Anwar-e-Madina

ماہنامہ انوار مدینہ

اپریل 2023

jamiamadnijadeed

ماہنامہ انوا ر مدینہ
جلد : ٣١ رمضان المبارک ١٤٤٤ھ / اپریل ٢٠٢٣ء شمارہ : ٤
سیّد محمود میاں مُدیر اعلٰی
سیّد مسعود میاں نائب مُدیر
بدلِ اشتراک
پاکستان فی پرچہ 40 روپے ....... سالانہ 500 روپے
سعودی عرب،متحدہ عرب امارات..... سالانہ 90 ریال
بھارت ،بنگلہ دیش ........... سالانہ 25 امریکی ڈالر
برطانیہ،افریقہ ........................ سالانہ 20 ڈالر

امریکہ .................................. سالانہ 30 ڈالر
جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ اور اِی میل ایڈ ریس
www.jamiamadniajadeed.org
Email: jmj786_56@hotmail.com
darulifta@jamiamadniajadeed.org
ترسیل ِزر و رابطہ کے لیے
'' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد19 کلو میٹر رائیونڈ روڈ لاہور
اکائونٹ نمبر ا نوارِ مدینہ
0095402010079142
مسلم کمرشل بنک کریم پارک برانچ راوی روڈ لاہور(آن لائن)
رابطہ نمبر : 03334249302
جامعہ مدنیہ جدید : 04235399051
خانقاہ ِحامدیہ : 04235399052
موبائل : 03334249301
دارُالافتاء : 042335399049
مولاناسیّد رشید میاں صاحب طابع وناشر نے شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے چھپواکر دفتر ماہنامہ ''انوارِ مدینہ '' نزد جامعہ مدنیہ کریم پارک راوی روڈ لاہور سے شائع کیا
اس شمارے میں
حرفِ آغاز ٤
درسِ حدیث حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب ٩
تبلیغ کا آغاز .... محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اور خصوصیات حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب ١٣
رمضان المبارک کے عشرۂ اَخیرہ کے اَحکام حضرت مولانا محمد عاشق اِلٰہی صاحب بلند شہری ١٨
رحمن کے خاص بندے ( قسط : ٩ ) حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری ٢٦
حضرت اُم ِ کلثوم رضی اللہ عنہا کے مناقب حضرت مولانا محمد عاشق اِلٰہی صاحب بلند شہری ٣٢
تربیت ِ اولاد( قسط : ١ ) حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ٣٥
بیان ختم بخاری شریف حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب ٣٧
جامعہ کے طالب علم کا عربی میں خطاب مولانا منصف زمان صاحب ٤٧
فضیلت کی راتیں ( قسط : ٣ ) حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ٤٩
وفیات ٦١
اخبار الجامعہ جناب مولانا انعام اللہ ساحب ٦٢
حرف آغاز
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
دنیا کتنی تاریکی میں ڈوب چکی ہے اور مزید کتنی تاریکی میں ڈوبتی چلی جارہی ہے اور مسلمان اپنے دین سے دُوری اختیار کر کے کس تیزی سے اِس تاریک گڑھے میں گرتے چلے جارہے ہیں اس پر ہم اپنی طرف سے کچھ لکھنے کے بجائے عوامی ترسیلات ١ پر چلنے والی ایک تحریر اپنے بردرانِ اسلام کی خیر خواہی کے لیے ''حرف ِ آغاز'' میں پیش کر کے اَمر بالمعروف ، نہی عن المنکر کی ذمہ داری سے بقدر ِامکان سبکدوش ہونے کی کوشش کر رہے ہیں !
اس بچے کا باپ کون ہے ! ؟
کچھ سال پہلے کی بات ہے امریکہ کے ایک ٹی وی چینل پر ایک ریالٹی شو آیا کرتا تھا جس کا نام ''جیری اسپرنگر شو'' تھا یہ شو بہت دلچسپ تھایہ ١٩٩١ء میں شروع ہوا اور ستائیس سال تک مسلسل چلنے کے بعد ٢٠١٨ء میں ختم ہو گیا ! اس شو میں حقیقی زندگی سے تعلق رکھنے والے کردار حقیقی مسائل پر بحث مباحثے کرتے !
١ سوشل میڈیا(Social Media)
شوکی ریٹنگ بہت زیادہ تھی اس وجہ سے چینل کو بہت زیادہ آمدن ہوا کرتی تھی چنانچہ ایسے افراد جو اِس شو میں آ کر اپنے حقیقی مسائل پیش کرتے شو کے منتظمین معاوضہ کے طور پر انہیں اچھی خاصی رقم دیا کرتے تھے یہ لوگ واقعی حقیقی ہوتے ! انڈیا پاکستان کے شوز کی طرح پیڈ ایکٹرز نہیں ہوتے تھے !
نتیجتًا اس شو کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا گیا ان شوز میں ایک ایسا سلسلہ بھی شروع کیا گیا جسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ امریکہ کے چہرے پر زوردار تھپڑ تھا ( اگر امریکہ کا کوئی چہرہ ہے) ! اس سلسلے کا نام تھا''اس بچے کا باپ کون ہے '' ؟ ایک عورت ایک بچے کے ساتھ پروگرام میں آتی اور بچے کے باپ کی تلاش شروع کردی جاتی ! دراصل اس عورت کو پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اس بچے یا بچی کا اصل باپ کون ہے ؟ ! استغفراللّٰہ استغفراللّٰہ استغفراللّٰہ
شو کے منتظمین عورت کے کہنے پر ان مختلف مردوں کے ساتھ رابطہ کرتے جن سے وہ ملتی رہی تھی ان سب کو تین تین چار چار کی تعداد میں شو میں بلا کر اُن کا ڈی این اے ( خمیر اور تخم ) ٹیسٹ کروایا جاتا اور بچے کے ڈی این اے سے میچ کرنے کی کوشش کی جاتی ! مردوں کو بلانے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک کسی مرد کے ساتھ بچے کا ڈی این اے میچ نہیں ہو جاتا تھا ! بیس تیس یا چالیس مردوں کے ڈی این اے کے بعد آخرکار بچے کا اصل باپ تلاش کر لیا جاتا ! اس دوران وہ تمام مرد جن کے بارے میں عورت بتاتی جاتی تھی وہ یہ تسلیم کرتے جاتے کہ واقعی وہ عورت سے مل چکے تھے ! ! ١
١ ڈی این اے ملنے کے باوجود بھی یہ بچے ناجائز ، حرامی اور بے باپ کے ہی رہیں گے کیونکہ بغیر نکاح کے پیدا ہوئے۔ محمود میاں غفرلہ
کہنے کو تو یہ ایک کھیل تھا لیکن جدید تہذیب کے دعویداروں کی اخلاقیات کا جنازہ تھا جسے پوری دنیا دیکھا کرتی تھی ! !
اس شو کے دوران ایک بار ایک ایسی عورت بھی ایک بچے کے ساتھ آئی جس نے آتے ہی پچاس ایسے افراد کی فہرست دی جن پر اُسے شک تھا کہ ان میں سے کوئی ایک اس کے بچے کا باپ ہے ! لیکن جب پچاس افراد کا ڈی این اے کیا گیا تو پچاس میں سے ایک سے بھی بچے کا ڈی این اے نہیں ملا تھا جبکہ سب ہی نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے اس عورت سے تعلقات رہے ہیں ! اس پر عورت نے سو اور اَفراد کی فہرست دی ! ! لیکن ان سب کے اعتراف کے باوجود ان میں سے کوئی بھی بچے کا باپ نہیں تھا یہاں تک کہ دو سو افراد کا ڈی این اے کیا گیا ! لیکن جب ان دو سو میں سے بھی کوئی بچے کا باپ ثابت نہ ہو سکا تو اس عورت نے مزید افراد کو بلانے سے روک دیا ! !
یہ توہم سنتے آئے تھے کہ ان لوگوں کے ہاں نکاح وغیرہ کا معاملہ تقریباً ختم ہو چکا ہے
لیکن اس حد تک اخلاقی گراوٹ کا اندازہ نہیں تھا ! ................................
وہ عورت جو شو میں شرکت کرتی ہوگی اُس کے والدین بھی ہوں گے ! بھائی بہن بھی ہوں گے ! رشتہ دار بھی ہوں گے ! لیکن اس کو کسی کی بھی شرم یا حیا نہیں ہوتی تھی ! نہ کسی کا خوف نہ عزت بے عزتی کا احساس ! گناہ ثواب کا معاملہ تو بہت پیچھے رہ گیا ! جہاں رہتی ہوگی جو اُس کے جاننے والے ہوں گے ان کے سامنے بھی اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی ہو گی ! !
لیکن ٹھہریے ایسا کیوں ہوا ؟ وہ معاشرہ کیسے مردہ ہوا یا اسے بنایا گیا ؟ اس معاشرے میں سب سے پہلے آزادی کے ایسے قوانین بنائے گئے جن کے تحت کوئی دوسرے فرد کی زندگی میں مداخلت نہیں کر سکتا ! کوئی عدالت، قانون یا مذہب کسی کو بے راہ روی سے نہیں روک سکتا ،مذہب کو اِنسانوں کی زندگیوں سے نکال باہر کیا گیا اور آج باپ تلاش کرنے کے لیے ڈی این اے کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی باپ نہیں ملتا ! !
مجھے بش، اوبامہ، ٹرمپ وغیرہ کی کسی بھی انسان دشمنی پر افسوس نہیں ہوتا کیونکہ اِن بیچاروں کو صرف ماں کا کنفرم ہوتا ہے !
ہمارے ہاں کے لبرل، سیکولر، سرخے اور دیسی ''چے گویرے '' ١ بھی ایسے ہی قوانین کے نفاذ کے لیے دن رات کوشاں ہیں ! !
لیکن میں شکرگزار ہوں اپنے اَن پڑھ ، فسادی ، بنیاد پرست اور ترقی دشمن ''علمائِ دین''کا جو کسی بھی قیمت پر ایسے نہیں ہونے دیں گے ! مر جائیں گے لیکن کسی ایسی بے حیائی کو قانونی تحفظ کبھی حاصل نہیں کرنے دیں گے ! !
میں لعنت بھیجتا ہوں اس ترقی پر اس روشن خیالی پر اور ایسی سپرپاور پر جہاں اصل باپ کوئی لیبارٹری بھی نہیں تلاش کر کے دے سکتی !
کمالِ منافقت تو یہ ہے کہ ڈی این اے اور اس کی مدد سے اپنے باپ کی تلاش کرنے والے ملحد اور لبرلز اِسی ڈی این اے کے خالق(اللہ) اور اس کی تعلیمات کا انکار کردیتے ہیں ! ! ! (ماخوذ اَز سوشل میڈیا)
یہود و نصاریٰ اور قادیانیوں کی زیرِ قیادت ''میرا جسم میری مرضی '' جیسے کفریہ اور گندے نعرے لگاکر اُمت کو گندہ کرنے والے آج کے اللہ ، رسول کے باغی، زندیق اور ملحدین کے باطنی گند پر قرآنِ پاک کی آیت اور اُس کی مختصر تشریح ملاحظہ فرمائیں :
١ ارجنٹائن کا انقلابی لیڈر
( زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا )
تشریح : یعنی کافر جو اللہ کے صاف احکام اور اُس کے پیغمبروں کی مخالفت کرتے ہیں جو اُوپر مذکور ہوچکا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی نظروں میں دنیا کی خوبی اور اس کی محبت ایسی سما گئی ہے کہ اِس کے مقابلہ میں آخرت کے رنج اور راحت کو خیال ہی میں نہیں لاتے بلکہ مسلمان جو فکر ِ آخرت میں مصروف اور اللہ کے احکام کی تعمیل میں مشغول ہیں اُلٹا ان کو ہنستے ہیں اور ذلیل سمجھتے ہیں ! سو ایسے احمق، نفس کے بندوں سے تعمیل احکامِ اِلٰہی ہو تو کیونکر ہو ! رُؤسائے مشرکین حضرت بلال اور عمار اور صہیب اور فقرائِ مہاجرین کو دیکھ کر تمسخر کرتے کہ اِن نادانوں نے آخرت کے خیال پر دُنیا کی تکالیف اور مصائب کو اپنے سر لیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تو دیکھو کہ اِن فقیروں ، محتاجوں کی امداد سے عرب کے سرداروں پر غالب آنا اور دنیا بھر کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ! ! !
( وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ) ١
تشریح : اللہ تعالیٰ اِن کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے کہ یہ اِن کی جہالت اور خام خیالی ہے کہ دُنیا پر ایسے فریفتہ ہیں ! وہ نہیں جانتے کہ یہی غرباء اور فقراء قیامت کے دن اُن سے اعلیٰ اور برتر ہوں گے اور اللہ دنیا و آخرت میں جس کو چاہے بے شمار روزی عطا فرمائے چنانچہ اِن ہی غریبوں کو جن پر کافر ہنستے تھے اموالِ بنی قریظہ اور بنی نضیر اور سلطنت ِفارس اور رُوم وغیرہ پر اللہ نے مسلط کردیا ! ! ! ٢
١ سُورة البقرة : ٢١٢ ٢ تفسیر عثمانی بتغیرِ یسر
حضرت اقدس پیر و مرشد مولانا سیّد حامد میاں صاحب کا مجلسِ ذکر کے بعد درسِ حدیث ''خانقاہِ حامدیہ چشتیہ'' رائیونڈ روڈ لاہور کے زیرِانتظام ماہنامہ '' انوارِ مدینہ'' کے ذریعہ ہر ماہ حضرت اقدس کے مریدین اور عام مسلمانوں تک باقاعدہ پہنچایا جاتا ہے اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کے اِس فیض کو تا قیا مت جاری و مقبول فرمائے،آمین۔
نبی علیہ السلام اوردیگر انبیاء علیہم السلام کے معجزات میں فرق !
قرآن اور رمضان ! قرآن اورقلبی سکون ! تلاوت اورفرشتوں کا نزول !
( درسِ حدیث نمبر١٦٥ ٣ مضان المبارک١٤٠٥ھ/٢٤ مئی ١٩٨٥ء )
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّابَعْدُ !
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلمنے قرآنِ پاک کی فضیلت بیان فرمائی کہ اورانبیاء کرام کو مختلف معجزات دیے گئے اورمجھے جو معجزہ دیا گیا وہ''قرآنِ پاک'' ہے تو مجھے ایسے معلوم ہوتا ہے ایسا انداز ہوتا ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے ! اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے انبیاء کرام کی یہ صورت ہوئی کہ انہیں جو معجزات دیے گئے وہ ایسے تھے جو اُن کی حیات تک رہے !
مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دست ِمبارک روشن ہو جانا ! اسی طرح عصاء میں یہ تبدیلی آجانا کہ سانپ بن جائے ! یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ جب تک حضرت موسیٰ علیہ الصلٰوة والسلام اس دنیا میں تشریف فرمارہے یہ چیزیں بھی رہیں ،پھر آپ کے اس دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد وہ باتیں ختم ہوگئیں تو اُن کے معجزات کا تعلق اُن کی حیاتِ دُنیوی کے ساتھ رہا، جب تک وہ یہاں رہے تویہ بات ہوئی اور جب وہ اس دنیا سے رُخصت ہوئے تو معجزات ساتھ ساتھ ختم ہو گئے ! !
قرآن .....سب بڑ ا معجزہ :
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جو معجزہ دیا گیا وہ ''قرآنِ پاک'' ہے اورمجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہ میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے قیامت کے دن ! کیونکہ میرا معجزہ میرے بعد بھی قائم رہے گالہٰذا آج بھی قائم ہے اوراس کا قائم رہنا خود معجزہ ہے ! بہت تعجب کی بات ہے کہ اس میں کسی بھی جگہ کوئی تغیر نہیں آیا ! لفظ تو بڑی بات ہے کسی حرف کا تغیر بھی نہیں آیا ! سب کے سب بالکل محفوظ اُسی طرح اورپوری دنیا میں ! !
قرآن اور رمضان :
قرآن پاک کا جوڑ رمضان شریف سے خاص طورپر ہے بہت زیادہ ! نزول بھی اس کا رمضان شریف میں شروع ہوا ہے ! رمضان ہی میں قرآنِ پاک کا آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دور فرماتے تھے ! حتی کہ جس سال آپ دُنیا سے رُخصت ہوئے اُس سال آپ نے دو مرتبہ دور کیا ہے جبرئیل امین علیہ السلام سے ! اور اس سے آپ نے اندازہ لگایا ہے کہ شاید میں اب دُنیا سے رُخصت ہونے لگا ہوں ! ! !
قرآنِ پاک سے قلبی سکون :
قرآنِ پاک کی تلاوت سے سکون ہوتا ہے ایک طرح کا ! اوراللہ تعالیٰ کے کچھ ملائکہ ہیں اس قسم کے اور کیفیات ہیں اس قسم کی جو اِنسان کے قلب پروارد ہوتی ہیں اورانسان انہیں محسوس کرتا ہے ! جیسے آدمی بیمار ہو تو بیماری محسوس کرتا ہے، صحت مند ہو تو صحت محسوس کرتا ہے ، غمگین ہوتو غم محسوس کرتا ہے خوش ہو توسرور محسوس کرتا ہے ! تو یہ وجدانیات ہیں اوردُنیا میں کوئی عقلمند اِن کا انکار نہیں کرتا نہ حکیم نہ ڈاکٹر نہ کوئی اور ! تو قرآنِ پاک کی تلاوت میں ایک تاثیر خاص اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے وہ ہے سکون ! وہ کبھی کبھی متشکل بھی ہوسکتا ہے، جتنے عمل ہیں ہمارے نماز روزہ وغیرہ اِن سب کو اللہ کے یہاں ایک خاص شکل دے دی جاتی ہے ! ! !
