکر جو ''حریت پسند '' نہیں بلکہ ''حریت پرست '' ہو آگے آئے اور اپنے مذہبی ، سیاسی ، لسانی ، علاقائی تعصبات سے بالاتر ہوکر پھر سے ایک لمبی اور بھرپور تحریک کے لیے کمربستہ ہوکر تن ،من ،دھن قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائے اور ملک و قوم کے نمک حرام منافق فوجی و سول نوکر شاہی اور اسی طرح فرنگی کے پروردہ ہندو ، سکھ ، عیسائی سرطانی کیڑے چن چن کر نکال باہر نہ کر دیے جائیں تب تک ہم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے ! !
برطانیہ یورپ ،یورپی یونین اور یورپ نیز امریکہ باوجودیکہ علیحدہ علیحدہ مختلف ممالک اور ریاستوں پر مشتمل ہیں مگر اپنی مشترکہ قدروں سے بخوبی آگاہ بھی ہیں اور باہم متفق ومتحد بھی ہیں ان کے معاملات میں باہر کی پرائی قوتیں اثرانداز ہونا تو دور کی بات ہے اس کا سوچ بھی نہیں سکتیں ! جبکہ براعظم ایشیا کے بہت سے ممالک اور اس کا برصغیر تاحال ''فرنگی سرطان ''سے نجات نہیں حاصل کرسکے
لہٰذا مسلم ، ہندو، سکھ ،عیسائی سب اس نکتہ پر متفق ہونے کے لیے آج سے سوچنا شروع کریں گے تو کل کو قدم بڑھانے کے قابل ہوسکیں گے ! برصغیر کے کوئیں کو پاک صاف کرنے کے لیے ہم آج تک ڈول پر ڈول نکال کر ہلکان ہوتے جا رہے ہیں مگر اس میں پڑے '' فرنگی کتے ''کو نکالنے کی کسی کو نہیں سوجھتی ! لہٰذا آج پھر سے ''ریشمی رومال تحریک'' کا علَم بلند کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ! !
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ




درسِ حدیث
٭٭٭
قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کا مجلس ِذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ ''انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے ، آمین !
٭٭٭
غَرغَرے کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی !
گناہوں سے حَبْطِ عمل اور اُس کے درجے !
( درسِ حدیث نمبر٦٨/٢٠٨ ٢٢ شعبان المعظم ١٤٠٦ھ/٢ مئی ١٩٨٦ء )
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرتِ آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَةً سَوْدَائَ فِیْ قَلْبِہ اس کے دل میں سیاہ نقطہ سا بن جاتا ہے فَاِنْ تَابَ وَاسْتَغْفَرَ اگر وہ توبہ کرلے '' توبہ'' کا مطلب ہے گناہوں سے رجوع کرلینا وَاسْتَغْفَرَ خدا سے مغفرت چاہنا معافی چاہنا صُقِلَ قَلْبُہ تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے صیقل ہوجاتا ہے ! وَاِنِ زَادَ اگر وہ گناہ مزید کرتا ہی رہے زَادَتْ تو یہ سیاہی بھی بڑھتی رہتی ہے حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہ حتی کہ وہ اس کے دل کو ڈھانپ لیتی ہے ! !
اس وقت جب یہ حالت ہوجائے کہ دل کو ڈھانپ لے سیاہی اس کو بتاتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کہ اس کو قرآنِ پاک میں '' رَیْن '' کہا گیا ہے ! ١
اور ارشاد ہے سورۂ وَیْل لِّلْمُطَفِّفِیْنَ میں ( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ )
ان کے دلوں پر ''رَیْن'' کی کیفیت پیدا کردی ہے جو کام کرتے تھے ان کاموں نے ! یعنی برائیوں نے جن سے انہوں نے توبہ نہیں کی استغفار نہیں کیا تھا اس کی وجہ سے اس حالت پر پہنچ گئے ! !
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٤٢
توبة اور استغفار کا مطلب :
''توبة'' کا مطلب ہے برائی کو برائی سمجھ کر چھوڑدینا خدا کی طرف رجوع کرنا !
اور'' استغفار'' کا مطلب ہے خدا سے ان کی معافی کو چاہنا ! قرآن پاک میں جو آتا ہے
( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ کَلَّا اِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ ) ١
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے اور ان کے درمیان حجاب ہوگا یہ حجاب میں رکھے جائیں گے اللہ کی رؤیت سے ! تو یہ حالت توبہ نہ کرنے سے ہوتی ہے اور اگر توبہ کرتا رہے تو پھر فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کہ وہ صاف ہوتی رہتی ہے ! !
غرغرے کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی اور اس کی وجہ ؟
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ ٢ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول فرماتے رہتے ہیں جب تک اس کی غرغرے کی کیفیت نہ ہو ! غرغرے کی کیفیت میں تو وہ عالَم نظر آنے لگتا ہے اس کو یہاں سے غفلت ہوجاتی ہے وہی چیزیں سامنے نظر آتی ہیں تو اس وقت اگر توبہ کرے گا تو وہ معتبر نہیں ! کیونکہ اس وقت کی توبہ اور اس وقت کا ایمان'' ایمان بالغیب'' نہیں ہے ! اور قرآن پاک میں ہے ( وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ) اس وقت تو دیکھ کر ایمان خودبخود ہی آ جاتا ہے ! ! تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں بندوں کی توبہ قبول کرتا رہتا ہوں ! اور یہ وعدہ ہوگیا اللہ کا کہ جب کوئی توبہ کرے گا تو وہ قبول فرمائے گا یہ اس کا وعدہ ہے ! مگر کب تک ؟ مَالَمْ یُغَرْغِرْ جب تک غرغرے کی کیفیت نہ ہو ! غرغرے سے مراد وہ عالَم روشن ہونا ہے ! جیسے قرآن پاک میں آتا ہے
( اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰئِکَةُ ظَالِمِیْ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ) ٣
ملائکہ ان سے پوچھتے ہیں جنہوں نے زیادتی کی ہے اپنے آپ پر یعنی گناہ کے کام کیے ہیں
١ سُورة المطففین : ١٤ ، ١٥ ٢ مشکٰوة المصابیح کتاب المناقب رقم الحدیث ٢٣٤٣
٣ سُورة النساء : ٩٧
اور کہیں یہ آتا ہے ( وَالْمَلٰئِکَةُ بَاسِطُوْا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمْ ) ١
فرشتے ہاتھ دراز کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ اپنی جان ادھر لائو نکالو !
اور وہ ہٹتا ہے پیچھے ! تو یہ کیفیت ان لوگوں کی ہے جو کفر پر ہیں معاذ اللّٰہ ! اور ڈرایا یہی گیا ہے حدیث شریف میں کہ یہ گناہ جو ہیں یہ بڑھتے بڑھتے بڑھتے بڑھتے بہت دور لے جاتے ہیں اس کو ! معاذ اللّٰہ نفاق اور کفر تک لے جاتے ہیں ! کیونکہ جب یہ بڑھتا ہی جائے گا اور آدمی توبہ کرے گا ہی نہیں تو پھر وہ دوسری طرف ہی نکل جائے گا !
خاص مصیبتوں اور بیماریوں سے پناہ :
کچھ مصیبتیں بھی ایسی ہیں جن میں بتایا گیا کہ ان سے پناہ چاہنی چاہیے اللہ سے !
کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّکُوْنَ کُفْرًا اَوْکَمَاقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ ٢ یہ فقر بھی قریب ہے کہ کفر ہوجائے !
خود پناہ مانگی ہے آپ نے قرض سے دَین سے وغیرہ ! ایک صحابی نے پوچھا کہ آپ بہت زیادہ اس سے پناہ مانگتے ہیں تو فرمایا کہ انسان جب مقروض ہوجاتا ہے زیرِ بار ہوجاتا ہے تو وعدہ بھی کرتا ہے تو جھوٹا وعدہ ہوتا ہے وَعَدَ فَاَخْلَفَ ٣ نہیں پورا کرسکتا ! ! !
اور بیماریوں سے بھی اللہ کی پناہ کا بتایا گیا ہے مثلاً سَیِّئِ الْاَسْقَامِ ٤ برے امراض سے ! بڑھاپا تو کوئی بات نہیں ، بڑھاپے میں حواس نہ رہنا بہت بری بات ہے ! ! قرآن پاک میں ہے ( مَنْ یُّرَدُّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ ) پھر لوٹاکے بہت ہی بدترین عمر کے حصے میں اس کوپہنچادیا جاتا ہے ! ( لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا ) ٥ ایسا دور آتا ہے کہ جاننے کے بعد پھر ایسا ہوجاتا ہے جیسے کچھ نہیں جانتا ! ( وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ ) ٦ اور ہم جس کی عمر بہت لمبی کردیتے ہیں اس کو پھر الٹا لوٹادیتے ہیں اس کی پیدائش کی طرف (بچہ کی طرح) ! ؟
١ سُورة الانعام : ٩٣ ٢ مشکٰوة المصابیح رقم الحدیث ٥٥ ٣ ایضًا رقم الحدیث ٩٣٩
٤ ایضًا رقم الحدیث ٢٤٧٠ ٥ سُورة النحل : ٧٠ ٦ سُورة یٰسین : ٦٨
بس پھر وہ کم عقلی کی طرف آجاتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے پناہ مانگی ہے اس سے اور بتایا ہے کہ پناہ مانگو
وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ اُرَدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ ١
میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے عمر کے بدترین حصے کی طرف لوٹایا جائے !
بہت بہت بیمار ہوجاتے ہیں بہت بہت بوڑھے ہوجاتے ہیں کئی کئی سو سال کی عمریں ہوتی ہیں لیکن حواس صحیح رہتے ہیں ! ! تو یہ خدا کا انعام ہے ! !
اور حواس صحیح نہ رہیں تو اس سے پناہ چاہی ہے ! وہ ہے اَرْذَلِ الْعُمُرِ عمر طویل نہیں بلکہ اَرْذَلِ الْعُمُرِ اور اس سے مراد وہ عمر ہے کہ جس میں حواس صحیح نہ رہیں ! ! ( لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا )
جاننے کے بعد ایسے ہوجائے جیسے کچھ جانتا ہی نہیں ! ! یہ نہ ہونے پائے اس سے پناہ مانگی ہے !
اسی طرح بہت چیزیں بتائی گئی ہیں جو اتنی ہیں کہ وہ اسلام کے علاوہ کہیں اور نہیں ہیں کیونکہ یہ تعلیمات تو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے اب تک محفوظ چلی آرہی ہیں ! اور سب وہ ہیں جو قرآن پاک سے مطابقت رکھتی ہیں جو صحت کی دلیل ہے ! ! !
تو آقائے نامدار صلی اللہ عليہ وسلم نے توبہ بتلائی ہے اور وہ اس وقت سے پہلے پہلے بتلایا ہے اللہ تعالیٰ نے کہ جب تک غرغرے کی کیفیت نہ ہو وہ عالَم نظر نہ آئے اس وقت تک ایمان بھی معتبر ہے توبہ بھی معتبر ہے !
حبطِ عمل کے درجے :
میں یہ ذکر کررہا تھا کہ گناہ جو ہیں وہ لے جاتے ہیں کفر کی طرف جیسے کہ قرآن پاک میں کافروں کے بارے میں ہے کہ ( حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ) ٢ ان کے اعمال جو ہیں بے وزن ہوگئے ساقط الاعتبار ہوگئے !
اور یہ بھی ہے کہ جو نبی صلی اللہ عليہ وسلم کی نافرمانی کرے گناہ کرے بے ادبی کرے تو اسے ڈرنا چاہیے !
( اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ) ٣ تویہ'' حبطِ عمل'' ایک لفظ ہے جو قرآنِ پاک میں آیا ہے اس کی درجہ بندی کی ہے !
١ صحیح البخاری رقم الحدیث ٦٣٧٤ ٢ سُورة الِ عمران : ٢٢ ٣ سُورة الحجرات : ٢
٭ حبطِ اعمال کا درجہ کم سے کم تو یہ ہے کہ جس طرح کسی عمل کو کرنا چاہیے آدمی اس طرح انجام نہ دے ! یہ بھی ایک حبطِ عمل ہے نقصان ہے عمل میں !
٭ اور اس سے آگے جو اور درجات ہیں حبطِ عمل کے ان میں خدا کے یہاں ایک اِحباط '' تَوْقِیْفِیْ '' بھی ہوتا ہے ! وہ اس طرح کہ اس کے سارے کام بیکار گئے ایسے کہ اس کو ایک جگہ ٹھہرادیا گیا ! سزاء ً کھڑا کردیا گیا روک دیا گیا ! !
٭ اور '' تَعْذِیْبِیْ'' بھی ہوتا ہے ! وہ ایسے ہوتا ہے کہ اس کی نیکیاں اکارت گئیں معاذ اللّٰہ ! اور اتنی کہ تعذیب کی نوبت آگئی ، گویا احباطِ تعذیب ہوگیا کہ اس میں خدا کی طرف سے گرفت کی جائے اور عذاب میں مبتلا رہے معاذ اللّٰہ ! تین تو یہ ہوگئے !
چوتھا جو بنتا ہے درجہ وہ ہے'' اِحْبَاطِ کُلِّیْ'' ! احباطِ کلیکا مطلب تو یہ ہے کہ بالکل عمل ختم، کچھ رہا ہی نہیں ! اس کا مطلب یہ ہے کہ معاذ اللّٰہ رفتہ رفتہ رفتہ رفتہ ہوتے ہوتے اتنا وہ بڑھ گیا کہ ایمان سے نکل گیا ! تو یہ احباطِ کلی ہوگا ! یہ بہت بڑی اور بہت خطرناک چیز ہے ! !
اللہ تعالیٰ ہر قسم کے حبطِ عمل سے پناہ میں رکھے اپنے فضل و کرم سے ، مبتلا تو سب ہیں کسی نہ کسی قسم کے حبطِ عمل میں ! باقی اللہ کی گرفت نہ ہو اور رحمت رہے شاملِ حال تو پھر وہ بچ جاتا ہے ! !
یہاں یہ بتلایا گیا کہ جس نے کتنے بھی گناہ کرلیے ہوں لیکن وہ توبہ کی طرف آرہا ہے اور ابھی زندگی باقی ہے ایک دن بھی باقی ہے ایک گھنٹہ بھی باقی ہے آدھا گھنٹہ پانچ منٹ بھی باقی ہیں توبہ کرسکتا ہے جب توبہ کرلے گا تو قبول ہوجائے گی ! مَالَمْ یُغَرْغِرْ (غرغرہ سے پہلے پہلے)
شیطان کا عزم :
حدیث شریف میں آتا ہے کہ شیطان نے کہا ہے وَعِزَّتِکَ یَارَبِّ لَا اَبْرَحُ اُغْوِیْ عِبَادَکَ مَادَامَتْ اَرْوَاحُھُمْ فِیْ اَجْسَادِھِمْ خداوند ِکریم تیری عزت کی قسم اے پروردگار میں تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گویا زندگی بھر ! !
اللہ کا وعدہ :
تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بالمقابل اپنی رحمت کا وعدہ فرمایا فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ
وَعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ اپنی عزت اپنے جلال اور اپنے مکان کی بلندی کی قسم ہے
لَا اَزَالُ اَغْفِرُ لَھُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِیْ ١ توجب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے میں ان کو بخشتا ہی رہوں گا
تو استغفار بہت بڑی چیز ہے ! '' توبہ'' یعنی گناہ سے رجوع کرنا '' استغفار'' یعنی خدا سے معافی اور اس کی رحمت طلب کرنا یہ نہایت ضروری ہے ! ٢ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا اور آخرت میں اپنی رحمتوں سے نوازے ، آمین !
اختتامی دعاء .................
. (مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ مارچ ٢٠٠٩ ء )
١ مشکٰوة المصابیح کتاب الدعوات باب الاستغفار و التوبة رقم الحدیث ٢٣٤٤
٢ انتباہ : مگر جو گناہ بندوں کے حقوق سے تعلق رکھتے ہوں ان میں صرف دل میں ندامت اور اعتراف کافی نہیں ہے جس بندہ کاحق تلف کیا ہو اور اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہواس کو دنیا ہی میں اس کا حق ادا کرنا یا اس سے معاف کرانا بھی ضروری اور لازمی ہے اس کے بغیر اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرماتے۔ محمود میاں غفرلہ




قطب الاقطاب شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/bayanat/bayan.php?author=1




