Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

اپریل 2024

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوار مدينہ
جلد : ٣٢ شوال المکرم ١٤٤٥ھ / اپریل ٢٠٢٤ء شمارہ : ٤
٭٭٭
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
٭٭٭




بدلِ اشتراک
٭٭٭
پاکستان فی پرچہ 50 روپے ....... سالانہ 600 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر
امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر





جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور ای میل ایڈ ریس
٭٭٭
www.jamiamadniajadeed.org
jmj786_56@hotmail.com
Whatsapp : +92 333 4249302




ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
٭٭٭
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
رابطہ نمبر : 923334249302+
موبائل : 923334249301+
موبائل : 923454036960+
موبائل : 923234250027+
جازکیش نمبر : 923044587751+




دارُالافتاء کا ای میل ایڈ ریس اور وٹس ایپ نمبر
٭٭٭
darulifta@jamiamadniajadeed.org
Whatsapp : +92 321 4790560




مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا




اس شمارے میں
٭٭٭
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٧
سیرتِ مبارکہ ..... نئے میدانِ عمل میں پہلے کام حضرت اقدس مولانا سید محمد میاں صاحب ١٢
میرے حضرت مدنی قسط : ٩ حضرت اقدس مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ٢٠
تربیت ِ اولاد قسط : ١٣ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٢٥
اولاد کی تعلیم و تربیت حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری ٢٩
رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٣ حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری ٣٣
مدنی نسبت کی قدر دانی کیجیے ! حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب ٤٤
شوال کے چھ روزوں کی فضیلت حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٤٩
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق قسط ١ ڈاکٹر محسن محمد صاحب صالح ٥١
امیر پنجاب جمعیة علماء اسلام کی جماعتی مصروفیات مولانا عکاشہ میاں صاحب ٦١
اخبار الجامعہ مولانا انعام اللہ صاحب ٦٣
وفیات ٦٤




حرف آغاز
٭٭٭
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
امارتِ اسلامی افغانستان کے امیر مولانا ہبت اللّٰہ اخوند زادہ حفظہ اللّٰہ کا ایک تازہ بیان سماجی وسائل (سوشل میڈیا) کے ذریعہ گردش کر رہا ہے جس میں انہوں نے ملحد امریکہ اور مغربی دنیا کی افغانستان کے اندر ''وسیع البنیاد'' حکومت اور عورتوں کی تعلیم اور حجاب کے معاملہ میں مداخلت کو مسترد کردیا ہے ! اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ امارتِ اسلامی افغانستان میں مکمل شرعی نظام عملاً نافذ کر کے رہیں گے ! مزید انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم امریکہ سے حالت جنگ میں ہیں ! !
انبیاء سابقین اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے خلافت کی شکل میں جو بھی حکومت قائم فرمائی وہ ''وسیع البنیاد'' بھی تھی اور ''قوی البنیاد'' بھی جبکہ ان کے بالمقابل ہر حکومت ہمیشہ سے ''رکیک البنیاد'' ہی رہی ہے ! باری تعالیٰ کا ارشاد ہے
( وَجَعَلْنٰھُمْ اَئِمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ )( القصص : ٤١ )
''ہم نے ان (کفار) کو قائد (اور لیڈر) بنایا کہ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور قیامت کے دن ان کو مدد نہ ملے گی''
جبکہ دوسری طرف انبیاء اور ان کے سچے اور کامل پیروکاروں کے لیے ارشاد ہے
( وَجَعَلْنٰھُمْ اَئِمَّةً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَا اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِیْتَآئَ الزَّکٰوةِ وَ کَانُوْ لَنَا عٰبِدِیْنَ ) ( سُورة الانبیاء : ٧٣ )
''اور ہم نے ان کو کیا پیشوا (اور لیڈر) راہنمائی کرتے تھے ہمارے حکم سے اور بذریعہ وحی ہم نے ان کو کہلا بھیجا(کہ)کرنا خیر کے کام اور قائم رکھنی نماز اور دینی زکوة اور وہ تھے ہماری بندگی میں لگے ہوئے''
''وسیع البنیاد'' کی اصطلاح کفار نے مسلمانوں سے چرا کر اپنے ''رکیک البنیاد'' نظام پر چسپاں کردی جس کو منافق مسلم قیادتوں نے حلق سے نیچے اتار کر ہضم کر لیا ! !
کفار کا نظام بظاہر دیکھنے میں کتنا ہی'' وسیع البنیاد ''دِکھتا ہو مگر فی الواقع وہ کھو کھلا اور بودا ہوتا ہے ! جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے
( مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآئَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا وَ اِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ) ( سُورة العنکبوت : ٤١ )
''ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور حمایتی(بلاک )بنائے مکڑی کی مثال جیسی ہے (کہ) بنا لیا(جس نے) ایک گھر (جالا) اور سب گھروں (کے مقابلہ) میں بودا گھر مکڑی کا ہے اگر ان کو( عقل ) سمجھ ہوتی''
جہاد عملاً جاری ہویاتھما ہوا ہو ، بد عہد کفار کے مقابلہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ حالت ِ جہاد ہی میں رہو
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے
( وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ) ( سُورة الانفال : ٦٠)
''اور تیار کرو ان(کفار و منافقین) کی لڑائی کے واسطے جتنی بھی حاصل کرسکو قوت اور پلے ہوئے گھوڑوں ( راکٹ ، میزائل ،ٹینک ، بکتر بند گاڑیوں ، ہوائی اور بحری بیڑوں ) سے کہ اس سے دھاک پڑے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور دوسروں پر ان کے سوا جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتا ہے''
عالمِ اسلام کے تمام مخلص مسلمانوں کی دعائیں بھی اور تائید بھی امارتِ اسلامی افغانستان کے ساتھ ہیں کہ وہاں مکمل شریعت بھی نافذ ہو اور علمِ جہاد بھی بلند رہے تاکہ اسلام کی سربلندی ہمیشہ برقرار رہ سکے ! !
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْن




شب ِقدر کی دُعا
٭٭٭
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم اگرمجھے معلوم ہو جائے کہ شب ِقدر کون سی ہے تو(اُس رات ) میں کیا دُعا کروں ؟
آپ نے فرمایا (دعا میں ) یوں کہنا
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند فرماتا ہے
لہٰذا مجھے معاف فرمادے




درس حدیث
٭٭٭
قطب الاقطاب محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' شارع رائیونڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
کسی کی آخرت کے بارے میں دعوے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا !
جتنی بڑی توبہ ہوگی اُتنا ہی بڑا ثواب ملے گا !
(درسِ حدیث نمبر٦٤/٩ ٤ ذوالقعدہ ١٤٠١ھ/٤ ستمبر١٩٨١ئ)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ایک شخص نے کہا اللہ کی قسم ،اللہ فلاں آدمی کو نہیں بخشے گا ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کون ہے جو میرے بارے میں قسم کھاکر یہ کہتا ہے کہ میں نہیں بخشوں گا فلاں کو، تحقیق میں نے بخش دیا فلاں کو اور ضائع کردیا تیرے عمل کو !
انسانوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور دُنیا بھر میں ایسے ہی ہوتا رہتا ہے کہ برے لوگ تو بہ کرکے اچھے بن جاتے ہیں ! اچھائی کی طرف آجاتے ہیں ! اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچھے آدمی بُرے کاموں میں لگ جاتے ہیں العیاذ باللّٰہ ! اب کوئی شخص کسی دُوسرے کو اگر بُرا کام کرتا ہوا دیکھ لے تو یہ فرض ہے کہ اُس کو روکے اُس کو سمجھائے اور اگر ایسا موقع نہ ہو کہ اُسے روک سکے، سمجھا سکے تو پھر یہ ہے کہ کم از کم اپنے دل میں تو اُس کو بُرا جانے کہ یہ کام بُرا ہورہا ہے ! لیکن اُس آدمی کے بارے میں حتمی فیصلہ اپنے ذہن میں نہیں کرسکتا کوئی بھی کہ یہ آدمی خراب ہے اور خراب ہی رہے گا اس کا حق کسی کو نہیں ہے ! کیونکہ ممکن ہے وہ توبہ کرلے، مرنے سے پہلے پہلے توبہ کرلے تو اللہ کا وعدہ ہے کہ قبول ہوگی اور اللہ نے یہ انعام فرمایا ہے انسانوں پر اور جنات پر کہ وہ توبہ کرلیں تو توبہ قبول ہوگی ! ثَقَلَیْنْ کے لیے معاملہ یہی ہے اور ثَقَلَیْنْ ہیں انسان اور جن ! !
عبرتناک واقعہ :
جناب ِرسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے یہ بات سمجھانے کے لیے ایک واقعہ ذکر فرمایا جو پہلی امتوں میں ہوا (وہ یہ) کہ ایک شخص نے کسی آدمی کا نام لے کر خدا کی قسم کھائی اور یہ کہا کہ اللہ اس کو نہیں بخشے گا ! یہ بہت بڑی بات کہی اس نے ! آپ دوسرے آدمی کے بارے میں یہ قسم نہیں کھاسکتے کہ یہ آدمی بات نہیں مانے گا، ممکن ہے وہ مان جائے ! کوئی آدمی کہتا ہے کہ مجھے فلاں آدمی سے کام ہے، آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ ایسے نہیں ہوگا یہ نہیں مانے گا اس بات کو لیکن قسم نہیں کھاسکتے کہ وہ نہیں مانے گا ! کیونکہ کیا پتہ مان جائے ! یہ قسمیہ جملہ نہیں بولا جاتا اور اگر کوئی کرتا ہے تو بُرا ہی سمجھا جاتا ہے ! !
شرطیں لگانا جوا ہے :
لوگ شرطیں باندھ لیتے ہیں کہ ایسے ہوگا، دوسرا کہتا ہے کہ ایسے نہیں ہوسکتا، یہ شرطیں باندھنے والے جو لوگ ہیں وہ اسلامی بات نہیں کر رہے، شرط باندھنا (تو جوا ہے) یہ تو جوا ہوگیا ! یہ تو اسلامی چیز ہی نہ ہوئی ! اسلامی بات جو سیدھی صاف بات ہے وہ تو یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسرے آدمی کے بارے میں (دعویٰ سے) یہ نہیں کہہ سکتا ! کوئی کہتا ہے کہ مجھے اس کا مکان خریدنا ہے، اتنے میں خریدنا ہے تم یہ کہو کہ میرا گمان یہ ہے کہ اتنے میں وہ نہیں دے گا یہ کہہ سکتے ہو لیکن یہ قسم کھالو کہ نہیں جی وہ اتنے میں دے گا ہی نہیں (یہ صحیح نہیں ) !
قسم والا پھنس جاتا ہے :
قسم کھانے کے بعد تو خود فکر ہوجائے گی آپ کو کہ پتہ نہیں قسم پوری ہوتی ہے یا نہیں ! آدمی ، آدمی کے بارے میں اتنی بڑی بات نہیں کہہ سکتا تو خدا کے بارے میں اتنی بڑی بات کیسے کہہ سکتا ہے ؟
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ( لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ ) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو
( اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ) بلا شبہ اللہ تعالیٰ سارے ہی گناہ معاف فرمادیتے ہیں !
اللہ تعالیٰ دعوت دے رہے ہیں کہ مجھ سے استغفار کرو، مجھ سے توبہ کرو گناہوں کی تو میں بخش دوں گا ! یہ وعدہ خود فرماتے ہیں ( رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍی ) تمام چیزوں پر میری رحمت جو ہے وہ پھیلی ہوئی ہے ! اور دنیا میں یہی ہے ورنہ کافر بھوکے مرجائیں اور مسلمان آرام کریں ! مگر ایسا ہوتا ہی نہیں بلکہ وہ سب کے لیے ہوتا ہے، ہوا سب کے لیے، پانی سب کے لیے ،جو محنت کرے اس کے لیے پھل ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے آخرت کی رحمت حاصل کرنے کا راستہ بھی ہر وقت کھلا ہے ! جب تک دنیا میں انسان اس زندگی میں ہے اس وقت تک کھلا ہے چاہے بوڑھا ہوجائے، بیمار ہو اُٹھ نہ سکتا ہو، ہل نہ سکتا ہو، ابھی مرا وہ نہیں ، توبہ کرسکتا ہے ! ! !
جناب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اُس بندے کا قسم کھاکر یہ کہنا ناپسند ہوا ! اور اللہ تعالیٰ نے جب وہ پیش ہوئے وہاں فرمایا مَنْ ذَا الَّذِیْ یَتَاَلّٰی عَلَیَّ اَنِّیْ لَا اَغْفِرُ لِفُلَانٍ کون ہے جو میرے بارے میں قسم کھاکر یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نہیں بخشوں گا فلاں کو ؟ ! جس کے بارے میں اس نے قسم کھائی تھی وہ پیش ہوا اور یہ (قسم کھانے والا) بھی پیش ہوا ! اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کو بخش دیا فَاِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لِفُلَانٍ اور جو تونے کام کیے تھے، تیری نیکیاں یہ میں نے ضائع کردی ہیں وہ میرے نزدیک کسی قیمت میں نہیں ! وَاَحْبَطْتُّ عَمَلَکَ ١ یہ تو ہوا وہ جو وہاں (آخرت میں ) پیش آیا !
جتنی بڑی توبہ ہوگی اتنا ہی بڑا اجر ہوگا :
اور دُنیا میں ایسے ہوا کرتا ہے کہ آدمی گناہ بہت کرتا ہے پھر اسے اس پر ندامت ہوتی ہے پھر وہ توبہ کرتا ہے ! اور جتنی بڑی توبہ ہوگی اس کی اُتنا ہی بڑا اجر ہوجاتا ہے ! اگر اس کی توبہ بہت ہی بڑی ہے بہت ہی ندامت کے ساتھ ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس کے گناہ جو ہیں وہ بھی نیکی بنادیے جائیں ! جیسے کافر مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے ( اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا )
١ مشکٰوة المصابیح باب الاستغفار رقم الحدیث ٢٣٣٤
توبہ کرے ایمان قبول کرے اور بعد میں نیک کام کرتا رہے ( فَاُولٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰ تِھِمْ حَسَنَاتٍ ) ان کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے ! یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس (شخص) نے توبہ کی ہو اور ظاہر میں دنیا میں یہ ہوا ہو !
١٩٦٥ ء کی جنگ کا ایک واقعہ :
یہاں جو ١٩٦٥ء کی لڑائی ہورہی تھی(پاک و ہند کی) تو اس میں یہاں کراچی اور پشاور سے جاتے تھے بمباری کرنے کے لیے پشاور سے اُڑتے تھے وہ بمباری کرتے تھے ! کراچی سے بھی اور اسی طرح اور جگہوں سے بھی ! مجھے ایک صاحب نے بتلایا کہ ایک پائلٹ تھا اس کو ہم منع کرتے تھے کہ نہیں ، اب تم تھک گئے ہو اب تم مت جائو دوبارہ ،تو وہ کہتا تھا کہ نہیں میں جائوں گا، اس پر اَڑتا تھا میں جاسکتا ہوں میں جائوں گا، کئی دفعہ منع کیا، وہ نہیں مانا وہ اسی طرح کرتا رہا ایک دن دو دن ! وہ کہنے لگا اصل میں بات یہ ہے کہ میں نے گناہ بہت کیے ، اتنے گناہ کیے کہ اس کی تلافی جو ہے وہ صرف یہی ہوسکتا ہے کہ میں خدا کی راہ میں مارا جائوں پھر وہ گیا اسی طرح اور وہ شہید ہوگیا ! ! !
یہاں دنیا میں اس شخص کے ساتھ ایسے ہوا ہوگا جس شخص کی بخشش فرمائی ! اور اس (قسم کھانے والے) شخص کا یہ ہوا ہوگا کہ ایسا آدمی جب نیکی کرتا ہے تو دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے ! ایسے بھی آپ کو ملیں گے لوگ کہ دوسروں کو حقیر جانتے ہیں ، تم نے یہ نہیں کیا، تم نے یہ نہیں کیا، تم یہ نہیں کرتے، تم وہ نہیں کرتے، اپنے سے غافل دوسروں پر نکتہ چینی کرتا ہے یہ اللہ کو پسند نہیں ! ایسا آدمی بڑھتے بڑھتے پھر فیصلے دینے لگتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے کہ تُو تو ہے ہی ایسا،تُو تو رہے گا ہی ایسا ! یہی غلط ہے ! تو یہ بڑھتے بڑھتے ادھر پہنچ گیا، اس حد تک پہنچ گیا ! تو اللہ کی ناپسندیدگی میں جا پہنچا اور ایسے ہوگیا جیسے اپنے اعمالِ صالحہ پر ناز ہے اسے ! ! !
عمل پر ناز کرنا بہت بُری بات ہے :
اور عمل پر ناز بہت بُری بات ہے بہت بُری علامت ہے ! عمل پر ناز جو ہے وہ بہت بڑے بڑے صحابہ کرام جو گزرے ہیں ان کے نزدیک بہت بری علامت رہی ہے وہ اس کو نہیں پسند کرتے تھے وہ کہتے تھے (عملِ صالح کے باوجود) خدا کی رحمت ہی ہے اصل ! ان کا نظریہ یہ تھا ! !
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، بڑے بڑے صحابۂ کرام جو لائق ِتقلید ہیں ان کی سنت میں یہ داخل ہے کہ انہوں نے کبھی کوتاہی نہیں کی ادنیٰ چیز میں بھی اس کے باوجود وہ کہتے تھے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا ! اور ہمارا عمل اللہ کو پسند ہو تو وزن ہے اس میں ! نہ پسند ہو اگر تو کچھ بھی نہیں ! اصل ہے خدا کی رحمت ! ! تو اگر کوئی آدمی اپنے عمل پر ناز کرنے لگے یا عمل کرے اور ریاکاری کرے، دونوں چیزیں غلط ہیں ! ان کے نتائج غلط ہیں اور اس میں بڑائی پیدا ہوتی ہے ! تو اس کے (دل میں ) اِدھر بڑائی پیدا ہوئی اُدھر خدا کے یہاں اسے چھوٹا بنادیا گیا ! ! ! حضور صلی اللہ عليہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے ارشاد فرمایا کہ اَحْبَطْتُّ عَمَلَکَ میں نے تیرا عمل جو تھا وہ ساقط اور بے اعتبار کردیا ! اس کا کوئی اعتبار نہیں ، کوئی وزن نہیں ! ! !
اللہ تعالیٰ صحیح سمجھ عطا فرمائے، صحیح راہ پر قائم رکھے اور اپنی مرضیات کی توفیق دے، جن اعمال سے وہ راضی ہے ان اعمال پر ہمیں زندگی اور موت دے، آمین۔اختتامی دعا................................
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون ١٩٩٤ ء )




