Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

اگست‬ 2023

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوا ر مدینہ
جلد : ٣١
محرم الحرام ١٤٤٥ھ / اگست ٢٠٢٣ء
شمارہ : ٨
سیّد محمود میاں
مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں
نائب مُدیر
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
E-mail: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 0333 - 4249302
جازکیش نمبر : 0304 - 4587751
جامعہ مدنیہ جدید : 042 - 35399051
خانقاہ ِحامدیہ : 042 - 35399052
موبائل : 0333 - 4249301
موبائل : 0335 - 4249302
موبائل : 0323 - 4250027
دارُالافتاء : 0321 - 4790560
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز
٤
درسِ حدیث
حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب
٦
یَثْرِبْ مدینةُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب
١٠
تربیت ِ اولاد ( قسط : ٥ )
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی
٢١
رحمن کے خاص بندے ( قسط : ١٦ )
حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری
٢٦
میرے حضرت مدنی (قسط : ١ )
حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی
٣٣
روشنی کا مینار ... قرآنِ پاک یا کالی ٹائی اور کالا کوٹ ؟
قرآن اور ناموسِ رسالت کی اِہانت کا سبب اور اسکا علاج
حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب
٤٤
عمار خان ناصر صاحب اور اُن کے ہم نوا حضرات کی خدمت میں چند گزارشات !
مولانا محمد اسحاق صاحب الہندی
٥٣
ماہِ صفر اور نحوست سے متعلق نبوی ہدایات
٦١
اخبار الجامعہ
٦٣
وفیات
٦٤

حرف آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
قرآن اللہ کی کتاب ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) رسول ُ اللہ ہیں ! قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ اَلفاظ ومعانی ہیں اور حضرت محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اُن اَلفاظ ومعانی کی عملی تصویر ہیں ! عالمی کفر اِن ہر دو مقدسات کو نشانہ پر لیے ہوئے ہر حد پار کرتا چلا جارہاہے ! جبکہ عالمِ اسلام کی بڑی اکثریت بے حسی کا شکار ہے اور ایمانی غیرت برائے نام ہے !
ان کے حکمرانوں کی بڑی اکثریت نفاق میں مبتلا ہے ! جبکہ عوام الناس مذہبی تعلیم وتربیت نہ ہونے کی وجہ سے لالچ، فریب، جھوٹ، ملاوٹ وجعل سازی کو ہنر کے طور پر اِختیار کیے ہوئے ہیں !
اس ظاہری وباطنی خبث کا نتیجہ ہے کہ کفار کے دلوں سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا رُعب نکال دیا ہے اور مسلمانوں کو دنیا کی محبت اور موت کے خوف میں مبتلا کردیا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ باوجود اسلحہ اور فوجیں تو بہت کچھ بنا ڈالی ہیں مگر جہاد کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے ! ! ان کی اس گئی گزری حالت کا کفار کو خوب اندازہ ہے اسی لیے آئے دن وہ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی اِہانت کا اِرتکاب کرتے چلے جارہے ہیں ! ! !
عالمِ اسلام جب تک جذبۂ جہاد سے پوری طرح سرشار ہوکر اپنی سیاسی ، معاشی، تجارتی روِش کو ایک آزاد قوم کی حیثیت سے لے کر آگے نہیں بڑھتا تب تک یہودونصاریٰ اورہنود اپنی خسیس حرکات سے باز آنے والے نہیں ہیں ،یہ اَزلی لاتوں کے بھوت باتوں سے رُکنے والے نہیں ہیں ! شعائر اسلام کی حفاظت وناموس کے لیے جب تک علمِ جہاد بلند نہیں کیا جاتا اُس وقت تک دنیا میں امن وسلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ! ! نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے :
''جو (شخص یا قوم) جہاد کے لیے نہ نکلے اور مجاہد کی جہاد کی تیاری میں مدد نہ کرے یا مجاہد کی غیر موجودگی میں اُس کے اہلِ خانہ کا بھلا نہ چاہے، قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ اُس (شخص یا قوم ) کو بڑی بربادی میں مبتلا کریں گے''
مَنْ لَّمْ یَغْزُ وَلَمْ یُجَہِّزْ غَازِیًا اَوْ یَخْلُفْ غَازِیًا فِیْ اَہْلِہ بِخَیْرٍ اَصَابَہُ اللّٰہُ بِقَارِعَةٍ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ ۔ ( مشکٰوة المصابیح رقم الحدیث ٣٨٢٠ بحوالہ ابوداود)
وَمَا عَلَیْنَا اِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِیْن
درسِ حدیث
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
قرآن یاد کرنے کے بعد بھلانے والے کو روزِ قیامت کوڑھ ہوگا ١
قیامت کے دن نورِتام اور دخولِ جنت پانچ سو سال قبل ہوگا !
یونیورسٹی کا ماحول ، یونیفارم اور قرآنی تعلیم !
( درسِ حدیث نمبر ٥٦/٧٦ ٥ رمضان المبارک ١٤٠٣ھ/١٧ جون ١٩٨٣ئ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ پاک کی فضیلت اور اُس کا پڑھنا، پڑھتے رہنے پر تاکید بتلائی ہے، ایک واقعہ اس میں آتا ہے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا مہاجرین کی ایک جماعت میں ! وہ مہاجرین جو بہت خستہ حال تھے ! اُن کے بدن پر پورے کپڑے نہیں تھے وہ ایک دوسرے کے پیچھے بیٹھتے تھے تاکہ آڑ رہے جتنا بدن زیادہ چھپ سکے وہ بہتر ہے ! وَقَارِیئ یَقْرَأُ عَلَیْنَا اِن ہی میں سے ایک آدمی تھا جو پڑھ رہا تھا، تلاوت کررہا تھا یہ سب سن رہے تھے ! اِذْجَآئَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے میں اچانک جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے فَقَامَ عَلَیْنَا ہمارے پاس آپ کھڑے ہوگئے فَلَمَّا قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم سَکَتَ الْقَارِیْ جب رسولِ کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم تشریف لائے اور کھڑے ہوگئے تو جو پڑھ رہا تھا وہ چپ ہوگیا خاموش ہوگیا !
١ جذام (LEPROSY)
اُستاد اور شاگردوں کی گفتگو ،سب پر یکساں شفقت :
آپ نے سلام کیا اور دریافت فرمایا مَا کُنْتُمْ تَصْنَعُوْنَ کیا کررہے تھے ؟ ہم نے عرض کیا کہ ہم تو قرآنِ پاک سن رہے تھے ! آپ نے ارشاد فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ مِنْ اُمَّتِیْ مَنْ اُمِرْتُ اَنْ اَصْبِرَ نَفْسِیْ مَعَھُمْ خدا کا شکر ہے کہ اُس نے میری اُمت میں ایسے ایسے لوگ پیدا کیے جن کے بارے میں مجھے یہ حکم دیا گیا کہ میں اُن میں رہوں ، اُن میں گُھل مِل کر رہوں ! قَالَ فَجَلَسَ وَسْطَنَا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے یہ جو مجمع تھا اس کے درمیان (بیٹھ گئے) لِیَعْدِلَ بِنَفْسِہ فِیْنَا اس لیے ایسے کیا آپ نے کہ سب کی برابری ہوجائے، مساوات ہوجائے ! !
درسگاہ کی نشست :
ثُمَّ قَالَ بِیَدِہ ھٰکَذَا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ ایسے حلقہ بنالو، دائرہ بنالو ! فَتَحَلَّقُوْا وَبَرَزَتْ وُجُوْھُھُمْ لَہ یہ ایسے گُھٹ کر بیٹھے تھے کہ ان کے چہرے سامنے نہیں تھے آگے پیچھے ہوئے ہوئے بیٹھے تھے ! جب ایسے حلقہ ہوا تو سب کے چہرے سامنے ہوگئے ! تو ایک حالت یہ ہوئی کہ تلاوتِ قرآنِ پاک کررہے تھے توعمل یہ تھا، اور مالی حالت یہ تھی !
طلباء کے لیے بشارت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پسندیدگی کا اظہار اس طرح سے کیا کہ آپ خود اُن کے بیچ میں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مجھے تم لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا گھلنے ملنے کا حکم دیا گیا ہے، تو یہ اُن کے عمل اور حال کی اچھائی اور اُس پر بشارت ہوئی !
ایوارڈ اور ڈگری :
ایک بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گفتگو فرماتے ہوئے جب بیٹھے تو یہ سُنائی اَبْشِرُوْا یَا مَعْشَرَ صَعَالِیْکِ الْمُہَاجِرِیْنَ بِالنُّوْرِ التَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مہاجرین میں جو صُعْلُوْکْ ہیں ،صُعْلُوْک مَنْ لَّا مَالَ لَہ جس کے پاس مال نہ ہو فقیر ہو ،بالکل جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ ''صُعْلُوْک ''ہے ! مہاجرین میں جو صُعْلُوْک ہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہے فقراء ہیں اُن کے لیے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں بشارت سنانی چاہتا ہوں یہ کہ قیامت کے دن اُنہیں کامل نور میسر ہوگا ''نورِ تام'' (میسر ہوگا) ! !
غریب طالب علم کی مالداروں پر سبقت :
اور یہ بھی فرمایا کہ جو غریب ہے وہ مالدار لوگوں سے پہلے جنت میں جائے گا ! تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ اَغْنِیَآئِ النَّاسِ بِنِصْفِ یَوْمٍ آدھا دن پہلے تم داخل ہوگے جنت میں ! اور آدھا دن وَذٰلِکَ خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ ١
اللہ تعالیٰ کے یہاں دن کا پیمانہ جو ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہزار سال یہاں کے وہاں کے ایک دن کے برابر ہیں ( اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) ٢ ''بلا شبہ ایک دن آپ کے رب کے یہاں کا اُن سالوں میں سے جو تم شمار کرتے ہو ہزار سال کے برابر ہے'' ! یہ قرآنِ پاک میں ہے اور حدیث میں بھی یہی ہے کہ تم آدھا دن پہلے داخل ہوگے وَذٰلِکَ خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ وہ پانچ سو سال ہوگا ! تم اتنا طویل عرصہ پہلے وہاں پہنچ چکے ہوگے بہ نسبت مالدار لوگوں کے ! !
تو جو آدمی غریب ہے آج ، اور غریب ہی رہا، فرض کیجیے کبھی نصیب نہ ہوسکا اُس کو (مال و دولت) تو پھر اُس کے لیے یہ بشارت ہے ! اور اگر میسر آجائے اُسے دُنیا میں تو پھر دُنیا میں میسر آہی گیا لیکن اگر میسر نہ آئے تو اُس کو آخرت کی بشارت ضرور ملے گی ! اُس کے درجہ میں بلندی دوسری طرح کی اُس کو آخرت کے اعتبار سے حاصل ہے ! حساب کتاب اُس کا بہت تھوڑا ہوگا لین دین تھوڑا ہوگا، معاملات تھوڑے ہوں گے ! تو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ پاک کے پڑھنے، سننے اُس مجلس میں بیٹھنے، ان تمام چیزوں کو پسند فرمایا ہے حتی کہ آپ خود بھی اس مجلس میں تشریف فرما ہوئے اور یہ فرمایا کہ تم لوگ ایسے سادہ اور اس قسم کے ہو کہ مجھے تمہارے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے ! آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآنِ پاک کو اچھی آواز سے پڑھا کرو زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ ٣
١ مشکٰوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٩٨ ٢ سُورة الحج : ٤٧
٣ مشکٰوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١٩٩
جتنا قرآن حفظ کیا اُس کو بھلانا گناہ ہے :
ارشاد فرمایا کہ جو آدمی پڑھ لیتا ہے اور یاد کرلیتا ہے کچھ ،اور پھر بھول جاتا ہے تو یہ بہت بڑی اُس کی بدقسمتی ہے ! اور خدا کے یہاں اس پر عتاب ہے بڑا ! وہ ایسے ہوگا جیسے جُذام والا ہوتا ہے ! کوڑھ جسے کہتے ہیں جس میں انسان کے اعضاء کٹتے ہیں تو قیامت کے دن وہ اس طرح سے خدا کے سامنے پیش ہوگا کہ اُس کو یہ عارضہ ہوا ہوگا ! اِلَّا لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اَجْذَمَ ١
یاد کرنا یہ افضل ہے بُھلانا ہرگز نہ چاہیے جتنا کسی نے یاد کیا ہے ایک رکوع یاد کررکھا ہے ایک سورت یاد کررکھی ہے اُس کو یاد ہی رکھنا چاہیے !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا ء فرمائے کہ ہم اُس کی عبادت کرتے رہیں اور وہ اپنی بارگاہ میں قبولیت اور اپنی رضا سے نوازتا رہے، آمین۔اختتامی دُعا..............(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ مئی ١٩٩٨ )
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے آڈیو بیانات (درسِ حدیث) جامعہ کی ویب سائٹ پر سُنے اورپڑھے جا سکتے ہیں
http://www.jamiamadniajadeed.org
١ مشکٰوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢٢٠٠
یَثْرِبْ مدینة النبی صلی اللہ علیہ وسلم
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اَوراق
مکہ معظمہ سے شمال کی جانب تقریباً دو سو میل (سو ا تین سو کلو میٹر) کے فاصلہ پر ایک زرخیز علاقہ میں آبادیوں کا ایک سلسلہ ہے اُن میں سب سے بڑی آبادی کا نام یَثْرِبْ ہے ١ اس کے دو طرف دو سنگلاخ ہیں ان کو لَابَتَینْ کہا جاتا ہے اور حَرَّتَینْ بھی کہلاتے ہیں ٢
جانب مشرق میں تقریباً آٹھ میل تک چھوٹی چھوٹی آبادیوں کا سلسلہ چلا گیا ہے ان کو عَوَالِی (بالائی) کہا جاتا ہے ! موضع قبا اسی طرف ہے ٣ دوسری جانب بھی اسی طرح کی آبادیاں ہیں ان کو اَسَافِل (زیریں یا نشیبی)کہا جاتا ہے ٤
١ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں قیام فرمایا تو اس کا نام مدینة النبی ہوگیا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کثرت استعمال نے مدینة النبی کو مختصر کر کے صرف '' مدینة '' کردیا۔ مگر عاشقانِ رسول نے محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کے بہت سے نام رکھ ڈالے : طابة ، طیبة ، محبوبة ، مبارکة ، عاصمة ، مرزوقة ، قاصمة ، اکالة البلدان ۔
غرض اس طرح نوے سے زیادہ نام ہوگئے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، وفاء الوفاء ج١
وکانت یثرب اُم قری المدینة وھی مابین طرف قناة الی طرف الجرف ، ومابین المال الذی یقال لہ البرنی الی زبالة ۔ ( وفاء الوفاء ج ١ ص ٧)
٢ لابہ اور حرہ کے معنی تقریباً ایک ہی ہیں یعنی ایسا سنگلاخ جس کے پتھر اِس طرح کے کالے ہوں جیسے کوئی پرانا پتھر مسلسل کائی چڑھنے سے کالا ہوجاتا ہے۔ (مجمع البحار قاموس) یہ کئی میل تک چلے گئے ہیں ان پر نہ کاشت ہوسکتی ہے نہ ان پر آبادی ہے ! فوج بھی ان پر نہیں گزر سکتی یہ دو طرف حفاظت کی قدرتی دیواریں ہیں ! !
٣ مجمع البحار و معجم البلدان ٤ معجم البلدان
یَثْرِب کے نشیبی حصہ میں برسات میں پانی بھر جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں کی آب ہوا مرطوب رہتی ہے یہاں کا بخار ''حُمّٰی یَثْرِبَ'' پورے عرب میں مشہور ہے، یَثْرِب نام میں آب وہوا کی خرابی کو بھی دخل ہے ١ اس پورے علاقے میں کاشت ہوتی ہے مگر خاص پیداوار کھجور ہے، کھجوروں کے بڑے بڑے باغات ہیں یہاں کے کھجور دُور دُور جاتے ہیں ! !
بنو اِسماعیل کی آمد :
کم وبیش ایک ہزار سال پہلے یمن سے اُجڑ کر دو بھائی سرزمین حجاز میں داخل ہوئے اور یہاں آکر آباد ہوگئے ٢ ان میں سے ایک کا نام '' اَوس'' تھا دوسرے کا نام ''خزرج'' باپ کا نام حارثة ماں کا نام قیلة اس لیے اوس اور خزرج کی اولاد کو '' بنوقیلة'' بھی کہتے ہیں ٣
اب (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مسعود میں ) اوس اور خزرج کے دو قبیلے ہیں جن کی بہت سی شاخیں (بطن) الگ الگ نام سے مشہور ہیں (بنو نجار، بنو ساعدہ ، بنو عمرو بن عوف وغیرہ) اس طرح یہ دو قبیلے بہت سے بطنوں میں بٹ گئے ہیں !
یثرب کی آبادی تقریباً چھ ہزار ہے ٤ اور اتنی ہی آبادی عَوَالِی اور اَسَافِل کی ہے ان سب کا ایک ''دیوتا'' ہے '' اَلْمَنَاةُ الطَّاغِیَةْ '' مُشلل مکہ اور یثرب کے بیچ میں ایک مقام ہے وہاں اس کا مندر ہے ٥ یہ سب'' اَلْمَنَاةُ الطَّاغِیَةْ ' ' کے بھگت ہیں ٦ مگر اصل تیرتھ ٧ کعبہ ہے ! وہاں ہر سال ''حج'' کو جاتے ہیں اور ان بتوں کی بھی پوجا کرتے ہیں جو قریش نے کعبہ میں رکھ رکھے ہیں ! قریش ان کے مَہنتْ ہیں ٨
١ کیونکہ ثَرب جو یثرب کا ماخذ ہے، ملامت کرنے کے معنی میں آتا ہے
٢ سَیل عَرِم سے تباہ ہوکر یا بقول ابن ِہشام سَیل عَرِمسے کچھ پہلے اس سیل کے متعلق پیشین گوئی سن کر ...... (سیرة ابن ہشام ج١ ص ٧ ) ٣ معجم البلدان و فتح الباری وغیرہ ٤ ہجرت کے چوتھے سال غزوہ ٔ احزاب میں تین ہزار مسلمانوں نے شرکت کی جبکہ ان میں کئی سو مہاجرین بھی شامل تھے اس سے یہاں کی آبادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ٥ قدید کے قریب ، القدید اسم موضع قریب بمکة ( معجم البلدان )
٦ بھوت پریت اُتارنے والا بخاری شریف ص ٢٢٢ و ص ٢٤١ وغیرہ
٧ مقدس مقام یا مندر جہاں لوگ یاترا کے لیے جائیں ٨ سادھوؤں کے سردار
اور یہ سب ان کے ہم مذہب اور ان کے تابع ہیں ، ان سب کی نسل بھی ایک ہی ہے کیونکہ یہ بھی حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کو اپنا مورثِ اعلیٰ مانتے ہیں ١ اور اس بناپر رشتہ داریاں بھی ہیں ، یہ سب کاشتکار اور زمیندار ہیں ، عموماً ناخواندہ، جاہل، کسی وقت یہ اِس پورے علاقہ کے فرمانروا تھے ! !