سیرت ِمبارکہ کے اشارات
اور
تحریکات ِدور حاضر کے نظریات میں بنیادی فرق
٭٭٭
سید الملّت مجاہد فی سبیل اللہ حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ '' محمد رسول اللہ '' کے چند اوراق ( صلی اللہ عليہ وسلم )
٭٭٭
سیرتِ مبارکہ کے پر تقدس سلسلہ میں سوشلزم کمیونزم وغیرہ دور حاضر کی تحریکات کا ذکر کرنا سوء ادب اور گستاخی ہے ! مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وَبِضِدِّھَا تَتبَیَّنُ الاَشْیَائُ (یعنی کسی حقیقت کی پوری وضاحت جب ہوتی ہے جب اس کی مقابل اور برعکس چیز کو سامنے رکھا جائے)
نورِ آفتاب کی قدر اسی وقت ہوتی ہے جب ظلمت ِ شب کی مصیبت جھیلی ہو ! لہٰذا ان تحریکات کے بنیادی نظریات کا کسی قدر تذکرہ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سیرت مبارکہ کے اُن اشارات کی وضاحت ہوسکے جن کا تعلق اقتصادیات سے ہے اور انصاف پسند اہل بصیرت ان کی قدرومنزلت معلوم کر سکیں !
اس کے علاوہ واقعہ یہ ہے کہ تحریکاتِ حاضرہ کے متوالوں میں ایسے بھی ہیں جو ان تحریکات کا پیوند دامنِ اسلام سے جوڑنا چاہتے ہیں اور اس کو اسلام پر ایک احسان سمجھتے ہیں ! ؟ لہٰذا بنیادی فرق کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایسے(نام نہاد ) محسنین اسلام کے سامنے حقیقت جلوہ گر ہوسکے ! !
(١)
سب سے پہلا فرق یہ ہے کہ ان تحریکات کے بانیوں نے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جس کا سمجھنا سب سے پہلے ضروری تھا ! ان تحریکات کا منشاء اگر انسانی سماج کی فلاح وبہبود ہے تو سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ انسان کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ'' انسان'' کیا ہے '' انسانیت'' کیا ہے ؟ ؟ تاکہ انسان کی فلاح وبہبود کے معنی اور ترقی کا معیار معین ہوسکے ! !
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ تحریکات دورِ حاضر کی پیداوار ہیں اور اس سے پہلے انسان کے دماغ پر تالے پڑے ہوئے تھے ، ان تالوں کی کنجیاں بیسویں صدی عیسوی میں انسان کے ہاتھ آئی ہیں ! حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف ڈیزائن اور نقشہ بدلا ہے ورنہ ان تحریکات کی بنیادیں بہت قدیم ہیں اور اس طرح کے انقلابات سے دنیا ہمیشہ دوچار ہوتی رہی ہے ! ! ١
موجودہ تحریکات اور ان کی ہم جنس سابق تحریکات کی مشترکہ کوتاہی یہ ہے کہ ان کی بنیاد صرف'' خدا فراموشی'' پر نہیں ہے بلکہ ''خود فراموشی'' بھی ان کی بنیادوں کا کنکریٹ ،اینٹ اور گارا ہے !
انسان کیا ہے ؟ کیوں پیدا ہوا ؟ اس کا مستقبل کیاہے ؟ اس کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے ؟ موت کی حقیقت کیا ہے ؟ وہ فنا ہے یا انتقال ؟ (یعنی حالت کی تبدیلی اور ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہوجانا)
اگر موت انتقال ہے اور انسان موت کے بعد بھی باقی رہنے والی حقیقت ہے تو مَابَعْدَ الْمَوْتْ کا تعلق موجودہ زندگی سے کیا ہے ؟ قول وعمل اگر باقی رہنے والی حقیقتیں ہیں تو کس طرح ؟ اور ان کا کچھ اثر مَابَعْدَ الْمَوْتْ ہوگا یا نہیں ؟
عاقبت اندیش انسان ٢ کا فرض ہے کہ میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے پہلے ان سوالات کو حل کر لے
ان سوالات سے غفلت'' خود فراموشی'' ہے جس کا نتیجہ ''خدا فراموشی'' ہوتا ہے ! !
مَنْ لَّمْ یَعْرِفْ نَفْسَہ لَمْ یَعْرِفْ رَبَّہ
١ فارسی زبان اور تاریخ ِایران سے دلچسپی رکھنے والے مژدک سے واقف ہیں جس نے تقریباً پانچویں صدی عیسوی میں تحریک چلائی تھی کہ زر ، زن اور زمین سب کے لیے مشترک ہے !
زنا ن راخلاص گرانیدد، اموال را مباح داشت، وہمہ مردمان را درخواستہ زن شریک ساخت چنان کہ درآتش وآب وعلف انبازند (دبستانِ مذاہب ، اَلْمِلَلْ وَ النِّحَلْ ج٢ ص ٨٦ )
ترجمہ : عورتوں کوآزادی دے دی ، اموال کو جائز قرار دیا ، اور تمام لوگوں کو عورت میں شرکت کا حق دے دیا جیسے آگ پانی اور چارے پر سب کا حق ہے''
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو احقر کی تصنیف ''اقتصادی تحریکات اور اسلامی تعلیم کے اشارات'' ٢ انجام سے باخبر انسان
(٢)
انسان ایک جاندار ہے جو اپنے اندر غوروفکر اور تحقیق وتنقید کی طاقت رکھتا ہے جس کی بناپر اس نے خاص طرح کی زندگی اختیار کی جس نے درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے موجودہ تمدن کی صورت اختیار کر لی، جس کے بہت سے شعبوں میں سے ایک شعبہ وہ بھی ہے جس کو سائنس اورفلسفہ کہا جاتاہے ١ جس کے نتیجہ میں وہ کائنات کی آخری سرحد تک پرواز کرنے کی کوشش کر رہاہے ! اس کو کچھ ایسے ضابطوں اور قوانین کی ضرورت ہے جو اس زندگی کو محفوظ رکھ سکیں اور اس کو خوشگوار بناسکیں چنانچہ وہ یہ ضابطے بناتا ہے اور ان کو رائج کرتا ہے ! یہ ہیں وہ انکشافات جو تحریکات کے بانی صاحبان کو حقیقت ِانسان کے متعلق خود بخود دیا اس سائنس اور فلسفہ کے ذریعے سے ہوگئے جس (فلسفہ)کا دعویٰ ہے کہ وہ ہرچیز کی حقیقت سے واقف ہے ! لیکن اس کائنات میں انسان کی حیثیت کیا ہے ؟ اس کا جواب سائنس اور فلسفہ نے بھی نہیں دیا ! اس کے برعکس قرآن حکیم کے شروع ہی میں چند تمہیدی فقروں کے بعد سب سے پہلے انسان کی وہ خصوصیت بیان کی گئی ہے جو اس کو باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے ! ساتھ ساتھ اس کی وہ حیثیت واضح کی گئی ہے جو اس کو پوری کائنات یعنی عالمِ مخلوقات میں حاصل ہے !
(٣)
صرف اسلام ہی نہیں بلکہ جملہ مذاہب اس پر متفق ہیں کہ
(الف) انسان کا خاتمہ موت پر نہیں ہوجاتا بلکہ وہ ایسی حقیقت ہے جو موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے ! موت کی حقیقت فنا ہوجانا نہیں ہے بلکہ موت ایک تبدیلی اور انتقال ہے ! یعنی عالَمِ مشاہدہ سے ایک ایسے عالَم کی طرف منتقل ہوجانا جو ہمارے مشاہدہ سے بالا ہے ! !
(ب) اوریہ کہ انسان کا حقیقی اور دائمی مستقبل وہ ہے جس کا آغاز اس انتقال اور اس تبدیلی کے بعد ہوگا جس کو موت کہاجاتا ہے ! لیکن اگر حقیقی مستقبل اور حقیقی زندگی وہ ہے جو موت کی گھاٹی کو پار کرنے کے بعد سامنے آئے گی تو موجودہ زندگی کا تعلق اس سے کیا ہوگا ؟ اس زندگی کا آغاز از سرنو ہوگا یعنی
١ یعنی تجربات اور مشاہدات
نیست سے ہست اور عدم کی جگہ ایک وجود کا آغاز ہوگا یا وہ زندگی موجودہ زندگی کا نتیجہ اور ثمرہ ہوگی ! گویا آج ہم بو رہے ہیں اور مرنے کے بعد اس کو کاٹیں گے یا وہ ایک قدرتی ارتقا ہوگا ؟ یعنی جس طرح انسان کا موجودہ وجود ایک ارتقائی درجہ ہے ١ جو تخلیق کے بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد ظہور پذیر ہوا ہے ایسے ہی مَابَعْدَ الْمَوْتْ بھی ایک ارتقائی درجہ ہوگا ؟ سائنس نے اس کا جواب نہیں دیا ! مذہب اس کا جواب دیتاہے اور قرآنِ حکیم اسی جواب کو سامنے رکھ کر نہ صرف اقتصادیات وسیاسیات بلکہ انسان کی پوری زندگی کے لیے ضابطہ ٔ حیات مقرر کرتاہے ! ! آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی سیرة مبارکہ جو قرآن کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی ہے اس کی عکاسی کرتی ہے۔
(٤)
خدا کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اس کو مانے ! ؟ انسان کو ضرورت ہے کہ اپنے آپ کو باہوش ثابت کرنے کے لیے خدا کو مانے ! اس شخص کو باہوش نہیں کہا جاسکتا جس کا دعویٰ یہ ہوکہ تاج محل خود بخود وجود میں آگیا ! ؟ یہ شخص اگر اسی کور باطنی ٢ کے ساتھ تاج محل کی سیر کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ بانی اور معماروں کی قدر نہیں کرے گا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سنگ تراشی ،نقش سازی،
١ ڈارون کا نظریہ ہمارے پیش ِنظر نہیں ہے ، ہمارے پیش نظر قرآنی آیات ہیں جن میں یہ ترتیب قائم کی گئی ہے کہ انسان کی سرشت مٹی سے ہوئی ! پھر ہر انسان کے مراتب تولید میں نُطْفَةْ پھر عَلَقَةْ (خون بستہ) پھرمُضْغَةْ (گوشت کا لوتھڑا)پھر انسانی شکل، پھر نَفْخِ رُوْح (جان پڑنا )پھر ولادت پھر بچپن، جوانی، کَہُوْلَتْ(ادھیڑ عمری) پھر بڑھاپا ! بس جس طرح نَفْخِ رُوْح (جان پڑجانے کے بعد) بطن ِمادر میں رہا اور وہاں سے اس عالم میں آیا ، یہ بھی ایک انتقال ہے اسی طرح موجودہ عالم بطنِ گیتی ہے ( شکم ِدھرتی ) ! جہاں وہ اپنے اوصاف وخصائل اور اپنے کردار وعمل کے ساتھ نشوونما پارہا ہے اور مرنے کے بعد وہ بطنِ گیتی سے دوسرے عالَم میں منتقل ہوگا اور جس طرح ماں باپ کی خصلتیں اور ان کے امراض عموماً بچہ میں سرایت کرجاتے ہیں ، انسان کے اعمال وکردار کے اچھے برے اثرات بھی انسان میں اثر کر جائیں گے اور دوسرے عالَم میں ان کے اثرات ظاہر ہوں گے ! ! ٢ باطنی آنکھ کا اندھا پن
ڈیزائن سازی اور انجینئرنگ وغیرہ کے تصورات سے بھی محروم رہے گا ! اس کے ذہن میں بھی نہیں آئے گا کہ ڈیزائن سازی بھی کوئی خاص فن ہے ! ؟ سنگ ِ خارا ١ اور سنگ ِ مرمر پر پھول اور بوٹیاں بنانا پھر ان میں رنگ بھرنا اور ایسے مسالے تیار کرنا کہ صدہا سال کی سینکڑوں برساتیں ان پر کوئی اثر نہ کرسکیں ، عمارت کے طول وعرض بلندی وغیرہ کو موزوں رکھنا بھی قابل قدر ہنر ہیں ! ! ؟ یہ ظالم تاج محل کو خود رومان کر ان تمام فنون اور ان کے ماہرین پر ظلم کرتا ہے ، ان فنون کے ایجاد کرنے اور ترقی دینے کا کوئی سوال اس کے سامنے نہیں آتا ! وہ خود اپنے اوپر بھی ظلم کرتا ہے اور اپنی ظالمانہ فطرت سے ان تمام فنون کو بھی مجروح اور مفلوج کردیتا ہے ! ایسے کو رباطنوں کو اگر اقتدار کی باگ ڈور دے دی جائے تو کیا تمدن ایک قدم بھی آگے بڑھ سکے گا ؟ ؟
کائنات کے اس تاج محل میں جو حسن اور خوبیاں ہیں ان کو صحیح طور پر وہی پہچان سکتا ہے جو اس کے پیدا کرنے والے کو پہچانے ! اسی کو ''معرفت ِ حق'' کہا جاتا ہے ! معرفت ِحق ،حقیقت پسندی اور خدا پرستی کی بنیاد ہے ! ! اس کو مضبوط کرنے اور ترقی دینے کا نام روحانیت ہے ! ! !
(٥)
انسان کی حیثیت اگر یہ ہے کہ وہ ایک جاندار ہے جس کو عقل کی نعمت دے دی گئی ہے ٢ تو اس سے اعلیٰ اخلاق ، شرافت اور روحانیت کا مطالبہ خاص وزن نہیں رکھتا، اگر وزن رکھتا ہے تو صرف اتنا جو بتقاضاء عقل ضروری ہو ! !
مگر اسلام نے انسان کی حیثیت بہت بلند قرار دی ہے وہ کمالات تخلیق کا بہترین نمونہ اور نظام قدرت کاشاہکار ہے ٣ جس کو یہ عزت اور عظمت دی گئی ہے ٤ کہ وہ اس پوری کائنات میں خالقِ کائنات
١ ایک قسم کا نیلگوں سخت پتھر
٢ ہمارے مدارس میں فلسفہ کے مضامین میں اس کو ''حیوانِ ناطق '' کی اصطلاح دی گئی ہے ۔ محمود میاں غفرلہ
٣ ( لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ) (سُورة التین : ٤ )
٤ ( وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ ) ( سُورة بنی اسرائیل : ٧٠ )
کا خلیفہ ہے ١ کائنات کی بڑی سے بڑی مخلوق حتی کہ چاند سورج اور زمین وآسمان کو بھی خالق وقادر ذوالجلال نے اس کے لیے مسخر کردیا ہے ٢ وہ ہر ایک پر حکم چلا سکتا ہے جس کو چاہے اپنے کام میں لاسکتا ہے ! ! ! یہ ہے انسان کی حیثیت اسلام کی نظر میں ! ! اور خود فراموشی یہ ہے کہ انسان اپنی اس حیثیت سے اور اس حیثیت کے بموجب جو اس کے فرائض ہیں ان سے غافل ہو ! !
فرائض :
خلافت و نیابت کے منصب ِجلیل کا جس طرح یہ تقاضا ہے کہ خلیفہ اپنے آقا کا فرمانبردار اور وفاردار ہو ایسے ہی اس کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے آقا کے کمالات کا مَظْہَر ہو اور ان نقائص سے پاک ہو جو کمالات کی ضد ہیں اور عیب سمجھے جاتے ہیں !
قرآنِ حکیم نے سب سے پہلے فقروں میں خالق کائنات کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے
(١) ( رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) تمام جہانوں کا پالنے والا
(٢) ( اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) بہت رحم کرنے والا، بہت مہربان
(٣) ( مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) مالک انصاف کے دن کا
سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان میں رحم ہو، شفقت اور مہربانی ہو ! اس کی فطرت میں تربیت ہو (یعنی پرورش کرنا ، سکھانا ، سدھانا ، ضرور تمندوں کی ضرورتیں پوری کرنا ) سخاوت بخشش اور سیر چشمی جیسے صفات سے وہ آراستہ ہو !
ربُ العالمین خود نہیں کھاتا دوسروں کو کھلاتا ہے وہ بھوک پیاس سے بھی بے نیاز ہے ! لیکن انسان (جو کھانے پینے کا محتاج ہے) اگر بھوکوں کی ضرورت کو اپنی بھوک سے مقدم رکھے تو اس کا نام ایثار اور قربانی ہے !
١ ( اِنِّیْ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً ) ( سُورة البقرة : ٣٠ )
٢ ( وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنِ وَسَخَّرَلَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ ) ( سُورة ابراہیم : ٣٣ )
( وَسَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ) ( سُورة الجاثیة : ١٢ )
ربُ العالمین سب سے بڑا منصف ہے اس کے خلیفہ کو بھی عدل و انصاف کا پیکر ہونا چاہیے ! !
خالق کائنات، ربُ العالمین عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے ١
( یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ) اس کی صفت ہے ٢
اس کے خلیفہ اور نائب کو بھی ذی علم ہونا چاہیے وہ (خلیفۂ)عالم ُ غیب السموت والارض اور عالم ُ ما فی البر والبحر نہیں ہوسکتا مگر اس کا فرض ہے کہ اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے اور دعا کرتا رہے ( رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا ) ٣
ربُ العالمین صرف خالق ہی نہیں بلکہ اس کی صفت ہے ( بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) ٤
''نئی طرح بنانے والا زمینوں اور آسمانوں کا'' (انوکھے اور انہونے انداز پر )
فکرِ انسان کو بھی چاہیے کہ تخلیق وایجاد کی باریکیوں کی تلاش کرنے میں مصروف رہے وہ نیست کو ہست اور معدوم کو موجود تو نہیں کرسکتا ،یہ تو وہی کرسکتا ہے جس کے ایک حکم'' کُنْ '' پر نیست ہست بن جائے ٥ اور عدمِ محض جامۂ وجود سے آراستہ ہوجائے ! البتہ وہ یہ ضرور کرسکتا ہے کہ موجودات کی پوشیدہ صلاحیتوں کا کھوج لگائے اور مخفی طاقتوں کے اسباب و ذرائع معلوم کر کے جدید ایجادات کو بروئے کار لائے !
مختصر یہ کہ ا وصافِ کمال کاسلسلہ ہے ان کے برعکس اوصافِ نقص ہیں رحم، مہربانی اور شفقت کے مقابلہ میں سخت مزاجی، سنگ دلی، جبر و قہر ! سخاوت اور سیرچشمی کے مقابلہ میں بخل، تنگدلی اور کنجوسی ! حاجت روائی اور کار سازی کے مقابلہ میں خود غرضی اور نفع اندوزی ! ایثار کے مقابلہ میں حرص طمع، رشوت ستانی اور ذخیرہ اندوزی ! عدل و انصاف کے مقابلہ میں ظلم ! علم کے مقابلہ میں جہل و سفاہت ! تحقیق وتنقید کے مقابلہ میں اندھی تقلید !
١ ان تمام باتوں کا جاننے والا جو پردۂ آسمان میں یا سینۂ زمین میں چھپی ہوئی ہیں ! ( سُورة الفاطر : ٣٨ )
٢ اور ان تمام طاقتوں کو جانتا ہے جو سمندر یا خشکی میں ودیعت ہیں ! ( سُورة الانعام : ٥٩ )
٣ سُورة طٰہٰ : ١١٤ ٤ سُورة الانعام : ١٠١
٥ ہو جا ! یعنی عالمِ کون وہست میں آجا ، عالمِ وجود میں آجا !
انسان میں قدرت نے دونوں صلاحیتیں رکھی ہیں وہ اوصاف ِکمال کو اپنا کر کامل ومکمل بھی بن سکتا ہے اور اوصاف ِنقص کو اختیار کر کے ذلیل، کمینہ اور شیطانِ اَخرس ١ بھی بن سکتا ہے ! !
شریعت کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان اوصاف ِنقص سے پاک ہوکر اوصافِ کمال اختیار کرے اسی کو تقدس کہا جاتا ہے اس مطالبہ کو پورا کرنے کی کوشش ''تزکیہ ''ہے جو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی بعثت کا اہم مقصد اور آپ کی زندگی کا اہم ترین کارنامہ ہے ! !
کہا جاتا ہے کہ دورِ حاضر کی تحریکات کا مقصد یہ ہے کہ ملک کا ہر ایک باشندہ خوشحال ہو ، زندگی کی ضرورتیں اس کو میسر ہوں ، باشندگانِ ملک اطمینان کی زندگی گزار سکیں ! یہ مقصد بہت مبارک ہے لیکن جب تک انسان بری خصلتوں سے پاک نہ ہو، کیا یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے ؟ ؟
یہ دوسرا فرق ہے جو سیرتِ مبارکہ کی تعلیمات کو موجودہ تحریکات سے ممتاز کرتا ہے کہ سوشلزم ونیشنلزم وغیرہ کا اسکول تزکیہ اور اصلاحِ اخلاق کے مفہوم سے نا آشنا بلکہ اس کے ماحول میں یہ الفاظ قطعاً بے جوڑا اور مضحکہ انگیز ہیں ! !
جبکہ سیرتِ مبارکہ کی تعلیمات تزکیہ کو ایسا محور قرار دیتی ہیں کہ ہر ایک نظام اسی کے گرد گھومتا ہے اور اسی کی درگاہ سے سند ِ جواز حاصل کرتا ہے ! کوئی بھی نظام ہو اگر اس کی بنیاد تزکیہ پر نہیں ہے تو وہ باطل اور فاسد ہے ! کیونکہ سیرتِ مبارکہ کی تعلیمات کا مطمح نظر صرف حیوانی زندگی نہیں جو چند روزہ عارضی ہے بلکہ اس کا مطمح نظر وہ حقیقی زندگی ہے جو ابدی اور دائمی ہوگی جس کی خوشگواری تزکیہ پر موقوف ہے ! !
(٦)
ٹیکس کی عربی'' ضَرْبِیَة '' ہے آپ پورے قرآن شریف کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو کہیں کوئی ایسا لفظ نہیں ملے گا جو مالی نظام کے سلسلہ میں ٹیکس اور ضَرْبِیَة کے مفہوم کو ادا کرتا ہو ! ؟ کیونکہ ٹیکس کی تہ میں جبر اور قہر ہوتا ہے ! قانون کے بنانے والے اگرچہ عوام کے نمائندے ہوتے ہیں مگر اس کے نفاذ کی پشت پر حکومت کی مسلح طاقت ہوتی ہے ! اس طرح استحصال تو ہوسکتا ہے کہ حکومت کو رقم مل جائے
١ گونگا شیطان
اور اس کے بجٹ کا خسارہ پورا ہوجائے مگر ادا کرنے والوں کے اخلاق کی اصلاح اور دلوں کا تزکیہ نہیں ہوسکتا ! ؟ بخل، طمع، حرص جیسے امراض بدستور رہتے ہیں ! اور آرڈیننس یا قانون کی بھیانک طاقت ان امراض میں نفرت، غصہ، بغض اور عداوت جیسی بیماریوں کا اضافہ کردیتی ہے ! ! !
جاگیرداری نظام، سرمایہ داری، زمیندارہ، انتہا یہ کہ فرد کی ملکیت ختم کردی جائے تو بہت سے محشر تو برپا ہوسکتے ہیں مگر دلوں کی پاکی اور اخلاق کی اصلاح نہیں ہوسکتی ! بلکہ خاتمۂ ملکیت سے عائلی نظام ١ درہم برہم ہوجاتا ہے ٢ جس کا نتیجہ وہ نفرت انگیز انارکی ہوتا ہے جو دامن عصمت وعفت کے بھی تار پود بکھیر دیتا ہے ٣
جس مالی نظام کی قرآن حکیم رہنمائی کرتا ہے اس کا نتیجہ اگرچہ یہ ہوسکتا ہے کہ سرمایہ داری جاگیرداری حتی کہ ملکیت بھی ختم ہوجائے ٤ مگر یہ خاتمہ اس طرح ہوگا کہ دلوں کی دنیا بھی بدل جائے گی
١ خانگی نظام ، خاندانی نظام
٢ صاحب ِخانہ کا اثر اور دباؤ نہ رہے تو ظاہر ہے گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور اثر اور دباؤ صرف اس بناپر نہیں کہ بیوی کا شوہر یا بچوں کا باپ ہے بلکہ دباؤ اور اثر اس لیے ہوتا ہے کہ وہ مالک وقابض ہے، بے دست و پا صاحب ِخانہ کا اثر صرف اخلاقی مطالبہ ہوتا ہے اور جب باپ کا دباؤ نہ ہو تو کیا اولاد با اخلاق بن سکتی ہے ؟
٣ خانگی نظام ختم ہونے کے بعد جب سرکاری پرورش گاہوں میں بچے پرورش پائیں گے تو ایک طرف قرابت اور رشتہ داری کے جملہ حقوق ختم بلکہ رشتہ داروں کو پہچاننا مشکل بھی ہوگا اور بیکار بھی !
دوسری جانب جنسی تعلقات کے لیے سلسلہ ازدواج بے معنی ہوجائے گا ! ! تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے احقر کی تصنیف ''دورِ حاضرکے سیاسی اور اقتصادی مسائل'' اور ''اسلامی تعلیم کے اشارات''
٤ انسان اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے تو ہرچیز کا اصل مالک اللہ ہے ، بندہ کی ملکیت صرف نیابت ہے جو مالک ِحقیقی کی منشاء اور اس کی مصلحت کے تحت اور اس کے احکام کے تابع ہوگی پھر اللہ تعالیٰ ربُ العالمین ہے اپنے بندوں کا محافظ، مشکلات کو حل کرنے والا، حاجتوں کو پورا کرنے والا (حَلُّ الْمُشْکِلَاتْ قَاضِی الْحَاجَاتْ )
(باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
اس طرح سے خارجی طاقت یعنی آرڈی نینس یا قانون کی شورا شوری ، اہل ثروت اور اربابِ دولت کو سراسیمہ اور پریشان نہیں کرے گی بلکہ(قرآنی نظام کی بدولت) خود اپنے اندرونی جذبات کی سوزش ان کی نظر میں اس دولت کو وبالِ جان اور اس کے خرچ کرنے کو راحت واطمینان بنادے گی ! !
مالی نظام کے سلسلہ میں جو الفاظ قرآنِ حکیم یا سنت ِ نبویہ نے استعمال فرمائے ان پر نظر ڈالیے وہ سب انقلاب انگیز ہیں ! مگر بجٹ کے خسارہ کو پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ دلوں کی بیماریوں کو دور کرنے کے لیے ! !
سب سے پہلا اور سب سے مشہور لفظ'' زکوة'' ہے جس کے مفہوم میں '' تزکیة'' داخل ہے '' زکوة'' کے معنی پاکی ہیں اور '' تزکیة'' کے معنی پاک کردینا ! یعنی زکوة اس لیے فرض ہوتی ہے کہ دلوں کو پاک کردے !
'' بخل ''وہ ناپاکی ہے جو دلوں کو ہی نہیں بلکہ اس ملکیت کو بھی ناپاک کردیتی ہے جو اس کے زیر اثر ہو ! زکوة دل کو بخل سے پاک کرتی ہے تو ساتھ ساتھ دولت کو بھی پاک کردیتی ہے ! !