قطب الاقطابشیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
https://www.jamiamadniajadeed.org/maqalat/maqalat1.php




سیرتِ مبارکہ
نئے میدانِ عمل میں پہلے کام
٭٭٭
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے چند اَوراق
٭٭٭
نماز باجماعت :
'' عبادت '' عربی لفظ ہے جس کا ترجمہ'' پوجا'' کیا جاتا ہے اس کی حقیقت ہے غَایَةُ التَّذَلُّلِ یعنی انتہا درجہ عاجزی، بے چارگی، بے بسی اسی کے اظہار کو عبودیت کہتے ہیں ! اپنے مالک اور خالق کے سامنے اپنی بے بسی اور عاجزی کے اظہار کے لیے جماعت کی ضرورت نہیں بلکہ گوشۂ خلوت کی ضرورت ہے کیونکہ پرکیف اور پرخلوص وہ عاجزی ہوتی ہے جو تنہائی میں ہو جہاں بندہ تصورِ معبود میں غرق ہو، معبود اور مالک کے سوا کسی کا وجود تو کیا کسی کا تصور بھی نہ ہو ! اسلام نے اس کو تسلیم کیا ہے ! چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ١
( اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً ) (سُورة الاعراف : ٥٤)
''پکارو اپنے رب کو عاجزی کرتے ہوئے (گڑ گڑاتے ہوئے) پوشیدہ طور پر''
١ فرائض کے علاوہ نوافل میں سنت یہی ہے کہ اپنے مکان میں پڑھی جائیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیّد الثقلین صلی اللہ عليہ وسلم سے دریافت کیا کہ افضل کیا ہے مکان میں یا مسجد میں ؟
ارشاد ہوا تم دیکھتے ہو میرا مکان مسجد سے کتنا قریب ہے اس کے باوجود اپنے مکان میں نماز پڑھوں یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بمقابلہ مسجد میں نماز پڑھنے کے اِلا یہ کہ فرض نماز ہو ! (ابن ماجہ) ارشاد ہوا مکان میں نماز پڑھنا نور ہے لہٰذا اپنے مکانات کو منور کرو ! (ابن خزیمہ) ارشاد ہوا کچھ نمازیں (نفلیں ) گھروں میں پڑھا کرو، اپنے مکانات کو قبریں نہ بنالو !
(بخاری شریف وغیرہ) ایک ارشاد یہ ہے ایسی جگہ(فرض) نماز پڑھی جائے کہ جہاں لوگ نماز پڑھتے ہوئے دیکھیں (مثلاً مسجد وغیرہ) اس کے مقابلہ میں گھر میں (نفل) نماز پڑھنے کی وہی فضیلت ہے جو فرض نماز کی فضیلت نفل نماز پر ہے ( ترغیب و ترہیب بحوالہ بیہقی)
دوسرے موقع پر ارشاد ہے
( وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ) ( سُورة الاعراف : ٢٠٥ )
''یاد کر اپنے رب کو دل ہی دل میں عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اور زبان سے بھی آہستہ آہستہ بغیر پکارے صبح شام اور ایسا نہ ہو کہ تم ان میں ہو جاؤ جو غافل رہتے ہیں ''
لیکن جس طرح اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے عبادت کو مکمل کیا مثلاً پہلی امتوں میں کسی امت کی نماز میں صرف سجدہ ہوتا تھا رکوع نہیں ہوتا تھا ! کسی امت کی نماز میں صرف رکوع ! اور کسی امت کی نماز میں صرف قیام ہوتا تھا کھڑے کھڑے دعائیں پڑھا کرتے تھے نہ سجدہ کرتے نہ رکوع !
مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے ذریعہ جس نماز کی تعلیم دی گئی اس میں قیام اور قعدہ بھی ہے اور سجدہ اور رکوع بھی !
پھر جس طرح ظاہری ارکان کے لحاظ سے مکمل ہے معنی کے لحاظ سے بھی مکمل ہے سب سے پہلے اللّٰہ اکبر کہا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کا اقرار ، پھر اس کی حمدو ثنا ١ اور اس کے ارشادات
١ سورۂ فاتحہ کا پڑھنا (فرض یا واجب ہے جس کے شروع میں ہے ( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) اور اس سورت کی اہمیت یہ ہے کہ حدیث میں اس سورت کو نماز سے تعبیرکیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اوراپنے بندے کے درمیان نصفا نصف تقسیم کردیا ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگتا ہے ! تقسیم کی تفصیل یہ ہے کہ
بندہ کہتا ہے (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری حمد کی !
پھر بندہ پڑھتا ہے ( اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ ) تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندہ نے میری ثنا کی !
پھربندہ کہتا ہے (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندہ نے میری عظمت بیان کی، پھربندہ کہتا ہے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور بندہ کی درخواست منظور ہے !
پھر بندہ کہتا ہے( اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بندے نے اپنے لیے درخواست کی ہے اس کی درخواست منظور ہوگی ! (مسلم شریف ص ١٧٠)
اور آیات ِ الٰہیہ کی تذکیر ١ پھر جملہ نقائص سے اس کی پاکی اور عظمت ٢ اس کی پروردگاری اور بلندی وبرتری کا اعتراف اور اس بات کا اظہار کہ وہ حمد کرنے والوں کی حمد سنتا ہے ٣ پھر بارگاہِ رب ذوالجلال میں جملہ تعظیمات کی پیش کش ٤ اس کے رسول پر درودوسلام پھر اپنے لیے دعا !
ا س ظاہری اور معنوی تکمیل کے ساتھ ایک خصوصیت یہ ہے کہ انفرادی عمل کو اجتماعی عمل بنایا گیا اور جو کام الگ الگ کرنے کا تھا اس میں سب کی شرکت لازم کردی گئی یعنی پانچ وقت کی نمازیں جن کا پڑھنا ہر ایک عاقل بالغ مسلمان کے لیے ہر حالت میں ضروری ہے جن کو فرض کہا جاتا ہے ٥
ان کے متعلق نہایت تاکید سے حکم ہوا کہ سب مل کر ایک ساتھ پڑھیں ٦
ایک پڑھانے والا ہو (امام) باقی سب اس کی پیروی کرنے والے (مقتدی)
اس جماعت کا ایک مرکز ہونا چاہیے جس کو ''مسجد'' کہا جاتا ہے ٧ پنج وقتہ نمازوں میں ایک مخصوص اور محدود حلقہ (مثلاً محلہ) کے خدا پرستوں کا اجتماع ہونا چاہیے !
١ سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن پاک کا کچھ حصہ پڑھنا ضروری ہے قرآن پاک میں احکام بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور توحید و رسالت کے دلائل بھی مشاہدات یا تاریخی واقعات کے ذریعہ پیش کیے گئے ہیں ۔
٢ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ رکوع میں سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ
٣ رکوع سے کھڑے ہوتے ہوئے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہْ (وہ اس کی سنتا ہے جو اس کی حمد کرتا ہے )
٤ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰةُ وَالطَّیِّبَاتُ ............... ٥ مسافر ہو یا مقیم، بیمار ہو یا تندرست
٦ اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے ارشادات آگے آئیں گے (ان شاء اللہ) یہاں قرآنِ پاک کے اسلوب سے سبق لیجیے، قرآنِ پاک میں جہاں نماز کا حکم ہوا ہے عموماً جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلٰوةِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ) (سُورة البقرة : ٢٣٨ ) ( اَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ) (سُورة الاعراف : ٢٨) ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُْو ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا) (سُورہ حج : ٧٧) وغیرہ ذلک،
نیز صَلُّوْا (نماز پڑھو) کے بجائے جگہ جگہ (اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ) ارشاد ہوا ہے اِقَامَةِ الصَّلٰوةَ یہی ہے کہ نماز ایسی شان سے پڑھی جائے کہ دینداری اور خدا پرستی کی فضا بنے ، کلمة اللہ سربلند ہو، شانِ حق نمایاں ہو ! !
٧ قرآن حکیم نے اس مرکز کو یہ اہمیت دی کہ ستر پوشی کا حکم دیا تو نماز کو مسجد سے تعبیر کیا ارشاد ہے (خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ) ( سُورة الاعراف : ٣٠ ) ''لے لو اپنی آراستگی مسجد کے وقت (یعنی ہر نماز کے وقت)'' یعنی باقاعدہ نماز وہی ہے جو اس طرح ہو کہ آپ آراستہ ہوکر مسجد میں جائیں ! !
ہفتہ میں ایک مرتبہ اس سے وسیع پیمانہ پر اور اسلامی تہوار یعنی عید بقر عید کے موقع پر اس علاقہ کے تمام حلقوں کا مشترک اجتماع آبادی سے باہر کسی وسیع مقام پر ہونا چاہیے ! !
جماعت کے فوائد :
بیشک بندہ اور خدا کے درمیان جوتعلق اور رشتہ ہے اس کے تسلیم کرنے اور اس کو بروئے کار لانے کے لیے مظاہرہ کی ضرورت نہیں ہے مگر یہ تو ضروری ہے کہ بندگانِ خدا میں یادِ خدا کا جذبہ پیدا ہو، خدا پرستی کا رواج ہو، پرستش ِحق کی فضا بنے، اللہ تعالیٰ کا نام کھلم کھلا لیا جائے، اس کی عظمت ومعبودیت کی شان دکھائی جائے تاکہ جو خدا کو بھولے ہوئے ہیں انہیں اللہ یاد آئے، جو اپنے رب سے ٹوٹے ہوئے ہیں وہ اپنا رشتہ رب سے جوڑیں ،ظاہر ہے یہ مبارک مقاصد اجتماع کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے ١
تعلیم و تبلیغ اور اصلاح کے نقطۂ نظر سے فائدہ یہ ہے کہ دوسروں کو ترغیب ہوتی ہے ! شہری زندگی میں خدا پرستی کا رواج ہوتا ہے ! اس کا شوق بڑھتا ہے ! معاشی اور سماجی لحاظ سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مل جل کر کام کرنے کا تصور پیدا ہوتا ہے، تعاون اور اشتراکِ عمل کی رسم پڑتی ہے اور جب ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں محمود وا یاز تو اخوت اور مساوات بھی نظریہ کی حد سے آگے بڑھ کر میدانِ عمل میں جلوہ گر ہوتی ہے ! اور جب ایک صف میں کند ھے سے کندھا ملاکر سیدھے کھڑے ہوتے ہیں کہ نہ کوئی آگے نکلا ہوا ہو نہ کوئی پیچھے ہٹا ہو، ہر ایک کا ٹخنہ دوسرے کے ٹخنہ کی سیدھ میں ہو اور یہ سب خواہ ان کی تعداد لاکھوں ہو، ایک ہی امام کی آواز پر کبھی ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں کبھی ہاتھ باندھ لیں ، کبھی سیدھے کھڑے ہوں ، کبھی ایک ساتھ جھک جائیں ،کبھی زمین پر ماتھے رکھ دیں ،کبھی دوزانو بیٹھ جائیں تو ایک عسکری ترتیب اور فوجی نظم وضبط کی شکل رونما ہوتی ہے ٢ غرض اس طرح کے بہت سے فائدے وجود پذیر اور ظہور فرما ہوتے ہیں !
١ امام ابوحنیفہ نے اس اجتماع میں ایک وحدت تسلیم کی کہ امام کو اصل قرار دیا اور مقتدیوں کو اس کا تابع ! قرأ ت ِ فاتحہ اور قرأت ِ قرآن کا فریضہ امام ادا کرے گا اس کی قرأت سب کی قرأت ہوگی ! مَنْ کَانَ لَہُ اِمَام فَقِرَائَ ةُ الاِمَامِ لَہُ قِرَأَ ة ، الحدیث
٢ ارشادِخداوندی ہے ( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِ یْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَان مَّرْصُوْص ) (سُورۂ صف : ٤) اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے ان سے جو راہِ خدا میں اس طرح صف باندھ کر مقابلہ کرتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہو میدانِ جنگ میں یہ مقابلہ ظاہری دشمن سے ہوتا ہے اور نماز میں یہ مقابلہ باطنی دشمن یعنی شیطان اور شیطانی جذبات سے ہوتا ہے !
مختصر یہ کہ جب مدینہ میں آزاد فضا میسر آئی اور یہ موقع ملا کہ اللہ کا نام کھلم کھلا لیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے جماعت کو لازم قرار دیا ١ یہاں تک کہ حضرات ِصحابہ کا عام مذاق یہی بن گیا کہ جماعت کے بغیر وہ نماز کو جائز ہی نہیں سمجھتے تھے ٢
بیمار آدمی بھی ساتھیوں کے سہارے مسجد میں آتا اور جماعت میں شریک ہوتا تھا اور سستی وہی کرتا تھا جس کے دل میں نفاق ہوتا تھا ٣ پھر شہر یاآبادی ہی نہیں بلکہ جہاں بھی تین مسلمان ہوں ان کے لیے یہی حکم ہوا کہ اگر وہ جماعت سے نماز نہیں پڑھتے تو ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے ٤ (کہ ان کے مذہبی معاملات درہم برہم ہوجاتے ہیں ان کا صحیح نظم قائم نہیں ہوتا)
اذان :
اسلام یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ مسلمان سب کا روبار چھوڑ کرنماز اور مسجد کے لیے وقف ہوجائیں ! وہ جس طرح عبادت فرض کرتا ہے، ذرائع معیشت کی فراہمی کو بھی فریضہ قرار دیتا ہے ! اس نے جس طرح اہل و عیال کا نفقہ مربی پر لازم اور واجب کیا ہے ایسے ہی زکوة کو اسلام کا ایک رکن قرار دے کر آمدنی بڑھانے اور پس انداز کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے ! مگرجب ذرائع معیشت کے لیے کاروبار میں مشغولیت ضروری ہے تو نمازوں کی جماعتوں کے لیے کوئی ایسی صورت ہونی چاہیے کہ معین وقت پر سب جمع ہوجائیں تاکہ اللہ کا فرض بھی ادا ہو اور دنیا کے کام بھی اطمینان سے ہوتے رہیں
١ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیاں جمع کراؤں پھر نماز پڑھنے کے لیے نماز کی اذان دے دی جائے تو کسی کو کہہ دوں کہ وہ نماز پڑھائے پھر میں ان کے یہاں جاؤں جو جماعت میں حاضر نہ ہوں اور ان کے گھروں کو آگ لگادوں ۔ (بخاری شریف ص ٨٩)
اندازہ فرمائیے رحمة للعالمین صلی اللہ عليہ وسلم (جو اہلِ ایمان کے حق میں ایسے رؤف رحیم ہیں کہ ہر وہ بات ان کو شاق ہوتی ہے جو مسلمانوں کے لیے پریشانی کا سبب بنے) ترکِ جماعت پر اتنے ناراض ہوں تو جماعت کتنی ضروری ہوئی !
٢ قَدْ رُوِیَ عَنْ غَیْرِ وَاحِدٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ عليہ وسلم اَنَّھُمْ قَالُوْا مَنْ سَمِعَ النِّدَائَ فَلَمْ یُجِبْ فَلا صَلٰوةَ لَہ
( سُنن ترمذی ص ٣٠) ٣ صحیح مسلم ج١ ص ٨٨
٤ سُنن نسائی باب التشدید فی ترک الجماعة
صحابہ کرام اگرچہ اندازہ لگاکر جماعت کے وقت خود جمع ہوجاتے تھے ١ مگر ظاہر ہے یہ جذبہ اور یہ شوق آئندہ نسلوں میں باقی رہنے والا نہیں تھا چنانچہ جب جماعت کا سلسلہ شروع ہوا تو کچھ دنوں بعد یہ سوال سامنے آیا تو حضراتِ صحابہ نے مختلف تجویزیں پیش کیں کسی نے نَاقُوْسْ ٢ کا ذکر کیا، کسی نے بُوْق کا ٣
ایک صاحب نے تجویز پیش کی کہ آگ روشن کردی جایا کرے، ناقوس کارواج نصاریٰ میں تھا بُوْق (بگل) کا یہود میں ، اور آگ روشن کرنے کا مجوس (آتش پرستوں ) میں ، یہ چیزیں علامت بن سکتی تھیں مگر ان میں یادِ خدااور عبادت کی معنویت نہیں تھی ! پھر ان سب فرقوں کی عبادتوں میں تحریف اور من مانی تبدیلی کے علاوہ شرک کی آمیزش بھی ہوچکی تھی، یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ عبادت (نماز) جو تنہا خدا ئِ واحد کے لیے مخصوص ہو اس کا اعلان مشرکانہ طرز پر ہو لہٰذا آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے کوئی تجویز بھی منظور نہیں فرمائی !
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ بلند آواز سے پکار دیا جایا کرے اَلصَّلٰوةُ جَامِعَة
اس وقت یہ تجویز منظور کر لی گئی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اَلصَّلٰوةُ جَامِعَة پکار دیا کریں ٤ لیکن یہ آخری یا قطعی فیصلہ نہیں تھا ٥
١ بخاری شریف ص ٨٥ ٢ لوہے کی لین لٹکادی جاتی ہے اس کو مونگری سے بچایا جاتا ہے، یہی ناقوس ہے ! لوہے کے بجائے لکڑی کو اسی طرح استعمال کیا کرتے تھے اس کی جگہ گھنٹہ نے لے لی ہے اب گھنٹہ کو بھی ناقوس کہا جاتا ہے (المنجد)
٣ بگل یا بگل کی طرح کا باجا ٤ بخاری شریف ص ٨٥ و فتح الباری ج٢ ص ٢٤
٥ علامہ شبلی مرحوم نے اسی کو آخری فیصلہ سمجھا اور خواب کا واقعہ جو آگے آرہا ہے اس کی تردید کردی صرف اس بنا پر کہ اس کو بخاری نے بیان نہیں کیا ! ہمیں نہایت ادب سے یہ عرض کرنا ہے کہ علامہ موصوف جیسے بلند پائے ادیب اور مورخ تھے کاش اسی درجہ کے محدث بھی ہوتے تو یہ جرأت نہ کرتے کہ جس حدیث کو ترمذی، ابوداؤد، دارمی وغیرہ اصحابِ سنن نے بیان کیا ہے اس کو اس کمزور اور رکیک علت کی بنا پر رد کردیتے کہ بخاری نے بیان نہیں کیا ! بخاری کا بیان کرنا تو حجت ہوتا ہے نہ بیان کرنا محدثین کے نزدیک حجت نہیں ہے ! ! علامہ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے حضرت عمر کی رائے کو پسند کیا اور حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ اذان دیں حالانکہ بخاری میں اذان کا لفظ نہیں ہے
(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)
صحابہ کرام جن کے دینی جذبات میں امنگ تھی اور یہی امنگ ان کے تمام جذبات پر غالب آچکی تھی ان کی طلب پوری نہیں ہوئی ! اعلانِ نماز کے لیے مناسب طریقہ کی جستجو باقی رہی تو ایک شب میں متعدد صحابہ نے ایک خواب دیکھا ١ ان میں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللّٰہ بن زید بن عبد ربہ کو توفیق بخشی کہ وہ فوراً آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی خواب بیان کی کہ کوئی شخص ناقوس بیچ رہا ہے میں نے اس سے قیمت معلوم کی اس نے کہا کس کام کے لیے خریدتے ہو ؟ میں نے کہا کہ جماعت کا اعلان کیا کریں گے اس سبز پوش شخص نے کہا میں تمہیں اس سے بہتر صورت بتاتا ہوں ! جب نماز کا وقت ہو کوئی ایک شخص اس طرح پکارا کرے ٢
اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ٢ مرتبہ اللہ بہت بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ ٢ مرتبہ میں گواہی دیتاہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ ٢ مرتبہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں
حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ ٢ مرتبہ آؤ نماز کے لیے آئو
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ٢ مرتبہ آؤ فلاح حاصل کرنے کے لیے
اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ١ مرتبہ اللہ بہت بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ١ مرتبہ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے




(بقیہ حاشیہ ص ١٧ )
٭٭٭
بخاری کے الفاظ یہ ہیں فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ عليہ وسلم قُمْ یَا بِلَالُ فَنَادِ بِالصَّلٰوةِ ص ٨٥ ''آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ''بلال کھڑے ہوجاؤ نماز کی آواز لگادو '' نماز کی آواز لگانے یا نماز کے لیے نداء کا طریقہ خود بخاری نے یہ بیان کیا ہے کہ اَلصَّلٰوةُ جَامِعَة کہا جاتا تھا، چنانچہ جب ایک مرتبہ سورج گہن ہوا تو اَلصَّلٰوةُ جَامِعَة پکار کر ہی لوگوں کو نماز کے لیے جمع کیا گیا تھا (بخاری ص ١٤٢) پس یہاں بھی نَادِ بِالصَّلٰوةِ کے معنی یہی ہیں کہ اَلصَّلٰوةُ جَامِعَة پکار لو ! !
یہ شرف اللہ تعالیٰ نے حضرت الاستاذ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کو عطا فرمایا تھا کہ آپ مورخ بھی تھے اور بلند پایہ محدث بھی ! آپ نے واقعات کی ترتیب اس طرح بیان فرمائی کہ وہ تمام تعارض ختم ہوگیا جس نے علامہ شبلی رحمہ اللہ کو یہاں تک پریشان کردیا تھا کہ آپ نے صحاح کی حدیث کا انکار کردیا !
١ فتح الباری ج٢ ص ٦٢ ٢ ابو داؤد و ترمذی و دارمی وغیرہ
اس شخص نے یہ کلمات بتائے ١ پھر فرمایا کہ تھوڑی دیر بعد جب جماعت شروع ہونے لگے تب بھی یہی کلمات کوئی ایک شخص پکارے ٢ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے بعد دو مرتبہ یہ کلمات بھی کہے قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوةُ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے اس خواب کو '' رُوْیَاء حَقّ ' 'فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ بلند آواز تھے
ان کو حکم فرمایا کہ اذان پڑھیں اور حضرت عبداللہ بن زید کو فرمایا کہ وہ بتاتے رہیں ! !
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اذان کی آواز سنی تو وہ دوڑے آئے یا رسول اللہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بناکر بھیجا ہے یہی کلمات خواب میں میں نے بھی سنے ہیں ٣ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا ٤ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ فَذٰ لِکَ اَثْبَتُ ٥ الحمد للہ اس سے اور زیادہ ثبوت مل گیا !
( جاری ہے)
( ماخوذ از سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ص ٤٣٧ تا ٤٤٥ )
٭٭٭
١ ان کلمات کی ادائیگی خود عبادت ہے کیونکہ اللہ اور رسول کا ذکر اور شہادت ِ حق ہے یا نماز اور فلاح کی طرف بلاوا ہے
اچھے کام اور ابدی کامیابی کے لیے بلانا بھی عبادت اور ثواب کا کام ہے، معنی اور مفہوم کے لحاظ سے یہ چند کلمات اسلام کے تمام بنیادی عقائد پر مشتمل ہیں سب سے پہلے اللہ کی ذات وصفات پھر توحید پھر آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی نبوت ورسالت پھر اَلصَّلٰوةُ یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت خاص طرز پر اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی رسالت کی شہادت کے بعد اطاعت مخصوصہ اَلصَّلٰوةُ اور اَلفَلَاحْ کا ذکر ہے تو اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ اطاعت وعبادت اسی طرز پر ہو جو محمد رسول اللہ ( صلی اللہ عليہ وسلم ) نے بتایا ہے ، اسی صورت میں فلاح یعنی ابدی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے واللّٰہ اعلم بالصواب
٢ بہتر ہے کہ موذن ہی اقامت بھی کہے (ترمذی شریف)
٣ اذان میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی رسالت کی شہادت بھی ہے تو کلماتِ اذان کی تلقین آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے ذریعہ نہیں ہوئی حالانکہ شب ِمعراج میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم یہ کلمات سن چکے تھے (فتح الباری وغیرہ) بلکہ صحابہ کرام کے رویاء صادقہ کو تلقین کا ذریعہ بنایا گیا اور ان کی زبان سے کہلوایا گیا اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہْ
یہ جو قرآنِ حکیم میں ہے (وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ) (سُورة الانشراح ) ''اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا'' تو اس سے زیادہ اور اس سے بہتر اس کامشاہدہ کہاں ہوسکتا تھا ! ! ؟
خوش تر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں
اچھی بات یہ ہے کہ محبوبوں کا راز دوسروں کی زبان سے بلوایا جائے
٤ صحابہ کرام کی خوا بیں اصولاً مشورہ کی حیثیت رکھتی ہیں ، اذان کی مشروعیت ومسنونیت ان خوابوں سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کے اس ارشاد اور آپ کی تصدیق سے ثابت ہوئی ! واللّٰہ اعلم بالصواب ٥ ترمذی شریف ج١ ص ٢٦




قسط : ٩
میرے حضرت مدنی
٭٭٭
حالات و واقعات شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ
بقلم : شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا محمد زکریا کاندھلوی نور اللہ مرقدہ
ماخوذ اَز آپ بیتی
انتخاب و ترتیب : مفتی محمد مصعب صاحب مدظلہم ، دارُالافتاء دارُالعلوم دیوبند
مقدمہ : جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد اَرشد مدنی دامت برکاتہم
امیر الہند و صدر المدرسین دارُالعلوم دیوبند
٭٭٭
مدینہ پاک کے لیے پودے لے جانے کا قصہ :
ایک دفعہ حضرت قدس سرہ تانگہ پر تشریف لائے اور فرمایا کہ وقت تنگ ہے، مدینہ پاک کے لیے درخت خریدنے ہیں کہ حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے، فرمایا کہ تانگہ پر بیٹھ جاؤ، تانگہ ہی میں ملاقات ہوجائے گی، ٹھہرنے کا وقت نہیں ہے جلدی واپسی ہے ! میں نے جلدی سے مولوی نصیر کو آواز دی اور ان کو بھی تانگہ میں اس خیال سے بٹھا لیا کہ حضرت تو درخت خرید کر خود ہی اُٹھالیں گے اور مجھے شرم آئے گی اور مجھ سے اُٹھنے مشکل ہوں گے اس لیے نصیر اُٹھالیں گے۔ راستہ میں حضرت نے فرمایا کہ حج کو نہیں چلتے ؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھے تو اس وقت بڑی مشغولی ہے اسے نصیر کو لیتے جاویں کرایہ میرے ذمہ اور بقیہ اخراجات کھانے پینے کے آپ کے ذمے ! حضرت نے فرمایا کہ ضرور، میں نے اور حضرت قدس سرہ نے نصیر پر بہت ہی اصرار کیا مگراس نے بھی عذر کردیا، اتنے میں ایک بہت لمبی چوڑی تعمیر آگئی، قربان خاں مرحوم کے باغ میں جانا تھا جن کا دفتر تو شاہ مدار میں تھا پہلے وہاں گئے ان کا دوسرا باغ کچہری سے دور تھا وہاں جاتے ہوئے اس تعمیر پر گزرے ، میں نے پوچھا کہ کیا ہے ؟ اس لیے کہ مجھے کبھی چالیس سالہ قیام سہارنپور میں وہاں جانے کی نوبت نہیں آئی تھی حضرت نے فرمایا کہ آپ اس کو نہیں جانتے، میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ حضرت میں تو یہاں کبھی نہیں آیا فرمایا کہ یہ کچہری وہ دیوانی ہے یہ کلکٹر ی ہے وغیرہ وغیرہ ! میں نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ حضرت کی برکت نے کچہری تک تو پہنچادیا، آپ جیل بھی پہنچا کر رہیں گے !
فرمایا کہ تم لوگوں کی اس بے تعلقی نے انگریزوں کو ہم پر مسلط کر رکھا ہے، تم کچہری سے اتنا ڈرتے ہو جیسے سانپ سے ڈرتے ہو ! فرمایا کہ ہمارے مفتی عزیز الرحمن رحمہ اللہ کے پاس ایک دفعہ ایک میراث کے مسئلہ کی تصدیق کے لیے سمن پہنچ گیا، کچہری آنے کے ڈر سے بخار آگیا ! میں نے عرض کیا کہ حضرت جناب والی قوت کہاں سے لاویں ، فرمایا کہ یہ سب بزدلی کی باتیں ہیں ! !
غرض بہت سے پودے خریدے۔ حضرت قدس سرہ کا ہمیشہ معمول رہا کہ جب کبھی مدینہ پاک تشریف لے جاتے تو سیّد محمود صاحب کے باغ کے لیے بہت سے بیج پھلوں اور پھولوں کے اور بہت سے پودے کئی کئی ٹوکروں میں لے جاتے، خاص طور سے آم کے پودے کثرت سے لے جاتے، مگر ہمیشہ خراب ہوگئے بالآخر حضرت رحمہ اللہ کی برکت سے دو تین درخت با آور ہوگئے، گزشتہ سال ١٣٨٩ھ میں جب مدینہ پاک قیام تھا تو سیّد صاحب زاد مجدہم نے اپنے باغ کے آم خوب کھلائے، اللہ تعالیٰ بہت جزائے خیر عطا فرمائے۔ آم تو گزشتہ سال اللہ کے فضل سے مدینہ پاک میں ہندوپاک، افریقہ، لندن، بحرین، شام وغیرہ نہ معلوم کتنے ملکوں کے کھائے، احباب اپنی شفقتوں سے دوسرے تیسرے دن کہیں نہ کہیں سے لاتے ہی رہتے تھے، شاید ہندوستان سے زیادہ ہی کھانے کی نوبت آئی ہو ، میں بھی شتر بے مہار کی طرح سے کبھی ادھر چلا جاتا ہوں اور کبھی ادھر حضرت مدنی قدس سرہ کی کیا کیا شفقتیں لکھواؤں ۔ ( آپ بیتی ص ٤١٢ تا ٤١٤)
عود کی شیشی :
حضرت اقدس کا معمول تقسیم سے پہلے تک سلہٹ کثرت سے تشریف بری کا تھا اور جب بھی تشریف لے جانا ہوتا تھا تو اس سیہ کار کے لیے ایک عطر عود کی بڑی شیشی لانے کامعمول تھا۔ ١٣٦٠ھ میں حضرت قدس سرہ نے ایک عطر عود کی شیشی مرحمت فرمائی اور یہ ارشاد فرمایا کہ یہ ستر سال کا ہے اور ستر روپے تولہ اس کی قیمت ہے اس کا قانون یہ ہے کہ اس کی قیمت میں ایک روپیہ سالانہ کا اضافہ ہوتا رہتا ہے اب چونکہ یہ ستر سال کا ہے اس لیے اس کی قیمت ستر روپے ہے میں نے بھی اس کو بڑی احتیاط سے اس پر چٹ لگا کر اور یہی عبارت لکھ کر ایک ڈبہ میں محفوظ رکھ دیا تھا، اپنے بخل کی وجہ سے خود تو اب تک استعمال نہیں کیا البتہ گزشتہ سال ١٣٨٩ھ میں حضرت قدس سرہ کے برادرِ خورد حضرت الحاج سیّد محمود صاحب کی خدمت میں اس کا ایک رُبع پیش کیا تھا اگر میرے مرنے کے وقت کسی کو یاد رہے اور مل جاوے تو اس میں سے تھوڑا سا میرے کفن پر بھی مل دیں ۔ اس وقت ١٣٩٠ھ میں تو اس کی قیمت سو روپے فی تولہ ہوگئی ہوگی کیونکہ اس کی عمر سو سال ہے، واقعی شیشی کھولنے سے کمرہ مہک جاتا ہے ١
جہاں کا وعدہ ہے وہاں کا ہے :
ایک قصہ لکھوانے کا تو نہیں ہے مگرمیرے دوستوں کا اصرار ہے کہ ضرور لکھواؤں ۔ حضرت کی شفقتیں تو بے پایاں تھیں اور جتنی حضرت کی شفقتیں بڑھتی جاتی تھیں میری گستاخیاں بڑھتی جاتی تھیں ایک دفعہ کچھ تذکرہ اکابر کا اور جنت کا چل رہا تھا میں نے عرض کیا کہ حضرت جنت میں میرے بغیر جانا نہیں ہوگا ! حضرت نے نہایت سادگی میں بلا تامل فرمایا کہ ہاں ضرور ! ایک سال بعد بلکہ اس سے بھی زیادہ میرے تو ذہن میں بھی نہیں رہا، حضرت تشریف لائے، میں دارُ الطلبہ تھا مجھے آدمی بلانے گیا اتنے میں آتا رہا، ایک صاحب مدرسہ کے قریب ہی اپنے گھر آموں کے لیے لے گئے، میں جب دارُالطلبہ سے آیا تو معلوم ہوا کہ فلاں صاحب کے یہاں چلے گئے ہیں ، وہاں پہنچا تو آم بھیگے ہوئے تھے اور حضرت تشریف فرما میرا انتظار فرما رہے تھے۔ میں نے کہا کہ ایسا کیا تقاضا تھا پہلے ہی تشریف لے آئے حضرت نے فرمایا کہ ہر جگہ ساتھ لے جانے کا وعدہ تو نہیں کر رکھا، جہاں کا وعدہ ہے وہاں کا ہے ! مجھے اس قدر مسرت اور حیرت ہوئی کہ حضرت کو ایک سال کے بعد تک کیسے یادرہا ! اس کے بعد تو پھر
١ آپ بیتی ص ٤١٤
ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ اپنی مغفرت کی بھی ڈھارس بندھ چلی، ورنہ ( وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ) ١ کا خوف غالب رہتا تھا اور ہے اللہ تعالیٰ نے ان اکابر کی جوتیوں میں اس سیہ کار کو بھی جگہ دے دے تو اس کے لطف وکرم سے کیا بعید ہے !
حضرت مدنی قدس سرہ کی شفقت ومحبت کے قصے لا تعد ولا تحصٰی ہیں اور یادبھی بہت ہیں ،بہت سی چیزوں میں خود نمائی بھی مانع ہوجاتی ہے۔ (آپ بیتی ص ٤١٥)
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق :
ایک دفعہ اس سیہ کار کو معمولی سا بخار ہوا کسی جانے والے طالب علم سے حضرت نے خیریت دریافت کی ! اس نے کہہ دیا بخار ہورہا ہے ! حضرت اسی وقت اسی گاڑی سے تشریف لے آئے اور کچے گھر کے دروازے میں قدم رکھتے ہی یہ شعر پڑھا
تَعاللتِ کیی اشجٰی وَمَا بِکِ عِلَّة
تُریدین قتلٰی قد ظفرتِ بذلکِ
میں ایک دم حضرت کی آمد پر کھڑا ہوگیا ۔ فرمایا اچھے خاصے ہو، شور مچا رکھا ہے بخار کا ! میں نے عرض کیا میں نے حضور کی خدمت میں کون سا تاریا ٹیلیفون کیا تھا کہ میں مر رہا ہوں ! فرمایا ساری دنیا میں شور مچ گیا بخار کا، بخار والا یوں نہیں کھڑا ہوا کرتا میں نے عرض کیا
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

اور واقعی ہوا بھی ایسا ہی ! حضرت کی تشریف آوری کی برکت سے بخار جاتا رہا ٢
فدا ہو آپ کی کس کس ادا پر ؟
ایک ادا حضرت مدنی قدس سرہ کی بڑی پسند آیا کرتی تھی ، ایک ادا کیا ادائیں تو ہزاروں بلکہ لاکھوں اور ایک سے ایک بڑھ کر
فدا ہو آپ کی کس کس ادا پر ادائیں لاکھ اور بے تاب دل ایک
١ سورۂ یٰسین : ٥٩ ٢ آپ بیتی ص ٤١٥، ٤١٦
میں نے بارہا دیکھا کہ جب حضرت مدنی قدس سرہ کی آمد حضرت مرشدی سیّدی قدس سرہ کی خدمت میں ایسے وقت ہوتی جب حضرت کا درس جاری ہوتا تو بہت خاموشی سے آکر قاری کے برابر بیٹھ جاتے، نہ سلام نہ مصافحہ نہ ملاقات اور جب قاری حدیث ختم کرتا تو اس کو اشارہ سے روک کر خود حدیث کی قراء ت شروع کردیتے اس سے میرے حضرت کو حضرت مدنی کی آمد کا حال معلوم ہوجاتا اور سبق کے ختم پر سلام اور مصافحہ وغیرہ ہوا کرتا ہے، اللہ جل شانہ اس سیہ کار کو بھی حسنِ ادب کی توفیق عطا فرمائے ! جب حضرت کراچی جیل سے تشریف لائے اس وقت کا منظر ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہے گا حضرت مرشدی قدس سرہ مکان تشریف لے جارہے تھے اور حضرت مدنی اسٹیشن سے تشریف لا رہے تھے ، مدرسہ قدیم کی مسجد کے دروازے پر آمنا سامنا ہوا، حضرت مدنی قدس سرہ حضرت مرشدی قدس سرہ کے ایک دم قدموں میں گرپڑے ! حضرت سہارنپوری قدس سرہ نے جلدی سے پاؤں پیچھے کو ہٹا کر سینہ سے لگایا اور طرفین کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے۔ (آپ بیتی ص ٤١٦) (جاری ہے)




ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر
اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
نرخ نامہ
٭٭٭
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500




قسط : ١٣
تربیت ِ اولاد
( از افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
٭٭٭
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک روحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگااس کے مطابق عمل کرنے سے اولاد نہ صرف دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ ! اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
لڑکیوں کے ناک کان چھدوانا :
زیور کے شوق میں لڑکیوں کو ساری مصیبتیں آسان ہو جاتی ہیں یعنی کان چھدوانے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے مگر لڑکیاں ہنسی خوشی سب کام کرالیتی ہیں بلکہ اگر کوئی ان سے یہ کہے کہ کان چھدوا کر کیا لوگی خواہ مخواہ تکلیف اپنے سر مول لیتی ہو کان مت چھدواؤ تو اس سے لڑنے کوتیار ہوجاتی ہیں !
میرے ایک دوست ہیں ان کو اپنی لڑکی سے بہت محبت تھی ایک دن وہ مجھ سے کہنے لگے کہ اگر میں اس بچی کے کان نہ چھدواؤں تو کچھ حرج تو نہیں ہے ؟ مجھے اس کی تکلیف سے بہت تکلیف ہوتی ہے ! میں نے کہا کچھ حرج نہیں ،یہ خبر کہیں سے اس لڑکی کو پہنچ گئی مجھ پر بڑی خفا ہوئی کہ اپنی بیوی بہن کو تو نہیں دیکھتے یہ مسئلہ میرے ہی واسطے نکالا ہے۔ (الکمال فی الدین ، النساء ص ٨٣)
ایک صاحب نے ناک چھدوانے کے متعلق دریافت کیا۔ فرمایا کہ اس کے متعلق صاحب دُرِمختار نے یہ لکھا ہے کہ لَمْ اَرٰہُ (میں نے اس کی کہیں تصریح نہیں دیکھی) اور شامی نے اس کو کان پر قیاس کر کے جائز لکھا ہے یعنی چونکہ کان اور ناک میں بظاہر کوئی فرق نہیں اور کان کے متعلق نص ہے اس لیے اس کو بھی جائز کہا جائے گا لیکن ناک چھدوانا خلاف اَولیٰ ہے۔ ١
کان ناک چھیدنے کا حکم :
کان ناک چھیدنا جیسا کہ ہندوستان میں رائج ہے ثابت ہے یا نہیں ؟ فرمایا کان کی صرف لَو چھیدنا ثابت ہے اور ناک چھیدنا ثابت نہیں ۔ بُلاق تو بہت ہی برا معلوم ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب نے پوچھا میں اپنی لڑکی کے ناک کان چھدواؤں یا نہیں ؟ فرمایا جائز تو ہے اور یہ بات بھی قابلِ غور اور قبولِ لحاظ ہے کہ بڑے ہوکر خود اس کو یہ حسرت نہ ہو کہ میرے کان ناک کیوں نہ چھیدے گئے ! ٢
چھوٹے بچوں کو چھیڑ چھاڑ کر نے کا حکم :
لڑکوں کو چھیڑنے کے متعلق میں نے یہ سمجھا ہے کہ کبھی تو ان کو واقعی (اس چھیڑ چھاڑ سے قلبی) تکلیف ہوتی ہے تو ایسا چھیڑنا تو جائز نہیں (خواہ ماں باپ ہی کیوں نہ چھیڑیں ) اور کبھی تکلیف نہیں ہوتی اور ناز سے تکلیف ظاہر کرتے ہیں اس میں گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ ٣
اولادکے واسطے دعاء :
ہم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سبق سیکھ لینا چاہیے کہ انہوں نے جہاں اپنی اولاد کے لیے دنیاوی نفع کی دعا کی ہے ( وَارْزُقْ اَھْلَہ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ )
''اور روزی دے اس کے رہنے والوں کو پھلوں کی قسم سے، ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اللہ اور قیامت کے دن پر'' وہاں اس دینی نفع کی بھی دعا ہے ( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ )
''اے پرور دگار ہمارے بھیج ان میں ایک رسول ان ہی میں کا''
١ دعواتِ عبدیت مقالات ِحکمت ١٩/٢٩ ٢ حسن العزیز ٤/٣٠٥ ٣ ایضاً ١/٧٠٧
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جیسے دنیا کے لیے دعا کی ایسے ہی آخرت کے لیے بھی دعا کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذُرّیت کے لیے جو دعا کی اس سے گویا ہم کو یہ سبق سکھلایا کہ اپنی اولاد کے لیے دنیا سے زیادہ اہتمام دین کا کرنا چاہیے ۔اور اولاد عام ہے اولاد حقیقی ہو یا مذہبی بلکہ اولادِ حقیقی بھی جب ہی اولاد ہوتی ہے جبکہ اتباع کرے ! انبیاء علیہم السلام کی اولاد بھی وہ مقبول ہے جو انبیاء کی پیروی کرتی ہو (انبیاء کے نقش ِ قدم پر چلتی ہو) ! اب ہم کو سبق لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم کہاں تک اپنی اولاد کے حق میں ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ پر چلتے ہیں !
میں نہیں کہتا کہ لوگ اپنی اولاد کے حقوق ادا نہیں کرتے لیکن ضرور ہے کہ زیادہ توجہ محض دنیا پر دیتے ہیں اس کی زیادہ کوشش ہوتی ہے کہ اولاد چار پیسے کمانے کے قابل ہوجائے اور جب اس قابل بنادیتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے واجب حقوق ادا کر چکے، آگے اپنی اصلاح یہ خود کرلیں گے ! اور وجہ اس کی زیادہ تر یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے دین کی وقعت بالکل نکل گئی ہے اس لیے ہمہ تن دنیا پر جھک پڑے ہیں
اولاد کے نیک ہونے اور بُری اولاد سے بچنے کی اہم دعائیں :
( رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیََّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِ )
''اے میرے رب مجھے اور میری نسل کو بھی نماز قائم کرنے والا بنادے ''
( رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا )
''اے ہمارے رب ہماری بیویوں اور اوالاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائیے اور ہم کو مقتدیوں کا مقتدا کر دیجیے ''
( اَللّٰہُمَّ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ )
'' اور صلاحیت دے میری اولاد میں ، میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں ''
( اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ )
'' اے اللہ برکت دے ہماری بیویوں میں اور ہماری اولاد میں اور ہماری توبہ قبول کر کیونکہ توہی توبہ قبول کرنے والا ہے''
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ صَالِحٍ تُؤْتِی النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَھْلِ وَالْوَلَدِ غَیْرَ ضَالٍّ وَّلَا مُضِلٍّ ۔
''اے اللہ ! میں تجھ سے اچھی چیز کا سوال کرتا ہوں جو تو لوگوں کو دے مال ہو یا بیوی یا اولاد ، کہ نہ گمراہوں نہ گمراہ کرنے والے''
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَّلَدٍ یَّکُوْنُ عَلَیَّ وَبَالًا
'' اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتاہوں ایسی اولاد سے جو مجھ پر وبال ہو ''
٭٭٭




( صدقۂ فطر )
٭٭٭
صدقہ فطر ہر اُس مسلمان پر واجب ہے جس پر زکٰوة فرض ہے یا زکٰوة توفرض نہیں لیکن نصاب کے برابر قیمت کا اورکوئی مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد اس کے پاس ہے چاہے اس نے روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں ! صدقہ فطر نابالغ اولاد کی طرف سے بھی دیا جائے گا، اگر نابالغ اولاد خود مالدارہوتو باپ کے ذمہ نہیں بلکہ ان ہی کے مال میں سے باپ ان کی طرف سے صدقہ ادا کردے !
یہ صدقہ عید کے دن صبح صادق ہوتے ہی واجب ہوجاتا ہے، اگر کسی نے عید سے پہلے رمضان میں صدقہ دے دیا تو بھی ادا ہو جائے گا !
صدقہ فطر اُن لوگوں کو دیا جائے جنہیں زکٰوة دی جاتی ہے جنہیں زکٰوة نہیں دی جاسکتی انہیں صدقہ فطر بھی نہیں دیا جاسکتا !
صدقہ فطر فی کس پونے دوسیرگندم یا اس کی قیمت( لاہور اور اس کے مضافات کے لیے 300 روپے) کے حساب سے دیا جائے ! دیگر شہروں کے حضرات اپنی اپنی مارکیٹ کی قیمتوں کے مطابق حساب کر کے صدقہ فطر ادا کریں !




اولاد کی تعلیم و تربیت
( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری رحمة اللہ علیہ )
٭٭٭
بہت سے لوگوں کو اولاد کی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور اولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے، بچوں کے لیے پیٹ کی روٹی اور تن کے کپڑوں کا تو انتظام کردیتے ہیں لیکن ان کی باطنی پرورش یعنی اخلاقی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جن کے اپنے ماں باپ نے ان کا ناس کھویا تھا انہیں پتہ ہی نہیں کہ تربیت کیا چیز ہے اور بچوں کو کیا سکھائیں اور کیا سمجھائیں ؟ اس عظیم غفلت میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو خود تو نمازی ہیں اور کچھ اخلاق و آداب سے بھی واقف ہیں لیکن ملازمت یا تجارت میں اس طرح اپنے آپ کو پھنسادیا ہے کہ بچوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے ان کے پاس گویا وقت ہی نہیں حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اولاد ہی کے لیے ہوتی ہے، جب زیادہ کمانے کی وجہ خود اولاد ہی کے اعمال و اخلاق کا خون ہوجائے تو ایسا کمانا کس کام کا ؟
بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اچھا خاصا علم بھی رکھتے ہیں مصلح بھی ہیں اور مرشد بھی ہیں دنیا بھر کے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں ، کبھی یہاں وعظ کہا کبھی وہاں تقریر کی، کبھی کوئی رسالہ لکھا کبھی کوئی کتاب تالیف کی لیکن اولاد کی اصلاح سے بالکل غافل ہیں حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے اولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اور ان کی عمر دس بارہ سال ہوجاتی ہے تو اب ان کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہوجاتا ہے !
اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں توجہ تو ہے لیکن وہ اولاد کو حقیقی علم سے بالکل محروم رکھتے ہیں یعنی اولاد کو اسلام نہیں سکھاتے، بیس بیس سال کی اولاد ہوجاتی ہے جنہیں کلمہ تک یاد نہیں ہوتا ! یہ لوگ نہ نماز جانیں ،نہ اس کے فرائض نہ واجبات جانیں ، نہ اسلام کے عقائد پہچانیں ، نہ دین کو جانیں اس قسم کے لڑکوں اور لڑکیوں کے والدین یورپ کے طور طریق سب کچھ سکھاتے ہیں ، کوٹ پتلون پہننا بتاتے ہیں ، اپنے ہاتھ سے ان کے گلوں میں ٹائی باندھتے ہیں ، ناچ رنگ کے طریقے سمجھاتے ہیں ، عورتیں بیاہ شادی کی رسمیں بتاتی ہیں ، شرکیہ باتوں کی تعلیم دیتی ہیں اور اس طرح سے ماں باپ دونوں مل کر بچوں کا خون کردیتے ہیں ! اور طرّہ یہ کہ ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ اور بچی ماڈرن ہیں انگریز بن رہے ہیں ترقی یافتہ لوگوں میں شمار ہونے لگے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان کی آخرت برباد ہوگئی اعمالِ بد کے خوگر ہوگئے اسلام سے جاہل رہ گئے ! احادیث میں ارشاد ہوتا ہے
عَنْ جَابِرٍ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم لَأَنْ یُّؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَہ خَیْر لَّہ مِنْ اَنْ یَّتَصَدَّقَ بِصَاعٍ ( مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٤٩٧٦ )
''حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور فخر عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے بچہ کو ادب سکھائے تو بلاشبہ یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک صاع غلہ وغیرہ صدقہ کرے''
وَعَنْ اَیُّوْبَ بْنِ مُوْسٰی عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ عليہ وسلم قَالَ مَا نَحَلَ وَالِد وَلَدَہ مِنْ نَّحْلٍ اَفْضَلَ مِنْ اَدَبٍ حَسَنٍ۔ ( مشکوة المصابیح رقم الحدیث ٤٩٧٧ )
''حضرت عمرو بن سعید سے روایت ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی ایسی بخشش نہیں دی جو اچھے ادب سے بڑھ کر ہو''
''ادب'' بہت جامع کلمہ ہے، انسانی زندگی کے طور طریق کو ادب کہا جاتا ہے، زندگی گزارنے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں آتے ہیں ، بندہ اللہ جل شانہ کے بارے میں جو عقائد رکھنے پر مامور ہے اور اللہ کے احکام پر چلنے کا جو ذمہ دار بنایا گیا ہے یہ وہ آداب ہیں جو بندے کو اللہ کے اور اپنے درمیان صحیح تعلق رکھنے کے لیے ضروری ہیں ! فرائض اور واجبات، سنن اور مُستحبات وہ اُمورہیں جن کے انجام دینے سے حقوق اللہ کی ادائیگی ہوتی ہے اور مخلوق کے ساتھ جو انسان کے تعلقات ہوتے ہیں ان میں ان احکام کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے جو مخلوق کی راحت رسانی سے متعلق ہیں ان میں بھی واجبات اور مُستحبات ہیں اور ان کی تفصیل و تشریح بھی شریعت ِمحمدیہ میں وادر ہوئی ہے۔ یہ وہ آداب ہیں جن کا برتنا مخلوق کے لیے باعث ِراحت و رحمت ہے !
خلاصہ یہ کہ لفظ ادب کی جامعیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو شامل ہے ،یہ جو حضور اقدس صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے ادب سے بڑھ کر کسی باپ نے اپنے بچہ کو کوئی بخشش نہیں دی ! اس میں پورے دین کی تعلیم آجاتی ہے کیونکہ دین ِاسلام اچھے ادب کی مکمل تشریح ہے۔ بہت سے لوگ لفظ ادب کے معروف معنی لے کر اس کا رواجی مطلب لے لیتے ہیں اور انہوں نے اُٹھنے بیٹھنے کے طریقوں تک ہی ادب کا انحصار سمجھ رکھا ہے !
حدیث میں یہ جو فرمایا کہ انسان اپنے بچہ کو ادب سکھائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ ایک صاع غلہ وغیرہ صدقہ کرے ! اس میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ کہ صدقہ خیرات اگرچہ فی نفسہ بہت بڑی عبادت ہے (اگر اللہ کی رضا کے لیے ہو) لیکن اس کا مرتبہ اپنی اولاد کی اصلاح پر توجہ دینے سے زیادہ نہیں ہے ! بہت سے لوگوں کو اللہ جل شانہ نے مال دیا ہے اس میں سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور اولاد کی طرف سے پوری غفلت برتتے ہیں ، مسکین آرہے ہیں گھر پر کھارہے ہیں غریبوں کی روٹی بندھی ہوئی ہے مدرسہ اور مسجدوں میں چندہ جارہا ہے لیکن اولاد بے ادب، بد اخلاق، بے دین بلکہ بد دین بنتی چلی جارہی ہے،صدقہ و خیرات کرنے پر خوش ہیں اور خوش ہونا بھی چاہیے لیکن اس سے بڑھ کر عمل جو ہے جس کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ اپنی اولاد کو ادب سکھانا ہے یعنی اللہ کے راستہ پر ڈالنا ہے اس کے لیے فکر مند ہونا لازمی اَمر ہے، اس غفلت سے نسلیں کی نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں !
ماں باپ کا فریضہ ہے کہ بچوں کو دین سکھائیں اور دین کو سب سے زیادہ اہمیت دیں کیونکہ دین ہی آخرت کی ہمیشہ والی زندگی میں کام آنے والا ہے ! بہت سے لوگ بچوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں مگر ان کی یہ محبت صرف دنیاوی آرام و راحت تک محدود رہتی ہے، ان کی اصل ضرورت یعنی آخرت کی نجات اور موت کے بعد کے آرام و راحت کی طرف توجہ نہیں کرتے، حلال مال سے حلال طریقے پر کھلانا پلانا اور پہنانا اچھی بات ہے لیکن انسان کی سب سے بڑی ضرورت آخرت کا آرام اور سکون ہے ! بچوں کی خوشی کے لیے ان کو غیر ضروری لباس بھی پہناتے ہیں ، ان کے لیے تصویریں مُورتیاں خرید کر لاتے ہیں اور اپنے گھروں کو ان کی وجہ سے رحمت کے فرشتوں سے محروم رکھتے ہیں ، اُدھار قرض کرکے ان کی جائز ناجائز ضرورتوں اور شوقیہ زیب و زینت اور فیشن پر اچھی خاصی رقمیں خرچ کرتے ہیں لیکن ان کو دین پر ڈالنے کی فکر نہیں کرتے، یہ بچوں کے ساتھ بہت بڑی دشمنی ہے اگر دین نہیں تو آخرت کی تباہی ہوگی، وہاں کی تباہی کے سامنے دنیا کی ذراسی چٹک مٹک اور چہل پہل کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی، اپنی اولاد کے سب سے بڑے محسن وہ ماں باپ ہیں جو اپنی اولاد کو دینی علم پڑھاتے ہیں اور دینی اعمال پر ڈالتے ہیں ، یہ علم نہ صرف اولاد کے لیے بلکہ خود ان کے والدین کے لیے بھی قبر میں اور آخرت میں نفع مند ہوں گے ! ایک بزرگ کا ارشاد ہے اِنَّ النَّاسَ نِیَام فَاِذَا مَاتُوْا اِنْتَبَھُوْا یعنی لوگ سو رہے ہیں جب موت آئے گی تو بیدار ہوں گے ! !
آخرت سے بے فکری کی زندگی گزارنے میں انسان کا نفس خوش رہتا ہے اور یہی حال بال بچوں اور دوسرے متعلقین کا ہے، اگر آخرت کی باتیں نہ بتائو اور کھلائے پلائے جائو دُنیا کا نفع پہنچائے جائو تو ہشاش بشاش رہتے ہیں اور اس تغافل کو باعث ِنقصان نہیں سمجھتے لیکن جب آنکھیں بند ہوں گی اور قبر کی گود میں جائیں گے اور موت کے بعد کے حالات دیکھیں گے تو حیرانی سے آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی عالمِ آخرت کی ضرورتیں اور حاجتیں جب سامنے ہوں گی تو غفلت پر رنج ہوگا اور حسرت ہوگی کہ کاش آج کے دن کے لیے خود بھی عمل کرتے اور اولاد کو بھی یہاں کی کامیابی کی راہ پر ڈالتے مگر اُس وقت حسرت بے فائدہ ہوگی ! !
لوگوں کا یہ حال ہے کہ بچوں کو ہوش سنبھاتے ہی اسکول اور کالج کی نذر کردیتے ہیں یا محنت و مزدوری پر لگادیتے ہیں ، نماز روزہ سکھانے اور بتانے اور دینی فرائض سمجھانے اور ان پر عمل کرانے کی کوئی فکر نہیں کرتے، شادیاں ہوجاتی ہیں باپ دادا بن جاتے ہیں لیکن بہت سوں کو کلمہ طیبہ بھی صحیح یاد نہیں ہوتا، نماز میں کیا پڑھاجاتا ہے اس سے بھی واقف نہیں ہوتے، اَسّی اَسّی سال کے بوڑھوں کو دیکھا گیا ہے کہ دین کی موٹی موٹی باتیں بھی نہیں جانتے ! ! فَاعْتَبِرُوْا یٰا اُولِی الْاَبْصَارِ
٭٭٭