اُس زمانہ کے قلعوں کے اُونچے اُونچے آثار (کھنڈر) اِس وقت بھی موجود ہیں ان کو ''آطَامَ یَثْرِب'' کہا جاتا ہے ٢
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اِس کا نام ''مدینة النبی'' رکھ دیا گیا پھر کثرتِ ِاستعمال کے باعث صرف ''مدینة'' کہا جانے لگا (ادام اللّٰہ شرفہا)
بنو اِسرائیل مدینہ کے اطراف میں :
اس علاقہ میں دوسری نسل بنو اِسرائیل کی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں
اور یہودی کہلاتے ہیں ٣ یثرب (مدینہ) کے اطراف میں تین تین چار چار میل کے فاصلے پر اِن کے قبیلے آباد ہیں ان میں سے مشہور یہ تین ہیں : بَنُوْ قَیْنُقَاعْ ، بَنُوْ نَضِیْر اور بَنُوْ قُرَیْظَةَ

١ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے بخاری شریف ص ٤٩٧ باب نسبة الیمن الی اسماعیل علیہ السلام اور قریش سے ان کی رشتہ داری تھی اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں اگرچہ ماہرین انساب کا خیال یہ بھی ہے کہ قحطان جو اہلِ یمن کا مورثِ اعلیٰ ہے وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے نہیں ہے اگر یہ صحیح ہے تو اوس اور خزرج بنو اسماعیل یعنی عربِ مُستعربة نہیں بلکہ عربِ عَاربة تھے۔
٢ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ یہ قلعے زیادہ تر یہود نے بنائے تھے جب وہ تنہا اس علاقہ میں صاحب ِاقتدار تھے ! اوس اور خزرج یہودیوں کے دورِ اقتدار میں یہاں آئے، پہلے یہ صرف دو بھائی تھے پھر اِن کی اولاد نے ترقی کی، یہود کو حسد ہوا اُنہوں نے ان کو ختم کردینا چاہا مگر نتیجہ اُلٹا نکلا، مقابلہ ہوا تو یہود کا اقتدار ختم ہوگیا اور اَوس وخزرج کے قبائل اس علاقہ کے حکمراں بن گئے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو وفاء الوفاء ج ١ ص ١٢٥ تا ١٣٤ و معجم البلدان)
٣ یہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بھائی حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد ہیں ، حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند ِرشید حضرت یعقوب علیہ السلام تھے ان کو اسرائیل بھی کہا جاتا تھا ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہتے ہیں ! (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
یہ سب خوش حال ہیں ان کی آبادیاں قلعہ نما ہیں ، شاداب باغات میں گھری ہوئیں ہر طرح سے محفوظ ! باغات کے علاوہ ان کے تجارتی سلسلے بھی ہیں اور ان کا سودی کاروبار بھی بہت پھیلا ہوا ہے !
اپنی اپنی حیثیت میں یہ سب قبیلے آزاد ہیں ، ان کی مجموعی آبادی بھییثرب کی آبادی کے لگ بھگ ہے، ان کے یہاں تعلیم کا انتظام بھی ہے، ایک تعلیمی ادارہ ''بیتُ المَدراس'' کے نام سے قائم ہے جس میں توریت کی تعلیم دی جاتی ہے ! یثرب کے عام باشندے ان کی تعلیمی برتری سے متاثر ہیں یہاں تک کہ بعض خوش عقیدہ اپنے ہونہار بچوں کو یہود کے حوالے کر دیتے ہیں کہ علمی شائستگی حاصل کر سکیں ! !

( بقیہ حاشیہ ص١٢ )
حضرت اسحاق علیہ السلام شام رہے، حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر میں اقتدار حاصل ہوا تھا تو حضرت یعقوب علیہ السلام اور اِن کے لڑکے مصر چلے گئے ! حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک ان کی تعداد کئی لاکھ ہوگئی تھی لیکن اب اقتدار کے بجائے طوقِ غلامی ان کی گردن میں تھا ! حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو لے کر مصر سے نکلے، اوّل یہ پوری قوم تِیْہ میں رہی پھر اِن کا مرکز شام ہوگیا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو عہدِ زریں اور مقدمہ سیرة مبارکہ
مدینہ میں بنو اسرائیل کی آمد اور ان کا اقتدار : ایک روایت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے فرعون کے مقابلہ میں کامیابی بخشی اور وہ تِیْہ میں جاکر مقیم ہوئے تو انہوں نے دوسرے علاقوں میں مجاہدین بھیجنے شروع کیے جو بزور شمشیر اپنے دین کی اشاعت کرتے تھے اور جو اُن کے مذہب میں داخل نہ ہوتا اُس کو قتل کردیتے تھے ! ان مجاہدین کی ایک فوج یثرب بھیجی، اس نے یہی کیا کہ جو اِن کے مذہب میں داخل نہ ہوا اُس کو قتل کردیا لیکن ایک شہزادہ نہایت حسین تھا اُس پر اِن کو رحم آگیا، اُس کو قتل نہیں کیا اور ساتھ لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہورہے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوگئی ! ان کے جانشین کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا کہ اُس فوج نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہدایت پر عمل نہیں کیا کہ واجب القتل نوجوان کو پناہ دے کر ساتھ لے آئے ! جانشین نے ان کے بارہ میں مشورہ کیا، طے یہ کیا گیا کہ اس پوری فوج کو اپنی جماعت سے خارج کردیا جائے، یہ لوگ وہاں سے جلاوطن ہوئے تو انہوں نے یثرب کو اپنے قیام کے لیے منتخب کیا جہاں وہ فتح حاصل کر چکے تھے !
ایک روایت یہ ہے کہ اہلِ روم کے حملہ کے وقت کچھ لوگ شام سے یہاں چلے آئے ! !
ایک روایت یہ ہے کہ بخت ِنصر نے جب یروشلم کو تباہ کیا تب یہ لوگ یثرب آئے ! ! ! (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
سو برس سے لڑائی :
اوس اور خزرج کبھی بھائی برادر کی طرح رہے ہوں گے مگر اب وہ جنگجو حریف ہیں اور تقریباً سوا سو برس سے لڑائی کا سلسلہ جاری ہے ! حال ہی میں نہایت خون ریز لڑائی ہوئی جو ''حَربِ بُعَاثْ'' کے نام سے مشہور ہے اس جنگ میں دونوں قبیلوں کے بڑے بڑے سردار کام آچکے ہیں ! یہودی ان لڑائیوں میں شریک نہیں ہوتے البتہ ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے رہتے ہیں ! پھر ان کی بدحالی سے فائدہ اُٹھاتے ہیں ، سودی قرض دے کر ان کی بہت سی جائیداد قبضہ میں لے چکے ہیں ! ! !
( بقیہ حاشیہ ص١٣ )
بہرحال روایتیں اگرچہ متعدد ہیں مگر علمائِ تاریخ نے ان کو متضاد قرار نہیں دیا کیونکہ اِن سب روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے جانشین کے زمانہ سے ان کی آمد شروع ہوئی اس کے بعد مختلف اوقات میں آمد ہوتی رہی ! !
ان سیاسی محرکات اور اسباب کے علاوہ ایک مذہبی محرک بھی بیان کیا گیا ہے کہ کچھ باخدا علمائِ یہود کو جب توریت کے اشارات سے معلوم ہوا کہ نبی آخرالزماں کا ظہور مدینہ میں ہوگا تو وہ یثرب منتقل ہوگئے کہ اگر اِن کو نبی آخر الزماں کی زیارت نہ ہوسکے تو کم از کم ان کی اولاد اِس سعادت و شرف سے مشرف ہوسکے گی !
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بنو قریظہ یہی کہا کرتے تھے کہ اِن کے بزرگ ان ہی پیشین گوئیوں کی بنا ء پر یہاں آکر قیام پذیر ہوئے تھے ! !
عروج : بنو اسرائیل (یہود) نے یہاں کافی ترقی کی ، اس پورے علاقہ پر وہ چھاگئے، حکومت بھی تھی اور دولت بھی اور نسلیں بڑھیں تو بیس اکیس قبیلے ان کے ہوگئے اور شام تک ان ہی کی بستیوں کی کثرت ہوگئی ! وادیٔ قری، تیمار، خیبر ان کے اہم اور خاص مرکز تھے ! !
اوس اور خزرج یہاں آباد ہوئے تو ان سے معاہدہ کر کے اور ان کے حلیف بن کر آباد ہوئے ! !
زوال : یہودیوں میں ایک راجہ (ملک) ہوا جس کا نام ''فطیون'' تھا، یہ نہایت عیاش اور بدکار تھا ! ا س نے یہ حکم دیا کہ ہر ایک دُلہن اس کے عشرت کدہ میں خراجِ عیش دے ! یہود نے اِس کو گوارا کر لیا !
مگر جب اوس اور خزرج کی نوبت آئی تو انہوں نے سرتابی کی ، اُس زمانہ میں قبیلہ خزرج کا ایک سردار مالک بن عَجلان تھا اس کی بہن کی شادی ہوئی تو وہ عین شادی کے دن گھر سے نکلی اور اپنے بھائی مالک بن عَجلان کے سامنے سے بے پردہ گزری، مالک کو غیرت آئی وہ اُٹھ کر گھر میں آیا اور بہن کو سخت ملامت کی ! بہن نے کہا ہاں لیکن کل کو جو کچھ ہوگا وہ اِس سے بھی سخت ہوگا ! ؟ (باقی حاشیہ اگلے صفحہ پر)
یَثْرِب کے دو لیڈر :
اوس اور خزرج کے بڑے لوگوں میں اب صرف دو باقی رہ گئے تھے عبداللّٰہ بن اُبی ابنِ سلول قبیلہ خزرج کا رئیس اور لیڈر ، اور ابوعامر بن صیفی بن نعمان قبیلہ اَوس کارئیس واَمیر ١
یَثْرِب میں آنے والے نبی کا چرچا :
توریت کی پیشین گوئیوں کے بموجب یہودی ایک آنے والے نبی کے منتظر تھے ! وہ اس کی علامتیں بھی بیان کیا کرتے تھے ! ان یہودیوں میں کچھ خاندان وہ بھی تھے جن کے مورث اور اَجداد اسی اُمید پر یہاں آکر آباد ہوئے تھے کہ نبی آخر الزماں کا ظہور اِسی سرزمین میں ہوگا ! مگر وہ تعصب، گروہ پرستی اور صرف اپنے گروہ کو سب سے اُونچا اور خدا کا محبوب سمجھنے کا غلط عقیدہ جو اُن کے ذہنوں میں رچا ہوا تھا اور ایک جذبہ بن گیا تھا اس نے اس خوش آئندہ تصور کو اور اس تمنا کو یقین کا درجہ دے دیا تھا کہ آنے والا نبی ان ہی کے گروہ میں سے ہوگا ! ! ! ٢
( بقیہ حاشیہ ص ١٤ ) دوسرے دن جب حسب ِ دستور مالک کی بہن دُلہن بن کرفطیونکی خلوت گاہ میں گئی تو مالک بھی زنانہ کپڑے پہن کر سہیلیوں کے ساتھ اندر چلا گیا اور فطیون کو قتل کر کے شام بھاگ گیا ! !
یہاں غسانیوں کی حکومت تھی اور ابوجبلة حکمراں تھا اس کو یہ تکلیف دہ حالات معلوم ہوئے تو وہ لشکر لے کر آیا اور اَوس اور خزرج کو اِنعام دیے اور ایک عام دعوت کر کے رؤسا ئِ یہود کو مدعو کیا اور ان کو قتل کروادیا ! ! اب یہود کا زور ٹوٹ گیا اَوس اور خزرج نے قوت حاصل کر لی مگر پھر اِن دونوں قبیلوں میں جنگ شروع ہوئی جو سوسال سے زیادہ رہی ! ! یہود نے اِن کو لڑانے میں بھی اپنی تمام چالبازیوں کی انتہاء کردی اور ان کو سودی رقم دے کر ننگا بھی کردیا ! یہی حالت تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا ! ! (معجم البلدان، ابن ہشام ، وفاء الوفائ وغیرہ)
١ وفاء الوفاء ج ١ ص١٥٥ ٢ ان کی یہ دلیل ایک حدتک معقول تھی کہ صدہا سال سے نبوت ان ہی کے گروہ میں چلی آرہی ہے یہاں تک کہ جتنے انبیاء علیہم السلام کے نام اِن کو معلوم تھے وہ سب اسرائیلی تھے ! قرآنِ حکیم نے پوری اہمیت کے ساتھ یہود کے قومی جرائم شمار کراکر اِس دلیل کی تردید کی ہے ! حاصل یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسان کے تمام طبقات پر فضیلت دی تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے اِن قومی جرائم نے ان کو اس فضیلت سے محروم کردیا ! !
اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں بھی گھڑلی تھیں ١ وہ سمجھتے تھے کہ جیسے ہی وہ نبی ظاہر ہوگا ان کا اقبال نقطۂ عروج پر پہنچ جائے گا چنانچہ مشرکین یعنی اوس اور خزرج سے کسی بات پر بحث ہوتی یا کسی موقع پر مشرکین کے سامنے زچ ہونا پڑ تا تو یہی روایتیں اور پیشین گوئیاں بیان کر کے ان کو مرعوب کیا کرتے تھے کہ مستقبل کی سربلندی ہمارے لیے ہے ٢
مشرکین اگرچہ ان کے ہم عقیدہ نہیں تھے مگر چونکہ جاہل تھے وہ متاثر ہوجاتے تھے اس طرح ان کے کان آنے والے نبی کے تذکرہ سے نا آشنا نہیں رہے تھے ! تاریخ بتاتی ہے کہ یہی آشنائی ان کے لیے مشعلِ راہ بنی ! ٣
یَثْرِب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر :
اوس اور خزرج کی طویل جنگ نے ایک فریق کو اتنا دبایا کہ اس نے کسی بڑے طاقتور قبیلہ کی مدد حاصل کرنی ضروری سمجھی چنانچہ اس فریق کا ایک وفد زمانہ حج میں مکہ پہنچا اور اس نے قریش کو اپنا مددگار اور حلیف بنانا چاہا ! یہ وفد اس مقصد میں تو کامیاب نہیں ہوا مگر یہ سعادت اس کو ضرور حاصل ہوگئی کہ اس کے ایک رُکن اَیاس بن معاذ داعی حق کی صدائِ حق کی طرف متوجہ ہوئے ! یہ باقاعدہ مسلمان تو نہیں ہوئے مگر دعوتِ حق کے اثر سے اپنا دامن جھٹک بھی نہیں سکے ! !
یہ وفد واپس یَثْرِب پہنچا تو روئیداد ِ سفر میں لامحالہ اس دعوت کا تذکرہ بھی شامل تھا !
ایاس اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے انتقال کر گئے مگر ان کے خاندان والوں کا یقین یہ تھا کہ ان کی وفات اسلام پر ہوئی ہے کیونکہ وفات کے وقت ان کی زبان پر لا الہ الا اللّٰہ ، سُبحان اللّٰہ ، الحمد للّٰہ اور اللّٰہ اکبر کے کلمات جاری تھے ! ! ! ( سیرت ابن ہشام ج ١ ص ٢٥٨ )
یَثْرِب میں اسلام :
اَسعد بن زُرارہ اور ذَکوان بن عبدالقیس مدینہ کے عمائدین میں سے تھے یہ مکہ کے رئیس اعظم عُتبة بن ربیعة کے پاس مدد حاصل کرنے کے لیے پہنچے ! عتبہ نے کہا ہم خود عجیب پریشانی میں
١ سُورۂ آل عمران : ١٥٣ ٢ سُورۂ بقرہ : ٨٨ ٣ سُورۂ نساء : ٤٥ ، ٤٦،١٥ تا ٥٤ و ١٥٢ تا ١٦١
مبتلا ہیں ، یہاں ایک شخص پیدا ہوگیا ہے جو توحید کا قائل ہے ہمارے دیوتاؤں کی تردید کرتا ہے ! نمازیں بہت پڑھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں ! اس نے ہمارے سارے نظام کو درہم برہم کر رکھا ہے ! ہمیں خود اپنے سے فرصت نہیں ، ہم کسی کی مدد کیا کر سکتے ہیں ! ! ؟
عتبہ کے اِس شکوہ نے نفرت کے بجائے اس دونوں کے دلوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ملاقات کی اُمنگ پیدا کردی ! یہ عتبہ سے رُخصت ہوئے ناکہ بندی کی وجہ سے پہنچنا مشکل تھا مگر ان دونوں نے کوشش کی اور کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ! خدمت میں حاضر ہوئے، گفتگو کی ،کلامِ پاک کی آیتیں سنیں ، دعوت اسلام کو سمجھا، دماغ صاف تھا، دل صاف تھا، طبیعت حق کی طرف مائل تھی، اللہ کے کلام نے اثر کیا اور حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے ! ! !
مدینہ واپس پہنچے تو حضرت اسعد نے اپنے دوست ابوالہیثم بن تیہان کو اپنے مسلمان ہونے کا ماجرا سنایا، وہ بھی مسلمان ہوگئے ! ان دونوں کے متعلق یہ بھی روایت ہے کہ یہ پہلے ہی سے شرک سے بیزار اور توحید کی طرف مائل تھے ! ! ! ١
دو بزرگ اور تھے رافع بن مالک ازرقی اور معاذ بن عَفراء ، یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ معظمہ آئے اور کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تبادلہ خیالات کا موقع مل گیا۔ یہ دونوں بھی اسلام سے مشرف ہوگئے ٢
یَثْرِب کی پہلی جماعت جس نے دعوت ِ اسلام قبول کی :
اہلِ طائف نے جس سعادت کی قدر نہیں کی، اہلِ یَثْرِب کی خوش نصیبی نے اس کا استقبال کیا طائف سے واپس ہوکر مُطعِم بن عدی کی پناہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ پہنچے تو حج کے مہینے شروع ہوچکے تھے ! مراسم ِحج ادا کرنے کے دن آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستور کے بموجب قبائل کے کیمپوں اور زائرین کی مجلسوں میں پہنچ کر تبلیغ شروع کی ! جس سرگرمی سے آپ تبلیغ کرتے تھے قریش کا تعاقب بھی اتنا ہی شدید ہوتا تھا ! خصوصاً ابولہب کی سرگرمی نے دیوانگی کی صورت اختیار کرلی تھی لیکن قدرت کی کارفرمائیوں کا وہ مقابلہ نہ کرسکا ! اسی گرما گرمی میں کچھ پاک نفوس ایسے بھی
١ طبقات ابن سعد ج ١ ص ١٤٦ ٢ ایضًا
نکل آئے جنہوں نے متاعِ جان اس دعوت کی نذر کردی ! یہ یَثْرِب کے چھ یا آٹھ آدمی تھے جو حج کے لیے آئے تھے اور اب مراسمِ حج کے بموجب ایک جگہ سروں کے بال منڈوا رہے تھے ١ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے ،کچھ موقع مناسب معلوم ہوا، آپ نے اپنی دعوت پیش کرنی شروع کردی، کلام اللہ شریف کی آیتیں تلاوت کیں ، سننے والوں کی پاک روحیں متوجہ ہوئیں ان کی آپس میں کچھ باتیں اشاروں میں ہوئیں کہ
''یہودی جس نبی کی خبر دیا کرتے تھے معلوم ہوتا ہے یہ وہی نبی ہیں ! بے شک یہ کلام سچا اور یہ دعوت برحق ہے ! اب ہمیں ہمت کر کے پہل کردینی چاہیے ! کہیں ایسا نہ ہو یہودی سبقت لے جائیں اور اقبال مندی کا جوتاج ہمارے سروں کو بوسہ دینے کو تیار ہے وہ یہودیوں کو میسر آجائے''
اس طرح کی کچھ باتیں ہوئیں پھر سب نے اپنی گردنیں قبولِ دعوت کے لیے خم کردیں ! ! !
ارادہ نقل مکانی اور سیاسی مصالح :
ان حضرات نے کلمہ شہادت پڑھ لیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری زندگی کا مقصد اسی دعوت کی اشاعت ہے ! مکہ کی زمین میرے لیے تنگ ہوگئی ہے، کیا یہ ممکن ہے میں آپ کے ساتھ یَثْرِب چلوں اور یَثْرِب کو دعوت و تبلیغ کا مرکز بنالوں ! ؟ ؟
ان حضرات نے عرض کیا ہم بسروچشم تیار ہیں ! مگر فی الحال آپ کا تشریف لے چلنا مصلحت کے خلاف ہے ! ہمارے یہاں ابھی ایک سال پہلے بُعَاثْ کا نہایت سخت معرکہ ہوچکا ہے جس کے زخم اب تک ہرے ہیں ، جذبات برانگیختہ ہیں اور دماغوں میں نفرت بھری ہوئی ہے ! اس حالت میں آپ کی دعوت صدا بہ صحرا ہوگی ! کیونکہ اس وقت دونوں کا جمع ہونا ناممکن ہے آپ کسی بھی فریق سے رابطہ پیدا کریں گے تو دوسرا فریق دشمن بن جائے گا !