(بقیہ حاشیہ صفحہ ٢٠ )
٭٭٭
پس جب بھی پرورش، حفاظت، تعلیم و تربیت وغیرہ کی ضرورتیں پیش آئیں گی انسان پر بحیثیت نائب وخلیفہ ان ضرورتوں کو پورا کرنا ضروری ہوگا ! انفرادی ضرورتیں افراد سے پوری ہوں گی، زکوة وصدقات اسی لیے ہیں کہ ضرورت مند افراد کی انفرادی ضرورتیں پوری کی جائیں گی ! !
لہٰذا ان کی ادائیگی کے لیے حکومت کا توسط ضروری نہیں ہے وہ وہاں بھی لازم نہیں جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے صاحب استطاعت کا فرض ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرے اسی لیے ان میں تملیک بھی ضروری ہے یعنی ضرورت مند کو محض اجازت دے دینا کافی نہیں بلکہ مالک بنانا بھی ضروری ہوتا ہے ! البتہ اجتماعی ضرورتیں ہیئت اجتماعیہ یعنی خلافت کے ذریعہ پوری ہوں گی یہ اجتماعی ہیئت، خلافت ِ الٰہیہ کی حیثیت سے افراد پر اقتدار رکھتی ہے اور افراد کی مملوکات پر بھی ! وہ کسی کی ملک چھین نہیں سکتی مگر پابندی لگاسکتی ہے !
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے ''دورِ حاضر کے سیاسی واقتصادی مسائل ''
دوسرا لفظ'' صدقة'' ہے جو'' صدق ''سے ماخوذ ہے یعنی صدقہ اس بات کی عملی دلیل ہے کہ ملی ضرورتوں کے احساس یا غریبوں اور فقیروں کی ہمدردی کا دعویٰ ایک سچی حقیقت ہے محض نمائش اور بناوٹ نہیں ! !
یہ دو مد(یعنی زکوة و صدقہ) لازمی ہیں ان کے مصارف بھی معین ہیں یہ ضرورت مند افراد کی امداد کے لیے مخصوص ہیں ! ان دومدوں کے ذریعہ قوم کی غریبی دور ہوسکتی ہے ان کے لیے حکومت کا واسطہ بھی ضروری نہیں ! براہ راست صاحب ِدولت پر فرض ہے کہ اتنی مقدار اپنی ملک سے نکالے اور ضرورت مندوں کی ملکیت میں دے دے ! !
مملکت یا ملت کی اجتماعی ضرورتوں پر زکوة وصدقات واجبہ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی ان ضرورتوں کے لیے قرآن حکیم نے '' قَرضْ'' یا '' اِنْفَاقْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہْ ' ' کا لفظ استعمال کیا ہے ! !
( اَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ) (سُورة المزمل) ''قرض دو اچھی طرح قرض دینا ''
( وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ ) (سورة البقرة : ١٩٤)
''اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور (خرچ کو بند کر کے یعنی بخل کر کے) مت ڈالو اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ''
فرض کیجیے اسلامی مملکت کی مخالف حکومتیں اپنی جنگی طاقتیں زیادہ سے زیادہ مضبوط کر رہی ہیں ،
اسلامی مملکت کی آمدنی کے عام ذرائع دفاعی ضرورتیں نہیں پوری کرسکتے، ہنگامی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، حکومتیں ایسی صورتوں میں قومی قرض یا قرضۂ جنگ کی اپیل کرتی ہیں ١
١ بہت ممکن ہے حکومتوں نے'' قرض'' کی اصطلاح بالواسطہ یا بلا واسطہ قرآن سے ہی سیکھی ہو ! لیکن اگر یہ اصطلاح قرآن سے سیکھی ہے تو محض الفاظ قرآن کے ہیں روح قطعاً غیر قرآنی ہے ! قرآن صاحب ِدولت سے اس تعلق کی بناپر دولت لیتا ہے جو اس کا خدا کے ساتھ ہے اور حکومتیں ''سود ''کے لالچ دے کر قرض لیتی ہیں !
قرآن والے قرض سے دولت کی محبت کم ہوتی ہے ! بخل کے مرض میں تخفیف ہوتی ہے ! اور سرکاری قرض سے ان امراض میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا ہے ! ! ! (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر )
مگر قرآن حکیم یہ'' قَرضْ '' اللہ کے لیے طلب کرتا ہے ! '' اِنْفَاق' 'یعنی خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ بھی ''فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ'' یعنی پہلے انسان کا رشتہ اللہ سے جوڑتا ہے ، غیر اللہ سے اس کے دل کو پاک کرتا ہے، مال دولت اور ہرچیز کے مقابلہ میں اللہ کی محبت بڑھاتا ہے اور ایمان کا معیار یہ قرار دیتا ہے کہ
( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ) ( سُورة البقرة : ١٦٥ )
''جو ایمان لائے وہ بہت بڑھے ہوئے ہیں اللہ کی محبت میں ''
اسی محبت کے نتیجہ میں وہ اس سے مالی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے یہ ہے '' تزکیۂ قلب''
(جاری ہے)
( ماخوذ از سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٧٤ تا ٤٨٥ )




مؤرخِ ملت مجاہد فی سبیل اللہ حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ
کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat2.php




(بقیہ حاشیہ صفحہ٢٢ )
٭٭٭
اور سب سے زیادہ یہ ہے کہ'' قرآنی قرض'' کا بار صرف صاحب ِدولت پر پڑتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھا کر قرض لیتا ہے کہ اس کا اجر دنیا میں کچھ نہیں ملے گا اللہ کے یہاں ملے گا ! !
اور سرکاری قرض کا بار غریبوں پر پڑتا ہے کیونکہ'' سود'' کی ادائیگی نئے ٹیکس لگاکر یا ٹیکسوں میں اضافہ کر کے کی جاتی ہے ! جس کے نتیجہ میں غریب کی غریبی میں اضافہ ہوتا ہے اور دو لت مند اور زیادہ دولت مند ہوجاتا ہے ! !




قطب الاقطاب عالمِ ربانی محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں نور اللّٰہ مرقدہ کے وہ مضامین جو پندرہ بیس برس قبل ماہنامہ انوار مدینہ میں شائع ہوچکے ہیں قارئین کرام کے مطالبہ اور خواہش پر ان کو پھر سے ہر ماہ سلسلہ وار ''خانقاہ حامدیہ '' کے زیر اہتمام اس مؤقر جریدہ میں بطور قندِ مکرر شائع کیا جارہا ہے ! اللہ تعالیٰ قبول فرمائے
(ادارہ)