قرآن کی تلاوت اور فرشتوں کا اُترنا :
اسی طرح سے انسان جب قرآنِ پاک کی تلاوت کرے تو ملائکہ( سکینہ والے) اُتریں اُن کے وجود کا احساس نظروں سے ہوجائے یہ بھی ہو سکتا ہے ! چنانچہ یہاں پر آرہاہے یہ کہ حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ باکرامت صحابی ہیں ، ان کی کرامتیں آتی ہیں حدیثوں میں ،وہ پڑھ رہے تھے سورہ بقرہ اور گھوڑا اُن کا بندھا ہوا تھا پاس ہی،لیکن اچانک گھوڑا جو تھا وہ چکر کاٹنے لگا جیسے پریشان ہو رہا ہو ! انہوں نے سوچا کہ یہ کیا بات ہوئی ہے اسے ؟ اور پڑھتے پڑھتے رُک گئے تووہ گھوڑا جو تھا وہ بھی سکون سے ہوگیا ! جب پڑھنا شروع کیا تو وہ پھر اسی طرح گھوڑا بے چین ہونے لگا ............. تووہ پھر خاموش ہو گئے اِذْ جَالَتِ الْفَرَسُ فَسَکَتَ فَسَکَنَتْ فَقَرَأَ فَجَالَتْ فَسَکَتَ فَسَکَنَتْ ثُمَّ قَرَأَ فَجَالَتِ الْفَرَسُ فَانْصَرَفَ۔

یہ واقعہ بتلاتے ہیں ایسے کہ پھر پڑھا پھر اسی طرح ہوا تو پھر یہ اُٹھے یا پڑھنے سے ہٹ گئے، پڑھنا بند کردیا آپ نے ! اور قریب میں ان کے گھوڑے کے پاس اِن کا بیٹا پڑا ہوا تھا ، یحیٰ اُس کا نام تھا وہ سوہی رہا ہوگا بظاہر، انہیں اندیشہ ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ گھوڑا بگڑے اور اس کے کسی طرح سے چوٹ لگ جائے یا لات مار دے کچھ اورہو جائے ، جب اس بچے کو اُٹھا کروہ ہٹانے لگے تو آسمان کی طرف نظرپڑی ان کی ! تو دیکھا ایسے جیسے کوئی چیز سائے کیے ہوئے ہوتی ہو مِثْلُ الظُّلَّةِ اور اس میں ایسے روشنی جیسے چراغ اَمْثَالَ الْمَصَابِیْحِ توایسے ہو جیسے ایک بدلی ہو چھوٹی سی اُس میں چراغ چمک رہے ہوں روشن ! یہ انہوں نے دیکھا اور صبح کو پھر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے عرض کیا ،کوئی اور تو یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ کیا چیز تھی سوائے اس کے اللہ تعالیٰ کے رسول اور اولیاء کرام وہ ایسی چیزوں اوراُن کی حقیقت پوری طرح سمجھ سکیں تو سمجھ سکیں ! ! آپ نے یہ سنا تو فرمایا اِقْرَأْ اِبْنَ حُضَیْرِ اِقْرَأْ اِبْنَ حُضَیْرِ پڑھو پڑھو اِبن ِحضیر پڑھتے رہو پڑھتے رہو ! تو عرض کرنے لگے کہ میں نے کہا اَشْفَقْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَنْ تَطَائَ یَحْیٰ مجھے تو یہ اندیشہ ہوا کہ یہ بچہ یحییٰ جو تھا یہ اُس کے قریب ہی تھا اس کو وہ پائوں سے نہ روندھ دے، پائوں لگ جائے کھر لگ جائے تو میں تو پیچھے ہٹا اورایسے میں نے دیکھا اور میں باہر ہی رہا حتی کہ یہ ہوا کہ وہ غائب ہو گئی چیز ! ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَتَدْرِیْ مَاذَاکَ پتہ ہے کہ وہ کیا تھا ؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا تِلْکَ الْمَلَائِکَةُ دَنَتْ لِصَوْتِکَ یہ فرشتے تھے تمہاری آواز کی وجہ سے قریب آئے تھے ! وَلَوْ قَرَأْ تَ لَاَصْبَحْتَ یَنْظُرُ النَّاسُ اِلَیْھَا لَا تَتَوَارٰی مِنْھُمْ ١ اوراگر تم پڑھتے ہی رہتے تو پھر یہ ہو جاتا کہ وہ بالکل پاس آجاتے ! تم اُنہیں دیکھ سکتے تھے اورتم ہی نہیں بلکہ لوگ بھی دیکھ سکتے تھے لَا تَتَوَارٰی مِنْھُمْ تم سے وہ پوشیدہ نہ رہتے بلکہ سب کو نظرآتے ! !
یہ اللہ تعالیٰ کی نظررحمت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات اورسکینہ کا نزول ان صحابی نے اپنے آپ محسوس کیااوراس کو دیکھا ! اگر محسوس نہ بھی ہو کسی کو تو اتنا تو محسوس ضرور ہی ہو گا کہ طبیعت میں سکون کچھ نہ کچھ آئے گا ! یہ نظر آنا تو بہت ہی بڑی بات ہے،ایک بہت مشکل کام ہے ،عام نہیں ہے اورخدا کی ایک خاص قسم کی عنایت ہے کہ کسی کو نظر آجائے ! ! مگر جس چیز کے عام ہونے کی ضرورت ہے وہ وہی ہے کہ قلب سکون محسوس کرے لہٰذا یہ عام ہے ! اب جو مسلمان تلاوت کرے گا اُس پر اُس کے اثرات مرتب ضرور ہوں گے ! !
قرآنِ پاک کی تلاوت کا جوڑ رمضان کے مبارک ایام سے بہت زیادہ ہے ،تو اس میں جتنا وقت زیادہ صرف کیا جا سکے ذکر، تلاوت، استغفار ، دُعائیں ،اوردُعائیں تو بہت زیادہ مانگی جائیں بہت زیادہ ضرورت ہے دعا کی سب کے لیے ! حکام کے لیے بھی مانگی جائیں ،ملک کے لیے مانگی جائیں جہاں اپنے لیے مانگیں اپنے حالات کے لیے مانگیں وہاں ان کے لیے کہ خدا اِنہیں ٹھیک کرے اور ٹھیک رکھے ،ہدایت دے بہتر راستوں پر چلائے ، غلط راستوں سے بچائے ورنہ آپ سن رہے ہیں دیکھ رہے ہیں کیا خراب ہوتا چلا جا رہا ہے حال ! ! خدا کی طرف بار بار رُجوع میں بہت کمی ہے، وہ بہت زیادہ ہونا چاہیے ،ہر انسان انفرادی طورپر تو کم ازکم کرے ! ! !
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اوراپنی رضااورخیرو رحمتوں سے دُنیا اورآخرت میں نوازے، آمین
(مطبوعہ ماہنامہ انوارِ مدینہ ستمبر٢٠٠٥ء )
١ مشکوة المصابیح کتاب فضائل القرآن رقم الحدیث ٢١١٦
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اور خصوصیات
مؤرخِ ملت حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب رحمہ اللہ کی تصنیف ِ لطیف
سیرتِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اَوراق
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے ''محمد '' صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
( یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِ یْرًا ) ( سُورة الاحزاب : ٤٥ )
اے نبی ہم نے تم کو بھیجا ہے اس شان سے کہ آپ

(١ ) شہا دت دینے والے ہیں (٢) بشارت دینے والے ہیں
(٣) آگاہ کرنے والے ہیں (٤) خدا کی طرف بلانے والے ہیں
(٥) خدا کی طرف سے دعوت دینے کے مجاز ہیں (٦ ) چراغ ہیں روشنی دینے والے
یہ معجزانہ بلاغت ہے کہ خطاب ایسے الفاظ سے کیا گیاجس سے یہ بنیادی حیثیت پہلے ظاہر ہوگئی کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے نبی ہیں ! !
اس کے بعد مندرجہ بالا چھ خصوصیتیں بیان کی گئی ہیں
پہلی خصوصیت ، نبی اور فلسفی کا فرق :
پہلی خصوصیت یہ ہے کہ آپ حق بات کو اِس یقین اور ایسے وثوق اور بھروسہ سے بیان کرتے ہیں جیسے کوئی آنکھوں دیکھی چیز کی شہادت دیتا ہے ! یہ فرق ہے نبی اور فلسفی میں ! !
فلسفی کے پاس قیاس، تخمینے اور تجربے ہوتے ہیں ، تجربوں کی بنیاد اگرچہ بسا اوقات مشاہدہ پر ہوتی ہے مگر انسان کا مشاہدہ بھی بسااوقات غلطی کرتا ہے ! !
سائنسی شکست :
ہزاروں برس تک دنیا کے فلسفی جن میں سقراط، ارسطو اور افلاطون جیسے ماہر بھی داخل ہیں جو فلاسفہ کے امام مانے جاتے ہیں یہی یقین کرتے رہے کہ چاند اور سورج آسمانوں میں گڑے ہوئے ہیں ! آسمان زمین کو گھیرے ہوئے ہیں اور وہ زمین کے گرد گھوم رہے ہیں ! زمین اپنی جگہ ساکن ہے ! یہ نہ حرکت کرتی ہے نہ کرسکتی ہے ! یہ سب کچھ وہ اپنے مشاہدہ کی بناپر کہتے رہے ان کی عظیم الشان رَصدگاہیں اسی یقین کی تصدیق کرتی رہیں ! اور اپنے اس یقین کی بناپر انہوں ے نجوم، جوتش وغیرہ ١ بہت سے فن ایجاد کیے اور یقین کرتے رہے کہ یہ تمام فنون اور اُن کی یہ تمام تحقیقات صحیح اور درست ہیں ان میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ٢
مگر آج سائنس کی تحقیق یہ ہے کہ یہ جو کچھ تھا فریب ِ نظر تھا ! آج کی دنیا میں اس سے بڑا اَحمق اور جاہل کوئی نہیں جو آسمان کو گھومتا ہوا مانے اور چاند سورج کو اُس میں جڑا ہوا سمجھے ! ! !
دوسری شکست :
ان فلاسفہ کو پورا یقین تھا کہ ہماری زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ فورًا ہی فنا ہوجاتے ہیں ان کے فلسفی ضابطہ کا فیصلہ یہی تھا کہ حرکت اور اُس کے اثرات کا کوئی اپنا وجود ہی نہیں ہے لہٰذا ان کے بقاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ! ہماری آواز اور ہمارے الفاظ زبان کی حرکت کا اثر ہے جو ساتھ ساتھ ختم ہوتا رہتا ہے ! !
لیکن آج ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ جو لفظ زبان سے نکلتا ہے وہ باقی رہتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ جو الفاظ انسانوں کی زبان سے بولے گئے وہ سب فضا میں موجود ہیں !
سائنس اور سائنسدان شکی ہوتے ہیں :
بہرحال سابق فلاسفہ نے جو باتیں صرف ذہانت سے معلوم کی ہیں اور موجودہ فلسفی جن باتوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں اُن تمام تحقیقات اور مشاہدات کے باوجود یہ سب قدیم اور جدید فلاسفہ اور ماہرین ِسائنس یہی سمجھتے رہے اور یہی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہماری تحقیق ہے وہ حرف ِ آخر نہیں ہے ! ممکن ہے کوئی جدید تحقیق اس تحقیق کو غلط قرار دے دے لہٰذا یہ یقین کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہی حرف ِ آخر ہے
١ ستاروں کا علم ٢ ان کے اس یقین میں بسا اوقات جارحیت ہوتی تھی وہ اپنے مخالف کو سخت سے سخت سزا کا مستحق سمجھتے تھے ان ہی کے پیشرو تھے وہ جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نذرِ آتش کرنے کے لیے جہنم تیار کیا تھا۔
اور وہی حق ہے اس کے سوا باطل ہے،یہ یقین فلسفی کو میسر نہیں آتا ! اس کو خود اپنی تحقیق کے اندر شک رہتا ہے اس بناپر وہ اطمینان سے محروم رہتا ہے اور جب اطمینان کی دولت خود اُس کے پاس نہیں ہوتی تو وہ کسی دوسرے کو یہ دولت کہاں سے دے سکتا ہے اور جب اس کو اپنی تحقیق پر مکمل اطمینان اور یقین نہیں ہوتا تو اُس کے لیے فدا ہوجانے اور قربان ہونے کا جذبہ بھی اس کے اندر نہیں ہوتا ! !
لہٰذا عمل کے لحاظ سے وہ عمومًا کوتاہ رہتا ہے ! ! !
ایک اور شک :
مادّہ کی طرح رُوح اور خدا سے تعلق رکھنے والے مسائل (مثلاً خالق ِ کائنات کی ذات وصفات، اس سے انسان کا تعلق، حیات بعد الممات، عمل اور پاداشِ عمل جیسے مسائل) میں بھی فلسفی کا فیصلہ دو ٹوک نہیں ہوتا ! اس کا ترقی پذیر دماغ جس چیز کو آج روشنی سمجھتا ہے وہی چیز اگلے روز اس کو تاریک نظر آتی ہے اور سکون واطمینان کے بجائے اس کا دماغ نئے خلجان میں مبتلا ہوجاتا ہے ! !
یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے پیروکار جو بصیرت سے محروم اور اندھی تقلید کے عادی ہوں فلسفی کے کسی نظریہ کے معتقد ہوجائیں مگر ان کی یہ تقلید بھی شک و شبہ کی گرد سے پاک نہیں ہوتی اور یہی سبب ہوتا ہے کہ اُس کے مخالف اور متضاد نظریہ کو بھی حق سمجھنے لگتے ہیں ١
قرآنِ حکیم میں بار بار کہا گیا ہے کہ اِن عقل پرستوں کے پاس جو کچھ ہے وہ ''ظن'' ہے جو شک و شبہ اور خلجان کے گر دو غبار سے پاک اور صاف نہیں ! جہاں حق کی ضرورت ہو وہاں ''ظن'' کام نہیں دے سکتا ٢
١ برادرانِ وطن کے دھرم کا مدا ر وحی پر نہیں ہے کیونکہ وہ نبوت کو نہیں مانتے ان کے دھرم کا مدار فلسفہ پر ہے وہ اپنے رشیوں (سادھو ، جوگی ) اور مُنبوں کو فلسفی ہی مانتے ہیں ۔ اسی کا اثر ہے کہ کسی ایک عقیدہ اور نظریہ پر اُن کو یقین نہیں ہوتا وہ ہر ایک عقیدہ کو صحیح ماننے لگتے ہیں ، وہ اس کو وسعت ِ نظر اور فراخی ظرف سمجھتے ہیں ! مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا سبب گم گشتگی نظر(بھٹکی ہوئی نظر) اور فقدانِ یقین ہے۔
٢ سُورۂ والنجم : ٢٨ ( وَمَا لَہُمْ بِہ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَاِِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا )
مکڑی کا جالا کِرم شب ِتاب ١ کو اُلجھا تو سکتا ہے اس کو منزل تک نہیں پہنچا سکتا ! قطب مینار کی بلندی تک وہی رسی پہنچا سکتی ہے جو نہایت مضبوط ہو ! نبی کے پاس حق اور یقین کی یہی مضبوط رسی ہوتی ہے جو اُس کو اُس کا رب اور معبود عطا کرتا ہے ٢ اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ یہ رسی خود اُس کے رب کی عطا کردہ ہے، وہ اپنی جان قربان کر سکتا ہے مگر اس رسی کو نہیں چھوڑ سکتا ! ! !
اس یقین کا ثمرہ وہ غیر معمولی اعتماد اور توکل ہوتا ہے جو نبی کو اپنے رب پر ہوتا ہے جو بڑی سے بڑی جابر وظالم طاقت کے مقابلہ میں بھی اس کو پہاڑ کی چٹان بنائے رکھتا ہے اور سخت سے سخت خطرہ کے موقع پر بھی اس کا تصور یہ ہوتا ہے :
''ہم اُس خدا پر اعتماد اور بھروسہ کیوں نہ کریں جس کا فضل وکرم یہ ہے کہ رُوحانی اور مادّی زندگی کے تمام راستوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے ! بلا شبہ ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم اُن تمام اذیتوں کے مقابلہ پر استقلال اور ضبط و تحمل سے کام لیں جو تم ہمیں پہنچا رہے ہو اور اللہ ہی ہے جس پر بھروسہ کرنے والوں کو بھروسہ کرنا چاہیے'' ٣
مختصر یہ کہ اللہ کے رسول( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ''شَاہِدْ'' ہیں یعنی جو کچھ بتاتے ہیں وہ ایسے یقین کے ساتھ جو مشاہدہ سے بھی بڑھا ہوا ہوتا ہے جس کی پشت پر حق و صداقت کی سرفروشانہ اور فدا کا رانہ پختگی ہوتی ہے۔
دوسری خصوصیت : یہ کہ جو لوگ اس حق و صداقت کو قبول کر لیتے ہیں ان کو
پہلی ''بشارت'' یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے سچائی کا راستہ پالیا اور خدا پرستی کے جس صراط ِ مستقیم کی تلاش میں وہ سرگرداں تھے وہ صراطِ مستقیم ان کو مل گیا ! وہ تشنہ کام جو تلاشِ حق میں سالہا سال سے سرگرداں رہے اُن کے لیے اس سے زیادہ بشارت کیا ہوسکتی ہے کہ وہ گوہرِ مراد اُن کے دامن میں آگیا جس کے لیے وہ بے چین تھے اور جس کی جستجو میں وہ اپنی عمر کھپارہے تھے ! ! ٤
١ جگنو ٢ سُورة البقرة : ٢٥٦ و سُورۂ لقمان : ٢٢ ( فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی )
٣ سُورۂ ابراہیم : ١١ ٤ ایک سبق : نبی اور نہ صرف نبی بلکہ ہر ایک داعی حق کا یہ کام ہے کہ وہ پر اُمید رہے اور جس کو وہ دعوت دے تو پہلے اس دعوت کے فائدہ بخش اور روشن پہلو اُس کے سامنے رکھے۔
دوسری'' بشارت'' یہ ہے کہ اس کے بہترین فوائد اور نتائج ان کو موجودہ زندگی میں بھی میسر آئیں گے اور اُس عالم میں بھی میسر آئیں گے جہاں حق وباطل کا فیصلہ ہوگا جہاں کی زندگی حقیقی زندگی ہے اور جہاں کی کامیابی ابدی کا میابی ہے ! !
تیسری خصوصیت : یہ کہ جو لوگ سچائی کے سامنے گردن نہ جھکائیں جو اُس سے منہ موڑیں ان کو آگاہ کردیں کہ وہ موجودہ اور آخرت کی زندگی کی کامیابیوں سے منہ موڑ رہے ہیں اس کے بدترین نتائج اس زندگی میں بھی اُن کے سامنے آئیں گے اور اُس زندگی میں بھی جو حقیقی زندگی ہے ! آپ کی حیثیت یہ ہے کہ آپ'' نَذِیْر '' ہیں ( یعنی آگاہ کرنے والے) !
چوتھی خصوصیت : یہ کہ آپ داعی اِلی اللّٰہ ہیں !
پانچویں خصوصیت : پانچویں حیثیت یہ ہے کہ آپ محض فطری خیر اندیشی اور خیر سگالی کی بناپر دعوت نہیں دیتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس جلیل اور عظیم خدمت کے لیے مامور ہیں !
چھٹی خصوصیت : وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا لُب ِلُباب ہے آپ کی تمام سوانح حیات ان دو لفظوں میں سموئی ہوئی ہے کہ آپ '' سراج منیر '' ہیں یعنی نوع انسان کی محفل میں رونق افروز ہیں مگر اس طرح کہ سراسر سوزو گداز ہیں ١ اور یہ سوزو گداز ہی وہ نور ہے جو دوسروں کو روشن کر رہا ہے ! اس چھٹی خصوصیت کا مشاہدہ کرنے کے لیے حیاتِ مقدسہ کی مختصر سوانح آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے ! وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ وَھُوَ الْمُعِیْنُ
( ماخوذ اَز سیرت ِ مبارکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ص ٢٦٥ تا ٢٧٠ )
١ رنج و غم کی کیفیت جس سے رِقت طاری ہو
رمضان المبارک کے عشرۂ اَخیرہ کے اَحکام
( حضرت مولانا محمد عاشق اِلٰہی صاحب بلند شہری )
رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام کیاجائے :
وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِیْزَرَہ وَاَحْیٰ لَیْلَہ وَاَیْقَظَ اَھْلَہ ۔ ( رواہ البخاری و مسلم بحوالہ مشکوة ص ١٨٢ )
''حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتاتھا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو (بھی عبادت کے لیے )جگاتے تھے ''
ایک حدیث میں ہے کہ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کے اندر جتنی محنت سے عبادت کرتے تھے اس کے علاوہ دُوسرے ایام میں اتنی محنت نہ کرتے تھے۔ (مسلم شریف)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ جو فرمایا کہ رمضان کے آخری عشرہ میں آپ تہبند کس لیتے تھے علماء نے اس کے دو مطلب بتائے ہیں :
ایک یہ کہ خوب محنت اور کوشش سے عبادت کرتے تھے اور راتوں کوجاگتے تھے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اُردو کے محاورے میں محنت کا کام بتانے کے لیے بولا جاتا ہے کہ ''خوب کمر کس لو''
اور دُوسرا مطلب تہبند کس کر باندھنے کا یہ بتایا کہ رات کو بیبیوں کے پاس لیٹنے سے دُور رہتے تھے کیونکہ ساری رات عبادت میں گزر جاتی تھی اور اعتکاف بھی ہوتا تھا اس لیے رمضان کے آخری عشرہ میں میاں بیوی والے خاص تعلق کا موقع نہیں لگتا تھا۔
حدیث کے آخر میں جو وَاَیْقَظَ اَھْلَہ فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بہت محنت اور کوشش سے عبادت کرتے تھے اور رات بھر جاگتے رہتے تھے اور گھر والوں کو بھی اس مقصد کے لیے جگاتے تھے !