آپ ہمیں موقع دیں ہم یَثْرِب پہنچ کر جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں ، خدا کرے کوئی اصلاح کی صورت پیدا ہو اور فضا ہموار ہوجائے تو آپ کا تشریف لے چلنا مفید ہوگا ! ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ سال اسی مقام پر حاضر ہوں گے اور اُمید ہے کہ اُس وقت تک ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ آپ کو یَثْرِب آنے کی دعوت دے سکیں ! ! بات معقول اور ہمدردانہ تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمالی ! ! ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
رافع بن مالک ، عبادة بن الصامت ، ابوعبدالرحمن ، یزید بن ثعلبة ، عویم بن ساعدة ، عوف بن حارث بن عفراء ، قطبة بن عامر بن حدیدة ، عتبة بن عامر بن نابی، جابر بن عبداللّٰہ بن رماب ۔ ١
اگلا برس اور بیعت ِعقبہ اُولیٰ :
وعدہ پورا کرنے کی بہترین مثال ان چھ حضرات نے اپنے عمل سے پیش کی جو گزشتہ سال دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ باہمی نفرت اور بغض وعداوت کے دھکتے ہوئے ماحول میں ان حضرات نے ایسے سلیقہ سے کام لیا کہ معرکۂ بُعَاثْ کے اشتعال انگیز تذکرہ کے بجائے ہر ایک گھر میں اسلام اور پیغمبر اسلام کا چرچا ہونے لگا ! ! اور جب حج کا زمانہ آیا تو بارہ افراد نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامے پیش کردیا مگر یہ پیشی نہایت رازداری کے ساتھ ہوئی ! ! !
مکہ معظمہ سے چند میل کے فاصلے پر منیٰ کا میدان ہے جہاں ١٠ ذی الحجہ سے ١٣ ذی الحجہ تک زائرین ِبیت اللہ کا اجتماع ہوا کرتا ہے اس وسیع میدان میں وہ جگہ بھی ہے جس کو عُقبة کہتے ہیں جو شہر مکہ
١ (الف) ابن سعد نے چند روایتیں پیش کی ہیں اور ہر روایت میں کچھ نام شمار کرائے ہیں ، ہم نے مکرر نام
حذف کردیے ہیں ملاحظہ ہو : طبقات ابن ِسعد ج ١ ص ١٤٥ تا ١٤٧ ( الجزء الاوّل من کتاب الطبقات
فی السیرة الشریفة النبویة القسم الاوّل )
(ب) ان حضرات میں سے دو بزرگوں کا تعلق قبیلۂ اوس سے ہے۔ ابو عبدالرحمن یزید بن ثعلبہ اور عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہما اور باقی چھ حضرات خزرجی ہیں ۔
(ج) چھ یا آٹھ کی تعداد میں اگرچہ اختلاف ہے مگر اِس پر اتفاق ہے کہ ان سب حضرات نے جو اُس وقت بیعت ہوئے تھے راہِ خدا میں قتل ہوکر درجہ شہادت حاصل کیا ! ( الاستیعاب ص ١٧٩ تذکرہ رافع بن مالک )
سے تقریباً دو میل کے فاصلہ پر ہے ١ اسی کے قریب ایک گھاٹی میں یہ حضرات جمع ہوتے ہیں ، چاندنی رات ہے، نور کی چادر پھیلی ہوئی ہے، اسی نورانی فضا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں جو سراسر نور ہیں ! آپ خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دیتے ہیں ! سننے والوں کی دلوں کی گہرائیوں سے '' اٰمَنَّا '' کی صدا بلند ہوتی ہے ! ! پھر ان سب سے چھ باتوں کا عہد لیا جاتا ہے ! ! !
(١) ہم صرف خدائے واحد کی عبادت کیا کریں گے کسی کو اُس کا شریک نہیں مانیں گے !
(٢) چوری نہیں کریں گے ! (٣) زنا نہیں کریں گے ! (٤) اولاد کو قتل نہیں کریں گے !
(٥) کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے (جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے) !
(٦) آپ جس اچھی بات کا حکم فرمائیں گے ہم اُس کی تعمیل کریں گے (نا فرمانی نہیں کریں گے) ! ٢
معلم کیسا ہو ؟
یہ معاہدہ عمل کرنے کے لیے تھا،عمل کرنے کے لیے معلم اور مربی کی ضرورت تھی، ان لوگوں نے معلم کی درخواست کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باعمل معلم کو اِن کے ساتھ کردیا ! یہ سیّدنا حضرت مصعب بن عمیر ہیں ، دولت مند گھرانے کے چشم وچراغ ، نازونعم میں پلے، جب گھوڑے پر سوار ہوکر چلا کرتے تھے تو آگے پیچھے ہٹو بچو کہتے ہوئے غلام دوڑا کرتے تھے ! بدن پر سینکڑوں درہم سے کم کا لباس نہیں ہوتا تھا جو طرح طرح کے عطر سے معطر ہوتا تھا ! ! مگر جب دولت اسلام سے مالا مال ہوئے تو دولت ِدنیا ان کی نظر میں گرد بن گئی، رُوح نے وہ لذت پائی کہ سازوسامان بار لگنے لگا، اب معلم خیر کا لباس ایک کمبل تھا ! ! !
مدینہ پہنچ کر حضرت اسعد بن زُرارہ کے یہاں ان کا قیام ہوا اُس وقت تک جتنا قرآن نازل ہوچکا تھا وہ لوگوں کو یاد کراتے، سمجھاتے، اس پر عمل کراتے، لوگ ان کو مُقْرِیْ کہا کرتے تھے ٣ ( جاری ہے )
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ص٣٠٣ تا ٣١٤)
ض ض ض
١ معجم البُلدان ٢ صحیح البخاری ص٥٥٠ ٣ قرآن پڑھانے والے ، ابن سعد و اِستیعاب وغیرہ
تربیت ِ اولاد قسط : ٥
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ !
اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
اولاد کی وجہ سے ہزاروں فکریں اور جھمیلے :
اولاد کے ساتھ ہزاروں فکریں لگی ہوئی ہیں آج کسی کان میں درد ہے کسی کے پیٹ میں درد ہے کوئی گرپڑا ہے کوئی گم ہوگیا ہے اور ماں باپ پریشان ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ خدا نے اِس کو اِسی لیے اولاد نہیں دی کہ وہ اِس کو آزاد رکھنا چاہتے ہوں !
میرے بھائی ایک کہانی سناتے تھے کہ ایک شخص نے صاحب ِ عیال (بال بچوں والے) سے پوچھا کہ تمہارے گھر خیریت ہے ؟ تو بڑا خفا ہوا کہ میاں خیریت تمہارے یہاں ہوگی، مجھے بدعا دیتے ہو ؟ ہمارے یہاں خیریت کہاں ! ماشاء اللہ بیٹے بیٹیاں ہیں پھر اُن کے اولاد ہے سارا گھر بچوں سے بھرا ہواہے، آج کسی کے کان میں درد ہے کسی کو دَست آرہے ہیں کسی کی آنکھ دُکھ رہی ہے کوئی کھیل کُود میں چوٹ کھا کر رورہا ہے، ایسے شخص کے یہاں خیریت ہوگی ؟ خیریت تو اُس کے یہاں ہوگی جو منہوس ہو جس کے گھر میں کوئی بال بچہ نہ ہو، ہمارے یہاں خیریت کیوں ہوتی !
واقعی بچوں کے ساتھ خیریت کہاں ! بچپن میں اُن کے ساتھ اِس قسم کے رنج اور فکریں ہوتی ہیں اور جب وہ سیانے ہوئے تو اگر صالح (نیک) ہوئے تو خیر اور آج کل اس کی بہت کمی ہے ورنہ پھر جیسا وہ ناک میں دم کرتے ہیں معلوم ہے ! پھر ذرا اَور بڑے ہوئے جوان ہوگئے تو اُن کے نکاح کی فکرہے، بڑی مصیبتوں سے نکاح بھی کردیا تو اَب یہ غم ہے کہ اُس کے اولاد نہیں ہوتی ! اللہ اللہ کر کے تعویذ گنڈوں اور دواؤں سے اولاد ہوئی تو بڑے میاں کی اتنی عمر ہوگئی کہ پوتے بھی جوان ہوگئے اب بچہ اُن کو بات بات میں بیوقوف بناتا ہے اوراُن کی خدمت کرنے سے اُکتا تا ہے اور بیٹے پوتے منہ پر (سامنے ہی )کورِی (کھری کھری ) سناتے ہیں اور یہ بیچارے معذور ایک طرف پڑ جاتے ہیں ! یہ اولاد کا پھل ہے تو پھر خوامخواہ لوگ اس کی تمنائیں کرتے ہیں ! !
جن کے اولاد نہ ہوتی ہو اُن کی تسلی کے لیے عجیب مضمون :
میرے اُستاذ مولانا سیّد احمد صاحب دہلوی کے ماموں مولانا سیّد محبوب علی صاحب جعفری کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ ایک دفعہ وہ غمگین بیٹھے تھے میرے اُستاد نے پوچھا اور یہ اُن کے لڑکپن کا زمانہ ہے کہ آپ غمگین کیوں ہیں ؟ کہا مجھے اس کا رنج ہے کہ بڑھاپا آگیا اور میرے اب تک اولاد نہیں ہوئی ! اُستادنے فرمایا سبحان اللہ ! یہ خوشی کی بات ہے یا غم کی ؟ اُنہوں نے پوچھا یہ خوشی کی بات کیسے ہے ؟ فرمایا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کے سلسلہ نسل (خاندان) میں آپ ہی اصل مقصود ہیں اور آپ کے تمام اباؤاَجداد مقصود بالخیر یعنی ذریعہ ہیں بخلاف اولاد والوں کے کہ وہ مقصود نہیں ہیں بلکہ اُن کو توغم کے واسطے پیدا کیا گیا ہے ! !
دیکھیے گیہوں دو قسم کے ہوتے ہیں ،ایک وہ جن کو کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے، دوسرے وہ جو تخم کے لیے رکھے جاتے ہیں ! تو اِن دونوں میں مقصود وہ ہے جو کھانے کے لیے رکھا جاتا ہے ! کھیت بونے سے مقصود یہی گیہوں تھے اور جس کو تخم (بیج) کے واسطے رکھتے ہیں وہ مقصود نہیں بلکہ واسطہ ہیں مقصود کے ! اسی طرح جس کے اولاد نہ ہو آدم علیہ السلام سے لے کر اِس وقت تک ساری نسل میں مقصود وہی تھا اور سب (اباؤاَجداد) اس کے وسائل (ذرائع) تھے اور جن کے اولاد ہوتی ہے وہ خود مقصود نہیں ہیں بلکہ تخم کے لیے رکھے گئے ہیں تو واقعی ہے تو یہ علمی مضمون ! بے اولادوں کو اپنی حسرت اس مضمون کو سوچ کر ٹالنی چاہیے ! !
اور اگر اِس سے بھی حسرت نہ جائے تو دُنیا کی حالت دیکھ کر تسلی کر لیا کریں کہ جن کے اولاد ہے وہ کس مصیبت میں گرفتار ہیں ! اور اِس سے بھی تسلی نہ ہوتو یہ سمجھ لیں کہ جو خدا کو منظور ہے وہی میرے واسطے خیر ہے ! نہ معلوم اولاد ہوتی تو کیسی ہوتی ؟ ؟ اور یہ بھی نہ کر سکے تو کم اَزکم یہ سمجھے کہ اولاد نہ ہونے میں بیوی کی کیا خطاء ہے ! ! !
جو اَولاد مرجائے اُس کا مرجانا ہی بہتر تھا :
حضرت خضر اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کا واقعہ قرآنِ مجید میں مذکور ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچہ کو قتل کر دیا تھا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ نے یہ کیا کیا کہ ایک بے گناہ بچہ کو مار ڈالا ! اور حضرت خضر علیہ السلام نے پہلے ہی حضرت مو سیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ رکھنے کی یہ شرط کر لی تھی کہ میرے کسی فعل پر اعترض نہ کرنا اس لیے اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا تم سے صبر نہ ہو سکے گا ! !
اس کے بعد اِس واقعہ کی یہ حکمت بیان فرمائی کہ اِس لڑکے والدین مؤمن ہیں اور لڑکا بڑا ہو کر کافر ہوتا۔ اور اُس کی محبت سے اُس کے ماں باپ بھی کافر ہوجاتے اِس لیے اِرادہ الٰہی یہ ہوا کہ اُس کا پہلے ہی خاتمہ کر دیا جائے اور اِس کے بدلے نیک اَولاد اُن کو ملے۔
اس قصہ سے معلوم ہوا کہ جو بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اُن کا مرجانا ہی بہتر ہوتا ہے ! ! اسی واسطے جو دیندار ہیں اُ ن کو اَولاد کے مرجانے کا غم تو ہوتا ہے لیکن پریشان نہیں ہوتے، جو شخص اللہ تعالیٰ کو حکیم سمجھے گا وہ کسی واقعے سے پریشان نہ ہوگا ! ہاں جس کی اُس پر نظر نہیں اُس پر اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے مثلاً کوئی بچہ مرجاتا ہے اُس کو بڑا اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے کہ اگر زندہ رہتا تو ایسا ہوتا ! ! دل کے اندر سے شعلے اُٹھتے ہیں ارمان ہوتے ہیں حسرتیں ہوتی ہیں کہ ہائے ایسی لیا قت کا تھا ایسا تھا ویسا تھا ! !
صاحبو ! تم کو کیا خبر کہ وہ کیسا تھا ؟ غنیمت سمجھو اِسی میں مصلحت تھی ممکن ہے کہ بڑا ہو کر کافر ہوتا اور تم کو کافر بنادیتا ! (الدنیا ملحقہ دُنیا وآخرت)
چھوٹے بچوں کی موت ہوجانے کے فوائد اور اُس کی حکمتیں :
چھوٹے بچے کی موت میں ایک حکمت یہ ہے ا گر وہ پیش ِ نظر رہے تو چھوٹے بچوں کے مرنے پر غم کے ساتھ خوشی کا ایک پہلو سامنے ہوگا ! لوگوں کو اَولاد کے بڑے ہونے کی خوشی محض اس لیے ہے کہ اُن کا نفس یوں ہی چاہتاہے ورنہ اُن کو کیا خبر کہ بڑے ہو کر یہ کیسا ہوگا ؟ والدین کی راحت کا ذریعہ ہوگا یا وبالِ جان ہوگا ؟ اور پھر وہ بڑے ہو کر مرے تو یہ خبر نہیں کہ وہ والدین کو آخرت میں کچھ نفع دے گا یا خود ہی سہارے کا محتاج ہوگا ؟ اور بچپن میں مرنے والے بچے بہت کار آمد ہیں اُن میں یہ احتمال ہی نہیں کہ وہ آخرت میں نا معلوم کس حال میں ہوں گے کیونکہ غیر مکلف بچے یقینا مغفورلہ بخشے بخشائے ہیں اور وہ آخرت میں والدین کے بہت کام آئیں گا ! ! !
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے جنت میں جانے سے پہلے آخرت میں بھی بچے ہی رہیں گے اور اُن کی عادتیں بھی بچوں کی ہوگی یعنی وہی ضد کرنا اور اپنی بات پر اَڑجانا پیچھے پڑ جانا لیکن یہ حالت جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہوگی پھر جنت میں پہنچ کر باپ بیٹے سب برابر ایک قد کے ہوجائیں گے حدیث میں آیا ہے کہ بچے اَڑجائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ ہم جنت میں نہ جائیں گے جب تک ہمارے ماں باپ کو ہمارے حوالے نہ کیا جائے، ہم تو اُن کو ساتھ لے کر جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اَیُّھَا الطِّفْلُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہ اَدْخِلْ اَبَوَیْکَ کہ اے ضدی بچے اپنے خدا سے ضد کرنے والے جا اپنے والدین کو بھی جنت میں لے جا ! تویہ بے گناہ بچے اللہ تعالیٰ سے خود ہی بخشش کے لیے ضد کریں گے !
اور اگر بچہ بڑا ہو کرمر جائے تو حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ یاد کر کے دل کو سمجھا لو نہ معلوم اس میں کیا حکمت ہوگی ؟ شاید اگر یہ زندہ رہتا تو دین کو بگاڑ لیتا یا دُنیا میں وبالِ جان ہوتا ! ! اس کے بعد اَحادیث میں مصائب وحوادث کی جو تفصیل حکمتیں مذکور ہیں نیز اُن پر جو ثواب بتلایا گیا ہے اُن کو پیش ِ نظر رکھیں اِن شاء اللہ غم بہت کم ہوجائے گا ! !
بس حاصل یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ اولاددیں اُس کے لیے یہی اچھا ہے اور جس کو نہ دیں اُس کے لیے یہی اچھا ہے ! اور اگر کسی کے بالکل ہی اولاد نہ ہو تو یہ سمجھے کہ میرے لیے اِسی میں حکمت ہے، نہ معلوم اَولاد ہوتی تو کن کن مصیبتوں کا سامنا ہوتا ! اور جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دے کر چھین لیں اُس کے لیے اسی میں مصلحت ہے لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَمَا اَعْطٰی کا یہی مطلب ہے جو حدیث میں مصیبتوں کی تسلی کے لیے آیا ہے ! اور یہی مطلب ہے اِنَّا لِلّٰہِ کا اور اس میں (مذکورہ تد بیر) واِعتقاد کو صبر کے پیدا کرنے میں بڑا دخل ہے ! اِنَّا لِلّٰہِ کے مضمون کو صبر حاصل کرنے میں بہت بڑا دخل ہے یہی وہ مضمون ہے کہ جس کی وجہ سے حضرت اُم سلیم صحابیہ نے کامل صبر فرمایا اور اپنے شوہر کو بھی صابر بنایا ! ! ( الاجر النبیل ملحقہ فضائل صبر وشکر) (جاری ہے)
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
رحمن کے خاص بندے قسط : ١٦
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
بُخل سے اجتناب ، بُخل اور کنجوسی کی ممانعت :
آیت زیر بحث ( وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا وَلَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا) ١ میں جہاں ایک طرف اسراف اور فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے وہیں دوسری جانب بخل اور کنجوسی کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے عربی میں '' قَتر'' کے معنی تنگی کرنے کے آتے ہیں اور یہاں اس سے بخل مراد ہے جو کسی نہ کسی درجہ میں انسان کی جبلت میں موجود ہے اسی لیے قرآنِ کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے ( وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا) ٢ یعنی انسان میں بخل کا مادّہ رکھا گیا ہے ٣
بخیل شخص اللہ کو پسند نہیں :
ضروری اور واجبی جگہوں پر خرچ کرنے میں بخل کرنا قرآنِ کریم کی نظر میں کافروں اور منافقوں کا عمل ہے چنانچہ سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا گیا :
( اِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرًا اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَکْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا) ٤
''بے شک اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہیں وہ لوگ جو اپنے کو بڑا سمجھیں اور شیخی بھگاریں ، جو خود بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں ، اور اُن چیزوں کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا کر رکھی ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے''
واضح ہو کہ بخل کے اصل معنٰی حقدار سے مال کو روکنے کے آتے ہیں ٥
١ سُورة الفرقان : ٦٧ ٢ سُورة الاسراء : ١٠٠ ٣ عُمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ ٤٤٠ ٤ سُورة النساء : ٣٦ ، ٣٧ ٥ عُمدة الحفاظ ص ٤٠
بخل کا مصداق :
بریں بنا بخل کا اصل مصداق یہ ہے کہ جس شخص پر حسب ِ شرائط زکوة یا صدقات واجب الاداء ہوں اور وہ ان کی ادائیگی میں آنا کافی کرے یا اپنے ایسے ماتحتوں یا رشتہ داروں کے خرچ میں وسعت کے باوجود کمی کرے جن کا خرچ اُٹھانا شرعًا اس پر واجب ہے تو ایسے لوگوں کا بخل کرنا سخت گناہ اور بدترین عذاب کا موجب ہے چنانچہ ارشاد ِ خداوندی ہے :
( وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْل اللّٰہِ ، فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلَیْمٍ ، یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ) ١
''اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، سو آپ ان کو ایک بڑی دردناک سزا کی خبر سنا دیجیے جو کہ اُس روز واقع ہوگی کہ ان کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کی کروٹوں اور ان کی پشتوں کو داغ دیا جائے گا (اور یہ جتلایا جائے گا کہ) یہ وہ ہے جس کو تم نے اپنے واسطے جمع رکھا تھا، سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو''
اس لیے جن حضرات پر زکوة وغیرہ فرض ہو تو اُنہیں حساب لگاکر خوش دلی سے زکوة اداد کرنی چاہیے ! اسی طرح جو حقوق العباد ذمہ میں واجب ہوں اُن کی بھی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے ! !