پردہ کا حکم قرآن پاک میں
( نظر ثانی و عنوانات : حضرت مولانا سےّد محمود میاں صاحب )
٭٭٭
( یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَ زْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ) ١
'' اے نبی کہہ دے اپنی عورتوں کو اور اپنی بیٹیوں کو اورمسلمانوں کی عورتوں کو ، نیچے لٹکا لیں اپنے اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں '' علامہ عثمانی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں
''یعنی بدن ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سرسے نیچے چہرہ پر بھی لٹکا لیویں روایات میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لیے کھلی رہتی تھی اس سے ثابت ہو ا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہیے ! نیز ارشاد فرمایا گیا
( وَاِذَا سَأَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآ ئِ حِجَابٍ )
''اورجب مانگنے جائو بیبیوں سے کچھ چیز کام کی ،تو مانگ لو پردہ کے باہر سے '' ٢
قرآن پاک میں اصول ذکر کیے جاتے ہیں ! تفصیل حدیث اور اجماع علماء امت سے معلوم ہوتی ہے جیسے قرآن پاک میں ہے ( اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ) نماز صحیح طرح ادا کرو اور( اٰتُوالزَّکٰوةَ ) زکوة دو لیکن تفصیل سنت اور اجماع امت سے معلوم ہوئی کہ کس نماز کی کتنی رکعات ہوں گی اور کیا کیا اوقات ہوں گے اسی طرح پردہ کے مسئلہ میں عمل اور حدیثیں دیکھنی ہوں گی ! ! ؟
١ سُورة الاحزاب : ٥٩ ٢ ترجمہ شیخ الہند و علامہ ( شبیر احمد صاحب) عثمانی
اجماع کی قوت :
اجماعِ امت سب سے قوی چیز ہے ! اجماع ہی سے قرآن کا قرآن ہونا معلوم ہوا ہے ! ! اوراگر کوئی ایک آیت کا بھی انکار کردے تووہ اسلام سے خارج ہو جائے گا ! !
ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد آنجناب نے نابینا صحابی
ابنِ اُمِ مکتوم کے آنے پر حضرت اُم سلمہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کو پردہ کا حکم فرمایا ! !
انہوں نے عرض کیا کہ وہ نابینا ہیں نہ ہمیں دیکھیں گے نہ پہچانیں گے ارشاد فرمایا
اَفَعَمْیَاوَانِ اَنْتُمَا اَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہ ١ کیا تم بھی نابینا ہو ، کیا تم انہیں نہیں دیکھو گی ؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان والی حدیث میں بخاری شریف میں ہے کہ ہَوْدَجْ کسنے والے خادم آئے انہوں نے ہودج اونٹ پر رکھ کر کس دیا اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ میں اس میں ( بیٹھی ) ہوں ٢
آگے چل کر اسی حدیث میں حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے مجھے اس وجہ سے پہچان لیا کہ کَانَ یَرَانِیْ قَبْلَ الْحِجَابِ ٣ وہ مجھے پردہ کے حکم سے پہلے دیکھا کرتے تھے
عورت صرف ان ہی رشتہ داروں کے سامنے آسکتی ہے جن سے شریعت نے اجازت دی ہے
٭ مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضرت افلح نے آناچاہا تو وہ فرماتی ہیں کہ میں نے انہیں اجازت نہیں دی ! انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے پردہ کرتی ہو اور میں تمہارا (رضاعی) چچا ہوں ! !
اس کے بعد حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا جناب نے ارشاد فرمایا
صَدَقَ اَفْلَحُ أِ ئْذَنِیْ لَہ ٤ '' افلح نے ٹھیک کہا ہے انہیں (سامنے آنے کی )اجازت دے دو''
٭ بخاری ہی میں اس سے اگلے صفحہ پر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا کے ان کے پاس آنے کا واقعہ ہے ! جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اگر فلاں میرے رضا عی چچا زندہ ہوتے تو وہ میرے پاس آسکتے تھے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا :
١ ترمذی شریف جلد دوم ص١٢٠ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی ٢ بخاری شریف ج١ ص٣٦٣
٣ بخاری شریف ج١ ص٣٦٤ ٤ بخاری شریف ج ١ ص٣٦٠
نَعَمْ اِنَّ الرَّضَاعَةَ تُحَرِّمُ مَا یَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ ١
''ہاں رضاعت (بھی ) (ان لوگوں سے نکاح ) حرام کردیتی ہے جن سے پیدائش کے رشتے حرام ہوتے ہیں ''
٭ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا خیبر کے فتح ہونے کے بعد نبی کریم علیہ الصلٰوة والسلام نے انہیں باندی رکھنے کے بجائے آزاد کرکے نکاح کرلیا تھا جسے اِعْتَاقْ بِشَرْطِ التَّزَوُّجْ کہا جاتاہے ! !
بخاری شریف میں آتاہے کہ صحابہ کرام کی گفتگو ہو رہی تھی کہ وہ ام المؤمنین ہیں یا باندی ہیں ؟
تو ان حضرات نے کہاکہ (اس کا پتہ ایسے چل سکتا ہے کہ )اگر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کا پردہ کرایا
تو وہ امہات المومنین میں ہوں گی اور پردہ نہ کر ایا تو وہ آپ کی مملوکہ ہوں گی ! !
جب آپ نے اس مقام سے کوچ فرمایا تو اپنے پیچھے سواری پر سوار کرنے کی جگہ بنائی ! !
وَمَدَّ الْحِجَابَ ٢ اور پردہ کھینچ دیا
٭ بخاری شریف میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے کہ ان کے ایک بھائی کے بارے میں یہ شبہ ہوا کہ وہ صحیح النسب بھائی نہیں بلکہ ان کے والد زَمْعَة کی باندی سے کسی کے زمانہ جاہلیت میں زنا کرنے سے ہوا ہے کیونکہ زانی عُتبة ابن ابی وقاص نے اپنے بھائی کو وصیت کی تھی کہ زَمْعَة کی اس باندی سے جو بچہ ہوگا وہ میرا ہوگا،وہ تم لے لینا ! !
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا اِحْتَجِبِیْ اس سے پردہ کرو
پھر آگے ہے فَمَا رَاٰھَا حَتّٰی لَقِیَ اللّٰہَ ٣ '' اس نے کبھی مرتے دم تک حضرت سودہ کو نہیں دیکھا ''
اور صفحہ ٢٩٦ پر یہ بھی ہے وَاحْتَجِبِیْ مِنْہُ یَا سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ فَلَمْ تَرَہ سَوْدَةُ قَطُّ
''اے سودہ بنت زمعہ ان سے پردہ کرو تو انہیں حضرت سودہ نے کبھی نہیں دیکھا''
٭ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم حضرت امِ سلمہکے پاس تشریف فرماتھے مکان میں ایک مُخَنَّثْ (ہیجڑا ) بھی تھا اس نے حضرت امِ سلمہ کے بھائی سے کہا کہ اگر اللہ نے تمہیں کل کو طائف فتح کرادیا تو میں تمہیں غَیْلان کی بیٹی (جس کا ایسا ایسا حلیہ ہے )بتلائوں گا ! نبی کریم علیہ الصلٰوة والتسلیم نے یہ بات سنی تو ارشاد فرمایا لَا یَدْخُلَنَّ ھٰذَا عَلَیْکُمْ ٤ ''ہرگز آئندہ یہ تمہارے پاس نہ آئے ''
١ بخاری شریف ص٣٦١ ٢ ایضاً ص٦٠٦ ٣ ایضاً ص٢٧٦ ٤ ایضاً ص٧٨٨
حالانکہ وہ پیدائشی معذور تھا مگرچونکہ وہ(غیر مردوں کے سامنے) حلیہ بیان کرکے عورتوں کی بے پردگی کرسکتا تھا اس لیے اس سے بھی پردہ کرادیا ! اور اسے بھی منع فرما دیا ! بخاری شریف میں دوسری جگہ ہے
لَا یَدْخُلَنَّ ھٰؤُلَآئِ عَلَیْکُمْ ١ یعنی '' ایسے مُخَنَّثْ (کوئی بھی ہوں ) ہرگز تمہارے پاس گھر میں نہ آیا کریں ''
یہ تو بعض صحیح روایات پیش کی گئی ہیں جن سے آیت ِ(حجاب)کی تفسیر اور علماء امت کے بالاتفاق عمل کی وجہ معلوم ہورہی ہے اوریہ کہ حجاب شرعی مسئلہ ہے !
٭ دوسری بحث یہ ہے کہ ''حجاب'' شعائر اسلام میں ہے یا نہیں ؟
شعائر اسلام کا لفظی ترجمہ ہے '' اسلام کی نشانیاں '' یا ''علامتیں '' یعنی وہ شرعی احکام جن سے اسلام والے دوسروں سے ممتاز ہو سکیں ! !
تو اس کا جواب علماء سے فتوے کی صورت میں عدالت طلب کرسکتی ہے ! !
نیز یہ کہ پردہ کا انکار کس درجہ کی معصیت ہے ؟ ؟
اس کا جواب بھی علماء سے فتویٰ کی صورت میں لیا جاسکتا ہے ! !
٭ تیسری بحث یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ (جو اسلامی حکومت کاہو) اس کی اطاعت کن باتوں میں فرض ہوتی ہے اور کن باتوں میں نہیں ؟ ؟
اس کے بارے میں احادیث میں آتاہے کہ گناہ کے کام میں نہ باپ کی اطاعت بیٹے پر فرض ہوتی ہے، نہ شوہر کی اطاعت بیوی پر ،نہ حاکم کی اطاعت محکوم پر ! خاص حاکم کی اطاعت کے بارے میں ارشاد ہے
فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَةٍ فَلا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ ٢ ''جب گناہ کے کام کا حکم دیا جائے تو نہ سننا واجب ہے نہ اطاعت کرنی ''
اسی صفحہ پر اسی کے حاشیہ نمبر ١١ میں ہے لَا طَاعَةَ لِمَنْ لَمْ یُطِعِ اللّٰہَ جو اللہ کی اطاعت نہ کرے اس کی اطاعت واجب نہیں ہوتی ! !
پھر لکھا ہے اِلَّا اَنْ یَّرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا کہ اگر رعایا کھلم کھلا حاکم سے کفر کی بات دیکھے تو وہ حاکم خودبخود معزول ہو جائے گا بالاجماع ! !
١ بخاری شریف ج٢ ص ٦١٩ ٢ صحیح البخاری کتاب الاحکام رقم الحدیث ٧١٤٤ ج ٢ ص١٠٥٧
لہٰذا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حکم الٰہی پر جما رہے ، جو اس کی قوت رکھتا ہے تو اسے ثواب ملے گا ! اور جو خوشامد کرے گا اسے گناہ ہوگا !
اور جو بالکل مقابلہ کی قوت نہ رکھتا ہو عاجز ہو تو اس پر ایسی سرزمین سے ہجرت کرجانی واجب ہوگی '' ! ١
یہ مسئلہ بہت تفصیل سے شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری کی سولہویں جلد میں صفحہ ١١٤ اور صفحہ ٢٤١ پر بیان کیا ہے، وہیں یہ بھی تحریر ہے ! وہاں خروج یعنی مقابلہ میں نکل کھڑے ہونے کی (جسے جہاد یا بغاوت کہا جائے )بحث ہے اس میں تحریر فرماتے ہیں
وَالصَّحِیْحُ الْمَنْعُ اِلَّا اَنْ یَّکْفُرَ فَیَجِبُ الْخُرُوجُ عَلَیْہِ ٢
''صحیح یہ ہے کہ بغاوت نہ کی جائے سوائے اس کے کہ حاکم سے کھلم کھلا کفر سرزد ہو
تو اس وقت اس کے خلاف بغاوت واجب ہوگی ''
کھلم کھلا کفر وغیرہ پر حاکم کو معزول کر دینے کا مسئلہ عقائد کی مشہور کتاب شرح مواقف میں ہے کہ
''جیسے امت کو امام یعنی حاکم مقرر کرنے کا اختیار ہے ویسے ہی انہیں ایسے اسباب کے پائے جانے پر اسے معزول کرنے کا بھی اختیارہے '' ٣
اور معصیت کا لفظ اطاعت کے مقابلہ میں استعمال ہوتاہے قَامُوسْ میں بَابُ الْوَاوِ وَالْیَائِ میں ہے
اَلْعِصْیَانُ خِلَافُ الطَّاعَةِ
قرآن پاک میں چوتھے پارہ رکوع نمبر١٣ کے آخر میں دو آیتیں متصل لائی گئی ہیں
( وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ ) اور ( وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ )
( مَنْ ےُّطِعِ اللّٰہَ ) کا ترجمہ علامہ عثمانی اور شیخ الہند اور احمد رضا خان صاحب نے ''حکم پر چلنے'' اور''حکم ماننے ''کا کیا ہے اور ( وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ ) کا ترجمہ ' ' نافرمانی'' کا کیا ہے ! !
١ اسی سے ملتا جلتا مسئلہ بخاری صفحہ١٠٤٥ میں حاشیہ ١٠ میں بھی ہے
٢ ص١١٤ ج١٦ فتح الباری نمبر١ مطبوعہ مصطفیٰ البابی المجلسی وعمدة القاری (عینی) شرح بخاری ج نمبر١١ ص٣٣٣ پر بھی یہی عبارت ہے مطبوعہ دارالطباعة العامرہ سلطنة ترکیہ عبدالحمید خاں
٣ شرح مواقف مطبوعہ نول کشور لکھنئو صفحہ ٧٣٤




قسط : ١٣ ، آخری
میرے حضرت مدنی
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
٭٭٭
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ از آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد ارشد مدنی دامت برکاتہم
امیر الہند و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
٭٭٭
مدینہ پاک کے ابتدائی حالات :
حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ خودنوشت سوانح میں اپنے مدینہ پاک کے ابتدائی حالات میں جو تفصیل سے تحریر فرمائے گئے ہیں لکھتے ہیں کہ وطن سے یعنی ہندوستان سے مدینہ پاک آکر ہم لوگوں کو بھی بہت سی مشکلات پیش آئیں بالخصوص عورتوں کو وطن اور اہل وعیال کی جدائی تو تھی ہی ، بہت سے کام ایسے کرنے پڑے جن کی بچپن میں کبھی نوبت نہیں آئی تھی مثلاً آٹا بھی خود ہی پیسناپڑا، گھر میں جھاڑو دینا، برتنوں کو دھونا، والدہ صاحبہ باوجود ضعف وپیری بہت زیادہ جفاکش اور عالی ہمت تھیں اپنی ہر بہو کی آٹا پیسنے کی باری مقرر کر رکھی تھی مگر خود بھی ہر بہو کے ساتھ چکی پیسنے میں اور گھر کے کاروبار میں شریک رہتیں ، گھر والوں کے اور بچوں کے اور مردوں کے کپڑے بھی سب کو خود ہی دھونے پڑتے تھے ، جس کی وطن میں کبھی نوبت نہیں آئی تھی، ہم مردوں کو بالخصوص مجھے اور بھائی سید احمد صاحب مرحوم کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر میٹھا پانی لانا پڑتا تھا کہ دن میں مشغولی کی وجہ سے وقت نہیں ملتا تھا ! !
١٣١٨ھ میں مجھے اور بھائی صدیق احمد صاحب مرحوم کو ہندوستان کا سفر پیش آیا، بھائی سیّد احمد مرحوم کی تنخواہ صرف بیس روپے ماہوار تھی والد صاحب مرحوم نے بہ مجبوری ایک مخلص سے پچاس روپے قرض لیے جس سے چاول خریدے ایک وقت میں کھچڑی اور دوسرے وقت میں پیچ پر سارے گھر والوں کا گزر تھا (چاولوں کو بہت زیادہ پانی میں اُبال کراس کا پانی جوگاڑھا ہوتا ہے اس کو پیچ کہتے ہیں ) یہ سلسلہ کئی ماہ تک مسلسل رہا اور یہ چند ماہ گھر والوں پر بہت ہی عسرت سے گزرے لیکن الحمد للہ فاقوں کی نوبت کسی کو نہیں آئی ! حضرت شاہ عبدالغنی صاحب مجددی دہلوی اور حضرت شاہ احمد سعید صاحب مجددی دہلوی قدس اللّٰہ اسرارھما اور ان کے خاندان والوں پر عرصہ تک فاقوں کی نوبت آتی رہی ! ١
فقر اختیاری :
حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ کاابتدائی دور کلکتہ کے قیام کا اور دیوبند کے قیام کا بھی بہت تنگی کاگزرا،باوجود وسیع تنخواہ کے مہمانوں کی کثرت اور فیاضیوں کا زور اکثر مقروض ہی بنائے رکھتا تھا ایک چیز تو میرے ساتھ بہت ہی کثرت سے دیوبند کے ابتدائی قیام میں پیش آئی بیسیوں مرتبہ بلکہ اگر سینکڑوں بھی کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا، دیوبند سے کلکتہ، لکھنؤ، شادرہ وغیرہ تشریف لے جاتے ہوئے سہارنپور دیوبند سے آکر صرف اس لیے اترتے تھے کہ حضرت جی کے پاس آگے کا کرایہ نہیں ہوتا تھا اور آتے ہی فرمادیتے تھے کہ فلاں جگہ جانا ہے، کرایہ نہیں ہے ! ٢
حلم وبردباری :
میرے حضرت شیخ الاسلام مدنی نور اللہ مرقدہ کے ساتھ بھی اس نوع کاایک واقعہ پیش آچکا لیگ کانفریس کے ہنگامہ میں بہت سے نالائقوں نے اخباروں میں حضرت قدس سرہ کی سیادت (سیّد ہونے) سے انکار کیا ! اخباروں میں تو جھوٹ سچ، گالی گلوچ ہوتی ہی رہتی ہے مگر کسی احمق نے حضرت نور اللہ مرقدہ کو درسِ بخاری میں اسی مضمون کا پرچہ دے دیا کہ اخبارات میں یہ شائع ہورہا ہے حضرت نے سبق کے دوران ہی میں نہایت متانت سے فرمایا کہ میرے والدین کے نکاح کے گواہ ابھی تک ٹانڈہ اور فیض آباد وغیرہ کے نواح میں موجود ہیں جس کا دل چاہے وہاں جاکر تحقیق کر لے ! اور سبق شروع کرادیا۔ ٣
١ نقشِ حیات ج ١ ص٦١ ، آپ بیتی ص ٨٧٤ ٢ آپ بیتی ص ٨٧٤ ، ٨٧٥ ٣ ایضاً ص ٨٢٨ ، ٨٢٩
حضرت مدنی نے مجھے بخیل کا لقب دے دیا تھا :
یہ مضمون لکھواتے وقت جو پہلے سے چل رہا تھا ایک خاص واقعہ کی وجہ سے ایک بری عادت کی طرف اور ذہن منتقل ہوا جو بہت ہی قدیم اور اس ناکارہ کے بخل کا ثمرہ ہے، ان ہی حرکتوں کی وجہ سے میرے حضرت شیخ الاسلام نور اللہ مرقدہ اور ان کے بڑے بھائی مولانا سیّد احمد مدنی رحمة اللہ علیہ نے مجھے بخیل کا لقب دے دیا تھا جو بالکل صحیح ہے ! اور وہ بری عات یہ ہے کہ میرے دوستوں میں سے بالخصوص جو مجھ سے بیعت کا تعلق بھی رکھتے ہوں اور خصوصی تعلق بھی رکھتے ہوں ان کا کسی چیز کو بغیر اجازت لے لینا اور کھا لینا بہت ہی ناگوار ہے بالخصوص جب میری کوئی چیز اٹھائے یا کھائے ! ! نفسِ امارہ یہ توجیہ دل میں ڈالتا ہے کہ جب یہ لوگ بیعت کے وقت میں مجھ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ پرایہ مال بے اجازت نہیں کھاؤں گا اور پھر میرے ہی مال میں کوئی تصرف بلا اجازت کرتے ہیں تو بہت گراں ہوتا ہے اگرچہ اس کا کوئی مطالبہ دنیا یا آخرت میں میرا ان سے نہیں ہے مگر میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ جب میرے ساتھ یہ بے التفاتی ہے تو دوسروں کے ساتھ کیا ہوگا ؟ ( آپ بیتی ص ١٠٧٨)
میزبانی کے سلسلہ میں حضرت مدنی کا طرزِ عمل :
حضرت شیخ الاسلام مدنی نور اللہ مرقدہ کے یہاں اس کا بہت اہتمام تھا کہ اگر خصوصی مہمانوں کے لیے کوئی چیز پکے تو سارے مہمانوں کے لیے ہو، ورنہ ان خصوصی مہمانوں کو علیحدہ کمرے میں کھلایا جاتا تھا مگر میرے حضرت رائے پوری نور اللہ مرقدہ کے یہاں بارہا اس کی نوبت اس سیہ کار کو پیش آئی کہ کوئی خاص چیز دستر خوان پر آئی تو حضرت نے دوسروں کا حصہ بھی مجھ سیہ کار کے پاس رکھوادیا ! اس گستاخ نے کئی دفعہ بے ادبی سے سختی سے انکار بھی کردیا، مگر حضرت نور اللہ مرقدہ نے فرمایا کہ یہ مخصوص نہیں ہوا جب ان کے پاس رکھا جائے گا جب ان کا ہوگا چونکہ جوانی میں اس سیہ کار کو گوشت اور مرچوں کا بڑا شوق تھا جواب بالکل متروک ہوگیا تو حضرت نور اللہ مرقدہ ایسی چیزوں میں خاص طور سے فرمایا کرتے تھے کہ یہ اس کے پاس رکھ دو ! ( آپ بیتی ص ١٠٩١)
علالت و وفات کی تفصیل :
میرے اکابر میں جن حوادث سے اس ناکارہ کو سابقہ پڑا ، ان ہی اہم ترین حوادث میں حضرت اقدس مدنی نور اللہ کا حادثہ ٔ وصال ہے ! حضرت کی طبیعت ناساز تو آخری رمضان ١٣٧٦ھ میں بانسکنڈی (کچھاڑ) میں ہی ہوگئی تھی کہ حضرت نے یہ رمضان اور اس سے پہلا رمضان بانسکنڈی ہی میں گزارا تھا، ٤ رمضان کی شب میں شدت سے بخار ہوا ، اس کے باوجود افطار نہیں فرمایا، ٢٦ شوال کو واپسی کی اطلاع تھی علالت کا سلسلہ چلتا رہا۔ ٢٢ شوال کو بیس مرتبہ اسہال ہوا ،اس واسطے عین وقت پر التواء ہوا، دیوبند کے حضرات بھی استقبال کے لیے سہارنپور تک تشریف لائے اور واپس ہوئے، ٢ ذیقعدہ شنبہ کو حضرت قدس سرہ تشریف لائے، بندہ اپنی عادت کے موافق اسٹیشن پر حاضر ہوا اور چونکہ حضرت کی طبیعت ناساز تھی اور اس کی اطلاعات سنی جارہی تھیں اس لیے بندہ اپنی عادت کے موافق جو حضرت اقدس رائے پوری کے ہر سفر میں پیش آتی تھی لکڑی لے کر اسٹیشن کی مسجد کے اندر دروازہ پر کھڑا ہوگیا، مسجد مجمع سے لبریز تھی، بندہ نے اعلان کیا کہ جو مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھائے گا لکڑی ہاتھ پر ماروں گا ! حضرت قدس سرہ ضعف کی وجہ سے نہایت ہی آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے تشریف لائے، حضرت نے تشریف آوری کے بعد زکریا سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا، زکریا نے دونوں ہاتھ پیچھے کر لیے کہ میں ان لوگوں پر شدت کر رہا ہوں ، یہ کیا کہیں گے ؟ !
حضرت نے اس ناکارہ کا ہاتھ کھینچ کر مصافحہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ آج کل کے مولویوں کا یہی کام ہے کہ دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود کرتے رہتے ہیں ! اس کے بعد لاری سے دیوبند تشریف لے گئے اور باوجود علالت کے طویل وعریض اسفار اپنی عالی ہمتی سے فرماتے رہے۔ میری بچی (حکیم الیاس صاحب کی اہلیہ) کی علالت کی اطلاع سنی تو دفعةً بلا اطلاع بڑی صاحبزادی سلمہا کے ساتھ ٢٨ ذیقعدہ پنجشنبہ کو بعد مغرب تشریف لائے اور جمعہ کی شام کو واپس تشریف لے گئے ! اسی حالت میں مدراس، بنگلور، میسور کا طویل دورہ ١٥ ذی الحجہ کو دیوبند سے بذریعہ کار دہلی اور اگلے دن صبح کو بذریعہ طیارہ دہلی سے شروع ہوا اور ٤ محرم ١٣٧٧ھ کو دہلی بذریعہ طیارہ اور اگلے دن دیوبند پہنچے دورہ تو یہ بہت طویل تھا لیکن علالت کی شدت کی وجہ سے مختصر کرنا پڑا کہ چند قدم چلنے سے اور معمولی تقریر سے تنفس کی شدت ہوجاتی تھی ! !
حکیم اسماعیل دہلوی نے مدراس سے واپسی پر بلغم تجویز کیا تھا اور اس کا نسخہ استعمال کیا گیا مگر فائدہ نہ ہوا ! دیوبند کے ڈاکٹر نے قلب کا پھیلاؤ تجویز کیا اور ضروری قرار دیا کہ سہارنپور کے سول سرجن کو جلد دکھلایا جائے ! جمعرات ١١ محرم ١٣٧٧ھ کو رائے پور کا سفر تجویز تھا تو تکرارِ سفر سے بچنے کے لیے معائنہ بھی اسی سفر میں طے ہوا چنانچہ جمعرات کی شام کو چار بجے سہارنپور پہنچے اور ہسپتال میں سول سرجن نے ایکسرے اور معائنہ کیا اور دیوبند کے ڈاکٹر کی موافقت کی، اس کے بعد رائے پور تشریف لے گئے رات کو ساڑھے دس بجے رائے پور تھے مگر کسی نے اطلاع کردی ، صبح کو عین واپسی کے وقت بھائی الطاف کے معمولی اصرار پر قیام فرمایا اور زکریا سے فرمایا کہ مجھے مقدمہ لامع کی تاخیر سے بہت ندامت ہورہی ہے۔ اس ناکارہ کی اوجز اور لامع اور کوکب کے مقدمہ کی تمہید تینوں حضرت اقدس قدس سرہ کے دست ِمبارک سے لکھی ہوئی ہے !
یہ مقدمہ حضرت کے پاس چند ماہ سے رکھا ہوا تھا مگر لکھنے کا موقع نہیں مل سکا ! اس پر حضرت نے فرمایا تھاکہ دیوبند سے طے کر کے آیا تھا کہ بہٹ یا سہارنپور میں اس کو لکھوں گا ! ! آزاد صاحب کے کمرے میں گیارہ بجے تک لکھا اور پھر جمعہ کی نماز مسجد باغ میں پڑھ کر عصر تک پھر لکھا مگر ضعف کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا، بعد مغرب چل کر شب بہٹ میں گزاری، صبح شنبہ کو وہاں سے چل کر سہارنپور ڈاکٹر برکت علی صاحب کو کچے گھر میں دکھایا گیا اور شام کو پانچ بجے دیوبند تشریف لے گئے ! !
اس دوران میں یاد ہے دورے پڑتے رہے اور ڈاکٹر برکت علی صاحب دسرے تیسرے دن جاتے رہے ، ڈاکٹر صاحب کو بہت اہتمام تھا کہ جب وہ جاویں اس ناکارہ کو بھی ساتھ لیتے جاویں اور عزیز مولانا اسعد سلمہ کے قاصد بھی اکثر اس ناکارہ کے پاس آتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو لے کر آجاؤ ! !
١٩ صفر سے حضرت پر نظر کا اثر زیادہ محسوس ہوا کہ ہر کھانے پینے کی چیز سے امتلاء سحر کا اثر تو تقریباً سال بھر سے محسوس کیا جارہا تھا اور اس کے ازالے کی تدابیر بھی ہورہی تھیں ، قلبی دورے کے بار بار اعادہ کی وجہ سے یکم ربیع الاوّل پنچ شنبہ کو ڈاکٹر برکت علی مرحوم کے اصرار پر یہ تجویز ہوا کہ دہلی میں قلبی امراض کے ماہر ڈاکٹر کے شفاخانے میں داخل کیا جائے۔ مولوی اسعد سلمہ نے دہلی ٹیلیفون کے ذریعے سے جمعیة کی وساطت سے سارے انتظامات مکمل کر لیے اور اتوار کی صبح کو بذریعہ کار جانا بھی طے ہوگیا لیکن جمعہ کی شام کو حکیم عبدالجلیل صاحب نے آکر عزیز مولوی اسعد سلمہ سے باصرار دہلی کا سفر ملتوی کرایا کہ حضرت میں سفرکا تحمل بالکل نہیں ! !
ڈاکٹر برکت علی صاحب نے سفر سے پہلے اور سفر کے دوران کی دوائیں بھی دے دی تھیں ، لیکن عدم تحمل کی وجہ سے اور سب لوگوں کے مشورہ کی وجہ سے ٤ ربیع الاوّل سے پھر حکیم عبدالجلیل صاحب کا علاج شروع ہوگیا اور دہلی سے حکیم عبدالحمید صاحب اور بریلی سے حکیم محمد صدیق صاحب کو بلانے کے تار دیے گئے مگر حکیم عبدالحمیدصاحب پاکستان جارہے تھے البتہ حکیم محمد صدیق صاحب پہنچ گئے، ربیع الثانی کے آخری ہفتے میں تنفس کی شکایت شدت سے بڑھ گئی باوجود نیند کے غلبہ کے جس کروٹ بھی لیٹتے، تنفس کا غلبہ بہت شدت سے ہوجاتا ، یکم جمادی الاولیٰ سے استفراغ کا غلبہ ہوگیا ہر دوا اور غذا قے میں نکل جاتی۔ ٢ جمادی الاولیٰ دو شنبہ کو پھر ڈاکٹر برکت علی صاحب کو لے کر زکریا حاضر ہوا، ڈاکٹر صاحب نے مایوسی کا اظہار زکریا سے کیا اور نسخہ بھی تجویز کیا حضرت قدس سرہ سے زکریا نے تخلیہ میں کہا کہ مولوی حمید الدین صاحب کا کلکتہ سے خط آیا ہے کہ پہلا اثر سحر کا تو زائل ہوگیا ہے لیکن ساحر نے دوبارہ شدید ترین سحر کیاہے ! !
٧ جمادی الاولیٰ شنبہ کو صبح کی نماز کی ایک رکعت پڑھنے کے بعد زنانہ مکان میں چوکی سے چکر آنے کی وجہ سے گر گئے، حضرت نے فرمایا کہ عمر بھر میں کبھی دورانِ سر نہیں ہوا، اتوار کی صبح کو زکریا ڈاکٹر برکت علی صاحب کو لے کر گیا اور اتوار کے دن سے صحت کی خبریں جمعرات تک آتی رہیں ! حضرت قدس سرہ نے یہ بھی فرمایا کہ محمود کا خط شدید تقاضے کا آیا تھا کہ اگر تو منظور کرے تو میں ہوائی جہاز لے کر دہلی پہنچ جاؤں اور آپ کو میں مع اہل وعیال لے آؤں ! دونوں حکومتوں سے میں خود نمٹ لوں گا ! حضرت نے زکریا سے فرمایا کہ ایک دن تیرا انتظار بھی کیا کہ مشورہ سے جواب لکھوں مگر محمود کے انتظار کی وجہ سے میں نے لکھ دیا کہ جو دینی وعلمی خدمت یہاں کر سکتا ہوں وہاں نہیں ہوسکتی، زکریا نے عرض کیا حضرت بالکل سچ فرمایا ! !
جمعرات تک روزانہ صحت کے اضافے کی خبریں آتی رہیں ۔ ١٢ جمادی الاولیٰ ١٣٧٧ھ مطابق ٥ دسمبر ١٩٥٧ء جمعرات کے دن زکریا دارالحدیث میں بخاری کا درس پڑھا رہا تھا کہ عبداللہ مؤذن نے جاکر کہا کہ حضرت مدنی کا انتقال ہوگیا ! ! محمود علی خاں کے یہاں ٹیلیفون آیا ہے، زکریا وہاں سے اٹھ کر سیدھا ریل پر پہنچ گیا کہ گاڑی کا وقت قریب تھا، بعد میں مولانا اسعد سلمہ کی بھیجی ہوئی کار بھی پہنچی، مگر زکریا جاچکا تھا ! !
جمعرات کی صبح کو عزیزان مولوی اسعد و ارشد سلمہما کو آپس کے اتحاد ومحبت کی نصیحتیں بھی فرمائیں اور دوپہر کو بلا سہارا کمرہ سے صحن میں کھانے کے لیے تشریف لے گئے تھے اور اہلیہ کو صبر علی المصائب کی تلقین فرماتے رہے ، پون بجے سونے کے لیے لیٹے تھے، ڈھائی بجے تک خلافِ معمول نماز کے لیے نہ اٹھنے پر اہلیہ محترمہ دیکھنے گئیں تو برد اطراف پایا، جس پر مولوی اسعد کو آدمی بھیج کر بلایا کہ آج سب بے فکر تھے کہ طبیعت بہت اچھی ہے ڈاکٹر نے آکرکہا کہ تشریف لے گئے۔
٩ بجے شب جنازہ کی نماز کا اعلان ہوا لیکن مولانا حفظ الرحمن صاحب کا تار مراد آباد سے پہنچا کہ ہم روانہ ہوچکے، ان کے لینے کے لیے روڑکی کار بھیجی گئی کہ سیدھے آجاویں ساڑھ بارہ بجے تک انتظار کے بعد جنازے کی نماز ہوئی وہ حضرات نماز کے بعد پہنچے،تین بجے تدفین عمل میں آئی تقریباً تیس ہزار کا مجمع بتلایا جاتا ہے
اعلی اللّٰہ مراتبہ نور اللّٰہ مرقدہ
( آپ بیتی ص ٢٨٠ تا ٢٨٤)