بات یہ ہے کہ جسے آخرت کا خیال ہو، موت کے بعد کے حالات کا یقین ہو، اجرو ثواب لینے کا لالچ ہو ، وہ کیوں نہ محنت اور کوشش سے عبادت میں لگے گا پھر جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے اہل و عیال کے لیے بھی پسند کرنا چاہیے !
حضو ر اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم خود راتوں کو نمازوں میں اتنا قیام فرماتے تھے کہ قدم مبارک سوج جاتے تھے پھر رمضان کے اندر خصوصًا اَخیر عشرہ میں اور زیادہ عبادت بڑھا دیتے تھے کیونکہ یہ مہینہ اور خاص کر اَخیر عشرہ آخرت کی کمائی کا خاص موقع ہے ! آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ گھر والے بھی عبادت میں لگیں لہٰذا اَخیر عشرہ کی راتوں میں اُن کو بھی جگاتے تھے ! بہت سے لوگ خود تو بہت بڑی عبادت کر تے ہیں لیکن بال بچوں کی طرف سے غافل رہتے ہیں ! یہ لوگ فرض نماز بھی نہیں پڑھتے اگر بال بچوں کو ہمیشہ دین پر ڈالنے اور عبادت میں لگانے کی کوشش کی جاتی رہے اور اُن کو ہمیشہ فرائض کا پابند رکھا جائے تو رمضان میں نفلوں کے لیے اُٹھانے اور شب ِ قدر میں جگانے کی بھی ہمت ہو، جب بال بچوں کا ذہن دینی نہیں بنایا تو اُن کے سامنے شب بیداری کی بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی محبت عطا فرمائے اور عبادت کی لگن اور ذکر کے ذوق سے نوازے ! ! !
شب ِ قدر کی فضیلت :
رمضان المبارک کا پورا مہینہ آخرت کی دولت کمانے کاہے پھر اس ماہ میں اَخیر عشرہ اور بھی زیادہ محنت اور کوشش سے عبادت میں لگنے کا ہے، اِس عشرہ میں شب ِ قدر ہوتی ہے جو بڑی بابرکت رات ہے، قرآنِ مجید میں اِرشادفرمایا ( لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ) یعنی شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، ہزار مہینے کے تراسی سال اورچار مہینے ہوتے ہیں پھر شب ِ قدر کو ہزار مہینے کے برابر نہیں بتایا بلکہ ہزار مہینے سے بہتر بتایا ! ہزار مہینے سے شب ِ قدر کس قدر بہتر ہے اس کا علم اللہ ہی کو ہے، مومن بندوں کے لیے شب ِقدر بہت ہی خیرو برکت کی چیز ہے، ایک رات جاگ کر عبادت کرلیں اور ہزار مہینوں سے زیادہ عبادت کرنے کا ثواب پالیں اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے اسی لیے تو حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے :
مَنْ حُرِمَھَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَیْرَ کُلَّہ وَلَا یُحْرَمُ خَیْرَھَا اِلَّاکُلُّ مَحْرُوْمٍ ۔ ( اِبن ماجہ )
''یعنی جو شخص شب ِ قدر سے محروم رہا (گویا) پوری بھلائی سے محروم ہوگیا !
اور شب ِ قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو کامل محروم ہو''
مطلب یہ ہے کہ چند گھنٹے کی رات ہوتی ہے اُس میں عبادت کرلینے سے ہزار مہینے سے زیادہ عبادت کرنے کا ثواب ملتا ہے ! چند گھنٹے بیدار رہ کر نفس کو سمجھا بجھا کر عبادت کرلیناکوئی ایسی قابل ذکر تکلیف نہیں جو برداشت سے باہر ہو، تکلیف ذراسی اور ثواب بہت بڑا ! جیسے کوئی ایک نیا پیسہ تجارت میں لگادے اور بیس کروڑ روپے پالے ! اُس شخص کو ایسے بڑے نفع کا موقع مِلا پھر اُس نے توجہ نہ کی تو اُس کے بارے میں یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ وہ پورا اور پکا محروم ہے ! ! !
پہلی اُمتوں کی عمریں زیادہ ہوتی تھیں اس اُمت کی عمر بہت سے بہت ستر اَسی سال ہوتی ہے اللہ پاک نے یہ احسان فرمایا کہ اُن کو شب ِ قدر عطا فرمادی اور ایک شب ِقدر کی عبادت کا درجہ ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ کردیا ! محنت کم ہوئی وقت بھی کم لگا اور ثواب میں بڑی بڑی عمروں والی اُمتوں سے بڑھ گئے ! اللہ تعالیٰ کا فضل و اِنعام ہے کہ اس اُمت کو سب سے زیادہ نوازا، یہ کیسی نالائقی ہے کہ اللہ کی بہت زیادہ نوازش اور داد و دہش ہو اور ہم غفلت میں پڑے سویا کریں ! رمضان کاکوئی لمحہ ضائع نہ ہونے دو خصوصًا آخری عشرہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرو اور اس میں بھی شب ِقدر میں جاگنے کی بہت زیادہ فکر کرو بچوں کو بھی ترغیب دو ! ! !
شب ِ قدر کی دُعا :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب ِ قدر میں کیا دُعا کروں تو آپ نے یہ دُعا تعلیم فرمائی
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
'' اے اللہ ! اس میں شک نہیں کہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا مجھے معاف فرمادیجئے''
دیکھیے کیسی دُعا ارشاد فرمائی، نہ زَر مانگنے کو بتایا نہ زمین، نہ دھن نہ دولت، کیا مانگاجائے ؟ معافی ! بات اصل یہ ہے کہ آخرت کا معاملہ سب سے زیادہ کٹھن ہے، وہاں کا کام معاف فرمانے سے چلے گا ! اگر معافی نہ ہوئی اور خدا نخواستہ عذاب میں گرفتار ہوئے تو دُنیا کی ہرنعمت اور لذت اور دولت و ثروت بیکار ہوگا، اصل شے معافی اور مغفرت ہی ہے ایک حدیث میں ارشاد ہے :
مَنْ قَامَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ۔ ( بخاری شریف )
''جو شخص لیلةُ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا رہا اُس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ''
کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے اور اِسی حکم میں یہ بھی ہے کہ تلاوت اور ذکر میں مشغول ہو ! اور ثواب کی اُمید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ریاء وغیرہ کسی طرح کی خراب نیت سے کھڑا نہ ہو بلکہ اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی نیت سے مشغولِ عبادت رہے !
بعض علماء نے فرمایا ''اِحْتِسَابًا'' کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کا یقین کر کے بشاشت ِقلب سے کھڑا ہو، بوجھ سمجھ کر بددِلی کے ساتھ عبادت میں نہ لگے کہ ثواب کا یقین اور اِعتقاد جس قدر زیادہ ہوگا اُتنا ہی عبادت میں مشقت برداشت کرنا سہل ہوگا ! یہی وجہ ہے کہ جو شخص قرب اِلٰہی میں جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے عبادت میں اُس کا اِنہماک ہوتا جاتا ہے ! ! !
نیز یہ بھی معلوم ہوجانا ضروری ہے کہ حدیث ِ بالا اور اس جیسی اَحادیث میں گناہوں کی معافی کا ذکر ہے علماء کا اِجماع ہے کہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے پس جہاں احادیث میں گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر آتاہے وہاں صغیرہ گناہ مراد ہوتے ہیں اور صغیرہ گناہ ہی انسان سے بہت سرزد ہوتے ہیں ، عبادت کا ثواب بھی اور ہزاروں گناہوں کی معافی بھی ہوجائے کس قدر نفع عظیم ہے ! !
شب ِ قدر کی تاریخیں :
شب ِ قدر کے بارے میں حدیثوں میں وارِد ہوا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو لہٰذا رمضان کی اکیسویں تئیسویں پچیسویں ستائیسویں اُنتیسویں رات کو جاگنے اور عبادت کرنے کا خاص اہتمام کریں ، خصوصًا ستائیسویں شب کو ضرور جاگیں کیونکہ اس رات شب ِقدر ہونے کی زیادہ اُمید ہوتی ہے !
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اس لیے باہر تشریف لائے کہ ہمیں شب ِ قدر کی اطلاع فرمادیں مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب ِ قدر کی اطلاع دُوں مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی تعیین میرے ذہن سے اُٹھالی گئی کیا بعید ہے کہ یہ اُٹھالینا اللہ کے علم میں بہتر ہو ! !
لڑائی جھگڑے کا اَثر :
اس مبارک حدیث سے معلوم ہوا کہ آپس کا جھگڑاس قدر برا عمل ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ پاک نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب ِمبارک سے شب ِ قدر کی تعیین اُٹھالی یعنی کس رات شب ِ قدر ہے مخصوص کر کے اُس کا علم جو دے دیا گیا تھا وہ قلب سے اُٹھالیا گیا ، اگرچہ بعض وجوہ سے اس میں بھی اُمت کا فائدہ ہوگیا، جیسا کہ اِن شاء اللہ ہم ابھی ذکر کریں گے لیکن سبب آپس کا جھگڑا بن گیا جس سے آپس میں جھگڑے کی مذمت کا پتہ چلا ! !
شب ِ قدر کی تعیین نہ کرنے میں مصالح :
علمائے کرام نے شب ِ قدر کو پوشیدہ رکھنے یعنی مقرر کر کے یوں نہ بتانے کے بارے میں کہ فلاں رات کو شب ِ قدر ہے چند مصلحتیں بتائی ہیں :
٭ اَوّل یہ ہے کہ اگر تعیین باقی رہتی تو بہت سے کوتاہ طبائع دُوسری راتوں کا اہتمام بالکل ترک کر دیتے اور صورت ِموجودہ میں اس احتمال پر کہ شاید آج ہی شب ِ قدر ہو متعدد راتوں میں عبادت کی توفیق نصیب ہوجاتی ہے !
٭ دُوسری یہ کہ بہت سے لوگ ہیں کہ معاصی کیے بغیر نہیں رہتے، تعیین کی صورت میں اگر باوجود معلوم ہونے کے معصیت کی جرأت کی جاتی تو یہ بات سخت اندیشہ ناک تھی !
٭ تیسری یہ کہ تعیین کی صورت میں اگر کسی شخص سے وہ رات چھوٹ جاتی تو آئندہ راتوں میں افسردگی کی وجہ سے پھرکسی رات کا جاگنا بشاشت کے ساتھ نصیب نہ ہوتا اور اب رمضان کی چند راتیں میسر ہوہی جاتی ہیں !
٭ چوتھی یہ کہ جتنی راتیں طلب میں خرچ ہوتی ہیں اُن سب کا مستقل ثواب علیحدہ ملتا ہے !
٭ پانچویں یہ کہ رمضان کی عبادت میں حق تعالیٰ جل شانہ ملائکہ پر تفاخر فرماتے ہیں ! اس صورت میں تفاخر کا موقع زیادہ ہے کہ باوجود معلوم نہ ہونے کے محض احتمال پر رات رات جاگتے ہیں اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں !
اور اِن کے علاوہ اور بھی مصالح ہوسکتی ہیں ممکن ہے کہ جھگڑے کی وجہ سے اُس خاص رمضان المبارک میں تعیین بُھلا دی گئی ہو اور اُس کے بعد مصالح مذکورہ یا دیگر مصالح کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے تعیین چھوڑدی گئی ہو (واللہ تعالیٰ اعلم) ! !
رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف :
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَالْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاہُ اللّٰہُ ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزوْاجُہ مِنْ بَعْدِہ۔ ( بخاری و مسلم )
''حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ حضور اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرماتے تھے وفات ہونے تک آپ کا یہ معمول رہا آپ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف کرتی تھیں ''
تشریح : رمضان المبارک کی ہر گھڑی اور منٹ و سیکنڈ کو غنیمت جاننا چاہیے جتنا ممکن ہو اِس ماہ میں نیک کام کرلو اور ثواب لوٹ لو پھر رمضان میں بھی آخری دس دن کی اہمیت بہت زیادہ ہے ! ! !
رمضان کے آخری دس دن (جن کو عشرۂ اَخیرہ کہاجاتاہے) اعتکاف بھی کیاجاتا ہے ۔ حضور اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال اِن دنوں کااعتکاف فرماتے تھے اور آپ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی تھیں ، آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کی بیویوں نے اعتکاف کا اہتمام کیا جیساکہ اُوپر حدیث میں مذکور ہوا، یہ ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ زمانہ ٔ نبوت کی عورتیں نیکیاں کمانے کی دُھن میں پیچھے نہ رہتی تھیں ! ! !
اعتکاف میں بہت بڑا فائدہ ہے ا ِس میں انسان یکسو ہو کر اپنے اللہ سے لو لگائے رہتا ہے اور چونکہ رمضان کی آخری دس راتوں میں کوئی نہ کوئی رات شب ِ قدر بھی ہوتی ہے اس لیے اعتکاف کرنے والے کو عمومًا وہ بھی نصیب ہوجاتی ہے ! ! !
مر د ایسی مسجد میں اعتکاف کریں جس میں پانچوں وقت جماعت سے نماز ہوتی ہو ! اور عورتیں اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کریں ! اپنے گھر میں جو جگہ نماز کے لیے مقرر کر رکھی ہو اُن کے لیے وہی مسجد ہے عورتیں اُسی میں اعتکاف کریں !
رمضان کی بیسویں تاریخ کاسورج چھپنے سے پہلے عید کا چاند نظر آنے تک اعتکاف کی نیت سے عورتوں کو گھر کی مسجد میں اور مردوں کو پانچ وقتہ نماز باجماعت والی مسجد میں جم کر رہنے کو ''اعتکاف ''کہتے ہیں ! جم کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ عید کا چاند نظر آنے تک مسجد ہی کی حد میں رہے البتہ پیشاب پاخانہ کے لیے وہاں سے چلے جانا درست ہے،اعتکاف کرے تو ہر وقت مسجد میں رہے وہیں سوئے وہیں کھائے قرآن پڑھے نفلیں پڑھے تسبیحوں میں مشغول رہے جہاں تک ممکن ہو راتوں کو جاگے اور عبادت کرے، خاص کر جن راتوں میں شب ِ قدر کی اُمید ہو اُن راتوں میں شب بیداری کااہتمام کرے ! ! !
مسئلہ : اعتکاف میں میاں بیوی کے خاص تعلقات والے کام جائز نہیں ہیں ، نہ رات میں نہ دن میں
مسئلہ : یہ جو مشہور ہے کہ جو اعتکاف میں ہو وہ کسی سے نہ بولے چالے، یہ غلط ہے بلکہ اعتکاف میں بولنا چالنا اچھی باتیں کرنا کسی کو نیک بات بتادینا اور برائی سے روک دینا، بال بچوں اور نوکروں ونوکرانیوں کو گھر کاکام کاج بتادینا یہ سب درست ہے ! اور عورت کے لیے اس میں آسانی بھی ہے کہ اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھی رہے اور وہیں سے بیٹھے بیٹھے گھر کا کام کاج بھی بتاتی رہے
مسئلہ : اگر اعتکاف میں عورت کو ماہواری شروع ہوجائے تو اُس کا اعتکاف وہیں ختم ہو گیا، رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف میں اگر ایسا ہوجائے تو کسی عالم سے مسائل معلوم کر کے قضا ء کرلیں !
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کااِرشاد ہے کہ اعتکاف معتکف کو گناہوں سے روکتا ہے اور اُس کے لیے (اُن) سب نیکیوں کا ثواب (بھی) جاری رہتا ہے (جنہیں اعتکاف کے باعث انجام دینے سے قاصر رہتا ہے
جس دن صبح کو عید یا بقر عید ہو اُس رات کو بھی ذکر ، عبادت اور نفل نماز سے زندہ رکھنے کی فضیلت آئی ہے ! حدیث شریف میں ہے کہ جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ رکھا اُس دن اُس کا دل مُردہ نہ ہوگا جس دن (یعنی قیامت کے دن) دل مُردہ ہوں گے ۔ ( الترغیب و الترہیب )
رمضان کے بعد دو اہم کام :
صدقۂ فطر :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ ٔ فطر روزوں کو لغو اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقرر فرمایا ہے ( ابو داود) ١
شش عید کے روزے :
فخر کونین صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایاکہ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اُس کے بعد چھ (نفل) روزے شوال (یعنی عید) کے مہینے میں رکھے تو پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا ! اگر ہمیشہ ایسا ہی کیا کرے تو گویا اُس نے ساری عمر روزے رکھے۔ (مسلم شریف)
١ اس سال فطرانہ فی کس220روپے کے حساب سے دیا جائے۔
قسط : ٩
رحمن کے خاص بندے
( حضرت مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری، اُستاذ الحدیث دارُالعلوم دیوبند )
فضول خرچی سے اجتناب :
''عِبَادُ الرَّحْمَنْ'' کی پانچویں صفت یہ بیان کی گئی ہے ( وَالَّذِ یْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا ) ١
'' وہ لوگ خرچ کرنے میں اسراف سے کام نہیں لیتے''
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے نفع کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا فرمائی ہیں اور ان سے فائدہ اُٹھانا فی نفسہ منع نہیں ہے البتہ ان کا بے جا استعمال یہ ضرور نا پسندیدہ عمل ہے چنانچہ قرآنِ کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
( وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ) ٢
''اور خوب کھاؤ پیو اور بے جا خرچ مت کرو، یقینا بے جا خرچ کرنے والے اللہ کو پسند نہیں ہیں ''
اسراف کے اصل معنی حد سے تجاوز کرنے کے آتے ہیں ، اب جس طرح بھی حد سے تجاوز ہوگا وہ اِسراف میں داخل ہوجائے گا مثلاً بغیر خواہش کے کھانا کھانے لگیں یا جو چیزیں صحت کے لیے مضر ہیں ان کا استعمال کریں ! یا حلال کو چھوڑ کر حرام چیزوں سے فائدہ اُٹھائیں وغیرہ ! یہ سب باتیں اسراف کے معنی میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہیں سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا :
( وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہ کَفُوْرًا ) ٣
''اور (اپنا مال) بے جا مت اُڑاؤ، یقینا بے جا مال اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے''
١ سُورة الفرقان : ٦٧ ٢ سُورة الاعراف : ٣١ ٣ سُورۂ بنی اسرائیل : ٢٦ ، ٢٧
بلا شبہ مال اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس سے نہ صرف یہ کہ انسان کو دلجمعی نصیب ہوتی ہے بلکہ بہت سی دینی خدمات اور نیکیوں کا حصول بھی مال ہی کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے ! اب اگر اس مال کو معاصی اور لغویات میں خرچ کردیا جائے یا چٹورپن میں اُڑادیا جائے تو یقینا یہ نعمت ِخداوندی کی سخت ناشکری ہوگی اور اس عمل کا مرتکب آدمی ناشکری میں شیطان کے مشابہ قرار پائے گا کہ جس طرح ابلیس لعین نے اللہ کی بخشی ہوئی عظیم صلاحیتوں کو نا فرمانی اور گمراہی میں خرچ کیا، اسی طرح یہ شخص بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بے جا اُڑا کر ناشکری کا اِرتکاب کر رہا ہے۔ (فوائد ِ عثمانی)
اسراف وتبذیر کے معنی ایک ہیں یا الگ الگ ؟
اکثر حضراتِ مفسرین نے لکھا ہے کہ
'' اسراف تو مطلق حد سے تجاوز کرنے کے معنی میں آتا ہے لیکن تبذیر کا لفظ خاص طور پر اللہ کی نافرمانی میں اور فتنہ وفساد کی باتوں میں مال خرچ کرنے پر بولا جاتا ہے ! اور اگر صحیح جگہ آدمی مال خرچ کرے تو اس کے اُوپر فضول خرچی کا اطلاق نہ ہوگا خواہ وہ کتنا ہی مال خرچ کردے'' ١
حضرت سفیانِ ثوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
''جو مال بھی اللہ کی اطاعت کے علاوہ میں خرچ کیا جائے وہ اسراف میں داخل ہے اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو'' ٢
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
''اسراف اور تبذیر کا حاصل ایک ہی ہے کہ محلِ معصیت میں خرچ کرنا خواہ وہ معصیت بالذات ہو جیسے شراب ،قمار و زِنا، خواہ بالغیر ہو جیسے بہ نیت شہرت وتفاخر خرچ کرنا ! اور بعض نے یہ فرق کیا ہے کہ اسراف میں جہل بالکمیہ ہے کہ مقادیر حقوق سے تجاوز ہو ! اور تبذیر میں جہل بالکیفیت ہے کہ محل وموقع نہ سمجھے'' ٣
١ تفسیر ابن کثیر مکمل ص٧٨١ ریاض ، الموسوعة الفقہیة الکویتیة ج٤ ص ١٧٧
٢ عمدة الحفاظ فی تفسیر اشرف الالفاظ ص ٢٣٩ استنبول ٣ بیان القرآن ج ١ ص٨٨٩
ومثلہ ماجاء فی النھایة المحتاج نقلا عن الماوردی ، التبذیر: الجہل بمواقع الحقوق و السرف الجھل بمقادیر الحقوق ( الموسوعة الفقہیہ ٤ / ١٧٧ الکویت )
مطلب یہ ہے کہ اسراف وتبذیر میں فرق اس معنی کا ہے کہ اگر بے موقع اور بے محل خرچ کرے تو تبذیر ہے اور اگر جتنے میں ضرورت پوری ہوجاتی ہے یا جس کا جتنا حق بنتا ہے اُس پر اس سے زائد خرچ کرے تو اسراف ہے !