بخیل کا رُسوا کن انجام :
بلا شبہ بخل ایک ایسا مہلک مرض ہے جو اِنسان کو بہت سے اعمالِ خیر سے روکنے کا سبب بنتا ہے سورۂ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
( وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر ) ٢
١ سُورة التوبة : ٣٤ ٢ سُورہ اٰلِ عمران : ١٨٠
''اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اپنے فضل سے عطا کردہ (مال) میں بخل کرتے ہیں وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ یہ اُن کے لیے کوئی اچھی بات ہے ! بلکہ یہ بات ان کے لیے بہت ہی بری ہے ! وہ لوگ قیامت کے دن اس بخل کردہ مال کا طوق پہنائے جائیں گے اور حقیقت میں آسمان وزمین (بالآخر) اللہ ہی کا رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں ''
اس آیت کی تشریح میں پیغمبر علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ ''بخیل شخص کا مال قیامت کے دن بھیانک اَژدھے کی شکل میں تبدیل کر کے اُس کے گلے میں لپیٹ دیا جائے گا'' العیاذ باللہ !
چنانچہ سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
مَنْ اَتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَلَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہ مُثِّلَ لَہ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَہ زَبِیْبَتَانِ یُطَوَّقُہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَأْخُذُ بِلَھْزِمَتَیْہِ ، یَعْنِیْ بِشِدْ قَیْہِ ، یَقُوْلُ : اَنَا مَالُکَ اَنَا کَنْزُکَ ، ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الآیَةَ الخ ١
''جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا پھر اُس نے اس کی زکوة ادا نہیں کی تو اس کا مال اس کے لیے قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دو نوکیلے دانت ہوں گے (یا اُس کی آنکھ پر دو کالے داغ ہوں گے) جو قیامت کے دن اس کے گلے میں طوق بن کر اُس کے جبڑے کو پکڑ کر یہ کہے گا کہ ''میں ہی تیرا مال ہوں اور تیرا جمع کردہ خزانہ ہوں '' پھر پیغمبر علیہ السلام نے اس کی تائید میں مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی''
پس معلوم ہوا کہ مالی فرائض وواجبات کی ادائیگی میں بخل انجام کے اعتبار سے انتہائی تباہ کن اور رُسوائی کا سبب ہے ! ! !
پیغمبر علیہ السلام کی ایک اہم دعا :
اسی لیے پیغمبرعلیہ الصلٰوة والسلام بکثرت یہ دعا مانگا کرتے تھے :
١ صحیح البخاری کتاب الزکٰوة باب اثم مانع الزکٰوة رقم الحدیث ١٤٠٣ و تفسیر ابن کثیر ص ٢٨٢
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ وَ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ فِتْنَةِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ ۔ ١
''اے اللہ ! میں آپ سے بخل، سستی، نکمی عمر، عذابِ قبر اور زندگی اور موت کے فتنہ سے پناہ چاہتا ہوں ''
واقعہ یہ ہے کہ بخیل شخص مال کی محبت میں ایسا مجبور ہوجاتا ہے کہ عقل کے تقاضے اور شرعی واضح حکم کے باوجود اِسے ضروری مواقع پر خرچ کرنا بھی سخت ترین بوجھ معلوم ہوتا ہے !
بخیل اور سخی کی ایک مثال سے وضاحت :
اس کی اس کیفیت کو درج ذیل حدیث میں اس طرح واضح فرمایا گیا :
مَثَلُ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدْ اضْطُرَّتْ اَیْدِیْھِمَا اِلٰی ثُدْیَیْھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ اِنْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَةٍ قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَةٍ بِمَکَانِھَا ۔ ٢
''کنجوس آدمی اور صدقہ خیرات کرنے والے آدمی کی مثال ایسے دو شخصوں کی طرح ہے جو لوہے کی دو زِرہیں پہنے ہوئے ہوں جس کی (تنگی کی) وجہ سے ان کے دونوں ہاتھ اُن کے سینے اور گردن سے چمٹ گئے ہوں ، پس جب صدقہ دینے والا صدقہ دینا شروع کرتا ہے تو اس کی زِرہ کھلتی چلی جاتی ہے (اور اِنبساط کے ساتھ اپنا ارادہ پورا کرتا ہے ) اور جب بخیل کچھ صدقہ کا اِرادہ کرتا ہے تو زِرہ کے سب اجزاء مل جاتے ہیں اور ہر ہر جوڑ اپنی جگہ پکڑ لیتا ہے''
جس کی بنا پر بخیل کے لیے صدقہ کے اِرادہ کو پورا کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے ! !
بخیل شخص جنت سے دُور ہے :
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
١ صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٧٠٦ ، الترغیب والترھیب رقم الحدیث ٣٩٥٤ بیت الافکار الدولیة ٢ صحیح مسلم رقم الحدیث ١٠٢١ ، مشکٰوة المصابیح رقم الحدیث ١٨٦٤
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ خَبّ وَّلاَ مَنَّان وَّلَا بَخِیْل ۔( سُنن الترمذی رقم الحدیث ١٩٦٣ )
''جنت میں کمینہ اور صدقہ دے کر اِحسان جتانے والا اور بخیل شخص داخل نہ ہوگا''
اور سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اَلسَّخِیُّ قَرِیْب مِّنَ اللّٰہِ ، قَرِیْب مِّنَ الْجَنَّةِ قَرِیْب مِّنَ النَّاسِ، بَعِیْد مِّنَ النَّارِ۔ وَالْبَخِیْلُ بَعِیْد مِّنَ اللّٰہِ ، بَعِیْد مِّنَ الْجَنَّةِ ، بَعِیْد مِّنَ النَّاسِ قَرِیْب مِّنَ النَّارِ۔ وَلَجَاھِل سَخِیّ أَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ عَابِدٍ بَخِیْلٍ ۔ ١
''سخی اللہ سے قریب ہے ، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دُور ہے ! اور بخیل شخص اللہ سے دُور ہے، جنت سے دُور ہے لوگوں سے دُور ہے اور جہنم سے قریب ہے ! اور جاہل سخاوت کرنے والا اللہ کو بخیل عبادت کرنے والے سے زیادہ پسندیدہ ہے''
اور سیّدنا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
خَصْلَتَانِ لَا یَجْتَمِعَانِ فِیْ مُؤْمِنٍ : اَلْبُخْلُ وَسُوْئُ الْخُلُقِ ۔ ٢
''دو عادتیں مومن (کامل) میں جمع نہیں ہوتیں (١) کنجوسی (٢) بدخلقی ''
نیز سیّدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
اِذَا کَانَ أُمَرَاؤُکُمْ خِیَارُکُمْ وَاَغْنِیَاؤُکُمْ سَمَحَائُ کُم وَ اُمُوْرُکُمْ شُوْریٰ بَیْنَکُمْ ، فَظَھْرُ الْاَرْضِ خَیْر لَّکُمْ مِنْ بَطْنِھَا وَاِذَا کَانَتْ أُمَرَاؤُکُمْ شِرَارَکُمْ وَأَغْنِیَاؤُکُمْ بُخَلَا ئُ کُمْ اُمُوْرُکُمْ اِلٰی نِسَائِکُمْ فَبَطْنُ الْاَرْضِ خَیْر لَّکُمْ مِّنْ ظَھْرِھَا۔ ٣
''جب تمہارے اُمراء تم میں بہتر لوگ ہوں اور تمہارے مالدار تم میں سخاوت کرنے والے ہوں اور تمہارے معاملات مشورہ سے طے ہوں تو زمین سے اُوپر کا حصہ تمہارے لیے زمین کے اندر کے حصہ سے بہتر ہے (یعنی زندگی غنیمت ہے) !
١ سُنن الترمذی رقم الحدیث ١٩٦١ ٢ سُنن الترمذی رقم الحدیث ١٩٦٢ ، الترغیب و الترھیب مکمل رقم الحدیث ٣٩٦٦ بیت الافکار الدولیة ٣ سُنن الترمذی رقم الحدیث ٢٢٦٦
اور اگر تمہارے اُمراء (یعنی حکام ) تم میں سب سے بد تر لوگ ہوں اور تمہارے مالدار تم میں بخیل لوگ ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے حوالے ہوں تو پھر تمہارے لیے زمین کے اندر کا حصہ اوپر کے حصہ سے بہتر ہوگا (یعنی زندگی سے موت بہتر ہو گی)'' ! !
اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے مرسلا ًمروی ہے کہ نبی اکرم علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
اِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ خَیْرًا وَلّٰی اَمْرَھُمُ الْحُکَمَائَ وَجَعَلَ الْمَالَ عِنْدَ السُّمَحَائِ ، وَاِذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِقَوْمٍ شَرًّا وَلّٰی اَمْرَھُمُ السُّفَھَائَ وَجَعَلَ الْمَالَ عِنْدَ الْبُخَلَائِ ۔ ١
''جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتے ہیں تو اُن کے معاملات عقلمندوں کے حوالے کرتے ہیں اور مال سخاوت کرنے والوں کو عطا فرماتے ہیں ! اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ برائی کا اِرادہ فرماتے ہیں تو اُن کے معاملات بے وقوفوں کے حوالے کردیتے ہیں اور مال بخیلوں کو عطا کرتے ہیں '' ! !
اور ایک حدیث میں جنابِ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
صَلَاحُ اَوَّلِ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ بِالزَّھَادَةِ وَالْیَقِیْنِ وَھَلاَکُھَا بِالْبُخْلِ وَالْاَمَلِ ۔ ٢
''اس اُمت کی سب سے پہلی صلاح کا سبب یقین اور زُہد (کے اوصاف) تھے اور اِس میں بگاڑ کی ابتداء بخل اور ہوس سے ہوگی''
بریں بناء ہر صاحب ِ ایمان کو حتی الامکان بخل اور کنجوسی سے قصداً بچنے کا اہتمام کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی سب ناپسندیدہ باتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں ، آمین۔ (جاری ہے)
١ کتاب الآثار للامام ابویوسف باب الغزو والجیش ص٢١٤ رقم الحدیث ٩٤٩ ، الترغیب و الترھیب رقم الحدیث ٣٩٧١ ٢ المعجم الاوسط للطبرانی ج ٨ ص٣١٦ رقم الحدیث ٧٦٥٠
میرے حضرت مدنی قسط : ١
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
اَمیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اسلام میں معتقدات اور عبادات کا بڑا عظیم مرتبہ ہے، عقیدۂ صادقہ تو خاص طور پر کسی بھی آسمانی مذہب میں ایسی بنیادی چیز ہے کہ بغیر اس کے دین کا وجود ہی باقی نہیں رہ سکتا، اس کے بعد عبادات کا مرتبہ اور خاص طور پر نماز کا مرتبہ ایمان کے بعد بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، لیکن اسلام میں خاص طور پر حسنِ معاشرت یعنی انسان کا انسان کے ساتھ رہن سہن اور ان کے حقوق کی بڑی اہمیت ہے اسی لیے قرآن و حدیث میں اس کو بھی بڑی تاکید سے بیان کیا گیا ہے، میں نے اپنی زندگی میں جن چند اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے ان کے یہاں اگر ایک طرف اللہ نے ان کو بہت رُعب دیا تھا اور اُن کی مجالس بہت سنجیدہ مجلس ہوتی تھی، متوسلین بہت با ادب رہا کرتے تھے۔
تو دوسری طرف وہی مجلس کبھی کبھی بڑے بے تکلفی اور ہنسی مذاق کی بھی ہوتی تھی، حضرت مدنی رحمہ اللہ کے ایک ساتھی کٹھور ضلع میرٹھ کے حکیم اسحاق صاحب دارُالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے رُکن بھی تھے، بہت دبلے پتلے تھے اور حضرت مدنی رحمہ اللہ کا تن وتوش اچھا تھا، جب وہ دیوبند آتے تھے تو اپنے کمر بند میں پانچ روپے کا نوٹ باندھے رہتے تھے اور حضرت مدنی دارُالعلوم کے اساتذہ اور اپنے متوسلین کے سامنے ان کو گراکر کمر بند سے وہ روپے نکالا کرتے تھے اور حکیم صاحب ان کو برا بھلا کہتے رہتے تھے، یہ پیر بن گئے ہیں ، ڈاکو ہیں ، لوگوں کے پیسے چھینتے ہیں ، سب لوگ ان دونوں کی اس بے تکلفی اور حکیم صاحب مرحوم کی باتوں سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے اور پھر ان پیسوں کی مٹھائی آیا کرتی تھی اور سب لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے تھے ، چونکہ اُس زمانہ میں پانچ روپیہ کی بڑی قیمت تھی اس لیے اصلی گھی کی مٹھائی پانچ روپے میں کئی سیر آیا کرتی تھی !
مجھے یاد ہے کہ حکیم صاحب کا انتقال ہوا تو ان کے بچوں نے حضرت مدنی رحمہ اللہ کو اطلاع دی تو حضرت کار سے تشریف لے گئے، میں چھوٹا سا تھا، کار کی سواری کے شوق میں میں بھی با اصرار حضرت کے ساتھ ہولیا، مجھے یاد ہے کٹھور میں ایک اَمرود کے باغ میں موصوف کی قبر بن رہی تھی، جنازہ پہنچا تو قبر تیار ہونے میں کچھ دیر تھی،حضرت کے چہرے پر سکوت تھا اور رنج و غم ظاہر ہورہا تھا تھوڑی دیر میں حضرت مدنی نے زمین پر بیٹھنا چاہا تو ایک صاحب رومال لے کر بچھا نے کے لیے دوڑے تو حضرت نے یہ کہتے ہوئے جھڑک دیا کہ '' کیا میری قبر میں بھی بچھاؤگے ''
تدفین سے فارغ ہوکر اہلِ خانہ کو تعزیت پیش کرنے کے لیے میرٹھ ان کے گھر تشریف لائے تو چند ہی منٹ بعد اِن کے بڑے صاحبزادے ایک بڑی پلیٹ میں تازی بالوشاہیاں لے کر آئے اور حضرت مدنی رحمہ اللہ کے سامنے پیش کیں تو حضرت نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آج حادثہ کے دن تعزیت پیش کرنے پر اِس کا کیا موقع ہے ؟ تو حکیم صاحب مرحوم کے صاحبزادے رونے لگے، جب سکون ہوا تو فرمانے لگے کہ کل جب نزع کی حالت شروع ہوئی تو فرمایا کہ میری موت کے بعد حضرت مدنی کو نمازِ جنازہ کے لیے بلانا، میرے تکیہ کے نیچے پانچ روپے رکھے ہیں حضرت جب گھر تشریف لائیں تو اس کی مٹھائی منگاکر حضرت کی خدمت میں پیش کرنا، میں یہ ان ہی کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں لوگوں نے حکیم صاحب مرحوم کی اس محبت اور حسنِ تعلق پر بڑا تعجب کیا، ان حضرات کے اسی طرح کی محبت اور عقیدت و تعلق کی جھلک اس پوری کتاب میں آپ کو جگہ جگہ نظر آئے گی ! !
باوجودیکہ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ حضرت رائے پوری اور حضرت مولانا زکریا صاحب رحمہم اللہ سے عمر میں بزرگ تھے ان حضرات میں جو بے تکلفی، محبت اور تعلق تھا اس کی نظیر نہیں ملتی میں نے دیکھا ہے کہ جب حضرت مدنی رحمہ اللہ کا رمضان کے قریب ٹانڈہ ضلع فیض آباد کا سفر اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہوا کرتا تھا تو سہارنپور اسٹیشن پر لوگوں کی بھیڑ ہوجاتی تھی اور مذکورہ دونوں مشائخ بھی موجود رہتے تھے حضرت رائے پوری رحمہ اللہ اُس وقت پیدل چلتے تھے لیکن دونوں طرف ایک آدمی کے کاندھے پر سہارا لے کر چلتے تھے، چونکہ سہارنپور جنکشن تھا اس لیے وہاں کوئلے کا انجن بدلا جاتا تھا (اُس زمانہ میں بجلی اور ڈیزل کے انجمن نہیں ہوتے تھے) اس انجن کی رفتار اِبتدا میں بہت سست ہوتی تھی !
حضرت رائے پوری رحمہ اللہ کی اپنے دونوں معاونین کو یہ ہدایت ہوتی تھی کہ جب تک حضرت مدنی کے ساتھ ساتھ چلنا ممکن ہو مجھے لے کر چلتے رہو، حضرت مدنی رحمہ اللہ بھی گاڑی کے دروازے پر کھڑے ہوکر بار بار رُکنے کی ہدایت کرتے رہتے تھے لیکن حضرت رائے پوری اور ساتھ میں متعلقین بھی چلتے رہتے تھے یہاں تک کہ گاڑی رفتار پکڑلیتی تھی تب رُک جاتے تھے غالباً اسی تعلق کی وجہ سے حضرت مدنی رحمہ اللہ کا آخری سفر بھی علالت کے باوجود رائے پور ہی کا ہوا تھا !
حضرت مدنی رحمہ اللہ سال میں ایک مرتبہ ضلع مظفر نگر میں ''جلال آباد لوہاری'' کا سفر کیا کرتے تھے اس قصبہ میں ایک صاحب حضرت مدنی کے مرید ''بندوخان صاحب مرحوم'' پرانے زمیندار تھے ان کے یہاں قیام ہوتاتھا، یہاں ایک مسجد حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کے شیخ طریقت میاں جی نور محمد صاحب جھنجھانوی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے اور مسجد کے برابر میں حضرت میاں جی صاحب رحمہ اللہ کا کمرہ بھی ہے، حضرت مدنی رحمہ اللہ عصر سے مغرب تک اسی کمرہ میں مراقب رہتے تھے ، بلکہ اپنے بعض متوسلین کو جو سلوک کے آخری مراحل میں ہوتے تھے چلہ گزارنے کے لیے وہاں بھیجتے تھے جن کو اِس کمرہ میں ہمہ وقت مراقبہ کی تلقین ہوتی تھی چونکہ حضرت مدنی رحمہ اللہ کا یہ سفر پہلے سے طے شدہ کسی پروگرام کے بغیر ہوتا تھا اس لیے اس کا علم صرف بندوخان صاحب ہی کو پہلے سے ہوتا تھا !
لیکن حضرت رائے پوری اور حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہما اللہ کی اِن کو شدید تاکید تھی کہ جب حضرت مدنی کا پروگرام بنا کرے تو ہمیں ضرور اطلاع کیا کریں چنانچہ یہ دونوں حضرات بھی عصر کے بعد حضرت مدنی رحمہ اللہ کے ساتھ اس مبارک نشست میں شریک رہا کرتے تھے !
حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کے بعد میں بار ہا حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ کی خدمت میں سہارنپور اور مدینہ منورہ میں حاضر ہوا ہوں ، جب بھی کسی مناسبت سے حضرت مدنی رحمہ اللہ کا ذکر آجاتا تھا تو بے خود ہوکر رونے لگتے تھے، واقعہ یہ ہے کہ جس آدمی نے ان حضرات کے ساتھ کچھ وقت نہیں گزارا وہ صحیح طور پر صرف واقعات سن کر یا پڑھ کر محبت اور تعلق کا اندازہ نہیں لگا سکتا، پھر بھی حضرت شیخ کی ''آپ بیتی'' پڑھ کر کسی نہ کسی حدتک ان اکابرکا تعلق حضرت مدنی رحمہ اللہ کی شفقت اور اِن دونوں مشائخ کی حضرت مدنی رحمہ اللہ سے عقیدت برابر سامنے آتی رہے گی ! !