تربیت ِ اولاد قسط : ١٧
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ امور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
٭٭٭
لڑکیوں کو علمِ دین سکھانے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت :
عورتوں میں تو عام رواج ہے کہ پڑھنے پڑھانے کو کچھ چیز ہی نہیں سمجھتیں جس کی طبیعت بچپن سے جس طرف کو چل جائے اسی طرف چھوڑ دی جاتی ہے !
کیوں بہنو ! اپنی لڑکیوں کو کھانا پکانا سینا پرونا سکھاتی ہو ؟ ان کاموں میں بھی ان کی اپنی طبیعت پر چھوڑ دو پھر دیکھو بڑے ہو کر کیا لطف آتا ہے ان کو اپنی زندگی کاٹنا دشوار ہو جائے گی حالانکہ دنیا کی زندگی بہت محدود (تھوڑے دن کی) ہے فرض کر لو سو برس جئے گی اگر کھانا پکانا سینا پرونا نہ بھی جانتی ہو گی تو عزت و آرام سے نہیں تکلیف و ذلت ہی سے کسی طرح اس عمر کو کاٹ ہی لے گی لیکن آخرت کی زندگی وہاں کے کام سیکھے بغیر نہ کٹے گی کیونکہ وہ دائمی ہے ! جب تم دنیا کی چند روزہ زندگی کے لیے اتنے بہتر ہنر سکھانے کی ضرورت سمجھتی ہو تو غیر محدود زندگی کے لیے ہزاروں ہنروں کی ضرورت ہونی چاہیے ! مگر افسوس ہے کہ ہزاروں کی جگہ سینکڑوں بھی نہیں بلکہ اتنے بھی نہیں جتنے کہ دنیا کے لیے سکھلائے جاتے ہیں ، آخرت کے بارے میں لڑکیوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے ! !
اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ عورتوں کو ایسی دینی کتابیں پڑھائے جن میں ان کی دینی ضروریات کولکھا گیا ہے اور ان کو تھوڑا تھوڑا پڑھائیے ان کے ہاتھ میں کتاب دے کر بے فکر نہ ہو جائیے ! عورتیں اکثر کم فہم ہوتی ہیں یا تو کتاب کے مطلب کو سمجھیں گی نہیں یا کچھ کا کچھ سمجھ لیں گی ! !
اس کا سہل طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت مقرر کر کے گھر کا کوئی مرد عورتوں کو جمع کر کے وہ کتابیں پڑھایا کرے یا اگر وہ پڑھ نہ سکتی ہوں تو ان کو سنایا کرے ! مگر صرف ورق گردانی نہ ہو اور محض پڑھنے سے مسئلہ یاد نہیں رہتا بلکہ اس پر عمل کرنے سے خوب ذہن نشین ہوتا ہے ! اگر کوئی عورت پڑھی ہوئی میسر ہو جائے تو وہی کتاب لے کر دوسری عورتوں کو پڑھائے یا سکھائے بہر حال کوئی صورت ہو مگر اس سے غفلت نہ ہونی چاہیے ! ! !
گھر والوں کو دینی کتابیں سنانے کا معمول :
دینی کتابیں اپنے گھر والوں کو سنائو ! زیادہ نہ ہو تو پندرہ بیس منٹ ہی سہی ! اور یہ نہ دیکھو کہ کون سنتا ہے کون نہیں ، کوئی سنے یا نہ سنے مگر تم اپنا کام کیے جائو ! گھر میں پڑھانا شروع کرو اور روز سنایا کرو ، اٹھ کر نہ آئو خواہ بگڑ پڑیں ! !
بہت لوگوں نے بیان کیا کہ کتابیں سناتے سناتے اصلاح ہو گئی ! کیا اللہ و رسول کا کام کھٹائی سے بھی کم ہے ؟ کھٹائی کا منہ میں اثر ہو جو ایک حقیر چیز ہے اس سے تو منہ میں پانی بھر آئے اور اللہ و رسول کے نام کا اثر نہ ہو ! مگر یہ بات ہے کہ کرے کون ؟ کون دِقت اُٹھائے ؟ !
الغرض کتاب سنانے کو روز مرہ کا وظیفہ سمجھئے اور کچھ نہیں چار ہی ورق سہی دو ہی سہی جیسے قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے ہو اسی طرح دو ورق اس کے بھی پڑھ لیے یا سن لیے ،اگر پوری عمر بھی اس میں لگا رہنا پڑے تب بھی ہمت کرنا چاہیے، جب دنیا کی دھن ہے تو دین کی کیوں نہ ہو ! ؟
بچوں کی اصلاح و تربیت کا دستور العمل :
(١) بچوں کو شروع ہی سے اس کا پابند کیجئے کہ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھا کریں !
(٢) اسی طرح بچوں میں بچپن سے یہ بات پیدا کیجئے کہ ان کو مسلمان سے اجنبیت نہ ہو ! ان کو غریبوں سے ملنے جلنے کی تعلیم دیجئے غریبوں کے ساتھ تعلق رکھنے میں دنیوی فائدہ بھی ہے، ان سے ملو گے تو وہ قدر کریں گے ! اور امیروں کے ساتھ تعلق رکھنے میں کچھ عزت نہیں ہوتی کیونکہ اُمراء (مالدار) تو خود ہی اینٹھ مروڑ میں رہتے ہیں ، ان کی نظر میں کسی کی وقعت نہیں ہوتی ! پس یہ مادّہ بچپن ہی سے پیدا کرو کہ غریبوں سے نفرت نہ ہو، یہ باتیں بچپن ہی سے پیدا ہوں گی بڑے ہونے کے بعد پھر ذرا دشوار ہے
(٣) اسی طرح بچوں کو اس کی بھی تاکید کیجئے کہ لباس خلاف ِشرع نہ پہنیں دوسری قوموں کی وضع (فیشن) نہ اختیار کریں ! !
(٤) ایک کام یہ کرو کہ روزانہ کوئی وقت نکالو جس میں کسی کام کا کوئی حرج نہ ہو تو سب سے زیادہ بیکار وقت سونے کا ہے یہی لے لو، بس اسی میں تھوڑے وقت میں کوئی کتاب دین کی بچہ کو دے دیجئے کہ وہ خود پڑھے یا آپ کو پڑھ کر سنائے، کوئی دن اس سے خالی نہ ہو ! !
(٥) دوسرے یہ کہ کبھی کبھی دو چار دن کے لیے جب سکول کی چھٹی کا زمانہ ہو اہل اللہ کی صحبت اختیار کریں خواہ کسی بزرگ کے پاس رہ کر یا جماعت میں نکل کر بلکہ اگر چھٹی کا پورا زمانہ اس میں خرچ نہ کریں تو یوں کریں کہ مثلاً سکول میں مہینہ بھر کی چھٹی ہوتی ہے اس کے دو حصے کر لیں ایک حصہ کھیل کود میں گزاریں اور ایک حصہ اہل اللہ کی صحبت میں ! !
خلاصہ یہ ہے کہ روزانہ کاعمل تو یہ ہے کہ کتاب خود پڑھا کریں یا آپ سنایا کریں اور کبھی کبھی کا عمل یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت اختیار کریں ! شروع ہی سے اس طریقہ کا التزام کیجئے ! !
بس اس طریقہ کے اندر دو چیزیں ہوئیں : ایک یہ کہ اہل اللہ کی صحبت اختیار کریں دوسرے مسائلِ دین اور احکام ِدین کی تعلیم جاری رکھیں ! بس اس کا التزام کیجئے اور شروع ہی سے کیجئے، شروع ہی سے کریں گے تو وہ آسانی سے پابند ہو جائیں گے ! !
ان سب کے ساتھ اس کے عمل کی بھی نگرانی رکھیں مثلاً اگر غیبت کریں تو روک دیجئے اورکہیے کہ یہ بری چیز ہے اس سے ان کو نفرت دلائیے ! ان سے تکبر کی شان ظاہر ہو تو روک دیجئے اور بتلائیے کہ اس میں یہ خرابی ہے،جھوٹ بولے تو اس کو خرابی بتلائیے ! جماعت کی نماز چھوڑ دے تو تنبیہہ کیجئے ! اگر سکول میں جماعت کی پابندی نہ ہو تو تعطیل (چھٹی) کے زمانہ میں تو ضرور ہو !
پھر جب بڑے ہو جائیں تو عمر کا ایک حصہ سال دو سال ایسامل جائے کہ اس میں اہل اللہ کی صحبت مسلسل نصیب ہو جائے تو یہ بہت ہی نافع ہے ! سال بھر نہ ہو تو چھ ماہ سہی ،یہ بھی نہ ہو تو چالیس دن ہی سہی، حدیث شریف میں اس عدد کی بڑی فضیلت آئی ہے !
بچوں کو حرص ولالچ سے بچانے کی تدبیر :
کسی کے پاس کوئی چیز دیکھے تو حرص نہ کرے ! اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے موافق اس کو پسندیدہ چیز خود منگا کر اس کو کھلاتا پلاتا رہے ! اور جب وہ ضد کرے ہرگز اس کی ضد پور ی نہ کرے تاکہ ضد کرنے کی عادت چھوٹ جائے (بلکہ پیدا نہ ہونے پائے) ! !
اسی طرح اس کو یہ عادت ڈالے کہ کوئی چیز تنہا نہ کھائے بلکہ دوسرے بچوں کو تقسیم کر کے کھائے ! اور اس کے لیے یہ رعایت رکھنا ضروری ہے کہ جو چیز اس کو دے خواہ پیسہ یا اور کوئی چیز اس کو مالک نہ بنائے کیونکہ مالک ہو جانے کے بعد نا بالغ کو تبرع کرناکسی کو ہدیہ دینا جائز نہیں بلکہ اباحت کے طور سے دے (یعنی کھانے کی اجازت دے اور مالک نہ بنائے) تاکہ دوسروں کو دینا اور ان سے دوسروں کا لینا جائز رہے ! !
(جاری ہے)




رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٦
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
اللہ تعالیٰ کی صفات ِ متشابہات :
اللہ تعالیٰ کی صفات ِ ظاہر قدیمہ کے متعلق پہلے گفتگو آچکی ہے جن کے ظاہری معنی پر بلا تاویل ایمان لانا لازم ہے ان کے علاوہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی کچھ ایسی صفات بھی ثابت ہیں جو دیکھنے میں مخلوق کے احوال واوصاف کے مشابہ معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کا ذات ِ خداوندی پر انطباق سمجھ میں نہیں آتا تو ایسی صفات کو ''صفاتِ متشابہات'' کہا جاتا ہے ! دراصل ان کی حقیقی مراد بندوں کی نظر سے مخفی اور مبہم رکھی گئی ہے اور اس میں بھی بندوں کا گویا کہ ایک طرح کا امتحان ہے کہ دیکھیں وہ ان باتوں کو بلا چون وچرا قبول کرتے ہیں یا خواہ مخواہ درپے تاویل ہوتے ہیں جیسا کہ کج فکر لوگوں کا طریقہ ہے (جس کا ذکر سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر٧ میں کیا گیا ہے)
اب اوّلاً اس طرح کی صفات کے بارے میں علمائِ حق کا اصولی نظریہ پیش نظر رکھنا چاہیے چنانچہ حضرت امام طحاوی رحمة اللہ علیہ العقیدة الطحاویة میں فرماتے ہیں :
فَاِنَّ رَبَّنَا جَلَّ وَعَلَا ، مَوْصُوْف بِصِفَاتِ الْوَحْدَانِیَّةِ ، مَنْعُوْت بِنُعُوْتِ الْفَرْدَانِیَّةِ لَیْسَ فِیْ مَعْنَاہُ اَحَد مِنَ الْبَرِیَّةِ وَ تَعَالٰی عَنِ الْحُدُوْدِ وَالْغَایَاتِ وَالْاَرْکَانِ وَالْاَعْضَائِ وَالْاَدَوَاتِ ، لَا تَحْوِیْہِ الْجِھَاتُ السِّتُّ کَسَائِرِ الْمُبْتَدَعَاتِ ۔ ١
''ہمارا رب تبارک وتعالیٰ وحدانیت کی صفات سے متصف اور یکتائی کی خوبیوں سے آراستہ ہے ، کسی مخلوق میں اس جیسی بات نہیں پائی جاتی ! اللہ تعالیٰ کی ذات حدود ، انتہاء ، اعضاء و جوارح اور اسباب و آلات سے بہت بلند ہے !
١ العقیدة الطحاویة ص ١٥٣ ، ١٥٤ موسوسة المختار للنشر والتوزیع القاھرة
دنیا کی شش جہات اسے گھیر نہیں سکتیں جیسا کہ دیگر مخلوقات وحوادث ان میں گھرے ہوئے ہیں ''
پس جب بھی صفات ِ متشابہات پر گفتگو ہو تو درج بالا موقف کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے
صفات ِ متشابہات کی قدرے تفصیل :
قرآن و حدیث میں جو صفات ِ متشابہات آئی ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
(١) اللہ تعالیٰ کا چہرہ (وَجْہ) ہونا :
متعدد ونصوص میں اللہ تعالیٰ کے لیے ''وَجْہ'' یعنی چہرہ کا اثبات کیا گیا ہے (حالانکہ مخلوقات میں وَجْہ کا جو تصور ہے کہ وہ ایک جزوِبدن ہوتا ہے وہ خالق میں قطعاً متصور نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ جسم اور اعضائِ جسم سے پوری طرح منزہ ہے )
( اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ) (سُورة البقرة : ١١٥ )
( لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِک اِلَّا وَجْہَہ ) ( سُورة القصص : ٨٨ )
( کُلُّ مَنْ عَلَیھَا فَانٍ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رِبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ) ( الرحمن : ٢٦ ، ٢٧ )
قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ عليہ وسلم عن ربہ عزوجل حِجَابُہُ النُّوْرُ ۔ اَلنَّارُ لَوْ کَشَفَہُ لَاَحْرَقَتْ سُبْحَاتُ وَجْھَہِ مَا انْتَھَی اِلَیْہِ بَصَرُہُ مِنْ خَلْقِہِ ( صحیح مسلم ج١ ص ٩٩ )
(٢) اللہ تعالیٰ کا نفس ہونا :
( وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہ ) ( سُورة الِ عمران : ٢٨ )
(کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ ) ( سُورة الانعام : ٥٤ )
( وَاصْطُنَعْتُکَ لِنَفْسِیْ) ( سُورة طٰہٰ : ٤١ )
(٣) اللہ تعالیٰ کا ہاتھ (یَد) ہونا :
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہونا بھی ثابت ہے ارشادِ خداوندی ہے :
( یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ) ( سُورة الفتح : ١٠ )
( قَالَ یٰاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ اَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ ) ( سُورة ص : ٧٥ )
(٤) اللہ تعالیٰ کی آنکھ (عَیْن) ہونا :
( وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ) ( سُورة ھود : ٣٧ )
( وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا ) ( سُورة طور : ٤٨ )
(٥) اللہ تعالیٰ کا پائوں (قَدَم)ہونا :
عن انس بن مالک عن النبی صلی اللہ عليہ وسلم قال یلقی فی النار و تقول مل من مزید حتی یضع قدمہ فیہ فنقول قط قط ۔ ١
(٦) اللہ تعالیٰ کی پنڈلی (سَاق) ہونا :
( یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ) ( القلم : ٤٢ )
(٧) اللہ تعالیٰ کی مٹھی ہونا :
وَمَا قَدَرُوا اللّٰہِ حَقَّ قَدْرِہ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّات بِیَمِیْنِہ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) ( سُورة الزمر : ٦٧ )
عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما عن رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم قال : ان اللّٰہ تبارک وتعالٰی یقبض الارض یوم القیامة ویطوی السموت بیمینہ ، ثم یقول انا الملک ٢
(٨) اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا :
( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ) ( سُورة طٰہٰ : ٥ )
( وَالْمَلَکُ عَلٰی اَرْجَآئِھَا وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَھُمْ ثَمَانِیَة ) ( الحاقة : ١٧ )
(٩) اللہ تعالیٰ کا بندوں کے قریب ہونا :
( وَاِذَا سَئَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب) ( سُورة البقرة : ١٨٦ )
١ صحیح البخاری تفسیر سورة ق ج ٢ ص ٧١٩ رقم الحدیث ٤٨٤٨
٢ صحیح البخاری کتاب التوحید ج ٢ ص ١١٠٢ رقم الحدیث ٧٤١٢
( یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ مَعَھُمْ ) ( النساء : ١٠٨ )
( لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا) ( سُورة التوبة : ١٠٨ )
( اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ) ( سُورة النحل : ١٢٨ )
( وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بِصِیْر) ( سُورة الحدید : ٤ )
( وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ) ( سُورة ق : ١٦ )
قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ عليہ وسلم یٰاَیُّھَا النَّاسُ ارْبَعُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ فَاِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا ، اِنَّہُ مَعَکُمْ اِنَّہُ سَمِیْع قَرِیْب ۔ ( صحیح البخاری ج ١ ص٤٢٠ رقم : ٢٩٩٢ )
(١٠) اللہ تعالیٰ کا نزول فرمانا :
( وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًا) ( سُورة الفجر : ٢٢ )
( ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَأْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰئِکَةُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ )
( سُورة البقرة : ٢١٠ )
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَة اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم قَالَ : یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کُلَّ لَیْلَةٍ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ۔ (صحیح البخاری ج ١ ص٥٣ )
(١١) اللہ تعالیٰ کا ضحک فرمانا :
فی حدیث ابن مسعود الطویل ....... '' فَقَالُوْا مِمَّ تَضْحَکُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مِنْ ضَحِکِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ '' ( صحیح مسلم باب اثبات الشفاعة ١ / ١٠٥ )
درج بالا اوران جیسی صفات کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ صفات بعینہ اسی طرح کی ہیں جیسے مخلوقات میں پائی جاتی ہیں (جیسا کہ فرقہ مشبہ ومجسمہ کا قول ہے) تو یہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات سے تشبیہ دینے کے مترادف ہوگا جو آیاتِ تنزیہہ (مثلاً ( لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْئ)یعنی اللہ کے مثل کوئی چیز نہیں ہے) کے معارض اور سراسر غلط اور ناقابلِ قبول ہے !
اور اگر ان صفات کا محض مخلوقات کے ظاہری مشابہ ہونے کی بنیاد پر سرے سے انکار کردیا جائے اور زبردستی ان الفاظ کی دور اَزکار تاویلات کی جائیں (جیسا کہ معتزلہ اور خوارج نے کیا) تو یہ بھی کھلی ہوئی گمراہی ہے
اس لیے علمائِ حق اہل سنت والجماعت نے اس نازک معاملہ میں انتہائی محتاط رُخ اپناتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو مخلوق کی صفات سے قطعاً منزہ اور مبرا قرار دیتے ہوئے اس کی تمام صفاتِ متشابہات پربلا تفصیل وتاویل ایمان لایا جائے اور اس بارے میں جھک بازی سے قطعاً پرہیز کیا جائے کیونکہ ان صفات کی حقیقت تک رسائی ہماری ناقص فہم کے لیے ممکن نہیں ہے ! !
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا قول :
چنانچہ امام الفقہاء والمتکلمین حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَہ یَد وَوَجْہ وَنَفْس، کَمَا ذَکَرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی الْقُرْآنِ فَمَا ذَکَرَہُ اللّٰہُ فِی الْقُرْآنِ مِنْ ذِکْرِ الْوَجْہِ وَالْیَدِ وَالنَّفْسِ فَھُوَ لَہ صِفَات بِلَا کَیْفٍ وَلَا یُقَالُ :
اِنَّ یَدَہ قُدْرَتُہ اَوْنِعْمَتُہ لِاَنَّ فِیْہِ اِبْطَالَ الصِّفَةِ وَھُوَ قَوْلُ اَھْلُ الْقَدْرِ وَالْاِعْتَزَالِ وَلٰکِنْ یَدُہ صِفَتُہ بِلَا کَیْفٍ۔ ( شرح الفقہ الاکبر ٦٦۔ ٦٧ دارالکتب العلمیة بیروت)
''اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ، چہرہ اور نفس ہے جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا پس جس چہرے، ہاتھ اور نفس کا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں خود ذکر فرمایا تو یہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جن کو بلاکیف تسلیم کرنا ہے اور (حتمی طور پر) یہ نہ کہا جائے کہ اس کے ہاتھ ہونے سے اس کی قدرت یا انعام مراد ہے، کیونکہ اس طرح کی تاویل کرنے سے ایک صفت ِثابتہ کا باطل کرنا لازم آئے گا جو قدریہ اور معتزلہ کا قول ہے لیکن یہ کہا جائے گا کہ اللہ کا ہاتھ ہونا اس کی ازلی صفت ہے اور اس کی صورت وکیفیت کا ہمیں کچھ پتہ نہیں ''
حضرت امام صاحب کا یہ قول علماء ِاہل سنت کے موقف کی بہترین ترجمانی ہے
حضرت امام مالک کاارشاد :
اور امام دارالہجرت حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ سے جب اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے بہت ہی محتاط، جامع اور فیصلہ کن جواب مرحمت فرمایا جو اس موضوع پر حرف ِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے آپ نے فرمایا
اَلْاِسْتِوَائُ مَعْلُوْم وَالْکَیْفُ مَجْھُوْل وَالسُّوَالُ عَنْہُ بِدْعَة ، وَالْاِیْمَانُ بِہ وَاجِب ١
''استواء کے معنی معلوم ہیں ، لیکن استواء کی کیفیت مجہول ہے اور اس بارے میں قیل و قال کرنا بدعت ہے ! اور اس پر بلاکیف ایمان لانا واجب ہے''
بلا شبہ اس معاملہ میں امن کا راستہ یہی ہے کہ آدمی بلا چون وچراِن صفات کو تسلیم کرلے اور کسی طرح کی موشگافی نہ کرے، تاہم بعض مواقع ایسے آسکتے ہیں جہاں عوام کو سمجھانے کے لیے ایسی تاویل کی ضرورت ہو جو بے تکلف سمجھی جاسکے تو امکان کے درجہ میں حتمی نہ سمجھتے ہوئے مناسب تاویل کی بھی گنجائش ہے اور یہ بھی بعض موقعوں پر سلف سے ثابت ہے ! !
اس بارے میں محدثِ کبیر حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمة اللہ علیہ علمائِ اہل سنت والجماعت علمائِ دیوبند کا موقف بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
قَوْلُنَا فِیْ اَمْثَالِ تِلْکَ الْآیٰاتِ ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ) اِنَّا نُؤْمِنُ بِھَا وَلَایُقَالُ کَیْفَ ، وَنُؤْمِنُ بِاللّٰہِ سُبْحَانَہ وَتَعَالٰی مُتَعَالٍ وَمُنَزَّہ مِنْ صِفَاتِ الْمَخْلُوْقِیْنَ وَعَنْ سِمَاتِ النَّقْصِ وَالْحُدُوْثِ کَمَا ھُوَ رَأْیُ قُدَمَائِنَا۔
وَاَمَّا مَا قَالَ الْمُتَأَخِرُوْنَ مِنْ اَئِمَّتِنَا فِیْ تِلْکَ الْآیَاتِ یُؤَوِّلُوْنَھَا بِتَأْوِیْلَاتٍ صَحِیْحَةٍ سَائِغَةٍ فِی اللُّغَةِ وَالشَّرْعِ بِاَنَّہ یُمْکِنُ اَنْ یَّکُوْنَ الْمُرَادُ مِنَ الْاِسْتَوَائِ الْاِسْتِیْلَائُ ، وَمِنَ الْیَدِ اَلْقُدْرَةُ اِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ تَقْرِیْبًا اِلٰی اَفْھَامِ الْقَاصِرِیْنَ فَحَقّ اَیْضًا عِنْدَنَا ، وَاَمَّا الْجِھَةُ وَالْمَکَانُ فَلَا نُجَوِّزُ اِثْبَاتَھَالَہ تَعَالٰی وَنَقُوْلُ :
اِنَّہ تَعَالٰی مُنَزَّہ وَمُتَعَالٍ عَنْھُمَا وَعَنْ جَمِیْعِ سِمَاتِ الْحُدُوْثِ ۔ ٢
١ شرح الفقہ الکبر ص ٧٠ طبع بیروت
٢ المُھند علی المُفند ص ٨ بحوالہ علماء دیوبند کے عقائد ونظریات ص ٤٥ ، ٤٦
( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی)جیسی آیات کے سلسلہ میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت بیان نہیں کرتے ! اور اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ مخلوقات کی تمام صفات اور نقص وحدوث کی تمام علامات سے پاک وبرتر ہے جیسا کہ یہی ہمارے اسلاف متقدمین کی رائے ہے، البتہ وہ صحیح تاویلات جو ہمارے متاثرین ائمہ اور علماء کوتاہ فہموں کو سمجھانے کے لیے کرتے ہیں جن کی از رُوئے لغت وشریعت گنجائش ہے مثلاً یہ کہ ''استوائ'' سے استیلاء مراد ہونا ممکن ہے اور ''ید'' سے قدرت کامراد ہونا ممکن ہے،وغیرہ توہمارے نزدیک یہ بھی حق ہے، البتہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت یا مکان تو ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ان کے اثبات کوجائز نہیں کہتے، اور ہم تو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اور حدوث کی تمام علامات سے پاک اور بری ہے''
اس عبارت میں بہت جامع انداز میں اپنا مدعیٰ پیش کیا گیا ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے
ایک ضروری تنبیہ :
گزشتہ تحریر میں صفاتِ متشابہ کے بارے میں اہلِ حق کی تعبیرات کا جو خلاصہ بیان ہوا اس سے یہ بالکل واضح ہوگئی کہ شانِ رب العالمین کے بارے میں کوئی بھی ایسی تعبیر مناسب نہیں جس سے ذرّہ برابر بھی مخلوق سے مشابہت کا پہلو نکلتا ہو اسی لیے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت ثابت کرنے والی بعض نصوص سے بھی علماء نے وہی معنی مراد لیے ہیں جو خالق کے شایانِ شان ہیں اور ظاہری طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی جہت ثابت نہیں مانی مثلاً ہمارے عرف میں اللہ تعالیٰ کو ''اوپر والا'' کہہ دیا جاتا ہے یا یہ سمجھا جاتا ہے کہ ''اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے''اور ایک حدیث میں بھی ہے کہ ایک مظلومہ باندی سے آپ نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں پوچھا تو اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا تو پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے اس باندی کو مؤمنہ قرار دیا ! ١
١ صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوة ج ١ ص٢٠٤ رقم الحدیث ٥٣٧
تو اس طرح کے الفاظ سے یہ معنی مراد نہیں لیے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرح آسمان پر تشریف فرما ہیں (اور زمین میں نہیں ہیں ) بلکہ اس سے معنوی سربلندی مراد لی جائے گی اور یہ کہا جائے گا کہ ''اوپر والا'' کہنے سے اللہ تعالیٰ کا سب سے بلند وبرتر ہونا مراد ہے نہ کہ کسی جہت میں ہونا ! !
اس کے برخلاف علمائِ متاخرین (جن میں علامہ ابن تیمیہ اور ان کے پرجوش حامیان پیش پیش ہیں ) نے عام علماء اہلِ سنت سے ذرا مختلف انداز اپناتے ہوئے ''اللہ تعالیٰ کے بلاکیف آسمان پر ہونے '' کی تعبیر اپنائی جو اگرچہ ''بلا کیف'' کی قید کی وجہ سے صریح تشبیہ تو نہیں ہے لیکن تشبیہ کا راستہ کھولنے والی ضرور ہے۔ اگر یہ حضرات اس تعبیر کو اپنی حدتک تک رکھتے تو کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن خرابی یہاں سے شروع ہوئی کہ انہوں نے اپنی خود ساختہ تعبیر پر اس قدر اصرار کرنا شروع کردیا کہ جو اسے تسلیم نہ کرے اس کو گمراہ اور اہلِ سنت والجماعت سے خارج قرار دینے لگے اور متکلمین اشاعرہ وماتریدیہ کی تعبیرات پر کھلی نکیر کرنے لگے اور سلف کا نام لے کر سلف کی محتاط تعبیر سے انحراف کرنے لگے جس کی وجہ سے خواہ مخواہ امت میں انتشار پیدا ہوا اور بالکل بلاوجہ آپس میں تفسیق وتضلیل کا بازار گرم ہوا جو عدل و انصاف اور احتیاط سے بعید اور سراسر نادانی ہے ! اتنے نازک موضوع کو عوام میں اٹھانا اور اس کی بنیاد پر فتنہ انگیزی کرنا ہرگز قابلِ قبول نہیں ہے اللہ تعالیٰ پوری امت کو ہدایت پر استقامت عطا فرمائیں اور ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھیں ، آمین !
(جاری ہے)