وضو میں بھی اسراف پسند نہیں :
شریعت میں اس بات کی کس قدر رعایت رکھی گئی ہے ؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وضو میں بھی تین مرتبہ سے زائد (بِلا ضرورت) پانی بہانا ظلم قرار دیا گیا ہے ! ١
سیّدنا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو اُس وقت وضو میں مشغول تھے تو پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ مَاھٰذَ السَّرَفُ (یعنی یہ پانی بہانے میں اسراف کیسا ؟ ) تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ''کیا وضو میں بھی اسراف ممکن ہے'' ؟ (آپ نے یہ بات اس لیے کہی کہ عرف میں یہ محاورہ زبان زد تھا کہ لَاخَیْرَ فِیْ سَرَفٍ وَلَا سَرَفَ فِیْ خَیْرٍ (یعنی نہ تو اسراف میں خیر ہے اور نہ خیر میں اسراف ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نَعَمْ ! وَاِنْ کُنْتَ علٰی نَھْرِ جَارٍ یعنی وضو میں بھی اسراف کا حکم لگے گا اگرچہ تم جاری نہر پر بیٹھ کر وضو کر رہے ہو ٢ اصل میں پیغمبرعلیہ السلام نے اس جواب میں اشارہ فرمایا کہ وضو میں تین سے زائد مرتبہ جب پانی بہایا جائے گا تو اس میں ایک تو فضول پانی اور وقت ضائع ہوگا ! دوسرے شرعی حدود سے تجاوز لازم آئے گا اور یہ سب باتیں اسراف میں داخل ہیں ٣
اور محدثِ کبیر حضرت عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ''جو شخص وضو میں تین سے زائد مرتبہ (بے ضرورت) پانی استعمال کرے گا تو مجھے اُس کے گنہگار ہونے کا اندیشہ ہے '' ٤
١ سُنن ابن ماجہ کتاب الطھارة و سننھا رقم الحدیث ٤٢٢ ٢ ایضًا رقم الحدیث ٤٢٥
٣ حاشیہ ابنِ ماجہ ص٣٤ نقلا عن المرقاة ٤ سُنن الترمذی ج١ ص١٧
تو جب عبادات میں حد سے تجاوز ناپسندیدہ ہے تو ان کے علاوہ جگہوں میں حدود کی رعایت نہ کرنا کس قدر ناپسند ہوگا ! اسی سے اندازہ لگا لیا جائے، خاص طور پر مساجد ومدارس کے موقوفہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے !
تعمیرات میں اسراف :
شریعت میں بقدرِ ضرورت تعمیر کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن بِلا ضرورت تعمیرات ہرگز پسندیدہ نہیں ہیں ! متعدد روایات میں بے ضرورت تعمیرات کی مذمت وارد ہے :
٭ ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کا گزر ایک صحابی کے گھر پر ہوا، جنہوں نے اپنے دروازہ پر ایک گنبد بنا رکھا تھا تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ''یہ کیا ہے '' ؟ تو لوگوں نے بتایا کہ یہ فلاں انصاری شخص نے بنایا ہے، تو پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا کُلُّ مَنْ کَانَ ھٰکَذَا فَھُوَ وَبَال عَلٰی صَاحِبِہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یعنی ہر اِس طرح کی (بے ضرورت) عمارت قیامت کے دن اس مالک پر وبال بنے گی ! جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اُن انصاری صحابی کو معلوم ہوا تو انہوں نے جاکر اس پوری عمارت کو زمین دوز کر کے برابر کردیا ! اس کے بعد پیغمبر علیہ السلام کا پھر ادھر سے گزر ہوا تو وہ عمارت نظر نہیں پڑی، تو آپ نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں بتایا کہ جب آپ کا ارشاد اِس کے مالک فلاں انصاری صحابی کو معلوم ہوا تو اُنہوں نے اُسی وقت اسے ڈھا دیا تھا ! ! یہ سن کر آپ نے ارشاد فرمایا یَرْحَمُہُ اللّٰہُ یَرْحَمُہُ اللّٰہْ (یعنی اللہ اُن پر رحم فرمائے اللہ اُن پر رحم فرمائے) ١
٭ اور سیّدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیغمبرعلیہ الصلٰوة والسلام نے ارشاد فرمایا :
کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَة وَمَا اَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلٰی اَھْلِہ کُتِبَ لَہُ صَدَقَة ، وَمَا وَقٰی بِہِ الْمَرْئُ عِرْضَہ کُتِبَتْ لَہ بِہ صَدَقَة وَمَا اَنْفَقَ الْمُؤْمِنُ مِنْ نَفَقَةٍ فَاِنَّ خَلْفَھَا عَلَی اللّٰہَ وَاللّٰہُ ضَامِن اِلَّا مَا کَانَ بُنْیَان اَوْ مَعْصِیَة ۔( الترغیب والترھیب رقم ٢٩١٣ )
١ سُنن ابن ماجہ رقم الحدیث ١٤٦١ و الترغیب والترہیب مکمل ص ٤٢٢
''ہر نیکی صدقہ ہے اور جو شخص اپنے گھر والوں پر خرچ کرے تو اس کے لیے صدقہ کا ثواب لکھا جاتا ہے ! اور جس مال کے ذریعہ آدمی اپنی عزت بچائے تو اس پر بھی صدقہ کا ثواب ملتا ہے ! اور جو بھی بر محل خرچ کرے اُس کا بدلہ اللہ کے ذمہ ہے اور اللہ اس کا ضامن ہے ! لیکن جو خرچ بے ضرورت تعمیرات یا معصیت میں خرچ کیا جائے (اس کا کوئی بدلہ نہیں ملتا) ! ! !
٭ حضرت عطیہ بن قیس سے مروی وہ فرماتے ہیں کہ ازواجِ مطہرات کے حجرے کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے تھے (یعنی چھری کی شکل میں تھے) تو ایک مرتبہ پیغمبر علیہ الصلٰوة والسلام غزوہ میں تشریف لے گئے تو اِسی دوران اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا (جو ایک صاحب ِوسعت خاتون تھیں ) نے پتوں کے بجائے کچی اینٹیں اپنے حجرہ میں لگوادیں ! جب پیغمبرعلیہ السلام واپس تشریف لائے، تو اس تعمیر کے بارے میں پوچھا تو حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ''میرا مقصد یہ تھا کہ میں اچھی طرح سے پردہ میں رہنے کا انتظام کروں '' اس پر پیغمبرعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
یَا اُمَّ سَلَمَةَ اِنَّ شَرَّ مَا ذَھَبَ فِیْہِ مَالُ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ الْبُنْیَانُ ١
''اے اُم سلمہ سب سے بری جگہ جس میں مسلمان کا پیسہ خرچ ہوتا ہے وہ (بے ضرورت) تعمیر ہے''
ایک طرف پیغمبرعلیہ الصلٰوة والسلام کی یہ تنبیہات ہیں ، دوسری طرف اس بارے میں سرمایہ داروں کی بے احتیاطیاں ہیں ! آج جہاں بھی تھوڑا بہت روپے پیسے کی بہتات ہوتی ہے آدمی ضرورت بلند و بالا تعمیرات میں بے تحاشا اپنا مال خرچ کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے ! اور یہ چاہت وقت گزر نے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے ! اور اس گرانی کے دور میں صرف ایک مکان پر لاکھوں لاکھ روپے محض فخر وریاء کی نیت سے لگادیے جاتے ہیں اور کوئی احساس بھی نہیں ہوتا ! تو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جو پیسہ بھی فضول خرچ کیا جائے گا آخرت میں اس کا حساب دینا پڑے گا ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تک پانچ باتوں کا سوال نہ ہوجائے، قیامت میں کسی شخص کے قدم اپنی جگہ سے ہل نہیں پائیں گے
١ سُنن ابوداود رقم الحدیث ٤٠١ و الترغیب والترھیب رقم الحدیث ٢٩١٦
(١) عمر کہاں لگائی ؟ (٢) جوانی کہاں گنوائی (٣) مال کہاں سے کمایا
(٤) مال کہاں خرچ کیا (٥) اور اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟ ١
اس لیے بالخصوص سرمایہ دار حضرات یہ نہ سمجھیں کہ ہم اپنے مال کے مالک ہیں ، چاہے جہاں خرچ کرلیں بلکہ اگر مال کو بے جا خرچ کیا جائے گا تو اللہ کے یہاں اس کا حساب دینا پڑے گا، یہ بات ہر وقت پیش ِ نظر رہنی چاہیے اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں ، آمین۔ (جاری ہے)
قارئین اَنوارِمدینہ کی خدمت میں اپیل
ماہنامہ انوارِ مدینہ کے ممبر حضرات جن کو مستقل طورپر رسالہ اِرسال کیا جارہا ہے لیکن عرصہ سے اُن کے واجبات موصول نہیں ہوئے اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ انوارِ مدینہ ایک دینی رسالہ ہے جو ایک دینی ادارہ سے وابستہ ہے اِس کا فائدہ طرفین کا فائدہ ہے اور اِس کا نقصان طرفین کا نقصان ہے اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اِس رسالہ کی سرپرستی فرماتے ہوئے اپنا چندہ بھی ارسال فرمادیں اوردیگر احباب کوبھی اِس کی خریداری کی طرف متوجہ فرمائیں تاکہ جہاں اس سے ادارہ کو فائدہ ہو وہاں آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ بن سکے۔(ادارہ)
١ سُنن ترمذی باب ماجاء فی شان الحساب والقصاص ج ٢ ص ٦٧
حضرت اُم ِکلثوم رضی اللہ عنہا کے مناقب
( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری )
حضرت سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری صاحبزادی حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں ان کا عُتَیْبَہ بِنْ اَبِیْ لَھَبْ سے نکاح ہوا تھا ابھی رُخصتی نہ ہونے پائی تھی کہ ماں باپ کے کہنے سے اُس نے حضرت اُم ِکلثوم رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی ! حضرت رُقیہ اور حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہما کو ایک ساتھ طلاق ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمنے حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان سے کردیا اور حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح اس کے بعد کسی سے نہیں کیا حتی کہ جب حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوگئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے حضرت اُم ِکلثوم رضی اللہ عنہا کا بھی نکاح فرمادیا، یہ نکاح مدینہ منورہ میں ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ شرفِ امتیازی حاصل ہے کہ ان کے نکاح میں یکے بعد دیگرے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیاں رہیں اسی لیے ان کو ذُوالنُّوْرَیْن (دو نور والے) کہتے ہیں ! ! !
ہجرت :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی تھی تو اپنے گھر والوں کو مکہ معظمہ ہی میں چھوڑگئے تھے اور آپ کے رفیق ِ خاص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا پھر مدینہ منورہ پہنچ کر دونوں حضرات نے آدمی بھیج کر اپنے اپنے کنبہ کو بلوالیا، قافلہ میں حضرت اُم ِکلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما بھی تھیں ۔ (الاستیعاب )
حضرت عثمانسے عقد :
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوگئی تھیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں ،ان کے شوہر حضرت خُنَیس بن حذافہ تھے، میدانِ جہاد میں ان کے زخم آگیا اسی کے اثر سے وفات پائی۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے لیے حضرت عمر فکر مند تھے، اُنہوں نے اس بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے تذکرہ کیا اور اِن سے کہا کہ میری لڑکی سے تم نکاح کرلو ! انہوں نے جواب دیا کہ سرِدست میرا اِرادہ نہیں ہے نیز حضرت عمر نے حضرت ابوبکر سے وہی بات کہی جو حضرت عثمان سے کہی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا تھا کہ آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمانے کا اِرادہ رکھتے ہیں ! ! !
جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ عمر نے اپنی صاحبزادی کا نکاح عثمان سے کرنا چاہا اور وہ خاموش ہوگئے تو آپ نے فرمایا کیا عثمان کے لیے ایسی عورت نہ بتادوں جو اُن کے لیے حفصہسے بہتر ہے اور کیا حفصہکے لیے ایسا شوہر نہ بتادوں جو اُن کے لیے عثمان سے بہتر ہے۔ یہ فرماکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو اپنے نکاح میں لے لیا اور حضرت اُم ِکلثومکا نکاح حضرت عثمان سے کردیا۔ (الاستیعاب)
حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوگئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو دیکھا کہ غمگین اور رنجیدہ ہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال فرمایا کہ میں تم کو رنجیدہ کیوں دیکھ رہا ہوں ؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کیا مجھ سے زیادہ کسی کو مصیبت پہنچی ہوگی ؟ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاحبزادی جو میرے نکاح میں تھی اُس کی وفات ہوگئی جس سے میری کمر ٹوٹ گئی ! اور میرا جو آپ سے رشتہ دامادی تھا وہ نہیں رہا ! یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عثمان ! لو یہ جبرئیل آئے ہیں اور اللہ کی طرف سے مجھ کو حکم دے رہے ہیں کہ تم سے تمہاری مُتَوَفّٰی بیوی کی بہن اُمِ کلثوم کا اُسی مہر پر نکاح کردُوں جو تمہاری بیوی کا تھا اور تم اس کو اِس طرح رکھو جس طرح خوشگواری کے ساتھ اس کی بہن کو رکھتے تھے ! یہ فرماکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا ! یہ نکاح ربیع الاوّل ٣ھ میں ہوا اور رُخصتی جمادی الثانی ٣ھ میں ہوئی حضرت اُم ِکلثوم رضی اللہ عنہ نے چھ برس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں رہ کر ملک ِبقا کا سفر اختیار کیا اور اِن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ (اُسد الغابہ )
وفات :
حضرت اُمِ کلثوم رضی اللہ عنہا نے ماہِ شعبان ٩ھ میں وفات پائی۔ حضرت اُم عطیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ِ عمیس رضی اللہ عنہما اور بعض دوسری صحابیات نے ان کو غسل دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جنازہ کی نماز پڑھائی !
حضرت لیلیٰ بنت قانف رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اُن عورتوں میں سے تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت اُم ِ کلثوم رضی اللہ عنہاکو غسل دیا،غسل کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کفن لے کر اِن کو ہم نے کفن دیا، کفن کے کپڑے آپ کے پاس تھے آپ دروازہ کے پاس سے ہم کو دیتے رہے دفن کے لیے جب جنازہ قبر کے قریب لایا گیا تو سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رات مباشرت نہ کی ہو ؟ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا ہوں ، آپ نے فرمایا تم قبر میں اُترجائو چنانچہ وہ قبر میں اُترے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر میں اُتارنے میں حضرت علی، حضرت فضل اور حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہم بھی شریک تھے۔ (الاستیعاب)
حضرت انس فرماتے ہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے اس وقت آنسو جاری تھے۔ (بخاری)
حضرت اُمِ کلثوم کی وفات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ'' اگر میری تیسری لڑکی (بے بیاہی)ہوتی تو میں اُس کا نکاح بھی عثمان سے کردیتا'' (اُسد الغابہ)
حضرت علی سے روایت ہے کہ (اس موقع پر) سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری چالیس لڑکیاں (بھی) ہوتیں تو یکے بعد دیگرے عثمان سے نکاح کرتا جاتا حتی کہ اُن میں ایک بھی باقی نہ رہتی۔ (اُسد الغابہ)
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا وَ اَرْضَاہَا
تربیت ِ اولاد قسط : ١
( اَز افادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی )
زیر ِنظر رسالہ '' تربیت ِ اولاد'' حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے افادات کا مرتب مجموعہ ہے جس میں عقل ونقل اور تجربہ کی روشنی میں اولاد کے ہونے ، نہ ہونے، ہوکر مرجانے اور حالت ِ حمل اور پیدائش سے لے کر زمانۂ بلوغ تک رُوحانی وجسمانی تعلیم وتربیت کے اسلامی طریقے اور شرعی احکام بتلائے گئے ہیں ! پیدائش کے بعد پیش آنے والے معاملات ، عقیقہ، ختنہ وغیرہ اُمور تفصیل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں ، مرد عورت کے لیے ماں باپ بننے سے پہلے اور اُس کے بعد اس کا مطالعہ اولاد کی صحیح رہنمائی کے لیے ان شاء اللہ مفید ہوگا۔اس کے مطابق عمل کرنے سے اَولاد نہ صرف دُنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگی بلکہ ذخیرہ ٔ آخرت بھی ثابت ہوگی ان شاء اللہ !
اللہ پاک زائد سے زا ئد مسلمانوں کو اِس سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
بچوں کی پرورش سے متعلق احادیث ِنبویہ
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورت اپنی حالت ِحمل سے لے کر بچہ جننے اور دُودھ چھڑانے تک فضیلت وثواب میں ایسی ہے جیسے اسلام کی راہ میں سرحد کی نگہبانی کرنے والا (جس میں ہر وقت وہ مجاہدہ کے لیے تیا ررہتا ہے) اوراگر (عورت)اس درمیان میں مرجائے تو اُس کو شہید کے برابر ثواب ملتا ہے !