رحمن کے خاص بندے قسط : ٢٣
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارالعلوم دیوبند )
٭٭٭
توحید خالص پر استقامت :
'' عِبَادُ الرَّحْمٰن '' کی صفات بیان کرتے ہوئے آگے یہ فرمایا گیا
( وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ ) ( الفرقان : ٦٨ )
(یعنی وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں مانتے )
بلا شبہ یہ صفت ایمان کی بنیاد ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام نے دنیا میں آکر اس کی تعلیم دی ہے، اس میں ذرّہ برابر بھی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا
( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) ( النحل : ٣٦)
''اور ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجے کہ اللہ کی بندگی کرو اورطاغوت (بت، شیطان وغیرہ) سے بچتے رہو '' اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا
( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِن رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاعْبُدْوْنِ ) ١
''اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کو یہی حکم دیا کہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی بندگی نہیں پس میری ہی عبادت کرو''
اسی بنا پر اسلام کا پہلا کلمہ ''لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ '' تمام معبودانِ باطلہ کی نفی سے شروع ہوتا ہے پس معبودانِ باطلہ کی عبادت کی قطعاً نفی اور معبود ِبر حق ربُ العالمین کی عبادت کا حتمی طور پر اثبات یہی اسلام کا مطلوب و مقصود ہے اس نظریہ میں کسی طرح کی کمزوری ہرگز منظور نہیں کی جاسکتی اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا
١ سُورة الانبیاء : ٢٥
اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّٰہِ ١
''مجھے یہ حکم ہے کہ اُس وقت تک لوگوں سے لڑوں جب تک کہ وہ اس بات کی شہادت نہ دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ عليہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ''
خلاصہ یہ کہ اسلام کسی بھی سطح پر کسی قسم کے شرک کو برداشت نہیں کرتا، توحید اور خالص توحید اسلام کا خاصہ ہے اسی لیے قرآن و حدیث میں جابجا توحید کی تاکید اور شرک کی مذمت کی گئی ہے اور مشرکین کی جانب سے پیش کردہ تمام باتوں کا مسکت جواب دیا گیا ہے۔
شرک سفید جھوٹ :
واقعہ یہ ہے کہ شرک سے بڑا جھوٹ دنیا میں کوئی نہیں ہے، یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ اگر اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہوجائے تو بجا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے ہم جنس اولاد کے لچر عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے بہت زوردار انداز میں ارشاد فرمایا گیا
( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا ۔ لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا۔ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا ۔ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَمَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ۔ اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ اِلَّا اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا) ٢
''اور لوگ کہتے ہیں کہ رحمن اولاد رکھتا ہے، یقینا تم بہت بھاری چیز لائے ہو قریب ہے کہ اس کی وجہ سے سب آسمان پھٹ پڑیں اور زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے اور پہاڑ ریت ہوکر گر پڑیں اس پر کہ رحمن کے نام پر اولاد پکارتے ہیں اور رحمن کو اولاد رکھنا زیب نہیں دیتا، جو کچھ بھی آسمان وزمین میں ہے وہ رحمن کے سامنے بندہ ہی ہوکر آئے گا''
١ صحیح البخاری کتاب الایمان ج ١ ص٨ و صحیح مسلم کتاب الایمان ج ١ ص٣٦
٢ سُورة مریم : ٨٨ تا ٩٣
دیکھیے کیسا پُر شوکت اور پُر اثر اسلوب ہے جو ذہن و دماغ کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے اور شرک و کفر کے تار وپود کو بکھیر دینے والا ہے !
شرک کا عقیدہ عقل و فطرت کے خلاف ہے :
غور کیا جائے تو عقیدہ ٔشرک کا خلافِ عقل ہونا بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے کیونکہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ بغیر بنائے کوئی چیز بن جائے ! مشہور ہے کہ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے پاس ایک دہریہ شخص توحید ربوبیت پر بحث کے لیے آیا تو حضرت نے فرمایا کہ آگے بحث تو بعد میں ہوگی، پہلے یہ بتاؤ کہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ ایک کشتی خود بخود بن گئی اور پھر اس میں خود بخود سامان لادا گیا اور پھر وہ کشتی خود بخود پانی میں چل پڑی دوسرے کنارے پر پہنچ کر اس نے سامان اتار دیا تو کیا یہ ممکن ہے ؟ تو اس شخص نے کہا کہ یہ توبالکل محال ہے، بھلاکسی کے بنائے اور چلائے بغیر کشتی کیسے چل سکتی ہے ؟ تو حضرت نے فرمایا کہ تم ہی بتاؤ جب ایک کشتی اس طرح نہیں چل سکتی تو یہ نظام کائنات بغیر خالق ومالک کے کیسے چل سکتا ہے ؟ ( شرح فقہ اکبر مُلا علی قاری ص ٢٢ دارالکتب العلمیة )
اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی نظام بیک وقت دو متوازی طاقتوں کے ذریعہ بخیر وخوبی چل جائے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
( لَوْ کَانَ فِیْہِمَا اٰلِہَة اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ) ( سُورة الانبیاء : ٢٢ )
''اگر ہوتے ان دونوں میں او ر حاکم اللہ کے سوا تو دونوں خراب ہوجاتے''
اس کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں
''اس کو یوں سمجھو کہ عبادت نام ہے کامل تذلل کا، اور کامل تذلل صرف اسی ذات کے سامنے اختیار کیا جاسکتا ہے جو اپنی ذات و صفات میں ہرطرح کامل ہوا اسی کو ہم اللہ'' یا ''خدا'' کہتے ہیں ! ضروری ہے کہ خدا کی ذات ہر قسم کے عیوب ونقائص سے پاک ہو، نہ وہ کسی حیثیت سے ناقص ہو نہ بیکار، ناعاجز ہو نہ مغلوب، نہ کسی دوسرے سے دبے نہ کوئی اس کے کام میں روک ٹوک کر سکے۔ اب اگر فرض کیجیے آسمان و زمین میں دو خدا ہوں تو اگر دونوں اسی شان کے ہوں گے اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ عالم کی تخلیق اور علویات وسفلیات کی تدبیر دونوں کے کلی اتفاق سے ہوتی ہے یا گاہ بگاہ باہم اختلاف بھی ہوجاتا ہے !
اتفاق کی صورت میں دو احتمال ہیں : یا تو اکیلے ایک سے کام نہیں چل سکتا تھا اس لیے دونوں نے مل کر انتظام کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک بھی کامل قدرت والا نہیں ! اور اگر تنہا ایک سارے عالم کا کام کامل طور پر انجام دے سکتاتھا تو دوسرا بیکار ٹھہرا حالانکہ خدا کا وجود اسی لیے ماننا پڑا ہے کہ اس کے بدون چارہ ہی نہیں ہوسکتا !
اور اگر اختلاف کی صورت فرض کریں تو لامحالہ مقابلہ میں ایک مغلوب ہوکر اپنے ارادہ اور تجویز کو چھوڑ بیٹھے گا تو وہ خدا نہ رہا ! اور یا دونوں بالکل مساوی ومتوازی طاقت سے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ارادے اور تجویز کو عمل میں لانا چاہیں گے تو اوّل تو (معاذ اللہ) خداؤں کی اس رسہ کشی میں سرے سے کوئی چیز موجود ہی نہ ہوسکے گی اور موجود چیز پر زور آزمائی ہونے لگی تو اس کش مکش میں ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہوجائے گی ! یہاں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر آسمان وزمین میں دو خدا ہوتے تو آسمان وزمین کا یہ نظام کبھی کا درہم برہم ہوجاتا ورنہ ایک خدا کا بیکار یا ناقص وعاجز ہونا لازم آتا جو خلاف ِمفروض ہے'' (تفسیر عثمانی ج ٢ ص٥٥٥)
اسی بات کو قرآن کریم میں دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا
( مَا اتَّخَذَا اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہ مِنْ اِلٰہٍ اِذًا لَّذَ ھَبَ کُلُّ اِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ سُبْحَانَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ) ( سُورة المؤمنون : ٩١ )
''اللہ نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور نہ اس کے ساتھ کسی کا حکم چلے، یوں ہوتا تو لے جاتا ہر حکم والا اپنی بنائی چیز کو اور چڑھائی کرتا ایک پر ایک، اللہ نرالا ہے ان کی بتلائی باتوں سے''
ان مدلل آیات سے پتہ چلا کہ اللہ کی ذات وصفات میں کسی دوسرے کو شریک ماننا پرلے درجہ کی جہالت اور حماقت ہے ! کوئی بھی عقل مند شخص اسے قبول نہیں کرسکتا اسی لیے قرآن کریم نے یہاں تک فرمادیا کہ اللہ پر ایمان نہ لانے والے اور شرک وبت پرستی وغیرہ پر جمنے والے لوگ دائرہ انسانیت ہی سے خارج اور جانوروں اور چاپایوں کی صف میں کھڑے کیے جانے کے لائق ہیں ارشاد ِ خداوندی ہے
( وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبُ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُن لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَان لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ ) ( سُورة الاعراف : ١٧٩ )
''اور ہم نے پیدا کیے دوزخ کے واسطے بہت سے جن اورآدمی، ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں ، اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے دیکھتے نہیں ، اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں ، وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ، وہی لوگ ہیں غافل''
دوسری جگہ ارشاد فرمایا
( اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لَّا یُؤْمِنُوْنَ ) ( سُورة الانفال : ٥٥ )
''اللہ کے یہاں سب جانداروں میں بدتر وہ ہیں جو منکر ہوئے پھر ایمان نہیں لائے''
اور قرآن و حدیث میں جو جابجا شرک کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل سے نواز کر اتنی صلاحیت تو ہر عقلمند کو پہلے ہی سے عطا کردی ہے کہ وہ ذراسی توجہ سے شرک کے گھناؤنے عقیدہ سے بچ سکتا ہے اس نعمت عظمیٰ کے ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص شرک سے نہ بچے تو ظاہر ہے کہ اس سے بڑا احسان فراموش اور غافل اور کون ہوسکتا ہے ؟ ایسے شخص کو جتنی بھی سزا دی جائے کم ہے۔
توحید کے درجات :
مسند الہند امام اکبر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ارشاد فرمایا ہے کہ عقیدۂ توحید کی تکمیل کے لیے چار درجوں کی توحید کا ماننا لازم ہے، اگر کسی بھی درجہ کی توحید میں ذرّہ برابر بھی کمی رہ جائے گی تو انسان ہر گز ''موحد'' نہیں کہلایا جاسکتا، وہ چار درجے یہ ہیں :
(١) توحید ِ ذات : یعنی یہ ماننا کہ واجب والوجود ذات جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ! یہ بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے میں قطعاً نہیں پائی جاتی !
(٢) تو حید ِ خلق : یعنی یہ تسلیم کرنا کہ آسمان وزمین، عرش و کرسی اور تمام مخلوقات کا خالق صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہے، صفت ِ خلق میں اس کا کوئی سہیم و شریک نہیں ہے ( اس کو ''توحید ِ روبوبیت'' بھی کہتے ہیں )
(٣) توحید ِ تدبیر : یعنی یہ یقین کرنا کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہوا ہے یا ہورہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے ان سب کا چلانے والا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس نظام کو چلانے میں کسی غیر کو دوردور تک کوئی دخل نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کا خود مالک ہے اس کے فیصلے کو کوئی روک نہیں سکتا !
(٤) توحید ِ اُلوہیت : یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو معبود بنانا ہرگز جائز نہیں ہے ! اور ''توحید ِ تدبیر'' کے لیے'' توحید ِ اُلوہیت''لازم ہے یعنی جو کائنات کو چلانے والا ہے بس وہی عبادت کے لائق ہے ! ١
توحید کے درج بالا درجات میں سے اوّل دو درجے یعنی ''توحید ِ ذات'' اور ''تو حید ِ خلق'' عام طور پر بہت سے مشرکین کے نزدیک بھی قابلِ قبول تھے اور آج بھی اکثر مشرکین کا یہی حال ہے کہ وہ خالق تو صرف ایک ہی کو مانتے ہیں (جسے وہ اپنی زبان میں ''ایشور'' یا ''بھگوان'' وغیرہ کانام دیتے ہیں ) لیکن توحید کے تیسرے اور چوتھے درجے کو وہ ماننے پر نہ کل تیار تھے اور نہ آج تیار ہیں حالانکہ ان کو مانے بغیر ایمان کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ! ٢
١ حجة اللّٰہ البالغة مع رحمة اللّٰہ الواسعة ج١ ص ٥٩٠
٢ شرح العقیدة الطحاویة لامام ابن ابی العز الدمشقی ٢١
دنیا میں مروجہ شرک کی قسمیں :
دنیا میں جو شرک رائج ہے وہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے وسیع مطالعہ کی روشنی میں بنیادی طور پر تین قسموں پر منقسم ہے :
(١) ستارہ پرستی :