قطب الاقطاب شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php




تحقیق مسئلہ ایصالِ ثواب قسط : ١
( حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رحمة اللہ علیہ )
٭٭٭
سلف ِامت کے متفقہ مسائل سے انکار اور ائمہ سابقین کی اجتماعی تحقیقات سے بھی اختلاف کرنا زمانہ ٔحال کے ''نئے محققین'' اور نئی روشنی کے ''مجتہدین'' کا فیشن سا ہوگیا ہے ! اس مہلک علمی بیماری کا (جو روز بروز عام ہوتی جارہی ہے) سب سے بڑا اور خطرناک ضرریہ ہے کہ اس نے دین کے عملی نظام کے بہت بڑے حصے کے متعلق ناواقفوں کے ایک وسیع طبقہ کو سخت شکوک وشبہات میں مبتلا کر کے بہت سے مسلمہ مسائل پر بھی از سرِنو بحث واستدلال کی ضرورت پیدا کردی ہے۔ اسی سلسلہ کی کڑی ایک یہ مسئلہ بھی ہے کہ
''انسان کے مرنے کے بعد کسی دوسرے زندہ شخص کی سعی سے اس کو کوئی نفع اور کسی نیک عمل کا ثواب بخشنے سے، بالخصوص اس کے لیے صدقہ وغیرہ کرنے سے کچھ ثواب اس کو پہنچ سکتا ہے یا نہیں ؟ ''
یہ مسئلہ اگرچہ جمہور امت کے نزدیک مسلم بلکہ معمول بنارہا ہے اور تفصیلات وجزئیات کے بعض معمولی اختلافات کے باوجود اس پر ائمہ امت کا خَلْفًا عَنْ سَلَفٍ اتفاق اور اجماع رہا ہے کہ
''زندوں کے دعا و استغفار سے اور موتیٰ کے لیے صدقات وغیرہ کرنے سے مردوں کو نفع ہوتا اور ثواب پہنچتا ہے ''
حاملانِ دین کے تمام وہ طبقے جن کی وساطت سے علمِ دین کی امانت ہم تک پہنچی ہے یعنی فقہا ومجتہدین اور محدثین ومفسرین سب ہی اس کے قائل ہیں اور اپنے نزدیک قابلِ اتباع دلائل و براہین کی بنیاد پر قائل ہیں (جیسا کہ مختلف مکاتب ِخیال کی قدیم وجدید فقہی کتابوں اور دفاتر ِ آثار وروایات سے معلوم ہوتا ہے) لیکن ہمارے زمانے کے بعض حضرات کو اس سے انکار ہے اور اس انکار میں زیادہ حصہ ان لوگوں کا ہے جن کو حدیث کے حجت ِدینی ہونے پر یقین واعتماد نہیں ہے ! اس خیال کے جن مختلف حضرات کی باتیں سننے کا راقم کو اتفاق ہوا ہے ان سب ہی کی زبانوں سے استدلال میں قرآنِ مجید کی وہ آیتیں سننے میں آئیں جن میں اس اصول کو مختلف عنوانات سے واضح کیا گیا ہے کہ
''انسان کو اپنے ہی کیے کا بدلہ ملے گا اور جزا وسزا کا دارومدار اس کے اپنے ہی کردار پر ہوگا '' مثلاً
( لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعٰی ) ( کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَھِیْنَة )
( کُلُّ اَمْرٍ بِمَا کَسَبَ رَھِیْن ) ( ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ )
( لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَاکْتَسَبَتْ)
( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْھَا )
اس قسم کی آیات سے مغالطہ کھانے یا مغالطہ دینے کے علاوہ ان حضرات کے کچھ اور اپنے دماغوں کے بافیدہ خیالات بھی ہیں جن کو کبھی کبھی ''درایت ِ قرآنیہ'' کے پُرشکوہ اور مرعوب کن عنوانات سے یہ حضرات پیش کرتے ہیں ١
یہ مقالہ جو ان صفحات میں ہدیۂ ناظرین کیا جارہا ہے اسی مسئلہ کی توضیح وتقریر سے متعلق ہے اور غرض اس سے صرف اس چیز کو واضح کرکے پیش کردینا ہے جس کو یہ عاجز دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں حق سمجھتا ہے ( وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَھُوَ یَھْدِی السَّبِیْل )
یہاں یہ چیز بھی صفائی کے ساتھ عرض کردینی ضروری ہے کہ میں اس باب میں صرف اتنی ہی چیز کا قائل اور اسی قدر کا حامی ہوں جتنا کہ اصولی طورپر دلائلِ شرعیہ سے ثابت ہے، باقی صدیوں سے اس بارے میں جو غلو ہورہا ہے اور عملاً اوّل درجہ کی اہمیت کا جو مقام اس مسئلہ کو دے دیا گیا ہے (کہ صرف عوام ہی میں نہیں بلکہ بہت سے خواص کالعوام میں بھی فرائض وواجبات سے بھی زیادہ اس کا اہتمام کیا جاتا ہے) تو یقینا وہ میرے نزدیک بھی قابلِ انکار ہے ! اس کے علاوہ تیجی سے لے کر ہرسال کی برسی تک رسموں کا جو لا متناہی سلسلہ ایصالِ ثواب کے ماتحت ایجاد کیا گیا ہے اور جس طرح
ان رسموں کی ادائیگی ہوتی ہے، یہ سب تو بلا شبہ از قبیلہ ٔ بدعات وخرافات ہے ! اس کا دین ومذہب سے کیا تعلق ؟ بلکہ دین کے سر اِن لغویات کو منڈھنا اپنی جہالت اور دین کے ساتھ سخت بدخواہی ہے !
بہرحال اس مقالہ کی تحریر سے میری غرض ائمہ امت کے متفقہ صرف اس اصولی مسئلہ ہی کی تائید وحمایت ہے کہ
''زندوں کی کوششوں سے مردوں کو نفع پہنچ سکتا ہے اور ''ایصالِ ثواب'' کا نظریہ حق وثابت ہے''
مسئلہ کے مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے اس مقالہ کو سات بحثوں پر تقسیم کردیا گیا ہے حضرات ِ منکرین کے خیالات واستدلات پر بحث آخری مبحث میں کی گئی ہے !
( وَمَآ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِا للّٰہِ )
مبحَث اوّل
٭٭٭
دعا و استغفار برائے اموات :
زندوں کے جن مساعی اور اعمال سے مردوں کو نفع پہنچنا وثائق ِدینیہ سے ثابت ہے ان میں سے ایک ''دعا و استغفار'' ہے ! اس کا غیر مشکوک ثبوت بے شمار احادیث کے علاوہ خود قرآنِ مجید سے بھی ملتا ہے ایک جگہ اولاد کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے حق میں اس طرح دعا کرے
( رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ) ( سُورة بنی اسرائیل : ٢٤ )
''اے پروردگار میرے ماں باپ پر رحمت فرماجیساکہ انہوں نے مجھے بچپنے میں پالا پوسا''
اور سورہ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی یہ دعا ہم کو سنائی گئی ہے
( رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَا لِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ) ١
''میرے مالک مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو بھی ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہیں ان کو اور سارے ہی مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے''
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بھی یہ دعا قرآنِ مجید ہی میں نقل فرمائی گئی ہے
( رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَا لِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ) ( سُورة ابراہیم : ٤١ )
١ سُورۂ نوح : ٢٨
''خدا وندا ! مجھے اور میرے باپ کو اور سارے مومنوں کو بخش دینا جس دن کو حساب قائم ہو''
ظاہر ہے کہ ان آیتوں کے لفظ ''مومنین ومومنات'' میں زندے مردے اگلے پچھلے سب ہی اہلِ ایمان داخل ہیں اور سورہ محمد میں خود رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو خصوصی خطاب کر کے ارشاد ہوا ہے
( وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ) ( سُورہ محمد : ١٩ )
''اور اللہ سے بخشش چاہو اپنی تقصیر کی اور ایمان والوں کے لیے اور ایمان والیوں کے لیے''
اور سورۂ حشر میں ''سابقین اوّلین من المہاجرین والانصار'' کے بعد میں آنے والے ان مسلمانوں کی بڑی قدر افزائی کے ساتھ مدح کی گئی ہے جو مومنین سابقین کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں ارشاد ہے
( وَالَّذِیْنَ جَآؤُ مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوُنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ
سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ) ( سُورة الحشر : ١٠ )
''اور وہ مسلمان جو آویں ان کے بعد کہتے ہوں کہ اے ہمارے رب بخش دے ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے آگے گئے ایمان کے ساتھ''
اور سورۂ مومن میں عرشِ الٰہی کے حامل فرشتوں اور اسی مقام قرب کے دوسرے ملائکہ کے متعلق اطلاع دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی تسبیح وتحمید کے ساتھ تمام مومنین توابین اور ان کے آباء صالحین اور ازواج وذرّیات تک کے لیے اللہ سے مغفرت و رحمت کی دعائیں اور جہنم سے بچانے اور جنت میں داخل کرنے کی التجائیں کرتے رہتے ہیں ارشاد ہے
( اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ یُؤْمِنُوْنَ بِہ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ رَبَّنَا وَ اَدْخِلْھُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّھُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبٰآئِھِمْ وَ اَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ ) ١
١ سُورہ مومن : ٧
''جو فرشتے کہ عرش کے حامل ہیں اور جو اس کے گرد رہتے ہیں وہ رب کی تسبیح وحمد کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں کہ اے رب ہمارے تیرا علم اور تیری رحمت ہر چیز کو محیط ہے پس تیرے جن بندوں نے تیری طرف رُخ کر لیا ہے اور تیری راہ کو اختیار کیا ہے ان کو تو بخش دے، دوزخ کے عذاب سے ان کو بچا اور جن جناتِ عالیہ کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے ان میں ان کو داخل فرما اور ان کے آباؤ اجداد اور ازواج وذرّیات میں سے جو صالح ہیں ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ فرمایا تو عزیز ہے حکیم ہے ''
ان آیات سے تمام اہل ایمان کے لیے (خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ) دعا و استغفار کا ثبوت کسی تقریر وتشریح کا محتاج نہیں بلکہ پہلی آیت سے تو دعا واستغفار کا صرف ثبوت ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ خاص کر والدین کے حق میں اس کا منجانب اللہ مامور ہونا بھی معلوم ہو رہا ہے !
دوسری اور تیسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کے تمام مومنین کے لیے استغفار سیّدنا نوح وابراہیم علیہم السلام جیسے پیغمبروں کی سنت ہے !
چوتھی آیت میں خود رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کو تمام اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کرنے کا حکم ہے !
پانچویں آیت سے ظاہر ہے کہ اپنے سے آگے جانے والے اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے یہاں خاص امتیاز حاصل ہے !
اور چھٹی آیت کا مفادیہ ہے کہ مومنین صالحین کے لیے مغفرت ورحمت کی دعا حاملانِ عرش کا بھی مشغلہ اور تسبیح وتحمید کی طرح گویا وظیفہ ہے !
اور چونکہ یہ چیز ان آیات ِ قرآنیہ سے صراحتاً ثابت ہے اس لیے مسئلہ ''وصولِ ثواب'' سے انکار کرنے والے وہ حضرات بھی جو اس مقالہ کے خصوصی مخاطب ہوسکتے ہیں ''دعا و استغفار للاموات'' کے عموماً قائل ہی ملے ! البتہ صرف ایک صاحب ایسے ملے جو ان آیات کی بناپر ''دعا واستغفار'' کے تو قائل ہیں لیکن اسی کے ساتھ ان کا خیال ہے کہ اس کا فائدہ صرف دعا یا استغفار کرنے والوں ہی کو ہوگا گویا ان کے نزدیک یہ دعا واستغفار ، نماز یا تلاوتِ قرآن یا ذکر اللہ کی طرح ایک مستقل عبادت ہے جس کا ثواب اس کے کرنے والے کو ہی ہوگا اور جس کے لیے دعا یا مغفرت ورحمت کی التجا کی جائے اس کو اس سے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا کیونکہ یہ ان کے نزدیک ( لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعٰی ) جیسی آیات کے خلاف ہے ! ١
اللہ اکبر ! ایک غلطی پر اصرار اور جمود آدمی سے کیسی بڑی سے بڑی غلطیاں کرا دیتا ہے ؟ ! ان حضرات نے ( لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاسَعٰی ) کے اپنی ذاتی رائے کے مطابق ایک غلط معنیٰ معین کررکھے ہیں ، اب اس کے خلاف قرآن و حدیث میں جو کچھ ان کو ملتا ہے بجائے اس کے کہ اس کی روشنی میں یہ اپنی غلط فہمی کی اصلاح کریں اس کی ایسی رکیک اور غیر معقول تاویلیں کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو بداہت ِعقل کے بھی خلاف ہوں ! ان کی ''روشن عقلیں '' اس لغو اور غیر معقول بات کو مان لینے کے لیے تو تیار ہوگئی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی وہ یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ قرآنی آیات میں دوسرے اہلِ ایمان کے لیے دعا واستغفار کا جہاں جہاں ذکر آیا ہے اس سے مراد بس دعا واستغفار کا وظیفہ پڑھنا ہے اور اس کا مقصد خود اپنے لیے وظیفہ خوانی کا ثواب خاص حاصل کرنا ہی ہوتا ہے اور جن بے چاروں کے لیے ان دعاؤں میں مغفرت و رحمت بظاہر مانگی جاتی ہے ان کو اس سے کچھ بھی نفع نہیں ہوتا بلکہ نہیں ہوسکتا اور نہ وہ ملحوظ ہی ہوتا ہے، گویا جو کچھ اس دعا و استغفار کے موقع پر لفظوں میں کہا جاتا اور اللہ پاک سے مانگا جاتا ہے درحقیقت وہ مطلوب نہیں ہوتا بلکہ مقصود صرف اس ''وظیفہ دعائیہ و استغفاریہ'' کا ثواب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اپنی غلط رائے پر بے جا اصرار کر کے بد نتیجہ کی غالباً یہ بدترین مثال ہے کہ اپنے خیالات ومذعومات سے نہ ہٹنے کے لیے آدمی اللہ پاک کی طرف ایسی غیر معقول بات منسوب کرنے کی جرات کرنے لگے ( سُبْحَانَہ وَ تَعَالٰی عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا ) ٢
١ سُورة النجم : ٣٩ ٢ سُورة بنی اسرائیل : ٤٣
ایسے ہٹ دھرموں کو یقینا ہزار ولیوں سے بھی مطمئن نہیں کیا جاسکتا اِلا یہ کہ خدا ان ہی کو ایسی توفیق دے کہ اپنے اس روّیہ پر وہ خود ہی غور کریں ، لیکن جو حضرات اپنی رائے اور اپنی ہوا کے بجائے اللہ اور رسول کی ہدایت کے اتباع ہی کو اپنا دستور بنائے ہوئے ہیں ، یہ آیات ان کے اندر اس بات کا یقین پیدا کرنے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ اہلِ ایمان کے لیے ان کے مرنے کے بعد بھی مغفرت ورحمت کی دعائیں اور التجائیں اللہ پاک سے کرنا عنداللہ ایک محمود اور مطلوب عمل اور گزرجانے والوں کے ساتھ احسان وہمدردی کی یہ ایک پسندیدہ شکل ہے جس سے ان ''رفتگان'' کو ان شاء اللہ بہت کچھ نفع ہوسکتا ہے
قرآنِ پاک کی ان آیاتِ بینہ کے علاوہ نمازِ جنازہ میں اموات کے لیے دعا واستغفار کرنا اور بعد دفن قبر پر، اور اس کے بعد بھی اوقاتِ مختلفہ میں بالخصوص قبرستان پر گزرتے ہوئے اہلِ قبور کے لیے مغفرت ورحمت کی دعا مانگنا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم سے تعلیماً وعملاً بتواتر قطعی ثابت ہے (جس کی روایات اگر جمع کی جائیں تو یقینا سینکڑوں سے متجاوز ہوں گی ١ ) اور عہد ِرسالت سے آج تک طبقتہً بعد طبقتہٍ ساری امت کا اس پر عمل بھی رہا ہے غور فرمایا جائے کہ کسی مسئلہ کے حق وثابت عنداللہ ہونے کا اس سے بڑا معیار اور کیا ہوسکتا ہے ؟
(جاری ہے)
١ حافظ ابن قیم ''کتاب الروح'' میں اس باب کی چند احادیث صحاح سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
وَدُعَائُ النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم للِْاَمْوَاتِ فِعْلًا وَ تَعلیمًا وَ دُعَائُ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِیْنَ وَ الْمُسْلِمِیْنَ عَصْرًا بَعْدَ عَصْرٍ اَکْثَرُ مِنْ اَنْ یُّذْکَرَ وَ اَشْھَرُ مِنْ اَنْ یُّنْکَرَ ( کتاب الروح ص ١٩١ )
اور '' اموات'' کے لیے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا دعا فرمانا اور امت کو اس کی تعلیم دینا اور علیٰ ہذا صحابہ وتابعین اور بعد کے مسلمانوں کا اپنے اپنے زمانہ میں اموات کے لیے دعا واستغفار کرنا اتنی کثرت سے منقول ہے کہ بیان میں نہیں آسکتا اور اس کی شہرت اتنی عام ہے کہ کوئی منکر معاند اس کا انکار بھی نہیں کرسکتا''