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' جب عورت بچہ کو دُودھ پلاتی ہے تو ہر گھونٹ کے پلانے پر اُس کو ایسا اجر ملتا ہے جیسے کسی جاندار کو زندگی دے دی ! پھر وہ جب دُودھ چھڑاتی ہے تو فرشتہ اُس کے کندھے پر (شاباشی سے ہاتھ ) مارتا ہے اورکہتا ہے کہ پچھلے گناہ سب معاف ہو گئے ! اب آگے جو گناہ کا کام ہو گا وہ آئندہ لکھا جائے گا'' اور اِس سے مراد گناہِ صغیرہ ہیں ،مگر گناہِ صغیرہ کا معاف ہو جانا کیا تھوڑی بات ہے ! ( کسوة النساء ،بہشتی زیور ٤٦٧/٨)
لڑکیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت :
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی تین لڑکیاں ہوں اوروہ اُن کو علم و اَدب سکھلائے اوراُن کی پرورش کرے اور اُن پر مہربانی کرے، اُس کے لیے ضرور جنت واجب ہو جاتی ہے ۔( بخاری )
فائدہ : چونکہ اولاد سے طبعی محبت ہو تی ہے اس لیے اِس حق کے بیان کرنے میں شریعت نے زیادہ اہتمام نہیں فرمایا اورلڑکیوں کو چونکہ حقیر سمجھتے تھے اس لیے اُن کی تربیت کی فضیلت بیان فرمائی !
حمل ساقط ہوجانے اورزچہ بچہ کے مر جانے کی فضیلت :
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو عورت کنوارپَنے کی حالت میں یاحمل میں یا بچہ جننے کے وقت یا چلّے کے دنوں میں مرجائے اُس کو شہادت کا درجہ ملتا ہے ! (بہشتی زیور ٤٦٢/٨ )
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جوحمل گر جائے وہ بھی اپنی ماں کو گھیسٹ کر جنت میں لے جائے گا جبکہ ثواب سمجھ کر صبر کرے ! (بہشتی زیور ٤٦٢/٨)
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس عورت کے تین بچے مرجائیں اور وہ ثواب سمجھ کر صبر کرے تو جنت میں داخل ہوگی ! ایک عورت بولی یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)جس کے دو ہی بچے مرے ہوں ؟ آپ نے فرمایا دو کابھی یہی ثواب ہے ! ایک روایت میں ہے ایک صحابی نے ایک بچے کے مرنے کو پوچھا توآ پ نے اس میں بھی بڑا ثواب بتلایا ! (بہشتی زیور ٤٦٢/٨)
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے عورتوں سے ارشاد فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں (یعنی راضی ہونا چاہیے ) کہ جب تم میں کوئی اپنے شوہر سے حاملہ ہوتی ہے اور وہ شوہر اِس سے راضی ہو تو اُس کو ایسا ثواب ملتا ہے جیسا کہ اللہ کی راہ میں روزہ رکھنے والے اور شب بیداری کرنے والے کو ملتا ہے ! اور جب اس کو دردِ زہ ہوتا ہے توآسمان اور زمین کے رہنے والوں کو اُس کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت کا جو سامان مخفی رکھا گیا ہے اس کی خبر نہیں ! پھر جب وہ بچہ جنتی ہے تو اس کے دُودھ کا ایک گھونٹ بھی نہیں نکلتا اوراُس کی پستان سے ایک دفعہ بھی بچہ نہیں چوستا جس میں اُس کو ہر گھونٹ اورہر چوسنے پرایک نیکی نہ ملتی ہو (یعنی ہر مرتبہ نیکی ملتی ہے ) ! اوراگر بچہ کے سبب اُس کو رات کو جاگنا پڑے تو اُس کو راہِ خدا میں ستر غلاموں کے آزاد کرنے کا اَجر ملتا ہے ! (کنز العمال ۔بہشتی زیور ٤٦٤/٨) (باقی صفحہ٦٠ )
بیان ختم ِ بخاری شریف
( شیخ الحدیث مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم )
٢٠ رجب المرجب ١٤٤٤ ھ / ١٢ فروری ٢٠٢٣ م
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
وبالسند المتصل منا الی سید وُلْدِ آدَمَ وخاتم الانبیاء و الرسل
صلی اللّٰہ علیہ والہ وصحبہ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ تسلیما کثیرا کثیرا
حدثنا شیخنا السیِّدِ محمود میاں الحسینی عن ابیہ الشیخِ العالمِ الربَّانی السیِّدِ حامد میاں بن السید محمد میاں الحسینی الدیوبندی عن شیخِ العرب والعجمِ السید حسین احمد المدنی عن شیخِ الکلِ محمود حسن الدیوبندی عن حجة الاسلام و قاسمِ العلومِ والخیراتِ محمد قاسم النانوتوی ح و عن فقیہِ النفس وحامی السنة وماحی البدعة الشیخ رشید احمد الجَنْجُوہی عن العالمِ الجلیلِ والمدرس النَبِیل الشیخ عبدالغنی المجددیِّ عن وحیدِ اَقرانِہ وفریدِ اَوَانِہ الشیخ شاہ اسحاق الدھلویِّ عن جامعِ العلومِ والفنونِ الشیخ شاہ عبدالعزیز الدھلویِّ عن مَسندِ الھندِ والعارفِ الکبیرِ الشیخ الامام شاہ ولی اللّٰہ الدھلویِّ عنِ الشَّیخِ ابی طاھر محمد بن ابراھیمَ الکُردیِّ عن ابیہ الشیخ ابراھیم الکُردی عن احمدَ القُشَاشِییِّ عن احمدَ بنِ عبدالقدوس الشَنَّاوِیِّ عن محمد بن احمدَ الرَّمْلِیِّ عن زَینِ الدِّینِ زکریا الانصاریِ عن الحافظِ ابنِ حجرِ العسقلانِیِّ عن ابراھیمَ بنِ احمدَ التَنُوخِیِّ عن احمدَ بنِ ابی طالبِ الحَجَّارِ عن حسینِ بنِ المبارَکِ الزُبَیْدِیِّ عن اَبی الوقتِ السِّجْزِیِّ عن جمالِ الاسلامِ عبدِالرحمنِ الداودِیِّ عن عبدِ اللّٰہ بنِ احمدَ السَّرخسِییِّ عن محمدِ بن یوسفَ الفِرَبْرِیِّ عن امیرِ المومنین فی الحدیث وامامِ المسلمین فی صناعةِ التحدیثِ محمدِ بن اسماعیلَ البخاریِّ قال حدثنا احمدُ بنُ اشکابٍَ قال حدثنا محمدُ بنُ فضیلٍ عن عُمارةَ بنِ القعقاعِ عن ابی زُرعةَ عن ابی ھریرةَ رضی اللّٰہ عنہ و عنہم قال قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنْ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانْ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانْ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم ۔
نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ !
بخاری شریف کی آخری حدیث شریف آپ کے سامنے پڑھی گئی اور سند کے ساتھ پڑھی گئی ''سند'' کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جس طالب علم نے پڑھی ہے وہ اپنے اُستاد کا نام اس میں بیان کررہے ہیں اور آگے اُن کے اُستاد کا نام بیان کر رہے ہیں اور یہ اُستادی شاگردی کا سلسلہ آپ کی اسی مجلس میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بیان کیا ہے ! !
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کے عزیزواَقارب اور بچوں نے جس چیز کو اس مدرسہ میں حاصل کیا ہے یہ ایک بنیادی چیز کو سیکھا ہے کیونکہ جو ایک چھوٹی سی حدیث پڑھ کر سنائی انہوں نے ایک چھوٹا سا جملہ کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنْ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانْ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانْ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم یہ چھوٹا سا جملہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کو پڑھنے میں مجھے دس سیکنڈ لگے ہوں گے مشکل سے، لیکن اس چھوٹے سے جملے کے لیے پوری سند محفوظ ہے ، پوری سند یہاں سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ! اس قدر اللہ نے اس دین کو محفوظ فرما دیا اور اسے ایسا مستحکم اور مضبوط بنا دیا کہ دنیا کی ساری طاقتیں اسے ختم کرنے میں لگی ہوئی ہیں مدت سے اور آئندہ بھی لگی رہیں گی لیکن ان شاء اللہ وہ ناکام ہی ہوں گی ! !
یہ بہت بابرکت دین ہے ، بابرکت نظام ہے جس سے آپ کی اولادیں متعارف ہو رہی ہیں ، سیکھ رہی ہیں پھر اپنے اپنے علاقوں میں جاکر آپ کی آنے والی اگلی نسلوں کو یہ علوم پہنچاتی ہیں ! ! عیسائیوں کے پاس چھوٹی سی بات بیان کرنے کے لیے بھی سند نہیں ہے ! ؟ یہودیوں کے پاس بھی سند نہیں ہے ! ؟ مشرکین کے پاس بھی سند نہیں ہے ! ؟ کسی کے پا س بھی نہیں ہے ! جتنے باطل فرقے ہیں ، قادیانیوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ! ؟ جو بات ہے بلا سند ہے ! جو بات ہے بلا اصل ہے ! اسلام کے خلاف یہ سارے متفق اور متحد ہیں لیکن اس کے باوجود چونکہ اس کی بنیاد مستحکم ہے الحمدللہ اسے وہ نقصان نہیں پہنچا سکے ! ! !
تھوڑا بہت نقصان عالم اسلام اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اُٹھا رہا ہے مگر اس دین میں اس نظام میں کوئی خرابی نہیں ہے ، وہ ہمارے فسق وفجور اور ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہے !
ایک تلخ حقیقت :
وقت تھوڑا ہے اس وقت یہ بات خلاصةً عرض کروں گا آپ سب حضرات سے کہ یہ جو دور ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں یہ ہمارے عروج کا دور نہیں ہے ،یہ ہمارے زوال کا دور ہے ،تنزل اور پستی کا دور چل رہا ہے اس سے بھی بڑھ کر اگر دیکھا جائے تو ہمارے مسلمانوں کی ذلت اور رُسوائی کا دور چل رہا ہے ! اس وقت باطل مضبوط ہے وہ آپ پر حاوی ہے آپ ان کے محکوم ہیں ! وہ جو کہتے ہیں وہ کرنا پڑتا ہے ! طاقت نہیں ہے مسلمانوں میں ، عالم اسلام کی فوجیں ، عالمِ اسلام کے حکمران، ظالم حکمرانوں کے سامنے سر بسجود ہیں ان کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت ان میں نہیں ہے ! یہ طاقت تب تک نہیں آئے گی جب تک ہم دین کے ساتھ اپنے کو نہیں جوڑیں گے، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں واپس نہیں جائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور اور زمانہ سب سے مضبوط دور ہے جتنے اُس کے قریب فکری طور پر اور اپنے عمل کی وجہ سے جائیں گے عمل کے اعتبار سے اُتنی ہی ترقی ہوگی اور اُتنا ہی کفر پر غلبہ حاصل ہوگا اور کفر مغلوب ہوگا ! ! !
سفر ہجرت :
یہاں پر ایک واقعہ آپ کو سناؤں گا جو بخاری شریف میں ہی آتا ہے مختصر سی بات کرنی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے مکہ مکرمہ سے تو مدینہ منورہ میں اطلاع تھی کہ وہ روانہ ہوچکے ہیں اور کسی بھی وقت پہنچ سکتے ہیں ! متعین وقت تو بتانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ سفر ہی آپ کا خفیہ رکھا گیا تھا اُس میں خطرات تھے ! ورنہ اُس وقت بھی سفر کا وقت بتلا دیتے تھے کہ ہم فلاں دن تک پہنچ جائیں گے اور اندازے اُن کے صحیح ہوتے تھے ! لیکن یہاں حفاظتی نقطہ نظر سے بھی اس سفر کو راز میں رکھا گیا اور بہت احتیاط سے کام لیتے ہوئے یہ سفر کیا گیا اس لیے حتمی وقت معلوم نہیں تھا اندازے تھے ! ! !
مدینہ منورہ آمد :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہجرت کا جو سفر ہے اُس کے بارے میں یہ آتا ہے کہ نبی علیہ السلام کی جب مدینہ منورہ آمد کی خبر ہوئی وَسَمِعَ الْمُسْلِمُوْنَ بِالْمَدِیْنَةِ بِمَخْرَجِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ مَّکَّةَ کہ آپ مکہ سے روانہ ہوچکے ہیں ، یہ جب سنا فَکَانُوْا یَغْدُوْنَ کُلَّ غَدَاةٍ اِلٰی الْحَرَّةِ تو اہلِ مدینہ جو منتظر تھے جن میں صحابہ بھی تھے اور عام مسلمان بھی تھے جو صحابہ کے ساتھ وابستہ ہوچکے تھے اگرچہ بہت تھوڑی تعداد تھی مسلمانوں کی اور مہاجرین بھی تھے جو نبی علیہ السلام سے پہلے ہجرت کرکے پہنچ چکے تھے مدینہ منورہ میں ! ! تو اس میں آتا ہے کہ ہر روز صبح کو وہ حضرات ایک خاص جگہ پر پہنچ جاتے تھے جہاں سے نبی علیہ السلام نے تشریف لانا ہے آپ کے انتظار میں اور استقبال کے لیے کھڑے ہوتے تھے جیسے ریلوے اسٹیشن یا ہوائی اڈے پر آپ جاتے ہیں تووہاں کا وہ ریلوے اسٹیشن تھا، اڈا تھا اُس پر آتے تھے آنے والے تو وہاں یہ سب پہنچ جاتے تھے فَیَنْتَظِرُوْنَہ حَتّٰی یَرُدَّھُمْ حَرُّ الظَّہِیْرَةِ
انتظار کرتے رہتے کرتے رہتے حتی کہ گرمی کی شدت جب ہو جاتی اور آپ نہیں تشریف لاتے تو یہ حضرات واپس اپنے اپنے گھروں میں آجاتے ، آرام کرتے ، قیلولہ کرتے کیونکہ نبی علیہ السلام بھی اور عام طور پر سفر کرنے والا بھی اس وقت آرام کرتا ہے اس وقت پڑائو کرتا ہے قیلولہ کرلیتا ہے تو آنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں ! تو اسی طرح کئی دن گزر گئے اور جتنا وقت گزرتا اُن صحابہ کا اضطراب اور بے قراری بڑھ جاتی تھی ! فَانْقَلَبُوْا یَوْمًا بَعْدَ مَا اَطَالُوا انْتَظَارَھُمْ ایک دن جب بہت زیادہ انتظار کیا پھر آپ تشریف نہ لائے توپھر مایوس ہوکر کہ آج نہیں شاید کل تشریف لائیں ، سب واپس آگئے
فَلَمَّا اَوَوْا اِلٰی بُیُوْتِھِمْ جب اپنے گھروں میں سب آکے صحابہ کرام بیٹھ گئے کسی نے کھانا کھایا ہوگا کوئی لیٹ گیا ہوگاحدیث میں آتا ہے اَوْفٰی رَجُل مِّنْ یَھُوْدَ عَلٰی اَطُمٍ مِنْ اٰطَامِھِمْ لِاَمْرٍ یَنْظُرُ اِلَیْہِ تو وہاں کا یہودی ، یہودی بھی بہت رہتے تھے وہاں ، عیسائی اور مشرک بھی تھے ، مدینہ کی آبادی میں
صلحاء ، صلحاء کا کیسے استقبال کرتے ہیں :
تو ایک یہودی اپنے کسی کام سے اپنے قلعے پر چڑھا ، کوئی کام کوئی چیز تھی اُسے دیکھنے کے لیے چڑھا تو وہ دیکھ رہا تھا اور چرچا تھا نبی علیہ السلام کی تشریف آوری کا، ہر ایک کو پتا تھا کفار کو بھی پتا تھا کہ ان کے بڑے آنے ہیں ان کے بزرگ جو ہیں وہ آرہے ہیں فَبَصُرَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ وَ اَصْحَابِہ مُبَیِّضِیْنَ تو اُس کی نظر پڑی دُور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ جو آپ کے رُفقاء تھے اُن پر کہ وہ سفید سفید کپڑوں میں کوئی دُور سے چلا آرہا ہے ؟ ! پہچان تو نہیں سکتا تھا لیکن اتنا سمجھ گیا کہ ہیں اجنبی نئے لوگ ، طور طریقہ ہر چیز سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور اُسے معلوم بھی تھا کہ یہ انتظار میں ہیں اور وہ سب جا چکے تھے تو اس کی جب نظر پڑی تو کہتے ہیں یہاں پر کہ یہودی کو اپنے پر قابو نہیں رہا وہیں سے اُس نے بہت زور سے چیخ کر کہا مسلمانوں کو یَا مَعَاشِرَ الْعَرَبِ ھٰذَا جَدُّکُمُ الَّذِیْ تَنْتَظِرُوْنَ
یہ تمہارے بزرگ جن کا تم انتظار کر رہے تھے وہ آرہے ہیں وہ آگئے ہیں ! ! اب یہ آواز گھروں میں پہنچی اور گھروں سے دوسرے گھروں میں گئی ، سب کو گئی، صحابہ کرام آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے تھے ، تو یہاں آرہا ہے اس میں کہ جب یہ آواز پہنچی ہے تو فَثَارَ الْمُسْلِمُوْنَ اِلَی السَّلَاحِ ١ تو مسلمان ایک دم اُٹھے اور اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکے ، ہتھیار اُٹھائے فوراً تلواریں اُٹھائیں ، تیر اُٹھائے ، ڈھال اُٹھائی اور جو ترکش تھے وہ اُٹھائے اور اُٹھا کر وہ نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے دیوانہ وار وہاں پہنچے ! ! !
اس حدیث میں صلحاء کا نقشہ پیش کیا گیا کہ صلحاء زندگی کیسے گزارتے ہیں ؟ اُن کے شب وروز کیسے ہوتے ہیں ؟ اس لیے میں نے آپ حضرات کے سامنے یہ حدیث پیش کی کہ صحابہ سے بڑھ کر کوئی صالح نہیں ہے بھائی ، ان سے بڑھ کرنہ کوئی درویش ، نہ کوئی بزرگ ، وہ قطبوں کے بھی سردار، وہ غوثوں کے بھی سردار ، وہ پیروں کے بھی سردار ، علماء کے بھی سردار ، محدثین کے بھی سردار اور فقہاء کے بھی سردار ! تو اُن کا طرز یہ تھا کہ اپنے ساتھ ہتھیار ہر وقت رکھتے تھے مسلح رہتے تھے ! اور اس کے بعد
١ صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار رقم الحدیث ٣٩٠٦
صحابہ گئے اور ان ہتھیاروں کے ساتھ گھیر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں آپ کو لے کر آئے ! ! !
ہتھیار اور مسجد :
حدیث میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں تشریف لائے وہاں پر ٹھہرتے ہی آپ نے سب سے پہلے مسجد بنائی مسجد کی بنیاد رکھی ! ! ! تو اس سے کیا پتا چل رہا ہے کہ ماحول صلحاء کا کیا ہوتا ہے ؟ کہ ہتھیار اُٹھانے ہیں لیکن مسجد سے جڑنا ہے ! اور اللہ کی عبادت کرنی ہے !
سب سے پہلے مسجد کیوں ؟
تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی بنیاد رکھی کیونکہ آپ تو عالمی لیڈر تھے اور قائد تھے تو دفتر کی ضرورت تھی اور مسجد مرکز ہوتا ہے ساری چیزوں کا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ہی میں زندگی گزاری اور مسجد سے ملے ہوئے آپ کے حجرے تھے اور تمام لوگوں کی آمدورفت اور ملاقات اور لشکروں کی ترتیب اور مسائل کا بیان کرنا ، سیاسی اُمور اَنجام دینا ، وفود سے گفتگو کرنا، سیاسی گفتگو ، تجارتی گفتگو ، وفود تشکیل دینا اور روانہ کرنا یہ سارے کا سارا سیکریٹریٹ ہی میں ہوتا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا مسجد میں تو صلحاء کا یہ ہے ماحول جو حدیث میں پیش کیا گیا ! !