عزیز گرامی قدر مفتی محمد مصعب صاحب نے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کی ''آپ بیتی'' کا ایک ایک ورق پڑھ کر حضرت مدنی رحمہ اللہ سے متعلق واقعات کو بڑے سلیقہ سے الگ کر کے ایک کتابچہ کی شکل میں پیش کیا ہے جو پڑھنے والوں کے لیے مفید ثابت ہوگا، راقم الحروف دعاگو ہے کہ اللہ موصوف کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور دنیا میں ان اکابر سے محبت کو آخرت میں ان کی قربت کا سبب بنائے،آمین !
ارشد مدنی
٢٧ ذوالقعدہ ١٤٤٢ھ / ٧ جولائی ٢٠٢١ء
حضرت شیخ کا حضرت مدنی سے ابتدائی تعارف
حضرت شیخ الاسلام مولانا الحاج سیّد حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ کو اِس ناکارہ پر شفقت و محبت اُس وقت سے ہے جبکہ اِس ناکارہ کی عمر بارہ سال سے بھی کم تھی ! ١٣٢٧ھ میں حضرت مدنی قدس سرہ نے تقریبًا دو ماہ قیام گنگوہ شریف کیا اور مسلسل روزے رکھا کرتے تھے، معمول یہ تھا کہ حضرت عصر کی نماز خانقاہ کی مسجد میں پڑھا کر سیدھے حضرت قطب عالم ١ کے مزار پر تشریف لے جاتے، مغرب تک وہاں مراقب رہتے اور غروب سے پانچ سات منٹ پہلے اُٹھتے اور ہمارا گھر خانقاہ کے راستہ میں تھا میری والدہ مرحومہ کئی نوع کی افطاری پھلکیاں وغیرہ تیار کرکے رکھتیں اور ایک دستر خوان چار پائی پر بچھا کر اس پر آٹھ دس طرح کی افطاریاں رکھ دیتیں اور میں باہر کے دروازہ پر کھڑا ہوجاتا اور جب دُور سے حضرت مدنی کو آتا دیکھتا، بھاگ کر اپنی والدہ سے کہتا کہ آگئے آگئے وہ جلدی سے پردے میں ہوجاتیں !
اتنے میں حضرت دروازے تک پہنچ جاتے اور میں دروازے سے ''آجائو ، تشریف لے آؤ'' کاشور مچاتا، حضرت اندر تشریف لاتے، بہت اطمینان سے افطار فرماتے۔ اسی قانون کے تحت جو میں اپنے والد صاحب کے افطار کا حضرت حکیم الامت قدس سرہ ٢ کے حال میں لکھوا چکا ہوں ، خوب اطمینان سے افطار فرمانے کے بعد پانی وغیرہ پینے کے بعد ہاتھ دھوکر کلی کر کے خانقاہ میں تشریف لے جاتے اور نماز پڑھاتے کہ اُس زمانے میں مستقل امام وہی تھے، خانقاہ میں پہنچ کر ایک لوٹے سے پانی کے دو گھونٹ پی کر گویا افطار کر کے مصلے پر پہنچ جاتے، حقیقت میں تو یہ تھا کہ حضرت مدنی، حضرت صاحبزادے صاحب حکیم مسعود احمد صاحب کے مستقل مہمان تھے اور حکیم صاحب کے لیے یہ چیز موجب ِگرانی تھی کہ وہ کہیں دوسری جگہ افطار کریں ! یہی وہ دور ہے جس کے متعلق باب دوم میں ''مدینہ'' کے ایڈیٹر کو حضرت نے تحریر فرمایا تھا کہ میں اُس وقت سے واقف ہوں جبکہ اِس کی عمر بارہ برس کی تھی اس کے بعد سے تو پھر جب ملاقات ہوتی، شفقتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ (آپ بیتی ٣٩٣ ، ٣٩٤)
١ حضرت اقدس مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ ٢ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
میں نے سوچا کہ دو گھنٹہ تم سے مل لوں گا :
اخیر زمانے کا حال تو میں پہلے لکھوا چکا ہوں کہ دیوبند سے روڑکی اور پنجاب یا چھوٹی لائن پرجانے آنے میں اگر ایک گھنٹے کا بھی فرق ہوتا تو واپسی کا تانگہ لے کر مکان تک تشریف لاتے اور اِن ہی شفقتوں نے مجھے اپنے دو اَکابر حضرت مدنی اور حضرت رائے پوری ثانی ١ قدس سرہما کی شان میں بہت ہی گستاخ بنادیا تھا ، اللہ تعالیٰ ہی معاف فرماوے، ان دونوں اَکابر کا اِس سیہ کار کے ساتھ تعلق اور اِس ناکارہ کا اِن دونوں بزرگوں کے ساتھ گستاخانہ برتاؤ دیکھنے والے ابھی تک ہزاروں موجود ہیں تقسیم سے پہلے جو آخری حج حضرت مدنی قدس سرہ کا ہوا تو بندہ کے نام تار آیا کہ میں فلاں تاریخ کو فرنٹیر سے پہنچوں گا ، میری ایک عادت ہمیشہ مستقل اور دائمی یہ رہی جو اَب نہیں ہے کہ نہ سونا تو میرے قبضے کی چیز تھی ، دو تین رات مسلسل نہ سونا آسان تھا لیکن سونے کے بعد اُٹھنا میرے بس کا نہیں تھا !
بچپن میں میری والدہ مرحومہ رمضان میں سحری کے لیے انتہائی مشقت سے اُٹھاتیں ، مگر میں نہیں اُٹھتا تھا وہ بٹھا کر بڑی مشکل سے دو لقمے سحری کے کھلاتیں جن کا کھانا مجھے بالکل یاد نہیں ہوتا تھا البتہ صبح کو اُس چیز کا ذائقہ ہوتا جو سحری میں کھاتا ! اس سے بڑھ کر یہ کہ جوانی کے زمانے میں والدین کے انتقال کے بعد ایک مرتبہ رات کو بارش ہوئی، گرمی کا زمانہ تھامیں باہر سو رہا تھا بالکل پتہ نہیں چلا، صبح کو اُٹھنے کے بعد دیکھا تو ساری چار پائی بستر سارا بھیگ رہا تھا اور میں بھی بھیگ رہا تھا !
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ١٣٣٨ھ کے حج میں شریف مرحوم کے زمانے میں جبکہ غارت ولوٹ مار کی کثرت کی وجہ سے مدنی قافلے معروف راستے سے نہیں جاسکتے تھے، اوّلاً سمندر کے کنارے اور آخراً جبل ِغائر کو جاتے تھے اسی راستہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا سفرفرمایا تھا، اس میں پہاڑ کی چڑھائی کہ وجہ سے آخری تین منزلوں میں شُغْدُفْ شِبْرِی وغیرہ کچھ نہیں جاسکتے تھے !
اُونٹ کی خالی پشتوں پر حجاج رات کو چلتے لیکن گرنے کے خوف سے اُونٹ پر نہیں بیٹھ سکتے تھے اور چونکہ کوئی سایہ کا سامان شُغْدُفْ وغیرہ نہیں تھا علی الصباح آفتاب نکل آتا تھا اور کوئی درخت وغیرہ
١ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ
بھی آس پاس نہیں ہوتا تھا ، لیکن یہ ناکارہ مدینہ جاتے ہوئے بھی اور اسی طرح واپسی میں احرام کی حالت میں بھی ننگے بدن صرف ٹانگوں میں ایک لنگی اِسی ریت پر ہندی بارہ بجے تک سوتا ! جب اُٹھتا تو میرے نیچے کا ریت پسینے کی کثرت سے ایسا ٹھنڈا اور بھیگا ہوا ہوتا کہ جیسے کسی نے پانی کا گھڑا ڈال رکھا ہو اور گرمی کی شدت کی وجہ سے سارے رُفقاء کے منہ سرخ ہوتے اور مجھ پر خوب خفا ہوتے کہ دھوپ سے بھی تیری آنکھ نہیں کھلتی !
بہرحال چونکہ سوکر اُٹھنا میرے بس کا نہیں ہوتا تھا اس لیے جب مجھے اخیر شب میں کہیں جانا یا حضرت مدنی قدس سرہ کی آمدکا کہیں سے تار آیا ہوا ہوتا (کہ حضرت کے علاوہ اور کسی کے لیے میں اسٹیشن پر نہیں جاتا تھا) تو میرا دستور یہ تھا کہ میں عشاء کے بعد سے اپنے لکھنے کا کام شروع کردیتا اور اسٹیشن جانے تک بہت سہولت اور انہماک سے لکھتا رہتا، چونکہ حضرت قدس سرہ کا تار کراچی سے فرنٹیر سے پہنچنے کا تھا اور وہ صبح کے وقت چار بجے اسٹیشن پر آتا تھا میں بہت اطمینان سے اُوپر بیٹھالکھ رہا تھا کہ بارہ بجے کے قریب میرے زینے پر نہایت شدت سے زور زور سے پاؤں مار کر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی، میں نے دیکھا تو حضرت شیخ الاسلام صاحب میرے کمرے پر پہنچ گئے ! !
میں ایک دم اُٹھا اور اپنی حماقت سے گستاخانہ لفظ کہا کہ'' مشائخ ِحدیث، مشائخ ِسلوک حج سے آتے ہوئے بھی جھوٹ اور دھوکہ دہی سے احتراز نہیں فرماتے ! یہ فرنٹیر کا وقت ہے ؟ '' اور یہ کہہ کر کھڑا ہی ہوا تھا کہ حضرت ایک دم چمٹ گئے اور خوب معانقہ فرمایا جس کی لذت اب تک یاد ہے ! حضرت قدس سرہ نے (اللہ تعالیٰ بہت بلند درجات عطا فرمائے اور حضرتین مولانا مدنی ورائے پوری کی شفقتوں کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے) یہ ارشاد فرمایا کہ جب کراچی میل لاہور پہنچا تو کسی نے یہ کہا کہ کلکتہ میل سامنے چھوٹ رہا ہے وہ دو گھنٹہ لیٹ تھا، میں چھڑی اور مشلح ہاتھ میں لے کر چلتی گاڑی میں کلکتہ میل میں سوار ہوگیا، ساتھیوں کو بھی ایک دو کے سوا (جن کو میں لاہور کے اسٹیشن پر ریل سے اُترتے ہوئے کہہ کر آیا کہ میں سہارنپور اسٹیشن پر ملوں گا) کسی کو خبر نہیں ہے، مستورات اور سارا سامان فرنٹیر سے آرہا ہے، میں نے سوچا کہ دو گھنٹہ تم سے مل لوں گا ! !
یہ فرماکر ارشاد فرمایا چلو جلاہے کو اُٹھاویں ، قطب ِعالم حضرت گنگوہی قدس سرہ کے منجھلے نواسے جناب حافظ محمد یوسف صاحب مرحوم انصاری گنگوہی ممبر شوریٰ دارُالعلوم دیوبند انگریزی دور میں سرکاری ملازم تھے ، بہت اُونچی تنخواہ اور اَفسران کی نگاہ میں بہت باعزت وباوقار سرکاری حیثیت سے بہت ہی امتیازی شخصیت و شان رکھتے تھے، ترکِ موالات کے زمانہ میں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر سہارنپور میں مستقل قیام کر لیا تھا اور یہاں کھدر کے بُننے کی کھڈیاں کئی ایک لگائی تھیں ، اُس وقت سے حضرت مدنی قدس سرہ کے یہاں اِن کا لقب جلاہا پڑ گیا تھا ع
لگتی ہیں گالیاں بھی منہ سے ترے بھلی
میں نے کہا کہ ضرور چلیے میں یہ کہہ کر لیمپ گل کر کے ساتھ ہولیا اور زینے سے اُترتے وقت میں نے پوچھا کہ اور چائے ؟ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ضرور ! نصیر سے کہہ دو کہ بناکر وہیں لے آئے، نصیر اپنے مکان میں سورہا تھا، میں نے جلدی سے اُس کو آواز دے کر جگایا اور کہا کہ حضرت تشریف لے آئے، دو کیتلی (چائے دان) چائے کی، ایک بہت بڑی ہلکی چائے کی اور ایک چھوٹی تیز چائے کی بنا کر حافظ یوسف صاحب کے یہاں جلدی لے آؤ، وہاں پہنچے تو وہ مرحوم سو رہے تھے، کئی آوازوں میں بیدا ہوئے اور اُٹھ کر گھڑی دیکھ کر آنکھیں ملتے ہوئے آئے اور کہا کہ میری گھڑی میں تو ابھی بارہ ہی بجے ہیں ، گھڑی بند ہوگئی ہے ! حضرت نے فرمایا کہ بے فکری سے سورہے ہیں اور ایک ہم ہیں ع
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
میں نے عرض کیا کہ اب بھی کچھ پوچھنے میں کسررہ گئی، مشرق، مغرب ہندوعرب تو پیچھے پیچھے پھرتے ہیں ، وہاں بیٹھ کر حافظ یوسف صاحب سے وہی بیان فرمایا کہ کلکتہ میل لیٹ تھا، میں نے سوچا کہ دو گھنٹہ دوستوں سے مل لیں گے، اتنے میں مولوی نصیر الدین چائے لے آئے، اللہ تعالیٰ ان کو بہت ہی جزائے خیر دے ! اطمینان سے چائے پی، سفر کے حالات حضرت سناتے رہے، ڈھائی بجے کے قریب حافظ یوسف صاحب کو تقاضا کیا کہ آپ اسٹیشن نہ جائیں اور مجھ سے فرمایا کہ چلو اسٹیشن ! میں نے کہا کہ میں تو بغیر حکم کے بھی چلوں گا ! جب ہی اسٹیشن کے لیے تانگہ منگایا اور پونے تین بجے کے قریب اسٹیشن پہنچ گئے، وہاں سوڈیڑھ سو کا مجمع جمع ہوچکا تھا، حضرت تانگہ سے اُترے اور ووہاں کہرام مچ گیا کوئی کہے کہ حضرت تشریف لے آئے ، اور کوئی دُور سے کہتا ہے کہ بالکل جھوٹ ابھی تو گاڑی میں سوا گھنٹہ ہے ، اور کسی نے کہا کہ گاڑی کہاں کو آگئی ہم نے تو دیکھی نہیں ! !
حضرت مشلح اوڑھے چھڑی ہاتھ میں لے کر نہایت وقار سے ہر شخص سے فرما رہے تھے کہ آپ اگر مجھے پہچانتے ہیں اور میں حسین احمد ہوں تو مل لیجیے، بہت اطمینان سے لوگوں سے مصافحے کیے اتنے میں فرنٹیر میل آگیا، چونکہ وہ دیوبند نہیں ٹھہرتا اس لیے سارا سامان جو حضرت قدس سرہ کے ساتھ ہر چھوٹے بڑے سفر میں خوب ہوا کرتا تھا اور اس مرتبہ تو حج سے تشریف لا رہے تھے وہ سارا سامان سہارنپور کے اسٹیشن پر اُتار دیا گیا اور جب ہی ساڑھے چار پر پسنجر جاتا تھا اس میں رکھا گیا، بہت ہی بھاگ دوڑ ہوئی، مگر حضرت قدس سرہ کو سامان کی کثرت سے کبھی فکر نہ ہوتی تھی اور میں حضرت کے سامان کو دیکھ کر ہمیشہ سہم جاتا تھا کہ اتنا سامان کس طرح جائے گا !
چھ بجے کے قریب حضرت قدس سرہ دیوبند پہنچے اور آٹھ بجے بخاری کا سبق پڑھایا اور اس سیہ کار کو جب کہیں سفردرپیش ہو تو تین دن پہلے بلکہ ایک ہفتہ پہلے سے اس کے سہم میں بخار ہوجاتا ہے ! اور دس دن بعد تک تکان اور بخار رہتا ہے !
ببیں تفاوتِ رہ اَز کجاست تا بہ کُجا
میرے حضرت اقدس سہارنپوری قدس سرہ کا بھی یہی دستور تھا کہ جب کہیں جانا ہوتا تو بہت اطمینان سے بذل لکھواتے رہتے اور جب حاجی مقبول صاحب سامان بندھواکر تانگہ پر رکھ کر یہ اطلاع دیتے کہ تانگہ آگیا تو حضرت نہایت اطمیان سے لکھواتے ہوئے اُٹھتے اورگھر کے دروازے پر کھڑے کھڑے جاتے اور پھر تانگہ میں بیٹھ جاتے ! میرا تو اپنے بزرگوں کے قصے لکھوانے کو بہت جی چاہتا ہے خواہ کسی کو پسند آویں یا نہ آویں مجھے تو بہت مزہ آتا ہے اور حضرت مدنی اور حضرت رائے پوری ثانی کی تو اتنی شفقتیں ہیں کہ بڑے بڑے دفتروں میں بھی نہیں آسکتیں ! ! (آپ بیتی ص ٣٩٤ تا ٣٩٨)
اگر کھانا کھالیتے تو تمہارے یہاں کیوں آتے :
ایک مرتبہ دوپہر کا وقت گرمیوں کا زمانہ ایک بجے دوپہر کو میں اپنے گھرکے دروازے میں سویا کرتا تھا کیونکہ بجلی پنکھے کا دور نہیں شروع ہوا تھا ،میں سونے کے لیے لیٹا، سرہانے کی طرف سراُٹھا کر دیکھا تو حضرت قدس سرہ کھڑے ہیں ! میں نے جلدی سے اُٹھ کر مصافحہ کیا اور پہلا سوال یہ کیا کہ حضرت کھانا ؟ ارشاد فرمایا کہ اگر کھانا کھالیتے تو تمہارے یہاں کیوں آتے ؟ حضرت کے پیچھے پیچھے علامہ ابراہیم مرحوم اور ان کے پیچھے نائب مہتمم دارُالعلوم دیوبند مولانا مبارک علی صاحب مرحوم اور یکے بعد دیگرے ایک لائن لمبی تھی جن کو میں نے اُس وقت شمار بھی نہ کیا، بعد میں معلوم ہوا کہ بارہ تھے حضرت قدس سرہ تو کچے گھر میں آگئے اور پیچھے پیچھے جملہ رُفقاء اور میں ننگے پاؤں اندر گیا اور اپنی بچیوں سے پوچھا کہ حضرت کئی آدمیوں کے ساتھ ہیں کچھ کھانے کوہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہ روٹی کا کوئی ٹکڑا اور نہ کچھ سالن، جس کی وجہ یہ تھی کہ کھانے کے وقت بے اطلاع آٹھ دس مہمان عین وقت پر پہنچے تھے اس لیے کچھ نہیں رہا تھا بلکہ بچیوں نے بھی آدھی بھوک کھائی تھی !
اللہ جل شانہ ہر دو میری بیویوں اور سب بچیوں کو بہت ہی جزائے خیر دے، مہمانوں کے سلسلہ میں ان سے بہت ہی راحت پہنچی ہے، تیس چالیس مہمانوں کا کھانا آدھ پون گھنٹے میں تیار کردینا ان کے یہاں بہت ہی معمولی بات رہی، بشرطیکہ گھر پر کئی ہوں ، میں نے ان سے کہا کہ جلدی سے ایک آٹا گوندھے اور یک جلدی سے دیگچی میں مصالحہ بھونے اور میں باہر ننگے پاؤں گیا، حضرت مدنی قدس سرہ کی کرامت کہ سڑک پر پہنچتے ہی میں نے دیکھا کہ میرا قدیمی قصاب صوفی کرم الٰہی جو ہمیشہ سے میرے یہاں گوشت لاتا ہے اور مجھے بھی اس سے محبت و تعلق ہے اس کے سوا کسی کا گوشت پسند نہیں آتا، بہت آہستہ آہستہ بہت دُور سے آرہا ہے میں ننگے پاؤں اس کی طرف بھاگا اور اس کو آواز دی کہ جلدی آ ! وہ جلدی سے آیا،میرے سوال پر اُس نے کہا کہ گوشت بھی ہے اور قیمہ بھی ہے ! میں نے کہا کہ قیمہ مجھے دے اور جلدی سے دونوں ہاتھوں میں سارا قیمہ جو تین سیر کے قریب ہوگا لے کر پہنچا تو دونوں چولہوں میں آگ جل چکی تھی، ایک پر تو ا رکھا تھا اور ایک پر مصالحہ بھن رہا تھا، میں نے جلدی سے وہ گوشت مصالحہ میں ڈال کر کہا کہ جلدی سے پکاؤ اور دو بچیوں سے کہا کہ توے پر بیٹھو، ایک پیڑے بناکر روٹی بنائے اور دوسری توے پر سینکے، وہ بجائے دو کے تین بیٹھ گئیں ایک گوشت بھون رہی تھی اور اِس وقت چا رہی گھر میں تھیں اور میں نے باہر آکر شور مچایا کہ بھائی کسی نے دستر خوان نہیں بچھایا، ارے بھائی دستر خوان بچھاؤ اور ہاتھ دُھلاؤ !