کچھ لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ آسمان پرنظر آنے والے چاند سورج اور ستاروں کے اثرات اور منافع روئے ارض پر آنکھوں سے نظر آتے ہیں اس لیے انہوں نے ان ستاروں ہی کو معبود بنا ڈالا اور ان کی تصاویر بناکر ان کی پوجا شروع کردی، اور حوادثِ عالم میں ان ستاروں کو مؤثر بالذات سمجھنے لگے (چنانچہ آج بھی ''سوریہ دیوتا'' اور ''چند رما دیوتا'' کا تصور برادرانِ وطن میں موجود ہے) نیز قرآن کریم میں سیّدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی قوم کے ستارہ پرست ہونے کا ذکر ہے جس پر نہایت مؤثر انداز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نکیر فرمائی ہے ( سُورة الانعام : ٧٦ تا ٧٩)
(٢) بت پرستی اور مورتی پوجا :
بہت سے مشرکین گو کہ تخلیق عالم میں اللہ تعالیٰ کی خالقیت کے قائل ہیں لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اپنی دانست میں خود تراشیدہ مورتیوں کو وسیلہ بناکر ان کی عبادت جاری کر رکھی ہے اور خدائے وحدہ لاشریک کوبھول بیٹھے ہیں وہ اپنے اس عمل کی تائید میں عام طور پرتین باتیں کہتے ہیں :
الف : اللہ تعالیٰ کے جو نیک بندے پہلے گزرے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں بہت مقرب تھے جس کی بناپر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کچھ اختیارات سونپ دیے ہیں (جیسے ہمارے ملک کے ہندو ''کالی دیوی '' کے لیے تعلیم کے اختیارات اور ''لکشمی دیوی'' کے لیے مالی اختیارات وغیرہ ثابت کرتے ہیں ، گویا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے وزیروں کی پوری کابینہ بنادی ہے نعوذ باللہ) اسی لیے ان کی پوجا کی جاتی ہے تاکہ وہ ہمارے حق میں اپنے مفوضہ اختیارات استعمال کرسکیں ۔
ب : مشرکین کی زبانوں پر یہ بات بھی رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نہایت درجہ بلند وبرتر ہے ہم ضعیفوں کی وہاں تک رسائی براہ راست نہیں ہوسکتی اس لیے ہم ان گزرے ہوئے بزرگوں اور صالحین کا دامن پکڑتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کر لیں قرآنِ کریم میں ان کا یہ نظریہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے
( وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہ اَوْلِیَآئَ مَانَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ) ١
'' اور جنہوں نے اللہ کو چھوڑکر دوسروں کو حمایتی بنا رکھاہے (وہ کہتے ہیں ) کہ ہم تو ان کو صرف اس لیے پوجتے ہیں تاکہ وہ ہم کو اللہ کے قریبی درجہ میں پہنچادیں ''
گویا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اپنے مزعومہ معبودوں کی پرستش ضروری خیال کرتے ہیں اور جس طرح دنیا میں کسی وزیر اعظم تک بغیر پیش کار اور سیکرٹری کے رسائی نہیں ہوتی اسی طرح وہ سمجھتے ہیں کہ ان معبودوں کے بغیر اللہ تعالیٰ تک رسائی نہیں ہوسکتی حالانکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور سراسر جہالت پر مبنی ہے۔
ج : بعض مشرکین کے نزدیک اللہ کے خاص بندے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں اور لوگوں کی فریاد سن کر اسے حل کرانے میں سرگرم رہتے ہیں ان ہی مخصوص بندوں کی طرف دل کو متوجہ رکھنے کے لیے ان کی تصویریں تراشی گئی ہیں تاکہ انہیں راضی کر کے اپنا کام نکالا جاسکے ! توشروع شروع میں یہ بت اصل نہ تھے بلکہ وہ ''صالحین'' اصل مقصود تھے جن کی یہ تصویریں بنائی گئی تھیں پھر بعد میں آنے والوں نے اصل سے قطع نظر کرکے ان ہی بتوں کو اصل معبود کا درجہ دے دیا ! ٢
غور کیا جائے تو مشرکین کی یہ سب دلیلیں قطعاً لچر اور بودی ہیں ،نہ تو اللہ تعالیٰ نے کسی فرد کو اختیارات منتقل فرمائے ہیں اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کسی کی سفارش ماننے پر مجبور ہیں بلکہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کے لیے دم مارنے کی ہمت بھی نہیں ہے اور نہ ہی انبیاء یا اولیاء دنیاسے پردہ فرمانے کے بعد نظامِ عالم میں متصرف ہیں یہ سب خیالات محض جھوٹے، بے دلیل اور من گھڑت ہیں اور اٹکل اور تخمینے
١ سُورة الزمر : ٣ ٢ حجة اللّٰہ البالغة مع رحمة اللّٰہ الواسعة ج١ ص ٥٩٤ ، ٥٩٥
کی باتیں ہیں ، حقیقت سے ان کا دور دور تک واسطہ نہیں ہے، قرآن کریم میں جابجا مشرکین کے ان موہوم نظریات کی تردید کی گئی ہے جو قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے جیسا کہ سورۂ نجم میں ارشاد ِ خداوندی ہے
( اِنْ ھِیَ اِلَّآ اَسْمَآئ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَاٰبَآ ئُ کُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآئَ ھُمْ مِّن رَّبِّھِمُ الْھُدٰی ) ١
''یہ صرف تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کے رکھے ہوئے (فرضی) نام ہیں ، جن کی کوئی دلیل اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں فرمائی، یہ لوگ صرف گمان اور نفسانی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں ، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت (قرآن کریم) آچکی ہے''
قرآن کریم نے جو منظر کشی کی ہے وہ بالکل واقعہ کے مطابق ہے چنانچہ خود ہمارے ملک میں قریبی زمانہ میں وفات پانے والے بعض سیاسی لیڈروں کے نام پر مندر بننے شروع ہوگئے ہیں اور ان کی تصاویر کی باقاعدہ پوجا ہونے لگی ہے ، العیاذ باللہ !
(٣) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ماننا :
مشرکین کا تیسرا گروہ عیسائیوں کا ہے انہوں نے سیّدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عام لوگوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا خاص مقرب خیال کرتے ہوئے کبھی تو ''ابنُ اللّٰہ'' یعنی اللہ کا بیٹا کہہ دیا اور کبھی خود ذاتِ خداوندی کو نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں حلول مان کر ان ہی پر ''اللہ'' کا اطلاق کردیا ، اور پھر بعد میں آنے والوں نے سب باتوں سے قطع نظر کرتے ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ کے حقیقی بیٹے کے درجے میں رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ان میں ثابت کردیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیم وہدایات کو پامال کرتے ہوئے خود انہیں ہی معاذ اللہ معبود ماننے لگے !
چنانچہ قرآنِ پاک میں جابجا من گھڑت عقیدے کی پوری قوت کے ساتھ تردید کی گئی ہے اور فرمایا
١ سُورة النجم : ٢٣
گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی بیوی ہی نہیں ہے تو اولاد کیسے ہوسکتی ہے ؟ اور یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تو خود خالق ومالک اور موجود ہے اسے اولاد کی کیا حاجت ؟ وغیرہ ( رحمة اللّٰہ الواسعة ج١ ص ٥٩٦ ، ٥٩٧)
دنیا میں شرک کے مظاہر :
شرک کی اصل حقیقت یہ ہے کہ مدعو یا مسجود کو کامل ترین اور با اختیار مان کر اس کے سامنے کمالِ تذلل کا اظہار کیا جائے (جیسا کہ ایک عابد اپنے معبودکے سامنے کرتا ہے) اس معنی کے اعتبار سے شرک کا اصل تعلق تو دل کے اعتقاد سے ہے لیکن کچھ ظاہری اعمال ایسے ہیں جو انسان کے دل میں موجود خیالات کے لیے علامت اور دلیل بنتے ہیں اور انہیں دیکھ کر فاعل کے نظریات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہٰذا اسلامی شریعت میں وہ تمام افعال جو شرک پر دلیل بنتے ہوں انہیں مطلق حرام قرادیا گیا ہے اب ان افعال کے ساتھ اگر نعوذ باللہ دل کا عقیدہ بھی شامل ہو تو بلا شبہ آدمی مشرک ہوجائے گا ! اور اگر دلی عقیدہ نہ ہوپھر بھی یہ فعل حرام ہوگا کیونکہ یقینا یہ مشرکانہ فعل انجام کار مشرکانہ عقیدہ تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ! اور جو اعمال خاص طور پر شرک کے مظاہر قرار پاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
(١) غیر اللہ کو سجدہ کرنا : اگر یہ سجدہ عبادت ہے تو بلا شبہ سجدہ کرنے والا مشرک ہے اور اگر محض اظہار تعظیم کے لیے سجدہ کیا ہے پھر بھی یہ سجدہ عملِ شرک ہونے کی بنا پر حرام ہے !
(٢) اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے (غائب یا میت) غیر اللہ سے فریاد کرنا !
(٣) کسی کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی کہنا !
(٤) کتاب اللہ کو چھوڑ کر علماء ومشائخ کو شریعت میں تحلیل وتحریم کا اختیار دینا !
(البتہ اگر علماء کو شریعت کا ترجمان سمجھ کر ان کی بات مانیں تو وہ اس میں داخل نہیں ہے)
(٥) غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا !
(جیسا کہ بہت سے مندروں اور مزارات پر جانور چڑھائے اور ذبح کیے جاتے ہیں )
(٦) غیر اللہ کے نام پر جانور چھوڑنا ! (جیسا کہ غیر مسلم لوگ سانڈ وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں )
(٧) غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا ! (حتی کہ نبی اور قرآن کریم کی قسم کھانا بھی جائز نہیں ہے)
(٨) غیر اللہ کی متعین جگہوں کا حج کرنا ! (چنانچہ بہت سے برادرانِ وطن بعض مندروں کا باقاعدہ طواف کرتے ہیں اور اسی طرح اہلِ بدعت مسلمان بھی بہت سے مزارات کا چکر لگاتے ہیں اور خصوصاً عرس کے مواقع پر طرح طرح کی خرافات کرتے ہیں ، یہ سب رسومات شریعت میں حرام ہیں )
(٩) غیر اللہ کی طرف بندگی کی نسبت کرنا ! چنانچہ زمانہ ٔ جاہلیت میں بتوں کی بندگی والے نام رکھنے کا بڑا رواج تھا اور مسلمانوں میں بھی ''عبد النبی'' اور ''غلام رسول'' جیسے ناموں کا رواج رہا ہے جو پسندیدہ نہیں ہے (کیونکہ بندگی صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے لیے زیب دیتی ہے، کوئی بندہ دوسرے کا بندہ حقیقةً نہیں ہوسکتا )
(جاری ہے)




قارئین انوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
٭٭٭
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ ارسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے ان کے واجبات موصول نہیں ہوئے ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔
(ادارہ)




مدنی نسبت کی قدر دانی کیجیے !
٭٭٭
١٦ رجب١٤٤٥ھ/ ٢٨ جنوری ٢٠٢٤ء کو جامعہ مدنیہ جدید میں تکمیل ِبخاری کی تقریب منعقد ہوئی اس موقع پر معہد الخلیل کراچی سے تشریف لائے ہوئے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا سلمان یٰسین صاحب مدظلہم نے جامع بیان فرمایا اس کی افادیت کے پیش ِ نظر نذرِ قارئین کیا جارہا ہے ملاحطہ فرمائیں
(ادارہ)
٭٭٭
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُؤْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئٰاتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِی اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّلَہ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہْ وَنَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ وَنَشْھَدُ اَنَّ سَیِّّدَنَا وَنَبِیَّنَا وَشَفِیْعَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہْ وَصَفِیُّہ وَحَبِیْبُہ صَلَی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہ وَاَصْحَابِہ وَاَتْبَاعِہ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا اَمَّابَعْدُ !
فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ( اَلأَخِلَّآئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُھُمْ لبِعَضٍ عَدُوّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ ) وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَا اَلَتْنٰھُمْ مِّنْ عَمَلِھِمْ مِنْ شَیْئٍ کُلُّ امْرِیٍٔ بِمَا کَسَبَ رَھِیْن )
صَدَقَ اللّٰہ الْعَظِیْمِ وَصدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْم وَنَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ لَمِنَ الشّٰھِدِیْنَ وَالشّٰکِرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
میرے عزیز طلبائِ کرام اور معزز مہمانانِ گرامی ! میری گفتگو میں سب سے پہلی میری گزارش جو آپ حضرات سے ہے وہ مکمل توجہ ہے پوری طرح توجہ سے اگر آپ بات سن لیں گے تو ان شاء اللہ ہمیں بھی فائدہ ہوگا اور دوسری گزارش یہ ہے کہ جو کیمرے چل رہے ہیں اس کو بھی نیچے فرما لیجیے اپنی پوری توجہ بات سننے پر کر لیں کوئی غلطی ہو تو میری اصلاح فرمادیں اور اگر درست ہوں تو اللہ تعالیٰ سے میرے لیے بھی عمل کی دعا کر لیں اور اپنے لیے بھی !
میرے بھائیو ! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی انگنت نعمتیں اپنے بندوں پر ہیں ان بڑی نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کی ایک بہت اہم نعمت اعلیٰ نسبتوں کے ساتھ ہم کو جوڑنا ہے ! اللہ نے ہمیں بہت اعلیٰ نسبت سے جوڑ دیا ہے اور بالخصوص میں ان دورۂ حدیث کے طلباء کرام سے عرض کروں کہ اللہ نے آپ کو بہت عالی نسبتوں سے جوڑا ہے ،یہ نسبتیں ہمیں صرف دنیا میں نہیں روزِ قیامت بھی کام آئیں گی !
اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے آپس کی دوستیاں رکھنے والے قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے وہ دوست جن کی دوستی کی بنیاد تقویٰ پر ہوگی !
رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ سات لوگ ایسے ہوں گے جو قیامت کے دن اللہ کے عرش کے براہِ راست سائے میں ہوں گے ان میں ایک طبقہ وہ ہے جو صرف اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے اللہ کی نسبت پر ایک دوسرے سے ملتا ہے یہ نسبت ہمیں اللہ والوں سے مل جائے یہ اللہ کابہت بڑا انعام ہے بہت بڑی نعمت ہے اللہ کی۔
ہمارے ماضی قریب میں اللہ جل شانہ نے جوہمیں اسلاف اور اکابر کی ایک پوری جماعت ایک ساتھ دی ان سب میں اللہ نے جو قیادت اور سرخیل بنایا وہ(اسیرِ مالٹا) حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی قدس اللہ تعالیٰ سرہ کو اللہ نے یہ مقام دیا !
ہندوستان میں حدیث کا علم حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس اللہ سرہ لے کر آئے تو ان کو مُسْنِدُ الْہِنْد قرار دیا گیا ! اکابر دیوبند کی کوئی دینی درسگاہ آپ کو ایسی نہیں ملے گی جہاں پر حضرت شیخ الہند قدس اللہ تعالیٰ سرہ کا کوئی شاگرد مسند ِحدیث پر نہ ہو ! تو بر ِ صغیر پاک و ہند میں اگر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بعد کوئی مُسْنِدُ الْہِنْد کہلایا جا سکتا تووہ شیخ الہند ہیں !
حضرت شیخ الہند قدس اللہ سرہ کا ١٩٢٠ء میں وصال ہوتا ہے پھر بارہ سال مسند ِ حدیث پر علامہ ا نور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ بیٹھتے ہیں ! اس کے بعدچھبیس سال شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی قدس اللہ سرہ اس مسند کو رونق بخشتے ہیں ،کوئی دینی درسگاہ کوئی مدرسہ ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش میں چاہے وہ حضرت مدنی سے محبت رکھتا ہو، حضرت مدنی سے نسبت رکھتا ہو یا نہ رکھتاہو اس کو اس بات سے کوئی مفر نہیں ہے کہ وہاں دورہ ٔحدیث کے اساتذہ میں کوئی نہ کوئی محدث ایسا ضرور ملے گا جس کی سند ِ حدیث شیخ الاسلام مدنی سے ہوتی ہوئی شیخ الہند تک جاتی ہو !
اب کام کیا ہے کہ اس نسبت کی قدر کرنا ہے آپ حضرات حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس اللہ تعالیٰ سرہ کی نسبت کے حوالے سے اور دوسری جگہوں کے مقابلے میں زیادہ خوش بخت ہیں ! دیکھو اللہ کی جو نعت ہوتی ہے اس پر شکر بھی اتنا ہی کرنا پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوش بختی میں دوسروں سے اور زیادہ نمایاں فرمایا ہے تو آپ پر اس نسبت کی لاج رکھنا اور شکر کرنا زیادہ واجب ہے دوسروں کے مقابلے میں !
حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس اللہ سرہ کے شاگرد تھے دارُالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ، میرے سامنے اللہ نے مجھے سعادت بخشی کہ میں اس منظر میں موجود تھا کہ حضرت نے اجازت ِ حدیث عنایت فرمائی اور ساتھ یہ بات ارشاد فرمائی کہ عزیز طلبہ آج سے تم میرے واسطے سے حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس اللہ سرہ کے شاگرد بن گئے ! تمہاری ان کے ساتھ ایک نسبت قائم ہوگئی ! اور میرے حضرت مدنی قدس اللہ سرہ میں دو وصف بہت ہی نمایاں تھے نمبر ایک تواضع انکساری عاجزی اور دوسری چیز اتباعِ سنت کے جذبے کے ساتھ جُہد فی الدین ، اللہ کے دین میں جہدکرنا محنت کرنا ! تو اگر تم ان دو چیزوں کو خاص طور پر پروان چڑھاؤگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نسبت کا فیض تم کو پہنچائے گا ،جس طریقے سے انسان کی پیدائش ہوتی ہے ایک رشتہ نسب کا اس کا اس کے والد سے چلتاہے اور ایک شناخت اس کی اس کی والدہ یعنی ننہال سے چلتی ہے !
اسی طریقے سے علوم شریعت جہاں ہوں گے وہاں طریقت بھی لازمی ہوگی بات سمجھ رہے ہیں ہمارے جملہ اکابر علومِ شریعت کے ساتھ علومِ طریقت کے بھی دلدادہ تھے وہ یکطرفہ سڑک پر نہیں چلا کرتے تھے جہاں شریعت ہے وہاں طریقت ہے ،شریعت دین پر چلنے کا علم ہے اور طریقت اس پر چلنے کا سلیقہ ہے تو ہمارے تمام اسلاف حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ سے چلے حضرت ناتوتوی ،حضرت گنگوہی ،حضرت تھانوی، حضرت شیخ الہند، حضرت مدنی، حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری برکة العصر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب سہارنپوری وغیرہم جملہ اکابر واسلاف بیک وقت شریعت وطریقت کے شاہ سوار تھے کہ ایک سلسلہ نسب ہمارا ہے علومِ شریعت کا ،ایک سلسلہ نسب ہے علومِ طریقت کااور ان دونوں چیزں کی درست حکیم کہہ لیجیے کہ اللہ نے ہمیں سیاست دی ہے !
آپ حضرات اس حوالے سے انتہائی خوش بخت ہیں آپ کے علومِ شریعت کی سند بھی حضرت شیخ الاسلام مدنی سے ملتی ہے اور آپ کے علوم طریقت کی سندبھی حضرت شیخ الاسلام مدنی سے ملتی ہے اور آپ کے علومِ سیاست کی سند بھی حضرت مدنی سے ہی آپ کو ملی ہے یہ ددنوں چیزیں ایک جگہ کہیں جمع ہوں بہت مشکل ہے۔
آپ کے شیخ ١ سلسلہ ٔ شریعت میں علومِ حدیث میں بھی حضرت مدنی کی نسبت رکھنے والے ہماری اصطلاح میں (روحانی) پوتے ہیں اور سلسلہ ٔ طریقت میں بھی حضرت مدنی کے(روحانی) پوتے ہیں ٢
اور حضرت شیخ الاسلام مدنی قدس اللہ تعالیٰ سرہ کا نامِ نامی ایساہے کہ (بقول شاعر اس شعر کا مصداق ہے)
اَعِدْ ذِکْرَ نُعْمَانٍ لَّنَا اَنَّ ذِکْرَہ ھُوَ الْمِسْکُ مَا کَرَّرْتَہ یَتَضَوَّعُ
کہ جتناتذکرہ شیخ مدنی کاکیاجائے گااتنی خوشبو ہوگی کہ اس کو جتنا رگڑو تو اتنی ہی خوشبو مہکتی ہے !
آپ حضرات کو اللہ نے یہ نسبتیں عطا فر مائیں ہیں اس نسبت کی قدر کیجئے اور اس نسبت کی قدر کابہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے ان اکابر اور اسلاف کی سیرت کا مطالعہ کیجیے ان کی نسبت رکھنے والے بزرگوں کے پاس اُٹھا بیٹھا کیجیے ان سے اپنے بزرگوں کے چشم دید واقعات سنیے ان کے اندازِ تربیت کوسمجھئے اور اس تربیت کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کیجیے اللہ جل شانہ فرماتے ہیں (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ )کہ ایمان والوں کی ذُرّیت(جو ایمان والی ہو وہ)ان کے پیچھے چلتی ہے !
مفسرین فرماتے ہیں دو شرطیں ہیں یہاں پر ایک تویہ ہے کہ پیچھے چلنے کی کوشش کریں !
اور دوسری شرط یہ ہے کہ اس کے دل میں ایمان ہو !
تواللہ فرماتے ہیں ( اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ ) ہم ان کی نسلوں کو ان کے ساتھ ملادیں گے !
١ شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب مدظلہم بن قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب
٢ حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب خلیفہ مجاز قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانا سید حامد میاں صاحب خلیفہ مجاز شیخ الاسلام حضرت اقدس مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی
اور مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہاں ذریت سے مراد صرف ذُرِّیَّتِ صُلْبِیَّة نہیں ہے یعنی اپنی پیدا ہونے والی صرف اولاد اس میں نہیں آتی ہے بلکہ روحانی سلسلے سے جڑی ذریت بھی اس میں شامل ہے کہ جن حضرات نے شاگردی اختیار کی اپنی تربیت جہاں سے کرائی اور پھر وہ ان کے پیچھے چلنے کی کوشش کرتا رہا کہ میرے اندر بھی وہ صفات ِ روحانیہ علمیہ آجائیں تو اللہ تعالیٰ اس کی کمی کو معا ف کر کر روزِ قیامت ان کے ساتھ ملادیں گے ! اس نسبت کی قدر ہوگی دل میں احساس ہوگا تو خداوند تعالیٰ مرنے سے پہلے کمزوریوں کو ختم بھی فرمادیں گے ! یقین ہونا ضروری ہے !
تواس نسبت کی قدر کیجیے اس نسبت کی لاج رکھنے کی ضرورت ہے اور لاج کیسے آپ نے رکھنی ہے نبی کریم سرکارِ دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم کے لیے اللہ نے فرمایا ( وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ) ١ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم جہاں والوں کے لیے رحمت ہیں !
اور اللہ نے قبلہ دیا جس کے لیے فرمایا ( اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبَارَکًا وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ) ٢
تمہارا رُخ جس چیز کی طرف ہے جس کعبہ کی طرف ہے وہ عالمین کے لیے ہدایت ہے ! تو آپ کی یہ نسبت بالخصوص حضرت مدنی قدس اللہ تعالیٰ سرہ سے ملی ہوئی ہے ! آپ کی سوچ بھی عالمی ہونی چاہیے ! انسانیت کے بھلے کے لیے سوچیں ، اس کے ساتھ اپنے مذہبی اقدار کا تحفظ بھی پورا ہو مذہبی غیرت ِ حمیت بھی پوری ہو اور سوچ بھی آفاقی اور عالمی ہو ہماری نسبت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے جب جاکر مضبوط ہوگی اور حضور سے نسبت مضبوط کرنے کے لیے ان تمام وسائل کی مضبوطی ہمارے اندر ضروری ہے جن وسائل سے حضور کی نسبت ہم تک پہنچی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں قدردانی کی توفیق عطا فرمائے، مجھے نہیں پتہ آپ کو میں اپنی بات سمجھا سکا ہوں کہ نہیں سمجھا سکا ہوں آپ لوگ مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں اللہ کرے کہ بات سمجھ میں آگئی ہو اللہ تعالیٰ مجھے بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے آپ حضرات کو بھی اس نسبت کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے ! وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
٭٭٭
١ سُورة الانبیاء : ١٠٧ ٢ سُورہ اٰل عمران : ٩٦