تو معلوم ہوا کہ اب ہم صلحاء سے دُور ہوگئے اب ہم جہاد سے بھی دُور ہوگئے ہم مسجد سے بھی دُور ہوگئے ! مسجد سے جڑنے کا مطلب صرف نماز نہیں ہے کہ نماز پڑھ لی پانچ وقت کی، نبی علیہ الصلٰوة والسلام تمام اُمور وہاں انجام دیتے تھے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے کو واپس صلحاء کے طریقے کے ساتھ جوڑیں ، خود اِسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو جہاد کی تربیت دیں ! ! !
جہاد اور جنگ کا فرق ؟
جنگ اور جہاد میں فرق ہوتا ہے ! جنگ نام ہے تخریب کاری کا ! جہاد نام ہے امن کو قائم کرنے کا ! اور کلمہ حق کو بلند کرنے کا ! ظالم کو روکنے کا ظلم سے ! اور مظلوم کی مدد کرنے کا ! یہ ہے جہاد ! !
اور جنگ جو ہوتی ہے وہ تو تخریب ہے سارا عالمِ کفر جو ہے وہ جنگ کرتا ہے وہ جہاد نہیں کرتا ہے ! ! جہاد تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اَنبیاء علیہم السلام کرتے رہے ہیں ! ! ! اسی وجہ سے یہ جہاد کے لفظ سے ڈرتے ہیں ! کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جب جہاد بلند ہوتا ہے تو ظالم کی کمر ٹوٹ جاتی ہے ! اور مظلوم کی مدد ہوتی ہے اور اس سے ان کا سارا ظالمانہ نظام تباہ وبرباد ہوتا ہے !
تو بھائی اس سے جڑنے کی ضرورت ہے اس وقت ہم میں فسق وفجور عام ہوچکا ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک طالب علم نے کہا یہیں پڑھتا ہے کہ حضرت امام مہدیعلیہ السلام سے خواب میں ملاقات کی نامعلوم جگہ پر اور بات ہوئی تفصیلی، سنایا تھا اُس نے کہ وہ بہت پریشان تھے امام مہدی علیہ السلام ! بلکہ شاید غضب ناک تھے ! اور فرما رہے تھے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ؟ یہ عمل نہیں کرتے ، بدعمل ہیں اور سب داڑھی منڈا رہے ہیں داڑھی کا خاص طور پر ذکر کیا انہوں نے کہ داڑھی منڈاتے ہیں ! ! !
تو اس نے ان سے پوچھا کہ یہ جو میری داڑھی ہے یہ جو ہم اس کو تھوڑا تھوڑا اِدھر سے کاٹتے ہیں ؟ توفرماتے ہیں کہ یہ بھی غلط ہے ، اور بعد میں کچھ جہاد شروع ہوا وہ بھی اس نے دیکھا یہ جو دور آرہا ہے یہ ہمارے کمربستہ ہونے کا دور ہے غفلت سے نکلنے کا دور ہے عمل کی طرف آنے کا دور ہے ! !
حضرت والد ماجد کا مُکاشفہ پر مشتمل ایک خط :
اس موقع پر آپ کو میں حضرت والد صاحب رحمة اللہ علیہ کا ایک خط بھی سنانا چاہتا ہوں تاکہ اس طرف بھی توجہ ہو، یہ خط حضرت رحمة اللہ علیہ کا ایک کشف ہے اس کشف کو حضرت نے اس میں تحریر فرمایا ہے یہ ہمارے جامعہ مدنیہ جدید کے وٹس ایپ گروپ میں بھی آیا ہے ! انوارِ مدینہ میں بھی یہ پہلے چھپ چکا ہے ١ اور ہمارے وٹس ایپ کے مجموعہ میں بھی، میرے بڑے بھائی حضرت مولانا رشید میاں صاحب مدظلہم العالی کااس پر کچھ بیان بھی ہے پانچ سات منٹ کا وہ بھی ہم نے اس پر ڈالا ہوا ہے !
تواس میں ١٥ ذیقعدہ ١٣٩٥ھ مطابق ١٩٧٥ء کو حضرت رحمة اللہ علیہ ایک صاحب کو جو حج کے لیے تشریف لے جا رہے تھے خط لکھا اس میں حضرت لکھتے ہیں :
١ ماہنامہ انوارِ مدینہ جون ٢٠٢٠ئ
محترمی و مکرمی ادام اللّٰہ معالیکم السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ
گرامی نامہ شرف صدور لایا اللہ تعالیٰ آپ کو بصحت رکھے اور بسہولت سفر پورا کرائے اور اپنی بارگاہ میں قبولیت سے نوازے !
یہ عریضہ درخواست ِدعا کے لیے ہے ۔ زمانہ کی بے چینی سے اندازہ ہوتاہے کہ شاید نزولِ عیسیٰ علیہ السلام پچاس ساٹھ سال کے اندر ہوجائے اس لیے اللہ تعالیٰ سے مقاماتِ مقدسہ اور اوقات ِاجابہ میں اپنے اور میرے لیے اور اپنی اولادوں کے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اتنی عمر نصیب فرمائے کہ ہم بحالت ِصحت اور قوت سیّدنا عیسٰی علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوة والسلام کی زیارت سے مشرف ہوں اور سعادت مندی کے ساتھ مشرف ہوں اور حسن خاتمہ نصیب ہو !
وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز ۔
( ٢) والد ماجد رحمہُ اللّٰہ تعالٰی کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا فرماتے رہیں ان کے لیے طواف بھی فرمائیں ! ١
(٣) روضہ اقدس پر صلاة و سلام میں یاد فرماتے رہیں !
(٤) خط وکتابت کے لیے اپنے پتہ سے بھی مطلع فرمائیں !
نوٹ بک ہوتو یہ چیزیں نوٹ فرمالیں !
والسلام
حامد میاں
١٥ ذیقعدہ ١٣٩٥ھ / ٢٠ نومبر ١٩٧٥ء
١ اس سے تقریباً ایک مہینہ پہلے ١٦ شوال ١٣٩٥ھ/٢٢ اکتوبر ١٩٧٥ء میں دادا جان رحمة اللہ علیہ کی دہلی میں وفات ہوئی تھی اس لیے ان کا بھی حضرت نے لکھا ہے کہ اُن کے لیے بھی دعائے مغفرت کیجئے ۔ محمود میاں غفرلہ
یہ حضرت رحمة اللہ علیہ کا اُس وقت کا خط ہے اب یہ خط ١٩٧٥ ء میں اور آج کتنے سال ہوگئے بھائی ؟ یہ سنتالیس اڑتالیس سال ہوگئے ہیں ۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ یہ حضرت والد ماجد رحمة اللہ علیہ کا مُکَاشِفَہ ہے ! آپ اسی جامعہ کے بانی بھی ہیں ! اللہ تعالیٰ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے !
ایک خواب :
١٩٨٢ء ، ١٩٨٣ء میں حضرت والد صاحب نے خواب دیکھا کہ جیسے آج حضرت امام مہدی علیہ السلام کی پیدائش ہو گئی ہے تو حضرت اُٹھے اور بتلایا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان آج پیداہوگئے ! تو ١٩٨٤ء سے اگر آپ اندازہ کریں گے تو بھی پچاس سال ہونے والے ہیں ! اور پچاس ساٹھ سال اس میں بھی لکھ رہے ہیں حضرت رحمة اللہ علیہ ! ! !
افریقہ کے ایک صاحب کا عجیب قصہ :
اچھا اُسی زمانہ میں ایک طالب علم تھے جو برما کے تھے مولانا نور محمد صاحب برمی ہمارے جامعہ کے فاضل تھے افریقہ کے ملک مارشس میں ان کا جانا آنا تھا وہاں ان کے ایک میزبان تھے انہوں نے یہ بات مولانا رشید میاں صاحب کو بتائی ، میری اُن سے ملاقات نہیں ہوئی، مارشس میں ان کے میزبان ان سے کہنے لگے کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ جیسے حرم شریف میں حضرت امام مہدی علیہ الرضوان چھوٹے سے بچے ہیں اور ان کے والد صاحب ان کے ساتھ ہیں دونوں کو میں نے خواب میں دیکھا ! ! اس کے بعد ان کے میزبان کا حج یا عمرہ پر جانا ہوا وہ کہتے ہیں جب میں وہاں گیا تو یہ یاد نہیں کہ حرمِ مکی تھا یا حرمِ مدنی جو بھی تھا وہاں میں نے دیکھا ایک صاحب کو اُن کے ساتھ ایک بچہ ہے اور مجھے وہ خواب یاد آگیا اور بعینہ وہی شکل وصورت والد کی اور وہی بچے کی ! وہ وہاں موجود تھے تو کہنے لگے میں بہت حیران ہوا کہ بالکل وہی شکلیں جو مجھے خواب میں دکھائی دیں یہ باپ بیٹا وہی ہیں ! پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ میں آگے بڑھوں اور اِن سے مصافحہ کروں لیکن جب ارادہ کیا تو ایسی ہیبت طاری ہوئی مجھ پر کہ مجھ میں آگے بڑھنے کی جسارت نہیں ہوسکی ! اتنی دیر میں وہ تشریف لے گئے دونوں باپ بیٹے !
حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کے لیے تلوار :
اسی طرح دارُالعلوم دیوبند کے مہتمم تھے غالباً حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ اُن کا اسمِ گرامی تھا ، یہ بہت صالح بڑے پاکیزہ تھے یہ حج پر تشریف لے گئے بہت عرصہ پہلے ، تو قرآنِ پاک بھی لے گئے اور ایک تلوار بھی لے گئے ساتھ ! ! اور وہاں کلیدبردار ہیں بیت اللہ کے متولی جو نبی علیہ السلام کے زمانہ سے خاندان چلا آرہا ہے انہیں مصحف بھی دیا اور تلوار بھی دی کہ آپ حضرات کی عیسٰی علیہ السلام سے ملاقات ہوگی کیونکہ آپ کا خاندان متولی چلا آرہا ہے تو میری طرف سے یہ تلوار اُن کی خدمت میں آپ پیش کردیں تاکہ وہ جو جہاد قائم کریں گے اُس میں ہمارا حصہ ہوجائے ! !
تو یہ دور فتنے کا چل رہا ہے اور اس فتنے کے دور میں ایمان پر حملہ ہوگا ! آپ کے پیسے پر، مال جائیداد پر نہیں بلکہ سب سے بڑا حملہ اِیمان پر کیا جائے گا ! اپنے ایمان کو بچانے کی فکر اُمت کو کرنی چاہیے ! اللہ تعالیٰ توفیق دے عمل کی بھی اور جو کوتاہیاں ہیں اُن کو دُور کرنے کی بھی اور ہم میں آپس کا اتفاق اور اِتحاد عطاء فرمائے ! وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
جامعہ مدنیہ جدید کے فوری توجہ طلب ترجیحی اُمور
(١) مسجد حامد کی تکمیل
(٢) طلباء کے لیے دارُالاقامہ (ہوسٹل) اور دَرسگاہیں
(٣) کتب خانہ اور کتابیں
(٤) پانی کی ٹنکی
ثواب جاریہ کے لیے سبقت لینے والوں کے لیے زیادہ اجر ہے ۔ (اِدارہ)
دستارِ فضیلت حاصل کرنے والے جامعہ کے طالب علم
مولانا منصف زمان کا عربی میں خطاب
بِسْمَ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ رَسُوْلِہ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ اَمَّا بَعْدُ اَوَّلاً اُبَادِلَکُمْ بِتَحَیَّةِ الْاِسْلَامِ
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ !
ثَانِیًا أَتَقَدَّمُ لِلْجَمِیْعِ خَاصَّةً الْقَائِمِیْنَ عَلیٰ ھَذَا الْبَرْنَامِجِ شُکْرَالْجَزِیْلِ ، اَللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ ، یَسْتَعْمِلُ الضَّعِیْفَ فِیْ مِیْدَانٍ عَظِیْمٍ وَفِیْ صَاحَةِ عَظِیْمَةٍ مَعَ رُغْمِ ضُعْفِہ وَھٰذَا دَلِیْلُہُ عَلیٰ قُدْرَتِہ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ فَلِذَا أَسَأَلُ اللّّٰہَ اَنْ یَّسْتَعْمِلَنَا فِیْ مَرْضِیَّاتہ وَمَحَاسِنِہ وَأَسْأَلُ اللّٰہَ اَنْ یَّسْتَعْمِلَنَا فِیْ خِدْمَةِ الدِّیْنِ وَنَفْعِ الْمُسْلِمِیْنَ وَفِیْ بَعْضِ الْاَوْقَاتِ۔
اَللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ یَسْتَعْمِلُ الْعَبْدَ وَلَمْ یَکُنْ رَاضٍ عَنْہ وَھٰذِہِ الْحَقِیْقَةُ خَسَارَة عَظِیْمَة جِدًّا وَالْآنْ أتِیْ اِلٰی مَوْضُوْعِی ، اللُّغَةُ الْعَرَبِیَّةُِ لُغَةُ قُرْآنِنَا وَلُغَةُ کِتَابِنَا وَلُغَةُ اِسْلَامِنَا وَلُغَةُ نَبِیِّنَا فَلِمَا ذَا لَا نَتَعَلَّمُھَا وَلِمَاذَا نَسْتَحْیِیْ بِتَعَلُّمِھَا ثُمَّ کَیْفَ نُوَاجِہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عِنْدَ الْحَوْضِ وَنَقُوْلُ لَہ اَلْیَوْمَ تَشْفَعُ لَنَا فَلَا نَسْتَحْیِیْ مِنْہُ فِیْ ذَاکَ الْوَقْتِ ۔
اَلنَّاسُ یَتَعَلَّمَوْنَ اللُّغَةَ اِنْجِلِیْزِیَّةَ وَیَفْتَخِرُوْنَ بِھَا وَیَتَکَلَّمَوْنَ بِھَا وَأَمَّا نَحْنُ أَعْنِیْ اَلْعُلَمَائَ وَالطُّلَّابَ اَوَّلاً لاَ یَتَعَلَّمُوْنَھَا وَعِنْدَ مَا یَتَعَلَّمُوْنَ ثُمَّ نَسْتَحْیِیْ مِنَ النَّاسِ اَنْ نَتَکَلَّمَ بِھَا ، وَاللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی رَبَطَنَا رَبْطًا مُوْسِدًا مَتِیْناً وَثِیْقًا بِھَذِہ وَاللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ جَعَلَ عِبَادَتَنَا فِی الْعَرَبِیِّةِ ، نُصَلِّیْ فِی الْعَرَبِیَّةِ ، نَذْکُرَاللّٰہَ فِی الْعَرَبِیَّةِ ۔
نَرْفَعُ الْاذَانَ فِی الْعَرَبِیَّةِ۔ سَوَائ نَکُوْنُ فِیْ سَرْحَدٍ اَمْ نَکُوْنُ فِیْ بَنْجَابِ اَمْ فِیْ أَنْحَائِ الدُّنْیَا۔
لٰکِنْ یُرْفَعُ الْاذَانَ بِالْعَرَبِیَّةِ فَلِمَاذَا لَا نَتَعَلُّمَھَا یَا اَوْلَادَ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَنَا تَعَلَّمْتُ ھٰذِہِ اللُّغَةَ اَیْضًا لِوَجْھَیْنِ الَّذَیْنَ کَتَبَ الشَّیْخُ مُفْتِیْ أَبُوْلُبَابَہ فِیْ کِتَابِہ۔ اَلشَّیْخُ یَکْتُبُ فَعَلٰی کُلِّ اَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ أَنْ یَّتَعَلَّمَ اللُّغَتَیْنِ ۔

اَللُّغَةُ الْاُوْلیٰ '' اَللُّغَةُ الْبُشْتَوِیَة '' وَاللُّغَةُ الْاُخْرٰی '' اَللُّغَةُ الْعَرَبِیَّةُ '' وَالشَّیْخُ یَکْتُبُ وَجْھَھُمَا اَیْضًا عَنْدَ مَایَظْھُرَ اِمَامُ الْمَھْدِیْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ زَمَانِنَا۔ فَالْمُسْلِمُوْنَ یَذْھَبُوْنَ اِلیٰ خُرَاسَانَ وَعُلَمَأُھُمْ یُتَرْجِمُوْنَ أَقْوَامَہُمْ بِلُغَةِ الْبُشْتَوِیَّةِ وَعِنْدَمَا یَعْبُرُوْنَ خُرَاسَانَ وَیَدْخُلُوْنَ بِلَادَ الْعَرَبِ ، فَعُلَمَائُھُمْ یُتَرْجِمُوْنَ أَقْوَامَھُمْ بِلُغَةِ الْعَرَبِیَّةِ۔
وَأَنَا تَعَلَّمْتُ ھَذِہِ اللُّغَةَ لِوَجْہٍ اٰخَرَ اَیْضًا أَنَا مِنْ بِشَاوَرٍ وَبَعْضُ أَصْدِقَائِیْ مِنْ وَھَابِیِّیْنَ وَھَؤُلَائِ کَانُوْا یَتَکَلَّمَوْنَ مَعِیْ بِاللُّغَةِ الْعَرَبِیَّةِ مَاکُنْتُ أَسْتَطِیْعُ اَنْ أَتَکَلَّمَ مَعَ ھَؤُلَائِ بِھَا ھَؤُلَائِ أَسْکَتُوْنِیْ وَخَجَّلُوْنِیْ فِیْ بَعْضِ الْاَوْقَاتِ أَمَامَ النَّاسِ عِنْدَمَا ذَھَبْتُ اِلٰی کَرَاتَشِیْ وَتَعَلَّمْتُھَا بِقَدْرِ مَااسْتَطَعْتُ عِنْدَ الشَّیْخِ مُوْسٰی حَفِظَہُ اللّٰہُ ۔
وَجِئْتُ اِلٰی لَاھَوْرِ وَاتَّصَلْتُ بِأَحَدِ أصْدِقَائِیْ وَقُلْتُ لَہ یَاأَخِیْ اَلْیَوْمَ نُبَاحِثُ بِاللُّغَةِ الْعَرَبِیَّةِ وَنُنَاقِشُ وَفَھِمَنِیْ وَھُوَ قَالَ لِیْ بَعْدَالْیَوْمِ تَرَکْنَا الْمُبَحَاثَآتِ الْمُشَاجَرَاتِ الْمُنَاقَشَاتِ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ أسْکَتُّھُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَوْقَاتِ وَاَدْعُوْکُمْ اِلَیْھَا اَنْ تَعَلَّمُوْھَا وَأُرَغِّبُکُمْ لِتَعَلُّمِ ھَذِہِ اللُّغَةِ فَمَنْ یُرِیْدُ مِنْکُمْ۔
فَعَلَیْہِ أَنْ یَّذْھَبَ اِلٰی کَرَاتَشِیْ عِنْدَالشَّیْخِ مُوْسٰی حَفِظَہُ اللّٰہُ یَتَعَلَّمُ وَمَنْ یُّرِیْدُ اَنْ یَّفْھَمَ رُمُوْزَ الْقُرْآنِ وَأَسْرَارَ الْکِتَابِ فَعَلَیْہِ اَنْ یَّتَعَلَّمَ وَلَا أَسْتَطِیْعُ أَنْ أَخْطُبَکُمْ مَزِیْدًا۔ أَلْیَوْمَ أَنَا مَرِیْض وَأَفْرَحُ اَیْضًا وَأَخْزَنُ اَیْضًا کَمَا اَنْتُمْ تَعْرِفُنَنِیْ جَیِّدًا فِیْ الْأَخِیْرِ اَسْأَلُ اللّٰہَ اَنْ یَّجْزِیَنَا أَحْسَنَ الْجَزَائِ فِی الدَّارَیْنِ ۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
شیخ المشائخ محدثِ کبیر حضرت اقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کے سلسلہ وار مطبوعہ مضامین جامعہ مدنیہ جدید کی ویب سائٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں
www.jamiamadniajadeed.org/maqalat
فضیلت کی راتیں قسط : ٣
( حضرت مولانا نعیم الدین صاحب ،اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ لاہور )
لَیْلَةُ الْقَدْر :
ماہِ رمضان المبارک جو انتہائی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے اس میں ایک رات آتی ہے جسے '' لَیْلَةُ الْقَدْر '' کہتے ہیں ، یہ رات بڑی عظمت و بزرگی اور خیرات و برکات والی رات ہے ! اسی رات میں قرآنِ مجیدنازل ہوا اور اسی رات میں آسمان سے زمین پر فرشتے اُترتے ہیں ! اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے، کتاب و سنت میں اس کی بڑی فضیلت ذکر کی گئی ہے ، اسے اگر'' سَیِّدُ اللَّیَالِیْ '' تمام راتوں کی سردار کہا جائے تو بجا ہے !