حضرت قدس سرہ سمجھے کہ کھاتا تیار رکھا ہوگا سب کے ہاتھ دھلائے اور ترتیب سے بیٹھنے اور دستر خوان بچھانے میں دو تین منٹ لگ گئے ،میں اندر گیا تو دس بارہ روٹی تیار ہوچکی تھیں اور قیمہ بھی نیم برشت ہوچکا تھا ، میں اطمینان سے تین رکابی میں قیمہ لایا اور تین جگہ روٹیاں رکھیں ، ایک دم حضرت قدس سرہ کو خیال ہوا کہ پہلے کا کچھ نہیں ، حال ہی کا پکا ہوا ہے ! !
حضرت کو تو تعجب نہیں ہوا کہ بارہا حضرت کو سابقہ پڑچکا تھا لیکن علامہ ابراہیم مرحوم جو فن ِمعقول کے مشہور امام تھے فرمانے لگے کہ کیا آپ کو ہمارے آنے کا پہلے سے علم تھا یا آپ کو کشف ہوگیا تھا ! میں نے کہا کہ جناب کے یہاں بیٹھنے کے بعد یہ گوشت قصاب کے یہاں سے خریدا گیا ہے فرمانے لگے کہ یہ بات عقل میں نہیں آتی ! میں نے کہا کہ ہر بات معقول نہیں ہوتی کچھ عقول سے بالا تر بھی ہوتی ہیں ، حضرت مدنی نے علامہ سے فرمایا کہ مناظرہ نہ کرو جلدی سے کھالو، دیر ہورہی ہے ان کے یہاں تو یہ قصے چلتے ہی رہتے ہیں ! اور پھر مجھ سے فرمایا کہ اِن میں سے میرے ساتھ کوئی نہیں ۔ (آپ بیتی ص ٣٩٨ ، ٣٩٩)
مجھے اَبا کی ضرورت نہیں ہے، کھانے کی ضرورت ہے :
میرے حضرت مدنی قدس سرہ نور اللہ مرقدہ کے صرف کھانے ہی کی مد میں اگر شفتیں اور واقعات گنواؤں تو ان کا احاطہ بھی بہت دُشوار ہے ! بارہا اِس کی نوبت آئی کہ حضرت تشریف لائے اور میں دارُالطلبہ سبق میں تھا، حضرت نے دروازے پر کسی بچے کو آواز دے کر ارشاد فرمایا کہ حسین احمد کا سلام کہہ دو اور کہہ دو کہ جو کھانے کو رکھا ہے جلدی بھیج دو ! گاڑی کا وقت قریب ہے اور جب اندر سے بچیوں کی یہ آواز سنتے کہ اَباجی کو جلدی سے مدرسہ سے بلالاؤ تو حضرت للکار کر فرماتے کہ مجھے اَبا جی کی ضرورت نہیں ہے کھانے کی ضرورت ہے، ہو تو بھجوادوورنہ میں جارہا ہوں ! کئی دفعہ اس کی نوبت آئی کہ میرے دارُالطلبہ سے آنے تک حضرت کھانا شروع فرمادیتے یا تناول فرمالیتے تھے اور ارشاد فرماتے کہ آپ کا آپ کے گھر والوں نے حرج کیا ہے، میں نے نہیں بلوایا ! ! (آپ بیتی ص ٤٠٠)
جمعہ کے دن کھانے کے سلسلے میں حضرت مدنی کا معمول :
حضرت قدس سرہ کا معمول جمعرات کے سفر کا ہمیشہ سے تھا اور کبھی جمعہ کو بھی آتے جاتے سہارنپور کا نمبر آجاتا، میری عادت اپنے والد صاحب رحمة اللہ علیہ ہی کے زمانے سے جمعہ کے دن جمعہ کے بعد کھانے کی ہمیشہ رہی، مجھے پہلے کھاکر جمعہ کی نماز میں لطف نہیں آتا اور حضرت قدس سرہ کا معمول ہمیشہ جمعہ سے پہلے کھانے کا تھا خواہ وقت قلیل ہی ہو ! سفر میں تو ہمیشہ میزبان ان کی رعایت کرتے اور میں تابع ہوتا مگر سہارنپور میں خوب رسہ کشی ہوتی، میری خاطر حضرت تو فرماتے کہ میں جمعہ کے بعد کھاؤں گا اور میں کہتا کہ نہیں ، حضرت میں جمعہ سے پہلے کھاؤں گا ! مگر اس میں حضرت قبول نہ فرماتے اور غلبہ جمعہ کے بعد ہی کو ہوجاتا اور میں بھی جھوٹا سچا اصرار کر کے خاموش ہوجاتا ! ( آپ بیتی ص ٤٠٠)
کھانا وہیں سے آئے گا :
ایک مرتبہ حضرت سفر سے تشریف لائے، جمعہ کا دن گیارہ بجے کے قریب ،فیصلہ جمعہ کے بعد کھانے پر ہوگیا، کھانے کے دوران میں ایک صاحب شہر کے آگئے اور بہت اصرار سے اپنے ادارے میں چند منٹ کے لیے تشریف لے جانے کا وعدہ لے گئے، میں نے مخالفت بھی کی حضرت وہاں جاکر دیر بہت ہوجائے گی یہ صاحب جلدی نہیں چھوڑیں گے ! حضرت قدس سرہ کو ساڑھے چار بجے کے ایکسپریس سے سیدھے دہلی جانا تھا کہ وہاں کسی اجتماع میں عشاء کے بعد شرکت کا وعدہ تھا، مگر حضرت مدنی اور حضرت رائے پوری نور اللہ مرقدہما دِلداری اور دِلجوئی کے پتلے تھے قبول فرما لیا
(باقی صفحہ ٦٢)
روشنی کا مینار ..... قرآنِ پاک یا کالی ٹائی اور کالا کوٹ ؟
قرآن اور ناموسِ رسالت کی اِہانت کا سبب اور اس کا علاج
( شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم )
( خطبہ جمعہ ٢٧٠ : ١٨ ذوالحجہ ١٤٤٤ھ /٧ جولائی ٢٠٢٣ ء )
ض ض ض
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
سویڈن میں جو قرآنِ پاک کی بے حرمتی ہوئی ہے پچھلے جمعہ بھی ہم نے اُس پر کچھ بیان کیا تھا اور اُس کی وجوہات بھی بیان کی تھیں اور یہ بھی بتلایا تھا کہ باقاعدہ(وہاں کی) حکومت کی سرپرستی میں یہ کام ہوا ! اُس آدمی نے عدالت میں درخواست دی کہ میں احتجاج کرنا چاہتا ہوں ، اس قسم کا احتجاج کروں گا قرآن جلاکر عید کے دن مسجد کے سامنے، مسجد کے باہر مجھے اس کی اجازت دی جائے ! تو سویڈن کی عدالت نے اس کی اجازت دی ! اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی مرضی اور سرپرستی میں ہورہا ہے ایسا نہیں کہ اچانک ایک آدمی نے ایک شرارت کردی اور حکومت کو پتہ نہیں تھا بلکہ جج بھی شریک ہیں ، ان کا پورا عدالتی نظام اس میں شریک ہے ! پھر حکومت کی ساری انتظامیہ ،کیونکہ اس پر عمل پھر انتظامیہ نے کرانا ہوتا ہے اپنی نگرانی اور اپنی حفاظت میں ! توانہوں نے یہ عمل کروایا !
یہ سن سن کر کہ سویڈن نے کرایا ،حکومت نے کرایا ،اس پر بھی غصہ آتا ہے ! عدالت نے کرایا اس پر بھی غصہ آتا ہے ! ہر ہر چیز پر غصہ آتا ہے ! !
لیکن میں نے پچھلی دفعہ بھی عرض کیا تھا کہ وہ اپنا کام کر رہے ہیں اس میں غصے اور حیرت کی کیا بات ہے ؟ غصہ تو اپنے آپ پر آنا چاہیے مسلمانوں کو ! کیونکہ مسلمانوں کی اسلام سے بے مروّتی ہے دین اور مذہب سے بے وفائی ہے خود قرآن کی ایک طرح سے بے حرمتی ہے ! تو یہ تو مسلمان خود کررہا ہے اسی لیے وہ کرتے ہیں ! بلکہ وہ تو اپنی فطرت کی وجہ سے کرتے ہیں ! وہ تو کریں گے انہوں نے ہمیشہ یہی کیا اور یہ کرتے رہیں گے لیکن مسلمان ایسا تھا نہیں ، جب سے ایسا ہوا یہ چیزیں وہ اعلانیہ کرنے لگ گئے ، پہلے ان کا دل چاہتا تھا کہ یہ کریں لیکن مسلمانوں کی مضبوطی اور جہاد کی وجہ سے ان میں جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ یہ کام کرسکیں ! اب مسلمان جو ہیں وہ اپنا اتحاد پارہ پارہ کر بیٹھے ہیں ، مختلف سلطنتوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ، ان مسلمان سلطنتوں کے آپس میں اختلافات ہیں ان پر ان کی لڑائیاں ہیں ! پھر سلطنتوں کے اندر کئی دین ہیں حالانکہ اپنے کو سب مسلمان کہتے ہیں لیکن ہر جماعت ہر گروپ کا اپنا ایک دین ہے تو یہ سب چیزیں ایسی ہیں جس نے کفر کو اپنا جو خبث ہے اپنے دل کے اندر جو باطن میں ان کے خبث ہے اسلام کے خلاف نفرت ہے اُس کا اِس انداز میں اظہار کرنے کی جرأت دے دی ! !
سیاسی کعبے :
اس کے ذمہ دار میں اور آپ سب ہیں کیونکہ پاکستان میں بھی سیاست ہے ، بنگلہ دیش میں بھی سیاست ہے، عرب ملکوں میں بھی سیاست ہے، لیکن پھر سیاست کے بے شمار قبلے اور کعبے ہیں ! پاکستان میں سیاست کا ایک قبلہ پیپلز پارٹی ہے ،ایک قبلہ کعبہ مسلم لیگ ہے، ایک قبلہ اور کعبہ ایم کیوایم ہے، بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں ہیں یہ تو موٹی موٹی جماعتوں کا نام لیا ورنہ تو بے شمار جماعتیں ہیں جو ہم میں سے کوئی بھی گن کے نہیں بتا سکتا !
یہی حال بنگلہ دیش میں ہوگا ،یہی حال مصر میں ہے ،یہی لیبیا میں ہے، یہی تیونس اور مراکش میں ہے، یہی عرب ملکوں میں ہے، تو مسلمان تاریخ میں اتنے ٹکڑوں میں تقسیم کبھی نہیں ہوا جو اَ ب ہے ! !
جہاد کے بغیر اِتحاد ناممکن ہے :
ان کا سیاسی قبلہ ایک ہوجائے وہ جب تک نہیں ہوگا جب تک'' جہاد'' کا کلمہ بلند نہیں کریں گے اصل چیز ''جہاد ''ہے ! ان شیاطین کو ان کی خباثتوں سے باز رکھنے کے لیے واحد حل اعلائِ کلمة اللہ ہے اور تلوار کو نیام سے نکالنا ہے جو ہماری مسلم حکومتیں کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ! نہ سعودی عرب تیار، نہ لیبیا اس قابل ،نہ مراکش، نہ اَلجزائر، نہ تیونس، نہ سوڈان ! آپس میں لڑ رہے ہیں سوڈان میں کتنے مہینے ہوگئے ہیں خانہ جنگی ہورہی ہے، مسلم ممالک پاکستان میں سرد خانہ جنگی ہے ،ہرگھر میں لڑائی، ہر گھر میں چار چار ذہن ،شکر ہے کہ ہاتھ میں چھرا نہیں آیا اس لیے اس کو ہم خانہ جنگی نہیں کہتے لیکن کھینچا تانی چل رہی ہے ہر گھر میں ، رشتے داروں میں ، برادریوں میں ! !
تو اصل قصور ہمارا ہے ہماری مسلمان حکومتوں کا ہے اتنی بڑی بڑی فوجیں ہیں جدید ہتھیاروں سے لیس بھی ہیں لیکن جہاد نہیں ہے، جذبہ جہاد نہیں ہے ! اس لیے یہ نوبت آئی کہ آج سرِعام قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے اور مسلمان کچھ نہیں کرتے بس جیسے میں ایک احتجاجی بیان کر رہا ہوں اور آپ اس میں شریک ہوگئے بس یہ ہے ہمارا احتجاج !
آپ اور میں تلوار لے کر نکل جائیں باہر کہ ہم جہاد کریں گے ،کچھ بھی نہیں ہوگا ! اُلٹا یہی کہ پولیس اُٹھا کے ہمیں بھی اور آپ کو بھی بند کردے گی اور مقدمہ چلے گا ! کون سے قانون کے تحت ؟ انگریز کے قانون کے تحت ! ؟ پاکستان میں قانون کس کا ہے کتاب اللہ ہے ؟ سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ؟ نہیں ، بلکہ انگریز کا قانون ہے !
یہاں قانون اسلامی نہیں کفریہ ہے :
یہ جو پاکستان کا آئین بنا اُس میں یہ لکھا گیا کہ جتنے بھی ہمارے ہاں کفریہ قوانین ہیں اُنہیں کتاب وسنت کی روشنی میں تبدیل کیا جائے گا ! اس کا مطلب ہے کہ آئین بنانے والے پوری قوم کے جو نمائندے تھے وہ یہ تسلیم کیے ہوئے ہیں کہ قانون اسلامی نہیں ہے تبھی تو اس کو اسلام میں بدلنا ہے ! ؟ اگر اسلامی قانون ہوتا تو پھر یہ کہنا کہ اس کو اسلامی شقوں میں بدلنا ہے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، تو گویا پاکستان کی پوری قوم یہ بات تسلیم کیے ہوئے ہے ، جتنے کروڑ عوام بھی ہیں یہاں ، اُن کے نمائندوں نے آئین بنایا اور اس میں یہ کہا کہ کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ کے مطابق آئین کو بدلاجائے گا اور غیر اسلامی شقوں کو ختم کیا جائے گا ! !
عوام اور فوج کی ترجمان :
تو جو آئین بنایا جن جماعتوں نے وہ عوام کی ترجمان بھی ہیں وہ فوج کی ترجمان بھی ہیں کیونکہ سب اس آئین کو تسلیم کرتے ہیں آئین کی وفاداری جیسے سول اِداروں پر لازم ہے ایسے ہی فوج کے اداروں پر بھی لازم ہے ! ایسے ہی انٹیلی جنس کے اداروں پر بھی لازم ہے ! ایسے ہی منصوبہ ساز جو بھی ہیں پاکستان میں بیٹھے ہوئے ان سب کو آئین کا وفادار پہلے ہونا پڑے گا ! اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب نے تسلیم کیا کہ ہمارا جو قانون ہے وہ غیر اسلامی ہے اور اسے اسلامی کرنا ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا ! !
آج کی اصل بات :
ایک تقریر کل(مورخہ ٦ جولائی ٢٠٢٣ئ) میں نے سنی ہے احمد علی کُرد کی جو اِن وکیلوں کے لیڈر ہیں بڑے جوشیلے ! اُنہوں نے تقریر میں ایک جملہ کہا بس وہ جملہ آپ کو سنانا چاہتا ہوں ! اللہ کرے کہ میری یہ باتیں ان تک بھی پہنچ جائیں اور وہ بھی سنیں کہ میں بحیثیت ِمسلمان ہونے کے ان کے ساتھ بھی ہمدردی رکھتا ہوں ! لیکن میں عقائد کے اعتبار سے ایک سنگین غلطی کی طرف ان کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ
'' کالی ٹائی اور کالا کوٹ روشنی کے مینار ہیں '' العیاذ باللّٰہ
کالے کوٹ سے کیا مراد ہے ؟ اسلامی قانون ؟ بتایئے سارے ، کیاکالے کوٹ سے کتاب اللہ مراد ہے، فقہ حنفی مراد ہے، فقہ حنبلی ،فقہ شافعی، فقہ مالکی، کوئی سی فقہ اِس سے مراد لے سکتا ہے ؟
کالی ٹائی سے مراد کتاب اللہ ہے ؟ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ؟ اجماع جو اِسلام کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے وہ ہے ؟ بلکہ کالاکوٹ اور کالی ٹائی سے مراد برطانیہ کا کفریہ نظام ہے جس کو کہا جارہا ہے کہ یہ روشنی کا مینار ہے العیاذ باللّٰہ ! یہ بات وہ طبقہ کہہ رہا ہے جو قانون کی بالادستی اور قانون کی عملداری کی بات کرتا ہے ! جو یہ تسلیم کیے ہوئے ہے کہ قانون غیر اسلامی ہے ملک میں ! آئین میں مان چکے ہیں کہ یہ کفریہ نظام ہے ! اس کفریہ نظام کو جو روشنی کا مینار کہے گا اُس کا کیا بنے گا بتایئے ؟ ایسا جملہ خطرناک انہوں نے کہا کہ جس کی خرابی اور خطرے کا خود انہیں بھی احساس نہیں ہوگا ، شاید اَب ہوجائے ،مجھے بتایئے جب یہ کالا کوٹ روشنی کا مینار ہے اور یہ کالی ٹائی روشنی کا مینار ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جو جج ہے وہ بھی روشنی کا مینار ہے ،جو وکیل ہے وہ بھی روشنی کا مینار ہے ! !
اب بتایئے ایک آدمی وکیل کے پاس گیا کہ میرا فلاں آدمی قتل ہوگیا ،وکیل نے کہادس لاکھ فیس یہاں رکھ دو ، پہلی قسط دس لاکھ کم از کم ! ورنہ چھوٹے موٹے کیسوں میں تین لاکھ چار لاکھ سے کم میں وکیل نہیں کرتے کام ! وہ مرتا کیا نہ کرتا ! جہاں سے کہاں سے اس نے کر دیا !
اب اسی مقتول کا جو قاتل ہے وہ بھی وکیل کے پاس گیا وکیل سے کہتا ہے کہ یہ واردات ہوئی ہے آپ نے کیس لڑنا ہے ! !
وکیل یہ نہیں دیکھتا کہ اِن میں کون ظالم ہے کون مظلوم ہے ؟ وہ کہتا ہے ٹھیک ہے ہوجائے گا لائوبیس لاکھ رکھ دو ! اس نے جائز قتل کیا یا ناجائز قتل کیا یہ بعد کی بات ہے، پہلے اسے بیس لاکھ دینے ہیں ،وہ مقتول صحیح قتل ہوا جائز قتل ہویاناجائز قتل ہوا یہ بعد کی بات ہے ! ابھی طے نہیں ہوا ہے مگر اِس وکیل نے بیس لاکھ اور اُس وکیل نے دس لاکھ نکال لیے ! تیس لاکھ تو ابھی نکل گیا ! ان میں پتہ نہیں کہ ظالم کون ہے مظلوم کون ہے ؟ وکیل اس کے ساتھ بھی جارہا ہے اور وکیل اس کے ساتھ بھی عدالت میں جارہا ہے ! ایک تو صحیح ہے اِن میں سے، دونوں تو صحیح نہیں ہوسکتے ! یہ بات یقینی ہے کہ ان میں سے ایک ظالم ہے مگر اِس کے ساتھ بھی وکیل جارہا ہے اس کا دفاع بھی وکیل کر رہا ہے یعنی اس کا دفاع بھی یہ قانون کر رہا ہے ! ! !