شوال کے چھ روزوں کی فضیلت
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
٭٭٭
احادیث ِ مبارکہ میں شوال المکرم کے چھ نفلی روزوں کی بڑی فضیلت ذکر کی گئی ہے چنانچہ میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اَتْبَعَہ سِتًّا مِّنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ۔ ١
'' جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہو گا ''
ف : علمائِ کرام فرماتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ اگر اُنتیس ہی دن کا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تیس روزوں کا ثواب دیتے ہیں اور شوال کے چھ نفلی روزے شامل کرنے کے بعد روزوں کی تعداد چھتیس ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون ( اَلْحَسَنَةُ بِعَشْرِاَمْثَالِھَا) (ایک نیکی کا ثواب دس گنا) کے مطابق ٣٦ کا دس گنا ٣٦٠ ہو جاتا ہے اور پورے سال کے دن٣٦٠سے کم ہی ہوتے ہیں سو جس نے پورے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں چھ نفلی روزے رکھے وہ اس حساب سے ٦٠ ٣ روزوں کے ثواب کا مستحق ہو گا اور اجر و ثواب کے لحاظ سے یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی بندہ سال کے ٣٦٠ دن برابر روزے رکھے !
بہتر ہے کہ یہ روزے شوال کے شروع میں رکھ لیے جائیں کیونکہ رمضان میں روزے رکھنے سے روزوں کی عادت سی ہو جاتی ہے اس لیے بعد کے چھ روزے رکھنا مشکل نہیں ہوتا ! دوسرے ان روزوں کو مؤخر کرنے کی صورت میں بسا اوقات روزے رکھنے کا اتفاق نہیں ہوتا اور اس طرح یہ رہ جاتے ہیں !
١ صحیح مسلم کتاب الصوم رقم الحدیث ١١٦٤ ، مشکوة المصابیح کتاب الصوم رقم الحدیث ٢٠٤٧
بعض لوگ عید کے دوسرے دن ہی سے ان روزوں کے رکھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں یہ غلط ہے فقہائِ کرام کا کہنا ہے کہ شوال میں جب بھی یہ روزے رکھ لیے جائیں جائز ہے اور ان کا اجر وثواب ملتا ہے
یاد رہے کہ جس کے رمضان کے کچھ روزے رہ گئے ہوں پہلے وہ ان کو رکھے بعد میں شوال کے روزے رکھے، اگر کوئی شوال کے روزوں میں قضا ء ِ رمضان کی نیت کرے گا تو اسے مذکورہ ثواب حاصل نہیں ہو گا ! کیونکہ جب کوئی شوال کے روزوں میں قضائِ رمضان کی نیت کرے گا تو وہ تو رمضان کے روزے پورے کرے گا، اگر مزید روزے رکھتا ہے تو رمضان اور شوال کے روزے مل کر مذکورہ ثواب کے حصول کا ذریعہ بنیں گے ورنہ نہیں مثلاً کسی کے رمضان کے چھ روزے قضا ہو گئے اب وہ شوال میں چھ روزے قضائِ رمضان کے رکھتا ہے تو اس طرح اس کے رمضان کے تیس روزے پورے ہوئے اب اگر چھ روزے مزید رکھے گا تو چھتیس بنیں گے اور تین سو ساٹھ روزوں کا ثواب ہو گا ورنہ نہیں !




جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
٭٭٭
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور درسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے




قسط : ١
فلسطین کی بابت چالیس اہم تاریخی حقائق
مسئلہ فلسطین کی تفہیم کے لیے ایک راہنما مقالہ
( ڈاکٹر محسن محمد صالح اردو استفادہ محمد زکریا خان )
٭٭٭
اسلام میں پانچ ایسی ٹھوس بنیادیں ہیں جن کی بدولت امت ِمسلمہ ایک متحدہ امت قرارپاتی ہے اور ان کے درمیان الفت اور محبت پیدا ہوجاتی ہے :
(١) عقیدۂ اسلام (٢) شریعتِ مطہرہ (٣) ثقافت (٤) تصورِ امت (٥) دارالاسلام
''امت کا تصور'' ایک ایسا دائرہ ہے جس میں اسلام لانے والی ہر قوم، ہر وطن، نسل اور رنگ کا انسان اپنے اندر ایک وحدت کا شعور رکھتا ہے، نبی علیہ السلام کے اس فرمان کے مصداق کہ تمہاری مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے کسی ایک عضو میں ٹیس اٹھتی ہے تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے جب بھی کسی خطے سے کسی مظلوم مسلمان کی فریاد ( وا اسلاماہ ) بلند ہوتی ہے تو یہ آواز پوری امت سنتی ہے خواہ کوئی مسلمان دنیا کے کسی دور دراز گوشے میں ہی کیوں نہ رہتا ہو ! !
یہی وجہ ہے کہ امت ِمسلمہ کو وحدت کے حوالہ سے اتنی عظیم الشان اور مقدس قدریں حاصل ہیں کہ وہ ان کی بدولت ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیتی ہے جو کوئی دوسری قوم ہزاروں سال میں بھی نہیں دے سکتی ! جب امت اپنے اصولوں پر راسخ تھی تو اس امت نے محض اسی برسوں میں دنیا کے ایک نہایت وسیع خطے پر وہ اثرات ڈال دیے تھے جو اس سے پہلے روما کی شہنشاہیت آٹھ صدیوں میں نہ ڈال پائی تھی ! پھر اسلامی فتوحات روما کی طرح استعماری عوامل کے زیرِ اثر بھی نہیں تھیں ۔
حق یہ ہے کہ اسلامی قلمرو میں آنے والے خطے تاریخ میں پہلی بار آزادی سے روشناس ہوئے ! اسلامی فتوحات غلامی سے آزادی کا پروانہ ہوا کرتی تھیں ! البتہ جب مسلمانوں کی جانب سے لوگوں کو آزادی کی فضاؤں سے روشناس کرنے کی بجائے ان سے وہی سلوک کیا جانے لگا جو بادشاہ اپنی رعایا سے کرتے ہیں تو اعداء ان پر مسلط ہوگئے۔
دو صدیوں تک عالمِ افرنگ نے صلیبی جنگوں (٤٨٩ھ ۔ ٦٩٠ھ) سے نہ صرف اسلامی پھیلاؤ میں رکاوٹ ڈال دی بلکہ کچھ ہی عرصے بعد تا تا ریوں نے مسلمانوں کی عظمت خاک میں ملادی !
اس کے بعد مسلمانوں نے دوبارہ ہدایت کی راہ اختیار کی تو ایک مرتبہ پھر انہوں نے اتنی قوت ''سلطنتِ ممالیک'' اور بعد ازاں ''سلطنتِ عثمانیة '' کی صورت میں حاصل کر لی کہ جس کی وجہ سے صدیوں تک استعمار ان کے خطوں میں داخل ہونے کی جرا ء ت نہ کر سکا۔
جب مسلمان اپنے مقدس اصولوں پر مجتمع تھے تو نہ صرف وہ دس صدیوں تک دنیا کی سب سے بڑی قوت رہے بلکہ علم وترقی اور ثقافت میں بھی وہ دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم تھے ! کہا جاسکتا ہے کہ اس دنیا کی تاریخ میں اگر'' فرسٹ ورلڈ'' کی کوئی اصطلاح ہے تو وہ گزشتہ میلینم(ایک ہزار سال) میں مسلمان تھے ! یہ وہی زمانہ تھا جس میں یورپ جہالت اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ! !
سقوطِ غرناطہ (اسپین، ١٤٩٢ئ) کے بعد مسلم خطوں پر مغربی استعمار کا آغاز ہوا اس کے بعد (فرانس کے)نپولین (١٧٩٨ئ) نے مسلمانوں کے مرکزی علاقوں پر حملہ کیا اور ایک کے بعد دوسرا خطہ استعمار کی جھولی میں گرتا چلا گیا ! زوال کی انتہاء یہ ہوئی کہ ١٩٢٤ء میں عثمانی خلافت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا ! کاش سقوطِ خلافت صرف سیاسی زوال ہوتا، مغربی استعمار نے نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل کر لیا تھا بلکہ ان کے ہاں جو اجتماعیت کے گھٹیا اصول تھے، مانند وطن پرستی و قوم پرستی اور دوسری نسلوں سے نفرت وغیرہ یہ سب زہر امت کے جسد میں گھول دیے گئے مسلم امہ کی ذہنی ساخت تبدیل ہونے کے بعد وہ وحدت کے اصولوں سے نا آشنا ہوگئے اور ہر علاقہ، ہر خطہ اور ہر جغرافیائی اکائی صرف اپنی آزادی اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے لگی !
صیہونی ریاست :
اجتماعی شعور سے کوسوں دور اور گردوپیش سے تغافل برتتے ہوئے مسلمانوں کی وحدت تو پہلے ہی دوسرے اجنبی شعاروں کی وجہ سے پارہ پارہ تھی اس پر مستزاد استعمار نے مسلمانوں کے مرکز اور مقدس مقام میں صیہونی ریاست کا ناسور کھڑا کردیا ! امت ِ مسلمہ کی وحدت اور شعوری بیداری کے امکان کو ختم کرنے کے لیے عالمِ اسلام کے وسط میں صیہونی ریاست کا وجود استعمار کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے ! !
عرب اتحاد ہو یا عالمِ اسلام کا اتحاد ہو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ہے ! جہاں تک استعماری ہتھکنڈوں کا تعلق ہے جن کے ذریعے استعمار نے وحدت ِ امت کے تصور کی بجائے دوسرے ''اِزم'' عالم اسلام میں داخل کیے تو مغرب کی یہ خدمت عالم اسلام میں سے چند سیاسی ضمیر فروش لوگوں نے کی ہے جہاں تک باشعور مسلم عوام ہیں تووہ اب بھی قومی، وطنی یا نسلی اکائیوں کو نہیں مانتے ہیں اور امت کے اجتماعی وجود کا تصور اپنے قلب و شعور میں زندہ رکھے ہوئے ہیں ! مسئلہ فلسطین (جہاں المناک ہے وہاں ) اس مسئلے نے وحدتِ امت کے شعور کو بھی بیدا رکھا ہوا ہے !
صیہونی عزائم سے بھی عوام مسلمان اس لیے باخبر ہیں اور اسے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ فلسطین میں صیہونی ریاست موجود ہے ! فلسطین سے اہل اسلام کی تعلق داری محض اتنی نہیں کہ اس سرزمین کے باسی مسلمان ہیں اور اس پر یہودیوں کا قبضہ ہے(بلکہ) فلسطین میں القدس کا مقدس شہر ہے جہاں مسجداقصیٰ ہے یہ خطہ مسلمانوں کے مقدس مقامات میں مسجدحرام کے ساتھ ذکر ہوتاہے، مسئلہ فلسطین سے اہل اسلام کی وابستگی کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ ''اسلام'' ہے ! !
اس خطے نے اور مسلمانوں کے عقیدے نے انہیں ایک جسم کی مانند کردیا ہے ! مسجد ِ اقصیٰ کی طرف اگر سواریاں کھینچی چلی جاتی ہیں ١ تو ارض فلسطین پریہودی قبضے کی وجہ سے مسلمانوں کا شعور ایک جیسا ہے ! یہاں تک کہ عوام مسلمان اپنے خطے اور علاقے کے مسائل سے بھی زیادہ اہمیت اس مسئلے کو دیتے ہیں !
١ تین مسجدوں کا قصد کر کے سفر کر نا ہمارے دین میں بہت بڑی نیکی کا کام ہے بلکہ ان تین مسجدوں کے علاوہ قصد کرکے کسی عبادت گاہ کا رُخ نہیں کیا جاسکتا مسجد ِ حرام ، مسجد ِ نبوی اور مسجد ِ اقصیٰ
یہ مقالہ ؟
اس مقالے میں مسئلہ فلسطین کے بنیادی حقائق بہت عمدگی سے بیان کیے گئے ہیں میں سمجھتاہوں کہ اس کا متن ہر عربی اور عجمی مسلمان کو از بر ہوجانا چاہیے بلکہ دنیا کے ہرمعتدل انسان کو اس کتابچے میں مذکور سچائیوں کا اعتراف کرنا چاہیے !
ڈاکٹر محسن محمد صالح کی یہ کاوش اگرچہ بنیادی طور پرفلسطین کے مسئلے کو بیان کرنے کے لیے لکھی گئی ہے لیکن صیہونی خطرہ صرف فلسطین کے خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ خطرہ پورے عالمِ اسلام کو ہے ! یہودیوں کے نزدیک داؤد(علیہ السلام) کی سلطنت (اسرائیل) فلسطین تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ مشرق ومغرب چہار سو ، دریائے فرات سے جنوب میں خط استواء تک پھیلا ہوا ہے ! یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے مسلمان اس مسئلے کو سب سے زیادہ سنگین سمجھتے ہیں اور تمام دشمنوں سے بڑھ کر اس دشمن سے نبرد آزما ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ! !
(ڈاکٹر محمد عمارہ)