لَیْلَةُ الْقَدْر اُمت ِ محمدیہ کو عطا ہوئی ہے پہلی اُمتوں کو نہیں ملی :
جمہور علماء ِ اُمت کا موقف یہ ہے کہ '' لَیْلَةُ الْقَدْر '' اُمت ِ محمدیہ کے ساتھ خاص ہے کسی اور اُمت کو یہ رات عطا نہیں کی گئی، حدیث شریف سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ وَھَبَ لِاُمَّتِیْ لَیْلَةَ الْقَدْرِ لَمْ یُعْطِھَا مَنْ کَانَ قَبْلَھُمْ۔ ١
''بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے لَیْلَةُ الْقَدْر میری اُمت ہی کوعطا کی ہے ان سے پہلے کسی اُمت کو یہ نہیں ملی ''
اس اُمت کو لَیْلَةُ الْقَدْر ملنے کا کیا سبب ہوا ؟
اس اُمت کو یہ مبارک شب کیوں عطا ہوئی ؟ مفسرین نے اس سلسلہ میں بہت سے واقعات ذکر فرمائے ہیں ہم اُن میں سے چند ایک ذکر کرتے ہیں :
١ الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ج ٦ ص ٣٧١ ، کنزالعمال ج ٨ ص ٥٣٦
مَالِک اَنَّہ سَمِعَ مَنْ یَّثِقُ بِہ مِنْ اَھْلِ الْعِلْمِ یَقُوْلُ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اُرٰی اَعْمَارَ النَّاسِ قَبْلَہ اَوْ مَاشَائَ اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ فَکَاَنَّہ تَقَاصَرَ اَعْمَارَ اُمَّتِہ عَنْ اَنْ لَّا یَبْلُغُوْا مِنَ الْعَمَلِ مِثْلَ الَّذِیْ بَلَغَ غَیْرُھُمْ فِیْ طُوْلِ الْعُمْرِ فَاَعْطَائُ اللّٰہُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ۔ ( موطا امام مالک ص ٢٦٠ )
''حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے ایک ثقہ و معتبر عالم سے یہ بات سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگلے لوگوں کی عمریں بتلائی گئیں جتنا اللہ کو منظور تھا تو آپ نے اپنی اُمت کی عمروں کو کم سمجھا اور یہ خیال کیا کہ میری اُمت کے لوگ (اتنی سی عمر میں ) ان کے برابر عمل نہ کر سکیں گے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لَیْلَةُ الْقَدْر عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہترہے ''
لَیْلَةُ الْقَدْر کی فضیلت :
لَیْلَةُ الْقَدْر کی فضیلت کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآنِ پاک میں پوری ایک سورت اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے جسے'' سُورة القدر'' کہتے ہیں حصولِ برکت کے لیے وہ سورت ذکر کی جاتی ہے :
( اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۔ وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ۔ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ۔ تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلَام قف ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ )
''بیشک ہم نے قرآن (پاک) کو شب ِ قدر میں اُتارا ہے، آپ کو معلوم ہے کہ شب ِ قدر کیسی چیز ہے ؟ شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،اس رات میں فرشتے اور روح القدس اپنے پروردگار کے حکم سے ہراَ مرِخیر کولے کر اُترتے ہیں (وہ شب) سراپا سلام ہے، وہ شب ِ قدر طلوعِ فجر تک رہتی ہے''
یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے اس میں پانچ آیات ہیں اور یہ تیس کلمات اور ایک سو اِکیس حروف پر مشتمل ہے، اس سورت میں '' لَیْلَةُ الْقَدْر'' کی چار خصوصیات ذکر کی گئی ہیں
(١) اس رات میں قرآن نازل ہوا (٢) اس رات میں فرشتے اُترتے ہیں (٣) یہ رات ہزار مہینوں سے افضل و بہتر ہے (٤) اس رات میں صبح صادق تک خیر و برکت امن و سلامتی کی بارش ہوتی رہتی ہے ان خصوصیات کی کچھ مختصر تفصیل ذکر کی جاتی ہے۔
لَیْلَةُ الْقَدْر میں قرآنِ پاک کا نزول :
اس رات میں نزولِ قرآن سے جو اِسے اہمیت حاصل ہوئی ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے اگر اس کی اور کچھ خصوصیات نہ بھی ہوتیں تو اس کی فضیلت کے لیے یہی ایک خصوصیت کافی تھی ! !
لَیْلَةُ الْقَدْر میں فرشتوں کا نزول :
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا کَانَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامِ فِیْ کُبْکُبَةٍ مِنَ الْمَلٰئِکَةِ یُصَلُّوْنَ عَلٰی کُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ اَوْ قَاعِدٍ یَذْکُرُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فَاِذَا کَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِھِمْ بَاھٰی بِھِمْ مَلٰئِکَتَہ فَقَالَ : یَا مَلٰئِکَتِیْ مَاجَزَائُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہ قَالُوْا: رَبَّنَا جَزَاؤُہ اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہ قَالَ :
یَا مَلٰئِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَ اِمَائِیْ قَضَوْا فَرِیْضَتِیْ عَلَیْھِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَیَّ بِالدُّعَائِ وَعِزَّتِیْ َوجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَعُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّھُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ وَبَدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ : فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُورًا لَّھُمْ ١
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب شب ِ قدر ہوتی ہے تو جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور ہر اُس بندے کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا اللہ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے ! اور جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو حق تعالیٰ جل شانہ اپنے فرشتوں کے سامنے بندہ کی عبادت پر فخر فرماتے ہیں

١ شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٤٣ ، مشکوة المصابیح ص ١٨٢
(اس لیے کہ انہوں نے آدمیوں پر طعن کیا تھا) اور ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اے فرشتو ! اُس مزدور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کردے کیا بدلہ ہے ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اُجرت پوری دے دی جائے ! تو اِرشاد ہوتا ہے کہ فرشتو میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فریضہ کو پورا کردیا پھر دعا کے ساتھ چلاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) نکلے ہیں ، میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم میری بخشش کی قسم میرے علو ِ شان کی قسم میرے بلندیِ مرتبہ کی قسم میں اِن لوگوں کی دعا ضرور قبول کروں گا پھر اِن لوگوں کو خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جاؤ تمہارے گناہ معاف کردیے ہیں اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے ! پس یہ لوگ عیدگاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ اِن کے گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں ''
اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں شب ِ قدر کے اندر فرشتوں کے زمین پر اُترنے کے بارے میں تفصیل آئی ہے بعض احادیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ جبریل علیہ السلام اس شب میں عبادت کرنے والوں سے مصافحہ کرتے ہیں جس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں دل میں رِقت پیداہوجاتی ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں !
لَیْلَةُ الْقَدْر میں صبح صادق تک خیرو برکت اور امن و سلامتی کا ہونا :
اللہ تعالیٰ نے لَیْلَةُ الْقَدْر کے بارے میں فرمایا ہے سَلَام وہ شب سراپا سلام ہے، اس کے مفسرین نے بہت سے مطلب بیان کیے ہیں :
٭ ایک یہ کہ فرشتے ابتدائِ رات سے لے کر صبح صادق تک فوج دَر فوج آسمان سے زمین پر اُترتے رہتے ہیں اور شب بیداروں اور عبادت گزاروں کوسلام کرتے ہیں ! یہ مطلب حضرت امام شعبی نے بیان فرمایا ہے، فرشتوں کے سلام کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس میں اُمت ِمحمدیہ کی بڑی فضیلت کااظہار ہوتا ہے کیونکہ پہلے فرشتے صرف انبیاء پراُ ترتے تھے وحی لے کر اور اب اُمت ِ محمدیہ پر اُترتے ہیں سلام و دعا کرنے کے لیے !
٭ دوسرا یہ کہ یہ رات شرور وآفات سے محفوط و سلامت رہتی ہے فرشتے اس میں خیرات وبرکات اور سعادتیں لے کر اُترتے ہیں کسی تکلیف دہ چیز کو لے کرنہیں اُترتے !
٭ تیسرا یہ کہ یہ رات تیز آندھیوں ، بجلیوں اور کڑک سے سلامتی والی ہے یعنی یہ چیزیں اس میں نہیں ہوتیں ! یہ مطلب ابو مسلم نے بیان فرمایا ہے
٭ چوتھا یہ کہ یہ رات شیطان کے شر سے سلامت ہے یعنی اس رات شیطان کسی قسم کی برائی اور ایذرسانی نہیں کر سکتا ! یہ مطلب حضرت مجاہد تابعینے بیان فرمایا ہے ١
لَیْلَةُ الْقَدْر میں عبادت کرنے سے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں :
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ اَنَّہ سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ لَیْلَةَ الْقَدْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ رَمَضَانَ فَالْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِالْاَوَاخِرِ فَاِنَّھَا فِیْ وِتْرٍ فِیْ اِحْدٰی وَعِشْرِیْنَ اَوْثَلَاثٍ وَّ عِشْرِیْنَ اَوْخَمْسٍ وَّ عِشْرِیْنَ اَوْسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ اَوْ تِسْعٍ وَّعِشْرِیْنَ اَوْفِیْ آخِرِ لَیْلَةٍ فَمَنْ قَامَھَا اِبتِغَائَ ھَا اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا ثُمَّ وُفِّقَتْ لَہ غُفِرَلَہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ وَمَا تَاَخَّرَ۔ ٢
'' حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلة القدر کے بارے میں سوال کیا توآپ نے فرمایا وہ رمضان میں ہوتی ہے تم اسے رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو ! وہ طاق راتوں میں ہوتی ہے ٢١ میں یا ٢٣ میں یا ٢٥ میں یا ٢٧ میں یا ٢٩ میں یاآخری شب میں ! جو شخص اس شب میں اس کی جستجومیں کھڑا ہوتا ہے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے پھر اُسے وہ نصیب بھی ہوجاتی ہے تواُس کے اَگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ''
١ تفصیل کے لیے دیکھے : تفسیرِ کبیر ج ٣٢ ص ٣٦ ، فضائل الاقات للامام البیہقی ص ٢٥٥ و٢٥٦ شعب الایمان ج ٣ ص ٣٣٨ ٢ مُسند احمد ج ٥ ص ٣١٨ ، مجمع الزوائد ج ٣ص ١٧٥
لَیْلَةُ الْقَدْر میں شب بیداری کیسے کی جائے ؟
شب قدر میں بھی شب بیداری کے لیے کوئی خاص طریقہ اور کوئی خاص عبادت مقرر نہیں ہے، اپنے طبعی نشاط کے ساتھ جس طرح بھی خدا کو یاد کر سکیں ،کریں !
حضرت مولانا مفتی عبد الشکور صاحب رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
''مناسب ہے کہ جتنی دیر جاگنا چاہے اُس کے تین حصے کرلے، ایک حصہ میں نوافل پڑھے اور ایک حصہ میں تلاوت کلامُ اللہ کے اندر مشغول رہے اور تیسرا حصہ استغفار، درود شریف، دعا وغیرہ ذکر اللہ میں گزادے ! (اللہ تعالیٰ کے ارشاد) ( اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَرُ)(جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ اُس کو پڑھا کیجئے، نمازکی پابندی رکھیے بیشک نمازبے حیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی رہتی ہے اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے) میں اِن ہی تین عبادتوں نمازاور تلاوتِ کلامُ اللہ اور ذکر اللہ کوایک جگہ جمع فرما دیا گیا ہے '' ١
لَیْلَةُ الْقَدْر کی خاص دعا :
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَاَیْتَ اِنْ عَلِمْتُ اَیَّ لَیْلَةٍ لَیْلَةُ الْقَدْرِ مَا اَقُوْلُ فِیْھَا قَالَ قُوْلِیْ : اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفَوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ٢
''حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے بتائیے اگرمجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات شب ِ قدر ہے تو میں اُس رات اللہ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں ؟ ؟ آپ نے فرمایا یہ عرض کرو
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفَوّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ ''اے اللہ تو بہت معاف فرمانے والا ہے ، معاف کردینا تجھے پسندہے پس تو میری خطائیں معاف فرمادے ''
١ بارہ مہینوں کے فضائل و احکام ص ٢١٦ ٢ ترمذی ج ٢ ص ١٩١ ، ابن ماجہ ص ٢٨٢ ، مسند احمدج ٦ ص ١٧١
لَیْلَةُ الْقَدْر کن راتوں میں ہوتی ہے ؟
لَیْلَةُ الْقَدْر کن راتوں میں ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اِس امر کومخفی رکھا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی کوئی مستقل تعیین نہیں فرمائی اس لیے اس شب کی تعیین میں علماء کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں :
(١) اِمام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ تمام سال میں دائر رہتی ہے !
(٢) حضرت قاضی ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا قول یہ ہے کہ تمام رمضان کی کسی ایک رات میں ہے جو متعین ہے مگر معلوم نہیں !
(٣) شافعیہ کاراجح قول یہ ہے کہ اکیسویں شب میں ہونا اقرب ہے !
(٤) حضرت اِمام مالک و اِمام احمد بن حنبل رحہمہا اللہ کا قول یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں دائر رہتی ہے ! کسی سال کسی رات میں اور کسی سال کسی دوسری رات میں !
عَنْ عَائِشَةَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ تَحَرَّوْا لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔ ١
''حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب ِ قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں ''
جمہور علماء کے نزدیک آخری عشرہ اکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے، عام ہے کہ مہینہ اُنتیس کا ہو یا تیس کا ،اِس حساب سے حدیث ِ بالا کے مطابق شب ِ قدر کی تلاش ٢١ ، ٢٣، ٢٥، ٢٧، ٢٩ ویں راتوں میں کرنا چاہیے !
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَجُلًا مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اُرُوْا لَیْلَةَ الْقَدْرِ فِی الْمَنَامِ فِی السَّبْعِ الْاَوَاخِرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اُرٰی رُؤْیَاکُمْ قَدْ تَوَاطَاَتْ فِی السَّبْعِ الْاَوَاخِرِ فَمَنْ کَانَ مُتَحَرِّیْھَا فَلْیَتَحَرَّھَا فِی السَّبْعِ الْاَوَاخِرِ۔ ٢
١ صحیح البخاری ج ١ ص ٢٧٠ ، مُسند احمد ج ٦ ص ٧٣ ، سُننِ کبرٰی للبیہقی ج ٤ ص ٣٠٨
٢ صحیح البخاری ج ١ ص ٢٧٠ ، صحیح مسلم ج ١ ص ٣٦٩
'' حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بہت سے صحابہ کرام کو خواب میں شب ِ قدر (رمضان کی) آخری سات راتوں میں دکھلائی گئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب آخری سات راتوں پرمتفق ہیں لہٰذا جو شخص شب ِ قدر پانا چاہے تو وہ اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے ''
اس حدیث میں یہ احتمال بھی ہے کہ آخری سات راتوں سے وہ راتیں مراد ہوں جو بیس کے فورًا بعد ہیں یعنی اکیسویں شب سے ستائیویں شب تک ! یا سب سے آخری سات راتیں مراد ہوں یعنی تیئسویں شب سے اُنیتسویں شب تک !
عَنْ زِرِّبْنِ حُبَیْشٍ یَّقُوْلُ سَاَلْتُ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فَقُلْتُ اِنَّ اَخَاکَ ابْنَ مَسْعُوْدٍ یَّقُوْلُ مَنْ یَقُمِ الْحَوْلَ یُصِبْ لَیْلَةَ الْقَدْرِ فَقَالَ رَحِمَہُ اللّٰہُ اَرَادَ اَنْ لَّا یَتَّکِلَّ النَّاسُ اَمَا اَنَّہ قَدْ عَلِمَ اَنَّھَافِیْ رَمَضَانَ وَاَنَّھَا فِی الْعَشْرِالْاَوَاخِرِوَاَنَّھَا لَیْلَةُ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ ثُمَّ حَلَفَ لَا یَسْتَثْنِیْ اَنَّھَا لَیْلَةُ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ فَقُلْتُ بِاَیِّ شَیْئٍی تَقُوْلُ ذَالِکَ یَااَبَاالْمُنْذِرِ قَالَ بِالْعَلَامَةِ اَوْبِالآیَةِ الَّتِیْ اَخْبَرَنَارَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّھَا تَطْلُعُ یَوْمَئِذٍ لَا شُعَاعَ لَھَا۔ ١
'' حضرت زر بن حُبیش (جو اَکابر تابعین میں سے ہیں ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کے دینی بھائی عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جو کوئی پورے سال کی راتوں میں کھڑا ہوگا (یعنی ہر رات عبادت کیا کرے گا) اُس کو شب ِ قدر نصیب ہوہی جائے گی (یعنی لَیْلَةُ الْقَدْر سال کی کوئی نہ کوئی رات ہوتی ہے پس جو اِس کی برکات کا طالب ہو اُسے چاہیے کہ
١ مسلم ج ١ ص ٣٧٠ ، ترمذی ج ١ ص ١٦٤ ، ابو داود ج ١ ص ١٩٥ ، مسند حمیدی ج ١ ص ١٨٥
صحیح ابن حبان صحیح بن خزیمہ ج ٣ ص ٣٢١ ، سُنن کبرٰی للبیہقی ج ٢ ص ٣١٢
شعب الایمان للبیہقی ج٣ص ٣٣٠ ، فضائل الاوقات ص ٢٣٨
سال کی ہر رات کو عبادت سے معمور کرے اس طرح وہ یقینی طور پر شب قدر کی برکات پاسکے گا ! زربن حُبیش نے حضرت ابن مسعود کی یہ بات نقل کرکے حضرت اُبی بن کعب سے دریافت کیاکہ آپ کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے ) انہوں نے فرمایا کہ بھائی ابن مسعود پر خدا کی رحمت ہو اُن کا مقصد اس بات سے یہ تھا کہ لوگ (کسی ایک رات کی عبادت پر) قناعت نہ کر لیں ، ورنہ اُن کو یہ بات یقینا معلوم تھی کہ شب ِ قدر رمضان ہی کے مہینہ میں ہوتی ہے اور اس کے بھی خاص آخری عشرہ ہی میں ہوتی ہے اور وہ متعین طور پر ستائیسویں شب ہے ! پھر انہوں نے پوری قطعیت کے ساتھ قسم کھا کر کہا کہ وہ بلا شبہ ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے (اور اپنے یقین و اطمینان کے اظہار کے لیے قسم کے ساتھ) انشاء اللہ بھی نہیں کہا ! زربن حبیش کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ اے ابو المنذر( یہ حضرت اُبی کی کنیت ہے) یہ آپ کس بناء پر فرماتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں یہ بات اس نشانی کی بناء پر کہتا ہوں جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خبر دی تھی اور وہ یہ کہ شب ِ قدر کی صبح کوجب سورج نکلتا ہے تو اُس کی شعاع نہیں ہوتی ''
ان تمام روایات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اوّل تو ہمیں سارے رمضان کی راتوں میں اللہ کی اطاعت و عبادت میں لگے رہنا چاہیے ! اگر یہ مشکل ہوتو آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب ِ قدر کی جستجو کرنی چاہیے ! اگر یہ بھی دُشوار ہو تو آخری درجہ یہ ہے کہ کم اَز کم ستائیسویں شب کو تو غنیمت ِباردہ سمجھتے ہوئے ضرور ہی اس کی جستجو میں لگنا چاہیے !