سوال یہ ہے کہ یہ قاتل ہے ،یہ مقتول کے ورثا ہیں ، یہ جج بیٹھا ہوا ہے، یہ وکیل کون ہوتے ہیں یہاں گفتگو کرنے والے ؟ جب اصل ذمہ دار جن کا معاملہ ہے وہ موجود ہیں وہ بات کریں ، وکیل کیوں کر رہے ہیں بات ؟ وکلاء کو کیا حق ہے کہ یہ آکر بات کریں ! وہ کہتا ہے میرا بندہ قتل ہوگیا یہ بات کرنے کا حق مقتول کے ورثا کو ہے ، وہ کریں گے بات ! وکیل سے نہیں پوچھا جائے گا ! سزا ہوگی اگر تو وکیل کو نہیں ہوگی قاتل کو ہوگی اور بری ہوگا تو وکیل نہیں ہوگا قاتل ہوگا ! یہ وکیل کیوں آیا ؟ اس کی کیا ضرورت ہے ؟ میری بات سمجھ میں آرہی ہے ؟ یہ ظالمانہ نظام ہے یا نہیں کہ معاملہ میرا ہے اور میں محتاج ہوں وکیل کا ! اور میں اس کو دس یا بیس لاکھ روپیہ بھی دوں ! اور ایک مظلوم ہے ان میں سے یقینا وہ مظلوم بھی پیسے دے رہا ہے !
آپ بتایئے یہ روشنی کا مینار ہے وکیل یا تاریکی کا گڑھا ہے ؟ دوسری پارٹی کا جو وکیل ہے روشنی کا مینار ہے یا اندھیر کنواں ہے ؟ وہ جج جو بیٹھا ہوا ہے جو تنخواہ لے رہا ہے اور مراعات لے رہا ہے وہ دلائل دونوں وکیلوں کے سن رہا ہے اور دونوں وکیل دلیل دے رہے ہیں عیسائیوں کی انگریزوں کی کہ یہ فلاں سن میں یہ فیصلہ یوں ہوا تھا ایسے کیس کا ، تو جج وہ سنتا ہے کتاب اللہ نہیں ہے ! بلکہ اس کے پیچھے جو کتابیں لگی ہوئی ہیں الماری میں عدالت کے اندر اُن میں کوئی کتاب کتابُ اللہ کے نام کی نہیں ہے ! نہ اس میں قانون کی کتاب ہدایة ہے جو ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں ہمارے ہاں پڑھائی جاتی ہے، اسلامی قانون کی کتاب اس الماری میں بڑی چھوٹی کوئی نہیں ہے ! البتہ انگریزی قوانین کی کتابیں ہیں ! ! بتایئے یہ کتابیں روشنی کے مینار ہیں یا کفر کے نظام کی کتابیں ہیں ؟ اب ایک وکیل کھڑے ہوکر کہتا ہے اور سارے وکیل اس کی تائید میں جوش میں نعرے لگاتے ہیں اور اس کے ساتھ جو سول بعض نادان جو نہ وکیل ہیں نہ کچھ ہیں وہ بھی جوش میں کہتے ہیں واہ واہ ! پتہ ہی نہیں مطلب کیا ہے نہ تقریر کرنے والے کو نہ سننے والوں کو کہ ہم کفر کہہ رہے ہیں کفریہ جملہ کہہ رہے ہیں ! العیاذ باللّٰہ
دیگر سب نظام کفریہ ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد کسی نظام کو روشنی کا مینار کہنا یہ کفر ہے سوائے کتابُ اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی نظام روشنی کا مینار نہیں ہوسکتا، روشنی کا مینار ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور کتابُ اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ روشنی کا مینار ہیں ! باقی سارے کے سارے تاریک گڑھے ہیں !
مجھے بتایئے یہ دو وکیل جو جا رہے ہیں ایک اِس کے ساتھ ایک اُس کے ساتھ، یہ دو مظلوم جارہے ہیں ؟ دونوں مظلوموں کے ساتھ ہیں ؟ دونوں مظلوم نہیں ،بعض دفعہ دونوں ہی ظالم ہوتے ہیں ، دونوں نے ہی ظلم کیا ہوتا ہے ایک نے اُنیس کیا ہوتا ہے ظلم، ایک نے بیس کیا ہوتا ہے ظلم، اُنیس بیس کا فرق ہوتا ہے، ہوتے دونوں ہی ظالم ہیں اِس کا دائو چل گیا وہ مارا گیا اُس کا دائو چلا تو یہ ! ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قاتل مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ! صحابہ نے عرض کیا حضرت یہ جوقاتل ہے اس کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟
آپ نے فرمایا اس لیے کہ تلوار اس نے بھی لی ہے یہ بھی قتل کے درپے تھا اس کے ،گو اُس کا دائو چل گیا اس لیے یہ مارا گیا اگر اس کا چلتا تو اُس کو مارتا لہٰذادونوں جہنم میں جائیں گے ! دونوں اگر ظالم ہیں تو دونوں ظالموں کے ساتھ دو وکیل چل رہے ہیں تو یہ وکیل بھی ظالم ہوئے یا عادل ہوئے ؟ روشنی کا مینار ہوئے یا تاریکی کا ؟ ؟
آج قرآن کی بے حرمتی کی ہے آج دین کی بے حرمتی کی اس لیے کہ کفر کے نظام کو ہم نے آپ نے سینے سے لگا رکھا ہے ! جتنے بڑے وکیل ہوتے ہیں یہ ڈگری لینے کے لیے کہاں جاتے ہیں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ یا جامعہ مدنیہ جدید میں آتے ہیں یا دارُالعلوم دیوبند میں جاتے ہیں ؟ ؟ کہاں جاتے ہیں ؟ انگلینڈ ! اور اس گندی تعلیم کو کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے ہیں ! یہ ذہن کی پستی اور غلامی ہے کہ ادنیٰ تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کہتے ہیں ! گھٹیا تعلیم کو اعلیٰ تعلیم کہتے ہیں ! جہالت کو تعلیم کہہ رہے ہیں ! ''جہالت ''تو ''تعلیم ''ہو ہی نہیں سکتی ! جہالت تو جہالت ہے وہ جہالت کو پڑھنے پڑھانے جاتے ہیں یہاں کا جتنا بڑا وکیل ہے ڈگریاں کہاں کی لاتا ہے، وہاں کی ! اور جج بھی وہی بڑا ہوتا ہے جس کے پاس وہاں کی ڈگریاں ہوں ! عہدوں کے نام بھی وہی ہیں جو اُنہوں نے رکھے ہوئے ہیں ، انگریز کا جب یہاں قبضہ تھا ہندوستان پر تو '' جج'' تو انگریزی لفظ ہے ورنہ اصل تو ''قاضی'' ہے ! چیف جسٹس کو قاضی القضاة کہتے تھے ! اب بھی ہمارے پڑوس افغانستان میں قاضی ہیں ، سعودی عرب میں قاضی کہتے ہیں ، جج وج نہیں کہتے ! ہم غلام بنے ہوئے ہیں تو جج کہتے ہیں چیف جسٹس کہتے ہیں ، سپر یٹنڈنٹ بھی انگریز ہوتا تھا ،ایس پی بھی انگریز ہوتا تھا ،ڈی ایس پی بھی انگریز ہوتا تھا، سب کے سب انگریز ہوتے تھے، کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، وائسرائے ، گورنر سب انگریز ہوتے تھے وہ دفع ہوگئے، ان کی اولادیں آگئیں آج وہی نام اسی طرح چل رہے ہیں پورا نظام اِسی طرح چل رہا ہے یہ وجہ ہے ہماری پستی اور ذلت کی ! ابھی ایک واقعہ نہیں ہے ابھی دسیوں ہوسکتے ہیں اللہ تعالیٰ بچائے اس چیز سے !
حل اور علاج :
جب تک عالمِ اسلام متفق اور متحد نہیں ہوگا اور جہاد کا اعلان نہیں کرے گا یہ کفر صحیح نہیں ہوگا ، لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانیں گے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی وہ میری اور آپ کی بات کیسے مان سکتے ہیں ؟ ان کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلوار ہی نکالنی پڑی وہ میرے اور آپ کے تلوار نکالے بغیر کیسے ٹھیک ہوسکتے ہیں ؟ وہ تو ہیں ہی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مان سکتے ! تو ہر طرف تاریکی ہے ! اس وقت بہت زیادہ ضرورت ہے کہ آنکھیں کھولیں استغفار کریں ! !
احمد علی کُرد کو چاہیے کہ میرے مسلمان بھائی ہیں میں اُن کا بھلا چاہتا ہوں ! اوروکیلوں کا بھی بھلا چاہتا ہوں کہ توبہ کریں استغفار کریں ! وکیل بننا چھوڑ دیں یہ حلال کی کمائی نہیں ہے !
حضرت کی نصیحت :
حضرت والد صاحب کے پاس اگر کوئی وکیل اُن کا جاننے والا آتا تو وہ ان کو نصیحت فرماتے تھے کہ یا تو وکالت چھوڑ دو کیونکہ ساری کمائی حرام کی ہے اگر کرنی ہی ہے تو کیس لینے سے پہلے تحقیق کرلینا کہ کون ظالم ہے کون مظلوم ہے ؟ مظلوم کا کیس لینا ظالم کا کبھی مت لینا ،ورنہ قیامت کے دن ظالم کے ساتھ تم بھی اُٹھائے جاگے ،تم ظالم کے ساتھ ظالم کے مدد گار ومعاون شمار ہوگے ! اس لیے مظلوم کا کیس لینا ،لیکن مظلوم کا کیس لے کر جو جیب بھر رہا ہے یہ بھی حرام ہے ! اگر مظلوم کے ساتھ چل رہا ہے تو پھر اُتنی لے فیس جتنی بنتی ہے ، یہ نہ سوچے کہ جتنا زیادہ پھنسا ہوا ہے مصیبت میں اُتنی زیادہ فیس کردُوں ! کیونکہ وہ مجبور ہوتا ہے پھر وہ فیس دس کے بجائے بیس لاکھ بھی دیتا ہے بیس کے بجائے تیس لاکھ بھی دیتا ہے ! لہٰذاخدا سے ڈرے کیونکہ اللہ کا پنجہ اتنا سخت ہے کہ وہ وکیل پر بھی پڑجاتا ہے آپ کئی کیسوں میں دیکھیں وکیل پھنسے ہوئے کچہریوں میں پھر رہے ہیں اور اسی قانون اسی ظالم قانون کے ہاتھوں جس کو اُنہوں نے سینے سے لگا رکھا ہے جسے روشنی کا مینار کہتے ہیں یہی روشنی کا مینار اُنہیں تازیانے مارتا ہے، جج بھی آجاتے ہیں لپیٹ میں اور آئے ہوئے ہیں !
تو ہماری اور آپ کی جو نجات ہے اور عزت ہے وہ کس چیز میں ہے اسلامی قانون کے آنے میں کہ پاکستان میں فوری طور پر اسلامی قانون آنا چاہیے ! آپ اس سے متفق ہیں یا نہیں ہیں کہ پاکستان میں اسلام کا قانون آئے اور یہ کفر کا نظام پاکستان سے بیک وقت ختم کردیا جائے اس سے متفق ہیں بحیثیت ِمسلمان کے یا نہیں ؟ (پورے مجمع کی طرف سے کھڑے ہوکر پُر زور تائید ) ! ! !
اللہ تعالیٰ حالات بہتر کرے اور مسلمانوں میں اتفاق واتحاد عطا فرمائے !
وَآخِرُدَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (ادارہ)
عمار خان ناصر اور اُن کے ہم نوا حضرات کی خدمت میں چند گزارشات
( مولانا محمد اسحاق صاحب الہندی، فاضل جامعہ مدنیہ جدید )
ض ض ض
عمار خان ناصر صاحب دیوبند مکتبہ فکر کے معروف علمی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ بہت سے مسائل میں ہمارے روایتی مواقف یا جمہورِ اُمت سے مختلف رائے رکھتے ہیں جس کا سبب خود محترم کے اپنے خیال میں یہ ہے کہ ہمارے روایتی طبقات کا اندازِ فکر و تحقیق خاصا فرسودہ اور قدرے تعصب زدہ ہوتا ہے۔کتاب چہرہ پر ہمارے ساتھ تیرہ برسوں کی رفاقت رکھنے والے دوست اَحباب اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمیں کبھی بھی بے جا لکھنے کا شوق رہا ہے اور نہ ہی کبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہمارا وطیرہ رہا ہے ! بہت سے لوگ محض خانہ پوری کے لیے لکھتے ہوں گے مگر ہمارا اصول یہ ہے کہ صرف تب لکھا جائے جب لکھنا واقعی ضروری بھی ہو ! !
یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں '' تالے والی آنٹی ''سے لے کر مفتی تقی عثمانی صاحب کو دورہ سوات پر دیے گئے پروٹوکول تک بہت سے موضوعات ایسے تھے جن پر ہم لکھ سکتے تھے،مگر محض اس واسطے نہیں لکھا کہ بیشتر موضوعات پر یار دوست اتنا کچھ لکھ چکے تھے کہ ہمیں قلم گھسیٹنے کی حاجت محسوس نہیں ہوئی ! !
عمار خان صاحب ''کاد یانیوں '' کے بارے میں اپنے مخصوص اندازِ فکر کے تحت سوچتے ہوئے بارہا ایسے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں جن سے جمہور اہلِ علم اور روایتی مواقف کے حاملین کبھی متفق نہیں ہوسکتے ،ان جمہور حضرات کی یہ رائے بھلے تحقیق کی بنیاد ہو یا ( عمار خان صاحب کے بقول) محض لوگوں سے سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ہو،مگر خود عمار خان صاحب کے بارے میں ان کے ہم نوا طبقہ کی سوچی سمجھی رائے ہمیشہ یہی پائی گئی ہے کہ وہ اہلِ علم کے روایتی طبقات کے مقابلہ میں عمار صاحب کی رائے کو نہایت محققانہ اور معتدلانہ رائے سمجھتے ہیں !
بدقسمتی سے جید اہلِ علم کی جانب سے کتاب چہرہ کے فورم پر لکھنے والے حضرات کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے یا کم از کم اہلِ روایت کے مواقف کے تحقیقی پرت کھول کر خود عمار خان صاحب کے انداز میں ان کے بیانیہ اور اندازِ فکر کو ''کاونٹر'' کرنے والے احباب کی تعداد بہت کم ہے اس باعث عمار خاں صاحب کو پڑھنے والے بہت سے احباب بجا طور پر ان سے متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں ! !
اس سے ہٹ کر فقہی مسائل میں محترم ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب اور کلامی مسائل میں مولانا زاہد مغل صاحب ، عمار خان صاحب کے نتائج تحقیق کو اپنے اپنے انداز میں بہت اچھا کاونٹر کرتے ہیں اور یہ دونوں جانب کی تحاریر بجا طور پر مفید علمی سرگرمیاں ہوتی ہیں !
ہماری طرف ارسال کردہ عمار صاحب کی پوسٹ کے ان دو عدد اسکرین شاٹس سے معلوم ہوا کہ عمار صاحب نے ''ترجمان القرآن'' سے ایک صفحہ شئیر کرکے ساتھ میں اپنے نتائج فکر لکھے ہیں جن سے ان کے ہم نوا حضرات خاصی شدومد سے اتفاق رائے کرتے پائے گئے ہیں جس کے بعد ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ اس بابت اب چند گزارشات بصد ادب و احترام گوش گزار کر دی جائیں کہ کم اَز کم عمار صاحب اور ان کے ہم نوا حضرات دوسری جانب کا زاویۂ فکر تو ٹھیک سے سمجھ سکیں !
عمار خان ناصر صاحب نے ''ترجمان القرآن''کے اس مضمون پر غور کرتے وقت بظاہر خاصا دقیق اور لطیف نکتہ نکالا کہ
'' جب مسلمانوں میں شرکیہ افعال کرنے والے حضرات کی کھلم کھلا تکفیر کی بجائے انہیں مسلمان سمجھ کر ان سے مکالمہ کرنا زیادہ مناسب ہے تو اسی طرح''کاد یانیوں '' کے بارے میں گفتگو کرتے وقت بھی اگر ہم اسی اسلوب کو مدنظر رکھیں تو دعوتی اعتبار سے یہ پہلو زیادہ مناسب رہے گا''
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کاش عمار خان صاحب اپنے مقدمہ کو اِس قسم کے مناسب الفاظ میں پیش کرتے تو یہ اختلاف کے باوجود قابلِ برداشت انداز ہوتا ! لیکن ان کے الفاظ ملاحظہ کیجیے کہ وہ اپنے زاویۂ فکر سے الگ سوچ رکھنے والوں کی فہم پر کس قدر نالاں ہیں ،فرماتے ہیں :
''تف ہے ایسے فہم دین پر،حیف ہے ایسی نام نہاد مذہبی حمیت پر اور ہلاکت ہے ایسی دین دشمن سوچ کو مذہبی کاروبار بنانے والوں کے لیے''
یعنی عمار خان صاحب اپنے اندازِ فکر کی ''اصابت''اور اس سے مختلف رائے رکھنے والے حضرات کی ''ضلالت'' پر اِس قدر پُریقین ہیں کہ ان کے زاویۂ نظر کی بجائے کسی اور زاویۂ نظر کے تحت سوچنے والوں کے ''فہم'' پر اُن کے پاس صرف اور صرف انتہائی درجہ کی نفرین ہے ! ان بد نصیبوں کی دینی حمیت قابلِ صد افسوس ہے اور عمار خان صاحب کے الفاظ کے مطابق وہ سوچ دین دشمن بھی ہے اور اس کے حاملین وہ ملعونین ہیں جنہوں نے اسے مذہبی کاروبار بنا لیا ہے ! ! !
آسان لفظوں میں کہہ لیجیے کہ عمار خان صاحب نے محض دو سطروں میں دریا کو کوزے میں بلکہ جمہور اُمت کو لوٹے میں بند کرکے سمندر برد ہی کردیا کہ وہ اپنے فہم اور اندازِ فکر میں عمار خان صاحب سے الگ رائے رکھنے کے بعد وہ قابل ِنفرین،عاری اَز حمیت ِدین اور سرپرستانِ انجمن فروشانِ دین ہیں
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
خامہ انگشت بدنداں کہ اِسے کیا لکھیے ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے ہمیں عمار خان صاحب اور ان کے ہم نوا حضرات پر سخت تعجب ہے کہ اپنے مخالفین کو اپنی رائے میں نہایت متعصب اور شدت پسندی اختیار کرنے کا طعنہ دینے والے یہ دوست خود اِسی قسم کی شدت پسندی اور تعصب کا مظاہرہ کیونکر کیے جاتے ہیں ؟ ؟ ؟
آپ تو فرمایا کرتے تھے کہ
''یہ زبان اور لب و لہجہ ہمارے مخالفین کا وطیرہ رہا کرتا ہے جبکہ ہم تو دلیل، متانت اور سنجیدگی سے اپنی معروضات پیش کیا کرتے ہیں ''
کیا اسی کا نام متانت اور سنجیدگی ہے ؟ ؟ ؟
اس ساری نفرین،دین فروشی کے الزامات اور اس پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے والے احباب سے سادہ سا سوال ہے کہ
''کیا عمار خان صاحب کے فہم سے اختلاف واقعتا اس قدر بڑی جسارت ہے کہ اس اختلاف کے ''مرتکبین''کو اِس قسم کے اعزازات سے نوازا جائے '' ؟ ؟
آخر کس بنا پر عمار خان صاحب یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہماری رائے سے اختلاف کرنے والوں کے مد نظر کوئی دعوتی اُسلوب ہے ،نہ ہی وہ حکمت یا مقاصد ِشریعت پر کچھ نظر رکھتے ہیں ؟ ؟ ؟
آئیے تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیے ! ترجمان القرآن کے بیان کردہ اسلوب کو''کاد یانیوں '' پر منطبق کرنا اس واسطے درست نہیں کہ دعوت کا یہ اسلوب عام اہلِ اسلام کے واسطے ہے اور دراصل ''جلب ِمنفعت'' کے پہلو کے پیش نظر ہے جبکہ اس کے برعکس ''کادیانی''حضرات کی اسلام دشمنی اور دجل و فریب کے مقابلہ میں نہایت مناسب ہے کہ ''جلبِ منفعت ''کی بجائے ''دفع مضرت''کے پہلو کو مدنظر رکھا جائے کہ ''کادیانیوں ''کے ایمان کی موہوم اُمید کے مقابل خود اہلِ ایمان کے اپنے ایمان کے لُٹ جانے کا خدشہ زیادہ اہم مسئلہ ہے ! !