ماہِ صفر اور نحوست سے متعلق نبوی ہدایات
٭٭٭
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَا عَدْ وٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا ھَامَةَ وَلَا صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ۔ ١
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک کی بیماری کا (اللہ کے حکم کے بغیر خود بخود ) دوسرے کو لگ جانا ، بدفالی اورنحوست اورصفر(کی نحوست وغیرہ )یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں اور مجذوم (کوڑھی ) شخص سے اس طرح بچو اور پرہیز کرو جس طرح شیر سے بچتے ہو''
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوٰی وَلَا ھَامَةَ وَلَا نَوْئَ وَلَا صَفَرَ ۔ ٢
''حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مرض کا (خود بخود بغیر حکمِ اِلٰہی کے) دُوسرے کو لگ جانا ، اُلّو، ستارہ اور صفر (کی نحوست وغیرہ ) کی کوئی حقیقت نہیں (وہم پرستی کی باتیں ہیں )''
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَاعَدْوٰی وَلَا غَوْلَ وَلَا صَفَرَ ۔ ٣
'' حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ مرض کا (خود بخود) لگ جانا اورغولِ بیابانی اورصفر( کی نحوست) کی کوئی حقیقت نہیں ''
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ اَلْعِیَافَةُ وَالطِّیَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ۔ ٤
١ صحیح البخاری ٢ صحیح مسلم ، ابوداود ٣ صحیح مسلم ٤ ابوداود ، ابنِ ماجہ ، احمد
''رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ پرندوں کی بولی ،اُن کے اُڑنے (یااُن کے نام) سے فال لینا اور کنکری پھینک کر (یا خط کھینچ کر)حال معلوم کرنا شیطانی کام (یا جادُو کی قسم ) ہے ''
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْ تُطُیِّرَلَہ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکِھَّنَ لَہ اَوْ سَحَرَ اَوْسُحِّرَ لَہ وَمَنْ اَتٰی کَاھِنًا فَصَدَّقَہ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ ۔ ( مُسند بزار)
'' رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو خود بُری فال (بدشگونی ) لے یا جس کے لیے بُری فال لی جائے یا جو خود کہانت کرائے یا جس کے لیے کہانت کرائی جائے یا جو خود جادُو کرے یا جس کے لیے جادُو کیا جائے ، اور جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اُس کی باتوں کی تصدیق کی تواُس نے محمد صلی اللہ عليہ وسلم پر نازل شدہ چیز (قرآن وشریعت ) کا (ایک طرح سے )کفر کیا''




جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی امور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے




ربیع الاوّل ، اُسوہ ٔ رسول اور ہمارا طرزِعمل
( مولانا نورالحق فیض صاحب زوبی ، فاضل جامعہ العلوم الاسلامیہ کراچی )
٭٭٭
محسن ِکائنات کی بعثت سے قبل رُوئے زمین پر سچے اور صحیح عقیدے کا کہیں وجود نہ تھا ! توحید کی روشنی دم توڑگئی تھی ! فتنوں کے طوفان میں حسنِ اخلاق کا چراغ بجھ گیا تھا ! بد اخلاقی عروج پر تھی، دنیا حقوق العباد کا درس بھلا چکی تھی ! حسنِ معاشرت عنقاء ہوگیا تھا، غرض دنیا کے حالات اس بات کی متقاضی تھے کہ کوئی مصلح اعظم، معلم ِاخلاق ہو جو دنیا کو گمراہی و بداخلاقی کے دلدل سے نکال کر راہِ راست پر لائے ! تو رب ِ کائنات نے حضرت محمد صلی اللہ عليہ وسلم کو دنیا کے حالات بدلنے اور انسانوں کو صراطِ مستقیم پر لانے کے لیے مبعوث فرمایا ! آپ نے کرۂ ارض پر توحید کے چراغ روشن کیے تمام انسانوں کو کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے جھنڈے تلے جمع کیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے جو ہر قسم کی جہالت اور گمراہی میں گھری ہوئی تھی، تعلیم دے کر ان کے ظلم وستم وتعدی کو عدل وانصاف سے اور ان کی خشونت اور درشت مزاجی کو حلم اور بردباری سے ! اور ان کی جہالت کو علم ومعرفت سے ! اور ان کی باہمی بغض اور عداوت کو محبت ا ور اُلفت سے ! اور ان کی شقاوت اور ضلالت کو سعادت اور ہدایت سے ! اور ان کی عصیان کو اطاعت سے ! اور تفرق وتشنت کو اجتماع سے ! ضعف کو قوت سے ! خیانت کو امانت سے ! اور فحش وبے حیائی کو غیرت وعفت سے ! اور احسان سے رزائل کو شمائل سے بدل دیا ! اور علوم الٰہیات اور علوم ِ نبوت، علوم معاشرت اور علومِ معاش ومعاد اور علومِ اخلاق اور علومِ عبادت، عجم معاملات ،علوم سیاست ملکیہ ومدنیہ میں رشکِ افلاطون اور اُستاد حکمائے عالم بنادیا۔
انسانوں سے لے کر حیوانوں تک کے حقوق کو متعین کیا ! انسانوں کو گمراہی کی وادی سے نکال کر ہدایت کی شفاف راہ پر لائے ! انہیں قرآن و سنت کی اتباع کا حکم دیا ! اُمت کو بتایا کہ اسلام کے ماسوا ہر راہ گمراہی کی ہے اور بارگاہِ خداوند ہی میں خشوع وخضوع، رکوع وسجود اور سوال مغفرت ورحمت اور توبہ واَنابت کے وہ طریقے بتائے کہ جن کا نہ کسی آسمانی کتاب میں پتہ ہے اور نہ زمینی کتاب میں ! ! !
شریعت ِمحمدیہ نے مکارمِ اخلاق کی ایسی تکمیل اور تتمیم کی کہ کوئی ظاہری وباطنی خلق، حسن اور خصلت ِمحمودہ ایسی نہ چھوڑی جس کی تاکید اکید نہ کی ہوجیسے حِلم و صبر، رضا وتسلیم، زُہدو قناعت، اخلاص و توکل، حب ِالٰہی اور اشتیاقِ لقائے خداوندی، ذکر اور شکر، فقر اء و مساکین کے ساتھ احسان اور مواسات، ارباب ِ دنیا سے احتراز واجتناب، اکابر کی توقیر و تکریم اور اصاغر پر شفقت اور ترحم ! وعلیٰ ہذہ الاخلاقِ ذمیمہ میں سے کوئی ظاہری وباطنی خلق رذیل ایسا نہیں چھوڑا جس کے ترک کی تاکید اور اس کے ارتکاب پر تہدید اور وعید ِشدید نہ کی ہوجیسے کبرو حسد اور حب ِ مال اور حب ِجاہ ! !
بنابریں دین اسلام لوگوں کے دلوں میں رچ بس گیا اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر مرمٹنے کے لیے تیار ہوگئے۔ حضوراکرم صلی اللہ عليہ وسلم کی بتلائی ہوئی راہ ان کے لیے فلاحِ دارین کی راہ بن گئی ! !
لیکن آج معاملہ اس کے برعکس ہے، لوگ دین ِاسلام سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ! خاندانی و علاقائی رسم و رواج کے بندھن میں بند ہوتے چلے جارہے ہیں ! دین کے نام پر مختلف قسم کی رسومات نے جڑیں گاڑھ لی ہیں ! حسنِ اخلاق کا آفتاب اوجھل ہوتے دکھائی دے رہا ہے، دوسروں کو اذیت دینے کا منحوس چرخہ مسلسل گھوم رہا ہے خصوصاً وہ مہینہ جو ہمارے لیے خوشی کا باعث تھا جس ماہ میں نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تھے جس کے بعد غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی تھیں ، دوسروں کو تکلیف دینے کا دروازہ بند ہوگیا تھا ،جس کے بعد مسلم اُمت اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگئی تھی، اَلْمُؤْمِنُوْنَ کَجَسَدٍ وَّاحِدٍ کی تصویر واضح تھی۔
لیکن افسوس صد افسوس ! آج اسی مہینے میں سب سے زیادہ بے دینی ہوتی ہے، یہی مہینہ سب سے زیادہ تکلیف دہ واَفسردہ ہے ! عشقِ رسول کے نام پر دوسروں کا جینا حرام کردیا گیا، حب النبی کے خوبصورت نعرے کی آڑ میں اپنے من کی شرارت کی جارہی ہے، وہ بازار جو ابغض جگہ تھی، آج وہاں عشق رسولِ کے نام پر مخلوط بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں ! آپ جس موسیقی کو ختم کرنے کے لیے تشریف لائے تھے آج اسی موسیقی کو میلاد ِرسول کے نام سے پروگرام میں پوری ڈھٹائی سے عام کیا جارہا ہے ! نعت گوئی گویا ڈھول باجوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے ! موسیقی تو موسیقی ہے یہاں تو کلمات ِ مقدسہ کی بے حرمتی کا بازار بھی عروج پر ہے ! ربیع الاوّل میں بینرر لگائے جاتے ہیں جن پر نعلین ِمبارک اور کلمہ اور درود لکھا ہوتا ہے ،ہوائیں اسے اُڑاتی ہیں اور وہ تار تار ہوجاتے ہیں ، گٹروں میں گرجاتے ہیں جہاں ان کی جھاڑئیں بنالی جاتی ہیں ! اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے نام کی بڑی بے حرمتی ہوتی ہے اور ہزاروں لاکھوں روپے نالوں میں بہہ جاتا ہے ! ! !
بس ہر طرف نافرمانی اور چیخ و پکار ہے ! نہ کسی مریض کی فکر ! اور نہ کسی مجبور کا غم ! بس ہم تو ٹھہرائے عاشقِ رسول یا للعجب ! یہ کیسا عشق ہے بھلا !
کیا یہ اسوہ ٔ رسول ہے ؟ ؟ کیا یہ عشق نبی ہے ؟ ؟ کیا یہ دین ِشریعت ہے ؟ ؟ کیا خیرالقرون کا ربیع الاوّل بھی ایسا تھا ؟ نہیں ! نہیں ! ہرگز نہیں تھا ! ! !
تو خدارا اب ہمیں ان حماقتوں سے باز آجانا چاہیے ! ہمیں اپنی زندگی کو اسوۂ رسول کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے ! اور مومن کا ہر لمحہ ربیع الاوّل ہونا چاہیے چنانچہ ہم حوضِ کوثر کے طلبگار اور شفاعت ِ محمد صلی اللہ عليہ وسلم کے امیدوار ! ! نبی کے قدم بقدم چلتے ہوئے ان تمام چیزوں کو چھوڑنا چاہیے جو نبی کے طریقے پر نہیں کیونکہ جامِ کوثر ان ہی امتیوں کو ملے گا جو آپ کی اتباع کرتے ہیں ! !
یاد رکھیے ! سنت ایک نور ہے ! بدعت ایک ظلمت ہے ! ہم نور کے ساتھی ہیں ، ظلمت تو کافروں کے لیے ہے ! ! !




امیرجمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
١٧ جولائی کو ڈیرہ اسماعیل خان سے حاجی غلام مصطفی صاحب جامعہ مدنیہ جدید تشریف لائے اور امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم سے ملاقات کی ، رات کا کھانا حضرت کے ساتھ تناول فرمایا بعد ازاں واپس تشریف لے گئے۔
٢٢ جولائی کو جمعیة علماء اسلام کے ناظم انتخابات لاہور مولانا محمد حسین صاحب کی دعوت پر حضرت صاحب جمعیة کی رکنیت سازی مہم کے سلسلہ میں لبرٹی چوک تشریف لے گئے اس موقع پر صوبائی ناظم انتخابات جناب نورخان ہانس صاحب ایڈووکیٹ ، جناب حافظ نصیر صاحب احرار اور حافظ غضنفر عزیز صاحب بھی موجود تھے ۔
٢٥ جولائی کو امیر جے یو آئی پنجاب ، قطر سے تشریف لائے ہوئے حضرت کے پرانے رفیق ملتان کے حضرت مولانا سعید الرحمن صاحب کی عشائیہ کی دعوت پر شام ساڑھے پانچ بجے جامعہ مدنیہ جدید سے ملتان کے لیے روانہ ہوئے ،اس موقع پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا قاری محمد حنیف صاحب جالندھری ، شیخ الحدیث بابُ العلوم کہروڑپکا حضرت مولانا منیر احمد صاحب منور اور مجلس احرار پاکستان کے حضرت مولانا سید کفیل شاہ صاحب بخاری مدظلہم و دیگر حضرات شریک تھے۔
رات گیارہ بجے حضرت صاحب لاہور کے لیے روانہ ہوئے اور رات تین بجے بخیریت جامعہ پہنچے والحمد للہ




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560




عالمی خبریں
٭٭٭
سائنسی خطا
٭٭٭
1582 ء میں 4 اکتوبر کے بعد 15 اکتوبر آنے کی وجہ گریگورین کیلنڈر کی اصلاحات تھیں ! اس وقت پوپ گریگوری XIIIنے جیولین کیلنڈر کی جگہ گریگورین کیلنڈر متعارف کرایا تاکہ موسم اور کیلنڈر میں ہم آہنگی برقرار رکھی جا سکے
جیولین کیلنڈر 45قبل مسیح میں جولیس سیزر کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا لیکن اس میں ایک چھوٹا سا فرق تھا !
یہ کیلنڈر ہر سال کو 365.25 دنوں پر مشتمل سمجھتا تھا جبکہ اصل میں ایک سال 365.2422 دن کا ہوتا ہے اس فرق کی وجہ سے جولیئن کیلنڈر ہر 128سال میں ایک دن کی غلطی پیدا کر رہا تھا !
1582 تک یہ غلطی تقریباً 10دن کی ہو چکی تھی۔ پوپ گریگوری XIII نے اس غلطی کو دور کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ4 اکتوبر1582 کے بعد کا دن15 اکتوبر 1582 ہوگا ! اس طرح جیولین کیلنڈر سے گریگورئین کیلنڈر کی طرف منتقلی ممکن ہو سکی !
اس کے بعد گریگورین کیلنڈر نے جیولین کیلنڈر کی جگہ لے لی اور آج بھی زیادہ تر دنیا اسی کیلنڈر کو استعمال کرتی ہے !
موبائل فون اور دیگر جدید آلات میں تاریخیں صحیح ہوتی ہیں کیونکہ یہ گریگورین کیلنڈر کے مطابق ہوتی ہیں ، جو اب بھی درست ہے اس لیے ہمارے موبائل میں تاریخیں غلط نہیں ہیں بلکہ یہ تاریخی اصلاحات کی بنا پر صحیح ہیں !
(ماخوذ از سوشل میڈیا )




کعبہ کے بغیر دنیا رک جائے گی : نئی تحقیق
(اس تحقیق کے ہر جزئیے سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں )
٭٭٭
جکارتہ (یو این آئی)نئی تحقیق کے مطابق کعبہ کے بغیر دنیا رک جائے گی کیونکہ زمین کی گردش طواف خانہ کعبہ اور نماز کی ادائیگی کی وجہ سے ہے ۔ ایک انڈونیشین ویب سائٹ نے کعبة اللہ اور اس میں نصب حجر اسود کے حوالے سے پندرہ یونیورسٹیوں کی ہونے والی اجتماعی تحقیق کی رپورٹ پر مبنی امریکی پروفیسر لارنس ای یوزف کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کعبہ کے بغیر دنیا رک سکتی ہے اگر مسلمان طواف کعبہ چھوڑ دیں یا نماز کی ادائیگی نہ کریں تو یقینا ہماری زمین کی گردش رک جائے گی کیونکہ حجراسود پر مرکوز سپر موصل کی گردش برقی مقناطیسی لہریں نہیں بکھیرے گی !
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پندرہ یونیورسٹیوں کی تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ حجراسود ایک الکا ہے جس میں دھات کی مقدار بہت زیادہ ہے جو کہ موجودہ اسٹیل سے تئیس ہزار گنا زیادہ ہے ۔ کچھ خلا باز جنہوں نے زمین سے نکلتی ہوئی انتہائی روشن روشنی کو دیکھا اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ وہ روشنی کعبہ سے نکلتی ہے !
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ حجراسود سپر کنڈکٹر ہے جو ایک مائیکروفون کی طرح کام کرتاہے جو ان لہروں کو ہزار میل دور تک پہنچاتا ہے ۔ پروفیسر لارنس یوزف نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں یہ خاص نوٹ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کا ہم پر واقعی ایک بہت بڑا قرض ہے کہ طواف کعبہ اور نمازیں زمین کی حرکت کے لیے سپر موصل کو برقرار رکھتی ہیں ۔ واضح رہے کہ خانہ کعبہ دنیا کی وہ واحد عبادت گاہ ہے جہاں سال میں ایک لمحہ کے لیے بھی طواف نہیں رکتا ہے جبکہ مسلمان دن میں پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور سورج کی گردش کے باعث دن کے ہر لمحہ میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں اذان اور نماز کی ادائیگی کی جارہی ہوتی ہے ۔
(ماخوذ از سوشل میڈیا )




وفیات
٭٭٭
٭ ٢٩ جون کو جمعیة علماء اسلام ضلع جعفر آباد کے سرپرست اعلیٰ جناب میر محمد اسلم صاحب عمرانی ڈیرہ مراد جمالی کے قریب نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے شہید ہوگئے۔
٭ یکم محرم الحرام ١٤٤٦ھ / ٨ جولائی ٢٠٢٤ء کو جامعہ مدنیہ جدید کے ناظم ڈاکٹر محمد امجد صاحب کی خالہ طویل علالت کے بعد دہلی ہندوستان میں انتقال فرماگئیں ۔
٭ ٢٣ جولائی کو جامعہ مدنیہ جدید کے معاون ناظم مولانا محمد عامر اخلاق صاحب کے ماموں طویل علالت کے بعد کوٹ عبدالمالک میں وفات پاگئے۔
٭ ١٨ محرم الحرام ١٤٤٦ھ/٢٥ جولائی ٢٠٢٤ء کو مولانا سید حسان میاں صاحب کے ماموں محترم حافظ سید اختر صاحب دہلی ہندوستان میں انتقال فرما گئے۔
٭ ١٨ محرم الحرام ١٤٤٦ھ /٢٥ جولائی ٢٠٢٤ء کو جامعہ مدنیہ لاہور کے شعبہ تجوید کے صدر مدرس حضرت مولانا قاری محمد ادریس صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ اچانک انتقال فرما گئیں ۔
٭ ٢١ محرم الحرام ١٤٤٦ھ /٢٧ جولائی ٢٠٢٤ء بروز ہفتہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب کے ماموں محترم شوکت عمر صاحب مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال فرماگئے ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔




جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ! جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دعائوں اور تعاون سے ہوگی، اس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواقارب کو بھی ترغیب دیجیے ! ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی،حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں !
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے لیے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923234250027+ 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکائونٹ نمبر (0095402010079142) MCBکریم پارک برانچ لاہور

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.