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بڑی دولت ہے جس کا حصول بہت بڑی سعادت ہے جس کے مقابلہ میں دنیا بھر کی نعمتیں اور راحتیں ہیچ ہیں اوراس سے محرومی بڑی شقاوت اور بد نصیبی کی بات ہے !
شب ِ قدر سے محرومی بڑی محرومی ہے :
حضور علیہ الصلٰوة والسلام کا ارشاد ہے :
اِنَّ ھٰذَا الشَّھْرَ قَدْ حَضَرَکُمْ وَفِیْہِ لَیْلَة خَیْر مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ مَنْ حَرُمَھَا فَقَدْ حَرُمَ الْخَیْرَکُلَّہ وَلَا یَحْرُمْ خَیْرَھَا اِلَّا مَحْرُوْم ۔ ١
''تمہارے اُوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ! جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ ساری ہی خیر سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقةً محروم ہی ہے ''
اس لیے ضرور اِس کی جستجو میں رہنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ان راتوں میں مغرب عشاء اور فجر کی نماز ضرور جماعت کے ساتھ پڑھی جائے ! بعض احادیث سے مفہوم ہوتا ہے کہ جو شخص ان راتوں میں مغرب عشاء اور فجر جماعت کے ساتھ پڑھے اُسے شب ِقدر سے کسی قدر حصہ مل جاتا ہے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ الصلٰوة والسلام نے فرمایا :
مَنْ صَلَّی الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ فِیْ جَمَاعَةٍ حَتّٰی یَنْقَضِیَ شَھْرُرَمَضَانَ فَقَدْ اَصَابَ لَیْلَةَ الْقَدْرِبِحَظٍّ وَافِرٍ۔ ٢
''جس شخص نے سارے رمضان مغرب اور عشاء جماعت کے ساتھ پڑھی اُس نے شب کا معتدبہ حصہ پالیا ''
مَنْ صَلَّی الْعِشَائَ اْلاخِرَةِ فِیْ جَمَاعَةٍ فِیْ رَمَضَانَ فَقَدْ اَدْرَکَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ۔ ٣
''جس نے سارے رمضان المبارک میں عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی اُس نے لَیْلَةُ الْقَدْر کوپالیا''
لَیْلَةُ الْقَدْر کی علامات :
احادیث ِ مبارکہ میں لَیْلَةُ الْقَدْر کی کچھ علامات ذکر کی گئی ہیں چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں
٭ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلةالقدر کے بارے میں فرمایا :
١ ابنِ ماجہ ص ١٢٠ ٢ فضائل الاوقات ص٢٦٠ ، شعب الایمان ج ٣ ص ٣٤٠
٣ فضائل الاوقات ص٢٦١ ، شعب الایمان ج ٣ ص ٣٤٠
لَیْلَة سَمْحَة طَلِقَة لَاحَارَّة وَلَا بَارِدَة تُصْبِعُ شَمْسُھَاصَبِیْحَھَاضَعِیْفَةً حَمْرَائُ ۔ ١
''یہ ایک نرم، چمکدار رات ہے، نہ گرم نہ سرد ، اس کی صبح سورج کمزور اور سرخ طلوع ہوتا ہے''
٭ حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب ِ قدر سے متعلق ارشاد فرمایا :
وَمِنْ اَمَارَاتِھَا اَنَّھَا لَیْلَة بُلْجَة صَافِیَة سَاکِنَة لَاحَارَّة وَلَابَارِدَة کَاَنَّ فِیْھَا قَمَرًا وَاَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ فِیْ صَبِیْحَتِھَا مُسْتَوِیَة لَاشُعَاعَ لَھَا ۔ ٢
''اس رات کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ چمکدار کھلی ہوئی ہوتی ہے، صاف وشفاف معتدل ہوتی ہے ، نہ گرم نہ سرد گویا کہ اس میں چاند کھلا ہوا ہے اور اس کے بعد کی صبح کوسورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح''
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ لَیْلَةُ الْقَدْر اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر ایک انتہائی بابرکت رات ہے اس رات کو غنیمت جانتے ہوئے جس طرح بھی بن پڑے مولائے کریم کومنانے کی فکر کرنی چاہیے ! اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے ! اور ایسا طرز ہر گز اختیار نہ کرنا چاہیے جس سے اس کی بے وقعتی اور لاپرواہی جھلکتی ہو ! اس سے محرومی بہت بڑی سعادت اور خیر سے محرومی ہے !
شب ِ قدر میں کی جانے والی منکرات :
ہم شب ِمعراج اور شب ِ براء ت کے تحت اِن راتوں میں کی جانے والی بہت سی بد عات ورسومات ذکرکر آئے ہیں بد قسمتی سے کچھ منکرات و رسومات اس رات میں بھی کی جاتی ہیں ہمیں ان سے حتی الوسع پرہیز کرنا چاہیے۔
(١) اس شب میں بھی مسجدوں میں چراغاں کیاجاتا ہے یہ اسراف میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے !
١ شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٢٤٠ ، ابن خزیمہ ج ٣ ص ٣٣١
٢ مُسند اَحمد ج ٥ ص ٣٢٤ ، مجمع الزوائد ج ٣ ص ١٧٥
(٢) بہت سے لوگ اس شب میں صلوة التسبیح جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں ، یہ صحیح نہیں کیونکہ نفلوں کی جماعت کوفقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے اگر کسی نے صلوة التسبیح پڑھنی ہو تو ضرور پڑھے لیکن تنہاء !
(٣) آج کل بہت سی مسجدوں میں یہ اعلان کیاجاتا ہے کہ ستائیسویں شب کو اجتماعی دعا ہوگی سب لوگ اس میں شریک ہوں چنانچہ اس شب کو بڑے اہتمام سے دعا کی جاتی ہے اور دُور دُور سے لوگ اس میں شرکت کے لیے آتے ہیں ، اسلاف اور اکابر سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ بجائے دعا قبول ہونے کے بد عت کا گناہ ہو لہٰذا اِس طریقے سے بچنا ہی بہتر ہے
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ
بقیہ : تربیت اولاد
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی، اُس کے ساتھ دوبچے تھے، ایک کو گود میں لے رکھا تھا دوسرے کی اُنگلی پکڑے ہوئے تھی آپ نے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ یہ عورتیں پہلے پیٹ میں بچے کو رکھتی ہیں پھرجنتی ہیں پھر اِن کے ساتھ کس طرح محبت اورمہربانی کرتی ہیں ،اگر ان کا برتائو شوہروں سے برا نہ ہوتا تو اِن میں جو نماز کی پابند ہوتی ہیں سیدھی جنت میں چلی جایا کرتیں ۔ (بہشتی زیور ٤٦٤/٨)
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو عورت بیوہ ہو جائے اور خاندانی بھی ہے ،مالدار بھی ہے لیکن اُس نے اپنے بچوں کی خدمت اورپرورش میں لگ کر اپنا رنگ میلا کر دیا یہاں تک کہ وہ بچے یا تو بڑے ہو کر الگ رہنے لگے یا مرمرا گئے تو ایسی عورت جنت میں مجھ سے ایسی نزدیک ہو گی جیسے کلمہ والی اُنگلی اوربیچ کی اُنگلی ! اس سے مراد وہ عورت ہے جس کو نکاح کی خواہش قطعاً نہ ہو ورنہ بیوہ کو بھی نکاح کرنا ضروری ہے۔ (جاری ہے)
وفیات
٢٨ شعبان المعظم ١٤٤٤ھ/٢١ مارچ ٢٠٢٣ ء کو حضرت مولانا سید نافع گل صاحب کاکاخیل کے صاحبزادے محترم الحاج سید محمد یوسف صاحب کاکاخیل طویل علالت کے بعد اسلام آباد میں انتقال فرماگئے آپ کی تدفین اپنے آبائی قبرستان میاں گانو کلے سخا کوٹ خیبر پختونخوا میں ہوئی ۔
٩ شعبان المعظم ١٤٤٤ھ/٢ مارچ ٢٠٢٣ء کو محترم الحاج حضرت مولانا ڈاکٹر شاہد اُویس صاحب مختصر علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے۔
٢٨ فروری کو جامعہ مدنیہ جدید کے خادم ظہیر الدین بابر کے چھوٹے بھائی صابر علی بوجہ کینسر گلاب دیوی ہسپتال لاہور میں وفات پاگئے۔
٩ مارچ کو فاضلِ جامعہ مدنیہ مولانا غلام رسول صاحب بلتستانی کے والد اور جامعہ مدنیہ جدید کے ماہنامہ انوارِ مدینہ کے سرکولیشن منیجر مولانا محمد صدیق صاحب بلتستانی کے ماموں جناب حبیب اللہ صاحب مختصر علالت کے بعد سکردو بلتستان میں وفات پاگئے۔
١٧ مارچ کو جامعہ مدنیہ جدید کے خادم حافظ منظر عباس کشمیری کی پھوپھی صاحبہ طویل علالت کے بعد کشمیر میں وفات پاگئیں ۔
یکم رمضان /٢٣ مارچ کو فاضل جامعہ مدنیہ و خطیب پاک فضائیہ مولانا ذوالفقار علی صاحب کے والد گرامی مختصر علالت کے بعد موضع پاجیاں رائیونڈ میں وفات پاگئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
اللہ تعالیٰ جملہ مرحومین کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور اُن کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو، آمین۔
جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہِ حامدیہ میں مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب اور دُعائے مغفرت کرائی گئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ، آمین۔
اخبار الجامعہ
( جامعہ مدنیہ جدید محمد آباد شارع رائیونڈ لاہور )
١٦ مارچ بروز جمعرات شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب مدظلہم بھائی سید کبیر صاحب کی دعوت پر علی مسجد مدرسہ احیاء العلوم میں حفاظ کرام کیرُومال پوشی کی تقریب میں شرکت کی غرض سے جامعہ مدنیہ جدید سے ساڑھے دس بجے جمرود پشاور کے لیے روانہ ہوئے، راستہ میں جامعہ کے فاضل مولانا ارسلان صاحب کی خواہش پر اُن کی رہائشگاہ جہلم تشریف لے گئے دوپہر کا کھانا وہیں تناول فرمایا بعد ازاں مولانا ارسلان صاحب سے اجازت چاہی اور جامعہ مدنیہ جدید کے اُستاذ الحدیث حضرت مولانا امان اللہ خان صاحب جو حضرت صاحب کے ہم سبق تھے ان کے رہائشگاہ پر رات نو بجے اٹک پہنچے جہاں اُن کے بھائی اور مولانا صاحب کے بیٹوں نے حضرت کا گرم جوشی سے استقبال کیا رات کا قیام و طعام بھی وہیں فرمایا۔
اگلی صبح ناشتہ کے بعد حضرت صاحب ، حضرت مولانا امان اللہ صاحب کے صاحبزادوں اور اُن کے بھائیوں کے ہمراہ اُن کے مقبرہ پر تشریف لے گئے اور وہاں ان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت فرمائی بعد ازاں حضرت اپنے اُستاذ ، جامعہ مدنیہ کے اُستاذ الحدیث محترم حضرت مولانا ظہور الحق صاحب کی قبر مبارک پر بھی حاضری دی یہاں سے حضرت صاحب نے میزبانوں سے اجازت چاہی اور پشاور کے لیے روانہ ہوئے۔
١٧ مارچ بروز جمعہ دوپہر ساڑھے بارہ بجے شیخ الحدیث حضرت مولانا سیّد محمود میاں صاحب پشاور کی تاریخی جامع مسجد ''سپین جماعت '' پہنچے جہاں پر مولانا عنایت الرحمن صاحب جامعہ احیا العلوم سپین جماعت کے مہتمم اور مولانا رحمت اللہ صاحب نے حضرت کا پُرتپاک استقبال کیا حضرت نے یہاں پر جمعہ کا خطبہ دیا جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی ۔
بعد ازاں غریب آباد پشاور کے علاقے میں بھائی فہیم صاحب کے ہاں ظہرانہ تناول فرمایا اور وہیں پر قیلولہ بھی کیا، بعد عصر سفید ڈھیری پشاور کی جامع مسجد قبا میں بیان فرمایاجس میں علاقے کے علمائ، طلبا اور عوام نے شرکت کی،مغرب کی نماز جامع مسجد ابوبکر صدیق گلبرگ پشاور صدر میں ادا کی اور مسجد ہذا میں اصلاحی بیان فرمایا ، مسجدکے امام مفتی بلال صاحب نے ایک پُرتکلف عشائیہ دیا اور اِن ہی کے ہاں سوڑئزئی ہائوس میں قیام بھی فرمایا۔
١٨مارچ بروز ہفتہ صبح کا ناشتہ سوڑئزئی ہائوس میں کرنے کے بعد پشاور کے دیہاتی علاقے چغرمٹی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبور پر حاضری دی جہاں حضرت صاحب نے مراقبہ بھی فرمایا اور وہیں پر نمازِ ظہر ادا کی ۔
دوپہر ڈھائی بجے مسجد ابوبکر صدیق رنگ روڈ پشاور میں مولانا نعیم اللہ صاحب کے مدرسہ میں طلبائِ کرام سے خطاب کیا بعد ازاں حضرت نے قیلولہ فرمایا ۔
اس کے بعد باڑہ میں بیان کے لیے روانہ ہوئے ، وہاں پر جامعہ مدنیہ جدید کے فضلاء نے حضرت صاحب کا انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا اور مقامی مسجد میں عصر کی نماز پڑھی اور سامعین سے بیان کے بعد حیات آباد کے لیے روانہ ہوئے ۔
بعدنمازِ مغرب حیات آباد میں سابق ممبر صوبائی اسمبلی حضرت مولانا امان اللہ خان صاحب کے صاحبزادہ مولانا اشرف علی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی مسجد میں طلبائِ کرام کی رُومال پوشی فرمائی اور بیان بھی فرمایا۔نمازِ عشا اَلحرم ٹاؤن میں ادا کی، بعد نمازِ عشاء الحرم ٹائون کی مسجد میں طلبائِ کرام سے مختصر بیان فرمایا، بعد اَزاں جامعہ کے فاضل مولانا محمد یونس صاحب کی دعوت پر اُن کے ہاں رات کا کھانا اور قیام فرمایا ۔

١٩ مارچ بروز اتوار صبح ناشتے کے بعد حضرت صاحب کو بھائی سیّد کبیر صاحب جنرل سیکریٹری جمعیة علماء اسلام تحصیل جمرود اپنے رُفقاء کے ہمراہ تورخم بارڈر پر لے گئے مچھنی کے مقام پر حضرت صاحب کو اَفغان بارڈر کے بارے میں تفصیل اور تاریخی معلومات سے آگاہ کیا،واپسی پر تقریبًا دو بجے مدرسہ احیاء العلوم ''علی مسجد'' پہنچے جہاں آپ نے نمازِ ظہر ادا کی اور دوپہر کا کھانا تناول فرمایا، عصر کے قریب حضرت صاحب نے جلسہ کی آخری نشست میں شرکت کی اور حاضرین سے دورِ جدید میں دینی تعلیم کی اہمیت اور دُنیاوی تعلیم کی ماحولی خرابیوں کے موضوع پر بیان فرمایا بعد ازاں مدرسہ کے مہتمم صاحب سے اجازت چاہی اور لاہور کے لیے روانہ ہوئے جمرود خیبر ایجنسی کے مقام پر بھائی سیّد کبیر اور اُن کے رُفقاء نے حضرت کو اَلوداع کیا ، رات دو بجے جامعہ مدنیہ جدید بخیریت پہنچ گئے، والحمد للہ !
٩ مارچ کو جامعہ مدنیہ جدید کے مدرس مولانا اظہار الحق صاحب عمرہ کی سعادت حاصل کرکے بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
٢٧ فروری کو جامعہ مدنیہ جدید کے شعبہ برقیات کے ناظم مولانا محمد شاہد صاحب عمرہ کی سعادت کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے ،٢٧ مارچ کو بخیریت واپسی ہوئی،اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
ماہنامہ انوارِ مدینہ لاہور میں اشتہار دے کر آپ اپنے کاروبار کی تشہیر

اور دینی ادارہ کا تعاون ایک ساتھ کر سکتے ہیں !
نرخ نامہ
بیرون ٹائٹل مکمل صفحہ 3000 اندرون رسالہ مکمل صفحہ 1000
اندرون ٹائٹل مکمل صفحہ 2000 اندرون رسالہ نصف صفحہ 500
جامعہ مدنیہ جدید و مسجد حامد
کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیجیے
بانی ٔجامعہ حضرت اَقدس مولانا سیّد حامد میاں صاحب رحمہ اللہ نے جامعہ مدنیہ کی وسیع پیمانے پر ترقی کے لیے محمد آباد موضع پاجیاں (رائیونڈ روڈلاہور نزد چوک تبلیغی جلسہ گاہ) پر برلب ِسڑک جامعہ اور خانقاہ کے لیے تقریباً چوبیس ایکڑ رقبہ ١٩٨١ء میں خرید کیا تھا جہاں الحمد للہ تعلیم اور تعمیر دونوں کام بڑے پیمانہ پر جاری ہیں ۔ جامعہ اور مسجد کی تکمیل محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی طرف سے توفیق عطاء کیے گئے اہلِ خیر حضرات کی دُعائوں اور تعاون سے ہوگی، اِس مبارک کام میں آپ خود بھی خرچ کیجیے اور اپنے عزیزواَقارب کو بھی ترغیب دیجیے۔ ایک اندازے کے مطابق مسجد میں ایک نمازی کی جگہ پر دس ہزار روپے لاگت آئے گی، حسب ِاستطاعت زیادہ سے زیادہ نمازیوں کی جگہ بنوا کر صدقہ ٔ جاریہ کا سامان فرمائیں ۔
منجانب : سیّد محمود میاں مہتمم جامعہ مدنیہ جدید و اَراکین اورخدام خانقاہ ِحامدیہ
خطوط ،عطیات اور چیک بھیجنے کے پتے
سیّد محمود میاں '' جامعہ مدنیہ جدید'' محمد آباد 19 کلو میٹر شارع رائیونڈ لاہور
923334249302+ 923334249301+
923354249302+ 923454036960+

Have a question?

Email us your queries on jamiamadniajadeed@gmail.com you will be answered in less than 24 hours or Give us a call directly at +92 333 4249302, +92 333 4249 301.