عمار صاحب کو شکوہ ہے کہ
'' ایک داعی چیزوں کو اِس نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے اور مدعو کے مابین جو چیز مشترک ہے اُس کو ضائع نہ کیا جائے بلکہ گفتگو اور دعوت کی بنیاد کے طور پر اس کی قدر کی جائے، ہماری گنگا بالکل اُلٹی بہتی ہے''
عمار صاحب سے بصد احترام گزارش ہے کہ یہ کیونکر طے ہوا کہ ''کادیانیوں '' کے بارے میں آپ سے مختلف رائے رکھنے والے حضرات کے مد نظر کوئی دعوتی اسلوب ہو ہی نہیں سکتا ؟
کیا دعوتی اسلوب میں '' اِنْذَارْ و تَبْشِیْر''دونوں پہلو شامل نہیں ہوا کرتے ؟ ؟
کیا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی دعوت تَبْشِیْر و اِنْذَارْ ، تَخْوِیفْ و تَالِیفْ اور نرمی و سختی کے پہلوؤں کو لیے ہوئے نہ تھی ؟ ؟ ؟
اگر آپ کے زاویۂ نظر سے اختلاف رکھنے والے ''ترجمان القرآن''سے ایک قدم آگے بڑھ کر خود قرآنِ پاک میں کفار سے مکالمہ کے مواقع کو سامنے رکھ کر یوں کہیں کہ قرآنِ پاک نے چونکہ بیسیوں جگہ انبیا ء ِکرام کے کفار سے کیے گئے دعوتی مکالموں کی نقل میں ''ترہیب و اِنذار''کو بھی باقاعدہ طور پر نقل کیا ہے،سو اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات اِنذار و ترہیب کا اَنداز زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے
اگر ایک جگہ کفار کو کلمہ ( سَوَائً بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ ) ١ کی طرف آنے کی دعوت دی گئی ہے تو دوسری جانب کفار سے مکمل برا ء ت کرتے ہوئے ( کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَائُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ ) ٢ کی سنت ِابراہیمی کو نقل کر کے اسے اہلِ ایمان کے لیے ''اُسوہ حسنہ''قرار نہیں دیا گیا ؟ ؟
کیا دعوتی پہلو یا شرعی حکمت محض وہی ہے جو آنجناب کی فہم تک رسائی پا جائے ؟ ؟ ؟
عمار صاحب کو اعتراض ہے کہ ''محض''عقیدہ ختم نبوت میں اُمت سے الگ ہونے پر ہم ''کادیانیوں ''کا مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کا ''اشتراک''باقی کیوں نہیں رہنے دیتے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
''ہم کہتے ہیں ،قادیانی اسلام کی تمام تعلیمات میں مسلمانوں کے ساتھ اشتراک رکھنے کے باوجود عقیدہ ختم نبوت میں اُمت سے الگ ہیں تو پھر کسی بھی چیز میں مسلمانوں کے ساتھ ان کا اشتراک کیوں باقی رہنے دیا جائے ؟ وہ اسلام کی طرف اپنی نسبت بھی ختم کریں ، قرآن اور حدیث کو پڑھنا بھی چھوڑ دیں ، اسلامی عبادات کا بھی نام نہ لیں بلکہ اپنا بالکل الگ کوئی مذہب وضع کریں ''
عمار صاحب کا خیال ہے کہ اس فعل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ''کادیانیوں ''کی اگلی نسلوں کا ہم مسلمانوں سے کچھ رشتہ اور تعلق باقی نہ رہے گا اور یوں ہم انہیں یہ کہہ کر اصل دین اسلام کی طرف نہیں بلا پائیں گے کہ
''بھائی، تم جس دین کی طرف اپنی نسبت کرتے ہو، اس کا اصل اور مستند عقیدہ یہ ہے تم بھٹک گئے تھے، آئو اور اپنی گمراہی کو چھوڑ کر دوبارہ اُمت کا حصہ بن جائو''
ہمیں بخدا تعجب اس اَمر پر ہرگز نہیں کہ عمار صاحب یوں کیونکر سوچتے ہیں ؟
ہمیں تو واللہ حیرت اس اَمر پر ہے کہ اپنے قیاس اور اس کے نتائج ِفکر پر وہ اِس قدر جزم و یقین کیسے حاصل کرلیتے ہیں کہ جس کے بعد اُن کے پاس اپنے زاویۂ فکر سے اختلاف رکھنے والوں کے لیے محض اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی بچتا ہے ؟ ؟ ؟

١ سُورة اٰلِ عمران : ٤ ٦ ٢ سُورة الممتحنة : ٤
''کاد یانیوں ''کو بھائی کہہ کر انہیں پیار محبت سے سمجھانے کے شوقین بھائی کیا اپنے دیگر اسلامی بھائیوں کو یہ اجازت دیں گے کہ وہ آپ کے قیاس اور اس کے نتائج سے جسارت اختلاف کرتے ہوئے اپنے لیے کوئی ''چھوٹا موٹا''قیاس کر کے اس پر نتائج متفرع کر سکیں ؟ ؟
ہوسکتا ہے کوئی مسکین یوں قیاس کرتا ہو کہ ''کادیانیوں ''کو اگر واقعتا اسلام کا نام اور شعائر اسلام کے برتنے سے روک دیا جائے تو اس سے حاصل شدہ فوائد آنجناب کی طرف سے ''کادیانیوں ''کے قبولِ اسلام کی موہوم سی طمع کے بالمقابل بہت زیادہ ہیں مثلاً
(١) یہ لعین طبقہ خود کو واقعتا غیر مسلم باور کر کے اپنے دین و مذہب کو اِسلام سے ہٹ کر یکسر ایک الگ شناخت کے ساتھ پیش کرے گا تو اس صورت میں ہمارے ممدوح سمیت ہر کس و ناکس پر عیاں ہے کہ ان کی دعوت کی اثر پذیری کس قدر رہ جائے گی ؟ ؟
(٢) سچ سچ بتائیے گا کہ جب ''کادیانی''حضرات واقع میں خود کو اِسلام سے کاٹ کر اپنا ایک الگ مذہب بنا کر اس کی جانب لوگوں کو دعوت دیں گے تو آخر اس دعوت کی بنیاد ہی کیا رہ جائے گی ؟ ؟
(٣) وہ قرآن و حدیث اور دین ِاسلام سے دستبردار ہونے کے بعد بھلا اپنے دین کی دعوت کیسے دیں گے ؟ ؟
(٤) عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے کس کتاب کا سہارا لیں گے ؟ ؟
(٥) اور خدا لگتی بات کیجیے گا ہمارے گلی محلوں کے عام مسلمانوں میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو مذہب اسلام چھوڑ کر اس نئے دین اور مذہب کو اختیار کریں گے ؟ ؟
عمار صاحب کو فکر ہے کہ ان کی آئندہ نسلوں سے بات کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ ''رشتہ پاسداری'' نہ بچے گا ! عمار صاحب اگر اپنے فہم سے ہٹ کر سوچ رکھنے کی گنجائش پیدا فرمائیں تو ہم بصد ادب عرض کریں گے کہ جب ''کاد یانی''حضرات اپنی الگ شناخت مقرر کرلیں گے توبخدا اس صورت میں خود اُن ''کادیانیوں '' کی نسلیں اپنے بڑوں کا جینا دوبھر کردیں گی کہ آخر یہ نیا مذہب کیا ہے ؟ ؟ کہاں سے آیا ؟ ؟ جب اس کا سب کچھ دین اسلام جیسا ہے تو پھر ہم نہ وہی دین اختیار کریں جہاں سے یہ چیزیں چوری کی گئیں ہیں ؟ ؟ ؟
فرمائیے ان غدارانِ ملک و ملت کو اہلِ اسلام میں گھل مل کر لوٹ مار کرنے اور سادہ لوح اہلِ ایمان اور اپنے نادان مقلدین کو بہکانے کا موقع دینے کی بجائے اگر یہ اِنذار والا دعوتی پہلو اختیار کیا جائے تو کیونکر وہ نتائج حاصل نہ ہوں گے جو اُوپر بیان کیے گئے ہیں ؟ ؟ ؟
آخر میں عمار خان صاحب نہایت غصے اور قہر کے ساتھ اپنے فہم کے مطابق سوچے گئے دعوتی اُسلوب سے ہٹ کر کسی دوسرے اُسلوب پر اِس فتنہ کا حل تلاشنے والوں پر یوں گرج برس رہے ہیں گویا ان کا فہم تو منصوص کے درجہ میں ہے جبکہ ان سے جسارت اختلاف کرنے والوں کے پاس کوئی چھوٹا موٹا قیاس بھی نہیں ! !
کیا عمار خان صاحب اور ان کے ہم نوا ''سواد ِاعظم''کی نظر میں ان ''غربائے اُمت ''کے واسطے کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ِاوّل کے مانعین زکوة کے بارے میں اُسوہ کو سامنے رکھ اسلام میں ہیر پھیر کرنے والوں کے بارے میں کوئی ایسا قتل و قتال کا طریقہ نہ سہی کم اَز کم ایسے لوگوں کا بائیکاٹ ہی اختیار کرسکیں ؟ ؟ ؟
خدا لگتی کہیے گابھلا پیغمبر علیہ السلام کے اہلِ ایمان کے محض اموال کو لوٹ کر مدینہ سے بھاگنے والوں کے ساتھ کیے گئے برتائو اور اسی پیغمبر علیہ السلام کے جانشین ِاوّل کے مانعین زکوة کے بارے میں اختیار کیے گئے طرزِ عمل کے بعد ''سَالِبِیْن''ایمان و یقین،''سَارِقِینْ''دین متین،''غَاصِبِیْن''ختم نبوت خیر المرسلین اور ''غَادِرِیْن'' اسلام و المسلمین ''کاد یانیوں ''کی ڈیڑھ صدی کی ریشہ دوانیوں کے مقابلہ میں ان کی ''ضربِ اعناق''کی بجائے محض ان کے بائیکاٹ کی ''اپیلیں ''کرنے والے مولوی احباب کیا واقعی اپنے فہم اور اپنے عمل میں اسلام سے دُور دکھلائی دیتے ہیں یا ہر آن ان'' غدارانِ ملک و ملت'' کے لیے آئینی رخنے تلاشنے واسطے اپنی فہم و فراست کے گھوڑے دوڑاتے ہمارے ممدوح عمار صاحب اور ان کے ہم نوا حضرات اسلام سے ١٨٠ درجے میں اختلاف کرتے دکھلائی دیتے ہیں ؟ ؟
صاحبو ! کچھ تو انصاف کی بات کہو کیا عمار صاحب جس سوچ اور فکر پر سوچتے ہیں اگر اس طرزِ فکر کے بعد آپ کو آج عقیدہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے اور ڈیڑھ صدی سے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مشغول طبقے کو اِسلامی شعائر کے برتنے سے روکنے کا مطالبہ یا ان ''کاد یانیوں ''کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرنا بھی ''ظلم''نظر دکھلائی دیتا ہے تو اُوپر بیان کردہ اُسوۂ ابراہیمی سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل تک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ان کے جانشین ِاوّل کے اُسوۂ صدیقی تک یہ تمام اُسوہ جات اس فکر کے حاملین کی نظر میں کیا ''وقعت''پاتے ہوں گے ؟ ؟ ؟
بخدا ہماری رائے میں یہ نام نہاد معتدلانہ یا محققانہ طرزِ فکر درحقیقت ایسا خطرناک ہے کہ ''کادیانی'' حضرات اسلام کی طرف پلٹیں نہ پلٹیں ،ہماری نسل ِنو اپنے ہی دین اور پیغمبر سے برگشتہ ہوجائے گی ! عمار خاں صاحب اس اَمر پر نالاں ہیں کہ ''محض''عقیدہ ختم نبوت میں ہم سے الگ ہونے کی بنا پر ہم ''کادیانیوں ''سے اپنے تمام مشترکات کا اثاثہ ''گنوانے ''کی حماقت کر رہے ہیں اور اُدھر اس سے ہزار گنا کم تر جرم کا اِرتکاب کرنے والوں کے بارے میں اُسوۂ پیغمبر رحمة للعالمین اور ''اَرحم اُمتی بامتی '' کا طرزِ عمل ہے ! !
خدا لگتی کہیے گا یہ طرزِفکر صرف مولانا اللہ وسایا صاحب یا عالمی مجلس عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی جنگ لڑنے والوں کو جاہل، متعصب اور ظالم باور کرواتا ہے یا اس کی میزائل کی رینج بہت اُوپر تک جارہی ہے ؟
آخر میں ہم عمار خان صاحب کی خدمت میں مکرر عرض پرداز ہیں کہ آپ جمہور اُمت سے بصد شوق اختلاف کیجیے،ہماری کیا مجال جو آنجناب کی فہم و فراست پر اور اندازِ فکر پر کوئی سوال اُٹھانے کی جسارت کریں مگر خدارا کم اَز کم جمہور اُمت کو تو اپنے فہم کی ''اَنی'' پر مت پروئیے،ان پر دین دشمنی اور بے حمیتی کے تیر تو مت چلائیے ''کادیانیوں '' کے لیے آئین میں پوشیدہ گنجائشیں ضرور تلاشیے مگر
اتنی نہ بڑھا پاکی ٔداماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا بند قبا دیکھ
تعقباتِ ہندی
بندہ محمد اسحاق الہندی کان اللّٰہ لہ ولوالدیہ
ماہِ صفر اور نحوست سے متعلق نبوی ہدایات
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَا عَدْ وٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا ھَامَةَ وَلَا صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ۔ ١
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک کی بیماری کا (اللہ کے حکم کے بغیر خود بخود ) دوسرے کو لگ جانا ، بدفالی اورنحوست اورصفر(کی نحوست وغیرہ )یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں اور مجذوم (کوڑھی ) شخص سے اس طرح بچو اور پرہیز کرو جس طرح شیر سے بچتے ہو''
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوٰی وَلَا ھَامَةَ وَلَا نَوْئَ وَلَا صَفَرَ ۔ ٢
''حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ مرض کا (خود بخود بغیر حکمِ اِلٰہی کے) دُوسرے کو لگ جانا ، اُلّو، ستارہ اور صفر (کی نحوست وغیرہ ) کی کوئی حقیقت نہیں (وہم پرستی کی باتیں ہیں )''
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَاعَدْوٰی وَلَا غَوْلَ وَلَا صَفَرَ ۔ ٣
'' حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ مرض کا (خود بخود) لگ جانا اورغولِ بیابانی اورصفر( کی نحوست) کی کوئی حقیقت نہیں ''
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ اَلْعِیَافَةُ وَالطِّیَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ۔ ٤
١ صحیح البخاری ٢ صحیح مسلم ، ابوداود ٣ صحیح مسلم ٤ ابوداود ، ابنِ ماجہ ، احمد
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پرندوں کی بولی ،اُن کے اُڑنے (یااُن کے نام) سے فال لینا اور کنکری پھینک کر (یا خط کھینچ کر)حال معلوم کرنا شیطانی کام (یا جادُو کی قسم ) ہے ''
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْ تُطُیِّرَلَہ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکِھَّنَ لَہ اَوْ سَحَرَ اَوْسُحِّرَ لَہ وَمَنْ اَتٰی کَاھِنًا فَصَدَّقَہ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ وَسَلَّمَ ۔ ( مُسند بزار)
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو خود بُری فال (بدشگونی ) لے یا جس کے لیے بُری فال لی جائے یا جو خود کہانت کرائے یا جس کے لیے کہانت کرائی جائے یا جو خود جادُو کرے یا جس کے لیے جادُو کیا جائے ، اور جو شخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اُس کی باتوں کی تصدیق کی تواُس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ چیز (قرآن وشریعت ) کا (ایک طرح سے )کفر کیا''
بقیہ : میرے حضرت مدنی
تین بجے کے قریب ان کی کار میں ان کے ادارے میں گئے، کار نے راستہ میں بہت پریشان کیا اور اِن صاحب نے حسب ِعادت بہت تاخیر کی اور جب اسٹیشن پہنچے تو گاڑی چھوٹ چکی تھی مگرچہرۂ انور پر ذرا بھی ناگواری یا ملال کا اثر نہ تھا، دہلی تو حضرت نے تار دیا کہ دوسری گاڑی سے آؤں گا اور خادم کو توشہ دان دے کر بھیجا کہ شیخ الحدیث صاحب سے کہو جو کچھ رکھا ہو دے دیں ۔ معلوم ہوا کہ اسٹیشن پر بہت سے مخلصوں نے خوشامد اور منت و سماجت کی کہ کھانا ہم لائیں مگر حضرت نے فرمایا کہ کھانا وہیں سے آئے گا، کس کس شفقت کو یاد کروں اور روؤں اور رُلاؤں ۔ ( آپ بیتی ص ٤٠٠، ٤٠١) (جاری ہے)
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد رائیونڈ روڈ لاہور)
٭ ٢٦ذوالحجہ ١٤٤٤ھ/١٥جولائی ٢٠٢٣ء بروز ہفتہ سے مسجد حامد کی اندرونی دیواروں پر ٹائیل کا کام شروع ہوا والحمد للہ ! اللہ تعالیٰ اس کارِ خیر میں حصہ لینے والے معاونین کو اجرِ عظیم عطا فرمائے آمین !
٭ ٢٧ذوالحجہ ١٤٤٤ھ/١٦جولائی ٢٠٢٣ء بروز اتوار بعد اَزظہر جامعہ مدنیہ جدید کی مجلس شوریٰ کا سالانہ اجلاس منعقد ہواجس میں تعلیمی ، تعمیراتی اور مالیاتی اُمورپر باہمی مشاورت ہوئی ، تعلیمی ومالیاتی اُمور پر اِطمینان کا اِظہار کرتے ہوئے اَرکانِ شورٰی نے اہلِ خیر حضرات سے تعمیراتی اُمور پر خصوصی توجہ دینے کی پُر زور اپیل کی تاکہ مسجد حامد ، دارُالاقامہ اور رہائشگاہوں کی تعمیر سے تعلیمی کارکردگی مزید بہتر ہوسکے، دُعائے خیر پر اجلاس ختم ہوا،والحمد للہ !
( خانقاہِ حامدیہ )
٭ ١٧ ذیقعدہ ١٤٤٤ھ/٧جون ٢٠٢٣ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے مولانا محمد محسن گلزار صاحب بن گلزار صاحب ساکن قادی ونڈ ضلع قصور کوخرقہ خلافت و دستارِ فضیلت سے نوازا !
٭ ٢٥ ذوالحجہ ١٤٤٤ھ / ١٤ جولائی ٢٠٢٣ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے مولانا محمد عیسٰی دائود بن علی مراد ساکن گائوں باسوس ضلع ولسوالی امام صاحب صوبہ کندوز افغانستان کوخرقہ خلافت و دستارِ فضیلت سے نوازا !
وفیات
٭ ١١ جولائی کو جامعہ مدنیہ جدید کے مخلص خیر خواہ محترم عبدالرحمن صاحب سکھیرا کی والدہ صاحبہ طویل علالت کے بعد پاکپتن میں وفات پاگئیں ۔
٭ ٢٢ جولائی کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغحضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب شجاع آبادی مدظلہم کے بڑے بھائی ، مولانا ثناء اللہ صاحب شجاع آبادی کے والد مولانا خادمُ اللہ صاحبشجاع آباد میں انتقال فرماگئے ۔
٭ ٨ جولائی کو بھائی محمد طاہر صاحب کی والدہ صاحبہ مختصر علالت کے بعد پاجیاں میں وفات پاگئیں ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔

قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اِس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
+92 - 333 - 4249302 +92 - 333 - 4249301
+92 - 335 - 4249302 +92 - 345 - 4036960

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.