مسئلہ فلسطین تاریخی حقائق کے تناظر میں ایک اسلامی تجزیہ
٭٭٭
(١ ) حدود اربع :
ملک شام کے جنوب مغربی علاقے کو فلسطین کہتے ہیں ! فلسطین برا عظم ایشیاء کے مغرب میں بحر ابیض متوسط (Mediterranean Sea) جس کا دوسرا نام بحیرۂ روم رہا ہے، کے ساحل پر واقع ہے فلسطین ایک طرف برا عظم افریقہ اور ایشیاء کے درمیان پل کا کام کرتا ہے تو دوسری طرف بر اعظم یورپ کے انتہائی قریب واقع ہے ! فلسطین کے شمال میں لبنان ہے، مشرق میں اردن اور جنوب مغرب میں مصر واقع ہے، فلسطین کا موجودہ رقبہ ستائیس ہزار مربع کلو میٹر ہے، آب ہوا کے لحاظ سے یہ خطہ معتدل سمجھا جاتا ہے !
(٢) تہذیب وتمدن کا پہلا گہوارہ :
فلسطین کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے ! جدید تحقیق کے مطابق گیارہ ہزار سال پہلے جہاں سب سے پہلے انسان نے زمین سے فصل اگائی اور جہاں پہلی مرتبہ انسان بستی بناکر رہنے لگے وہ سرزمین فلسطین تھی ! دنیاکا قدیم ترین شہر ''اریحا'' اسی سرزمین میں تہذیب و تمدن کا اوّلین گہوارہ بنا تھا ! گزشتہ آٹھ ہزار سالوں سے یہ شہر آباد چلا آرہا ہے !
(٣) اس خطے کے فضائل :
سرزمین فلسطین تمام مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے، قرآن مجید میں واضح طور پر فلسطین کو مبارک سرزمین کہاگیا ہے ! یہیں پر مسجد ِ اقصیٰ واقع ہے جو اہل اسلام کا پہلا قبلہ اور زمین پر مسجد ِ حرام کے بعد دوسری مسجد ہے ! یہاں اس مسجد میں نماز پڑھنے کا درجہ مسجد ِ حرام اور مسجد نبوی کے بعد فضیلت رکھتا ہے ! یہیں سے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم معراج پر گئے تھے ! معراج کی منزل سے پہلے مکہ مکرمہ سے آپ ایک ہی رات میں یہاں وارد ہوئے تھے ! یہ بے شمار نبیوں کی دعوت کی بھی سرزمین ہے اور ان کا مدفن بھی ! اسلامی تعلیمات کے مطابق اس سرزمین پر حشر ہوگا اور اسی سرزمین پر لوگ دوبارہ جِلائے جائیں گے ! آخری معرکہ (مسیح بن مریم اوریہودیوں کے دجال) میں مسلمانوں کا پڑاؤ (دار الاسلام ) یہیں ہوگا ! اس سرزمین کویہ حیثیت بھی حاصل ہے کہ یہاں محض اللہ کی خوشنودی کے لیے مقیم ہونا دوسری جگہ جہاد کرنے کے مساوی فضیلت رکھتا ہے ! اس خطہ میں ہمیشہ ایک ایسا گروہ ہوگا جو حق پر قائم رہے گا !
(٤) تورات وانجیل میں اس خطے کی عظمت :
ارضِ فلسطین صرف مسلمانوں کے نزدیک ہی مقدس سرزمین نہیں ہے، یہودونصاریٰ کی مذہبی تعلیمات کے لحاظ سے بھی یہ مقدس زمین ہے ! یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ توارت میں جس سرزمین کو ارضِ موعود کہا گیا ہے وہ یہی خطہ ہے ، یہودی اس زمین سے اپنا تاریخی رشتہ سمجھتے ہیں ، یہ سرزمین بنی اسرائیل کے انبیاء کا مدفن ہے ! یہودی مقدسات بھی یہاں موجود ہیں ، قدس یا بیت المقدس میں بھی اور فلسطین کے دوسرے شہر الخلیل میں بھی !
دوسری طرف عیسائی اس سرزمین کو عیسائیت کاگہوارہ سمجھتے ہیں ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت باسعادت یہیں ہوئی تھی، عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا میدان بھی یہی سرزمین تھی اور یہاں عیسائیوں کے اہم ترین مذہبی مراکز بیت المقدس، بیت اللحم اور ناصرہ کے شہر واقع ہیں ! !
(٥) بنی اسرائیل کے انبیاء کی بابت مسلمانوں کا عقیدہ :
مسلمانوں کا اس بات پر پختہ ایمان ہے کہ وہ داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے تمام انبیاء اور صالحین کے حقیقی اور جائز وارث ہیں ! بلا شبہ بنی اسرائیل کے انبیاء نے اللہ کی توحید قائم کرتے ہوئے یہاں ایک عرصے تک حکومت کی تھی ، بنی اسرائیل کے انبیاء کا دین دین ِتوحید تھا جس کے اصلی وارث اب اہلِ اسلام ہیں ! بنی اسرائیل کے انبیاء کی وراثت دین کی وراثت ہے، توحید کا عَلم مسلمانوں نے اُٹھا رکھا ہے !
مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ بنی اسرائیل ہدایت کا راستہ چھوڑ چکے ہیں ! یہودی اپنی کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ کہ بنی اسرائیل اپنے انبیاء کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے جس کی پاداش میں خدا کا غضب اور لعنت ان کی وراثت میں آئی ہے !
(٦) مسلمانوں کے اصولِ سیاست :
مسلمانوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں متعدد بار یہاں حکومت کی ہے ! مسلمانوں کے سیاسی اصول وسعت نظری، درگزر کرنا، دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو انسانی برابری کے اصول پر جینے کا حق دینا، ان کے تمام حقوق ادا کرنا خصوصاً بیت المقدس میں مقیم غیر مسلموں سے توحکومت اور بھی نرمی سے پیش آیا کرتی تھی ! (کیونکہ اسلامی عقیدے کی رُو سے یہ ارضِ مقدس ہے جہاں اللہ کو فساد نا پسندہے)
دوسری طرف یہاں جب بھی حکومت غیر مسلموں کے پاس آئی تو انہوں نے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کو ہرگز برداشت نہ کیا ! انہیں ہرطرح کی اذیت پہنچاتے تھے اور جلد از جلد غیرمذہب کے پیروکاروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سعی کرتے تھے۔
(٧) ارضِ فلسطین کے اوّلین باشندے :
علم تاریخ کی رُو سے خطہ فلسطین کو جس قوم نے سب سے پہلے آباد کیا تھاوہ جزیرہ عرب سے نقل مکانی کرنے والے '' کنعانی'' تھے ! یہ تقریبًا ساڑھے چار ہزار سال پہلے کی بات ہے ! کنعانیوں نے یہاں اپنی ثقافت اور طرزِزندگی کو رائج کیا ! تاریخ کے اس دور میں یہ خطہ ارضِ کنعان کہلاتاتھا ! جہاں تک موجودہ فلسطینی آبادی کا تعلق ہے تو یہ نسل بھی کنعان کے سلسلے سے ہے یا پھر اُن اقوام کے اختلاط سے ان کا تعلق ہے جو بحیرۂ روم کے مشرقی علاقوں میں آباد تھے جنہیں اس وقت ''بلست'' یا '' فلستی'' کہا جاتا تھا یا پھر دوسرے عرب قبائل کے سلسلے سے جاکر ان کا نسب ملتا ہے جو ارضِ کنعان میں آباد ہوگئے تھے ! سیاسی لحاظ سے فلسطین پر مختلف قوموں کی حکمرانی رہی ہے لیکن فلسطین کو بغیر کسی انقطاع کے آباد رکھنے والی ایک ہی قوم رہی ہے جو کہ خود فلسطینی ہیں ! !
ظہور اسلام کے بعدفلسطینیوں کی اکثریت مسلمان ہوگئی تھی اور وہاں کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بھی عربی زبان بن گئی ! ١٥ ہجری سے لے کرتا دم تحریر فلسطین کی ایک ہی شناخت ''اسلام'' رہی ہے ! اور تاریخ کے اس طویل ترین عرصے میں اسلام کے علاوہ ان کی اور کوئی شناخت نہیں رہی ! اسلامی شناخت میں اس سے بھی فرق نہیں پڑا کہ وہاں کی اصل آبادی کا ایک حصہ یہودیوں کے جبر کی وجہ سے ١٩٤٨ء میں دوسرے ممالک میں ہجرت پر مجبور کردیا گیا تھا ! !
(٨) صیہونیوں کا جھوٹا دعویٰ :
یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ وہ بھی تاریخ قدیم سے اس سرزمین کے آباد کار رہے ہیں ، تاریخی حقائق اس دعوے کو جھٹلاتے ہیں ! فلسطینی تو اس سرزمین کی آباد کاری میں گزشتہ پندرہ سوسال سے مصروف کار ہیں جبکہ اسرائیل کاجبری قیام تو آج کی بات ہے ! یہ درست ہے کہ تاریخ کے ایک حصے میں بنو اسرائیل کو فلسطین کے بعض حصوں میں حکومت کرنے کا موقع مل گیا تھا وہ بھی فلسطین کے بعض حصوں میں نہ کہ پورے فلسطین میں ! یہ کوئی چار سوسال کا عرصہ بنتا ہے، خاص طور پر ٥٨٤ قبل مسیح سے لے کر ١٠٠٠ قبل مسیح تک ! اس کے بعد بنواسرائیل ارضِ کنعان سے نقل پذیر ہوگئے ١٩٤٨ء تک انہیں اپنا آبائی وطن یادہی نہ رہا !
دراصل فلسطین کے بعض حصوں میں بنو اسرائیل کی حکمرانی کی وہی حیثیت ہے جو اس سرزمین میں دوسرے نو واردوں کی حکمرانی کی ہے ! فلسطین میں دوسرے خطوں کی اقوام آکر حکمرانی کرجایا کرتی رہی ہیں لیکن اس خطے کوجوقوم مسلسل آباد رکھے ہوئے ہے اور جو اسے اپنا وطن سمجھتی ہے وہ صرف ایک ہی قوم فلسطینی رہی ہے ! بنو اسرائیل کی فلسطین میں حکمرانی کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں جتنی دوسری غیرقوموں کی فلسطین پر حکمرانی ! جیسے آشوری عہدیا فارس کی حکمرانی، مصر کے فراعنہ کی حکمرانی یا یونانیوں اور رومیوں کی فلسطین پر حکمرانی ! ہر حاکم قوم کا اقتدار بالآخر زوال پزیر ہوا اور فسلطینیوں کا وطن جیسے پہلے اہل فلسطین کے پاس تھا ان ہی کے پاس رہا،فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑ کر کہیں نہ گئے وہ اپنے وطن میں ہی آباد رہے ! اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ پھر کسی اور دین میں داخل نہ ہوئے ! !
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ فلسطین میں اسلام کی حکمرانی کا عرصہ سب سے طویل بارہ صدیوں پر مشتمل رہا ! فلسطین کی تاریخ میں صرف نوے برس کی قلیل مدت ایسی ہے جس میں عیسائیوں کو صلیبی جنگوں میں سے ایک معرکے میں فتح پانے پر حکمرانی کا موقع ملا !
جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے تو وہ فلسطین میں عارضی قیام کے بعد ایسے تارکِ خطہ ہوئے کہ اٹھارہ سو سال تک انہیں یہاں کا خیال ہی نہیں آیا ! سن ١٣٥ عیسوی تا بیسوی صدی کے طویل عرصے کے دوران میں فلسطین کی سرزمین یہودیوں کے وجود سے خالی رہی ! سیاسی لحاظ سے بھی، ثقافتی لحاظ سے بھی اور عمرانی لحاظ سے بھی ! یہی نہیں یہودیوں کی مذہبی تعلیمات میں فلسطین کی طرف ان کا لوٹنا حرام ٹھہرایاگیا ہے ! ! ؟ ؟
یہودیوں کے معروف رائٹر '' آرتھر کوسٹلر'' نے جو معلومات جمع کی ہیں ان کی رُو سے اسی فیصد یہودی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے یہودیوں کا کوئی رشتہ ارضِ فلسطین سے نہیں بنتا ! اسی طرح بنی اسرائیل کی بھی فلسطین سے کوئی نسبت نہیں ہے !
یہاں ہم معزز قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہودی مذہب کے ماننے والوں کی موجودہ اکثریت نسلی طور پر اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) کی نسل سے نہیں ہے ! بلکہ اِنہیں ''یہود خزر'' کہا جاتا ہے ! یہ نسل بنی اسرائیل سے نہیں ہے ! ''یہود خزر'' ترکی کی نسل کے تاتاری قبائل سے ہیں جن کا وطن قوقاز (کوکیشیا) کا شمالی علاقہ رہا ہے !
اس نسل کے لوگ آٹھویں صدی عیسوی میں یہودی ہوگئے تھے ! اگر یہودی مذہب کے پیروکاروں کو کہیں لوٹنے اور اپنا وطن بنانے کا حق ہے تو وہ ارضِ فلسطین نہیں بلکہ روس کا جنوبی علاقہ ہے ! ! !
یہودیوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا موسیٰ علیہ السلام کے وقت فلسطین سے تعلق ہوگیا تھا حقیقی لحاظ سے غیر ثابت شدہ دعویٰ ہے ! تاریخی لحاظ سے یہ بات ثابت ہے کہ بنو اسرائیل کی اکثریت نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فلسطین کی طرف (غزوے کے لیے) چلنے سے انکار کردیا تھا !
بابل (عراق) میں جب انہیں نقل مکانی کرنا پڑی تو اس کے بعد جب فارْس کی فلسطین پر عملداری قائم ہوئی تو فارس کے حکمران ''خورس'' نے انہیں فلسطین جانے کی اجازت دے دی تھی !
لیکن بیشتر یہودنے عراق رہنے کو ہی ترجیح دی اور واپس لوٹنے سے انکار کردیا ! علاوہ ازیں دنیا کی طویل تاریخ سے لے کر اب تک کبھی بھی ارضِ فلسطین میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب باقی دنیا میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی کل آبادی کا چالیس فیصد سے زیادہ نہیں رہا ! !
(جاری ہے )




امیر جمعیة علماء اسلام پنجاب کی جماعتی مصروفیات
( مولانا عکاشہ میاں صاحب، نائب مہتمم جامعہ مدنیہ جدید )
٭٭٭
٦ مارچ بروز بدھ فیروز پور روڈ لاہور میں جمعیة علماء اسلام کے زیر اہتمام وکلاء کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس میں لاہور کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی وکلاء کی بڑی تعدداد شریک ہوئی۔ وکلاء کنونشن کی صدارت جمعیة علماء اسلام صوبہ پنجاب کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم نے کی آپ نے اپنے صدارتی خطاب میں وکلاء سے اتحاد واتفاق کے موضوع پر بیان فرمایا۔
٧ مارچ بروز جمعرات صبح گیارہ بجے جامعہ مدنیہ جدید میں جمعیة علماء اسلام صوبہ پنجاب کی مجلس ِ عمومی، مجلس ِ شوریٰ ضلعی وتحصیلی امراء و نظماء اور صوبائی اسمبلی کے اُمیدواران کا مشترکہ اجلاس جمعیة علماء اسلام صوبہ پنجاب کے امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم کی سربراہی میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں صوبہ پنجاب سے کثیر تعداد میں جمعیة علماء اسلام کے ذمہ داران اور اراکین تشریف لائے دوپہر کے کھانے اور بعد نمازِ ظہراجلاس کے آخری خطاب میں قائد ِ جمعیة حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اپنا نقطہ نظر بیان فرمایا اور آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے جماعتی عہدیداران کو اعتماد میں لیا ! جامعہ مدنیہ جدید میں منعقدہ اجلاس میں شرکاء کے لیے قیام وطعام کا بہترین انتظام کیا گیاتھا جس کے لیے جمعیة علماء اسلام کے صوبائی و مقامی ذمہ داران اور جامعہ مدنیہ جدید کے اساتذہ اور انتظامی عملے نے قابل تحسین خدمات انجام دیں مغرب کے وقت قائد ِجمعیة علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہم کی دعائے خیر پر اجلاس کا اختتام ہوا بعد ازاں قائد ِ محترم حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب کی رہائشگاہ تشریف لائے کچھ دیر آرام فرمایا اور مشاورت کے بعد اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔




اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد شارع رائیونڈ لاہور )
٭٭٭
٢ مارچ بروز ہفتہ بعد نمازِ مغرب شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم فاضلِ جامعہ مدنیہ جدید مولانا رضوان صاحب کی دعوت پر عظمت ِ قرآن کانفرنس میں شرکت کے لیے جامع مسجد عائشہ صدیقیہ مصطفی آباد للیانی ضلع قصور تشریف لے گئے جہاں آپ نے عظمت ِ قرآن کے موضوع پر مختصربیان فرمایا ۔
٣ مارچ بروز اتوار بعد نمازِ ظہرشیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم حافظ غلام علی صاحب کی دعوت پر جامع مسجد علی المرتضیٰ سنگت سنگھ بگھیل ضلع قصور تشریف لے گئے جہاں آپ نے جامع مسجد علی المرتضیٰ میں دینی تعلیم کی اہمیت اور یونیورسٹیوں اور کالجوں کے خرافات اور نقصانات سے عوام الناس کو آگاہ فرمایا۔
جامعہ مدنیہ جدید کے145 طلباء نے وفاق المدارس العربیہ کے سالانہ امتحانات میں شرکت کی جس میں مجموعی طور پر جامعہ کا رزلٹ58 فیصد رہا۔
٢١ شعبان /٣ مارچ کو جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب مدظلہم عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے ، ٢٩ شعبان /١١ مارچ کو بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
٢٥ شعبان /٧ مارچ کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس مولانا مفتی محمد زبیر صاحب عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے ، ١٧ رمضان /٢٨ مارچ کو بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
١٢ رمضان /٢٣ مارچ کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس مولانا محمد صابر صاحب عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
١١ شوال / ٢٠ اپریل سے جامعہ میں نئے تعلیمی سال کے داخلے شروع ہوں گے ان شاء اللّٰہ




وفیات
٭٭٭
٭ ٢٤ جنوری کو جامعہ مدنیہ جدید کے مخلص خیر خواہ جناب وسیم الحق صاحب کے والد گرامی طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے۔
٭ ١٠ مارچ کو جمعیة علماء اسلام کے مقامی ذمہ دار بھائی عبدالباسط صاحب کی والدہ صاحبہ مختصر علالت کے بعد والٹن لاہور میں وفات پاگئیں ۔
٭ ٤ رمضان المبارک /١٥ مارچ بروز جمعہ فاضل ِ جامعہ مدنیہ و امیرجمعیة علماء اسلام ضلع شیخوپورہ مولانا محمود الحسن صاحب قاسمی مختصر علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔
٭ ٦ رمضان المبارک /١٧ مارچ کو حسن ابدال کے حضرت مولانا ظہور الحق صاحب مکہ مکرمہ میں انتقال فرما گئے ہیں ۔ حضرت بہت ہی نیک اور متقی انسان تھے ساری زندگی دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں گزار دی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
٭ ١٣ رمضان المبارک / ٢٤ مارچ کو بانی و ناظم اوّل دارالعلوم اسلامیہ لاہور حضرت قاری سراج احمد صاحب کے پوتے بھائی لیاقت صاحب کے چھوٹے بھائی حافظ رفاقت علی صاحب طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے۔
٭ ١٥ رمضان المبارک /٢٦ مارچ کو حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب کے بہنوئی قاضی توحید عالم صاحب صدیقی کے والد گرامی وکیل لاہور ہائی کورٹ قاضی خورشید عالم صاحب صدیقی طویل علالت کے بعد ٩٤ برس کی عمر پاکر لاہور میں انتقال فرما گئے۔
٭ ١٥ رمضان المبارک /٢٦ مارچ کو جمعیة علماء اسلام ضلع لاہور کے سالار طارق احمد شاہ صاحب کی والدہ صاحبہ انتقال فرماگئیں ۔
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین !




جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
٭٭٭
بانی ٔجامعہ حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر پندرہ ہزار روپے(15000) لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں
منجانب
سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ




خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
٭٭٭
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
923334249302+ - 923334249301+
923234250027+ - 923454036960+
جامعہ مدنیہ جدید کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079150) MCB کریم پارک برانچ لاہور
مسجد حامد کا اکاؤنٹ نمبر (0095404010010461) MCB کریم پارک برانچ لاہور
انوار مدینہ کا اکاؤنٹ نمبر (0095402010079142) MCB کریم پارک برانچ لاہور

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.